و :اور و :اور‘ اردو میں واؤ اور کے لیے است م ل ہوت ہے۔ اردو میں واؤمرکب ت میں اور کے م نوں میں مست مل ہے۔ مثلا ش وروز‘ ش دی و غ ‘ سی ہ و س ید وغیرہ۔ نست ین :آسرا ل ظ نست ین اردو میں مست مل نہیں۔آسرا سہ را‘ گرتے کو تھ من ‘ گرے کو اٹھ ن ۔ چھت میسر آن ۔ م ش کیصورت‘ کسی کے حوالہ سے پیدا ہون ۔ یہ ل ظ‘ صوری و م نوی اعتب رسے‘ فصیح و ب یغ ہے۔ اسی طرح انس نی زندگی کے‘ ہر گوشے سے‘ کسی ن کسی حوالہ سے‘ منس ک ہے۔ اردو والوں کے لیے‘ یہ ل ظ قط ی غیرم نوس نہیں۔ صراط :راہ ل ظ صراط اردو میں مست مل نہیں۔اہل زب ن نے‘ اس ک ترجمہ راہ‘ رستہ کی ہے۔ حضرت ش ہ ص ح نے بھی یہ ہی ترجمہ کی ہے‘ جو غیرم نوس نہیں۔ مستقی :سیدھیل ظ مستقی اردو والوں کے لیے اجنبی نہیں اور یہ ت ہیمی اعتب ر سے سیدھ ی سیدھی رواج رکھت ہے۔ جیسے
خط مستقی ان مت :دی ان مت :دی ‘ ن مت اردو میں مست مل ہے۔ دی کے لغوی م نی محبت‘عن یت‘ ش قت‘ رح ‘ مہرب نی‘ ترس‘ بخشش وغیرہ ہیں۔ متن کے لح ظ سے م ہو بخشش کے قری تر ہیں اس لیے دان دینے والا۔ ت ہ دانکی نوعیت دیگر دی لو حضرات سے الگ تر ہے۔ وہ ایس دان دینے والا ہے‘ کہ اس س دان دینے والا کوئی نہیں۔ ن ہی اوروں کے پ س اس س دان ہے۔ اس دان میں‘ اس کی محبت‘ عن یت‘ ش قت‘ رح ‘ مہرب نی‘ ترس ش مل ہوتے ہیں۔ گوی اس کی دی اوروں سے الگ ترین ہے۔ المغضو :جھنجلاہٹجھنجلاہٹ‘ غصہ اور خ گی کے لیے مست مل ہے۔ جھنجل سخت آندھیکے لیے ہے۔ ہٹ ک لاحقہ ق ئ ہونے کے لیے ہے‘ ی نی سخت آندھی ک آن ۔ دری ک حد سے بڑے مدوجر۔ یہ اپنی حقیقت میں غض ہی کی صورت ہے۔ یہ ں غصہ اور خ گی کی گرفت میں آئے مراد ہے۔ خ گی خ سے اور خ غصہ اور ن راضگی ہی تو ہے۔ الضآلین :کوراہوں کی الضآلین :کوراہوں کی‘ ی نی جو اصل راہ سے ہٹ گی ہو۔ کوراہ غیر م نوس نہیں۔ کو‘ من ی م ہو ک ح مل ہے۔ مثلا کو -ت ہ‘ کو -ت ہی‘ کو۔
ہڈ‘ کو۔ سنگ‘ کو۔ ریت وغیرہ۔ یہ س بقہ اپنی اصل میں‘ مکمل ی جزوی غ طی‘ خرابی‘ کجی‘ کمی‘ خ می‘ بدنم ئی‘ بدن می‘ بدک ری وغیرہ کے لیے مخصوص ہے۔ یہ ں بھی ان ہی م نوں میں است م ل ہوا ہے۔ کو۔ راہ ی نی راہ سے ہٹ ہوا۔ ................................. ترجمہ سورتہ پہ ے ہی پہل ن لیت ہوں من موہن ک جوہ بڑی نی ہ موہ والا ہے س راحت من موہن کو ہے جو س رے سنس ر ک پ لن ہ ر بڑی نی ہ موہ ک مہر والا ہے جس کے بس میں چکوتی ک دن ہے۔ ہ تیرا ہی آسرا چ ہتے ہیں اور تجہی کو پوجتے ہیں چلا ہ کو سیدھی راہ ڈگ مگ نہیں۔ ان لوگوں کی جن پر تیری دی ہوگی۔ نہ ان کی جن پر تیری جھنجلاہٹ ہوئی نہ راہ کوراہوں کی۔ اور نہ راہ کھوئے ہووں کی۔ اور راہ بھٹکے ہووں کی۔ اس مہ بید کے پرمیشور ہونے میں کوئی وگدھ نہیں۔ وہ بھگتوں کو بھ ی راہ پر لات ہے۔ جو اندیکھے دھر لاتے ہیںاور پوج کو سنوارتے ہیں اور ہم رے دیئے ک دان بھی کرتے ہیں۔ اور جو جو تیرے بل اترا اس کو اور جو تجھ سے پہ ے ات را گی اس کوجی سے م نتے ہیں اورپچھ ے جگ کو بھی جی میں ٹھیک ج نتے ہیں۔یہی لوگ اپنے پ لن ہ ر کی راہ پر ہیں۔ اور یہی اپنی امنگ پ ون ہ ر ہیں۔ اس میں کوئی وگدھ نہیں کہ م یچھوں کو تو کیس ہی ڈراوے ی نہڈراوے وہ دھر نہیں لاویں گے۔ من موہن نے ان کے جی اور ک نوں پر ٹھپ لگ دی ہے اور ان کے نینوں میں موتی پھرا ہوا ہے اور کے لیے بھ ری م ر ہے۔ ش ہ فضل الرحمن گنج مرادآب ی
فرہنگ سورتہ ف تحہ ال س حمد راحت الله من موہن ر پ لن ہ ر ال س رے ع مین سنس ر ال بڑی رحمن
نی ہ موہ الرحیمہر والا م لکبس میں یو دن الدین چکوتی ای کتجہی کو ن بد پوجتے و اور ای ک تیرا نست ین
آسرا اھدن ہ کو الصراط راہ المستقی سیدھی ان مت دی ع یھ جن پر غیر جن پر المغضوجھنجلاہٹ ع یھ ان کی و
اور الضآلین کوراہوں کی .................................پہ ے ہی پہل ن لیت ہوں من موہن ک جوہ بڑی نی ہ موہ والا ہے الحمد لله س راحت من موہن کو ہے ر ال مین جو س رے سنس ر ک پ لن ہ ر الرحمن الرحی بڑی نی ہ موہ ک مہر والا ہے م ک یو الدین جس کے بس میں چکوتی ک دن ہے۔ ای ک ن بد و ای ک نست ین ہ تیرا ہی آسرا چ ہتے ہیں اور تجہی کو پوجتے ہیں ل ظی و ترتیبی تجہی کو پوجتے ہیں اور ہ تیرا ہی آسرا چ ہتے ہیں
اھدن الصراط المستقی ان مت ع یھ چلا ہ کو سیدھی راہ ڈگ مگ نہیں۔ ان لوگوں کی جن پر تیری دی ہوگی۔چلا ہ کو سیدھی راہ ڈگ مگ نہیں ان لوگوں کی جن پر تیری دی ہوگی۔ چلا ہ کو سیدھی راہ‘ ڈگ مگ نہیں ان لوگوں کی جن پر تیری دی ہوگی۔ وض حتی ڈگ مگ نہیں غیرالمغضو ع یھ والضآلین نہ ان کی جن پر تیری جھنجلاہٹ ہوئی نہ راہ کوراہوں کی۔ آمین ................ یہ سورتہ ف تحہ ک ترجمہ نہیں‘ سورتہ البقر کی کچھ آی ت ک ترجمہ ہے۔ اس مہ بید کے پرمیشور ہونے میں کوئی وگدھ نہیں۔ وہ بھگتوں کو بھ ی راہ پر لات ہے۔ جو اندیکھے دھر لاتے ہیں اور پوج کو سنوارتے ہیں اور ہم رے دیئے ک دان بھی کرتے ہیں۔ اور جو جو تیرے بل اترا اس کو اور جو تجھ سے پہ ے ات را گی اس کو جی سےم نتے ہیں اورپچھ ے جگ کو بھی جی میں ٹھیک ج نتے ہیں۔ یہی لوگاپنے پ لن ہ ر کی راہ پر ہیں۔ اور یہی اپنی امنگ پ ون ہ ر ہیں۔ اس میں کوئی وگدھ نہیں کہ م یچھوں کو تو کیس ہی ڈراوے ی نہ ڈراوے وہ
دھر نہیں لاویں گے۔ من موہن نے ان کے جی اور ک نوں پر ٹھپ لگ دی ہے اور ان کے نینوں میں موتی پھرا ہوا ہے اور کے لیے بھ ری م ر ہے۔ ........... شجرہ ق دریہ ۔۔۔۔۔ ایک ج ئزہ جنت مک نی حضرت سیدہ سردار بی بی' دختر حضرت سید برکت ع ی زوج مخدومی ومرشدی حضرت سید غلا حضور'س ب اق متی ننگ ی'امرت سر' بھ رت' متوفی 1996کی پ کٹ ڈائری ک ' کس حد تک' اپنے کسی مضون میں ذکر کر چک ہوں۔ اس ڈائری میں شجرہ ق دریہ بھی درج ہے۔ اس کی بڑی خوبی یہ ہے کہ ش عر ک ن اور ق دریہ خ ندان سے ت بھی' داخ ی شہ دت کے طور مل ج ت ہے۔ یہ پیر سید غلا جیلانی کے مرید تھے جو گڑھ شنکر پنج بھ رت میں' رہ ئش پذیر تھے۔ اس ذیل میں شجرے ک یہ بند ملاحظہ ہو۔ حضرت پیر غلا جیلانی مہر ع ی دے رہبر ج نی ہر د وسن وچ دھی ن ی ر مشکل کریں آس ن
یہ شجرہ کل ست ئس بندوں پر مشتمل ہے۔ شجرے کے پہ ے نو بندکم ل کی روانی رکھتے ہیں۔ اس میں شخصی ت رف کے لئے ص تی ک م ت سے ک لی گی ہے۔ مثلا ع ی ولی ہیں زوج بتول ش ہ مرداں ہیں شیر خدا بی بی زہرہ بنت رسول حسن عسکری نورالنور عبدال زیز ہیں یمنی ہ دی عبدالوہ فضل الہی حضرت یحیی رہبر ک مل ت ج الدین نے زہد کم ی
حضرت پیر غلا جیلانی گڑھ شنکر وچ تخت مک ن عموم پڑھنے اور سننے میں بھی آی ہے کہ اردو پر پنج بی اثرات پ ئے ج تے ہیں۔ پنج بی بھی اردو کے اثرات سے مح وظ نہیں۔ اس شجرہ کے حوالہ سے اردو کے اثرات ملاحظہ فرم ئیں۔ نحوی اس پر میرا تکیہ م ن مہدی زم ن ک ج ن ظہور کچھ مصرعے لس نی اعتب ر سے اردو اور پنج بی کے نہیں ہیں۔اس وبی اعتب ر سے اردو کے ضرور ہیں مست مل اور ق بل فہ بھی ہیں۔ ب قر وج ر و موسی ک ظ حسن عسکری نورالنور خواجہ کرخی در بی ن ابوال ب س احمد دل ش داں
حضرت یحیی رہبر ک مل ش ہ جنید پیر بغدادیہم رے ہم رے ہ ں بیوی کے لئے ل ظ زوجہ است م ل کی ج ت ہے۔ خ وند کے لئے یہ ی اس کی کوئی شکل مست مل نہیں ہے۔ ش عر نے خ وند کے لئے ل ظ زوج است م ل کی ہے۔ یہ است م ل کے حوالہ سے غیرم نوس ہے ح لاں کہ درست اور فصیح ہے۔ ع ی ولی ہیں زوج بتول مہر ع ی نے ان ست ئیں بندوں میں خو صورت مرکب ت بھی دئیے ہیں۔ مثلا سید ط لح اہل حضور ہر د تیرا شکر احس ن مہر ع ی ہے ع جز خ کی راہ خدا ہیں ج ن فدا حضرت یحیی رہبر ک مل اس پر میرا تکیہ م ن
ایک مرک تو لس نی صوتی اور م نوی اعتب ر سے بڑے کم ل ک ہے۔ نظر و نظری کرن نہ ل دو نئے مہ ورے بھی دیے ہیں۔ دو مصرعے خ لص پنج بی کے نہیں ہیں۔ زہد کم ی ت ج الدین نے زہد کم ی 'رہبر پ یلہجے کے اعتب ر سے اردو ک نہیں ہے۔ ورنہ اس مصرعے کے اردو ہونے میں کوئی شک نہیں۔ شرف الدین نے رہبر پ ی
اردو :شرف الدین کو رہبرملا پنج بی :شرف الدین نوں رہبر م ی شرف الدین نے رہبر پ ی .....غیر فصیح نہیں ہے۔ صوتی حوالہ سےبھی' ہر زب ن بولنے والوں کے لئے' سم عتی گرانی ک سب نہیں بنت ۔ پورے شجرے میں' مصرعوں میں ایک آدھ ل ظ کی تبدی ی سے' اردو وجود ح صل کر لیتی ہے۔اگر اسے اردو پر پنج بی کے اثرات ک ن دی ج ئے' تو بھی ب ت یکسر غ ط م و نہیں ہوتی۔ شجرہ ملاحظہ ہو شجرہ ق دریہ الله الله ہر د آکھ تن من اپن کرکے پ ک نبی محمد دے قرب ن
ی ر مشکل کریں آس ن الله الله ہر د آکھآکھ ک است م ل ق فیہ کی مجبوری ہے۔ نبی محمد دے قرب ن دے کی بج ئے کے نبی محمد کے قرب ن ی ر مشکل کریں آس ن کریں کی بج ئے کرن ی ر مشکل کرن آس ن ......... خ ص خدا دا نبی پی را امت نوں بخش ون ہ را اس پر میرا تکیہ م ن ی ر مشکل کریں آس ن
خ ص خدا دا نبی پی را دا کی جگہ ک خ ص خدا ک نبی پی را امت نوں بخش ون ہ رانوں کی جگہ پرانی اردو کے مط ب کوں امت کوں بخش ون ہ را .......... بی بی زہرہ بنت رسول ع ی ولی ہیں زوج بتول میں ع جز دا سر قرب ن ی ر مشکل کریں آس ن میں ع جز دا سر قرب ن دا کی جگہ ک میں ع جز ک سر قرب ن ..........
ص حبزادے نور ال ینی نی حضرت حسن حسینصدقے حضرت ع بد ج ن ی ر مشکل کریں آس ن ب قروج روموسی ک ظ موسی رض دی ال ت لاز تقی نقی دے میں قرب ن ی ر مشکل کریں آس ن موسی رض دی ال ت لاز دی کی جگہ کی موسی رض کی ال ت لاز تقی نقی دے میں قرب ن دے کی جگہ کے تقی نقی کے میں قرب ن .........
حسن عسکری نورالنور مہدی زم ن ک ج ن ظہور ہر د میرا ایہو دھی ن ی ر مشکل کریں آس ن ہر د میرا ایہو دھی ن ایہو کی جگہ یہ ہی ہر د میرا یہ ہی دھی ن ......... پنج ب رہ ہور چودہ ج ن اہل بیت دے ح ایم ن ص ت نہ کیتی ج بی ن ی ر مشکل کریں آس ن پنج ب رہ ہور چودہ ج نہور کی جگہ اور۔ گوی صرف آواز ہ کو ا میں بدلن ہے۔
پنج ب رہ اور چودہ ج ن .......... ش ہ مرداں ہیں شیر خدا راہ خدا ہیں ج ن فدا خواجہ حسن بصری دل ج ن ی ر مشکل کریں آس نحبی عجمی دے گھول گھم واں داؤد ط ئی دے صدقے ج واں خواجہ کرخی در بی ن ی ر مشکل کریں آس نحبی عجمی دے گھول گھم واں داؤد ط ئی دے صدقے ج واں دے کی جگہ کےحبی عجمی کے گھول گھم واں داؤد ط ئی کے صدقے ج واں ........
خواجہ سری سقطی ہ دی ش ہ جنید پیر بغدادی ابوبکر شب ی دا م ن ی ر مشکل کریں آس ن ابوبکر شب ی دا م ن دا کی جگہ ک ابوبکر شب ی ک م ن ........ ابوال ب س احمد دل ش داں عبدال زیز ہیں یمنی ہ دیشیخ یوسف دے میں قرب ن ی ر مشکل کریں آس نشیخ یوسف دے میں قرب ن دے کی جگہ کے
شیخ یوسف کے میں قرب ن ....... ابوال رح طرطوسی ق ری ابوالحسن ع ی ہنک ری ابوس ید مخدومی ج ن ی ر مشکل کریں آس ن ابومحمد عبدالق درغوث قط س در پر ح ضر ط ل جسدا کل جہ ن ی ر مشکل کریں آس ن ط ل جسدا کل جہ ن دا کی جگہ ک ط ل جسک کل جہ ن .........
عبدالوہ فضل الہی عبدالرحی دی پشت پن ہی سید وہ رکھ ح ظ ام ن ی ر مشکل کریں آس ن عبدالرحی دی پشت پن ہی دی کی گہ کی عبدالرحی کی پشت پن ہی ......... حضرت یحیی رہبر ک ملجم ل الدین ہیں ہر د ش مل نور الدین دے پیر۔۔۔۔۔۔۔ ی ر مشکل کریں آس ن نور الدین دے پیر۔۔۔۔۔۔۔ دے کی جگہ کے نور الدین کے پیر۔۔۔۔۔۔۔
....... ت ج الدین نے زہد کم ی شرف الدین نے رہبر پ ی محمد ی سین ہیں فیض رس ن ی ر مشکل کریں آس ن سید ط لح اہل حضور سید ص لح نور النور ہر د میرا ورد زب ن ی ر مشکل کریں آس ن سید یحیی الح ج آئے سید عثم ن رہبر پ ئےسید عبدالله دے پیر نوں ج وے ی ر مشکل کریں آس نسید عبدالله دے پیر نوں ج وے
دے کی جگہ کے اور نوں کی جگہ کوں رکھ دیں سید عبدالله کے پیر کوں ج وے ......... سید غلا مصط ے ج نو ہ دی ن لی ں دل ہووے ش دی سید احمد ہیں اہل ۔۔۔۔۔۔ ی ر مشکل کریں آس ن سید غلا مصط ے ج نو ہ دی ج نو' ج نن کے لئے ہے ت ہ سمجھو رکھ دیں۔ سید غلا مصط ےسمجھو ہ دی ........ سید ع ی م ظ ق در وچ حضوری ہر د ح ضر ع رف ف ضل ک مل ج ن ی ر مشکل کریں آس ن
وچ حضوری ہر د ح ضر وچ کو میں بدل دیں حضوری میں ہر د ح ضر ......... حضرت ق در بخش کم ل نظر و نظری کرن نہ ل دوئیں تھ ئیں روشن ج ن ی ر مشکل کریں آس ن نظر و نظری کرن نہ ل کرن کو کریں کر دیں نظر و نظری کریں نہ ل ........ حضرت پیر غلا جیلانیق در بخش نے ہوئے نورانی
گڑھ شنکر وچ تخت مک ن ی ر مشکل کریں آس ن گڑھ شنکر وچ تخت مک ن وچ کو میں بدل دیں گڑھ شنکر میں تخت مک ن .......حضرت دے دو بھ ئی پی رے ق در بخش دے ہی دلارے عط محمد ہیں درب ن ی ر مشکل کریں آس نحضرت دے دو بھ ئی پی رے ق در بخش دے ہی دلارے دے کی جگہ کےحضرت کے دو بھ ئی پی رے ق در بخش کے ہی دلارے
......... غلا غوث دے قرب ن بیٹے جس دے ست عی ن الله دتے ہو رحم ن ی ر مشکل کریں آس ن غلا غوث دے قرب ن بیٹے جس دے ست عی ن دے کی جگہ کے غلا غوث کے قرب نبیٹے جس کے ست عی ن ........لنگر رکھ دے ہر د ج ری وچ درب ر رہے گ زاری آئے سوالی خ لی نہ ج ن ی ر مشکل کریں آس ن
لنگر رکھ دے ہر د ج ری وچ درب ر رہے گ زاری.رکھ دے کی جگہ رکھتے اور وچ کی جگہ میں رکھ دیں لنگر رکھتے ہر د ج ری درب ر میں رہے گ زاری ........ شجرہ شریف میں کہی س را مینوں بخشیں پروردگ را ہر د تیرا شکر احس ن ی ر مشکل کریں آس ن مینوں بخشیں پروردگ را مینوں کو مجھے کر دیں مجھے بخشیں پروردگ را ........
حضرت پیر غلا جیلانی مہر ع ی دے رہبر ج نی ہر د وسن وچ دھی ن ی ر مشکل کریں آس ن مہر ع ی دے رہبر ج نیدے کی جگہ کے رکھ دیں مہر ع ی کے رہبر ج نی ........ مہر ع ی ہے ع جز خ کی توں س قی ں دا ہیں س قی ش ہ جیلانی دے ایم ن ی ر مشکل کریں آس ن توں س قی ں دا ہیں س قی ش ہ جیلانی دے ایم ن تبدی ی
تو ہے س قیوں ک س قی ش ہ جیلانی کے ایم ن ....... شجرہ شریف پڑھیں بھ ئی ق تہ ڈے دی ہو گی ص ئی جو ہیں ق دری خ ندان ی ر مشکل کریں آس ن ق تہ ڈے دی ہو گی ص ئیتہ ڈے کو تہ رے دی کی جگہ کی ق تہ رے کی ہو گی ص ئی .......... پڑھنے دا وقت صبح و ش پڑھ لی جس پیت ج پیر سوہنے دا ہے قرب ن ی ر مشکل کریں آس ن
پڑھنے دا وقت صبح و ش دا کی جگہ ک پڑھنے ک وقت صبح و ش پیر سوہنے دا ہے قرب ن دا کی جگہ ک پیر سوہنے ک ہے قرب ن ....... ایک چرچ مین کی ی وہ گوئی اور میری م روض ت ایک دو روز پہ ے فیس بک پر‘ مجھے ایک چرچ مین کی گ ت گو‘سننے ک ات ہوا۔ اس کی گ ت گو نے‘ مجھے بڑا ہی ڈسٹر کی ۔ لگت تھ ‘ کہ ابھی مرت ہوں۔ یہ مذہبی ٹھیکےدار‘ قص بی اور خود غرض فطرت کے ح مل ہوتے ہیں۔ انہیں اس امر سے دل چسپی ی ت واسطہ نہیں ہوت ‘ کہ ان کے ل ظ‘ کسی پر کی قی مت توڑیں گے۔ اسچرچ مین کی زب ن نہ یت گھٹی تھی۔ لگت تھ ‘ کہ میرا دم پھٹ ج ئے گ اور دل کی حرکت ابھی بند ہو ج ئے گی۔ اس کی ویڈیو کے حوالہ سے‘ میں نے یہ چند جم ے بولے ہیں۔ اس کی ویڈیو ک لنک بھی ب طور حوالہ ضرورپیش کرت ‘ لیکن میری ہمت نہیں پڑی‘ کہ ایسی گھٹی چیز کو پیش کروں۔ اس کو سن کر‘ کسی کو کوئی ذہنی ی ق بی
ع رضہ لاح ہو سکت ہے۔ اس ک لہجہ‘ زب ن‘ موضوع اور گ ت گو ک مواد‘ یکسر غیر متوازن اور ب زاری نوعیت ہے۔ یقین ہو ج ت ہے کہ اس سے مذہبی مین‘ ع کے قری سے بھی نہیں گزرے ہوتے۔ پڑھ لکھ اور ص ح ع ‘ موڈ کی کسی سطع پر بھی‘ ش ئستگی ک دامن نہیں چھوڑت ۔ عجی ہے‘ اسلا حضرت عیسی ع یہ السلا اور اور ان کی کت انجیل کو‘عزت دیت ہے تو آخر ان فس دیوں کو ایسی ب تیں کیوں سوجھتی ہیں‘ جن سے فس د ک دروازہ کھ ت ہو۔https://www.facebook.com/100008707759393/videos/1555521681414742/UzpfSTEwMDAwODcwNzc1OTM5MzoxNTU1NTIyMTExNDE0Njk5/?id=10000870775 9393 طلاش دی آج اور کل کی خو صورتی اور رواں حی ت ک پہلا زینہ ہے لہذا یہ ہر حوالہ سے م تبر اور امور حی ت میں پہ ے نمبر پر آت ہے۔ بلا زندگی پھل پھول حسین وادی ں بدلتے موسموں کے رنگ کس ک کے۔ گوی اس کی اس حیثیت کے تن ظر میں بلاتک ف کہ ج سکت ہے‘ یہ لذت ک ذری ہ نہیں اپنی ذات میں تقدس مآ بھی ہے۔ ش دی کے م نی خوشی کے ہیں۔ ش دی کے ب د زندگی کے آخری لمحوں تک دکھ سکھ کے ہر موس میں خوش رہنے کی س ی ہوتی رہنی چ ہیے۔ درگزر برداشت ایک دوسرے کے لیے تی گ ش ر رہن چ ہیے۔ ایک چھت ت ے دو جنسیں س نس لے رہی ہوتی ہیں اور اگ ی
نسل ک ذری ہ بن رہی ہوتی ہیں۔ ہر نئے آنے والے کی ہر ضرورت کو ہر م م ے پر ترجیع دیتی ہیں۔ مثلا م ں گہری نیند میں ہے۔ بچے کوبھوک لگ گئی ہے۔ وہ یہ کہہ کر رونے دو‘ صبح کو اٹھ کر تس ی سے دودھ پلاؤں گی سو ج تی ہے۔ نہیں ب لکل نہیں‘ سو نہیں ج تی۔ وہ فورا سے پہ ے اٹھ ج ئے گی۔ فیڈ کرانے کے ب د ہی سوئے گی۔ بچے کو کوئی تک یف ہے۔ دونوں‘ اس بچے کے م ں اور ب پ اٹھ کر اسے کمرے میں ی صحن میں لے کر پھریں گے۔ زی دہ تک یف کی صورت میں‘ رات ک کوئی بھی سم ں رہ ہو۔ گھر میں کوئی نہ ہو چور ڈاکو پڑنے ک احتم ل ہو‘ لیکن یہ دونوں جو اس بچے ک سب بنے ڈاکٹر وید حکیموں کے گھر کے دروازوں پر دستک دیتے پھریں گے۔ ح لاں کہ وہ بچہ الله کی مخ و اور اس کی م کیت ہے۔ الله نے انکےسینوں میں محبت ک سمندر بہ دی ہوت ہے اس لیے ان کی بےچینی اور بےقراری برداشت سے ب ہر نکل ج تی ہے۔اس خو صورت خوشوں بھرے اور تقدس مآ رشتے کے خت ہونے کی راہیں نکل آتی ہیں۔ مثلا غصہ دونوں کی ی کسی ایک کی کوئی اور اپنی کوئی پسند رہی ہو پہ ے دن ہی دل کو نہ بھ ن ۔ زبردستی کی ش دی ایک فری کی حد سے بڑھی بدکلامی عورت کسی ذاتی ترجیع کی بن پر طلا ط کر سکتی ہے۔ جیسے یہ ں ایک عورت کو ہزار روپیے کی ملازمت ک جھ نسہ ملا اس
نے خ وند کو طلا دینے پر مجبور کر دی ۔ غ ط فہمی کسی تیسرے کی س زش ت کہ یہ رشتہ خت ہو ج ئے ی ان کے ہ ں کل ک ی ں س س ہ ج ری رہے آدمی کے پ س م ل ی عہدہ ہونے کی صورت میں اپنی بیٹی دینے کی خواہش‘ ک ن بھریے متحرک ہو ج تے ہیں۔ایسی بیسیوں وجوہ ہو سکتی ہیں جو می ں بیوی کے رشتے کو خت کر سکتی ہیں۔ طلا برا نہیں‘ انتہ ئی برا ف ل ہے۔ آخری حد تک برداشتاور درگزر سے فری ک لیں اور نب ہ کی صورت نک لیں۔ ج درستی ک رستہ نہ نک ے اور فس د ک دروازہ کھ نے ک احتم ل ہو تو طلا بہت بڑی ن مت ہے کیوں کہ یہ دوشخصوں کو ہی نہیں‘ دو کنبوں اورسوس ئٹی کو بھی فس د کی آگ سے بچ لیتی ہے ت ہ تین ب ر تین وقتوںمیں انتہ ئی سنجیدگی اور مخ صی سے غور کر لین چ ہیے کہ غ طی تو نہیں ہونے ج رہی۔ اس ک مستحسن طریقہ یہ ہی ہے کہ فریقین آمنے س منے بیٹھ ج ئیں۔ عورت نے طلا م نگی ہو ی مرد طلا دین چ ہت ہو‘ مرد تین ب ر ل ظ طلا ٹھہر ٹھہر اور رک رک کر بولے۔ اس کے ب د دونوں فری ایک دوسرے سے دوری اختی ر کر لیں۔ ن رت کے سب دل میں طلا دینے سے طلا نہیں ہوتی۔ دل میں دی گئی طلا کے حوالہ سے گھری و اور جنسی ت خت کرن حرا ہے۔ س منے ہیٹھ کر طلا کے شبد بولن طلا دینے کے لیے ضروری ہے۔ ورنہ طلا واقع نہیں ہوتی۔
نوٹ:ح م ہ ہونے ی حیض میں ہونے کی صورت میں ایس نہیں کی ج سکت ۔ حیض کے خت اور بچے کی پیدائش تک انتظ ر کریں۔ طلا دینے ی لینے ک ارادہ اس کے ب د بدل ج ت ہے تو یہ اچھ خوشگوار عمل ہو گ۔ تین حیض ی نی تین م ہ وہ اسی گھر میں اق مت کرے۔ تین م ہ ب د ان دونوں ک کوئی رشتہ نہ ہو گ ۔ وہ ایک دوسرے کے لیے اجنبی اور غیر محر ہوں گے۔ وہ ہر طرح سے آزاد ہوں گے اور اپنے ہر قس کے اچھے برے کے ذمہ دار ہوں گے۔ نوٹ: ان تین م ہ ی نی نوے دن میں وہ ص ح کر سکتے ہیں۔ یہ ں تک مدت کے آخری لمحے تک وہ ص ح کر سکتے ہیں۔ عورت اس دورانیے میں گھر سے ب ہر قد نہیں رکھے گی اور ن ہی گھر ی گھر سے ب ہر کسی شخص سے ت ق ت بن ئے گی۔ مرد ان تین م ہ میں اس عورت کو ضروری ت حی ت کسی دوسرے کے ہ تھ سے مہی کرت رہے گ ۔ طلا ک سرک ری طریقہ ہر لح ظ سے ق بل مذمت ہے کہ عورت کو طلا کے سرک ری طریقہ سے تین م ہ طلا کے نوٹس بھیجے گ ۔ یہاپنی اصل میں سرک ری اہل ک روں کو م ل پ نی مہی کرنے ک رستہ نک لا گی ہے۔ عورت اور مرد کے ایک چھت سے نکل ج نے سے ص حص ئی ک رستہ بند ہو ج ت ہے۔ دونوں کے اپنے قری لانے کی کوشش نہیں کریں گے بل کہ ان کے دلوں کو پتھر بن ئیں گے۔ وہ وہ غ طی ں
اور خ می ں گوش گزار کریں گے جن ک ان کے فرشتوں کو بھی ع نہہو گ ۔ م ضی کی کوت ہیوں کے قصے انہیں ی د دلائیں گے۔ دو ہزار س ل پہ ے اس بےلح ظ اور منہ پھٹ عورت نے تمہ رے ن ن کی ش ن اقدس میں گست خی کی تھی۔ بےتکی ں چھوڑ کر ن رتوں ک آسم ن سے ب تیں کرت بھ نبڑ مچ دیں۔ ج ل س زی ک زم نہ ہے فس د ک ر یہ ک انج دے سکت ہے۔ اپنے م د ذاتی ی خ ندانی ضد کی بن پر زبردستی اور ب لجبر طلا ک نوٹس بھجوای ج سکت ہے۔ایسی بہت س ری وجوہ ہیں جن کی بن پر اس سرک ری طریقہ کو اختی ر کرن کسی طرح درست نہیں۔ کھ ی تنبیہ بیٹی مہر افروز ک خوا اہل دنی کے لیے ایک کھ ی تنبیہ کچھ دن ہوئے مجھے ایک خوا آی اور میں نے کوئی غور نہ کی کہ میں کون س کوئی درویش ی صوفی ہوں۔ ایک ع س آدمی ہوں۔ ہ ںدرویشوں صوفیوں اور اہل فقر کے لیے دل میں عزت احترا اور محبت ضرور رکھت ہوں۔ یہ خوا سحری قری ک تھ ۔ میں نے خوا میں دیکھ کہ ان ہی بوسیدہ اور تقریب پھٹے پرانے
سے کپڑوں میں م بوس ہوں اور ایک ت حد نظر میدان میں اکیلا کھڑا :ہوں۔ میں نے ب ند آواز میں کہ لوگو! سنو سنو کچھ لوگ جمع ہو گئے۔ میں نے کہ :دیکھو اپنے الله کی طرف پھر ج ؤ اسی میں تمہ ری بھلائی ہے۔میری آواز ازخود ب ند ہو گئی اور چ روں طرف گونجنے لگی۔ پہ ے چند پھر اس کے ب د ت حد نظر لوگ جمع ہو گیے۔ میں میدان میں ہی کھڑا ہوں اور میری آواز س تک پہنچ رہی ہے۔ آواز اتنی ب ند اور گرج دار کیسے ہو گئی۔ حیرت کی ب ت تھی۔ میں نے لوگوں کو خبردار کی کہ برا وقت آنے کو ہے۔ اس سے پہ ے کہ برا وقت آئے ج د اور کسی توقف اور تس ہل کے بغیر توبہ کرکے اپنے الله کی طرف پھر ج ؤ ورنہ اچھ نہیں ہو گ ۔میں نے خوا کو نظرانداز کر دی کہ بس یہ میرا ایک محض واہمہ تھ ۔ سمجھ ن ی کسی قس کی تنبیہ کرن تو بڑے لوگوں ک ک ہے ج کہ میں سرے سے کچھ بھی نہیں ہوں ۔۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔ مجھے تو خود ہدایت اور راستی پر چ نے کی ضرورت ہے۔ میں کون ہوت ہوں کسی کو تنبیہ کرنے والا۔ میری اوق ت اور بس ت ہی کی ہے اور یہ بھی کہ میں بھلا کسی کو کی ہدایت اور وارننگ دے سکت ہوں۔دو روز ہوئے میری پی ری بیٹی مہر افروز نے اپن خوا سن ی جس کیکڑی ں میرے خوا سے م تی ہیں۔ بیٹی مہر افروز حضرت ب ب جی قب ہ سید م ین الدین چشتی رح کے گھرانے سے روح نی انسلاک رکھتی
ہے۔ وہ ہے بھی درویش اور فقیر طبع۔ اس نے خوا میں دیکھ وہ پہ ڑ ی چٹ ن کی چوٹی پر اکی ی کھڑی ہے نیچے ایک دنی آب د ہے۔ آسم ن پر سی ہ ب دل امڈے چ ے آتے ہیں۔ نیچے چ تے پھرتے لوگخرابی ک شک ر ہیں۔ وہ چیخ چیخ کر لوگوں کو خرابی سے ب ز آ ج نے کو کہہ رہی ہے۔ لوگ اسکی آواز پر ک ن دھرنے کی بج ئے اس ک مذااڑا رہے ہیں۔ وہ مذا برداشت کرکے لوگوں کو راستی کی طرف پ ٹنے کو کہے ج رہی ہے لیکن لوگ خرابی سے رک نہیں رہے۔ پھر آن واحد میں ب رش کی بج ئے آسم ن سے برف کی س یں گرن شروع ہو ج تی ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے نیچے سوائے ویرانے کے کچھ ب قی نہیں بچت اور آسم ن پھر سے ص ف اور ش ف ہو ج ت ہے۔میں بیٹی مہر افروز کے خوا کو لای نی اور بےم نی نہیں سمجھت اور اس کے اس خوا کو دنی کے س منے لانے کی جس رت کر رہ ہوں۔ مجھ سے جتن ج دی ہو سک اس ک خوا لوگوں کے س منے پیش کر دی ہے کہ کہیں میری کوت ہی اور تس ہل کے سب دیر نہ ہو ج ئے۔لوگو! ج ن رکھو موت برح ہے ہر کسی کو حقیقی م لک کے پ س ج نہے یہ ں ک یہ ں ہی رہ ج ئے گ ۔ یہ ں ک کچھ س تھ نہ ج سکے گ ۔ جتن ج د ہو سکے توبہ کی ج ن پھرو۔ الله سے زی دہ کوئی اور مہرب ن نہیں۔ وہ سچی توبہ ضرور قبول فرم ئے گ ۔اچھ ئی اور نیکی ک رستہ اختی ر کرو۔ انس ن ک ئت ت کے لیے ہے۔ اسے خلافت ارضی م ی ہے۔ اپنی اخری ط قت تک ک ئن ت کی جم ہ مخ و ک
بلات ری وامتی ز بھلا کرو۔ س ک خی ل رکھو ج ن رکھو تمہ را خی ل رکھنے کے لیے الله ہی ک فی ہے۔ خدا کے لیے اپنے الله کی طرف پھرو ورنہ ج ن رکھو آخر کو خس رہ اور پچھت وا ہی ہ تھ لگے گ ۔ اگر وقت گزر گی تو واپسی نہ ہو سکے گی۔ اے الله! گواہ رہن کہ میں نے لوگوں تک مہر بیٹی ک خوا پہنچ دیہے۔ توبہ کی استدع کر دی ہے۔ بدی سے ب ز آنے کو کہہ دی ہے۔ بھلا کرنے اور راستی ک رستہ اپن نے کے لیے بھی گزارش کر دی ہے۔ اے الله! اپنے اس حقیر اور ن چیز بندے کی توبہ قبول فرم بھلا کرنے اور راہ راست پر چ نے کی توفی عط فرم ۔ اے الله! میری بیٹی مہر افروز کے دانستہ اور ن دانستہ گن ہوں اور ہر قس کی کمی کوت ہی کو م ف فرم دے۔اس کے اچھ کرنے کی شکتی میں اض فہ فرم ۔ بےشک تجھ سے زی دہقری کوئی نہیں اور تجھ سے بڑھ کر مدد کرنے اور توفی عط کرنے والا کوئی نہیں۔ میں ن ہیں سبھ توں۔۔۔۔۔۔۔چند م روض ت
‘میں ن ہیں سبھ توں فقرا کی زندگی ک پہلا اور آخری اصول ہوت ہے۔ جو فقیر اس نظریے پر‘ فکری‘ ق بی اور عم ی سطح پر ق ئ رہت ہے‘ وہ ہی ص لحین کی صف میں کھڑا ہوت ہے۔ عموم ب کہ اکثر‘ اختلاف اس کی ت بیر و تشریح پر ہوت ہے۔کچھ ک کہن ہے‘کہ یہ نظریہ‘ ترک دنی کی طرف لے ج ت ہے۔ ترک دنی کے رویے کو‘ کسی طرح مستحسن قرار نہیں دی ج سکت ۔ دوسرے ل ظوں میں‘ یہ ذمہ داریوں سے فرار کے مترادف ہے۔ ایک طبقہ اسے الح د کی طرف بڑھنے ک رستہ سمجھت ہے۔ کچھ کہتے ہیں‘ اس کے نتیجہ میں‘ ایک سطح پر ج کر‘ خدائی ک دعوی س منے آت ہے۔ اس کے علاوہ بھی‘ اس نظریے کی تشریح ت کی ج تی ہیں۔ جو اس ذیل میں تشریح ت س منے آتی ہیں‘ ان ک حقیقت سے‘ دور ک بھی ت واسطہ نہیں۔ عجز اور انکس ری شخص کو بے وجود نہیں کرتی۔ اگر وہ بےوجودہوت ہے‘ تو دنی ‘ زندگی اور زندگی کے مت ق ت سے‘ رشتہ ہی خت ہو ج ت ہے۔ دوسری طرف شخصی ح ج ت‘ اپنی جگہ پراستحق رکھتی ہیں۔ پ خ نہ اور پیش کی ح جت پر‘ کیسے ق بو پ ی ج سکت ہے۔ س نس آئے گ ‘ تو ہی زندگی کی س نسیں برقرار رہ پ ئیں گی۔ لہذا ذاتک تی گ‘ ممکن ہی نہیں‘ ب کہ یہ فطری امر ہے۔ فطری امر سے انک ر‘ سورج کو مغر سے‘ ط وع کرنے کے مترادف ہے۔
‘میں ن ہیں سبھ توں درحقیقت انبی ک طور ہے۔ نبی اپنی طرف سے‘ کچھ نہیں کرت اورن ہی‘ اپنی مرضی ک ک مہ‘ منہ سے نک لت ہے‘ کیوں کہ اس ک کہ ‘ اورکی ‘ زندگی ک طور اور حوالہ ٹھہرت ہے۔ نبی ک رستہ موجود ہوت ہے‘فقیر ہر ح لت میں‘ اس رستے پر چ ت ہے۔ اس رستے پر چ ن ‘ الله کےحک کی اط عت کرن ہے۔ جہ ں اپن حک ن فذ کرنے خواہش ج گتی ہے‘وہ ں شرک ک دروازہ کھل ج ت ہے۔ گوی الله کے سوا‘ کسی اور ک بھی حک چ ت ہے۔ شخصی حک میں۔۔۔۔۔۔۔ توں نہیں سبھ میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واضح طور موجود ہوتی ہے‘ اور یہ ہی ن انص فی اور ظ ہے۔ آدمی کوئی بھی‘ اور کسی بھی سطح ک ہو‘ الله کے ق نون سے ب ہر ج نے ک ‘ استحق نہیں رکھت ۔ ق نون کے م م ے میں استثن ئی صورت موجود ہی نہیں ہوتی۔ استثن ئی صورت نک لن ‘ شرک ہے۔ فقیر الله کے ق نون کے م م ے میں‘ کیوں کیسے ی اس طور کی خراف ت کے ب رے میں‘سوچن بھی‘ جر عظی ی دوسرے ل طوں میں‘ گن ہ کبیرہ سمجھت ہے۔ جو الله نے کہہ دی ‘ وہی درست ہے‘ اس کے سوا‘ کچھ بھی درست نہیں۔ ہر تخ ی ک ر کو‘ اپنی تخ ی سے پی ر ہوت ہے۔ الله بھی اپنی مخ و سے‘ بےگ نہ اور لات نہیں۔ جو بھی‘ اس کی مخ و سے پی ر کرتہے‘ احس ن کرت ہے‘ اس کے لیے بہتری سوچت ہے‘ انص ف کرت ہے‘گوی وہ الله کی محبت ک د بھرت ہے۔ فقیر‘ الله کی رض اور خوشنودی کے لیے‘ الله کی مخ و پر احس ن کرت ہے۔ وہ اپنے منہ ک لقمہ‘ الله کی مخ و کے‘ حوالے کرکے خوشی محسوس کرت ہے۔ الله کی مخ و کی سیری‘ دراصل اس کی اپنی سیری ہوتی ہے۔ مخ و کی خیر اور
بھلائی‘ اس کی زندگی ک اصول اور مشن ہوت ہے۔ اپن خی ل رکھیے‘ کی ہوا‘ یہ تو کھ ی خودغرضی ہوئی۔ اس کے نزدیک س ک خی ل رکھو‘ یہ سنت الله ہے‘ تمہ را خی ل رکھنے کے لیے‘ الله ہی ک فی ہے۔ فقیر یہ ں بھی‘ میں ن ہیں سبھ توں کو‘ اپلائی کرت ہے۔ اسے کسی م دی شے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسے الله کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہس ‘ اپنی ذات کی ن ی کے بغیر‘ ممکن نہیں۔ ج عقیدہ میں ن ہیں سبھ توں‘ سے دوری اختی ر کرے گ تو الله پر ایم ن سے دور ہو ج ئے گ ۔ اپنی ذات کو مقد رکھے گ ۔ ب نٹ میں خی نت کرے گ ۔ وس ئل پر ق بض ہونے کو زندگی ک مقصد ٹھہرائے گ ۔درج ب لا م روض ت کے حوالہ سے‘ ذات ک تی گ ممکن نہیں۔ یہ وتیرہ‘اہل ج ہ اور اہل ثروت کو کس طرح خوش آ سکت ہے۔ ح اور انص ف کی ب تیں‘ اور الله کے حک کے خلاف انج پ نے والے امور پر تنقید اور برآت‘ کسی ب دش ہ ی اہل ثروت کو‘ کس طرح خوش آ سکتی ہے۔ ص ف ظ ہر ہے‘ ایسے لوگوں کو ظ ہر پلای ج ئے گ ۔ ب دش ہ ی اہل ثروت بھول ج تے ہیں‘ کہ میں ن ہیں س توں‘ کے ح مل مر نہیں سکتے۔ دوسرا وہ پہ ے ہی ک ہوتے ہیں۔ موت تو ہونے کو آتی ہے۔ میں کو موت آتی ہے‘ تو کے لیے موت نہیں۔ میں مخ و ہے‘ تو مخ و نہیں۔
ارشد حکی ک ایک ش رارشد حکی ک ت پنج پولیس سے ہے۔ دیکھنے میں مولوی س ہو کر بھی سیدھ س دہ شخص ہے۔ اس کی عمومی حضرات سے گ تگو بھی دنی داری سے مت ہوتی ہے۔ ہ ں البتہ ٹیڑھی اور شطرنجی نوعیت کی گ تگو اس کے ہ ں سننے کو نہیں م تی۔ سول لب س میں کوئی طرح داری نہیں م تی۔ ٹوہر ٹپ کہیں دور تک نظر نہیں آت ۔ دنی داری کے ک موں میں سولہ آنے گ اور مگن س نظر آت ہے۔ یہ س دیکھ کر کوئی سوچ بھی نہیں سکت کہ وہ اندر سے بحرالک ہل سےبھی گہرا اور پورا ک پورا ہے۔ پنج بی اور اردو میں ش عری کرت ہے۔موقع م ے اور ڈیوٹی سے فرصت م نے پر ادبی تقریب ت میں ش مل ہوت ہے۔ اپنے حصہ کی داد بھی وصول کرت ہے۔ چوں کہ ہر کوئی نہیں ج نت کہ وہ پولیس مین ہے اس لیے داد اپنے کہے کے تن ظر میں ہی وصول کرت ہے۔اس کی پوری ش عری پر لکھنے کی ب د میں کوشش کروں گ ۔ اس کے ب ض اش ر کی ت ہی ظ ہر سے کہیں ہٹ کر ہے۔ وہ ت ہی غور کرنے کے ب د دم کے م دہ میں اترتی ہے۔ یہ ہی صورت اس کے ہضکرنے کی ہے۔ جیسے ک نوں سے مکی کی روٹی کے س تھ س گ نوش ج ن کر لی ہو۔ پ ن س ت روز ہوئے میرے پ س بیٹھ ہوا تھ ۔ میں بیم ر تو کئی س ل سے ہوں لیکن اس روز بیم ری کچھ زی دہ ہی پڑی ہوئی تھی۔ یہ ںتک کہ حواس بھی بی م ری کی گرفت میں تھے۔ ش ر چوں کہ میری ک
زوری ہیں اس لیے بھول گی کہ میں بیم ر ہوں۔ اس نے ج یہ ش رسن ی تو سوچ ک طوف ن کھڑا ہو گی اور مجھے ی د تک نہ رہ کہ بیم ر :ہوں فقر اظہ ر میں غن س ہے بےنی زی بھرا خدا س ہےب نٹ دینے والے کو غنی کہ ج ت ہے اور یہ ص ت الله ت لی ذات گرامیسے وابستہ ہے۔ الله ت لی اس امر سے قط ی بے نی ز ہوت ہے کہ کمیہو ج ئے گی۔ ب نٹ دینے والے کے نزدیک سے بھی اس قس کی سوچگزر نہیں پ تی اگر وہ ایس سوچنے لگ تو ب نٹ ک عمل درست سمت پر نہ رہے گ ۔ یہ ب ت اپنی جگہ الله اور دے دے گ ۔ ب نٹ دینے ک اپن ہی لطف اور مزا ہے۔ ح ت ایس سوچت تو ق رون بن ج ت ۔ ق رون کی دولت اسے لے ڈوبی لیکن ح ت کی سخ وت آج بھی دلوں میں نقش ہے اور یہ پڑھنے میں نہیں آی کہ وہ کنگ ل ہو گی تھ ۔ ب نٹ ک اپن ایک مزا ہوت ہے۔ غنی ب نٹ میں کوئی غرض نہیں رکھت ۔یہ ب ت غنی کے قری سے بھی نہیں گزر پ تی کہ اسے دینے کے ص ہ میں سلامیں وصول ہوں گی۔ وہ ی د رکھ ج ئے گ ی دینے کے نتیجہ میں اسے واپسی دوگن ح صل ہو ج ئے گ ۔ اگر لینے والے سے کسی قس کی توقع ب ندھ کر دی ج ئے گ تو یہ خودغرضی کے زمرے میں داخل ہو گ ۔ اس طرح دینے والے کو غنی نہیں ت جر کہ ج ئے گ ۔ الله چوں کہ غنی کی ص ت رکھت ہے۔ الله کی عط ئیں ہر قس کی غرض سے ب لاتر ہیں۔ وہ بےنی ز ہے۔ اس ک بندہ ج ب طور خ ی ہ یہ ص تفریضے کے طور پر اختی ر کرت ہے تو اس کی ب نٹ میں کسی قس کی غرض ی ری پوشیدہ نہیں ہوتی۔ اس کی ب نٹ کھری کھری اور نکھری
نکھری ہوتی ہے۔ ہر کھری اور نکھری نکھری ب نٹ بےغرضی اور بےنی زی ک عنصر رکھتی ہے۔ بےط بی‘ بےغرضی اور بےنی زی صرف اور صرف الله کی ذات گرامی سے وابستہ ہے۔ وہ ہر قس کی ح جت سے ب لا ہے۔ بےشک غنی ک خ صہ یہ ہی ہے۔ غنی شخص‘ مخ و سے دینے کے س س ہ میں ب من فع واپسی ک سوچ بھی نہیں سکت ۔ اسی لیے یہ غن ‘ خدا س ہے۔ خدا اس لیے نہیں کہ وہ لطف و عط اور کر کے لیے خدا کے حضوردست بستہ کھڑا نظر آت ہے۔ گوی گرہ میں ہونے کے م م ہ ان حد نہیں ج کہ خدا ہونے اور میسر کے م م ہ میں ان حد ہے۔ ا ج دین غرض‘ من فع ی کسی بھی نوعیت کے من فع سے وابستہ ہو ج تی ہے تو وہ دین غن کے زمرے میں نہیں آتی۔ ج کسی بھی طور سے لین مطمع نظر ٹھہرے تو جمع انب ر جو حدوں میں ہوت ہے‘ تکبر کی بستی ک اق متی ہو کر خود کو خدا سمجھنے لگت ہے۔ اس ک یہ تکبر چھین جھپٹی فس و فجور ک ہی ب عث نہیں بنت بل کہ بل کہ مخ و کے لیے بہت بڑی آزم ئش بن ج ت ۔ لوگ ظ ‘ زی دتی اور جبرکی آگ میں ج تے ہیں۔ بستی ں لہو میں نہ تی ہیں۔ کبھی زہر پیت ہے تو کبھی نیزے چڑھت ہے۔ ت ریخ کے پ س مت ج ئیے‘ یہ متکبروں اور متکبروں کے جھولی چکوں ک قصیدہ ہے‘ ہ ں عہد عہد کے ارشد حکی کے کلا کو پڑھیے۔ علامتوں اور است روں میں لپٹی ان کیکرتوتوں کو دیکھ لیجیے۔ ان متکبروں ک اصل چہرا س منے آ ج ئے گ ۔ اگر غن کو تھرل کے م ہو دیئے ج ئیں تو غیرفریبی اور مصنوعیتھرل میں نم ی ں فر ہوت ہے۔ فریبی اور مصنوعی تھرل لین اور کسی ن کسی نوعیت کی غرض سے جڑی ہوتی ہے۔ اسے ک روب ری اورت جری تھرل ک ن دی ج سکت ہے۔ چ لیس پیت لیس س ل پہ ے کی ب ت
ہے۔ میں بےغ ہجور کے کسی حک پر گھر سے ب ہر آی ۔ ایک دوک ن دار ک روب ری مصروفیت کے س تھ س تھ ریڈیو بھی سن رہ تھ ۔ ریڈیو :پر امیر خسرو ک یہ کلا نشر ہو رہ تھ نمی دان چہ منزل بود ش ج ئے کہ من بود میرے قد وہیں رک گئے اور بےغ ہجور ک حک ایک د سے ص ر ہو گی ۔ اس کی م نویت اور فوری ضرورت فن کی وادی میں ج بسی۔ سڑک کن رے کڑی دھوپ ک احس س ہوئے بغیر کلا سنت رہ ۔ ج کلا خت ہوا تو مجھے گرمی ک شدت سے احس س ہوا ت ہ یہ بھول گی کہ گھر سے کس ک کے لیے آی ہوں۔ غن کی اس ح لت میں‘ میں ک احس س د توڑ گی تھ ۔ ان لمحوں میں تو کے سوا کچھ بھی نہ تھ ۔ غن کی اس صورت میں وجود کے س رے سل تھرل میں آ ج تے ہیں۔ تندرست سل اپنی جگہ ک زور‘ بیم ر‘ لاغر‘ مدہوش یہ ں تک کہ مردہ سل بھی حرکت میں آ ج تے ہیں۔ حضرت داؤد ع یہ السلا ج کلا الہی پڑھتے تو پرندے تک مزید پرواز سے م ذور ہو ج تے۔ بلاشبہ ان کی آواز میں ج دو رہ ہو گ لیکن اس آواز میں کہے گئے کو بہرصورت کریڈٹ ج ت ہے۔ ایسے ہی نہیں کہ ج ت کہ ل ظ اپنی م نویت کے حوالہ سے ہی زندہ رہت ہے۔ جوں ہی آلودہ ہوت ہے جبر زب ن کو تو اپن کر سکت ہے لیکن ہردے اس کی گرفت سے ہزاروں کوس دور رہت ہے۔ جبر کی گرفت جوں ہی ک زور پڑتی ہے آلودہ اپنی موت آپ مر ج ت ہے۔غن ک یہ حوالہ بھی خدا س لگنے لگت ہے‘ ت ہی کے قری تر چلا ج تہے۔۔ اس خدا س لگنے میں بھی یہ حقیقت پنہ ں ہے کہ شخص چوں کہ میں کی حودود میں نہیں ہوت اور یہ کی یت اختی ری نہیں فطری ہوتی
ہے اسی وجہ سے غن خدا س لگنے لگت ہے۔ارشد حکی محکمہ پولیس میں سہی اور دیکھنے میں مولوی س نہیں‘ مولوی ہے۔ دونوں ادارے میں کی بستی کے ب سی تھے اور ب سی ہیں لیکن یہ ہ تھی کے دانت دیکھ نے کے اور کھ نے کے اور کے‘ کی عمومی ت ہی کے قط ی برعکس ہے۔ اس کے کردار و عمل میں تصوف ج وہ گر ہے۔ صوفی خود کو ظ ہر نہیں کرت اور ن ہی اپنے صوفی ہونے ک اقرار کرت ہے۔ عجز وانکس ر اس ک وتیرہ رہ ہے۔ دعہے‘ الله کری اس کے ع اور ق بی کی ی ت کو اپنی عط ؤں سے سرفراز رکھے۔ آمین ہ اسلا کے م ننے والے ہیں' پیروک ر نہیں میں عرصہ سے حیران تھ کہ مس م ن دنی کی ایک کثیر آب دی ہونے کے ب وجود ذلت وخواری زیردستی اور قرض کے چنگل میں کیوں گرفت ر ہیں۔ اگر کوئ سر اٹھ ت ہے تو اٹھنے والا سر ک سڑ سے ق کر دی ج ت ہے ی پھر پ بندی ں لگ دی ج تی ہیں۔ کوئ اس قہر و غص پر چوں بھی نہیں کر پ ت ۔میرے ذہن میں یہ سوال بھی اٹھ کی اکثریت کی کوئ م نویت نہیں۔ اگر اکثریت م نویت سے تہی ہے تو پھر جمہوریت محض ایک پ کھنڈ ہے۔ اگر جمہوریت ایک ڈرامہ ہے تو ہ اس میں اپنی بق کیوں خی ل کرتے ہیں۔
ایک سوال نے پھر جن لی ‘ کی جمہوریت کوئ پروگرا بھی دیتی ہے۔ اس ک جوا یقین ن ی میں ہے۔ اگر جمہوریت کوئ پروگرا نہیں دیتیی اس ک اپن ذاتی کوئ پروگرا نہیں ہے تو کی جمہوریت میں ترقی کیتلاش کھ ی حم قت نہیں۔ غیر مس جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو یہ ان کے سم جی اور مذہبی سٹ اپ سے لگ رکھتی ہو گی وہ اسے شو سے گ ے ک ہ ر بن ءیں۔ کسی مس کو اس پر اعتراض کرنے ک بھلا کی ح ہے۔ انھیں اپنی مرضی اور ضرورت کی زندگی گزارنے ک ح ہے۔ اسلا میں تقوی پرہیزگ ری اور عمل ص لح کو اہمیت ح صل ہے۔ اگرکوئ مزدور ہے لیکن یہ تینوں امور رکھت ہے تو ری ستی ام رت ک اس شخص سے زی دہ کون مستح ہے۔ جو بے پن ہ دولت ط قت ی ڈرانے دھمک نے اور دب ؤ ڈالنے کی پوزیشن میں ہے لیکن قول و ف ل کے حوالہ سے ف س و ف جر ہے وہ یہ ح نہیں رکھت ۔ گوی اس کی دولت اور ط قت کوئ م نوت نہیں رکھتی۔ میں نے بڑا غور کی ہے اکثریت کی کوئ م نویت نہیں۔ انس نی ترقی اور بق کی ض من کوئ اور چیز ہے۔ اؤل اؤل مسم ن ت داد میں ن ہونے کے برابر تھے لیکن ک می بی سے ہ کن ر ہوتے تھے۔ نم ز روزہ حج زکوتہ وغیرہ واجب ت وہ بھی سر انج دیتے تھے ہ بھی ان واجب ت کی اداءگی سے سرخرو ہونے کی کوشش کرتے ہیں قری نی بھی بڑےجوش و جذبے سے دیتے ہیں تو پھر ن ک ون مراد کیوں ہیں؟ موجودہ صورت ح ل کے حوالہ سے سوال اٹھت ہے کی مس م ن ہونے کےم م ہ میں ان امور کی اداءگی ک فی نہیں؟! اگر مس م ن ہونے کے لیے یہ واجب ت ک فی ہوتے تو آج ہ دنی میں سرب ند ن سہی ب عزت ضرور ہوتے۔
اسلا ک ت عم ی زندگی سے ہے۔ اسلا ک تق ض ہے کہ تم مس م ن بلا کسی تمیز وامتی ز آپس میں بھ ئ بھ ئ ہیں لیکن ہ میں بھ ئ چ رہ سرے سے موجود نہیں۔ رنگ نسل زمین زب ن اور عقیدہ کے حوالہ سے ایک دوسرے سے کوسوں دور ہیں۔ ہم رےم شی اور نظری تی م دات ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ کوئ ظ ل کسیمس م ن کو پھڑک ت ہے تو ہ س تھ دینے ی ک از ک بچ بچ ؤ کرانے کی بج ءے ظ ل کی طرف داری ہی نہیں مس م ن کو مزید ازیت دینے کے لیے ظ ل ک س تھ دیتے ہیں اور اس کے ف ل بد کو درست ث بت کرنے کے وہ وہ دلاءل گھزتے ہیں جن ک خود ظ لمکو ع نہیں ہوت ۔ اسلا میں کسی کو زب ن ی ہ تھ سے دکھ اور تک یف دینے کی اج زت نہیں لیکن ہمیں اوروں کو ان دونوں حوالوں سے دکھ اور تکیف دے کر خوشی ہی نہیں سرش ری ہوتی ہے۔اسلا میں بدلا لینے کی مم ن ت نہیں اور ن ہی دوسرا گ ل پیش کر دینے ک حک دی گی ہے۔ بدلا لینے ک پورا پورا ہر کسی کو ح ح صل ہےہ ں م ف کر دینے میں بڑھ کر اجر رکھ دی گی ہے۔ ہم رے پ س م فی ن کی چیز ہی نہیں۔ ہ ن کردہ جر کی سزا دینے کے بھی ق ءل ہیں۔ ایک شخص جر نہیں کرت یہ اس ک قصور ہے اس میں اذیت پسند ک کی قصور ہے۔ چونکہ وہ کمزور ہے لہذا اسے بہرطور سزا اور ازیت سے ب لاتر نہیں رکھ ج سکت ۔ اسلا میں رشتہ دار تو الگ دشمن اور غیر مس ہمس یہ بھی بھوک نہیں سو سکت اس کے ب رے میں ہ سے روز حشر سوال ہو گ ۔ ہ اپنے سوا کسی اور کو پیٹ بھر کھ ت دیکھ ہی نہیں سکتے۔ ہم ری کوشش ہوتی ہے کہ اس کے منہ ک لقمہ بھی چھین لیں۔ رہ گئ قی مت
کی ب ت وہ ہمیں ی د تک نہیں۔ ہ موجودہ حی ت ہی کو س کچھ سمجھ بیٹھے ہیں۔ اسلا چوری کی اج زت نہیں دیت ۔ ہر بڑا آدمی ٹیکس کی چوری اپن بنی دی ح سمجھت ہے۔ یہ چیز گریبوں سے مت ہے۔ بڑے قرضوں کی م فی کو اپن ق نونی ح سمجہتے ہیں جبکہ گری کی سنگی پر انگوٹھ رکھ کر قرض وصول کر لی ج ت ہے۔ ط قتور بج ی کی چوریکو چوری نہیں سمجھت ۔ خود واپڈا والے اس ک ر خیر میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے ہیں۔ کی کریں اپنے پیٹ کے علاوہ ب لا افسروں کے پیٹ کی ذمہ داری بھی ان کے سر پر ہوتی ہے۔ اسلا جھوٹ اور جھوٹے پر ل نت بھیجت ہے۔ ہ اور ہم ری جمہوریت سچ اور سچے کو مجر ٹھہراتی ہے۔ سچ بولن ی سچ کی حم یت کرن آج ک س سے بڑا جھوٹ ہے۔ اسلا ح دار کو اس ک ح دینے کی ت کید کرت ہے۔ یہ ں ح دار کو ح دین ح نہیں رہ ۔ ح دار وہی ہوت ہے جو پلا جھ ڑت ہے۔ ہسپت لہو ی کوئ بھی دفتر بلا دے دالا کے ح مل نہیں سکت ۔ ست یہ کہ دے دالا ن ح کو ح کے درجے پر ف ءز کر دیت ہے۔ میں نے یہ ں محض چند ب توں ک ذکر کی ہے ورنہ اسلا انس ن کیزندگی سے مت ہر م م ے میں اپن پروگرا دیت ہے۔ اس حوالہ سےدیکھ ج ءے تو یہ ب ت کھ تی ہے نم ز روزہ حج زکواتہ قرب نی وغیرہ کی اداءگی مس م ن ہونے کے لیے ک فی نہیں۔ مسم ن ہونے کے لیے اسلا کے دیے پروگرا کو عم ی زندگی ک حصہ بن ن بھی ضروری ہے۔ ہ اسلا اور اس کے مت ق ت کو م ننے والے ہیں۔ ب لکل اسی طرح جس طرح ہ قدی انبی ء اور تم الہ می کت کو م نتے ہیں۔ م نن
Search
Read the Text Version
- 1
- 2
- 3
- 4
- 5
- 6
- 7
- 8
- 9
- 10
- 11
- 12
- 13
- 14
- 15
- 16
- 17
- 18
- 19
- 20
- 21
- 22
- 23
- 24
- 25
- 26
- 27
- 28
- 29
- 30
- 31
- 32
- 33
- 34
- 35
- 36
- 37
- 38
- 39
- 40
- 41
- 42
- 43
- 44
- 45
- 46
- 47
- 48
- 49
- 50
- 51
- 52
- 53
- 54
- 55
- 56
- 57
- 58
- 59
- 60
- 61
- 62
- 63
- 64
- 65
- 66
- 67
- 68
- 69
- 70
- 71
- 72
- 73
- 74
- 75
- 76
- 77
- 78
- 79
- 80
- 81
- 82
- 83
- 84
- 85
- 86
- 87
- 88
- 89
- 90
- 91
- 92
- 93
- 94
- 95
- 96
- 97
- 98
- 99
- 100
- 101
- 102
- 103
- 104
- 105
- 106
- 107
- 108
- 109
- 110
- 111
- 112
- 113
- 114
- 115