Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore رفیق سندیلوی کی کچھ نمائندہ نظمی

رفیق سندیلوی کی کچھ نمائندہ نظمی

Published by maqsood5, 2017-01-03 04:00:20

Description: abk_ksr_mh.929/2016

رفیق سندیلوی کی کچھ نمائندہ نظمیں
پیش کار
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
جنوری ٢٠١٧

Search

Read the Text Version

‫‪1‬‬ ‫رفیق سندیلوی کی کچھ نمائندہ نظمیں‬ ‫پیش کار‬ ‫مقصود حسنی‬ ‫ابوزر برقی کتب خانہ‬ ‫جنوری ‪٢٠١٧‬‬

‫‪2‬‬ ‫مندرجات‬ ‫عجب پانی ہے ‪١-‬‬ ‫لال بیگ ‪٢-‬‬ ‫مگر َمچھ نے مجھے نگلا ہواہے ‪٣-‬‬ ‫ابھی وقت ہے لوٹ جاؤ ‪٤-‬‬ ‫ایک زنجی ِر گریہ مرے ساتھ تھی ‪٥-‬‬ ‫بُرادہ اڑ رہا ہے ‪٦-‬‬ ‫بڑا پر ہول رستہ تھا ‪٧-‬‬ ‫بیج اندر ہے ‪٨-‬‬ ‫جھلملاتی ہوئی نیند سن ‪٩-‬‬ ‫خواب مزدور ہے ‪١٠-‬‬ ‫درد ہوتا ہے ‪١١-‬‬ ‫سمے ہو گیا ‪١٢-‬‬ ‫سواری اونٹ کی ہے ‪١٣-‬‬ ‫عجیب ما فوق سلسلہ تھ ‪١٤-‬‬ ‫غار میں بیٹھا شخص ‪١٥-‬‬

‫‪3‬‬ ‫گنبد نما شفاف شیشہ ‪١٦-‬‬ ‫مجھے اپنا جلوہ دکھا ‪١٧-‬‬ ‫مرات ِب وجود بھی عجیب ہیں ‪١٨-‬‬ ‫مگر وہ نہ آیا ‪١٩-‬‬ ‫مہرباں فرش پر ‪٢٠-‬‬ ‫وہی مخدوش حالت ‪٢١-‬‬ ‫کہیں تم ابد تو نہیں ہو ‪٢٢-‬‬ ‫یہ سجیلی مورتی ‪٢٣-‬‬ ‫یہ کیسی گھڑی ہے ‪٢٤-‬‬

‫‪4‬‬ ‫عجب پانی ہے‬ ‫عجب پانی ہے‬ ‫عجب ملااح ہے‬ ‫سُوراخ سے بے فکر‬ ‫اسن مار کے‬ ‫کشتی کے ِاک کونے میں بیٹھا ہے‬ ‫عجب پانی ہے‬ ‫جو سُوراخ سے داخل نہیں ہوتا‬ ‫کوئی موجِ ِنہُفتہ ہے‬ ‫جو پیندے سے‬ ‫کسی لکڑی کے تختے کی طرح چپکی ہے‬ ‫کشتی چل رہی ہے‬ ‫َسرپھری لہروں کے جھولے میں‬ ‫ابھی اوجھل ہے‬ ‫جیسے ڈوبتی‪،‬اَب ڈوبتی ہے‬ ‫جیسے بط ِن اب سے‬

‫‪5‬‬ ‫جیسے تلاطم کی سیاہی سے‬ ‫ابھی نکلی ہے‬ ‫جیسے رات ِدن‬ ‫بس ایک ہی عالَم میں‬ ‫!کشتی چل رہی ہے‬ ‫کیا عجب کشتی ہے‬ ‫جس کے دَم سے یہ پانی رواں ہے‬ ‫اور ِاس ملااح کا ِدل نغمہ خواں ہے‬ ‫کتنے ٹاپو راہ میں ائے‬ ‫مگر ملااح‬ ‫خشکی کی طرف کھنچتا نہیں‬ ‫نظارہ ٔرقصند گ ِی خواب میں‬ ‫شامل نہیں ہوتا‬ ‫عجب پانی ہے‬ ‫!جو سُوراخ سے داخل نہیں ہوتا‬ ‫‪..............‬‬

‫‪6‬‬ ‫لال بیگ‬ ‫لال بیگ اُڑ گیا‬ ‫َطعام گاہوں کی‬ ‫بچی کچھی ِغذاپہ َپل رہا تھا‬ ‫َنم زدہ شگافوں‬ ‫گھن لگے درازوں میں‬ ‫چھپا ہوا‬ ‫وہ مطمئن تھا‬ ‫غیر مرئی نالیوں سے‬ ‫مین ہول تک‬ ‫غلاظتیں بہا کے لانے والی‬ ‫سُست وتیز‬ ‫ساری لائنوں میں گھومتا تھا‬ ‫ایک روز‬ ‫ہَست کی ِگرہ میں‬ ‫اُس کی لانبی ٹانگ‬

‫‪7‬‬ ‫ِاک انوکھے پیچ میں اُلجھ گئی‬ ‫تو ٹیس درد کی اُٹھی‬ ‫!و ُجو د پھڑپھڑا گیا‬ ‫جھٹک کے ٹانگ‬ ‫پیچ سے نکال لی‬ ‫تو ایک دَم اُسے لگا‬ ‫کہ اُس کی دسترس میں َپر بھی ہیں‬ ‫عجیب ثانیہ تھا‬ ‫پانیوں کی ہولناک بو میں‬ ‫کیچ کی اُ َمس میں‬ ‫دونوں وقت ِمل رہے تھے‬ ‫ہا ل ٔہ ن َفس میں‬ ‫ِدھیرے ِدھیرے اُس کے‬ ‫!صندلیں سنہری پَر بھی ہل رہے تھے‬ ‫لال بیگ‬ ‫جو شروع ِدن سے‬ ‫َموت اور زندگی‬

‫‪8‬‬ ‫صفائی اور گندگی‬ ‫نکاسی ٔوجود‬ ‫خیروشر‬ ‫روانی و جمود کے معاملات میں گ ِھرا ہواتھا‬ ‫خاکروبوں ‪،‬مہتروں کے ساتھ‬ ‫کائناتی موریوں ‪،‬زمانی َبدرووں میں‬ ‫رہتے رہتے تنگ اگیا تھ‬ ‫! راستے کے بیچ ہی سے ُمڑ گیا‬ ‫اچانک ایک روز‬ ‫لال بیگ اُڑ گیا‬ ‫‪..............‬‬

‫‪9‬‬ ‫مگر َمچھ نے مجھے نگلا ہواہے‬ ‫مگر مچھ نے مجھے نگلاہواہے‬ ‫ِاک جنی ِن ناتواں ہوں‬ ‫جس گھڑی رک اھی گئی بنیاد میری‬ ‫اُس گھڑی سے‬ ‫تیرگی کے پیٹ میں ہوں‬ ‫خون کی ترسیل‬ ‫انو َل سے غذا‬ ‫جاری ہے‬ ‫کچی انکھ کے اگے تَنی‬ ‫َموہُوم سی ج ِھلای ہٹا کر‬ ‫! دیکھتاہوں‬ ‫دیکھتا ہوں‬ ‫گرم گہرے لیس کے دریا میں‬ ‫کچھووں‘مینڈکوں‬ ‫َجل کیکڑوں کے پارچوں میں‬

‫‪10‬‬ ‫اوجھڑی کے کھردرے ریشوں میں‬ ‫سالم ہو‬ ‫نبُودو بُود کے تاریک اَندیشوں میں‬ ‫باہر کون ہے‬ ‫جو ذات کے اِس خیم ٔہ خاکستری کے‬ ‫پیٹ کے پ ُھولے ہوئے‬ ‫گدلے غُبارے پر‬ ‫اَزل سے کان رکھ کر سُن رہا ہے‬ ‫َسر پٹخنے‬ ‫ہاتھ پائوں مارنے‬ ‫! کروٹ بدلنے کی صدا‬ ‫پانی کا گہرا شور ہے‬ ‫اَندر بھی ‘باہر بھی‬ ‫ب َرہنہ جسم سے چمٹے ہوئے ہیں‬ ‫کائی کے ریزے‬ ‫مجھے پھر سے جنم دینے کی خاطر‬ ‫ِز اچگی کے اِک کلاوے نے‬

‫‪11‬‬ ‫اُگلنے کے کسی وعدے نے‬ ‫صدیوں سے‬ ‫مجھے جکڑا ہواہے‬ ‫‘ماں‬ ‫مگر َمچھ نے مجھے نگلا ہواہے‬ ‫‪..............‬‬

‫‪12‬‬ ‫ابھی وقت ہے لوٹ جاؤ‬ ‫سنو کثرت خاک میں بسنے والو‬ ‫سنو توسن برق رفتار پر کاٹھیاں کسنے والو‬ ‫یہ پھر کون سے معرکے کا ارادہ‬ ‫تمہاری نسوں میں یہ کس خواب فاتح کا پھر باب وحشت کھلا ہے‬ ‫فصیلوں پہ اک پرچم خوں چکاں گاڑ دینے کی نیت‬ ‫کئی لاکھ مفتوح جسموں کو پھر حالت سینہ کوبی میں روتے ہوئے‬ ‫دیکھنے کی تمنا‬ ‫یہ کس آب دیوانگی سے بدن کا سبو بھر رہے ہو‬ ‫سنو تم بڑی بد نما رات کی دھند میں فیصلہ کر رہے ہو‬ ‫ادھر سینکڑوں کوس پر اک پہاڑی ہے جس پر کوئی شے نہیں ہے‬ ‫وہاں ہر طرف سے تمہیں آگ کے غول گھیرے میں لینے کی خاطر‬ ‫کھڑے ہیں‬ ‫ابھی وقت ہے لوٹ جاؤ‬ ‫سنو عجلت فکر میں کوئی بھی کام انجام پاتا نہیں‬ ‫پھر کسی ساعت شب گرفتہ میں کوئی ستارا بلاتا نہیں‬ ‫‪...............‬‬

‫‪13‬‬ ‫ایک زنجی ِر گریہ مرے ساتھ تھی‬ ‫میں گیا اس طرف‬ ‫جس طرف نیند تھی‬ ‫جس طرف رات تھی‬ ‫بند مجھ پر ہوئے سارے در‬ ‫سارے گھر‬ ‫میں گیا اس طرف‬ ‫جس طرف تیر تھے‬ ‫جس طرف گھات تھی‬ ‫مجھ پہ مرکوز تھی اک نگاہ سیہ‬ ‫اور عجب زاویے سے‬ ‫بنائے ہوئے تھی مجھے‬ ‫سر سے پا تک ہدف‬ ‫میں گیا اس طرف‬ ‫جس طرف ریت کی لہر تھی‬ ‫موج ذرات تھی‬

‫‪14‬‬ ‫میں نہیں جانتا‬ ‫اس گھڑی‬ ‫تیرگی کے طلسمات میں‬ ‫جو اشارہ ہوا‬ ‫کس کی انگلی کا تھا‬ ‫اور جو کھولی گئی تھی مرے قلب پر‬ ‫کون سی بات تھی‬ ‫صرف اتنا مجھے یاد ہے‬ ‫جب میں آگے بڑھا‬ ‫ایک زنجیر گریہ مرے ساتھ تھی‬ ‫میں پرندہ بنا‬ ‫میری پرواز کے دائرے نے جنا‬ ‫ایک سایہ گھنا‬ ‫کشف ہونے لگا‬ ‫میں ہرے پانیوں میں‬ ‫بدن کا ستارہ ڈبونے لگا‬ ‫اور اک لا تعین سبک نیند سونے لگا‬

‫‪15‬‬ ‫اک اڑن طشتری بن گئی سائباں‬ ‫میں جہاں تھا وہاں تھا کہاں آسماں‬ ‫ایک شعلہ تھا بس میرے ہونٹوں سے لف‬ ‫میں گیا اس طرف‬ ‫جس طرف جسم و جاں کی حوالات تھی‬ ‫جس طرف نیند تھی‬ ‫جس طرف رات تھی‬ ‫چار جانب بچھی تھی بساط عدم‬ ‫درمیاں جس کے‬ ‫تنہا مری ذات تھی‬ ‫‪..................‬‬

‫‪16‬‬ ‫بُرادہ اڑ رہا ہے‬ ‫بُرادہ اڑ رہا ہے‬ ‫ترمرے سے ناچتے ہیں‬ ‫دیدۂ نمناک میں‬ ‫براق سائے رینگتے ہیں‬ ‫راہداری میں‬ ‫برادہ اڑ رہا ہے‬ ‫ناک کے نتھنے میں‬ ‫نلکی آکسیجن کی لگی ہے‬ ‫گوشۂ لب رال سے لتھڑا ہے‬ ‫ہچکی سی بندھی ہے‬ ‫اک غشی ہے‬ ‫میرا حاضر میرے غائب سے جدا ہے‬ ‫!کیا بتاؤں ماجرا کیا ہے‬ ‫زمانوں قبل ہم دونوں کا رستہ‬ ‫پوٹلی میں ماں کے ہاتھوں کا پکا کھانا‬

‫‪17‬‬ ‫کتابیں اور بستہ ایک تھے‬ ‫کڑیوں کے رخنوں میں‬ ‫ہمارے ساتھ چڑیاں‬ ‫رات دن بسرام کرتی تھیں‬ ‫ہماری مشترک چہکار تھی‬ ‫درزی سے کپڑے ایک جیسے سل کے آتے‬ ‫ایک سے جوتے پہنتے‬ ‫بوندا باندی میں اکٹھے ہی نہاتے‬ ‫ہم جدھر جاتے ہمیشہ ساتھ جاتے‬ ‫رات جب ڈھلتی‬ ‫تو سنتے تھے کہانی‬ ‫صحن میں رکھے ہوئے مٹکے کا پانی‬ ‫پیڑ کی چھتری‬ ‫ستاروں سے مزین آسماں‬ ‫ہانڈی کی خوشبو‬ ‫اور وریدوں کا لہو‬ ‫المختصر خوابوں کی دنیا ایک تھی‬

‫‪18‬‬ ‫اک دوسرے کا حاضر و غائب تھے‬ ‫ہم جڑواں تھے‬ ‫اعضا و عناصر میں دوئی ناپید تھی‬ ‫سینے سے سینہ‬ ‫دل سے دل‬ ‫!ماتھے سے ماتھا منسلک تھا‬ ‫کیا بتاؤں‬ ‫کس طرح بجلی لپک کر تار سے نکلی‬ ‫کنارے اپنا دریا چھوڑ کر رخصت ہوئے‬ ‫تکلے کا دھاگا کس طرح ٹوٹا‬ ‫سرہانے خواب جو رکھے تھے‬ ‫کب بدلے گئے‬ ‫زینہ کدھر کو مڑ گیا‬ ‫وہ کون سا ساماں تھا‬ ‫جس کے پھینکنے پر‬ ‫دل تو راضی تھا‬ ‫مگر جس کے اٹھانے سے کمر دکھتی نہ تھی‬

‫‪19‬‬ ‫کس درد کی پرچھائیں تھی‬ ‫جو مظہر و شے سے نکلنا چاہتی تھی‬ ‫دھند جو دیوار کے دونوں طرف تھی‬ ‫!اس کا قصہ کیا سناؤں‬ ‫کیا بتاؤں‬ ‫وقت نے جب تختۂ آہن پہ رکھ کر‬ ‫تیز رو آرا چلایا تھا‬ ‫ہمیں ٹکڑوں میں کاٹا تھا‬ ‫اسی دن سے برادہ اڑ رہا ہے‬ ‫پیڑ کے سوکھے تنے سے‬ ‫چھت کی کڑیوں سے‬ ‫کتابوں اور خوابوں سے‬ ‫برادہ اڑ رہا ہے‬ ‫!!میرا حاضر میرے غائب سے جدا ہے‬ ‫‪...............‬‬

‫‪20‬‬ ‫بڑا پر ہول رستہ تھا‬ ‫بڑا پر ہول رستہ تھا‬ ‫بدن کے جوہر خفتہ میں کوئی قوت لاہوت مدغم تھی‬ ‫کسی غول بیابانی کی گردش میرے دست و پا کی محرم تھی‬ ‫دہان جاں سے خارج ہونے والی بھاپ میں تھے سالمات درد روشن‬ ‫گزر گاہوں کے سب نا معتبر پتھر‬ ‫خلا میں اڑنے والی پست مٹی کے سیہ ذرے‬ ‫پہاڑ اور آئنے سائے کرے پیڑوں کے پتے‬ ‫پانیوں کی گول لہریں‬ ‫رات کی لا علم چیزیں‬ ‫شش جہت کے سب عناصر زور سے پیچھے ہٹے تھے‬ ‫اور میں آگے ہزاروں کوس آگے بڑھ گیا تھا‬ ‫اک عجب رفتار میری آگ میں تھی‬ ‫کس قدر پر ہول رستہ تھا‬ ‫پڑاؤ کے لیے کتنے جزیرے درمیاں آئے‬ ‫زمیں مڑ مڑ کے آئی اور اک اک کر کے ساتوں آسماں آئے‬

‫‪21‬‬ ‫مسلسل چل رہا تھا میں‬ ‫ہوا میں ڈھل رہا تھا میں‬ ‫مساموں سے شعاع بے نہایت پھوٹی پڑتی تھی‬ ‫ابد کا اک جڑاؤ تاج میرے سر پہ رکھا تھا‬ ‫بڑا پر ہول رستہ تھا‬ ‫کوئی برق شباہت آرزو بردار میری آگ میں تھی‬ ‫اک عجب رفتار میری آگ میں تھی‬ ‫‪...............‬‬

‫‪22‬‬ ‫بیج اندر ہے‬ ‫بیج اندر ہے‬ ‫لیکن میں باہر ہوں‬ ‫اپنی زمیں سے‬ ‫فقط مشت دو مشت اوپر‬ ‫خلا میں اگا ہوں‬ ‫مری کوئی جڑ ہی نہیں ہے‬ ‫نہیں علم‬ ‫تالیف کی روشنی نے‬ ‫ہوا اور پانی نے کس طرح سینچا‬ ‫نمی کیسے میرے مساموں میں آئی‬ ‫جدائی‬ ‫سہی میں نے کیسے‬ ‫مقرر جو ازلوں سے تھا‬ ‫بیچ کا فاصلہ‬

‫‪23‬‬ ‫وسط نا وسط کا مرحلہ‬ ‫میں نے کیسے گوارا کیا‬ ‫آسماں کے تلے‬ ‫میں نے دھرتی پہ پھیلے ہوئے‬ ‫ایک سوندھی سی خوشبو میں لپٹے ہوئے‬ ‫لہلہاتے جہانوں کا‬ ‫خشک اور بنجر زمانوں کا‬ ‫کیسے نظارہ کیا‬ ‫چند کانٹوں کی سوئی سے‬ ‫کونین کے‬ ‫اپنے قطبین کے‬ ‫پیچ و خم میں‬ ‫وجود و عدم میں‬ ‫جلی اور خفی سارے ابعاد کی سمت‬ ‫کیسے اشارہ کیا‬ ‫میں نے کیسے بہ یک وقت‬ ‫اپنی فنا اور بقا سے کنارہ کیا‬

‫‪24‬‬ ‫بیج اندر ہے‬ ‫کیسے سمجھ پائے گا‬ ‫بے نمو و نمو کار دنیا میں‬ ‫مجھ جیسے پودے نے‬ ‫کیسے گزارا کیا‬ ‫‪..............‬‬

‫‪25‬‬ ‫جاؤ اب روتے رہو‬ ‫تم نہیں جانتے‬ ‫اس دھند کا قصہ کیا ہے‬ ‫دھند جس میں کئی زنجیریں ہیں‬ ‫ایک زنجیر‬ ‫کسی پھول کسی شبد‬ ‫کسی طائر کی‬ ‫ایک زنجیر کسی رنگ کسی برق‬ ‫کسی پانی کی‬ ‫زلف و رخسار‬ ‫لب و چشم کی پیشانی کی‬ ‫تم نہیں جانتے‬ ‫اس دھند کا زنجیروں سے رشتہ کیا ہے‬ ‫!یہ فسوں کار تماشا کیا ہے‬ ‫تم نے بس دھند کے اس پار سے‬ ‫تیروں کے نشانے باندھے‬

‫‪26‬‬ ‫اور ادھر میں نے تمہارے لیے‬ ‫جھنکار میں دل رکھ دیا‬ ‫کڑیوں میں زمانے باندھے‬ ‫جاؤ اب روتے رہو‬ ‫وقت کے محبس میں‬ ‫خود اپنے ہی گلے سے لگ کر‬ ‫تم مرے سینۂ صد رنگ کے‬ ‫حق دار نہیں‬ ‫اب تمہارے مرے مابین‬ ‫کسی دید کا‬ ‫!!نادید کا اسرار نہیں‬ ‫‪..............‬‬

‫‪27‬‬ ‫جھلملاتی ہوئی نیند سن‬ ‫اے چراغوں کی لو کی طرح‬ ‫جھلملاتی ہوئی نیند‪ ،‬سن‬ ‫میرا ادھڑا ہوا جسم بن‬ ‫خواب سے جوڑ‬ ‫لہروں میں ڈھال‬ ‫اک تسلسل میں لا‬ ‫نقش مربوط کر‬ ‫نرم‪ ،‬ابریشمیں کیف سے‬ ‫میری درزوں کو بھر‬ ‫میری مٹی کے ذرے اٹھا‬ ‫میری وحشت کے بکھرے ہوئے‬ ‫سنگ ریزوں کو چن‬ ‫اے چراغوں کی لو کی طرح‬ ‫جھلملاتی ہوئی نیند‪ ،‬سن‬ ‫میرا ادھڑا ہوا جسم بن‬

‫‪28‬‬ ‫کوئی لوری دے‬ ‫جھولا جھلا‬ ‫پوٹلی کھول رمزوں کی‬ ‫مجھ پر کہانی کی ابرک چھڑک‬ ‫میرا کاندھا تھپک‬ ‫آ مجھے تاج روئیدگی سے سجا‬ ‫اک تسلسل میں لا‬ ‫شب کے اک تار پر‬ ‫چھیڑ دے کوئی دھن‬ ‫اے چراغوں کی لو کی طرح‬ ‫جھلملاتی ہوئی نیند‪ ،‬سن‬ ‫!!میرا ادھڑا ہوا جسم بن‬ ‫‪...........‬‬

‫‪29‬‬ ‫خواب مزدور ہے‬ ‫خواب مزدور ہے‬ ‫رات دن سر پہ بھاری تغاری لیے‬ ‫سانس کی‬ ‫بانس کی‬ ‫ہانپتی کانپتی سیڑھیوں پر‬ ‫اترتا ہے‬ ‫چڑھتا ہے‬ ‫روپوش معمار کے حکم پر‬ ‫ایک لا شکل نقشے پہ اٹھتی ہوئی‬ ‫اوپر اٹھتی ہوئی‬ ‫گول دیوار کے‬ ‫خشت در خشت چکر میں محصور ہے‬ ‫!خواب مزدور ہے‬ ‫اک مشقت زدہ آدمی کی طرح‬ ‫میں حقیقت کی دنیا میں‬

‫‪30‬‬ ‫یا خواب میں‬ ‫روز معمول کے کام کرتا ہوں‬ ‫کچھ دیر آرام کرتا ہوں‬ ‫کانٹوں بھری کھاٹ میں‬ ‫پیاس کے جام پیتا ہوں‬ ‫اور سوزن ہجر سے‬ ‫اپنی ادھڑی ہوئی تن کی پوشاک سیتا ہوں‬ ‫جیتا ہوں‬ ‫کیسی انوکھی حقیقت ہے‬ ‫کیسا عجب خواب ہے‬ ‫اک مشقت زدہ آدمی کی طرح‬ ‫اپنے حصے کی بجری اٹھانے پہ مامور ہے‬ ‫!!خواب مزدور ہے‬ ‫‪...............‬‬

‫‪31‬‬ ‫درد ہوتا ہے‬ ‫بہر کیف جو درد ہوتا ہے‬ ‫وہ درد ہوتا ہے‬ ‫ایڑی میں کانٹا چبھے‬ ‫تو بدن تلملاتا ہے‬ ‫دل ضبط کرتا ہے روتا ہے‬ ‫جو برگ ٹہنی سے گرتا ہے‬ ‫وہ زرد ہوتا ہے‬ ‫چکی کے پاٹوں میں دانے تو پستے ہیں‬ ‫پانی سے نکلے تو مچھلی تڑپتی ہے‬ ‫طائر قفس میں‬ ‫گرفتار ہوں تو پھڑکتے ہیں‬ ‫بادل سے بادل ملیں تو کڑکتے ہیں‬ ‫بجلی چمکتی ہے‬ ‫برسات ہوتی ہے‬ ‫جو ہجر کی رات ہوتی ہے‬

‫‪32‬‬ ‫وہ ہجر کی رات ہوتی ہے‬ ‫ہم اپنی وحشت میں‬ ‫جو بھیس بدلیں‬ ‫کوئی روپ دھاریں‬ ‫سمندر بلوئیں یا دیوار چاٹیں‬ ‫تصور کی جھلمل میں‬ ‫دن رات کاٹیں‬ ‫پہاڑوں پہ چھٹی منانے کو جائیں‬ ‫ندی میں نہائیں‬ ‫غذاؤں کی لذت میں سرشار ہوں‬ ‫روز پوشاک پر ایک پوشاک بدلیں‬ ‫کسی عطر کی پھوار چھڑکیں‬ ‫چراغوں کی رنگین لو میں‬ ‫بھرے رس بھرے ہونٹ چھو لیں‬ ‫صنوبر کے باغوں میں گھومیں‬ ‫مگر بوجھ دل کا جو ہوتا ہے‬ ‫وہ تو بدستور ہوتا ہے‬

‫‪33‬‬ ‫اندر ہی اندر کہیں‬ ‫!سات پردوں میں مستور ہوتا ہے‬ ‫میں آج کی صبح‬ ‫معمول سے قبل جاگا ہوں‬ ‫خوابیدہ بیٹوں کے گالوں پہ‬ ‫بوسہ دیا ہے‬ ‫وضو کر کے سجدہ کیا ہے‬ ‫بہت دیر تک‬ ‫آلتی پالتی مار کر‬ ‫خود میں گم ہو کے‬ ‫یوگا کے آسن میں بیٹھا ہوں‬ ‫سوکھے ہوئے سارے گملوں کو‬ ‫پانی دیا ہے‬ ‫چھتوں کھڑکیوں اور زینوں میں‬ ‫مکڑی کے جالوں کو پونچھا ہے‬ ‫چڑیوں کو‬ ‫روٹی کے ریزے بھی ڈالے ہیں‬

‫‪34‬‬ ‫لیکن جو چھالے مرے دل کے ہیں‬ ‫وہ بہر کیف چھالے ہیں‬ ‫چھالوں کی سوزش سے‬ ‫تکلیف ہوتی ہے‬ ‫دل ضبط کرتا ہے روتا ہے‬ ‫جو درد ہوتا ہے‬ ‫!!وہ درد ہوتا ہے‬ ‫‪.............‬‬

‫‪35‬‬ ‫سمے ہو گیا‬ ‫پھر مقام رفاقت پہ مدغم ہوئیں‬ ‫سوئیاں دونوں گھڑیال کی‬ ‫رفت و آمد کے چکر میں‬ ‫گھنٹے کی آواز میں‬ ‫میرا دل کھو گیا‬ ‫اپنی ٹک ٹک میں‬ ‫بہتا رہا وقت‬ ‫!کتنا سمے ہو گیا‬ ‫سالہا سال‬ ‫پانی کے چشمے سے‬ ‫گیلے کیے لب عناصر نے‬ ‫جلتے الاؤ پہ‬ ‫ہاتھ اپنے تاپے مظاہر نے‬ ‫سینے کی دھڑکن سے‬ ‫نادید کے رنگ و روغن سے‬

‫‪36‬‬ ‫اشیا نے‬ ‫بینائی حاصل کی‬ ‫مقسوم کے طاقچے سے‬ ‫جہاں پھول رکھے تھے‬ ‫لکڑی کے صندوقچے سے‬ ‫خزانہ اٹھا لے گئی رات‬ ‫مٹھی سے گرتے رہے‬ ‫!ریت کی مثل دن‬ ‫ایک دن‬ ‫صحن کی پیل گوں دھوپ میں‬ ‫آہنی چارپائی پہ لیٹے ہوئے‬ ‫ایک جھپکی سی آئی‬ ‫تو میں سو گیا‬ ‫میرے چہرے پہ‬ ‫بارش کی اک بوند نے‬ ‫‪:‬گر کے دستک دی‬ ‫بابا چلو‪،‬‬

‫‪37‬‬ ‫اپنے کمرے کے اندر‬ ‫سمے ہو گیا‬ ‫‪............‬‬

‫‪38‬‬ ‫سواری اونٹ کی ہے‬ ‫سواری اونٹ کی ہے‬ ‫اور میں شہر شکستہ کی‬ ‫کسی سنساں گلی میں سر جھکائے‬ ‫ہاتھ میں بد رنگ چمڑے کی مہاریں تھام کر‬ ‫اس گھر کی جانب جا رہا ہوں‬ ‫جس کی چوکھٹ پر‬ ‫ہزاروں سال سے‬ ‫اک غم زدہ عورت‬ ‫مرے وعدے کی رسی‬ ‫ریش ٔہ دل سے بنی‬ ‫مضبوط رسی سے بندھی ہے‬ ‫آنسوؤں سے تر نگاہوں میں‬ ‫کسی کہنہ ستارے کی چمک لے کر‬ ‫مرے خاکستری ملبوس کی‬ ‫مخصوص خوشبو سونگھنے کو‬

‫‪39‬‬ ‫اور بھورے نٹ کی‬ ‫دکھ سے لبالب بلبلاہٹ‬ ‫!سننے کو تیار بیٹھی ہے‬ ‫وہی سیلن زدہ اوطاق کا گوشہ‬ ‫جہاں میں ایک شب اس کو‬ ‫لرزتے سنسناتے زہر والے‬ ‫چوبی تیروں کی گھنی بارش میں‬ ‫بے بس اور اکیلا چھوڑ آیا تھا‬ ‫مجھے سب یاد ہے قصہ‬ ‫برس کر ابر بالکل تھم چکا تھا‬ ‫اور خلا میں چاند‬ ‫یوں لگتا تھا جیسے‬ ‫تخت پر نوعمر شہزادہ ہو کوئی‬ ‫یوں ہوا چہرے کو مس کر کے گزرتی تھی‬ ‫کہ جیسے ریشمیں کپڑا ہو کوئی‬ ‫اپنے ٹھنڈے اور گیلے خول کے اندر‬ ‫گلی سوئی ہوئی تھی‬

‫‪40‬‬ ‫دم بخود سارے مکاں‬ ‫ایسے نظر آتے تھے‬ ‫جیسے نرم اور باریک کاغذ کے بنے ہوں‬ ‫موم کے ترشے ہوئے ہوں‬ ‫اک بڑی تصویر میں‬ ‫!جیسے ازل سے ایستادہ ہوں‬ ‫وہی سیلن زدہ اوطاق کا گوشہ‬ ‫جہاں مہتاب کی براق کرنیں‬ ‫اس کے لانبے اور کھلے بالوں میں اڑسے‬ ‫تازہ تر انجیر کے پتے روشن کر رہی تھیں‬ ‫اس کی گہری گندمیں کہنی کا بوسہ یاد ہے مجھ کو‬ ‫نہیں بھولا ابھی تک‬ ‫سارا قصہ یاد ہے مجھ کو‬ ‫اسی شب‬ ‫میں نے جب اک لمحۂ پرسوز میں‬ ‫تلوار اس کے پاؤں میں رکھ دی تھی‬ ‫‪:‬اور پھر یہ کہا تھا‬

‫‪41‬‬ ‫میرا وعدہ ہے''‬ ‫یہ میرا جسم اور اس جسم کی حاکم‬ ‫یہ میری باطنی طاقت‬ ‫قیامت اور‬ ‫قیامت سے بھی آگے‬ ‫سرحد امکاں سے لا امکاں تلک‬ ‫تیری وفا کا ساتھ دے گی‬ ‫وقت سنتا ہے‬ ‫گواہی کے لیے‬ ‫آکاش پر یہ چاند‬ ‫قدموں میں پڑی یہ تیغ‬ ‫''!اور بالوں میں یہ انجیر کا پتا ہی کافی ہے‬ ‫!خداوندا وہ کیسا مرحلہ تھا‬ ‫!اب یہ کیسا مرحلہ ہے‬ ‫ایک سنسانی کا عالم ہے‬ ‫گلی چپ ہے‬ ‫کسی ذی روح کی آہٹ نہیں آتی‬

‫‪42‬‬ ‫یہ کیسی ساعت منحوس ہے‬ ‫جس میں ابھی تک‬ ‫کوئی ننھا سا پرندہ یا پتنگا‬ ‫یا کوئی موہوم چیونٹی ہی نہیں گزری‬ ‫کسی بھی مرد و زن کی‬ ‫میں نے صورت ہی نہیں دیکھی‬ ‫سواری اونٹ کی ہے‬ ‫اور میں شہر شکستہ کی‬ ‫کسی سنساں گلی میں سر جھکائے‬ ‫ہاتھ میں بد رنگ چمڑے کی مہاریں تھام کر‬ ‫اس گھر کی جانب جا رہا ہوں‬ ‫یا کسی محشر‬ ‫خموشی کے کسی محشر کی جانب جا رہا ہوں‬ ‫ہچکیوں اور سسکیوں کے بعد کا محشر‬ ‫کوئی منظر‬ ‫کوئی منظر کہ جس میں اک گلی ہے‬ ‫ایک بھورا اونٹ ہے‬

‫‪43‬‬ ‫اور ایک بزدل شخص کی ڈھیلی رفاقت ہے‬ ‫سفر نا مختتم‬ ‫!جیسے ابد تک کی کوئی لمبی مسافت ہے‬ ‫سواری اونٹ کی‬ ‫یا کاٹھ کے اعصاب کی ہے‬ ‫آزمائش اک انوکھے خواب کی ہے‬ ‫پتلیاں ساکت ہیں‬ ‫سایہ اونٹ کا ہلتا نہیں‬ ‫آئینۂ آثار میں‬ ‫ساری شبیہیں گم ہوئی ہیں‬ ‫اس کے ہونے کا نشاں ملتا نہیں‬ ‫کب سے گلی میں ہوں‬ ‫کہاں ہے وہ مری پیاری‬ ‫مری سیلن زدہ اوطاق والی‬ ‫وہ سریلی گھنٹیوں والی‬ ‫زمینوں پانیوں اور انفس و آفاق والی‬ ‫کس قدر آنکھوں نے کوشش کی‬

‫‪44‬‬ ‫مگر رونا نہیں آتا‬ ‫سبب کیا ہے‬ ‫گلی کا آخری کونا نہیں آتا‬ ‫گلی کو حکم ہو اب ختم ہو جائے‬ ‫میں بھورے اور بوڑھے اونٹ پر بیٹھے ہوئے‬ ‫پیری کے دن گنتا ہوں‬ ‫شاید اس گلی میں رہنے والا‬ ‫کوئی اس کے عہد کا زنبور ہی گزرے‬ ‫میں اس کی بارگہہ میں‬ ‫دست بستہ معذرت کی بھیک مانگوں‬ ‫سر ندامت سے جھکاؤں‬ ‫اور اس زنبور کے صدقے‬ ‫کسی دن اپنے بوڑھے جسم کو‬ ‫اور اونٹ کو لے کر‬ ‫!!گلی کی آخری حد پار کر جاؤں‬ ‫‪...............‬‬

‫‪45‬‬ ‫عجیب ما فوق سلسلہ تھا‬ ‫عجیب ما فوق سلسلہ تھا‬ ‫شجر جڑوں کے بغیر ہی‬ ‫اگ رہے تھے‬ ‫خیمے بغیر چوبوں کے‬ ‫اور طنابوں کے آسرے کے‬ ‫زمیں پہ استادہ ہو رہے تھے‬ ‫چراغ لو کے بغیر ہی‬ ‫جل رہے تھے‬ ‫کوزے بغیر مٹی کے‬ ‫چاک پر ڈھل رہے تھے‬ ‫دریا بغیر پانی کے‬ ‫بہہ رہے تھے‬ ‫سبھی دعائیں گرفتہ پا تھیں‬ ‫رکی ہوئی چیزیں قافلہ تھیں‬ ‫پہاڑ بارش کے ایک قطرے سے‬

‫‪46‬‬ ‫گھل رہے تھے‬ ‫بغیر چابی کے قفل‬ ‫از خود ہی کھل رہے تھے‬ ‫نڈر پیادہ تھے‬ ‫اور بزدل‬ ‫اصیل گھوڑوں پہ بیٹھ کر‬ ‫جنگ لڑ رہے تھے‬ ‫گناہ گاروں نے سر سے پا تک‬ ‫بدن کو براق چادروں سے‬ ‫ڈھکا ہوا تھا‬ ‫ولی کی ننگی کمر چھپانے کو‬ ‫کوئی کپڑا نہیں بچا تھا‬ ‫عجیب ما فوق سلسلہ تھا‬ ‫‪............‬‬

‫‪47‬‬ ‫غار میں بیٹھا شخص‬ ‫چاند ستارے‬ ‫پھول بنفشی پتے‬ ‫ٹہنی ٹہنی جگنو بن کر‬ ‫اڑنے والی برف‬ ‫لکڑی کے شفاف ورق پر‬ ‫مور کے پر کی نوک سے لکھے‬ ‫کالے کالے حرف‬ ‫اجلی دھوپ میں‬ ‫ریت کے روشن ذرے‬ ‫اور پہاڑی درے‬ ‫ابر سوار سہانی شام‬ ‫اور سبز قبا میں ایک پری کا جسم‬ ‫سرخ لبوں کی شاخ سے جھڑتے‬ ‫پھولوں جیسے اسم‬ ‫رنگ برنگ طلسم‬

‫‪48‬‬ ‫جھیل کی تہہ میں ڈوبتے چاند کا عکس‬ ‫ڈھول کی وحشی تال پہ ہوتا‬ ‫!نیم برہنہ رقص‬ ‫کیسے کیسے منظر دیکھے‬ ‫ایک کروڑ برس پہلے کے‬ ‫!!غار میں بیٹھا شخص‬ ‫‪.................‬‬

‫‪49‬‬ ‫گنبد نما شفاف شیشہ‬ ‫گنبد نما شفاف شیشہ‬ ‫محدب‬ ‫بیچ سے ابھرا ہوا‬ ‫گنبد نما‬ ‫شفاف شیشہ‬ ‫جس میں سے چیزیں‬ ‫بڑی معلوم ہوتی ہیں‬ ‫یہ دیکھو‬ ‫ایک چیونٹی‬ ‫ہشت پا مکڑے کی صورت‬ ‫چل رہی ہے‬ ‫اوس کا قطرہ‬ ‫مصفا حوض کے مانند‬ ‫ساکن لگ رہا ہے‬ ‫ریت کا ذرہ‬

‫‪50‬‬ ‫پہاڑی کی طرح‬ ‫افلاک کو چھوتا ہوا محسوس ہوتا ہے‬ ‫گھنے پانی میں‬ ‫جرثومے کی جنبش پر‬ ‫گماں ہوتا ہے‬ ‫!جیسے شیر نے انگڑائی لی ہو‬ ‫ہالۂ خورد و کلاں میں‬ ‫عمر بھر‬ ‫چھوٹا بڑا کرنے کے چکر میں‬ ‫بندھی رہتی ہیں نظریں‬ ‫ایک قبہ دار منظر میں‬ ‫ازل سے جانتی ہیں‬ ‫بلبلہ سی‬ ‫پتلیوں کی سرد محرابیں‬ ‫جب اس گنبد نما‬ ‫شفاف شیشے سے گزر کر‬ ‫ایک مرکز پر‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook