کس سے گلہ کرتا جھورا مردود مر چکا تھا تھیلا مردود آج بھی رشوت ڈکارتا ہے وہ چپ تھا مسلسل چپ تھا منہ میں زبان رکھتا تھا پھر بھی چپ تھاچپ میں شاید اسے سکھ تھا جو بھی سہییہ سوال نوشتہءدیوار بنا تھا وہ چپ تھا تو کیوں چپ تھا ہر زبان پر یہ ہی سوال تھا وہ بزدل تھا یا صبر میں باکمال تھا
کچھ اسے زن مرید کہتے تھے کسی کے خیال میں مرد کی انا کا وہ کھلا زوال تھا وہ تو خیر زیر عتاب تھا ہی اس کے پچھلے بھیکوسنوں کے دفتر چڑھ رہے تھے اس سے کوئی کیوں پوچھتا ہر دوسرے امریش پوری سے ڈائیلاگ سننے کو ملتے تھے نمرود وقت بھی کانوں پر پہرے نہیں رکھ سکتا پہلے ریڈیو ہی تو تھا ٹی وی تو کل کی دین ہے کان سنتے تھے
تصور امیج بناتا تھا آخر چپ تھا تو کیوں چپ تھا اک روز میں نے پوچھ ہی لیا میرا کہا اس کے قہقہوں میں اڑنے لگا میں نے سوچا کہنا کچھ تھا شاید کہہ کچھ اور گیا ہوں بھول میں کسی سردار کا لطیفہ کہہ گیا ہوں بھلکڑ ہوں یہ قول زریں مری زوجہ کا ہے زوجہ کے کہے کو غلط کہوں کہوں تو کس بل پراگلے سے ناسہی اس جہان سے جاؤں گا
مہر بہ لب رہا کہ دیواروں کو بھی کان ہوتے ہیںمجھے کیا پڑی غیروں کی اپنے سر لوں میں نے بھی چپ میں عافیت جانی ہم کیؤں پرائی آگ میں کودیں مرے لیے خالہ کی لگائی ہی کافی ہے خود چل بسی میں بھی چل بسوں سامان کر گئی ہے پھر وہ دفعتا چپ ہو گیا مری طرفبےبس بے کس نظروں سے دیکھنے لگا چند لمحے خامشی رہی جاہل جانتے ہو بولنے میں کتنے اعضا خرچ ہوتے ہیں حیرت ہوئی‘ بھلا یہ کیا جواب ہوا
غصہ میں بولنے سے چودہ اعضا کشٹ اٹھاتے ہیں مرا کیا ہے ادھر سے سنتا ہوں ادھر سے نکال دیتا ہوںچہرے کے بدلتے رنگوں کا اپنا ہی سواد ہوتا ہے ہاں سٹپٹانے میں کھونے کے آثار ہوتے ہیں گھورنے بسورنے میں کہکشانی اطوار ہوتے ہیں شخص پڑھو کہ حیات کے تم پر پوشیدہ اطوار کھلیں ہاں غصہ میں دماغ کی کوئی نس پھٹ سکتی ہے خیر یہ وقت خیر نہیں آئے گا دماغ ہوتا تو صبر کا جہاں آباد کرتی
دل کا دورہ بھی بعید از قیاس نہیں اس امید پر ہی تو جی رہا ہوں کبھی تو غصہ کے افق سے خوشی کا چاند مسکرائے گا پھر مستی میں آ کر گنگنائے گاآ گئی بہار گلوں کا رنگ اور بھی نکھر گیاپیاسی آتمائیں آ رہی ہیں روپ بدل بدل کے میں پڑھا لکھا سہی اپنی اوقات میں ہوں تو مزدور زوجہ گزیدہ ہوں بھاشا فلسفے کی میں کیا جانوں بولا :جاؤ امید پر زندہ رہو امید پر میں زندہ ہوں امید ہی تو زندگی ہے
میٹھی گولی ہم کچھ دوست ہوٹل میں چائے پیتے ہیں اور اکثر پیتے ہیں سچی پوچھو تو چائے پر ہی تو جیتے ہیں زندگی میں ورنہ چائے کے سوا رکھا کیا ہے بھوک کا پرنا پیاس کا پٹکا ہماری زیست کا یہ ہی اثاثہ ہےجسے دیکھو رکھے ہے ہزار گز کا نٹکا امیر وقت بات گریبوں کی کرتا ہے کھیسہ مگر اپنا بھرتا ہے
ہر بولتا سر بازار نیلام ہوتا ہے سر اس کے کوئی ناکوئی الزام ہوتا ہے بےکیے خوب بدنام ہوتا ہے امیر وقت کو کون پوچھے کہا اس کا بےلگام ہوتا ہے کوئی ایشور کا اسے اوتار کہے اس کی کرتوتوں سے بےخبرمقدس روحوں کا اسے سالار سمجھیں یہ ہی نہیں نوع انسانی کا وقار سمجھیںسب چمچے اسے کان رزق کہتے ہیں مورکھ بھی اسی کے گن گاتا ہے حیرت تو یہ ہے جس خوبی کا وہ تاعمر قاتل رہا
اسی خوبی کومورکھ اس کی گرہ میں رکھتا رہا اسے جینا ہے یہ ہی اس کا طور رہا یہ کوئی نئی بات نہیں ہر دور اہل ثروت کا دور رہا کوئی بھوک مرتا ہے مرے انہیں اس سے کیا ان کی بلا سے گریب کے بچے بےلباس ہیں وہ کیا کریں انہیں کیا ان کا اس سے کوئی کام نہیں مالک تو ہے ناگریب کا سنور جاتا ہے دعا سے خیر چھوڑیے ان باتوں کو کوئی نئی بات ہو تو بات کریں
جو وقت گزر گیا سو گزر گیا ان بےگھر بےبستر راتوں کو یاد کیوں کریں ہاں بس اتنا دکھ ہے گریب کی روکھی سوکھی پر پنجہ رکھ کر تاج محل کبھی نور محل تعمیر ہوا شاہ پھر بھی دیالو ہے کرپالو ہےپھر بھی لوگ ان سے آسیں باندھیں ان کی آنکھوں میں ٹک تلاشیںامید کی قاشیں کب یک جا ہوتی ہیں پتی پتی گلاب بُنے قدموں میں اس کے بکھری پتیاں حسن کے ماتھے پر ناقدری کا ٹکا قدموں میں بکھری پتیوں کو کون چنے
جو چننے بیٹھے گا پولے کھائے گا۔ خیر چھوڑیںمیں کیا ظلم و ستم کی رام کہانی لے بیٹھا ہوں چائے کی مست پیالی میں ہمارا امریکی طور نہیں رہا کبھی میں کبھی وہ ادائیگی کر دیتے ہیں ہم ایک کشتی کے مسافر ہیں پھر تو میں کیسی اک روز کیا ہوا بچہ جو چائے لا کر دیتا تھا ہاتھ سے اس کے برتن گرے اور ٹوٹ گئے پھر کیا تھا مالک نے وہ مارا اشک فرشتوں کے بھی گرے ہوں گے
وہ دن اس کےالف انار بے بکری تے تختی پڑھنے کے تھے بھوک اسے وہاں لائی تھی اللہ جانے کتنی مجبور اس کی مائی تھی سچی بات تو یہ ہے مری چائے حرام ہوئی میں بےبس کنگلا کیا کر سکتا تھا بس دو بےبس اشک بہا سکتا تھا میرا یہ ہی کل سرمایا تھا زیست میں یہ ہی کچھ کمایا تھا جب برتن لینے وہ آیا میں نے اسے گلے لگایا رویا پیار کیا منہ ماتھا چوما چپ چاپ وہاں سے اٹھ آیا جہاں نمرود کی شریعت چلتی ہو وہاں پھر کیا آنا کیا جانا
بعد مدت مرا اس کا ملنا ہوا ہماری آنکھیں ملیں ہم اک دوجے کو پہچان گئے وہ چھوٹا تھا میں نیچے بیٹھ گیا گلے لگایا خوب پیار کیا دعا دی مری گرہ کی یہ ہی اوقات تھی وہ ہاں وہ بچہنوشیرواں سے کہیں بڑھ کر دیالو نکلا میٹھی گولی اس کے منہ میں تھی اس نے اپنا وہ لقمہ مرے منہ میں ڈالا خوش ہو کر مرے منہ کو دیکھا مرے منہ میں وہ تھا جو جنت سوگ میں بھی نہ ہو گا مرے چہرے پر خوشی کے لڈو پھوٹ رہے تھے
اس کے پاس ایک اور میٹھی گولی تھی جو اس نے مرے ہاتھ پر رکھ دی اکبر ہو کہ کوئی اور شاہ کیا کسی کو دیں گے مہان تھا دیا کا پردھان تھا وہ معصوم بچہ شاہوں کی شاہی ایک طرف الفت پریم سے لبریز میٹھی گولی ایک طرف تول میں کہیں بھاری ہے گو اک عرصہ ہوا اس میٹھی گولی کا مزا مری رگ وپے میں آج بھی رقصاں ہے پریم و الفت کے آب زم زم میں بھیگیہات پر اس بچے کی رکھی میٹھی گولی
آتی نسلوں کے لیے میں نے رکھ دی ہے کہ حجت رہے محبتوں کا کوئی مول نہیں یہ جیتی ہیں مرتی نہیں لوگوں کو یہ خیر کی شکتی بردان میں دیتی ہیںدو بیلوں کی مرضی ہے تمثالی وعلامتی افسانہ بندر کے بچوں کے آتے کل کی بھوک کے غم میں وہ اور یہ
آدم کے زخموں سے چور بھوک سے نڈھال قول کے سچے‘ پکے بچوں پر بھونکتے ٹونکتے زخمی سؤر بھوکے کتے ٹوٹ پڑے ہیں ظلم کے ہر حامی کے منہ میںخون کی ٹیکسال سے نکلے ڈالرہاتھ میں وعدوں کے پرزے ہیں ظلم کی نندا کرنے والے توپوں کی زد میں ہیں جبر کے ٹوکے میں اپنی سانسیں گنتے ہیں ہونٹوں سے باہر آتی جیبا
خنجر کی کھا جا ہے گھورتی آنکھیں اگنی کا رن ہے سچ تو یہ ہے کمزور باشندے پشو جناور کا اترن اور ماس خور درندوں کا جیون ہیں لومڑ اور گیڈر بھیگھاس پھوس سے نفرت کرتے ہیں اک کا جیون دوجے کی مرتیو پر اٹھتا ہے دیا اور کرپا کے سب جذبے شوگر کو نائٹروکولین ہیں اب دو بیلوں کی مرضی ہے اک ساتھ چلیں
بے خوفی کا جیون جئیں یا پھر دو راہوں کے راہی ٹھہریں کتوں سؤروں کا فضلہ بن کر بے نامی کی نالی میں بہہ جائیںذات کے قیدی قصور تو خیر دونوں کا تھا اس نے گالیاں بکیں اس نے خنجر چلایا سزا دونوں کو ملی وہ جان سے گیا یہ جہان سے گیا اس کے بچے یتیم ہوئے
اس کے بچے گلیاں رولے اس کی ماں بینائی سے گئیاس کی ماں کے آنسو تھمتے نہیں اس کا باپ کچری چڑھا اس کا باپ بستر لگا دونوں کنبے کاسہء گدائی لیے گھر گھر کی دہلیز چڑھے بے کسی کی تصویر بنے بے توقیر ہوئے ضبط کا فقدان بربادی کی انتہا بنا سماج کے سکون پر پتھر لگا قصور تو خیر دونوں کا تھا جیو اور جینے دو کے اصول پر جی سکتے تھے اپنے لیے جینا کیا جینا
دھرتی کا ہر ذرہ تزئین کی آشا رکھتا ہے ذات کے قیدی مردوں سے بدترسسی فس کا جینا جیتے ہیںچل' محمد کے در پر چل نعتیہ کہانی اک پل آکاش اور دھرتی کو اک دھاگے میں بن کر رنگ دھنک اچھالے دوجا پلجو بھیک تھا پہلے کل کی
کاسے سے اتراماتھے کی ریکھا ٹھہرا کرپا اور دان کا پل پھن چکر مارا گرتا ہے منہ کے بل سلوٹ سے پاک سہی پھر بھی حنطل سے کڑوا اترن کا پھل الفت میں کچھ دے کر پانے کی اچھا حاتم سے ہے چھل غیرت سے عاری حلق میں ٹپکا وہ قطرہ سقراط کا زہر
نہ گنگا جلمہر محبت سے بھرپور نیم کا پانی نہ کڑا نہ کھارا وہ تو ہے آب زم زم اس میں رام کا بل ہر فرزانہ عہد سے مکتی چاہے ہر دیوانہ عہد کا بندی مر مٹنے کی باتیں ٹالتے رہنا کل تا کل جب بھی پل کی بگڑی کل در نانک کے
بیٹھا بےکل وید حکیم ملاں پنڈٹ پیر فقیر جب تھک ہاریں جس ہتھ میں وقت کی نبضیں چل محمد کے در پر چلعطائیں اللہ کی کب بخیل ہیں مدحیہ کہانی حضور کے قدموں کی برکت دیکھیے آنکھیں جو قدم بوس رہیں
کمال ہوئیں رشک ہلال ہوئیں تہی بر ملال ہوئیں اس سے بڑھ کر یہ بلال ہوئیںان آنکھوں نے موت کو حیات بخشی زمینی خداؤں کو بندگی بخشی ہر لمحہ ان سے اخوت ٹپکی شریعت ٹپکی طریقت ٹپکی حقیقت ٹپکی میں نے سنا تھا شاہ حسین کے دربار کے عقب میں حضور کے قدموں کے نشان اہل ظرف نے محفوظ کر رکھے ہیں
گناہ گار سیاہ کار سہی شوق لیکن مجھے وہاں لے گیاڈرتے ڈرتے حضرت کے دربار میں داخل ہوا بساط بھر ادب سے سلام کیا درود پڑھا دعا کی اور دربار سے باہر آ گیا وجود میں ہمت باندھی ہر بری کرنی کی معافی مانگی تب کہیں جا کے دربار کے عقب میں گیا حضور کے قدموں کے نشان بڑے احترام بڑی ّعقیدت سے محفوظ تھے تازہ پھولوں سے سجے تھے لوگ بھی وہاں کھڑے تھے ہر آنکھ میں محبت تھی ّعقیدت تھی دل بےشک طواف الفت میں تھے ہاں کچھ لب بھی متحرک تھے
انگلیاں شیشہءپا کو چھو رہی تھیں سوچا آگے بڑھوں شیشہءنقش پا کو چوم لوں پھر سوچا مرے لب اس قابل کہاںانگلیوں سے ہی شیشہء پا چھو لیتا ہوں انگلیوں میں مگر اتنا دم کہاں خواہش ابھری قدموں کو چھوتی پھول کی اک پتی ہی مل جاتی دونوں جہاں گویا مل جائیں گے گناہ گا ہو کہ نیکوکار عطائیں اللہ کی کب بخیل ہیں ایسا اگر ہوتا تو مجھ سے بھوکے مر جاتے تالہ اس شیشے کے بکسے کا کھولا خدمت گار نے
حضور کے قدموں کو چھوتی اک پتی مرے ہات پر رکھ دی حیرت ہوئی‘ میں اور یہ فضل بےبہا دنیا و عقبی کی عطا سجدہ شکر کا مجھے کب ڈھنگ رہا ہے خدا جانتا تھا کہ اس کا بندہ ممنون ہے میں نے وہ پتی بصد شکر سدا خالی رہتے پرس میں ڈال لیمرے حضور کے قدموں کی برکت دیکھیے مری میں مر گئی مرا پرس بھی خالی نہیں رہتا راز یہ کھل گیا ہے قدموں میں ہی حضور کے دونوں جہاں ہیں جاؤں گا اگر حضور سے
کسی جہاں کا نہ رہوں گاجو حضور کے قدم لیتا رہے گا اویس بنے گا منصورٹھہرے گا سرمد لقب پائے گا
Search