Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore ادبی مطالعے

ادبی مطالعے

Published by maqsood5, 2017-03-30 04:53:46

Description: ادبی مطالعے
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
مارچ ٢٠١٧

Search

Read the Text Version

‫‪1‬‬ ‫ادبی مط ل ے‬ ‫مقصود حسنی‬ ‫ابوزر برقی کت خ نہ‬ ‫م رچ‬

‫‪2‬‬ ‫فہرست‬ ‫دیس بن پردیس‘‘ ایک کت ! بیسیوں رنگ‬ ‫خوش بو کے امین‬ ‫ایک قدی اردو ش عر کے کلا ک ت رفی و لس نی ج ئزہ‬ ‫مثنوی م سٹر نرائن داس' ایک ادبی ج ئزہ‬ ‫آش پربھ ت' مسک تے' س گتے اور ب کتے احس س ت کی ش عر‬ ‫اکبر اردو اد ک پہلا بڑا مزاحمتی ش عر‬ ‫ام نت کی ایک غزل‪ ......‬فکری و لس نی رویہ‬ ‫منظو شجرہ ع لیہ حضور کری ‪....‬عہد جہ نگیر‬ ‫میرے اب ۔۔۔۔۔۔ ایک مط ل تی ج ئزہ‬ ‫ڈاکٹر عبدال زیز س حر کی تدوینی تحقی کے ادبی اطوار‬ ‫رحم ن ب ب کی زب ن ک اردو کے تن ظر میں لس نی مط ل ہ‬ ‫عربی کے اردو پر لس نی تی اثرات ایک ج ئزہ‬ ‫گنج سوالات' ایک لس نی تی ج ئزہ‬ ‫ڈاکٹر عبد ال زیز س حر کی ایک ق بل تق ید تدوینی ک وش‬ ‫ڈاکٹر منیر کے افس نے اور مغربی طرز حی ت‬ ‫نم ز ک سو سے زی دہ س ل ک پران اردو ترجمہ‬

‫‪3‬‬ ‫دیس بن پردیس‘‘ ایک کت ! بیسیوں رنگ‬‫ن صر ن ک گ وا سے میری روبرو ملاق ت لاہور اردو نیٹ ج پ ن کی‬‫ایک تقری میں ہوئی۔ بڑا ن یس س دہ گو‪ ،‬م نس ر‪ ،‬مج سی اد و‬‫آدا سے آگ ہ مگر قدرے شرمیلا س اور رکھ رکھ ؤ والا شخص‬ ‫ہے۔ بڑا اچھ اور پی را لگ ۔ ملاق ت ک دورانیہ اگرچہ مختصر تھ‬ ‫لیکن پر لطف اور ی دگ ر تھ ۔ اس ک ادبی اور ملاق تی ذائقہ آج‬ ‫اور ا بھی محسوس کرت ہوں۔ ’’دیس بن پردیس‘‘ ک میں نے‬ ‫پوری توجہ اور دی نتداری سے اول ت آخر مط ل ہ کی ہے۔ بڑے‬ ‫ک کی چیز ہے۔ یہی نہیں اردو اد میں اسے ایک خوبصورت‬ ‫اض فہ قرار دین کسی طرح بھی غ ط اور مب لغہ نہ ہو گ ۔‬ ‫کت کو تین حصوں میں تقسی کی گی ہے لیکن میں اسے پ نچ‬ ‫حصوں پر مشتمل کت سمجھت ہوں۔ پہلا حصہ اہل ق کی آراء‬ ‫پر مشتمل ہے۔ اس حصہ کے مط ل ہ سے مصنف کی شخصیت‪،‬‬ ‫اردو نیٹ ج پ ن کے حوالہ سے خدم ت اور اس کے اس و کے‬ ‫ب رے میں بہت س ری م وم ت ہ تھ لگتی ہیں۔ پہ ے حصہ ہی‬ ‫میں اہل رائے حضرات سے چہرہ بہ چہرہ ملاق ت ہوتی ہے۔ وہ‬‫س کت کے ق ری کو پر تحسین نظروں سے دیکھتے نظر آتے‬ ‫ہیں۔ زب ن سے نہیں ق سے بہت کچھ اور مخت ف زاویوں سے‬ ‫کہتے محسوس ہوتے ہیں۔ کت کے آخری حصہ میں ( جسے‬

‫‪4‬‬ ‫میں پ نچواں حصہ کہہ رہ ہوں )بہت س رے خوبصورت چہروں‬ ‫سے ملاق ت ہوتی ہے۔ ان کی آنکھوں میں بھی ن صر ن ک گ وا‬ ‫کے حوالہ سے بہت کچھ پڑھنے کو مل ج ت ہے۔ اس ’’بہت‬ ‫کچھ‘‘ میں جہ ں زندگی سے مت ت خ حق ئ ‪ ،‬مصنف ک سچ‬‫اور کھرا پن‪ ،‬ش مل ہے وہ ں طنز و مزاح ک عنصر پ ی ج ت ہے۔‬ ‫‪:‬کچھ ت خ حق ئ‬ ‫ج پ نی خواتین خوش اخلا اور شوہروں کی وف دار ہیں۔ ’’‬ ‫ج پ نی بیوی ں پ کست نی بیویوں کی طرح نہیں ہوتیں کہ انہیں‬ ‫پ ؤں کی جوتی سمجھ کر تبدیل کر لی ج ئے۔ یہ ں کہ بچے بھی‬ ‫اتنے فرم نبردار اور بدھو نہیں ہوتے کہ آپ خود جس ک کو‬ ‫اچھ سمجھیں اسے بچوں کو کرنے سے روکیں۔ ‘‘ (پ کست نی‬ ‫شوہروں اور ج پ نی بیویوں کے درمی ن تشدد کے واق ت و‬ ‫)محرک ت‬ ‫‪:‬چند مزید حق ئ‬ ‫ج پ ن میں دیکھ گی ہے کہ زی دہ مس جد ج پ نی ب زاروں اور ’’‬ ‫گ ی مح ے میں ہی ق ئ ہیں مگر ش ذ و ن در ہی کبھی کوئی ن‬ ‫‘‘ خوشگوار واق ہ پیش آی ہو۔‬ ‫ج پ ن کی میٹرو پولیٹین پولیس ڈپ رٹمنٹ کی خ رج زدہ خ یہ (‬ ‫)ف ئ وں میں کی ہے ؟‬

‫‪5‬‬ ‫پ کست ن میں قی کے دوران مجھے ہر جگہ انٹرنیٹ کی ’’‬ ‫سہولت میسر تھی مگر لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے میں است م ل‬ ‫ہی نہیں کر سکت تھ ۔ یہ کراچی تھ جسے روشنیوں ک شہر کہ‬ ‫کر تے تھے آج روشنی ائیرپورٹ کے علا قے اور زرداری اور‬ ‫بلاول ہ ؤس اور می ں ہ ؤس تک محدود ہو کر رہ گئی ہے‬ ‫)کیونکہ یہ لوگ زی دہ حقدار ہیں۔ ‘‘(ٹوکیو سے کراچی تک‬ ‫‪ :‬ذرا یہ پر مزاح مک لمے ملاحظہ ہوں‬‫خیبر پختونخواہ اسمب ی کے اسپیکر طویل ق مت کے کرامت اللہ ’’‬ ‫خ ن تشریف لائے تو ان کے استقب ل میں مجھ سمیت ندا خ ن‪،‬‬ ‫یوسف انص ری اور امین سجن بھی ش مل تھے‪ ،‬لو گوں کو‬‫کرامت اللہ سے گ ے م تے ہوئے دیکھ کر ایس لگ جیسے لوگ‬ ‫ان کے گھٹنوں میں کچھ سرگوشی کر رہے ہوں۔ ‘‘(ٹوکیو سے‬ ‫) متحدہ عر ام رات ک س ر‬‫امیگر یشن نو جوان افسر نے میرے پ سپو رٹ پر تین م ہ ک ’’‬ ‫ویزہ لگ ی تو میں نے اس سے پوچھ کہ آپ کی زب ن میں‬ ‫شکریہ کو کی کہتے ہیں ’’ تیری م ں کیسی ‘‘کی ؟’’تیری م ں‬ ‫کیسی‘‘۔ میں سمجھ اسے اردو آتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے کہ ان‬‫کی وف ت ہو گئی ہے۔ وہ کچھ سمجھ نہیں تو میں نے انگریزی‬ ‫میں کہ تو وہ ہنسنے لگ کہ نہیں میں نے جو کہ اس ک مط‬ ‫ہو ت ہے شکر یہ۔ وہ تو ب د میں پت چلا کہ صحیح ت ظ یہ ہے‬

‫‪6‬‬ ‫) کہ۔ ۔ ۔ ۔ ’’ تیری م ک سی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘(سہ روزہ دورۂ ملائشی ء‬ ‫‪:‬شنگھ ئی کے ایک ب تھ رو ک ن ک نقشہ ملاحظہ ہو‬ ‫ب تھ رو کے تولیے گھسے ہوئے تھے اور گنجے تھے اور ’’‬ ‫امتی ز کرن مشکل تھ کہ تولیہ ہے ی رو م ل‪ ،‬لگت تھ ج سے‬ ‫ہوٹل ت میر ہوا ہے یہی تولیے چل رہے ہیں۔ چھو ٹی چھو ٹی‬ ‫ص بن کی ٹکیہ رکھی ہوئی تھیں ک فی دیر ہ تھوں میں رگڑنے‬ ‫سے بھی نہیں گھستی تھیں۔ شیمپو پلا سٹک کی بوتل میں اس‬ ‫طر ح سے نک ت تھ جیسے سردیوں میں شہد کی بوتل الٹ بھی‬ ‫)دیں تو شہد ب ہر نہیں آت ۔ ‘‘(اسلا آب د سے شنگھ ئی تک‬ ‫‪:‬ن صر ن ک گ وا کے کھرے اور سچے پن کی مث ل ملاحظہ ہو‬ ‫اس سے قبل مہینوں گزر ج تے تھے مجھے نم ز کی توفی ’’‬‫نہیں ہوتی تھی‪ ،‬ات سے کسی مسجد ک دورہ ہو گی تو نم ز ادا‬ ‫کر لی کبھی خصوصی طور پر نم ز ادا کرنے کی توفی ہوئے‬ ‫‘‘ عرصہ گزر چک تھ ۔‬ ‫) ن گوی اور گی و ک ی دگ ر س ر۔ ۔ ۔ بذری ہ ب یٹ ٹرین(‬‫درج ب لا ٹکڑے کت کے مخت ف حصوں سے لیے گئے ہیں۔ ان‬ ‫کے مط ل ہ سے اندازہ ہو ج ت ہے کہ کت کتنی بھرپور ہے‬ ‫اور ن صر ن ک گ وا کس درجہ کی تحسین ک ح رکھتے ہیں۔‬ ‫کت میں افس نہ اور ایک خط بھی ش مل کی گی ہے۔ ایک کت‬

‫‪7‬‬‫لیکن بیسیوں رنگ‪ ،‬ایسے میں ان کی خو صورت پیش کش پر‬ ‫شکریہ ادا کر ن لا ز آت ہے۔ اللہ کری ن صر ن ک گ وا کی‬ ‫توفیق ت میں اض فہ فر م ئے اور اسے ش د و ش دا رکھے۔‬ ‫خوش بو کے امین‬

‫‪8‬‬ ‫ہم رے ہ ں ک عج دستور ہے۔ ہر م تبر رشتے کے لیے کسی نہ‬ ‫س بقے لاحقے ک ہون ضروری ہوت ہے۔ چ ہے وہ ‘‘خونی’’کسی‬ ‫س بقہ لاحقہ دل و دم کی رگوں سے خون ہی کیوں نہ ‘‘’’خونی‬ ‫نچوڑ رہ ہو۔ اس کے ہ تھوں کتنی ب ر قر ہون پڑا ہو ی اس‬‫س بقے لاحقے نے عزت اور جی کی ہمیشہ نیلامی لگ ئی ہو۔ ‘‘’’خونی‬ ‫تم من ی حق ئ کی موجودگی میں بھی انہیں سبقت اور اہمیت دی‬ ‫ج تی ہے۔ ش دی بی ہ ہوکہ مرگ م مے چ چے اور پھوپھی م سی کے‬ ‫ب رے میں دری فت کی ج ت ہے۔ اگر یہ موجود نہ ہوں تو دلہ کی‬ ‫خوشی ں تہ تیغ کر دی ج تی ہیں ج کہ ارم نوں کی لاش کی بھ نت‬ ‫بھ نت کی بولیوں سے مٹی پ ید کی ج تی ہے ۔ ب ور رہے‪ ،‬خوشیوں‬ ‫س بقے لاحقے سے جڑے ہوتے ہیں اور وہ ‘‘خونی’’کے ق تل کسی‬ ‫اپنے اس س بقے لاحقے ک ح ادا کر رہے ہوتے ہیں ی یہ س کرن‬ ‫اپن فرض منصبی سمجھ رہے ہوتے ہیں ۔‬ ‫محبت کے ت کو کوئی قبول نہیں کرت ح لاں کہ قبول نہ کرنے‬ ‫والے خود کسی نہ کسی کی محبت میں گرفت ر ہوتے ہیں اور وہ‬‫س بقوں لاحقوں سے ن رت کررہے ہوتے ہیں ۔ منہ بولا اپن ‘‘’’خونی‬‫اعتب ر رکھتے ہوئے بھی کچھ نہیں ہوت ۔ اسے گھر کی دہ یز سے ب ہر‬ ‫رکھن شرافت کی دلیل سمجھ ج ت ہے۔ دہ یز کے اندر مستحک وجود‬ ‫رکھتے ہوئے بھی وہ غیرت پر بدنم لیبل ہوت ہے۔ اس حقیقت سے‬ ‫انک ر نہیں ب ض منہ بولے رشتے بد دی نتی کے مرتک ہوتے ہیں ۔‬ ‫س بقوں لاحقوں سے آراستہ رشتے ک ‘‘سوال یہ ہے کہ ’’خونی‬ ‫اعتب ر کے ق بل رہے ہیں ۔‬

‫‪9‬‬ ‫کی م مے چ چے م سی پھوپھی وغیرہ ک س بقہ لاحقہ رکھنے والے‬ ‫رشتے ہ تھ نہیں دکھ تے۔ ان کی اولادیں غیرت کی ج ئیداد پر ڈاکے‬ ‫نہیں ڈالتیں ۔ یہی کی ان کے بڑے آپس میں فیئر ہوتے ہیں ۔‬ ‫ان کی مخ صی ن ق بل چی نج رہتی ہے؟ ان ک اعتب ر م د کی ڈور سے‬ ‫بندھ رہت ہے۔ ج ایسی صورت ہے تو منہ بولے رشتوں پر انگشت‬ ‫نم ئی کیوں ؟ وہ خ نگی زندگی میں م تبر کیوں نہیں ہو پ تے۔ ان پر‬ ‫شک کی آتش کیوں برستی رہتی ہے۔ انہیں اعتب ر دےنے میں کیوں‬ ‫! بخل سے ک لی ج ت ہے۔ یہ عجی وتیرا اور چ ن نہیں ہے؟‬ ‫محبت مس ک مذہبوں اور ریتوں رواجوں سے آزاد ہوتی ہے۔ میں‬‫منہ بولا‘‘ س بقہ ’’نے اپنے کسی پی ر کے رشتے کے س تھ کبھی کوئی‬ ‫لاحقہ پیوست کرنے کی حم قت نہیں کی۔ یہی نہیں انہیں گھر کی‬ ‫دہ یز کے اندر لا کر غیر م تبر نہیں ہونے دی ۔ ہ ں اپنے دل کے‬ ‫س رے در ان پر کھ ے رکھے ہیں وہ ں وہ بڑے آسودگی سے پروان‬ ‫چڑھے ہیں اور وہ ں وہ خو رنگ لائے ہیں ۔ میں نے ان کے‬ ‫پھول اورپھل ب نٹنے کی حم قت کبھی نہیں کی۔ ان پھولوں پھ وں پر‬ ‫صرف اپن ح سمجھ ہے۔ مجھے محبت کے پھولوں اور پھ وں کی‬ ‫بے حرمتی قط ً پسند نہیں ۔ ب ت کروں گ تو وہ تنقید ک نش نہ بنیں‬ ‫گے۔ ضروری نہیں یہ کوئی کسی دوسرے کی محبت کی خوشبو اور‬ ‫مٹھ س سے محظوظ ہو ۔ کدو اور بینگن میری پسند میں داخل ہیں ۔‬ ‫میں اپنی پسند اور است دے کی وض حت ک پ بند نہیں۔‬‫وض حت کو کون م نت ہے ۔ ہر کسی کے پ س اپنی وض حتوں کے انب ر‬‫لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ کسی اچھے مقرر ک اچھ س مع ہون ضروری تو‬

‫‪10‬‬ ‫نہیں ۔ میں بڑا اچھ س مع ہوں ۔ حظ کی اس عن یت کے حوالہ سے‬ ‫بے حد سکھی ہوں ۔ اس طرح مجھے اپنی محبتوں کی تصریح و‬ ‫توضیع کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ خدا ک شکر ہے میری محبتیں‬ ‫میری ذات تک محدودرہی ہیں اور میری ذات ک حصہ رہی ہیں ۔‬ ‫میری بدقسمتی رہی ہے کہ میری محبتیں آخری س نسوں تک میرے‬‫س تھ نہیں چ یں ۔ پتہ نہیں راہ میں اکیلا چھوڑن انہوں نے اپن کیوں‬ ‫فرض عین سمجھ ہے۔ سید غلا حضور حسنی (اب جی) ہی کو لے‬ ‫لیں ۔ لاکھ منتوں کے ب وجود دو چ ر لمحے مزید رکنے کی زحمت‬ ‫گوارا نہیں کی۔‬ ‫میں یہ نہیں کہت کہ میری محبت یک طرفہ تھی وہ مجھ سے بے‬ ‫تح ش محبت کرتے تھے۔ وہ زندگی میں س ر کے شوقین رہے۔ نئے‬ ‫س ر کے شو نے انہیں رکنے نہ دی ۔ میں نے اتن پی ر کرنے والا‬ ‫کبھی اور کہیں نہیں دیکھ ۔ اپنے تو خیر اپنے ہوتے ہیں وہ تو‬ ‫دوسروں کے لیے بھی حد درجے ک درد رکھتے تھے ۔ ان کے بھ ے‬ ‫کے لےے اپنے خس رے کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔(پنج بی) صوفی‬‫ش عر ہونے کے سب حد درجہ کے حس س واقع ہوئے تھے۔ ظ ہر ہے‬ ‫صوفی ہونے کے سب ان کی ش عری درد‪ ،‬سوز اور انس نی بھلائی‬ ‫کے درس کے لیے مخصوص تھی۔ انہوں نے ہمیشہ انس ن کی ظ ر‬ ‫مندی کے حوالہ سے گ تگو کی۔ وہ ہیر وارث اور سیف الم وک خوش‬‫الح نی سے پڑھتے تھے۔ اپنی ش عری بھی لے سے سن ی کرتے تھے۔‬ ‫میری بڑی بہن جو پڑھی لکھی ہونے کے ب وجود ج ہل مط ہے‪ ،‬کی‬ ‫ج ہل محبت کے س تھ ان کی ش عری گمن می کی اتھ ہ گہرائیوں میں‬ ‫مدغ ہوگئی ہے۔ وہ اب جی کی آواز میں بھری کیسٹوں کو ان کی‬

‫‪11‬‬ ‫نش نی سمجھ کر سینے لگ ئے بیٹھی ہے۔ ا وہ کیسٹیں ج ہو گئی‬ ‫ہیں۔ بڑے بھ ئی ص ح کو اپنی عورتوں سے فرصت نہیں م ی۔ رہ‬ ‫میں جو پرچیوں اورپرزوں کو سنبھ لے بیٹھ ہوں ۔ ان کے تین‬ ‫پنج بی قصے جو ان کی زندگی میں ش ئع ہوئے تھے سینے سے‬ ‫لگ ئے بیٹھ ہوں ۔‬‫ان پر ک کرنے ک ارادہ رکھت ہوں ۔ اب جی کو ش عری ک شو ورثے‬ ‫میں ملا تھ ۔ ان کے والد ع ی احمد حسنی اچھے ش عر اور لاجوا‬ ‫ع ل دین تھے۔ میں جو یہ الٹے سیدھے ل ظ گھسیڑ رہ ہوں ان کی‬ ‫محبت اور ش قت ک انمول عطیہ ہیں ۔ ان کے مشورے میرے لےے‬ ‫ہمیشہ خضر راہ رہے۔‬ ‫اگست ء عید ک دن تھ مگر لوگوں کے لیے‪ ،‬میرے لیے یہ‬ ‫یتیمی کی خزاں لے کر ط وع ہوا۔ فرشتہءاجل نے میرے سر سے‬ ‫چھت الٹ دی اور دامن امید میں بے بسی کے چھید کر دےے۔اتنے‬‫مخ ص‪ ،‬ہمدرد اور محبت کرنے والے کو مجبور و بے بس کرنے سے‬ ‫پہ ے موت کو موت کیوں نہ آگئی۔ ہو سکت ہے ویدی کے ویدان کے‬‫ہ تھوں وہ بھی مجبو ر ہو‪ ،‬ورنہ اتنے خوبصورت‪ ،‬کومل اور خوش بو‬ ‫سے لبریز پھولوں کو کون مس ت ہے۔‬ ‫ڈاکٹر علامہ وف راشدی کو ہی دیکھ لیں ۔ ایسے لوگ ک مرنے کے‬ ‫لیے ہوتے ہیں ۔ انہیں تو می ی آنکھ دیکھنے سے بھی پ پ لگت ہے۔‬‫میں سمجھت ہوں موت کو میرا پی ر کبھی راس آی ۔ وہ مجھ سے ج تی‬ ‫ہے‪ ،‬کی ہو ج ت جو وہ دس بیس س ل اور جی لیے ہوتے۔ش ید میری‬ ‫محبت کی انہیں سزا م ی ورنہ وہ مرنے والے ک تھے ورنہ اگر وہ‬

‫‪12‬‬ ‫کچھ اور جی لےے ہوتے تو ج نے ع و اد کی چ در پر اور کتنے‬‫خوبصورت پھول گ ڑھ لیتے۔ اگرچہ ان ک ک پہ ے ہی بہت ہے۔ ان کے‬ ‫ب ض ک تو فرد واحد کے بس ک روگ نہیں ۔ بلاشبہ وہ اپنی ذات میں‬ ‫ادبی جن تھے۔ اوروں کی طرح وہ ک ظرف اور بخیل نہیں تھے۔‬ ‫دوسروں کے ادبی ک موں کی دل کھول کر داد دے کر ان کی حوص ہ‬‫افزائی کرتے۔ ہر اچھے ادبی ک پر خوش ہوتے۔ اتنی پذیرائی کرتے کہ‬‫مخ ط مزید خوبصورتیوں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوت ۔ میرے س تھ‬ ‫بھی ان ک شروع سے ایس ہی رویہ اور انداز رہ ۔‬ ‫عجی انہونی دیکھیے ڈاکٹر علامہ بیدل حیدری بھی مر گئے۔ انص ف‬ ‫کیجیے انہیں مرن چ ہئے تھ ؟ ایسے لوگوں کی روح قبض کرتے‬ ‫م ک الموت ک ک یجہ منہ کو کیوں نہ آی ۔ اس کے ظ ل اور بے رح‬ ‫ہ تھ لرز لرز کیوں نہ گئے۔ وہ عصر موجود کے م مولی ش عر نہ‬‫تھے۔ ‪١٨٦٩‬ء کے ب د ایس بڑا ش عر دیکھنے کو نہیں م ت ۔ ان کے در‬‫پر بڑی بڑی پگڑی ں سجدہ ریز نظر آتی ہیں ۔ کسی کے کلا کے ب رے‬ ‫میں ان کے ق سے نکلا ہر ل ظ پی ایچ ڈی کی ڈگری سے کہیں بڑھ‬ ‫کر تھ ۔ وہ میرے دل اور دم کی دنی کے چہکتے ب بل تھے۔ ان کے‬ ‫خوبصورت ل ظوں نے مجھے ہمیشہ شکتی دان کی۔ ان ک ہون میری‬ ‫توان ئیوں کے لیے سربکس ٹی ک درجہ رکھت تھ ۔ وہ ج تک زندہ‬‫رہے‪ ،‬میری روح میں گلابوں کی مہک بھرتے رہے۔ کی کہوں ‪ ،‬مجھ‬‫سے کی ہوا کہ وہ میرا س تھ نبھ نہ سکے۔ سوچت ہوں ا ل ظوں کی‬ ‫لوری ں کہ ں سے سنوں گ ۔‬ ‫ڈاکٹر سید م ین الرحمن سے تو مجھے قط ً توقع نہ تھی کہ مجھے‬ ‫لاچ ر و بے بس چھوڑکر م ک عد کی راہ لیں گے۔ وہ تو محبتیں‬

‫‪13‬‬ ‫نبھ ن ج نتے تھے۔ ان کی موت ک غ مجھے دیمک کی طرح چ ٹ رہ‬ ‫ہے۔ میں کوشش کے ب وجود خود کو سنبھ لا نہیں دے پ ر ہ ۔ ان کے‬ ‫بغیر کیسے جیوں ‪ ،‬کی کروں ۔ ان کی جگہ میں کیوں نہیں مر گی ۔‬‫اتنے بڑے آدمی ک مرن اد کی دنی میں عصر جدید کے بھونچ ل سے‬ ‫ک نہیں ۔ ان گنت لوگ یتی ہو گئے ہیں ۔ان ک ادبی کھ تہ کئی میدانوں‬ ‫میں کھلا نظر آت ہے لیکن غ ل کے حوالہ سے وہ اپن جوا نہیں‬ ‫رکھتے تھے۔ سوچت ہوں ان کی روح میرے نہ رکنے والے آنسوئوں‬ ‫کو کیسے گوارا کرتی ہوگی۔ میری تنہ ئی کو وہ کس طرح برداشت‬ ‫کرتے ہوں گے۔ میں رون نہیں چ ہت ۔ ج نت ہوں مرد روی نہیں‬ ‫کرتے لیکن آنکھیں میرے بس میں نہیں ہیں ۔ دل میری بے چ رگی‬ ‫اور بے بسی کی استدع ئیں ک سنت ہے۔‬‫میں اپنے بہت ہی پی رے دوست اور بھ ئی ڈاکٹر ص بر آف قی کے ب رے‬ ‫کوئی خبر نہ پ کر پریش ن تھ ۔ سوچت تھ قسمت مجھ پر کبھی مہرب ن‬ ‫نہیں ہوئی۔ ا بہت ہی ک لوگ میری گرہ میں رہ گئے ہیں ۔ ب لکل‬‫کنگ ل اور م س ہو گی ہوں ۔ ج نے اس ب ر قسمت کو کیسے رح آگی ۔‬‫پرسوں ان ک فون آی کہ بچ گی ہوں ۔ کہہ رہے تھے کہ بکرے کی م ں‬ ‫ک تک خیر من ئے گی۔ سوچت ہوں میں اتن بدقسمت نہیں ہوں جتن‬ ‫کہ خود کو سمجھ رہ تھ چ و کچھ تو بچ رہ ہے۔ اللہ کرے میرا یہ بچ‬ ‫کھچ اث ثہ میری س نسوں تک مح وظ رہے۔‬ ‫مقصود حسنی‬ ‫شیر رب نی ک لونی‪ ،‬قصور‬

‫‪14‬‬ ‫یک نومبر‪ ٥،‬ء‬ ‫بزرگوں سے رشتہ اد آدا ک متق ضی رہت ہے۔ ان سے کھل ج نے‬ ‫کے ب وجود ہ عمروں کی سی ب ت نہیں ہوتی ۔ ان سے نبھ بھی‬ ‫مشکل ہوت ہے کیونکہ سنجیدگی اور رکھ رکھ ئو بھی خت نہیں ہو‬ ‫پ ت ۔ زم نی ب د بھی بہر صورت ب قی رہت ہے۔ وہ اپنے عہد کی ب تیں‬ ‫کرتے ہیں جبکہ ان ک عہد م ضی کی لحد میں اتر گی ہوت ہے۔ نی‬ ‫عہد اپنے تق ضوں کے س تھ گزر رہ ہوت ہے۔ ان حق ئ کے ب وجود‬ ‫بزرگوں سے دوستی من فع بخش ہوتی ہے۔ ان ک تجربہ بلا تردد ہ تھ‬ ‫لگت ہے۔ زندگی کے بہت سے اطوار اور س یقے میسر آتے ہیں ۔ آدمی‬ ‫وقت سے پہ ے بہت کچھ ج ن لیت ہے جس کے لیے وقت درک ر ہوت‬ ‫ہے ۔ ان کی ک می بیوں کے گردستی ہوتے ہیں اسی طرح ان کی‬ ‫خ میوں سے آگہی میسر آتی ہے۔ یہ آگہی آتے وقتوں میں ک آتی‬ ‫ہے۔ کت بوں کی بھ ش لگی لپٹی سمیٹے ہوتی ہے۔ کت بوں میں وہ‬ ‫کچھ نہیں ہوت جو انہوں نے اپنی آنکھوں سے ملاحظہ کی ہوت ہے۔‬ ‫اسی طرح سن نے والا بھی کہیں نہ کہیں ‪،‬ڈنڈی ضرور م رت ہے اور‬ ‫یک طرفہ ہی کہت ہے ۔ بزرگ دوست لگی لپٹی کو ایک طرف رکھ دیت‬ ‫ہے اور جو اور جیس ہی پیش کرت ہے۔ اسی طرح اص ی صورتح ل‬ ‫سے آگہی میسر آتی ہے۔‬ ‫میری خوش قسمتی رہی ہے کہ مجھے بزرگ دوست میسر آتے رہے‬ ‫ہیں ۔ سچی ب ت تو یہ ہے کہ ان سے میں نے بہت کچھ سیکھ ہے۔‬ ‫یہی نہیں بے لوث ت ون بھی دستی ہوا ہے۔ ان کی پذیرائی ک یہ‬ ‫کم ل ہے کہ کچھ ن کچھ لکھنے کے ق بل ہوا ہوں ۔ کچھ دوستوں ک‬ ‫کہن ہے کہ میں اچھ لکھ لیت ہوں ۔ سچی ب ت تو یہ ہے کہ میں اچھ‬

‫‪15‬‬ ‫لکھن تو دور کی ب ت ایک سطر بھی نہ لکھ پ ت ۔ یہ س میرے بزرگ‬ ‫دوستوں کی محبت اور ش قت ک نتیجہ ہے۔ مجھے بڑی اچھی طر ح‬ ‫ی د ہے کہ میرے گرامی والد ص ح مجھے س تھ س تھ لیے پھرتے‬ ‫تھے۔ بیٹھک میں کوئی آج ت تو بھی مجھے س تھ رکھتے ح لانکہ‬ ‫بچوں کو عموم ً چ ت کی ج ت ہے۔ میں ان ک س سے چھوٹ بیٹ تھ‬ ‫۔ ش ید اسی لیے وہ مجھ سے اتن پی ر کرتے تھے۔ ہو سکت ہے‬‫ریٹ ئرمنٹ کی تنہ ئی نے انہیں بچے سے دوستی پر مجبور کر دی تھ ۔‬ ‫بہر طور جو بھی سہی‪ ،‬میں نے بہت کچھ سیکھ ۔ بہت سے بزرگ‬ ‫دوستوں سے میری کبھی ملاق ت نہیں ہوئی۔ میری تحریر کے حوالہ‬ ‫سے انہوں نے مجھے بھی بوڑھ خی ل کرلی ہو او ر ان ک اس و و‬‫رویہ ہ عمر س تھیوں ک س رہ ۔ تحریر کی اچھی ہون ہے وہ س بڑے‬ ‫ب کہ بہت بڑے لوگ تھے اسی لیے ہر بڑی سے بڑی ب ت کی توقع کی‬ ‫ج سکتی ہے۔‬‫مجھے یہ کہنے میں کسی قس کی ع ر محسوس نہیں ہو رہی کہ میں‬ ‫نے جو کچھ بھی لکھ ہے ان کی محبتوں ک ثمر ہے۔‬ ‫بزرگوں سے دوستی ک من ی پہ و یہ ہے کہ وہ چھوڑ کر چ ے ج تے‬‫ہیں۔ان کے ج نے ک جو دکھ ہوت ہے میں وہ بی ن کرنے سے ق صر و‬ ‫ع جز ہوں ۔ ہر لمحہ ان کی یاد ست تی ہے۔ میں سوچ رہ تھ کہ‬ ‫ڈاکٹرری ض انج جو میرے بیٹے ک کلاس فی و ہے اتن پختہ ک ر کیوں‬ ‫ہو گی ہے اس کی عمر کے بچے تو موب ئل ایس ای ایس کی زندگی‬ ‫گزارتے ہیں اور یہ تحقی ایسے دقی ک میں مشغول ہے۔ ج میں‬ ‫نے اس کے دوستوں کی لسٹ دیکھی تو کھلا کہ اسے بزرگ دوست‬ ‫میسر آئے ہیں وہ اس کے ب پ کی عمر کے لوگ ہیں ۔ یہی نہیں بلا‬

‫‪16‬‬ ‫کے لائ اور تجربہ ک ر ہیں ۔ یہ بھی عمر میں ب بوں کی فکر رکھت‬ ‫ہے۔ میں پورے یقین کے س تھ کہت ہوں کہ یہ میری عمر تک آتے‬ ‫آتے میدان تحقی کی بہت بڑی بلاہوگ ۔ میں دیکھ رہ ہوں کہ آتے‬ ‫س لوں میں تحقی سے مت لوگوں ک اس کے پ س ہجو ہوگ ۔‬ ‫آج ج بڑھ پ اپنی جوانی کی سرحدوں کو چھوڑ کر بڑی تیز رفت ری‬ ‫سے موت کی طرف بڑھ رہ ہے۔ م یوسی نہیں‪ ،‬بے چ رگی کے ع ل‬ ‫میں اپن دامن دیکھت ہوں تو لحد میں اترت بڑھ پ مسکرا دیت ہے۔‬ ‫ابھی کچھ پھول ب قی ہیں ۔ میں تہی دامن نہیں ہوا۔ میرے دامن کے‬‫پھولوں میں خوش بو ب قی ہے اور وہ اپنی خوشبو بڑی ذمہ داری سے‬ ‫زندگی کے حوالے کر رہے ہیں ۔ ان کی مہک میں رائی بھر کمی نہیں‬ ‫آئی۔ موت ان ک کچھ نہیں بگ ڑ سکتی۔ میں بھول رہ تھ کہ بیدل‬ ‫حیدری‪ ،‬سید م ین الرحمن‪ ،‬وف راشدی‪ ،‬فرم ن فتح پوری‪ ،‬سید غلا‬‫حضور اور کئی ان سے حسین چہرے منوں مٹی ت ے ج چھپے۔ مریں‬ ‫ان کے دشمن‪ ،‬وہ مر نہیں سکتے۔ موت ان ک کچھ نہیں بگ ڑ سکتی۔‬ ‫انہیں گ شن اردو میں ل ظوں کے لب س میں زندہ رہن ہے۔ ان کے‬ ‫ق سے ل ظوں کو ک یوں ک تمث لی وجود مل چک ہے۔‬ ‫ہ ں ڈاکٹر تبس ک شمیری‪ ،‬ڈاکٹر محمد امین‪ ،‬ڈاکٹر مظ ر عب س‪ ،‬ڈاکٹر‬ ‫س دت س ید‪ ،‬ڈاکٹر نجی جم ل‪ ،‬ڈاکٹر اختر شم ر‪ ،‬ڈاکٹر غلا شبیر‬ ‫ران ‪ ،‬ڈاکٹر عبدال زیز س حر‪ ،‬ڈاکٹر ق ضی محمد عبداللہ وغیرہ سے‬ ‫میری ج بھی موب ئل فون پر ب ت ہوتی ہے تو زندگی کو اپنے بہت‬‫قری پ ت ہوں ۔ مجھے اپنے ہونے ک یقین ہونے لگت ہے۔کون کہت ہے‬‫اردو اد زوال ک شک ر ہو چک ہے ی تحقی و تنقید ک میدان اردو کے‬ ‫انڈر ٹیکروں سے خ لی ہو رہ ہے۔ ج تک یہ لوگ زندہ ہیں اردو‬

‫‪17‬‬ ‫اد پر بہ روں کے موس مہرب ن رہیں گے۔ ان ص حب ن ع و دانش‬ ‫ک کم ل ہے کہ انہوں نے اچھی خ صی نئی کھیپ پیدا کر دی ہے جو‬ ‫اردو اد کو حسن و خوبی سے سرفراز کرے گی۔اس طرح اردو زب ن‬ ‫و اد ک دامن خوش رنگ پھولوں سے بھرا رہے گ ‪ ،‬ان ش ئ اللہ۔‬ ‫ڈاکٹر ری ض انج جوان ہے لیکن اس کے ہررنگ اور ہر ترنگ میں‬‫بوڑھوں کے ل ظوں کی محبت اور خوش بو م تی ہے ۔اس کی یہی ادا‬ ‫اسے مجھ سے اور مجھے اس سے قری رکھتی ہے۔ اللہ اسے‬ ‫سرفرازیوں سے نوازے اور ہر نظر بد سے مح وظ فرم ئے۔آمین‬ ‫!مکرمی ومحترمی حسنی ص ح ‪ :‬سلا مسنون‬ ‫یقین کیجئے کہ میں سوچ رہ تھ کہ عرصہ سے آپ یہ ں نظر نہیں‬ ‫آئے۔ کہیں ایس تو نہیں ہے کہ چونکہ یہ ں لکھنے پڑھنے والے‬ ‫م دودے چند رہ گئے ہیں آپ دل برداشتہ ہو کر انجمن سے کن رہ کش‬ ‫ہو گئے ہیں۔ آپ ک یہ انش ئیہ دیکھ تو دل ب ب ہو گی ۔ اللہ آپ کو‬ ‫طویل عمر اور صحت سے نوازے اور آپ اسی طرح گ شن اردو میں‬ ‫پھولوں کی ب رش کرتے رہیں۔‬ ‫آپ ک انش ئیہ پڑھ کر دل بھر آی ‪ ،‬کیسے کیسے لوگ ی د آئے‪ ،‬کیسی‬ ‫کیسی ی دوں نے دل پر کچوکے لگ ئے اور آنکھوں میں کیسے کیسے‬‫من ظر گھو گئے۔ دل م ول ہوا اور بہت م ول ہوا۔ لیکن انش ئیہ کے آخر‬ ‫میں جو امید اور خوش آئند مستقبل کی نوید م ی وہ بہت تقویت ک‬ ‫ب عث ہوئی۔ آپ کے ب رے میں جو لوگ کہتے ہیں کہ آپ بہت اچھ‬‫لکھتے ہیں وہ ب لکل صحیح کہتے ہیں۔ آپ کے ق میں درد ہے‪ ،‬کسک‬

‫‪18‬‬ ‫ہے‪ ،‬ع ہے‪ ،‬م ضی کی گونج ہے‪ ،‬ح ل ک پی نو ہے اور مستقبل کی‬ ‫نوید نو۔ پھر اور کس چیز کی کمی ہے جو ہ شکوہ کریں ی دل چھوٹ‬ ‫کریں۔ دع ہے کہ آپ اسی طرح لکھتے رہیں۔ اور ش دک رہیں۔‬ ‫افسوس اس ک ہے کہ آپ کو پڑھنے والے بہت ک ہیں۔ لیکن اس ک‬ ‫علاج کی ہے یہ نہیں م و ۔ خیر کوئی ب ت نہیں۔ پھول کی خوشبو کے‬ ‫لئے ضروری نہیں کہ پھول ہ تھ ہی میں ہو۔ وہ خود ہوا کے دوش پر‬ ‫سوار کونے کونے میں پہنچ ج تی ہے اور س کو ش دک کرتی ہے۔‬ ‫انش ئیہ ک بہت بہت شکریہ۔‬ ‫ب قی راوی س چین بولت ہے۔‬ ‫سرور ع ل راز‬ ‫مکرمی ومحترمی جن ڈاکٹر حسنی ص ح ‪ :‬سلا ع یک‬‫میں ن د ہوں کہ اتنے عرصے آپ کی تخ یق ت سے فیضی نہ ہو سک ۔‬ ‫انش اللہ کوشش کر کے آپ کو پڑھوں گ ۔ آپ ک یہ مضمون پڑھ کر‬ ‫انتہ ئی مسرت ہوئی اور یہ احس س بھی پیدا ہوا کہ آپ کی تحریر کتنی‬ ‫ع افزا اور دلکش ہوتی ہیں۔ یہ مضمون کہنے کو ایک س دہ اور‬ ‫سیدھے س دے موضوع پر لکھ گی ہے لیکن ہ نئی نسل کے لوگوں‬ ‫کے لئے ندرت زب ن و بی ن‪ ،‬ت زگی اور دلچسپی کے بہت سے پہ و‬ ‫رکھت ہے۔ پڑھ کر دل م لا م ل ہو گی ۔ ا ایسی تحریریں دیکھنے کو‬ ‫نہیں م تی ہیں۔ اللہ سے دع ہے کہ آپ کو طویل عمر اور اچھی صحت‬

‫‪19‬‬ ‫عط فرم ئے ت کہ ہ اسی طرح فیضی ہوتے رہیں۔ آمین۔‬ ‫خ د ‪ :‬مشیر شمسی‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9832.0‬‬ ‫ایک قدی اردو ش عر کے کلا ک ت رفی و لس نی ج ئزہ‬ ‫مخدومی و مرشدی جنت مک نی قب ہ سید غلا حضور کے ع می وادبی‬

‫‪20‬‬ ‫ذخیرے سے م نے والی کت ' اظہ ر محمدی منظور احمدی' ک اور‬ ‫کس سن میں ش ئع ہوئی' ٹھیک سے کہ نہیں ج سکت ۔ اس پر ت ریخ‬ ‫اور سن درج نہیں ہے۔ ہ ں پب یشر ک ن ‪ .....‬فقیر فضل حسین ت جر‬ ‫کت ابن ح جی علاؤالدین مرحو س کن پتوکی نوآب د ض ع لاہور‪.....‬‬ ‫درج ہے۔ پتوکی نوآب د ض ع لاہور سے یہ ب ت وضح ہوتی ہے کہ اس‬ ‫چوبیس ص حے کی اش عت' اس وقت ہوئی' ج پتوکی نی نی آب د ہوا‬ ‫تھ ۔‬‫اس میں مولوی احمد ی ر کی پنج بی مثنوی' مرزا ص حب ن ک کچھ حصہ‬ ‫درج ہے۔ گوی یہ ان دنوں کی ب ت ہے' ج وہ زندہ تھے اور مثنوی‬‫مرزا ص حب ن تحریر کر رہے تھے۔ یہ کلا ص‪ 10‬تک ہے۔ ص‪15-14‬‬ ‫پر سترہ پنج بی اش ر پر مشتمل ک فی بھی ہے۔ گوی مولوی احمد ی ر‬ ‫پنج بی ک فی بھی کہتے تھے۔ پنج بی میں ان کی صرف مثنوی مرزا‬ ‫ص حب ن پڑھنے کو م تی ہے۔‬ ‫کت کے بقیہ ص ح ت پر' مولوی غلا محمد ک اردو پنج بی اور‬ ‫ف رسی کلا ش مل ہے۔ سرور پر موجود م وم ت کے مط ب ' مولوی‬ ‫غلا محمد قسم نہ س کن ص ب تحصیل دیپ لپور تھ نہ حجرہ ض ع‬ ‫منٹگمری ح ل س ہی وال کے تھے۔ ص‪ 12-11‬پر ریختہ کے ن سے‬ ‫کلا درج ہے۔ یہ کل نو ش ر ہیں۔ انہوں نے ل ظ ریختہ زب ن کے لیے‬ ‫لکھ ہے ی اردو غزل کے لیے' واضح نہیں۔ پہلا پ نچواں اور آخری‬ ‫ش ر غزل کے مزاج کے قری ہے۔ غزل کے ب قی اش ر' مروجہ‬ ‫عمومی مزاج سے لگ نہیں رکھتے۔ ہ ں غزل میں صوفی نہ طور'‬ ‫صوفی ش را کے ہ ں ضرور م ت ہے۔‬

‫‪21‬‬ ‫نہ م ت گ رخن سے دل میرا مسرور کیوں ہوت‬ ‫نہ اس نرگس کوں دیکہت رنجور کیوں ہوت‬ ‫نہ پڑت پرہ تو ح ک اگر رخس ر خوب ں پر‬ ‫تو ہر ع ش کی آنکہونمیں حسن منظور کیوں ہوت‬ ‫مقی اس دا زل میں نہ بھنست اگر دل تیرا‬ ‫تو سر گردان ت ریکی شبے رتجور کیوں ہوت‬ ‫ص‪ 13‬پر ایک خمسہ ہے' جسے مولود شریف ک ن دی گی ہے۔ اس‬ ‫سے پہ ے مولود شریف شیخ س دی ص ح کے چ ر ش ر دیئے گیے‬ ‫ہیں۔ اردو مولود شریف کے ب د' مولود شریف مولوی ج می ص ح‬ ‫کے' نو ش ر درج کیے گیے ہیں۔ آخر میں مولود شریف کے عنوان‬‫سے' نو ش ر درج کیے گیے۔ ص ‪ 19‬پر موجود کلا کو ک فی ک ن دی‬ ‫گی ہے۔ اس کلا کو نہ پنج بی کہ ج سکت اور ن ہی اردو' ت ہ ب ض‬ ‫ش ر اردو کے قری تر ہیں۔ دو ایک ش ر ب طور نمونہ ملاحظہ ہوں۔‬ ‫ک ئی کہو سجن کی ب ت جن کے پری لگ ئی چ ٹ پہلا ش ر‬‫پ نچواں ش ر‬ ‫س یم ن نبی ب قیس نہ ہو ہک آہی مط ذات‬ ‫بحر محیط نے جوش کی ت نوروں ہوی خوش کی چھٹ ش ر‬‫مو کرے دل لوہ س را چھبسواں ش ر‬ ‫ک مل پیر پن ہ ہم را‬ ‫دو غزلیں ف رسی کی ہیں۔ اوپر عنوان بھی دی گی ہے‬

‫‪22‬‬ ‫غزل مولوی غلا محمد از ص ب‬ ‫اے بن ت تو مزین مسند پیغمبری وے خجل گشتہءرویت آفت‬ ‫خ وری‬ ‫مط ع ف رسی غزل ص ‪12‬‬ ‫غزل از غلا محمد ص ح‬ ‫ج ں فدائے تو ی رسول اللہ دل گدائے تو ی رسول اللہ‬ ‫مط ع ف رسی غزل ص ‪23‬‬ ‫پنج بی کلا کے لیے' ل ظ ک فی است م ل ہوا ہے۔ داخ ی شہ دت سے یہ‬ ‫ب ت واضح ہوتی ہے' کہ ل ظ ریختہ اردو غزل کے لیے ہی است م ل ہوا‬ ‫ہے۔ دلی وغیرہ میں جو مش عرے ہوا کرتے تھے' ان کے لیے دو‬ ‫اصطلاح ت رواج رکھتی تھیں۔ ف رسی کلا کے لیے مش عرے' ج کہ‬ ‫اردو کلا کے لیے' ل ظ مراختے رواج رکھت تھ ‪ .‬ل ظ اردو محض‬ ‫شن خت کے لیے لکھ رہ ہوں' یہ ل ظ عمومی رواج نہ رکھت تھ ۔‬ ‫اس صورت ح ل کے پیش نظر' غ ل کے ہ ں است م ل ہونے والا ل ظ‬‫ریختہ' گڑبڑ ک شک ر ہو ج ت ہے۔ مولوی غلا محمد پہ ے کے ہیں'‬ ‫عہد غ ل کے ہیں ی ب د کے' ب ت قط ی الگ تر ہے۔ مش عروں میں‬ ‫زی دہ تر غزلیہ کلا سن ی ج ت تھ اور آج صورت ح ل مخت ف نہیں۔‬ ‫گوی غزل کے لیے ل ظ ریختہ' ج کہ مش عرے کے لیے ل ظ مراختہ‬‫است م ل ہوت تھ ۔ لامح لہ زب ن کے لیے کوئی دوسرا ل ظ است م ل ہوت‬ ‫ہوگ ۔ اس حس سے غ ل کے ہ ں بھی غزل کے م نوں میں‬ ‫اسست م ل ہوا ہے۔ اگر یہ ص ح ' غ ل کے ب د کے ہیں' تو اس ک‬

‫‪23‬‬ ‫مط یہ ٹھہرے گ کہ ل ظ اردو ب طور زب ن است م ل ہوت ہو گ لیکن‬‫عمومی مہ ورہ نہ بن سک تھ ۔ اس ک عمومی مہ ورہ بنن بہت ب د کی‬ ‫ب ت ہے۔‬ ‫ل ظوں کو ملا کر لکھنے ک ع چ ن تھ ۔ اس کت میں بھی یہ چ ن‬ ‫موجود ہے۔ مثلا‬ ‫ہ سے‬ ‫ج نیکی بدی ت ے گی ہمسے کجہ نہیں غ‬ ‫ص ‪13‬‬ ‫تو ہر ع ش کی آنکہونمیں حسن منظور کیوں ہوت آنکہون میں ص‬ ‫‪12‬‬ ‫دو چشمی حے کی جگہ حے مقصورہ ک رواج تھ ۔ مثلا‬ ‫نہوت سر مولے ک اگر کجہ ذات انس نمیں‬ ‫بہت سے ل ظوں ک ت ظ اور مکتوبی صورت آج سے الگ تھی۔ مثلا‬ ‫نہوت بھیت اسمیں خورشید فدا ک‬ ‫بھید ص ‪11‬‬ ‫بھیت‬ ‫ولیوں کے ک ندہے قد غوث اعظ‬ ‫ک ندہے کندھے ص ‪24‬‬ ‫تو سر گردان ت ریکی شبے رتجور کیوں ہوت‬ ‫میں اض فت کی بج ئے ے ک است م ل کی گی ہے۔‬ ‫ش عر نے خو صورت مرکب ت سے بھی کلا کو ج ز فکر بن نے‬

‫‪24‬‬ ‫کی س ی کی ہے۔ مثلا‬ ‫حسن منظور‬ ‫تو ہر ع ش کی آنکونمیں حسن منظور کیوں ہوت ص ‪12‬‬ ‫ست رہ محمدی‬ ‫غ ل س سے آی ست رہ محمدی ص‪13‬‬ ‫مست مل س پہ ہے لیکن س سے است م ل کی گی ہے۔‬ ‫مرک ل ظ دیکھیے‬ ‫خداگر‬ ‫عمر گر عدالت خداگر نہ کرتے ص ‪24‬‬ ‫کلا میں ریشمیت ک عنصر بھی پ ی ج ت ہے۔ مثلا‬ ‫نہ پڑت پرتوہ ح اگر رخس ر خوب ں پر‬ ‫تو ہرع ش کی آنکہونمیں حسن منظور کیوں ہوت ص ‪12‬‬ ‫کی زبردست طور سے صن ت تض د ک است م ل ہوا ہے۔‬ ‫تو دین اورک ر میں جدائی نہ ہوتی ص ‪24‬‬ ‫صن ت تض د کی مخت ف نوعیت کی دو ایک مث لیں اور ملاحظہ ہوں۔‬ ‫نہ م ت گ رخن سے دل میرا مسرور کیوں ہوت‬ ‫نہ اس نرگس کوں دیکہت رنجور کیوں ہوت ص ‪12‬‬

‫‪25‬‬ ‫جہ ں صن ت تض د ک است م ل ہوا ہے' وہ ں اردو زب ن کو دو خو‬ ‫صورت است رے بھی میسر آئے ہیں‪.‬اگر مخت ر ہو آد آپن کے خیر‬ ‫وشر اوپر‬ ‫تو دانہ کھ کے گند ک جنت سے دور کیوں ہوت ص ‪12‬‬ ‫اش ر ت میح ت سے مت ہوتے ہی۔ ت میح ت ک است م ل اسی حوالہ‬ ‫سے ہوا ہے۔ اس ذیل میں دو ایک مث لیں ملاحظہ ہوں۔‬ ‫اگر مخت ر ہو آد آپن کے خیر وشر اوپر‬ ‫تو دانہ کھ کے گند ک جنت سے دور کیوں ہوت ص ‪12‬‬ ‫لکھی تہی لوح پر ل نت پڑھی تھی س فرشتوں نے‬ ‫اگر یوں ج نت شیط ں تو وہ مغرور کیوں ہوت ص‪11‬‬ ‫اس ک مط یہ بھی نہیں کہ دو چشمی حے ک است م ل ہی نہیں ہوت‬ ‫تھ ۔ دو ایک مث لیں ملاحظہ ہوں۔‬ ‫لکھی تہی لوح پر ل نت پڑھی تھی س فرشتوں نے ص ‪11‬‬ ‫بھیت سجن کی خبر لی وے ص ‪19‬‬ ‫تو ہ ع جزوں کی رھ ئی نہوتی ص ‪24‬‬ ‫زب ن ک مہ ورہ بھی برا اور ن موس نہیں۔ مثلا‬ ‫کی دعوئے ان الح ک ہوی سردار کیوں ہوت ص‪11‬‬ ‫ک ئی کہو سجن کی ب ت‬

‫‪26‬‬ ‫جن کے پری لگ ئی چ ٹ ص‪19‬‬ ‫گذر گی سر توں پ نی ص‪20‬‬ ‫اس ش ری مجموعے کے اردو کلا پر' پنج بی کے اثراات واضح طور‬ ‫پر محسوس ہوتے ہیں۔ ب ض جگہ لس نی اور کہیں لہجہ پنج بی ہو ج ت‬ ‫ہے۔ مثلا‬ ‫نہ ہوت بھیت اسمیں اگر خوشید ذرہ ک ص ‪11‬‬ ‫تو ہر ذرہ انہ ں خورشید سے پرنور کیوں ہوت ص‪12‬‬ ‫ہک لکھ کئی ہزار پیغمبر گذر گئے ص ‪13‬‬ ‫ا لہجے سے مت ایک دو مثث لیں ملاحظ ہوں۔‬ ‫ج نیکی بدی ت ے گی ہمسے کجھ نہیں غ ص ‪13‬‬ ‫ع ی کو جے مشکل کش ح نہ کرتے ص ‪24‬‬ ‫اردو پر ہی موقوف نہیں' پنج بی بھی اردو سے مت ثر نظر آتی ہے۔‬ ‫مصرعے کے مصرعے اردو کے ہیں۔‬ ‫کہیں میراں ش ہ جیلانی ہے کہیں قط فرید حق نی ہے‬ ‫کہیں بہ ؤالدین م ت نی ہے کہیں پیر پن ہ لوہ ر ص ‪19‬‬ ‫اس چوبیس ص حے کی مختصر سی کت سے' یہ ب ت واضح ہوتی‬ ‫ہے' کہ مولوی غلا محمد آف ص ب تین زب نوں کے ش عر تھے‪.‬‬ ‫مخت ف اردو اصن ف میں ش ر کہتے تھے اور اچھ کہتے تھے۔ ان ک‬ ‫کلا کی ہوا اور کدھر گی ' کھوج کرنے کی ضرورت ہے۔‬

‫‪27‬‬ ‫مثنوی م سٹر نرائن داس' ایک ادبی ج ئزہ‬

‫‪28‬‬‫دوسری زب نوں کی طرح اردو' وہ جس رس الغط میں بھی رہی' مخت ف‬ ‫حوالوں سے' اس کے س تھ دھرو ہوت آی ہے۔ مثلا‬‫جنگجوں نے' اسے دشمن ک ذخیرہءع سمجھتے ہوئے' برب د کر دی '‬ ‫ح لاں کہ ل ظ کسی قو ی علاقہ کی م کیت نہیں ہوتے۔‬‫اردو کو مسم نوں کی زب ن سمجھتے ہوئے' غیر مس موں کی تحریوں‬‫کو نظر انداز کر دی گی ۔ ج کہ اصل حقیقت تو یہ ہے' کہ زب ن تو اسی‬ ‫کی ہے' جو اسے است م ل میں لات ہے۔‬ ‫گھر والوں نے' چھنیوں' کولیوں اور لکڑیوں کو ترجیح میں رکھتے‬ ‫ہوئے' ع می وادبی سرم یہ ردی میں بیچ کر' دا کھرے کر لیے۔‬ ‫بہت کچھ' ح لات' ح دث ت اور عد توجہگی کی نذر ہو گی ۔‬ ‫قددرتی آف ت بھی' اپنے حصہ ک کردار ادا کرتی آئی ہیں۔‬ ‫تہذیبں مٹ گئیں' وہ ں محض کھنڈر اور ٹی ے رہ گیے۔ بہت کچھ ان‬ ‫میں بھی د گی ۔ ب د کے آنے والوں نے' انہیں ب ڈوز کرکے ص ف‬ ‫زمین کے ٹکڑے کو' س کچھ سمجہ لی ۔ اگر محت ط روی اختی ر کی‬ ‫ج تی تو وہ ں سے' بہت کچھ دستی ہو سکت تھ ۔‬ ‫م سٹر نرائن داس' اردو کے خوش فکر اور خوش زب ن' ش عر اور‬ ‫نث ر تھے۔ سردست ان کی ایک ک وش فکر فوٹو ک پی کی صورت میں'‬ ‫دستی ہوئی ہے' جو پیش خمت ہے۔ اس سے پہ ے سوامی را تیرتھ‬ ‫ک کلا پیش کر چک ہوں۔‬ ‫م سٹر نرائن داس' جو قصور کے رہنے والے تھے اور فرید کوٹ کے‬ ‫مڈل سکول میں' ب طور ہیڈ م سٹر فرائض انج دے رہے تھے'‬

‫‪29‬‬ ‫اٹھ ئیس بندوں پر مشتمل مسدس ب عنوان۔۔۔۔۔جوہر صداقت۔۔۔۔۔ تحریر‬ ‫کی ۔ یہ ‪ 1899‬میں بلالی پریس س ڈھورہ ض ع انب لہ میں کری بخش و‬‫محمد بلال کے اہتم طبع ہوا۔ گوی یہ آج سے' ‪ 116‬س ل پہ ے ش ئع‬ ‫ہوا۔ اس مسدس کی زب ن آج سے' رائی بھر مخت ف نہیں۔ خدا لگتی یہ‬‫ہے' اسے پڑھنے کے ب د اندازہ ہوا' کہ م سٹر نرائن داس کو زب ن پر‬‫ک مل دسترس تھی۔ زب ن وبی ن میں فطری روانی موجود ہے۔ اپن نقطہء‬ ‫نظر' انہوں نے پوری دی نت' خ وص اور ذمہ داری سے پیش کی ہے۔‬ ‫انہوں نے اپنی پیش کش کے لیے' دس طور اختی ر کیے ہیں۔‬‫مزے کی ب ت یہ کہیں مذہبی ی نظری تی پرچھ ئیں تک نہیں م تی۔ حیرت‬ ‫کی ب ت تو یہ ہے' فقط آٹھ ئیس بندوں میں زب ن بی ن کے دس اطوار‬ ‫اختی ر کیے۔ بلاشبہ م سٹر نرائن داس بڑے سچے کھرے اور ب اصول‬ ‫انس ن رہے ہوں گے۔‬ ‫انہوں نے سچ ئی کو مذہ پر فضی ت دی ہے۔ ان کے مط ب خدا‬ ‫سچ ئی سے ال ت رکھت ہے۔ کہتے ہیں۔‬ ‫سچ ئی کے عقیدے کو مذہ پر فضی ت ہے‬ ‫خدا کو بندگ ن راستی سے خ ص ال ت ہے‬ ‫صداقت اپنی حیثیت میں ہے کی ۔‬ ‫سچ ئی رحمت ازلی و ابدی ک خزینہ ہے‬ ‫صد اوج س دت ک عظی الش ن زینہ ہے‬ ‫اس ک فنکشن کی ہے۔‬

‫‪30‬‬ ‫ذرا چھونے سے ادنے چیز کو اع ے بن تی ہے‬ ‫وہ قیمت بیشتر اکسیر اعظ سے بھی پ تی ہے‬ ‫صداقت اور کذ ک موازنہ‬ ‫م مع محض سمجھو جھوٹ کو آگے سچ ئی کے‬ ‫نکم محض سمجھو جھوٹ کو آگے سچ ئی کے‬ ‫صداقت کے فوائد‬ ‫سچ ئی ہر دوع ل میں ہے دیتی رتبہ اع ے‬ ‫سچ ئی کرتی ہے ہر دو جہ ں میں مرتبہ اع ے‬ ‫سچ ئی کے ضمن میں دلائل‬ ‫حکومت بھرتری نے چھوڑ دی خ طر سچ ئی کی‬ ‫‪..........‬‬ ‫تی گی ہو گی س کی منی خ طر سچ ئی کی‬ ‫‪.............‬‬ ‫سچ ئی کو بن ی راہنم پہلاد نے اپن‬ ‫‪...........‬‬ ‫پکڑ کر ہ تھ سے اپنے پئے خ طر سچ ئی کی‬ ‫پی لے زہر کے سقراط نے خ طر سچ ئی کی‬

‫‪31‬‬ ‫‪...........‬‬ ‫مسیح بھی ہوئے ص و تھے خ طر سچ ئی کی‬ ‫‪.............‬‬ ‫ہزاروں سر ہوئے تن سے جدا خ طر سچ ئی کی‬ ‫‪.............‬‬ ‫کئی بچھڑے پی رے وطن سے خ طر سچ ئی کی‬ ‫‪.............‬‬ ‫پڑے ش وں میں ج تی آگ کے خ طر سچ ئی کی‬ ‫سچ ئی فقرا ک مس ک ہوتی ہے۔‬ ‫سچ ئی ہی قدر قیمت فقیروں کی بڑھ تی ہے‬ ‫سچ ئی م رفت کے راستے انکو بت تی ہے‬ ‫سچ ئی کردگ ر پ ک کی قربت دلاتی ہے‬ ‫یہی آخر انہیں درگ ہ ایزد میں پہنچ تی ہے‬ ‫کذ ک انج کی ہوت ہے۔‬ ‫کذ د میں گنوات ہے شہنش ہونکی عزت کو‬ ‫تب ہ کرت ہے انکی ش ن کو شوکت کو ہیبت کو‬ ‫اسی سے ڈر ہے وق ت کو خطر اس سے دولت کو‬

‫‪32‬‬ ‫گرات سرنگوں ہے غرض ان کے ع ل رف ت کو‬ ‫ہزل پیشوں کو اللہ خ ک میں آخر ملات ہے‬ ‫مگر سچوں ک ح فظ اور مودی اور دات ہے‬ ‫حک ئتی انداز بھی اختی ر کی گی ہے۔‬ ‫گڈریے کی حک یت بھی نصیحت خو دیتی ہے‬ ‫کہ جسکی شیر کے پنجے سے پی ری ج ن نک تی ہے‬ ‫کذ کے ہ تھ سے اسپر مصیبت آن پڑتی ہے‬ ‫سزا جھوٹوں کو اپنے جھوٹ کی ایسے ہی م تی ہے‬ ‫اہل ہند کے ب رے چینیوں اور رومیوں کی آراء‬ ‫صداقت اہل ہندوست ں کے یون نی ثن خواں تھے‬ ‫چ ن کے اہل ہندوست ں کے چینی ثن خواں تھے‬ ‫موجودہ صورت ح ل‬ ‫صداقت ہو گئی ہے دور ہندوست ں کے لوگوں سے‬ ‫ہوئی ہے راستی ک فور ہندوست ں کے لوگوں سے‬ ‫سچ ئی کے رستے پر چ نے والوں کی تحسین اور مب رکب د‬ ‫مب رک ہو خوشی اے راستی کے چ ہنے والو‬ ‫مب رک مخروقی اے راستی کے چ ہنے والو‬

‫‪33‬‬ ‫مب رک برتری اے راستی کے چ ہنے والو‬ ‫مب رک خوش روی اے راستی کے چ ہنے والو‬ ‫مب رک آپ کو مژدہ یہ خوشخبری مب رک ہو‬ ‫مب رک آپ کو یہ مہر رب نی مب رک ہو‬‫ان کی مذہبی عصبت سے دوری ک س سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انہوں‬ ‫نے ذات ب ری کے لیے کردگ ر' ایزد' اللہ'ر ' خدا ن است م ل کیے‬ ‫ہیں۔‬ ‫م سٹر ص ح کے پ س متب دلات ک خزانہ موجود ہونے ک گم ن گزرت‬ ‫ہے۔‬ ‫سچ ئی سے خدا ت لے کی رحمت کی ترقی ہے‬ ‫‪........‬‬ ‫خدا کو بندگ ن راستی سے خ ص ال ت ہے‬ ‫‪........‬‬ ‫صد کو ی زرہ سمجھو کہ یہ اک زی تن کی ہے‬ ‫‪........‬‬ ‫نہ ہرگز س نچ کو ہے آنچ اس نے آزم دیکھ‬ ‫‪........‬‬ ‫صداقت کی مدد ان کو سچ ئی کے سہ رے ہیں‬

‫‪34‬‬ ‫ا کچھ مرکب ت ملاحظہ ہوں۔‬ ‫وہ ف ک راستی کے چمکتے گوی ست رے ہیں‬ ‫‪........‬‬ ‫مب رک گ ست ن راستی کے ٹہ نے والو‬ ‫مب رک زیور صد و صداقت پہننے والو‬ ‫‪.........‬‬ ‫ستون سرخ آہن سے خوشی سے دوڑ کر لپٹ‬ ‫‪.........‬‬ ‫شہیدان صداقت نے دی خ طر سچ ئی کی‬ ‫‪.........‬‬ ‫فتح کےلوک میں پرلوک میں ڈنکے بج تے ہیں‬ ‫‪........‬‬ ‫کی خو مصرع ہیں۔ فص حت و بلاغت ک منہ بولت ثبوت ہیں۔ اس‬ ‫ن صح نہ انداز میں ت خی ضرور ہے' لیکن فکری و لس نی حوالہ سے'‬ ‫ان مصرعوں کو نظرانداز کرن ' زی دتی ہو گی۔ بےشک ان مصرعوں‬ ‫میں' انہوں نے آف قی سچ ئی بی ن کی ہے۔‬ ‫ہوا کرت ہے جھوٹوں پر سدا قہر خدا ن زل‬

‫‪35‬‬ ‫کبھی درگ ہ سچی میں نہیں ک ز ہوئے داخل‬ ‫‪..........‬‬ ‫ہزل پیشوں کو اللہ خ ک میں آخر ملات ہے‬ ‫‪.........‬‬ ‫مب رک آپ کو یہ مہر رب نی مب رک ہو‬‫م سٹر ص ح کی زب ن ک مہ ورہ بھی ن ست سے گرا ہوانہیں۔ دو ایک‬ ‫مث لیں ملاحظہ ہوں‬ ‫کذ کے ہ تھ سے اسپر مصیبت آن پڑتی ہے‬ ‫‪...........‬‬ ‫ک ہ ڑی ہ تھ سے اپنے وہ خود پ ؤں پہ دھرتے ہیں‬ ‫‪...........‬‬ ‫سچ ئی ک نصیبے والے ہی دامن پکڑتے ہیں‬ ‫‪............‬‬ ‫اسی سے ن رہت ہے جہ ں میں ی د سچوں ک‬ ‫‪..........‬‬ ‫ہوئی ہے راستی ک فور ہندوست ں کے لوگوں سے‬ ‫مثنوی ک پہلا ش ر ہی تشبیہ پر استوار ہے۔ ملاحظہ ہو‬ ‫سچ ئی مثل کندن چمکتی ہے دندن تی ہے‬

‫‪36‬‬ ‫وہ ج وہ نور کوہ نور سے بڑھ کر دکھ تی ہے‬ ‫صن ت تکرار ل ظی ک است م ل بھی ہوا ہے۔ ہ ں البتہ' دندن تی کی‬ ‫جگہ' کوئی اور ل ظ رکھ دیتے' تو زی دہ اچھ ہوت ۔‬ ‫ایک اور خو صورت سی تشبیہ ملاحظہ ہو۔‬ ‫مگر ہے جھوٹ مثل ک نچ اس نے آزم دیکھ‬ ‫ا صن ت تض د کی کچھ مث لیں ملاحظہ فرم لیں۔‬ ‫شروع میں ہے خوشی اسکے خوشی ہی انتہ اسک‬ ‫انتہ کو مونث ب ندھ گی ہے اور یہ غ ط نہیں۔‬ ‫‪.......‬‬ ‫سچ ئی راحت ازلی و ابدی ک خزینہ ہے‬ ‫‪.......‬‬ ‫زب ن پ ک کو اے دل نہ آلودہ کذ سے کر‬ ‫م سٹر نرائن داس نے' اپنے عہد کی سچ ئی کے حوالہ سے' ہندوست ن‬ ‫کی ح لت کو' ریک رڈ میں دے دی ہے۔ کہتے ہیں‬ ‫بن ی جھوٹ کو ابتو ہے ہمنے راہنم اپن‬ ‫سچ ئی الودع! ہے آجکل کذ وری اپن‬ ‫دھر ب قی رہ اپن نہ دل ق ئ رہ اپن‬

‫‪37‬‬ ‫نہ ی رو جھوٹ کے ہ تھوں سے ایم ں ہی بچ اپن‬ ‫صداقت ہو گئی ہے دور ہندوست ں کے لوگوں سے‬ ‫ہوئی ہے راستی ک فور ہندوست ں کے لوگوں سے‬‫مثنوی ک آخری ش ر جس میں تخ ص است م ل ہوا ہے' پیش خدمت ہے‬ ‫یہ ع صی اے سچ ئی تیرے ہی گھر ک سوالی ہے‬ ‫ترا ہی داس اور تیرے ہی گھر ک سوالی ہے‬ ‫کہ ج ت ہے' انس ن نے ترقی کر لی ہے۔ خ ک ترقی کی ہے' جہ ں ع‬ ‫دو نمبر کی چیز ہو اور اہل ق کی موت کے ب د' ان کے پچھ ے' ان‬ ‫کے لہو پ روں کو' ردی میں بیچ دیں ی ط قت کے نشہ میں چور‬ ‫حکمرانوں کے پیشہ ور بےرح جنگجو' اس انس نی ورثے کو' نیست‬ ‫ون بود کر دیں‪ .‬وہ ں ہوس لالچ اور ن س ن سی کے سوا کی ہو سکت‬ ‫ہے۔ اگر ہوس' لالچ اور ن س ن سی ترقی ہے' تو وہ بہت زی دہ ہوئی‬ ‫ہے۔‬‫م سٹر ص ح نے اور بھی بہت کچھ' ش ر و نثر میں لکھ ہو گ ' کچھ‬ ‫کہہ نہیں سکتے۔ تقسی ہند ک عمل تقریب نصف صدی ب د ک ہے۔۔ اس‬ ‫لیے' وہ تقسی میں ض ئع نہیں ہوا ہو گ ۔ آج ج م ت' تحیقی ڈگری‬ ‫چھ پنے میں مصروف ہیں' اگر وہ خ موش اردو کے خدمت گ روں کو'‬ ‫تلاشنے کو بھی' تحقی سمجھیں' تو یہ اردو زب ن کی بہت بڑی خدمت ہوگی‬ ‫محتر جن ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ۔۔ السلا ع یک‬

‫‪38‬‬ ‫آج موج غزل سے نکل کر موج بی ن ک رخ کی تو اس نتیجہ پر پہنچ‬ ‫کہ اس س ئٹ میں موجود موج بی ن ک حصہ آپ کے د سے ق ئ ہے‬‫کیونکہ میں نے پچ نوے فیصد سے زائد تح ریر آپ کی یہ ں آپکی لگی‬ ‫ہوئ دیکھی ۔۔ اللہ پ ک آپکو اور آپکے اس ذو و شو اور فن کو‬ ‫سلامت رکھے اور وس ت و ترقی عط فرم ئے ۔ میں محتر سرور راز‬‫ص ح سے مت ہوں کہ یہ ں صنف ش عری کی نسبت احب کی توجہ‬ ‫نثر کی طرف بہت ک ہے جو احب نثری تخ یق ت لکھ سکتے ہیں ان‬ ‫کو ضرور اس ج ن بھی توجہ کرنی چ ہئے ۔۔‬ ‫آپ نے بہت اہ مسئ ہ کی طرف توجہ دلائی ہے آپکی سوچ اور فکر‬ ‫بج ہے کہ ادبی ورثہ کو مح وظ رکھنے کے لئے بھی ک ہون چ ہئے‬ ‫۔۔ اللہ پ ک آپکو ش دا رکھے اور آپکی تم تر نیک و ج ئز تمن ؤں کو‬ ‫پورا فرم ئے ۔۔‬ ‫والسلا‬ ‫محمد یوسف‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9892.0‬‬ ‫آش پربھ ت' مسک تے' س گتے اور ب کتے احس س ت کی ش عر‬

‫‪39‬‬ ‫عزیزہ آش پربھ ت نے اپن مجموعہءکلا ۔۔۔۔۔ مرموز۔۔۔۔۔۔ ان ال ظ کے‬ ‫س تھ عط کی ۔‬ ‫صف اول کے ف ل ادی ' نق د اور دانشور محتر بھ ئی ص ح کو‬ ‫احترا کے س تھ‬ ‫آش پربھ ت‬ ‫اگست ‪8 1996‬‬ ‫میں نے کچھ لکھ بھی تھ اور وہ کہیں ش ئع بھی ہوا تھ ۔ ب وجود‬ ‫کوشش کے' وہ لکھ دستی نہیں ہو پ رہ ۔ کلا آج انیس س ل ب د'‬ ‫دوب رہ پڑھنے میں آی ہے' میں بڑی سنجیدگی اور دی نت داری سے'‬ ‫محسوس کر رہ ہوں' اس پر لکھ ج ن چ ہیے۔‬ ‫مرموز ‪ 1996‬میں' پب شرز اینڈ ایڈورٹ ئزرز جے ‪ 6‬کرشن نگر دلی‬ ‫سے' ش ئع ہوا۔ ٹ ئیٹل بیک پر' آش پربھ ت کی تصویر ت رف اور ان‬ ‫کے کلا پر اظہ ر خی ل بھی' کی گی ہے۔ انہوں نے' اپنے کسی خط‬ ‫میں' لکھنے والے کے مت بت ی ہو گ ۔ ا اس خط ک م ن ' آس ن‬ ‫نہیں۔ اس تحریر کے مط ب ' آش پربھ ت کی ولادت رکسول' بہ ر میں‬ ‫ہوئی۔ ان ک ن ول۔۔۔۔۔ دھند میں اگ پیڑ۔۔۔۔۔ م ہ ن مہ منشور کراچی میں‬ ‫ش ئع ہوا' جو ب د میں' کت بی شکل میں بھی ش ئع ہوا تھ ۔ انہوں نے'‬ ‫مہرب نی فرم تے ہوئے' ایک نسخہ مجھ ن چیز ف نی کو بھی' عن یت کی‬ ‫تھ ۔ ان ک ایک مجموعہء ش ر ۔۔۔۔۔۔ دریچے۔۔۔۔۔۔۔۔ اس زب ن کے'‬ ‫دیون گری خط میں بھی ش ئع ہوا تھ ۔ ان ک ایک ہ ئیکو پر مشتمل‬ ‫مجموعہ۔۔۔۔۔گردا ۔۔۔۔۔۔ زیر اش عت تھ ۔‬

‫‪40‬‬ ‫ان کی ش عری سے مت کہ گی ہے۔‬ ‫اس و اور ہیئت کے اعتب ر سے ان کی نظمیں ش ری اد کے‬ ‫سرم ئے میں ایک نئے ب ک اض فہ کرتی ہیں۔‬ ‫اس مجموعے میں' کل اکسٹھ ش ر پ رے ش مل ہیں' جن میں سولہ‬ ‫غزلیں اور پ نچ اوپر چ لیس نظمیں ش مل ہیں۔ آش بنی دی اور پیدائشی‬ ‫طور پر' دیون گری رس الخط سے مت ہیں' لیکن اردو رس الخط‬ ‫سے' ان کی محبت عش کی سطع پر نظر آتی ہے۔ ان ک کہن ہے۔‬ ‫اردو میری محبو ہے اور میری محبو کی آنکھوں میندھنک کے‬ ‫تم رنگ لہراتے ہیں۔‬ ‫ان ک کہن ' کہنے کی حد تک نہیں' مرموز اس کی عم ی صورت میں‬ ‫موجود ہے۔ واق ی اردو سے وہ عش کرتی ہیں۔‬ ‫اس ک وش فکر ک ابتدائیہ' جو آش پربھ ت ک لکھ ہوا ہے' سچی ب ت‬ ‫ہے' دل کے نہ ں گوشوں میں بھی' ارت ش پیدا کرت ہے۔ ملاحظہ‬ ‫فرم ئیں۔‬ ‫اس ک وش فکر ک ابتدائیہ جو آش پربھ ت ک لکھ ہوا ہے سچی ب ت‬ ‫ہے دل کے نہ ں میں بھی ارت ش پیدا کرت ہے۔ ملاحظہ فرم ئیں۔‬ ‫مجھے نہیں م و ش عری کی ہے۔ ش ری آہنگ کی ہوت ہے۔ ش ری‬ ‫ش ور کی ہے اور داخ ی عوامل سے یہ کس طرح ترتی پ ت ہے۔ میں‬ ‫بس اتن ج نتی ہوں کہ دھند صرف پہ ڑوں پر نہیں ہوتی آدمی کے اندر‬‫بھی پھی تی ہے۔ سمندر لہرات ہے۔ دری موجزن ہوت ہے۔ طوف ن اٹھتے‬‫ہیں' پھول کھ تے ہیں' خوشبو پھی تی ہے اور ج بھی میں ان کی یتوں‬

‫‪41‬‬ ‫سے گزرتی ہوں تو ل ظوں ک سہ را لیتی ہوں اور محسوس ت کے‬ ‫پراسرار دھندلکوں میں ال ظ کی قندیل جلاتی ہوں لیکن ال ظ دور تک‬ ‫میرا س تھ نہیں دیتے ۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫میرے نزدیک ش عری قندیل جلانے ک عمل ہے۔ مجھے نہیں م و‬ ‫میری قندیل کی روشنی محسوس ت کی کس سطع کو چھوتی ہے۔ لیکن‬ ‫کی یہ ک ہے کہ میں نے قندیل جلائی ہے اور جلائے رکھنے ک عز‬ ‫رکھتی ہوں۔‬ ‫یہ زب نی کلامی کی ب تیں نہیں' مرموز کے مط ل ے کے ب د' یہ تم‬ ‫کی ی ت پڑھنے کو م تی ہیں۔‬ ‫ل ظ بہ مثل قندیل روشن رہتے ہیں‬ ‫دل کے نہ ں خ نوں میں‬ ‫ت موجود ہو‬ ‫آک ش میں شبد کی طرح‬ ‫نظ آک ش میں شبد ص‪9‬‬ ‫دھند آدمی کے اندر بھی پھی تی ہے۔‬ ‫ا کسی بھی آنکھ میں‬ ‫پہچ ن کی خوشبو نہیں‬ ‫چوب روں کے دیئے‬ ‫ک کے بجھ چکے ہیں‬

‫‪42‬‬ ‫بہت ج ن لیوا سن ٹ‬ ‫وہ ں لیٹ رہت ہے‬ ‫نظ گ ؤں ک المیہ ص ‪12‬‬ ‫اس ضمن میں ایک اور مث ل ملاحظہ ہو۔‬ ‫ہر سو‬ ‫دھند ک پہرہ ہے‬ ‫رات خ موش ہے‬ ‫مٹ م ی چ ندنی‬ ‫اتر آئی ہے میرے آنگن میں‬ ‫نظ ۔ میری اداس آنکھیں ص‪27‬‬ ‫جذ و احس س ت ک اٹھت طوف ن اور ردعم ی پک ر ملاحظہ ہو‬ ‫روک لو‬ ‫ان وحشی درندوں کو‬ ‫ان کی کنٹھ ؤں کے‬ ‫تیز ن خونوں کو توڑ ڈالو‬ ‫یہ نہیں ج نتے‬ ‫ب رود کی ڈھیر پر بیٹھ کر‬

‫‪43‬‬ ‫خود م چس جلانے ک انج‬ ‫یہ نہیں ج نتے‬ ‫جھ ستے ہوئے انس نوں کے المیہ کو‬ ‫جنگ ص‪ 70‬نظ ۔‬ ‫موجزن دری اور لہراتے سمندر کی کی یت ملاحظہ ہو‬ ‫تمہ ری چھوی ابھرتی ہے‬ ‫ایک روش ہ لہ کی طرح‬ ‫اور ایک شکتی بن کر‬ ‫میری روح میں سم ج تی ہے‬ ‫میں جی اٹھتی ہوں‬ ‫امبربیل کی طرح‬ ‫پ کیں جھپک اٹھتی ہیں‬ ‫توان ئی ک بےکراں سمندر‬ ‫لہرا اٹھت ہے میرے انگ انگ میں‬ ‫نظ تنہ ئی ص ‪16‬‬ ‫احس س کی کہ نی ملاحظہ ہو‬ ‫میرے اندر‬

‫‪44‬‬ ‫کہیں چپ سی پڑی ہے‬ ‫ایک ننھی چڑی‬ ‫وہ ا نہیں پھدکتی‬ ‫نہیں چہکتی‬ ‫نہ ہی ب رش میں‬ ‫اپنے پر بھگوتی ہے‬ ‫نظ ننھی چڑی ص‪24‬‬ ‫ل ظوں کی مسک ن اور خوش بو ملاحظہ ہو۔‬ ‫آبگینے سے زی دہ ن زک لمحوں کے بی ن کے لیے ل ظوں ک انتخ‬ ‫آش کو خو خو آت ہے۔ ذرا یہ لائینیں ملاحظہ ہوں۔‬ ‫تمہ ری آواز کی نمی‬ ‫ہمیشہ کی طرح‬ ‫اس ب ر بھی گمراہ کر گئی‬ ‫میں اس موڑ پر ہوں‬ ‫جہ ں سے واپس مڑ گئی تھی‬ ‫نظ تمہ ری آواز کی نمی ص‪37‬‬ ‫آش مح ک ت کی تشکیل میں کم ل رکھتی ہیں۔ مثلا‬ ‫حس م مول‬

‫‪45‬‬ ‫اس ب ر بھی ت‬ ‫میرے چہرے ک‬ ‫اپنے ہ تھوں سے‬ ‫کٹورا س بن ؤ گے‬ ‫میرے ل چومو گے‬ ‫اور بھر دو گے میرے آنچل کو‬ ‫عہد و پیم ں کے جگنوؤں سے‬ ‫نظ میرے ل س ے ہیں ص ‪32‬‬ ‫آش کے ہ ں' تشبیہ ت ک ب لکل نئے طور اور نئی زب ن کے س تھ‬ ‫است م ل ہوا ہے۔ چند ایک مث لیں ملاحظہ ہوں‬ ‫دل کے نہ ں خ نوں میں‬ ‫ت موجود ہو‬ ‫آک ش میں شبد کی طرح‬ ‫نظ آک ش میں شبد ‪9‬‬ ‫تمہ رے س رے خی لات‬ ‫نی خوابیدہ ہنسی کی طرح‬ ‫میرے ہونٹوں پر پھیل ج ئیں گے‬ ‫تنہ ئی ص ‪15‬‬

‫‪46‬‬ ‫شوخ لہریں‬ ‫سرکشی کرتی ہیں کن روں سے‬ ‫س نپ کے کینچل کی طرح‬ ‫نظ تمہ رے ج نے کے ب د ص‪17‬‬ ‫تمہ ری نر انگ یوں ک مخم ی لمس‬ ‫جیسے‬ ‫بند شیشوں سے ب ہر گرتی‬ ‫مس سل برف ب ری ک س س ہ‬ ‫نظ ایک احس س ص‪78‬‬ ‫اور سکھ‬ ‫م صو بچے س‬ ‫کونے میں دبک کر‬ ‫سو گی ہے‬ ‫نظ ریت کی ندی ‪85‬‬ ‫ت میح ک است م ل اور است م ل کی زب ن' ملاحظہ ہو۔‬ ‫ریت کی ندی بہتی ہے۔۔۔۔۔‬ ‫گر ریت میں پھنس گی ہے کہیں‬

‫‪47‬‬ ‫سوہنی ک گھڑا‬ ‫نظ ریت کی ندی ص‪85‬‬ ‫اٹھو‬ ‫ہ تھ بڑھ ؤ‬ ‫اور‬ ‫ص ی پر ٹنگے نصی کو ات ر لو‬ ‫ص ی پر ٹنگے نصی ص‪ 69‬نظ‬ ‫مندر کی روشنی میں‬ ‫مسجد کی روشنی میں‬ ‫کیوں کہرا بڑھ رہ ہے‬ ‫کیوں کہرا چھ رہ ہے‬ ‫نظ س نپ کو پکڑ لو ص‪60‬‬ ‫بہت دن ہوئے‬ ‫ج یوک پٹس کے پیڑوں کی طرح‬ ‫دن اگت تھ‬ ‫نظ بہت دن ہوئے ص‪10‬‬‫سم ج کی عمومی چیزیں بھی' است م ل میں لاتی ہیں اور یہ ہی' اس کی‬ ‫نظ کے لس نی حسن ک سب بنتی ہیں۔‬

‫‪48‬‬ ‫آٹ گوندھنے کے درمی ن‬ ‫نظ تمہ ری ی د ص‪92‬‬ ‫‪........‬‬ ‫کھڑکیوں اور دروازوں کے مخم ی پردے‬ ‫‪........‬‬ ‫ہ نڈیوں میں دانے‬ ‫اکیسویں صدی ص‪ 73-72‬نظ‬ ‫‪.......‬‬ ‫گ ی ڈنڈے اور‬ ‫بچوں کے ہجو‬ ‫وقت پیرہن بدلت ہے ص‪ 91-90‬نظ‬ ‫‪.......‬‬ ‫چوپ لوں میں بجھے ہوئے گھوروں کی راکھ‬ ‫نظ گ ؤں ک المیہ ص‪13‬‬ ‫آش نے زب ن کو مخت ف نوعیت و حیثیت کے مرک فراہ کیے ہیں۔ یہ‬ ‫اردو کی لس نی و فکری ثروت ک سب بنے ہیں۔ مثلا‬ ‫کر گل ص‪54‬‬

‫‪49‬‬ ‫نی خوابیدہ ہنسی ص‪14‬‬ ‫خرگوشی لمس ص‪20‬‬ ‫مٹ م ی چ ندنی ص‪27‬‬ ‫من ک سن ٹ ص‪58‬‬ ‫ل ظوں ک پل ص‪67‬‬ ‫سکھ ک چل ص‪85‬‬ ‫دہشت کے س ئے ص‪46‬‬ ‫ت وار کے ق ص‪61‬‬ ‫موت کی دستک ص‪47‬‬ ‫کہرے کی دیوار ص‪47‬‬ ‫جھینگر کی جھنک ر ص‪78‬‬ ‫ریت کی ندی ص‪85‬‬ ‫خی لوں میں اڑان ص‪66‬‬ ‫آش کی زب ن ک مہ ورہ بھی فصیح وب یغ ہے۔مثلا‬ ‫وقت پیرہن بدلت ہے‬ ‫زخ بھر ج تےہیں ص‪41‬‬ ‫آک ش نے‬

‫‪50‬‬ ‫اپن پریچے کھو دی ہے‬ ‫وقت موک بن‬ ‫ٹھگ س دیکھت رہ گی ہے ص ‪88‬‬ ‫جو جتن م ہر ہے‬ ‫اتن بھوگت ہے اسٹیج ک سکھ ص‪86‬‬ ‫اور سپنے‬ ‫نی وا آنکھوں سے‬ ‫چھ ک پڑے ص‪83-82‬‬ ‫کوئی احس س‬ ‫کوئی درد تمہ رےپیروں کی‬ ‫بیڑی نہیں بن سک ص‪35‬‬ ‫میرے اندر چپ سی پڑی ص‪24‬‬ ‫خی لوں میں اڈان بھرو گے ص‪66‬‬ ‫میرا پچھت وا مکھر ہو اٹھ ہے ص‪56‬‬‫آش کے ہ ں' زب ن اور زب ن ک ل و لہجہ اور ذائقہ الگ پڑھنے کو م ت‬ ‫ہے۔ غیر محسوس اور رونی میں' علامتوں اور است روں ک ' است م ل‬ ‫مت ثر کرت ہے۔ مثلا‬ ‫توان ئی ک بےکراں سمندر ص‪16‬‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook