1 رفیق سندیلوی کی کچھ نمائندہ نظمیں پیش کار مقصود حسنی ابوزر برقی کتب خانہ جنوری ٢٠١٧
2 مندرجات عجب پانی ہے ١- لال بیگ ٢- مگر َمچھ نے مجھے نگلا ہواہے ٣- ابھی وقت ہے لوٹ جاؤ ٤- ایک زنجی ِر گریہ مرے ساتھ تھی ٥- بُرادہ اڑ رہا ہے ٦- بڑا پر ہول رستہ تھا ٧- بیج اندر ہے ٨- جھلملاتی ہوئی نیند سن ٩- خواب مزدور ہے ١٠- درد ہوتا ہے ١١- سمے ہو گیا ١٢- سواری اونٹ کی ہے ١٣- عجیب ما فوق سلسلہ تھ ١٤- غار میں بیٹھا شخص ١٥-
3 گنبد نما شفاف شیشہ ١٦- مجھے اپنا جلوہ دکھا ١٧- مرات ِب وجود بھی عجیب ہیں ١٨- مگر وہ نہ آیا ١٩- مہرباں فرش پر ٢٠- وہی مخدوش حالت ٢١- کہیں تم ابد تو نہیں ہو ٢٢- یہ سجیلی مورتی ٢٣- یہ کیسی گھڑی ہے ٢٤-
4 عجب پانی ہے عجب پانی ہے عجب ملااح ہے سُوراخ سے بے فکر اسن مار کے کشتی کے ِاک کونے میں بیٹھا ہے عجب پانی ہے جو سُوراخ سے داخل نہیں ہوتا کوئی موجِ ِنہُفتہ ہے جو پیندے سے کسی لکڑی کے تختے کی طرح چپکی ہے کشتی چل رہی ہے َسرپھری لہروں کے جھولے میں ابھی اوجھل ہے جیسے ڈوبتی،اَب ڈوبتی ہے جیسے بط ِن اب سے
5 جیسے تلاطم کی سیاہی سے ابھی نکلی ہے جیسے رات ِدن بس ایک ہی عالَم میں !کشتی چل رہی ہے کیا عجب کشتی ہے جس کے دَم سے یہ پانی رواں ہے اور ِاس ملااح کا ِدل نغمہ خواں ہے کتنے ٹاپو راہ میں ائے مگر ملااح خشکی کی طرف کھنچتا نہیں نظارہ ٔرقصند گ ِی خواب میں شامل نہیں ہوتا عجب پانی ہے !جو سُوراخ سے داخل نہیں ہوتا ..............
6 لال بیگ لال بیگ اُڑ گیا َطعام گاہوں کی بچی کچھی ِغذاپہ َپل رہا تھا َنم زدہ شگافوں گھن لگے درازوں میں چھپا ہوا وہ مطمئن تھا غیر مرئی نالیوں سے مین ہول تک غلاظتیں بہا کے لانے والی سُست وتیز ساری لائنوں میں گھومتا تھا ایک روز ہَست کی ِگرہ میں اُس کی لانبی ٹانگ
7 ِاک انوکھے پیچ میں اُلجھ گئی تو ٹیس درد کی اُٹھی !و ُجو د پھڑپھڑا گیا جھٹک کے ٹانگ پیچ سے نکال لی تو ایک دَم اُسے لگا کہ اُس کی دسترس میں َپر بھی ہیں عجیب ثانیہ تھا پانیوں کی ہولناک بو میں کیچ کی اُ َمس میں دونوں وقت ِمل رہے تھے ہا ل ٔہ ن َفس میں ِدھیرے ِدھیرے اُس کے !صندلیں سنہری پَر بھی ہل رہے تھے لال بیگ جو شروع ِدن سے َموت اور زندگی
8 صفائی اور گندگی نکاسی ٔوجود خیروشر روانی و جمود کے معاملات میں گ ِھرا ہواتھا خاکروبوں ،مہتروں کے ساتھ کائناتی موریوں ،زمانی َبدرووں میں رہتے رہتے تنگ اگیا تھ ! راستے کے بیچ ہی سے ُمڑ گیا اچانک ایک روز لال بیگ اُڑ گیا ..............
9 مگر َمچھ نے مجھے نگلا ہواہے مگر مچھ نے مجھے نگلاہواہے ِاک جنی ِن ناتواں ہوں جس گھڑی رک اھی گئی بنیاد میری اُس گھڑی سے تیرگی کے پیٹ میں ہوں خون کی ترسیل انو َل سے غذا جاری ہے کچی انکھ کے اگے تَنی َموہُوم سی ج ِھلای ہٹا کر ! دیکھتاہوں دیکھتا ہوں گرم گہرے لیس کے دریا میں کچھووں‘مینڈکوں َجل کیکڑوں کے پارچوں میں
10 اوجھڑی کے کھردرے ریشوں میں سالم ہو نبُودو بُود کے تاریک اَندیشوں میں باہر کون ہے جو ذات کے اِس خیم ٔہ خاکستری کے پیٹ کے پ ُھولے ہوئے گدلے غُبارے پر اَزل سے کان رکھ کر سُن رہا ہے َسر پٹخنے ہاتھ پائوں مارنے ! کروٹ بدلنے کی صدا پانی کا گہرا شور ہے اَندر بھی ‘باہر بھی ب َرہنہ جسم سے چمٹے ہوئے ہیں کائی کے ریزے مجھے پھر سے جنم دینے کی خاطر ِز اچگی کے اِک کلاوے نے
11 اُگلنے کے کسی وعدے نے صدیوں سے مجھے جکڑا ہواہے ‘ماں مگر َمچھ نے مجھے نگلا ہواہے ..............
12 ابھی وقت ہے لوٹ جاؤ سنو کثرت خاک میں بسنے والو سنو توسن برق رفتار پر کاٹھیاں کسنے والو یہ پھر کون سے معرکے کا ارادہ تمہاری نسوں میں یہ کس خواب فاتح کا پھر باب وحشت کھلا ہے فصیلوں پہ اک پرچم خوں چکاں گاڑ دینے کی نیت کئی لاکھ مفتوح جسموں کو پھر حالت سینہ کوبی میں روتے ہوئے دیکھنے کی تمنا یہ کس آب دیوانگی سے بدن کا سبو بھر رہے ہو سنو تم بڑی بد نما رات کی دھند میں فیصلہ کر رہے ہو ادھر سینکڑوں کوس پر اک پہاڑی ہے جس پر کوئی شے نہیں ہے وہاں ہر طرف سے تمہیں آگ کے غول گھیرے میں لینے کی خاطر کھڑے ہیں ابھی وقت ہے لوٹ جاؤ سنو عجلت فکر میں کوئی بھی کام انجام پاتا نہیں پھر کسی ساعت شب گرفتہ میں کوئی ستارا بلاتا نہیں ...............
13 ایک زنجی ِر گریہ مرے ساتھ تھی میں گیا اس طرف جس طرف نیند تھی جس طرف رات تھی بند مجھ پر ہوئے سارے در سارے گھر میں گیا اس طرف جس طرف تیر تھے جس طرف گھات تھی مجھ پہ مرکوز تھی اک نگاہ سیہ اور عجب زاویے سے بنائے ہوئے تھی مجھے سر سے پا تک ہدف میں گیا اس طرف جس طرف ریت کی لہر تھی موج ذرات تھی
14 میں نہیں جانتا اس گھڑی تیرگی کے طلسمات میں جو اشارہ ہوا کس کی انگلی کا تھا اور جو کھولی گئی تھی مرے قلب پر کون سی بات تھی صرف اتنا مجھے یاد ہے جب میں آگے بڑھا ایک زنجیر گریہ مرے ساتھ تھی میں پرندہ بنا میری پرواز کے دائرے نے جنا ایک سایہ گھنا کشف ہونے لگا میں ہرے پانیوں میں بدن کا ستارہ ڈبونے لگا اور اک لا تعین سبک نیند سونے لگا
15 اک اڑن طشتری بن گئی سائباں میں جہاں تھا وہاں تھا کہاں آسماں ایک شعلہ تھا بس میرے ہونٹوں سے لف میں گیا اس طرف جس طرف جسم و جاں کی حوالات تھی جس طرف نیند تھی جس طرف رات تھی چار جانب بچھی تھی بساط عدم درمیاں جس کے تنہا مری ذات تھی ..................
16 بُرادہ اڑ رہا ہے بُرادہ اڑ رہا ہے ترمرے سے ناچتے ہیں دیدۂ نمناک میں براق سائے رینگتے ہیں راہداری میں برادہ اڑ رہا ہے ناک کے نتھنے میں نلکی آکسیجن کی لگی ہے گوشۂ لب رال سے لتھڑا ہے ہچکی سی بندھی ہے اک غشی ہے میرا حاضر میرے غائب سے جدا ہے !کیا بتاؤں ماجرا کیا ہے زمانوں قبل ہم دونوں کا رستہ پوٹلی میں ماں کے ہاتھوں کا پکا کھانا
17 کتابیں اور بستہ ایک تھے کڑیوں کے رخنوں میں ہمارے ساتھ چڑیاں رات دن بسرام کرتی تھیں ہماری مشترک چہکار تھی درزی سے کپڑے ایک جیسے سل کے آتے ایک سے جوتے پہنتے بوندا باندی میں اکٹھے ہی نہاتے ہم جدھر جاتے ہمیشہ ساتھ جاتے رات جب ڈھلتی تو سنتے تھے کہانی صحن میں رکھے ہوئے مٹکے کا پانی پیڑ کی چھتری ستاروں سے مزین آسماں ہانڈی کی خوشبو اور وریدوں کا لہو المختصر خوابوں کی دنیا ایک تھی
18 اک دوسرے کا حاضر و غائب تھے ہم جڑواں تھے اعضا و عناصر میں دوئی ناپید تھی سینے سے سینہ دل سے دل !ماتھے سے ماتھا منسلک تھا کیا بتاؤں کس طرح بجلی لپک کر تار سے نکلی کنارے اپنا دریا چھوڑ کر رخصت ہوئے تکلے کا دھاگا کس طرح ٹوٹا سرہانے خواب جو رکھے تھے کب بدلے گئے زینہ کدھر کو مڑ گیا وہ کون سا ساماں تھا جس کے پھینکنے پر دل تو راضی تھا مگر جس کے اٹھانے سے کمر دکھتی نہ تھی
19 کس درد کی پرچھائیں تھی جو مظہر و شے سے نکلنا چاہتی تھی دھند جو دیوار کے دونوں طرف تھی !اس کا قصہ کیا سناؤں کیا بتاؤں وقت نے جب تختۂ آہن پہ رکھ کر تیز رو آرا چلایا تھا ہمیں ٹکڑوں میں کاٹا تھا اسی دن سے برادہ اڑ رہا ہے پیڑ کے سوکھے تنے سے چھت کی کڑیوں سے کتابوں اور خوابوں سے برادہ اڑ رہا ہے !!میرا حاضر میرے غائب سے جدا ہے ...............
20 بڑا پر ہول رستہ تھا بڑا پر ہول رستہ تھا بدن کے جوہر خفتہ میں کوئی قوت لاہوت مدغم تھی کسی غول بیابانی کی گردش میرے دست و پا کی محرم تھی دہان جاں سے خارج ہونے والی بھاپ میں تھے سالمات درد روشن گزر گاہوں کے سب نا معتبر پتھر خلا میں اڑنے والی پست مٹی کے سیہ ذرے پہاڑ اور آئنے سائے کرے پیڑوں کے پتے پانیوں کی گول لہریں رات کی لا علم چیزیں شش جہت کے سب عناصر زور سے پیچھے ہٹے تھے اور میں آگے ہزاروں کوس آگے بڑھ گیا تھا اک عجب رفتار میری آگ میں تھی کس قدر پر ہول رستہ تھا پڑاؤ کے لیے کتنے جزیرے درمیاں آئے زمیں مڑ مڑ کے آئی اور اک اک کر کے ساتوں آسماں آئے
21 مسلسل چل رہا تھا میں ہوا میں ڈھل رہا تھا میں مساموں سے شعاع بے نہایت پھوٹی پڑتی تھی ابد کا اک جڑاؤ تاج میرے سر پہ رکھا تھا بڑا پر ہول رستہ تھا کوئی برق شباہت آرزو بردار میری آگ میں تھی اک عجب رفتار میری آگ میں تھی ...............
22 بیج اندر ہے بیج اندر ہے لیکن میں باہر ہوں اپنی زمیں سے فقط مشت دو مشت اوپر خلا میں اگا ہوں مری کوئی جڑ ہی نہیں ہے نہیں علم تالیف کی روشنی نے ہوا اور پانی نے کس طرح سینچا نمی کیسے میرے مساموں میں آئی جدائی سہی میں نے کیسے مقرر جو ازلوں سے تھا بیچ کا فاصلہ
23 وسط نا وسط کا مرحلہ میں نے کیسے گوارا کیا آسماں کے تلے میں نے دھرتی پہ پھیلے ہوئے ایک سوندھی سی خوشبو میں لپٹے ہوئے لہلہاتے جہانوں کا خشک اور بنجر زمانوں کا کیسے نظارہ کیا چند کانٹوں کی سوئی سے کونین کے اپنے قطبین کے پیچ و خم میں وجود و عدم میں جلی اور خفی سارے ابعاد کی سمت کیسے اشارہ کیا میں نے کیسے بہ یک وقت اپنی فنا اور بقا سے کنارہ کیا
24 بیج اندر ہے کیسے سمجھ پائے گا بے نمو و نمو کار دنیا میں مجھ جیسے پودے نے کیسے گزارا کیا ..............
25 جاؤ اب روتے رہو تم نہیں جانتے اس دھند کا قصہ کیا ہے دھند جس میں کئی زنجیریں ہیں ایک زنجیر کسی پھول کسی شبد کسی طائر کی ایک زنجیر کسی رنگ کسی برق کسی پانی کی زلف و رخسار لب و چشم کی پیشانی کی تم نہیں جانتے اس دھند کا زنجیروں سے رشتہ کیا ہے !یہ فسوں کار تماشا کیا ہے تم نے بس دھند کے اس پار سے تیروں کے نشانے باندھے
26 اور ادھر میں نے تمہارے لیے جھنکار میں دل رکھ دیا کڑیوں میں زمانے باندھے جاؤ اب روتے رہو وقت کے محبس میں خود اپنے ہی گلے سے لگ کر تم مرے سینۂ صد رنگ کے حق دار نہیں اب تمہارے مرے مابین کسی دید کا !!نادید کا اسرار نہیں ..............
27 جھلملاتی ہوئی نیند سن اے چراغوں کی لو کی طرح جھلملاتی ہوئی نیند ،سن میرا ادھڑا ہوا جسم بن خواب سے جوڑ لہروں میں ڈھال اک تسلسل میں لا نقش مربوط کر نرم ،ابریشمیں کیف سے میری درزوں کو بھر میری مٹی کے ذرے اٹھا میری وحشت کے بکھرے ہوئے سنگ ریزوں کو چن اے چراغوں کی لو کی طرح جھلملاتی ہوئی نیند ،سن میرا ادھڑا ہوا جسم بن
28 کوئی لوری دے جھولا جھلا پوٹلی کھول رمزوں کی مجھ پر کہانی کی ابرک چھڑک میرا کاندھا تھپک آ مجھے تاج روئیدگی سے سجا اک تسلسل میں لا شب کے اک تار پر چھیڑ دے کوئی دھن اے چراغوں کی لو کی طرح جھلملاتی ہوئی نیند ،سن !!میرا ادھڑا ہوا جسم بن ...........
29 خواب مزدور ہے خواب مزدور ہے رات دن سر پہ بھاری تغاری لیے سانس کی بانس کی ہانپتی کانپتی سیڑھیوں پر اترتا ہے چڑھتا ہے روپوش معمار کے حکم پر ایک لا شکل نقشے پہ اٹھتی ہوئی اوپر اٹھتی ہوئی گول دیوار کے خشت در خشت چکر میں محصور ہے !خواب مزدور ہے اک مشقت زدہ آدمی کی طرح میں حقیقت کی دنیا میں
30 یا خواب میں روز معمول کے کام کرتا ہوں کچھ دیر آرام کرتا ہوں کانٹوں بھری کھاٹ میں پیاس کے جام پیتا ہوں اور سوزن ہجر سے اپنی ادھڑی ہوئی تن کی پوشاک سیتا ہوں جیتا ہوں کیسی انوکھی حقیقت ہے کیسا عجب خواب ہے اک مشقت زدہ آدمی کی طرح اپنے حصے کی بجری اٹھانے پہ مامور ہے !!خواب مزدور ہے ...............
31 درد ہوتا ہے بہر کیف جو درد ہوتا ہے وہ درد ہوتا ہے ایڑی میں کانٹا چبھے تو بدن تلملاتا ہے دل ضبط کرتا ہے روتا ہے جو برگ ٹہنی سے گرتا ہے وہ زرد ہوتا ہے چکی کے پاٹوں میں دانے تو پستے ہیں پانی سے نکلے تو مچھلی تڑپتی ہے طائر قفس میں گرفتار ہوں تو پھڑکتے ہیں بادل سے بادل ملیں تو کڑکتے ہیں بجلی چمکتی ہے برسات ہوتی ہے جو ہجر کی رات ہوتی ہے
32 وہ ہجر کی رات ہوتی ہے ہم اپنی وحشت میں جو بھیس بدلیں کوئی روپ دھاریں سمندر بلوئیں یا دیوار چاٹیں تصور کی جھلمل میں دن رات کاٹیں پہاڑوں پہ چھٹی منانے کو جائیں ندی میں نہائیں غذاؤں کی لذت میں سرشار ہوں روز پوشاک پر ایک پوشاک بدلیں کسی عطر کی پھوار چھڑکیں چراغوں کی رنگین لو میں بھرے رس بھرے ہونٹ چھو لیں صنوبر کے باغوں میں گھومیں مگر بوجھ دل کا جو ہوتا ہے وہ تو بدستور ہوتا ہے
33 اندر ہی اندر کہیں !سات پردوں میں مستور ہوتا ہے میں آج کی صبح معمول سے قبل جاگا ہوں خوابیدہ بیٹوں کے گالوں پہ بوسہ دیا ہے وضو کر کے سجدہ کیا ہے بہت دیر تک آلتی پالتی مار کر خود میں گم ہو کے یوگا کے آسن میں بیٹھا ہوں سوکھے ہوئے سارے گملوں کو پانی دیا ہے چھتوں کھڑکیوں اور زینوں میں مکڑی کے جالوں کو پونچھا ہے چڑیوں کو روٹی کے ریزے بھی ڈالے ہیں
34 لیکن جو چھالے مرے دل کے ہیں وہ بہر کیف چھالے ہیں چھالوں کی سوزش سے تکلیف ہوتی ہے دل ضبط کرتا ہے روتا ہے جو درد ہوتا ہے !!وہ درد ہوتا ہے .............
35 سمے ہو گیا پھر مقام رفاقت پہ مدغم ہوئیں سوئیاں دونوں گھڑیال کی رفت و آمد کے چکر میں گھنٹے کی آواز میں میرا دل کھو گیا اپنی ٹک ٹک میں بہتا رہا وقت !کتنا سمے ہو گیا سالہا سال پانی کے چشمے سے گیلے کیے لب عناصر نے جلتے الاؤ پہ ہاتھ اپنے تاپے مظاہر نے سینے کی دھڑکن سے نادید کے رنگ و روغن سے
36 اشیا نے بینائی حاصل کی مقسوم کے طاقچے سے جہاں پھول رکھے تھے لکڑی کے صندوقچے سے خزانہ اٹھا لے گئی رات مٹھی سے گرتے رہے !ریت کی مثل دن ایک دن صحن کی پیل گوں دھوپ میں آہنی چارپائی پہ لیٹے ہوئے ایک جھپکی سی آئی تو میں سو گیا میرے چہرے پہ بارش کی اک بوند نے :گر کے دستک دی بابا چلو،
37 اپنے کمرے کے اندر سمے ہو گیا ............
38 سواری اونٹ کی ہے سواری اونٹ کی ہے اور میں شہر شکستہ کی کسی سنساں گلی میں سر جھکائے ہاتھ میں بد رنگ چمڑے کی مہاریں تھام کر اس گھر کی جانب جا رہا ہوں جس کی چوکھٹ پر ہزاروں سال سے اک غم زدہ عورت مرے وعدے کی رسی ریش ٔہ دل سے بنی مضبوط رسی سے بندھی ہے آنسوؤں سے تر نگاہوں میں کسی کہنہ ستارے کی چمک لے کر مرے خاکستری ملبوس کی مخصوص خوشبو سونگھنے کو
39 اور بھورے نٹ کی دکھ سے لبالب بلبلاہٹ !سننے کو تیار بیٹھی ہے وہی سیلن زدہ اوطاق کا گوشہ جہاں میں ایک شب اس کو لرزتے سنسناتے زہر والے چوبی تیروں کی گھنی بارش میں بے بس اور اکیلا چھوڑ آیا تھا مجھے سب یاد ہے قصہ برس کر ابر بالکل تھم چکا تھا اور خلا میں چاند یوں لگتا تھا جیسے تخت پر نوعمر شہزادہ ہو کوئی یوں ہوا چہرے کو مس کر کے گزرتی تھی کہ جیسے ریشمیں کپڑا ہو کوئی اپنے ٹھنڈے اور گیلے خول کے اندر گلی سوئی ہوئی تھی
40 دم بخود سارے مکاں ایسے نظر آتے تھے جیسے نرم اور باریک کاغذ کے بنے ہوں موم کے ترشے ہوئے ہوں اک بڑی تصویر میں !جیسے ازل سے ایستادہ ہوں وہی سیلن زدہ اوطاق کا گوشہ جہاں مہتاب کی براق کرنیں اس کے لانبے اور کھلے بالوں میں اڑسے تازہ تر انجیر کے پتے روشن کر رہی تھیں اس کی گہری گندمیں کہنی کا بوسہ یاد ہے مجھ کو نہیں بھولا ابھی تک سارا قصہ یاد ہے مجھ کو اسی شب میں نے جب اک لمحۂ پرسوز میں تلوار اس کے پاؤں میں رکھ دی تھی :اور پھر یہ کہا تھا
41 میرا وعدہ ہے'' یہ میرا جسم اور اس جسم کی حاکم یہ میری باطنی طاقت قیامت اور قیامت سے بھی آگے سرحد امکاں سے لا امکاں تلک تیری وفا کا ساتھ دے گی وقت سنتا ہے گواہی کے لیے آکاش پر یہ چاند قدموں میں پڑی یہ تیغ ''!اور بالوں میں یہ انجیر کا پتا ہی کافی ہے !خداوندا وہ کیسا مرحلہ تھا !اب یہ کیسا مرحلہ ہے ایک سنسانی کا عالم ہے گلی چپ ہے کسی ذی روح کی آہٹ نہیں آتی
42 یہ کیسی ساعت منحوس ہے جس میں ابھی تک کوئی ننھا سا پرندہ یا پتنگا یا کوئی موہوم چیونٹی ہی نہیں گزری کسی بھی مرد و زن کی میں نے صورت ہی نہیں دیکھی سواری اونٹ کی ہے اور میں شہر شکستہ کی کسی سنساں گلی میں سر جھکائے ہاتھ میں بد رنگ چمڑے کی مہاریں تھام کر اس گھر کی جانب جا رہا ہوں یا کسی محشر خموشی کے کسی محشر کی جانب جا رہا ہوں ہچکیوں اور سسکیوں کے بعد کا محشر کوئی منظر کوئی منظر کہ جس میں اک گلی ہے ایک بھورا اونٹ ہے
43 اور ایک بزدل شخص کی ڈھیلی رفاقت ہے سفر نا مختتم !جیسے ابد تک کی کوئی لمبی مسافت ہے سواری اونٹ کی یا کاٹھ کے اعصاب کی ہے آزمائش اک انوکھے خواب کی ہے پتلیاں ساکت ہیں سایہ اونٹ کا ہلتا نہیں آئینۂ آثار میں ساری شبیہیں گم ہوئی ہیں اس کے ہونے کا نشاں ملتا نہیں کب سے گلی میں ہوں کہاں ہے وہ مری پیاری مری سیلن زدہ اوطاق والی وہ سریلی گھنٹیوں والی زمینوں پانیوں اور انفس و آفاق والی کس قدر آنکھوں نے کوشش کی
44 مگر رونا نہیں آتا سبب کیا ہے گلی کا آخری کونا نہیں آتا گلی کو حکم ہو اب ختم ہو جائے میں بھورے اور بوڑھے اونٹ پر بیٹھے ہوئے پیری کے دن گنتا ہوں شاید اس گلی میں رہنے والا کوئی اس کے عہد کا زنبور ہی گزرے میں اس کی بارگہہ میں دست بستہ معذرت کی بھیک مانگوں سر ندامت سے جھکاؤں اور اس زنبور کے صدقے کسی دن اپنے بوڑھے جسم کو اور اونٹ کو لے کر !!گلی کی آخری حد پار کر جاؤں ...............
45 عجیب ما فوق سلسلہ تھا عجیب ما فوق سلسلہ تھا شجر جڑوں کے بغیر ہی اگ رہے تھے خیمے بغیر چوبوں کے اور طنابوں کے آسرے کے زمیں پہ استادہ ہو رہے تھے چراغ لو کے بغیر ہی جل رہے تھے کوزے بغیر مٹی کے چاک پر ڈھل رہے تھے دریا بغیر پانی کے بہہ رہے تھے سبھی دعائیں گرفتہ پا تھیں رکی ہوئی چیزیں قافلہ تھیں پہاڑ بارش کے ایک قطرے سے
46 گھل رہے تھے بغیر چابی کے قفل از خود ہی کھل رہے تھے نڈر پیادہ تھے اور بزدل اصیل گھوڑوں پہ بیٹھ کر جنگ لڑ رہے تھے گناہ گاروں نے سر سے پا تک بدن کو براق چادروں سے ڈھکا ہوا تھا ولی کی ننگی کمر چھپانے کو کوئی کپڑا نہیں بچا تھا عجیب ما فوق سلسلہ تھا ............
47 غار میں بیٹھا شخص چاند ستارے پھول بنفشی پتے ٹہنی ٹہنی جگنو بن کر اڑنے والی برف لکڑی کے شفاف ورق پر مور کے پر کی نوک سے لکھے کالے کالے حرف اجلی دھوپ میں ریت کے روشن ذرے اور پہاڑی درے ابر سوار سہانی شام اور سبز قبا میں ایک پری کا جسم سرخ لبوں کی شاخ سے جھڑتے پھولوں جیسے اسم رنگ برنگ طلسم
48 جھیل کی تہہ میں ڈوبتے چاند کا عکس ڈھول کی وحشی تال پہ ہوتا !نیم برہنہ رقص کیسے کیسے منظر دیکھے ایک کروڑ برس پہلے کے !!غار میں بیٹھا شخص .................
49 گنبد نما شفاف شیشہ گنبد نما شفاف شیشہ محدب بیچ سے ابھرا ہوا گنبد نما شفاف شیشہ جس میں سے چیزیں بڑی معلوم ہوتی ہیں یہ دیکھو ایک چیونٹی ہشت پا مکڑے کی صورت چل رہی ہے اوس کا قطرہ مصفا حوض کے مانند ساکن لگ رہا ہے ریت کا ذرہ
50 پہاڑی کی طرح افلاک کو چھوتا ہوا محسوس ہوتا ہے گھنے پانی میں جرثومے کی جنبش پر گماں ہوتا ہے !جیسے شیر نے انگڑائی لی ہو ہالۂ خورد و کلاں میں عمر بھر چھوٹا بڑا کرنے کے چکر میں بندھی رہتی ہیں نظریں ایک قبہ دار منظر میں ازل سے جانتی ہیں بلبلہ سی پتلیوں کی سرد محرابیں جب اس گنبد نما شفاف شیشے سے گزر کر ایک مرکز پر
Search