میری کچھ نظمیں مقصود حسنی ابوزر برقی کتب خانہ دسمبر ٢٠١٦
انتساب روز اول سے سچائی کے حصہ میں بےچارگی‘ مفلسی اور بےبسی آئی ہے اور بدبخت اور چوری خور مورکھ بھی اسے نظر انداز کرتا آیا ہے۔ دہشت گرد مقتدرہ طبقے اور ان کی ناکردہ حسن کاریوں کے کشیدہ کار ہی اس کے قلم کا مقدر ٹھہرے ہیں۔ ڈاکٹر بیدل حیدری بلاشبہ بہت بڑے حق طراز تھے تب ہی تو کبھی کسی کو نظر نہیں آئے۔ بھوک پیاس ان کا اوڑھنا اور بےبسی اور بےکسی ان کا بچھونا رہی۔ میں اپنی یہ ناچیز کاوش ان کی حق دوست روح کے نام کرتا ہوں۔ اللہ ان کی روح کو اپنی رحمتوں سے سرفراز فرمائے۔ مقصود حسنی نوٹڈاکٹر بیدل حیدری کی نظموں کے مجموعے کا نام میری نظمیں ہے اور مجھ ناچیز کو اس کا دیباچہ لکھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اسیمناسبت سے میں اس مجموعے کا نام میری کچھ نظمیں رکھ رہا ہوں۔
فہرست میں مٹھی کیوں کھولوں ١- مت پوچھو ٢- شبنم نبضوں میں ٣- جینے کو تو سب جیتے ہیں ٤- آنکھ دریچوں سے ٥- بنیاد پرست ٦- پہرے ٧- اس سے کہہ دو ٨- باقی ہے ابھی ٩- جیون سپنا ١٠-چاند اب دریا میں نہیں اترے گا ١١- سفید پرندہ ١٢- ذات کے قیدی ١٣- جب تم مجھ کو سوچو گے ١٤- سب سے کہہ دو ١٥-
بالوں میں بکھری چاندی ١٦- شاہ کی لاٹھی ١٧- اک پل ١٨- پلکوں پر شام ١٩- اب جب بھی ٢٠- پاگل پن ٢١- آسمان سے ٢٢- یہ کس کی سازش ہے ٢٣- برسر عدالت ٢٤- کاجل ابھی پھیلا نہیں ٢٥-میں مقدر کا سکندر ہوں ٢٦- آنکھوں دیکھے موسم ٢٧- دروازہ کھولو ٢٨- تم مرے کوئی نہیں ہو ٢٩- صدیاں بیت گئی ہیں ٣٠- ایندھن ٣١-
عاری ٣٢- سننے میں آیا ہے ٣٣- کس منہ سے ٣٤- حیرت تو یہ ہے ٣٥- ہر گھر سے ٣٦- بارود کے موسم ٣٧- جاگتے رہنا ٣٨- حرص کی رم جم میں ٣٩- بن مانگے ٤٠- یقینی سی بات ہے ٤١- اپیل ٤٢- اس سے پہلے ٤٣- واپسی ٤٤-وقت کیسا انقلاب لایا ہے ٤٥- سوال یہ ہے ٤٦- سچ کے آنگن میں ٤٧-
میں نے دیکھا ٤٨- نوحہ ٤٩- صبح ہی سے ٥٠- جب تک ٥١- آزاد کر ٥٢- حیات کے برزخ میں ٥٣- چل' محمد کے در پر چل ٥٤- رات ذرا ڈھل جانے دو ٥٥- آس ستارے ٥٦- شہد سمندر ٥٧- سورج ڈوب رہا ہے ٥٨- اس روز بھی ٥٩- گنگا الٹا بہنے لگی ہے ٦٠- لہو کا تقدس ٦١- کانچ دریچوں میں ٦٢-خدشے جب سچ ہو جاتے ہیں ٦٣-
رام بھلی کرے گا ٦٤-بے انت سمندر ٦٥-حرص کی رم جم ٦٦- آج بھی ٦٧-...........................
میں مٹھی کیوں کھولوں میں مٹھی کیوں کھولوں بند مٹھی میں کیا ہے کوئی کیا جانے مٹھی کھولوں تو تم مرے کب رہ پاؤ گے ہر سیٹھ کی سیٹھیاس کی گھتلی کے دم سے ہے میں مٹھی کیوں کھولوں تری یاد کی خوشبو مری ہے مری ہے اس یاد کے باطن میں ترے ہونٹوں پر کھلتی کلیاں تری آنکھوں کی مسکانیں بھیگی سانسوں کی مہکیں
جھوٹے بہلاوے کچھ بے موسم وعدے ساتھ نبھانے کی قسمیں دکھ کے نوحےشراب سپنوں کی قوس و قزاح مری ہے مری ہے میں مٹھی کیوں کھولوں
مت پوچھو بن ترے کیسے جیتا ہوں مت پوچھو اڈیکوں کے ظالم موسم میں سانسوں کا آنا جانا کیسے ہوتا ہے مت پوچھو ساون رت میں آنکھوں کی برکھا کیسے ہوتی ہے مت پوچھو چاہت کی مدوا پرخود غرضی کا لیبل جب بھی لگتا ہے راتوں کی نیندیں ڈر جاتی ہیں آشکوں کے تارے سارے کے سارے گنتی میں کم پڑ جاتے ہیں
آس کی کومل کرنیں یاس کی اگنی میں جب جلتی ہیں تب روح کی ارتھی اٹھتی ہے یادوں کی نم آنکھوں کی بیپتا مت پوچھو چھوڑ کر جانے کے موسم پربچھڑے موسم کا اک پل بھاری ہوتا ہے پھر کہتا ہوں کالے موسم تم کو کھا جائیں گے تری ہستی کی کوئی کرچی میں کیسے دیکھ سکوں گا چہرے گھائل مرے دل کے کتنے ٹکڑے کرتے ہیں مت پوچھو
شبنم نبضوں میں عشق پلکوں پر پروانے اترےدیوانے تھے جو پر جلانے اترے لمس کی حدت نے خوشبو کی شدت نے آئین کے سینے پر پتھر رکھا گلاب آنکھیں پتھر ہر رہگزر خوف کا گھر سوچ دریچے برف ہوئے بہری دیواروں پر گونگے خواب اگے اندھے چراغ جلے شبنم نبضونمیں موت کا شعلہ تھا
شہر میں کہرام مچاپروانے تو دیوانے تھے پر جلانے اترے
جینے کو تو سب جیتے ہیں جینے کو تو سب جیتے ہیں ہر سایہ زخمی جنگل کے پنچھی چپ کے قیدی بربط کے نغمے ڈر کے شعلے پیتے ہیں کرنے کے جذبے روٹی کے بندی دریا کا پانی بھیگی بلیحر بربک کے سنکھ میں رہتے ہیں جو خشکی کی کن من کو بارش سمجھے منہ کھولے
سب آبی بھاگے دوڑے کچھ کٹ مرے کچھ تھک گرے جو چلتے گئےخوابوں کی بستی بستے ہیںجینے کو تو سب جیتے ہیں
آنکھ دریچوں سے مجھ کو من مندر میں سجا لو کہ ترے آنکھ دریچوں سےقوس و قزاح کے رنگوں میں ڈھل کر گنگا جل میں دھل کر بہاروں کے موسم جھانکھیں خورشید شبد جیون دھرتی کو بینائی بخشیں تری آغوش میں پلتی مسکانیں مری تری مرتی کو امرتا کے بردان میں ٹانکیں مجھ کو من مندر میں سجا لو کہ کام دیوا ہر بار کب خوش بختی کا منگل سوتر
گلاب گلو میں رکھتا ہے کالی راتوں میں ہونٹوں کی حدت بھرتا ہےمجھ کو من مندر میں سجا لو کہ ترے آنکھ دریچوں سےبہاروں کے موسم جھانکھیں
بنیاد پرست چاندنی سردی کا دیو کھا گیا بےنور آنکھوں کے سپنے کون دیکھتا ہے شو کیس کا حسنحنا بندی کے کب لائق ہوتا ہے بیوہ سے کہہ دو چوڑیاں توڑ دے ہم کنوارپن کے گاہک ہیں سچائی کی زبان پر آگ رکھ دو بنیاد پرست ہے گریب کی لڑکی ڈولی چڑھے کیونکر گربت کے کینسر میں مبتلا ہے
پہرے کوئی غلام پیدا نہیں ہوتا معاش طاقت توازنسماج کی رت کے ساتھ بدلتے ہیں بھوک بڑھتی ہے تو دودھ خشک ہو جاتا ہے خواہش احتجاج ضرورت زنجیر لیے کھڑے ہوتے ہیں بھوک کے ہوکے * سوچ کے دائرے پھیل جاتے ہیں وسائل سکڑ جاتے ہیں بغاوت پر کھولے تو سوچ پر پہرے لگ جاتے ہیں کوئی غلام پیدا نہیں ہوتا
معاش طاقت توازنسماج کی رت کے ساتھ بدلتے ہیں --------------------------- * تقاضوں کے رنگ میں
اس سے کہہ دو اس سے کہہ دو دو چار ستم اور ڈھائے یتیمی کا دکھ سہتے بچوں کے نالے ٹوٹے گجروں کی گریہ زاری جلتے دوپٹوں کے آنسو عرش کے ابھی اس پر ہیں اس سے کہہ دوزنداں کی دیواروں کا مسالہ بدلے بےگنہی کی حرمت میں امیر شہر کی لکھتوں کا نوحہ کہتی ہیں اس سے کہہ دو
ان کی پلکوں کے قطرے صدیوں بے توقیر رہے پھر بھی ہونٹوں پر جبر کی بھا میں جلتے سہمے سہمے سے بول مسیحا بن سکتے ہیں اس سے کہہ دو کڑا پہرا اب ہٹا دےزنجیریں کسی طاق میں رکھ دے بھاگ نکلنے کی سوچوں سے قیدی ڈرتے ہیں آزاد فضاؤں بےقید ہواؤں پر سماج کی ریت رواجوںوڈیروں کے کرخت مزاجوں کے پہروں پرپہرے ہیں
آئین کے پنے تنکوں سے کمتر رعیت کے حق میں کب کچھ کہتے ہیں سب دفتر طاقت کی خوشنودی میں آنکھوں پر پٹی باندھے کانوں میں انگلی ٹھونسے اپنی خیر مناتے ہیں جورو کےموتر کی بو نے سکندر سے مردوں سےظلم کی پرجا کے خواب چھین لیے ہیں دن کے مکھڑے پر راتوں کی کالک لکھ دی ہے اس سے کہہ دو دو چار ستم اور ڈھائے
باقی ہے ابھی محبت کیا ہے؟ دماغ کا بخار؟ کوئی میٹھا جذبہ قلبی رشتہکسی کے اپنا ہونے کا احساس شہوت کا بڑھتا ہوا سیلاب زندگی کا بدلتا رویہ یا انداز بےشمار سوال جن کا جواب ابھی تک باقی ہے
جیون سپنا آنکھ سمندر میں تھا جیون سپنا کہ کل تک تھا وہ اپنا جب سے اس گھر میں چاندی اتری ہے میرے من کی ہر رت پت جھڑ ٹھری ہےبارش صحرا کو چھو لے تو وہ سونا اگلے مری آنکھ کے قطرے نے جنت خوابوں کو یم لوک میں بدلا ہے کیسے چھو لوں تری مسکانوں میں
طنز کی پیڑا پیڑا تو سہہ لوں پیڑا میں ہو جو اپناپن آس دریچوں میں تری نفرت کاباشک ناگ جو بیٹھا ہےہونٹوں پر مہر صبر کی جیبا پرحنطل بولوں کی سڑکن یاد کے موسم میں خوشبو کی پریاں یاد کی شاموں کا جب بھنگڑا ڈالیں گی آنکھ ہر جائے گی آس مر جائے گی آنکھ سمندر میں تھا جیون سپنا
چاند اب دریا میں نہیں اترے گا جذبے لہو جیتے ہیں معاش کے زنداں میں مچھروں کی بہتات ہے سہاگنوں کے کنگن بک گئے ہیں پرندوں نے اڑنا چھوڑ دیا کہ فضا میں تابکاری ہے پجاری سیاست کے قیدی ہیں تلواریں زہر بجھی ہیںمحافظ سونے کی میخیں گنتا ہے چھوٹی مچھلیاں فاقہ سے ہیںکہ بڑی مچھلیوں کی دمیں بھی شکاری آنکھ رکھتی ہیں دریا کی سانسیں اکھڑ گئی ہیں
صبح ہو کہ شام جنگی بیڑے گشت کرتے ہیںچاند دھویں کی آغوش میں ہے اب وہ دریا میں نہیں اترے گاتنہائی بنی آدم کی ہمرکاب ہے کہ اس کا ہمزاد بھی تپتی دھوپ میں کب کا کھو گیا ہے
سفید پرندہ ممتا جب سے صحرا میں کھوئی ہے کشکول میں بوئی ہے خون میں سوئی ہے سفید پرندہ خون میں ڈوبا خنجر دیوارں پر چاند کی شیشہ کرنوں سے شبنم قطرے پی کرسورج جسموں کی شہلا آنکھوں میں اساس کے موسم سی کر ہونٹوں کے کھنڈر پر سچ کی موت کا قصہ حسین کے جیون کی گیتا وفا اشکوں سے لکھ کر برس ہوئے مکت ہوا
ذات کے قیدی قصور تو خیر دونوں کا تھا اس نے گالیاں بکیں اس نے خنجر چلایا سزا دونوں کو ملی وہ جان سے گیا یہ جہان سے گیا اس کے بچے یتیم ہوئے اس کے بچے گلیاں رولے اس کی ماں بینائی سے گئیاس کی ماں کے آنسو تھمتے نہیں اس کا باپ کچری چڑھا اس کا باپ بستر لگا دونوں کنبے کاسہء گدائی لیے گھر گھر کی دہلیز چڑھے
بے کسی کی تصویر بنے بے توقیر ہوئے ضبط کا فقدان بربادی کی انتہا بنا سماج کے سکون پر پتھر لگا قصور تو خیر دونوں کا تھاجیو اور جینے دو کے اصول پر جی سکتے تھے اپنے لیے جینا کیا جینا دھرتی کا ہر ذرہ تزئین کی آشا ر کھتا ہے ذات کے قیدی مردوں سے بدتر سسی فس کا جینا جیتے ہیں
جب تم مجھ کو سوچو گے تری زلفوں کی شب صبح بہاروں کے پر کاٹے تری آنکھوں کے مست پیالوں کا اک قطرہ آس کی مرتیو کا سر کاٹے جانے ان جانے کی اک انگڑائی نفرت کے ایوانوں میں ان کے ناہونے ترے ہونے کا قرطاس الفت پر امروں پر اپنی امرتا لکھ دے اب جب سے میں تجھ کو سوچے ہوںمری بصارت کے در وا ہوئے ہیں اپنی سوچ کا اک ذرہ
گر کوہ پر رکھ دوں دیوانہ ہو مجنوں کی راہ پکڑے مری سوچ کی حدت سےصحراؤں کا صحرا اپنی پگ بدلے تری مسکانوں کی بارش شور زمینوں کو برہما کے بردان سے بڑھ کر میں تجھ کو سوچے ہوں کہ سوچنا جیون ہے کھوجنا جیون ہے جب تم مجھ کو سوچو گے تم پر کن کا راز وا ہو گا وہ ہی ہر جا ہو گا تم کہتے پھرو گے One into many
But many are not one Nothing more but one When we divide one Face unjust and hardshipI and you are not two but one One is fact Fact is one
سب سے کہہ دو گذشتہ کے گلاب و کنول مفتول ایمان کی لاش پر سجا کر لبوں پرزیست کا نوحہ پریت کا گریہ بسا کر وعدہ کی شام اپنی عظمت میں فرشتوں کے سب سجدے آج ہی مصلوب کر دو سب سے کہہ دو ہم گونگے ہیں بہرے ہیںکم کوسی کا مرض طاری ہے اگلوں کا کیا
اپنے نام لھواتے ہیںمورخ ہتھ بدھا خادم ہے کل ہم پر ناز کرے گاکہ ہم رفتہ پر نازاں ہیں
بالوں میں بکھری چاندیبالوں میں بکھری چاندی روح کی کب قاتل ہے مرتی ہو کہ جیون آس ہو کہ یاساک کوکھ کی سنتانیں ہیں اک محور کے قیدیبالوں میں بکھری چاندی روح کی کب قاتل ہے جب دل دریا میں ڈول عشق کا ڈالو گے ارتعاش تو ہو گا من مندر کا ہر جذبہ ہیر کا داس تو ہو گابالوں میں بکھری چاندی
روح کی کب قاتل ہے ہر رت کے پھل پھول نیارے چاندنی راتوں میںدور امرجہ کے کھلیانوں میں سیرابی دیتے ہیںلب گنگا کے پیاس بھجاتے ہیں بالوں میں بکھری چاندی روح کی کب قاتل ہے من مستی آنکھوں کا کاجل دھڑکن دل کی زلفوں کی ظلمت کب قیدی ہیں بالوں میں بکھری چاندی روح کی کب قاتل ہے آتش گاہیں برکھا رتوں میں
جلتی تھیں جلتی ہیں جلتی ہوں گیبالوں میں بکھری چاندی روح کی کب قاتل ہے
شاہ کی لاٹھی انارکلی کےدیواروں میں چننے کا موسم جب بھی آتا ہےآس کے موسم مر جاتے ہیں ہر جاتے ہیں چاند سورج آکاش اور دھرتی زیست کے سب رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں کل کی مانگ سجانے کوعشق پھر بھی زندہ رہتا ہے ہر دکھ سہتا ہےیہ کھیل شاہ‘ زادوں کا ہےشاہ زاہزادے کب مرتے ہیں
شاہ کی لاٹھی انار کلی کے سر پر منڈلاتی رہتی ہےکمزور عضو کے سر پر سب موسم بھاری رہتے ہیں
اک پل اک پل آکاش اور دھرتی کو اک دوجے میں بن کر رنگ دھنک اچھالے دوجا پلجو بھیک تھا پہلے کل کی کاسے سے اترا اتراتا اٹھلاتا ماتھے کی ریکھا ٹھہرا کرپا اور دان کا پل پھن چکر مارا سلوٹ سے پاک سہی پھر بھی حنطل سے کڑوا
اترن کا پل الفت میں کچھ دے کر پانے کی اچھا حاتم سے چھل ہر فرزانہ عہد سے مکتی چاہے ہر دیوانہ عہد کا قیدی مر مٹنے کی باتیں ٹالتے رہنا کل تا کل جب بھی پل کی بگڑی کلدر نانک کے بیٹھا بےکل
پلکوں پر شام پلکوں پر گزری شام یاد کا نشتر ہر صبح راہ کا پتھر سورج بینائی کا منبع آنکھیں کھو بیٹھا ہر آشا زخمی زخمی ہر نغمہ عزائیلی اسرافیلی خون میں بھیگا آنچل گنگا کا ہر رستہ چپ کا قیدیدریا کنارے منہ دیکھے ہیں بے آب ندی میں گلاب کی کاشیں
پانی پانی ہونٹ سانپوں کے گھر پلکوں کی شامہر شام پر بھاری ہے ڈرتا ہے اس سے حشر کا منظر
اب جب بھی کوئی کنول چہرا اب جب بھی دیکھتا ہوں خوف کا موتیا آنکھوں میں اتر آتا ہے کلیوں کا جوبن چرا کر غرض کا جن پریوں کی اداؤں میں من آنگن میں قدم رکھتا ہےخواہشوں کی انگور بیلیں سوکھ جاتی ہیںخوش فہمی کے سورج کی تاریک کرنیں ست کے سارے شبد
کھا جاتی ہیں اگلے داؤ کے یقین پر جیون کے سب ارمان مر جاتے ہیں مر جاتے ہیں آس کے ٹوٹے ٹھوٹھے میں آشا کے کچھ بول رکھنے کو غرض کی برکی نہ بن جاءے وشنو چھپنے کوبرہما لوک کا رستہ بھول جاتا ہے گلاب کے ہونٹوں پر بے سدھ ہونے کی اچھا تھرکنے لگتی ہے کوئی کنول چہرا اب جب بھی دیکھتا ہوں خوف کا موتیا آنکھوں میں اتر آتا ہے
پاگل پن آنچ دریچوں میں دیکھوں توخواہش کے سب موسم جلتے ہیں نا دیکھوں تو احساس سے عاری اورابلیس کا پیرو ٹھہروں جانے کے موسم میں آنے کی سوچیں تو گنگا الٹی بہتی ہے دن کو چاند اور تاروں کا سپنا پاگل پن ہی تو ہے من کے پاگل پن کو وید حکیم کیا جانیں جو جانے عشق کی دنیا کا کب باسی ہے
آسمان سے آسمان سے جب بھی من وسلوی اترتا ہے زمین زرد پڑ جاتی ہے کہ بے محنت کا ثمرہحرکت کے در بند کر دیتا ہے سجدہ سے منحرف مخلوق حساس دلوں کی دھڑکنیں چھین لیتی ہے آسمان سے جب بھی من وسلوی اترتا ہے انسان کے سوا بلندیاں اتراتی ہیں
یہ کس کی سازش ہے جاگو کب کا لہو‘ لہو ہوا ہے جانودانستہ ہوا ہے کہ سہو ہوا ہے کس کی یہ سازش ہے بلبل کے روبرو قتل رنگ و بو ہوا ہے قاتل کی آستین دیکھ لو ہواوں سے گواہی لے لو یہاں ہی جھگڑا من و تو ہوا ہے وہ جینا کیا جینا ہے جو جینا ڈر کر جینا ہے مے گرتی ہے کہ
Search
Read the Text Version
- 1
- 2
- 3
- 4
- 5
- 6
- 7
- 8
- 9
- 10
- 11
- 12
- 13
- 14
- 15
- 16
- 17
- 18
- 19
- 20
- 21
- 22
- 23
- 24
- 25
- 26
- 27
- 28
- 29
- 30
- 31
- 32
- 33
- 34
- 35
- 36
- 37
- 38
- 39
- 40
- 41
- 42
- 43
- 44
- 45
- 46
- 47
- 48
- 49
- 50
- 51
- 52
- 53
- 54
- 55
- 56
- 57
- 58
- 59
- 60
- 61
- 62
- 63
- 64
- 65
- 66
- 67
- 68
- 69
- 70
- 71
- 72
- 73
- 74
- 75
- 76
- 77
- 78
- 79
- 80
- 81
- 82
- 83
- 84
- 85
- 86
- 87
- 88
- 89
- 90
- 91
- 92
- 93
- 94
- 95
- 96
- 97
- 98
- 99
- 100
- 101
- 102
- 103
- 104
- 105
- 106
- 107
- 108
- 109
- 110
- 111
- 112
- 113
- 114
- 115
- 116
- 117
- 118
- 119
- 120
- 121
- 122
- 123
- 124
- 125
- 126
- 127
- 128
- 129
- 130