Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore مقصود حسنی کی تحقیق و تنقید اہل دانش کی نظر میں

مقصود حسنی کی تحقیق و تنقید اہل دانش کی نظر میں

Published by maqsood5, 2016-08-26 07:58:30

Description: abk_ksr_mh.808/2016

مقصود حسنی کی تحقیق و تنقید اہل دانش کی نظر میں

پیش کار
پروفیسر نیامت علی مرتضائی
ابوزر برقی کتب خانہ
اگست ٢٠١٦

Search

Read the Text Version

‫مقصود حسنی کی تحقیق و تنقید اہل دانش کی نظر میں‬ ‫پیش کار‬ ‫پروفیسر نیامت علی مرتضائی‬ ‫ابوزر برقی کتب خانہ‬ ‫اگست ‪٦١٠٢‬‬

‫تمثال میں لسانیاتی تبسم کی تلاش‬ ‫عزیز مکرم جناب حسنی صاحب‪ :‬سلام مسنون‬‫مجھ کو یہ کہنے میں شمہ برابر بھی تکلف نہیں ہے کہ آپ‬ ‫ایک بڑے نثر نگار‪ ،‬ایک عظیم نقاد‪ ،‬ایک اچھے شاعر‪،‬‬ ‫باکمال انشائیہ نویس تو ہیں ہی‪ ،‬ساتھ ہی آپ ایک بہت‬ ‫بڑے انسان بھی ہیں۔ جس درد مندی‪ ،‬دلسوزی اور لگن‬ ‫سے اپ گونا گوں موضوعات پر لکھتے ہیں‪ ،‬ان کا کما‬ ‫حقہ احاطہ کرتے ہیں‪ ،‬اور طرح طرح سے زبان و بیان‪،‬‬‫فصاحت وبلاغت کا جادو جگاتے ہیں وہ قابل دید ہے‪ ،‬لائق‬‫تقلید ہے اور ہر سطح پر مستحق داد ہے۔ آپ جیسی ہستیاں‬‫اب اردو ادب و شعر کے افق پر کہاں رہ گئی ہیں۔ آپ کی ہر‬ ‫تحریر اپنے انداز کی انوکھی تحریر ہوتی ہے اور ہم کو‬

‫پڑھ کر جو فیض حاصل ہوتا ہے اس کا بیان اور تصور‬ ‫ممکن نہیں ہیں۔ کاش ہم کوشش اور محنت سے آپ کی‬‫نگارشات سے وہ کچھ سیکھ سکیں جو سکھانے والے اب‬ ‫خال خال بھی نظر مشکل سے آتے ہیں۔ اللہ آپ کو سلامت‬‫رکھے اور ہم لوگ مدتوں اسی طرح آپ سے استفادہ کرتے‬ ‫رہیں۔ آپ جتنا لکھتے ہیں اور جیسا لکھتے ہیں اس کے‬‫رموز تک ہماری رسائی کہاں۔ ہم توبس ادھر ادھر سے چند‬ ‫دانے چن سکتے ہیں اور سچ پوچھئےتو یہ بھی ایک‬ ‫باعث افتخار بات ہے۔‬‫تبسم کاشمیری صاحب سے میں بہت کم واقف ہوں اور میرا‬‫خیال ہے کہ انجمن کے بیشتر لوگوں پر بھی یہی حکم لگایا‬‫جا سکتا ہے۔ آپ نے جس انداز میں تبسم کا اور ان کے فن‬ ‫کا جائزہ لیا ہے اور جس خوبصورتی سے ان کی فکر کو‬‫یہاں پیش کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آپ جتنا لکھتے ہیں‬‫اتنا تو میں پڑھ بھی نہیں سکتا۔ یہ مضمون تبسم صاحب پر‬‫کتاب کا پیش لفظ ہونا چاہئے۔ اگر تبسم صاحب اسے پڑھیں‬ ‫گے تو یقینا ان کا دل نہایت خوش ہوگا کہ اس گئے بیتے‬ ‫دور میں بھی ان کے قدردان ابھی کچھ باقی ہیں۔ یہ‬ ‫مضمون اس بات کا شاہد ہے کہ کسی کی ادبی حیثیت کو‬‫پرکھنا اور پھر اسے دنیائے ادب کے سامنے پیش کرنا کتنا‬

‫مشکل کام ہے اور کیسی مجاہدانہ فکر اورانتھک محنت‬‫چاہتا ہے۔ ایسے بے بہا مضمون پر ہمارا دلی شکریہ قبول‬ ‫کیجئے۔‬‫باقی رہ گیا راوی تو اگر اب بھی چین نہیں بولے گا توکب‬ ‫!بولے گا‬ ‫سرور عالم راز‬‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9217.0‬‬ ‫نماز کا سو سے زیادہ سال کا پرانا اردو ترجمہ‬ ‫محترمی حسنی صاحب‪ :‬سلام مسنون‬ ‫یہ نایاب تبرک یہاں عنایت کرنے کا تہ دل سے شکریہ‬

‫قبول کیجئے۔ یہ ہماری قوم کی بد قسمتی ہے کہ ایسے‬ ‫نوادرات جلد ہی صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے۔ ہم کو‬ ‫ایسی بیش بہا چیزیں کبھی محفوظ کرنے کی توفیق نہ‬ ‫ہوئی۔ میں امریکہ میں دیکھتا ہوں کہ یہ اپنے تاریخی‬‫نوادرات کس قدر محنت اور توجہ سے بچا بچا کر رکھتے‬ ‫ہیں۔ کتب خانے بیش قیمت کتابوں سے بھرے ہوئے ہیں۔‬ ‫یہاں کا قانون ہے کہ چھپی ہوئی جو چیز بھی (خواہ وہ‬ ‫کسی زبان میں ہو) اگر ملک میں آئے گی تو اس کی ایک‬ ‫جلد واشنگٹن کے قومی کتب خانے میں رکھی جائے گی۔‬‫میں نے اپنی کتابیں بھی اس کتب خانہ کے علاوہ ہر ایسی‬ ‫یونی ورسٹی کے کتب خانے کو بھیج دی ہیں جہاں اردو‬ ‫پڑھائی جاتی ہے (ایسی درجن بھر یونی ورسٹیاں ہیں)۔‬‫لطف یہ ہے کہ کتاب ملنے پر ہرکتب خانے سے شکریہ کا‬‫باقاعدہ خط آتا ہے۔ یہی کتابیں میں ہندوستان اور پاکستان‬ ‫کے اردو کتب خانوں کو بھیجتا ہوں تو وہاں سے کوئی‬‫رسید نہیں آتی۔ شکریہ کے خط کا تو ذکر ہی چھوڑ دیجئے۔‬ ‫اس سے زیادہ کہنے کی شاید ضرورت نہیں ہے۔‬ ‫سرور عالم راز‬

‫جزاك اللہ كل الخیر‬ ‫‪akbar‬‬‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9450.0‬‬ ‫غزالی اور اقبال کی فکر۔۔۔۔۔۔ایک جائزہ‬ ‫» بروز‪ :‬مارچ ‪ 09:94:09 ,4902 ,90‬شام «‬

‫مکرم بندہ حسنی صاحب‪ :‬سلام مسنون‬‫آپ کے مضامین پڑھ کر دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔ معلوم ہوتا‬‫ہے کہ آپ کا مطالعہ کس قدر وسیع اور عمیق ہے۔ کتابیں‬‫پڑھ لینا اور بات ہے اور اس مطالعہ سے کتابوں کا نچوڑ‬ ‫نکال لینا اور بات ہے۔ اس سے قبل میں نے گزارش کی‬ ‫تھی کہ آپ کے مضامین کتابی شکل میں شائع ہونے‬‫چاہئیں۔ اب پھر اسی بات کا اعادہ کرتا ہوں۔ ایسا نہ ہوا تو‬‫یہ بیش قیمت سرمایہ ضائع ہو جائے گا۔ اب ایسی چیزیں‬ ‫پڑھنے والے اور ان پر لکھنے والے خال خال رہ گئے‬‫ہیں۔ جو چیز محفوظ ہوجائے اس کو غنیمت جاننا چاہئے۔‬ ‫آپ اس جانب بہت سنجید گی سے سوچیں۔ انشا اللہ اس‬‫طرز فکر کے اچھے نتائج ظاہر ہو ں گے۔ باقی راوی سب‬ ‫چین بولتا ہے۔‬ ‫سرور عالم راز‬‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8661.0‬‬

‫اقبال کا فلسفہءخودی‬ ‫» بروز‪ :‬مارچ ‪ 90:04:94 ,4902 ,92‬شام «‬ ‫مکرمی حسنی صاحب‪ :‬سلام مسنون‬‫آپ کے مضامین جب جب پڑھتا ہوں یہ احساس بڑھتا جاتا‬ ‫ہے کہ ان کو ایک کتاب کی شکل میں جمع کر کے شائع‬ ‫کرانا چاہئے۔ کیا کبھی آپ نے اس بارے میں سوچا ہے؟‬ ‫آپ کے خیال و بیان میں جو ندرت وانفرادیت ہے وہ بہت‬‫کم لوگوں میں نظر آتی ہے۔ خودی پر اس قدر لکھا جا چکا‬ ‫ہے کہ اللہ اکبر۔ پھر بھی اس کا سرا کسی کی گرفت میں‬ ‫نظر نہیں آتا۔‬‫میرے جیسا شخص تو صرف پڑھ کر سمجھنے کی کوشش‬‫ہی کر سکتا ہے۔ سو آپ سے دست بستہ گزارش ہے کہ‬ ‫اپنے مضامین کو جمع کر کے ان کی اشاعت کی جانب‬

‫توجہ دیں۔ یہ ایک کار خیر ہوگا اور اس سے بہت سوں کا‬ ‫بھلا ہوگا۔ انشا اللہ۔‬ ‫سرور عالم راز‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8642.0‬‬ ‫ادبی تحقیق وتنقید‘ جامعاتی اطوار اور کرنے کے کام‬ ‫!ڈاکٹر صاحب‪ ,‬آداب‬‫میں آپ کی تحریریں بہت شوق سے پڑھتا ہوں‪ ,‬تنگئی وقت‬‫کے ہاتھوں اگر ِان تحریروں پر کچھ لکھنے کا موقع نہیں‬‫ملتا تو ِاس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ میں آپ کے علم‬ ‫سے مستفید نہیں ہو رہا‪ -‬از را ِہ کرم آپ یہ سلسلہ جاری‬ ‫‪-‬رکھیں‪ ,‬مجھ جیسے بہت سوں کا بھلا ہو رہا ہے‬

‫فیصل فارانی‬ ‫مکرم بندہ حسنی صاحب‪:‬سلام مسنون‬ ‫جب آپ نے یہ انشائیہ یہاں لگایا تھا تو میرا ارادہ تھا کہ‬‫اس پر اظہار خیال کروں گا۔ لیکن زندگی کی تگ و دو میں‬ ‫بھول گیا۔ خدا بھلا کرے فیصل صاحب کا کہ آج انہوں نے‬‫اپنے خط کے توسط سے مجھ کو اپنی کوتاہی سے آگاہ کیا۔‬ ‫آپ کے انشائیے اور دوسرے مضامیں پر مغز اور علم‬ ‫پرور ہوتے ہیں۔ میں ان کوہمیشہ پڑھتا ہوں اور حسب‬ ‫استعداد و توفیق لکھنے کی کوشش بھی کرتا ہوں۔ آج کل‬ ‫لوگوں کو غزل نے ایسا مار رکھا ہے کہ ان کو اور کچھ‬‫دکھائی ہی نہیں دیتا۔ معلوم نہیں انہیں اس کا احساس کیوں‬ ‫نہیں ہوتا کہ کوئی زبان بھی صرف ایک صنف سخن کے‬‫بوتے پر فلاح نہیں پا سکتی۔ اس سہل انگاری کا علاج بھی‬ ‫کوئی نہیں ہے‬

‫ہمارے یہاں تعلیمی اداروں کا جو حال ہے اس سے آپ‬‫بخوبی واقف ہیں۔ میں علی گڑھ یونیورسٹی کا پڑھا ہوا ہوں‬ ‫اور پھر وہیں دس سال پڑھا بھی چکا ہوں۔ اب وہاں جاتا‬‫ہوں تو پہلے کے مقابلہ میں ہر چیز زوال پذیر دیکھتا ہوں۔‬ ‫نہ وہ استاد ہیں‪،‬نہ وہ شاگرد اور نہ وہ معیار۔ بس گاڑی‬‫چل رہی ہے ۔ اداروں کے علاوہ ہمارے استادوں کا عجیب‬ ‫حال ہے۔ میں ایک صاحب سے واقف ہوں جنہوں نے‬‫اعتراف کیا ہے کہ وہ لڑکوں کو معاوضہ پر پی ایچ ڈی کے‬ ‫مقالے لکھ کر دیتے ہیں۔ میں نے جب ان سے کہا کہ یہ‬‫بات تو بالکل غلط ہے۔ آپ ان کو لکھنے کا گر سکھائیں تو‬‫یہ بہتر ہوگا تو مجھ سےخفا ہو گئے اور آج تک خفا ہیں۔‬ ‫آپ سے استدعا ہےکہ اسی طرح لکھتے رہیں۔ اللہ آپ کو‬ ‫طاقت اور ہمت عطا فرمائے۔‬ ‫سرور عالم راز‬

‫جناب ڈاکٹر حسنی صاحب‬ ‫آداب و تسلیمات‬ ‫آپ کے تحقیقی مضامین بلا شبہ قابل ِ ستائش ہیں‬‫آپ کا یہ مضمون بہت شوق سے پڑھا ہے ۔ امید ہے کہ یہ‬ ‫سلسلہ جاری رہے گا‬ ‫ممنون و طالب ِ دُعا‬ ‫زاہدہ رئیس راجی‬‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8472.0‬‬ ‫استاد غالب ضدین اور آل ہند کی زبان‬ ‫مکرم بندہ جناب حسنی صاحب‪ :‬سلام علیکم‬

‫بوجوہ اس وقت آپ کی یہ تحریر سرسری طور پر ہی دیکھ‬ ‫سکا ہوں ۔ رات کا بارہ بجا چاہتا ہے چنانچہ شاید کل ہی‬ ‫اسے پڑھ سکوں گا۔ اس وقت صرف آپ کے آخری چند‬ ‫جملوں کا جواب مقصود ہے جو شاید آپ نے قدرے غصہ‬‫کی حالت میں لکھے ہیں۔ اول تو میں کوئی عالم فاضل نہیں‬‫ہوں۔ یہ آپ کا حسن ظن ہے۔ دوسرے اگر ہوتا بھی تو اس‬ ‫کا انجمن کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تیسرے یہ‬‫کہ میں نے \"فخر\" سے نہیں کہا کہ انجمن میں صرف اردو‬ ‫اور رومن اردو میں ہی چیزیں لگائی جاتی ہیں۔ میں بارہا‬‫لکھ چکا ہوں (آپ چونکہ انجمن میں نسبتا نو وارد ہیں اس‬ ‫لئے شاید آپ کی نطر سے نہ گزرا ہو) کہ رومن اردو‬ ‫ہماری ترجیح یا پسند نہیں ہے بلکہ مجبوری ہے۔ اس‬ ‫اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ انجمن جب قائم ہوئی تھی تو‬ ‫اس وقت نیٹ پر اردو لکھنا صرف ان لوگوں کے لئے‬‫ممکن تھا جن کے پاس اردو کا کوئی پروگرام مثلا ان پیج‬‫تھا۔ اس زمانے میں گوگل اور مائکروسوفٹ کی طرف سے‬‫یہ سہولت نہیں آئی تھی جس کی مدد سے میں یہ خط لکھ‬‫رہا ہوں۔ چونکہ انجمن کے ہر رکن کے پاس اردو پروگرام‬

‫نہیں تھا اس لئے رومن اردو قابل قبول قرار دی گئی تھی۔‬ ‫آج وہی پالیسی چلی آ رہی ہے۔ آج بھی کچھ لوگ ایسے‬‫ہیں (مثال کے طور پر جاوید بدایونی صاحب) جن کو رومن‬‫اردو میں لکھنا اردو کے مقابلے میں آسان لگتا ہے۔ یہاں‬ ‫لکھنے والوں کی جس قدر کمی ہے اس سے اپ خوب‬‫واقف ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ رومن اردو پر اپنے دروازے‬‫بند کر کے اپنے دوستوں کے لئے یہاں آنا ہی نا ممکن بنا‬ ‫دیں۔ چنانچہ یہ اجازت قائم ہے اور ہماری رائے میں اس‬‫میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ آپ ذرا دوسری اردو محفلوں میں‬ ‫جا کر دیکھیں تو وہاں بھی یہی صورت دکھائی دے گی۔‬ ‫مجھے افسوس ہے کہ آپ کو میری پالیسی پسند نہ آئی‬ ‫لیکن انجمن جو کام کر رہی ہے اس کے لئے یہی مناسب‬‫ہے جو کیا جا رہا ہے۔ امید ہے کہ بات صاف ہوگئی ہو گی۔‬ ‫از راہ کرم اس خط کا جواب نہ دیں کیونکہ یہ کوئی بحث‬‫طلب مسئلہ نہیں ہے۔ میں آپ کا بے حد شکر گزار ہوں کہ‬‫انجمن پر آپ اس قدر کرم فرماتے ہیں۔ امید ہے کہ یہ نگاہ‬ ‫کرم قائم رہے گی۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔‬ ‫سرور عالم راز‬

‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8593.0‬‬ ‫آشا پربھات' مسکاتے' سلگتے اور بلکتے احساسات کی‬ ‫شاعر‬ ‫» بروز‪ :‬جولائی ‪ 09:33:20 ,4900 ,04‬صبح «‬ ‫مکرمی جناب ڈاکٹر حسنی صاحب‪ :‬سلام علیکم‬ ‫آشا پربھات پر آپ کا سیرحاصل مضمون پڑھ کر بہت‬ ‫خوشی ہوئی۔ وہ ہندوستان کی شاعرہ ہیں۔ہندوستان میں‬ ‫کسی ہندو شاعرہ کا اردو میں شاعری کرنا ایک نہایت‬‫خوش آئند معرکہ ہے۔ اس سے ایک اشارہ یہ بھی ملتا ہے‬‫کہ اردو کا مستقبل وہاں بھی خراب ہرگز نہیں ہے۔ کاش اہل‬‫اردو ایسے ادیبوں اور شاعروں کی قدر کریں جو نامساعد‬ ‫حالات کے باوجود محبت اور لگن سے زبان و ادب کی‬

‫خدمت میں مصروف ہیں۔ اردو کا حال جیسا کچھ بھی ہے‬ ‫وہ اہل اردو کے ہاتھوں ہی ہے۔‬‫آشا پربھات کی تقریبا تمام نظمیں نثری نظمیں لگ رہی ہیں۔‬ ‫کوئی آزاد نظم بھی نظر نہیں آئی۔ ان کے خیالات بہت‬‫جاندار اور تازہ ہیں اور بیان پر ان کو عبور ہے۔ اتنا تو ہم‬ ‫بہت سے اردو کے شاعروں کے بارے میں بھی نہیں کہہ‬ ‫سکتے ہیں! مجھ کو آشا صاحبہ کی غزلوں کا بے صبری‬ ‫سے انتظار ہے۔ امید ہے کہ آپ جلد ہی اس جانب فکر‬ ‫فرمائیں گے۔ بہت بہت شکریہ۔ اللہ سے دعا ہے کہ آپ کو‬‫اسی طرح خدمت ادب وشعر کے محاز پر تازہ کار اورتازہ‬ ‫دم رکھے۔‬ ‫مہر افروز‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9894.0‬‬ ‫اکبر اردو ادب کا پہلا بڑا مزاحمتی شاعر‬

‫مکرمی و محترمی جناب حسنی صاحب‪ :‬سلام مسنون‬ ‫اکبر الہ آبادی پر آپ کا انشائیہ دلچسپ ہے اور علم افزا‬‫بھی۔ اس انداز فکر کا مضمون اکبر پر مجھ کو یاد نہیں کہ‬ ‫کسی اور نے لکھا ہو۔ گزارش ہے کہ اس فکر کو اور‬ ‫جلادے کر ایک طویل اور جامع مضمون لکھیں اور شائع‬ ‫کروائیں۔ اس کی سخت ضرورت ہے۔ اکبر اور دوسرے‬‫مزاح نگاروں پر ہمارے یہاں بہت کم کام ہوا ہے۔ مزاح کو‬‫ہمارے ادب میں وہ مقام نہیں دیا گیاجس کایہ مستحق ہے۔‬ ‫آپ جیسےاہل علم کو اس جانب فکر کرنے کی ضرورت‬ ‫ہے۔ مضمون پر میری داد اور دلی شکریہ قبول کیجئے۔‬‫سر سید پر آپ کے خیالات جزوی طور پر صحیح ہیں لیکن‬‫یک طرفہ ہیں۔ سر سید کو برا بھلا کہنے والے‪ ،‬غدار قوم‬‫اور مغرب کے غلام کہنے والے پہلے بھی بہت تھے اوراب‬ ‫بھی ہیں لیکن ان کے احسانات کا اعتراف بھی بہت‬‫ضروری ہے۔ اگر انہوں نے مسلمانوں کا گریبان پکڑ کر نہ‬‫جھنجوڑا ہوتا اور ان کی تعلیم کی ایسی فکر نہ کی ہوتی تو‬ ‫نہ میں انجینئر ہوتا اور نہ آپ ڈاکٹر۔ ان کی کوشش سے‬‫میری اور آپ کی اولاد جو فیض پا رہی ہے اس کا شکریہ‬

‫ادا نہ کرنا نا دانی ہے۔ خامیاں کس میں نہیں ہوتیں اور‬‫بعض اوقات وقت کا دبائو اور تقاضے بھی انسان کو مجبور‬‫کرتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ سر سید اور اکبر الہ آبادی کے‬ ‫ہر کام اور موقف کی تائید کی جائے۔ جس نے جو احسان‬ ‫قوم پر کیا ہے اس کا اعتراف ضروری ہے۔ میں علی گڑھ‬‫کا پڑھا ہوا ہوں اور سرسید کے کام کو میں نے بہت قریب‬ ‫سے دیکھا ہے۔ وہ فرشتہ نہیں تھے لیکن قوم کے بہت‬ ‫بڑے ہمدرد تھے۔ انہوں نے جو کام کیا وہ کم لوگ کر‬ ‫سکے ہیں۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔‬ ‫سرور عالم راز‬‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10009.0‬‬ ‫امانت کی ایک غزل‪ ......‬فکری و لسانی رویہ‬ ‫مکرمی و محترمی حسنی صاحب‪ :‬سلام مسنون‬

‫آپ کا شکریہ کس طرح ادا کیا جائے کہ آپ ہمہ وقت اردو‬ ‫انجمن کی اور اردو شعر وادب کی بیش بہا خدمات میں‬ ‫سرگرم ہیں اور اس کام میں کسی صلے یا ستائش کے‬‫خواہشمند کبھی نہیں رہے ہیں۔ اردو کو آپ جیسے بے لوث‬‫اور وفاشعار خدام کی ضرورت ہے۔ آج کے حالات میں ایسا‬ ‫سوچنا بھی گناہ بن کر رہ گیا ہے چہ جائیکہ ایسے افراد‬ ‫کو جمع کرنے کا کام ہاتھ میں لیا جائے۔ اللہ آپ کو طویل‬‫عمر اور اچھی صحت سے نوازے اور جزائے خیر مرحمت‬ ‫فرمائے۔‬ ‫حسب معمول آپ کا انشائیہ نہایت کامیاب اور سیر حاصل‬ ‫ہے۔ ایسے نوادرات اب بزرگوں کے کتب خانوں یا ان کی‬ ‫میز کی درازوں میں ہی مل سکتے ہیں۔ نہ کوئی ان کا‬‫پرسان حال ہے اور نہ کوئی ان سے استفادہ کرنے والا۔ یہ‬ ‫اہل اردو کا بہت بڑا المیہ ہے کہ انہوں نے کتابیں پڑھنی‬ ‫بالکل ہی چھوڑدی ہیں۔ والد مرحوم کے کتب خانے سے‬‫مجھ کو بھی کئی نوادرات ملے ہیں۔ میں نے کوشش کی کہ‬ ‫ان کو یہاں اور دوسری محفلوں میں لوگوں کے استفادے‬ ‫کے لئے پیش کروں لیکن مجھ کو مایوسی کا سامنا کرنا‬ ‫پڑا اس لئے کہ ان چیزوں کو پڑھنے والے نہ مل سکے۔‬‫اگر کسی نے انہیں دیکھا بھی تو دو الفاظ نہ لکھے کہ کیا‬

‫دیکھنے کے بعد انہوں نے ان شہ پاروں کو پڑھا بھی تھا؟‬‫ہار کر میں نے اس کام سے ہاتھ اٹھا لیا۔ ظاہر ہے کہ میں‬ ‫ایک چنا یہ بھاڑ نہیں پھوڑسکتا ہوں۔‬‫آپ نے بہت تفصیل سے اپنے نوادرات کا تجزیہ کیا ہے اور‬‫اس کام میں بہت محنت کی ہے۔ اوروں کی خبر نہیں لیکن‬ ‫میں اپنی جانب سے یقین دلاتا ہوں کہ میں نے اس سے‬‫بھر پور استفادہ کیا اورابھی یہ کام دو ایک دن مزید چلے‬‫گا تاکہ آپ کے مضمون سے پوری طرح مستفید ہو سکوں۔‬ ‫بہت بہت شکریہ۔‬ ‫اور رہ گیا وہ راوی تو اس مرتبہ بڑی بشاشت کے ساتھ‬ ‫!چین ہی چین بولتا ہوا گیا ہے‬ ‫سرور عالم راز‬‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10052.0‬‬

‫طاق ابد پہ رکھے ہوئے چراغ‬ ‫شاعر‬ ‫پروفیسر صوفی عبدالعزیز ساحر پی ایچ ڈی‬ ‫تجزیاتی معروضات‬ ‫مقصود حسنی‬ ‫بلا شبہ بہت خوب لکھا ہے۔‬‫تحریر کے نکات سے اتفاق یا اختلاف تو خیر ایک الگ اور‬ ‫تفصیل طلب موضوع ہے۔‬ ‫سب سے اہم البتہ یہ کہ الفاظ کی ترکیب اور جملوں کی‬ ‫نشست و برخواست کی ڈور اکثر ہاتھوں سے چھوٹتی‬ ‫دکھائی دے رہی ہے۔ اور اس کشمکش میں بعض اوقات‬ ‫معنی کی ترسیل میں بے ساختگی بھی متاثر ہو رہی ہے۔‬ ‫بہر حال۔ امید ہے کہ مزید نگارشات سے نوازیں گے۔‬ ‫سلامت رہیں۔‬ ‫‪Muzammil Shaikh Bismil‬‬

‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10105.0‬‬ ‫ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر‬ ‫کی‬ ‫تحقیقی وتنقیدی زبان کے سات رنگ‬ ‫محترم ڈاکتر حسنی صاحب‬ ‫آداب و تسلیمات‬‫وقتا فوقتا آپکے تحقیقی مقالوں سے اس بزم میں مستفید‬ ‫ہوتی رہتی ہوں یقین جانیے کہ ایک طالبعلم کے لئے‬‫سوچنے اور غورکرنے کے لئے آپکے مضامین میں اتنا‬‫کچھ ہوتا ہے کہ اگر وہ کچھ اور نہ بھی دیکھے تب بھی‬‫اُسے اپنی تخلیقات کو بھی پرکھنے کا ایک نیا راستہ مل‬ ‫جاتا ہے‬‫اس مضمون کو یہاں پیش کرنے کے لئے دل کی گہرائیوں‬ ‫سے آپکی ممنون ہوں‬

‫امید ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا‬ ‫مخلص‬ ‫زاہدہ رئیس راجی‬‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10081.0‬‬ ‫اردو اور سعدی بلوچستان کے بلوچی کلام کا‬ ‫لسانیاتی اشتراک‬ ‫!مکرم بندہ جناب حسنی صاحب‪ :‬سلام مسنون‬ ‫کافی عرصے کے بعد نیاز حاصل کر رہا ہوں۔ آپ کے‬‫مضامین برابر دیکھتا رہا ہوں البتہ لکھنے کا موقع کم ہی‬ ‫ملا ہے۔ آپ کی ہمت کی داد دینی پڑتی ہے کہ کس قدر‬‫مشقت طلب کام کیسی دل جمعی سے سر انجام دیتے رہتے‬‫ہیں۔ آج کل تحقیق و تنقیح کا سنجیدہ کام اردو میں بہت کم‬‫ہو گیا ہے۔ نئی پود کو کوئی شوق نہیں ہے اورپرانی اٹھتی‬

‫جاتی ہے۔ معلوم نہیں اس کمپیوٹر کے ہاتھوں اردو کا کیا‬‫بنے گا۔ اہل اردو پہلے ہی سہل انگار اور غیر ذمہ دار ہیں۔‬ ‫آگے بہتری کی امید کیسے کی جائے۔‬‫آپ کا زیر نظر مضمون بہت دلچسپ ہے اور ایک نظر میں‬‫ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ کام کتنی محنت سے کیا گیا ہے۔‬ ‫کسی کے کلام کا ایک ایک مصرع پڑھنا‪ ،‬اس کا لسانی‬‫تجزیہ کرنا اور پھر اس مواد کی شیرازہ بندی کرنا معمولی‬ ‫کارنامہ نہیں ہے۔ اللہ اپ کو قائم رکھے۔ اردو انجمن میں‬‫آپ نے تحقیق کی داغ بیل ڈالی ہے۔ خدا کرے کہ کچھ لوگ‬‫اس جانب توجہ کریں۔ مضمون کے لئے شکریہ اور دلی داد‬ ‫قبول کیجئے۔‬ ‫سرور عالم راز‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10159.0‬‬ ‫کلام لایعنی اور بےمعنی نہیں ہوتا‬

‫محترمی و مکرمی جناب حسنی صاحب‪ :‬سلام علیکم‬ ‫آپ کے مضامین ہمیشہ علم افروز اور مفید مطلب ہوتے‬ ‫ہیں۔ انداز بیان بھی بہت ہی دلچسپ ہوتا ہے چنانچہ‬‫مضامین پڑھ کر دل خوش ہوتا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ آپ‬ ‫ہمارے سروں پر یونہی قایم رہیں اور علم کے موتی اسی‬‫طرح بکھیرتے رہیں۔ آمین۔ مضمون ہمیشہ کی طرح پرلطف‬‫اور معلوماتی ہے۔ بہت بہت شکریہ۔ دو باتیں عرض کرنے‬‫کی اجازت چاہتی ہوں۔ کتابت کی غلطی سے اپ محاورہ کو‬ ‫مھاورہ لکھ گئے ہیں۔ دوسرے یہ کہ \"لایعنی\" اور \"بے‬ ‫معنی\" کیا ہم معنی تراکیب نہیں ہیں یعنی \"جن کا کوئی‬‫مطلب نہ ہو\" یا یہ دو الگ الگ معنی کے الفاظ ہیں؟ جواب‬ ‫کا بہت شکریہ۔‬ ‫مہر افروز‬‫آپ نے توجہ فرمائی‘ اس کے لیے دل و جان سے‘ احسان‬

‫مند ہوں۔ اللہ آپ کو ہمیشہ آسانیوں میں رکھے۔ آپ میری‬‫تھوڑی علمی سے خوب آگاہ ہیں‘ پھر بھی لفظ کی وضاحت‬ ‫کے لیے‘ کچھ ناکچھ عرض کرتا ہوں۔ اگر میں غلطی یا‬ ‫غلط فہمی میں ہوں‘ تو معذرت کرتا ہوں۔‬ ‫مہاورہ‘ مہارت سے ہے اوریہ ہی اس کی اصل ہے۔ اور‬ ‫لفظوں کی طرح‘ مہاورہ کی جگہ محاورہ مستعمل ہو گیا۔‬ ‫احوال اور حور عربی میں جمع ہیں لیکن اردو میں ان کا‬ ‫واحد استعمال بھی موجود ہے۔ مثلا‬ ‫صورت احوال یہ ہے کہ‬ ‫دلہن کیا تھی آسمانی حور تھی۔‬ ‫اپنی اصل میں دیسی الفاظ اوال اور ور پر ح کی بڑھوتی‬ ‫ہوئی ہے۔ آوازوں کا گرنا‘ بڑھنا یا ان کا تبادل‘ استعمال‬ ‫میں آنا زبانوں میں کوئی نئی بات نہیں۔‬

‫لفظ اکت جو وقعت کی بگڑی شکل ہے اوقات عام واحد‬ ‫استعمال کا لفظ ہے۔‬ ‫میاں اپنی اوقات میں رہ کر بات کرو۔‬‫خیر بہتری اچھائی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اپنی‬‫اصل میں کسی چیز یا معاملے میں برکت اور بڑھوتی کے‬ ‫لیے ہے۔ یہ لفظ بھیک کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا‬ ‫ہے۔‬‫لفظ خصم ہی کو لے لیں شوہر کے معنوں میں لیا جاتا ہے۔‬‫ان معنوں سے اس لفظ کا دور کا بھی تعلق واسطہ نہیں۔‬ ‫اپنی اصل میں یہ لفظ کھسم تھا۔‬ ‫لفظ غریب مفلس اور نادار کے لیے بولا جاتا ہے۔ اپنی‬ ‫اصل میں یہ لفظ گریب تھا۔‬

‫ابرو ترکی سے ہے اور ابری معنی رکھتا ہے۔‬ ‫لفظ قفلی تھا لیکن قلفی استعمال میں آتا ہے۔‬ ‫راشی‘ رشوت لینے والے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔‬ ‫ایسی بےشمار مثالیں موجود ہیں۔‬ ‫لفظوں کے اصطلاحی معنی کچھ اور کے اور ہیں۔ مثلا‬ ‫کتا بجلی والوں کا اوزار بھی ہے۔‬‫سائیکل کے کتے فیل ہو گیے ہیں‘ بھی سننے میں آیا ہو‬ ‫گا۔‬ ‫مہاورات کے معنی تو ہوتے ہی الگ سے ہیں۔‬

‫لفظ گھڑے بھی جاتے ہیں۔ مثلا‬ ‫تھوڑ علمی‪ :‬آپ میری تھوڑی علمی سے خوب آگاہ ہیں۔‬ ‫ایک لفظ چشمش سننے میں آیا‘ معنے دریافت کیے تو‬ ‫معلوم ہوا ہر وقت چشمہ پہنے رکھے‬ ‫والی کے لیے بولتے ہیں۔‬ ‫اب چشمہ کو ہی لے لیں عینک کے لیے بولا جاتا ہے۔‬ ‫عینک خود دواسما یعنی عین اور نک‬‫سے ترکیب پایا ہے۔ پنجابی میں نک ہی بولتے ہیں‘ جب کہ‬ ‫اردو میں الف گرا ہے۔‬ ‫اسما کی بات ہوئی ہے تو بزدل بھی تو دو اسما یعنی بز‬ ‫اور دل سے ترکیب پایا ہے۔‬‫انگریزی ہماری خالہ مصیبتے ہے اس کے الفاظ ہی کو لے‬

‫لیں۔‬‫لیڈیاں‘ چارجل‘ ووٹران وسپوٹران‘ سیٹیاں بمعنی سی ڈیز‬‫بات یہاں تک ہی محدود نہیں‘ منٹ مار مرکب عام استعمال‬ ‫کا ہے۔‬‫اردو لفظوں کی جمعیں بھی سننے کو ملیں گی۔ مثلا لڑکز‬ ‫‪........‬‬ ‫بےمعنی ضرورت ہے‘ لیکن معنویت نہیں بن پائی یا پا‬ ‫رہی۔‬ ‫لایعنی یعنی ضرورت ہی نہیں یوں ہی بےکار‬ ‫مکرمی حسنی صاحب‪ :‬سلام علیکم‬ ‫جواب کے لئے دلی ممنون ہوں۔ آپ کا خط ایک‬‫مختصرانشائیہ ہے اور نہایت معلومات افزا بھی ہے۔ کئی‬‫نئی باتیں معلوم ہوئیں۔ زبانیں ملک‪،‬ماحول اور حالات کے‬

‫زیر اثر اپنا چہرہ بدلتی رہتی ہیں۔ اردو میں بہت سی زبانوں‬ ‫کے الفاظ ہیں اور اس حوالے سے تحقیق اور انکشافات‬‫کے بہت سے امکانات موجود ہیں لیکن افسوس کہ ہماری‬ ‫درس گاہیں اس سے غآفل ہیں۔ آپ نے ہم پر مہربانی‬ ‫فرمائی۔ شکریہ۔‬ ‫مہر افروز‬ ‫اردو میں بہت سی زبانوں کے الفاظ‬ ‫ہر دور اور دنیا کے ہر خطے کے انسان کی حاجات‘ ایک‬ ‫سی رہی ہیں۔ مثلا کھانا‘ پینا‘ سونا‘ رفع حاجت‘ جنسی‬ ‫تسکین وغیرہ‬ ‫خواہشات ایک سی رہی ہیں۔ مثلا رہائش‘ لباس‘ سواری‘‬ ‫معاملات میں آسانی‘ تعاون‘ انصاف‘ طرف داری‘ میسر‬

‫سے بہتر کی حصولی وغیرہ‬ ‫وہ لوگوں کو قریب رکھنے یا ان کے قریب رہنے کی‬ ‫ضرورت محسوس کرتا ہے لوگوں کی سانجھ اس کی‬ ‫نفسیاتی ضرورت بھی ہے۔‬‫کسی کو خاص اپنا بنا کر‘ اس سے ہر نوع کا انشراح کرنا‬ ‫چاہتا ہے اور اس کے بغیر‘ اس کی بن نہیں آتی۔‬‫میں نے انٹرنیٹ پر دنیا کے بہت سے خطوں کے‘ قدیم اور‬ ‫جدید عہد کے انسانوں کی‘ رہائش گاہوں کے طرز تعمیر‬‫وغیرہ‘ زیورات‘ لباس‘ برتن‘ آلات ہنرمندی‘ عسکری آلات‘‬ ‫عبادت گاہوں‘ درس گاہوں وغیرہ کا‘ بڑی سنجیدگی سے‬ ‫مطالعہ کیا ہے۔ ان میں حیرت انگیز مماثلتیں موجود ہیں۔‬ ‫باور رہنا چاہیے انسان کئی طرح کے رہے ہیں۔ ان کو ان‬

‫کے طبقہ کے حوالہ سے دیکھا جانا چاہیے۔‬ ‫میں نے اظہاری ٹریسز میں حد درجہ کی قربتیں ہیں۔‬‫ہم تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کو محض انگریز کی دین‬ ‫سمجھتے رہے ہیں‘ حالاں کہ مقتدرہ طبقے شروع سے‘‬‫اس کلیہءشر کو استعمال میں لا رہے ہیں اور یہ کلیہ ہی‘‬ ‫ان کے قدم مضبوط کرتا ہے۔‬‫ایک نہ ایک مذہبی طبقہ جو حکومتی طبقوں کے چھتر کھا‬ ‫کر بھی‘ ان کا گماشتہ رہا ہے‘ انسانی تقسیم میں کوئی‬‫کسر اٹھا نہیں رکھتا۔ بلواسطہ سہی‘ یہ مقتدرہ طبقوں کی‬ ‫معانعت کرتا آیا ہے۔‬ ‫روحانیت سے وابستہ جعلی اور پیٹو لوگ بھی‘ اس ذیل‬ ‫میں کچھ کم نہیں رہے۔‬

‫آخر میں رہ جاتی ہیں درس گاہیں۔ یہاں کے لوگ یعنی‬ ‫اساتذہ‘ زمین اور انسان کی کایا ہی پلٹ سکتے ہیں۔ انبیا‬ ‫اور صلاحین اپنی اصل میں‘ استاد ہی تو تھے۔ کیا کمال‬‫کرتے آئے ہیں۔ بدقسمتی سے مذہبی درسگاہوں کے مذہبی‬‫مین‘ ان کی تعلیم حلیہ ہی بگاڑتے آئے ہیں۔ مذہبی تعلیم کو‬‫روٹی کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا اور آج بھی صورت حال اس‬ ‫سے مختلف نہیں۔‬‫لسانیات؛ بڑا حساس‘ محنت طلب اور سنجیدہ کام ہے۔ مثلا‬‫زبانوں میں سابقہ ان اور اس کے مترادفات کی تلاش میں‘‬ ‫مجھے کئی دن لگ گئے ہیں۔ اس قسم کے غیر پیداواری‬‫کام‘ کون اور کوئی کیوں کرے۔ ان دنوں جامعات میں‘ زیادہ‬ ‫تر ٹھرک سے متعلق امور انجام دیے جاتے ہیں۔ کیے‬ ‫کرائے کی حصولی‘ ترجیع میں رہتی ہے۔ استاد اور یہ‬ ‫اطوار حیرت ہوتی ہے۔ تحقیق مذاق سے زیادہ چیز نہیں‬‫رہی۔ یہاں بھی؛ دفتروں اور اقتدار کدوں کی طرح‘ اپنا بندہ‬ ‫ہے‘ ترجیع میں رہتا ہے۔ جن پر کام ہونے کی ضرورت‬‫ہے‘ ماضی کی طرح نظرانداز ہو رہے ہیں۔ شاید وہ تذکروں‬ ‫میں بھی باقی نہ رہیں کیوں کہ اب تذکرہ نویسی کا رواج‬

‫نہیں رہا۔‬‫اردو کیا‘ دنیا کی بہت سی زبانوں میں‘ برصغیر کی زبانوں‬ ‫کے الفاظ موجود ہیں۔ ہاں درس گاہیں‘ کام کریں تو کیوں‬ ‫کریں۔ اس میں لابھ ہی کیا ہے۔ وہاں کے لوگوں کو‘ پیٹ‬ ‫اور جنسی آلات لگے ہوئے ہیں۔ ان کی تسکین ضروری‬ ‫ہے۔ تحقیق اور انسانی خدمت جائے بھاڑ میں۔‬ ‫‪dr maqsood hasni‬‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10218.0‬‬ ‫اردو اور جان کیٹس کی شعری زبان‬‫حسنی صاحب یہ تو اپ نے بڑی محنت کا کام کیا ہے۔ ایسی‬‫مماثلت ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالی ہے کہ سوچنے پر مجبور کر‬ ‫دیا ہے کہ کیا یہ محض اتفاقات ہی ہو سکتے ہیں۔ شاید‬

‫مزید تحقیق لسانیات کے کچھ نئے انکشافات کا باعث ہو‬‫سو اسے جاری رکھنے میں اور دوستوں سے شئیر کرنے‬‫میں کوئی حرج نہیں ۔ ہا ایسا تجویز کرتا ہوں کہ ہر مماثلت‬ ‫کی مثالیں اگر زیادہ شامل کر دی جائیں اور ساتھ ہی‬ ‫وضاحت بھی کر دی جائے تو اچھا ہو گا کیونکہ کچھ‬ ‫مقامات پر بات سمجھنے میں دقت ہوئی‬ ‫والسلام‬ ‫ڈاکٹر سہیل ملک‬‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10236.0‬‬ ‫پاکستان میں اردو کے سفر کی مختصر کہانی‬ ‫محترمی حسنی صاحب‪:‬سلام مسنون‬

‫آپ کی محنت اور آپ کا علم سب کے لئے مشعل راہ ہیں۔‬ ‫سرور عالم راز‬‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10285.0‬‬ ‫شجرہ قادریہ ۔۔۔۔۔ ایک جائزہ‬ ‫» بروز‪ :‬مئی ‪ 90:04:00 ,4900 ,01‬شام «‬ ‫!محب مکرم حسنی صاحب‪ :‬سلام مسنون‬ ‫سبحان اللہ! آپ نے بہت کمال کی باتیں بیان کی ہیں اس‬ ‫مضمون میں۔ ایک طرف تو یہ ہمارے اسلاف کے ورثے‬ ‫کی بازیافت ہے‪ ،‬نہایت لطیف‪،‬نہایت علم افروز اور نہایت‬‫قیمتی اور دوسری جانب الفاظ اور تراکیب کا وہ خزانہ ہے‬ ‫جو اب نایاب ہوتا جا رہا ہے بلکہ ہو گیا ہے۔ میں پنجابی‬‫کی بہت معمولی شد بد رکھتا ہوں۔ آپ کی تحریر سے معلوم‬‫ہوا کہ اردو اورپنجابی ایک دوسرے سے کتنی متاثر ہوئی‬ ‫ہیں۔ بیشتر پنجابی میری سمجھ میں آئی۔ایک آدھ ہی جگہ‬ ‫مشکل پیش آئی لیکن وہ آپ کی تشریح نے حل کر‬

‫دی۔جزاک اللہ خیرا۔‬‫اپنی عنایات ایسے ہی قائم رکھئے۔ اللہ آپ کو طویل عمر‬ ‫عطا فرمائے۔ رہ گیا راوی تو وہ بھی چین بولتا ہے۔‬ ‫سرور عالم راز‬‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9786.0‬‬ ‫خوش بُو کے امین‬ ‫» بروز‪ :‬جون ‪ 93:23:30 ,4900 ,03‬شام «‬ ‫!مکرمی ومحترمی حسنی صاحب‪ :‬سلام مسنون‬‫یقین کیجئے کہ میں سوچ رہا تھا کہ عرصہ سے آپ یہاں‬ ‫نظر نہیں آئے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ چونکہ یہاں‬ ‫لکھنے پڑھنے والے معدودے چند رہ گئے ہیں آپ دل‬

‫برداشتہ ہو کر انجمن سے کنارہ کش ہو گئے ہیں۔ آپ کا یہ‬ ‫انشائیہ دیکھا تو دل باغ باغ ہو گیا۔ اللہ آپ کو طویل عمر‬ ‫اور صحت سے نوازے اور آپ اسی طرح گلشن اردو میں‬ ‫پھولوں کی بارش کرتے رہیں۔‬ ‫آپ کا انشائیہ پڑھ کر دل بھر آیا‪ ،‬کیسے کیسے لوگ یاد‬ ‫آئے‪ ،‬کیسی کیسی یادوں نے دل پر کچوکے لگائے اور‬ ‫آنکھوں میں کیسے کیسے مناظر گھوم گئے۔ دل ملول ہوا‬‫اور بہت ملول ہوا۔ لیکن انشائیہ کے آخر میں جو امید اور‬ ‫خوش آئند مستقبل کی نوید ملی وہ بہت تقویت کا باعث‬ ‫ہوئی۔ آپ کے بارے میں جو لوگ کہتے ہیں کہ آپ بہت‬ ‫اچھا لکھتے ہیں وہ بالکل صحیح کہتے ہیں۔ آپ کے قلم‬ ‫میں درد ہے‪ ،‬کسک ہے‪ ،‬علم ہے‪ ،‬ماضی کی گونج ہے‪،‬‬ ‫حال کا پیام نو ہے اور مستقبل کی نوید نو۔ پھر اور کس‬‫چیز کی کمی ہے جو ہم شکوہ کریں یا دل چھوٹا کریں۔ دعا‬ ‫ہے کہ آپ اسی طرح لکھتے رہیں۔ اور شادکام رہیں۔‬ ‫افسوس اس کا ہے کہ آپ کو پڑھنے والے بہت کم ہیں۔‬ ‫لیکن اس کا علاج کیا ہے یہ نہیں معلوم۔ خیر کوئی بات‬‫نہیں۔ پھول کی خوشبو کے لئے ضروری نہیں کہ پھول ہاتھ‬ ‫ہی میں ہو۔ وہ خود ہوا کے دوش پر سوار کونے کونے‬

‫میں پہنچ جاتی ہے اور سب کو شادکام کرتی ہے۔ انشائیہ کا‬ ‫بہت بہت شکریہ۔‬ ‫باقی راوی سب چین بولتا ہے۔‬ ‫سرور عالم راز‬ ‫مکرمی ومحترمی جناب ڈاکٹر حسنی صاحب‪:‬‬ ‫سلام علیکم‬ ‫میں نادم ہوں کہ اتنے عرصے آپ کی تخلیقات سے‬ ‫فیضیاب نہ ہو سکا۔ انشااللہ کوشش کر کے آپ کو پڑھوں‬ ‫گا۔ آپ کا یہ مضمون پڑھ کر انتہائی مسرت ہوئی اور یہ‬ ‫احساس بھی پیدا ہوا کہ آپ کی تحریر کتنی علم افزا اور‬ ‫دلکش ہوتی ہیں۔ یہ مضمون کہنے کو ایک سادہ اور‬ ‫سیدھے سادے موضوع پر لکھا گیا ہے لیکن ہم نئی نسل‬‫کے لوگوں کے لئے ندرت زبان و بیان‪ ،‬تازگی اور دلچسپی‬ ‫کے بہت سے پہلو رکھتا ہے۔ پڑھ کر دل مالا مال ہو گیا ۔‬‫اب ایسی تحریریں دیکھنے کو نہیں ملتی ہیں۔ اللہ سے دعا‬

‫ہے کہ آپ کو طویل عمر اور اچھی صحت عطا فرمائے تاکہ‬ ‫ہم اسی طرح فیضیاب ہوتے رہیں۔ آمین۔‬ ‫خادم‪ :‬مشیر شمسی‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9832.0‬‬ ‫کیا اردو مر رہی ہے‬ ‫مکرمی حسنی صاحب‪ :‬سلام مسنون‬‫آپ کا مضمون نہایت دلچسپ اور علم افروز ہے۔ اردو کے‬ ‫ہر دوست کے دل میں اس کو پڑھ کر اردو کے بارے میں‬ ‫سوچنے اور سمجھنے اور کام کرنے کا جذبہ بلند ہونا‬ ‫چاہئے۔ لیکن ایسا ہوگا نہیں کیونکہ اہل اردو ایک عجیب‬‫وغریب عشق میں مبتلا ہو کر رہ گئے ہیں اور وہ ہے غزل‬ ‫گوئی کا عشق۔ اردومحفلوں کا ذکر کیا کریں جہاں بھی‬ ‫جائیے صرف غزلگوئی پر لوگ جان دئے دے رہے ہیں‬

‫اور لطف کی بات یہ ہے کہ یہ غزل نہ صرف بلند معیار کی‬ ‫نہیں ہے (الا ماشااللہ) بلکہ نری تک بندی کے سوا اور‬‫کچھ بھی نہیں ہے۔ کوئی رسالہ اٹھا کردیکھ لیں‪ ،‬فیس بک‬ ‫پر چلے جائیں‪ ،‬غزلوں کے شائع ہونے والے مجموعے‬‫دیکھ لیجئے‪،‬ہر جگہ آپ کو ایک ہی صورت نظر آئے گی۔‬ ‫اردو انجمن میں بھی نظم‪ ،‬افسانہ‪ ،‬مقالات وغیرہ سب کے‬ ‫لئے مناسب ابواب قائم کئے گئے ہیں اور باربار میں اہل‬ ‫انجمن سے گزارش کرتا رہتا ہوں کہ وہ نثر نگاری کی‬ ‫جانب توجہ دیں لیکن ہر بار میری گزارش صدا بصحرا‬ ‫ثابت ہوتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ لوگ آپ کے یا کسی اور‬ ‫کے یہاں لگائے ہوئے نثرپاروں کو پڑھتے تک نہیں ہیں‬ ‫اور اگر پڑھتے ہیں تو کچھ لکھتے نہیں ہیں۔‬‫میں آپ سے متفق ہوں کہ اردو مرے گی نہیں البتہ ایک تو‬‫وہ کمزورہوجائے گی (بلکہ ہو رہی ہے) اور دوسرے دنیا‬‫کی زبانوں میں اس کوجو مقام ملنا چاہئے وہ اہل اردو کی‬‫سہل انگاری اور غیرذمہ دارانہ روش سے نہیں مل سکے‬‫گا۔ ہندوستان کو کہہ لیجئے کہ وہاں کی حکومت اور عوام‬ ‫سیاست اور تعصب کی بنا پر اردو کے خلاف ہیں (ویسے‬ ‫شاید سب کو یہ معلوم ہو کرحیرت ہوگی کہ دو ہندوستانی‬‫ریاستوں یعنی صوبوں میں اردو کو ہندی کے ساتھ دوسری‬

‫سرکاری زبان مان لیا گیا ہے اور تقریبا ہر ریاست سے‬‫اردو کا ایک رسالہ سرکاری سرپرستی میں شائع ہوتا ہے!)‬ ‫لیکن پاکستان کو دیکھ لیں جہاں اردو قومی زبان کہلاتی‬‫ہے لیکن سرکاری زبان انگریزی ہے۔ سبحان اللہ منافقت ہو‬ ‫تو ایسی ہو۔ اس پر مستزاد یہ کہ وہاں جس قسم کی زبان‬ ‫لکھی اور بولی جارہی ہے وہ اردو تو نہیں ہے البتہ‬ ‫اردواور انگریزی کی کھچڑی ضرور ہے۔ پڑھ کا افسوس‬ ‫ہوتا ہے لیکن کچھ کیا نہیں جا سکتا۔‬ ‫میرے نزدیک اردو کے زندہ رہنے میں دو اسباب بہت‬ ‫معاون ہیں اور رہیں گے۔ایک تو ہندوستانی فلمیں جن کو‬ ‫سرکاری طور پر ہندی کہا جاتا ہے لیکن ان کی زبان‬ ‫سراسر عام اور آسان (اور بعض اوقات ادبی) اردو ہوتی‬ ‫ہے۔ اگر ہندی میں فلمیں بنائی جائیں تو ٹھپ ہو جائیں۔‬ ‫اسی طرح ہندوستان کے ہندی اخبارجس کثرت سے اردو‬ ‫اور فارسی کے الفاظ استعمال کر رہے ہیں وہ حیرت ناک‬‫ہے۔ اردو کے زندہ رہنے کا دوسرا سبب غزل کی مقبولیت‬ ‫ہے۔ ہندوستان میں غزل اردو کے علاوہ ہندی‪ ،‬گجراتی‪،‬‬ ‫بنگالی‪ ،‬تیلگو‪ ،‬مراٹھی‪ ،‬پنجابی‪ ،‬اڑیا وغیرہ زبانوں میں‬‫لکھی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بنگالی کے علاوہ‬‫کسی اور زبان میں شاعری اتنی ترقی یافتہ اور ہر دل عزیز‬

‫نہیں ہے۔ غزل سے کم سے کم یہ فائدہ تو ضرور ہوا ہے۔‬ ‫زبانیں وقت کے ساتھ ہمیشہ بدلتی ہیں۔ مقامی اثرات سے‬ ‫بھی یہ بچ نہیں سکتی ہیں اور علاقائی زبانیں بھی ان پر‬‫اثر کرتی ہیں ۔اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ اس عمل سے‬‫زبان ترقی ہی کر سکتی ہے بشرطیکہ اس میں دوراندیشی‬ ‫کو مدنظر رکھا جائے۔ آپ کے مضمون کا دلی شکریہ۔ اللہ‬ ‫آپ کو سلامت رکھے۔‬ ‫سرور عالم راز‬ ‫)‪(1 people liked this‬‬ ‫‪bohat hi mohtaram janab raz sahib‬‬‫‪aap mairi na'cheez tehriroon ko tovajo se parhtay hain is ke liay‬‬ ‫‪ehsan'mand hoon. Allah aap ko salamat rakhe. mein ne idhar‬‬‫‪odhar yahhi daikha hai very nice, bohat khoob. itna acha likhnay‬‬

par daad qabool farmaei. is qisam ka jawabi tabsra hota hai. is noeat ke tabsaray se koee faeda nahain hota. munfi ya mosbat tehreer par baat to honi chahiay ta'kah mazeed ke darwazaykhul sakain. warna is qisman ki daad ka koee faeda nahain hota. daad lay kar kya karna hota hai baat ko agay bharna chahiay. asal zarorat yah hi hai. maire liay aap ka likha hi kafi hota hai. dil khool kar baat to kartay hain. maza aa jata hai. achi baat hai, ahbaab ghazal hi likhain, laikin fikr ko aaj kishahadat ke sath sath zoban ko bhi kuch dastyaab hotay rehna chahiay dr maqsood hasni http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9874.0

‫اردو اور سائنسی علوم کا اظہار‬ ‫» بروز‪ :‬جون ‪ 90:20:20 ,4903 ,00‬شام «‬ ‫محترم ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب‪،‬‬ ‫اپ نے اپنے مضمون میں جو نکات اٹھائے ہیں وہ اردو‬‫زبان کی ترویج و اشاعت کے لئے تو ضروری ہیں ہی بلکہ‬‫ان میں اردو زبان کو ریفارم کرنے کے لئے بہت سا سامان‬ ‫موجود ہے۔‬ ‫بدقسمتی سے اب تک اردو کے زیادہ تر فکری ڈھانچے‬ ‫شعرو و شاعری تک محدود چلے ا رہے ہیں اس وجہ‬ ‫سے اردو کا لسانی مزاج بھی شاعرانہ مضامین کے لئے‬ ‫انتہائی موزوں ہے لیکن‬‫سائنسی علوم کے لئے کسی بھی لکھنے والے کو بہت زیا‬ ‫دہ تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔‬ ‫تاہم میں بھی اپ کی طرح یہ سمجھتا ہوں کہ ایک بار‬‫اگر لوگ سائنسی مضامین کا اردو میں اظہار شروع کردیں‬

‫تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ‬‫اردو زبان کے مزاج اور ساختیات میں ایسی تبدیلیاں واقع‬ ‫ہوں گہ جس سے‬ ‫یہ زبان سائنسی علوم کے لئے موزوں ہوتی چلی جائے‬ ‫گی۔‬ ‫میں بہت عرصہ سے اپنی تحریروں میں اردو زبان کو‬ ‫ریفارم کرنے کی بات کر رہا ہوں ۔‬‫اس کے لئے بعض اوقات مجھے شدید تنقید کا سامنا کرنا‬ ‫پڑتا ہے ۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جب تک‬‫اردو کو سائنسی مضامین کے لئے موزوں نہیں بنایا جائے‬‫گا اور اس میں ایسی تبدیلیاں نہیں لائیں گہ کہ اس کا دامن‬ ‫سائنسی علوم سے مالا مال ہو جائے اس کا مستقبل‬ ‫خطرات سے دوچار رہے گا۔‬ ‫اردو لکھنے والے ادیب یہ کام باسانی کر سکتے ہیں۔‬ ‫میں خود کوشش کرتا ہوں کہ اپنے فکری و سائنسی‬ ‫مضامین اردو میں لکھوں۔ بدقسمتی سے اردو داں طبقہ‬‫سائنسی موضوعات پر لھکی گئی تحریریں دیکھ کر اسے‬ ‫ہضم نہیں کر پاتا۔ دیکھئے یہ چیلنج کب تک چلتا ہے ۔‬

‫اپ کا مضمون اس اعتبار سے بہت اہم ہے۔ خاص طور پر‬ ‫اپ کی ہند چینی زبانوں‬ ‫سے الفاظ کو اردو میں داخل کرنے کی رائے میں بہت‬ ‫وزن ہے۔‬‫اردو شاعری میں اج کل جاپانی ہائیکو کا بہت چرچا ہے۔‬ ‫ہائیکو اب اردو صنف شاعری ہے۔ کسی کو لفظ ہائیکو‬ ‫سمجھنے میں دشواری نہیں ہوتی۔‬ ‫نیازمند‬ ‫کے اشرف‬ ‫******‬ ‫بروز‪ :‬جون ‪« 09:41:44 ,4903 ,00‬‬ ‫مکرم بندہ جناب حسنی صاحب؛ سلام مسون‬‫آپ کا یہ انتہائی دلچسپ اور خوش آئند مضمون میں نے‬ ‫بہت شوق سے پڑھا۔ حسن اتفاق سے میں آج کل اسی‬

‫موضوع پر تحقیق کر رہا ہوں اور ارادہ ہے کہ ایک‬ ‫مضمون لکھ کر ہند وپاک کے رسالوں کوبھیجوں۔ آپ کا‬‫مضمون میری اس تحقیق میں ایک اہم کڑی کا اضافہ کرتا‬ ‫ہے جس کے لئے میں آپ کا بہت ممنون ہوں۔ اردو کا‬ ‫خمیر بیشتر فارسی سے اٹھا ہے۔ ہر چند کہ روز مرہ کی‬ ‫بول چال کی زبان کا ڈھانچہ اور اصول و قواعد فارسی ار‬ ‫مقامی دیسی زبانوں کی آمیزش سے بنے ہیں لیکن ادبی‬ ‫اردو فارسی کے احسانات سے بہت بوجھل ہے۔ میں کچھ‬‫دنوں قبل تک اس کا قائل تھا کہ اردو کے مروجہ ڈھانچے‬ ‫کو قائم رکھا جائے اور اس میں \"غیر ضروری\" تبدیلیاں‬ ‫نہ کی جائیں لیکن اب غور کرتا ہوں تو جو کچھ کل تک‬‫\"غیر ضروری\" تھا وہ آج \"ضروری\" ہو گیا ہے۔ اردو میں‬ ‫یقینا یہ صلاحیت ہے کہ وہ دوسری زبانوں کے اثر کو‬ ‫قبول کرے اور ان سے حسب ضرورت مواد و اصطلاحات‬ ‫مستعار لے کر ان کو اپنے رنگ میں ڈھالے (یعنی ان کو‬ ‫\"مورد\" کرے) اور یہ بھی ضروری ہے کہ بہت سے غیر‬ ‫اردو الفاظ جو وقت کے ساتھ ہماری زندگی اور زبان کا‬‫حصہ بنتے جارہے ہیں (اوراس عمل میں آئندہ تیز رفتاری‬‫کی امید ہی نہیں بلکہ یقین ہے) ہم اپنی زبان میں دانشمدنی‬ ‫اور بالغ نظری سے کام لیتے ہوئے جذب کریں۔ میں اردو‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook