Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore رفیق سندیلوی کی کچھ نمائندہ نظمی

رفیق سندیلوی کی کچھ نمائندہ نظمی

Published by maqsood5, 2017-01-03 04:00:20

Description: abk_ksr_mh.929/2016

رفیق سندیلوی کی کچھ نمائندہ نظمیں
پیش کار
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
جنوری ٢٠١٧

Search

Read the Text Version

‫‪51‬‬ ‫شعاعیں جمع ہوں گی‬ ‫سامنے جو چیز ہوگی‬ ‫!!جل اٹھے گی‬ ‫‪...........‬‬

‫‪52‬‬ ‫مجھے اپنا جلوہ دکھا‬ ‫ستارے‬ ‫مجھے اپنا جلوہ دکھا‬ ‫وقت کے کس خلا میں‬ ‫مظاہر کی کس کہکشاں میں‬ ‫زمانے کے کس دب اکبر میں‬ ‫تیرا ٹھکانہ ہے‬ ‫لاکھوں برس سے‬ ‫تجھے دیکھنے کی طلب میں‬ ‫جوں ہی شام ڈھلتی ہے‬ ‫میں خود بہ خود کھنچتا آتا ہوں‬ ‫!اس غار شب میں‬ ‫عجب غار ہے‬ ‫ایک بازار ہے‬ ‫سیل لمعات کا‬ ‫آئنے نصب ہیں‬

‫‪53‬‬ ‫رنگ اڑتے ہیں‬ ‫شیشوں کے پیچھے‬ ‫چمک دار چیزوں کا انبار ہے‬ ‫ریشمیں تھان کھلتے ہیں‬ ‫ایک ایک کر کے‬ ‫تہوں پر تہیں‬ ‫لگتی جاتی ہیں‬ ‫مقیش‪ ،‬فردار کپڑوں کی‬ ‫آنکھوں میں‬ ‫چوبی منقش چھتوں سے‬ ‫امنڈتی ہوئی روشنی‬ ‫جھلملاتی ہے‬ ‫لہروں کی صورت‬ ‫زری جھالروں پر‬ ‫مطلا لکیروں پہ‬ ‫چاندی کے پنوں پہ‬ ‫سلکی مہین اور گھنے حاشیوں پر‬

‫‪54‬‬ ‫ستارے دمکتے ہیں‬ ‫مواج جالی سے‬ ‫آواز آتی ہے‬ ‫دیکھیں جی‬ ‫بازار میں اس سے بڑھ کر مرصع‬ ‫کوئی اور کپڑا نہیں ہے‬ ‫اسے جو بھی پہنے گا‬ ‫بالکل ستارہ لگے گا‬ ‫ستارے کے مانند چمکے گا‬ ‫کیا میں تجھے دیکھ پاؤں گا‬ ‫اس لن ترانی کے گنبد میں‬ ‫میری صدا گونجتی ہی رہے گی‬ ‫نہ جانے تجھے کس کے ملبوس پر‬ ‫خواب کی نوک سوزن سے‬ ‫!!ٹانکا گیا ہے‬ ‫‪...........‬‬

‫‪55‬‬ ‫مرات ِب وجود بھی عجیب ہیں‬ ‫اچانک اک شبیہ‬ ‫بے صدا سی جست بھر کے‬ ‫آئنے کے پاس سے گزر گئی‬ ‫سیاہ زرد دھاریاں‬ ‫کہ جیسے لہر ایک لہر سے جڑی ہوئی‬ ‫سنگار میز ایک دم لرز اٹھی‬ ‫کلاک کا طلائی عکس بھی دہل گیا‬ ‫بدن جو تھا بخار کے حصار میں پگھل گیا‬ ‫مراتب وجود بھی عجیب ہیں‬ ‫لہو کی کونیات میں‬ ‫صفات اور ذات میں‬ ‫عجب طرح کے بھید ہیں‬ ‫یقین و ظن کی چھلنیوں میں‬ ‫سو طرح کے چھید ہیں‬ ‫ابھی تو جاگتا تھا میں‬

‫‪56‬‬ ‫عمیق درد میں کراہتا تھا میں‬ ‫پھر آنکھ کیسے لگ گئی‬ ‫ابھی تو سو رہا تھا میں‬ ‫پھر آنکھ کیسے کھل گئی‬ ‫بدن سے یہ لحاف کا پہاڑ کیسے ہٹ گیا‬ ‫خبر نہیں کہ ہڈیوں کے جوڑ کس طرح کھلے‬ ‫دہن فراخ ہو کے پیچھے کیسے کھنچ گیا‬ ‫نکیلے دانت کس طرح نکل پڑے‬ ‫نگاہیں کیسے شعلہ رو ہوئیں‬ ‫نہ جانے کیسے دست و پا کی انگلیاں مڑی‬ ‫کمر لچک سی کھا کے کیسے پھیلتی گئی‬ ‫یہ جلد کیسے سخت کھال میں ڈھلی‬ ‫یہ گپھے دار دم کہاں سے آ گئی‬ ‫وجود کے کچھار میں‬ ‫دہاڑتا ہوا‬ ‫زقند بھر کے میں کہاں چلا گیا‬ ‫مجھے تو کچھ پتا نہیں‬

‫‪57‬‬ ‫مراتب وجود بھی عجیب ہیں‬ ‫‪..........‬‬

‫‪58‬‬ ‫مگر وہ نہ آیا‬ ‫میں نے آواز دی‬ ‫اور حصار رفاقت میں‬ ‫اس کو بلایا‬ ‫مگر وہ نہ آیا‬ ‫گل خواب کی پتیاں‬ ‫دھوپ کی گرم راحت میں گم تھیں‬ ‫مرے جسم پر‬ ‫نرم بارش کی بوندیں بھی گھوڑے کا سم تھیں‬ ‫زمیں ایک انبوہ ہجراں میں‬ ‫اس چاپ کی منتظر تھی‬ ‫جو لا علم پھیلاؤ میں منتشر تھی‬ ‫پرندے سبک ریشمیں ٹہنیاں‬ ‫اپنی منقار میں تھام کر اڑ رہے تھے‬ ‫نشیب جنوں کی طرف‬ ‫پانیوں کی طرح میرے سائے بہے تھے‬

‫‪59‬‬ ‫کف چشم پر میں نے اس کے لیے‬ ‫شہر گریہ سجایا‬ ‫مگر وہ نہ آیا‬ ‫کسی سمت سے اس کی آہٹ نہ آئی‬ ‫بہت دیر تک رات کے سرد خانے میں‬ ‫اک آگ میں نے جلائی‬ ‫کہیں دور سے‬ ‫کوئی بے انت محروم آواز آئی‬ ‫جدائی جدائی‬ ‫تو پھر میں نے اس کے لیے دھند ہموار کی‬ ‫رستۂ نو بنایا‬ ‫مگر وہ نہ آیا‬ ‫‪.............‬‬

‫‪60‬‬ ‫مہرباں فرش پر‬ ‫اک معلق خلا میں کہیں ناگہاں‬ ‫مہرباں فرش پر پاؤں میرا پڑا‬ ‫میں نے دیکھا کھلا ہے مرے سامنے‬ ‫زر نگار و منقش بہت ہی بڑا‬ ‫ایک در خواب کا‬ ‫مہرباں فرش کے‬ ‫مرمریں پتھروں سے ہویدا ہوا‬ ‫عکس مہتاب کا‬ ‫میں نے ہاتھ اپنے آگے بڑھائے‬ ‫اور اس کو چھوا‬ ‫گھنٹیاں میرے کانوں میں بجنے لگیں‬ ‫جاوداں اور غنائی رفاقت کے مابین تھا‬ ‫میرا صحرائے جاں‬ ‫اک معلق خلا میں کہیں ناگہاں‬ ‫میں نے دیکھا‬

‫‪61‬‬ ‫مرے شب نما جسم پر‬ ‫اک ستارہ سی بارش نے لب رکھ دیا‬ ‫نرم براق ترشے ہوئے طاق پر‬ ‫جتنا زاد سفر میرے ہم راہ تھا‬ ‫میں نے سب رکھ دیا‬ ‫اب میں آزاد تھا‬ ‫اور طلسمیں پڑاؤ کا ہر اسم بھی یاد تھا‬ ‫میں نے دیکھا‬ ‫مرے چار جانب جھکا تھا‬ ‫پیالہ نما آسماں‬ ‫میرا محرم مری سانس کا راز داں‬ ‫اک معلق خلا میں کہیں ناگہاں‬ ‫مہرباں فرش پر پاؤں میرا پڑا‬ ‫میں نے دیکھا کھلا ہے مرے سامنے‬ ‫زر نگار و منقش بہت ہی بڑا‬ ‫ایک در خواب کا‬ ‫‪...........‬‬

‫‪62‬‬ ‫وہی مخدوش حالت‬ ‫ہمیشہ سے وہی مخدوش حالت‬ ‫ایک آدھی مینگنی دم سے لگی ہے‬ ‫ناک میں بلغم بھرا ہے‬ ‫ہڈیاں ابھری ہوئی ہیں پشت کی‬ ‫دو روز پہلے ہی‬ ‫منڈی ہے اون میری‬ ‫سردیوں کے دن ہیں‬ ‫چٹیل بے نمو میدان میں‬ ‫ریوڑ کے اندر‬ ‫سر جھکائے‬ ‫گھاس کی امید میں‬ ‫مدھم شکستہ چال چلتا‬ ‫خشک ڈنٹھل‬ ‫اور پولیتھین کے مردہ لفافوں کو چباتا‬ ‫دن ڈھلے باڑے میں آتا ہوں‬

‫‪63‬‬ ‫ہمیشہ سے وہی دوزخ کی بھاری رات‬ ‫کہنہ خوف کا اسرار‬ ‫گہری بو‬ ‫نکیلی قتلیوں والے سور‬ ‫کتوں کی لمبی بھونک‬ ‫کہرے اور اندھیرے کی چڑھائی‬ ‫بھیڑیوں کے دانت‬ ‫!خطرہ‬ ‫صبح دم باڑے میں‬ ‫کوئی آدمی آتا ہے‬ ‫موٹی چھال کی رسی گلے میں ڈالتا ہے‬ ‫ذبح خانے کی طرف چلتا ہے‬ ‫دنیا اپنے اندر مست ہے‬ ‫ارض و سما اپنی جگہ موجود ہیں‬ ‫پانی اسی سرعت سے دریاؤں میں بہتا ہے‬ ‫پہاڑوں کی وہی استادگی‬ ‫سب کچھ وہی ہے‬

‫‪64‬‬ ‫ہست کی سانسیں‬ ‫مسلسل چل رہی ہیں‬ ‫مضمحل کمزور ٹانگیں‬ ‫ایک دوجے سے الجھتی دستیاں‬ ‫بے مایگی کا آخری لمحہ‬ ‫زبان بے زبانی‬ ‫ایک دم گردن پہ‬ ‫تیزی سے چھری چلتی ہے‬ ‫قصہ ختم ہوتا ہے‬ ‫ہمیشہ سے یہاں قربان ہوتا آ رہا ہوں‬ ‫کار آمد جانور ہوں‬ ‫کھال سے جوتے‬ ‫سنہری اون سے بنتی ہیں سر کی ٹوپیاں‬ ‫اور گوشت پکتا ہے‬ ‫‪..................‬‬

‫‪65‬‬ ‫کہیں تم ابد تو نہیں ہو‬ ‫کہنہ تر زین بدلی گئی‬ ‫پھر نئی نعل بندی ہوئی‬ ‫اور فرس ہنہنایا‬ ‫سوار اب سواری پر مجبور تھا‬ ‫میں اکیلا عزا دار‬ ‫کتنے یگوں سے‬ ‫اٹھائے ہوئے‬ ‫جسم کا تعزیہ‬ ‫خود ہی اپنے جنم دن پہ مسرور تھا‬ ‫کپکپاتی چھری‬ ‫کیک کو وسط تک‬ ‫چیر کر رک گئی‬ ‫دل لرزنے لگا‬ ‫ضعف کی ماری پھونکوں نے‬ ‫ایک ایک کر کے‬

‫‪66‬‬ ‫بھڑکتی لوؤں کو بجھایا‬ ‫عزیزوں نے‬ ‫بچوں نے‬ ‫تالی بجائی‬ ‫مبارک مبارک ہوئی‬ ‫کیک کا ایک ٹکڑا‬ ‫مرے منہ میں ٹھونسا گیا‬ ‫نعل کی شکل کا‬ ‫‪................‬‬

‫‪67‬‬ ‫یہ سجیلی مورتی‬ ‫اے ہوا‬ ‫پھر سے مجھے چھو کر قسم کھا‬ ‫صحن میں کس نے قدم رکھا تھا‬ ‫چپکے سے‬ ‫یہاں سے کون مٹی لے گیا تھا‬ ‫وقت کی تھالی میں‬ ‫کس نے لا کے رکھ دی‬ ‫جھلملاتی لو کے آگے‬ ‫رقص کرتی‬ ‫یہ سجیلی مورتی‬ ‫جس کے نقوش جسم‬ ‫روشن ہو رہے ہیں‬ ‫ویشیا کے ہونٹ‬ ‫فربہ پاؤں جیسے اک گرھستن کے‬ ‫خمیری پیٹ میں‬

‫‪68‬‬ ‫مخمل کی لہریں‬ ‫نوری و ناری‬ ‫سبک اندام لہروں میں‬ ‫بھنور اک گول سا‬ ‫پھر سے مجھے چھو کر قسم کھا‬ ‫اے ہوا‬ ‫تو جانتی ہے‬ ‫راز سارا‬ ‫دو الگ طرزوں کی مٹی‬ ‫ایک برتن میں ملا کر‬ ‫!!گوندھنے کا‬ ‫‪................‬‬

‫‪69‬‬ ‫یہ کیسی گھڑی ہے‬ ‫یہ کند اور یخ بے نمو نیند جس میں‬ ‫شب ارتقا اور صبح حریرا کا تازہ عمل رائیگاں ہو رہا ہے‬‫شکستہ کناروں کے اندر مچلتی ہوئی سوختہ جان لہروں کا رقص زیاں‬ ‫ہو رہا ہے‬ ‫چراغ تحرک کف سست پر بے نشاں ہو رہا ہے‬ ‫مرے دہر کا طاق تہذیب جس پر‬ ‫مقدس صحیفہ نہیں اک ریاکار مشعل دھری ہے‬ ‫ہر اک شیشۂ پاک باز و صفا کی سماوی رگوں میں‬ ‫کسی عکس فاجر کی مٹی بھری ہے‬ ‫منزہ درختوں کے پاک اور شیریں پھلوں میں‬ ‫کوئی نوک تیغ نجاست گڑی ہے‬ ‫خدایا ترے نیک بندوں پر افتاد کیسی پڑی ہے‬ ‫یہ کیسی گھڑی ہے‬

‫‪70‬‬ ‫رفیق سندیلوی کی کچھ نمائندہ نظمیں‬ ‫پیش کار‬ ‫مقصود حسنی‬ ‫ابوزر برقی کتب خانہ‬ ‫جنوری ‪٢٠١٧‬‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook