Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore مقصود حسنی کے تیس منظوم افسانے

مقصود حسنی کے تیس منظوم افسانے

Published by maqsood5, 2016-10-12 11:39:40

Description: abk_ksr_mh.851/2016
مقصود حسنی کے تیس منظوم افسانے
پیش کار: پروفیسر ہونس حسن
ابوزر برقی کتب خانہ
اکتوبر ٢٠١٦

Search

Read the Text Version

‫منہ میں زبان رکھتا تھا‬ ‫پھر بھی چپ تھا‬ ‫چپ میں شاید اسے سکھ تھا‬ ‫جو بھی سہی‬ ‫یہ سوال نوشتہءدیوار بنا تھا‬ ‫وہ چپ تھا تو کیوں چپ تھا‬ ‫ہر زبان پر یہ ہی سوال تھا‬ ‫وہ بزدل تھا‬ ‫یا صبر میں باکمال تھا‬ ‫کچھ اسے زن مرید کہتے تھے‬ ‫کسی کے خیال میں‬ ‫مرد کی انا کا وہ کھلا زوال تھا‬ ‫وہ تو خیر زیر عتاب تھا ہی‬ ‫اس کے پچھلے بھی‬‫کوسنوں کے دفتر چڑھ رہے تھے‬ ‫اس سے کوئی کیوں پوچھتا‬

‫ہر دوسرے‬ ‫امریش پوری سے ڈائیلاگ‬ ‫سننے کو ملتے تھے‬ ‫نمرود ولت بھی‬‫کانوں پر پہرے نہیں رکھ سکتا‬ ‫پہلے ریڈیو ہی تو تھا‬ ‫ٹی وی تو کل کی دین ہے‬ ‫کان سنتے تھے‬ ‫تصور امیج بناتا تھا‬ ‫آخر چپ تھا تو کیوں چپ تھا‬ ‫اک روز میں نے پوچھ ہی لیا‬ ‫میرا کہا‬‫اس کے لہمہوں میں اڑنے لگا‬ ‫میں نے سوچا‬ ‫کہنا کچھ تھا‬ ‫شاید کہہ کچھ اور گیا ہوں‬

‫بھول میں‬ ‫کسی سردار کا لطیفہ کہہ گیا ہوں‬ ‫بھلکڑ ہوں‬ ‫یہ لول زریں مری زوجہ کا ہے‬ ‫زوجہ کے کہے کو غلط کہوں‬ ‫کہوں تو کس بل پر‬‫اگلے سے ناسہی اس جہان سے جاؤں گا‬ ‫مہر بہ لب رہا کہ‬ ‫دیواروں کو بھی کان ہوتے ہیں‬‫مجھے کیا پڑی غیروں کی اپنے سر لوں‬ ‫میں نے بھی چپ میں عافیت جانی‬ ‫ہم کیؤں پرائی آگ میں کودیں‬ ‫مرے لیے خالہ کی لگائی ہی کافی ہے‬ ‫خود چل بسی‬ ‫میں بھی چل بسوں سامان کر گئی ہے‬ ‫پھر وہ دفعتا چپ ہو گیا‬

‫مری طرف‬ ‫بےبس بے کس نظروں سے دیکھنے لگا‬ ‫چند لمحے خامشی رہی‬ ‫جاہل جانتے ہو‬ ‫بولنے میں کتنے اعضا خرچ ہوتے ہیں‬ ‫حیرت ہوئی‘ بھلا یہ کیا جواب ہوا‬ ‫غصہ میں بولنے سے‬ ‫چودہ اعضا کشٹ اٹھاتے ہیں‬ ‫مرا کیا ہے‬ ‫ادھر سے سنتا ہوں ادھر سے نکال دیتا ہوں‬‫چہرے کے بدلتے رنگوں کا اپنا ہی سواد ہوتا ہے‬ ‫ہاں سٹپٹانے میں‬ ‫کھونے کے آثار ہوتے ہیں‬ ‫گھورنے بسورنے میں‬ ‫کہکشانی اطوار ہوتے ہیں‬ ‫شخص پڑھو کہ حیات کے‬

‫تم پر پوشیدہ اطوار کھلیں‬ ‫ہاں غصہ میں‬ ‫دماغ کی کوئی نس پھٹ سکتی ہے‬ ‫خیر یہ ولت خیر نہیں آئے گا‬ ‫دماغ ہوتا تو صبر کا جہاں آباد کرتی‬ ‫دل کا دورہ بھی بعید از لیاس نہیں‬ ‫اس امید پر ہی تو جی رہا ہوں‬ ‫کبھی تو غصہ کے افك سے‬ ‫خوشی کا چاند مسکرائے گا‬ ‫پھر مستی میں آ کر گنگنائے گا‬‫آ گئی بہار گلوں کا رنگ اور بھی نکھر گیا‬‫پیاسی آتمائیں آ رہی ہیں روپ بدل بدل کے‬ ‫میں پڑھا لکھا سہی‬ ‫اپنی اولات میں ہوں تو مزدور‬ ‫زوجہ گزیدہ ہوں‬ ‫بھاشا فلسفے کی میں کیا جانوں‬

‫بولا‪ :‬جاؤ امید پر زندہ رہو‬ ‫امید پر میں زندہ ہوں‬ ‫امید ہی تو زندگی ہے‬‫میٹھی گولی‬ ‫ہم کچھ دوست‬ ‫ہوٹل میں چائے پیتے ہیں‬ ‫اور اکثر پیتے ہیں‬ ‫سچی پوچھو تو‬ ‫چائے پر ہی تو جیتے ہیں‬ ‫زندگی میں ورنہ‬ ‫چائے کے سوا رکھا کیا ہے‬ ‫بھوک کا پرنا پیاس کا پٹکا‬ ‫ہماری زیست کا یہ ہی اثاثہ ہے‬

‫جسے دیکھو رکھے ہے ہزار گز کا نٹکا‬ ‫امیر ولت‬ ‫بات گریبوں کی کرتا ہے‬ ‫کھیسہ مگر اپنا بھرتا ہے‬ ‫ہر بولتا‬ ‫سر بازار نیلام ہوتا ہے‬ ‫سر اس کے‬ ‫کوئی ناکوئی الزام ہوتا ہے‬ ‫بےکیے خوب بدنام ہوتا ہے‬ ‫امیر ولت کو کون پوچھے‬ ‫کہا اس کا بےلگام ہوتا ہے‬ ‫کوئی ایشور کا اسے اوتار کہے‬ ‫اس کی کرتوتوں سے بےخبر‬ ‫ممدس روحوں کا اسے سالار سمجھیں‬ ‫یہ ہی نہیں‬ ‫نوع انسانی کا ولار سمجھیں‬

‫سب چمچے اسے کان رزق کہتے ہیں‬ ‫مورکھ بھی اسی کے گن گاتا ہے‬ ‫حیرت تو یہ ہے‬ ‫جس خوبی کا وہ تاعمر لاتل رہا‬ ‫اسی خوبی کو‬ ‫مورکھ اس کی گرہ میں رکھتا رہا‬ ‫اسے جینا ہے‬ ‫یہ ہی اس کا طور رہا‬ ‫یہ کوئی نئی بات نہیں‬ ‫ہر دور اہل ثروت کا دور رہا‬ ‫کوئی بھوک مرتا ہے مرے‬ ‫انہیں اس سے کیا‬ ‫ان کی بلا سے‬ ‫گریب کے بچے بےلباس ہیں‬ ‫وہ کیا ک ٰریں انہیں کیا‬ ‫ان کا اس سے کوئی کام نہیں‬

‫مالک تو ہے نا‬ ‫گریب کا سنور جاتا ہے دعا سے‬ ‫خیر چھوڑیے ان باتوں کو‬ ‫کوئی نئی بات ہو تو بات کریں‬ ‫جو ولت گزر گیا سو گزر گیا‬ ‫ان بےگھر بےبستر راتوں کو‬ ‫یاد کیوں کریں‬ ‫ہاں بس اتنا دکھ ہے‬ ‫گریب کی روکھی سوکھی پر‬ ‫پنجہ رکھ کر‬ ‫تاج محل کبھی نور محل تعمیر ہوا‬ ‫شاہ پھر بھی دیالو ہے کرپالو ہے‬‫پھر بھی لوگ ان سے آسیں باندھیں‬ ‫ان کی آنکھوں میں ٹک تلاشیں‬‫امید کی لاشیں کب یک جا ہوتی ہیں‬ ‫پتی پتی گلاب بُنے‬

‫لدموں میں اس کے بکھری پتیاں‬ ‫حسن کے ماتھے پر نالدری کا ٹکا‬ ‫لدموں میں بکھری‬ ‫پتیوں کو کون چنے‬ ‫جو چننے بیٹھے گا‬ ‫پولے کھائے گا۔‬ ‫خیر چھوڑیں‬‫میں کیا ظلم و ستم کی رام کہانی لے بیٹھا ہوں‬ ‫چائے کی مست پیالی میں‬ ‫ہمارا امریکی طور نہیں رہا‬ ‫کبھی میں کبھی وہ‬ ‫ادائیگی کر دیتے ہیں‬ ‫ہم ایک کشتی کے مسافر ہیں‬ ‫پھر تو میں کیسی‬ ‫اک روز کیا ہوا‬ ‫بچہ جو چائے لا کر دیتا تھا‬

‫ہاتھ سے اس کے برتن گرے اور ٹوٹ گئے‬ ‫پھر کیا تھا‬ ‫مالک نے وہ مارا‬ ‫اشک فرشتوں کے بھی گرے ہوں گے‬ ‫وہ دن اس کے‬‫الف انار بے بکری تے تختی پڑھنے کے تھے‬ ‫بھوک اسے وہاں لائی تھی‬ ‫اللہ جانے کتنی مجبور اس کی مائی تھی‬ ‫سچی بات تو یہ ہے‬ ‫مری چائے حرام ہوئی‬ ‫میں بےبس کنگلا کیا کر سکتا تھا‬ ‫بس دو بےبس اشک بہا سکتا تھا‬ ‫میرا یہ ہی کل سرمایا تھا‬ ‫زیست میں یہ ہی کچھ کمایا تھا‬ ‫جب برتن لینے وہ آیا‬ ‫میں نے اسے گلے لگایا‬

‫رویا پیار کیا منہ ماتھا چوما‬ ‫چپ چاپ وہاں سے اٹھ آیا‬ ‫جہاں نمرود کی شریعت چلتی ہو‬ ‫وہاں پھر کیا آنا کیا جانا‬ ‫بعد مدت مرا اس کا ملنا ہوا‬ ‫ہماری آنکھیں ملیں‬ ‫ہم اک دوجے کو پہچان گئے‬ ‫وہ چھوٹا تھا میں نیچے بیٹھ گیا‬ ‫گلے لگایا خوب پیار کیا دعا دی‬ ‫مری گرہ کی یہ ہی اولات تھی‬ ‫وہ ہاں وہ بچہ‬‫نوشیرواں سے کہیں بڑھ کر دیالو نکلا‬ ‫میٹھی گولی اس کے منہ میں تھی‬ ‫اس نے اپنا وہ لممہ‬ ‫مرے منہ میں ڈالا‬ ‫خوش ہو کر مرے منہ کو دیکھا‬

‫مرے منہ میں وہ تھا‬ ‫جو جنت سوگ میں بھی نہ ہو گا‬ ‫مرے چہرے پر‬ ‫خوشی کے لڈو پھوٹ رہے تھے‬‫اس کے پاس ایک اور میٹھی گولی تھی‬ ‫جو اس نے مرے ہاتھ پر رکھ دی‬ ‫اکبر ہو کہ کوئی اور شاہ‬ ‫کیا کسی کو دیں گے‬ ‫مہان تھا دیا کا پردھان تھا‬ ‫وہ معصوم بچہ‬ ‫شاہوں کی شاہی ایک طرف‬ ‫الفت پریم سے لبریز‬ ‫میٹھی گولی ایک طرف‬ ‫تول میں کہیں بھاری ہے‬ ‫گو اک عرصہ ہوا‬ ‫اس میٹھی گولی کا مزا‬

‫مری رگ وپے میں‬ ‫آج بھی رلصاں ہے‬ ‫پریم و الفت کے آب زم زم میں بھیگی‬ ‫ہات پر اس بچے کی رکھی میٹھی گولی‬ ‫آتی نسلوں کے لیے میں نے رکھ دی ہے‬ ‫کہ حجت رہے‬ ‫محبتوں کا کوئی مول نہیں‬ ‫یہ جیتی ہیں مرتی نہیں‬ ‫لوگوں کو یہ‬ ‫خیر کی شکتی بردان میں دیتی ہیں‬‫دو بیلوں کی مرضی ہے‬ ‫تمثالی وعلامتی افسانہ‬

‫بندر کے بچوں کے‬ ‫آتے کل کی بھوک کے غم میں‬ ‫وہ اور یہ‬ ‫آدم کے زخموں سے چور‬ ‫بھوک سے نڈھال‬ ‫لول کے سچے‘ پکے‬ ‫بچوں پر‬ ‫بھونکتے ٹونکتے‬ ‫زخمی سؤر بھوکے کتے‬ ‫ٹوٹ پڑے ہیں‬ ‫ظلم کے ہر حامی کے منہ میں‬‫خون کی ٹیکسال سے نکلے ڈالر‬‫ہاتھ میں وعدوں کے پرزے ہیں‬ ‫ظلم کی نندا کرنے والے‬ ‫توپوں کی زد میں ہیں‬

‫جبر کے ٹوکے میں‬ ‫اپنی سانسیں گنتے ہیں‬ ‫ہونٹوں سے باہر آتی جیبا‬ ‫خنجر کی کھا جا ہے‬ ‫گھورتی آنکھیں‬ ‫اگنی کا رن ہے‬ ‫سچ تو یہ ہے‬ ‫کمزور باشندے‬ ‫پشو جناور کا اترن اور‬ ‫ماس خور درندوں کا جیون ہیں‬ ‫لومڑ اور گیڈر بھی‬‫گھاس پھوس سے نفرت کرتے ہیں‬ ‫اک کا جیون‬ ‫دوجے کی مرتیو پر اٹھتا ہے‬ ‫دیا اور کرپا کے سب جذبے‬ ‫شوگر کو نائٹروکولین ہیں‬

‫اب دو بیلوں کی مرضی ہے‬ ‫اک ساتھ چلیں‬ ‫بے خوفی کا جیون جئیں‬ ‫یا پھر‬ ‫دو راہوں کے راہی ٹھہریں‬ ‫کتوں سؤروں کا فضلہ بن کر‬ ‫بے نامی کی نالی میں بہہ جائیں‬‫ذات کے لیدی‬ ‫لصور تو خیر دونوں کا تھا‬ ‫اس نے گالیاں بکیں‬ ‫اس نے خنجر چلایا‬ ‫سزا دونوں کو ملی‬ ‫وہ جان سے گیا‬

‫یہ جہان سے گیا‬ ‫اس کے بچے یتیم ہوئے‬ ‫اس کے بچے گلیاں رولے‬ ‫اس کی ماں بینائی سے گئی‬‫اس کی ماں کے آنسو تھمتے نہیں‬ ‫اس کا باپ کچری چڑھا‬ ‫اس کا باپ بستر لگا‬ ‫دونوں کنبے کاسہء گدائی لیے‬ ‫گھر گھر کی دہلیز چڑھے‬ ‫بے کسی کی تصویر بنے‬ ‫بے تولیر ہوئے‬ ‫ضبط کا فمدان‬ ‫بربادی کی انتہا بنا‬ ‫سماج کے سکون پر پتھر لگا‬ ‫لصور تو خیر دونوں کا تھا‬ ‫جیو اور جینے دو کے اصول پر‬

‫جی سکتے تھے‬ ‫اپنے لیے جینا کیا جینا‬ ‫دھرتی کا ہر ذرہ‬ ‫تزئین کی آشا رکھتا ہے‬ ‫ذات کے لیدی‬ ‫مردوں سے بدتر‬‫سسی فس کا جینا جیتے ہیں‬‫چل' محمد کے در پر چل‬ ‫نعتیہ کہانی‬ ‫اک پل‬ ‫آکاش اور دھرتی کو‬‫اک دھاگے میں بن کر‬ ‫رنگ دھنک اچھالے‬

‫دوجا پل‬‫جو بھیک تھا پہلے کل کی‬ ‫کاسے سے اترا‬ ‫ماتھے کی ریکھا ٹھہرا‬ ‫کرپا اور دان کا پل‬ ‫پھن چکر مارا‬ ‫گرتا ہے منہ کے بل‬ ‫سلوٹ سے پاک سہی‬ ‫پھر بھی‬ ‫حنطل سے کڑوا‬ ‫اترن کا پھل‬ ‫الفت میں کچھ دے کر‬ ‫پانے کی اچھا‬ ‫حاتم سے ہے چھل‬ ‫غیرت سے عاری‬ ‫حلك میں ٹپکا‬

‫وہ لطرہ‬ ‫سمراط کا زہر‬ ‫نہ گنگا جل‬‫مہر محبت سے بھرپور‬ ‫نیم کا پانی‬ ‫نہ کڑا نہ کھارا‬ ‫وہ تو ہے‬ ‫آب زم زم‬ ‫اس میں رام کا بل‬ ‫ہر فرزانہ‬ ‫عہد سے مکتی چاہے‬ ‫ہر دیوانہ عہد کا بندی‬ ‫مر مٹنے کی باتیں‬ ‫ٹالتے رہنا‬ ‫کل تا کل‬ ‫جب بھی‬

‫پل کی بگڑی کل‬ ‫در نانک کے‬ ‫بیٹھا بےکل‬ ‫وید حکیم‬ ‫ملاں پنڈٹ‬ ‫پیر فمیر‬ ‫جب تھک ہاریں‬ ‫جس ہتھ میں ولت کی نبضیں‬ ‫چل‬ ‫محمد کے در پر چل‬‫عطائیں اللہ کی کب بخیل ہیں‬ ‫مدحیہ کہانی‬

‫حضور کے لدموں کی برکت دیکھیے‬ ‫آنکھیں جو لدم بوس رہیں‬ ‫کمال ہوئیں‬ ‫رشک ہلال ہوئیں‬ ‫تہی بر ملال ہوئیں‬ ‫اس سے بڑھ کر یہ‬ ‫بلال ہوئیں‬‫ان آنکھوں نے موت کو حیات بخشی‬ ‫زمینی خداؤں کو بندگی بخشی‬ ‫ہر لمحہ ان سے اخوت ٹپکی‬ ‫شریعت ٹپکی‬ ‫طریمت ٹپکی‬ ‫حمیمت ٹپکی‬ ‫میں نے سنا تھا‬ ‫شاہ حسین کے دربار کے عمب میں‬ ‫حضور کے لدموں کے نشان‬

‫اہل ظرف نے محفوظ کر رکھے ہیں‬ ‫گناہ گار سیاہ کار سہی‬ ‫شوق لیکن مجھے وہاں لے گیا‬‫ڈرتے ڈرتے حضرت کے دربار میں داخل ہوا‬ ‫بساط بھر ادب سے سلام کیا‬ ‫درود پڑھا دعا کی اور دربار سے باہر آ گیا‬ ‫وجود میں ہمت باندھی‬ ‫ہر بری کرنی کی معافی مانگی‬ ‫تب کہیں جا کے دربار کے عمب میں گیا‬ ‫حضور کے لدموں کے نشان‬ ‫بڑے احترام بڑی ّعمیدت سے محفوظ تھے‬ ‫تازہ پھولوں سے سجے تھے‬ ‫لوگ بھی وہاں کھڑے تھے‬ ‫ہر آنکھ میں محبت تھی ّعمیدت تھی‬ ‫دل بےشک طواف الفت میں تھے‬ ‫ہاں کچھ لب بھی متحرک تھے‬

‫انگلیاں شیشہءپا کو چھو رہی تھیں‬ ‫سوچا آگے بڑھوں‬ ‫شیشہءنمش پا کو چوم لوں‬ ‫پھر سوچا مرے لب اس لابل کہاں‬‫انگلیوں سے ہی شیشہء پا چھو لیتا ہوں‬ ‫انگلیوں میں مگر اتنا دم کہاں‬ ‫خواہش ابھری لدموں کو چھوتی‬ ‫پھول کی اک پتی ہی مل جاتی‬ ‫دونوں جہاں گویا مل جائیں گے‬ ‫گناہ گا ہو کہ نیکوکار‬ ‫عطائیں اللہ کی کب بخیل ہیں‬ ‫ایسا اگر ہوتا‬ ‫تو مجھ سے بھوکے مر جاتے‬ ‫تالہ اس شیشے کے بکسے کا‬ ‫کھولا خدمت گار نے‬ ‫حضور کے لدموں کو چھوتی‬

‫اک پتی مرے ہات پر رکھ دی‬ ‫حیرت ہوئی‘ میں اور یہ فضل بےبہا‬ ‫دنیا و عمبی کی عطا‬ ‫سجدہ شکر کا مجھے کب ڈھنگ رہا ہے‬ ‫خدا جانتا تھا کہ اس کا بندہ ممنون ہے‬ ‫میں نے وہ پتی بصد شکر‬ ‫سدا خالی رہتے پرس میں ڈال لی‬‫مرے حضور کے لدموں کی برکت دیکھیے‬ ‫مری میں مر گئی‬ ‫مرا پرس بھی خالی نہیں رہتا‬ ‫راز یہ کھل گیا ہے‬ ‫لدموں میں ہی حضور کے‬ ‫دونوں جہاں ہیں‬ ‫جاؤں گا اگر حضور سے‬ ‫کسی جہاں کا نہ رہوں گا‬ ‫جو حضور کے لدم لیتا رہے گا‬

‫اویس بنے گا‬ ‫منصورٹھہرے گا‬ ‫سرمد لمب پائے گا‬‫کرپانی فتوی‬ ‫منظوم افسانہ‬ ‫فیما ہمارے محلے کا درزی ہے‬ ‫ہے تو سکا ان پڑھ‬ ‫سوچ میں مگر فلاطو لگتا ہے‬ ‫دور کی کوڑی ڈھونڈ کے لاتا ہے‬ ‫سوچ ہی الگ تر نہیں‬ ‫کپڑے بھی بلا کے سیتا ہے‬ ‫الجھا الجھا سڑا بجھا بھی رہتا ہے‬

‫اللہ جانے گھر والی سے‬ ‫نبھا اس کا کیسے ہوتا ہے‬ ‫بےشک وہ اس کی عجیب باتوں سے‬ ‫گھبرا جاتی ہو گی‬ ‫پلے جو ُپڑ گیا‘ رو دھو کر نبھاتی ہو گی‬‫کم ہی لوگ اس کی باتوں پر غور کرتے ہیں‬ ‫ہاں جو کرتے ہیں اس کے ہو جاتے ہیں‬ ‫بڑا زیرک ہے دانا ہے‬ ‫بات کرتے بندہ کوبندہ دیکھ لیتا ہے‬ ‫باتوں کی کھٹی کب کھاتا ہے‬ ‫ڈٹ محنت کرتا ہے‬ ‫خوب کماتا ہے‬ ‫اس روز سب چھوڑ چھاڑ کر‬ ‫چپ چاپ بستر پر لیٹا ہوا تھا‬ ‫خلا میں بٹربٹر دیکھے جاتا تھا‬ ‫پہلے سوچا بیمار ہے‬

‫بیماروں کے طور کب ایسے ہوتے ہیں‬ ‫سوچا چلو حال چال پوچھ لیتے ہیں‬‫بیمار ہوا تو کوئی خدمت پوچھ لیتے ہیں‬ ‫میں اس کی دکان میں داخل ہو گیا‬ ‫سلام دعا کرکے بیٹھ گیا‬ ‫پوچھا کیا حال ہے‬ ‫کیوں بےکار میں لیٹے ہوئے ہو‬ ‫اٹھو شیر بنو‬ ‫کوئی دو چار تروپے بھرو‬ ‫آخر بات کیا ہے‬ ‫جو تم نے یہ حالت بنا رکھی ہے‬ ‫آ جی بات کیا ہونی ہے‬ ‫کل سے مسلسل سوچے جا رہا ہوں‬ ‫یہ کہہ کر وہ فلاطو کی اولاد چپ ہو گیا‬ ‫کچھ دیر انتظار کیا کہ اب بولتا ہے‬ ‫جب خامشی نہ ٹوٹی تو میں نے کہا‬

‫منہ سے کچھ پھوٹو گے تو پتا چلے گا‬ ‫نبی نہیں ہوں جو مجھ پر وحی اتر آئے گی‬ ‫اس نے مری طرف دیکھا‬ ‫اور اداس لفظوں میں یوں گویا ہوا‬ ‫کالا ہو کہ چٹا‬ ‫شرلی ہو کہ غربی‬ ‫پنجابی ہو کہ عربی‬ ‫شعیہ ہو کہ وہابی‬ ‫چاہے اس سا ہو تول میں‬ ‫کھوٹا رہا ہو یا کھرا بول میں‬ ‫اس سے اسے کوئی غرض نہیں‬‫مسلماں کشی میں کہیں رائی بھر جھول نہیں‬ ‫ہر مسلمان کو ایک آنکھ سے دیکھتا ہے‬ ‫مطلب بری کے بعد‬ ‫اپنا چمچہ بھی توڑ دیتا ہے‬‫اس کے لریبی گولی کی زد میں آ جاتے ہیں‬

‫جو لینا ہوتا ہے لے لیتا ہے‬ ‫اس کے ہر دینے میں بھی لینا ہوتا ہے‬ ‫شلوار ٹخنوں سے اوپر ہو کہ نیچے‬ ‫ہاتھ چھوڑے یا باندھے‬ ‫داڑھی بڑی ہو کہ چھوٹی‬ ‫توند پتلی ہو کہ موٹی‬ ‫اسے اس سے کیا‬ ‫بس مسلمان ہو اتنا کافی ہے‬ ‫اس کے مجرم ہونے میں‬ ‫اس سے بڑا کوئی ثبوت نہیں‬ ‫یہ معاملہ مسلمانوں کا ہے‬ ‫اس کا نہیں‬ ‫وہ صرف اتنا جانتا ہے‬ ‫یہ مسلمان ہے‬ ‫اس کی گردن زنی ہونی چاہیے‬‫مسلمانوں کا عمیدہ و نظریہ اس سے الگ تر ہے‬

‫ان وہابی سنی شعیوں نے‬ ‫اپنے اپنے مولوی پالے ہیں‬ ‫بلا کی توندیں وہ رکھتے ہیں‬ ‫شورےفا بڑے ہوٹلوں میں‬ ‫سائلوں کی گرہ سے کھاتے ہیں‬ ‫مولوی بھی باہر کی کھاتے ہیں‬ ‫دونوں اوروں کے پلے کی‬ ‫باہر سے گھر بھجواتے ہیں‬ ‫حلوہ ہو کہ ہو آوارہ مرغا‬ ‫توند اٹھائے بھاگے جاتے ہیں‬‫ہاں مگر کھیسہ میں کفر کا فتوی رکھتے ہیں‬ ‫مسلمانوں کے ہاں‬ ‫مسلمان کم پائے جاتے ہیں‬ ‫وہابی سنی شعیہ کی بہتات ہے‬ ‫کئی اور ایسوں کی برسات ہے‬ ‫فمط چند لمموں کے لیے‬

‫تفریك کے ایٹم بم‬ ‫کبھی ادھر کبھی ادھر گراتے ہیں‬ ‫تفریك کا بم‬ ‫ایٹم بم سے کہیں مہلک ہے‬ ‫آخر وہ دن کب آئیں گے‬ ‫وہابی رہیں گے نہ شعیہ سنی‬ ‫سب مسلمان ہوں گے‬ ‫اگر تفریك مٹ گئی‬‫تو اس کے ہر بم سے بچ جائیں گے‬ ‫ایکتا پیٹ کے بندوں کو‬ ‫کب خوش آتی ہے‬ ‫لڑانے مروانے کا شوق‬ ‫صدیوں سے چلا آتا ہے‬ ‫وہ ان پڑھ درزی مسلسل بولتا رہا‬ ‫شاید پچھلے جنم میں‬‫مدینہ کی گلیوں میں گھوما پھرا تھا‬

‫اک ان پڑھ درزی کے سامنے‬ ‫مری بولتی بند تھی‬ ‫بات تو وہ ٹھیک کہہ رہا تھا‬ ‫لیٹا ہوا تھا‬ ‫کب پیٹ سے سوچ رہا تھا‬‫پیٹ سے نکلتی سوچ مسمانوں کو کھا گئی ہے‬ ‫مگر کیا کریں‬ ‫جو بولے گا مولوی کا کرپانی فتوی‬ ‫اسے کھا جائے گا‬ ‫اک درزی اور یہ سوچ‬ ‫یہاں کوئی باپ کے لیے نہیں سوچتا‬ ‫پوری امت کے لیے وہ سوچے جا رہا تھا‬ ‫سچ تو یہ ہے‬ ‫اس کا انداز فکر مجھے بھا گیا‬ ‫اس کا ہر لفظ للب و نظر پر چھا گیا‬ ‫جواب میں کیا کہتآ‬

‫بجھے دل اور بھیگی آنکھوں سے‬ ‫میں واں سے اٹھ گیا‬ ‫مرے بس میں یہ ہی کچھ تھا‬ ‫میں بھلا اور کیا کر سکتا تھا‬ ‫‪Nadia khan‬‬ ‫‪7th October 2016, 14:34‬‬ ‫بالکل سچ آپ نے لکھا ہے‬ ‫آج کل جہاں بھی دیکھا جائے یہی حال ہے‬ ‫اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت دیں آمین ہماری سوچ اور ہمارے کام‬ ‫ایسے ہونے چاہیے جیسے اللہ تعالی نے حکم دیا ہے‬ ‫جزاک اللہ خیر‬‫‪Masood‬‬

7th October 2016, 15:19Zabardast. Bohat umdah aur khoobsurat likha Hasni shahib.!http://www.pegham.com/forum/deewan-e-khaas/nasri-adab/pegham-writers/dr-maqsood-hasni/4275933-%DA%A9%D8%B1%D9%BE%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D9%81%D8%AA%D9%88%DB%8 C ‫ممدر‬ ‫مکالماتی افسانہ‬ ‫ہیلو ہیلو‬ ‫کون‬

‫شانتی‬ ‫کیا چاہتی ہو‬ ‫دوستی‬ ‫کر لو‬‫تمہاری کرخت نگاہوں سے ڈر لگتا یے‬ ‫ہا۔۔۔ہا۔۔۔۔۔ہا۔۔۔۔۔ہا‬ ‫پگلی! نادان!‬ ‫گلاب کانٹوں سے نبھا کرتا ہے‬ ‫تم بھی کر لو‬‫سسکیوں میں شانتی کی آواز ڈوب گئی‬ ‫بزدل‘ جاہل‘ دلیانوسی‬ ‫بارود تو امن کی ضمانت ہے‬ ‫زمانہ روایت کی لحد میں‬ ‫اتار دے گا تم کو‬ ‫اور تم‬ ‫سسک بھی نہ سکو گی‬

‫جدید سکول میں چار دن گزار دیکھو‬ ‫ہیلو‘ سن رہی ہو نا‬ ‫ہاں سن رہی ہوں‬ ‫مگر یہ مجھ سے نہ ہو گا‬ ‫‘تو پھر جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫تنہائی کے زنداں میں ممید رہو‬ ‫یہ ہی تمہارا ممدر ہے‬‫دو بانٹ‬ ‫منظوم افسانہ‬ ‫جھورے کے سسر تھے کمال کے‬ ‫تامرگ سگے رہے مال کے‬ ‫کدھر سے آتا ہے چھوڑیے‬

‫انگلی اٹھائے جو‬ ‫بلا تکلف سر اس کا پھوڑیے‬ ‫تول کے بھی ان کے دو بانٹ تھے‬‫ایک سے لیتے تھے ایک سے دیتے تھے‬ ‫یہاں ایک پیر صاحب رہتے تھے‬ ‫نام ان کا کچھ اور ہے‬ ‫پیار سے میں انہیں بابا دو بانٹ کہتا تھا‬ ‫برائیلر فروش کے ہاتھ کا گوشت‬ ‫خود پر حرام جانتے تھے‬ ‫روڑی کھا کر پلا مرغا ہو کہ مرغی‬ ‫بڑے شوق سے کھاتے تھے‬ ‫جو ان کا شوق یاد رکھتے‬ ‫بافیض بس وہ ہی ہوتے تھے‬ ‫کمال کے طبع شفیك تھے‬ ‫بوڑھی ہو کہ کم صورت‬ ‫بیٹا کہہ کر بلاتے‬

‫سر پر پیار دے کر دعا دیتے‬ ‫کام کی چیز اگر ساتھ لائی ہو‬ ‫اندر بھجوا دیتے‬ ‫دولت کو جیب میں رکھنے کا‬ ‫انہیں کوئی شوق نہ تھا‬ ‫گھٹنے کے نیچے دبا کر رکھتے تھے‬ ‫بڑے دیالو اور کرپالو تھے‬ ‫ہر عام چیز سے‬ ‫خلیفوں کی دنیا بساتے‬ ‫لنگر میں سے بےمایہ ادھر پڑا رہتا‬ ‫ہر ستھرا مگر اندر چلا جاتا‬ ‫گویا اندر بھی راضی باہر بھی راضی‬‫بے داغ کپڑے ہوں اور پیٹ میں دال روٹی‬ ‫بات کچھ جچتی نہیں‬ ‫ہاں پیٹ میں ہو اگر دیسی مرغا‬ ‫تو ہی بات بنتی ہے‬

‫گویا من بھی راضی تن بھی راضی‬‫جھورے کے سسر سے مماثل بات کی بات ہی کچھ اور تھی‬ ‫باصورت عورتیں انہیں خوش آتی تھیں‬ ‫اوپر سے‬ ‫چھوئی موئی سی ہوتیں تو‬ ‫پیچے لڑ جاتے تھے‬ ‫یہ ہی اک بات تھی‬ ‫جس پر اندر اعتراض رہتا تھا‬ ‫وہ کیا جانے‬ ‫اک تو وہ پرانی تھی‬ ‫پیپا بھی تھی‬ ‫اوپر سے عادات میں بال ایانی تھی‬ ‫دیسی مرغا جب ڈکارا ہو‬ ‫ہر سو کنول چہروں کا نظارہ ہو‬ ‫تن من میں مستی آ ہی جاتی ہے‬ ‫مستی حواس کیا‬

‫ایمان بھی کھا جاتی ہے‬ ‫جھورے کا سسر یاد میں اپنی‬ ‫دو بانٹ چھوڑ گیا‬ ‫اس کی بیٹی‬ ‫یہ دونوں لے کر خاوند کے گھر گئی‬ ‫پھر یہ ہی متاع جہیز لے کر‬ ‫جھورے کے ساتھ نکل گئی‬‫طلاق و نکاح کی اسے کیا ضرورت تھی‬ ‫دو بانٹ کا یہ ہی تو کمال ہے‬‫اصول و ضوابط سے آزادی دلا دیتا ہے‬ ‫تاعمر مستی کی گزاری‬ ‫جھورا مر گیا لولاں بھی مر گئی‬ ‫شیخ تو حضور کے لدموں پر ہوتا ہے‬ ‫حیرت تو یہ ہے‬ ‫اس پیر کے ہاتھ‬ ‫لولاں کے جہیز کی یہ متاع پلید‬

‫کیسے آئی‬ ‫یہ بات پکی ہے‬ ‫مائی جہیز میں نہیں لائی تھی‬ ‫سنا ہے کھاتی خوب تھی‬ ‫لیکن نیک اور پردہ میں رہتی تھی‬ ‫ممکن ہے‬‫جھورے کے ہمسایا میں کبھی رہے ہوں‬ ‫وہاں سے چرا لائے ہوں‬ ‫یمین نہیں آتا‬ ‫پر کیا کریں‬ ‫چوروں کو مور پڑتے آئے ہیں‬‫دو حرفی بات‬ ‫منظوم افسانہ‬

‫عادت نہ ماننے کی اچھی نہیں ہوتی‬‫جیتے جی ممدر اس کا بنتی ہے نیستی‬‫اس کے پیرو سدا زیر عتاب رہتے ہیں‬ ‫آگے بڑھتے لدم پیچھے کو آتے ہیں‬ ‫اپنی پہ اڑنا گھاٹے کا سودا ہے‬ ‫یہ بےجڑا پودا ہے‬ ‫ریت کی دیوار کیسے کھڑی کرو گے‬ ‫بلا ہنر گر دریا میں چھلانگ لگاؤ گے‬ ‫غوطے کھاؤ گے ڈوبو گے مرو گے‬ ‫شیطان اپنی پہ اڑا ہوا ہے‬ ‫صبح و شام لعنتیں ہی نہیں‬ ‫ہر لمحہ پتھر روڑے کھاتا ہے‬ ‫بس سچے دل سے توبہ ہی کرنی ہے‬‫ایسا لمبا چوڑا اس کا حساب کتاب نہیں‬ ‫پر کیا کریں‬

‫شخص انا کی غلامی کیے جاتا ہے‬ ‫پھر بھی کہے جاتا ہے‬ ‫میں آزاد ہوں میں آزاد ہوں‬ ‫کہتا ہے یہ غیر کی داری نہیں‬ ‫میں کہتا ہوں انا کس کی پیرو ہے‬‫اللہ کے بنائے شخص کی یہ چیز نہیں‬ ‫برسوں سے‬ ‫میں اسے یہ ہی کہے جا رہا تھا‬ ‫مری وہ کب مانتا تھا‬ ‫مرا کہا حرف آخر ہے‬ ‫یہ ہی اس کی ہٹ تھی‬ ‫مرا کہا کوئی الف لیلی نہ تھا‬ ‫دو حرفی بات تھی‬ ‫میں کہتا تھا‬ ‫کرنا اور ہونا میں فرق ہے‬ ‫وہ کہتا تھا‬

‫ہونا کچھ نہیں کرنا ہی سب کچھ ہے‬ ‫ہونی کرنے سے ٹل جاتی ہے‬ ‫ہر بگڑی اس سے سنور جاتی ہے‬ ‫کئی بار بیمار پڑا‬ ‫میں کہتا رہا اب سناؤ‬ ‫کرنے اور ہونے میں بڑا فرق ہے‬‫جوابا کہتا بدپرہیزی کے سبب بیمار پڑا ہوں‬ ‫مری گرہ میں مال ہے‬ ‫ہتھیار دوا دارو کا مرے ہاتھ ہے‬ ‫چنگا بھلا ہو جاؤں گا‬ ‫عشك کی گرفت میں آیا‬ ‫اٹھنا بیٹھنا سونا جاگنا گنوایا‬ ‫روپیا پیسا بھی اس راہ میں لٹایا‬ ‫گرہ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے‬ ‫کنگلا ہوا تو معشولہ وہ گئی‬ ‫بھوک ننگ کے نکاح میں کیوں آتی‬

‫میں نے کہا کرنے کی‬ ‫اس سے بڑھ کر ناکامی اور کیا ہو گی‬ ‫ہونی کا تو اس میں عمل دخل ہی نہیں‬ ‫بھوکا ننگا ہو کر بھی‬ ‫اپنے کہے پر ڈٹا رہا‬ ‫کہنے لگا دولت ہاتھ کی میل ہے‬ ‫عورت پاؤں کی جوتی‬‫مری کرنی میں ہی کہیں چوک ہوئی ہے‬ ‫ورنہ اس سالی کی ایسی کی تیسی‬ ‫محنت کروں گا اور کما لوں گا‬ ‫پھر اس سی بیسیوں‬ ‫مرے چرنوں میں ہوں گی‬ ‫اک روز‬ ‫میں نے سنا آخری سانسوں پر ہے‬ ‫میں اسے ملنے گیا‬ ‫حواس بگڑے ہوئے تھے‬

‫چہرے کا رنگ بھی زرد پڑ گیا تھا‬ ‫میں نے کہا سناؤ بھیا کیسے ہو‬ ‫کیا سناؤں سانسیں گن رہا ہوں‬ ‫اب تو ہونی کو مانتے ہو‬ ‫یار اس میں ہونی کہاں سے آ گئی‬ ‫میں اپنی غلط کرنی کی بھگت رہا ہوں‬ ‫میں نے سوچا اب کچھ کہنا درست نہیں‬ ‫اس کے دل پر تو‬ ‫ختم اللہ کی مہر لگی ہوئی تھی‬ ‫اسی شام ہونی کی گرفت میں آیا‬ ‫چل بسا‬‫جاتے ہوئے بھی نٹکا اس نے اوپر رکھا‬ ‫ہونی کیسے ٹل سکتی تھی‬ ‫کرنی کے ساتھ اگر ہونی کو بھی مانتا‬ ‫اس میں آخر اس کا کیا بگڑ جاتا‬ ‫مجنوں ہو کہ رانجھا‬

‫کرنی کی کب کھٹی کھا سکے ہیں‬ ‫نکاح کرتے نہیں نکاح تو ہوتے آئے ہیں‬ ‫جوڑے آسمان پر بنتے ہیں‬ ‫زور زبردستی کے کام بگڑ جاتے ہیں‬‫سوچ کے گھروندوں میں‬ ‫علم و فن کے‬ ‫کالے سویروں سے‬ ‫مجھے ڈر لگتا ہے‬ ‫ان کے بطن سے‬ ‫ہوس کے ناگ جنم لیتے ہیں‬ ‫سچ کی آواز کو‬ ‫جو ڈس لیتے ہیں‬ ‫سہاگنوں کی پیاسی آتما سے‬

‫ہوس کی آگ بجھاتے ہیں‬ ‫صلاحیتوں کے چراغوں کی روشنی کو‬ ‫دھندلا دیتے ہیں‬ ‫بجھا دیتے ہیں‬ ‫حك کے ایوانوں میں‬ ‫اندھیر مچا دیتے ہیں‬ ‫حمیمتوں کا ہم زاد‬ ‫اداس لفظوں کے جنگلوں کا‬ ‫آس سے‬ ‫ٹھکانہ پوچھتا ہے‬ ‫انا اور آس کو‬ ‫جب یہ ڈستے ہیں‬ ‫آدمیت کی آرتھی اٹھتی ہے‬‫کم کوسی' بےہمتی بےاعتنائی کے شراپ کے سائے‬ ‫ابلیس کے لدم لیتے ہیں‬ ‫شخص کبھی جیتا کبھی مرتا ہے‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook