ممصود حسنی کے تیس منظوم افسانے پیش کار :پروفیسر ہونس حسن ابوزر برلی کتب خانہ اکتوبر ٢٠١٦
فہرست شاعر اور غزل ١- ٹیکسالی کے شیشہ میں ٢- کالے سویرے ٣- کیچڑ کا کن ٤- دو لممے ٥- آخری خبریں آنے تک ٦- یہ ہی فیصلہ ہوا تھا ٧- حیرت تو یہ ہے ٨- میں نے دیکھا ٩- کس منہ سے ١٠- حیات کے برزخ میں ١١-سورج دوزخی ہو گیا تھا ١٢- فیکٹری کا دھواں ١٣- مطلع رہیں ١٤-
امید ہی تو زندگی ہے ١٥- میٹھی گولی ١٦- دو بیلوں کی مرضی ہے ١٧- ذات کے لیدی ١٨- چل' محمد کے در پر چل ١٩-عطائیں اللہ کی کب بخیل ہیں ٢٠- کرپانی فتوی ٢١- ممدر ٢٢- دو بانٹ ٢٣- دو حرفی ٢٤- سوچ کے گھروندوں میں ٢٥- کیا یہ کافی نہیں ٢٦- اندھیر مچی دیکھیے ٢٧- یادوں کی دودھ ندیا ٢٨- باؤ بہشتی ٢٩- کوئی کیا جانے ٣٠-
شاعر اور غزلچاند کی کرنوں سے غزل کی بھیک مانگی اس نے کاسے میں دو بوندیں نچوڑ دیں کہ غزل آنکھوں کی ٹھنڈک ہو جائے سیپ نے مروارید دیئے کہ دل اس کا پرسکون ہو جائے لوس لزح نے سرخی بخشی کہ رخ مثل یالوت ہو جائے طبلے کی تھاپ نے گھنگھرو کی جھنکار نے مایوس نہیں کیا
نسیم سحر سے بھی دست سوال دراز کیا لبروں کے کتبوں سے بھی غزل کی بھیک مانگ کے لایا سورج سے تھوڑی حدت مانگ لی سیماب سے بےلراری لے لی لہر نے بغاوت دے دی گلاب کے پاس بھی گیا اس نے کاسے کو بوسہ دیا اور اپنی اک پنکھڑی رکھ دی خوش تھا کہ آج محنت رنگ لائے گی وہ مری ہو جائے گی دامن مرا خوشیوں سے بھر جائے گا غزل کے چہرے پر حسین سا عنوان لکھ دے گی خلوص کی طشتری میں رکھ کر
جب غزل میں نے پیش کی جسارت پہ مری وہ بپھر گئی ضبط کی پٹڑی سے اتر گئی کاسے میں تھوک دیا بولیبھکاری! اپنا خون جگر نچوڑ کے لاؤ غزل سے زندگی کی خوش بو آئے راحتوں کے لیے لہو کی اک بوند کافی ہے پھر اس نے چھاتی سے جدا کرکے اپنی بچی مری گود میں رکھ دی ممتا کی باہوں میں غزل تھی ممتا کی نگاہوں میں غزل تھی بچی کے لبوں پر بچی کی انگلیوں میں
بچی کی سانسوں میں مگر بچی تو سراپا غزل تھی میں مشاہدے میں ہی تھا کہ اس نے بچی مجھ سے لے لیمری آغوش میں شرمندگی رکھ دی درماندگی رکھ دی اپنی اور مانگے کی چیز میں کتنا فرق ہوتا ہے وہ لائك صد افتخار تھی پرولار تھی میں تنکے سے بھی حمیر تھا اس کا سر تنا ہوا تھا مرا سر جھکا ہوا تھا کہ غزل کے چہرے پر بھیک کا پیوند لگا ہوا تھا غزل کا بدن زیر عتاب تھا
میں بھی تو ہار گیا تھامری شاعری کی کائنات پر رعشہ تھا وہ مسکرا رہی تھی غزل سٹپٹا رہی تھی اجتہاد کا در وا ہوا روایت کا دیا بجھ گیا حمیمیت سےپردہ اٹھ گیا شاعر نہیں‘ میں تو بھکاری تھا خورشید ضعیف ہو گیا مہتاب زرد پڑ گیا گلاب مرجھا گیا طبلے کا پول کھل گیا جھنکار تھم گئی سمندر ندامت پی گئی کاسہ دو لخت ہوا جو جس کا تھا لے گیا
ابلیس کرچیاں چننے لگا بھکاری مر گیا لبروں کو اپنا دیا مل گیا پھر شاعر جاگا ذات میں کھو گیا خامشی چھا گئی ذات میں انملاب آ گیا اندر کا لاوا ابلنے لگا حد سے گزرنے لگاابلیس کے لہمہوں کا سلسلہ رک گیا اب ذات تھی شاعر تھا آنکھوں میں لہو کی بوندیں ہاتھ میں للم کاغذ پر جگر تھا
» بروز :آج بولت 11:48:49صبح « مکرمی ومحترمی ڈاکٹعر حسنی صاحب:سلام علیکم آپ نے اپنی آزاد نظم میں جتنے خوبصورت جذبات کا اظہار کیا ہے وہ دل کو چھولیتے ہیں اور لاری کوسوچنے پر مجبورکرتے ہیں۔ میں آزاد نظم سے بہت کم والف ہوں اورعام طور پرانہیں پڑھنے سے احتراز کرتی ہوں۔لیکن آپ کی پچھلی تحریریں دیکھ چکی ہوں ہرچند کہ ان پرخیال آرائی نہیں کی کہ خودکواس لابل نہیں سمجھتی ہوں۔ آپ کی اس آزاد نظم کو دیکھ کر دل بہت خوش ہوا۔ میں کیا اور میری داد کیا۔ بہرحال ناچیز داد کے ساتھ شکریہ پیش خدمت ہے۔اجازت ہو تو اتنا کہنا چاہوں گی کہ یہ نظم اپنی طوالت کی بنا پر اکتا دینے والی ہو گئی ہے۔ لاری پڑھتے پڑھتے اوب جاتا ہے اور نظم کا بنیادی خیال اس کی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ مجھ کو سمجھنے اور مزا لینے کے لئے نظم متعدد بار پڑھناپڑی۔ گستاخی کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ اگر آپ اس پر نظرثانی کر کے اسے مختصر کردیں تو اس کا تاثربہت بڑھ سکتا ہے۔ دعائے خیر کی آپ سے طالب ہوں۔ مہر افروز
شکریہ جناب ابتدا میں پابند شاعری کرتا تھا پھر افسانے کی طرف آ گیا۔ منظوم افسانہ راتیں تھیں چاندنی جوبن پہ تھی بہار حبیب ولی محمد کی آواز میں سننے کا اتفاق ہو گیا۔ بس پھر کیا تھا اس طور کے پچیس تیس افسانے لکھ مارے لیکن یہ باتبہت پہلے کی ہے۔ کچھ تو آپ کو یہاں بھی پڑھنے کو مل جائیں گے۔ ادب میں شاید یہ ایک نئی طرح ہے معلوم نہیں آتا کل اس کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔ آپ نے توجہ فرمائی احسان مند ہوں۔ اللہ آپ کو خوش رکھے۔ ممصود حسنی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10358.0 ٹیکسالی کے شیشہ میں
معصوم گڑیا سیزیست کے نشیب و فراز سے بے خبر کہکشانی رستوں کی تلاش میں مشک و عنبر کی جہاں باس ہو ہوا جس کی مگر اسے راس ہوپریوں کے شہزادے کا میسر ساتھ ہو گھر سے بھاگ نکلی آنکھوں میں اس کے روشی تھی سراپے کا تاج محل کلیوں سے تعمیر ہوا تھا ہر دل سے درد اٹھا مونس و غم گسار بن گیا وہ کیا جانے اس نگر میں بھنورے بھی رہتے ہیں بھیڑیے تاک میں ہیں
اک روز پھر اخبار میں خبر چھپی مطلع ہوںاک لڑکی کے اعضاء بکھر گیے تھے گندے گٹر میں پڑے تھے ہر ٹکڑا زخموں سے چور تھا اور خون بھی بہہ رہا تھا گندے پانی کی ٹھوکریں سہہ رہا تھا کہہ رہا تھا شاید میرا کوئی بچ رہا ہو یہ بکھرے اعضاء بڑی حفاظت سے کڑی ریاضت سے جوڑ کر‘ سی کر دارالان بھیج دیے ہیں دارالامان سے رابطہ کریں خوبی لسمت دیکھیے ٹیکسالی کے باسی لدر شناس نکلے
آج بھی وہ اعضاء ٹیکسالی کے شیشہ میں سجے ہیں کہ ان کا کوئی مستمبل نہیں ماضی کہیں کھو گیا ہے حال متعین نہیں ہوا کہ اب ان پر سب کا حك ہےکالے سویرے مجھے ڈر لگتا ہے علم و فن کے کالے سویروں سے جن کے بطن سے ہوس کے ناگ جنم لیتے ہیں منصف کے من کی آواز کو جو ڈس لیتے ہیں
سہاگن کے سہاگ کی پیاسی آتما سے ہوس کی آگ بجھاتے ہیں سچ کے موسموں کے چراغوں کی روشنی دھندلا دھندلا دیتے ہیں حمیمتوں کا ہم زاد گھبرا کر ویران اور اداس لفظوں کا آس سے جو خود فریبی کے جھولے میں پڑی فرار کے رستے سوچ رہی ہے رستہ پوچھتا ہےان زہریلے ناگوں کی آنکھوں کی ممناطیسیت اپنے حصار میں اسے بھی لے لیتی ہے یہ ناگ انا اور اساس کو بھی ڈستے ہیں
یہ خونی منظر دیکھ کر کانپ جاتا ہوں کہ یہ اب ضمیر کو بھی ڈس لیں گے کالے سویروں کی زرد روشنی کے سائے جوں جوں دراز ہوتے ہیںزندگی کو اک اور کربلا سے گزرنا پڑتا ہے ان ناگوں کی زبانیں چمکتی‘ زہر میں بجھی تیز دھار تلواریں ہیں گھاؤ کرنے میں یہ اپنا جواب نہیں رکھتیں زندگی خوف کے سائے میں کیوں کر پروان چڑھ سکتی ہے جہاں کوئی روٹی دینے والا نہیں پانی کی اک بوند نایاب ہے جہاں خودکشی حرام جینا جرم ہے جہاں نیلے آسمان کی
چاند ستاروں سے لبریز چھت اپنی نہیں ہوا کا بھی گزر نہیں ہوتا بدلتے موسوں کا تصور شیخ چلی کا خواب ہے بوسیدگی اور غلاظت شخص کا ممدر ہے یا پھر زہر بجھی یہ چمکتی تلواریں ہیں یمین مانو‘ یہ ہی کچھ ہے پھر میںیاس کی تاریکیوں کی تمنا کرتا ہوں جانت ہوں کہ یہ ناگ تاریکیوں سے نہیں گھبرائیں گے پھر بھی کاٹیں گے گدھ نوچیں گے
کتے ہڈیوں پر ٹوٹیں گے ہر ہڈی پر گھمسان کا رن ہو گا اپنا حصہ لگڑ بگڑ بھی مانگیں گے فاسفورس کی بانٹ ًپر بھی تنازعے اٹھیں گے درد پھر بھی ہو گا کرب پھر بھی ہو گا زہر پھر بھی پھیلے گا کانچ بدن پھر بھی نیلا ہو گامایوسی کی سیاہ ذلفوں کے سائے میں بصارت کو بصیرت کو شائد پناہ مل جائے گیمیں ناگوں کے پہرے نہ دیکھ سکوں گا لہو رستے پر نظر نہ جائے گی مگر کیا کروں
سچ کی حسین تمنا مجھے مرنے نہیں مرنے نہیں دے گی اور میں اس سراب جیون میں نہ مروں گا نہ جی سکوں گاکیچڑ کا کنول آلودہ‘ میلا سا چیتھڑا شاید حاجت سے بچا ہوگا ‘آدم زادے کا پراہین !عییب نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔؟ گلاب سے چہرے پر بلور ایسی‘ دیکھتی آنکھیں حیرت خوف غم غصہ اورافسوس
جانے کیا کچھ تھا ان میں سماج کی بےحسی پہ ان ٹھہری مگر دیکھتی آنکھوں میں دو بوند‘ لہو سی صدیوں کے ظلم کی داستان لیے ہوئے تھیں اتنی حدت اتنی اتنی تپش کہ پتھر بھی پگھل کر پانی ہو ترسی ترسی باہیںمیرے بوبی کی باہیں ایسی ہی تھیں کہ جب وہ بچہ تھا تب محبتوں کا حصار تھا اور اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خفت ندامت کا حصار مرے گرد ہے لمحہ بہ لمحہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دائرہ تنگ ہو رہا ہے مجھے فنکار سے نسبت ہے فنکار‘ سب کا دردسینے کی وسعتوں میں سمو لیتا ہے ‘اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساکت وجامد مٹی کے بت کی طرح خاموش تماشائی تھا اس نے پکارا آواز دی احتجاج بھی کیا کچھ نہ میں کر سکا ‘جیسے وہ آدم زادہ نہ ہو ہمالہ سے گرا کوئ پتھر ہو :اس نے کہا !فنکار۔۔۔۔۔۔۔“
مجھے اپنی باہوں میں سما لو \"ازل سے پیاسا ہوں گھبرا کر تھوڑا سا )پستیوں کی جانب) پیچھے سرکا کوئی مصیبت کوئی وبال تہمت یا بدنامی سر نہ آئے چیخا “فنکار کا سینہ !کب سے تنگ ہوا ہے؟میری باہیں غیر جنس کی باہیں ہیں؟ ان کا تم پر کوئی حك نہیں؟؟؟ وہ کہتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں سنتا رہا کیا جواب تھا میرے پاس !کاشمیرے شعور کی آنکھیں بند ہو جاتیں یوں جیسے ممتا کی سماج کی
آنکھیں بند تھیں سوچتا ہوں‘ مجرم کون ہے ‘گناہ کس نے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ ماں یا سماج نے وہ تو اپنے گھروں میں آسودہ سانسوں کے ساتھ گرم کافی پی رہے ہوں گے یا میں نے جو شب کی بھیانک تنہائ میں ندامت سے سگریٹ کے دھوئیں میں تحلیل ہو رہا ہوں گٹرکے لریب پڑا‘ وہ کنول مجھ سے میرے ضمیر سے انصاف طلب کر رہا ہےکہ تم‘ خدائے عزوجل کی تخلك کا
یہ حشر کرتے ہو مجھے حرامی کہتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ بتاؤ‘ حامی کون ہے؟ ضمیر کس کا مردہ ہے؟ مجرم کون ہے؟ میں یا تم؟؟؟ !میری بستی کے باسیوکہ تمہیں عظیم مخلوق ہونے کا دعوی ہے کیا جواب دوں اسے؟ اس کا ننھا سا معصوم چہرا احتجاج سے لبریزآنکھیں پنکھڑی سے ہونٹوں پر تھرکتی بےصدا سسکیاں مجھے پاگل کر دیں گی پاگل ہاں پاگل
اوٹ سے‘ ١٩٩٣ نوٹ :کیچڑ کا کنول پر ایم فل سطع کی اسائنمنٹ بھی ہوئی۔ دو لممے تعفن میں اٹی ‘اندھیاروں میں لیپٹی وہ بستی جہاں چھیتڑوں میں ملفوف زندہ لاشوں کے دل کی دھڑکنیں دیوار پر آویزاں کلاک کی ٹک ٹک کی آوازیں تھیں۔ ‘بھوک کی اہیں بےبسی کی سسکیوں میں مدغم ہو رہی تھیں۔ آس کا سایہ آس پاس نہ تھا۔ تھا کچھ تو لاتل خاموشی تھی۔ بھوک کا ناگ پھن پھیلائے بیٹھا تھا۔ مایوسیوں کی اس بستی سے رحم کا دیوتا شاید خفا تھا یا پھر وہ بھی تہی دست تہی دامن ہو گیا تھا۔اک مسکراہٹ کے طلبگار یہ لاشے بے حس نہیں‘ بے بس تھے۔
پھر اک لاشہ بھوک ناگ جس کے لریب تر تھا۔۔۔۔۔۔ تڑپا اوررینگ کر روشنی کی شہراہ پر آ گیا۔ اس حرکت میں اس نے اپنی ساری توانائی صرف کر دی۔ ہر سو اجالے تھے لیکن وہ بھوککے سیاہ کفن میں ملبوس تھا۔۔۔۔۔۔۔۔پھر بھی۔۔۔۔۔۔۔ ہاں پھر‘ بھی وہ زندہ تھا اور اجالوں کی شہراہ پر پڑا ہانپ رہا تھا۔ سانسیں بےترتیب تھیں۔ خوش پوش راہی شاید اسے دیکھ نہیں رہےتھے۔ جو دیکھ رہے تھے ناک پر رومال رکھ کر گزر رہے تھے۔ وہ سب اس کے ہم جنس تھے۔ کتنی آس لے کر وہ یہاں تک آیا تھا۔ ان دیکھتے کرب لمحوں کو کون جان پاتا۔ وہ اس بستی کا نہ تھا۔بھوک ناگ بولا :کہاں تک بھاگو گے‘ تمہیں میرا لممہ بننا ہی ہو گا کہ خود میں بھوکا ہوں۔ پھر وہ تھوڑا آگے بڑھا۔لاشہ چلایا :نہیں۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔ رکو۔۔۔۔۔ٹھہرو۔۔۔۔۔۔ روٹی ضرور آئے گی۔ سب بےکار۔۔۔۔۔روٹی کوئی نہیں دے گا۔۔۔۔۔۔ یہ پیٹ بھر کر بھی آنکھوں میں بھوک لیے پھرتے ہیں۔ ان میں سے کون دے گا روٹی۔ ان کے ہشاش بشاش چہروں پر نہ جاؤ۔ ان کے من کی بھوک کو دیکھو اور میرے صبر کا امتحان نہ لو۔ :لاشہ سٹپٹایا اور چلایا
!اجالوں کے باسیو !علم و فن کے دعوےدارو !سیاست میں شرافت کے مدعیو !جمہوریت کے علم بردارو !اسلحہ خرید کرنے والو !فلاحی اداروں کے نمبردارو ‘عالمی وڈیرو ‘کہاں ہو تم سب تمہارے وعدے اور دعوے کیا ہوئے؟اپنی بھوک سے دو لممے میرے لیے بچا لو۔ بھوک ناگ میرے لریب آ گیا ہے۔ دیکھو غور کرو‘ میں تمہارا ہم جنس ہوں ‘۔ دو لممے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں فمط دو لممے میری زندگی کے ضامن ہیں۔ ایف سولہ ہائیڈروجن بم مجھے نہیں چاہیے۔ میری ضرورت روٹی کے دو لممے ہیں۔ اس دور کی یہ تمہاری بہت بڑی جیت ہو گی جو تاریخ میں
تمہیں امر کر دے گی۔ آخری خبریں آنے تک کون انصاف تمہارا یہاں کیا کامجہاں میری ضرورت ہوتی ہے بن بلائے چلا آتا ہوں بن بلائے کی اولات سمجھتے ہو جی ہاں اولات عمل سے بنتی ہے تمہاری ماننے والے بھوکے مرے بھوک نے انہیں ہمیشہ سرخرو کیا ہے لوگ ہمیں سلام کرتے ہیں تمہیں نہیں‘ تمہاری شر کو سلام کہتے ہیں
تاریخ میں دھنوان امر رہا ہے تاریخ پیٹ کے بندوں کا روزنامچہ ہے پیٹ ہی تو سب کچھ ہے تب ہی تو بالا سطع پر رہتے ہو تہہ کے متعلك تم کیا جانو بڑے ڈھیٹ ہو بننا پڑتا ہے تمہیں تمہاری اولات میں لانا پڑے گا کیا کر لو گے؟؟؟ تمہاری ہڈی پسلی ایک کر دوں گایہ سب تو پہلے بھی میرے ساتھ ہو چکا ہے کوئی نئی ترکیب سوچو تمہیں جلا کر راکھ کر دوں گا عبرت کے لیے تمہاری راکھ گلیوں میں بکھیر دوں گا یہ تو اور بھی اچھا ہو گا
وہ کیسے؟ میری راکھ کا ہر ذرا انملاب بن ابھرے گا اہ مائی گاڈ‘ تو پھر میں کیا کروں؟ مجھے اپنے سینے سے لگا لو یہ مجھ سے نہیں ہو گا تو طے یہ ہوا تمہاری اور میری جنگ کا کوئی انت نہیںدیکھتا ہوں کہاں تک اذیت برداشت کرتے ہو چلو میں بھی دیکھتا ہوں اذیت میں کس حد تک جاتے ہو اس کے بعد گھمسان کی جنگ چھڑ گئی اور آخری خبریں آنے تک جنگ جاری تھی
یہ ہی فیصلہ ہوا تھا عہد شہاب میں بےحجاب بےکسی بھی عجب لیامت تھی۔ صبحاٹھتے مشمت اٹھاتےعوضوانے کو ہاتھ بڑھاتے بے نمط سنتے۔سانسیں اکھڑ جاتیں مہر بہ لب جیتے کہ سانسیں بالی تھیں۔ جینا تو تھا ہی لہو تو پینا تھا ہی۔ ادھر ایونوں میں آزادی کی صدائیں گونج رہی تھیں ادھر گلیوں میں خوف کا پہرا تھا کہ شاہ بہرا تھا۔ شاہ والے گلیوں میں بےچنت کرپانیں لیے پھرتے تھے۔ نماہت ہاتھ باندھے شکم میںبھوک آنکھوں میں پیاس لیے کھڑی تھی ہاں مگر شاہ کی دیا کا بول بالا تھا۔ پنڈت کے ہونٹوں پر شانتی بغل میں درانتی ملاں بھی من میں تفریك کا بارود بھرے امن امن امن کیے جا رہا تھا۔ اب جب کہ پیری پہ شنی کا پہرا ہے بھوک کا گھاؤ گہرا ہے۔ جیب میں دمڑی نہیں امبڑی نہیں کہ وید حکیموں کے دامچکائے بڑے شفاخانے کے در پر لائے مایوسی کی کالک مٹائے
آہیں سنے تشفی کی لوری سنائے۔ ہونٹوں پہ گلاب سجائے دل میں کرب اٹھائے اب کون ہے جو مرے مرنے سے مر جائے۔ بیٹے کو اپنی پتنی سے فرصت نہیں بیٹی کی ساس کپتی ہے بھائی کے گھر تیل نہ بتی ہے مری بہن کی کون سنتا ہے سیٹھ کے برتن دھو سیٹھنی کے کوسنے سن کر پیٹ بھرتی ہے۔ بیگم روتی ہے نہ ہنسی ہے سوچتی ہے کفن دفن کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے کہیں اس کے بھائیوں کی چمڑے نہ ادھڑ جائے وہ تو بہنوئی کی کھاتے تھے جب بھی آتے تھے کچھ ناکچھ لے جاتے تھے۔ جیتا ہوں تو مصیبت مرتا ہوں تو مصیبت۔ میں وہ ہی ہوں جواندھیروں میں رہ کر ایونوں کے دیپ جلاتا رہا دوا دور رہی مری گرہ میں تو اس اجڑے گلستان کا کرایہ نہیں۔ گھر میں روشنی نہیں ناسہی شاید کوئی فرشتہ مری لحد میں بوند بھر روشنی لے کر آ جائے عمر بھر خود کو نہ دیکھ سکاسوچ سکا واں سکوں ہو گا خود کو دیکھ سکوں گا سوچ سکوں
گا خود کو دیکھنے سوچنے کی حسرت بر آئے گی۔ خود کو دیکھ کر سوچ کر ارضی خدائی سے مکتی للبی خدا کی بےکراں عظمتوں کا اسرار کھل جائے گا وہ میرا تھا میرا ہےمجھے مل جائے گا۔ سردست کفن و دفن کے سامان کی فکر ہے۔ کفن ملے ناملے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ عمر بھر اس نے مری پردہ پوشی کی ہے اب بھی کرئے گا۔ ایونوں میں بستے سفیدی میں لپٹے شیطانوں کا نگر مرا نہیں مرا نہیں گورنگر مرا ہو گا مرا خدا کچھ لیتا نہیں دیتا ہے۔ لینا مری عادت دینا اس کی فطرت روٹی کی فکر کیسی کرائے کی چنتا میں کیوں کروں مری جان میں آ رہا ہوں تو مختصر سہی مرے لیے مری حسرتوں کے لیے سات زمینوں سے بڑھ کروسعت رکھتی ہے میں بھول میں رہا کہ یہاں کچھ بھی مرا نہ تھا زیست کے کچھ لمحوں کی دیری تھی تو ہی تو مری تھی یہ ہی فیصلہ ہوا تھا یہ ہی فیصلہ ہوا تھا یہ ہی فیصلہ ہوا تھا۔
حیرت تو یہ ہے موسم گل ابھی محو کلام تھا کہ مہتاب بادلوں میں جا چھپا اندھیرا چھا گیا پریت پرندہ ہوس کے جنگلوں میں کھو گیا اس کی بینائی کا دیا بجھ گیاکوئی ذات سے‘ کوئی حالات سے الجھ گیا کیا اپنا ہے‘ کیا بیگانہ‘ یاد میں نہ رہا بادل چھٹنے کو تھے کہ افك لہو اگلنے لگا دو بم ادھر دو ادھر گرے
پھر تو ہر سو دھواں ہی دھواں تھا چہرے جب دھول میں اٹے تو ظلم کا اندھیر مچ گیاپھر اک درویش مینار آگہی پر چڑھا کہنے لگا سنو سنو دامن سب سمو لیتا ہے اپنے دامن سے چہرے صاف کرو شاید کہ تم میں سے کوئی ابھی یتیم نہ ہوا ہو یتیمی کا ذوق لٹیا ڈبو دیتا ہے من کے موسم دبوچ لیتا ہے کون سنتا پھٹی پرانی آواز کو حیرت تو یہ ہے موسم گل کا سب کو انتظار ہے گرد سے اپنا دامن بھی بچاتا ہے
اوروں سے کہے جاتا ہےچہرہ اپنا صاف کرو‘ چہرہ اپنا صاف کرو میں نے دیکھا پانیوں پر میں اشک لکھنے چلا تھا دیدہءخوں دیکھ کر ہر بوند ہوا کے سفر بر نکل گئی منصف کے پاس گیا شاہ کی مجبوریوں میں وہ جکڑا ہوا تھا سوچا پانیوں کی بےمروتی کا
فتوی ہی لے لیتا ہوں ملاں شاہ کے دستر خوان پر مدہوش پڑا ہوا تھا دیکھا‘ شیخ کا در کھلا ہوا ہے سوچا شاید یہاں داد رسی کا کوئی سامان ہو جائے گا وہ بچارہ تو پریوں کے غول میں گھرا ہوا تھا کیا کرتا کدھر کو جاتا دل دروازہ کھلا خدا جو میرے لریب تھا بولا کتنے عجیب ہو تم بھی کیا میں کافی نہیںجو ہوس کے اسیروں کے پاس جاتے ہو
میرے پاس آؤ ادھر ادھر نہ جاؤ میری آغوش میں تمہارے اشکوں کو پناہ ملے گی ہر بوند رشک لعل فردوس بریں ہو گی اک لظرہ مری آنکھ سے ٹپکا میں نے دیکھا شاہ اور شاہ والوں کی گردن میں بے نصیبی کی زنجیر پڑی ہوئی تھیکس منہ سے چلم بھرتے ہات‘ اٹھ نہیں سکتے ہونٹوں پر فمیہ عصر نے
چپ رکھ دی ہے کتنا عظیم تھا وہ شخص گلیوں میں رسولوں کے لفظ بانٹتا رہا ان بولتے لفظوں کو‘ ہم سن نہ سکے آنکھوں سے‘ چن نہ سکےہمارے کانوں میں‘ جبر کی پوریں رہیں آنکھوں میں خوف نے پتھر رکھ دیے ہم جانتے ہیں‘ وہ سچا تھا لول کا پکا تھا مرنا تو ہے‘ ہمیں یاد نہ رہا ہم جانتے ہیں اس نے جو کیا ہمارے لیے کیا جیا تو ہمارے لیے جیا کتنا عجیب تھا زندہ لاشوں کا دم بھرتا رہا
مصلوب ہوا ہم دیکھتے رہے نیزے چڑھا ہم دیکھتے رہے مرا جلا راکھ اڑی ہم دیکھتے رہے اس کے کہے پر دو گام تو چلا ہوتا کس منہ سے اب اس کی راہ دیکھتے ہیں ہم خاموش تماشائیمظلومیت کا فمط ڈھونگ رچاتے ہیں بے جان جیون کے دامن میں غیرت کہاں جو رن میں اترے یا پھر پس لب اس کی مدح ہی کر سکے چلو دنیا چاری ہی سہی آؤ اندرون لب دعا کریں ان مول سی مدح کہیں
حیات کے برزخ میں تلاش معنویت کے سب لمحے صدیاں ڈکار گئیں چیتھڑوں میں ملبوس معنویت کا سفر اس کنارے کو چھو نہ سکا تاسف کے دو آنسو کاسہءمحرومی کا ممدر نہ بن سکے کیا ہو پاتا کہ شب کشف دو رانوں کی مشمت میں کٹ گئی صبح دھیان نان نارسا کی نذر ہوئی شاعر کا کہا بےحواسی کا ہم نوا ہوا
دفتر رفتہ شاہ کے گیت گاتا رہا وسیبی حکائتیں بےولار ہوئیں لرطاس فکر پہ نہ چڑھ سکیں گویا روایت کا جنازہ اٹھ گیا ضمیر بھی چاندی میں تل گیا مجذوب کے خواب میں گرہ پڑی مکیش کے نغموں سے طبلہ پھسل گیا درویش کے حواس بیدار نمطے ترلی کا ڈرم نگل گیا نہ مشرق رہا نہ مغرب اپنا بنا آخر کب تک یتیم جیون حیات کے برزخ میں شناخت کے لیے بھٹکتا رہےسورج دوزخی ہو گیا تھا
گدھخلیج کے بیماروں کی سانسیں گن رہے ہیں لاشوں کو کفن دفن غسل کی ضرورت نہیں ہو گی اگست ١٩٤٥کو ١٦ سورج دوزخی ہو گیا تھا گنگا سے اٹھتے بخارات دعا کا اٹھتے ہات گلاب کی مہک مٹی سے رشتے کب پوتر رہے ہیں درگاوتی کی عصمت مرنے کے بعد اپنوں کے ہات لٹ گئی تھی ‘ہم تو حنوط شدہ ممیاں ہیں
رگوں میں لہو نہیں کیمیکل دوڑتا ہے کہ آکسیجن جلتی نہیں جلنے میں معاون ہے ڈوبتی سانسوں کو مسیحا کی ضرورت نہیں گوشت گدھ کھائیں گے ‘ہڈیاں فاسفورس کی کانیں ہیںیہودی لابی کے گلے کھلے ہیں بٹنوں کی سخت ضرورت ہےفیکٹری کا دھواں اس نے کہا
یہ سب کس کے لیے لکھتے ہو میں نے کہا تمہارے لیے بولا مگر مجھے تم سے گھن آتی ہےمیلے میلے لفظوں میلے میلے جذبوں سے روشنیوں کی بات کرو حسن کی کہو حسین آنکھوں سے ٹپکتی شاب کی بات کرو کانچ سے بدنوں سے ٹپکتے رومان کی بات کرو بہاروں میں مچلتے شباب کی بات کرو روٹی ملے گی‘ شہرت ملے گی بھوک اور افلاس کیا رکھا ہے چیٹھڑوں کی دنیا میں
سوچتا ہوں شہرت لے لوں روٹی لے لوں کئی روز کی بھوک ہے لباس بھی الجھا الجھا ہے سسکتے بلکتے جذبوں کو بےلباسی کی دنیا میں رہنے دوں پھر سوچ کے افك سے اک شہاب ثالب ٹوٹا زہریلی سوچ کا چہرا فیکٹری کی چمنی سے اٹھتے دھویں میں مدغم ہو گیامطلع رہیں
مسز ریحانہ کوثر بلا دکھ تحریر کیا جاتا ہے آپ کی خدمات کی اب یہاں ضرورت نہیں رہیآپ کی بریزئر کا سائز بڑھ گیا ہے آنکھوں کے گرد حلمے بھی ہیں بالوں میں چاندی آ گئی ہے رخسار پچک گئے ہیں روزن نشاط کی فراخی سے پرفومنس گھٹ گئی ہے سابمہ کارگزاری کے پیش نظر کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے آپ کی بیٹی ظل ہما کو آپ کی سیٹ پر آپ کے ہی پے سکیل پر مع مروجہ الاؤنسز
اکتیس مئی کلوزنگ ٹائم تک تعینات کیا جا سکتا ہے آپ کو ہدایت کی جاتی ہے تاریخ ممررہ کے اندر زیر دستخطی کو مطلع کریںاپنے واجبات کی وصولی کے لیے زیر دستخطی کے حاضر ہونے کی ضرورت نہیں یہ خدمت اب آفس سپرٹنڈنٹ انجام دیتا ہے فائلوں کی سیاہی سپیدی کا وہ ہی تو مالک ہے مطلع رہیں ضروری نوت آپ اپنی کنگی اور نیل پالش ہمارے میز پر کل کی امید میں
بھول گئی ہیں یہ چیزیں جن کی آپ کو اشد ضرورت ہو گی مس ظل ہما کو آفس ٹائم کے بعد بھیج کر منگوا سکتی ہیں کہ ان کی اب یاں ضرورت نہیں رہی مطلع رہیں امید ہی تو زندگی ہے زکرا بولے جا رہی تھی مسلسل بولے جا رہی تھیشاید آتی صدیوں کے غم مٹا رہی تھی خوب گرجی خوب برسی
اس کے گرجنے میں دھواں برسنے ٰمیں مسلا دھار تھی رانی توپ کے گرجنے سے حمل گر جاتے تھے برسنے سے بستیاں زمین بوس ہوتی تھیں اس کے برسنے سےسکون کے شہر آگ پکڑتے تھے گرجنے سے حواس بدحواس ہوتے تھے کس سے گلہ کرتا جھورا مردود مر چکا تھا تھیلا مردود آج بھی رشوت ڈکارتا ہے وہ چپ تھا مسلسل چپ تھا
Search
Read the Text Version
- 1
- 2
- 3
- 4
- 5
- 6
- 7
- 8
- 9
- 10
- 11
- 12
- 13
- 14
- 15
- 16
- 17
- 18
- 19
- 20
- 21
- 22
- 23
- 24
- 25
- 26
- 27
- 28
- 29
- 30
- 31
- 32
- 33
- 34
- 35
- 36
- 37
- 38
- 39
- 40
- 41
- 42
- 43
- 44
- 45
- 46
- 47
- 48
- 49
- 50
- 51
- 52
- 53
- 54
- 55
- 56
- 57
- 58
- 59
- 60
- 61
- 62
- 63
- 64
- 65
- 66
- 67
- 68
- 69
- 70
- 71
- 72
- 73
- 74
- 75
- 76
- 77
- 78
- 79
- 80
- 81
- 82
- 83
- 84
- 85
- 86
- 87
- 88
- 89
- 90
- 91
- 92
- 93
- 94
- 95
- 96
- 97
- 98
- 99
- 100
- 101
- 102
- 103
- 104
- 105
- 106
- 107
- 108
- 109
- 110
- 111
- 112
- 113
- 114
- 115
- 116
- 117
- 118
- 119
- 120
- 121
- 122
- 123
- 124
- 125
- 126
- 127
- 128
- 129
- 130
- 131
- 132
- 133
- 134
- 135