تار سبو ہوا ہے جاگوکب کا لہو‘ لہو ہوا ہے
برسر عدالت شبنم گھاس کا مکوڑا پں گیا بادلپرندوں نے پروں میں چھپا لیے آنسو مگر پلکوں پر تھے ہی کب امن اس روز شہر میں کرفیو تھا روشنی بارود نگل گیا امیددماغ کا خلل نہیں تو اور کیا ہے قاتل برسر عدالت انصاف کا طالب تھا
کہ چڑیوں کی چونچیں مقتول کا پیٹ روٹی خور ہو گیا تھااسے گیس کی شکایت رہتی تھی ایسے میں قتل ناگزیر ہو گیا تھامقتول کی شاہ خرچی کا عوضانہ بیوہ اور اس کے بچوں کی برسر عام نیلامی سے دلوایا جائے کہ انصاف کا بول بالا ہو
کاجل ابھی پھیلا نہیںتیری آنکھ کا کاجل ابھی پھیلا نہیں تیرے بولوں کی کلیاں جوان ہیں طلائی چوڑے کی کھنک کب کل سے جدا ہے تیری دنیا میں کوئی اور تھا میں کیسے مان لوں تو وہی ہے جس نے میرے سوچ کے دروازے پر دستک دی تھی سوچنا یہ ہے کس کردہ جرم کی سزا سقراط کا زہر ہے میرے سوچ پر
خوف کا پہرا ہے روبرو راون کا چہرا ہے مجھ کو سوچنے کیوں نہیں دیتے ذات کے ذروں کو کھوجنے کیوں نہیں دیتے بند کواڑوں کے پیچھے سوچنے کی آرزو بیٹھی ہےجوجینے نہیں دیتی مرنے نہیں دیتی
میں مقدر کا سکندر ہوں میں مقدر کا سکندر ہوں ٹیکسوں کی شان کا سایہ مری رکھشا کرتا ہے تانگے کی سیٹ پر لیٹے کسی کھڈے کے اک ہچکولے سے شفاخانے کے در پر ہمدردی کے بولوں میں لیپٹیدوا ملتی ہے کا بےسر سپنا لے کر آتا ہوں اس طفل تسلی پر برسوں سے میرا جیون ہے میں مقدر کا سکندر ہوں مرگ کے سارے خرچے بیوہ کے دوپٹے کی حرمت یتیموں کے منہ کے لقمے
بک کر پورے ہوتے ہیں قلم اور بستے کئی یگ ہوئے لایعنی ٹھہرے ہیں پرچی خوروں کے جھوٹھے برتن ان کے ہاتھ کی ریکھا ہیں پرچی والوں کی میرے مرنے سے راتیں سہانی ہوتی ہیں میں تو اس بہو رانی سا ہوں سارا گھر اس کاہے جب چاہے کوئی دعوی باندھے کوئی روک نہیں کوئی ٹوک نہیں بس اک پابندی ہےچیزوں کو چھونے سے پرہیز کرے نند کی کرتوں کو
بند آنکھوں سے دیکھےگھورتی آنکھوں سے آزاد رہے گی شاد رہے گی میں مقدر کا سکندر ہوں ٹیکسوں کی شان کا سایہ مری رکھشا کرتا ہے
آنکھوں دیکھے موسم آشا کی جوت جگا کر اب کہتے ہو عشق کی راہ میں کانٹے ہیں دھوپ کا پہرا ہے کانٹوں پر ننگے پاؤں بن مطب کے چلنا لیلی کے دور کی باتیں ہیں اک سے اک بڑھ کر مجنوں ہاتھ میں نوٹ لیے چلتا پھرتا تم دیکھو گے کنگلے عاشق کے آنسومطلب کی آنکھیں کیوں دیکھیں میں توپھولوں کے موسم کی لیلی ہوں
پاگل ہو تم اخلاص اور الفت کی باتیں ووٹ کی باتیں ہیں سیاست اور الفت میں جو انتر ہے اس کو جانو آنکھیں کھولو وقت پہچانو سوچے ہوںموسم مجھ سے بگڑے بگڑے رہتے ہیں یہ ممکن ہے سب موسم تم کو مل جائیں سچل دل کی کلیاں اپنے دامن میں سورگ کے سکھ رکھتی ہیں آنکھوں دیکھے موسم کبھی جیتے ہیں کبھی مرتے ہیں
دروازہ کھولو تم چپ ہو کہ مجھ میں تم بولتے ہو میرے دل کے بربط پر تری انگلی ہے تم چپ ہو کہ یہ دل تیرا مسکن ہے گھر کے باسیاپنی مرضی کے مالک ہوتے ہیں تم چپ ہو کہ شعور کی ہر کھڑکی میں تیرا چہرا ہے کھڑکی بند کرتے ہیں تو دم گھٹتا ہے کھڑکی کھولے رکھنا
گھر کی باتوں کو باہر لانا ہے باہر کے موسم راون بستی کے منظر ہیں تم چپ ہو کہاندر کے سب موسم تیرے ہیں دروازہ کھولو تیرے ہونٹوں کی مستی من کے کورے پنوں پر آنکھ سے چن کر رکھ دوں تم چپ ہو کہ چپ میں سکھ ہے چپ کے کھیسے میں کلیاں ہی کلیاں ہیں تم چپ ہو کہ تحسین کے کلمےبرہما کے بردان سے اٹھتےہیں تم چپ ہو کہ----
تم مرے کوئی نہیں ہو تم مرے کوئی نہیں ہو میں نے تم کو کبھی سوچا ہی نہیں کھوجا ہی نہیںتم نےمیرے دل دروازے پر دستک دی ہے اب میں تم کو سوچوں گا تیری آنکھوں کے مست پیمانے سے کچھ بچا کر آب زم زم میں ملا کر امرتا کے ایوانوں میں خود کو پھر تم کو کھوجوں گا اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں اپنی آنکھوں سے دیکھنا میں تم کو تم میں مل جاؤں گا یہ کوئی تقدیر کا کھیل نہیں
تم لکیر بناتے ہو لکیر مٹاتے ہو تم مرے کوئی نہیں ہو میں نے تم کو کبھی سوچا ہی نہیں اب میں تم کو سوچوں گاکہ تم نے میرے دل پر دستک دی ہے
صدیاں بیت گئی ہیںجب سے میں نے تم کو سوچا ہے میں میں‘ میں کب رہا ہے گنگا جل کا ہر قطرہ گیتا کے بولوں گرنتھ کے شبدوں فرید کے شلوکوں پھول کے گالوں کو چھوتی شبنم ساگر کے اندر سیپ کی بند مٹھی میں موتی رتجگوں کی سوچوں دعا کو اٹھتے ہاتھوںساون رتوں کی ہڑ برساتی آنکھوں آگ میں ڈوبی سانسوں کا حاصل تم ہو
رمز مجھ پر کھل گئی ہے میرے سوچ کی ساری شکتی کا دم خم تم ہوجب سے میں نے تم کو سوچا ہے میں میں‘ میں کب ہے میں کو سفر کیے صدیاں بیت گئی ہیں
ایندھن دیکھتا اندھا سنتا بہراسکنے کی منزل سے دور کھڑا ظلم دیکھتا ہے آہیں سنتا ہے بولتا نہیں کہتا نہیں جہنم ضرور جائے گا
عاری جبرائیل ادراکشاہین پرواز لے گیا سیماب بےقراریگلاب خوشبو لے گیا مہتاب چاندنیخورشید حدت لے گیاجو جس کو پسند آیا لے گیا تیرے پاس کیا رہا دو ہات‘ خالیدو آنکھیں‘ بے نور راتوں کے خواب بے رونق‘ بےزار دن کے اجالے
خاموش‘ اداسہمالہ‘ مٹی کا ڈھیرحرکت سے عاری تو‘ مٹی کا ڈھیرحرکت سے عاری
سننے میں آیا ہے سننے میں آیا ہے ہم آگے بڑھ گئے ہیں ترقی کر گئے ہیںسرج اب شرق سے اٹھتا ہے واشنگٹن کے مندر کا بت کس محمود نے توڑا ہےسکندر کے گھوڑوں کا منہ کس بیاس نے موڑا ہے اس کی گردن کا سریا کس ٹیپو نے توڑا ہے سو کا بیلنس اب سو ہی چڑھتا ہے پونڈ سٹرلنگ اور ڈالر روپیے کے دو ملتے ہیں
سننے میں آیا ہے ہم آگے بڑھ گئے ہیں ترقی کر گئے ہیں 'بیوہ کو ٹک ملتا ہےوہ پیٹ بھر کھاتی ہے گریب کی بیٹیا بن دہیج?اب ڈولی چڑھتی ہے جو جیون دان کرے دارو کی وہ شیشی?اب مفت میں ملتی ہے سننے میں آیا ہے ہم آگے بڑھ گئے ہیں ترقی کر گئے ہیں موسی اور عیسی گرجے اور ہیکل سے
?مکت ہوے ہیں بدھ رام بہا کہ نانک کے پیرو ہوں یا پھر چیراٹ شریف کے باسی ?اپنا جیون جیتے ہیں سننے میں آیا ہے ہم آگے بڑھ گئے ہیں ترقی کر گئے ہیں گوئٹے اور بالی ٹیگور تے جامی سیوفنگ اور شیلی ?سب کے ٹھہرے ہیںملاں پنڈت اور گرجے کا وارث انسانوں کو انسانوں کے ?کام آنے کی کہتا ہے
سننے میں آیا ہے ہم آگے بڑھ گئے ہیں ترقی کر گئے ہیں شیر اور بکری'اک گھاٹ پر پانی پیتے ہیں ?اک کچھ میں رہتے ہیں سیٹھوں کی بستی میں مل بانٹ کر ?کھانے کی چرچا ہے رشوت کا کھیل ?ناکام ہوا ہے منصف ?ایمان قرآن کی کہتتا ہے سننے میں آیا ہے ہم آگے بڑھ گئے ہیں ترقی کر گئے ہیں
من تن کا وارث تن من کا بھیدی جب بھی ٹھہرے گا جیون کا ہر سکھ قدموں کی ٹھوکر امبر کے اس پار انسان کا گھر ہو گا 'پرتھوی کیا اللہ کی ہر تخلیق کا ماما نہیںموچی درزی نائی بھی وارث ہوگا 'شخصشخص کا بھائی ہوگا
کس منہ سے چلم بھرتے ہات‘ اٹھ نہیں سکتے ہونٹوں پر فقیہ عصر نے چپ رکھ دی ہے کتنا عظیم تھا وہ شخص گلیوں میں رسولوں کے لفظ بانٹتا رہاان بولتے لفظوں کو‘ ہم سن نہ سکے آنکھوں سے‘ چن نہ سکےہمارے کانوں میں‘ جبر کی پوریں رہیںآنکھوں میں خوف نے پتھر رکھ دیے ہم جانتے ہیں‘ وہ سچا تھا قول کا پکا تھا مرنا تو ہے‘ ہمیں یاد نہ رہا ہم جانتے ہیں اس نے جو کیا
ہمارے لیے کیا جیا تو ہمارے لیے جیا کتنا عجیب تھا زندہ لاشوں کا دم بھرتا رہا مصلوب ہوا ہم دیکھتے رہے نیزے چڑھا ہم دیکھتے رہےمرا جلا راکھ اڑی ہم دیکھتے رہےاس کے کہے پر دو گام تو چلا ہوتا کس منہ سے اب اس کی راہ دیکھتے ہیں ہم خاموش تماشائیمظلومیت کا فقط ڈھونگ رچاتے ہیں بے جان جیون کے دامن میں غیرت کہاں جو رن میں اترے یا پھر پس لب اس کی مدح ہی کر سکے
چلو دنیا چاری ہی سہی آؤ اندرون لب دعا کریںان مول سی مدح کہیں
حیرت تو یہ ہے موسم گل ابھی محو کلام تھا کہ مہتاب بادلوں میں جا چھپا اندھیرا چھا گیا پریت پرندہ ہوس کے جنگلوں میں کھو گیا اس کی بینائی کا دیا بجھ گیاکوئی ذات سے‘ کوئی حالات سے الجھ گیا یاد میں نہ رہا‘کیا اپنا ہے‘ کیا بیگانہ بادل چھٹنے کو تھے کہ افق لہو اگلنے لگا دو بم ادھر دو ادھر گرے پھر تو ہر سو دھواں ہی دھواں تھا چہرے جب دھول میں اٹے تو
ظلم کا اندھیر مچ گیا پھر اک درویش مینار آگہی پر چڑھا کہنے لگا سنو سنو دامن سب سمو لیتا ہے اپنے دامن سے چہرے صاف کرو شاید کہ تم میں سے کوئی ابھی یتیم نہ ہوا ہو یتیمی کا ذوق لٹیا ڈبو دیتا ہے من کے موسم دبوچ لیتا ہے کون سنتا پھٹی پرانی آواز کو حیرت تو یہ ہے موسم گل کا سب کو انتظار ہے گرد سے اپنا دامن بھی بچاتا ہے اوروں سے کہے جاتا ہےچہرہ اپنا صاف کرو‘ چہرہ اپنا صاف کرو
ہر گھر سے دن کے اجالوں میں خداہائے کفر ساز و کفر نواز پیتے ہیں سچ کا لہو کہ وہ اجالوں کی بستی میں زندہ رہیں شرق سے اب تمہیں کوئی شب بیدار کرنا ہو گیکہ سچ اسے دکھنے ہی نہ پائے تمہیں بھی تواس کی کوئی خاص ضرورت نہیں یا پھر آتی نسلوں کے لیے ہی سہی دن کے اجالوں میں روح حیدر رکھنا ہوگی
سسی فس کا جیون جیون نہیں سقراط کی مرتیو مرتیو نہیں جینا ہے تو حسین کا جیون جیو کہ جب ارتھی اٹھے خون کے آنسووں میں راکھ اڑے خون کے آنسووں میں شاعر کا قلم روشنی بکھیرے گاآکاش کی محتاج نہ رہے گی ‘زندگیہر گھر سے چاند ہر گھر سے سورج طلوع ہو گا غروب کی ہر پگ پر کہیں سقراط کہیں منصور تو کہیں سرمد کھڑا ہو گا
بارود کے موسم کرائے کے قاتل کیا بھکشا دیں گے؟ کرن ہماری کھا جا ہے ہم موسی کے کب پیرو ہیںجو آسمان سے من و سلوی اترے گا اپنی دونی کا گیندا ہیرے کی جڑت کے گہنوں سے گربت کی چٹیا پر سوا سج دھج رکھتا ہے میری کا طعنا معنا اکھین کے سارے رنگوں پر
کہرا بن کے چھا جاتا ہے کوڑ کی برکی کا وش دیسی نغموں میں ڈرم کا بے ہنگم غوغا طبلے کی ہر تھاپ کھا پی جاتا ہے کرائے کے قاتل کیا بھکشا دیں گے؟ ان کی آنکھوں میں تو بارود کے موسم پلتے ہیںhttp://www.urdutehzeb.com/showthread.php/3429-%D8%A8%D8%A7%D8%B1%D9%88%D8%AF-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D 9%88%D8%B3%D9%85
جاگتے رہنا جاگتے رہنا چور‘ ترے سہاگ کی چوڑیاں چرا نہ لے جاگتے رہنا چندا کی کوئی مست کرن آنکھوں کی مستی ہونٹوں کی سرخی چرا نہ لے جاگتے رہنا ہوا کا کوئی جھونکا حیا وتقدس کے رشتے چور چور نہ کر دے جاگتے رہناشب کے پچھلے پہر کی رعنائیوں میں خدا تجھ کو بھی شریک کر لے جاگتے رہنا گلاب چندا کی رگوں سے ساری شبنم نچوڑ نہ لے جاگتے رہنا رقیب تجھے‘ تری مجبتوں سے محروم نہ کر دےجاگتے رہنا‘ مرے دوست‘ جاگتے رہنا جاگتے ہی آزاد ہیں ‘جاگنا ہی زندگی
حرص کی رم جم حرص کی رم جم میں ملاں پنڈت گرجے کا فادر گر کا امین لمبڑ کے ڈیرے پر بیٹھے آنکھوں میں پتھر رکھ کر پکون کے گیت گائیں لوکن کے گھر بھوک کا بھنگڑا گلیوں میں موت کا خنجرکھیتوں میں خوف کی کاشت جیون تذبذب کی صلیب پر لٹکا تخلیق کی ابجد تقدیر کی ریکھا کیسے ٹھہرے گا؟
بن مانگے نیچے ہاتھ کی جنتدل والوں کو کب خوش آتی ہے تم نے کیوں سوچ لیا میں کوتاہ کوس سہی وہ تو تو کی بستی بستا ہے چترکار کوئی غیر نہیں کوئی دور نہیں وہ جانت ہیں کہ کیا ان کا ہے بن مانگے ان کو مل جائے گا
یقینی سی بات ہے یقینی سی بات ہے تمہیں کیوں یقین نہیں آتا کربلا کی بازگشت پہاڑوں میں کھو گئی ہے سہاگنوں نے سیاہ لباس پہن لیا ہے ان کے مردوں کے لہو میں یزید کی عطاؤں کا قرض اتر چکا ہے ہاں مگر جب پہاڑوں کو زبان مل جائے گی یقینی سی بات ہے بازگشت کے ہم زبان مجبور زندگی کو آزادی کو لب سڑک دیکھ سکیں گےماہ نامہ سوشل ورکر لاہور' مارح۔اپریل 1992
اپیل نفرت کی توپوں کے دہانوں پر دودھ پیتے بچوں کو نہ رکھو ان کی آنکھوں کی معصومیت معصومیت کی آغوش میں پلتے خواب خواب صبح کی تعبیر ہوتا ہے خواب مر گیے تو آتا کل مر جائے گا اور یہ بھی کہ ممتا قتل ہو جائے گی 'خوب جان لو نفرت کے تو پہاڑ بھی متحمل نہیں ہوتے کل کیوں کر ہو گا میں تم سے پھر کہتا ہوں نفرت کی توپوں کے دہانوں پر دودھ پیتے بچوں کو نہ رکھوماہ نامہ سوشل ورکر لاہور' جنوری-فروری 1992
اس سے پہلے اس سے پہلے کہ عمر کا تارا ٹوٹے مرے جیون کا ہر جلتا بجھتا پل مجھ کو واپس کر دوجو دن خوشییوں میں گزرا تقدیر نہیںعشق کی تپسیا کا اترن تھا مرے بولوں کی تڑپت مرے گیتوں کی پیڑا مرزے کی کوئی ہیک نہیںمرے اشکوں کا شرینتر تھا کے طعنے مینے اپنوں سن سن کر غیروں کے بھی کان پکے میں اس کو لوکن کی کیوں کالی ریتا سمجھوں یہ تو سچ کا پریوجن تھا اس سے پہلے کہ عمر کا تارا ٹوٹے مرے جیون کا ہر جلتا بجھتا پل مجھ کو واپس کر دو
ہر ان ہونی کا پرورتن کھولو اس سے پہلے کہ عمر کا تارا ٹوٹے مرے جیون کا ہر جلتا بجھتا پل مجھ کو واپس کر دو
واپسی بشارت کا جب در وا ہوا میں نے سوچاپہلے ابنی قسمت کا حال پڑھوں واں کچھ بھی نہ تھا جو مرا ہوتا لہو پسینہ جو مرا تھا مرے رقیبوں ان کے بچوں ان کے کتوں اور سوروں کو حدت بخش رہا تھا میں نے پھر سوچا جنگلوں میں جا بسوں درندوں کا وتیرا اپنا لوں انسان تھا جنگلوں میں کیسے جا بستا درندوں کی فطرت ‘درندگی محنت بنی ادم کا شیوا دو فطراتیں جنگل کا سینہ سما پائے گا؟ کچھ نہیں کو چوم کر میں نے بشارت کا دروازہ بند کر دیا
وقت کیسا انقلاب لایا ہے وقت کیسا عذاب لایا ہے تم کب لائق محبت ہوائینے میں اپنی شکل تو دیکھو قاصد یہی جواب لایا ہے گویا خط میں عتاب لایا ہے جو سر کے بل چلے تھے ناکام ٹھہرے پت جھڑ گلاب لایا ہے ذلیخا کا عشق سچا سہی وہ برہنہ پا کب چلی تھی پہیہ عمودی چال چلا ہے زندہ قبر میں اتر گیا ہے انکھ دیکھتی نہیں کان سنتے نہیں وقت کیسا انقلاب لایا ہے بارش قرض دار بادلوں کی بادل بینائی کو ترسیں زخمی زخمی ہر سہاگن کی کلائی بیوہ سولہ سنگار سے ہے وقت کیسا انقلاب لایا ہے وقت کیسا عذاب لایا ہے
سوال یہ ہے یہ سچ ہے محبت روح کو سکوں دل کو قرار دیتی ہے سوال یہ نہیں محبت کا احترام کرنا ہے زیست کے کالر پر سجا کر رکھنا ہے سوال یہ ہے کہ ہم احترام کیسے دیں اسے ہم تو بھوکے ہیں پیاسے ہیںجیون پر خوف کے بادل ہیں ہمیں توجیون کے ہووت کی چنتا ہے ہماری پسلیوں کے نیچے باما کا غلام چھپا بیٹھا ہے 'جس کی اپنی کوئی مرضی نہیں سوال یہ ہے کہ ہممحبت کا احترام کیسے کریں
سچ کے آنگن میں جب بھوک کا استر حرص کی بستی میں جا بستا ہےاوپر کی نیچے‘ نیچے کی اوپر آ جاتی ہے چھاج کی تو بات بڑی چھلنی پنچ بن جاتی ہے بکری ہنس چال چلنے لگتی ہے کوے کے سر پر سر گرو کی پگڑی سج جاتی ہے دہقان بو کر گندم فصل جو کی کاٹتے ہیں صبح کا اترن لے کر کالی راتیں سچ کے آنگن میں جا بستی ہیں ‘١٩٧٤مارچ ١٩
میں نے دیکھا پانیوں پر میں اشک لکھنے چلا تھا دیدہءخوں دیکھ کر ہر بوند ہوا کے سفر بر نکل گئی منصف کے پاس گیا شاہ کی مجبوریوں میں وہ جکڑا ہوا تھا سوچا پانیوں کی بےمروتی کا فتوی ہی لے لیتا ہوں ملاں شاہ کے دستر خوان پر مدہوش پڑا ہوا تھا دیکھا‘ شیخ کا در کھلا ہوا ہے سوچا شاید یہاں داد رسی کا کوئی سامان ہو جائے گا وہ بچارہ توپریوں کے غول میں گھرا ہوا تھا کیا کرتا کدھر کو جاتا دل دروازہ کھلا خدا جو میرے قریب تھا
بولا کتنے عجیب ہو تم بھی کیا میں کافی نہیں جو ہوس کے اسیروں کے پاس جاتے ہو میرے پاس آؤ ادھر ادھر نہ جاؤ میری آغوش میں تمہارے اشکوں کو پناہ ملے گی ہر بوند رشک لعل فردوس بریں ہو گی اک قظرہ مری آنکھ سے ٹپکا میں نے دیکھا شاہ اور شاہ والوں کی گردن میں بے نصیبی کی زنجیر پڑی ہوئی تھی مکرم بندہ جناب حسنی صاحب :سلام مسنونآزاد شاعری عام طور پر میرے سر پر سے گزر جاتی ہے۔ جب تک میں اس کے تانے بانے سلجھاتا ہوں پچھلے پڑھے ہوئے مصرعے ذہن کی تہوں میں کہیں گم ہو جاتے ہیں اور میں پھر نظم پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش میں گرفتار ہو جاتا ہوں۔آپ کی اس نظم کے مطالعہ میں ایسا صرف ایک بار ہوا اور میں جلد ہی منزل مقصود تک پہنچ گیا۔ یہ شاید اس لئے ہوا کہ آپکی نظم پر دلسوزی اور خلوص دل کی مہر لگی ہوئی ہے جیسےآپ اپنی آپ بیتی بیان کر رہے ہوں۔ نظم پڑھ کر متاثر ہوا۔ نظم کا پیغام عام سہی لیکن اہم ضرور ہے۔ ہم اہل دنیا بے تحاشہ اہل
اقتدار کی جانب بھاگتے ہیں اور اس تگ و دو میں بھول جاتےہیں کہ دینے والا تو کوئی اور ہی ہے۔ اللہ رحم کرے۔ ایسے ہی لکھتے رہئے۔ اللہ آپ کو ہمت اور طاقت عطا فرمائے۔ صلاحیتاور توفیق سے تو اپ بھر پور ہیں ہی۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔ سرور عالم را http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9132.0
نوحہ وہ قیدی نہ تھا خیر وشر سے بے خبر معصوم فرشتوں کی طرح جھوٹے برتنوں کے گردانگلیاں محو رقص تھیں اس کی ہر برتن کی زبان پہ اس کی مرحوم ماں کا نوحہ باپ کی بےحسی اور جنسی تسکین کا بین تھا آنکھوں کی زبان پہ اک سوال تھا ‘اس کو زندگی کہتے ہیں یہی زندگی ہے؟
صبح ہی سے وہ آگ عزازئیل کی جو سرشت میں تھی اس آگ کو نمرود نے ہوا دی اس آگ کا ایندھن قارون نے پھر خرید کیا اس آگ کو فرعون پی گیا اس آگ کو حر نے اگل دیا یزید مگر نگل گیا اس آگ کو میر جعفر نے سجدہ کیامیر قاسم نے مشعل ہوس روشن کی اس آگ کے شعلے پھر بلند ہیں مخلوق ارضی ڈر سے سہم گئی ہے ابر باراں کی راہ دیکھ رہی ہے کوئی بادل کا ٹکڑا نہیں صبح ہی سے تو آسمان نکھر گیا ہے 1980
جب تک وہ قتل ہو گیا پھر قتل ہوا ایک بار پھر قتل ہوا اس کے بعد بھی قتل ہوا وہ مسلسل قتل ہوتا رہاجب تک سیٹھوں کی بھوک‘ نہیں مٹ جاتی جب تک خواہشوں کا‘ جنازہ نہیں اٹھ جا وہ قتل ہوتا رہے گا وہ قتل ہوتا رہے گا
Search
Read the Text Version
- 1
- 2
- 3
- 4
- 5
- 6
- 7
- 8
- 9
- 10
- 11
- 12
- 13
- 14
- 15
- 16
- 17
- 18
- 19
- 20
- 21
- 22
- 23
- 24
- 25
- 26
- 27
- 28
- 29
- 30
- 31
- 32
- 33
- 34
- 35
- 36
- 37
- 38
- 39
- 40
- 41
- 42
- 43
- 44
- 45
- 46
- 47
- 48
- 49
- 50
- 51
- 52
- 53
- 54
- 55
- 56
- 57
- 58
- 59
- 60
- 61
- 62
- 63
- 64
- 65
- 66
- 67
- 68
- 69
- 70
- 71
- 72
- 73
- 74
- 75
- 76
- 77
- 78
- 79
- 80
- 81
- 82
- 83
- 84
- 85
- 86
- 87
- 88
- 89
- 90
- 91
- 92
- 93
- 94
- 95
- 96
- 97
- 98
- 99
- 100
- 101
- 102
- 103
- 104
- 105
- 106
- 107
- 108
- 109
- 110
- 111
- 112
- 113
- 114
- 115
- 116
- 117
- 118
- 119
- 120
- 121
- 122
- 123
- 124
- 125
- 126
- 127
- 128
- 129
- 130