آزاد کر غرب سے امن سلیقہ اترا مرے آنگن کی روشنی بےوقار ھوئی گرداب میں کھڑا استعارہ بول رہا تھا پتھر کو رقص دو سب موسم دبوچ لوجب خوش بو کی ردا اوڑھ کر زیست کا صحیفہ اترا اک کفن بردار بڑا ہی پروقار تلوار کی دھار پر کہے جا رہا تھا آنکھ کے سارے جگنو
آزاد کر دو آزاد کر دوماہ نامہ نوائے ہٹھان‘ لاہور ستمبر ٢٠٠٥
حیات کے برزخ میں تلاش معنویت کے سب لمحے صدیاں ڈکار گئیںچیتھڑوں میں ملبوس معنویت کا سفر اس کنارے کو چھو نہ سکا تاسف کے دو آنسوکاسہءمحرومی کا مقدر نہ بن سکے کیا ہو پاتا کہ شب کشف دو رانوں کی مشقت میں کٹ گئی صبح دھیان نان نارسا کی نذر ہوئی شاعر کا کہا بےحواسی کا ہم نوا ہوا دفتر رفتہ شاہ کے گیت گاتا رہا وسیبی حکائتیں بےوقار ہوئیں
قرطاس فکر پہ نہ چڑھ سکیں گویا روایت کا جنازہ اٹھ گیا ضمیر بھی چاندی میں تل گیا مجذوب کے خواب میں گرہ پڑیمکیش کے نغموں سے طبلہ پھسل گیا درویش کے حواس بیدار نقطے ترقی کا ڈرم نگل گیا نہ مشرق رہا نہ مغرب اپنا بنا آخر کب تک یتیم جیون حیات کے برزخ میں شناخت کے لیے بھٹکتا رہے
چل' محمد کے در پر چل اک پل آکاش اور دھرتی کو اک دھاگے میں بن کر رنگ دھنک اچھالے دوجا پلجو بھیک تھا پہلے کل کی کاسے سے اترا ماتھے کی ریکھا ٹھہرا کرپا اور دان کا پل پھن چکر مارا گرتا ہے منہ کے بل سلوٹ سے پاک سہی پھر بھی حنطل سے کڑوا
اترن کا پھل الفت میں کچھ دے کر پانے کی اچھا حاتم سے ہے چھل غیرت سے عاری حلق میں ٹپکا وہ قطرہ سقراط کا زہر نہ گنگا جلمہر محبت سے بھرپور نیم کا پانی نہ کڑا نہ کھارا وہ تو ہے آب زم زم اس میں رام کا بل ہر فرزانہ
عہد سے مکتی چاہے ہر دیوانہ عہد کا بندی مر مٹنے کی باتیں ٹالتے رہنا کل تا کل جب بھی پل کی بگڑی کل در نانک کے بیٹھا بےکل وید حکیم ملاں پنڈٹ پیر فقیر جب تھک ہاریںجس ہتھ میں وقت کی نبضیں چل محمد کے در پر چل
شہد سمندر ترے شبدوں میں شہد سمندر ترے ہونٹوں میں تخلیق کی ابجد تری آنکھوں میں کئ عرش سجے ترے پیروں میں جیون ریکھا تری سانسوں میں آج اور کل تری کھوج کا پل صدیوں پر بھاری ترے ملن کے عشرے جاپیں پل دو پلترے سوچ کے آنگن میں
کن کے بھید چھپے تو چھو لے تو مٹی سونا اگلے پتھر پارس ٹھہرے تری ایڑ کے اندر احساس کے سات سمندر ترا دامن فرشتوں کا مسکن تو وہ برگد چرا کر سایہ جس کا آکاش اترائےمیں اپنے بخت پر نازاں ہوں تو مری ماں کہلائے ترے سینے میں مری پیاس کےدیپ جلیںماں کے دل کی دھک دھک خلد کے گیت سنائے
سورج ڈوب رہا ہے میں جو بھی ہوںچاند اور سورج کی کرنوں پر میرا بھی تو حق ہے دھرتی کا ہر موسم خدا کا ہر گھر میرا بھی تو ہے قرآن ہو کہ گیتا رامائن کا ہر قصا گرنتھ کا ہر نقطا میرا بھی تو ہے تقسیم کا در جب بھی کھلتا ہے لاٹ کے دفتر کا منشی بارود کا مالک پرچی کا مانگت
عطا کے بوہے بند کر دیتا ہے رام اور عیسی کے بول ناچوں کی پھرتی بے لباسی میں رل کربے گھر بےدر ہوئے ہیں دفتری ملاں کےمنہ میں کھیر کا چمچہ ہے پنڈت اور فادرہاں ناں کے پل پر بیٹھےتوتے کو فاختتہ کہتے ہیں دادگر کے در پر سائل پانی بلوتا ہے مدرسے کا ماشٹر کمتر سے بھی کمتر کالج کا منشی جیون دان ہوا کو ترسے قلم کا دھنی
غلاموں کے سم پیتے برچھوں کی زد میں ہے سب اچھا کا تلک سر ماتھے پر رکھنے والے گورا ہاؤس کے چمچے کڑچھے طاقت کی بیلی میں کربل کربل کرتے یہ کیڑےہانیمن اور اجمل کا منہ چڑاتے ہیں مسائل کی روڑی پر بیٹھا میں گونگا بہرا بے بس زخمی نانک سے بدھ لچھمن سے ویر تلاشوں مدنی کریم کی راہ دیکھوں علی علی پکاروں کہ سورج ڈوب رہا ہے
اس روز بھی اس روز بھی اک قتل ہوا افق میں لہو اتر گیا ہات میں خنجر لے کر وہ شہر بھر پھرتا رہا ہر دیکھتا اسے دیکھتا رہاسسکیاں گواہ کیوں بنیں لہو بھی تو بول رہا تھا
گنگا الٹا بہنے لگی ہے من کی دیواروں پریہ خون کے چھینٹے کیسے ہیں مردہ جسموں کی بو سانسوں میں کس نے بھر دی ہے برف سے جذبوں پر ہاتھ کی پوروں کے نقش کہاں سے اترے ہیں روح کی زلفیں کیوں بکھری بکھری ہیں تمہارے جانے کے بعد حیات کے سب منظر کیوں ٹھہر گیے ہیں تم سا نہ آنے کے خدشے
بل کھاتے سانپوں کے مسکن بن جاتے ہیں فرزانہ ہوں کہ دیوانہ میں کب جانت ہوں ہاںتمہارے جانے سے پہلے یہ سب کچھ نہ تھا تمہارے جانے کے بعدگنگا الٹا بہنے لگی ہے
لہو کا تقدسکلیاں اور گلاب و کنول بھیپیر مغرب کی ٹھوکر میں ہیں میرے دور کا ٹیپو غیرت کے لہو کا تقدس بھوک کے آئنہ میں دیکھتا ہے
کانچ دریچوں میں جیون کے کانچ دریچوں میں دیکھوں توارمانوں کے موسم جھلسیں نادیکھوں تو کالا پتھر ٹھہروں
خدشے جب سچ ہو جاتے ہیں خدشے جب سچ ہو جاتے ہیں مجروع جذبےمرتی اور جیون کے برزخ میں حشر برپا ہونے کی کامنا کرتے ہیں سورگ نہیں ناسہی نرک ٹھکانا رہتا ہے طلوع میں آغاز سفر کا نشہ غروب میں ہراس نہیں خدشے
جب سچ ہو جاتے ہیںاشکوں سے عاری آنکھیں مجرم ٹھریں اشکوں سے تر جگ پر بھاری خاموشی کانٹوں سے بدتر خدشے جب سچ ہو جاتے ہیں آس مر جاتی ہے اوجھل راہیں دکھنے لگتی ہیں خدشے جب سچ ہو جاتے ہیں ہاتھ تلوار کے دستے پر جم جاتا ہے
خدشے جب سچ ہو جاتے ہیں آتی نسلیںاپنے پرکھوں کی تصویروں پر کبھی ہنستی ہیں کبھی روتی ہیں
رام بھلی کرے گا ہاتھ کے بدلے ہاتھ سر کے بدلے سر تھپڑ کے بدلے تھپڑ پتھر کے بدلے پتھر میر جعفر نے مگر لوٹ لیا ہے کس سے فریاد کریں جس ہاتھ میں گلاب وسنبل اس کی بغل میں خنجرکمزور کی جیون ریکھا کا منشی ٹھہرا ہے قاتل چور اچکا قانون بناتا ہے
لوبھی قانون کا رکھوالا بےبس زخمی زخمی منصف ہوا ہے اور یہ مقولہ باقی ہے چڑھ جا بیٹا سولی رام بھلی کرے گا
بے انت سمندر آنکھ میں پانی آب کوثر شبنمگل کے ماتھے کا جھومر جل ‘جل کر دھرتی کو جیون بخشے گنگا جل ہو کہ زم زم کے مست پیالےدھو ڈالیں کالک کے دھبے جل اک قطرہ ہے جیون بے انت سمندر
رات ذرا ڈھل جانے دو رات ذرا ڈھل جانے دو جب دو پاٹ ندی کے مل جائیں گےدر وصل کے کھل جائیں گے نیند کے جھونکے آغوش میں اپنی بستی کو لے لیں گے آکاش سے دھند اترے گی ظلمت اپنی زلفوں میںجاگتے رہنا کے آوازوں کو کس لے گی تب ہوس سکوں کی گھر سے باہر نکلے گی رات ذرا ڈھل جانے دو
تم حصہ اپنا بٹوا لینا راتوں کے مالکلوگ بھروسہ کے ہیں دن کو تو اجلے چہرے دھندلا جاتے ہیںرات ذرا ڈھل جانے دو
اردو کی پہلی سنکوئین آس ستارے من کی چھپا کر من میں دھڑکت پھڑکت پر خوف کے پہرےآس ستارے سارے کے سارے یاس افق میں شنانت ہوئے
حرص کی رم جم حرص کی رم جم میں ملاں پنڈت گرجے کا فادر گر کا امین لمبڑ کے ڈیرے پر بیٹھے آنکھوں میں پتھر رکھ کر پکون کے گیت گائیں لوکن کے گھر بھوک کا بھنگڑا گلیوں میں موت کا خنجرکھیتوں میں خوف کی کاشت جیون تذبذب کی صلیب پر لٹکا تخلیق کی ابجد تقدیر کی ریکھا کیسے ٹھہرے گا؟
آج بھی بہت سے گم ہوئے بہت سے مر گیے کچھ پس ستم کیےکچھ عدم معنویت کی صلیب چڑھے ہاں‘ شاہ نواز تاریخ کی لوح پر زندہ رہے وہ ہی وقتوں کے ہیرو ٹھہرے جن پر ملاں کی مہر ثبت ہوئی انہیں کون جھٹلائے سچ کا آئینہ دکھائے ‘جھوٹ معنویت کے ساتھ زندہ رہا سکھ کا سانس لیتا رہا احساس بنا
عزت کی دلیل ہوا معبدءتوقیر میں پڑا یہ صدیوں کا ورثہ طاق میں رکھ کر ‘کوئی کیوں اس لفظ کو تلاشے جو معاشی روایت نہیں سماجی حکایت نہیںبےسر وادی معاش ہو کہ شاہ کے صنم کدے شہوت کی عشرت گاہوںگنجان آباد صحراؤں میں اس کا کیا کامسچ کے شبدوں کی خاطرفاقہ کی کربلا سے گزر کر حق کے ہمالہ کی چوٹی
کوئی کیوں منزل بنائے سپیدی لہو ‘کب کبھیکسی سرمد کی ہم سفر رہی ہے حمادی کے فتوے نے راکھ گنگا کے حوالے نہ کی شاہ نواز حرف اور نقطے مظلوموں کی شریعت ہے ‘آج بھیلوح فہم و احساس کے ایوان پران کی سچائی کا علم لہراتا ہے 11-7-1978
Search
Read the Text Version
- 1
- 2
- 3
- 4
- 5
- 6
- 7
- 8
- 9
- 10
- 11
- 12
- 13
- 14
- 15
- 16
- 17
- 18
- 19
- 20
- 21
- 22
- 23
- 24
- 25
- 26
- 27
- 28
- 29
- 30
- 31
- 32
- 33
- 34
- 35
- 36
- 37
- 38
- 39
- 40
- 41
- 42
- 43
- 44
- 45
- 46
- 47
- 48
- 49
- 50
- 51
- 52
- 53
- 54
- 55
- 56
- 57
- 58
- 59
- 60
- 61
- 62
- 63
- 64
- 65
- 66
- 67
- 68
- 69
- 70
- 71
- 72
- 73
- 74
- 75
- 76
- 77
- 78
- 79
- 80
- 81
- 82
- 83
- 84
- 85
- 86
- 87
- 88
- 89
- 90
- 91
- 92
- 93
- 94
- 95
- 96
- 97
- 98
- 99
- 100
- 101
- 102
- 103
- 104
- 105
- 106
- 107
- 108
- 109
- 110
- 111
- 112
- 113
- 114
- 115
- 116
- 117
- 118
- 119
- 120
- 121
- 122
- 123
- 124
- 125
- 126
- 127
- 128
- 129
- 130