Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore امید ہی تو زندگی ہے

امید ہی تو زندگی ہے

Published by maqsood5, 2016-10-05 03:36:16

Description: abk_ksr_mh.841/2016

امید ہی تو زندگی ہے
منظوم افسانے
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
اکتوبر ٢٠١٦

Search

Read the Text Version

‫کس سے گلہ کرتا‬ ‫جھورا مردود مر چکا تھا‬ ‫تھیلا مردود آج بھی‬ ‫رشوت ڈکارتا ہے‬ ‫وہ چپ تھا‬ ‫مسلسل چپ تھا‬ ‫منہ میں زبان رکھتا تھا‬ ‫پھر بھی چپ تھا‬‫چپ میں شاید اسے سکھ تھا‬ ‫جو بھی سہی‬‫یہ سوال نوشتہءدیوار بنا تھا‬ ‫وہ چپ تھا تو کیوں چپ تھا‬ ‫ہر زبان پر یہ ہی سوال تھا‬ ‫وہ بزدل تھا‬ ‫یا صبر میں باکمال تھا‬

‫کچھ اسے زن مرید کہتے تھے‬ ‫کسی کے خیال میں‬ ‫مرد کی انا کا وہ کھلا زوال تھا‬ ‫وہ تو خیر زیر عتاب تھا ہی‬ ‫اس کے پچھلے بھی‬‫کوسنوں کے دفتر چڑھ رہے تھے‬ ‫اس سے کوئی کیوں پوچھتا‬ ‫ہر دوسرے‬ ‫امریش پوری سے ڈائیلاگ‬ ‫سننے کو ملتے تھے‬ ‫نمرود وقت بھی‬ ‫کانوں پر پہرے نہیں رکھ سکتا‬ ‫پہلے ریڈیو ہی تو تھا‬ ‫ٹی وی تو کل کی دین ہے‬ ‫کان سنتے تھے‬

‫تصور امیج بناتا تھا‬ ‫آخر چپ تھا تو کیوں چپ تھا‬ ‫اک روز میں نے پوچھ ہی لیا‬ ‫میرا کہا‬ ‫اس کے قہقہوں میں اڑنے لگا‬ ‫میں نے سوچا‬ ‫کہنا کچھ تھا‬ ‫شاید کہہ کچھ اور گیا ہوں‬ ‫بھول میں‬ ‫کسی سردار کا لطیفہ کہہ گیا ہوں‬ ‫بھلکڑ ہوں‬ ‫یہ قول زریں مری زوجہ کا ہے‬ ‫زوجہ کے کہے کو غلط کہوں‬ ‫کہوں تو کس بل پر‬‫اگلے سے ناسہی اس جہان سے جاؤں گا‬

‫مہر بہ لب رہا کہ‬ ‫دیواروں کو بھی کان ہوتے ہیں‬‫مجھے کیا پڑی غیروں کی اپنے سر لوں‬ ‫میں نے بھی چپ میں عافیت جانی‬ ‫ہم کیؤں پرائی آگ میں کودیں‬ ‫مرے لیے خالہ کی لگائی ہی کافی ہے‬ ‫خود چل بسی‬ ‫میں بھی چل بسوں سامان کر گئی ہے‬ ‫پھر وہ دفعتا چپ ہو گیا‬ ‫مری طرف‬‫بےبس بے کس نظروں سے دیکھنے لگا‬ ‫چند لمحے خامشی رہی‬ ‫جاہل جانتے ہو‬ ‫بولنے میں کتنے اعضا خرچ ہوتے ہیں‬ ‫حیرت ہوئی‘ بھلا یہ کیا جواب ہوا‬

‫غصہ میں بولنے سے‬ ‫چودہ اعضا کشٹ اٹھاتے ہیں‬ ‫مرا کیا ہے‬ ‫ادھر سے سنتا ہوں ادھر سے نکال دیتا ہوں‬‫چہرے کے بدلتے رنگوں کا اپنا ہی سواد ہوتا ہے‬ ‫ہاں سٹپٹانے میں‬ ‫کھونے کے آثار ہوتے ہیں‬ ‫گھورنے بسورنے میں‬ ‫کہکشانی اطوار ہوتے ہیں‬ ‫شخص پڑھو کہ حیات کے‬ ‫تم پر پوشیدہ اطوار کھلیں‬ ‫ہاں غصہ میں‬ ‫دماغ کی کوئی نس پھٹ سکتی ہے‬ ‫خیر یہ وقت خیر نہیں آئے گا‬ ‫دماغ ہوتا تو صبر کا جہاں آباد کرتی‬

‫دل کا دورہ بھی بعید از قیاس نہیں‬ ‫اس امید پر ہی تو جی رہا ہوں‬ ‫کبھی تو غصہ کے افق سے‬ ‫خوشی کا چاند مسکرائے گا‬ ‫پھر مستی میں آ کر گنگنائے گا‬‫آ گئی بہار گلوں کا رنگ اور بھی نکھر گیا‬‫پیاسی آتمائیں آ رہی ہیں روپ بدل بدل کے‬ ‫میں پڑھا لکھا سہی‬ ‫اپنی اوقات میں ہوں تو مزدور‬ ‫زوجہ گزیدہ ہوں‬ ‫بھاشا فلسفے کی میں کیا جانوں‬ ‫بولا‪ :‬جاؤ امید پر زندہ رہو‬ ‫امید پر میں زندہ ہوں‬ ‫امید ہی تو زندگی ہے‬

‫میٹھی گولی‬ ‫ہم کچھ دوست‬ ‫ہوٹل میں چائے پیتے ہیں‬ ‫اور اکثر پیتے ہیں‬ ‫سچی پوچھو تو‬ ‫چائے پر ہی تو جیتے ہیں‬ ‫زندگی میں ورنہ‬ ‫چائے کے سوا رکھا کیا ہے‬ ‫بھوک کا پرنا پیاس کا پٹکا‬ ‫ہماری زیست کا یہ ہی اثاثہ ہے‬‫جسے دیکھو رکھے ہے ہزار گز کا نٹکا‬ ‫امیر وقت‬ ‫بات گریبوں کی کرتا ہے‬ ‫کھیسہ مگر اپنا بھرتا ہے‬

‫ہر بولتا‬ ‫سر بازار نیلام ہوتا ہے‬ ‫سر اس کے‬ ‫کوئی ناکوئی الزام ہوتا ہے‬ ‫بےکیے خوب بدنام ہوتا ہے‬ ‫امیر وقت کو کون پوچھے‬ ‫کہا اس کا بےلگام ہوتا ہے‬ ‫کوئی ایشور کا اسے اوتار کہے‬ ‫اس کی کرتوتوں سے بےخبر‬‫مقدس روحوں کا اسے سالار سمجھیں‬ ‫یہ ہی نہیں‬ ‫نوع انسانی کا وقار سمجھیں‬‫سب چمچے اسے کان رزق کہتے ہیں‬ ‫مورکھ بھی اسی کے گن گاتا ہے‬ ‫حیرت تو یہ ہے‬ ‫جس خوبی کا وہ تاعمر قاتل رہا‬

‫اسی خوبی کو‬‫مورکھ اس کی گرہ میں رکھتا رہا‬ ‫اسے جینا ہے‬ ‫یہ ہی اس کا طور رہا‬ ‫یہ کوئی نئی بات نہیں‬ ‫ہر دور اہل ثروت کا دور رہا‬ ‫کوئی بھوک مرتا ہے مرے‬ ‫انہیں اس سے کیا‬ ‫ان کی بلا سے‬ ‫گریب کے بچے بےلباس ہیں‬ ‫وہ کیا کریں انہیں کیا‬ ‫ان کا اس سے کوئی کام نہیں‬ ‫مالک تو ہے نا‬‫گریب کا سنور جاتا ہے دعا سے‬ ‫خیر چھوڑیے ان باتوں کو‬ ‫کوئی نئی بات ہو تو بات کریں‬

‫جو وقت گزر گیا سو گزر گیا‬ ‫ان بےگھر بےبستر راتوں کو‬ ‫یاد کیوں کریں‬ ‫ہاں بس اتنا دکھ ہے‬ ‫گریب کی روکھی سوکھی پر‬ ‫پنجہ رکھ کر‬ ‫تاج محل کبھی نور محل تعمیر ہوا‬ ‫شاہ پھر بھی دیالو ہے کرپالو ہے‬‫پھر بھی لوگ ان سے آسیں باندھیں‬ ‫ان کی آنکھوں میں ٹک تلاشیں‬‫امید کی قاشیں کب یک جا ہوتی ہیں‬ ‫پتی پتی گلاب بُنے‬ ‫قدموں میں اس کے بکھری پتیاں‬ ‫حسن کے ماتھے پر ناقدری کا ٹکا‬ ‫قدموں میں بکھری‬ ‫پتیوں کو کون چنے‬

‫جو چننے بیٹھے گا‬ ‫پولے کھائے گا۔‬ ‫خیر چھوڑیں‬‫میں کیا ظلم و ستم کی رام کہانی لے بیٹھا ہوں‬ ‫چائے کی مست پیالی میں‬ ‫ہمارا امریکی طور نہیں رہا‬ ‫کبھی میں کبھی وہ‬ ‫ادائیگی کر دیتے ہیں‬ ‫ہم ایک کشتی کے مسافر ہیں‬ ‫پھر تو میں کیسی‬ ‫اک روز کیا ہوا‬ ‫بچہ جو چائے لا کر دیتا تھا‬ ‫ہاتھ سے اس کے برتن گرے اور ٹوٹ گئے‬ ‫پھر کیا تھا‬ ‫مالک نے وہ مارا‬ ‫اشک فرشتوں کے بھی گرے ہوں گے‬

‫وہ دن اس کے‬‫الف انار بے بکری تے تختی پڑھنے کے تھے‬ ‫بھوک اسے وہاں لائی تھی‬ ‫اللہ جانے کتنی مجبور اس کی مائی تھی‬ ‫سچی بات تو یہ ہے‬ ‫مری چائے حرام ہوئی‬ ‫میں بےبس کنگلا کیا کر سکتا تھا‬ ‫بس دو بےبس اشک بہا سکتا تھا‬ ‫میرا یہ ہی کل سرمایا تھا‬ ‫زیست میں یہ ہی کچھ کمایا تھا‬ ‫جب برتن لینے وہ آیا‬ ‫میں نے اسے گلے لگایا‬ ‫رویا پیار کیا منہ ماتھا چوما‬ ‫چپ چاپ وہاں سے اٹھ آیا‬ ‫جہاں نمرود کی شریعت چلتی ہو‬ ‫وہاں پھر کیا آنا کیا جانا‬

‫بعد مدت مرا اس کا ملنا ہوا‬ ‫ہماری آنکھیں ملیں‬ ‫ہم اک دوجے کو پہچان گئے‬ ‫وہ چھوٹا تھا میں نیچے بیٹھ گیا‬ ‫گلے لگایا خوب پیار کیا دعا دی‬ ‫مری گرہ کی یہ ہی اوقات تھی‬ ‫وہ ہاں وہ بچہ‬‫نوشیرواں سے کہیں بڑھ کر دیالو نکلا‬ ‫میٹھی گولی اس کے منہ میں تھی‬ ‫اس نے اپنا وہ لقمہ‬ ‫مرے منہ میں ڈالا‬ ‫خوش ہو کر مرے منہ کو دیکھا‬ ‫مرے منہ میں وہ تھا‬ ‫جو جنت سوگ میں بھی نہ ہو گا‬ ‫مرے چہرے پر‬ ‫خوشی کے لڈو پھوٹ رہے تھے‬

‫اس کے پاس ایک اور میٹھی گولی تھی‬ ‫جو اس نے مرے ہاتھ پر رکھ دی‬ ‫اکبر ہو کہ کوئی اور شاہ‬ ‫کیا کسی کو دیں گے‬ ‫مہان تھا دیا کا پردھان تھا‬ ‫وہ معصوم بچہ‬ ‫شاہوں کی شاہی ایک طرف‬ ‫الفت پریم سے لبریز‬ ‫میٹھی گولی ایک طرف‬ ‫تول میں کہیں بھاری ہے‬ ‫گو اک عرصہ ہوا‬ ‫اس میٹھی گولی کا مزا‬ ‫مری رگ وپے میں‬ ‫آج بھی رقصاں ہے‬ ‫پریم و الفت کے آب زم زم میں بھیگی‬‫ہات پر اس بچے کی رکھی میٹھی گولی‬

‫آتی نسلوں کے لیے میں نے رکھ دی ہے‬ ‫کہ حجت رہے‬ ‫محبتوں کا کوئی مول نہیں‬ ‫یہ جیتی ہیں مرتی نہیں‬ ‫لوگوں کو یہ‬ ‫خیر کی شکتی بردان میں دیتی ہیں‬‫دو بیلوں کی مرضی ہے‬ ‫تمثالی وعلامتی افسانہ‬ ‫بندر کے بچوں کے‬ ‫آتے کل کی بھوک کے غم میں‬ ‫وہ اور یہ‬

‫آدم کے زخموں سے چور‬ ‫بھوک سے نڈھال‬ ‫قول کے سچے‘ پکے‬ ‫بچوں پر‬ ‫بھونکتے ٹونکتے‬ ‫زخمی سؤر بھوکے کتے‬ ‫ٹوٹ پڑے ہیں‬ ‫ظلم کے ہر حامی کے منہ میں‬‫خون کی ٹیکسال سے نکلے ڈالر‬‫ہاتھ میں وعدوں کے پرزے ہیں‬ ‫ظلم کی نندا کرنے والے‬ ‫توپوں کی زد میں ہیں‬ ‫جبر کے ٹوکے میں‬ ‫اپنی سانسیں گنتے ہیں‬ ‫ہونٹوں سے باہر آتی جیبا‬

‫خنجر کی کھا جا ہے‬ ‫گھورتی آنکھیں‬ ‫اگنی کا رن ہے‬ ‫سچ تو یہ ہے‬ ‫کمزور باشندے‬ ‫پشو جناور کا اترن اور‬ ‫ماس خور درندوں کا جیون ہیں‬ ‫لومڑ اور گیڈر بھی‬‫گھاس پھوس سے نفرت کرتے ہیں‬ ‫اک کا جیون‬ ‫دوجے کی مرتیو پر اٹھتا ہے‬ ‫دیا اور کرپا کے سب جذبے‬ ‫شوگر کو نائٹروکولین ہیں‬ ‫اب دو بیلوں کی مرضی ہے‬ ‫اک ساتھ چلیں‬

‫بے خوفی کا جیون جئیں‬ ‫یا پھر‬ ‫دو راہوں کے راہی ٹھہریں‬ ‫کتوں سؤروں کا فضلہ بن کر‬ ‫بے نامی کی نالی میں بہہ جائیں‬‫ذات کے قیدی‬ ‫قصور تو خیر دونوں کا تھا‬ ‫اس نے گالیاں بکیں‬ ‫اس نے خنجر چلایا‬ ‫سزا دونوں کو ملی‬ ‫وہ جان سے گیا‬ ‫یہ جہان سے گیا‬ ‫اس کے بچے یتیم ہوئے‬

‫اس کے بچے گلیاں رولے‬ ‫اس کی ماں بینائی سے گئی‬‫اس کی ماں کے آنسو تھمتے نہیں‬ ‫اس کا باپ کچری چڑھا‬ ‫اس کا باپ بستر لگا‬ ‫دونوں کنبے کاسہء گدائی لیے‬ ‫گھر گھر کی دہلیز چڑھے‬ ‫بے کسی کی تصویر بنے‬ ‫بے توقیر ہوئے‬ ‫ضبط کا فقدان‬ ‫بربادی کی انتہا بنا‬ ‫سماج کے سکون پر پتھر لگا‬ ‫قصور تو خیر دونوں کا تھا‬ ‫جیو اور جینے دو کے اصول پر‬ ‫جی سکتے تھے‬ ‫اپنے لیے جینا کیا جینا‬

‫دھرتی کا ہر ذرہ‬ ‫تزئین کی آشا رکھتا ہے‬ ‫ذات کے قیدی‬ ‫مردوں سے بدتر‬‫سسی فس کا جینا جیتے ہیں‬‫چل' محمد کے در پر چل‬ ‫نعتیہ کہانی‬ ‫اک پل‬ ‫آکاش اور دھرتی کو‬ ‫اک دھاگے میں بن کر‬ ‫رنگ دھنک اچھالے‬ ‫دوجا پل‬‫جو بھیک تھا پہلے کل کی‬

‫کاسے سے اترا‬‫ماتھے کی ریکھا ٹھہرا‬ ‫کرپا اور دان کا پل‬ ‫پھن چکر مارا‬ ‫گرتا ہے منہ کے بل‬ ‫سلوٹ سے پاک سہی‬ ‫پھر بھی‬ ‫حنطل سے کڑوا‬ ‫اترن کا پھل‬ ‫الفت میں کچھ دے کر‬ ‫پانے کی اچھا‬ ‫حاتم سے ہے چھل‬ ‫غیرت سے عاری‬ ‫حلق میں ٹپکا‬ ‫وہ قطرہ‬ ‫سقراط کا زہر‬

‫نہ گنگا جل‬‫مہر محبت سے بھرپور‬ ‫نیم کا پانی‬ ‫نہ کڑا نہ کھارا‬ ‫وہ تو ہے‬ ‫آب زم زم‬ ‫اس میں رام کا بل‬ ‫ہر فرزانہ‬ ‫عہد سے مکتی چاہے‬ ‫ہر دیوانہ عہد کا بندی‬ ‫مر مٹنے کی باتیں‬ ‫ٹالتے رہنا‬ ‫کل تا کل‬ ‫جب بھی‬ ‫پل کی بگڑی کل‬ ‫در نانک کے‬

‫بیٹھا بےکل‬ ‫وید حکیم‬ ‫ملاں پنڈٹ‬ ‫پیر فقیر‬ ‫جب تھک ہاریں‬ ‫جس ہتھ میں وقت کی نبضیں‬ ‫چل‬ ‫محمد کے در پر چل‬‫عطائیں اللہ کی کب بخیل ہیں‬ ‫مدحیہ کہانی‬ ‫حضور کے قدموں کی برکت دیکھیے‬ ‫آنکھیں جو قدم بوس رہیں‬

‫کمال ہوئیں‬ ‫رشک ہلال ہوئیں‬ ‫تہی بر ملال ہوئیں‬ ‫اس سے بڑھ کر یہ‬ ‫بلال ہوئیں‬‫ان آنکھوں نے موت کو حیات بخشی‬ ‫زمینی خداؤں کو بندگی بخشی‬ ‫ہر لمحہ ان سے اخوت ٹپکی‬ ‫شریعت ٹپکی‬ ‫طریقت ٹپکی‬ ‫حقیقت ٹپکی‬ ‫میں نے سنا تھا‬ ‫شاہ حسین کے دربار کے عقب میں‬ ‫حضور کے قدموں کے نشان‬ ‫اہل ظرف نے محفوظ کر رکھے ہیں‬

‫گناہ گار سیاہ کار سہی‬ ‫شوق لیکن مجھے وہاں لے گیا‬‫ڈرتے ڈرتے حضرت کے دربار میں داخل ہوا‬ ‫بساط بھر ادب سے سلام کیا‬ ‫درود پڑھا دعا کی اور دربار سے باہر آ گیا‬ ‫وجود میں ہمت باندھی‬ ‫ہر بری کرنی کی معافی مانگی‬ ‫تب کہیں جا کے دربار کے عقب میں گیا‬ ‫حضور کے قدموں کے نشان‬ ‫بڑے احترام بڑی ّعقیدت سے محفوظ تھے‬ ‫تازہ پھولوں سے سجے تھے‬ ‫لوگ بھی وہاں کھڑے تھے‬ ‫ہر آنکھ میں محبت تھی ّعقیدت تھی‬ ‫دل بےشک طواف الفت میں تھے‬ ‫ہاں کچھ لب بھی متحرک تھے‬

‫انگلیاں شیشہءپا کو چھو رہی تھیں‬ ‫سوچا آگے بڑھوں‬ ‫شیشہءنقش پا کو چوم لوں‬ ‫پھر سوچا مرے لب اس قابل کہاں‬‫انگلیوں سے ہی شیشہء پا چھو لیتا ہوں‬ ‫انگلیوں میں مگر اتنا دم کہاں‬ ‫خواہش ابھری قدموں کو چھوتی‬ ‫پھول کی اک پتی ہی مل جاتی‬ ‫دونوں جہاں گویا مل جائیں گے‬ ‫گناہ گا ہو کہ نیکوکار‬ ‫عطائیں اللہ کی کب بخیل ہیں‬ ‫ایسا اگر ہوتا‬ ‫تو مجھ سے بھوکے مر جاتے‬ ‫تالہ اس شیشے کے بکسے کا‬ ‫کھولا خدمت گار نے‬

‫حضور کے قدموں کو چھوتی‬ ‫اک پتی مرے ہات پر رکھ دی‬ ‫حیرت ہوئی‘ میں اور یہ فضل بےبہا‬ ‫دنیا و عقبی کی عطا‬ ‫سجدہ شکر کا مجھے کب ڈھنگ رہا ہے‬ ‫خدا جانتا تھا کہ اس کا بندہ ممنون ہے‬ ‫میں نے وہ پتی بصد شکر‬ ‫سدا خالی رہتے پرس میں ڈال لی‬‫مرے حضور کے قدموں کی برکت دیکھیے‬ ‫مری میں مر گئی‬ ‫مرا پرس بھی خالی نہیں رہتا‬ ‫راز یہ کھل گیا ہے‬ ‫قدموں میں ہی حضور کے‬ ‫دونوں جہاں ہیں‬ ‫جاؤں گا اگر حضور سے‬

‫کسی جہاں کا نہ رہوں گا‬‫جو حضور کے قدم لیتا رہے گا‬ ‫اویس بنے گا‬ ‫منصورٹھہرے گا‬ ‫سرمد لقب پائے گا‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook