Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore میرے بیس منسانے

میرے بیس منسانے

Published by maqsood5, 2016-11-25 04:32:47

Description: abk_ksr_mh.906/2016
میرے بیس منسانے
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
نومبر ٢٠١٦

Search

Read the Text Version

‫دوسرے دفتر سے کام کرواتا ہوں تو ٹن پرسنٹ میرا اصولی حق‬ ‫بنتا ہے۔ میں دودھ میں پانی ملاتا ہوں تو اس میں غلط کیا ہے‘‬ ‫پیچھے سے کب کھرا آتا ہے۔ میرا پانی ملانا دکھتا ہے تو‬ ‫سپلائی کرنے والا کیوں نظر نہیں آتا۔ دوسرا میں کون سا زور‬‫زبردستی فروخت کرتا ہوں‘ نہ خریدیں۔ انہیں حکیم نے کہا ہے‘‬ ‫جو وہ پانی یا کیمیکل ملا دودھ خریدتے ہیں۔ خریددار کے سب‬ ‫علم میں ہے تو یہ دو نمبری کس حساب سے ہوئی۔‬ ‫میں لبرل ماڈرن مسلمان ہوں‘ دو نمبری کو غلط اور قابل تعزیر‬ ‫سمجھتا ہوں۔ عہد قدیم کے مسلمانوں کا دائرہ محدود تھا‘ اس‬ ‫لیے اصول بھی اسی دور کے مطابق تھے۔ میرا واسطہ گلوبل‬ ‫ہے۔ امریکہ اور جاپان اب دو قدم کے ملک رہ گئے ہیں‘ لہذا‬ ‫مجھے عصری اصولوں کو فالو کرنا ہوتا ہے۔ حضرت بلال‬ ‫حضور کریم کے قریب تھے‘ لہذا وہ ویسے تھے۔ حضور کریم‬ ‫میرے قریب نہیں ہیں‘ کیا یہ میری برخورداری نہیں کہ میں‬‫حضور کریم سے بڑی محبت کرتا ہوں‘ ہاں ان کے کہے پر نہیں‬ ‫چلتا‘ بل کہ آج کی ضرورت کے مطابق زندگی کر رہا ہوں۔‬ ‫لبرل ماڈرن مسلمان ہونے کے ناتے‘ گیو ٹیک کو اپنائے ہوئے‬ ‫ہوں۔ میں نے ہر اس عورت کو اپنی ماں بہن سمجھا ہے جو‬ ‫میرے ساتھ پھنستی نہیں۔ بڑی سالی تکبر میں رہی‘ میں نے‬

‫بھی اسے جوتے کی نوک پر رکھا۔ ہمیشہ باجی باجی کہہ کر‬ ‫مخاطب کیا ہے۔ ہاں چھوٹی لبرل ماڈرن مسلمان تھی‘ اس سے‬ ‫سلام دعا ہو گئی۔ اس کی شادی ہو گئی‘ اب جب کبھی آتی ہے‘‬‫تو ہمارا گیو ٹیک ہو جاتا ہے۔ ہاں البتہ ساس مجھ پر مہربان ہے‬ ‫تو میں بھی اس کے معاملہ میں بخیل نہیں۔‬ ‫مجھے ملکوں کے شوخے پر تاؤ آتا ہے‘ بےغیرت دونمبری‬ ‫کرتا ہے۔ کچھ لیا ہے تو کچھ دو بھی۔ ایسے ہی دو نمبر لوگ‬ ‫قابل تعزیر ہوتے ہیں۔ اگر ملک کی باگ ڈور میرے ہاتھ میں آ‬ ‫جائے تو اس طور کے ہر دونمبری کو‘ چوراہے میں الٹا لٹکا‬ ‫دوں تا کہ کسی کو دونمبری کرنے کی جرآت ہی نہ ہو۔ وہ لبرل‬ ‫ماڈرن مسلمان نہیں ہیں‘ مولوی کو‘ ایسے دو نمبریوں پر کفر‬ ‫کا فتوی لگا دینا چاہیئے۔ مولوی عصری ضرورت سے ہٹ کر‘‬ ‫فتوی سازی میں مصروف ہیں۔ انہیں آج کی ضرورت اور حقائق‬ ‫کے مطابق چلنا ہو گا‘ ورنہ انہیں لبرل ماڈرن مسلمان نہیں کہا‬ ‫جا سکتا۔‬ ‫اماں جیناں‬

‫اماں جیناں محلہ کیا‘ اردگرد کے محلوں میں بھی پسند نہیں کی‬‫جاتی تھی۔ اسے بیوہ ہوئے آٹھ سال ہو گئے تھے۔ اس کا خاوند‬ ‫مشقتی تھا‘ لیکن تھا بھلا آدمی۔ صبح کام پر چلا جاتا اور رات‬ ‫دیر تک مشقت کرتا۔ اس نے اپنی محنت سے‘ چھوٹا اور کچا‬ ‫پکا ذاتی مکان بھی بنا لیا تھا۔ ضرورت کی ہر شے اس میں لا‬‫کر رکھ دی تھی۔ جتنا ایک مشقتی سے ممکن ہوتا ہے کیا۔ اپنی‬ ‫بولار بیوی کو ہر طرح کا سکھ‘ فراہم کرنے کا جتن کیا۔‬‫اماں جیناں نے اپنے خاوند سحاکے کے ہر رشتہ دار‘ یہاں تک‬‫کہ اس ماں کی بھی دڑکی لگا دی۔ وہ بڑی برداشت کا مالک تھا۔‬ ‫اس زیادتی کو کوڑا گھونٹ سمجھ کر پی گیا اور حسب معمول‬‫محنت مشقت پر جھٹا رہا۔ ماں اور بہن بھائیوں کو وقت نکال کر‬ ‫مل لیتا۔ ہاں البتہ پانچ دس منٹ کے لیے سہی‘ ماں کو ہر روز‬ ‫بھرجائی کے کوسنے سن کر بھی‘ ملنے چلا جاتا۔ معلوم پڑ‬‫جانے کے بعد جیناں بھی وقت کووقت اور اپنے خاوند کی حالت‬ ‫دیکھے بغیر‘ منہ میں زبان رکھنا بھول جاتی۔‬ ‫اس کی زبان نے بابے سحاکے کے اپنے تو اپنے‘ ملنے والے‬ ‫بھی بہت دور کر دیے تھے۔ ہر کوئی اس سے بات کرتے ڈرتا‘‬ ‫مبادا کوئی گلاواں ہی گلے آ پڑے گا۔ الٹی کھوپڑی کی مالک‬ ‫تھی‘ سیدھی بات کو غلط معنوں میں لے لیتی تھی۔ مثلا کوئی‬

‫بھولے سے بھی پوچھ بیٹھتا‪ :‬مائی جیناں کیا حال ہے۔ جواب‬ ‫میں اسے یہ ہی سننا پڑتا‘ اندھے ہو نظر نہیں آتا‘ چنگی بھلی‬ ‫ہوں۔ جب ایسی صورت ہو تو کوئی اس کے منہ کیوں لگتا۔‬ ‫منہ متھے لگتی تھی‘ علاقے میں انھی ڈال سکتی تھی۔ ہمیشہ‬ ‫سے بوڑھی نہ تھی۔ مجال ہے کوئی اس کے بارے غلط بھی‬ ‫سوچتا۔ کھگو نے جوانی کے دور میں‘ ٹرائی ماری تھی۔ اس‬ ‫کے ساتھ کیا ہوا جگ جانتا ہے۔ جب بھی وہ نظر آ جاتا‘ شروع‬‫ہو جاتی۔ اس نے معافی بھی مانگی لیکن جیناں نے معاف نہ کیا۔‬ ‫اس کا موقف تھا کہ کھگو کو ایسی جرآت ہی کیوں ہوئی۔ اس‬ ‫نے ایسا سوچ بھی کس طرح لیا۔ چوں کہ قریب کی گلی کے‬ ‫تھے‘ وہ گلی دیکھ کر گزرتا۔ اگر جیناں نظر آ جاتی تو بل باش‬ ‫ہو جاتا۔ اس کے برعکس اگر جیناں کی اس پر نظر پڑ جاتی‘ تو‬ ‫رانی توپ کا منہ کھل جاتا۔ جب تک زندہ رہا‘ نزع کی حالت میں‬ ‫ہی رہا۔‬ ‫اماں جیناں کی کوئی اولاد نہ تھی۔ خاوند کے مرنے کے بعد‬‫بےسہارا سی ہو گئی۔ پورے محلہ میں کوئی اسے پوچھنے والا‬ ‫نہ تھا۔ جب تک گھر پر جمع پونجی باقی رہی‘ گزارا کرتی رہی۔‬ ‫فاقوں پر آ گئی‘ اس نے کسی پر ظاہر تک نہ کیا۔ سب کچھ ذات‬ ‫اور آنسوؤں میں ضبط کرتی رہی۔ میری گھروالی کو جانے‬ ‫کیسے معلوم ہو گیا۔ اس نے بات میرے سامنے رکھی۔ مجھے‬ ‫عزت عزیز تھی۔ میں اس کی مدد کرنا چاہتا تھا‘ لیکن ڈرتا تھا‬

‫کہ کہیں معاملہ گلے ہی نہ آ پڑے۔‬‫ایک دن گلی سے گزر رہا تھا‘ اماں جیناں اپنے گھر کی دہلیز پر‬ ‫اداس اور افسردہ بیٹھی ہوئی نظر آئی۔ میں دور سے‘ جو اسے‬ ‫سنائی دے رہا جعلی بڑبڑاتا ہوا اس کے قریب سے گزرا۔ اس‬ ‫نے مجھے کبھی اس انداز میں نہ دیکھا تھا۔ قریب آیا تو اس‬ ‫‪:‬نے پوچھ ہی لیا‬ ‫پتر کیا ہوا‬ ‫ماں جی ہونا کیا ہے‘ کیسا دور آ گیا ہے‘ پیسے پورے لے کر‬‫بھی چیز درست نہیں دیتے۔ میرے بیگ میں کیلے تھے میں نے‬ ‫کیلے انہیں پکڑائے اور خود دوبارہ سے بڑبراتا ہوا آگے بڑھ‬‫گیا۔ اس نے بڑی حیرت سے میری طرف دیکھا اور کیلے لے کر‬ ‫اندر چلی گئی۔‬ ‫مجھے شہہ مل گئی اور پھر میں‘ آنے بہانے اماں جیناں کو‬ ‫کچھ ناکچھ دے کر کام پر چلا جاتا۔ ایک مرتبہ میں نے کچھ‬ ‫پیسے بھی چیز کے ساتھ رکھ دیے۔ اگلے روز گھر واپس آتے‬ ‫اس نے مجھے روک لیا اور کہا غلطی سے پیسے بھی آ گیے‬‫تھے۔ میں نے کہا نہیں ماں جی‘ آپ کے حصہ ہی کے تھے اور‬‫میں جلدی سے وہاں سے رخصت ہو گیا‘ کہ کوئی تماشا کھڑا نہ‬‫کر دے۔ جب اگلے دن وہاں سے گذرا تو دیکھا‘ اماں کی آنکھوں‬ ‫میں تشکر لبریز آنسو تھے۔ سچی بات ہے میری بھی آنکھیں‬‫چھلک پڑیں۔ اس کے بعد میں بلاڈرے اس کی خدمت کرنے لگا۔۔‬

‫دن گزر گئے‘ اور آج اماں کو حق ہوئے بھی کئی سال ہو چلے‬ ‫ہیں۔ کوئی نہیں جانتا تھا‘ وڈ ٹک سے پہلے اماں بڑے کھاتے‬ ‫پیتے خاندان کی تھی۔ سحاکا ہی اسے زخمی حالت میں‘ اس کی‬ ‫جان بچا کر لے آیا تھا ورنہ اللہ جانے اس کے ساتھ کیا گزرتی۔‬‫اماں نے سحاکے کے ساتھ نکاح کر لیا۔ سحاکا ازدواجی معاملات‬ ‫میں پیدل تھا‘ اماں نے پھر بھی پاک صاف رہ کر زندگی گزار‬ ‫دی۔‬ ‫مائی صوباں کا یہ انکشاف‘ حیرت سے خالی نہ تھا۔ سب خلائی‬‫سا معلوم ہو رہا تھا۔ سچ میں‘ اللہ کی اس زمین پر یہ وقوع میں‬ ‫آ چکا تھا۔‬ ‫اس کا نام ہدایتا ہی رہا‬‫تجربہ زندگی کو سنوارتا‘ نکھارتا اور بعض اوقات شخصیت میں‬ ‫انقلاب برپا کر دیتا ہے۔ ہداتے اور اس کی رن ماجدہ کا‘ ہر‬‫دوسرے تیسرے رن کچھ سا رن لگتا۔ وہ جند جان میں اس سے‬ ‫کہیں بھاری تھی۔ اڑبڑ کرتا‘ تو سیدھا چمٹا چلاتی‘ جو اس کے‬

‫کہیں ناکہیں آ لگتا۔ آشاں کا نشانہ بڑے کمال کا تھا۔ اس کے وڈ‬ ‫وڈیروں میں یقینا کوئی بہت بڑا شکاری رہا ہو گا۔ ایک بار تو‬ ‫سیدھا وہاں سے‘ تھوڑا ہی فاصلے پر آ لگا۔ کئی دن ٹانگیں‬ ‫چوڑی کرکے چلتا رہا۔ اگر خدا نخواستہ وہاں لگ جاتا‘ تو آج‬‫صحن میں اٹھکیلیاں کرتی منی سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ اس چوٹ‬ ‫نے آشاں پر تو کوئی اثر نہ ڈالا‘ ہاں البتہ اس تجربے نے اس‬ ‫کے معمول میں انقلابی تبدیلی ضرور کر دی۔ اب جب بھی رن‘‬ ‫رن میں اترنے کا موڑ بناتی‘ یہ فورا سے پہلے گھر کی دہلیز‬ ‫کے اس پار ہوتا۔‬ ‫وہ اندر فائرنگ کرتی یہ باہر کھڑا کبھی گولے اور کبھی تھری‬ ‫نٹ تھری کی گولیاں چلاتا۔ ہاں البتہ‘ ہر دو تین گولیاں یا گولے‬ ‫چلانے کے بعد‘ اتنا ضرور کہتا‘ اللہ تمہیں ہدایت دے۔ اس کے‬‫بعد اللہ تمہیں ہدایت دے اس کا تکیہءکلام ہی بن گیا۔ اس کا اصل‬ ‫نام نور محمد تھا لیکن اس تکیہءکلام کی وجہ سے‘ اس کا نام‬‫بھی ہدایتا پڑ گیا۔ پھر ہر دو تین کلمے منہ سے نکالنے کے بعد‘‬ ‫اللہ تمہیں ہدایت دے ضرور کہتا۔ لوگ چوں کہ اس کے اس‬ ‫تکیہءکلام سے آگاہ ہو چکے تھے‘ اس لیے غصہ نہ کرتے۔‬ ‫ایک بار سردار صاحب کے بیٹے کی جنج چڑھنا تھا۔ اچھے‬‫کپڑے سلوا لیے‘ اسی طرح اوکھے سوکھے ہو کر نیا جوتا بھی‬

‫خرید لیا۔ اگلے دن جنج چڑھنا تھا‘ رن سرکار سے خوب حجامت‬‫کروانے کے بعد‘ شہر حجامت اور شیو بنوانے چلا گیا۔ حجام کی‬ ‫دکان پر تھوڑا رش تھا۔ وہ ادھر ہی بیٹھ گیا اور موجود لوگوں‬ ‫کی باتیں سننے لگا اور ساتھ میں ہوں ہاں بھی کرنے لگا۔ خدا‬ ‫خدا کرکے‘ اس کی بھی باری آ ہی گئی۔‬ ‫حجام باتونی تھا۔ حجامت بھی بنائے جا رہا تھا اور ساتھ میں‬ ‫باتیں بھی کیے چلے جا رہا تھا۔ ہدایتا اس کی ہاں میں ہاں ملا‬‫رہا تھا۔ ساری باتیں وہ ہی کیے جاتا تھا۔ خدا خدا کرکے ایک دو‬‫باتیں اسے بھی کرنے کا موقع مل گیا۔ حسب عادت دو تین باتیں‬‫کرنے کے بعد‘ اللہ تمیں ہدایت دے کہہ بیٹھا۔ حجام کام چھوڑ کر‘‬ ‫لال لال آنکھیں نکال کر کہنے لگا‘ اوئے پینڈو کیا میں بےہدایتا‬‫ہوں اور ہدایت تو سکھائے گا۔ چپ رہتا یا معذرت کر لیتا تو بات‬ ‫نہ بگڑتی۔‬‫لفظ پینڈو اسے چبھ سا گیا اور گھر سمجھ کر بکنے لگا۔ پھر کیا‬ ‫تھا‘ وہاں موجود لوگوں نے اسے پکڑ کر خوب وجایا۔ اور تو‬ ‫اور چہرے پر بھی اچھے خاصے آلو ڈال دیے۔ ابھی آدھے ہی‬ ‫بال کٹے تھے کہ بقیہ جان بچا کر واپس آ گیا۔ آشاں زخموں پر‬ ‫مرہم رکھنے یا اس حجام کا گھر پر ہی زبانی کلامی گھر پورا‬ ‫کرنے کی بجائے‘ اس کے چہرے کے آلو دیکھ کر خوب ہنسی۔‬

‫اس واقعے کے بعد وہ جنج چڑھنے سے محروم ہو گیا اور‬‫گاؤں بھر کے مردوں‘ عورتوں اور بچوں کے لیے مذاق بن گیا۔‬ ‫ہاں البتہ اس کا تکیہءکلام ضرور بدل گیا۔ اللہ تمہیں ہدایت دے‬ ‫کی بجائے‘ اللہ مجھے ہدایت دے بولنے لگا۔ یہ بات قطعی الگ‬ ‫سے ہے کہ زبان پر مجھے اور دل میں تجھے ہی ہوتا۔ اس نے‬‫اپنے لیے کبھی ہدایت کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی‘ جیسے‬ ‫پیدایشی ہدایت یافتہ ہو۔ اس حادثے کے بعد‘ نام بھی تبدیل ہو‬ ‫جانا چاہیے تھا‘ لیکن اس کا نام ہدایتا ہی رہا۔‬ ‫بھاری پتھر‬‫مغرب میں اماں بابوں کا گلاواں‘ اولاد گلے میں نہیں ڈالتی۔ وہاں‬ ‫ان پرانے وقتوں کے لوگوں کو‘ بڈھا ہاؤسز میں چھوڑ دیا جاتا‬ ‫ہے‘ جہاں وہ اپنے وقتوں کی کہانیاں‘ ایک دوسرے کو سنا کر‘‬ ‫ہنسی خوشی زندگی گزار لیتے ہیں۔ ہر نئے دور کے تقاضے‬ ‫اپنے ہوتے ہیں۔ نئے دور کے لوگ‘ اپنے ان تقاضوں کے ساتھ‬

‫کھل ڈھل کر زندگی گزارتے ہیں۔ ان کی کرنی میں‘ کوئی میم میخ‬‫نکالنے والا نہیں ہوتا۔ ناہی انہیں ایک دوسرے کی کرنی پر کوئی‬ ‫اعتراض ہوتا ہے۔ جہاں جانا ہو دوڑ کر جا سکتے ہیں۔ ان کی‬ ‫موجودگی میں‘ انہیں بھی کندھا پکڑا کر ساتھ لے جانا پڑتا ہے۔‬ ‫واپس آ کر ان کی تقریریں سننا پڑتی ہیں۔‬ ‫دور کیا جانا ہے‘ کل ہی کی بات کو لے لیں۔ بابے مہنگے کو‬ ‫بھی شادی حال میں لے گئے۔ خیال تھا کہ نیا ماحول دیکھ کر‘‬ ‫تازہ دم ہو جائے گا اور آج کل کا پیٹ بھر کر کھا کر‘ خوش ہو‬ ‫گا۔ مگر کہاں جی‘ جتنی دیر وہاں بیٹھا‘ بڑ بڑ کرتا رہا۔ بہو اور‬ ‫بیٹیوں کو گھور گھور کر اور کھا جانے والی نظروں سے‬ ‫دیکھتا رہا۔ گھر آ کر‘ اماں پر برس پڑا کہ کتنا بےحیا دور آ گیا‬ ‫ہے۔ کسی کو اپنی عزت آبرو کا احساس تک نہیں رہا۔ یہ لباس‬ ‫تھا‘ باریک‘ آدھا اور وہ بھی ٹائٹ۔ ٹانگوں کی اگلی پچھلی اور‬ ‫سینے کی لکیریں‘ نمایاں ہو رہی تھیں۔ کسی کے سر پر دوپٹہ‬‫نہ تھا۔ یوں نچ ٹپ رہی تھیں‘ جیسے چوتڑوں میں کیڑا گھس گیا‬‫ہو۔ بھائی اور خاوند ساتھ تھے‘ کسی کو غیرت نہیں آ رہی تھی۔‬ ‫اب پتا چلا کہ ہم مسلمان ہو کر بھی‘ دنیا جہان کے چھتروں کی‬ ‫زد میں کیوں ہیں۔‬ ‫بابے نے اتنے اعلی کھانے میں بھی‘ ہزار طرح کے کیڑے‬

‫نکالے۔ اماں جس نے بابے کو ساری عمر نپ کر رکھا تھا‘ آج‬‫اسے قابو نہ کر پا رہی تھی۔ اپنی کہے جا رہی تھی لیکن پورا نہ‬‫اتر رہی تھی۔ بابا مکمل طور پر چھایا ہوا تھا اور پٹری سے اتر‬ ‫چکا تھا۔‬ ‫ملک کے سربراہوں کے بھی بابے ہوں گے‘ معلوم نہیں وہ ان‬ ‫پر کس طرح قابو پاتے ہوں گے یا پھر ان کے بابے بھی لکیر‬ ‫پسند ہوں گے۔ سربراہ بابا ہو تو بھی بابا نہیں ہوتا۔ حکیم ڈاکٹر‬ ‫ان کے مطیع ہوتے ہیں۔ دوسرا وہ سب کے ہوتے ہیں اس لیے‬‫ان کا لبرل اور لکیر نواز ہونا ضروری ہوتا ہے۔ رہ گئی بات دنیا‬‫جہاں کے چھتر کھانے کی‘ وہ تو ہم صدیوں سے کھا رہے ہیں۔‬ ‫اگر کوئی ان موقعوں پر ہماری بیویوں‘ بیٹیوں اور بہنوں کی‬ ‫لکیروں سے‘ نظری یا محض معمولی معمولی ٹچ سے لطف‬ ‫اندوز ہو رہا ہوتا ہے‘ تو ہم بھی کب پیچھے ہوتے ہیں۔ ہماری‬ ‫آنکھیں کھلی اور ہاتھ متحرک ہوتے ہیں۔ اگر ہماری عورتیں ان‬ ‫کے لیے لطف کا سامان ہوتی ہیں‘ تو ان کی عورتیں بھی ہمیں‬ ‫حظ مہیا کر رہی ہوتی ہیں۔‬ ‫بابر سے لبرل بادشاہ نے کہا تھا ‪:‬‬ ‫بابر عیش کوش کہ دنیا دوبارہ نیست‬

‫یہ بابے کیا جانیں۔ خشک جیئے اور ہمیں بھی‘ اسی رہ پر رکھنا‬ ‫چاہتے ہیں۔ حاکم اپنی موج میں ہیں۔ ہمیں بھی جدید طرز کی‬ ‫زندگی گزارنا ہے لیکن ان بابوں کے ہوتے‘ مکمل طور پر یہ‬‫ممکن نہیں۔ بااختیار اداروں کا فرض بنتا ہے کہ ان بابوں کا کچھ‬‫کریں ورنہ ان کے لیکچر ہمیں جدید زندگی سے درر رکھیں گے۔‬ ‫ہم آزادی حاصل کرکے بھی آزادی سے دور رہیں گے۔ جو بھی‬ ‫سہی‘ یہ طے ہے کہ امرا کے ناسہی‘ ہمارے بابے عصری‬ ‫آزادی کی راہ کا بھاری پتھر ہیں اور ہم سے لبرل‘ ماڈرن‘ آزاد‘‬ ‫ترقی پسند اور مغرب کے پیروں کو غیرت کا لیکچر پلا پلا کر‬ ‫غیرت پسند بنا دینا چاہتے ہیں۔‬ ‫ایسے لوگ کہاں ہیں‬‫یہ دنیا سرائے کی مانند ہے‘ کوئی آ رہا ہے تو کوئی جا رہا ہے۔‬ ‫سرائے میں مستقل کوئی اقمت نہیں رکھتا۔ ہاں ہر آنے والا اپنا‬ ‫ایک تاثر ضرور چھوڑ جاتا ہے۔ کوئی اچھا تو کوئی برا۔ اس‬ ‫تاثر کے حوالہ سے ہی‘ اس مسافر کو یاد میں رکھا جاتا ہے۔‬

‫بابا صاحب بھلے آدمی تھے۔ طبعا مہربان‘ شفیق اور اپنے‬ ‫پرائے کے غم گسار تھے۔ کسی کو دکھ میں دیکھتے‘ تو تڑپ‬ ‫تڑپ جاتے۔ جب تک اس کی تکلیف دور کرنے کا پربند نہ کر‬‫لیتے‘ سکھ کا سانس نہ لیتے تھے۔ اچھائی اور خیر کے معاملہ‬ ‫میں‘ دھرم اور مسلک ان کے نزدیک‘ کوئی معنویت نہ رکھتا‬ ‫تھا۔ ان کا موقف تھا‘ جس طرح اللہ سب کا نگہبان ہے‘ اسی‬ ‫طرح انسان بھی سب کا نگہبان ہے۔ اس کی پیدا کی ہوئی کوئی‬ ‫بھی مخلوق‘ دکھ میں ہے تو انسان کو‘ اس کا ہر حال میں دکھ‬ ‫دور کرنا چاہیے۔ کوئی برا کرتا ہے تو یہ اس کا کام ہے‘ برائی‬‫کے بدلے برائی کرنا‘ تمہارا کام نہیں۔ تم جو بھی کرو‘ اچھا اور‬ ‫اچھے کے لیے کرو۔‬ ‫ان کے پاس‘ ہر دھرم سے متعلق لوگ آتے۔ کوئی خیر و برکت‬ ‫کی دعا کے لیے آتا‘ تو کوئی علم وادب اور مذہب سے متعلق‬‫گفتگو یا مشاورت کے لیے آتا۔ سب کے ساتھ یکساں سلوک روا‬ ‫رکھتے۔ تحمل سے اس کی سنتے اور پھر اپنا موقف پیش‬ ‫کرتے۔ جب تک وہ مطمن نہ ہو جاتا‘ رخصت نہ کرتے۔‬ ‫بائیبل مقدس‘ رومائن‘ بھگوت گیتا‘ گرنتھ صاحب کا ورق ورق‬‫انہوں نے پڑھ رکھا تھا۔ بدھ مت کے متعلق بھی اچھا خاصا نالج‬ ‫رکھتے تھے۔ پہلے تو متعلقہ کی کتاب اور پھر قرآن مجید کے‬‫حوالہ سے بات کرتے۔ یار کمال کے شخص تھے۔ کوئی نذر نیاز‬ ‫لے آتا تو رکھ لیتے‘ جب جانے لگتا تو اس تاکید کے ساتھ‬

‫واپس کر دیتے‘ کہ چیزیں صرف اپنے بیوی بچوں میں تقسیم‬‫کرنا۔ اصرار کے باوجود کچھ نہ رکھتے۔ فرماتے بیٹا‘ تم چنتا نہ‬‫کرو‘ اللہ مجھ اور میری بھوک پیاس سے خوب خوب واقف ہے۔‬ ‫ایک بار ایک اجنبی آیا۔ کچھ کہے سنے بغیر ہی‘ دروازے پر‬ ‫کھڑے ہو کر‘ بابا صاحب کو برا بھلا کہنے لگا۔ جب حد سے‬ ‫گزرنے لگا‘ تو بیٹھے لوگوں میں سے ایک اٹھ کر اس کی‬ ‫ٹھکائی کرنے لگا۔ بابا صاحب نے اسے منع کر دیا۔ بہت کچھ‬ ‫کہہ لینے کے بعد وہ چلا گیا۔‬ ‫ایک بولا بیڑا غرق ہو اس خانہ خراب کا‘ کتنی بکواس کر رہا‬ ‫تھا۔ اگر بابا صاحب نہ روکتے‘ تو آج میں اسے اس بدتمیزی کا‬ ‫ایسا مزا چکھاتا کہ نسلوں کو بھی منع کر جاتا۔ بابا صاحب اس‬‫کے اس طرز تکلم سے سخت پریشان ہوئے۔ پھر فرمانے لگے‘‬ ‫بیٹا کبھی اور بھی کسی بھی صورت میں‘ گفتگو میں شائستگی‬ ‫کو ہاتھ سے نہ جانے دو۔ یاد رکھو‘ ایک طرف نیکیوں کا انبار‬‫لگا ہو تو دوسری طرف ایک بددعا‘ بددعا اس پر بھاری ہے۔ کیا‬ ‫تمہیں حضرت یونس علیہ السلام کی بددعا کا انجام یاد نہیں۔‬ ‫انہیں مچھلی کے پیٹ میں جانا پڑا۔ پھر فرمایا بددعا کی بجائے‬ ‫تم دعا بھی دے سکتے ہو کہ اللہ اسے ہدایت دے۔ بعید نہیں وہ‬ ‫وقت قبولیت کا وقت ہو۔‬‫تھوڑی دیر کے بعد وہ شخص دوبارہ سے آ گیا اور دروازے پر‬ ‫کھڑا ہو کر‘ اندر آنے کی اجازت طلب کرنے لگا۔ اب کہ وہ اور‬

‫اس کا انداز بڑا مہذب اور شائستہ تھا۔ سب اس کے اس دوہرے‬ ‫روپ سے حیران رہ گئے۔ بابا صاحب نے اسے اندر آنے کی‬ ‫اجازت دے دی۔ اندر آ کر وہ بابا صاحب کے پاؤں پڑنے لگا تو‬ ‫بابا صاحب نے اسے سختی سے منع کر دیا اور پھر اس کی‬‫طرف دیکھ کر مسکرائے۔ وہ مسکراہٹ کیا تھی‘ جنت کی ہوا کا‬ ‫ایک جھونکا تھا‘ جو سب کو نہال کر گیا۔‬‫وہ شخص کہنے لگا‪ :‬سرکار میں تو آپ کے ظرف کا امتحان لے‬ ‫رہا تھا۔ جیسا اور جو سنا ویسا ہی پایا۔ آپ سچے ولی ہیں۔‬ ‫نہیں بیٹا‘ یہ تم محبت میں کہہ رہے ہو۔ میں بےچارہ کہاں اور‬‫ولایت کہاں۔ ہاں یہ اللہ کا احسان اور لطف وکرم ہے‘ جو اس نے‬ ‫توفیق دی اور میں اس امتحان میں کامیاب ہوا۔‬ ‫سوچتا ہوں‘ اب ایسے لوگ کہاں ہیں۔ اگر کوئی ہے‘ تو چلا‬ ‫کیوں جاتا ہے۔ کیا کریں‘ یہاں کوئی ٹھہرنے کے لیے نہیں آتا۔‬ ‫اچھا ہو کہ برا‘ گریب ہو کہ امیر‘ شاہ ہو کہ فقیر‘ اسے ایک‬‫روز جانا ہی تو ہے۔ لالچ‘ ہوس اور حرص نے انسان کو‘ انسان‬ ‫نہیں رہنے دیا۔ کاش ہمیں یقین ہو جائے‘ کہ ہمیں ہر صورت‬ ‫میں جانا ہی ہے اور کوئی یہاں ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں آیا۔‬ ‫جمع پونجی ساتھ نہ جا سکے گی۔ جاتے وقت ہاتھ خالی ہوں‬ ‫گے اور اپنے قدموں پر نہیں جا سکیں گے۔‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook