Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore ادبی مطالعے

ادبی مطالعے

Published by maqsood5, 2017-03-30 04:53:46

Description: ادبی مطالعے
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
مارچ ٢٠١٧

Search

Read the Text Version

‫‪151‬‬ ‫‪.‬انداز نہیں کی ج سکت‬‫اس کت کے پہ ے حصہ میں' تمہید کے ب د' ہدای ت ب عنوان۔۔۔۔ ہدای ت‬ ‫و اصول م ص ہ ذیل پر افسران دیوانی ن آزمودء ک ر کو توجہ کرن‬ ‫'چ ہیے۔۔۔۔۔‬ ‫دوسرے حصہ میں ۔۔۔۔۔۔۔ فہرست ابوا گنج سوالات ق نون دیوانی پنج‬ ‫ج کہ تیسرے حصہ میں۔۔۔۔۔سوالات دستورال مل ق نون دیوانی پنج '‬ ‫دیے گیے ہیں۔‬ ‫کت انچ س ص ح ت پر مشتمل ہے۔‬‫رموز ک اہتم نہیں کی ج ت تھ ۔ اس کت میں بھی رموز ک اہتم نہیں‬‫کی گی ۔ یہ امر چوں کہ رواج میں نہ تھ ' س لیے اسے' مکتوبی نقص‬ ‫نہیں سمجھ ج سکت ۔ فقرے لمبے بن نے ک رواج تھ ۔ یہ کت چوں‬‫کہ سوالات اور ہدای ت سے مت ہے' اس لیے اس ذیل سے ب ہر ہے‪.‬‬‫ہ ں ب ض جگہوں پر مث لیں م تی ہیں‪ .‬مثلا تمہید تقریب چھے سطور پر‬ ‫مشتمل ہے۔ یہ بلا رموز اور ایک ہی فقرہ میں ہے۔ کت کی تحریر‬ ‫ش ئستہ اور رواں دواں ہے۔ چند امور' لس نی تی اور مکتوبی طور کے‬ ‫حوالہ سے' آج اور گزرے کل کی شن خت ک ذری ہ ہیں۔ مثلا‬ ‫دو ل ظ ملا کر' لکھن ع تھ اور اس کی مث لیں' اس کت میں جگہ‬

‫‪152‬‬ ‫جگہ پر م تی ہیں۔ مثلا‬ ‫جنکے' کونسی' کسب ت' کسکو' قرضخوانونکی وغیرہ‬ ‫ف رسی آمیز دو مرک ل ظ بھی پڑھنے کو م تے ہیں۔ مثلا‬ ‫درصورتکہ‬ ‫اس کت میں' تین ل ظوں کو ملا کر لکھنے کی' بہت سی مث لیں م تی‬ ‫ہیں۔ مثلا‬ ‫کسطرحکی' کسطرحپر' کسطرحک ' کسیطرحکی' کسطرحسے'‬ ‫کیصورتمین' اس یئیکہ' دونوب تونک وغیرہ‬‫ل ظوں میں واؤ کی بڑھوتی م تی ہے' جو آج متروک ہو چکی ہے۔ مثلا‬ ‫اوس' اون' ج وے' اوٹہ نی وغیرہ‬ ‫نون غنہ ک است م ل ب لکل نہیں م ت ' ح لاں کہ نون غنہ اردو کے‬ ‫حروف ابجد میں موجود تھ ۔ نون غنہ کی جگہ' نون است م ل میں لای‬ ‫گی ہے۔ مثلا‬ ‫مین' ب تین' ہین' عورتین' نہین وغیرہ‬ ‫یہ کو ڈبل حے مقصورہ کے س تھ رق کی گی ہے‪ .‬ی نی یہہ‬ ‫بھ ری آوازوں ک است م ل نہیں کی گی ۔ ان کی جگہ حے مقصورہ‬ ‫است م ل کی گئی ہے۔ مثلا‬ ‫دہوک ' پیچہے'س تہ' بہ ئی' رکہت وغیرہ‬ ‫دو جگہ مہ پران ک است م ل بھی ہوا۔ مثلا ہدایت کے لیے' ھدایت اور‬

‫‪153‬‬ ‫پہلا کے لے' پھلا رق کی گی ہے۔‬ ‫چ کے لیے ج است م ل کی گئی ہے۔ ی نی دی چہ کو دیب جہ کت بت کی گی‬ ‫ہے۔‬ ‫ٹ کی جگہ ت' است م ل میں لائی گئی ہے۔ مسٹر کو مستر لکھ گی‬ ‫ہے۔‬ ‫دونوں کو' دونو لکھ گی ہے‪ .‬ی نی ں ی ن ک است م ل نہیں گی ۔ ں‬ ‫حشوی سہی' لیکن آج رواج ع میں ہے۔‬‫ء کی جگہ' ی ک است م ل ہوا ہے۔ یہ ف رسی کی ییروی میں ہے' ح لاں‬ ‫کہ ہمزہ اردو حروف ابجد میں' داخل تھی۔ جیسے دائرہ کی بج ئے‬ ‫دایرہ لکھ گی ہے۔‬ ‫گ ف کے لیے' ک ف ک است م ل ہوا ہے۔ ی نی ڈگری کو ڈکری لکھ گی‬ ‫ہے۔‬ ‫ڑ کی جگہ ڈ ک است م ل کی گی ی نی بڑھ ن کو بڈہ نہ تحریر میں لای‬ ‫گی ہے۔‬ ‫ت کی جگہ ط ک است م ل ہوا ہے۔‬ ‫تی ری کو طی ری رق کی گی ہے۔‬ ‫ا کچھ جم یں ملاحظہ ہوں۔‬ ‫ن لش ت' ہنڈوی ت' ڈکری ت' سرک رات' بواعث' ہنڈویوں وغیرہ‬

‫‪154‬‬ ‫ے کو ی کی طرز پر رق کی گی ہے' ۔فر صرف اتن ہے کہ نیچے‬ ‫سے' گول نہیں کی گی ۔ ڈبل آنے کی صورت میں پہ ی ی کو حس‬ ‫روٹین ج کہ دوسری کو ے کی شکل میں درج کی گی ہے۔‬‫آج ل ظ دیوالیہ لکھ ج ت ہے' ج کہ اس میں ی ش مل نہیں۔ ی نی دوالہ‬ ‫لکھ گی ہے۔‬ ‫‪.‬اردو اور انگریزی مرک پڑھنے کو م تے ہیں‬ ‫پنج وسرک رات' منیجر وغلا محمد پرنٹر‬ ‫اسی طرح' دو انگریزی ل ظوں کو واؤ سے ملای گی ہے۔‬ ‫کمشنر و سپرنٹنڈنٹ‬ ‫ہر دو میں' واؤ الگ سے بولت ہے۔‬ ‫دیسی روایت بھی م تی ہے‪ .‬مثلا فش و ہدایت‬ ‫اض فتی مرک بھی پڑھنے کو م تے ہیں۔ مثلا دعوی ن بین ' ک ید گنج‬ ‫ایک مرک بلا اض فت ملاحظہ ہو‪ :‬ن بین حک‬ ‫زب ن پر مق میت کے بھی اثرات م تے ہیں۔ مثلا‬ ‫ذمہ واری' دوالہ' نظیر دیو' چودہریوں وغیرہ‬ ‫ل ظ اردوائے بھی گیے ہیں۔ مثلا تمسکی‬ ‫یہ کت ' اگرچہ ق نون اور ض بطہ سے مت ہے' لیکن اس کے‬

‫‪155‬‬ ‫مندرج ت کے مط ل ہ سے' ڈیڑھ سو سے زائد عرصہ پہ ے کی'‬ ‫سرک ری ی نی دفتری اردو پڑھنے ک موقع م ت ہے۔ چوں کہ یہ عوا‬‫سے مت ہے' اس لیے اس میں' عوامیت بھرپور انداز میں م تی ہے۔‬ ‫یہ بھی کہ سرک ری' مزاج و رویہ اور عوا ' خصوص اور گوروں کے‬ ‫م بین ت ری وامتی ز س منے آتی ہے۔ ق نون' سم ج اور مذہی ضوابط‬ ‫کو' متوازی رکھتے ہوئے' یہ کت ترکی پ ئی ہے۔ اردو خط میں'‬ ‫انگریزی ال ظ است م ل ہوئے ہیں' لیکن بہت ک ۔ اس کی روانی اور‬ ‫شستگی مچھے اچھی لگی ہے۔‬ ‫‪31-12-2014‬‬

‫‪156‬‬ ‫ڈاکٹر عبد ال زیز س حر کی ایک ق بل تق ید تدوینی ک وش‬ ‫تدوینی ک بھی' اپنی اصل میں' تخ یقی عمل ک حصہ ہے۔ یہ حد درجہ‬‫حس س عمل تو ہے ہی' دوسری طرف انتہ ئی ذمہ داری ک ک ہے۔ اس‬ ‫ک کی انج دہی میں' م مولی کوت ہی اور غ ت کی گنج ئش نہیں‬ ‫ہوتی۔ م مولی سی کوت ہی اور غ ت' صدیوں کے لیے مخممصے پیدا‬ ‫کر دیتی ہے۔ یہ مخمصے درحقیقت' متن کی ت ہی میں خرابی ک سب‬ ‫بن ج تے ہیں۔ آتے وقتوں میں' اصل کو کر کھ چکی ہوتی ی وہ ردی‬ ‫چڑھ چکے ہوتے ہیں ی ان تک رس ئی ن ممکن ت کی وادی میں داخل‬‫ہو چکی ہوتی ہے۔ ہونے والے ک آس نی ں پیدا کرنے کی بج ئے' ب ض‬ ‫لای نی پچیدگیوں ک سب بن ج تے ہیں۔‬ ‫ہم رے ہ ں زی دہ تر' ذاتی دل چسپی سے ہٹ کر' تدوینی ک محض‬ ‫خ نہ پری کی حد تک ہوا ہے اور یہ ہی ک پچیدگیوں کے دروازے‬ ‫کھولت آی ہے۔ ایس بھی ہوا ہے' ص ح کت ہونے ک ' ن کے س تھ‬ ‫لیبل چسپ ں کرنے کے لیے' کت ک دیب چہ لکھ دی اور دیب چے میں‬ ‫اپنی کوشش کو بڑھ چڑھ کر پیش کر دی اور کی ' بس۔ یہ ہی نہیں'‬ ‫خ نہ پری کے لیے' دو چ ر تبصرے لکھوا لیے۔ تبصرہ نگ ر نے'‬ ‫چوں کہ کت کو پڑھ ہی نہیں ہوت ' اس لیے وہ بھی محض ٹوٹل پری‬ ‫کے لیے' مرت کی ہمتوں اور شخصی اوص ف ہی کو موضوع گ تگو‬‫بن ت ہے۔ لوگ ان تبصروں کو مدنظر رکھتے ہوئے' ت لیف کی حیثیت و‬ ‫اہمیت ک ت ین کرتے آئے ہیں۔‬

‫‪157‬‬ ‫ڈاکٹر عبد ال زیز س حر میرے دیرینہ اور بہت اچھے دوستوں میں ہیں۔‬ ‫انہوں نے نہ یت مہرب نی فرم تے ہوئے۔۔۔۔ خیرالاذک ر فی من ق‬ ‫الابرار۔۔۔۔ از مولوی محمد گھ وی مرید خواجہ نور محمد ث نی ن رووالہ‬ ‫رح عن یت فرم ئی۔ ترتی و تہذی اور حواشی لکھنے کی' اللہ نے‬ ‫موصوف کو توفی عط فرم ئی۔ کت پر' جس محنت اور لگن سے ک‬ ‫کی گی ہے' اس کے مط ل ہ کے لیے بھی' اس سی ی اس سے بہت‬ ‫قری کی لگن اور ذو کی ضرورت ہے۔ میں نے کئی ب ر پڑھ ' غور‬ ‫کی ' ہر ب ر یہ ہی محسوس کی ' کہ مجھ س بےچ رہ تھوڑ ع ' اس پر‬ ‫کی ' کیسے اور کیوں کر ب ت کر سکت ہے۔ یہ عرصہ پہ ے کی ف رسی‬‫ہے' اس کے ب وجود ت زگی اور لس نی حسن میں' رائی بھر فر نہیں‬ ‫آی ۔ اس میں عصری لس نی تی سواد اور ذائقہ موجود ہے۔ ب طور ذائقہ‬ ‫‪:‬فقط یہ جم ہ اور ش ر ملاحظہ فرم ئیں‬ ‫وروزی در جوا استدع ی غلامی کہ در ب ب نوا غ زی الدین گل‬ ‫‪:‬ہ ی رنگ رنگ شگ تہ اند' تم ش ی آن ب ید کرد۔ این بیت فرمودند کہ‬ ‫م اسیراں را تم ش ی چمن درک ر نیست‬ ‫دا ہ ی سینہ م ک تر از گ زار نیست‬ ‫یہ تخ ی ' ن صرف ایک ع ل ف ضل کی ہے' ب کہ ایک ب مرشد ع مل کی‬ ‫بھی ہے' جو گزرے وقت کے پ کیزہ لمحوں کی ی د دلاتی ہے۔ کردار‬ ‫س زی کے عم ی نمونے بھی پیش کرتی ہے۔ بڑے لوگوں کے کرنے‬ ‫اور کہنے کے اطوار وانداز سے' آگ ہ کرتی ہے۔ بہت سے ان سنے'‬ ‫مگر کم ل کے لوگوں سے' م نے کے مواقع مہی کرتی ہے۔‬

‫‪158‬‬ ‫نثر میں' حسن و شی تگی کے عن صر اج گر کرنے کے لیے' گ ہے بہ‬ ‫گ ہے ش ر بھی است م ل کیے گیے ہیں' جو حضرت ص ح کے اع ی‬ ‫ذو کی نش ندہی کرتے ہیں۔ ب ت یہ ں تک محدود نہیں' ان کی ج ر‬ ‫ش ری تخ یق ت اس تصنیف ک حصہ ہیں۔ ان میں دو آق کری کی ن ت‬ ‫ہیں' ج کہ ب قی دو غزلیں ہیں۔ ایک ن ت ف رسی میں' ج کہ دوسری‬‫عربی میں ہے۔ اسی طرح ایک غزل ف رسی' ج کہ دوسری غزل عربی‬ ‫اور ف رسی میں ہے' ی نی پہلا مصرع ف رسی' ج کہ دوسرا مصرع‬ ‫عربی میں ہے۔ چ روں ش ری تخ یق ت کم ل کی ہیں‪ .‬ب طور نمونہ‬ ‫‪:‬صرف تین ش ر ملاحظہ ہوں‬ ‫تو پ دش ہی من گدا' تو قب ہ من قب ہ نم‬ ‫ای پیشوای مرسلاں مشت دیدار تو ا‬ ‫‪..............‬‬ ‫من بداں حضرت ع لی کہ غمش سینہ گداخت‬ ‫رس آخر بہ نش طی کہ بداں دلبر م بود‬ ‫گرچہ بدک ر و بیک ر ام بدو صد دل‬ ‫دار امید بش ہی کہ نگ ہش بگدا بود‬ ‫ان اش ر کے حوالہ سے' حضرت ص ح کے ن صرف ذو ش ر ک‬ ‫اندازہ لگ ی ج سکت ہے' ب کہ ل ظوں کے است م ل کے ہنر سے آگہی'‬ ‫ک بھی پت چ ت ہے۔‬ ‫ڈاکٹر عبد ال زیز س حر نے' اس تخ ی کی تدوین کے ذیل میں' اتہت ئی‬

‫‪159‬‬‫ذمہ داری ک ثبوت دی ہے۔ ان کے ک میں س یقہ اور ن ست پ ئی ج تی‬ ‫ہے۔ مثلا‬ ‫نثری رموز ک خی ل نہیں رکھ ج ت تھ ' ی پھر یہ مست مل ہی نہ ‪1-‬‬ ‫تھیں۔ میرے پ س میرے بڑوں کے' سو سے س ڑھے س ت سوس ل‬ ‫کے' اردو' پنج بی اور ف رسی مخطوطے پڑے ہیں اور میں ان پر'‬ ‫بس ط بھر ک بھی کر رہ ہوں۔ ان میں سے ایک بھی نہیں' جس میں‬ ‫رموز ک است م ل کی گی ہو' ڈاکٹر عبد ال زیز س حر نے اس ن ی‬ ‫تخ ی کے' اصل متن میں رموز ک است م ل کرکے' اس کے مط ل ہ کو‬‫آس ن بن دی ہے۔ ان کی اس کوشش سے ت ہیی پچیدگیوں سے ایک حد‬ ‫تک سہی' نج ت مل ج تی ہے۔‬‫تذکرے ی اس قس تخ یق ت عموم رواں روی میں لکھی گئی ہوتی ‪2-‬‬ ‫ہیں۔ یہ بھی کہ اصل مسودے وقت کی دھول میں کھو گیے ہوتے ہیں۔‬ ‫ک ت بھی' اپنی ع می ک رہ گری میں ہ تھ دکھ گیے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر‬ ‫عبد ال زیز س حر نے مسنگز کو' متن ک حصہ بن نے کی بج ئے'‬ ‫بریکٹوں میں درج کر دی ہے۔‬ ‫‪:‬قوسین میں مسنگز کے علاوہ ‪3-‬‬‫ا۔ ت ظیمی ک مے درج کرکے' ان بزرگوں سے' اپنی محبت اور عقیدت و‬‫س دت مندی ک اظہ ر کر گیے ہیں۔ بےشک اللہ بہتر اجر دینے والا ہے۔‬ ‫۔ شخص سے مت امرجہ ک اندراج کر دی ہے۔‬ ‫ج۔ اللہ کری کی ذات گرامی کے س تھ ت ظیمی ک مے بڑھ ئے گیے ہیں۔‬

‫‪160‬‬ ‫د۔ جہ ں محض اش رہ ہے' وہ ں مت قہ ک ن لکھ دی گی ہے۔‬ ‫ھ۔ کی یت ک بڑی خوبی سے اندراج کی گی ہے۔ مثلا‬ ‫ودو سہ ک مہ در آن ح لت و رقص' یہ ں قوسین میں جلالت درج کر دی‬ ‫گی ہے۔‪.......‬بر زب ن مب رک می راندند و در فہ من نمی آمدند' ام آن‬ ‫ک م ت را فرای د گرفت ۔ ص۔‪ϴϲ‬‬ ‫ل ظوں کو ملا کر لکھنے ک رواج تھ ' انہوں نے نثر کو عصری ‪4-‬‬ ‫مزاج اور مست مل انداز میں' پیش کی ہے۔ اس سے پڑھنے میں' آج‬ ‫کے ق ری کے لیے آس نی پیدا ہوئی ہے۔‬‫ڈاکٹر عبد ال زیز س حر نے ک ک دائرہ' متن کی ذمہ دارانہ اور ب س یقہ‬ ‫پیش کش تک محدود نہیں رکھ ' ب کہ مقدمہ تحریر کی ہے‪ .‬انہوں نے‬‫مقدمے کو ب رہ حصوں میں تقسی کی ہے۔ اس تقسی سے' ت یہی میں‬ ‫اآس نی اور اس پیش کش کی ادبی و فکری قدروقیمت ک اندازہ ہوت‬ ‫ہے۔‬ ‫مقدمے کے پہ ے حصہ میں' مولوی گھ وی ص ح ک ت رف اور اس‬ ‫تخ ی کی ذیل میں' ان کی مصروفی ت کے ب رے میں' م وم ت فراہ‬ ‫کی گئی ہیں۔ ان م وم ت کے حوالہ سے' مولوی گھ وی ص ح کی‬ ‫ع دات و اطوار اور عمومی رویے سے بھی آگہی دستی ہوتی ہے۔‬ ‫کت خ نہ تونسہ شریف اور کت خ نہ مولان محمد ع ی مکھڈ شریف‬ ‫میں موجود سولہ کت کی فہرست دی گئی ہے۔‬ ‫مقدمے کے دوسرے حصہ میں' خیرالاذک ر کے آخر میں موجود چ ر‬

‫‪161‬‬ ‫منظوم ت' یہ ں الگ سے ب طور خ ص پیش کی گئی ہیں ابتدا میں ان‬ ‫کے پیش کرنے کی توضیح دی گئی ہے۔‬ ‫مقدمے کے چوتھے حصہ میں مولوی گھ وی ص ح کے سقر آخر ک‬‫احوال بی ن کی ہے۔ اس ذیل میں ران غلا یسین کے ایک خط ک اقتب س‬ ‫دی ہے۔ یہ اقتب س اس ذیل میں بڑی اہمیت ک ح مل ہے۔‬ ‫مقدمے کے پ نچویں حصہ میں' خیرالاذک ر ک مختصر تخ یقی ت رف‬ ‫اور اس کے سن تخ ی کے مت گ تگو کی گئی ہے۔‬ ‫مقدمے کے چھٹے حصہ میں' اس تخ ی کی زب ن' روح نی حیثیت اور‬ ‫ت ریخی اہمیت کو واضح کی گی ہے۔‬ ‫مقدمے کے س تویں حصہ میں' اس تضنیف کی ترتی وتہذی میں جن‬ ‫امور کو مدنظر رکھ گی اور جن جن سورسز کو است م ل کی گی ہے'‬ ‫ان ک کم ل اختص ر کے س تھ' بی ن کی گی ہے‬ ‫آٹھواں حصہ' اختص ر کی بڑی ہی ش ن دار مث ل ہے۔ چند سطور میں'‬ ‫مقدمہ کے س تویں حصہ کے نت ئج درج کر دیے گیے ہینگی‬ ‫مقدمے کے نواں حصہ میں'خیرالاذک ر کی ترتی وتہذی کے دوران'‬ ‫جن امور کو مدنظر رکھ گی ' رق کیے گیے ہیں۔‬‫دسویں حصہ میں جس نسخے کو بنی دی رکھ گی ' اس کی چھے وجوہ‬ ‫درج کی ہیں۔‬ ‫گی رواں حصہ' ایک تحقیقی وض حت سے مت ہے' ج کہ ب رہواں‬

‫‪162‬‬ ‫حصہ کت کی تکمیل اور احب کے شکریہ وغیرہ سے مت ہے۔‬ ‫مزے ب ت یہ کہ مقدمہ قی فی نہیں' جو کہ گی ہے' دلیل اور سند کے‬ ‫س تھ کہ گی ہے۔ متن کو ثق لت سے بچ نے کے لیے' حواشی ک اہتم‬ ‫کی گی ۔ یہ ت داد میں تیس اور چھے سے زی دہ ص ح ت پر مشتمل‬ ‫ہیں۔حواشی سمیت مقدمہ انتیس سے زی دہ ص ح ت لیے ہوئے ہے۔‬ ‫کت ک اصل متن ص‪ ϯϳ:‬ت ص‪ ϵϵ:‬ج ت ہے۔ کت کی ضخ مت ‪ϭϰϭ‬‬ ‫ص ح ت ہے۔ ص‪ ϭϬϬ‬سے ‪ ϭϯϭ‬تک متن کے مت حواشی ہیں۔‬ ‫ص‪ ϭϯϮ:‬ت ص‪ ϭϰϭ:‬پر اش رہ اور کت بی ت ہیں۔‬ ‫خدا لگتی تو یہ ہے' زیر مط ل ہ ک اپنی نوعیت ک ' پروق ر اور پر‬ ‫‪:‬س یقہ ک ہے۔ حواشی کی ہیں' م وم ت ک بہت دری ہیں۔ ان میں‬ ‫‪.‬اشخ ص اور اشخ ص کے مت م وم ت فراہ کی گئی ہیں ‪1-‬‬‫امرجہ اور ان کی متن سے مت اشخ ص کی نسبت ی ت واضع ‪2-‬‬ ‫کی گی ہے۔‬ ‫کئی امور کے مت وض حتی نوٹ ہیں۔ ‪3-‬‬ ‫ب ض م ملات کی تشریح کی گئی ہے۔ ‪4-‬‬ ‫ب ض کت کی طرف اش رے ہیں۔ ‪5-‬‬ ‫بہت سی ع می و ادبی م وم ت درج کی گئی ہیں۔ ‪6-‬‬ ‫کچھ ک رگزاریوں ک تذکرہءخیر کی گی ہے۔ ‪7-‬‬

‫‪163‬‬ ‫ب ض اش ر کے ش را کے ن درج کیے گیے ہیں۔ ‪8-‬‬‫ہم رے ہ ں ف رسی تقریب خت سی ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر عبد ال زیز س حر ک‬ ‫کم ل یہ ہے' کہ انہوں نے متن کی ترتی ' مقدمہ اور حوشی کے‬ ‫ذری ے' اردو سے مت لوگوں کے لیے بھی' اس ک مط ہ بڑی حد‬‫تک آس ن بن دی ہے۔ اگر ترجمہ بھی س تھ میں پیش کر دی گی ہوت ' تو‬ ‫مزید بہہ ج بہہ ہو ج تی۔ تدوینی ک کرنے والوں کو چ ہیے' کہ وہ ک‬ ‫کرنے سے پہ ے' اس ک وش کو ایک نظر ضرور دیکھ لیں' ب کہ اسے‬ ‫نمونہ بن نے میں ع ر نہ سمجھیں۔ اس سے ان کے ک کو وق ر اور‬‫ثروت میسر آئے گی۔ ڈاکٹر عبد ال زیز س حر اس ب س یقہ اور پر مشقت‬ ‫ک ر گزاری کے لیے' ڈھیر س ری داد کے مسح ہیں۔ اللہ انہیں برکت‬ ‫دے اور اس نیک ک ک بہتر اجر عط فرم ئے۔‬

‫‪164‬‬ ‫شریف س جد کی غزلوں کے ردیف‬ ‫سیم بی فکر کے ح مل لوگ‘ قرار سے دور رہتے ہیں۔ ہر لمحہ نئی‬‫سوچ اور نئے انداز و اطوار‘ ان کی زندگی ک لازمہ و لوازمہ رہت ہے۔‬ ‫زندگی کے بدلتے موس ‘ ان کے سوچ سمندر میں کنکر پتھر تنکے‬ ‫پھینکتے رہتے ہیں۔ یہ م م ہ ٹھہر ٹھہر کر نہیں‘ تس سل کے س تھ‬ ‫ج ری رہت ہے۔ یہ بےقرار اور بےچین سے لوگ ہی‘ زندگی کو کچھ‬ ‫نی اور الگ سے دیتے ہیں۔ اس میں ان کی دانستگی ک عنصر‘ ش مل‬ ‫نہیں ہوت ۔ یہ خودک ر عمل‘ ان کے اندر ج ری رہت ہے۔ یہ لوگ زندگی‬ ‫اور اس کے م ملات کو‘ نئی ت ہی ہی نہیں‘ نئی ہئیتیں بھی عط‬ ‫کرتے ہیں۔ رائج کو نی اس و ‘ نی حسن اور نئی ترتی سے سرفراز‬ ‫کرتے۔ یہ لوگ‘ ج د سمجھ میں آ ج نے کے نہیں ہوتے۔ خدا م و ‘ ک‬ ‫اور کس طور کی کروٹ لے لیں۔‬ ‫شریف س جد ص ح سے میرا کبھی زب نی ی ق می رابطہ نہیں رہ ۔ ان‬ ‫ک مجموعہءکلا ۔۔۔۔ چ ند کسے دیکھت رہ ۔۔۔۔۔ پروفیسر لطیف اش ر کے‬ ‫حوالہ سے ہ تھ لگ ہے۔ دیکھ ‘ پھر پڑھ اور لطف لی ۔ کلا بت ت ہے‘‬‫کہ شریف س جد سیم بی اطوار کے شخص ہیں۔ ب ت کے لیے کئی طرح‬ ‫کے رنگ اور ڈھنگ‘ اختی ر کرتے ہیں۔ بی نیہ‘ طنزیہ‘ مخ طبیہ‘‬ ‫مک لم تی اور خود کلامی ک انداز اختی ر کرکے‘ بڑے س یقہ اور پک‬‫‪:‬س منہ کر ب ت کرتے ہیں۔ اس ذیل میں‘ فقط یہ دو ش ر ملاحظہ ہوں‬ ‫کہ اپنوں سے بھی بدظن بہت ہیں‬

‫‪165‬‬ ‫کہ لنک ہے یہ راون بہت ہیں‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫رخصت اے عظمت جنوں کہ یہ ں‬ ‫عقل م ی ر خیر وشر ٹھہری‬ ‫انہوں نے غزل میں ہئتی تجربے بھی کیے ہیں۔ یہ م م ہ بڑا دل چسپ‬ ‫ہے۔ مجموعہ کے ص‪ - :‬پر آزاد مک لم تی غزل ہے۔ یہ غزل‬‫ان کی جدت طرازی ک منہ بولت ثبوت ہے۔ اس غزل ک صرف ایک ش ر‬ ‫ملاحظہ ہو۔‬ ‫کہ روتی ہوئی شک یں ہمیں اچھی نہیں لگتیں‬ ‫کہ ہے کس قدر مشکل جہ ں میں آئینہ ہون‬ ‫انہوں نے اپنے اس مجوعہ کلا میں‘ ردیف کےاست م ل کے مخت ف‬ ‫نوعیت کے تجربے کیے ہیں۔ ان تجربوں نے‘ ان کے کلا میں الگ‬ ‫سے وق ر اور وج ہت پیدا کر دی ہے۔ اس کے س تھ غن ئیت اور‬ ‫م نویت میں ہرچند اض فہ ہوا ہے۔ مثلا‬ ‫ش ر ک ردیف حرف تشبیہ ہے۔ اس ک پہلا مصرعہ بھی حرف تشبیہ‬ ‫ہے۔ گوی ش ر کے دونوں مصرعوں ک اختت حرف تشبیہ پر ہوت ہے۔‬ ‫میری مجبوری وں ہیں پہ ی سی‬ ‫وہ ہے ب اختی ر پہ ے س‬

‫‪166‬‬‫دونوں مصرعے حروف ج ر پر خت ہوتے ہیں۔ دوسرے مصرعے میں‬ ‫ب طور ردیف است م ل ہوا ہوت ہے۔‬ ‫کسی کی زلف ہے ش نے کسی کے‬ ‫کسی کی ہے ہوا موس کسی ک‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫ست روں میں چمک ہے شوخیوں کی‬ ‫ش میں رنگ بکھرا ہے حی ک‬ ‫حروف زم نی ب طور ردیف استم ل کرتے ہیں تو ش ر ک پہلا مصرعہ‬ ‫بھی اسی قم ش ک ہوت ہے۔ مثلا‬ ‫کسی کی ت نے سنی سرگذشت ہی ک تھی‬ ‫و گرنہ ہ تو ہر اک داست ں میں رہتے ہیں‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫ہر ایک س نس ترا ن ہی پک رت ہے‬ ‫ہم رے دل میں بھلا غیر ک سم تے ہیں‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫میرے ہمدرد س حل پر کھڑے تھے‬ ‫طلاط میں س ینہ ڈوبت تھ‬

‫‪167‬‬ ‫ردیف کی ہی کوئی ح لت‘ ش ر کے پہ ے مصرعے میں ہوتی ہے۔ اس‬ ‫سے‘ ب ت حرکت میں محسوس ہوتی ہے۔ جمود ی سکتہ ط ری نہیں‬ ‫ہوت ۔ مثلا‬ ‫میں نے جو کچھ کہ غ ط ٹھہرا‬ ‫اس کی ہر ب ت م تبر ٹھہری‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫اس کے لہجے کی کھنک اچھی لگی‬ ‫اپن س نس اکھڑا ہوا اچھ لگ‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫سوز ال ت ک مزہ بھی اچھ‬ ‫سوزن غ کی خ ش بھی اچھی‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫شوخی ں اس کی بہت اچھی لگیں‬ ‫اپن دل ڈرت ہوا اچھ لگ‬ ‫ش ر ک آخری ل ظ ردیف ک ہ صوت اور ہ ق فیہ ہوت ہے۔‬ ‫ہ دی گمرہ ں اسے کہیے‬ ‫غ نصیبوں ک چ رہگر لکھیے‬

‫‪168‬‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫کبھی جو سیر چمن کو ج ن تو رک کے چ ن ٹھٹھک کے رکن‬ ‫کبھی درختوں پہ ن لکھ کر دلوں کی دھژکن تلاش کرن‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫مری ب تیں کوئی جھٹلا نہ پ ئے‬ ‫تمھ را ن ہی سوگند ہو ج ئے‬ ‫‪............‬‬ ‫کس پہ تکیہ کروں امید وف کس سے کروں‬ ‫پھول کو ڈستی ہوئی ب د بہ ری دیکھوں‬ ‫‪:‬دونوں مصرعوں کے ردیف اور ق فیہ ہ ق فیہ ہوتے ہیں‬ ‫ن سنتے ہی ترا سرخی سی رخ پر پھی ن‬ ‫وہ تری تصویر کو س سے چھپ کر دیکھن‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫کتن دشوار ہے دین میں تم ش بنن‬ ‫کس قدر سہل ہے مصروف تم ش ہون‬

‫‪169‬‬ ‫‪:‬ش ر کے دونوں مصرعے ہ ردیف ہوتے ہیں‬ ‫درد کی شدت پی ر کی شدت ظ ہر کرتی ہے‬ ‫دل میں پھ نس چھبوئے رہن اچھ لگت ہے‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫ملا ک ہ تھ اور کلاشنکوف عج منظر ہے‬ ‫کی سنگ ہے خیر اور شر ک اچھ لگت ہے‬ ‫‪:‬ہ ق فیہ اور ہ ردیف کی یہ مث ل ملاحظ ہو‬ ‫ہر ایک ب ت کی وہ تو دلیل م نگتے ہیں‬ ‫اور ہ ہیں کہ سحرالبی ن میں رہتے ہیں‬ ‫شریف س جد کی غزلوں میں‘ ردیف کےاستم ل کی رنگ رنگی لس نی‬ ‫اعتب ر سے‘ بڑی م نویت کی ح مل ہے۔ اس سے ان کے کلا میں‬ ‫چ شنی اور شگ تگی میں اض فہ ہوا ہے۔ ان کے یہ ہئیتی تجربےآتے‬ ‫وقتوں میں اردو غزل گو ش را کے لیے نمونہ بنے رہیں گے۔ گوی‬ ‫انہوں نے‘ صدیوں کے بند دروازوں کو‘ کھول دی ہے۔ اگر اسی طور‬ ‫سے‘ غزل میں تجربے ہوتے رہے‘ تو یہ اردو کی غزلیہ ش عری کے‬ ‫ح میں‘ بہت ہی اچھ ہو گ اور آتے وقتوں میں‘ ش را کو اس کی‬ ‫تنگ دامنی ک ‘ گ ہ نہیں رہے گ ۔‬

‫‪170‬‬ ‫محتر جن ڈاکٹر ص ح‬ ‫ب د التحی ت الطیبہ‬ ‫بہت عمدہ تجزئیہ کی آپ نے‪ ،‬داد ح ضر ہے اور کت جیسے ہی م ی‬ ‫انش اللہ مط ل ہ ہو گ‬ ‫ش د رہئے اور آب د رہئے‬ ‫خ کس ر‬ ‫اظہر‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9362.0‬‬

‫‪171‬‬ ‫ڈاکٹر عبدال زیز س حر کی تدوینی ک وش ب رہ م ھیہء نج ک ت رفی‬ ‫ج ئزہ‬ ‫جہ ں ح لات‘ ضروری ت‘ ح ج ت‘ ترجیح ت‘ موقع اور صورت ح ل‬‫انس نی مزاج اور رویے میں تبدی ی لاتے ہیں وہ ں بدلت وقت اور بدلتے‬‫موس بھی‘ ن دانستہ طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس کے ب عث‘ جذب ت‬ ‫میں ارت ش پیدا ہوت رہت ہے۔ ہ چل سی مچ ج تی ہے۔ آدمی ج ن بھی‬‫نہیں پ ت کہ وہ کیوں خوش‘ م یوس ی افسردہ ہے۔ موس کی ہ کی سی‬‫تبدی ی بھی اس کے موڈ کو مت ثر کرتی ہے۔ یہ کوئی اختی ری عمل نہیں‬‫ہوت ۔ کسی م م ے میں م وث ہونے کی صورت میں‘ اس کی شدت میں‬ ‫اور بھی اض فہ ہوت ہے۔ ب ض ن گہ نی جذب تی صورتیں بھی‘ اثر انداز‬ ‫ہوتی ہیں۔ ہزار طرح کے ات ر چڑھ آتے ہیں۔ یہ ات ر چڑھ اپنی ہیت‬‫میں‘ دری ئی مدوجذر سے مم ثل ہوتے ہیں۔ مروجہ اصن ف ش ر‘ انس ن‬‫کے جذب ت کو اپنے ق ل میں جگہ دیتے آئے ہیں‘ لیکن رت کی تبدی ی‬ ‫ک ‘ ان سے اندازہ نہیں ہو پ ت ۔‬ ‫برصغیر کی زب نوں‘ خصوص پنج بی میں صنف ب رہ م ہ مست مل رہی‬ ‫ہے۔ اردو میں بھی یہ صنف سخن نظر انداز نہیں ہوئی۔ کئی ایک ش را‬ ‫نے‘ اس صنف ش ر میں طبع آزم ئی کی ہے۔ ان میں سے ایک م تبر‬ ‫ن ح جی محمد نج الدین ہے۔ آپ تیرویں صدی کے اردو اور ف رسی‬ ‫کے‘ خوش سخن ش عر اور نثر نگ ر ہیں۔ آپ بنی دی طور پر صوفی‬ ‫ہیں اور تصوف میں‘ لائ عزت مق ومرتبہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے‬

‫‪172‬‬ ‫اس صنف ش ر میں طبع آزم ئی کی ہے۔‬‫م ہ بہ م ہ شخص کی داخ ی کی ی ت ک بی ن‘ اتن آس ن ک نہیں‘ اس کے‬ ‫لیے نہ یت ب ریک بینی کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسرا اس ک ت‬ ‫محسوس سے ہوت ہے۔ ج تک اس ک اطلا ذات پر نہیں کی ج ت‬‫درست سے اظہ ر ممکن نہیں ہوت ۔ اس تخ ی ک ہر ش ر ذاتی محسوس‬ ‫سے ت رکھت ہے۔ ح جی محمد نج الدین کی ک وش فکر ۔۔۔۔۔۔ ب رہ‬ ‫م ھیہءنج ۔۔۔۔۔۔۔ میں جہ ں شخصی جذب ت کی عک سی م تی ہے‘ وہ ں‬ ‫عمومی صورت ح ل کو بھی اظہ ر میں لای گی ہے۔ یوں محسوس ہوت‬ ‫ہے جیسے وہ اپنی ق بی کی ی ت ک اظہ ر کررہے ہیں۔‬ ‫اس تخ ی کی س سے بڑی خوبی یہ ہے‘ کہ کہیں مصنوعی پن ک‬ ‫احس س نہیں ہوت ۔ خ رجی اور داخ ی احوال کے اظہ ر کے لیے فوٹو‬ ‫گرافی کی تکنیک اختی ر کی گی ہے‘ جس سے ش عر کی عہدی مروج‬ ‫اردو زب ن پر قدرت ک احس س ہوت ہے۔ انہوں نے‘ اس تخ ی میں‬‫ثمثی ی انداز بھی اختی ر کی ہے۔ خو صورت تشبیہ ت ک استم ل کرتے‬ ‫ہیں۔ دل موہ لینے والے مرکب ت بھی تشکیل پ ئے ہیں۔ مثلا‬ ‫رین ڈراونی‘ برہ اگن‘ رخ زرد‬ ‫م ہ بہ م ہ جذب ت کی عک سی کے ذیل میں ۔۔۔۔۔۔ ب رہ م ھیہءنج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫‪:‬سے چند ایک مث لیں ب طور ذائقہ ملاحظ ہوں‬ ‫س ون‬ ‫س ون م س سو رنگ میں گھر گھر بسی امنگ میں پ پن اس م س‬

‫‪173‬‬ ‫میں روتی رہی نسنگ‬ ‫نج دین پیو ک رنی‬ ‫م ن ہوا اس م س میں دھرتی اور اک ش‬ ‫نسدن رہے اداس‬ ‫مجھ برہن‬ ‫ایک بچھوا‬ ‫بھ دروں‬ ‫نہ ج نوں ک ہوے‬ ‫بھ دروں رین ڈراونی گھر ن ہیں دلدار‬ ‫ا تک ا لٹے نہ‬ ‫آدھین پر کر کرو کرت ر‬ ‫س تھی بن ا کس‬ ‫نجم جوبن بس نہیں دوجی نس اندھی ر‬ ‫برہ اگن سے میں‬ ‫پیو ک تین طرح کے م ر‬ ‫آسوج‬ ‫نجم رت آسوج نے جگ میں کی ظہور‬ ‫سی‘ برہن ک دکھ دور‬ ‫جگ میں جیو آپن پی ہن ہے درک ر‬ ‫پھرے وے پردیسی ی ر‬ ‫ک تک‬ ‫ک تی میں‘ چھ تی ج ی‘ ک تی لکھی نہ یو‬ ‫طرح میں سمجھ ؤں جیو‬ ‫نجم ک تک م س میں س سیتل سنس ر‬ ‫ج وں جیوں دھند کے انگ ر‬ ‫منگسر‬

‫‪174‬‬ ‫یہ منگسر م س کی رت سرد آئی‬ ‫بوائی‬ ‫لگی پھٹن مرے دل کی‬ ‫کروں ا کی فکر اپن‬ ‫یہ دکھ اوپر مرے دکھ اور آی‬ ‫خدای‬ ‫تر ے دھن غ ستی رخ‬ ‫یہ آتش ہجر سے برہن‬ ‫پوہ‬ ‫اری پردیس پیو کو بھ گی‬ ‫سجن یہ پوہ رت ات سرد ہینگی‬ ‫کسے یہ درد دل اپن‬ ‫زرد ہینگی‬‫کہ ہوری ر رہے لوگ اور‬ ‫سبھی سنس ر میں سردی پڑی ہے‬ ‫کوئی پچک ری ں بھر بھر‬ ‫جری ہے‬ ‫م گھ‬ ‫سکھی! یہ م ہ مہینہ آ گی ہے‬ ‫ہے‬ ‫کہو‪ :‬ا کی کروں! کس پ س ج ؤں‬ ‫سن ؤں‬ ‫پھ گن‬ ‫عج پھ گن کی یہ رت مست آئی‬ ‫لوگ ئی‬ ‫کوئی رنگ گھول کر پیت پہ ڈالے‬ ‫کے م رے‬

‫‪175‬‬ ‫چیت‬ ‫نہیں یہ م نس ہے لائ‬ ‫سجن کی خو رت یہ چیت آئی‬ ‫جدائی‬ ‫عج اس م نس کی رت ہے سورنگی کی س نے لب س رنگ‬ ‫برنگی‬‫کہ جن نے دیکھ ‘ اسی ک دل‬ ‫زمیں نے سبز رنگ اپن بن ی‬ ‫لبھ ی‬ ‫بیس کھ‬ ‫ب ل بن یہ برہنی‬ ‫رت آئی بیس کھ کی‘ س جن نہ مجھ پ س‬ ‫در در پھرے ہراس‬ ‫دے دے دھیرج‬ ‫لوگو رے مت م نیو م شوق ں کی ب ت‬ ‫کھوس کر دل ع ش لے ج ت‬ ‫جیٹھ‬‫مرے دکھ کی دوا اب گ نہ‬ ‫سکھی یہ جیٹھ رت جگ بیچ آئی‬ ‫پ ئی‬ ‫گئی جس عش میں یہ‬ ‫نہ آئے ا ت ک وے ی ر ج نی‬ ‫زندگ نی‬ ‫م ہ آس ڑ‬‫دو جگ میں مشہور ہے س ڈ تمھ را ن جو مل ج ں تجھ م نس میں‬

‫‪176‬‬ ‫مجھ دکھی کے ش‬‫ن گ ڈسے کو ڈر نہیں جو مل‬ ‫نج پی کے م ن ک نسدن ہے مشت‬ ‫ج ۔ ئے۔ تری‬ ‫ڈاکٹر عبدال ز س حر نے‘ ح جی محمد نج الدین کی اس ی دگ راور ق بل‬ ‫قدر تصنیف پر ک کی ہے۔ ان ک ک ‘ کئی حوالوں سے لائ تحسین‬ ‫ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ب رہ م ھیہءنج ۔۔۔۔۔۔کے آغ ز میں انتس کے ب د تونسہ‬‫مقدسہ کے لیے ایک نظ ‘ کےعنوان سے نظ پیش کی ہے۔ یہ نظ ان‬ ‫کی تونسہ شریف سے دلی عقیدت‘ محبت اور وابستگی ک منہ بولت‬ ‫‪:‬ثبوت ہے۔ ب طور ذائقہ صرف تین لائیں ملاحظہ ہوں‬ ‫یہ تونسہ ہے‬ ‫ابد کے ط پر رکھے دیے کی لو مس سل بڑھ رہی ہے‬ ‫!اور زم نہ دیکھت ج ت ہے حیرانی کے موس میں‬‫کت کے مقدمے میں‘ بڑے ک کی م وم ت فراہ کی گئی ہیں۔ مقدمہ‬ ‫دس حصوں میں تقسی کی گی ہے۔‬ ‫پہ ے حصہ میں اس صنف ش ر کے موضوع پر گ تگو کی گئی ہے۔‬ ‫اپنے موقف کی تصدی و وض حت کے لیے شمی احمد اور ڈاکٹر‬ ‫نورالحسن ہ شمی کے حوالے‘ درج کیے گیے ہیں۔‬ ‫دوسرے حصہ میں‘ اردو میں اس صنف ش ر کی روایت‘ حیثیت‬ ‫ونوعیت اور ہو نے والے ک پر روشنی ڈالی گئی ہے۔‬

‫‪177‬‬ ‫تیسرے حصہ میں ۔۔۔۔۔۔ ب رہ م ھیہءنج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے مواد کو زیر بحث‬ ‫لای گی ہے۔‬ ‫چوتھ حصہ‘ ح جی محمد نج الدین کی حی ت اور ان کی اردو اور‬ ‫ف رسی میں تصنی ت سے مت ہے اور یہ تیس کے قری ہیں۔‬‫پ نچواں حصہ میں‘ اس کت کی تین اش عت ہ اوران کی خوبیوں اور‬ ‫خ میوں کے ب رے میں گ تگو کی گئی ہے۔‬ ‫کے دو م خذ ۔۔۔۔۔ ‪ ٥‬ھ اور‬ ‫چھٹ حصہ موجودہ اش عت‬ ‫۔۔۔۔۔۔ کی نوعیت و ت رف سے مت ہے۔‬ ‫س تویں حصہ ۔۔۔۔۔۔ ب رہ م ھیہءنج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کے متنی ت رف سے مت‬ ‫ہے۔‬ ‫آٹھواں حصہ میں‘ املا کی صورت ح ل کے س تھ س تھ‘ دیگر لس نی‬ ‫امور پر بھی گ تگو کی گئی ہے۔ اس ذیل میں‘ م نوی ت کے حس س‬ ‫پہ ووں کو نظرانداز نہیں کی گی ۔‬ ‫نویں حصہ میں‘ موجودہ پیش کش میں مدنظر رکھے گیے ب رہ امور‬ ‫درج کیے گیے ہیں۔‬ ‫دسویں ی نی اختت می حصہ میں‘ ۔۔۔۔۔۔ ب رہ م ھیہءنج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر مق می‬ ‫غیر مق می زب نوں کے مرتبہ اثرات ک ج ئزہ پیش کی گی ہے۔‬ ‫درج ب لا دس حصوں کے ت رف ک مقصد یہ ہے‘ کہ ق ری ڈاکٹر‬ ‫عبدال زیز س حر کی س یقہ ش ری ک اندازہ لگ سکے۔ کوئی بھی‬

‫‪178‬‬ ‫ب س یقہ پیش کش‘ جہ ں پیش ک ر کے ہنر اور س یقہ ش ری کو واضح‬‫کرتی ہے‘ وہ ں تصیف کی حیثیت اور قدروقیمت ک بھی ت ین کرتی ہے۔‬ ‫مقدمہ کے مط ل ہ کے ب د‘ یہ حقیقت واضح ہو ج تی ہے‘ کہ ڈاکٹر‬ ‫عبدال زیز س حر کھرے‘ ب س یقہ اور محنتی متن ش س ہیں۔ عج ت اور‬ ‫ٹوٹل پورا کرنے کی ع ت بد سے‘ کوسوں دور ہیں۔‬ ‫متن ص حہ سے شروع ہوت ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ ب رہ م ھیہءنج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کل‬ ‫‪ ٥‬اش ر پر مشتمل ہے۔۔ حواشی ب طور فٹ نوٹ دیے گیے ہیں۔‬ ‫حواشی‘ اس ش ری تصیف کے حوالہ سے‘ بڑے ہی ک کے ہیں۔ ان‬ ‫کے حوالہ سے ڈاکٹر عبدال زیز س حر کی محنت اور وس ت نظری ک‬ ‫‪:‬ب خوبی اندازہ لگ ی ج سکت ہے۔ حواشی میں‬ ‫غیر مست مل‘ قدی ‘ غیرواضع‘ متروک اور کسی دوسری زب ن کے‬ ‫ال ظ کے م ہی درج کیے گیے ہیں۔‬ ‫ف رسی زب ن میں کہے گیے اش ر ک ترجمہ دی گی ہے۔‬ ‫ش عر کسی دوسرے ش عر ک مصرع لگ ت ہے‘ تو اس کی نش ن دہی‬ ‫کر دی گئی ہے۔ ش عرک ن وغیرہ درج کر دی گی ہے۔‬ ‫تق ب ی صورتیں بھی پڑھنے کو م تی ہیں۔‬ ‫فنی کجیوں کی نش ن دہی واضح ال ظ میں کی گئی ہے۔‬ ‫تشریحی صورتیں م تی ہیں۔‬ ‫جم ہ ابہ کی وض حت کردی گئی ہے۔‬ ‫ل ظوں کی ہیئتی صورتوں کو واضح کی ۔گی ہے۔‬

‫‪179‬‬‫متنی‘ لس نی‘ فنی‘ سم جی‘ تہواری‘ رسو وغیرہ سے مت امور کی‘‬ ‫وض حتیں درج کر دی گئی ہیں۔‬ ‫کت میں‘ اش ریہ اور کت بی ت ک اہتم کی گی ہے۔ آخر میں‘ پہ ی تین‬ ‫اش عتوں کے‘ سرور کے عکس ش مل کیے گیے ہیں۔ ان تینوں میں‬ ‫ایک دیون گری خط میں ہے۔ جس پہ و سے بھی‘ اس ک کو دیکھتے‬ ‫ہیں‘ بہترین تدوینی س یقہ محسوس کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدال زیز س حر‬ ‫اس خو صورت اور ک می پیش کش کے لیے مب رک ب د کے مستح‬ ‫ٹھہرتے ہیں۔‬ ‫ڈاکٹر منیر کے افس نے اور مغربی طرز حی ت‬ ‫‪https://imgur.com/account/favorites/UjAzS‬‬

‫‪180‬‬ ‫نم ز ک سو سے زی دہ س ل ک پران اردو ترجمہ‬ ‫مخدومی و مرشدی حضرت سید غلا حضور ش ہ الم روف بہ ب ب جی‬ ‫شکراللہ کے ذخیرہءکت سے' ایک کت ‪.......‬نم ز مترج منظو ۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫بزب ن پنج بی' دستی ہوئی ہے۔ اس کے مولف مولوی محمد فیروز‬ ‫الدین ڈسکوی' منشی ف ضل' مدرس ای بی ہ ئی سکول' سی لکوٹ ہیں۔‬‫انہیں اس کت کی ت لیف ک اعزاز' رائے ص ح منشی گلا سنگھ اینڈ‬ ‫سنز' ت جران کت ' لاہور نے دی ۔ اس کت ک سن اش عت ‪ 1907‬ہے‬ ‫اور یہ ہی س ل' مخدومی و مرشدی حضرت ب ب جی شکراللہ ک سن‬‫پیدائش ہے۔ یہ کت بلاشبہ' حضرت سید ع ی احمد ش ہ کے کت خ نے‬ ‫کی' ب قی ت میں سے ہے۔ اس ک واضح ثبوت یہ ہے کہ کت کے‬ ‫ص حہ نمبر ‪ 17‬پر' ان کے ہ تھ ک لکھ ہوا ایک ش ر موجود ہے۔‬ ‫ہ زی دہ تر ش عری ی پھر مخصوص اصن ف نثر کو' اد ک ن دیتے‬ ‫ہیں اور انہیں ہی' زب ن کی ترقی ک ذری ہ خی ل کرتے ہیں۔ اس قس کی‬‫ہر سوچ' حقیقت سے کوئی علاقہ نہیں۔ ہر اظہ ر' اس ک ت کسی بھی‬ ‫ش بہ سے مت ہو' زب ن کی نشوونم اور اس کی ابلاغی قوتوں کو'‬ ‫ترقی دینے ک ذری ہ اور سب بنت ہے۔ مروجہ ادبی اصن ف ش ر ونثر‬ ‫کو اٹھ کر دیکھ لیجیے' ش ید ہی' زندگی ک کوئی ش بہ نظرانداز ہوا ہو‬ ‫گ ۔ یہ ں تک کہ س ئنس اور حکمت کے امور بھی' نظر آئیں گے۔‬ ‫ری ضی اور شم ی ت جیسے ش بے' اس کی دسترس سے ب ہر نہیں‬ ‫رہے۔ ج ایسی صورت ہے' تو زب ن کی ابلاغی اور لس نی ترقی کے‬

‫‪181‬‬ ‫حوالہ سے' دیگر ع و و فنون کی ک وش ہ کو' کیوں صرف نظر کی‬ ‫ج ئے۔‬ ‫ع و اسلامی سے مت ' اردو میں بہت کچھ لکھ گی ہے۔ دیگر‬ ‫زب نوں سے بھی' اسلامی ع و کی کت کے تراج ہوئے ہیں۔ اس‬ ‫حوالہ سے' اردو میں بہت سی مخت ف ش بوں سے مت ' اصطلاح ت‬ ‫داخل ہو کر رواج ع بنی ہیں۔ ان گنت ت میح ت' اردو ش رواد ک گہن‬‫بنی ہیں۔ ب ت یہ ں تک ہی محدود نہیں رہی' بہت سے عربی ال ظ' اردو‬ ‫کے ذخیرہءال ظ میں داخل ہو کر' اردو کی ابلاغی ثروت ک ذری ہ بنے‬ ‫ہیں۔ بچوں کے لیے' لات داد اسلامی لڑیچر ک شت ہوا ہے۔ غیر مس‬‫بھی' اس ذیل میں نظرانداز نہیں کیے ج سکتے۔ ان ک مذہبی اث ثہ بھی'‬ ‫اس زب ن ک زیور بن ہے۔ گوی ان مس عی کو' لس نی حوالہ سے‬ ‫نظرانداز نہیں کی ج ن چ ہیے۔ م ہرین لس نی ت کو' صرف اور صرف‬ ‫اردو اصن ف ش رونثر کو ہی' لس نی تی مط ل ہ میں نہیں رکھن چ ہیے۔‬ ‫س ش بوں سے مت کت ک ' اس ذیل میں' پیش نظر رہن از بس‬ ‫ضروری ہے۔‬‫زیر تجزیہ کت میں نم ز کے علاوہ' منظو پنج بی میں' مخت ف مس ئل‬ ‫بھی بی ن کیے گیے ہیں۔ نم ز سے م ق ت' پہ ے عربی میں' ب د ازاں‬ ‫اردو میں ترجمہ کی گی ہے' اس کے ب د پنج بی میں منظو ترجمہ کی‬ ‫گی ہے۔ اس وقت میرے پیش نظر' کئی تراج ہیں' خدا لگتی ب ت تو یہ‬ ‫ہی ہے' س دہ اور ع فہ ہونے کے س تھ س تھ' ترچمہ اور مح ورہ‬

‫‪182‬‬ ‫کے اعتب ر سے' یہ ترجمہ اپنی ہی نوعیت ک ہے۔ بریکٹوں میں کچھ‬‫نہیں لکھ گی ۔ اس لح ظ سے بھی' یہ ترجمہ خو تر ہے۔ لس نی اعتب ر‬ ‫سے' اس کی فص حت اور بلاغت ک اقرار نہ کرن ' سراسر زی دتی کے‬ ‫مترادف ہو گ ۔ میں اس ذیل میں مزید کچھ عرض کرنے کی بج ئے'‬ ‫ترجمہ پیش کرنے کی س دت ح صل کرت ہوں۔‬ ‫اللہ بہت بڑا ہے‬ ‫اے اللہ تیری ذات پ ک ہے خوبیوں والی اور تیرا ن مب رک ہے‬ ‫اور تیری ش ن اونچی ہے اور تیرے سوا کوئی م بود نہیں‬ ‫میں مردود شیط ن سے خدا کی پن ہ لیت ہوں‬ ‫خدائے رحمن و رحی کے ن سےشروع‬ ‫س خوبی ں اللہ کو جو س رے جہ ن ک ر ہے‬ ‫بڑا مہرب ن نہ یت رح والا‬ ‫انص ف کے دن ک م لک‬

‫‪183‬‬ ‫ہ تیری عب دت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد م نگتے ہیں‬ ‫ہ کو سیدھی راہ دکھ‬ ‫ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے اپن فضل کی‬ ‫ان کی نہیں جن پر غض ہوا‬ ‫اور نہ گمراہوں کی‬ ‫ایس ہی ہو‬ ‫تو کہہ وہ اللہ ایک ہے‬ ‫اللہ بےنی ز ہے‬ ‫نہ کسی کو جن نہ کسی سے جن گی‬ ‫اور نہ کوئی اس ک ہمسر ہے‬ ‫اللہ س سے بڑا ہے‬ ‫میرا عظمت والا ر قدوس ہے‬ ‫ہے جو اس کی خوبی بی ن کرے‪......‬‬ ‫اے اللہ تجھے ہی س خوبی ں ہیں‬

‫‪184‬‬ ‫میرا ع لی ش ن ر قدوس ہے‬ ‫س زب نی بدنی اور م لی عب دتیں اللہ ہی کے لیے ہیں‬ ‫اے اللہ کے نبی تجھپہ سلا اور خدا کی رحمت اور اسکی برک ت ن زل‬ ‫ہوں‬ ‫ہ پراور خدا کے نیک بخت بندوں پر سلا‬ ‫‪ .....‬میں اقرار کرت ہوں کہ اللہ کے سوا‬ ‫اور میں اقرار کرت ہوں کہ محمد اسک بندہ اور رسول ہے‬ ‫اے اللہ حضرت محمد اور حضرت محمد کی آل پر رحمت ن زل فرم‬ ‫جیس کہ تو نے حضرت ابراہی اور ان کی آل پر رحمت ن زل کی‬ ‫یقین تو خوبیوں والا بزرگی والا ہے‬ ‫اے اللہ مجھے نم زوں ک ق ئ کرنے والا بن دے‬ ‫اولاد کو بھی اور خدای میری دع منظور فرم ‪.....‬‬ ‫اے اللہ اور میرے م ں ب پ اور س مومنوں کو بخشدے ج قی مت ق ئ‬ ‫ہو‬ ‫اے اللہ ہم را دنی میں بھی بھلا کر اورآخرت میں بھی بھلا اور‬

‫‪185‬‬ ‫ہ کو عذا دوزخ سے نج ت دے‬ ‫ت پر سلا اور اللہ کی رحمت‬ ‫میں ب طور تبرک کت کے مت ص ح ت کی عکسی نقول بھی پیش‬ ‫کر رہ ہوں۔ دو جگہ نقطے لگ ئے گیے ہیں' وہ ں سے ص حہ پھٹ ہوا‬ ‫ہے۔ میں نے اپنی طرف سے' ایک ل ظ ک ی زی دہ نہیں کی ۔ ٹ ئپ بھی‬ ‫اسی خط کے مط ب کی ہے۔‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook