Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore مقصود حسنی کے چالیس افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ

مقصود حسنی کے چالیس افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ

Published by maqsood5, 2017-05-23 07:36:45

Description: مقصود حسنی کے چالیس افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ
تجزیہ نگار
وی بی جی
اردو انجمن ڈاٹ کام
پیش کار
پروفیسر نیامت علی
ابوزر برقی کتب خانہ
مئی ٢٠١٧ا

Search

Read the Text Version

‫وہ کون تھے‬ ‫محتر جن ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سلا مسنون‬ ‫تحریر ایسی ہے‪ ،‬کہ پڑھنے کے فوراً ب د دل چ ہت ہے کہ بس‬ ‫اس پر کچھ لکھتے چ ے ج ئیں۔ ہ نے پڑھ لی تھی‪ ،‬اور پھر‬ ‫لکھنے چ ے تو محتر س جد پرویز انس ص ح نے کچھ‬‫وض حت کے لیئے درخواست کر دی۔ ہ رک گئے کہ ا اپ سے‬ ‫مذید کچھ سیکھنے سمجھنے کو م ے گ ۔‬ ‫جن ب لکل بج ہے‪ ،‬بندو کے زور پر فتح ‪ ،‬فتح نہیں ہوتی۔‬ ‫ب کہ ط قت ک است م ل ہی ہم رے نذدیک بزدلی ہے۔ کی ہی اچھ‬‫ہوت کہ وہ تصویر بھی ہمیں دیکھنے کو مل ج تی۔ درست ہے کہ‬ ‫کسی مذہ نے‪ ،‬چ ہے ہ اسے کتن ہی جھوٹ کیوں نہ ث بت‬ ‫کریں‪ ،‬کبھی جبر کو پسند نہیں‪ ،‬کی ۔ ہر مذہ نے نیکی اور بدی‬ ‫کے فر کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ نیکی کرنے اور‬ ‫بدی سے پرہیز ک درس دی ہے۔ سدھ رتو ک اپ نے ذکر کی ۔‬ ‫ایک ب ر فرم رہے تھے کہ دو ط قتیں وجود رکھتی ہیں۔ نیکی‬ ‫کی اور بدی کی۔ نیکی پر چ و اور بدی سے رکو۔ تو کسی نے‬ ‫پوچھ کہ نیکی اور بدی ک کیسے پتہ چ ے گ کہ کونسی نیکی‬‫ہے اور کونسی بدی۔ مسکرا کر فرم ی کہ اپنے اپ سے پوچھو۔‬‫کی تمہیں نہیں م و کہ کی نیکی ہے اور کی بدی۔ پھر فرم ی کہ‬

‫نیکی کی ط قت سے س کچھ وجود میں ای ہے۔ ہر مخ و کی‬ ‫مٹی میں نیکی اور بدی کی ت ری ک ع موجود ہے۔ ان ک مق‬‫واق ی بہت اونچ تھ ۔ ا اس طرح کی ت یم ت کوئی ع شخص‬ ‫نہیں دے سکت ۔ س ج نتے ہیں کہ انہوں نے تخت ش ہی چھوڑ‬ ‫کر جنگل میں کتنے ہی دن چ ہ ک ٹ وہ بھی صرف اس لیئے کہ‬ ‫انس ن کے دکھوں ک حل ج ن سکیں۔ کوئی خدا کو اس طرح‬ ‫پک رے اور اسے جوا نہ م ے ایس تو ہوت نہیں۔‬ ‫اپ نے سقراط ک ذکر کی ۔ ان کی ت یم ت کو ہمیں ت صیل سے‬ ‫پڑھنے کی ضرورت ہے۔ البتہ سری گرو گرنتھ ص ح کو تو ہ‬ ‫نے بھی پڑھ ہے۔ چونکہ ب ب گرو ن نک کی امد انبی کے ب د‬ ‫ہوئی ہے‪ ،‬سو ان کے ب رے یقین ً کہ ج سکت ہے کہ وہ پیغمبر‬ ‫نہ تھے۔ لیکن ان کی ت یم ت بھی ویسی ہی ہیں جو نیکی کی‬ ‫ترغی دیتی ہیں۔ ہم رے خی ل سے تو ب ب گرو ن نک ص ح راہ‬ ‫بھٹکے ہوئے س لک تھے۔ ہمیں راسپوٹین کے مذہ کے ب رے‬ ‫بھی پڑھنے ک ات ہؤا۔ جن وہ ں بھی تشدد برطرف ہے اور‬ ‫وہ بھی بچوں پر۔ خدا کی پن ہ۔‬‫اپ کی یہ تحریر خصوصی طور پر اہ ہے۔ اس کی ت ی وقت کی‬ ‫اشد ضرورت ہے۔ ہر کوئی صرف اپنی بیوی کے بچے کو اپن‬‫بچہ سمجھت ہے اور یہ ع ل ج نوروں پرندوں ک بھی ہے۔ لیکن‬ ‫ہ سمجھتے ہیں کہ بچے س نجھے ہونے چ ہیئں۔‬‫پچھ ے دونوں ایک ص ح نے فیس بک پر کسی بھوکے ننگے‬

‫بچے کی تصویر پر اپنے خی لات ک اظہ ر ان ال ظ میں فرم ی کہ‬ ‫‪:‬یہ خدا ص ح ک بچہ ہے۔ اسے کہو سنبھ لت کیوں نہیں اپن‬ ‫بچہ‪ :‬۔۔۔ ہ نے جواب ً عرض کی تھی کہ ‪:‬ص ح ! یہ خدا ص ح‬ ‫ک بچہ نہیں ہے۔ یہ میرا بچہ ہے۔ اج اپ اپنی بیوی کے بچوں‬‫کے منہ میں تو اس بچہ کے س منے خود ائس کری کے چمچے‬ ‫ڈالتے ہیں اور یہ نہیں کہتے کہ خدا ا کر ڈالے‪ ،‬لیکن اسے خدا‬ ‫ک بچہ کہہ کر اس کے حوالے کرتے ہیں۔ میرا وعدہ ہے اپ‬ ‫سے کہ کل یہ بچہ اپ کے بچوں کو بموں کی بھینٹ چڑھ ئے گ‬ ‫‪:‬اور ت اپ کہیں گے کہ یہ خدا ک نہیں شیط ن ک بچہ ہے‬‫کچھ زی دہ ہی جذب تی کر دی اپ کی تحریر نے۔ دع ہے کہ اپ کی‬‫اس تحریر سے زی دہ سے زی دہ لوگ است ضہ ح صل کر سکیں۔‬ ‫دع گو‬ ‫وی بی جی‬‫‪bila shuba A1 izhar-e-khayaal‬‬‫‪yah dehshast'gard hain‬‬‫‪ke onwan se acha khasa mazmoon aap ko www.scribd.com par‬‬‫‪mil ja'ay ga. wahaan mein ne tasaveer bhi di hain. sikhism par‬‬‫‪maira eak mazmoon hai aap bhi daikh lain‬‬

‫محتر جن ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سلا‬ ‫بہت خو جن ۔ اندازہ ہوت ہے کہ اپ کی نگ ہ کہ ں کہ ں تک‬‫پہنچی ہے۔ اور کونس م شرتی‪ ،‬سی سی‪ ،‬دینی م م ہ نہ ہوگ کہ‬ ‫جہ ں اپ نے اس قدر ع ح صل کر رکھ ہے اور ہ تو یہ‬ ‫سمجھتے ہیں کہ فقط م ملات پر ع ح صل کر لین ہی ک فی‬‫نہیں ہوت ‪ ،‬ب کہ اپ کی تحریریں ص ف بت تی ہیں کہ کس قدر غور‬ ‫بھی کرن پڑا ہو گ اور پھر کسی نتیجہ کی طرف ذہن راغ ہؤا۔‬ ‫ہم ری طرف سے اس مضمون پر بھی داد قبول کیجے۔‬‫در اصل ایک ہی منظر کو دیکھنے کے مخت ف مق م ت ہو سکتے‬ ‫ہیں۔ اپ نے جس مق سے اس منظر کو دیکھ اسے بہت ہی‬ ‫خوبصورت انداز میں بی ن بھی کر دی ۔ اپ کے ق کو قدرت نے‬ ‫زور بخش ہے‪ ،‬کہ ہمیں وہ من ظر ص ف دکھ ئے ب کہ سیر‬‫کروائی۔ ہ اس م م ہ کو ایک اور نقطہ نگ ہ سے دیکھتے ہیں۔‬ ‫اس ک مقصد اپ کے ب ت سے غیر مت ہون ہر گز نہیں ہے۔‬ ‫ب کہ ایک نقطہ نگ ہ سمجھ لیجے جو ہ اپنے ال ظ میں اپ تک‬ ‫پہنچ نے کی کوشش کرتے ہیں‪ ،‬اگرچہ ہم رے ہ تھ میں ایک‬ ‫کمزور ق ہے۔‬ ‫اہ نقطہ سے ابتدا کرتے ہیں کہ حضرت موسی کی قو یہودی‪،‬‬ ‫عیسی کی قو عیس ئی‪ ،‬اور محمد کی قو مس م ن کہلاتی ہے۔‬ ‫اگر مس م ن کی پہچ ن ک مہ کے پہ ے حصہ تک سمجھی ج ئے‬ ‫تو دنی کی تقریب ً ‪ ۹‬فی صد اب دی مس م ن نظر ائے گی۔ ی نی‬

‫توحید پر ق ئ ۔ اگر نیک اور اچھے اعم ل دیکھے ج ئیں تو بھی‬‫ایک بہت بڑی ت داد ک مہ کو م نے ی نہ م نے‪ ،‬مس م ن نظر ائے‬ ‫گی۔ مس م ن کی پہچ ن ی تشخص کو ک مہ کے دوسرے حصے‬ ‫سے ہی پہچ ن ج ت ہے۔‬ ‫اپ نے جو ب تیں بی ن فرم ئی ہیں وہ بھی ب لکل بج ہیں۔ سکھ‬ ‫مذہ صوفی نہ طرز ہے۔ اس سے ہ بھی فی صد مت‬ ‫ہیں۔ پھر سوچنے کی ب ت یہ اتی ہے‪ ،‬کہ صوفی نہ طرز ع‬ ‫اسلا سے الگ کیسے اور کیوں۔‬ ‫ہ نے اس ب ت ک جوا جہ ں پ ی ی جسے ہ نے جوا سمجھ‬ ‫وہ صوفی کے کت بوں میں موجود ہے۔ اور خ ص طور پر مجدد‬ ‫الف ث نی ص ح نے یہ نقطہ واضح کر رکھ ہے۔‬ ‫فرم تے ہیں کہ صوفی کے رستے پر ہر شخص‪ ،‬چ ہے ہو‬ ‫مس م ن ہو ی نہ ہو‪ ،‬چل سکت ہے‪ ،‬اور درج ت پ سکت ہے۔‬‫ایسے کئی صوفی ہندوست ن میں بھی مل ج تے ہیں جو ہندو ہیں‪،‬‬ ‫لیکن نہ صرف س دھو ب بے بن گئے ہیں‪ ،‬ب کہ چھوٹے موٹے‬ ‫ایسے م جزے بھی کر دکھ تے ہیں جن کو دیکھ کر لوگ دنگ‬‫رہ ج تے ہیں اور ان کے پیروک ر ہیں۔ البتہ چونکہ وہ اسلا کے‬ ‫راستے پر نہیں ہوتے سو راہ بھٹک سکتے ہیں۔ یہ راستہ بہت‬ ‫کٹھن ہے اور ہر قد راستہ بھولنے ک اندیشہ ہوت ہے۔ ایسی‬ ‫صورت میں ضروری ہے کہ ایک است د ی مرشد بھی ہو جو اپ‬ ‫کو راستہ بھٹکنے سے بچ ئے رکھے۔ مدد الف ث نی ص ح‬

‫فرم تے ہیں کہ است د کی غیر موجودگی میں ی پھر اسلا کے‬ ‫راستہ سے ہٹ کر کسی نے شدھ گی ن کی وہ راستہ ضرور‬ ‫بھول ج ت ہے۔ اور ایس ش ید ہی کبھی ہؤا ہو کہ کوئی ان دو‬ ‫لازمی چیزوں سے قطع نظر رستے پر چل کر منزل پ سک ہو۔‬‫ان کے نذدیک کئی صوفی راستہ بھٹک گئے ہیں۔ اور ہ نے اس‬ ‫ب ت سے سکھوں سے مت یہ نتیجہ اخذ کر لی کہ ممکن ہے‬ ‫کہ ب ب گرو ن نک کہیں راستہ بھٹکے ہوں۔ ان کے عمل میں‬‫نم ز‪ ،‬روزہ‪ ،‬وغیرہ جیسے اسلامی احک م ت کی پ بندی نہیں نظر‬ ‫ائی‪ ،‬لیکن ان ک طرز زندگی‪ ،‬ان کی ت یم ت اسلا ہی کی‬ ‫ت یم ت ہیں۔ ان کی زندگی کے اخری دن اسلا پر زی دہ پ بند‬ ‫ہوتے چ ے گئے۔ ش ید ی پھر یقین ً انہوں نے اسلا کو دری فت‬ ‫کر لی تھ لیکن ان کی ت یم ت نے ایک ع یحدہ مذہ کی بنی د‬ ‫رکھ دی۔ جس کی وجہ ہم رے ذہن میں یہی اتی ہے‪ ،‬کہ اسلا‬ ‫ایک دین ہے جو الله نے بن بن ی مس م نوں کے حوالے کر دی ۔‬‫لیکن کوئی شخص محنت سے ی گی ن سے اس ک ایک ایک رکن‬ ‫اور ایک ایک ایت قرانی کو دری فت نہیں کر سکت ۔‬ ‫یہ ہم رے خی لات ہیں اور جو چھوٹی موٹی سی اور محدود عقل ہے‬‫اس ک بی ن ہے۔ ہ سکھوں کو مس م ن نہیں سمجھ سکتے‪ ،‬لیکن ان ک‬ ‫احترا اپنی جگہ ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ مس م نوں ک طرز عمل انہیں‬ ‫کبھی مس م ن ہونے نہیں دے گ اور نہ وہ خود کو مس م ن کہ وا کر‬ ‫اپنی رہی سہی عزت گنوان چ ہیں گے۔ لیکن س تھ یہ بھی یقین ہے کہ‬ ‫انہیں تھوڑی ہی ت ی کی ضرورت ہے۔ وہ دور نہیں ہیں۔‬

‫امید ہے اسے اپ اختلاف رائے نہ سمجھیں گے۔ اور اپنی محبتوں سے‬‫اس ن چیز کو محرو نہ فرم ویں گے۔ کہ ہ فقط جو ح ل سو ح ضر کے‬ ‫ف رمولے پر عمل کرتے ہیں۔‬ ‫دع گو‬ ‫وی بی جی‬bari hi khoob'surat malomaat aap ne farahum farmaee hain is keliay ehsan'mand hoon. Allah aap ko khush rakhe. namaz rozahaj waghera ki adaegi mosalman honay ke liay zarori hai laikinislam ka amli zindgi se ta'alaq hai balkah yah zindgi kayatwaar aur saliqay ka naam hai. is zael main yah mazmoonparhain ge to ehsan ho ga. zarori nahain kah aap is se itfaqfarmaein. dosra darwazay se darwazay tak par aap ki ra'aybaqi ha

‫محتر جن ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سلا مسنون‬‫کی ہی خوبصورت مضمون پیش کی اپ نے۔ کئی ب ر سنتے کہتے رہے‬ ‫کہ ہ لوگ کیسے مس م ن ہیں کہ عمل نہیں سے ع ری ہیں۔ لیکن جن‬‫ال ظ اور انداز میں اپ نے یہی ب ت کہی ہے۔ دل میں چبھ سی گئی ہے۔‬ ‫بہت ہی ش ندار جن ۔ بھرپور داد۔‬ ‫اپ نے ہم ری ع دت خرا کر دی ہے کہ اپنے خی لات ک اظہ ر اس‬ ‫طرح کھل کر کرنے لگ گئے ہیں‪ ،‬گوی بڑے ع ل ف ضل ہوں۔ ح لانکہ‬ ‫ہ خ موشی اختی ر کی کرتے رہے ہیں‪ ،‬کہ ص ح اپنے خی لات کی‬ ‫ہمیں خود اتنی سمجھ نہیں تو انہیں کی بی ن کی ج ئے۔ دنی میں اتنے‬ ‫سمجھ رکھنے والے لوگ ہیں۔ ہم ری فضولی ت کی یہ ں کی ضرورت‪،‬‬ ‫لیکن ا اہستہ اہستہ اپ نے ہمیں ع دت ڈال دی ہے کہ جو من میں‬ ‫ائے لکھے چ ے ج تے ہیں۔ سو اسی ضمن میں ہم رے ذہن میں کچھ‬ ‫خی لات ‪:‬جمہوریت‪ :‬کے حوالے سے گزرے ہیں۔ پیش کرنے کی‬ ‫جس رت کر رہے ہیں۔‬ ‫ہم رے خی ل میں جمہوریت کی اس س کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔‬‫اس حوالے سے سی سی ت ب ت یہ ں سے شروع کرتی ہے‪ ،‬کہ دنی میں‬ ‫ج کوئی بچہ پیدا ہوت ہے تو اس دنی کی ہر چیز پر اتن ہی ح لے‬ ‫کر پیدا ہوت ہے‪ ،‬جتن کسی اور ک ۔ یہ ں ہر کسی کو اتنی ہی ازادی‬ ‫ح صل ہے جتنی کسی اور کو۔ جمہوریت کسی مذہ ‪ ،‬تنگ‪ ،‬نسل کو‬ ‫نہیں م نتی‪ ،‬ب کہ ایس نظ ہے جو لوگوں کو یہ ح دیتی ہے کہ وہ‬‫اپنی مرضی سے جو چ ہیں کریں۔ عیس یوں کے م ک میں عیس یت اور‬ ‫مس م نوں کے م ک میں اسلا ۔ ا ب ت ائی کہ اختلاف رائے ک کی کی‬‫ج ئے۔ ایسی صورت میں یہ طے پ ی کہ‪ ،‬زی دہ لوگ جو چ ہتے ہونگے‬

‫وہ ہوگ ۔ مثلاً گھر میں وہی پکے گ ‪ ،‬جو زی دہ لوگوں کی رض مندی‬‫ہوگی۔ اس ک ف ئدہ یہ کہ زی دہ سے زی دہ لوگ کھ نے سے اف دہ ح صل‬ ‫کر سکیں گے۔ ک لوگ بدمزہ ہونگے۔ ایک خی ل یہ بھی ہے کہ کسی‬‫مرض ک علاج تو ڈاکٹر ہی بت سکتے ہیں۔ ع لوگوں کی رائے تو غ ط‬ ‫ہی ہو گی۔ ان کی ب ت بج ہے۔ لیکن اس طرح ب ت ا ج تی ہے ڈاکٹروں‬ ‫کی کہ وہ کتنے ع ل ف ضل ہیں۔ دوسری ب ت کہ اسی ڈاکٹر نے صرف‬ ‫ڈاکٹری نہیں کرنی ب کہ اسے موچی‪ ،‬مستری‪ ،‬درزی اور ج نے کی کی‬ ‫کرن ہے۔ وہ س میں م ہر نہیں ہو سکت ۔ ایسی صورت میں ایس‬ ‫شخص چ ہیے جو ص ف نیت رکھت ہو۔ اور اس کو الیکٹ کرنے کے‬ ‫لیئے ہمیں صرف پڑھے لکھے لوگوں کو ووٹ ک ح نہیں دین ہوت ۔‬ ‫ایک ح قہ یہ بھی کہت ہے کہ لوگ اپنی ن لی پکی کرانے کے لیئے‬ ‫ووٹ دے دیتے ہیں۔ جبکہ ہم را یہ خی ل ہے کہ وہ درست کرتے ہیں۔‬‫م ک کی ترقی اسی میں ہے کہ ن لی ں پکی ہو ج ئیں۔ اگر ہم رے مح ے‬ ‫کے گھروں کی ن لی پکی نہیں ہوتی تو کوئی ب ت نہیں ‪ ۳‬گھروں‬ ‫کی ن لی ں پکی ہو ج ئیں یہ بہتر ہے۔ س لوگ اپنے علاقہ کی ترقی ک‬ ‫م د دیکھتے ہوئے ووٹ دیں تو یقین ً ک می امیدوار جس علاقہ ک‬‫ہوگ وہ ں زی دہ اب دی اس کے مثبت ک سے ف ئدہ ح صل کر سکے گی۔‬ ‫بندو دلوں کو فتح نہیں کر سکتی اور نہ ط قت کے ذری ے کچھ کسی‬ ‫پر مس ط کی ج ن چ ہیئے۔ ا کچھ لوگ اسلا کی ت ریف میں اسے دنی‬ ‫کی ہر چیز ک علاج کہتے ہیں‪ ،‬جبکہ ہمیں ذاتی طور پر اس سے‬ ‫اختلاف ہے۔ جیسے اسلا میں کہیں بھنڈی گوشت بن نے ک نسخہ‬ ‫موجود نہیں ایسے ہی نظ حکومت اسلا ک مضمون نہیں ہے۔ وہ‬ ‫ان رادی طور پر ہر شخص کو ت ی دیت ہے جو مل کر ایک س طنت بن‬

‫سکتے ہیں۔ اسلا ہم ری نظر میں جمہوریت ہی ک درس دیت ہے۔‬‫کیونکہ دنی میں دو ہی طریقے ہیں حکومت کے۔ ایک یہ کہ کوئی جبراً‬ ‫ح ک بن ج ئے اور کسی کو جوابدہ نہ ہو‪ ،‬اور دوسرا یہ کہ لوگ خود‬ ‫ح ک ط ین ت کریں۔‬ ‫جمہوریت کی روح یہ ہے کہ عوا ک نم ئندہ چ ہے خود اختلاف ہی‬‫کیوں نہ رکھت ہو۔ ہر مسئ ہ اپنے لوگوں کے س منے پیش کرے گ اور‬ ‫جو کچھ لوگ اسے کہیں گے ی چ ہتے ہونگے‪ ،‬وہ وہی اعوان میں‬ ‫بی ن کرے گ ۔ لیکن ایس ہوت نہیں ہے۔ جس کی وجہ جمہوریت کی‬‫کمزوری ہے۔ جمہوریت کو صدی ں لگ ج تی ہیں پ تے ہوئے۔ جمہوریت‬ ‫لوگوں کو سکھ تی چ ی ج تی ہے کہ کیسے انہوں نے اپن نم ئندہ‬ ‫الیکٹ کرن ہے۔ سو اسے وقت دین ہوت ہے۔ ہم ری قو ہمیشہ سے‬ ‫غلامی میں ہی رہے ہے‪ ،‬سو اج بھی ووٹ اسی کو دیتی ہے جو لمبی‬‫گ ڑی سے اترے اور اس کے س تھ بندو بردار لوگ ہوں۔ امیر کی بلا‬ ‫وجہ بہت عزت کرتی ہے اور غری سے ن رت کرتی ہے۔ غری کو‬‫ووٹ نہیں دیتی‪ ،‬ب کہ اس پر ہنستی ہے‪ ،‬اور امیر نہ بھی چ ہے تو اس‬ ‫کی خ د بننے کی کوشش کرتی ہے۔ ہم رے ذاتی خی ل میں جمہوریت‬ ‫انہیں س کچھ سکھ دے گی۔ کچھ وقت لگے گ ۔‬ ‫ہ نے کچھ زی دہ ہی لکھ دی ۔ م ذرت کے س تھ کہ اپ ک وقت برب د‬ ‫کرتے ہیں۔ اپ کی تص ویر دیکھ کر بھی خوشی ہوئی کہ جن دکھ ئی‬ ‫کیسے دیتے ہیں۔‬

‫مضمون پر ایک ب ر پھر داد کہ جس طرح مس م نوں کو ائینہ دکھ نے‬‫ امید ہے کہ کچھ سر شر سے جھکیں گے‬،‫کی کوشش کی ہے اپ نے‬ ‫ضرور۔‬ ‫دع گو‬ ‫وی بی جی‬shukarriya janabaap ko nasar likhte daikh kar yaqein manain mujhy bohat khushihoti hai. zarori nahain log aap se motfiq hoon yah aap darustkeh rahe hoon aap apna noqta e nazar to paish kar rahe hotehain. behtri ki rahain khulti hain. mera ab bhi moaqaf hai aapacha likhte hain acha likh sakte hai issi tara likhte rehe to kamalke nasaar ho jaein ge.Allah aap ke qalam ko barkat de

‫محتر جن ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سلا‬ ‫اپ ک بیحد شکریہ کہ اس قدر ش قت سے پیش اتے ہیں‪ ،‬وگرنہ ہ اس‬ ‫ب ر کچھ سہمے ہوئے تھے کہ کہیں کچھ گراں ن گزرے۔ اپ کی ب ت‬ ‫بج ہے کہ اختلاف رائے ہمیشہ سے ہوتی ہی ہے۔ بقول جن ج ن ای ی‬ ‫ص ح ‪:‬اؤ اختلاف رائے پر ات کریں‪ :‬۔۔ ہ اپ کو داد دینے اتے‬ ‫ہیں‪ ،‬لیکن اپ ویسی کی ویسی ہمیں ہی لوٹ دیتے ہیں۔ الله پ ک اپ کو‬ ‫ہمیشہ صحتمند اور خوش رکھیں۔ ہ ‪:‬دروازے سے دروازے تک‪ :‬کو‬ ‫دو سے تین ب ر پڑھ چکے ہیں‪ ،‬لیکن انہم ک سے پڑھنے ک موقع‬ ‫نہیں مل سک ۔ اپ کی تحریریں ایسے ہی نظر سے گزار لین ہمیں گوارا‬ ‫نہیں۔ ج د بغور اور توجہ کے س تھ پڑھ کر ح ضر ہونگے۔‬ ‫دع گو‬ ‫وی بی جی‬‫‪kisi tehreer ko baar baar parhnay ya kisi cheez ko bar bar‬‬‫‪malahza karnay ki adat bohat hi achi hai. is se mahaheem ke‬‬‫‪dar wa hotay chalay jatay hain.‬‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8981.0‬‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook