کھانے کو عذاب ٹکڑےپینے کو تیزاب بوندیں ملتی ہیں خود کشی حرام سہیمگر جینا بھی تو جرم ٹھہرا ہے ستاروں سے لبریز چھت کا دور تک اتا پتا نہیںہوا ادھر سے گزرتے ڈرتی ہے بدلتے موسموں کا تصور شیخ چلی کا خواب ٹھہرا ہے یہاں اگر کچھ ہے تو'...........منہ میں زہر بجھی تلواریں ہیں پیٹ سوچ کا گھر ہات بھیک کا کٹورا ہوئے ہیں بچوں کے کانچ بدن بھوک سے
کبھی نیلے کبھی پیلے پڑتے ہیں اے صبح بصیرت! تو ہی لوٹ آ کہ ناگوں کے پہرے کرب زخموں سے رستا برف لہو تو نہ دیکھ سکوں گا سچ کے اجالوں کی حسین تمنا مجھے مرنے نہ دے گی اور میں اس بےوضو تمنا کے سہارے کچھ تو سوچ سکوں گا سوچ کے گھروندوں میںزیست کے سارے موسم بستے ہیں لاضی جرار حسنی
1974کیا یہ کافی نہیں اللہ بخشے نابخشے اللہ کی مرضی یہاں اک حاجی صاصب ہوا کرتے تھے پنج ولتے تھے ہاں صدلہ زکوت خیرت میں کافی بخل کرتے تھے حسیں بیبیوں کا دل کب توڑتے تھے دوریاں کم کرکے ان سے رشتے جوڑتے تھے ان کا کہنا تھا سچ بولو پورا تولو لوگوں کے لیے یہ ہی نصحیت تھی یہ الگ بات ہے
ان کے کہے پر یمین کرنا سو کا گھاٹا تھا کہا کب کرتے تھے کبھی اس سے الٹا بھی چل جاتے تھے اک عاشك اپنی معشولہ سے کہتا رہا ستارے تمہارے لیے توڑ لاؤں گا بپھرے دریا کی لہروں سے لڑ جاؤں گا اک روز فون پر اس کی معشولہ نے کہاآج باغ میں ملو‘ مجھے تم سے اک کام ہے جواب میں اس نے کہا کیوں نہیں‘ آؤں گا اگر بارش نہ پڑی ہمارے یہاں اک لیڈر ہوا کرتے تھے تھے بلا کے خوش خیال لباس میں اپنی مثال آپ تھے کار سے باہر جب لدم رنجہ فرماتےلوگ ان کی عیار معصومیت پر مر مر جاتے
پھول تو پھول جئے جئے کار نثار کرتے کہا کرتے تھے شہر کو پیرس بنا دوں گا شہر‘ شہر نہ بن سکا پیرس کہاں بنتا یہ جانتے کہ بےزر ہوں زبانی کلامیمیں بھی گھر میں بیسیوں چیزیں لاتا ہوں بیگم کا اچھا مؤڈ اگر کبھی رہا ہو نور محل کبھی تاج محللمحوں میں وائٹ ہاؤس سے کہیں بڑھ کر عمارت تعمیر کیے دیتا ہوں یہ الگ بات ہے آتے دنوں میں کچھ نہ ہو پانے پر عزت بچانے کی خاطر ٹھوک کر بیزتی کراتا ہوں کھسیانی ہنسی بھی ہنستا ہوں
چلو کچھ لمحے اچھے کچھ برے گزرتے ہیں جیون کوئی ٹھہرا پانی نہیں ناہی یہ بےبل پگ ڈنڈی ہے صالیحین کہتے آئے ہیں جو کہو وہ کرو ہم اہل شکم ضدین کے لائل ہیں کہنا اور کرنا زیست کے دو الگ رستے ہیں کہے بن بن نہیں آتی کرتے ہیں تو شکم پر لات لگتی ہے نہ کرنے میں ہی تو شکم کی سلامتی ہے جو شکم کا دشمن بنے گا نیزے چڑھے گا زہر کا پیالہ اس کا ممدر ٹھہرے گا آگ میں ڈالا جائے گا زبان سے کہتے رہو ہم جو کہتے ہیں وہ کرتے ہیں
ہم بھی یہ جانتے ہیں سننے والا بھی اس حمیمت سے بے خبر نہیں ہم اللہ اور اس کے رسول کا دل و جان سے احترام کرتے ہیں شیو ہو کہ وشنو موسی ہو کہ عیسی زرتشت ہو کہ مہآتما بدھ رام اور کرشن بڑے لوگ تھے بھلا ہم ان سے کیسے ہو سکتے ہیں ان کی ہر کرنی کو سلام و پرنام بےشک وہ عزت کی جا ہیں ان کی کہنی اور کرنی ایک تھی وہ ایک کے لائل تھے مصیبت میں رہے ہر لمحہ صعوبت میں رہےاپنی کہنی پر استوار کرنی کا پرنالہ نہ وہ بدل سکے وہ بڑے تھے بھوکے رہ سکتے تھے
ہماری ضرورتیں حاجتیں ان سے جدا وہ کہنی پر چل کر بڑے تھے کہہ کر نہ کرنے سے ہی مال آتا ہےاچھا کھاتے ہیں بڑے گھر میں رہتے ہیں لوگ سلام بلاتے ہیں یہ ہی نہیں ہم سے ڈرتے ہیں دنیا میں رہتے ہیں دنیا کی اور بڑائی کیا ہوتی ہے ان سے کون ڈرتا تھا ان کی کون سنتا تھا ان کے جو لدم لیتا رہا وہ ہی معتوب ہوا کیا یہ کم ہے کہ ہم خود سے گزر کر انہیں مانتے ہیں لبر میں کیا ہو گا حشر میں کیا ہو گا یہ آتے ولتوں کی بات ہے
لبروں میں ان پر کیا ہو رہا ہے کب کوئی دیکھ رہا ہے مجرم تب ٹھہریں گے جب کہنی پر کرنی استوار نہ مانیں گے یہ تو اصول حیات ہے اس کا کون کافر منکر ہے کیا یہ کافی نہیں اس پر ہمارا ایمان و یمین ہےاندھیر مچی دیکھیے دنیا کی عجب یہ ریت ہے سینہ زور سچے سچے اچے شاہ ہو ساہوکار کہ سیٹھ میاں گریب کے خون پسینے سے
شکم کی آگ بجھاتے ہیں تجوری اسی سے اپنی بھرتے ہیں کیسے آیا کون لایا یہ سرمایا کون پوچھے کس کی یہ مجال ہے گربت سے ان کا رشتہ کیا ہے گربت اور امارت الگ سے دو مخلوق ہیں وہ پہاڑ یہ رائی ہیں وہ کھائیں انواع عجیب وغریب یہ کھائیں فمط سراب نوالے سب جانتے ہیں ان کی بھری تجوری کا احوال جان کر بھیان ڈاکوں کو سلام و پرنام بولا جاتا ہے کسی گریب بیٹی کو ڈولی بٹھاتے انہیں موت پڑتی ہے غش آتا ہے
لینا جانتے ہیں دینا ان کے میزان میں نہیں کوئی بھوک سے مرتا ہے تو مرے انہیں اس سے کیا ان کی بلا سے شب و روز کے ڈاکو صاحب اور صاحب عزت اندھیر مچی دیکھیے شب کے چور‘ ڈاکو ٹھہرے ہیں نظام کب ڈاکو تھا مشمتی تھا مشمتی گھر کا تھا سینہ زور آئے تکبر کی حد دیکھیے بےبس ماں کے سامنے نظام کی بہن کی عزت لوٹ لی اور چلتے بنے کون پوچھتا کس میں دم تھا
نظام کے ہم دیس سینہ زور کے ساتھ تھے چمچہ آنکھوں میں غیرت کہاں مار دیتے اس مردود کو زیادہ سے زیادہ کیا ہوتا مار دیے جاتے کیا اب وہ زندہ ہیں بےغیرت جیون سے موت اچھی دمڑی بھر سکوں کے لیے ضمیر کا سودا بڑا مہنگا ہے اگر وہ باغیرت موت مرتے تو زیست کے دل میں میرے للم میں ان کے لیے احترام ہوتا کنجر بہنوں کی عزت کی کمائی کھاتے ہیں صدمہ سے اس بچی کی ماں مر گئی
ردعمل تو ہونا تھا ردعمل‘ کوئی غیرفطری عمل نہیں گالی دو گے چانٹا کھاؤ گے نظام رات کو سینہ زوروں غیرت سے عاری لوگوں کی تجوریاں خالی کرتا گریبوں میں ان ہی کا خون پسینہ بانٹ دیتا اس طرح ان کا چولہا بھی گرم ہو جاتا مورکھ کے پنوں پر وہ ڈاکو رلم ہوابےغیرت اس کے ہاں جگہ نہ پا سکے ہاں انہیں التدار کا وفادار کہا گیا چمچہ گیری کا بھی عجب رنگ ہےسینہ زور وچارہ ہوا اسے مظلوم کہا گیا واہ ری مجبور اور کم زور زندگی مجروع لاتل حملہ آور ممتول ٹھہرا
یادوں کی دودھ ندیا وہ نم صبح کی تمثال تھی خود اپنی مثال تھی پہلی بار جو میں نے اسے دیکھا مری آنکھوں میں زندگی اتر گئی دل کی ویران بستی میں زندگی کے ڈنکے بجنے لگے خوشی کے ترانے مچلنے لگے ہواؤں کا لہجہ بھی بدل گیا زیست کا گرم موسم رخ اپنا بدل گیا اس کے رخساروں کا عکس شفك کے پیلے رنگ بدلنے لگا
شفك کیا‘ افك بھی اس کی مسکان کے رنگ لینے لگامیں نے پیار سے جو چھوا اس کے رخسار کو اک کرنٹ سا لگا اور میں پیچھے ہٹ گیا وہ سراپا زندگی تھی میں صدیوں کا بےجان جسد تھا لا سے اثبات میں آیا نہ تھا نہ مجھ پر اپنی حمیمت کھلی تھی کیا تھا میں کون تھا اس کی مسرور آنکھوں میں مرے ہونے کی دلیل تھی مرے من آنگن میں اس نے لدم کیا رکھا فرشتے بھی سوچ کا بت بن گئے میں اور یہ خوبی لسمت سورج شاید مغرب سے نکل آیا تھا
دست لدرت سے یہ کب بعید ہے ان ہونی‘ ہونی میں بدل جاتی ہے اس کے مری من بستی میں لدم دھرنے کی دیر تھی خوشیاں ادھر بھی ادھر بھی برسنے لگیں میں اگلے روز جب کام پر آیا ابھی بیٹھا بھی نہ تھا دفتری نے اک سرکاری کاغذ مجھے تھمایا خوش نظروں سے مجھے دیکھنے لگااس کی آنکھوں میں بخشیش کی تمنا تھی جوں ہی لفظ اس کاغذ کے مری نظروں سے گزرے بات ہی ایسی تھی کہ مرا ہاتھ جیب کی جانب بڑھ گیا
جو ہاتھ لگا‘ میں نے اسے نذر کیا خوشی سے وہ مسکرا اور چل دیا اس کاغذ نے مجھے بتایا ترلی نے مرے لدم لیے ہیں پھر مٹھائی آئی چائے بھی چلی کچھ دوست بولے حضرت اس سے تو نہ بات بنے گی آج تو نان مچھلی اڑے گی مرے دل سے کل کی خوشیوں کا خمار کب اترا تھا نان مچھلی کیا جان بھی مانگتے تو حاضر تھیخوشی کے خمار کی اپنی ہی بات تھی خوشیوں کے اوتار نے مجھے وہ کچھ دیا
جو مرے پاس کبھی نہ رہا تھا کرائے کا مکاں ملکیت میں بدل گیا میں بھی اپنا نہ رہا سب کا ہو گیا جو آتا خالی ہاتھ نہ جاتا کوئی مٹھی بھر کوئی جھولی بھر کے لے جاتامیں کون سا اپنے پلے سے دیتا رہا مرا کیا تھا جو مرے پاس تھا مالک کا دیا تھا جوانی سے بڑھاپے تک وہ پرخوش بو کنول مرے من آنگن کی زینت بنا رہا عجب ریت ہے اس زندگی کی جو آتا ہے چلا جاتا ہے میں بوڑھا ہو گیا ہوں بس اب جانے کو ہوں
بیٹیاں کب تادیر باپ کے گھر رہتی ہیں بس آج کل میں وہ بھی جانے کو ہے تب اکیلا تھا اب اکیلا نہیں رہوں گا اس کی پیار بھری مستیوں کی یاد مرا من آنگن سونا نہ ہونے دے گی جب تلک جیوں گا وہ مجھے بہلاتی رہیں گی دکھ درد بیماری میں مجھے سہلاتی رہیں گی تنہائی کے بھوت بھگاتی رہیں گی مری اس بےگیاہ زندگی کو یادوں کی دودھ ندیا سے سیراب کرتی رہیں گی تامرگ اسے بنجر نہ ہونے دے گی خیر سے اپنے سسرال جائے دودھ نہائے پوت کھیلائے
دکھ درد کا دور تک نام و نشاں نہ ہو اس کی زیست کے ہر موڑ پر خوشیوں کے پھول اس کا استمبال کرتے رہیں جس جیون کے ہر موڑ پریادوں کے بلاگنت دریچے کھلتے ہوں سمجھو وہ جیون سفل رہا کچھ ہوا یا کیا تو ہی یادیں من آنگن میں ٹھکانہ کرتی ہیں میں نے کیا کرنا تھا مرے اللہ نے مجھے کبھی تنہا نہ رہنے دیا مری بچی مری جان کبھی کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرنا جب بھی مانگنا اپنے اللہ سے مانگنا
اپنے خاوند سے مخلص رہنا جب باہر جائے خیر کی دعا کرناجب گھر آئے دن بھر کی تھکن بھول کر تہ دل سے مسکرانا سو بسم اللہ کہنا دل میکے میں نہ رکھنا اپنے گھر میں مست رہنا کبھی کسی بات پر فخر تکبر نہ کرنا سب دیا اللہ کا دیا ہے جان رکھو سب اسی کا ہے ہاں کبھی کبھار اس بڈھے کو یاد کر لیا کرنامر گیا تو بمدر بساط مغفرت کی دعا کرنا یہ ہی تحفہ ان مول ہو گا مری طرح اپنے باپ کو یاد کرکے نہ روتے رہنا
میں بےچارہ اس لابل کہاں ہاں وہ اس لابل ضرور ہے کہ اسے یادوں میں بسایا جائے ہر پل اللہ اسے لبر میں پرسکوں رکھے وہ وہاں کبھی تنہا نہ رہے اللہ کی عطائیں اس کے ساتھ رہیںاس کی عنائتیں لبر میں اس پر سایہ کیے رہیں جا مری ارحا خیر سے جانے کے لیے جا جا‘ جا کر وہاں خوشیوں کا جہان آباد کر خوشیوں کی جینی جی شاد رہ مجھ کو خود کو بھول کر سب کو شاد کر مری بچی مری جان جا جا خیر سے جا اللہ تم پر مہربان رہے
باؤ بہشتی باپ ہو کہ ماں معتبر ہیں محترم ہیں زندگی کی مشمت تو ہے ہی بچوں کے پالن پوسن کی بھی محبت سے پیار سے خلوص سے ماں مشمت اٹھاتی ہے زبان پر شکوے کا کلمہ کب لاتی ہے باپ بھی دنیا میں بےبدل رشتہ ہے منہ کا لممہ جیب میں رکھ لاتا ہے منا کھائے گا گڑیا کے کام آئے گادونمبری کمائی اکیلا وہ کب کھا جاتا ہے
پیٹ بھر سہی‘ حصہ کے لممے پیٹ میں لے جاتا ہے عمرا چور اپنے بچوں پر جان دیتا تھا خراش بھی آتی تو تڑپ تڑپ جاتا تھا کس کے لیےآدھی رات کو گھر سے لدم باہر رکھتا تھا وہ ڈاکو نہیں تھا ہاں چوری میں نام خوب کمایا تھا پر اتنی بات ہے علالے کا ہر گھر عزیز رکھتا تھا اس ذیل میں کوئی اس پر انگلی اٹھا نہیں سکتا جانا تو ہے اس سے کب مفر ہے اک روز وہ بھی حرف آخر ہوا جنازے میں خاص و عام شامل تھے چڑھی لسمت دیکھیے
سات صفوں کا جنازہ ہوا ہر کوئیعلالے میں اس کی شرافت کے گن گا رہا تھا کئی دن بھورا بےرونك نہ ہوا اک آ رہا ہے تو اک جا رہا ہے اس کا بڑا لڑکا بھورا نشین رہا اپنے انداز سے باپ کے گن گاتا تھا کہتا تھا باؤ بہشی کوئی کچا چور نہ تھا بس اک ادھ بار پکڑا گیا پلس ٹل لگاتی رہی مگر وہ نہ مانا تھا لسم لے لو جو کبھی چوری کے جرم میں جیل گیا اس کی کوئی چوری پلس ریکارڈ میں نہیں یہ کھلی بکواس ہے کہ وہ چور تھا اس کے پکے پیڈے ہونے پر
سب عش عش کر اٹھے یہ بھی اس نے بتایا جب عمرا اس کی ماں کو بھگا کر لایا وہ اس کے پیٹ میں تھا نانا اس کا علالے کا بڑا کھنی خاں تھا زور اس نے ایڑی چوٹی کا لگایا مگر کہاں باؤ بہشی نے اس کی ایک بھی نہ چلنے دی بازو دے دیتا تو کیا لاج رہتی تھک ہار کر نانا ہی اس کا چپ ہو گیااس کے پاس اس کے سوا کوئی رستہ بھی نہ تھا آفرین آفرین فلک بوس نعرہ بلند ہوا عمو کماگر نے یہ لممہ دیا صدیوں بعد ایسے پوت جنم لیتے ہیں انو کہنے لگا ہمیں اس کی جی داری پر ناز ہے
شیر تھا دلیر تھا یہ سب کیوں تھا عمرے کا بڑا پوت باپ کے اصولوں کو بھول گیا تھا آغاز اس کا علالے سے ہوتا تھاجب کبھی خالی ہاتھ رہتا تو ہی رخ باہر کا کرتا محنت کی کمائی ہر کسی کو عزیز ہوتی ہے ٹی سی ہی وہ راہ تھی کہ وہ اس کے گھر سے ٹلا رہے اس حوالہ سے اس کے باؤ بہشتی کی ہر دل میں یاد تازہ بہ تازہ تھی اگلے ولتوں کے طور ہی کچھ اور تھے اپنے علالے کی عزت ہر آنکھ میں تھی آج خرابی گھر سے شروع ہوتی ہے خیر اب چوری کی رسم بد کب رہ گئی ہے یہ رسم اگلے ولتوں کی تھی
نمرود عصر بڑی کرسی پر بیٹھ کر ڈاکے ڈلواتا ہے سامان لٹ جائے خیر ہے اور آ جائے گا فرعؤن بچوں کو مرواتا تھایہ بچوں بوڑھوں ضعیفوں گریبوں مسکینوں کو بھی کھا پی جاتا ہے ہاں اتنا ضرور ہے عمرے کے لدموں پر ہے مگر اس کے حرامی بچے عمرے کے بچے کے پیرو ہیں لوگ آج بھی عمرے کو یاد کرتے ہیں منہ پر نہیں پر آگے پیچھے اس کے بیٹے کو برا بھلا کہتے ہیں کوئی کیا جانے
اس کے اچھا اور سچا ہونے میں مجھ کو کیا‘ کسی کو شک نہیں برے ولت میںاوروں کی طرح منہ پھیر نہیں لیتادامے درمے سخنے ساتھ رہتا ہے سچے کو سچا جھوٹے کو جھوٹا منہ پر کہتا ہے جینے کے لیے یہ طور اچھا نہیں اس کی اس گندگی عادت نے مفت میںاس کے کئی دشمن بنا رکھے ہیں اصل اندھیر یہ جن کے حك میں کہہ جاتا ہےوہ ہی اس سے منہ پھیر لیتے ہیں بہت کم
اسے پرے پنچایت میں بلایا جاتا ہے بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہو جاتی اٹھنے بیٹھنے کےمغرب نے ہمیں طور طریمے سکھائے ہیں بمول مغرب کے ابھی ہم چودہ سو سال پیچھے ہیں دس محرم کو اک ماتمی جلوس گزر رہا تھا اک انگریز جو ادھر سے گزر رہا تھا اس نے ساتھ چلتے چمچے سے پوچھا یہاں کیا معاملہ ہے کیا ہو رہا ہے چمچے نے بتایا حسین کی شہادت کا جلوس گزر رہا ہے وہ حیران ہوا اور کہا انہیں اب پتا چلا ہے چمچمے نے
وضاحت نہ کی اور ہاں میں ہاں ملائی وہ صاحب تھا یس سری کا ہی تو عوضانہ دیتا تھا میاں حك لناعت لیے پھرتا تھا تب ہی تو بھوکا مرتا تھا سب چھوڑوایک عادت اس کی عصری آدب سے لطعی ہٹ کر تھی کار لضا کبھی کسی تمریب میں بلا لیا جاتا دیسی کپڑوں میں چلا جاتا چٹے دیس کے اہل جاہ کی برائیاں گننے بیٹھ جاتا یہ بھی نہ دیکھتا کہ کوئی ناک منہ چڑھتا ہے لوگ کھانا کھانے کھڑے ہوتے زمین پر وہ رومال بچھا کر بیٹھ جاتا کانٹوں چمچوں کے ہوتے ہاتھ سے کھاتا
کھا کر اچھی طرح انگلیاں چاٹتا ٹشو پیپر کو چھوڑ کر ہاتھ دھوتا سچی بات ہے یہ اطوار دیکھ کر سب کو بڑی کراہت ہوتیہمارے ہاں اک اور سچ پتر رہتے ہیں معاملہ ان سے پوچھنے چلے گیے بمول اس کے میاں حك کا کہنا ہے کھڑے ہو کر کھانے سےشخص کا زمین سے رشتہ نہیں رہتا معدہ متاثرہوتا ہے دل دماغ اعصاب پر برا اثر پڑتا ہے بیٹھ کر کھانے سے جسم کا زمین سے رشتہ رہتا ہے زمین میں سو طرح کی دھاتیں ہیں جو جسم پر اپنے اثر چھوڑتی ہیں چوکڑی مار کر بیٹھنے سے
سکون کی کیفیت رہتی ہے ہر انگلی کو دل ہر لمحہ تازہ خون سپلائی کرتا ہے ہر شخص کے خون کا گروپ الگ ہوتا ہے ہاتھ ملانے گلے ملنے سے سو طرح کے جراثیموں سے مکتی ملتی ہے ہاں زنا کی بات اور ہے زانی تم نے دیکھے ہوں گے ذرا غور کرنا یک زنی اور صد زنی کے اطوار میں فرق کیا ہے حلالی حرامی کی پیدائش کو الگ رکھیےزانی کا بدن زانی کے بول زانی کی شخصیت فطری توزان میں نہیں رہتی
ہمارے اس سچ پتر پر میاں حك کی باتوں کا بڑا اثر ہوا ساری رام لیلی اس نے آ کر ہمیں سنائیسارے ان باتوں پر خوب ہنسے اور ٹھٹھا بنایا وہ رائی بھر بھی نہ ہنسا نہ مسکرایا ہم نے اسے بڑا ڈھیٹ کیا ٹس سے مس نہ ہوا سب یک زبان ہو کر بولے لو اک اور علالے کے گلے گلاواں پڑا میاں حك چل بسا رنگو نے آ کر اچانک یہ خبر سنائی محفل پر سکوت چھا گیا سچ پتر ڈھاڑیں مار کر رونے لگا لانون لدرت ہے سچ بالی رہے گا اسے بالی رہنا ہے کوئی کیا جانے
میاں حك علالے کا گہنا تھا اب سچ پتر گہنا ہے
Search
Read the Text Version
- 1
- 2
- 3
- 4
- 5
- 6
- 7
- 8
- 9
- 10
- 11
- 12
- 13
- 14
- 15
- 16
- 17
- 18
- 19
- 20
- 21
- 22
- 23
- 24
- 25
- 26
- 27
- 28
- 29
- 30
- 31
- 32
- 33
- 34
- 35
- 36
- 37
- 38
- 39
- 40
- 41
- 42
- 43
- 44
- 45
- 46
- 47
- 48
- 49
- 50
- 51
- 52
- 53
- 54
- 55
- 56
- 57
- 58
- 59
- 60
- 61
- 62
- 63
- 64
- 65
- 66
- 67
- 68
- 69
- 70
- 71
- 72
- 73
- 74
- 75
- 76
- 77
- 78
- 79
- 80
- 81
- 82
- 83
- 84
- 85
- 86
- 87
- 88
- 89
- 90
- 91
- 92
- 93
- 94
- 95
- 96
- 97
- 98
- 99
- 100
- 101
- 102
- 103
- 104
- 105
- 106
- 107
- 108
- 109
- 110
- 111
- 112
- 113
- 114
- 115
- 116
- 117
- 118
- 119
- 120
- 121
- 122
- 123
- 124
- 125
- 126
- 127
- 128
- 129
- 130
- 131
- 132
- 133
- 134
- 135