دوسرے دفتر سے کام کرواتا ہوں تو ٹن پرسنٹ میرا اصولی حق بنتا ہے۔ میں دودھ میں پانی ملاتا ہوں تو اس میں غلط کیا ہے‘ پیچھے سے کب کھرا آتا ہے۔ میرا پانی ملانا دکھتا ہے تو سپلائی کرنے والا کیوں نظر نہیں آتا۔ دوسرا میں کون سا زورزبردستی فروخت کرتا ہوں‘ نہ خریدیں۔ انہیں حکیم نے کہا ہے‘ جو وہ پانی یا کیمیکل ملا دودھ خریدتے ہیں۔ خریددار کے سب علم میں ہے تو یہ دو نمبری کس حساب سے ہوئی۔ میں لبرل ماڈرن مسلمان ہوں‘ دو نمبری کو غلط اور قابل تعزیر سمجھتا ہوں۔ عہد قدیم کے مسلمانوں کا دائرہ محدود تھا‘ اس لیے اصول بھی اسی دور کے مطابق تھے۔ میرا واسطہ گلوبل ہے۔ امریکہ اور جاپان اب دو قدم کے ملک رہ گئے ہیں‘ لہذا مجھے عصری اصولوں کو فالو کرنا ہوتا ہے۔ حضرت بلال حضور کریم کے قریب تھے‘ لہذا وہ ویسے تھے۔ حضور کریم میرے قریب نہیں ہیں‘ کیا یہ میری برخورداری نہیں کہ میںحضور کریم سے بڑی محبت کرتا ہوں‘ ہاں ان کے کہے پر نہیں چلتا‘ بل کہ آج کی ضرورت کے مطابق زندگی کر رہا ہوں۔ لبرل ماڈرن مسلمان ہونے کے ناتے‘ گیو ٹیک کو اپنائے ہوئے ہوں۔ میں نے ہر اس عورت کو اپنی ماں بہن سمجھا ہے جو میرے ساتھ پھنستی نہیں۔ بڑی سالی تکبر میں رہی‘ میں نے
بھی اسے جوتے کی نوک پر رکھا۔ ہمیشہ باجی باجی کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ ہاں چھوٹی لبرل ماڈرن مسلمان تھی‘ اس سے سلام دعا ہو گئی۔ اس کی شادی ہو گئی‘ اب جب کبھی آتی ہے‘تو ہمارا گیو ٹیک ہو جاتا ہے۔ ہاں البتہ ساس مجھ پر مہربان ہے تو میں بھی اس کے معاملہ میں بخیل نہیں۔ مجھے ملکوں کے شوخے پر تاؤ آتا ہے‘ بےغیرت دونمبری کرتا ہے۔ کچھ لیا ہے تو کچھ دو بھی۔ ایسے ہی دو نمبر لوگ قابل تعزیر ہوتے ہیں۔ اگر ملک کی باگ ڈور میرے ہاتھ میں آ جائے تو اس طور کے ہر دونمبری کو‘ چوراہے میں الٹا لٹکا دوں تا کہ کسی کو دونمبری کرنے کی جرآت ہی نہ ہو۔ وہ لبرل ماڈرن مسلمان نہیں ہیں‘ مولوی کو‘ ایسے دو نمبریوں پر کفر کا فتوی لگا دینا چاہیئے۔ مولوی عصری ضرورت سے ہٹ کر‘ فتوی سازی میں مصروف ہیں۔ انہیں آج کی ضرورت اور حقائق کے مطابق چلنا ہو گا‘ ورنہ انہیں لبرل ماڈرن مسلمان نہیں کہا جا سکتا۔ اماں جیناں
اماں جیناں محلہ کیا‘ اردگرد کے محلوں میں بھی پسند نہیں کیجاتی تھی۔ اسے بیوہ ہوئے آٹھ سال ہو گئے تھے۔ اس کا خاوند مشقتی تھا‘ لیکن تھا بھلا آدمی۔ صبح کام پر چلا جاتا اور رات دیر تک مشقت کرتا۔ اس نے اپنی محنت سے‘ چھوٹا اور کچا پکا ذاتی مکان بھی بنا لیا تھا۔ ضرورت کی ہر شے اس میں لاکر رکھ دی تھی۔ جتنا ایک مشقتی سے ممکن ہوتا ہے کیا۔ اپنی بولار بیوی کو ہر طرح کا سکھ‘ فراہم کرنے کا جتن کیا۔اماں جیناں نے اپنے خاوند سحاکے کے ہر رشتہ دار‘ یہاں تککہ اس ماں کی بھی دڑکی لگا دی۔ وہ بڑی برداشت کا مالک تھا۔ اس زیادتی کو کوڑا گھونٹ سمجھ کر پی گیا اور حسب معمولمحنت مشقت پر جھٹا رہا۔ ماں اور بہن بھائیوں کو وقت نکال کر مل لیتا۔ ہاں البتہ پانچ دس منٹ کے لیے سہی‘ ماں کو ہر روز بھرجائی کے کوسنے سن کر بھی‘ ملنے چلا جاتا۔ معلوم پڑجانے کے بعد جیناں بھی وقت کووقت اور اپنے خاوند کی حالت دیکھے بغیر‘ منہ میں زبان رکھنا بھول جاتی۔ اس کی زبان نے بابے سحاکے کے اپنے تو اپنے‘ ملنے والے بھی بہت دور کر دیے تھے۔ ہر کوئی اس سے بات کرتے ڈرتا‘ مبادا کوئی گلاواں ہی گلے آ پڑے گا۔ الٹی کھوپڑی کی مالک تھی‘ سیدھی بات کو غلط معنوں میں لے لیتی تھی۔ مثلا کوئی
بھولے سے بھی پوچھ بیٹھتا :مائی جیناں کیا حال ہے۔ جواب میں اسے یہ ہی سننا پڑتا‘ اندھے ہو نظر نہیں آتا‘ چنگی بھلی ہوں۔ جب ایسی صورت ہو تو کوئی اس کے منہ کیوں لگتا۔ منہ متھے لگتی تھی‘ علاقے میں انھی ڈال سکتی تھی۔ ہمیشہ سے بوڑھی نہ تھی۔ مجال ہے کوئی اس کے بارے غلط بھی سوچتا۔ کھگو نے جوانی کے دور میں‘ ٹرائی ماری تھی۔ اس کے ساتھ کیا ہوا جگ جانتا ہے۔ جب بھی وہ نظر آ جاتا‘ شروعہو جاتی۔ اس نے معافی بھی مانگی لیکن جیناں نے معاف نہ کیا۔ اس کا موقف تھا کہ کھگو کو ایسی جرآت ہی کیوں ہوئی۔ اس نے ایسا سوچ بھی کس طرح لیا۔ چوں کہ قریب کی گلی کے تھے‘ وہ گلی دیکھ کر گزرتا۔ اگر جیناں نظر آ جاتی تو بل باش ہو جاتا۔ اس کے برعکس اگر جیناں کی اس پر نظر پڑ جاتی‘ تو رانی توپ کا منہ کھل جاتا۔ جب تک زندہ رہا‘ نزع کی حالت میں ہی رہا۔ اماں جیناں کی کوئی اولاد نہ تھی۔ خاوند کے مرنے کے بعدبےسہارا سی ہو گئی۔ پورے محلہ میں کوئی اسے پوچھنے والا نہ تھا۔ جب تک گھر پر جمع پونجی باقی رہی‘ گزارا کرتی رہی۔ فاقوں پر آ گئی‘ اس نے کسی پر ظاہر تک نہ کیا۔ سب کچھ ذات اور آنسوؤں میں ضبط کرتی رہی۔ میری گھروالی کو جانے کیسے معلوم ہو گیا۔ اس نے بات میرے سامنے رکھی۔ مجھے عزت عزیز تھی۔ میں اس کی مدد کرنا چاہتا تھا‘ لیکن ڈرتا تھا
کہ کہیں معاملہ گلے ہی نہ آ پڑے۔ایک دن گلی سے گزر رہا تھا‘ اماں جیناں اپنے گھر کی دہلیز پر اداس اور افسردہ بیٹھی ہوئی نظر آئی۔ میں دور سے‘ جو اسے سنائی دے رہا جعلی بڑبڑاتا ہوا اس کے قریب سے گزرا۔ اس نے مجھے کبھی اس انداز میں نہ دیکھا تھا۔ قریب آیا تو اس :نے پوچھ ہی لیا پتر کیا ہوا ماں جی ہونا کیا ہے‘ کیسا دور آ گیا ہے‘ پیسے پورے لے کربھی چیز درست نہیں دیتے۔ میرے بیگ میں کیلے تھے میں نے کیلے انہیں پکڑائے اور خود دوبارہ سے بڑبراتا ہوا آگے بڑھگیا۔ اس نے بڑی حیرت سے میری طرف دیکھا اور کیلے لے کر اندر چلی گئی۔ مجھے شہہ مل گئی اور پھر میں‘ آنے بہانے اماں جیناں کو کچھ ناکچھ دے کر کام پر چلا جاتا۔ ایک مرتبہ میں نے کچھ پیسے بھی چیز کے ساتھ رکھ دیے۔ اگلے روز گھر واپس آتے اس نے مجھے روک لیا اور کہا غلطی سے پیسے بھی آ گیےتھے۔ میں نے کہا نہیں ماں جی‘ آپ کے حصہ ہی کے تھے اورمیں جلدی سے وہاں سے رخصت ہو گیا‘ کہ کوئی تماشا کھڑا نہکر دے۔ جب اگلے دن وہاں سے گذرا تو دیکھا‘ اماں کی آنکھوں میں تشکر لبریز آنسو تھے۔ سچی بات ہے میری بھی آنکھیںچھلک پڑیں۔ اس کے بعد میں بلاڈرے اس کی خدمت کرنے لگا۔۔
دن گزر گئے‘ اور آج اماں کو حق ہوئے بھی کئی سال ہو چلے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا تھا‘ وڈ ٹک سے پہلے اماں بڑے کھاتے پیتے خاندان کی تھی۔ سحاکا ہی اسے زخمی حالت میں‘ اس کی جان بچا کر لے آیا تھا ورنہ اللہ جانے اس کے ساتھ کیا گزرتی۔اماں نے سحاکے کے ساتھ نکاح کر لیا۔ سحاکا ازدواجی معاملات میں پیدل تھا‘ اماں نے پھر بھی پاک صاف رہ کر زندگی گزار دی۔ مائی صوباں کا یہ انکشاف‘ حیرت سے خالی نہ تھا۔ سب خلائیسا معلوم ہو رہا تھا۔ سچ میں‘ اللہ کی اس زمین پر یہ وقوع میں آ چکا تھا۔ اس کا نام ہدایتا ہی رہاتجربہ زندگی کو سنوارتا‘ نکھارتا اور بعض اوقات شخصیت میں انقلاب برپا کر دیتا ہے۔ ہداتے اور اس کی رن ماجدہ کا‘ ہردوسرے تیسرے رن کچھ سا رن لگتا۔ وہ جند جان میں اس سے کہیں بھاری تھی۔ اڑبڑ کرتا‘ تو سیدھا چمٹا چلاتی‘ جو اس کے
کہیں ناکہیں آ لگتا۔ آشاں کا نشانہ بڑے کمال کا تھا۔ اس کے وڈ وڈیروں میں یقینا کوئی بہت بڑا شکاری رہا ہو گا۔ ایک بار تو سیدھا وہاں سے‘ تھوڑا ہی فاصلے پر آ لگا۔ کئی دن ٹانگیں چوڑی کرکے چلتا رہا۔ اگر خدا نخواستہ وہاں لگ جاتا‘ تو آجصحن میں اٹھکیلیاں کرتی منی سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ اس چوٹ نے آشاں پر تو کوئی اثر نہ ڈالا‘ ہاں البتہ اس تجربے نے اس کے معمول میں انقلابی تبدیلی ضرور کر دی۔ اب جب بھی رن‘ رن میں اترنے کا موڑ بناتی‘ یہ فورا سے پہلے گھر کی دہلیز کے اس پار ہوتا۔ وہ اندر فائرنگ کرتی یہ باہر کھڑا کبھی گولے اور کبھی تھری نٹ تھری کی گولیاں چلاتا۔ ہاں البتہ‘ ہر دو تین گولیاں یا گولے چلانے کے بعد‘ اتنا ضرور کہتا‘ اللہ تمہیں ہدایت دے۔ اس کےبعد اللہ تمہیں ہدایت دے اس کا تکیہءکلام ہی بن گیا۔ اس کا اصل نام نور محمد تھا لیکن اس تکیہءکلام کی وجہ سے‘ اس کا نامبھی ہدایتا پڑ گیا۔ پھر ہر دو تین کلمے منہ سے نکالنے کے بعد‘ اللہ تمہیں ہدایت دے ضرور کہتا۔ لوگ چوں کہ اس کے اس تکیہءکلام سے آگاہ ہو چکے تھے‘ اس لیے غصہ نہ کرتے۔ ایک بار سردار صاحب کے بیٹے کی جنج چڑھنا تھا۔ اچھےکپڑے سلوا لیے‘ اسی طرح اوکھے سوکھے ہو کر نیا جوتا بھی
خرید لیا۔ اگلے دن جنج چڑھنا تھا‘ رن سرکار سے خوب حجامتکروانے کے بعد‘ شہر حجامت اور شیو بنوانے چلا گیا۔ حجام کی دکان پر تھوڑا رش تھا۔ وہ ادھر ہی بیٹھ گیا اور موجود لوگوں کی باتیں سننے لگا اور ساتھ میں ہوں ہاں بھی کرنے لگا۔ خدا خدا کرکے‘ اس کی بھی باری آ ہی گئی۔ حجام باتونی تھا۔ حجامت بھی بنائے جا رہا تھا اور ساتھ میں باتیں بھی کیے چلے جا رہا تھا۔ ہدایتا اس کی ہاں میں ہاں ملارہا تھا۔ ساری باتیں وہ ہی کیے جاتا تھا۔ خدا خدا کرکے ایک دوباتیں اسے بھی کرنے کا موقع مل گیا۔ حسب عادت دو تین باتیںکرنے کے بعد‘ اللہ تمیں ہدایت دے کہہ بیٹھا۔ حجام کام چھوڑ کر‘ لال لال آنکھیں نکال کر کہنے لگا‘ اوئے پینڈو کیا میں بےہدایتاہوں اور ہدایت تو سکھائے گا۔ چپ رہتا یا معذرت کر لیتا تو بات نہ بگڑتی۔لفظ پینڈو اسے چبھ سا گیا اور گھر سمجھ کر بکنے لگا۔ پھر کیا تھا‘ وہاں موجود لوگوں نے اسے پکڑ کر خوب وجایا۔ اور تو اور چہرے پر بھی اچھے خاصے آلو ڈال دیے۔ ابھی آدھے ہی بال کٹے تھے کہ بقیہ جان بچا کر واپس آ گیا۔ آشاں زخموں پر مرہم رکھنے یا اس حجام کا گھر پر ہی زبانی کلامی گھر پورا کرنے کی بجائے‘ اس کے چہرے کے آلو دیکھ کر خوب ہنسی۔
اس واقعے کے بعد وہ جنج چڑھنے سے محروم ہو گیا اورگاؤں بھر کے مردوں‘ عورتوں اور بچوں کے لیے مذاق بن گیا۔ ہاں البتہ اس کا تکیہءکلام ضرور بدل گیا۔ اللہ تمہیں ہدایت دے کی بجائے‘ اللہ مجھے ہدایت دے بولنے لگا۔ یہ بات قطعی الگ سے ہے کہ زبان پر مجھے اور دل میں تجھے ہی ہوتا۔ اس نےاپنے لیے کبھی ہدایت کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی‘ جیسے پیدایشی ہدایت یافتہ ہو۔ اس حادثے کے بعد‘ نام بھی تبدیل ہو جانا چاہیے تھا‘ لیکن اس کا نام ہدایتا ہی رہا۔ بھاری پتھرمغرب میں اماں بابوں کا گلاواں‘ اولاد گلے میں نہیں ڈالتی۔ وہاں ان پرانے وقتوں کے لوگوں کو‘ بڈھا ہاؤسز میں چھوڑ دیا جاتا ہے‘ جہاں وہ اپنے وقتوں کی کہانیاں‘ ایک دوسرے کو سنا کر‘ ہنسی خوشی زندگی گزار لیتے ہیں۔ ہر نئے دور کے تقاضے اپنے ہوتے ہیں۔ نئے دور کے لوگ‘ اپنے ان تقاضوں کے ساتھ
کھل ڈھل کر زندگی گزارتے ہیں۔ ان کی کرنی میں‘ کوئی میم میخنکالنے والا نہیں ہوتا۔ ناہی انہیں ایک دوسرے کی کرنی پر کوئی اعتراض ہوتا ہے۔ جہاں جانا ہو دوڑ کر جا سکتے ہیں۔ ان کی موجودگی میں‘ انہیں بھی کندھا پکڑا کر ساتھ لے جانا پڑتا ہے۔ واپس آ کر ان کی تقریریں سننا پڑتی ہیں۔ دور کیا جانا ہے‘ کل ہی کی بات کو لے لیں۔ بابے مہنگے کو بھی شادی حال میں لے گئے۔ خیال تھا کہ نیا ماحول دیکھ کر‘ تازہ دم ہو جائے گا اور آج کل کا پیٹ بھر کر کھا کر‘ خوش ہو گا۔ مگر کہاں جی‘ جتنی دیر وہاں بیٹھا‘ بڑ بڑ کرتا رہا۔ بہو اور بیٹیوں کو گھور گھور کر اور کھا جانے والی نظروں سے دیکھتا رہا۔ گھر آ کر‘ اماں پر برس پڑا کہ کتنا بےحیا دور آ گیا ہے۔ کسی کو اپنی عزت آبرو کا احساس تک نہیں رہا۔ یہ لباس تھا‘ باریک‘ آدھا اور وہ بھی ٹائٹ۔ ٹانگوں کی اگلی پچھلی اور سینے کی لکیریں‘ نمایاں ہو رہی تھیں۔ کسی کے سر پر دوپٹہنہ تھا۔ یوں نچ ٹپ رہی تھیں‘ جیسے چوتڑوں میں کیڑا گھس گیاہو۔ بھائی اور خاوند ساتھ تھے‘ کسی کو غیرت نہیں آ رہی تھی۔ اب پتا چلا کہ ہم مسلمان ہو کر بھی‘ دنیا جہان کے چھتروں کی زد میں کیوں ہیں۔ بابے نے اتنے اعلی کھانے میں بھی‘ ہزار طرح کے کیڑے
نکالے۔ اماں جس نے بابے کو ساری عمر نپ کر رکھا تھا‘ آجاسے قابو نہ کر پا رہی تھی۔ اپنی کہے جا رہی تھی لیکن پورا نہاتر رہی تھی۔ بابا مکمل طور پر چھایا ہوا تھا اور پٹری سے اتر چکا تھا۔ ملک کے سربراہوں کے بھی بابے ہوں گے‘ معلوم نہیں وہ ان پر کس طرح قابو پاتے ہوں گے یا پھر ان کے بابے بھی لکیر پسند ہوں گے۔ سربراہ بابا ہو تو بھی بابا نہیں ہوتا۔ حکیم ڈاکٹر ان کے مطیع ہوتے ہیں۔ دوسرا وہ سب کے ہوتے ہیں اس لیےان کا لبرل اور لکیر نواز ہونا ضروری ہوتا ہے۔ رہ گئی بات دنیاجہاں کے چھتر کھانے کی‘ وہ تو ہم صدیوں سے کھا رہے ہیں۔ اگر کوئی ان موقعوں پر ہماری بیویوں‘ بیٹیوں اور بہنوں کی لکیروں سے‘ نظری یا محض معمولی معمولی ٹچ سے لطف اندوز ہو رہا ہوتا ہے‘ تو ہم بھی کب پیچھے ہوتے ہیں۔ ہماری آنکھیں کھلی اور ہاتھ متحرک ہوتے ہیں۔ اگر ہماری عورتیں ان کے لیے لطف کا سامان ہوتی ہیں‘ تو ان کی عورتیں بھی ہمیں حظ مہیا کر رہی ہوتی ہیں۔ بابر سے لبرل بادشاہ نے کہا تھا : بابر عیش کوش کہ دنیا دوبارہ نیست
یہ بابے کیا جانیں۔ خشک جیئے اور ہمیں بھی‘ اسی رہ پر رکھنا چاہتے ہیں۔ حاکم اپنی موج میں ہیں۔ ہمیں بھی جدید طرز کی زندگی گزارنا ہے لیکن ان بابوں کے ہوتے‘ مکمل طور پر یہممکن نہیں۔ بااختیار اداروں کا فرض بنتا ہے کہ ان بابوں کا کچھکریں ورنہ ان کے لیکچر ہمیں جدید زندگی سے درر رکھیں گے۔ ہم آزادی حاصل کرکے بھی آزادی سے دور رہیں گے۔ جو بھی سہی‘ یہ طے ہے کہ امرا کے ناسہی‘ ہمارے بابے عصری آزادی کی راہ کا بھاری پتھر ہیں اور ہم سے لبرل‘ ماڈرن‘ آزاد‘ ترقی پسند اور مغرب کے پیروں کو غیرت کا لیکچر پلا پلا کر غیرت پسند بنا دینا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگ کہاں ہیںیہ دنیا سرائے کی مانند ہے‘ کوئی آ رہا ہے تو کوئی جا رہا ہے۔ سرائے میں مستقل کوئی اقمت نہیں رکھتا۔ ہاں ہر آنے والا اپنا ایک تاثر ضرور چھوڑ جاتا ہے۔ کوئی اچھا تو کوئی برا۔ اس تاثر کے حوالہ سے ہی‘ اس مسافر کو یاد میں رکھا جاتا ہے۔
بابا صاحب بھلے آدمی تھے۔ طبعا مہربان‘ شفیق اور اپنے پرائے کے غم گسار تھے۔ کسی کو دکھ میں دیکھتے‘ تو تڑپ تڑپ جاتے۔ جب تک اس کی تکلیف دور کرنے کا پربند نہ کرلیتے‘ سکھ کا سانس نہ لیتے تھے۔ اچھائی اور خیر کے معاملہ میں‘ دھرم اور مسلک ان کے نزدیک‘ کوئی معنویت نہ رکھتا تھا۔ ان کا موقف تھا‘ جس طرح اللہ سب کا نگہبان ہے‘ اسی طرح انسان بھی سب کا نگہبان ہے۔ اس کی پیدا کی ہوئی کوئی بھی مخلوق‘ دکھ میں ہے تو انسان کو‘ اس کا ہر حال میں دکھ دور کرنا چاہیے۔ کوئی برا کرتا ہے تو یہ اس کا کام ہے‘ برائیکے بدلے برائی کرنا‘ تمہارا کام نہیں۔ تم جو بھی کرو‘ اچھا اور اچھے کے لیے کرو۔ ان کے پاس‘ ہر دھرم سے متعلق لوگ آتے۔ کوئی خیر و برکت کی دعا کے لیے آتا‘ تو کوئی علم وادب اور مذہب سے متعلقگفتگو یا مشاورت کے لیے آتا۔ سب کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھتے۔ تحمل سے اس کی سنتے اور پھر اپنا موقف پیش کرتے۔ جب تک وہ مطمن نہ ہو جاتا‘ رخصت نہ کرتے۔ بائیبل مقدس‘ رومائن‘ بھگوت گیتا‘ گرنتھ صاحب کا ورق ورقانہوں نے پڑھ رکھا تھا۔ بدھ مت کے متعلق بھی اچھا خاصا نالج رکھتے تھے۔ پہلے تو متعلقہ کی کتاب اور پھر قرآن مجید کےحوالہ سے بات کرتے۔ یار کمال کے شخص تھے۔ کوئی نذر نیاز لے آتا تو رکھ لیتے‘ جب جانے لگتا تو اس تاکید کے ساتھ
واپس کر دیتے‘ کہ چیزیں صرف اپنے بیوی بچوں میں تقسیمکرنا۔ اصرار کے باوجود کچھ نہ رکھتے۔ فرماتے بیٹا‘ تم چنتا نہکرو‘ اللہ مجھ اور میری بھوک پیاس سے خوب خوب واقف ہے۔ ایک بار ایک اجنبی آیا۔ کچھ کہے سنے بغیر ہی‘ دروازے پر کھڑے ہو کر‘ بابا صاحب کو برا بھلا کہنے لگا۔ جب حد سے گزرنے لگا‘ تو بیٹھے لوگوں میں سے ایک اٹھ کر اس کی ٹھکائی کرنے لگا۔ بابا صاحب نے اسے منع کر دیا۔ بہت کچھ کہہ لینے کے بعد وہ چلا گیا۔ ایک بولا بیڑا غرق ہو اس خانہ خراب کا‘ کتنی بکواس کر رہا تھا۔ اگر بابا صاحب نہ روکتے‘ تو آج میں اسے اس بدتمیزی کا ایسا مزا چکھاتا کہ نسلوں کو بھی منع کر جاتا۔ بابا صاحب اسکے اس طرز تکلم سے سخت پریشان ہوئے۔ پھر فرمانے لگے‘ بیٹا کبھی اور بھی کسی بھی صورت میں‘ گفتگو میں شائستگی کو ہاتھ سے نہ جانے دو۔ یاد رکھو‘ ایک طرف نیکیوں کا انبارلگا ہو تو دوسری طرف ایک بددعا‘ بددعا اس پر بھاری ہے۔ کیا تمہیں حضرت یونس علیہ السلام کی بددعا کا انجام یاد نہیں۔ انہیں مچھلی کے پیٹ میں جانا پڑا۔ پھر فرمایا بددعا کی بجائے تم دعا بھی دے سکتے ہو کہ اللہ اسے ہدایت دے۔ بعید نہیں وہ وقت قبولیت کا وقت ہو۔تھوڑی دیر کے بعد وہ شخص دوبارہ سے آ گیا اور دروازے پر کھڑا ہو کر‘ اندر آنے کی اجازت طلب کرنے لگا۔ اب کہ وہ اور
اس کا انداز بڑا مہذب اور شائستہ تھا۔ سب اس کے اس دوہرے روپ سے حیران رہ گئے۔ بابا صاحب نے اسے اندر آنے کی اجازت دے دی۔ اندر آ کر وہ بابا صاحب کے پاؤں پڑنے لگا تو بابا صاحب نے اسے سختی سے منع کر دیا اور پھر اس کیطرف دیکھ کر مسکرائے۔ وہ مسکراہٹ کیا تھی‘ جنت کی ہوا کا ایک جھونکا تھا‘ جو سب کو نہال کر گیا۔وہ شخص کہنے لگا :سرکار میں تو آپ کے ظرف کا امتحان لے رہا تھا۔ جیسا اور جو سنا ویسا ہی پایا۔ آپ سچے ولی ہیں۔ نہیں بیٹا‘ یہ تم محبت میں کہہ رہے ہو۔ میں بےچارہ کہاں اورولایت کہاں۔ ہاں یہ اللہ کا احسان اور لطف وکرم ہے‘ جو اس نے توفیق دی اور میں اس امتحان میں کامیاب ہوا۔ سوچتا ہوں‘ اب ایسے لوگ کہاں ہیں۔ اگر کوئی ہے‘ تو چلا کیوں جاتا ہے۔ کیا کریں‘ یہاں کوئی ٹھہرنے کے لیے نہیں آتا۔ اچھا ہو کہ برا‘ گریب ہو کہ امیر‘ شاہ ہو کہ فقیر‘ اسے ایکروز جانا ہی تو ہے۔ لالچ‘ ہوس اور حرص نے انسان کو‘ انسان نہیں رہنے دیا۔ کاش ہمیں یقین ہو جائے‘ کہ ہمیں ہر صورت میں جانا ہی ہے اور کوئی یہاں ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں آیا۔ جمع پونجی ساتھ نہ جا سکے گی۔ جاتے وقت ہاتھ خالی ہوں گے اور اپنے قدموں پر نہیں جا سکیں گے۔
Search