مقصود حسنی کی تحقیق و تنقید اہل دانش کی نظر میں پیش کار پروفیسر نیامت علی مرتضائی ابوزر برقی کتب خانہ اگست ٦١٠٢
تمثال میں لسانیاتی تبسم کی تلاش عزیز مکرم جناب حسنی صاحب :سلام مسنونمجھ کو یہ کہنے میں شمہ برابر بھی تکلف نہیں ہے کہ آپ ایک بڑے نثر نگار ،ایک عظیم نقاد ،ایک اچھے شاعر، باکمال انشائیہ نویس تو ہیں ہی ،ساتھ ہی آپ ایک بہت بڑے انسان بھی ہیں۔ جس درد مندی ،دلسوزی اور لگن سے اپ گونا گوں موضوعات پر لکھتے ہیں ،ان کا کما حقہ احاطہ کرتے ہیں ،اور طرح طرح سے زبان و بیان،فصاحت وبلاغت کا جادو جگاتے ہیں وہ قابل دید ہے ،لائقتقلید ہے اور ہر سطح پر مستحق داد ہے۔ آپ جیسی ہستیاںاب اردو ادب و شعر کے افق پر کہاں رہ گئی ہیں۔ آپ کی ہر تحریر اپنے انداز کی انوکھی تحریر ہوتی ہے اور ہم کو
پڑھ کر جو فیض حاصل ہوتا ہے اس کا بیان اور تصور ممکن نہیں ہیں۔ کاش ہم کوشش اور محنت سے آپ کینگارشات سے وہ کچھ سیکھ سکیں جو سکھانے والے اب خال خال بھی نظر مشکل سے آتے ہیں۔ اللہ آپ کو سلامترکھے اور ہم لوگ مدتوں اسی طرح آپ سے استفادہ کرتے رہیں۔ آپ جتنا لکھتے ہیں اور جیسا لکھتے ہیں اس کےرموز تک ہماری رسائی کہاں۔ ہم توبس ادھر ادھر سے چند دانے چن سکتے ہیں اور سچ پوچھئےتو یہ بھی ایک باعث افتخار بات ہے۔تبسم کاشمیری صاحب سے میں بہت کم واقف ہوں اور میراخیال ہے کہ انجمن کے بیشتر لوگوں پر بھی یہی حکم لگایاجا سکتا ہے۔ آپ نے جس انداز میں تبسم کا اور ان کے فن کا جائزہ لیا ہے اور جس خوبصورتی سے ان کی فکر کویہاں پیش کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آپ جتنا لکھتے ہیںاتنا تو میں پڑھ بھی نہیں سکتا۔ یہ مضمون تبسم صاحب پرکتاب کا پیش لفظ ہونا چاہئے۔ اگر تبسم صاحب اسے پڑھیں گے تو یقینا ان کا دل نہایت خوش ہوگا کہ اس گئے بیتے دور میں بھی ان کے قدردان ابھی کچھ باقی ہیں۔ یہ مضمون اس بات کا شاہد ہے کہ کسی کی ادبی حیثیت کوپرکھنا اور پھر اسے دنیائے ادب کے سامنے پیش کرنا کتنا
مشکل کام ہے اور کیسی مجاہدانہ فکر اورانتھک محنتچاہتا ہے۔ ایسے بے بہا مضمون پر ہمارا دلی شکریہ قبول کیجئے۔باقی رہ گیا راوی تو اگر اب بھی چین نہیں بولے گا توکب !بولے گا سرور عالم رازhttp://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9217.0 نماز کا سو سے زیادہ سال کا پرانا اردو ترجمہ محترمی حسنی صاحب :سلام مسنون یہ نایاب تبرک یہاں عنایت کرنے کا تہ دل سے شکریہ
قبول کیجئے۔ یہ ہماری قوم کی بد قسمتی ہے کہ ایسے نوادرات جلد ہی صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے۔ ہم کو ایسی بیش بہا چیزیں کبھی محفوظ کرنے کی توفیق نہ ہوئی۔ میں امریکہ میں دیکھتا ہوں کہ یہ اپنے تاریخینوادرات کس قدر محنت اور توجہ سے بچا بچا کر رکھتے ہیں۔ کتب خانے بیش قیمت کتابوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ یہاں کا قانون ہے کہ چھپی ہوئی جو چیز بھی (خواہ وہ کسی زبان میں ہو) اگر ملک میں آئے گی تو اس کی ایک جلد واشنگٹن کے قومی کتب خانے میں رکھی جائے گی۔میں نے اپنی کتابیں بھی اس کتب خانہ کے علاوہ ہر ایسی یونی ورسٹی کے کتب خانے کو بھیج دی ہیں جہاں اردو پڑھائی جاتی ہے (ایسی درجن بھر یونی ورسٹیاں ہیں)۔لطف یہ ہے کہ کتاب ملنے پر ہرکتب خانے سے شکریہ کاباقاعدہ خط آتا ہے۔ یہی کتابیں میں ہندوستان اور پاکستان کے اردو کتب خانوں کو بھیجتا ہوں تو وہاں سے کوئیرسید نہیں آتی۔ شکریہ کے خط کا تو ذکر ہی چھوڑ دیجئے۔ اس سے زیادہ کہنے کی شاید ضرورت نہیں ہے۔ سرور عالم راز
جزاك اللہ كل الخیر akbarhttp://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9450.0 غزالی اور اقبال کی فکر۔۔۔۔۔۔ایک جائزہ » بروز :مارچ 09:94:09 ,4902 ,90شام «
مکرم بندہ حسنی صاحب :سلام مسنونآپ کے مضامین پڑھ کر دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔ معلوم ہوتاہے کہ آپ کا مطالعہ کس قدر وسیع اور عمیق ہے۔ کتابیںپڑھ لینا اور بات ہے اور اس مطالعہ سے کتابوں کا نچوڑ نکال لینا اور بات ہے۔ اس سے قبل میں نے گزارش کی تھی کہ آپ کے مضامین کتابی شکل میں شائع ہونےچاہئیں۔ اب پھر اسی بات کا اعادہ کرتا ہوں۔ ایسا نہ ہوا تویہ بیش قیمت سرمایہ ضائع ہو جائے گا۔ اب ایسی چیزیں پڑھنے والے اور ان پر لکھنے والے خال خال رہ گئےہیں۔ جو چیز محفوظ ہوجائے اس کو غنیمت جاننا چاہئے۔ آپ اس جانب بہت سنجید گی سے سوچیں۔ انشا اللہ اسطرز فکر کے اچھے نتائج ظاہر ہو ں گے۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔ سرور عالم رازhttp://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8661.0
اقبال کا فلسفہءخودی » بروز :مارچ 90:04:94 ,4902 ,92شام « مکرمی حسنی صاحب :سلام مسنونآپ کے مضامین جب جب پڑھتا ہوں یہ احساس بڑھتا جاتا ہے کہ ان کو ایک کتاب کی شکل میں جمع کر کے شائع کرانا چاہئے۔ کیا کبھی آپ نے اس بارے میں سوچا ہے؟ آپ کے خیال و بیان میں جو ندرت وانفرادیت ہے وہ بہتکم لوگوں میں نظر آتی ہے۔ خودی پر اس قدر لکھا جا چکا ہے کہ اللہ اکبر۔ پھر بھی اس کا سرا کسی کی گرفت میں نظر نہیں آتا۔میرے جیسا شخص تو صرف پڑھ کر سمجھنے کی کوششہی کر سکتا ہے۔ سو آپ سے دست بستہ گزارش ہے کہ اپنے مضامین کو جمع کر کے ان کی اشاعت کی جانب
توجہ دیں۔ یہ ایک کار خیر ہوگا اور اس سے بہت سوں کا بھلا ہوگا۔ انشا اللہ۔ سرور عالم راز http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8642.0 ادبی تحقیق وتنقید‘ جامعاتی اطوار اور کرنے کے کام !ڈاکٹر صاحب ,آدابمیں آپ کی تحریریں بہت شوق سے پڑھتا ہوں ,تنگئی وقتکے ہاتھوں اگر ِان تحریروں پر کچھ لکھنے کا موقع نہیںملتا تو ِاس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ میں آپ کے علم سے مستفید نہیں ہو رہا -از را ِہ کرم آپ یہ سلسلہ جاری -رکھیں ,مجھ جیسے بہت سوں کا بھلا ہو رہا ہے
فیصل فارانی مکرم بندہ حسنی صاحب:سلام مسنون جب آپ نے یہ انشائیہ یہاں لگایا تھا تو میرا ارادہ تھا کہاس پر اظہار خیال کروں گا۔ لیکن زندگی کی تگ و دو میں بھول گیا۔ خدا بھلا کرے فیصل صاحب کا کہ آج انہوں نےاپنے خط کے توسط سے مجھ کو اپنی کوتاہی سے آگاہ کیا۔ آپ کے انشائیے اور دوسرے مضامیں پر مغز اور علم پرور ہوتے ہیں۔ میں ان کوہمیشہ پڑھتا ہوں اور حسب استعداد و توفیق لکھنے کی کوشش بھی کرتا ہوں۔ آج کل لوگوں کو غزل نے ایسا مار رکھا ہے کہ ان کو اور کچھدکھائی ہی نہیں دیتا۔ معلوم نہیں انہیں اس کا احساس کیوں نہیں ہوتا کہ کوئی زبان بھی صرف ایک صنف سخن کےبوتے پر فلاح نہیں پا سکتی۔ اس سہل انگاری کا علاج بھی کوئی نہیں ہے
ہمارے یہاں تعلیمی اداروں کا جو حال ہے اس سے آپبخوبی واقف ہیں۔ میں علی گڑھ یونیورسٹی کا پڑھا ہوا ہوں اور پھر وہیں دس سال پڑھا بھی چکا ہوں۔ اب وہاں جاتاہوں تو پہلے کے مقابلہ میں ہر چیز زوال پذیر دیکھتا ہوں۔ نہ وہ استاد ہیں،نہ وہ شاگرد اور نہ وہ معیار۔ بس گاڑیچل رہی ہے ۔ اداروں کے علاوہ ہمارے استادوں کا عجیب حال ہے۔ میں ایک صاحب سے واقف ہوں جنہوں نےاعتراف کیا ہے کہ وہ لڑکوں کو معاوضہ پر پی ایچ ڈی کے مقالے لکھ کر دیتے ہیں۔ میں نے جب ان سے کہا کہ یہبات تو بالکل غلط ہے۔ آپ ان کو لکھنے کا گر سکھائیں تویہ بہتر ہوگا تو مجھ سےخفا ہو گئے اور آج تک خفا ہیں۔ آپ سے استدعا ہےکہ اسی طرح لکھتے رہیں۔ اللہ آپ کو طاقت اور ہمت عطا فرمائے۔ سرور عالم راز
جناب ڈاکٹر حسنی صاحب آداب و تسلیمات آپ کے تحقیقی مضامین بلا شبہ قابل ِ ستائش ہیںآپ کا یہ مضمون بہت شوق سے پڑھا ہے ۔ امید ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا ممنون و طالب ِ دُعا زاہدہ رئیس راجیhttp://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8472.0 استاد غالب ضدین اور آل ہند کی زبان مکرم بندہ جناب حسنی صاحب :سلام علیکم
بوجوہ اس وقت آپ کی یہ تحریر سرسری طور پر ہی دیکھ سکا ہوں ۔ رات کا بارہ بجا چاہتا ہے چنانچہ شاید کل ہی اسے پڑھ سکوں گا۔ اس وقت صرف آپ کے آخری چند جملوں کا جواب مقصود ہے جو شاید آپ نے قدرے غصہکی حالت میں لکھے ہیں۔ اول تو میں کوئی عالم فاضل نہیںہوں۔ یہ آپ کا حسن ظن ہے۔ دوسرے اگر ہوتا بھی تو اس کا انجمن کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تیسرے یہکہ میں نے \"فخر\" سے نہیں کہا کہ انجمن میں صرف اردو اور رومن اردو میں ہی چیزیں لگائی جاتی ہیں۔ میں بارہالکھ چکا ہوں (آپ چونکہ انجمن میں نسبتا نو وارد ہیں اس لئے شاید آپ کی نطر سے نہ گزرا ہو) کہ رومن اردو ہماری ترجیح یا پسند نہیں ہے بلکہ مجبوری ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ انجمن جب قائم ہوئی تھی تو اس وقت نیٹ پر اردو لکھنا صرف ان لوگوں کے لئےممکن تھا جن کے پاس اردو کا کوئی پروگرام مثلا ان پیجتھا۔ اس زمانے میں گوگل اور مائکروسوفٹ کی طرف سےیہ سہولت نہیں آئی تھی جس کی مدد سے میں یہ خط لکھرہا ہوں۔ چونکہ انجمن کے ہر رکن کے پاس اردو پروگرام
نہیں تھا اس لئے رومن اردو قابل قبول قرار دی گئی تھی۔ آج وہی پالیسی چلی آ رہی ہے۔ آج بھی کچھ لوگ ایسےہیں (مثال کے طور پر جاوید بدایونی صاحب) جن کو رومناردو میں لکھنا اردو کے مقابلے میں آسان لگتا ہے۔ یہاں لکھنے والوں کی جس قدر کمی ہے اس سے اپ خوبواقف ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ رومن اردو پر اپنے دروازےبند کر کے اپنے دوستوں کے لئے یہاں آنا ہی نا ممکن بنا دیں۔ چنانچہ یہ اجازت قائم ہے اور ہماری رائے میں اسمیں کوئی ہرج نہیں ہے۔ آپ ذرا دوسری اردو محفلوں میں جا کر دیکھیں تو وہاں بھی یہی صورت دکھائی دے گی۔ مجھے افسوس ہے کہ آپ کو میری پالیسی پسند نہ آئی لیکن انجمن جو کام کر رہی ہے اس کے لئے یہی مناسبہے جو کیا جا رہا ہے۔ امید ہے کہ بات صاف ہوگئی ہو گی۔ از راہ کرم اس خط کا جواب نہ دیں کیونکہ یہ کوئی بحثطلب مسئلہ نہیں ہے۔ میں آپ کا بے حد شکر گزار ہوں کہانجمن پر آپ اس قدر کرم فرماتے ہیں۔ امید ہے کہ یہ نگاہ کرم قائم رہے گی۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔ سرور عالم راز
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8593.0 آشا پربھات' مسکاتے' سلگتے اور بلکتے احساسات کی شاعر » بروز :جولائی 09:33:20 ,4900 ,04صبح « مکرمی جناب ڈاکٹر حسنی صاحب :سلام علیکم آشا پربھات پر آپ کا سیرحاصل مضمون پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ وہ ہندوستان کی شاعرہ ہیں۔ہندوستان میں کسی ہندو شاعرہ کا اردو میں شاعری کرنا ایک نہایتخوش آئند معرکہ ہے۔ اس سے ایک اشارہ یہ بھی ملتا ہےکہ اردو کا مستقبل وہاں بھی خراب ہرگز نہیں ہے۔ کاش اہلاردو ایسے ادیبوں اور شاعروں کی قدر کریں جو نامساعد حالات کے باوجود محبت اور لگن سے زبان و ادب کی
خدمت میں مصروف ہیں۔ اردو کا حال جیسا کچھ بھی ہے وہ اہل اردو کے ہاتھوں ہی ہے۔آشا پربھات کی تقریبا تمام نظمیں نثری نظمیں لگ رہی ہیں۔ کوئی آزاد نظم بھی نظر نہیں آئی۔ ان کے خیالات بہتجاندار اور تازہ ہیں اور بیان پر ان کو عبور ہے۔ اتنا تو ہم بہت سے اردو کے شاعروں کے بارے میں بھی نہیں کہہ سکتے ہیں! مجھ کو آشا صاحبہ کی غزلوں کا بے صبری سے انتظار ہے۔ امید ہے کہ آپ جلد ہی اس جانب فکر فرمائیں گے۔ بہت بہت شکریہ۔ اللہ سے دعا ہے کہ آپ کواسی طرح خدمت ادب وشعر کے محاز پر تازہ کار اورتازہ دم رکھے۔ مہر افروز http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9894.0 اکبر اردو ادب کا پہلا بڑا مزاحمتی شاعر
مکرمی و محترمی جناب حسنی صاحب :سلام مسنون اکبر الہ آبادی پر آپ کا انشائیہ دلچسپ ہے اور علم افزابھی۔ اس انداز فکر کا مضمون اکبر پر مجھ کو یاد نہیں کہ کسی اور نے لکھا ہو۔ گزارش ہے کہ اس فکر کو اور جلادے کر ایک طویل اور جامع مضمون لکھیں اور شائع کروائیں۔ اس کی سخت ضرورت ہے۔ اکبر اور دوسرےمزاح نگاروں پر ہمارے یہاں بہت کم کام ہوا ہے۔ مزاح کوہمارے ادب میں وہ مقام نہیں دیا گیاجس کایہ مستحق ہے۔ آپ جیسےاہل علم کو اس جانب فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ مضمون پر میری داد اور دلی شکریہ قبول کیجئے۔سر سید پر آپ کے خیالات جزوی طور پر صحیح ہیں لیکنیک طرفہ ہیں۔ سر سید کو برا بھلا کہنے والے ،غدار قوماور مغرب کے غلام کہنے والے پہلے بھی بہت تھے اوراب بھی ہیں لیکن ان کے احسانات کا اعتراف بھی بہتضروری ہے۔ اگر انہوں نے مسلمانوں کا گریبان پکڑ کر نہجھنجوڑا ہوتا اور ان کی تعلیم کی ایسی فکر نہ کی ہوتی تو نہ میں انجینئر ہوتا اور نہ آپ ڈاکٹر۔ ان کی کوشش سےمیری اور آپ کی اولاد جو فیض پا رہی ہے اس کا شکریہ
ادا نہ کرنا نا دانی ہے۔ خامیاں کس میں نہیں ہوتیں اوربعض اوقات وقت کا دبائو اور تقاضے بھی انسان کو مجبورکرتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ سر سید اور اکبر الہ آبادی کے ہر کام اور موقف کی تائید کی جائے۔ جس نے جو احسان قوم پر کیا ہے اس کا اعتراف ضروری ہے۔ میں علی گڑھکا پڑھا ہوا ہوں اور سرسید کے کام کو میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ وہ فرشتہ نہیں تھے لیکن قوم کے بہت بڑے ہمدرد تھے۔ انہوں نے جو کام کیا وہ کم لوگ کر سکے ہیں۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ سرور عالم رازhttp://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10009.0 امانت کی ایک غزل ......فکری و لسانی رویہ مکرمی و محترمی حسنی صاحب :سلام مسنون
آپ کا شکریہ کس طرح ادا کیا جائے کہ آپ ہمہ وقت اردو انجمن کی اور اردو شعر وادب کی بیش بہا خدمات میں سرگرم ہیں اور اس کام میں کسی صلے یا ستائش کےخواہشمند کبھی نہیں رہے ہیں۔ اردو کو آپ جیسے بے لوثاور وفاشعار خدام کی ضرورت ہے۔ آج کے حالات میں ایسا سوچنا بھی گناہ بن کر رہ گیا ہے چہ جائیکہ ایسے افراد کو جمع کرنے کا کام ہاتھ میں لیا جائے۔ اللہ آپ کو طویلعمر اور اچھی صحت سے نوازے اور جزائے خیر مرحمت فرمائے۔ حسب معمول آپ کا انشائیہ نہایت کامیاب اور سیر حاصل ہے۔ ایسے نوادرات اب بزرگوں کے کتب خانوں یا ان کی میز کی درازوں میں ہی مل سکتے ہیں۔ نہ کوئی ان کاپرسان حال ہے اور نہ کوئی ان سے استفادہ کرنے والا۔ یہ اہل اردو کا بہت بڑا المیہ ہے کہ انہوں نے کتابیں پڑھنی بالکل ہی چھوڑدی ہیں۔ والد مرحوم کے کتب خانے سےمجھ کو بھی کئی نوادرات ملے ہیں۔ میں نے کوشش کی کہ ان کو یہاں اور دوسری محفلوں میں لوگوں کے استفادے کے لئے پیش کروں لیکن مجھ کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا اس لئے کہ ان چیزوں کو پڑھنے والے نہ مل سکے۔اگر کسی نے انہیں دیکھا بھی تو دو الفاظ نہ لکھے کہ کیا
دیکھنے کے بعد انہوں نے ان شہ پاروں کو پڑھا بھی تھا؟ہار کر میں نے اس کام سے ہاتھ اٹھا لیا۔ ظاہر ہے کہ میں ایک چنا یہ بھاڑ نہیں پھوڑسکتا ہوں۔آپ نے بہت تفصیل سے اپنے نوادرات کا تجزیہ کیا ہے اوراس کام میں بہت محنت کی ہے۔ اوروں کی خبر نہیں لیکن میں اپنی جانب سے یقین دلاتا ہوں کہ میں نے اس سےبھر پور استفادہ کیا اورابھی یہ کام دو ایک دن مزید چلےگا تاکہ آپ کے مضمون سے پوری طرح مستفید ہو سکوں۔ بہت بہت شکریہ۔ اور رہ گیا وہ راوی تو اس مرتبہ بڑی بشاشت کے ساتھ !چین ہی چین بولتا ہوا گیا ہے سرور عالم رازhttp://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10052.0
طاق ابد پہ رکھے ہوئے چراغ شاعر پروفیسر صوفی عبدالعزیز ساحر پی ایچ ڈی تجزیاتی معروضات مقصود حسنی بلا شبہ بہت خوب لکھا ہے۔تحریر کے نکات سے اتفاق یا اختلاف تو خیر ایک الگ اور تفصیل طلب موضوع ہے۔ سب سے اہم البتہ یہ کہ الفاظ کی ترکیب اور جملوں کی نشست و برخواست کی ڈور اکثر ہاتھوں سے چھوٹتی دکھائی دے رہی ہے۔ اور اس کشمکش میں بعض اوقات معنی کی ترسیل میں بے ساختگی بھی متاثر ہو رہی ہے۔ بہر حال۔ امید ہے کہ مزید نگارشات سے نوازیں گے۔ سلامت رہیں۔ Muzammil Shaikh Bismil
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10105.0 ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر کی تحقیقی وتنقیدی زبان کے سات رنگ محترم ڈاکتر حسنی صاحب آداب و تسلیماتوقتا فوقتا آپکے تحقیقی مقالوں سے اس بزم میں مستفید ہوتی رہتی ہوں یقین جانیے کہ ایک طالبعلم کے لئےسوچنے اور غورکرنے کے لئے آپکے مضامین میں اتناکچھ ہوتا ہے کہ اگر وہ کچھ اور نہ بھی دیکھے تب بھیاُسے اپنی تخلیقات کو بھی پرکھنے کا ایک نیا راستہ مل جاتا ہےاس مضمون کو یہاں پیش کرنے کے لئے دل کی گہرائیوں سے آپکی ممنون ہوں
امید ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا مخلص زاہدہ رئیس راجیhttp://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10081.0 اردو اور سعدی بلوچستان کے بلوچی کلام کا لسانیاتی اشتراک !مکرم بندہ جناب حسنی صاحب :سلام مسنون کافی عرصے کے بعد نیاز حاصل کر رہا ہوں۔ آپ کےمضامین برابر دیکھتا رہا ہوں البتہ لکھنے کا موقع کم ہی ملا ہے۔ آپ کی ہمت کی داد دینی پڑتی ہے کہ کس قدرمشقت طلب کام کیسی دل جمعی سے سر انجام دیتے رہتےہیں۔ آج کل تحقیق و تنقیح کا سنجیدہ کام اردو میں بہت کمہو گیا ہے۔ نئی پود کو کوئی شوق نہیں ہے اورپرانی اٹھتی
جاتی ہے۔ معلوم نہیں اس کمپیوٹر کے ہاتھوں اردو کا کیابنے گا۔ اہل اردو پہلے ہی سہل انگار اور غیر ذمہ دار ہیں۔ آگے بہتری کی امید کیسے کی جائے۔آپ کا زیر نظر مضمون بہت دلچسپ ہے اور ایک نظر میںہی معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ کام کتنی محنت سے کیا گیا ہے۔ کسی کے کلام کا ایک ایک مصرع پڑھنا ،اس کا لسانیتجزیہ کرنا اور پھر اس مواد کی شیرازہ بندی کرنا معمولی کارنامہ نہیں ہے۔ اللہ اپ کو قائم رکھے۔ اردو انجمن میںآپ نے تحقیق کی داغ بیل ڈالی ہے۔ خدا کرے کہ کچھ لوگاس جانب توجہ کریں۔ مضمون کے لئے شکریہ اور دلی داد قبول کیجئے۔ سرور عالم راز http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10159.0 کلام لایعنی اور بےمعنی نہیں ہوتا
محترمی و مکرمی جناب حسنی صاحب :سلام علیکم آپ کے مضامین ہمیشہ علم افروز اور مفید مطلب ہوتے ہیں۔ انداز بیان بھی بہت ہی دلچسپ ہوتا ہے چنانچہمضامین پڑھ کر دل خوش ہوتا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ آپ ہمارے سروں پر یونہی قایم رہیں اور علم کے موتی اسیطرح بکھیرتے رہیں۔ آمین۔ مضمون ہمیشہ کی طرح پرلطفاور معلوماتی ہے۔ بہت بہت شکریہ۔ دو باتیں عرض کرنےکی اجازت چاہتی ہوں۔ کتابت کی غلطی سے اپ محاورہ کو مھاورہ لکھ گئے ہیں۔ دوسرے یہ کہ \"لایعنی\" اور \"بے معنی\" کیا ہم معنی تراکیب نہیں ہیں یعنی \"جن کا کوئیمطلب نہ ہو\" یا یہ دو الگ الگ معنی کے الفاظ ہیں؟ جواب کا بہت شکریہ۔ مہر افروزآپ نے توجہ فرمائی‘ اس کے لیے دل و جان سے‘ احسان
مند ہوں۔ اللہ آپ کو ہمیشہ آسانیوں میں رکھے۔ آپ میریتھوڑی علمی سے خوب آگاہ ہیں‘ پھر بھی لفظ کی وضاحت کے لیے‘ کچھ ناکچھ عرض کرتا ہوں۔ اگر میں غلطی یا غلط فہمی میں ہوں‘ تو معذرت کرتا ہوں۔ مہاورہ‘ مہارت سے ہے اوریہ ہی اس کی اصل ہے۔ اور لفظوں کی طرح‘ مہاورہ کی جگہ محاورہ مستعمل ہو گیا۔ احوال اور حور عربی میں جمع ہیں لیکن اردو میں ان کا واحد استعمال بھی موجود ہے۔ مثلا صورت احوال یہ ہے کہ دلہن کیا تھی آسمانی حور تھی۔ اپنی اصل میں دیسی الفاظ اوال اور ور پر ح کی بڑھوتی ہوئی ہے۔ آوازوں کا گرنا‘ بڑھنا یا ان کا تبادل‘ استعمال میں آنا زبانوں میں کوئی نئی بات نہیں۔
لفظ اکت جو وقعت کی بگڑی شکل ہے اوقات عام واحد استعمال کا لفظ ہے۔ میاں اپنی اوقات میں رہ کر بات کرو۔خیر بہتری اچھائی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اپنیاصل میں کسی چیز یا معاملے میں برکت اور بڑھوتی کے لیے ہے۔ یہ لفظ بھیک کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔لفظ خصم ہی کو لے لیں شوہر کے معنوں میں لیا جاتا ہے۔ان معنوں سے اس لفظ کا دور کا بھی تعلق واسطہ نہیں۔ اپنی اصل میں یہ لفظ کھسم تھا۔ لفظ غریب مفلس اور نادار کے لیے بولا جاتا ہے۔ اپنی اصل میں یہ لفظ گریب تھا۔
ابرو ترکی سے ہے اور ابری معنی رکھتا ہے۔ لفظ قفلی تھا لیکن قلفی استعمال میں آتا ہے۔ راشی‘ رشوت لینے والے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ایسی بےشمار مثالیں موجود ہیں۔ لفظوں کے اصطلاحی معنی کچھ اور کے اور ہیں۔ مثلا کتا بجلی والوں کا اوزار بھی ہے۔سائیکل کے کتے فیل ہو گیے ہیں‘ بھی سننے میں آیا ہو گا۔ مہاورات کے معنی تو ہوتے ہی الگ سے ہیں۔
لفظ گھڑے بھی جاتے ہیں۔ مثلا تھوڑ علمی :آپ میری تھوڑی علمی سے خوب آگاہ ہیں۔ ایک لفظ چشمش سننے میں آیا‘ معنے دریافت کیے تو معلوم ہوا ہر وقت چشمہ پہنے رکھے والی کے لیے بولتے ہیں۔ اب چشمہ کو ہی لے لیں عینک کے لیے بولا جاتا ہے۔ عینک خود دواسما یعنی عین اور نکسے ترکیب پایا ہے۔ پنجابی میں نک ہی بولتے ہیں‘ جب کہ اردو میں الف گرا ہے۔ اسما کی بات ہوئی ہے تو بزدل بھی تو دو اسما یعنی بز اور دل سے ترکیب پایا ہے۔انگریزی ہماری خالہ مصیبتے ہے اس کے الفاظ ہی کو لے
لیں۔لیڈیاں‘ چارجل‘ ووٹران وسپوٹران‘ سیٹیاں بمعنی سی ڈیزبات یہاں تک ہی محدود نہیں‘ منٹ مار مرکب عام استعمال کا ہے۔اردو لفظوں کی جمعیں بھی سننے کو ملیں گی۔ مثلا لڑکز ........ بےمعنی ضرورت ہے‘ لیکن معنویت نہیں بن پائی یا پا رہی۔ لایعنی یعنی ضرورت ہی نہیں یوں ہی بےکار مکرمی حسنی صاحب :سلام علیکم جواب کے لئے دلی ممنون ہوں۔ آپ کا خط ایکمختصرانشائیہ ہے اور نہایت معلومات افزا بھی ہے۔ کئینئی باتیں معلوم ہوئیں۔ زبانیں ملک،ماحول اور حالات کے
زیر اثر اپنا چہرہ بدلتی رہتی ہیں۔ اردو میں بہت سی زبانوں کے الفاظ ہیں اور اس حوالے سے تحقیق اور انکشافاتکے بہت سے امکانات موجود ہیں لیکن افسوس کہ ہماری درس گاہیں اس سے غآفل ہیں۔ آپ نے ہم پر مہربانی فرمائی۔ شکریہ۔ مہر افروز اردو میں بہت سی زبانوں کے الفاظ ہر دور اور دنیا کے ہر خطے کے انسان کی حاجات‘ ایک سی رہی ہیں۔ مثلا کھانا‘ پینا‘ سونا‘ رفع حاجت‘ جنسی تسکین وغیرہ خواہشات ایک سی رہی ہیں۔ مثلا رہائش‘ لباس‘ سواری‘ معاملات میں آسانی‘ تعاون‘ انصاف‘ طرف داری‘ میسر
سے بہتر کی حصولی وغیرہ وہ لوگوں کو قریب رکھنے یا ان کے قریب رہنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے لوگوں کی سانجھ اس کی نفسیاتی ضرورت بھی ہے۔کسی کو خاص اپنا بنا کر‘ اس سے ہر نوع کا انشراح کرنا چاہتا ہے اور اس کے بغیر‘ اس کی بن نہیں آتی۔میں نے انٹرنیٹ پر دنیا کے بہت سے خطوں کے‘ قدیم اور جدید عہد کے انسانوں کی‘ رہائش گاہوں کے طرز تعمیروغیرہ‘ زیورات‘ لباس‘ برتن‘ آلات ہنرمندی‘ عسکری آلات‘ عبادت گاہوں‘ درس گاہوں وغیرہ کا‘ بڑی سنجیدگی سے مطالعہ کیا ہے۔ ان میں حیرت انگیز مماثلتیں موجود ہیں۔ باور رہنا چاہیے انسان کئی طرح کے رہے ہیں۔ ان کو ان
کے طبقہ کے حوالہ سے دیکھا جانا چاہیے۔ میں نے اظہاری ٹریسز میں حد درجہ کی قربتیں ہیں۔ہم تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کو محض انگریز کی دین سمجھتے رہے ہیں‘ حالاں کہ مقتدرہ طبقے شروع سے‘اس کلیہءشر کو استعمال میں لا رہے ہیں اور یہ کلیہ ہی‘ ان کے قدم مضبوط کرتا ہے۔ایک نہ ایک مذہبی طبقہ جو حکومتی طبقوں کے چھتر کھا کر بھی‘ ان کا گماشتہ رہا ہے‘ انسانی تقسیم میں کوئیکسر اٹھا نہیں رکھتا۔ بلواسطہ سہی‘ یہ مقتدرہ طبقوں کی معانعت کرتا آیا ہے۔ روحانیت سے وابستہ جعلی اور پیٹو لوگ بھی‘ اس ذیل میں کچھ کم نہیں رہے۔
آخر میں رہ جاتی ہیں درس گاہیں۔ یہاں کے لوگ یعنی اساتذہ‘ زمین اور انسان کی کایا ہی پلٹ سکتے ہیں۔ انبیا اور صلاحین اپنی اصل میں‘ استاد ہی تو تھے۔ کیا کمالکرتے آئے ہیں۔ بدقسمتی سے مذہبی درسگاہوں کے مذہبیمین‘ ان کی تعلیم حلیہ ہی بگاڑتے آئے ہیں۔ مذہبی تعلیم کوروٹی کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا اور آج بھی صورت حال اس سے مختلف نہیں۔لسانیات؛ بڑا حساس‘ محنت طلب اور سنجیدہ کام ہے۔ مثلازبانوں میں سابقہ ان اور اس کے مترادفات کی تلاش میں‘ مجھے کئی دن لگ گئے ہیں۔ اس قسم کے غیر پیداواریکام‘ کون اور کوئی کیوں کرے۔ ان دنوں جامعات میں‘ زیادہ تر ٹھرک سے متعلق امور انجام دیے جاتے ہیں۔ کیے کرائے کی حصولی‘ ترجیع میں رہتی ہے۔ استاد اور یہ اطوار حیرت ہوتی ہے۔ تحقیق مذاق سے زیادہ چیز نہیںرہی۔ یہاں بھی؛ دفتروں اور اقتدار کدوں کی طرح‘ اپنا بندہ ہے‘ ترجیع میں رہتا ہے۔ جن پر کام ہونے کی ضرورتہے‘ ماضی کی طرح نظرانداز ہو رہے ہیں۔ شاید وہ تذکروں میں بھی باقی نہ رہیں کیوں کہ اب تذکرہ نویسی کا رواج
نہیں رہا۔اردو کیا‘ دنیا کی بہت سی زبانوں میں‘ برصغیر کی زبانوں کے الفاظ موجود ہیں۔ ہاں درس گاہیں‘ کام کریں تو کیوں کریں۔ اس میں لابھ ہی کیا ہے۔ وہاں کے لوگوں کو‘ پیٹ اور جنسی آلات لگے ہوئے ہیں۔ ان کی تسکین ضروری ہے۔ تحقیق اور انسانی خدمت جائے بھاڑ میں۔ dr maqsood hasni http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10218.0 اردو اور جان کیٹس کی شعری زبانحسنی صاحب یہ تو اپ نے بڑی محنت کا کام کیا ہے۔ ایسیمماثلت ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالی ہے کہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا یہ محض اتفاقات ہی ہو سکتے ہیں۔ شاید
مزید تحقیق لسانیات کے کچھ نئے انکشافات کا باعث ہوسو اسے جاری رکھنے میں اور دوستوں سے شئیر کرنےمیں کوئی حرج نہیں ۔ ہا ایسا تجویز کرتا ہوں کہ ہر مماثلت کی مثالیں اگر زیادہ شامل کر دی جائیں اور ساتھ ہی وضاحت بھی کر دی جائے تو اچھا ہو گا کیونکہ کچھ مقامات پر بات سمجھنے میں دقت ہوئی والسلام ڈاکٹر سہیل ملکhttp://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10236.0 پاکستان میں اردو کے سفر کی مختصر کہانی محترمی حسنی صاحب:سلام مسنون
آپ کی محنت اور آپ کا علم سب کے لئے مشعل راہ ہیں۔ سرور عالم رازhttp://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10285.0 شجرہ قادریہ ۔۔۔۔۔ ایک جائزہ » بروز :مئی 90:04:00 ,4900 ,01شام « !محب مکرم حسنی صاحب :سلام مسنون سبحان اللہ! آپ نے بہت کمال کی باتیں بیان کی ہیں اس مضمون میں۔ ایک طرف تو یہ ہمارے اسلاف کے ورثے کی بازیافت ہے ،نہایت لطیف،نہایت علم افروز اور نہایتقیمتی اور دوسری جانب الفاظ اور تراکیب کا وہ خزانہ ہے جو اب نایاب ہوتا جا رہا ہے بلکہ ہو گیا ہے۔ میں پنجابیکی بہت معمولی شد بد رکھتا ہوں۔ آپ کی تحریر سے معلومہوا کہ اردو اورپنجابی ایک دوسرے سے کتنی متاثر ہوئی ہیں۔ بیشتر پنجابی میری سمجھ میں آئی۔ایک آدھ ہی جگہ مشکل پیش آئی لیکن وہ آپ کی تشریح نے حل کر
دی۔جزاک اللہ خیرا۔اپنی عنایات ایسے ہی قائم رکھئے۔ اللہ آپ کو طویل عمر عطا فرمائے۔ رہ گیا راوی تو وہ بھی چین بولتا ہے۔ سرور عالم رازhttp://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9786.0 خوش بُو کے امین » بروز :جون 93:23:30 ,4900 ,03شام « !مکرمی ومحترمی حسنی صاحب :سلام مسنونیقین کیجئے کہ میں سوچ رہا تھا کہ عرصہ سے آپ یہاں نظر نہیں آئے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ چونکہ یہاں لکھنے پڑھنے والے معدودے چند رہ گئے ہیں آپ دل
برداشتہ ہو کر انجمن سے کنارہ کش ہو گئے ہیں۔ آپ کا یہ انشائیہ دیکھا تو دل باغ باغ ہو گیا۔ اللہ آپ کو طویل عمر اور صحت سے نوازے اور آپ اسی طرح گلشن اردو میں پھولوں کی بارش کرتے رہیں۔ آپ کا انشائیہ پڑھ کر دل بھر آیا ،کیسے کیسے لوگ یاد آئے ،کیسی کیسی یادوں نے دل پر کچوکے لگائے اور آنکھوں میں کیسے کیسے مناظر گھوم گئے۔ دل ملول ہوااور بہت ملول ہوا۔ لیکن انشائیہ کے آخر میں جو امید اور خوش آئند مستقبل کی نوید ملی وہ بہت تقویت کا باعث ہوئی۔ آپ کے بارے میں جو لوگ کہتے ہیں کہ آپ بہت اچھا لکھتے ہیں وہ بالکل صحیح کہتے ہیں۔ آپ کے قلم میں درد ہے ،کسک ہے ،علم ہے ،ماضی کی گونج ہے، حال کا پیام نو ہے اور مستقبل کی نوید نو۔ پھر اور کسچیز کی کمی ہے جو ہم شکوہ کریں یا دل چھوٹا کریں۔ دعا ہے کہ آپ اسی طرح لکھتے رہیں۔ اور شادکام رہیں۔ افسوس اس کا ہے کہ آپ کو پڑھنے والے بہت کم ہیں۔ لیکن اس کا علاج کیا ہے یہ نہیں معلوم۔ خیر کوئی باتنہیں۔ پھول کی خوشبو کے لئے ضروری نہیں کہ پھول ہاتھ ہی میں ہو۔ وہ خود ہوا کے دوش پر سوار کونے کونے
میں پہنچ جاتی ہے اور سب کو شادکام کرتی ہے۔ انشائیہ کا بہت بہت شکریہ۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔ سرور عالم راز مکرمی ومحترمی جناب ڈاکٹر حسنی صاحب: سلام علیکم میں نادم ہوں کہ اتنے عرصے آپ کی تخلیقات سے فیضیاب نہ ہو سکا۔ انشااللہ کوشش کر کے آپ کو پڑھوں گا۔ آپ کا یہ مضمون پڑھ کر انتہائی مسرت ہوئی اور یہ احساس بھی پیدا ہوا کہ آپ کی تحریر کتنی علم افزا اور دلکش ہوتی ہیں۔ یہ مضمون کہنے کو ایک سادہ اور سیدھے سادے موضوع پر لکھا گیا ہے لیکن ہم نئی نسلکے لوگوں کے لئے ندرت زبان و بیان ،تازگی اور دلچسپی کے بہت سے پہلو رکھتا ہے۔ پڑھ کر دل مالا مال ہو گیا ۔اب ایسی تحریریں دیکھنے کو نہیں ملتی ہیں۔ اللہ سے دعا
ہے کہ آپ کو طویل عمر اور اچھی صحت عطا فرمائے تاکہ ہم اسی طرح فیضیاب ہوتے رہیں۔ آمین۔ خادم :مشیر شمسی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9832.0 کیا اردو مر رہی ہے مکرمی حسنی صاحب :سلام مسنونآپ کا مضمون نہایت دلچسپ اور علم افروز ہے۔ اردو کے ہر دوست کے دل میں اس کو پڑھ کر اردو کے بارے میں سوچنے اور سمجھنے اور کام کرنے کا جذبہ بلند ہونا چاہئے۔ لیکن ایسا ہوگا نہیں کیونکہ اہل اردو ایک عجیبوغریب عشق میں مبتلا ہو کر رہ گئے ہیں اور وہ ہے غزل گوئی کا عشق۔ اردومحفلوں کا ذکر کیا کریں جہاں بھی جائیے صرف غزلگوئی پر لوگ جان دئے دے رہے ہیں
اور لطف کی بات یہ ہے کہ یہ غزل نہ صرف بلند معیار کی نہیں ہے (الا ماشااللہ) بلکہ نری تک بندی کے سوا اورکچھ بھی نہیں ہے۔ کوئی رسالہ اٹھا کردیکھ لیں ،فیس بک پر چلے جائیں ،غزلوں کے شائع ہونے والے مجموعےدیکھ لیجئے،ہر جگہ آپ کو ایک ہی صورت نظر آئے گی۔ اردو انجمن میں بھی نظم ،افسانہ ،مقالات وغیرہ سب کے لئے مناسب ابواب قائم کئے گئے ہیں اور باربار میں اہل انجمن سے گزارش کرتا رہتا ہوں کہ وہ نثر نگاری کی جانب توجہ دیں لیکن ہر بار میری گزارش صدا بصحرا ثابت ہوتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ لوگ آپ کے یا کسی اور کے یہاں لگائے ہوئے نثرپاروں کو پڑھتے تک نہیں ہیں اور اگر پڑھتے ہیں تو کچھ لکھتے نہیں ہیں۔میں آپ سے متفق ہوں کہ اردو مرے گی نہیں البتہ ایک تووہ کمزورہوجائے گی (بلکہ ہو رہی ہے) اور دوسرے دنیاکی زبانوں میں اس کوجو مقام ملنا چاہئے وہ اہل اردو کیسہل انگاری اور غیرذمہ دارانہ روش سے نہیں مل سکےگا۔ ہندوستان کو کہہ لیجئے کہ وہاں کی حکومت اور عوام سیاست اور تعصب کی بنا پر اردو کے خلاف ہیں (ویسے شاید سب کو یہ معلوم ہو کرحیرت ہوگی کہ دو ہندوستانیریاستوں یعنی صوبوں میں اردو کو ہندی کے ساتھ دوسری
سرکاری زبان مان لیا گیا ہے اور تقریبا ہر ریاست سےاردو کا ایک رسالہ سرکاری سرپرستی میں شائع ہوتا ہے!) لیکن پاکستان کو دیکھ لیں جہاں اردو قومی زبان کہلاتیہے لیکن سرکاری زبان انگریزی ہے۔ سبحان اللہ منافقت ہو تو ایسی ہو۔ اس پر مستزاد یہ کہ وہاں جس قسم کی زبان لکھی اور بولی جارہی ہے وہ اردو تو نہیں ہے البتہ اردواور انگریزی کی کھچڑی ضرور ہے۔ پڑھ کا افسوس ہوتا ہے لیکن کچھ کیا نہیں جا سکتا۔ میرے نزدیک اردو کے زندہ رہنے میں دو اسباب بہت معاون ہیں اور رہیں گے۔ایک تو ہندوستانی فلمیں جن کو سرکاری طور پر ہندی کہا جاتا ہے لیکن ان کی زبان سراسر عام اور آسان (اور بعض اوقات ادبی) اردو ہوتی ہے۔ اگر ہندی میں فلمیں بنائی جائیں تو ٹھپ ہو جائیں۔ اسی طرح ہندوستان کے ہندی اخبارجس کثرت سے اردو اور فارسی کے الفاظ استعمال کر رہے ہیں وہ حیرت ناکہے۔ اردو کے زندہ رہنے کا دوسرا سبب غزل کی مقبولیت ہے۔ ہندوستان میں غزل اردو کے علاوہ ہندی ،گجراتی، بنگالی ،تیلگو ،مراٹھی ،پنجابی ،اڑیا وغیرہ زبانوں میںلکھی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بنگالی کے علاوہکسی اور زبان میں شاعری اتنی ترقی یافتہ اور ہر دل عزیز
نہیں ہے۔ غزل سے کم سے کم یہ فائدہ تو ضرور ہوا ہے۔ زبانیں وقت کے ساتھ ہمیشہ بدلتی ہیں۔ مقامی اثرات سے بھی یہ بچ نہیں سکتی ہیں اور علاقائی زبانیں بھی ان پراثر کرتی ہیں ۔اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ اس عمل سےزبان ترقی ہی کر سکتی ہے بشرطیکہ اس میں دوراندیشی کو مدنظر رکھا جائے۔ آپ کے مضمون کا دلی شکریہ۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے۔ سرور عالم راز )(1 people liked this bohat hi mohtaram janab raz sahibaap mairi na'cheez tehriroon ko tovajo se parhtay hain is ke liay ehsan'mand hoon. Allah aap ko salamat rakhe. mein ne idharodhar yahhi daikha hai very nice, bohat khoob. itna acha likhnay
par daad qabool farmaei. is qisam ka jawabi tabsra hota hai. is noeat ke tabsaray se koee faeda nahain hota. munfi ya mosbat tehreer par baat to honi chahiay ta'kah mazeed ke darwazaykhul sakain. warna is qisman ki daad ka koee faeda nahain hota. daad lay kar kya karna hota hai baat ko agay bharna chahiay. asal zarorat yah hi hai. maire liay aap ka likha hi kafi hota hai. dil khool kar baat to kartay hain. maza aa jata hai. achi baat hai, ahbaab ghazal hi likhain, laikin fikr ko aaj kishahadat ke sath sath zoban ko bhi kuch dastyaab hotay rehna chahiay dr maqsood hasni http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9874.0
اردو اور سائنسی علوم کا اظہار » بروز :جون 90:20:20 ,4903 ,00شام « محترم ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب، اپ نے اپنے مضمون میں جو نکات اٹھائے ہیں وہ اردوزبان کی ترویج و اشاعت کے لئے تو ضروری ہیں ہی بلکہان میں اردو زبان کو ریفارم کرنے کے لئے بہت سا سامان موجود ہے۔ بدقسمتی سے اب تک اردو کے زیادہ تر فکری ڈھانچے شعرو و شاعری تک محدود چلے ا رہے ہیں اس وجہ سے اردو کا لسانی مزاج بھی شاعرانہ مضامین کے لئے انتہائی موزوں ہے لیکنسائنسی علوم کے لئے کسی بھی لکھنے والے کو بہت زیا دہ تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔ تاہم میں بھی اپ کی طرح یہ سمجھتا ہوں کہ ایک باراگر لوگ سائنسی مضامین کا اردو میں اظہار شروع کردیں
تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھاردو زبان کے مزاج اور ساختیات میں ایسی تبدیلیاں واقع ہوں گہ جس سے یہ زبان سائنسی علوم کے لئے موزوں ہوتی چلی جائے گی۔ میں بہت عرصہ سے اپنی تحریروں میں اردو زبان کو ریفارم کرنے کی بات کر رہا ہوں ۔اس کے لئے بعض اوقات مجھے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جب تکاردو کو سائنسی مضامین کے لئے موزوں نہیں بنایا جائےگا اور اس میں ایسی تبدیلیاں نہیں لائیں گہ کہ اس کا دامن سائنسی علوم سے مالا مال ہو جائے اس کا مستقبل خطرات سے دوچار رہے گا۔ اردو لکھنے والے ادیب یہ کام باسانی کر سکتے ہیں۔ میں خود کوشش کرتا ہوں کہ اپنے فکری و سائنسی مضامین اردو میں لکھوں۔ بدقسمتی سے اردو داں طبقہسائنسی موضوعات پر لھکی گئی تحریریں دیکھ کر اسے ہضم نہیں کر پاتا۔ دیکھئے یہ چیلنج کب تک چلتا ہے ۔
اپ کا مضمون اس اعتبار سے بہت اہم ہے۔ خاص طور پر اپ کی ہند چینی زبانوں سے الفاظ کو اردو میں داخل کرنے کی رائے میں بہت وزن ہے۔اردو شاعری میں اج کل جاپانی ہائیکو کا بہت چرچا ہے۔ ہائیکو اب اردو صنف شاعری ہے۔ کسی کو لفظ ہائیکو سمجھنے میں دشواری نہیں ہوتی۔ نیازمند کے اشرف ****** بروز :جون « 09:41:44 ,4903 ,00 مکرم بندہ جناب حسنی صاحب؛ سلام مسونآپ کا یہ انتہائی دلچسپ اور خوش آئند مضمون میں نے بہت شوق سے پڑھا۔ حسن اتفاق سے میں آج کل اسی
موضوع پر تحقیق کر رہا ہوں اور ارادہ ہے کہ ایک مضمون لکھ کر ہند وپاک کے رسالوں کوبھیجوں۔ آپ کامضمون میری اس تحقیق میں ایک اہم کڑی کا اضافہ کرتا ہے جس کے لئے میں آپ کا بہت ممنون ہوں۔ اردو کا خمیر بیشتر فارسی سے اٹھا ہے۔ ہر چند کہ روز مرہ کی بول چال کی زبان کا ڈھانچہ اور اصول و قواعد فارسی ار مقامی دیسی زبانوں کی آمیزش سے بنے ہیں لیکن ادبی اردو فارسی کے احسانات سے بہت بوجھل ہے۔ میں کچھدنوں قبل تک اس کا قائل تھا کہ اردو کے مروجہ ڈھانچے کو قائم رکھا جائے اور اس میں \"غیر ضروری\" تبدیلیاں نہ کی جائیں لیکن اب غور کرتا ہوں تو جو کچھ کل تک\"غیر ضروری\" تھا وہ آج \"ضروری\" ہو گیا ہے۔ اردو میں یقینا یہ صلاحیت ہے کہ وہ دوسری زبانوں کے اثر کو قبول کرے اور ان سے حسب ضرورت مواد و اصطلاحات مستعار لے کر ان کو اپنے رنگ میں ڈھالے (یعنی ان کو \"مورد\" کرے) اور یہ بھی ضروری ہے کہ بہت سے غیر اردو الفاظ جو وقت کے ساتھ ہماری زندگی اور زبان کاحصہ بنتے جارہے ہیں (اوراس عمل میں آئندہ تیز رفتاریکی امید ہی نہیں بلکہ یقین ہے) ہم اپنی زبان میں دانشمدنی اور بالغ نظری سے کام لیتے ہوئے جذب کریں۔ میں اردو
Search
Read the Text Version
- 1
- 2
- 3
- 4
- 5
- 6
- 7
- 8
- 9
- 10
- 11
- 12
- 13
- 14
- 15
- 16
- 17
- 18
- 19
- 20
- 21
- 22
- 23
- 24
- 25
- 26
- 27
- 28
- 29
- 30
- 31
- 32
- 33
- 34
- 35
- 36
- 37
- 38
- 39
- 40
- 41
- 42
- 43
- 44
- 45
- 46
- 47
- 48
- 49
- 50
- 51
- 52
- 53
- 54
- 55
- 56
- 57
- 58
- 59
- 60
- 61
- 62
- 63
- 64
- 65
- 66
- 67
- 68
- 69
- 70
- 71
- 72
- 73
- 74
- 75
- 76
- 77
- 78
- 79
- 80
- 81
- 82
- 83
- 84
- 85
- 86
- 87
- 88
- 89
- 90
- 91
- 92
- 93
- 94
- 95
- 96
- 97
- 98
- 99
- 100
- 101
- 102
- 103
- 104
- 105
- 106
- 107
- 108
- 109
- 110
- 111
- 112
- 113
- 114
- 115
- 116
- 117
- 118
- 119
- 120
- 121
- 122
- 123
- 124
- 125
- 126
- 127
- 128
- 129