Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore آب پارہ

آب پارہ

Published by Ghulam Qadir Choudhry, 2022-01-08 05:50:20

Description: آب پارہ

Search

Read the Text Version

‫کلاں کی آب پارہ اب کہاں ہو گی؟‬ ‫آصف محمود‬ ‫اسلام آباد کی تاریخ میں باغ کلاں نامی گاؤں بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ اسلام آباد کی شروعات‬ ‫اسی گاؤں سے ہوئیں ۔ کٹاریاں گاؤں یعنی جی فائیو سے تھوڑا پیچھے باغ کلاں نام کا یہ گاؤں‬ ‫تھا ۔ اسے باگاں بھی کہا جاتا تھا ۔ اسی گاؤں میں سیکٹر جی سکس آباد ہوا ۔ ادھر ہی اسلام‬ ‫آباد کا سب سے پہلا کمرشل زون تعمیر کیا گیا ۔ سرکاری ملازمین کے لیے سب سے پہلے‬ ‫رہائشی کورٹر بھی اسی گاؤں میں تعمیر کیے گئے ۔ انہی زیر تعمیر کوارٹرز میں سے ایک‬ ‫میں اسلام آباد کا پہلا پولیس اسٹیشن اور پہلا بنک قائم کیا گیا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ‬ ‫دونوں ایک چھوٹے سے کوارٹر میں قائم تھے ۔ یہ کوارٹرز آج بھی موجود ہیں اور انہیں لال‬ ‫کوارٹر کہا جاتا ہے ۔ ‪ 1961‬کی مردم شماری میں راولپنڈی کی حدود میں باغ کلاں یعنی باگاں‬ ‫نام کا یہ گاؤں موجود تھا ۔ اس کا رقبہ ‪ 698‬ایکڑ تھا اور اس کی آبادی ‪ 663‬افراد پر مشتمل‬ ‫تھی ۔ باگاں بعد میں دارالحکومت بن گیا مگر ‪ 1961‬کی مردم شماری تک یہ جی سکس نہیں‪،‬‬ ‫باغ کلاں تھا۔‬ ‫بری اما ؒم کے والد گرامی سید محمود شاہ کاظم ؒی ہجرت کر کے اہل خانہ کے ساتھ اسی گاؤں‬ ‫میں آباد ہوئے تھے اور یہیں وہ مدفون ہیں ۔ شاہراہ کشمیر (سری نگر ہائی وے کہلاتی ہے)‬ ‫اور خیابان سہروردی کے بیچ گرین بیلٹ میں ان کی آخری آرام گاہ ہے ۔ بری اما ؒم کی والدہ ‪،‬‬ ‫بہن اور بھائی بھی یہیں دفن ہیں ۔ ماسٹر پلان کے نقشے میں سڑک مزار کے اوپر سے گزر‬ ‫رہی تھی ۔ اس مزار کے احترام میں ماسٹر پلان کو بدلتے ہوئے شاہراہ کشمیر کوروز اینڈ‬ ‫جیسمین گارڈن کی طرف موڑ کر گزارا گیا اور مزارات محفوظ رکھے گئے ۔ یہ اہتمام بھی کیا‬ ‫گیا ہے کہ دائیں بائیں سے سڑک اتنے فاصلے سے گزرے کہ اس مدفن اور اس سے ملحقہ‬ ‫تکیے کا سکون ممکن حد تک برقرار رہے ۔ آج بھی یہاں زائرین ہر وقت موجود ہوتے ہیں ۔‬ ‫یہیں شمال کی جانب بوڑھ کے ایک اور گھنے درخت کے نیچے اسلام آباد کا پہلا بس اسٹاپ‬ ‫قائم کیا گیا۔‬ ‫اسلام آباد کی باقاعدہ شروعات باگاں سے ہوئیں اور یہاں سرکاری ملازمین کے کوارٹر بنا کر‬ ‫کراچی سے ملازمین کو یہاں بھیجا گیا ۔ ان ملازمیں میں بڑی تعداد مشرقی پاکستان کے لوگوں‬ ‫کی تھی ۔ ان میں سے عبد الواحد کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ۔ یہ اس نئے شہر میں جنتوں سے‬ ‫آنے والا پہلا ننھا وجود تھا جس سے تمام ملازمین اور ان کے گھرانوں میں خوشی کی‬

‫لہردوڑ گئی ۔ بیٹی کو اللہ کی رحمت سمجھتے ہوئے اسے اسلام آباد کے لیے برکت قرار دیا‬ ‫گیا ۔ سب نے مل کر خوشی منائی جیسے سب کے گھرانوں پر رحمت اتری ہو۔‬ ‫والدین نے بیٹی کا نام ”آب پارہ“ رکھا ۔ چیئر مین سی ڈی اے کی اہلیہ مبارک دینے عبد‬ ‫الواحد کے گھر آئیں تو پوچھا بیٹی کا کیا نام رکھا ہے ۔ بتایا گیا کہ اس کا نام آب پارہ‬ ‫ہے۔انہی دنوں باگاں گاؤں میں اسلام آباد کی پہلی مارکیٹ تعمیر ہو رہی تھی ۔ سی ڈی اے نے‬ ‫یہ مارکیٹ اپنے اس بیٹی سے منسوب کر دی اور آج ہم اسے آب پارہ مارکیٹ کہتے ہیں ۔‬ ‫‪71‬ء کی جاڑے کی یخ بستگی میں ہم ایسے برفاب ہوئے کہ بیٹی گنوا دی اور ہمارے حصے‬ ‫میں مارکیٹ رہ گئی ۔۔۔۔ دسمبر کے ٹھٹھرتے موسم میں ٹریل فائیو کے بوڑھے برگد کے‬ ‫ساتھ بیٹھ کر دھوپ تاپتے جب سی ڈی اے کے ایک بزرگ ریٹائرڈ افسر مظفر قزلباش‬ ‫صاحب نے مجھے یہ کہانی سنائی تو کچھ یاد نہیں کہ حیرت زیادہ تھی یا دکھ زیادہ تھا۔‬ ‫جاری ہے۔۔۔‬ ‫کلاں کی آب پارہ اب کہاں ہو گی؟‬ ‫آصف محمود‬ ‫بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں لیکن حالات کی‬ ‫ستم ظریفی دیکھیے یہ بیٹی صرف گیارہ سال بعد پرائی ہو گئی اور اس کے اور پاکستان کے‬ ‫بیچ نفرتوں کی خلیج حائل ہو گئی ۔ دسمبر کے ان ایام میں جب میں اسلام آباد میں بیٹھا اس‬ ‫بیٹی کو یاد کر رہا ہوں کیا عجب ڈھاکہ‪ ،‬راجشاہی‪ ،‬سلہٹ‪ ،‬نرائن گنج یا کسی اور شہر میں کہیں‬ ‫یہ بیٹی بھی جو اب نانی اور دادی اماں بن چکی ہو گی ‪ ،‬اپنے بچوں نواسوں اور پوتوں‬ ‫پوتیوں کو بتا رہی ہو کہ پاکستان کے دارالحکومت میں ‪ ،‬جب میں پیدا ہوئی تو اس قدر خوشی‬ ‫منائی گئی تھی کہ اسلام آباد کی سب سے مشہور جگہ مجھ سے منسوب کر دی گئی اور وہ‬ ‫آج تک میرے نام سے پکاری جاتی ہے۔‬ ‫‪،‬اب مجھے اس داستان کی پوری تفصیل جاننا تھی ۔ آرکائیوز اور لائبریریوں کا رخ کیا‬ ‫تھوڑی سی مشقت تو اٹھانا پڑی لیکن خبر بھی مل گئی اور تصویر بھی ۔ ایک بنگالی افسر‬ ‫اپنی بیٹی کو ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے ہے اور اس کے چہرے پر ایسی خوشی ہے کہ اس‬ ‫سے گویا سنبھالی نہیں جا رہی ۔ ساتھ ہی ایک خاتون کھڑی ہیں جن کے بارے میں بتایا گیا کہ‬ ‫یہ چیئر مین سی ڈی اے کی اہلیہ ہیں ۔ نام نہیں لکھا ‪ ،‬صرف یہی لکھا ہے کہ چیئر مین سی‬

‫ڈی اے کی اہلیہ اسلام آباد میں پیدا ہونے والے پہلے بچے کے گھر مبارک دینے پہنچی ہیں ۔‬ ‫سی ڈی اے کے پہلے چیئر مین یحیی خان تھے ۔ یا تو یہ ان کی اہلیہ ہیں یا پھر ڈبلیو اے‬ ‫شیخ کی اہلیہ ہیں جو ‪1961‬میں چیئر مین سی ڈی اے بنے۔‬ ‫سوال مگر یہ نہیں کہ چیئر مین سی ڈی اے کی اہلیہ کون تھیں ۔ سوال یہ ہے کہ اسلام آباد کی‬ ‫یہ بیٹی‪ ،‬باغ کلاں کی یہ آب پارہ اب کہاں ہو گی؟ دسمبر میں جیسے ہم اسے یاد کرتے ہیں کیا‬ ‫وہ بھی ہمیں یاد کرتی ہو گی؟ اب تو وہ نانی یا دادی بن چکی ہو گی کیا وہ بھی بنگلہ دیش‬ ‫کے کسی شہر یا گاؤں میں‪ ،‬کسی آتش دان کے پاس بیٹھ کر‪ ،‬اس موسم میں اپنے پوتوں‬ ‫پوتیوں اور نواسوں نواسیوں کو بتاتی ہو گی کہ ہزاروں میل دور مارگلہ کے جنگل میں جب‬ ‫ایک شہر بس رہا تھا تو اس شہر کی پہلی مارکیٹ مجھ سے منسوب کی گئی تھی اور آج بھی‬ ‫اسلام آباد نام کے اس شہر میں آب پارہ نام کی وہ مارکیٹ موجود ہے؟ کیا میری طرح اس کے‬ ‫سینے سے بھی ہوک اٹھتی ہو گی؟‬ ‫کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ اسلام آباد میں کبھی کوئی تقریب سجائی جائے اور بنگلہ دیش میں‬ ‫ایک دعوت نامہ بھیجا جائے کہ پیاری بیٹی آب پارہ‪،‬ایک بار آ کر اپنا آب پارہ تو دیکھ جاؤ ۔‬ ‫دیکھو اب یہاں کتنی رونق ہو چکی ہے۔ آ جاؤ کہ تمہارا آب پارہ آج بھی تمہارا منتظر ہے؟‬ ‫کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار‬ ‫خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook