Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore میری کچھ نظمیں

میری کچھ نظمیں

Published by maqsood5, 2016-12-10 03:15:07

Description: abk_ksr_mh.916/2016
میری کچھ نظمیں
مقصود حسنی

ابوزر برقی کتب خانہ
دسمبر ٢٠١٦

Search

Read the Text Version

‫آزاد کر‬ ‫غرب سے امن سلیقہ اترا‬ ‫مرے آنگن کی روشنی‬ ‫بےوقار ھوئی‬ ‫گرداب میں کھڑا استعارہ‬ ‫بول رہا تھا‬ ‫پتھر کو رقص دو‬ ‫سب موسم دبوچ لو‬‫جب خوش بو کی ردا اوڑھ کر‬ ‫زیست کا صحیفہ اترا‬ ‫اک کفن بردار‬ ‫بڑا ہی پروقار‬ ‫تلوار کی دھار پر‬ ‫کہے جا رہا تھا‬ ‫آنکھ کے سارے جگنو‬

‫آزاد کر دو‬ ‫آزاد کر دو‬‫ماہ نامہ نوائے ہٹھان‘ لاہور ستمبر ‪٢٠٠٥‬‬

‫حیات کے برزخ میں‬ ‫تلاش معنویت کے سب لمحے‬ ‫صدیاں ڈکار گئیں‬‫چیتھڑوں میں ملبوس معنویت کا سفر‬ ‫اس کنارے کو چھو نہ سکا‬ ‫تاسف کے دو آنسو‬‫کاسہءمحرومی کا مقدر نہ بن سکے‬ ‫کیا ہو پاتا کہ شب کشف‬ ‫دو رانوں کی مشقت میں کٹ گئی‬ ‫صبح دھیان‬ ‫نان نارسا کی نذر ہوئی‬ ‫شاعر کا کہا‬ ‫بےحواسی کا ہم نوا ہوا‬ ‫دفتر رفتہ شاہ کے گیت گاتا رہا‬ ‫وسیبی حکائتیں بےوقار ہوئیں‬

‫قرطاس فکر پہ نہ چڑھ سکیں‬ ‫گویا روایت کا جنازہ اٹھ گیا‬ ‫ضمیر بھی چاندی میں تل گیا‬ ‫مجذوب کے خواب میں گرہ پڑی‬‫مکیش کے نغموں سے طبلہ پھسل گیا‬ ‫درویش کے حواس بیدار نقطے‬ ‫ترقی کا ڈرم نگل گیا‬ ‫نہ مشرق رہا نہ مغرب اپنا بنا‬ ‫آخر کب تک یتیم جیون‬ ‫حیات کے برزخ میں‬ ‫شناخت کے لیے بھٹکتا رہے‬

‫چل' محمد کے در پر چل‬ ‫اک پل‬ ‫آکاش اور دھرتی کو‬ ‫اک دھاگے میں بن کر‬ ‫رنگ دھنک اچھالے‬ ‫دوجا پل‬‫جو بھیک تھا پہلے کل کی‬ ‫کاسے سے اترا‬ ‫ماتھے کی ریکھا ٹھہرا‬ ‫کرپا اور دان کا پل‬ ‫پھن چکر مارا‬ ‫گرتا ہے منہ کے بل‬ ‫سلوٹ سے پاک سہی‬ ‫پھر بھی‬ ‫حنطل سے کڑوا‬

‫اترن کا پھل‬ ‫الفت میں کچھ دے کر‬ ‫پانے کی اچھا‬ ‫حاتم سے ہے چھل‬ ‫غیرت سے عاری‬ ‫حلق میں ٹپکا‬ ‫وہ قطرہ‬ ‫سقراط کا زہر‬ ‫نہ گنگا جل‬‫مہر محبت سے بھرپور‬ ‫نیم کا پانی‬ ‫نہ کڑا نہ کھارا‬ ‫وہ تو ہے‬ ‫آب زم زم‬ ‫اس میں رام کا بل‬ ‫ہر فرزانہ‬

‫عہد سے مکتی چاہے‬ ‫ہر دیوانہ عہد کا بندی‬ ‫مر مٹنے کی باتیں‬ ‫ٹالتے رہنا‬ ‫کل تا کل‬ ‫جب بھی‬ ‫پل کی بگڑی کل‬ ‫در نانک کے‬ ‫بیٹھا بےکل‬ ‫وید حکیم‬ ‫ملاں پنڈٹ‬ ‫پیر فقیر‬ ‫جب تھک ہاریں‬‫جس ہتھ میں وقت کی نبضیں‬ ‫چل‬ ‫محمد کے در پر چل‬

‫شہد سمندر‬ ‫ترے شبدوں میں‬ ‫شہد سمندر‬ ‫ترے ہونٹوں میں‬ ‫تخلیق کی ابجد‬ ‫تری آنکھوں میں‬ ‫کئ عرش سجے‬ ‫ترے پیروں میں‬ ‫جیون ریکھا‬ ‫تری سانسوں میں‬ ‫آج اور کل‬ ‫تری کھوج کا پل‬ ‫صدیوں پر بھاری‬ ‫ترے ملن کے عشرے‬ ‫جاپیں پل دو پل‬‫ترے سوچ کے آنگن میں‬

‫کن کے بھید چھپے‬ ‫تو چھو لے تو‬ ‫مٹی سونا اگلے‬ ‫پتھر پارس ٹھہرے‬ ‫تری ایڑ کے اندر‬ ‫احساس کے سات سمندر‬ ‫ترا دامن‬ ‫فرشتوں کا مسکن‬ ‫تو وہ برگد‬ ‫چرا کر سایہ جس کا‬ ‫آکاش اترائے‬‫میں اپنے بخت پر نازاں ہوں‬ ‫تو مری ماں کہلائے‬ ‫ترے سینے میں‬ ‫مری پیاس کےدیپ جلیں‬‫ماں کے دل کی دھک دھک‬ ‫خلد کے گیت سنائے‬

‫سورج ڈوب رہا ہے‬ ‫میں جو بھی ہوں‬‫چاند اور سورج کی کرنوں پر‬ ‫میرا بھی تو حق ہے‬ ‫دھرتی کا ہر موسم‬ ‫خدا کا ہر گھر‬ ‫میرا بھی تو ہے‬ ‫قرآن ہو کہ گیتا‬ ‫رامائن کا ہر قصا‬ ‫گرنتھ کا ہر نقطا‬ ‫میرا بھی تو ہے‬ ‫تقسیم کا در‬ ‫جب بھی کھلتا ہے‬ ‫لاٹ کے دفتر کا منشی‬ ‫بارود کا مالک‬ ‫پرچی کا مانگت‬

‫عطا کے بوہے‬ ‫بند کر دیتا ہے‬ ‫رام اور عیسی کے بول‬ ‫ناچوں کی پھرتی‬ ‫بے لباسی میں رل کر‬‫بے گھر بےدر ہوئے ہیں‬ ‫دفتری ملاں کےمنہ میں‬ ‫کھیر کا چمچہ ہے‬ ‫پنڈت اور فادر‬‫ہاں ناں کے پل پر بیٹھے‬‫توتے کو فاختتہ کہتے ہیں‬ ‫دادگر کے در پر سائل‬ ‫پانی بلوتا ہے‬ ‫مدرسے کا ماشٹر‬ ‫کمتر سے بھی کمتر‬ ‫کالج کا منشی‬ ‫جیون دان ہوا کو ترسے‬ ‫قلم کا دھنی‬

‫غلاموں کے سم پیتے‬ ‫برچھوں کی زد میں ہے‬ ‫سب اچھا کا تلک‬ ‫سر ماتھے پر رکھنے والے‬ ‫گورا ہاؤس کے چمچے کڑچھے‬ ‫طاقت کی بیلی میں‬ ‫کربل کربل کرتے یہ کیڑے‬‫ہانیمن اور اجمل کا منہ چڑاتے ہیں‬ ‫مسائل کی روڑی پر بیٹھا‬ ‫میں گونگا بہرا بے بس زخمی‬ ‫نانک سے بدھ‬ ‫لچھمن سے ویر تلاشوں‬ ‫مدنی کریم کی راہ دیکھوں‬ ‫علی علی پکاروں کہ‬ ‫سورج ڈوب رہا ہے‬

‫اس روز بھی‬ ‫اس روز بھی‬ ‫اک قتل ہوا‬ ‫افق میں لہو اتر گیا‬ ‫ہات میں خنجر لے کر‬ ‫وہ شہر بھر پھرتا رہا‬ ‫ہر دیکھتا‬ ‫اسے دیکھتا رہا‬‫سسکیاں گواہ کیوں بنیں‬ ‫لہو بھی تو‬ ‫بول رہا تھا‬

‫گنگا الٹا بہنے لگی ہے‬ ‫من کی دیواروں پر‬‫یہ خون کے چھینٹے کیسے ہیں‬ ‫مردہ جسموں کی بو‬ ‫سانسوں میں‬ ‫کس نے بھر دی ہے‬ ‫برف سے جذبوں پر‬ ‫ہاتھ کی پوروں کے نقش‬ ‫کہاں سے اترے ہیں‬ ‫روح کی زلفیں‬ ‫کیوں بکھری بکھری ہیں‬ ‫تمہارے جانے کے بعد‬ ‫حیات کے سب منظر‬ ‫کیوں ٹھہر گیے ہیں‬ ‫تم سا نہ آنے کے خدشے‬

‫بل کھاتے سانپوں کے‬ ‫مسکن بن جاتے ہیں‬ ‫فرزانہ ہوں کہ دیوانہ‬ ‫میں کب جانت ہوں‬ ‫ہاں‬‫تمہارے جانے سے پہلے‬ ‫یہ سب کچھ نہ تھا‬ ‫تمہارے جانے کے بعد‬‫گنگا الٹا بہنے لگی ہے‬

‫لہو کا تقدس‬‫کلیاں اور گلاب و کنول بھی‬‫پیر مغرب کی ٹھوکر میں ہیں‬ ‫میرے دور کا ٹیپو‬ ‫غیرت کے لہو کا تقدس‬ ‫بھوک کے آئنہ میں‬ ‫دیکھتا ہے‬

‫کانچ دریچوں میں‬ ‫جیون کے‬ ‫کانچ دریچوں میں‬ ‫دیکھوں تو‬‫ارمانوں کے موسم جھلسیں‬ ‫نادیکھوں تو‬ ‫کالا پتھر ٹھہروں‬

‫خدشے جب سچ ہو جاتے ہیں‬ ‫خدشے‬ ‫جب سچ ہو جاتے ہیں‬ ‫مجروع جذبے‬‫مرتی اور جیون کے برزخ میں‬ ‫حشر برپا ہونے کی‬ ‫کامنا کرتے ہیں‬ ‫سورگ نہیں‬ ‫ناسہی‬ ‫نرک ٹھکانا رہتا ہے‬ ‫طلوع میں‬ ‫آغاز سفر کا نشہ‬ ‫غروب میں ہراس نہیں‬ ‫خدشے‬

‫جب سچ ہو جاتے ہیں‬‫اشکوں سے عاری آنکھیں‬ ‫مجرم ٹھریں‬ ‫اشکوں سے تر‬ ‫جگ پر بھاری‬ ‫خاموشی‬ ‫کانٹوں سے بدتر‬ ‫خدشے‬ ‫جب سچ ہو جاتے ہیں‬ ‫آس مر جاتی ہے‬ ‫اوجھل راہیں‬ ‫دکھنے لگتی ہیں‬ ‫خدشے‬ ‫جب سچ ہو جاتے ہیں‬ ‫ہاتھ تلوار کے دستے پر‬ ‫جم جاتا ہے‬

‫خدشے‬ ‫جب سچ ہو جاتے ہیں‬ ‫آتی نسلیں‬‫اپنے پرکھوں کی تصویروں پر‬ ‫کبھی ہنستی ہیں‬ ‫کبھی روتی ہیں‬

‫رام بھلی کرے گا‬ ‫ہاتھ کے بدلے ہاتھ‬ ‫سر کے بدلے سر‬ ‫تھپڑ کے بدلے تھپڑ‬ ‫پتھر کے بدلے پتھر‬ ‫میر جعفر نے‬ ‫مگر لوٹ لیا ہے‬ ‫کس سے فریاد کریں‬ ‫جس ہاتھ میں‬ ‫گلاب وسنبل‬ ‫اس کی بغل میں خنجر‬‫کمزور کی جیون ریکھا کا‬ ‫منشی ٹھہرا ہے‬ ‫قاتل چور اچکا‬ ‫قانون بناتا ہے‬

‫لوبھی قانون کا رکھوالا‬ ‫بےبس زخمی زخمی‬ ‫منصف ہوا ہے‬ ‫اور یہ‬ ‫مقولہ باقی ہے‬ ‫چڑھ جا بیٹا سولی‬ ‫رام بھلی کرے گا‬

‫بے انت سمندر‬ ‫آنکھ میں پانی‬ ‫آب کوثر‬ ‫شبنم‬‫گل کے ماتھے کا جھومر‬ ‫جل ‘جل کر‬ ‫دھرتی کو جیون بخشے‬ ‫گنگا جل ہو کہ‬ ‫زم زم کے مست پیالے‬‫دھو ڈالیں کالک کے دھبے‬ ‫جل اک قطرہ ہے‬ ‫جیون بے انت سمندر‬

‫رات ذرا ڈھل جانے دو‬ ‫رات ذرا ڈھل جانے دو‬ ‫جب دو پاٹ ندی کے‬ ‫مل جائیں گے‬‫در وصل کے کھل جائیں گے‬ ‫نیند کے جھونکے‬ ‫آغوش میں اپنی‬ ‫بستی کو لے لیں گے‬ ‫آکاش سے دھند اترے گی‬ ‫ظلمت اپنی زلفوں میں‬‫جاگتے رہنا کے آوازوں کو‬ ‫کس لے گی‬ ‫تب ہوس سکوں کی‬ ‫گھر سے باہر نکلے گی‬ ‫رات ذرا ڈھل جانے دو‬

‫تم حصہ اپنا بٹوا لینا‬ ‫راتوں کے مالک‬‫لوگ بھروسہ کے ہیں‬ ‫دن کو تو‬ ‫اجلے چہرے‬ ‫دھندلا جاتے ہیں‬‫رات ذرا ڈھل جانے دو‬

‫اردو کی پہلی سنکوئین‬ ‫آس ستارے‬ ‫من کی‬ ‫چھپا کر من میں‬ ‫دھڑکت پھڑکت پر خوف کے پہرے‬‫آس ستارے سارے کے سارے یاس افق میں‬ ‫شنانت ہوئے‬

‫حرص کی رم جم‬ ‫حرص کی رم جم میں‬ ‫ملاں پنڈت‬ ‫گرجے کا فادر‬ ‫گر کا امین‬ ‫لمبڑ کے ڈیرے پر بیٹھے‬ ‫آنکھوں میں پتھر رکھ کر‬ ‫پکون کے گیت گائیں‬ ‫لوکن کے گھر‬ ‫بھوک کا بھنگڑا‬ ‫گلیوں میں موت کا خنجر‬‫کھیتوں میں خوف کی کاشت‬ ‫جیون‬ ‫تذبذب کی صلیب پر لٹکا‬ ‫تخلیق کی ابجد‬ ‫تقدیر کی ریکھا‬ ‫کیسے ٹھہرے گا؟‬

‫آج بھی‬ ‫بہت سے گم ہوئے‬ ‫بہت سے مر گیے‬ ‫کچھ پس ستم کیے‬‫کچھ عدم معنویت کی صلیب چڑھے‬ ‫ہاں‘ شاہ نواز‬ ‫تاریخ کی لوح پر زندہ رہے‬ ‫وہ ہی وقتوں کے ہیرو ٹھہرے‬ ‫جن پر ملاں کی مہر ثبت ہوئی‬ ‫انہیں کون جھٹلائے‬ ‫سچ کا آئینہ دکھائے‬ ‫‘جھوٹ‬ ‫معنویت کے ساتھ زندہ رہا‬ ‫سکھ کا سانس لیتا رہا‬ ‫احساس بنا‬

‫عزت کی دلیل ہوا‬ ‫معبدءتوقیر میں پڑا‬ ‫یہ صدیوں کا ورثہ‬ ‫طاق میں رکھ کر‬ ‫‘کوئی کیوں‬ ‫اس لفظ کو تلاشے‬ ‫جو معاشی روایت نہیں‬ ‫سماجی حکایت نہیں‬‫بےسر وادی معاش ہو کہ‬ ‫شاہ کے صنم کدے‬ ‫شہوت کی عشرت گاہوں‬‫گنجان آباد صحراؤں میں‬ ‫اس کا کیا کام‬‫سچ کے شبدوں کی خاطر‬‫فاقہ کی کربلا سے گزر کر‬ ‫حق کے ہمالہ کی چوٹی‬

‫کوئی کیوں منزل بنائے‬ ‫سپیدی لہو‬ ‫‘کب کبھی‬‫کسی سرمد کی ہم سفر رہی ہے‬ ‫حمادی کے فتوے نے‬ ‫راکھ گنگا کے حوالے نہ کی‬ ‫شاہ نواز حرف اور نقطے‬ ‫مظلوموں کی شریعت ہے‬ ‫‘آج بھی‬‫لوح فہم و احساس کے ایوان پر‬‫ان کی سچائی کا علم لہراتا ہے‬ ‫‪11-7-1978‬‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook