Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore مقصود حسنی کے تیس منظوم افسانے

مقصود حسنی کے تیس منظوم افسانے

Published by maqsood5, 2016-10-12 11:39:40

Description: abk_ksr_mh.851/2016
مقصود حسنی کے تیس منظوم افسانے
پیش کار: پروفیسر ہونس حسن
ابوزر برقی کتب خانہ
اکتوبر ٢٠١٦

Search

Read the Text Version

‫ممصود حسنی کے تیس منظوم افسانے‬ ‫پیش کار‪ :‬پروفیسر ہونس حسن‬ ‫ابوزر برلی کتب خانہ‬ ‫اکتوبر ‪٢٠١٦‬‬

‫فہرست‬ ‫شاعر اور غزل ‪١-‬‬ ‫ٹیکسالی کے شیشہ میں ‪٢-‬‬ ‫کالے سویرے ‪٣-‬‬ ‫کیچڑ کا کن ‪٤-‬‬ ‫دو لممے ‪٥-‬‬ ‫آخری خبریں آنے تک ‪٦-‬‬ ‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا ‪٧-‬‬ ‫حیرت تو یہ ہے ‪٨-‬‬ ‫میں نے دیکھا ‪٩-‬‬ ‫کس منہ سے ‪١٠-‬‬ ‫حیات کے برزخ میں ‪١١-‬‬‫سورج دوزخی ہو گیا تھا ‪١٢-‬‬ ‫فیکٹری کا دھواں ‪١٣-‬‬ ‫مطلع رہیں ‪١٤-‬‬

‫امید ہی تو زندگی ہے ‪١٥-‬‬ ‫میٹھی گولی ‪١٦-‬‬ ‫دو بیلوں کی مرضی ہے ‪١٧-‬‬ ‫ذات کے لیدی ‪١٨-‬‬ ‫چل' محمد کے در پر چل ‪١٩-‬‬‫عطائیں اللہ کی کب بخیل ہیں ‪٢٠-‬‬ ‫کرپانی فتوی ‪٢١-‬‬ ‫ممدر ‪٢٢-‬‬ ‫دو بانٹ ‪٢٣-‬‬ ‫دو حرفی ‪٢٤-‬‬ ‫سوچ کے گھروندوں میں ‪٢٥-‬‬ ‫کیا یہ کافی نہیں ‪٢٦-‬‬ ‫اندھیر مچی دیکھیے ‪٢٧-‬‬ ‫یادوں کی دودھ ندیا ‪٢٨-‬‬ ‫باؤ بہشتی ‪٢٩-‬‬ ‫کوئی کیا جانے ‪٣٠-‬‬

‫شاعر اور غزل‬‫چاند کی کرنوں سے غزل کی بھیک مانگی‬ ‫اس نے کاسے میں دو بوندیں نچوڑ دیں‬ ‫کہ غزل آنکھوں کی ٹھنڈک ہو جائے‬ ‫سیپ نے مروارید دیئے‬ ‫کہ دل اس کا پرسکون ہو جائے‬ ‫لوس لزح نے سرخی بخشی‬ ‫کہ رخ مثل یالوت ہو جائے‬ ‫طبلے کی تھاپ نے‬ ‫گھنگھرو کی جھنکار نے‬ ‫مایوس نہیں کیا‬

‫نسیم سحر سے بھی دست سوال دراز کیا‬ ‫لبروں کے کتبوں سے بھی‬ ‫غزل کی بھیک مانگ کے لایا‬ ‫سورج سے تھوڑی حدت مانگ لی‬ ‫سیماب سے بےلراری لے لی‬ ‫لہر نے بغاوت دے دی‬ ‫گلاب کے پاس بھی گیا‬ ‫اس نے کاسے کو بوسہ دیا‬ ‫اور اپنی اک پنکھڑی رکھ دی‬ ‫خوش تھا کہ‬ ‫آج محنت رنگ لائے گی‬ ‫وہ مری ہو جائے گی‬ ‫دامن مرا خوشیوں سے بھر جائے گا‬ ‫غزل کے چہرے پر‬ ‫حسین سا عنوان لکھ دے گی‬ ‫خلوص کی طشتری میں رکھ کر‬

‫جب غزل میں نے پیش کی‬ ‫جسارت پہ مری وہ بپھر گئی‬ ‫ضبط کی پٹڑی سے اتر گئی‬ ‫کاسے میں تھوک دیا‬ ‫بولی‬‫بھکاری! اپنا خون جگر نچوڑ کے لاؤ‬ ‫غزل سے زندگی کی خوش بو آئے‬ ‫راحتوں کے لیے‬ ‫لہو کی اک بوند کافی ہے‬ ‫پھر اس نے‬ ‫چھاتی سے جدا کرکے‬ ‫اپنی بچی مری گود میں رکھ دی‬ ‫ممتا کی باہوں میں غزل تھی‬ ‫ممتا کی نگاہوں میں غزل تھی‬ ‫بچی کے لبوں پر‬ ‫بچی کی انگلیوں میں‬

‫بچی کی سانسوں میں‬ ‫مگر بچی تو سراپا غزل تھی‬ ‫میں مشاہدے میں ہی تھا کہ‬ ‫اس نے بچی مجھ سے لے لی‬‫مری آغوش میں شرمندگی رکھ دی‬ ‫درماندگی رکھ دی‬ ‫اپنی اور مانگے کی چیز میں‬ ‫کتنا فرق ہوتا ہے‬ ‫وہ لائك صد افتخار تھی‬ ‫پرولار تھی‬ ‫میں تنکے سے بھی حمیر تھا‬ ‫اس کا سر تنا ہوا تھا‬ ‫مرا سر جھکا ہوا تھا‬ ‫کہ غزل کے چہرے پر‬ ‫بھیک کا پیوند لگا ہوا تھا‬ ‫غزل کا بدن زیر عتاب تھا‬

‫میں بھی تو ہار گیا تھا‬‫مری شاعری کی کائنات پر رعشہ تھا‬ ‫وہ مسکرا رہی تھی‬ ‫غزل سٹپٹا رہی تھی‬ ‫اجتہاد کا در وا ہوا‬ ‫روایت کا دیا بجھ گیا‬ ‫حمیمیت سےپردہ اٹھ گیا‬ ‫شاعر نہیں‘ میں تو بھکاری تھا‬ ‫خورشید ضعیف ہو گیا‬ ‫مہتاب زرد پڑ گیا‬ ‫گلاب مرجھا گیا‬ ‫طبلے کا پول کھل گیا‬ ‫جھنکار تھم گئی‬ ‫سمندر ندامت پی گئی‬ ‫کاسہ دو لخت ہوا‬ ‫جو جس کا تھا لے گیا‬

‫ابلیس کرچیاں چننے لگا‬ ‫بھکاری مر گیا‬ ‫لبروں کو اپنا دیا مل گیا‬ ‫پھر شاعر جاگا‬ ‫ذات میں کھو گیا‬ ‫خامشی چھا گئی‬ ‫ذات میں انملاب آ گیا‬ ‫اندر کا لاوا ابلنے لگا‬ ‫حد سے گزرنے لگا‬‫ابلیس کے لہمہوں کا سلسلہ رک گیا‬ ‫اب ذات تھی‬ ‫شاعر تھا‬ ‫آنکھوں میں لہو کی بوندیں‬ ‫ہاتھ میں للم‬ ‫کاغذ پر جگر تھا‬

‫» بروز‪ :‬آج بولت ‪ 11:48:49‬صبح «‬ ‫مکرمی ومحترمی ڈاکٹعر حسنی صاحب‪:‬سلام علیکم‬ ‫آپ نے اپنی آزاد نظم میں جتنے خوبصورت جذبات کا اظہار کیا‬ ‫ہے وہ دل کو چھولیتے ہیں اور لاری کوسوچنے پر مجبور‬‫کرتے ہیں۔ میں آزاد نظم سے بہت کم والف ہوں اورعام طور پر‬‫انہیں پڑھنے سے احتراز کرتی ہوں۔لیکن آپ کی پچھلی تحریریں‬ ‫دیکھ چکی ہوں ہرچند کہ ان پرخیال آرائی نہیں کی کہ خودکو‬‫اس لابل نہیں سمجھتی ہوں۔ آپ کی اس آزاد نظم کو دیکھ کر دل‬ ‫بہت خوش ہوا۔ میں کیا اور میری داد کیا۔ بہرحال ناچیز داد کے‬ ‫ساتھ شکریہ پیش خدمت ہے۔‬‫اجازت ہو تو اتنا کہنا چاہوں گی کہ یہ نظم اپنی طوالت کی بنا پر‬ ‫اکتا دینے والی ہو گئی ہے۔ لاری پڑھتے پڑھتے اوب جاتا ہے‬ ‫اور نظم کا بنیادی خیال اس کی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔‬ ‫مجھ کو سمجھنے اور مزا لینے کے لئے نظم متعدد بار پڑھنا‬‫پڑی۔ گستاخی کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ اگر آپ اس پر نظرثانی‬ ‫کر کے اسے مختصر کردیں تو اس کا تاثربہت بڑھ سکتا ہے۔‬ ‫دعائے خیر کی آپ سے طالب ہوں۔‬ ‫مہر افروز‬

‫شکریہ جناب‬ ‫ابتدا میں پابند شاعری کرتا تھا پھر افسانے کی طرف آ گیا۔‬ ‫منظوم افسانہ‬ ‫راتیں تھیں چاندنی جوبن پہ تھی بہار‬ ‫حبیب ولی محمد کی آواز میں سننے کا اتفاق ہو گیا۔ بس پھر کیا‬ ‫تھا اس طور کے پچیس تیس افسانے لکھ مارے لیکن یہ بات‬‫بہت پہلے کی ہے۔ کچھ تو آپ کو یہاں بھی پڑھنے کو مل جائیں‬ ‫گے۔ ادب میں شاید یہ ایک نئی طرح ہے معلوم نہیں آتا کل اس‬ ‫کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔‬ ‫آپ نے توجہ فرمائی احسان مند ہوں۔ اللہ آپ کو خوش رکھے۔‬ ‫ممصود حسنی‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10358.0‬‬ ‫ٹیکسالی کے شیشہ میں‬

‫معصوم گڑیا سی‬‫زیست کے نشیب و فراز سے بے خبر‬ ‫کہکشانی رستوں کی تلاش میں‬ ‫مشک و عنبر کی جہاں باس ہو‬ ‫ہوا جس کی مگر اسے راس ہو‬‫پریوں کے شہزادے کا میسر ساتھ ہو‬ ‫گھر سے بھاگ نکلی‬ ‫آنکھوں میں اس کے روشی تھی‬ ‫سراپے کا تاج محل‬ ‫کلیوں سے تعمیر ہوا تھا‬ ‫ہر دل سے درد اٹھا‬ ‫مونس و غم گسار بن گیا‬ ‫وہ کیا جانے‬ ‫اس نگر میں بھنورے بھی رہتے ہیں‬ ‫بھیڑیے تاک میں ہیں‬

‫اک روز پھر اخبار میں خبر چھپی‬ ‫مطلع ہوں‬‫اک لڑکی کے اعضاء بکھر گیے تھے‬ ‫گندے گٹر میں پڑے تھے‬ ‫ہر ٹکڑا زخموں سے چور تھا‬ ‫اور خون بھی بہہ رہا تھا‬ ‫گندے پانی کی ٹھوکریں سہہ رہا تھا‬ ‫کہہ رہا تھا‬ ‫شاید میرا کوئی بچ رہا ہو‬ ‫یہ بکھرے اعضاء بڑی حفاظت سے‬ ‫کڑی ریاضت سے‬ ‫جوڑ کر‘ سی کر‬ ‫دارالان بھیج دیے ہیں‬ ‫دارالامان سے رابطہ کریں‬ ‫خوبی لسمت دیکھیے‬ ‫ٹیکسالی کے باسی لدر شناس نکلے‬

‫آج بھی وہ اعضاء‬ ‫ٹیکسالی کے شیشہ میں سجے ہیں‬ ‫کہ ان کا کوئی مستمبل نہیں‬ ‫ماضی کہیں کھو گیا ہے‬ ‫حال متعین نہیں ہوا‬ ‫کہ اب ان پر سب کا حك ہے‬‫کالے سویرے‬ ‫مجھے ڈر لگتا ہے‬ ‫علم و فن کے کالے سویروں سے‬ ‫جن کے بطن سے‬ ‫ہوس کے ناگ جنم لیتے ہیں‬ ‫منصف کے من کی آواز کو‬ ‫جو ڈس لیتے ہیں‬

‫سہاگن کے سہاگ کی پیاسی آتما سے‬ ‫ہوس کی آگ بجھاتے ہیں‬ ‫سچ کے موسموں کے چراغوں کی روشنی‬ ‫دھندلا دھندلا دیتے ہیں‬ ‫حمیمتوں کا ہم زاد‬ ‫گھبرا کر‬ ‫ویران اور اداس لفظوں کا‬ ‫آس سے‬ ‫جو خود فریبی کے جھولے میں پڑی‬ ‫فرار کے رستے سوچ رہی ہے‬ ‫رستہ پوچھتا ہے‬‫ان زہریلے ناگوں کی آنکھوں کی ممناطیسیت‬ ‫اپنے حصار میں‬ ‫اسے بھی لے لیتی ہے‬ ‫یہ ناگ‬ ‫انا اور اساس کو بھی ڈستے ہیں‬

‫یہ خونی منظر دیکھ کر کانپ جاتا ہوں‬ ‫کہ یہ اب ضمیر کو بھی ڈس لیں گے‬ ‫کالے سویروں کی زرد روشنی کے سائے‬ ‫جوں جوں دراز ہوتے ہیں‬‫زندگی کو اک اور کربلا سے گزرنا پڑتا ہے‬ ‫ان ناگوں کی زبانیں‬ ‫چمکتی‘ زہر میں بجھی‬ ‫تیز دھار تلواریں ہیں‬ ‫گھاؤ کرنے میں‬ ‫یہ اپنا جواب نہیں رکھتیں‬ ‫زندگی خوف کے سائے میں‬ ‫کیوں کر پروان چڑھ سکتی ہے‬ ‫جہاں کوئی روٹی دینے والا نہیں‬ ‫پانی کی اک بوند نایاب ہے‬ ‫جہاں خودکشی حرام جینا جرم ہے‬ ‫جہاں نیلے آسمان کی‬

‫چاند ستاروں سے لبریز چھت‬ ‫اپنی نہیں‬ ‫ہوا کا بھی گزر نہیں ہوتا‬ ‫بدلتے موسوں کا تصور‬ ‫شیخ چلی کا خواب ہے‬ ‫بوسیدگی اور غلاظت‬ ‫شخص کا ممدر ہے‬ ‫یا پھر‬ ‫زہر بجھی یہ چمکتی تلواریں ہیں‬ ‫یمین مانو‘ یہ ہی کچھ ہے‬ ‫پھر میں‬‫یاس کی تاریکیوں کی تمنا کرتا ہوں‬ ‫جانت ہوں کہ یہ ناگ‬ ‫تاریکیوں سے نہیں گھبرائیں گے‬ ‫پھر بھی کاٹیں گے‬ ‫گدھ نوچیں گے‬

‫کتے ہڈیوں پر ٹوٹیں گے‬ ‫ہر ہڈی پر‬ ‫گھمسان کا رن ہو گا‬ ‫اپنا حصہ لگڑ بگڑ بھی مانگیں گے‬ ‫فاسفورس کی بانٹ ًپر بھی‬ ‫تنازعے اٹھیں گے‬ ‫درد پھر بھی ہو گا‬ ‫کرب پھر بھی ہو گا‬ ‫زہر پھر بھی پھیلے گا‬ ‫کانچ بدن پھر بھی نیلا ہو گا‬‫مایوسی کی سیاہ ذلفوں کے سائے میں‬ ‫بصارت کو بصیرت کو‬ ‫شائد پناہ مل جائے گی‬‫میں ناگوں کے پہرے نہ دیکھ سکوں گا‬ ‫لہو رستے پر نظر نہ جائے گی‬ ‫مگر کیا کروں‬

‫سچ کی حسین تمنا مجھے مرنے نہیں‬ ‫مرنے نہیں دے گی‬ ‫اور میں اس سراب جیون میں‬ ‫نہ مروں گا نہ جی سکوں گا‬‫کیچڑ کا کنول‬ ‫آلودہ‘ میلا سا چیتھڑا‬ ‫شاید حاجت سے بچا ہوگا‬ ‫‘آدم زادے کا پراہین‬ ‫!عییب نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔؟‬ ‫گلاب سے چہرے پر‬ ‫بلور ایسی‘ دیکھتی آنکھیں‬ ‫حیرت خوف غم غصہ اورافسوس‬

‫جانے کیا کچھ تھا ان میں‬ ‫سماج کی بےحسی پہ‬ ‫ان ٹھہری مگر دیکھتی آنکھوں میں‬ ‫دو بوند‘ لہو سی‬ ‫صدیوں کے ظلم کی داستان‬ ‫لیے ہوئے تھیں‬ ‫اتنی حدت اتنی اتنی تپش کہ‬ ‫پتھر بھی پگھل کر پانی ہو‬ ‫ترسی ترسی باہیں‬‫میرے بوبی کی باہیں ایسی ہی تھیں کہ‬ ‫جب وہ بچہ تھا‬ ‫تب محبتوں کا حصار تھا‬ ‫اور اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫خفت ندامت کا حصار‬ ‫مرے گرد ہے‬ ‫لمحہ بہ لمحہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫دائرہ تنگ ہو رہا ہے‬ ‫مجھے فنکار سے نسبت ہے‬ ‫فنکار‘ سب کا درد‬‫سینے کی وسعتوں میں سمو لیتا ہے‬ ‫‘اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫ساکت وجامد‬ ‫مٹی کے بت کی طرح‬ ‫خاموش تماشائی تھا‬ ‫اس نے پکارا آواز دی‬ ‫احتجاج بھی کیا‬ ‫کچھ نہ میں کر سکا‬ ‫‘جیسے وہ آدم زادہ نہ ہو‬ ‫ہمالہ سے گرا‬ ‫کوئ پتھر ہو‬ ‫‪:‬اس نے کہا‬ ‫!فنکار۔۔۔۔۔۔۔“‬

‫مجھے اپنی باہوں میں سما لو‬ ‫\"ازل سے پیاسا ہوں‬ ‫گھبرا کر تھوڑا سا‬ ‫)پستیوں کی جانب)‬ ‫پیچھے سرکا‬ ‫کوئی مصیبت کوئی وبال‬ ‫تہمت یا بدنامی سر نہ آئے‬ ‫چیخا “فنکار کا سینہ‬ ‫!کب سے تنگ ہوا ہے؟‬‫میری باہیں غیر جنس کی باہیں ہیں؟‬ ‫ان کا تم پر کوئی حك نہیں؟؟؟‬ ‫وہ کہتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں سنتا رہا‬ ‫کیا جواب تھا میرے پاس‬ ‫!کاش‬‫میرے شعور کی آنکھیں بند ہو جاتیں‬ ‫یوں جیسے ممتا کی سماج کی‬

‫آنکھیں بند تھیں‬ ‫سوچتا ہوں‘ مجرم کون ہے‬ ‫‘گناہ کس نے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫ماں یا سماج نے‬ ‫وہ تو اپنے گھروں میں‬ ‫آسودہ سانسوں کے ساتھ‬ ‫گرم کافی پی رہے ہوں گے‬ ‫یا میں نے جو‬ ‫شب کی بھیانک تنہائ میں‬ ‫ندامت سے‬ ‫سگریٹ کے دھوئیں میں‬ ‫تحلیل ہو رہا ہوں‬ ‫گٹرکے لریب پڑا‘ وہ کنول‬ ‫مجھ سے میرے ضمیر سے‬ ‫انصاف طلب کر رہا ہے‬‫کہ تم‘ خدائے عزوجل کی تخلك کا‬

‫یہ حشر کرتے ہو‬ ‫مجھے حرامی کہتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‬ ‫بتاؤ‘ حامی کون ہے؟‬ ‫ضمیر کس کا مردہ ہے؟‬ ‫مجرم کون ہے؟‬ ‫میں یا تم؟؟؟‬ ‫!میری بستی کے باسیو‬‫کہ تمہیں عظیم مخلوق ہونے کا دعوی ہے‬ ‫کیا جواب دوں اسے؟‬ ‫اس کا ننھا سا معصوم چہرا‬ ‫احتجاج سے لبریزآنکھیں‬ ‫پنکھڑی سے ہونٹوں پر‬ ‫تھرکتی بےصدا سسکیاں‬ ‫مجھے پاگل کر دیں گی‬ ‫پاگل‬ ‫ہاں پاگل‬

‫اوٹ سے‘ ‪١٩٩٣‬‬ ‫نوٹ‪ :‬کیچڑ کا کنول پر ایم فل سطع کی اسائنمنٹ بھی ہوئی۔‬ ‫دو لممے‬ ‫تعفن میں اٹی‬ ‫‘اندھیاروں میں لیپٹی وہ بستی‬ ‫جہاں چھیتڑوں میں ملفوف زندہ لاشوں کے دل کی دھڑکنیں‬ ‫دیوار پر آویزاں کلاک کی ٹک ٹک کی آوازیں تھیں۔‬ ‫‘بھوک کی اہیں‬ ‫بےبسی کی سسکیوں میں مدغم ہو رہی تھیں۔‬ ‫آس کا سایہ آس پاس نہ تھا۔ تھا کچھ تو لاتل خاموشی تھی۔‬ ‫بھوک کا ناگ پھن پھیلائے بیٹھا تھا۔‬ ‫مایوسیوں کی اس بستی سے رحم کا دیوتا شاید خفا تھا یا پھر‬ ‫وہ بھی تہی دست تہی دامن ہو گیا تھا۔‬‫اک مسکراہٹ کے طلبگار یہ لاشے بے حس نہیں‘ بے بس تھے۔‬

‫پھر اک لاشہ بھوک ناگ جس کے لریب تر تھا۔۔۔۔۔۔ تڑپا اور‬‫رینگ کر روشنی کی شہراہ پر آ گیا۔ اس حرکت میں اس نے اپنی‬ ‫ساری توانائی صرف کر دی۔ ہر سو اجالے تھے لیکن وہ بھوک‬‫کے سیاہ کفن میں ملبوس تھا۔۔۔۔۔۔۔۔پھر بھی۔۔۔۔۔۔۔ ہاں پھر‘ بھی وہ‬ ‫زندہ تھا اور اجالوں کی شہراہ پر پڑا ہانپ رہا تھا۔ سانسیں‬ ‫بےترتیب تھیں۔ خوش پوش راہی شاید اسے دیکھ نہیں رہے‬‫تھے۔ جو دیکھ رہے تھے ناک پر رومال رکھ کر گزر رہے تھے۔‬ ‫وہ سب اس کے ہم جنس تھے۔ کتنی آس لے کر وہ یہاں تک آیا‬ ‫تھا۔ ان دیکھتے کرب لمحوں کو کون جان پاتا۔‬ ‫وہ اس بستی کا نہ تھا۔‬‫بھوک ناگ بولا‪ :‬کہاں تک بھاگو گے‘ تمہیں میرا لممہ بننا ہی ہو‬ ‫گا کہ خود میں بھوکا ہوں۔‬ ‫پھر وہ تھوڑا آگے بڑھا۔‬‫لاشہ چلایا‪ :‬نہیں۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔ رکو۔۔۔۔۔ٹھہرو۔۔۔۔۔۔ روٹی ضرور آئے‬ ‫گی۔‬ ‫سب بےکار۔۔۔۔۔روٹی کوئی نہیں دے گا۔۔۔۔۔۔ یہ پیٹ بھر کر بھی‬ ‫آنکھوں میں بھوک لیے پھرتے ہیں۔ ان میں سے کون دے گا‬ ‫روٹی۔ ان کے ہشاش بشاش چہروں پر نہ جاؤ۔ ان کے من کی‬ ‫بھوک کو دیکھو اور میرے صبر کا امتحان نہ لو۔‬ ‫‪:‬لاشہ سٹپٹایا اور چلایا‬

‫!اجالوں کے باسیو‬ ‫!علم و فن کے دعوےدارو‬ ‫!سیاست میں شرافت کے مدعیو‬ ‫!جمہوریت کے علم بردارو‬ ‫!اسلحہ خرید کرنے والو‬ ‫!فلاحی اداروں کے نمبردارو‬ ‫‘عالمی وڈیرو‬ ‫‘کہاں ہو تم سب‬ ‫تمہارے وعدے اور دعوے کیا ہوئے؟‬‫اپنی بھوک سے دو لممے میرے لیے بچا لو۔ بھوک ناگ میرے‬ ‫لریب آ گیا ہے۔‬ ‫دیکھو غور کرو‘ میں تمہارا ہم جنس ہوں‬ ‫‘۔ دو لممے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں فمط دو لممے‬ ‫میری زندگی کے ضامن ہیں۔‬ ‫ایف سولہ ہائیڈروجن بم مجھے نہیں چاہیے۔‬ ‫میری ضرورت روٹی کے دو لممے ہیں۔‬ ‫اس دور کی یہ تمہاری بہت بڑی جیت ہو گی جو تاریخ میں‬

‫تمہیں امر کر دے گی۔‬ ‫آخری خبریں آنے تک‬ ‫کون‬ ‫انصاف‬ ‫تمہارا یہاں کیا کام‬‫جہاں میری ضرورت ہوتی ہے بن بلائے چلا آتا ہوں‬ ‫بن بلائے کی اولات سمجھتے ہو‬ ‫جی ہاں‬ ‫اولات عمل سے بنتی ہے‬ ‫تمہاری ماننے والے بھوکے مرے‬ ‫بھوک نے انہیں ہمیشہ سرخرو کیا ہے‬ ‫لوگ ہمیں سلام کرتے ہیں‬ ‫تمہیں نہیں‘ تمہاری شر کو سلام کہتے ہیں‬

‫تاریخ میں دھنوان امر رہا ہے‬ ‫تاریخ پیٹ کے بندوں کا روزنامچہ ہے‬ ‫پیٹ ہی تو سب کچھ ہے‬ ‫تب ہی تو بالا سطع پر رہتے ہو‬ ‫تہہ کے متعلك تم کیا جانو‬ ‫بڑے ڈھیٹ ہو‬ ‫بننا پڑتا ہے‬ ‫تمہیں تمہاری اولات میں لانا پڑے گا‬ ‫کیا کر لو گے؟؟؟‬ ‫تمہاری ہڈی پسلی ایک کر دوں گا‬‫یہ سب تو پہلے بھی میرے ساتھ ہو چکا ہے‬ ‫کوئی نئی ترکیب سوچو‬ ‫تمہیں جلا کر راکھ کر دوں گا‬ ‫عبرت کے لیے‬ ‫تمہاری راکھ گلیوں میں بکھیر دوں گا‬ ‫یہ تو اور بھی اچھا ہو گا‬

‫وہ کیسے؟‬ ‫میری راکھ کا ہر ذرا انملاب بن ابھرے گا‬ ‫اہ مائی گاڈ‘ تو پھر میں کیا کروں؟‬ ‫مجھے اپنے سینے سے لگا لو‬ ‫یہ مجھ سے نہیں ہو گا‬ ‫تو طے یہ ہوا‬ ‫تمہاری اور میری جنگ کا کوئی انت نہیں‬‫دیکھتا ہوں کہاں تک اذیت برداشت کرتے ہو‬ ‫چلو میں بھی دیکھتا ہوں‬ ‫اذیت میں کس حد تک جاتے ہو‬ ‫اس کے بعد‬ ‫گھمسان کی جنگ چھڑ گئی‬ ‫اور آخری خبریں آنے تک‬ ‫جنگ جاری تھی‬

‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا‬ ‫عہد شہاب میں بےحجاب بےکسی بھی عجب لیامت تھی۔ صبح‬‫اٹھتے مشمت اٹھاتےعوضوانے کو ہاتھ بڑھاتے بے نمط سنتے۔‬‫سانسیں اکھڑ جاتیں مہر بہ لب جیتے کہ سانسیں بالی تھیں۔ جینا‬ ‫تو تھا ہی لہو تو پینا تھا ہی۔‬ ‫ادھر ایونوں میں آزادی کی صدائیں گونج رہی تھیں ادھر گلیوں‬ ‫میں خوف کا پہرا تھا کہ شاہ بہرا تھا۔ شاہ والے گلیوں میں‬ ‫بےچنت کرپانیں لیے پھرتے تھے۔ نماہت ہاتھ باندھے شکم میں‬‫بھوک آنکھوں میں پیاس لیے کھڑی تھی ہاں مگر شاہ کی دیا کا‬ ‫بول بالا تھا۔‬ ‫پنڈت کے ہونٹوں پر شانتی بغل میں درانتی ملاں بھی من میں‬ ‫تفریك کا بارود بھرے امن امن امن کیے جا رہا تھا۔‬ ‫اب جب کہ پیری پہ شنی کا پہرا ہے بھوک کا گھاؤ گہرا ہے۔‬ ‫جیب میں دمڑی نہیں امبڑی نہیں کہ وید حکیموں کے دام‬‫چکائے بڑے شفاخانے کے در پر لائے مایوسی کی کالک مٹائے‬

‫آہیں سنے تشفی کی لوری سنائے۔ ہونٹوں پہ گلاب سجائے دل‬ ‫میں کرب اٹھائے اب کون ہے جو مرے مرنے سے مر جائے۔‬ ‫بیٹے کو اپنی پتنی سے فرصت نہیں بیٹی کی ساس کپتی ہے‬ ‫بھائی کے گھر تیل نہ بتی ہے مری بہن کی کون سنتا ہے سیٹھ‬ ‫کے برتن دھو سیٹھنی کے کوسنے سن کر پیٹ بھرتی ہے۔‬ ‫بیگم روتی ہے نہ ہنسی ہے سوچتی ہے کفن دفن کے لیے‬ ‫پیسے کہاں سے آئیں گے کہیں اس کے بھائیوں کی چمڑے نہ‬ ‫ادھڑ جائے وہ تو بہنوئی کی کھاتے تھے جب بھی آتے تھے‬ ‫کچھ ناکچھ لے جاتے تھے۔‬ ‫جیتا ہوں تو مصیبت مرتا ہوں تو مصیبت۔ میں وہ ہی ہوں‬ ‫جواندھیروں میں رہ کر ایونوں کے دیپ جلاتا رہا دوا دور رہی‬ ‫مری گرہ میں تو اس اجڑے گلستان کا کرایہ نہیں۔‬ ‫گھر میں روشنی نہیں ناسہی شاید کوئی فرشتہ مری لحد میں‬ ‫بوند بھر روشنی لے کر آ جائے عمر بھر خود کو نہ دیکھ سکا‬‫سوچ سکا واں سکوں ہو گا خود کو دیکھ سکوں گا سوچ سکوں‬

‫گا خود کو دیکھنے سوچنے کی حسرت بر آئے گی۔‬ ‫خود کو دیکھ کر سوچ کر ارضی خدائی سے مکتی للبی خدا کی‬ ‫بےکراں عظمتوں کا اسرار کھل جائے گا وہ میرا تھا میرا ہے‬‫مجھے مل جائے گا۔ سردست کفن و دفن کے سامان کی فکر ہے۔‬ ‫کفن ملے ناملے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ عمر بھر اس نے‬ ‫مری پردہ پوشی کی ہے اب بھی کرئے گا۔‬ ‫ایونوں میں بستے سفیدی میں لپٹے شیطانوں کا نگر مرا نہیں‬ ‫مرا نہیں گورنگر مرا ہو گا مرا خدا کچھ لیتا نہیں دیتا ہے۔ لینا‬ ‫مری عادت دینا اس کی فطرت روٹی کی فکر کیسی کرائے کی‬ ‫چنتا میں کیوں کروں مری جان میں آ رہا ہوں تو مختصر سہی‬ ‫مرے لیے مری حسرتوں کے لیے سات زمینوں سے بڑھ کر‬‫وسعت رکھتی ہے میں بھول میں رہا کہ یہاں کچھ بھی مرا نہ تھا‬ ‫زیست کے کچھ لمحوں کی دیری تھی تو ہی تو مری تھی‬ ‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا‬ ‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا‬ ‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا۔‬

‫حیرت تو یہ ہے‬ ‫موسم گل ابھی محو کلام تھا کہ‬ ‫مہتاب بادلوں میں جا چھپا‬ ‫اندھیرا چھا گیا‬ ‫پریت پرندہ‬ ‫ہوس کے جنگلوں میں کھو گیا‬ ‫اس کی بینائی کا دیا بجھ گیا‬‫کوئی ذات سے‘ کوئی حالات سے الجھ گیا‬ ‫کیا اپنا ہے‘ کیا بیگانہ‘ یاد میں نہ رہا‬ ‫بادل چھٹنے کو تھے کہ‬ ‫افك لہو اگلنے لگا‬ ‫دو بم ادھر دو ادھر گرے‬

‫پھر تو‬ ‫ہر سو دھواں ہی دھواں تھا‬ ‫چہرے جب دھول میں اٹے تو‬ ‫ظلم کا اندھیر مچ گیا‬‫پھر اک درویش مینار آگہی پر چڑھا‬ ‫کہنے لگا سنو سنو‬ ‫دامن سب سمو لیتا ہے‬ ‫اپنے دامن سے چہرے صاف کرو‬ ‫شاید کہ تم میں سے کوئی‬ ‫ابھی یتیم نہ ہوا ہو‬ ‫یتیمی کا ذوق لٹیا ڈبو دیتا ہے‬ ‫من کے موسم دبوچ لیتا ہے‬ ‫کون سنتا پھٹی پرانی آواز کو‬ ‫حیرت تو یہ ہے‬ ‫موسم گل کا سب کو انتظار ہے‬ ‫گرد سے اپنا دامن بھی بچاتا ہے‬

‫اوروں سے کہے جاتا ہے‬‫چہرہ اپنا صاف کرو‘ چہرہ اپنا صاف کرو‬ ‫میں نے دیکھا‬ ‫پانیوں پر‬ ‫میں اشک لکھنے چلا تھا‬ ‫دیدہءخوں دیکھ کر‬ ‫ہر بوند‬ ‫ہوا کے سفر بر نکل گئی‬ ‫منصف کے پاس گیا‬ ‫شاہ کی مجبوریوں میں‬ ‫وہ جکڑا ہوا تھا‬ ‫سوچا‬ ‫پانیوں کی بےمروتی کا‬

‫فتوی ہی لے لیتا ہوں‬ ‫ملاں شاہ کے دستر خوان پر‬ ‫مدہوش پڑا ہوا تھا‬ ‫دیکھا‘ شیخ کا در کھلا ہوا ہے‬ ‫سوچا‬ ‫شاید یہاں داد رسی کا‬ ‫کوئی سامان ہو جائے گا‬ ‫وہ بچارہ تو‬ ‫پریوں کے غول میں گھرا ہوا تھا‬ ‫کیا کرتا کدھر کو جاتا‬ ‫دل دروازہ کھلا‬ ‫خدا جو میرے لریب تھا‬ ‫بولا‬ ‫کتنے عجیب ہو تم بھی‬ ‫کیا میں کافی نہیں‬‫جو ہوس کے اسیروں کے پاس جاتے ہو‬

‫میرے پاس آؤ‬ ‫ادھر ادھر نہ جاؤ‬ ‫میری آغوش میں‬ ‫تمہارے اشکوں کو پناہ ملے گی‬ ‫ہر بوند‬ ‫رشک لعل فردوس بریں ہو گی‬ ‫اک لظرہ مری آنکھ سے ٹپکا‬ ‫میں نے دیکھا‬ ‫شاہ اور شاہ والوں کی گردن میں‬ ‫بے نصیبی کی زنجیر پڑی ہوئی تھی‬‫کس منہ سے‬ ‫چلم بھرتے ہات‘ اٹھ نہیں سکتے‬ ‫ہونٹوں پر فمیہ عصر نے‬

‫چپ رکھ دی ہے‬ ‫کتنا عظیم تھا وہ شخص‬ ‫گلیوں میں‬ ‫رسولوں کے لفظ بانٹتا رہا‬ ‫ان بولتے لفظوں کو‘ ہم سن نہ سکے‬ ‫آنکھوں سے‘ چن نہ سکے‬‫ہمارے کانوں میں‘ جبر کی پوریں رہیں‬ ‫آنکھوں میں خوف نے پتھر رکھ دیے‬ ‫ہم جانتے ہیں‘ وہ سچا تھا‬ ‫لول کا پکا تھا‬ ‫مرنا تو ہے‘ ہمیں یاد نہ رہا‬ ‫ہم جانتے ہیں اس نے جو کیا‬ ‫ہمارے لیے کیا‬ ‫جیا تو ہمارے لیے جیا‬ ‫کتنا عجیب تھا‬ ‫زندہ لاشوں کا دم بھرتا رہا‬

‫مصلوب ہوا ہم دیکھتے رہے‬ ‫نیزے چڑھا ہم دیکھتے رہے‬ ‫مرا جلا راکھ اڑی ہم دیکھتے رہے‬ ‫اس کے کہے پر دو گام تو چلا ہوتا‬ ‫کس منہ سے اب‬ ‫اس کی راہ دیکھتے ہیں‬ ‫ہم خاموش تماشائی‬‫مظلومیت کا فمط ڈھونگ رچاتے ہیں‬ ‫بے جان جیون کے دامن میں‬ ‫غیرت کہاں جو رن میں اترے‬ ‫یا پھر‬ ‫پس لب اس کی مدح ہی کر سکے‬ ‫چلو دنیا چاری ہی سہی‬ ‫آؤ‬ ‫اندرون لب دعا کریں‬ ‫ان مول سی مدح کہیں‬

‫حیات کے برزخ میں‬ ‫تلاش معنویت کے سب لمحے‬ ‫صدیاں ڈکار گئیں‬ ‫چیتھڑوں میں ملبوس معنویت کا سفر‬ ‫اس کنارے کو چھو نہ سکا‬ ‫تاسف کے دو آنسو‬ ‫کاسہءمحرومی کا ممدر نہ بن سکے‬ ‫کیا ہو پاتا کہ شب کشف‬ ‫دو رانوں کی مشمت میں کٹ گئی‬ ‫صبح دھیان‬ ‫نان نارسا کی نذر ہوئی‬ ‫شاعر کا کہا‬ ‫بےحواسی کا ہم نوا ہوا‬

‫دفتر رفتہ شاہ کے گیت گاتا رہا‬ ‫وسیبی حکائتیں بےولار ہوئیں‬ ‫لرطاس فکر پہ نہ چڑھ سکیں‬ ‫گویا روایت کا جنازہ اٹھ گیا‬ ‫ضمیر بھی چاندی میں تل گیا‬ ‫مجذوب کے خواب میں گرہ پڑی‬ ‫مکیش کے نغموں سے طبلہ پھسل گیا‬ ‫درویش کے حواس بیدار نمطے‬ ‫ترلی کا ڈرم نگل گیا‬ ‫نہ مشرق رہا نہ مغرب اپنا بنا‬ ‫آخر کب تک یتیم جیون‬ ‫حیات کے برزخ میں‬ ‫شناخت کے لیے بھٹکتا رہے‬‫سورج دوزخی ہو گیا تھا‬

‫گدھ‬‫خلیج کے بیماروں کی سانسیں گن رہے ہیں‬ ‫لاشوں کو کفن دفن‬ ‫غسل کی ضرورت نہیں ہو گی‬ ‫اگست ‪ ١٩٤٥‬کو ‪١٦‬‬ ‫سورج دوزخی ہو گیا تھا‬ ‫گنگا سے اٹھتے بخارات‬ ‫دعا کا اٹھتے ہات‬ ‫گلاب کی مہک‬ ‫مٹی سے رشتے‬ ‫کب پوتر رہے ہیں‬ ‫درگاوتی کی عصمت مرنے کے بعد‬ ‫اپنوں کے ہات لٹ گئی تھی‬ ‫‘ہم تو‬ ‫حنوط شدہ ممیاں ہیں‬

‫رگوں میں لہو نہیں‬ ‫کیمیکل دوڑتا ہے کہ‬ ‫آکسیجن جلتی نہیں‬ ‫جلنے میں معاون ہے‬ ‫ڈوبتی سانسوں کو‬ ‫مسیحا کی ضرورت نہیں‬ ‫گوشت گدھ کھائیں گے‬ ‫‘ہڈیاں‬ ‫فاسفورس کی کانیں ہیں‬‫یہودی لابی کے گلے کھلے ہیں‬ ‫بٹنوں کی سخت ضرورت ہے‬‫فیکٹری کا دھواں‬ ‫اس نے کہا‬

‫یہ سب کس کے لیے لکھتے ہو‬ ‫میں نے کہا‬ ‫تمہارے لیے‬ ‫بولا‬ ‫مگر مجھے تم سے گھن آتی ہے‬‫میلے میلے لفظوں میلے میلے جذبوں سے‬ ‫روشنیوں کی بات کرو‬ ‫حسن کی کہو‬ ‫حسین آنکھوں سے‬ ‫ٹپکتی شاب کی بات کرو‬ ‫کانچ سے بدنوں سے‬ ‫ٹپکتے رومان کی بات کرو‬ ‫بہاروں میں مچلتے شباب کی بات کرو‬ ‫روٹی ملے گی‘ شہرت ملے گی‬ ‫بھوک اور افلاس‬ ‫کیا رکھا ہے چیٹھڑوں کی دنیا میں‬

‫سوچتا ہوں‬ ‫شہرت لے لوں‬ ‫روٹی لے لوں‬ ‫کئی روز کی بھوک ہے‬ ‫لباس بھی الجھا الجھا ہے‬ ‫سسکتے بلکتے جذبوں کو‬ ‫بےلباسی کی دنیا میں رہنے دوں‬ ‫پھر سوچ کے افك سے‬ ‫اک شہاب ثالب ٹوٹا‬ ‫زہریلی سوچ کا چہرا‬ ‫فیکٹری کی چمنی سے‬ ‫اٹھتے دھویں میں مدغم ہو گیا‬‫مطلع رہیں‬

‫مسز ریحانہ کوثر‬ ‫بلا دکھ تحریر کیا جاتا ہے‬ ‫آپ کی خدمات کی اب یہاں‬ ‫ضرورت نہیں رہی‬‫آپ کی بریزئر کا سائز بڑھ گیا ہے‬ ‫آنکھوں کے گرد حلمے بھی ہیں‬ ‫بالوں میں چاندی آ گئی ہے‬ ‫رخسار پچک گئے ہیں‬ ‫روزن نشاط کی فراخی سے‬ ‫پرفومنس گھٹ گئی ہے‬ ‫سابمہ کارگزاری کے پیش نظر‬ ‫کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے‬ ‫آپ کی بیٹی ظل ہما کو‬ ‫آپ کی سیٹ پر‬ ‫آپ کے ہی پے سکیل پر‬ ‫مع مروجہ الاؤنسز‬

‫اکتیس مئی کلوزنگ ٹائم تک‬ ‫تعینات کیا جا سکتا ہے‬ ‫آپ کو ہدایت کی جاتی ہے‬ ‫تاریخ ممررہ کے اندر‬ ‫زیر دستخطی کو مطلع کریں‬‫اپنے واجبات کی وصولی کے لیے‬ ‫زیر دستخطی کے‬ ‫حاضر ہونے کی ضرورت نہیں‬ ‫یہ خدمت اب‬ ‫آفس سپرٹنڈنٹ انجام دیتا ہے‬ ‫فائلوں کی سیاہی سپیدی کا‬ ‫وہ ہی تو مالک ہے‬ ‫مطلع رہیں‬ ‫ضروری نوت‬ ‫آپ اپنی کنگی اور نیل پالش‬ ‫ہمارے میز پر کل کی امید میں‬

‫بھول گئی ہیں‬ ‫یہ چیزیں‬ ‫جن کی آپ کو اشد ضرورت ہو گی‬ ‫مس ظل ہما کو‬ ‫آفس ٹائم کے بعد بھیج کر‬ ‫منگوا سکتی ہیں‬ ‫کہ ان کی اب یاں ضرورت نہیں رہی‬ ‫مطلع رہیں‬ ‫امید ہی تو زندگی ہے‬ ‫زکرا بولے جا رہی تھی‬ ‫مسلسل بولے جا رہی تھی‬‫شاید آتی صدیوں کے غم مٹا رہی تھی‬ ‫خوب گرجی خوب برسی‬

‫اس کے گرجنے میں دھواں‬ ‫برسنے ٰمیں مسلا دھار تھی‬ ‫رانی توپ کے گرجنے سے‬ ‫حمل گر جاتے تھے‬ ‫برسنے سے‬ ‫بستیاں زمین بوس ہوتی تھیں‬ ‫اس کے برسنے سے‬‫سکون کے شہر آگ پکڑتے تھے‬ ‫گرجنے سے حواس‬ ‫بدحواس ہوتے تھے‬ ‫کس سے گلہ کرتا‬ ‫جھورا مردود مر چکا تھا‬ ‫تھیلا مردود آج بھی‬ ‫رشوت ڈکارتا ہے‬ ‫وہ چپ تھا‬ ‫مسلسل چپ تھا‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook