منہ میں زبان رکھتا تھا پھر بھی چپ تھا چپ میں شاید اسے سکھ تھا جو بھی سہی یہ سوال نوشتہءدیوار بنا تھا وہ چپ تھا تو کیوں چپ تھا ہر زبان پر یہ ہی سوال تھا وہ بزدل تھا یا صبر میں باکمال تھا کچھ اسے زن مرید کہتے تھے کسی کے خیال میں مرد کی انا کا وہ کھلا زوال تھا وہ تو خیر زیر عتاب تھا ہی اس کے پچھلے بھیکوسنوں کے دفتر چڑھ رہے تھے اس سے کوئی کیوں پوچھتا
ہر دوسرے امریش پوری سے ڈائیلاگ سننے کو ملتے تھے نمرود ولت بھیکانوں پر پہرے نہیں رکھ سکتا پہلے ریڈیو ہی تو تھا ٹی وی تو کل کی دین ہے کان سنتے تھے تصور امیج بناتا تھا آخر چپ تھا تو کیوں چپ تھا اک روز میں نے پوچھ ہی لیا میرا کہااس کے لہمہوں میں اڑنے لگا میں نے سوچا کہنا کچھ تھا شاید کہہ کچھ اور گیا ہوں
بھول میں کسی سردار کا لطیفہ کہہ گیا ہوں بھلکڑ ہوں یہ لول زریں مری زوجہ کا ہے زوجہ کے کہے کو غلط کہوں کہوں تو کس بل پراگلے سے ناسہی اس جہان سے جاؤں گا مہر بہ لب رہا کہ دیواروں کو بھی کان ہوتے ہیںمجھے کیا پڑی غیروں کی اپنے سر لوں میں نے بھی چپ میں عافیت جانی ہم کیؤں پرائی آگ میں کودیں مرے لیے خالہ کی لگائی ہی کافی ہے خود چل بسی میں بھی چل بسوں سامان کر گئی ہے پھر وہ دفعتا چپ ہو گیا
مری طرف بےبس بے کس نظروں سے دیکھنے لگا چند لمحے خامشی رہی جاہل جانتے ہو بولنے میں کتنے اعضا خرچ ہوتے ہیں حیرت ہوئی‘ بھلا یہ کیا جواب ہوا غصہ میں بولنے سے چودہ اعضا کشٹ اٹھاتے ہیں مرا کیا ہے ادھر سے سنتا ہوں ادھر سے نکال دیتا ہوںچہرے کے بدلتے رنگوں کا اپنا ہی سواد ہوتا ہے ہاں سٹپٹانے میں کھونے کے آثار ہوتے ہیں گھورنے بسورنے میں کہکشانی اطوار ہوتے ہیں شخص پڑھو کہ حیات کے
تم پر پوشیدہ اطوار کھلیں ہاں غصہ میں دماغ کی کوئی نس پھٹ سکتی ہے خیر یہ ولت خیر نہیں آئے گا دماغ ہوتا تو صبر کا جہاں آباد کرتی دل کا دورہ بھی بعید از لیاس نہیں اس امید پر ہی تو جی رہا ہوں کبھی تو غصہ کے افك سے خوشی کا چاند مسکرائے گا پھر مستی میں آ کر گنگنائے گاآ گئی بہار گلوں کا رنگ اور بھی نکھر گیاپیاسی آتمائیں آ رہی ہیں روپ بدل بدل کے میں پڑھا لکھا سہی اپنی اولات میں ہوں تو مزدور زوجہ گزیدہ ہوں بھاشا فلسفے کی میں کیا جانوں
بولا :جاؤ امید پر زندہ رہو امید پر میں زندہ ہوں امید ہی تو زندگی ہےمیٹھی گولی ہم کچھ دوست ہوٹل میں چائے پیتے ہیں اور اکثر پیتے ہیں سچی پوچھو تو چائے پر ہی تو جیتے ہیں زندگی میں ورنہ چائے کے سوا رکھا کیا ہے بھوک کا پرنا پیاس کا پٹکا ہماری زیست کا یہ ہی اثاثہ ہے
جسے دیکھو رکھے ہے ہزار گز کا نٹکا امیر ولت بات گریبوں کی کرتا ہے کھیسہ مگر اپنا بھرتا ہے ہر بولتا سر بازار نیلام ہوتا ہے سر اس کے کوئی ناکوئی الزام ہوتا ہے بےکیے خوب بدنام ہوتا ہے امیر ولت کو کون پوچھے کہا اس کا بےلگام ہوتا ہے کوئی ایشور کا اسے اوتار کہے اس کی کرتوتوں سے بےخبر ممدس روحوں کا اسے سالار سمجھیں یہ ہی نہیں نوع انسانی کا ولار سمجھیں
سب چمچے اسے کان رزق کہتے ہیں مورکھ بھی اسی کے گن گاتا ہے حیرت تو یہ ہے جس خوبی کا وہ تاعمر لاتل رہا اسی خوبی کو مورکھ اس کی گرہ میں رکھتا رہا اسے جینا ہے یہ ہی اس کا طور رہا یہ کوئی نئی بات نہیں ہر دور اہل ثروت کا دور رہا کوئی بھوک مرتا ہے مرے انہیں اس سے کیا ان کی بلا سے گریب کے بچے بےلباس ہیں وہ کیا ک ٰریں انہیں کیا ان کا اس سے کوئی کام نہیں
مالک تو ہے نا گریب کا سنور جاتا ہے دعا سے خیر چھوڑیے ان باتوں کو کوئی نئی بات ہو تو بات کریں جو ولت گزر گیا سو گزر گیا ان بےگھر بےبستر راتوں کو یاد کیوں کریں ہاں بس اتنا دکھ ہے گریب کی روکھی سوکھی پر پنجہ رکھ کر تاج محل کبھی نور محل تعمیر ہوا شاہ پھر بھی دیالو ہے کرپالو ہےپھر بھی لوگ ان سے آسیں باندھیں ان کی آنکھوں میں ٹک تلاشیںامید کی لاشیں کب یک جا ہوتی ہیں پتی پتی گلاب بُنے
لدموں میں اس کے بکھری پتیاں حسن کے ماتھے پر نالدری کا ٹکا لدموں میں بکھری پتیوں کو کون چنے جو چننے بیٹھے گا پولے کھائے گا۔ خیر چھوڑیںمیں کیا ظلم و ستم کی رام کہانی لے بیٹھا ہوں چائے کی مست پیالی میں ہمارا امریکی طور نہیں رہا کبھی میں کبھی وہ ادائیگی کر دیتے ہیں ہم ایک کشتی کے مسافر ہیں پھر تو میں کیسی اک روز کیا ہوا بچہ جو چائے لا کر دیتا تھا
ہاتھ سے اس کے برتن گرے اور ٹوٹ گئے پھر کیا تھا مالک نے وہ مارا اشک فرشتوں کے بھی گرے ہوں گے وہ دن اس کےالف انار بے بکری تے تختی پڑھنے کے تھے بھوک اسے وہاں لائی تھی اللہ جانے کتنی مجبور اس کی مائی تھی سچی بات تو یہ ہے مری چائے حرام ہوئی میں بےبس کنگلا کیا کر سکتا تھا بس دو بےبس اشک بہا سکتا تھا میرا یہ ہی کل سرمایا تھا زیست میں یہ ہی کچھ کمایا تھا جب برتن لینے وہ آیا میں نے اسے گلے لگایا
رویا پیار کیا منہ ماتھا چوما چپ چاپ وہاں سے اٹھ آیا جہاں نمرود کی شریعت چلتی ہو وہاں پھر کیا آنا کیا جانا بعد مدت مرا اس کا ملنا ہوا ہماری آنکھیں ملیں ہم اک دوجے کو پہچان گئے وہ چھوٹا تھا میں نیچے بیٹھ گیا گلے لگایا خوب پیار کیا دعا دی مری گرہ کی یہ ہی اولات تھی وہ ہاں وہ بچہنوشیرواں سے کہیں بڑھ کر دیالو نکلا میٹھی گولی اس کے منہ میں تھی اس نے اپنا وہ لممہ مرے منہ میں ڈالا خوش ہو کر مرے منہ کو دیکھا
مرے منہ میں وہ تھا جو جنت سوگ میں بھی نہ ہو گا مرے چہرے پر خوشی کے لڈو پھوٹ رہے تھےاس کے پاس ایک اور میٹھی گولی تھی جو اس نے مرے ہاتھ پر رکھ دی اکبر ہو کہ کوئی اور شاہ کیا کسی کو دیں گے مہان تھا دیا کا پردھان تھا وہ معصوم بچہ شاہوں کی شاہی ایک طرف الفت پریم سے لبریز میٹھی گولی ایک طرف تول میں کہیں بھاری ہے گو اک عرصہ ہوا اس میٹھی گولی کا مزا
مری رگ وپے میں آج بھی رلصاں ہے پریم و الفت کے آب زم زم میں بھیگی ہات پر اس بچے کی رکھی میٹھی گولی آتی نسلوں کے لیے میں نے رکھ دی ہے کہ حجت رہے محبتوں کا کوئی مول نہیں یہ جیتی ہیں مرتی نہیں لوگوں کو یہ خیر کی شکتی بردان میں دیتی ہیںدو بیلوں کی مرضی ہے تمثالی وعلامتی افسانہ
بندر کے بچوں کے آتے کل کی بھوک کے غم میں وہ اور یہ آدم کے زخموں سے چور بھوک سے نڈھال لول کے سچے‘ پکے بچوں پر بھونکتے ٹونکتے زخمی سؤر بھوکے کتے ٹوٹ پڑے ہیں ظلم کے ہر حامی کے منہ میںخون کی ٹیکسال سے نکلے ڈالرہاتھ میں وعدوں کے پرزے ہیں ظلم کی نندا کرنے والے توپوں کی زد میں ہیں
جبر کے ٹوکے میں اپنی سانسیں گنتے ہیں ہونٹوں سے باہر آتی جیبا خنجر کی کھا جا ہے گھورتی آنکھیں اگنی کا رن ہے سچ تو یہ ہے کمزور باشندے پشو جناور کا اترن اور ماس خور درندوں کا جیون ہیں لومڑ اور گیڈر بھیگھاس پھوس سے نفرت کرتے ہیں اک کا جیون دوجے کی مرتیو پر اٹھتا ہے دیا اور کرپا کے سب جذبے شوگر کو نائٹروکولین ہیں
اب دو بیلوں کی مرضی ہے اک ساتھ چلیں بے خوفی کا جیون جئیں یا پھر دو راہوں کے راہی ٹھہریں کتوں سؤروں کا فضلہ بن کر بے نامی کی نالی میں بہہ جائیںذات کے لیدی لصور تو خیر دونوں کا تھا اس نے گالیاں بکیں اس نے خنجر چلایا سزا دونوں کو ملی وہ جان سے گیا
یہ جہان سے گیا اس کے بچے یتیم ہوئے اس کے بچے گلیاں رولے اس کی ماں بینائی سے گئیاس کی ماں کے آنسو تھمتے نہیں اس کا باپ کچری چڑھا اس کا باپ بستر لگا دونوں کنبے کاسہء گدائی لیے گھر گھر کی دہلیز چڑھے بے کسی کی تصویر بنے بے تولیر ہوئے ضبط کا فمدان بربادی کی انتہا بنا سماج کے سکون پر پتھر لگا لصور تو خیر دونوں کا تھا جیو اور جینے دو کے اصول پر
جی سکتے تھے اپنے لیے جینا کیا جینا دھرتی کا ہر ذرہ تزئین کی آشا رکھتا ہے ذات کے لیدی مردوں سے بدترسسی فس کا جینا جیتے ہیںچل' محمد کے در پر چل نعتیہ کہانی اک پل آکاش اور دھرتی کواک دھاگے میں بن کر رنگ دھنک اچھالے
دوجا پلجو بھیک تھا پہلے کل کی کاسے سے اترا ماتھے کی ریکھا ٹھہرا کرپا اور دان کا پل پھن چکر مارا گرتا ہے منہ کے بل سلوٹ سے پاک سہی پھر بھی حنطل سے کڑوا اترن کا پھل الفت میں کچھ دے کر پانے کی اچھا حاتم سے ہے چھل غیرت سے عاری حلك میں ٹپکا
وہ لطرہ سمراط کا زہر نہ گنگا جلمہر محبت سے بھرپور نیم کا پانی نہ کڑا نہ کھارا وہ تو ہے آب زم زم اس میں رام کا بل ہر فرزانہ عہد سے مکتی چاہے ہر دیوانہ عہد کا بندی مر مٹنے کی باتیں ٹالتے رہنا کل تا کل جب بھی
پل کی بگڑی کل در نانک کے بیٹھا بےکل وید حکیم ملاں پنڈٹ پیر فمیر جب تھک ہاریں جس ہتھ میں ولت کی نبضیں چل محمد کے در پر چلعطائیں اللہ کی کب بخیل ہیں مدحیہ کہانی
حضور کے لدموں کی برکت دیکھیے آنکھیں جو لدم بوس رہیں کمال ہوئیں رشک ہلال ہوئیں تہی بر ملال ہوئیں اس سے بڑھ کر یہ بلال ہوئیںان آنکھوں نے موت کو حیات بخشی زمینی خداؤں کو بندگی بخشی ہر لمحہ ان سے اخوت ٹپکی شریعت ٹپکی طریمت ٹپکی حمیمت ٹپکی میں نے سنا تھا شاہ حسین کے دربار کے عمب میں حضور کے لدموں کے نشان
اہل ظرف نے محفوظ کر رکھے ہیں گناہ گار سیاہ کار سہی شوق لیکن مجھے وہاں لے گیاڈرتے ڈرتے حضرت کے دربار میں داخل ہوا بساط بھر ادب سے سلام کیا درود پڑھا دعا کی اور دربار سے باہر آ گیا وجود میں ہمت باندھی ہر بری کرنی کی معافی مانگی تب کہیں جا کے دربار کے عمب میں گیا حضور کے لدموں کے نشان بڑے احترام بڑی ّعمیدت سے محفوظ تھے تازہ پھولوں سے سجے تھے لوگ بھی وہاں کھڑے تھے ہر آنکھ میں محبت تھی ّعمیدت تھی دل بےشک طواف الفت میں تھے ہاں کچھ لب بھی متحرک تھے
انگلیاں شیشہءپا کو چھو رہی تھیں سوچا آگے بڑھوں شیشہءنمش پا کو چوم لوں پھر سوچا مرے لب اس لابل کہاںانگلیوں سے ہی شیشہء پا چھو لیتا ہوں انگلیوں میں مگر اتنا دم کہاں خواہش ابھری لدموں کو چھوتی پھول کی اک پتی ہی مل جاتی دونوں جہاں گویا مل جائیں گے گناہ گا ہو کہ نیکوکار عطائیں اللہ کی کب بخیل ہیں ایسا اگر ہوتا تو مجھ سے بھوکے مر جاتے تالہ اس شیشے کے بکسے کا کھولا خدمت گار نے حضور کے لدموں کو چھوتی
اک پتی مرے ہات پر رکھ دی حیرت ہوئی‘ میں اور یہ فضل بےبہا دنیا و عمبی کی عطا سجدہ شکر کا مجھے کب ڈھنگ رہا ہے خدا جانتا تھا کہ اس کا بندہ ممنون ہے میں نے وہ پتی بصد شکر سدا خالی رہتے پرس میں ڈال لیمرے حضور کے لدموں کی برکت دیکھیے مری میں مر گئی مرا پرس بھی خالی نہیں رہتا راز یہ کھل گیا ہے لدموں میں ہی حضور کے دونوں جہاں ہیں جاؤں گا اگر حضور سے کسی جہاں کا نہ رہوں گا جو حضور کے لدم لیتا رہے گا
اویس بنے گا منصورٹھہرے گا سرمد لمب پائے گاکرپانی فتوی منظوم افسانہ فیما ہمارے محلے کا درزی ہے ہے تو سکا ان پڑھ سوچ میں مگر فلاطو لگتا ہے دور کی کوڑی ڈھونڈ کے لاتا ہے سوچ ہی الگ تر نہیں کپڑے بھی بلا کے سیتا ہے الجھا الجھا سڑا بجھا بھی رہتا ہے
اللہ جانے گھر والی سے نبھا اس کا کیسے ہوتا ہے بےشک وہ اس کی عجیب باتوں سے گھبرا جاتی ہو گی پلے جو ُپڑ گیا‘ رو دھو کر نبھاتی ہو گیکم ہی لوگ اس کی باتوں پر غور کرتے ہیں ہاں جو کرتے ہیں اس کے ہو جاتے ہیں بڑا زیرک ہے دانا ہے بات کرتے بندہ کوبندہ دیکھ لیتا ہے باتوں کی کھٹی کب کھاتا ہے ڈٹ محنت کرتا ہے خوب کماتا ہے اس روز سب چھوڑ چھاڑ کر چپ چاپ بستر پر لیٹا ہوا تھا خلا میں بٹربٹر دیکھے جاتا تھا پہلے سوچا بیمار ہے
بیماروں کے طور کب ایسے ہوتے ہیں سوچا چلو حال چال پوچھ لیتے ہیںبیمار ہوا تو کوئی خدمت پوچھ لیتے ہیں میں اس کی دکان میں داخل ہو گیا سلام دعا کرکے بیٹھ گیا پوچھا کیا حال ہے کیوں بےکار میں لیٹے ہوئے ہو اٹھو شیر بنو کوئی دو چار تروپے بھرو آخر بات کیا ہے جو تم نے یہ حالت بنا رکھی ہے آ جی بات کیا ہونی ہے کل سے مسلسل سوچے جا رہا ہوں یہ کہہ کر وہ فلاطو کی اولاد چپ ہو گیا کچھ دیر انتظار کیا کہ اب بولتا ہے جب خامشی نہ ٹوٹی تو میں نے کہا
منہ سے کچھ پھوٹو گے تو پتا چلے گا نبی نہیں ہوں جو مجھ پر وحی اتر آئے گی اس نے مری طرف دیکھا اور اداس لفظوں میں یوں گویا ہوا کالا ہو کہ چٹا شرلی ہو کہ غربی پنجابی ہو کہ عربی شعیہ ہو کہ وہابی چاہے اس سا ہو تول میں کھوٹا رہا ہو یا کھرا بول میں اس سے اسے کوئی غرض نہیںمسلماں کشی میں کہیں رائی بھر جھول نہیں ہر مسلمان کو ایک آنکھ سے دیکھتا ہے مطلب بری کے بعد اپنا چمچہ بھی توڑ دیتا ہےاس کے لریبی گولی کی زد میں آ جاتے ہیں
جو لینا ہوتا ہے لے لیتا ہے اس کے ہر دینے میں بھی لینا ہوتا ہے شلوار ٹخنوں سے اوپر ہو کہ نیچے ہاتھ چھوڑے یا باندھے داڑھی بڑی ہو کہ چھوٹی توند پتلی ہو کہ موٹی اسے اس سے کیا بس مسلمان ہو اتنا کافی ہے اس کے مجرم ہونے میں اس سے بڑا کوئی ثبوت نہیں یہ معاملہ مسلمانوں کا ہے اس کا نہیں وہ صرف اتنا جانتا ہے یہ مسلمان ہے اس کی گردن زنی ہونی چاہیےمسلمانوں کا عمیدہ و نظریہ اس سے الگ تر ہے
ان وہابی سنی شعیوں نے اپنے اپنے مولوی پالے ہیں بلا کی توندیں وہ رکھتے ہیں شورےفا بڑے ہوٹلوں میں سائلوں کی گرہ سے کھاتے ہیں مولوی بھی باہر کی کھاتے ہیں دونوں اوروں کے پلے کی باہر سے گھر بھجواتے ہیں حلوہ ہو کہ ہو آوارہ مرغا توند اٹھائے بھاگے جاتے ہیںہاں مگر کھیسہ میں کفر کا فتوی رکھتے ہیں مسلمانوں کے ہاں مسلمان کم پائے جاتے ہیں وہابی سنی شعیہ کی بہتات ہے کئی اور ایسوں کی برسات ہے فمط چند لمموں کے لیے
تفریك کے ایٹم بم کبھی ادھر کبھی ادھر گراتے ہیں تفریك کا بم ایٹم بم سے کہیں مہلک ہے آخر وہ دن کب آئیں گے وہابی رہیں گے نہ شعیہ سنی سب مسلمان ہوں گے اگر تفریك مٹ گئیتو اس کے ہر بم سے بچ جائیں گے ایکتا پیٹ کے بندوں کو کب خوش آتی ہے لڑانے مروانے کا شوق صدیوں سے چلا آتا ہے وہ ان پڑھ درزی مسلسل بولتا رہا شاید پچھلے جنم میںمدینہ کی گلیوں میں گھوما پھرا تھا
اک ان پڑھ درزی کے سامنے مری بولتی بند تھی بات تو وہ ٹھیک کہہ رہا تھا لیٹا ہوا تھا کب پیٹ سے سوچ رہا تھاپیٹ سے نکلتی سوچ مسمانوں کو کھا گئی ہے مگر کیا کریں جو بولے گا مولوی کا کرپانی فتوی اسے کھا جائے گا اک درزی اور یہ سوچ یہاں کوئی باپ کے لیے نہیں سوچتا پوری امت کے لیے وہ سوچے جا رہا تھا سچ تو یہ ہے اس کا انداز فکر مجھے بھا گیا اس کا ہر لفظ للب و نظر پر چھا گیا جواب میں کیا کہتآ
بجھے دل اور بھیگی آنکھوں سے میں واں سے اٹھ گیا مرے بس میں یہ ہی کچھ تھا میں بھلا اور کیا کر سکتا تھا Nadia khan 7th October 2016, 14:34 بالکل سچ آپ نے لکھا ہے آج کل جہاں بھی دیکھا جائے یہی حال ہے اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت دیں آمین ہماری سوچ اور ہمارے کام ایسے ہونے چاہیے جیسے اللہ تعالی نے حکم دیا ہے جزاک اللہ خیرMasood
7th October 2016, 15:19Zabardast. Bohat umdah aur khoobsurat likha Hasni shahib.!http://www.pegham.com/forum/deewan-e-khaas/nasri-adab/pegham-writers/dr-maqsood-hasni/4275933-%DA%A9%D8%B1%D9%BE%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D9%81%D8%AA%D9%88%DB%8 C ممدر مکالماتی افسانہ ہیلو ہیلو کون
شانتی کیا چاہتی ہو دوستی کر لوتمہاری کرخت نگاہوں سے ڈر لگتا یے ہا۔۔۔ہا۔۔۔۔۔ہا۔۔۔۔۔ہا پگلی! نادان! گلاب کانٹوں سے نبھا کرتا ہے تم بھی کر لوسسکیوں میں شانتی کی آواز ڈوب گئی بزدل‘ جاہل‘ دلیانوسی بارود تو امن کی ضمانت ہے زمانہ روایت کی لحد میں اتار دے گا تم کو اور تم سسک بھی نہ سکو گی
جدید سکول میں چار دن گزار دیکھو ہیلو‘ سن رہی ہو نا ہاں سن رہی ہوں مگر یہ مجھ سے نہ ہو گا ‘تو پھر جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تنہائی کے زنداں میں ممید رہو یہ ہی تمہارا ممدر ہےدو بانٹ منظوم افسانہ جھورے کے سسر تھے کمال کے تامرگ سگے رہے مال کے کدھر سے آتا ہے چھوڑیے
انگلی اٹھائے جو بلا تکلف سر اس کا پھوڑیے تول کے بھی ان کے دو بانٹ تھےایک سے لیتے تھے ایک سے دیتے تھے یہاں ایک پیر صاحب رہتے تھے نام ان کا کچھ اور ہے پیار سے میں انہیں بابا دو بانٹ کہتا تھا برائیلر فروش کے ہاتھ کا گوشت خود پر حرام جانتے تھے روڑی کھا کر پلا مرغا ہو کہ مرغی بڑے شوق سے کھاتے تھے جو ان کا شوق یاد رکھتے بافیض بس وہ ہی ہوتے تھے کمال کے طبع شفیك تھے بوڑھی ہو کہ کم صورت بیٹا کہہ کر بلاتے
سر پر پیار دے کر دعا دیتے کام کی چیز اگر ساتھ لائی ہو اندر بھجوا دیتے دولت کو جیب میں رکھنے کا انہیں کوئی شوق نہ تھا گھٹنے کے نیچے دبا کر رکھتے تھے بڑے دیالو اور کرپالو تھے ہر عام چیز سے خلیفوں کی دنیا بساتے لنگر میں سے بےمایہ ادھر پڑا رہتا ہر ستھرا مگر اندر چلا جاتا گویا اندر بھی راضی باہر بھی راضیبے داغ کپڑے ہوں اور پیٹ میں دال روٹی بات کچھ جچتی نہیں ہاں پیٹ میں ہو اگر دیسی مرغا تو ہی بات بنتی ہے
گویا من بھی راضی تن بھی راضیجھورے کے سسر سے مماثل بات کی بات ہی کچھ اور تھی باصورت عورتیں انہیں خوش آتی تھیں اوپر سے چھوئی موئی سی ہوتیں تو پیچے لڑ جاتے تھے یہ ہی اک بات تھی جس پر اندر اعتراض رہتا تھا وہ کیا جانے اک تو وہ پرانی تھی پیپا بھی تھی اوپر سے عادات میں بال ایانی تھی دیسی مرغا جب ڈکارا ہو ہر سو کنول چہروں کا نظارہ ہو تن من میں مستی آ ہی جاتی ہے مستی حواس کیا
ایمان بھی کھا جاتی ہے جھورے کا سسر یاد میں اپنی دو بانٹ چھوڑ گیا اس کی بیٹی یہ دونوں لے کر خاوند کے گھر گئی پھر یہ ہی متاع جہیز لے کر جھورے کے ساتھ نکل گئیطلاق و نکاح کی اسے کیا ضرورت تھی دو بانٹ کا یہ ہی تو کمال ہےاصول و ضوابط سے آزادی دلا دیتا ہے تاعمر مستی کی گزاری جھورا مر گیا لولاں بھی مر گئی شیخ تو حضور کے لدموں پر ہوتا ہے حیرت تو یہ ہے اس پیر کے ہاتھ لولاں کے جہیز کی یہ متاع پلید
کیسے آئی یہ بات پکی ہے مائی جہیز میں نہیں لائی تھی سنا ہے کھاتی خوب تھی لیکن نیک اور پردہ میں رہتی تھی ممکن ہےجھورے کے ہمسایا میں کبھی رہے ہوں وہاں سے چرا لائے ہوں یمین نہیں آتا پر کیا کریں چوروں کو مور پڑتے آئے ہیںدو حرفی بات منظوم افسانہ
عادت نہ ماننے کی اچھی نہیں ہوتیجیتے جی ممدر اس کا بنتی ہے نیستیاس کے پیرو سدا زیر عتاب رہتے ہیں آگے بڑھتے لدم پیچھے کو آتے ہیں اپنی پہ اڑنا گھاٹے کا سودا ہے یہ بےجڑا پودا ہے ریت کی دیوار کیسے کھڑی کرو گے بلا ہنر گر دریا میں چھلانگ لگاؤ گے غوطے کھاؤ گے ڈوبو گے مرو گے شیطان اپنی پہ اڑا ہوا ہے صبح و شام لعنتیں ہی نہیں ہر لمحہ پتھر روڑے کھاتا ہے بس سچے دل سے توبہ ہی کرنی ہےایسا لمبا چوڑا اس کا حساب کتاب نہیں پر کیا کریں
شخص انا کی غلامی کیے جاتا ہے پھر بھی کہے جاتا ہے میں آزاد ہوں میں آزاد ہوں کہتا ہے یہ غیر کی داری نہیں میں کہتا ہوں انا کس کی پیرو ہےاللہ کے بنائے شخص کی یہ چیز نہیں برسوں سے میں اسے یہ ہی کہے جا رہا تھا مری وہ کب مانتا تھا مرا کہا حرف آخر ہے یہ ہی اس کی ہٹ تھی مرا کہا کوئی الف لیلی نہ تھا دو حرفی بات تھی میں کہتا تھا کرنا اور ہونا میں فرق ہے وہ کہتا تھا
ہونا کچھ نہیں کرنا ہی سب کچھ ہے ہونی کرنے سے ٹل جاتی ہے ہر بگڑی اس سے سنور جاتی ہے کئی بار بیمار پڑا میں کہتا رہا اب سناؤ کرنے اور ہونے میں بڑا فرق ہےجوابا کہتا بدپرہیزی کے سبب بیمار پڑا ہوں مری گرہ میں مال ہے ہتھیار دوا دارو کا مرے ہاتھ ہے چنگا بھلا ہو جاؤں گا عشك کی گرفت میں آیا اٹھنا بیٹھنا سونا جاگنا گنوایا روپیا پیسا بھی اس راہ میں لٹایا گرہ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے کنگلا ہوا تو معشولہ وہ گئی بھوک ننگ کے نکاح میں کیوں آتی
میں نے کہا کرنے کی اس سے بڑھ کر ناکامی اور کیا ہو گی ہونی کا تو اس میں عمل دخل ہی نہیں بھوکا ننگا ہو کر بھی اپنے کہے پر ڈٹا رہا کہنے لگا دولت ہاتھ کی میل ہے عورت پاؤں کی جوتیمری کرنی میں ہی کہیں چوک ہوئی ہے ورنہ اس سالی کی ایسی کی تیسی محنت کروں گا اور کما لوں گا پھر اس سی بیسیوں مرے چرنوں میں ہوں گی اک روز میں نے سنا آخری سانسوں پر ہے میں اسے ملنے گیا حواس بگڑے ہوئے تھے
چہرے کا رنگ بھی زرد پڑ گیا تھا میں نے کہا سناؤ بھیا کیسے ہو کیا سناؤں سانسیں گن رہا ہوں اب تو ہونی کو مانتے ہو یار اس میں ہونی کہاں سے آ گئی میں اپنی غلط کرنی کی بھگت رہا ہوں میں نے سوچا اب کچھ کہنا درست نہیں اس کے دل پر تو ختم اللہ کی مہر لگی ہوئی تھی اسی شام ہونی کی گرفت میں آیا چل بساجاتے ہوئے بھی نٹکا اس نے اوپر رکھا ہونی کیسے ٹل سکتی تھی کرنی کے ساتھ اگر ہونی کو بھی مانتا اس میں آخر اس کا کیا بگڑ جاتا مجنوں ہو کہ رانجھا
کرنی کی کب کھٹی کھا سکے ہیں نکاح کرتے نہیں نکاح تو ہوتے آئے ہیں جوڑے آسمان پر بنتے ہیں زور زبردستی کے کام بگڑ جاتے ہیںسوچ کے گھروندوں میں علم و فن کے کالے سویروں سے مجھے ڈر لگتا ہے ان کے بطن سے ہوس کے ناگ جنم لیتے ہیں سچ کی آواز کو جو ڈس لیتے ہیں سہاگنوں کی پیاسی آتما سے
ہوس کی آگ بجھاتے ہیں صلاحیتوں کے چراغوں کی روشنی کو دھندلا دیتے ہیں بجھا دیتے ہیں حك کے ایوانوں میں اندھیر مچا دیتے ہیں حمیمتوں کا ہم زاد اداس لفظوں کے جنگلوں کا آس سے ٹھکانہ پوچھتا ہے انا اور آس کو جب یہ ڈستے ہیں آدمیت کی آرتھی اٹھتی ہےکم کوسی' بےہمتی بےاعتنائی کے شراپ کے سائے ابلیس کے لدم لیتے ہیں شخص کبھی جیتا کبھی مرتا ہے
Search
Read the Text Version
- 1
- 2
- 3
- 4
- 5
- 6
- 7
- 8
- 9
- 10
- 11
- 12
- 13
- 14
- 15
- 16
- 17
- 18
- 19
- 20
- 21
- 22
- 23
- 24
- 25
- 26
- 27
- 28
- 29
- 30
- 31
- 32
- 33
- 34
- 35
- 36
- 37
- 38
- 39
- 40
- 41
- 42
- 43
- 44
- 45
- 46
- 47
- 48
- 49
- 50
- 51
- 52
- 53
- 54
- 55
- 56
- 57
- 58
- 59
- 60
- 61
- 62
- 63
- 64
- 65
- 66
- 67
- 68
- 69
- 70
- 71
- 72
- 73
- 74
- 75
- 76
- 77
- 78
- 79
- 80
- 81
- 82
- 83
- 84
- 85
- 86
- 87
- 88
- 89
- 90
- 91
- 92
- 93
- 94
- 95
- 96
- 97
- 98
- 99
- 100
- 101
- 102
- 103
- 104
- 105
- 106
- 107
- 108
- 109
- 110
- 111
- 112
- 113
- 114
- 115
- 116
- 117
- 118
- 119
- 120
- 121
- 122
- 123
- 124
- 125
- 126
- 127
- 128
- 129
- 130
- 131
- 132
- 133
- 134
- 135