Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore بارہ اسلامی مقالے

بارہ اسلامی مقالے

Published by maqsood5, 2018-06-21 03:49:14

Description: بارہ اسلامی مقالے
مقصود حسنی
فری ابوزر برقی کتب خانہ
جون ٢٠١٨

Search

Read the Text Version

‫و‪ :‬اور‬ ‫و‪ :‬اور‘ اردو میں واؤ اور کے لیے است م ل ہوت ہے۔ اردو میں واؤ‬‫مرکب ت میں اور کے م نوں میں مست مل ہے۔ مثلا ش وروز‘ ش دی و‬ ‫غ ‘ سی ہ و س ید وغیرہ۔‬ ‫نست ین‪ :‬آسرا‬ ‫ل ظ نست ین اردو میں مست مل نہیں۔‬‫آسرا سہ را‘ گرتے کو تھ من ‘ گرے کو اٹھ ن ۔ چھت میسر آن ۔ م ش کی‬‫صورت‘ کسی کے حوالہ سے پیدا ہون ۔ یہ ل ظ‘ صوری و م نوی اعتب ر‬‫سے‘ فصیح و ب یغ ہے۔ اسی طرح انس نی زندگی کے‘ ہر گوشے سے‘‬ ‫کسی ن کسی حوالہ سے‘ منس ک ہے۔ اردو والوں کے لیے‘ یہ ل ظ‬ ‫قط ی غیرم نوس نہیں۔‬ ‫صراط ‪ :‬راہ‬ ‫ل ظ صراط اردو میں مست مل نہیں۔‬‫اہل زب ن نے‘ اس ک ترجمہ راہ‘ رستہ کی ہے۔ حضرت ش ہ ص ح نے‬ ‫بھی یہ ہی ترجمہ کی ہے‘ جو غیرم نوس نہیں۔‬ ‫مستقی ‪ :‬سیدھی‬‫ل ظ مستقی اردو والوں کے لیے اجنبی نہیں اور یہ ت ہیمی اعتب ر سے‬ ‫سیدھ ی سیدھی رواج رکھت ہے۔ جیسے‬

‫خط مستقی‬ ‫ان مت‪ :‬دی‬ ‫ان مت‪ :‬دی ‘ ن مت اردو میں مست مل ہے۔ دی کے لغوی م نی محبت‘‬‫عن یت‘ ش قت‘ رح ‘ مہرب نی‘ ترس‘ بخشش وغیرہ ہیں۔ متن کے لح ظ‬ ‫سے م ہو بخشش کے قری تر ہیں اس لیے دان دینے والا۔ ت ہ دان‬‫کی نوعیت دیگر دی لو حضرات سے الگ تر ہے۔ وہ ایس دان دینے والا‬ ‫ہے‘ کہ اس س دان دینے والا کوئی نہیں۔ ن ہی اوروں کے پ س اس س‬ ‫دان ہے۔ اس دان میں‘ اس کی محبت‘ عن یت‘ ش قت‘ رح ‘ مہرب نی‘‬ ‫ترس ش مل ہوتے ہیں۔ گوی اس کی دی اوروں سے الگ ترین ہے۔‬ ‫المغضو ‪ :‬جھنجلاہٹ‬‫جھنجلاہٹ‘ غصہ اور خ گی کے لیے مست مل ہے۔ جھنجل سخت آندھی‬‫کے لیے ہے۔ ہٹ ک لاحقہ ق ئ ہونے کے لیے ہے‘ ی نی سخت آندھی ک‬ ‫آن ۔ دری ک حد سے بڑے مدوجر۔ یہ اپنی حقیقت میں غض ہی کی‬ ‫صورت ہے۔ یہ ں غصہ اور خ گی کی گرفت میں آئے مراد ہے۔ خ گی‬ ‫خ سے اور خ غصہ اور ن راضگی ہی تو ہے۔‬ ‫الضآلین‪ :‬کوراہوں کی‬ ‫الضآلین‪ :‬کوراہوں کی‘ ی نی جو اصل راہ سے ہٹ گی ہو۔ کوراہ غیر‬ ‫م نوس نہیں۔ کو‘ من ی م ہو ک ح مل ہے۔ مثلا کو‪ -‬ت ہ‘ کو‪ -‬ت ہی‘ کو۔‬

‫ہڈ‘ کو۔ سنگ‘ کو۔ ریت وغیرہ۔ یہ س بقہ اپنی اصل میں‘ مکمل ی جزوی‬ ‫غ طی‘ خرابی‘ کجی‘ کمی‘ خ می‘ بدنم ئی‘ بدن می‘ بدک ری وغیرہ کے‬ ‫لیے مخصوص ہے۔ یہ ں بھی ان ہی م نوں میں است م ل ہوا ہے۔ کو۔‬ ‫راہ ی نی راہ سے ہٹ ہوا۔‬ ‫‪.................................‬‬ ‫ترجمہ سورتہ‬ ‫پہ ے ہی پہل ن لیت ہوں من موہن ک جوہ بڑی نی ہ موہ والا ہے س‬ ‫راحت من موہن کو ہے جو س رے سنس ر ک پ لن ہ ر بڑی نی ہ موہ ک‬ ‫مہر والا ہے جس کے بس میں چکوتی ک دن ہے۔ ہ تیرا ہی آسرا‬ ‫چ ہتے ہیں اور تجہی کو پوجتے ہیں چلا ہ کو سیدھی راہ ڈگ مگ‬ ‫نہیں۔ ان لوگوں کی جن پر تیری دی ہوگی۔ نہ ان کی جن پر تیری‬ ‫جھنجلاہٹ ہوئی نہ راہ کوراہوں کی۔ اور نہ راہ کھوئے ہووں کی۔ اور‬ ‫راہ بھٹکے ہووں کی۔ اس مہ بید کے پرمیشور ہونے میں کوئی وگدھ‬ ‫نہیں۔ وہ بھگتوں کو بھ ی راہ پر لات ہے۔ جو اندیکھے دھر لاتے ہیں‬‫اور پوج کو سنوارتے ہیں اور ہم رے دیئے ک دان بھی کرتے ہیں۔ اور‬ ‫جو جو تیرے بل اترا اس کو اور جو تجھ سے پہ ے ات را گی اس کو‬‫جی سے م نتے ہیں اورپچھ ے جگ کو بھی جی میں ٹھیک ج نتے ہیں۔‬‫یہی لوگ اپنے پ لن ہ ر کی راہ پر ہیں۔ اور یہی اپنی امنگ پ ون ہ ر ہیں۔‬ ‫اس میں کوئی وگدھ نہیں کہ م یچھوں کو تو کیس ہی ڈراوے ی نہ‬‫ڈراوے وہ دھر نہیں لاویں گے۔ من موہن نے ان کے جی اور ک نوں پر‬ ‫ٹھپ لگ دی ہے اور ان کے نینوں میں موتی پھرا ہوا ہے اور کے لیے‬ ‫بھ ری م ر ہے۔‬ ‫ش ہ فضل الرحمن گنج مرادآب ی‬

‫فرہنگ سورتہ ف تحہ‬ ‫ال‬ ‫س‬ ‫حمد‬ ‫راحت‬ ‫الله‬ ‫من موہن‬ ‫ر‬ ‫پ لن ہ ر‬ ‫ال‬ ‫س رے‬ ‫ع مین‬ ‫سنس ر‬ ‫ال‬ ‫بڑی‬ ‫رحمن‬

‫نی ہ موہ‬ ‫الرحی‬‫مہر والا‬ ‫م لک‬‫بس میں‬ ‫یو‬ ‫دن‬ ‫الدین‬ ‫چکوتی‬ ‫ای ک‬‫تجہی کو‬ ‫ن بد‬ ‫پوجتے‬ ‫و‬ ‫اور‬ ‫ای ک‬ ‫تیرا‬ ‫نست ین‬

‫آسرا‬ ‫اھدن‬ ‫ہ کو‬ ‫الصراط‬ ‫راہ‬ ‫المستقی‬ ‫سیدھی‬ ‫ان مت‬ ‫دی‬ ‫ع یھ‬ ‫جن پر‬ ‫غیر‬ ‫جن پر‬ ‫المغضو‬‫جھنجلاہٹ‬ ‫ع یھ‬ ‫ان کی‬ ‫و‬

‫اور‬ ‫الضآلین‬ ‫کوراہوں کی‬ ‫‪.................................‬‬‫پہ ے ہی پہل ن لیت ہوں من موہن ک جوہ بڑی نی ہ موہ والا ہے‬ ‫الحمد لله‬ ‫س راحت من موہن کو ہے‬ ‫ر ال مین‬ ‫جو س رے سنس ر ک پ لن ہ ر‬ ‫الرحمن الرحی‬ ‫بڑی نی ہ موہ ک مہر والا ہے‬ ‫م ک یو الدین‬ ‫جس کے بس میں چکوتی ک دن ہے۔‬ ‫ای ک ن بد و ای ک نست ین‬ ‫ہ تیرا ہی آسرا چ ہتے ہیں اور تجہی کو پوجتے ہیں‬ ‫ل ظی و ترتیبی‬ ‫تجہی کو پوجتے ہیں اور ہ تیرا ہی آسرا چ ہتے ہیں‬

‫اھدن الصراط المستقی ان مت ع یھ‬ ‫چلا ہ کو سیدھی راہ ڈگ مگ نہیں۔ ان لوگوں کی جن پر تیری دی‬ ‫ہوگی۔‬‫چلا ہ کو سیدھی راہ ڈگ مگ نہیں ان لوگوں کی جن پر تیری دی ہوگی۔‬ ‫چلا ہ کو سیدھی راہ‘ ڈگ مگ نہیں ان لوگوں کی جن پر تیری دی‬ ‫ہوگی۔‬ ‫وض حتی‬ ‫ڈگ مگ نہیں‬ ‫غیرالمغضو ع یھ والضآلین‬ ‫نہ ان کی جن پر تیری جھنجلاہٹ ہوئی نہ راہ کوراہوں کی۔‬ ‫آمین‬ ‫‪................‬‬ ‫یہ سورتہ ف تحہ ک ترجمہ نہیں‘ سورتہ البقر کی کچھ آی ت ک ترجمہ‬ ‫ہے۔‬ ‫اس مہ بید کے پرمیشور ہونے میں کوئی وگدھ نہیں۔ وہ بھگتوں کو‬ ‫بھ ی راہ پر لات ہے۔ جو اندیکھے دھر لاتے ہیں اور پوج کو‬ ‫سنوارتے ہیں اور ہم رے دیئے ک دان بھی کرتے ہیں۔ اور جو جو‬ ‫تیرے بل اترا اس کو اور جو تجھ سے پہ ے ات را گی اس کو جی سے‬‫م نتے ہیں اورپچھ ے جگ کو بھی جی میں ٹھیک ج نتے ہیں۔ یہی لوگ‬‫اپنے پ لن ہ ر کی راہ پر ہیں۔ اور یہی اپنی امنگ پ ون ہ ر ہیں۔ اس میں‬ ‫کوئی وگدھ نہیں کہ م یچھوں کو تو کیس ہی ڈراوے ی نہ ڈراوے وہ‬

‫دھر نہیں لاویں گے۔ من موہن نے ان کے جی اور ک نوں پر ٹھپ لگ‬ ‫دی ہے اور ان کے نینوں میں موتی پھرا ہوا ہے اور کے لیے بھ ری‬ ‫م ر ہے۔‬ ‫‪...........‬‬ ‫شجرہ ق دریہ ۔۔۔۔۔ ایک ج ئزہ‬ ‫جنت مک نی حضرت سیدہ سردار بی بی' دختر حضرت سید برکت ع ی‬ ‫زوج مخدومی ومرشدی حضرت سید غلا حضور'س ب اق متی ننگ ی'‬‫امرت سر' بھ رت' متوفی ‪ 1996‬کی پ کٹ ڈائری ک ' کس حد تک' اپنے‬ ‫کسی مضون میں ذکر کر چک ہوں۔ اس ڈائری میں شجرہ ق دریہ بھی‬ ‫درج ہے۔ اس کی بڑی خوبی یہ ہے کہ ش عر ک ن اور ق دریہ خ ندان‬ ‫سے ت بھی' داخ ی شہ دت کے طور مل ج ت ہے۔ یہ پیر سید غلا‬ ‫جیلانی کے مرید تھے جو گڑھ شنکر پنج بھ رت میں' رہ ئش پذیر‬ ‫تھے۔ اس ذیل میں شجرے ک یہ بند ملاحظہ ہو۔‬ ‫حضرت پیر غلا جیلانی‬ ‫مہر ع ی دے رہبر ج نی‬ ‫ہر د وسن وچ دھی ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬

‫یہ شجرہ کل ست ئس بندوں پر مشتمل ہے۔ شجرے کے پہ ے نو بند‬‫کم ل کی روانی رکھتے ہیں۔ اس میں شخصی ت رف کے لئے ص تی‬ ‫ک م ت سے ک لی گی ہے۔ مثلا‬ ‫ع ی ولی ہیں زوج بتول‬ ‫ش ہ مرداں ہیں شیر خدا‬ ‫بی بی زہرہ بنت رسول‬ ‫حسن عسکری نورالنور‬ ‫عبدال زیز ہیں یمنی ہ دی‬ ‫عبدالوہ فضل الہی‬ ‫حضرت یحیی رہبر ک مل‬ ‫ت ج الدین نے زہد کم ی‬

‫حضرت پیر غلا جیلانی‬ ‫گڑھ شنکر وچ تخت مک ن‬ ‫عموم پڑھنے اور سننے میں بھی آی ہے کہ اردو پر پنج بی اثرات‬ ‫پ ئے ج تے ہیں۔ پنج بی بھی اردو کے اثرات سے مح وظ نہیں۔ اس‬ ‫شجرہ کے حوالہ سے اردو کے اثرات ملاحظہ فرم ئیں۔‬ ‫نحوی‬ ‫اس پر میرا تکیہ م ن‬ ‫مہدی زم ن ک ج ن ظہور‬ ‫کچھ مصرعے لس نی اعتب ر سے اردو اور پنج بی کے نہیں ہیں۔‬‫اس وبی اعتب ر سے اردو کے ضرور ہیں مست مل اور ق بل فہ بھی ہیں۔‬ ‫ب قر وج ر و موسی ک ظ‬ ‫حسن عسکری نورالنور‬ ‫خواجہ کرخی در بی ن‬ ‫ابوال ب س احمد دل ش داں‬

‫حضرت یحیی رہبر ک مل‬ ‫ش ہ جنید پیر بغدادی‬‫ہم رے ہم رے ہ ں بیوی کے لئے ل ظ زوجہ است م ل کی ج ت ہے۔ خ وند‬ ‫کے لئے یہ ی اس کی کوئی شکل مست مل نہیں ہے۔ ش عر نے خ وند‬ ‫کے لئے ل ظ زوج است م ل کی ہے۔ یہ است م ل کے حوالہ سے‬ ‫غیرم نوس ہے ح لاں کہ درست اور فصیح ہے۔‬ ‫ع ی ولی ہیں زوج بتول‬ ‫مہر ع ی نے ان ست ئیں بندوں میں خو صورت مرکب ت بھی دئیے‬ ‫ہیں۔ مثلا‬ ‫سید ط لح اہل حضور‬ ‫ہر د تیرا شکر احس ن‬ ‫مہر ع ی ہے ع جز خ کی‬ ‫راہ خدا ہیں ج ن فدا‬ ‫حضرت یحیی رہبر ک مل‬ ‫اس پر میرا تکیہ م ن‬

‫ایک مرک تو لس نی صوتی اور م نوی اعتب ر سے بڑے کم ل ک ہے۔‬ ‫نظر و نظری کرن نہ ل‬ ‫دو نئے مہ ورے بھی دیے ہیں۔ دو مصرعے خ لص پنج بی کے نہیں‬ ‫ہیں۔‬ ‫زہد کم ی‬ ‫ت ج الدین نے زہد کم ی‬ ‫'رہبر پ ی‬‫لہجے کے اعتب ر سے اردو ک نہیں ہے۔ ورنہ اس مصرعے کے اردو‬ ‫ہونے میں کوئی شک نہیں۔‬ ‫شرف الدین نے رہبر پ ی‬

‫اردو ‪ :‬شرف الدین کو رہبرملا‬ ‫پنج بی‪ :‬شرف الدین نوں رہبر م ی‬ ‫شرف الدین نے رہبر پ ی ‪.....‬غیر فصیح نہیں ہے۔ صوتی حوالہ سے‬‫بھی' ہر زب ن بولنے والوں کے لئے' سم عتی گرانی ک سب نہیں بنت ۔‬ ‫پورے شجرے میں' مصرعوں میں ایک آدھ ل ظ کی تبدی ی سے' اردو‬ ‫وجود ح صل کر لیتی ہے۔‬‫اگر اسے اردو پر پنج بی کے اثرات ک ن دی ج ئے' تو بھی ب ت یکسر‬ ‫غ ط م و نہیں ہوتی۔‬ ‫شجرہ ملاحظہ ہو‬ ‫شجرہ ق دریہ‬ ‫الله الله ہر د آکھ‬ ‫تن من اپن کرکے پ ک‬ ‫نبی محمد دے قرب ن‬

‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫الله الله ہر د آکھ‬‫آکھ ک است م ل ق فیہ کی مجبوری ہے۔‬ ‫نبی محمد دے قرب ن‬ ‫دے کی بج ئے کے‬ ‫نبی محمد کے قرب ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫کریں کی بج ئے کرن‬ ‫ی ر مشکل کرن آس ن‬ ‫‪.........‬‬ ‫خ ص خدا دا نبی پی را‬ ‫امت نوں بخش ون ہ را‬ ‫اس پر میرا تکیہ م ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬

‫خ ص خدا دا نبی پی را‬ ‫دا کی جگہ ک‬ ‫خ ص خدا ک نبی پی را‬ ‫امت نوں بخش ون ہ را‬‫نوں کی جگہ پرانی اردو کے مط ب کوں‬ ‫امت کوں بخش ون ہ را‬ ‫‪..........‬‬ ‫بی بی زہرہ بنت رسول‬ ‫ع ی ولی ہیں زوج بتول‬ ‫میں ع جز دا سر قرب ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫میں ع جز دا سر قرب ن‬ ‫دا کی جگہ ک‬ ‫میں ع جز ک سر قرب ن‬ ‫‪..........‬‬

‫ص حبزادے نور ال ین‬‫ی نی حضرت حسن حسین‬‫صدقے حضرت ع بد ج ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫ب قروج روموسی ک ظ‬ ‫موسی رض دی ال ت لاز‬ ‫تقی نقی دے میں قرب ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫موسی رض دی ال ت لاز‬ ‫دی کی جگہ کی‬ ‫موسی رض کی ال ت لاز‬ ‫تقی نقی دے میں قرب ن‬ ‫دے کی جگہ کے‬ ‫تقی نقی کے میں قرب ن‬ ‫‪.........‬‬

‫حسن عسکری نورالنور‬ ‫مہدی زم ن ک ج ن ظہور‬ ‫ہر د میرا ایہو دھی ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫ہر د میرا ایہو دھی ن‬ ‫ایہو کی جگہ یہ ہی‬ ‫ہر د میرا یہ ہی دھی ن‬ ‫‪.........‬‬ ‫پنج ب رہ ہور چودہ ج ن‬ ‫اہل بیت دے ح ایم ن‬ ‫ص ت نہ کیتی ج بی ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫پنج ب رہ ہور چودہ ج ن‬‫ہور کی جگہ اور۔ گوی صرف آواز ہ کو ا میں بدلن ہے۔‬

‫پنج ب رہ اور چودہ ج ن‬ ‫‪..........‬‬ ‫ش ہ مرداں ہیں شیر خدا‬ ‫راہ خدا ہیں ج ن فدا‬ ‫خواجہ حسن بصری دل ج ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬‫حبی عجمی دے گھول گھم واں‬ ‫داؤد ط ئی دے صدقے ج واں‬ ‫خواجہ کرخی در بی ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬‫حبی عجمی دے گھول گھم واں‬ ‫داؤد ط ئی دے صدقے ج واں‬ ‫دے کی جگہ کے‬‫حبی عجمی کے گھول گھم واں‬ ‫داؤد ط ئی کے صدقے ج واں‬ ‫‪........‬‬

‫خواجہ سری سقطی ہ دی‬ ‫ش ہ جنید پیر بغدادی‬ ‫ابوبکر شب ی دا م ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫ابوبکر شب ی دا م ن‬ ‫دا کی جگہ ک‬ ‫ابوبکر شب ی ک م ن‬ ‫‪........‬‬ ‫ابوال ب س احمد دل ش داں‬ ‫عبدال زیز ہیں یمنی ہ دی‬‫شیخ یوسف دے میں قرب ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬‫شیخ یوسف دے میں قرب ن‬ ‫دے کی جگہ کے‬

‫شیخ یوسف کے میں قرب ن‬ ‫‪.......‬‬ ‫ابوال رح طرطوسی ق ری‬ ‫ابوالحسن ع ی ہنک ری‬ ‫ابوس ید مخدومی ج ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫ابومحمد عبدالق در‬‫غوث قط س در پر ح ضر‬ ‫ط ل جسدا کل جہ ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫ط ل جسدا کل جہ ن‬ ‫دا کی جگہ ک‬ ‫ط ل جسک کل جہ ن‬ ‫‪.........‬‬

‫عبدالوہ فضل الہی‬ ‫عبدالرحی دی پشت پن ہی‬ ‫سید وہ رکھ ح ظ ام ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫عبدالرحی دی پشت پن ہی‬ ‫دی کی گہ کی‬ ‫عبدالرحی کی پشت پن ہی‬ ‫‪.........‬‬ ‫حضرت یحیی رہبر ک مل‬‫جم ل الدین ہیں ہر د ش مل‬ ‫نور الدین دے پیر۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫نور الدین دے پیر۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫دے کی جگہ کے‬ ‫نور الدین کے پیر۔۔۔۔۔۔۔‬

‫‪.......‬‬ ‫ت ج الدین نے زہد کم ی‬ ‫شرف الدین نے رہبر پ ی‬ ‫محمد ی سین ہیں فیض رس ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫سید ط لح اہل حضور‬ ‫سید ص لح نور النور‬ ‫ہر د میرا ورد زب ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫سید یحیی الح ج آئے‬ ‫سید عثم ن رہبر پ ئے‬‫سید عبدالله دے پیر نوں ج وے‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬‫سید عبدالله دے پیر نوں ج وے‬

‫دے کی جگہ کے اور نوں کی جگہ کوں رکھ دیں‬ ‫سید عبدالله کے پیر کوں ج وے‬ ‫‪.........‬‬ ‫سید غلا مصط ے ج نو ہ دی‬ ‫ن لی ں دل ہووے ش دی‬ ‫سید احمد ہیں اہل ۔۔۔۔۔۔‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫سید غلا مصط ے ج نو ہ دی‬ ‫ج نو' ج نن کے لئے ہے ت ہ سمجھو رکھ دیں۔‬ ‫سید غلا مصط ےسمجھو ہ دی‬ ‫‪........‬‬ ‫سید ع ی م ظ ق در‬ ‫وچ حضوری ہر د ح ضر‬ ‫ع رف ف ضل ک مل ج ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬

‫وچ حضوری ہر د ح ضر‬ ‫وچ کو میں بدل دیں‬ ‫حضوری میں ہر د ح ضر‬ ‫‪.........‬‬ ‫حضرت ق در بخش کم ل‬ ‫نظر و نظری کرن نہ ل‬ ‫دوئیں تھ ئیں روشن ج ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫نظر و نظری کرن نہ ل‬ ‫کرن کو کریں کر دیں‬ ‫نظر و نظری کریں نہ ل‬ ‫‪........‬‬ ‫حضرت پیر غلا جیلانی‬‫ق در بخش نے ہوئے نورانی‬

‫گڑھ شنکر وچ تخت مک ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫گڑھ شنکر وچ تخت مک ن‬ ‫وچ کو میں بدل دیں‬ ‫گڑھ شنکر میں تخت مک ن‬ ‫‪.......‬‬‫حضرت دے دو بھ ئی پی رے‬ ‫ق در بخش دے ہی دلارے‬ ‫عط محمد ہیں درب ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬‫حضرت دے دو بھ ئی پی رے‬ ‫ق در بخش دے ہی دلارے‬ ‫دے کی جگہ کے‬‫حضرت کے دو بھ ئی پی رے‬ ‫ق در بخش کے ہی دلارے‬

‫‪.........‬‬ ‫غلا غوث دے قرب ن‬ ‫بیٹے جس دے ست عی ن‬ ‫الله دتے ہو رحم ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫غلا غوث دے قرب ن‬ ‫بیٹے جس دے ست عی ن‬ ‫دے کی جگہ کے‬ ‫غلا غوث کے قرب ن‬‫بیٹے جس کے ست عی ن‬ ‫‪........‬‬‫لنگر رکھ دے ہر د ج ری‬ ‫وچ درب ر رہے گ زاری‬ ‫آئے سوالی خ لی نہ ج ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬

‫لنگر رکھ دے ہر د ج ری‬ ‫وچ درب ر رہے گ زاری‬‫‪.‬رکھ دے کی جگہ رکھتے اور وچ کی جگہ میں رکھ دیں‬ ‫لنگر رکھتے ہر د ج ری‬ ‫درب ر میں رہے گ زاری‬ ‫‪........‬‬ ‫شجرہ شریف میں کہی س را‬ ‫مینوں بخشیں پروردگ را‬ ‫ہر د تیرا شکر احس ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫مینوں بخشیں پروردگ را‬ ‫مینوں کو مجھے کر دیں‬ ‫مجھے بخشیں پروردگ را‬ ‫‪........‬‬

‫حضرت پیر غلا جیلانی‬ ‫مہر ع ی دے رہبر ج نی‬ ‫ہر د وسن وچ دھی ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫مہر ع ی دے رہبر ج نی‬‫دے کی جگہ کے رکھ دیں‬ ‫مہر ع ی کے رہبر ج نی‬ ‫‪........‬‬ ‫مہر ع ی ہے ع جز خ کی‬ ‫توں س قی ں دا ہیں س قی‬ ‫ش ہ جیلانی دے ایم ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫توں س قی ں دا ہیں س قی‬ ‫ش ہ جیلانی دے ایم ن‬ ‫تبدی ی‬

‫تو ہے س قیوں ک س قی‬ ‫ش ہ جیلانی کے ایم ن‬ ‫‪.......‬‬ ‫شجرہ شریف پڑھیں بھ ئی‬ ‫ق تہ ڈے دی ہو گی ص ئی‬ ‫جو ہیں ق دری خ ندان‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬ ‫ق تہ ڈے دی ہو گی ص ئی‬‫تہ ڈے کو تہ رے دی کی جگہ کی‬ ‫ق تہ رے کی ہو گی ص ئی‬ ‫‪..........‬‬ ‫پڑھنے دا وقت صبح و ش‬ ‫پڑھ لی جس پیت ج‬ ‫پیر سوہنے دا ہے قرب ن‬ ‫ی ر مشکل کریں آس ن‬

‫پڑھنے دا وقت صبح و ش‬ ‫دا کی جگہ ک‬ ‫پڑھنے ک وقت صبح و ش‬ ‫پیر سوہنے دا ہے قرب ن‬ ‫دا کی جگہ ک‬ ‫پیر سوہنے ک ہے قرب ن‬ ‫‪.......‬‬ ‫ایک چرچ مین کی ی وہ گوئی اور میری م روض ت‬ ‫ایک دو روز پہ ے فیس بک پر‘ مجھے ایک چرچ مین کی گ ت گو‘‬‫سننے ک ات ہوا۔ اس کی گ ت گو نے‘ مجھے بڑا ہی ڈسٹر کی ۔ لگت‬ ‫تھ ‘ کہ ابھی مرت ہوں۔ یہ مذہبی ٹھیکےدار‘ قص بی اور خود غرض‬ ‫فطرت کے ح مل ہوتے ہیں۔ انہیں اس امر سے دل چسپی ی ت‬ ‫واسطہ نہیں ہوت ‘ کہ ان کے ل ظ‘ کسی پر کی قی مت توڑیں گے۔ اس‬‫چرچ مین کی زب ن نہ یت گھٹی تھی۔ لگت تھ ‘ کہ میرا دم پھٹ ج ئے‬ ‫گ اور دل کی حرکت ابھی بند ہو ج ئے گی۔ اس کی ویڈیو کے حوالہ‬ ‫سے‘ میں نے یہ چند جم ے بولے ہیں۔ اس کی ویڈیو ک لنک بھی‬ ‫ب طور حوالہ ضرورپیش کرت ‘ لیکن میری ہمت نہیں پڑی‘ کہ ایسی‬ ‫گھٹی چیز کو پیش کروں۔ اس کو سن کر‘ کسی کو کوئی ذہنی ی ق بی‬

‫ع رضہ لاح ہو سکت ہے۔ اس ک لہجہ‘ زب ن‘ موضوع اور گ ت گو ک‬ ‫مواد‘ یکسر غیر متوازن اور ب زاری نوعیت ہے۔ یقین ہو ج ت ہے کہ‬ ‫اس سے مذہبی مین‘ ع کے قری سے بھی نہیں گزرے ہوتے۔ پڑھ‬ ‫لکھ اور ص ح ع ‘ موڈ کی کسی سطع پر بھی‘ ش ئستگی ک دامن‬ ‫نہیں چھوڑت ۔ عجی ہے‘ اسلا حضرت عیسی ع یہ السلا اور اور ان‬ ‫کی کت انجیل کو‘عزت دیت ہے تو آخر ان فس دیوں کو ایسی ب تیں‬ ‫کیوں سوجھتی ہیں‘ جن سے فس د ک دروازہ کھ ت ہو۔‬‫‪https://www.facebook.com/100008707759393/videos/1555521681414742/Uzp‬‬‫‪fSTEwMDAwODcwNzc1OTM5MzoxNTU1NTIyMTExNDE0Njk5/?id=10000870775‬‬ ‫‪9393‬‬ ‫طلا‬‫ش دی آج اور کل کی خو صورتی اور رواں حی ت ک پہلا زینہ ہے لہذا‬ ‫یہ ہر حوالہ سے م تبر اور امور حی ت میں پہ ے نمبر پر آت ہے۔ بلا‬ ‫زندگی پھل پھول حسین وادی ں بدلتے موسموں کے رنگ کس ک کے۔‬ ‫گوی اس کی اس حیثیت کے تن ظر میں بلاتک ف کہ ج سکت ہے‘ یہ‬ ‫لذت ک ذری ہ نہیں اپنی ذات میں تقدس مآ بھی ہے۔‬ ‫ش دی کے م نی خوشی کے ہیں۔ ش دی کے ب د زندگی کے آخری‬ ‫لمحوں تک دکھ سکھ کے ہر موس میں خوش رہنے کی س ی ہوتی‬ ‫رہنی چ ہیے۔ درگزر برداشت ایک دوسرے کے لیے تی گ ش ر رہن‬ ‫چ ہیے۔ ایک چھت ت ے دو جنسیں س نس لے رہی ہوتی ہیں اور اگ ی‬

‫نسل ک ذری ہ بن رہی ہوتی ہیں۔ ہر نئے آنے والے کی ہر ضرورت کو‬ ‫ہر م م ے پر ترجیع دیتی ہیں۔ مثلا م ں گہری نیند میں ہے۔ بچے کو‬‫بھوک لگ گئی ہے۔ وہ یہ کہہ کر رونے دو‘ صبح کو اٹھ کر تس ی سے‬ ‫دودھ پلاؤں گی سو ج تی ہے۔ نہیں ب لکل نہیں‘ سو نہیں ج تی۔ وہ فورا‬ ‫سے پہ ے اٹھ ج ئے گی۔ فیڈ کرانے کے ب د ہی سوئے گی۔‬ ‫بچے کو کوئی تک یف ہے۔ دونوں‘ اس بچے کے م ں اور ب پ اٹھ کر‬ ‫اسے کمرے میں ی صحن میں لے کر پھریں گے۔ زی دہ تک یف کی‬ ‫صورت میں‘ رات ک کوئی بھی سم ں رہ ہو۔ گھر میں کوئی نہ ہو چور‬ ‫ڈاکو پڑنے ک احتم ل ہو‘ لیکن یہ دونوں جو اس بچے ک سب بنے‬ ‫ڈاکٹر وید حکیموں کے گھر کے دروازوں پر دستک دیتے پھریں گے۔‬ ‫ح لاں کہ وہ بچہ الله کی مخ و اور اس کی م کیت ہے۔ الله نے ان‬‫کےسینوں میں محبت ک سمندر بہ دی ہوت ہے اس لیے ان کی بےچینی‬ ‫اور بےقراری برداشت سے ب ہر نکل ج تی ہے۔‬‫اس خو صورت خوشوں بھرے اور تقدس مآ رشتے کے خت ہونے‬ ‫کی راہیں نکل آتی ہیں۔ مثلا‬ ‫غصہ‬ ‫دونوں کی ی کسی ایک کی کوئی اور اپنی کوئی پسند رہی ہو‬ ‫پہ ے دن ہی دل کو نہ بھ ن ۔‬ ‫زبردستی کی ش دی‬ ‫ایک فری کی حد سے بڑھی بدکلامی‬ ‫عورت کسی ذاتی ترجیع کی بن پر طلا ط کر سکتی ہے۔ جیسے‬ ‫یہ ں ایک عورت کو ہزار روپیے کی ملازمت ک جھ نسہ ملا اس‬

‫نے خ وند کو طلا دینے پر مجبور کر دی ۔‬ ‫غ ط فہمی‬ ‫کسی تیسرے کی س زش ت کہ یہ رشتہ خت ہو ج ئے ی ان کے ہ ں کل‬ ‫ک ی ں س س ہ ج ری رہے‬ ‫آدمی کے پ س م ل ی عہدہ ہونے کی صورت میں اپنی بیٹی دینے کی‬ ‫خواہش‘ ک ن بھریے متحرک ہو ج تے ہیں۔‬‫ایسی بیسیوں وجوہ ہو سکتی ہیں جو می ں بیوی کے رشتے کو خت کر‬ ‫سکتی ہیں۔ طلا برا نہیں‘ انتہ ئی برا ف ل ہے۔ آخری حد تک برداشت‬‫اور درگزر سے فری ک لیں اور نب ہ کی صورت نک لیں۔ ج درستی ک‬ ‫رستہ نہ نک ے اور فس د ک دروازہ کھ نے ک احتم ل ہو تو طلا بہت‬ ‫بڑی ن مت ہے کیوں کہ یہ دوشخصوں کو ہی نہیں‘ دو کنبوں اور‬‫سوس ئٹی کو بھی فس د کی آگ سے بچ لیتی ہے ت ہ تین ب ر تین وقتوں‬‫میں انتہ ئی سنجیدگی اور مخ صی سے غور کر لین چ ہیے کہ غ طی تو‬ ‫نہیں ہونے ج رہی۔‬ ‫اس ک مستحسن طریقہ یہ ہی ہے کہ فریقین آمنے س منے بیٹھ ج ئیں۔‬ ‫عورت نے طلا م نگی ہو ی مرد طلا دین چ ہت ہو‘ مرد تین ب ر ل ظ‬ ‫طلا ٹھہر ٹھہر اور رک رک کر بولے۔ اس کے ب د دونوں فری ایک‬ ‫دوسرے سے دوری اختی ر کر لیں۔‬ ‫ن رت کے سب دل میں طلا دینے سے طلا نہیں ہوتی۔ دل میں دی‬ ‫گئی طلا کے حوالہ سے گھری و اور جنسی ت خت کرن حرا ہے۔‬ ‫س منے ہیٹھ کر طلا کے شبد بولن طلا دینے کے لیے ضروری ہے۔‬ ‫ورنہ طلا واقع نہیں ہوتی۔‬

‫نوٹ‪:‬‬‫ح م ہ ہونے ی حیض میں ہونے کی صورت میں ایس نہیں کی ج سکت ۔‬ ‫حیض کے خت اور بچے کی پیدائش تک انتظ ر کریں۔ طلا دینے ی‬ ‫لینے ک ارادہ اس کے ب د بدل ج ت ہے تو یہ اچھ خوشگوار عمل ہو‬ ‫گ۔‬ ‫تین حیض ی نی تین م ہ وہ اسی گھر میں اق مت کرے۔ تین م ہ ب د ان‬ ‫دونوں ک کوئی رشتہ نہ ہو گ ۔ وہ ایک دوسرے کے لیے اجنبی اور‬ ‫غیر محر ہوں گے۔ وہ ہر طرح سے آزاد ہوں گے اور اپنے ہر قس‬ ‫کے اچھے برے کے ذمہ دار ہوں گے۔‬ ‫نوٹ‪:‬‬ ‫ان تین م ہ ی نی نوے دن میں وہ ص ح کر سکتے ہیں۔ یہ ں تک مدت‬ ‫کے آخری لمحے تک وہ ص ح کر سکتے ہیں۔‬ ‫عورت اس دورانیے میں گھر سے ب ہر قد نہیں رکھے گی اور ن ہی‬ ‫گھر ی گھر سے ب ہر کسی شخص سے ت ق ت بن ئے گی۔‬ ‫مرد ان تین م ہ میں اس عورت کو ضروری ت حی ت کسی دوسرے کے‬ ‫ہ تھ سے مہی کرت رہے گ ۔‬ ‫طلا ک سرک ری طریقہ ہر لح ظ سے ق بل مذمت ہے کہ عورت کو‬ ‫طلا کے سرک ری طریقہ سے تین م ہ طلا کے نوٹس بھیجے گ ۔ یہ‬‫اپنی اصل میں سرک ری اہل ک روں کو م ل پ نی مہی کرنے ک رستہ نک لا‬ ‫گی ہے۔ عورت اور مرد کے ایک چھت سے نکل ج نے سے ص ح‬‫ص ئی ک رستہ بند ہو ج ت ہے۔ دونوں کے اپنے قری لانے کی کوشش‬ ‫نہیں کریں گے بل کہ ان کے دلوں کو پتھر بن ئیں گے۔ وہ وہ غ طی ں‬

‫اور خ می ں گوش گزار کریں گے جن ک ان کے فرشتوں کو بھی ع نہ‬‫ہو گ ۔ م ضی کی کوت ہیوں کے قصے انہیں ی د دلائیں گے۔ دو ہزار س ل‬ ‫پہ ے اس بےلح ظ اور منہ پھٹ عورت نے تمہ رے ن ن کی ش ن اقدس‬ ‫میں گست خی کی تھی۔ بےتکی ں چھوڑ کر ن رتوں ک آسم ن سے ب تیں‬ ‫کرت بھ نبڑ مچ دیں۔‬ ‫ج ل س زی ک زم نہ ہے فس د ک ر یہ ک انج دے سکت ہے۔‬ ‫اپنے م د ذاتی ی خ ندانی ضد کی بن پر زبردستی اور ب لجبر طلا ک‬ ‫نوٹس بھجوای ج سکت ہے۔‬‫ایسی بہت س ری وجوہ ہیں جن کی بن پر اس سرک ری طریقہ کو اختی ر‬ ‫کرن کسی طرح درست نہیں۔‬ ‫کھ ی تنبیہ‬ ‫بیٹی مہر افروز ک خوا اہل دنی کے لیے ایک کھ ی تنبیہ‬ ‫کچھ دن ہوئے مجھے ایک خوا آی اور میں نے کوئی غور نہ کی کہ‬ ‫میں کون س کوئی درویش ی صوفی ہوں۔ ایک ع س آدمی ہوں۔ ہ ں‬‫درویشوں صوفیوں اور اہل فقر کے لیے دل میں عزت احترا اور محبت‬ ‫ضرور رکھت ہوں۔ یہ خوا سحری قری ک تھ ۔‬ ‫میں نے خوا میں دیکھ کہ ان ہی بوسیدہ اور تقریب پھٹے پرانے‬

‫سے کپڑوں میں م بوس ہوں اور ایک ت حد نظر میدان میں اکیلا کھڑا‬ ‫‪:‬ہوں۔ میں نے ب ند آواز میں کہ‬ ‫لوگو! سنو سنو‬ ‫کچھ لوگ جمع ہو گئے۔‬ ‫میں نے کہ ‪ :‬دیکھو اپنے الله کی طرف پھر ج ؤ اسی میں تمہ ری‬ ‫بھلائی ہے۔‬‫میری آواز ازخود ب ند ہو گئی اور چ روں طرف گونجنے لگی۔ پہ ے چند‬ ‫پھر اس کے ب د ت حد نظر لوگ جمع ہو گیے۔‬ ‫میں میدان میں ہی کھڑا ہوں اور میری آواز س تک پہنچ رہی ہے۔‬ ‫آواز اتنی ب ند اور گرج دار کیسے ہو گئی۔ حیرت کی ب ت تھی۔ میں نے‬ ‫لوگوں کو خبردار کی کہ برا وقت آنے کو ہے۔ اس سے پہ ے کہ برا‬ ‫وقت آئے ج د اور کسی توقف اور تس ہل کے بغیر توبہ کرکے اپنے الله‬ ‫کی طرف پھر ج ؤ ورنہ اچھ نہیں ہو گ ۔‬‫میں نے خوا کو نظرانداز کر دی کہ بس یہ میرا ایک محض واہمہ تھ ۔‬ ‫سمجھ ن ی کسی قس کی تنبیہ کرن تو بڑے لوگوں ک ک ہے ج کہ‬ ‫میں سرے سے کچھ بھی نہیں ہوں ۔۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔‬ ‫مجھے تو خود ہدایت اور راستی پر چ نے کی ضرورت ہے۔ میں کون‬ ‫ہوت ہوں کسی کو تنبیہ کرنے والا۔ میری اوق ت اور بس ت ہی کی ہے‬ ‫اور یہ بھی کہ میں بھلا کسی کو کی ہدایت اور وارننگ دے سکت ہوں۔‬‫دو روز ہوئے میری پی ری بیٹی مہر افروز نے اپن خوا سن ی جس کی‬‫کڑی ں میرے خوا سے م تی ہیں۔ بیٹی مہر افروز حضرت ب ب جی قب ہ‬ ‫سید م ین الدین چشتی رح کے گھرانے سے روح نی انسلاک رکھتی‬

‫ہے۔ وہ ہے بھی درویش اور فقیر طبع۔‬ ‫اس نے خوا میں دیکھ‬ ‫وہ پہ ڑ ی چٹ ن کی چوٹی پر اکی ی کھڑی ہے نیچے ایک دنی آب د ہے۔‬ ‫آسم ن پر سی ہ ب دل امڈے چ ے آتے ہیں۔ نیچے چ تے پھرتے لوگ‬‫خرابی ک شک ر ہیں۔ وہ چیخ چیخ کر لوگوں کو خرابی سے ب ز آ ج نے‬ ‫کو کہہ رہی ہے۔ لوگ اسکی آواز پر ک ن دھرنے کی بج ئے اس ک مذا‬‫اڑا رہے ہیں۔ وہ مذا برداشت کرکے لوگوں کو راستی کی طرف پ ٹنے‬ ‫کو کہے ج رہی ہے لیکن لوگ خرابی سے رک نہیں رہے۔ پھر آن‬ ‫واحد میں ب رش کی بج ئے آسم ن سے برف کی س یں گرن شروع ہو‬ ‫ج تی ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے نیچے سوائے ویرانے کے کچھ ب قی‬ ‫نہیں بچت اور آسم ن پھر سے ص ف اور ش ف ہو ج ت ہے۔‬‫میں بیٹی مہر افروز کے خوا کو لای نی اور بےم نی نہیں سمجھت اور‬ ‫اس کے اس خوا کو دنی کے س منے لانے کی جس رت کر رہ ہوں۔‬ ‫مجھ سے جتن ج دی ہو سک اس ک خوا لوگوں کے س منے پیش کر‬ ‫دی ہے کہ کہیں میری کوت ہی اور تس ہل کے سب دیر نہ ہو ج ئے۔‬‫لوگو! ج ن رکھو موت برح ہے ہر کسی کو حقیقی م لک کے پ س ج ن‬‫ہے یہ ں ک یہ ں ہی رہ ج ئے گ ۔ یہ ں ک کچھ س تھ نہ ج سکے گ ۔ جتن‬ ‫ج د ہو سکے توبہ کی ج ن پھرو۔‬ ‫الله سے زی دہ کوئی اور مہرب ن نہیں۔ وہ سچی توبہ ضرور قبول‬ ‫فرم ئے گ ۔‬‫اچھ ئی اور نیکی ک رستہ اختی ر کرو۔ انس ن ک ئت ت کے لیے ہے۔ اسے‬ ‫خلافت ارضی م ی ہے۔ اپنی اخری ط قت تک ک ئن ت کی جم ہ مخ و ک‬

‫بلات ری وامتی ز بھلا کرو۔‬ ‫س ک خی ل رکھو‬ ‫ج ن رکھو تمہ را خی ل رکھنے کے لیے الله ہی ک فی ہے۔‬ ‫خدا کے لیے اپنے الله کی طرف پھرو ورنہ ج ن رکھو آخر کو خس رہ‬ ‫اور پچھت وا ہی ہ تھ لگے گ ۔ اگر وقت گزر گی تو واپسی نہ ہو سکے‬ ‫گی۔‬ ‫اے الله! گواہ رہن کہ میں نے لوگوں تک مہر بیٹی ک خوا پہنچ دی‬‫ہے۔ توبہ کی استدع کر دی ہے۔ بدی سے ب ز آنے کو کہہ دی ہے۔ بھلا‬ ‫کرنے اور راستی ک رستہ اپن نے کے لیے بھی گزارش کر دی ہے۔‬ ‫اے الله! اپنے اس حقیر اور ن چیز بندے کی توبہ قبول فرم بھلا کرنے‬ ‫اور راہ راست پر چ نے کی توفی عط فرم ۔‬ ‫اے الله! میری بیٹی مہر افروز کے دانستہ اور ن دانستہ گن ہوں اور ہر‬ ‫قس کی کمی کوت ہی کو م ف فرم دے۔‬‫اس کے اچھ کرنے کی شکتی میں اض فہ فرم ۔ بےشک تجھ سے زی دہ‬‫قری کوئی نہیں اور تجھ سے بڑھ کر مدد کرنے اور توفی عط کرنے‬ ‫والا کوئی نہیں۔‬ ‫میں ن ہیں سبھ توں۔۔۔۔۔۔۔چند م روض ت‬

‫‘میں ن ہیں سبھ توں‬ ‫فقرا کی زندگی ک پہلا اور آخری اصول ہوت ہے۔ جو فقیر اس نظریے‬ ‫پر‘ فکری‘ ق بی اور عم ی سطح پر ق ئ رہت ہے‘ وہ ہی ص لحین کی‬ ‫صف میں کھڑا ہوت ہے۔ عموم ب کہ اکثر‘ اختلاف اس کی ت بیر و‬ ‫تشریح پر ہوت ہے۔‬‫کچھ ک کہن ہے‘کہ یہ نظریہ‘ ترک دنی کی طرف لے ج ت ہے۔ ترک دنی‬ ‫کے رویے کو‘ کسی طرح مستحسن قرار نہیں دی ج سکت ۔ دوسرے‬ ‫ل ظوں میں‘ یہ ذمہ داریوں سے فرار کے مترادف ہے۔‬ ‫ایک طبقہ اسے الح د کی طرف بڑھنے ک رستہ سمجھت ہے۔‬ ‫کچھ کہتے ہیں‘ اس کے نتیجہ میں‘ ایک سطح پر ج کر‘ خدائی ک‬ ‫دعوی س منے آت ہے۔‬ ‫اس کے علاوہ بھی‘ اس نظریے کی تشریح ت کی ج تی ہیں۔ جو اس‬ ‫ذیل میں تشریح ت س منے آتی ہیں‘ ان ک حقیقت سے‘ دور ک بھی ت‬ ‫واسطہ نہیں۔‬ ‫عجز اور انکس ری شخص کو بے وجود نہیں کرتی۔ اگر وہ بےوجود‬‫ہوت ہے‘ تو دنی ‘ زندگی اور زندگی کے مت ق ت سے‘ رشتہ ہی خت ہو‬ ‫ج ت ہے۔ دوسری طرف شخصی ح ج ت‘ اپنی جگہ پراستحق رکھتی‬ ‫ہیں۔ پ خ نہ اور پیش کی ح جت پر‘ کیسے ق بو پ ی ج سکت ہے۔‬ ‫س نس آئے گ ‘ تو ہی زندگی کی س نسیں برقرار رہ پ ئیں گی۔ لہذا ذات‬‫ک تی گ‘ ممکن ہی نہیں‘ ب کہ یہ فطری امر ہے۔ فطری امر سے انک ر‘‬ ‫سورج کو مغر سے‘ ط وع کرنے کے مترادف ہے۔‬

‫‘میں ن ہیں سبھ توں‬ ‫درحقیقت انبی ک طور ہے۔ نبی اپنی طرف سے‘ کچھ نہیں کرت اور‬‫ن ہی‘ اپنی مرضی ک ک مہ‘ منہ سے نک لت ہے‘ کیوں کہ اس ک کہ ‘ اور‬‫کی ‘ زندگی ک طور اور حوالہ ٹھہرت ہے۔ نبی ک رستہ موجود ہوت ہے‘‬‫فقیر ہر ح لت میں‘ اس رستے پر چ ت ہے۔ اس رستے پر چ ن ‘ الله کے‬‫حک کی اط عت کرن ہے۔ جہ ں اپن حک ن فذ کرنے خواہش ج گتی ہے‘‬‫وہ ں شرک ک دروازہ کھل ج ت ہے۔ گوی الله کے سوا‘ کسی اور ک بھی‬ ‫حک چ ت ہے۔ شخصی حک میں۔۔۔۔۔۔۔ توں نہیں سبھ میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واضح‬ ‫طور موجود ہوتی ہے‘ اور یہ ہی ن انص فی اور ظ ہے۔ آدمی کوئی‬ ‫بھی‘ اور کسی بھی سطح ک ہو‘ الله کے ق نون سے ب ہر ج نے ک ‘‬ ‫استحق نہیں رکھت ۔ ق نون کے م م ے میں استثن ئی صورت موجود‬ ‫ہی نہیں ہوتی۔ استثن ئی صورت نک لن ‘ شرک ہے۔ فقیر الله کے ق نون‬ ‫کے م م ے میں‘ کیوں کیسے ی اس طور کی خراف ت کے ب رے میں‘‬‫سوچن بھی‘ جر عظی ی دوسرے ل طوں میں‘ گن ہ کبیرہ سمجھت ہے۔‬ ‫جو الله نے کہہ دی ‘ وہی درست ہے‘ اس کے سوا‘ کچھ بھی درست‬ ‫نہیں۔‬ ‫ہر تخ ی ک ر کو‘ اپنی تخ ی سے پی ر ہوت ہے۔ الله بھی اپنی مخ و‬ ‫سے‘ بےگ نہ اور لات نہیں۔ جو بھی‘ اس کی مخ و سے پی ر کرت‬‫ہے‘ احس ن کرت ہے‘ اس کے لیے بہتری سوچت ہے‘ انص ف کرت ہے‘‬‫گوی وہ الله کی محبت ک د بھرت ہے۔ فقیر‘ الله کی رض اور خوشنودی‬ ‫کے لیے‘ الله کی مخ و پر احس ن کرت ہے۔ وہ اپنے منہ ک لقمہ‘ الله‬ ‫کی مخ و کے‘ حوالے کرکے خوشی محسوس کرت ہے۔ الله کی مخ و‬ ‫کی سیری‘ دراصل اس کی اپنی سیری ہوتی ہے۔ مخ و کی خیر اور‬

‫بھلائی‘ اس کی زندگی ک اصول اور مشن ہوت ہے۔ اپن خی ل رکھیے‘‬ ‫کی ہوا‘ یہ تو کھ ی خودغرضی ہوئی۔ اس کے نزدیک س ک خی ل‬ ‫رکھو‘ یہ سنت الله ہے‘ تمہ را خی ل رکھنے کے لیے‘ الله ہی ک فی ہے۔‬ ‫فقیر یہ ں بھی‘ میں ن ہیں سبھ توں کو‘ اپلائی کرت ہے۔ اسے کسی‬ ‫م دی شے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسے الله کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ‬‫س ‘ اپنی ذات کی ن ی کے بغیر‘ ممکن نہیں۔ ج عقیدہ میں ن ہیں سبھ‬ ‫توں‘ سے دوری اختی ر کرے گ تو‬ ‫الله پر ایم ن سے دور ہو ج ئے گ ۔‬ ‫اپنی ذات کو مقد رکھے گ ۔‬ ‫ب نٹ میں خی نت کرے گ ۔‬ ‫وس ئل پر ق بض ہونے کو زندگی ک مقصد ٹھہرائے گ ۔‬‫درج ب لا م روض ت کے حوالہ سے‘ ذات ک تی گ ممکن نہیں۔ یہ وتیرہ‘‬‫اہل ج ہ اور اہل ثروت کو کس طرح خوش آ سکت ہے۔ ح اور انص ف‬ ‫کی ب تیں‘ اور الله کے حک کے خلاف انج پ نے والے امور پر تنقید‬ ‫اور برآت‘ کسی ب دش ہ ی اہل ثروت کو‘ کس طرح خوش آ سکتی ہے۔‬ ‫ص ف ظ ہر ہے‘ ایسے لوگوں کو ظ ہر پلای ج ئے گ ۔ ب دش ہ ی اہل‬ ‫ثروت بھول ج تے ہیں‘ کہ میں ن ہیں س توں‘ کے ح مل مر نہیں‬ ‫سکتے۔ دوسرا وہ پہ ے ہی ک ہوتے ہیں۔ موت تو ہونے کو آتی ہے۔‬ ‫میں کو موت آتی ہے‘ تو کے لیے موت نہیں۔ میں مخ و ہے‘ تو‬ ‫مخ و نہیں۔‬

‫ارشد حکی ک ایک ش ر‬‫ارشد حکی ک ت پنج پولیس سے ہے۔ دیکھنے میں مولوی س ہو‬ ‫کر بھی سیدھ س دہ شخص ہے۔ اس کی عمومی حضرات سے گ تگو‬ ‫بھی دنی داری سے مت ہوتی ہے۔ ہ ں البتہ ٹیڑھی اور شطرنجی‬ ‫نوعیت کی گ تگو اس کے ہ ں سننے کو نہیں م تی۔ سول لب س میں‬ ‫کوئی طرح داری نہیں م تی۔ ٹوہر ٹپ کہیں دور تک نظر نہیں آت ۔‬ ‫دنی داری کے ک موں میں سولہ آنے گ اور مگن س نظر آت ہے۔ یہ س‬ ‫دیکھ کر کوئی سوچ بھی نہیں سکت کہ وہ اندر سے بحرالک ہل سے‬‫بھی گہرا اور پورا ک پورا ہے۔ پنج بی اور اردو میں ش عری کرت ہے۔‬‫موقع م ے اور ڈیوٹی سے فرصت م نے پر ادبی تقریب ت میں ش مل ہوت‬ ‫ہے۔ اپنے حصہ کی داد بھی وصول کرت ہے۔ چوں کہ ہر کوئی نہیں‬ ‫ج نت کہ وہ پولیس مین ہے اس لیے داد اپنے کہے کے تن ظر میں ہی‬ ‫وصول کرت ہے۔‬‫اس کی پوری ش عری پر لکھنے کی ب د میں کوشش کروں گ ۔ اس کے‬ ‫ب ض اش ر کی ت ہی ظ ہر سے کہیں ہٹ کر ہے۔ وہ ت ہی غور کرنے‬ ‫کے ب د دم کے م دہ میں اترتی ہے۔ یہ ہی صورت اس کے ہض‬‫کرنے کی ہے۔ جیسے ک نوں سے مکی کی روٹی کے س تھ س گ نوش‬ ‫ج ن کر لی ہو۔‬ ‫پ ن س ت روز ہوئے میرے پ س بیٹھ ہوا تھ ۔ میں بیم ر تو کئی س ل‬ ‫سے ہوں لیکن اس روز بیم ری کچھ زی دہ ہی پڑی ہوئی تھی۔ یہ ں‬‫تک کہ حواس بھی بی م ری کی گرفت میں تھے۔ ش ر چوں کہ میری ک‬

‫زوری ہیں اس لیے بھول گی کہ میں بیم ر ہوں۔ اس نے ج یہ ش ر‬‫سن ی تو سوچ ک طوف ن کھڑا ہو گی اور مجھے ی د تک نہ رہ کہ بیم ر‬ ‫‪:‬ہوں‬ ‫فقر اظہ ر میں غن س ہے‬ ‫بےنی زی بھرا خدا س ہے‬‫ب نٹ دینے والے کو غنی کہ ج ت ہے اور یہ ص ت الله ت لی ذات گرامی‬‫سے وابستہ ہے۔ الله ت لی اس امر سے قط ی بے نی ز ہوت ہے کہ کمی‬‫ہو ج ئے گی۔ ب نٹ دینے والے کے نزدیک سے بھی اس قس کی سوچ‬‫گزر نہیں پ تی اگر وہ ایس سوچنے لگ تو ب نٹ ک عمل درست سمت پر‬ ‫نہ رہے گ ۔ یہ ب ت اپنی جگہ الله اور دے دے گ ۔ ب نٹ دینے ک اپن ہی‬ ‫لطف اور مزا ہے۔ ح ت ایس سوچت تو ق رون بن ج ت ۔ ق رون کی دولت‬ ‫اسے لے ڈوبی لیکن ح ت کی سخ وت آج بھی دلوں میں نقش ہے اور‬ ‫یہ پڑھنے میں نہیں آی کہ وہ کنگ ل ہو گی تھ ۔‬ ‫ب نٹ ک اپن ایک مزا ہوت ہے۔ غنی ب نٹ میں کوئی غرض نہیں رکھت ۔‬‫یہ ب ت غنی کے قری سے بھی نہیں گزر پ تی کہ اسے دینے کے ص ہ‬ ‫میں سلامیں وصول ہوں گی۔ وہ ی د رکھ ج ئے گ ی دینے کے نتیجہ‬ ‫میں اسے واپسی دوگن ح صل ہو ج ئے گ ۔ اگر لینے والے سے کسی‬ ‫قس کی توقع ب ندھ کر دی ج ئے گ تو یہ خودغرضی کے زمرے میں‬ ‫داخل ہو گ ۔ اس طرح دینے والے کو غنی نہیں ت جر کہ ج ئے گ ۔ الله‬ ‫چوں کہ غنی کی ص ت رکھت ہے۔ الله کی عط ئیں ہر قس کی غرض‬ ‫سے ب لاتر ہیں۔ وہ بےنی ز ہے۔ اس ک بندہ ج ب طور خ ی ہ یہ ص ت‬‫فریضے کے طور پر اختی ر کرت ہے تو اس کی ب نٹ میں کسی قس کی‬ ‫غرض ی ری پوشیدہ نہیں ہوتی۔ اس کی ب نٹ کھری کھری اور نکھری‬

‫نکھری ہوتی ہے۔ ہر کھری اور نکھری نکھری ب نٹ بےغرضی اور‬ ‫بےنی زی ک عنصر رکھتی ہے۔‬ ‫بےط بی‘ بےغرضی اور بےنی زی صرف اور صرف الله کی ذات گرامی‬ ‫سے وابستہ ہے۔ وہ ہر قس کی ح جت سے ب لا ہے۔ بےشک غنی ک‬ ‫خ صہ یہ ہی ہے۔ غنی شخص‘ مخ و سے دینے کے س س ہ میں‬ ‫ب من فع واپسی ک سوچ بھی نہیں سکت ۔ اسی لیے یہ غن ‘ خدا س ہے۔‬ ‫خدا اس لیے نہیں کہ وہ لطف و عط اور کر کے لیے خدا کے حضور‬‫دست بستہ کھڑا نظر آت ہے۔ گوی گرہ میں ہونے کے م م ہ ان حد نہیں‬ ‫ج کہ خدا ہونے اور میسر کے م م ہ میں ان حد ہے۔‬ ‫ا ج دین غرض‘ من فع ی کسی بھی نوعیت کے من فع سے وابستہ‬ ‫ہو ج تی ہے تو وہ دین غن کے زمرے میں نہیں آتی۔ ج کسی بھی‬ ‫طور سے لین مطمع نظر ٹھہرے تو جمع انب ر جو حدوں میں ہوت ہے‘‬ ‫تکبر کی بستی ک اق متی ہو کر خود کو خدا سمجھنے لگت ہے۔ اس ک‬ ‫یہ تکبر چھین جھپٹی فس و فجور ک ہی ب عث نہیں بنت بل کہ بل کہ‬ ‫مخ و کے لیے بہت بڑی آزم ئش بن ج ت ۔ لوگ ظ ‘ زی دتی اور جبر‬‫کی آگ میں ج تے ہیں۔ بستی ں لہو میں نہ تی ہیں۔ کبھی زہر پیت ہے تو‬ ‫کبھی نیزے چڑھت ہے۔ ت ریخ کے پ س مت ج ئیے‘ یہ متکبروں اور‬ ‫متکبروں کے جھولی چکوں ک قصیدہ ہے‘ ہ ں عہد عہد کے ارشد‬ ‫حکی کے کلا کو پڑھیے۔ علامتوں اور است روں میں لپٹی ان کی‬‫کرتوتوں کو دیکھ لیجیے۔ ان متکبروں ک اصل چہرا س منے آ ج ئے گ ۔‬ ‫اگر غن کو تھرل کے م ہو دیئے ج ئیں تو غیرفریبی اور مصنوعی‬‫تھرل میں نم ی ں فر ہوت ہے۔ فریبی اور مصنوعی تھرل لین اور کسی‬ ‫ن کسی نوعیت کی غرض سے جڑی ہوتی ہے۔ اسے ک روب ری اور‬‫ت جری تھرل ک ن دی ج سکت ہے۔ چ لیس پیت لیس س ل پہ ے کی ب ت‬

‫ہے۔ میں بےغ ہجور کے کسی حک پر گھر سے ب ہر آی ۔ ایک دوک ن‬ ‫دار ک روب ری مصروفیت کے س تھ س تھ ریڈیو بھی سن رہ تھ ۔ ریڈیو‬ ‫‪:‬پر امیر خسرو ک یہ کلا نشر ہو رہ تھ‬ ‫نمی دان چہ منزل بود ش ج ئے کہ من بود‬ ‫میرے قد وہیں رک گئے اور بےغ ہجور ک حک ایک د سے ص ر‬ ‫ہو گی ۔ اس کی م نویت اور فوری ضرورت فن کی وادی میں ج بسی۔‬ ‫سڑک کن رے کڑی دھوپ ک احس س ہوئے بغیر کلا سنت رہ ۔ ج کلا‬ ‫خت ہوا تو مجھے گرمی ک شدت سے احس س ہوا ت ہ یہ بھول گی کہ‬ ‫گھر سے کس ک کے لیے آی ہوں۔ غن کی اس ح لت میں‘ میں ک‬ ‫احس س د توڑ گی تھ ۔ ان لمحوں میں تو کے سوا کچھ بھی نہ تھ ۔ غن‬ ‫کی اس صورت میں وجود کے س رے سل تھرل میں آ ج تے ہیں۔‬ ‫تندرست سل اپنی جگہ ک زور‘ بیم ر‘ لاغر‘ مدہوش یہ ں تک کہ مردہ‬ ‫سل بھی حرکت میں آ ج تے ہیں۔‬ ‫حضرت داؤد ع یہ السلا ج کلا الہی پڑھتے تو پرندے تک مزید‬ ‫پرواز سے م ذور ہو ج تے۔ بلاشبہ ان کی آواز میں ج دو رہ ہو گ‬ ‫لیکن اس آواز میں کہے گئے کو بہرصورت کریڈٹ ج ت ہے۔ ایسے ہی‬ ‫نہیں کہ ج ت کہ ل ظ اپنی م نویت کے حوالہ سے ہی زندہ رہت ہے۔‬ ‫جوں ہی آلودہ ہوت ہے جبر زب ن کو تو اپن کر سکت ہے لیکن ہردے‬ ‫اس کی گرفت سے ہزاروں کوس دور رہت ہے۔ جبر کی گرفت جوں ہی‬ ‫ک زور پڑتی ہے آلودہ اپنی موت آپ مر ج ت ہے۔‬‫غن ک یہ حوالہ بھی خدا س لگنے لگت ہے‘ ت ہی کے قری تر چلا ج ت‬‫ہے۔۔ اس خدا س لگنے میں بھی یہ حقیقت پنہ ں ہے کہ شخص چوں کہ‬ ‫میں کی حودود میں نہیں ہوت اور یہ کی یت اختی ری نہیں فطری ہوتی‬

‫ہے اسی وجہ سے غن خدا س لگنے لگت ہے۔‬‫ارشد حکی محکمہ پولیس میں سہی اور دیکھنے میں مولوی س نہیں‘‬ ‫مولوی ہے۔ دونوں ادارے میں کی بستی کے ب سی تھے اور ب سی ہیں‬ ‫لیکن یہ ہ تھی کے دانت دیکھ نے کے اور کھ نے کے اور کے‘ کی‬ ‫عمومی ت ہی کے قط ی برعکس ہے۔ اس کے کردار و عمل میں‬ ‫تصوف ج وہ گر ہے۔ صوفی خود کو ظ ہر نہیں کرت اور ن ہی اپنے‬ ‫صوفی ہونے ک اقرار کرت ہے۔ عجز وانکس ر اس ک وتیرہ رہ ہے۔ دع‬‫ہے‘ الله کری اس کے ع اور ق بی کی ی ت کو اپنی عط ؤں سے سرفراز‬ ‫رکھے۔ آمین‬ ‫ہ اسلا کے م ننے والے ہیں' پیروک ر نہیں‬ ‫میں عرصہ سے حیران تھ کہ مس م ن دنی کی ایک کثیر آب دی ہونے‬ ‫کے ب وجود ذلت وخواری زیردستی اور قرض کے چنگل میں کیوں‬ ‫گرفت ر ہیں۔ اگر کوئ سر اٹھ ت ہے تو اٹھنے والا سر ک سڑ سے ق کر‬ ‫دی ج ت ہے ی پھر پ بندی ں لگ دی ج تی ہیں۔ کوئ اس قہر و غص پر‬ ‫چوں بھی نہیں کر پ ت ۔‬‫میرے ذہن میں یہ سوال بھی اٹھ کی اکثریت کی کوئ م نویت نہیں۔ اگر‬ ‫اکثریت م نویت سے تہی ہے تو پھر جمہوریت محض ایک پ کھنڈ ہے۔‬ ‫اگر جمہوریت ایک ڈرامہ ہے تو ہ اس میں اپنی بق کیوں خی ل کرتے‬ ‫ہیں۔‬

‫ایک سوال نے پھر جن لی ‘ کی جمہوریت کوئ پروگرا بھی دیتی ہے۔‬ ‫اس ک جوا یقین ن ی میں ہے۔ اگر جمہوریت کوئ پروگرا نہیں دیتی‬‫ی اس ک اپن ذاتی کوئ پروگرا نہیں ہے تو کی جمہوریت میں ترقی کی‬‫تلاش کھ ی حم قت نہیں۔ غیر مس جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو یہ‬ ‫ان کے سم جی اور مذہبی سٹ اپ سے لگ رکھتی ہو گی وہ اسے شو‬ ‫سے گ ے ک ہ ر بن ءیں۔ کسی مس کو اس پر اعتراض کرنے ک بھلا‬ ‫کی ح ہے۔ انھیں اپنی مرضی اور ضرورت کی زندگی گزارنے ک ح‬ ‫ہے۔‬ ‫اسلا میں تقوی پرہیزگ ری اور عمل ص لح کو اہمیت ح صل ہے۔ اگر‬‫کوئ مزدور ہے لیکن یہ تینوں امور رکھت ہے تو ری ستی ام رت ک اس‬ ‫شخص سے زی دہ کون مستح ہے۔ جو بے پن ہ دولت ط قت ی ڈرانے‬ ‫دھمک نے اور دب ؤ ڈالنے کی پوزیشن میں ہے لیکن قول و ف ل کے‬ ‫حوالہ سے ف س و ف جر ہے وہ یہ ح نہیں رکھت ۔ گوی اس کی دولت‬ ‫اور ط قت کوئ م نوت نہیں رکھتی۔‬ ‫میں نے بڑا غور کی ہے اکثریت کی کوئ م نویت نہیں۔ انس نی ترقی‬ ‫اور بق کی ض من کوئ اور چیز ہے۔ اؤل اؤل مسم ن ت داد میں ن ہونے‬ ‫کے برابر تھے لیکن ک می بی سے ہ کن ر ہوتے تھے۔ نم ز روزہ حج‬ ‫زکوتہ وغیرہ واجب ت وہ بھی سر انج دیتے تھے ہ بھی ان واجب ت‬ ‫کی اداءگی سے سرخرو ہونے کی کوشش کرتے ہیں قری نی بھی بڑے‬‫جوش و جذبے سے دیتے ہیں تو پھر ن ک ون مراد کیوں ہیں؟ موجودہ‬ ‫صورت ح ل کے حوالہ سے سوال اٹھت ہے کی مس م ن ہونے کے‬‫م م ہ میں ان امور کی اداءگی ک فی نہیں؟! اگر مس م ن ہونے کے لیے‬ ‫یہ واجب ت ک فی ہوتے تو آج ہ دنی میں سرب ند ن سہی ب عزت ضرور‬ ‫ہوتے۔‬

‫اسلا ک ت عم ی زندگی سے ہے۔ اسلا ک تق ض ہے کہ‬ ‫تم مس م ن بلا کسی تمیز وامتی ز آپس میں بھ ئ بھ ئ ہیں لیکن ہ‬ ‫میں بھ ئ چ رہ سرے سے موجود نہیں۔ رنگ نسل زمین زب ن اور‬ ‫عقیدہ کے حوالہ سے ایک دوسرے سے کوسوں دور ہیں۔ ہم رے‬‫م شی اور نظری تی م دات ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ کوئ ظ ل کسی‬‫مس م ن کو پھڑک ت ہے تو ہ س تھ دینے ی ک از ک بچ بچ ؤ کرانے کی‬ ‫بج ءے ظ ل کی طرف داری ہی نہیں مس م ن کو مزید ازیت دینے کے‬ ‫لیے ظ ل ک س تھ دیتے ہیں اور اس کے ف ل بد کو درست ث بت کرنے‬ ‫کے وہ وہ دلاءل گھزتے ہیں جن ک خود ظ لمکو ع نہیں ہوت ۔‬ ‫اسلا میں کسی کو زب ن ی ہ تھ سے دکھ اور تک یف دینے کی اج زت‬ ‫نہیں لیکن ہمیں اوروں کو ان دونوں حوالوں سے دکھ اور تکیف دے‬ ‫کر خوشی ہی نہیں سرش ری ہوتی ہے۔‬‫اسلا میں بدلا لینے کی مم ن ت نہیں اور ن ہی دوسرا گ ل پیش کر دینے‬ ‫ک حک دی گی ہے۔ بدلا لینے ک پورا پورا ہر کسی کو ح ح صل ہے‬‫ہ ں م ف کر دینے میں بڑھ کر اجر رکھ دی گی ہے۔ ہم رے پ س م فی‬ ‫ن کی چیز ہی نہیں۔ ہ ن کردہ جر کی سزا دینے کے بھی ق ءل ہیں۔‬ ‫ایک شخص جر نہیں کرت یہ اس ک قصور ہے اس میں اذیت پسند ک‬ ‫کی قصور ہے۔ چونکہ وہ کمزور ہے لہذا اسے بہرطور سزا اور ازیت‬ ‫سے ب لاتر نہیں رکھ ج سکت ۔‬ ‫اسلا میں رشتہ دار تو الگ دشمن اور غیر مس ہمس یہ بھی بھوک‬ ‫نہیں سو سکت اس کے ب رے میں ہ سے روز حشر سوال ہو گ ۔ ہ‬ ‫اپنے سوا کسی اور کو پیٹ بھر کھ ت دیکھ ہی نہیں سکتے۔ ہم ری‬ ‫کوشش ہوتی ہے کہ اس کے منہ ک لقمہ بھی چھین لیں۔ رہ گئ قی مت‬

‫کی ب ت وہ ہمیں ی د تک نہیں۔ ہ موجودہ حی ت ہی کو س کچھ سمجھ‬ ‫بیٹھے ہیں۔‬ ‫اسلا چوری کی اج زت نہیں دیت ۔ ہر بڑا آدمی ٹیکس کی چوری اپن‬ ‫بنی دی ح سمجھت ہے۔ یہ چیز گریبوں سے مت ہے۔ بڑے قرضوں‬ ‫کی م فی کو اپن ق نونی ح سمجہتے ہیں جبکہ گری کی سنگی پر‬ ‫انگوٹھ رکھ کر قرض وصول کر لی ج ت ہے۔ ط قتور بج ی کی چوری‬‫کو چوری نہیں سمجھت ۔ خود واپڈا والے اس ک ر خیر میں بڑھ چڑھ کر‬‫حصہ لیتے ہیں۔ کی کریں اپنے پیٹ کے علاوہ ب لا افسروں کے پیٹ کی‬ ‫ذمہ داری بھی ان کے سر پر ہوتی ہے۔‬ ‫اسلا جھوٹ اور جھوٹے پر ل نت بھیجت ہے۔ ہ اور ہم ری جمہوریت‬ ‫سچ اور سچے کو مجر ٹھہراتی ہے۔ سچ بولن ی سچ کی حم یت کرن‬ ‫آج ک س سے بڑا جھوٹ ہے۔‬ ‫اسلا ح دار کو اس ک ح دینے کی ت کید کرت ہے۔ یہ ں ح دار کو‬ ‫ح دین ح نہیں رہ ۔ ح دار وہی ہوت ہے جو پلا جھ ڑت ہے۔ ہسپت ل‬‫ہو ی کوئ بھی دفتر بلا دے دالا کے ح مل نہیں سکت ۔ ست یہ کہ دے‬ ‫دالا ن ح کو ح کے درجے پر ف ءز کر دیت ہے۔‬ ‫میں نے یہ ں محض چند ب توں ک ذکر کی ہے ورنہ اسلا انس ن کی‬‫زندگی سے مت ہر م م ے میں اپن پروگرا دیت ہے۔ اس حوالہ سے‬‫دیکھ ج ءے تو یہ ب ت کھ تی ہے نم ز روزہ حج زکواتہ قرب نی وغیرہ‬ ‫کی اداءگی مس م ن ہونے کے لیے ک فی نہیں۔ مسم ن ہونے کے لیے‬ ‫اسلا کے دیے پروگرا کو عم ی زندگی ک حصہ بن ن بھی ضروری‬ ‫ہے۔ ہ اسلا اور اس کے مت ق ت کو م ننے والے ہیں۔ ب لکل اسی‬ ‫طرح جس طرح ہ قدی انبی ء اور تم الہ می کت کو م نتے ہیں۔ م نن‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook