Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore مقصود حسنی کے تیس منظوم افسانے

مقصود حسنی کے تیس منظوم افسانے

Published by maqsood5, 2016-10-12 11:39:40

Description: abk_ksr_mh.851/2016
مقصود حسنی کے تیس منظوم افسانے
پیش کار: پروفیسر ہونس حسن
ابوزر برقی کتب خانہ
اکتوبر ٢٠١٦

Search

Read the Text Version

‫کھانے کو عذاب ٹکڑے‬‫پینے کو تیزاب بوندیں ملتی ہیں‬ ‫خود کشی حرام سہی‬‫مگر جینا بھی تو جرم ٹھہرا ہے‬ ‫ستاروں سے لبریز چھت کا‬ ‫دور تک اتا پتا نہیں‬‫ہوا ادھر سے گزرتے ڈرتی ہے‬ ‫بدلتے موسموں کا تصور‬ ‫شیخ چلی کا خواب ٹھہرا ہے‬ ‫یہاں اگر کچھ ہے‬ ‫تو‪'...........‬‬‫منہ میں زہر بجھی تلواریں ہیں‬ ‫پیٹ سوچ کا گھر‬ ‫ہات بھیک کا کٹورا ہوئے ہیں‬ ‫بچوں کے کانچ بدن‬ ‫بھوک سے‬

‫کبھی نیلے کبھی پیلے پڑتے ہیں‬ ‫اے صبح بصیرت!‬ ‫تو ہی لوٹ آ‬ ‫کہ ناگوں کے پہرے‬ ‫کرب زخموں سے‬ ‫رستا برف لہو‬ ‫تو نہ دیکھ سکوں گا‬ ‫سچ کے اجالوں کی حسین تمنا‬ ‫مجھے مرنے نہ دے گی‬ ‫اور میں‬ ‫اس بےوضو تمنا کے سہارے‬ ‫کچھ تو سوچ سکوں گا‬ ‫سوچ کے گھروندوں میں‬‫زیست کے سارے موسم بستے ہیں‬ ‫لاضی جرار حسنی‬

‫‪1974‬‬‫کیا یہ کافی نہیں‬ ‫اللہ بخشے نابخشے اللہ کی مرضی‬ ‫یہاں اک حاجی صاصب ہوا کرتے تھے‬ ‫پنج ولتے تھے‬ ‫ہاں صدلہ زکوت خیرت میں‬ ‫کافی بخل کرتے تھے‬ ‫حسیں بیبیوں کا دل کب توڑتے تھے‬ ‫دوریاں کم کرکے‬ ‫ان سے رشتے جوڑتے تھے‬ ‫ان کا کہنا تھا سچ بولو پورا تولو‬ ‫لوگوں کے لیے یہ ہی نصحیت تھی‬ ‫یہ الگ بات ہے‬

‫ان کے کہے پر یمین کرنا‬ ‫سو کا گھاٹا تھا‬ ‫کہا کب کرتے تھے‬ ‫کبھی اس سے الٹا بھی چل جاتے تھے‬ ‫اک عاشك اپنی معشولہ سے کہتا رہا‬ ‫ستارے تمہارے لیے توڑ لاؤں گا‬ ‫بپھرے دریا کی لہروں سے لڑ جاؤں گا‬ ‫اک روز فون پر اس کی معشولہ نے کہا‬‫آج باغ میں ملو‘ مجھے تم سے اک کام ہے‬ ‫جواب میں اس نے کہا‬ ‫کیوں نہیں‘ آؤں گا اگر بارش نہ پڑی‬ ‫ہمارے یہاں اک لیڈر ہوا کرتے تھے‬ ‫تھے بلا کے خوش خیال‬ ‫لباس میں اپنی مثال آپ تھے‬ ‫کار سے باہر جب لدم رنجہ فرماتے‬‫لوگ ان کی عیار معصومیت پر مر مر جاتے‬

‫پھول تو پھول جئے جئے کار نثار کرتے‬ ‫کہا کرتے تھے‬ ‫شہر کو پیرس بنا دوں گا‬ ‫شہر‘ شہر نہ بن سکا پیرس کہاں بنتا‬ ‫یہ جانتے کہ بےزر ہوں‬ ‫زبانی کلامی‬‫میں بھی گھر میں بیسیوں چیزیں لاتا ہوں‬ ‫بیگم کا اچھا مؤڈ اگر کبھی رہا ہو‬ ‫نور محل کبھی تاج محل‬‫لمحوں میں وائٹ ہاؤس سے کہیں بڑھ کر‬ ‫عمارت تعمیر کیے دیتا ہوں‬ ‫یہ الگ بات ہے‬ ‫آتے دنوں میں کچھ نہ ہو پانے پر‬ ‫عزت بچانے کی خاطر‬ ‫ٹھوک کر بیزتی کراتا ہوں‬ ‫کھسیانی ہنسی بھی ہنستا ہوں‬

‫چلو کچھ لمحے اچھے کچھ برے گزرتے ہیں‬ ‫جیون کوئی ٹھہرا پانی نہیں‬ ‫ناہی یہ بےبل پگ ڈنڈی ہے‬ ‫صالیحین کہتے آئے ہیں‬ ‫جو کہو وہ کرو‬ ‫ہم اہل شکم ضدین کے لائل ہیں‬ ‫کہنا اور کرنا زیست کے دو الگ رستے ہیں‬ ‫کہے بن بن نہیں آتی‬ ‫کرتے ہیں تو شکم پر لات لگتی ہے‬ ‫نہ کرنے میں ہی تو شکم کی سلامتی ہے‬ ‫جو شکم کا دشمن بنے گا‬ ‫نیزے چڑھے گا‬ ‫زہر کا پیالہ اس کا ممدر ٹھہرے گا‬ ‫آگ میں ڈالا جائے گا‬ ‫زبان سے کہتے رہو‬ ‫ہم جو کہتے ہیں وہ کرتے ہیں‬

‫ہم بھی یہ جانتے ہیں سننے والا بھی‬ ‫اس حمیمت سے بے خبر نہیں‬ ‫ہم اللہ اور اس کے رسول کا‬ ‫دل و جان سے احترام کرتے ہیں‬ ‫شیو ہو کہ وشنو‬ ‫موسی ہو کہ عیسی‬ ‫زرتشت ہو کہ مہآتما بدھ‬ ‫رام اور کرشن بڑے لوگ تھے‬ ‫بھلا ہم ان سے کیسے ہو سکتے ہیں‬ ‫ان کی ہر کرنی کو سلام و پرنام‬ ‫بےشک وہ عزت کی جا ہیں‬ ‫ان کی کہنی اور کرنی ایک تھی‬ ‫وہ ایک کے لائل تھے‬ ‫مصیبت میں رہے ہر لمحہ صعوبت میں رہے‬‫اپنی کہنی پر استوار کرنی کا پرنالہ نہ وہ بدل سکے‬ ‫وہ بڑے تھے بھوکے رہ سکتے تھے‬

‫ہماری ضرورتیں حاجتیں ان سے جدا‬ ‫وہ کہنی پر چل کر بڑے تھے‬ ‫کہہ کر نہ کرنے سے ہی مال آتا ہے‬‫اچھا کھاتے ہیں بڑے گھر میں رہتے ہیں‬ ‫لوگ سلام بلاتے ہیں‬ ‫یہ ہی نہیں ہم سے ڈرتے ہیں‬ ‫دنیا میں رہتے ہیں‬ ‫دنیا کی اور بڑائی کیا ہوتی ہے‬ ‫ان سے کون ڈرتا تھا‬ ‫ان کی کون سنتا تھا‬ ‫ان کے جو لدم لیتا رہا‬ ‫وہ ہی معتوب ہوا‬ ‫کیا یہ کم ہے کہ ہم خود سے گزر کر‬ ‫انہیں مانتے ہیں‬ ‫لبر میں کیا ہو گا حشر میں کیا ہو گا‬ ‫یہ آتے ولتوں کی بات ہے‬

‫لبروں میں ان پر کیا ہو رہا ہے‬ ‫کب کوئی دیکھ رہا ہے‬ ‫مجرم تب ٹھہریں گے‬ ‫جب کہنی پر کرنی استوار نہ مانیں گے‬ ‫یہ تو اصول حیات ہے‬ ‫اس کا کون کافر منکر ہے‬ ‫کیا یہ کافی نہیں‬ ‫اس پر ہمارا ایمان و یمین ہے‬‫اندھیر مچی دیکھیے‬ ‫دنیا کی عجب یہ ریت ہے‬ ‫سینہ زور‬ ‫سچے سچے اچے‬ ‫شاہ ہو ساہوکار کہ سیٹھ میاں‬ ‫گریب کے خون پسینے سے‬

‫شکم کی آگ بجھاتے ہیں‬ ‫تجوری اسی سے اپنی بھرتے ہیں‬ ‫کیسے آیا کون لایا یہ سرمایا‬ ‫کون پوچھے کس کی یہ مجال ہے‬ ‫گربت سے ان کا رشتہ کیا ہے‬ ‫گربت اور امارت‬ ‫الگ سے دو مخلوق ہیں‬ ‫وہ پہاڑ یہ رائی ہیں‬ ‫وہ کھائیں انواع عجیب وغریب‬ ‫یہ کھائیں فمط سراب نوالے‬ ‫سب جانتے ہیں‬ ‫ان کی بھری تجوری کا احوال‬ ‫جان کر بھی‬‫ان ڈاکوں کو سلام و پرنام بولا جاتا ہے‬ ‫کسی گریب بیٹی کو ڈولی بٹھاتے‬ ‫انہیں موت پڑتی ہے غش آتا ہے‬

‫لینا جانتے ہیں دینا ان کے میزان میں نہیں‬ ‫کوئی بھوک سے مرتا ہے تو مرے‬ ‫انہیں اس سے کیا‬ ‫ان کی بلا سے‬ ‫شب و روز کے ڈاکو‬ ‫صاحب اور صاحب عزت‬ ‫اندھیر مچی دیکھیے‬ ‫شب کے چور‘ ڈاکو ٹھہرے ہیں‬ ‫نظام کب ڈاکو تھا‬ ‫مشمتی تھا مشمتی گھر کا تھا‬ ‫سینہ زور آئے‬ ‫تکبر کی حد دیکھیے‬ ‫بےبس ماں کے سامنے‬ ‫نظام کی بہن کی عزت لوٹ لی‬ ‫اور چلتے بنے‬ ‫کون پوچھتا کس میں دم تھا‬

‫نظام کے ہم دیس سینہ زور کے ساتھ تھے‬ ‫چمچہ آنکھوں میں غیرت کہاں‬ ‫مار دیتے اس مردود کو‬ ‫زیادہ سے زیادہ کیا ہوتا‬ ‫مار دیے جاتے‬ ‫کیا اب وہ زندہ ہیں‬ ‫بےغیرت جیون سے موت اچھی‬ ‫دمڑی بھر سکوں کے لیے‬ ‫ضمیر کا سودا بڑا مہنگا ہے‬ ‫اگر وہ باغیرت موت مرتے‬ ‫تو زیست کے دل میں‬ ‫میرے للم میں‬ ‫ان کے لیے احترام ہوتا‬ ‫کنجر‬ ‫بہنوں کی عزت کی کمائی کھاتے ہیں‬ ‫صدمہ سے اس بچی کی ماں مر گئی‬

‫ردعمل تو ہونا تھا‬ ‫ردعمل‘ کوئی غیرفطری عمل نہیں‬ ‫گالی دو گے چانٹا کھاؤ گے‬ ‫نظام رات کو سینہ زوروں‬ ‫غیرت سے عاری لوگوں کی‬ ‫تجوریاں خالی کرتا‬ ‫گریبوں میں‬ ‫ان ہی کا خون پسینہ بانٹ دیتا‬ ‫اس طرح ان کا چولہا بھی گرم ہو جاتا‬ ‫مورکھ کے پنوں پر وہ ڈاکو رلم ہوا‬‫بےغیرت اس کے ہاں جگہ نہ پا سکے‬ ‫ہاں انہیں التدار کا وفادار کہا گیا‬ ‫چمچہ گیری کا بھی عجب رنگ ہے‬‫سینہ زور وچارہ ہوا اسے مظلوم کہا گیا‬ ‫واہ ری مجبور اور کم زور زندگی‬ ‫مجروع لاتل حملہ آور ممتول ٹھہرا‬

‫یادوں کی دودھ ندیا‬ ‫وہ نم صبح کی تمثال تھی‬ ‫خود اپنی مثال تھی‬ ‫پہلی بار جو میں نے اسے دیکھا‬ ‫مری آنکھوں میں زندگی اتر گئی‬ ‫دل کی ویران بستی میں‬ ‫زندگی کے ڈنکے بجنے لگے‬ ‫خوشی کے ترانے مچلنے لگے‬ ‫ہواؤں کا لہجہ بھی بدل گیا‬ ‫زیست کا گرم موسم‬ ‫رخ اپنا بدل گیا‬ ‫اس کے رخساروں کا عکس‬ ‫شفك کے پیلے رنگ بدلنے لگا‬

‫شفك کیا‘ افك بھی‬ ‫اس کی مسکان کے رنگ لینے لگا‬‫میں نے پیار سے جو چھوا اس کے رخسار کو‬ ‫اک کرنٹ سا لگا اور میں پیچھے ہٹ گیا‬ ‫وہ سراپا زندگی تھی‬ ‫میں صدیوں کا بےجان جسد تھا‬ ‫لا سے اثبات میں آیا نہ تھا‬ ‫نہ مجھ پر اپنی حمیمت کھلی تھی‬ ‫کیا تھا میں کون تھا‬ ‫اس کی مسرور آنکھوں میں‬ ‫مرے ہونے کی دلیل تھی‬ ‫مرے من آنگن میں اس نے‬ ‫لدم کیا رکھا‬ ‫فرشتے بھی سوچ کا بت بن گئے‬ ‫میں اور یہ خوبی لسمت‬ ‫سورج شاید مغرب سے نکل آیا تھا‬

‫دست لدرت سے یہ کب بعید ہے‬ ‫ان ہونی‘ ہونی میں بدل جاتی ہے‬ ‫اس کے مری من بستی میں‬ ‫لدم دھرنے کی دیر تھی‬ ‫خوشیاں ادھر بھی‬ ‫ادھر بھی برسنے لگیں‬ ‫میں اگلے روز جب کام پر آیا‬ ‫ابھی بیٹھا بھی نہ تھا‬ ‫دفتری نے‬ ‫اک سرکاری کاغذ مجھے تھمایا‬ ‫خوش نظروں سے مجھے دیکھنے لگا‬‫اس کی آنکھوں میں بخشیش کی تمنا تھی‬ ‫جوں ہی لفظ اس کاغذ کے‬ ‫مری نظروں سے گزرے‬ ‫بات ہی ایسی تھی کہ‬ ‫مرا ہاتھ جیب کی جانب بڑھ گیا‬

‫جو ہاتھ لگا‘ میں نے اسے نذر کیا‬ ‫خوشی سے وہ مسکرا اور چل دیا‬ ‫اس کاغذ نے مجھے بتایا‬ ‫ترلی نے مرے لدم لیے ہیں‬ ‫پھر مٹھائی آئی‬ ‫چائے بھی چلی‬ ‫کچھ دوست بولے‬ ‫حضرت اس سے تو نہ بات بنے گی‬ ‫آج تو نان مچھلی اڑے گی‬ ‫مرے دل سے‬ ‫کل کی خوشیوں کا خمار کب اترا تھا‬ ‫نان مچھلی کیا‬ ‫جان بھی مانگتے تو حاضر تھی‬‫خوشی کے خمار کی اپنی ہی بات تھی‬ ‫خوشیوں کے اوتار نے‬ ‫مجھے وہ کچھ دیا‬

‫جو مرے پاس کبھی نہ رہا تھا‬ ‫کرائے کا مکاں ملکیت میں بدل گیا‬ ‫میں بھی اپنا نہ رہا سب کا ہو گیا‬ ‫جو آتا خالی ہاتھ نہ جاتا‬ ‫کوئی مٹھی بھر‬ ‫کوئی جھولی بھر کے لے جاتا‬‫میں کون سا اپنے پلے سے دیتا رہا‬ ‫مرا کیا تھا‬ ‫جو مرے پاس تھا مالک کا دیا تھا‬ ‫جوانی سے بڑھاپے تک‬ ‫وہ پرخوش بو کنول‬ ‫مرے من آنگن کی زینت بنا رہا‬ ‫عجب ریت ہے اس زندگی کی‬ ‫جو آتا ہے چلا جاتا ہے‬ ‫میں بوڑھا ہو گیا ہوں‬ ‫بس اب جانے کو ہوں‬

‫بیٹیاں کب تادیر باپ کے گھر رہتی ہیں‬ ‫بس آج کل میں وہ بھی جانے کو ہے‬ ‫تب اکیلا تھا اب اکیلا نہیں رہوں گا‬ ‫اس کی پیار بھری مستیوں کی یاد‬ ‫مرا من آنگن سونا نہ ہونے دے گی‬ ‫جب تلک جیوں گا‬ ‫وہ مجھے بہلاتی رہیں گی‬ ‫دکھ درد بیماری میں‬ ‫مجھے سہلاتی رہیں گی‬ ‫تنہائی کے بھوت بھگاتی رہیں گی‬ ‫مری اس بےگیاہ زندگی کو‬ ‫یادوں کی دودھ ندیا سے‬ ‫سیراب کرتی رہیں گی‬ ‫تامرگ اسے بنجر نہ ہونے دے گی‬ ‫خیر سے اپنے سسرال جائے‬ ‫دودھ نہائے پوت کھیلائے‬

‫دکھ درد کا دور تک نام و نشاں نہ ہو‬ ‫اس کی زیست کے ہر موڑ پر‬ ‫خوشیوں کے پھول‬ ‫اس کا استمبال کرتے رہیں‬ ‫جس جیون کے ہر موڑ پر‬‫یادوں کے بلاگنت دریچے کھلتے ہوں‬ ‫سمجھو وہ جیون سفل رہا‬ ‫کچھ ہوا یا کیا تو ہی یادیں‬ ‫من آنگن میں ٹھکانہ کرتی ہیں‬ ‫میں نے کیا کرنا تھا‬ ‫مرے اللہ نے‬ ‫مجھے کبھی تنہا نہ رہنے دیا‬ ‫مری بچی مری جان‬ ‫کبھی کسی کے سامنے‬ ‫دست سوال دراز نہ کرنا‬ ‫جب بھی مانگنا اپنے اللہ سے مانگنا‬

‫اپنے خاوند سے مخلص رہنا‬ ‫جب باہر جائے خیر کی دعا کرنا‬‫جب گھر آئے دن بھر کی تھکن بھول کر‬ ‫تہ دل سے مسکرانا‬ ‫سو بسم اللہ کہنا‬ ‫دل میکے میں نہ رکھنا‬ ‫اپنے گھر میں مست رہنا‬ ‫کبھی کسی بات پر فخر تکبر نہ کرنا‬ ‫سب دیا اللہ کا دیا ہے‬ ‫جان رکھو سب اسی کا ہے‬ ‫ہاں کبھی کبھار‬ ‫اس بڈھے کو یاد کر لیا کرنا‬‫مر گیا تو بمدر بساط مغفرت کی دعا کرنا‬ ‫یہ ہی تحفہ ان مول ہو گا‬ ‫مری طرح‬ ‫اپنے باپ کو یاد کرکے نہ روتے رہنا‬

‫میں بےچارہ اس لابل کہاں‬ ‫ہاں وہ اس لابل ضرور ہے کہ‬ ‫اسے یادوں میں بسایا جائے‬ ‫ہر پل اللہ اسے لبر میں پرسکوں رکھے‬ ‫وہ وہاں کبھی تنہا نہ رہے‬ ‫اللہ کی عطائیں اس کے ساتھ رہیں‬‫اس کی عنائتیں لبر میں اس پر سایہ کیے رہیں‬ ‫جا مری ارحا خیر سے جانے کے لیے جا‬ ‫جا‘ جا کر وہاں خوشیوں کا جہان آباد کر‬ ‫خوشیوں کی جینی جی‬ ‫شاد رہ‬ ‫مجھ کو خود کو بھول کر‬ ‫سب کو شاد کر‬ ‫مری بچی مری جان جا‬ ‫جا خیر سے جا‬ ‫اللہ تم پر مہربان رہے‬

‫باؤ بہشتی‬ ‫باپ ہو کہ ماں‬ ‫معتبر ہیں محترم ہیں‬ ‫زندگی کی مشمت تو ہے ہی‬ ‫بچوں کے پالن پوسن کی بھی‬ ‫محبت سے پیار سے خلوص سے‬ ‫ماں مشمت اٹھاتی ہے‬ ‫زبان پر شکوے کا کلمہ‬ ‫کب لاتی ہے‬ ‫باپ بھی دنیا میں بےبدل رشتہ ہے‬ ‫منہ کا لممہ جیب میں رکھ لاتا ہے‬ ‫منا کھائے گا گڑیا کے کام آئے گا‬‫دونمبری کمائی اکیلا وہ کب کھا جاتا ہے‬

‫پیٹ بھر سہی‘ حصہ کے لممے‬ ‫پیٹ میں لے جاتا ہے‬ ‫عمرا چور اپنے بچوں پر جان دیتا تھا‬ ‫خراش بھی آتی تو تڑپ تڑپ جاتا تھا‬ ‫کس کے لیے‬‫آدھی رات کو گھر سے لدم باہر رکھتا تھا‬ ‫وہ ڈاکو نہیں تھا‬ ‫ہاں چوری میں نام خوب کمایا تھا‬ ‫پر اتنی بات ہے‬ ‫علالے کا ہر گھر عزیز رکھتا تھا‬ ‫اس ذیل میں‬ ‫کوئی اس پر انگلی اٹھا نہیں سکتا‬ ‫جانا تو ہے اس سے کب مفر ہے‬ ‫اک روز وہ بھی حرف آخر ہوا‬ ‫جنازے میں خاص و عام شامل تھے‬ ‫چڑھی لسمت دیکھیے‬

‫سات صفوں کا جنازہ ہوا‬ ‫ہر کوئی‬‫علالے میں اس کی شرافت کے گن گا رہا تھا‬ ‫کئی دن بھورا بےرونك نہ ہوا‬ ‫اک آ رہا ہے تو اک جا رہا ہے‬ ‫اس کا بڑا لڑکا بھورا نشین رہا‬ ‫اپنے انداز سے باپ کے گن گاتا تھا‬ ‫کہتا تھا‬ ‫باؤ بہشی کوئی کچا چور نہ تھا‬ ‫بس اک ادھ بار پکڑا گیا‬ ‫پلس ٹل لگاتی رہی مگر وہ نہ مانا تھا‬ ‫لسم لے لو‬ ‫جو کبھی چوری کے جرم میں جیل گیا‬ ‫اس کی کوئی چوری پلس ریکارڈ میں نہیں‬ ‫یہ کھلی بکواس ہے کہ وہ چور تھا‬ ‫اس کے پکے پیڈے ہونے پر‬

‫سب عش عش کر اٹھے‬ ‫یہ بھی اس نے بتایا‬ ‫جب عمرا اس کی ماں کو بھگا کر لایا‬ ‫وہ اس کے پیٹ میں تھا‬ ‫نانا اس کا علالے کا بڑا کھنی خاں تھا‬ ‫زور اس نے ایڑی چوٹی کا لگایا‬ ‫مگر کہاں‬ ‫باؤ بہشی نے اس کی ایک بھی نہ چلنے دی‬ ‫بازو دے دیتا تو کیا لاج رہتی‬ ‫تھک ہار کر نانا ہی اس کا چپ ہو گیا‬‫اس کے پاس اس کے سوا کوئی رستہ بھی نہ تھا‬ ‫آفرین آفرین فلک بوس نعرہ بلند ہوا‬ ‫عمو کماگر نے یہ لممہ دیا‬ ‫صدیوں بعد ایسے پوت جنم لیتے ہیں‬ ‫انو کہنے لگا‬ ‫ہمیں اس کی جی داری پر ناز ہے‬

‫شیر تھا دلیر تھا‬ ‫یہ سب کیوں تھا‬ ‫عمرے کا بڑا پوت‬ ‫باپ کے اصولوں کو بھول گیا تھا‬ ‫آغاز اس کا علالے سے ہوتا تھا‬‫جب کبھی خالی ہاتھ رہتا تو ہی رخ باہر کا کرتا‬ ‫محنت کی کمائی ہر کسی کو عزیز ہوتی ہے‬ ‫ٹی سی ہی وہ راہ تھی کہ‬ ‫وہ اس کے گھر سے ٹلا رہے‬ ‫اس حوالہ سے اس کے باؤ بہشتی کی‬ ‫ہر دل میں یاد تازہ بہ تازہ تھی‬ ‫اگلے ولتوں کے طور ہی کچھ اور تھے‬ ‫اپنے علالے کی عزت ہر آنکھ میں تھی‬ ‫آج خرابی گھر سے شروع ہوتی ہے‬ ‫خیر اب چوری کی رسم بد کب رہ گئی ہے‬ ‫یہ رسم اگلے ولتوں کی تھی‬

‫نمرود عصر بڑی کرسی پر بیٹھ کر‬ ‫ڈاکے ڈلواتا ہے‬ ‫سامان لٹ جائے خیر ہے‬ ‫اور آ جائے گا‬ ‫فرعؤن بچوں کو مرواتا تھا‬‫یہ بچوں بوڑھوں ضعیفوں گریبوں مسکینوں کو بھی‬ ‫کھا پی جاتا ہے‬ ‫ہاں اتنا ضرور ہے‬ ‫عمرے کے لدموں پر ہے‬ ‫مگر اس کے حرامی بچے‬ ‫عمرے کے بچے کے پیرو ہیں‬ ‫لوگ آج بھی عمرے کو یاد کرتے ہیں‬ ‫منہ پر نہیں پر آگے پیچھے‬ ‫اس کے بیٹے کو برا بھلا کہتے ہیں‬ ‫کوئی کیا جانے‬

‫اس کے اچھا اور سچا ہونے میں‬ ‫مجھ کو کیا‘ کسی کو شک نہیں‬ ‫برے ولت میں‬‫اوروں کی طرح منہ پھیر نہیں لیتا‬‫دامے درمے سخنے ساتھ رہتا ہے‬ ‫سچے کو سچا جھوٹے کو جھوٹا‬ ‫منہ پر کہتا ہے‬ ‫جینے کے لیے یہ طور اچھا نہیں‬ ‫اس کی اس گندگی عادت نے‬ ‫مفت میں‬‫اس کے کئی دشمن بنا رکھے ہیں‬ ‫اصل اندھیر یہ‬ ‫جن کے حك میں کہہ جاتا ہے‬‫وہ ہی اس سے منہ پھیر لیتے ہیں‬ ‫بہت کم‬

‫اسے پرے پنچایت میں بلایا جاتا ہے‬ ‫بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہو جاتی‬ ‫اٹھنے بیٹھنے کے‬‫مغرب نے ہمیں طور طریمے سکھائے ہیں‬ ‫بمول مغرب کے‬ ‫ابھی ہم چودہ سو سال پیچھے ہیں‬ ‫دس محرم کو‬ ‫اک ماتمی جلوس گزر رہا تھا‬ ‫اک انگریز جو ادھر سے گزر رہا تھا‬ ‫اس نے ساتھ چلتے چمچے سے پوچھا‬ ‫یہاں کیا معاملہ ہے کیا ہو رہا ہے‬ ‫چمچے نے بتایا‬ ‫حسین کی شہادت کا جلوس گزر رہا ہے‬ ‫وہ حیران ہوا اور کہا‬ ‫انہیں اب پتا چلا ہے‬ ‫چمچمے نے‬

‫وضاحت نہ کی اور ہاں میں ہاں ملائی‬ ‫وہ صاحب تھا‬ ‫یس سری کا ہی تو عوضانہ دیتا تھا‬ ‫میاں حك لناعت لیے پھرتا تھا‬ ‫تب ہی تو بھوکا مرتا تھا‬ ‫سب چھوڑو‬‫ایک عادت اس کی عصری آدب سے لطعی ہٹ کر تھی‬ ‫کار لضا کبھی کسی تمریب میں بلا لیا جاتا‬ ‫دیسی کپڑوں میں چلا جاتا‬ ‫چٹے دیس کے اہل جاہ کی‬ ‫برائیاں گننے بیٹھ جاتا‬ ‫یہ بھی نہ دیکھتا کہ کوئی ناک منہ چڑھتا ہے‬ ‫لوگ کھانا کھانے کھڑے ہوتے‬ ‫زمین پر وہ رومال بچھا کر بیٹھ جاتا‬ ‫کانٹوں چمچوں کے ہوتے‬ ‫ہاتھ سے کھاتا‬

‫کھا کر اچھی طرح انگلیاں چاٹتا‬ ‫ٹشو پیپر کو چھوڑ کر ہاتھ دھوتا‬ ‫سچی بات ہے یہ اطوار دیکھ کر‬ ‫سب کو بڑی کراہت ہوتی‬‫ہمارے ہاں اک اور سچ پتر رہتے ہیں‬ ‫معاملہ ان سے پوچھنے چلے گیے‬ ‫بمول اس کے میاں حك کا کہنا ہے‬ ‫کھڑے ہو کر کھانے سے‬‫شخص کا زمین سے رشتہ نہیں رہتا‬ ‫معدہ متاثرہوتا ہے‬ ‫دل دماغ اعصاب پر برا اثر پڑتا ہے‬ ‫بیٹھ کر کھانے سے‬ ‫جسم کا زمین سے رشتہ رہتا ہے‬ ‫زمین میں سو طرح کی دھاتیں ہیں‬ ‫جو جسم پر اپنے اثر چھوڑتی ہیں‬ ‫چوکڑی مار کر بیٹھنے سے‬

‫سکون کی کیفیت رہتی ہے‬ ‫ہر انگلی کو دل ہر لمحہ‬ ‫تازہ خون سپلائی کرتا ہے‬ ‫ہر شخص کے خون کا گروپ الگ ہوتا ہے‬ ‫ہاتھ ملانے‬ ‫گلے ملنے سے‬ ‫سو طرح کے جراثیموں سے‬ ‫مکتی ملتی ہے‬ ‫ہاں زنا کی بات اور ہے‬ ‫زانی تم نے دیکھے ہوں گے‬ ‫ذرا غور کرنا‬ ‫یک زنی اور صد زنی کے اطوار میں‬ ‫فرق کیا ہے‬ ‫حلالی حرامی کی پیدائش کو الگ رکھیے‬‫زانی کا بدن زانی کے بول زانی کی شخصیت‬ ‫فطری توزان میں نہیں رہتی‬

‫ہمارے اس سچ پتر پر‬ ‫میاں حك کی باتوں کا بڑا اثر ہوا‬ ‫ساری رام لیلی اس نے آ کر ہمیں سنائی‬‫سارے ان باتوں پر خوب ہنسے اور ٹھٹھا بنایا‬ ‫وہ رائی بھر بھی نہ ہنسا نہ مسکرایا‬ ‫ہم نے اسے بڑا ڈھیٹ کیا‬ ‫ٹس سے مس نہ ہوا‬ ‫سب یک زبان ہو کر بولے‬ ‫لو اک اور علالے کے گلے گلاواں پڑا‬ ‫میاں حك چل بسا‬ ‫رنگو نے آ کر اچانک یہ خبر سنائی‬ ‫محفل پر سکوت چھا گیا‬ ‫سچ پتر ڈھاڑیں مار کر رونے لگا‬ ‫لانون لدرت ہے‬ ‫سچ بالی رہے گا اسے بالی رہنا ہے‬ ‫کوئی کیا جانے‬

‫میاں حك علالے کا گہنا تھا‬ ‫اب سچ پتر گہنا ہے‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook