Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore بارہ اسلامی مقالے

بارہ اسلامی مقالے

Published by maqsood5, 2018-06-21 03:49:14

Description: بارہ اسلامی مقالے
مقصود حسنی
فری ابوزر برقی کتب خانہ
جون ٢٠١٨

Search

Read the Text Version

‫ب رہ اسلامی مق لے‬ ‫مقصود حسنی‬‫فری ابوزر برقی کت خ نہ‬ ‫جون‬

‫فہرست‬ ‫نم ز ک سو سے زی دہ س ل ک پران اردو ترجمہ‬ ‫حضور کری ص ی الله ع یہ وس اور تخ ی ک ئن ت‬‫قصہءآد ‘ اردو کے داست نی اد میں ایک اہ اض فہ‬ ‫ترجمہ سورتہ ف تحہ‬ ‫شجرہ ق دریہ ۔۔۔۔۔ ایک ج ئزہ‬ ‫ایک چرچ مین کی ی وہ گوئی اور میری م روض ت‬ ‫طلا‬ ‫کھ ی تنبیہ‬ ‫میں ن ہیں سبھ توں۔۔۔۔۔۔۔چند م روض ت‬ ‫ارشد حکی ک ایک ش ر‬ ‫ہ اسلا کے م ننے والے ہیں' پیروک ر نہیں‬ ‫عربی کے اردو پر لس نی تی اثرات ایک ج ئزہ‬

‫نم ز ک سو سے زی دہ س ل ک پران اردو ترجمہ‬ ‫مخدومی و مرشدی حضرت سید غلا حضور ش ہ الم روف بہ ب ب جی‬ ‫شکرالله کے ذخیرہءکت سے' ایک کت ‪.......‬نم ز مترج منظو ۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫بزب ن پنج بی' دستی ہوئی ہے۔ اس کے مولف مولوی محمد فیروز‬ ‫الدین ڈسکوی' منشی ف ضل' مدرس ای بی ہ ئی سکول' سی لکوٹ ہیں۔‬‫انہیں اس کت کی ت لیف ک اعزاز' رائے ص ح منشی گلا سنگھ اینڈ‬ ‫سنز' ت جران کت ' لاہور نے دی ۔ اس کت ک سن اش عت ‪ 1907‬ہے‬ ‫اور یہ ہی س ل' مخدومی و مرشدی حضرت ب ب جی شکرالله ک سن‬‫پیدائش ہے۔ یہ کت بلاشبہ' حضرت سید ع ی احمد ش ہ کے کت خ نے‬‫کی' ب قی ت میں سے ہے۔ اس ک واضح ثبوت یہ ہے کہ کت کے ص حہ‬ ‫نمبر ‪ 17‬پر' ان کے ہ تھ ک لکھ ہوا ایک ش ر موجود ہے۔‬ ‫ہ زی دہ تر ش عری ی پھر مخصوص اصن ف نثر کو' اد ک ن دیتے‬ ‫ہیں اور انہیں ہی' زب ن کی ترقی ک ذری ہ خی ل کرتے ہیں۔ اس قس کی‬‫ہر سوچ' حقیقت سے کوئی علاقہ نہیں۔ ہر اظہ ر' اس ک ت کسی بھی‬ ‫ش بہ سے مت ہو' زب ن کی نشوونم اور اس کی ابلاغی قوتوں کو'‬ ‫ترقی دینے ک ذری ہ اور سب بنت ہے۔ مروجہ ادبی اصن ف ش ر ونثر‬ ‫کو اٹھ کر دیکھ لیجیے' ش ید ہی' زندگی ک کوئی ش بہ نظرانداز ہوا ہو‬ ‫گ ۔ یہ ں تک کہ س ئنس اور حکمت کے امور بھی' نظر آئیں گے۔‬ ‫ری ضی اور شم ی ت جیسے ش بے' اس کی دسترس سے ب ہر نہیں‬ ‫رہے۔ ج ایسی صورت ہے' تو زب ن کی ابلاغی اور لس نی ترقی کے‬ ‫حوالہ سے' دیگر ع و و فنون کی ک وش ہ کو' کیوں صرف نظر کی‬

‫ج ئے۔‬‫ع و اسلامی سے مت ' اردو میں بہت کچھ لکھ گی ہے۔ دیگر زب نوں‬ ‫سے بھی' اسلامی ع و کی کت کے تراج ہوئے ہیں۔ اس حوالہ سے'‬ ‫اردو میں بہت سی مخت ف ش بوں سے مت ' اصطلاح ت داخل ہو کر‬‫رواج ع بنی ہیں۔ ان گنت ت میح ت' اردو ش رواد ک گہن بنی ہیں۔ ب ت‬ ‫یہ ں تک ہی محدود نہیں رہی' بہت سے عربی ال ظ' اردو کے‬ ‫ذخیرہءال ظ میں داخل ہو کر' اردو کی ابلاغی ثروت ک ذری ہ بنے ہیں۔‬ ‫بچوں کے لیے' لات داد اسلامی لڑیچر ک شت ہوا ہے۔ غیر مس بھی'‬ ‫اس ذیل میں نظرانداز نہیں کیے ج سکتے۔ ان ک مذہبی اث ثہ بھی' اس‬ ‫زب ن ک زیور بن ہے۔ گوی ان مس عی کو' لس نی حوالہ سے نظرانداز‬‫نہیں کی ج ن چ ہیے۔ م ہرین لس نی ت کو' صرف اور صرف اردو اصن ف‬ ‫ش رونثر کو ہی' لس نی تی مط ل ہ میں نہیں رکھن چ ہیے۔ س ش بوں‬ ‫سے مت کت ک ' اس ذیل میں' پیش نظر رہن از بس ضروری ہے۔‬‫زیر تجزیہ کت میں نم ز کے علاوہ' منظو پنج بی میں' مخت ف مس ئل‬ ‫بھی بی ن کیے گیے ہیں۔ نم ز سے م ق ت' پہ ے عربی میں' ب د ازاں‬ ‫اردو میں ترجمہ کی گی ہے' اس کے ب د پنج بی میں منظو ترجمہ کی‬ ‫گی ہے۔ اس وقت میرے پیش نظر' کئی تراج ہیں' خدا لگتی ب ت تو یہ‬ ‫ہی ہے' س دہ اور ع فہ ہونے کے س تھ س تھ' ترچمہ اور مح ورہ‬ ‫کے اعتب ر سے' یہ ترجمہ اپنی ہی نوعیت ک ہے۔ بریکٹوں میں کچھ‬‫نہیں لکھ گی ۔ اس لح ظ سے بھی' یہ ترجمہ خو تر ہے۔ لس نی اعتب ر‬ ‫سے' اس کی فص حت اور بلاغت ک اقرار نہ کرن ' سراسر زی دتی کے‬ ‫مترادف ہو گ ۔ میں اس ذیل میں مزید کچھ عرض کرنے کی بج ئے'‬ ‫ترجمہ پیش کرنے کی س دت ح صل کرت ہوں۔‬

‫الله بہت بڑا ہے‬‫اے الله تیری ذات پ ک ہے خوبیوں والی اور تیرا ن مب رک ہے‬ ‫اور تیری ش ن اونچی ہے اور تیرے سوا کوئی م بود نہیں‬ ‫میں مردود شیط ن سے خدا کی پن ہ لیت ہوں‬ ‫خدائے رحمن و رحی کے ن سےشروع‬ ‫س خوبی ں الله کو جو س رے جہ ن ک ر ہے‬ ‫بڑا مہرب ن نہ یت رح والا‬ ‫انص ف کے دن ک م لک‬ ‫ہ تیری عب دت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد م نگتے ہیں‬ ‫ہ کو سیدھی راہ دکھ‬ ‫ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے اپن فضل کی‬ ‫ان کی نہیں جن پر غض ہوا‬ ‫اور نہ گمراہوں کی‬ ‫ایس ہی ہو‬ ‫تو کہہ وہ الله ایک ہے‬ ‫الله بےنی ز ہے‬ ‫نہ کسی کو جن نہ کسی سے جن گی‬

‫اور نہ کوئی اس ک ہمسر ہے‬ ‫الله س سے بڑا ہے‬ ‫میرا عظمت والا ر قدوس ہے‬ ‫ہے جو اس کی خوبی بی ن کرے‪......‬‬ ‫اے الله تجھے ہی س خوبی ں ہیں‬ ‫میرا ع لی ش ن ر قدوس ہے‬ ‫س زب نی بدنی اور م لی عب دتیں الله ہی کے لیے ہیں‬‫اے الله کے نبی تجھپہ سلا اور خدا کی رحمت اور اسکی برک ت ن زل‬ ‫ہوں‬ ‫ہ پراور خدا کے نیک بخت بندوں پر سلا‬ ‫‪ .....‬میں اقرار کرت ہوں کہ الله کے سوا‬ ‫اور میں اقرار کرت ہوں کہ محمد اسک بندہ اور رسول ہے‬ ‫اے الله حضرت محمد اور حضرت محمد کی آل پر رحمت ن زل فرم‬

‫جیس کہ تو نے حضرت ابراہی اور ان کی آل پر رحمت ن زل کی‬ ‫یقین تو خوبیوں والا بزرگی والا ہے‬ ‫اے الله مجھے نم زوں ک ق ئ کرنے والا بن دے‬ ‫اولاد کو بھی اور خدای میری دع منظور فرم ‪.....‬‬ ‫اے الله اور میرے م ں ب پ اور س مومنوں کو بخشدے ج قی مت ق ئ‬ ‫ہو‬ ‫اے الله ہم را دنی میں بھی بھلا کر اورآخرت میں بھی بھلا اور‬ ‫ہ کو عذا دوزخ سے نج ت دے‬ ‫ت پر سلا اور الله کی رحمت‬‫میں ب طور تبرک کت کے مت ص ح ت کی عکسی نقول بھی پیش کر‬‫رہ ہوں۔ دو جگہ نقطے لگ ئے گیے ہیں' وہ ں سے ص حہ پھٹ ہوا ہے۔‬ ‫میں نے اپنی طرف سے' ایک ل ظ ک ی زی دہ نہیں کی ۔ ٹ ئپ بھی اسی‬ ‫خط کے مط ب کی ہے۔‬ ‫محترمی حسنی ص ح ‪ :‬سلا مسنون‬‫یہ ن ی تبرک یہ ں عن یت کرنے ک تہ دل سے شکریہ قبول کیجئے۔ یہ‬

‫ہم ری قو کی بد قسمتی ہے کہ ایسے نوادرات ج د ہی ص حہ ہستی‬‫سے مٹ ج ئیں گے۔ ہ کو ایسی بیش بہ چیزیں کبھی مح وظ کرنے کی‬ ‫توفی نہ ہوئی۔ میں امریکہ میں دیکھت ہوں کہ یہ اپنے ت ریخی‬ ‫نوادرات کس قدر محنت اور توجہ سے بچ بچ کر رکھتے ہیں۔ کت‬ ‫خ نے بیش قیمت کت بوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ یہ ں ک ق نون ہے کہ‬ ‫چھپی ہوئی جو چیز بھی (خواہ وہ کسی زب ن میں ہو) اگر م ک میں‬ ‫آئے گی تو اس کی ایک ج د واشنگٹن کے قومی کت خ نے میں رکھی‬ ‫ج ئے گی۔ میں نے اپنی کت بیں بھی اس کت خ نہ کے علاوہ ہر ایسی‬ ‫یونی ورسٹی کے کت خ نے کو بھیج دی ہیں جہ ں اردو پڑھ ئی ج تی‬ ‫ہے (ایسی درجن بھر یونی ورسٹی ں ہیں)۔ لطف یہ ہے کہ کت م نے‬ ‫پر ہرکت خ نے سے شکریہ ک ب ق عدہ خط آت ہے۔ یہی کت بیں میں‬ ‫ہندوست ن اور پ کست ن کے اردو کت خ نوں کو بھیجت ہوں تو وہ ں‬ ‫سے کوئی رسید نہیں آتی۔ شکریہ کے خط ک تو ذکر ہی چھوڑ دیجئے۔‬ ‫اس سے زی دہ کہنے کی ش ید ضرورت نہیں ہے۔‬ ‫سرور ع ل راز‬ ‫‪www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9450.0‬‬ ‫حضور کری ص ی الله ع یہ وس اور تخ ی ک ئن ت‬ ‫مرشدی قب ہ حضرت سید غلا حضور الم روف ب ب جی شکرالله ۔۔۔۔ پ‬

‫‪1988 1907‬۔۔۔۔۔ کے ذخیرہ کت سے' جہ ں مخت ف موضوع ت پر‬ ‫مجھ ن چیز کو کت میسر آسکی ہیں' وہ ں ان میں ق می نسخے بھی‬ ‫م ے ہیں‘ جو انہیں‘ ان کے والد گرامی‘ ی نی مجھ ف نی کے دادا ج ن‘‬ ‫حضرت سید ع ی احمد ۔۔۔۔۔۔ ‪1911‬۔۔۔۔۔۔۔ ولد سید عبدالرحمن اور‬ ‫ننھی ل' جو ان ک سسرا بھی تھ ' سے ورثہ میں م ے۔‬ ‫حضرت سید ع ی احمد نوشہرہ' امرت سر کے رہ ئشی تھے۔ وہ عربی‬ ‫اور ف رسی کے ع ل ف ضل تھے۔ ان کی دو بیویوں میں' چ ر بیٹے اور‬ ‫دو بیٹی ں تھیں‪ .‬سیدہ جنت بی بی سے' سید م ک' سید ف ک شیر اور‬ ‫سیدہ کرامت بی بی' ج کہ سیدہ گوہر بی بی سے سید غلا غنی' سید‬ ‫غلا حضوراور سیدہ زین بی بی تھیں۔ سید م ک' سید ف ک شیر اور‬ ‫سیدہ کرامت بی بی ک کچھ ح ل م و نہیں۔ مرشدی حضرت سید غلا‬ ‫حضور ت د مرگ' ان کی تلاش میں رہے۔ راق کو بھی' ان ک کچھ پت‬ ‫نہیں چل سک ۔ ان کی آل اولاد سے ملاق ت کی خواہش' روز اول کی‬ ‫طرح' آج بھی اپنی پہ ی سی شدت رکھتی ہے۔‬‫حضرت سید ع ی احمد کی وف ت کے وقت' زین بی بی س ت برس' سید‬ ‫غلا غنی چھے برس' ج کہ سید غلا حضور چ ر برس کے تھے‪.‬‬ ‫زمین پہ نڈے والے تھے۔ محمد اکبر فقیر' جو حضرت سید ع ی احمد ک‬ ‫خدمت گ ر تھ ' نے دیکھ بھ ل کے بہ نے' م ئی گوہر بی بی ' زوجہ‬‫حضرت سید ع ی احمد ولد سید عبدالرحمن کو اعتم د میں لے لی ۔۔ محمد‬ ‫اکبر فقیر کی بیوی کھیواں' دہ یز کے اندر' ج کہ محمد اکبر فقیر گھر‬ ‫سے ب ہر کے امور انج دینے لگ ۔‬ ‫م ئی ص ح کے بچے چھوٹے تھے۔ انہوں نے محمد اکبر فقیر پر‬ ‫اعتم د کی ۔ محمد اکبر فقیر کی بیوی کھیواں سے' دو بیٹے' محمد امین‬ ‫اور ق ئ ع ی کو بھی' بیٹوں کی طرح سمجھ ۔ محمد اکبر فقیر کی موت‬

‫کے ب د' اس کے بڑے بیٹے محمد امین نے انتظ سمبھ ل لی ۔ ب د ازاں‬ ‫خود کو' حضرت سید ع ی احمد ولد سید عبدالرحمن ک وارث قرار دے‬‫کر' ہر چیز پر قبضہ جم لی ۔ خوش ح ل گھرانہ' دنوں میں م س ہو گی ۔‬‫یہ ہی نہیں' محمد امین اور ق ئ ع ی' بدس وکی سے ک لینے لگے۔ وہ‬ ‫ہی' جنہیں اولاد کی طرح سمجھ اور گھر داخل ہونے کی اج زت دی'‬‫ج ن کے دشمن بن گیے۔ م ئی ص ح کے منہ سے آہیں نکل نکل گئیں۔‬ ‫محمد امین کے ہ تھوں ایک قتل ہوا۔ جی وں میں سڑا اور پھر' دم غی‬ ‫توازن کھو بیٹھ ۔ سنگ وں سے ب ندھ گی اوراسی ح لت میں چل بس ۔‬ ‫محمد امین کے دونوں بیٹے ولایوڑ نک ے' انہوں نے ب پ ک ہتھی ی '‬ ‫س اج ڑ دی ۔ محمد خ ل فقیر ہو گی ' ج کہ ووسرے نے' گ ؤں میں‬ ‫چھوٹی موٹی پرچون کی دوک ن ڈال لی۔‬ ‫ق ئ ع ی کی بیٹی ت ج' اپنی م ں رقی ں کے قدموں پر تھی۔ اس کی‬ ‫بدچ نی کے ہ تھوں مجبور ہو کر' اس نے چھت پر سے چھلانگ لگ‬‫کر' خودکشی کر لی۔ حرف بہ حرف اسی طرح ہوا' جس طرح سے م ئی‬ ‫گوہر بی بی نے د دیتے وقت کہ تھ ۔ زمین ک م ل زمین پر ہی رہ گی ۔‬ ‫محمد امین اور ق ئ ع ی دونوں' دنی سے خ لی ہ تھ چ ے گیے۔ رقی ں‬‫ک ع ش سردار کرت ر سنگھ' ‪ 1947‬کے ہنگ موں کی نذر ہو گی ۔ محمد‬ ‫امین کے ب پ ک ہڑپ ض ئع ہو گی ' کچھ ب قی نہ رہ ۔‬ ‫مرشدی حضرت سید غلا حضور کی ش دی' م موں زاد سیدہ سردار‬ ‫بیگ بنت سید برکت ع ی سے ہوئی۔ اس لیے دوسروں کی نسبت' ان‬ ‫کی ننھی ل سے زی دہ قربت رہی۔ یہ گ ؤں نگ ی' امرت سر سے ت‬ ‫رکھتے تھے۔ سید گوہر ع ی اور سید برکت ع ی' دونوں بھ ئی ع‬ ‫دوست تھے۔ کھ تے پیٹے اور خوش ح ل لوگ تھے۔ دونوں بھ ئیوں‬ ‫کی' بتیس کھوہ زمین تھی۔ اولاد میں' دونوں کے پ س' صرف سیدہ‬

‫سردار بیگ تھی۔ لاڈ پی ر سے پ ی بڑھی۔ یہ گھرانہ اہل تشیع تھ ۔ ان‬ ‫کے ہ ں' مج سیں ہوتی رہتی تھیں۔ کت بوں اور ق می نسخوں کے' انب ر‬ ‫لگے ہوئے تھے۔ مرشدی حضرت سید غلا حضور ‪ 1929‬ی ‪1931‬‬ ‫میں' س کچھ چھوڑ چھ ڑ کر' قصور اٹھ آئے۔ محنت مزدوری پیشہ‬ ‫بن ی ' ب د ازاں سرک ری ملازمت اختی ر کر لی۔ لوگ دنی کی اشی س تھ‬‫رکھتے ہیں' انہوں نے کت بوں اور ک غذوں کو س م ن س ر و حی ت بن ی ۔‬‫سید غلا غنی کو' کت بوں ک غذوں سے کوئی دل چسپی نہ تھی۔ مرشدی‬ ‫قب ہ حضرت سید غلا حضور کت بوں کے ع ش تھے انہوں نے' ان‬‫بوسیدہ ک غذوں کو سینے سے لگ لی ۔ ‪ 1988‬میں' ان ک انتق ل ہوا' تو‬ ‫م ئی ص ح سردار بیگ نے' اپنے خ وند حضرت سید غلا حضور ک '‬ ‫یہ اث ثہ سینے سے لگ لی ۔ ‪ 1996‬میں' وہ بھی چل بسیں۔ ان ک بڑا‬ ‫بیٹ ' سید منظور حسین' جو ہمیشہ سے' عورتوں ک شوقین رہ تھ ۔‬ ‫خ ن دان کی عورت کو طلا دے کر' ایک نہیں' دو چ تی پھرتی‬ ‫عورتیں لے آی تھ ' مک ن اور س م ن پر ق بض ہو گی ۔ اس سے چھوٹ '‬ ‫سید محبو حسین اسی ک بگ ڑا ہوا تھ ' ردی سے دل چسپی نہ رکھت‬‫تھ مک ن اور س م ن کے لیے بھ گ دوڑا لیکن شیر کے منہ سے' ایک‬‫لقمہ بھی نہ نک ل سک ۔ پھر تھک ہ ر کر بیٹھ گی ۔ چوروں کو پڑے مور‬ ‫کے مصدا سید منظور حسین کے بڑے سے چھوٹے بیٹے' مط و‬ ‫حسین نے مک ن پر قبضہ کر لی ۔ ذاتی مک ن بھی زوج نی س زشوں کی‬ ‫بھینٹ چڑھ گی ۔ سید منظور حسین کو قض نے لے لی اور یہ ضر‬ ‫المثل' چوروں کو پڑے مور' موروں کو پڑیں قض ئیں' منزل مقصود کو‬ ‫پہنچ ۔ مک ن ا بھی مط و حسین کے قبضہ اور تصرف میں ہے۔‬ ‫حضرت سید غلا حضور' اپنے س سے چھوٹے بیٹے مقصود ص در‬ ‫الم روف مقصود حسنی کو' کچھ چیزیں مرتے وقت دے گیے تھے۔‬

‫کچھ قبضے کے غدر کے دوران' دستی ہو گیئں' کچھ کوڑا سمجھ کر‬ ‫جلا دی گیئں‪ .‬ص ف اور ج ندار کت بیں اور ک غذ ردی چڑھ گیئں۔ اس‬ ‫طرح' ب ب جی حضرت سید غلا حضور ک کلا اور ان کی آواز بھرے‬ ‫کیسٹ بھی ض ئع ہو گیے۔ حضرت سید غلا حضور کی ش عری پر‬ ‫مشتمل رجسٹر وغیرہ ب طور نش نی' ان کی بڑی بیٹی فض ل بیگ لے‬ ‫گئی۔ یہ چیزیں ان کے بیٹے ش قث رسول نے' اپنی دک ن میں است م ل‬‫کر لیں۔ وقتی طور پر ان کے نصی میں مٹھ ئی ہوئی اور پھر' سڑکوں‬ ‫پر گر' کر ہمیشہ کے لیے ن بود ہو گئیں‬ ‫میرے پ س ان ک اپن کلا رف بکھرے ک غذوں اور تین قصوں کی‬ ‫صورت میں موجود ہے۔ چوتھ قصہ دستی نہیں ہو رہ ۔ کوشش میں‬‫ہوں ضرور کہیں ن کہیں سے مل ج ئے گ ۔ قدی ک غذات ص ف ظ ہر ہے‬ ‫‪ 1911‬ی اس سے پہ ے کے ہیں۔ کچھ پر سن اور ت ریخ درج نہیں۔‬ ‫یہ ں تک کہ مصنف ک ن بھی درج نہیں۔ کچھ بہت پرانے ہیں اور‬ ‫بوسیدہ ہو چکے ہیں۔ یہ اردو پنج بی میں ہیں۔ ان میں سے ایک نہ‬‫اردو ہے اور نہ پنج بی ہے۔ اسے گلابی اردو ی گلابی پنج بی کہن زی دہ‬ ‫من س ہو گ ۔ ک غذ کی ح لت اچھی نہیں ت ہ نہیں بآس نی پڑھ ج سکت‬ ‫ہے۔ اس کی عمر سو س ل سے زی دہ ہے۔ مصنف ک کچھ پت نہیں۔ یہ‬ ‫حضرت سید ع ی احمد ک ہینڈ راٹنگ بھی نہیں ہے۔‬ ‫تحریر پر کوئی عنوان درج نہیں۔ مندرج ت کے حوالہ سے' اسے۔۔۔۔۔‬ ‫حضور کری ص ی الله ع یہ وس اور تخ ی ک ئن ت۔۔۔۔۔ عنوان دی ج‬ ‫سکت ہے۔ اس مختصر سی تحریر کے لیے' مصنف نے گی رہ م روف'‬ ‫مستند اور مت ع یہ کت مشکوتہ' قسطلانی' احمد' بزار' طبرانی'‬ ‫ح ک ' بیہقی' ح فظ ابن حجر' ابن حب ن رحمہ الرحم ن' فتوح ت مکیہ'‬ ‫کت التشری ت کی ور گردانی کی ہے' اس سے مصنف کی ع می‬

‫اہ یت ک ' ب خوبی اندازہ لگ ی ج سکت ہے۔‬ ‫مصنف نے' چند پنج بی کے ل ظ تحریر میں داخل کرکے' پنج بی میں‬ ‫لکھنے ک غ لب تجربہ کی ہے اور یہ تجربہ' ک می تجربہ نہیں ہے۔‬ ‫دونوں زب نوں ک نحوی سیٹ اپ الگ تر ہے' لہجہ اور اس و مخت ف‬‫ہیں۔ مصنف بھ ے پنج بی رہ ہو گ ' لیکن لکھن اور بولن قط ی الگ ہنر‬ ‫ہیں۔ تحریر بت تی ہے' کہ اس ک لکھنے والا' بنی دی طور پر اردو میں‬ ‫لکھنے والا ہے۔‬ ‫درج ذیل امور' تحریر میں نم ی ں ہیں‬ ‫س ری تحریر ایک ہی پیرے میں ہے۔ نئے پیرے کے لیے ل ظ اور ‪1-‬‬ ‫است م ل میں لای گی ہے۔‬ ‫رموز ک است م ل نہیں کی گی ۔ نئے پوائنٹ کے لیے اور' ج کہ ‪2-‬‬ ‫ب قی کے لیے' محض سکتہ ک است م ل کی گی ہے۔‬ ‫ل ظ ملا کر لکھے گیے ہیں۔ یہ ہی طور مست مل تھ ۔ ‪3-‬‬ ‫دو چشمی حے کے لیے' حے مقصورہ است م ل میں لائی گئی ہے۔ ‪4-‬‬‫جس ل ظ کے لیے' آج حے مقصورہ مست مل ہے' اس کے لیے' دو ‪5-‬‬ ‫چشمی حے است م ل کی گئی ہے۔‬ ‫نون غنہ کی جگہ' نون است م ل میں لائی گئی ہے۔ ‪6-‬‬ ‫تی ر کو طی ر لکھ ج ت تھ ' اس تحریر میں بھی طی ر ہی لکھ گی ‪7-‬‬ ‫ہے‬ ‫ے کی بج ئے ی است م ل کی گئی ہے۔ اس عہد میں یہ ہی عمومی ‪8-‬‬

‫چ ن تھ ۔‬ ‫ترمیمی متن‬ ‫اول م خ الله نوری۔‬ ‫مشکوتہ' قسطلانی‪ '.‬احمد' بزار' طبرانی' ح ک ' بیہقی' ح فظ ابن حجر'‬ ‫ابن حب ن رحمہ الرحم ن‬ ‫‪:‬ق ل رسول الله ص ی الله ع یہ وس‬ ‫انی عندالله مکتو خ ت النبیین وان آد لمنجدل فی طینتہ و س خبرک‬ ‫ب ول امری دعوتہ ابراھی وبش رتہ عیسی ورؤی امی التی راءات حین‬ ‫وض تنی وقدخرخرج لہ نوراف ء لہ منہ قصور الش‬‫اور حضرت مولان وسیددن محی الدین بن عربی اپنی کت فتوح ت مکیہ‬ ‫‪:‬کے ‪ 6‬ب کے خ قت کی پیدائش کے بی ن میں لکھتے ہیں‬ ‫ہین ف ک ن مبتدال ل ب ئزہ و اول ظ ھر فی وجود‬ ‫ی نی حضرت ص ی الله ع یہ وس تم جہ ن ک شروع اور وجود اغی‬ ‫پیدایش میں ظ ہر اول ہیں۔‬ ‫کت التشری ت میں حضرت ابوھریرہ رضی الله ت لی عنہ سے مروی‬ ‫ہے' جو سرور ک ئن ت ص ےالله ع یہ وس نے حضرت جبرائیل سے‬ ‫پوچھ ' عمر آپ کی کتنے برسوں کی ہے‬ ‫حضرت جبرائیل ع یہ السلا نے عرض کی ‪ :‬ی حبی الله ص ی الله ع یہ‬

‫وس مجھے برسوں ک ح ل کچھ م و نہیں اتن ح ل م و ہے‪ .‬جو‬ ‫چوتھی حج میں ایک ست رہ ستر ہزار برس سے ظ ہر ہوت ہے اور‬ ‫میں نے وہ ست رہ بہتر ہزار مرتبہ دیکھ ہے۔‬ ‫فق ل ص ی الله ع یہ وس ی جبرائیل وعزت ربی ان ذلک النج ۔‬ ‫اور آں حضرت ص ی الله ع یہ وس کی اولیت ی نی س پیدایش سے‬ ‫افضل ہوون اور اصل اصول س مخ وق ت ک قرار پ ون اور اولویت‬ ‫اعنی س سے بہتر ہون اور افضل ہون بہت اح دیث مب رکہ و آث ر‬ ‫شری ہ سے ث بت ہے اور ح صل ان س ک یہ ہی ہے جو الله تب رک و‬ ‫ت لی نے آسم ن ن۔ زمین ن اور عرش۔ کرسی۔ لوح۔ ق ۔ بہشت۔ دوزخ۔‬ ‫فرشتے۔ جن اور بشر ب کہ تم مخ وق ت کی پیدایش سے پہ ے کئی‬ ‫ہزار برس نور مظہر سرور آں حضرت ص ی الله ع یہ وس ک پیدا‬ ‫فرم ی اور جہ ن کے میدان میں الله جل ش نہ اس نور مب رک کی تربیت‬ ‫فرم دی۔‬‫کبھی اس کو سجود خشوع آمود سے م مور فرم تے اور کبھی تسبیح و‬ ‫تقدیس میں مشغول رکھتے۔ اور اس پ ک نور کی رہ یش کے واسطے‬ ‫بہت پردے بن ئے۔ ہر پردے میں بہت مدت تک خ ص تسبیح کے س تھ‬ ‫مشغول فرم ی ۔‬ ‫تم پردوں والی ج مدت گزر گئی ت اس نور مب رک نے ب ہر رون‬ ‫افزا ہو کے س نس لین شروع فرم ی ۔ ان متبرک س نسوں سے فرشتے'‬ ‫ارواح انبی واولی وصدیقین وس ئرمؤمنین کو پیدا فرم ی ۔ اور اس جوہر‬‫نور سے عرش' کرسی' لوح' ق ' بہشت' دوژخ اور اصول م دی آسم ن‬ ‫و زمین اور سورج' چند ست رے' دری ' پہ ڑ وغیرہ پیدا فرم ئے‪ .‬پھر‬‫زمین اور آسم ن کو پھیلا کے س ت س ت طبقے بن ئے اور ہر ایک طبقہ‬

‫میں اک اک پیدایش ک مق مقرر فرم ی ۔‬ ‫اور دوسری روایت میں اس طرح آی ہے' کہ ج اس نور مب رک‬ ‫الظہور نے س نس لین شروع کی ۔ ان س نسوں سے' پیغبران ع یہ‬‫الصحورت والا س مہ من خ ل البریہ اور اولی ' شہیدان' ع رف ن' ع لم ن'‬ ‫ع بدان' زاھدان۔ اور ع مومن ن کی ارواح پیدا ہوئے۔‬ ‫پھر اس نور ط ہر و طہور کو دس حصوں پر تقسی فرم ی ۔ اور دسویں‬ ‫حصہ سے' خدائے تب رک و ت لی نےاک جوہر بن ی ' طول اور عرض‬‫جس ک اعنی لمب ئی چوڑان' چ ر چ ر ہزار برس ک رستہ تھ ‪ .‬اس جوہر‬‫اع ے گوہر میں' رحمت کی اک نظر فرم ئی۔ بسب حی ' وہ جوہر مب رک‬ ‫ک نپ اور ادھ پ نی بن گی اور ادھ اگ ہو گی ۔ اس پ نی سے' دری پیدا‬ ‫ہوئے اور ان دری وں کی ٹھ ٹھیں شروع ہو گئیں اور ان کی حرکت اور‬ ‫ھ نے کے سب سے' ہوایں چ ن شروع ہو گئیں اور ان ہواو ں خ و‬ ‫اغی جگہیں مقرر ہوئیں اور زمین سے آسم ن کی طرف' ب رہ کوہ ن‬ ‫تک' ہوا ک مق ہے اور اس اوپر زمہریر' دری وغیرھم اور قری‬ ‫آسم ن کے' اگ ک کرہ موجود ہے اور پھر اگ کو پ نی پر' غ ل فرم ی‬ ‫اور پ نی نے اگ کی گرمی کے سب ' ج جوش کھ ی ' تو اسی ( سے(‬ ‫جھ گ پیدا ہو گئی اور اس جھ گ سے زمین بن ئی گئی' پھر اس جھ گ‬‫سے جو بخ رات پیدا ہوئے' ان سے اصل م دہ آسم ن ک بن اور موجوں‬ ‫کے سمٹ ج نے کے سب 'پہ ڑ پیدا ہوئے۔ زمین از ت لرزہ آمدہ۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫فرو کوفت بردانش میخ کوہ۔۔۔۔۔۔‬ ‫زمین پر پ نی کھڑا ہونے کے سب ' ہر وقت ہ تی تھی ‪ .‬الله تب رک‬ ‫وت لی نے اس کی بےقراری دور کرنے کے واسطے' ان ٹھ ٹھوں اور‬ ‫سمٹ و سے' پہ ڑ پیدا فرم کے زمین پر ق ئ فرم ئے‬

‫اور اک بج ی پہ ڑوں میں پہنچی' اسے م دن ی نی کھ ن پیدا ہوا اور‬‫ج لوہ پتھر سے ٹکرای ' اس سے چنگ ڑی پیدا ہو کے' اگ ابل اٹھی‬ ‫اور اس اگ سے' دوزخ ک م دہ طی رہوا۔‬ ‫ب د ازاں' زمین کو پھیلای ۔ والارض ب د ذلک دجہہ ت کہ حیوان ت'‬‫وحشی ج نور اور درندے اور چوپ ئے' اس میں مق کریں۔ پھر زمین‬ ‫کے س ت طبقے بن ئے اور ہر طبقے میں' الگ الگ مخ وق ت کے مق‬ ‫ٹھرائے اور اگ کے ش وں سے' جنوں کو بن ی اور زمین پر ان کو‬ ‫مس ط فرم ی ۔‬‫بہشت کو' ست ویں آسم ن پر ب ندی بخشی اور دوزخ ست ویں زمین کے‬ ‫ت ے' ق ئ فرم ئی اور جن کی روشنی کے واسطے سورج' چ ند اور‬‫ست رے چمک ئے۔ فوائد نجو ۔ نور اور ظ مت کے م دوں سے' دن اور‬ ‫رات' پھر تم پیدایش اور مخ وق ت کو اپنے حبی قری پر قرب ن‬ ‫فرم ی ۔‬ ‫وافدیت لکی ع یک ی محمد ص ے الله ع یہ وس‬ ‫ترمیمی ال ظ اور حروف‬ ‫س نس' ک نپ ' س تھ‬ ‫ج ' ت ' کبھی‬ ‫میں' پر' اور‬ ‫ان' جس' وہ‬ ‫ک ' کے' کی' کو‬

‫تھ ' گئیں‬ ‫تے' تی‬ ‫ئیں' وں' ی ' یں‬ ‫ا' تھ' ں' و' ہ' ے‬ ‫تحریر ک اصل متن‬ ‫اول م خ الله نوری۔ مشکوتہ‪ .‬قسطلانی‪ .‬احمد‪ .‬بزار۔ طبرانی۔ ح ک ۔‬ ‫بیہقی۔ ح فظ ابن حجر۔ ابن حب ن رحمہ الرحم ن ق ل رسول الله ص ی الله‬ ‫ع یہ وس انی عندالله مکتو خ ت النبیین وان آد لمنجدل فی طینتہ و‬ ‫س خبرک ب ول امری دعوتہ ابراھی وبش رتہ عیسی ورؤی امی التی‬ ‫راءات حین وض تنی وقدخرخرج لہ نوراف ء لہ منہ قصور الش اور‬‫حضرت مولان وسیددن محی الدین بن عربی اپنی کت فتوح ت مکیہ دی‬ ‫‪ 6‬ب وچ خ قت دی پیدائش دی بی ن وچ لکہدے ہین ف ک ن مبتدال ل‬‫ب ئزہ و اول ظ ھر فی وجود ی نی حضرت ص ی الله ع یہ وس تم جہ ن‬‫دا شروع اور وجود اغی پیدایش وچ ظ ہر اول ہیں۔ کت التشری ت وچ‬‫حضرت ابوھریرہ رضی الله ت لی عنہ سے مروی ہے جو سرور ک ئن ت‬ ‫ص ےالله ع یہ وس نے حضرت جبرائیل سے پوچھی عمر تہ ڈی کتنے‬ ‫برس ن دی ہے حضرت جبرائیل ع یہ السلا نے عرض کیت ی حبی الله‬ ‫ص ی الله ع یہ وس مینوں برس ندا ح ل کچھ م و نہیں اتن ح ل م و‬ ‫ہے جو چوتہی حج وچ ایک ست رہ ستر ہزار برس توں پچھے ظ ہر‬‫ہوندا ہے اور مینی اوہ ست رہ بہتر ہزار مرتبہ دیکہی ہے۔ فق ل ص ی الله‬ ‫ع یہ وس ی جبرائیل وعزت ربی ان ذلک النج ۔۔۔۔۔۔۔۔اور آن حضرت‬

‫ص ی الله ع یہ وس دی اولیت ی نی س پیدایش سے افضل ہوون اور‬‫اصل اصول س مخ وق ت دا قرار پ ون اتے اولویت اعنی س سے بہتر‬ ‫ہون اور افضل ہون بہت اح دیث مب رکہ و آث ر شری ہ سے ث بت ہےاور‬‫ح صل انہ ں سبن ندا ایہو ہے جو الله تب رک و ت لی نے آسم ن ن۔ زمین ن‬ ‫اور عرش۔ کرسی۔ لوح۔ ق ۔ بہشت۔ دوزخ۔ فرشتے۔ جن اور بشر ب کہ‬‫تم مخ وق ت دی پیدایش سے پہ ے کئی ہزار برس نور مظہر سرور آن‬ ‫حضرت ص ی الله ع یہ وس دا پیدا فرم ی اور جہ ن دے میدان وچ الله‬‫جل ش نہ اس نور مب رک دی تربیت فرم ندی۔ کدے اس نو سجود خشوع‬‫آمود سے م مور فرم ندی اور کدے تسبیح و تقدیس وچ مشغول رکھدی۔‬ ‫اور اس پ ک نور دی رہ یش دے واسطے بہت پردے بن ئے۔ ہر پردے‬‫وچ بہت مدت تک خ ص تسبیح دے ن ل مشغول فرم ی ۔۔۔تم پردی ن والی‬ ‫جد مدت گزر گئی تد اس نور مب رک نے ب ہر رون افزا ہو کے س نہہ‬ ‫لین شروع فرم ی ۔ انہ ں متبرک س نہ ن وچوں فرشتے۔ ارواح انبی‬ ‫واولی ۔ وصدیقین وس ئرمؤمنین نو پیدا فرم ی ۔ اور اس جوہر نور سے‬ ‫عرش۔ کرسی۔ لوح۔ ق ۔ بہشت۔ دوژخ اور اصول م دی آسم ن وزمین‬ ‫اور سورج۔ چند ست رے۔ دری ۔ پہ ڑ وغیرہ پیدا فرم ئے پھر زمین اور‬‫آسم ن نو پھیلا کے ست ست طبقے بن ئے اور ہر ایک طبقہ وچ اک اک‬ ‫پیدایش دا مق مقرر فرم ی ۔۔۔۔ اور دوسری روایت وچ اس طرح آی ہے‬ ‫کہ جد اس نور مب رک الظہور نے س نس لین شروع لین شروع کیت ۔‬ ‫انہ ن س نہ ن وچوں پیغبران ع یہ الصحورت والا س مہ من خ ل البریہ‬ ‫اور اولی ۔ شہیدان ع رف ن۔ ع لم ن۔ ع بدان۔ زاھدان۔ اور ع مومن ن دی‬ ‫ارواح پیدا ہوئے۔ پھر اس نور ط ہر و طہور نو دس حصی ں پر تقسی‬ ‫فرم ی ۔ اور دسوین حصہ سے خدائے تب رک و ت لی نےاک جوہر بن‬ ‫طول اور عرض جسدا اعنی لمب ئی چوڑان چ ر چ ر ہزار برس دا رستہ‬‫سی اس جوھر اع ے گوھر وچ رحمت دی اک نظر فرم ئی۔ بسب حی اہ‬

‫جوھر مب رک کمبی اور ادھ پ نی بن گی اور ادھ اگ ہو گی ۔ اس پ نی‬ ‫سے دری پیدا ہوئے اور انہ ن دری وان دی ن ٹھ ٹھ ن شروع ہوی ں اور‬‫انہ ں دی حرکت اور ھ نے دے سب سے ہواوان چ نی شروع ہوی ن اور‬ ‫انہ ں ہواون خ و اغی جگہ ن مقرر ہوی ں اور زمین سے آسم ن دی‬ ‫طرف ب ران کوہ ن تک ہوا دا مق ہے اور اس اوپر زمہریر۔ دری‬ ‫وغیرھم اور قری آسم ن دے اگ دا کرہ موجود ہے اورپھر اگ نو‬ ‫پ نی پر غ ل فرم ی اور پ نی نے اگ دی گرمی دے سب جد جوش‬‫کھ دا تو اسی ( سے( جھگ پیدا ہو گئی اور اس جھگ سے زمین بن ئی‬ ‫گئی پھر اس جھگ سے جو بخ رات پیدا ہوئے انہ ن سے اصل م دہ‬‫آسم ن دا بنی اور موج ن دے سمٹ ج ندے سببوں پہ ڑ پیدا ہوئے۔ زمین‬‫از ت لرزہ آمدہ۔۔۔۔۔۔۔۔ فرو کوفت بردانش میخ کوہ۔۔۔۔۔۔ زمین پرپ نی کھڑا‬ ‫ہوندے سب ہر وقت ھ دی سی الله تب رک وت لی نے اسدی بےقراری‬ ‫دور کرن واسطے انہ ن ٹھ ٹھ ندی اور سمٹ و سے پہ ڑ پیدافرم کے‬ ‫زمین پر ق ئ فرم ئے اور اک بج ی پہ ڑان وچ پہنچی اسے م دن ی نی‬ ‫کھ ن پیدا ہوی ن اور جد لوہ پتھر سے ٹکرای اس سے چنگ ڑی پیدا ہو‬‫کے اگ ابل اٹھی اور اس اگ سے دوزخ ک م دہ طی رہوا۔ ب د ازاں زمین‬ ‫نو پھیلای ۔ والارض ب د ذلک دجہہ ت کہ حیوان ت۔ وحشی ج نور اور‬ ‫درندے اتے چوپ ئے اس وچ مق کرن۔ پھر زمین دے ست طبقے‬ ‫بن ئےاتے ہرطبقے وچ الگ الگ مخ وق ت مق ٹھرائےاور اگ دے‬ ‫ش ی ن سے جن ن نو بن ی اور زمین پر اہن ن نو مس ط فرم ی ۔ بہشت‬ ‫ستوین آسم ن تے ب ندی بخشی اور دوزخ ستوین زمین دے ت ے ق ئ‬ ‫فرم ئی اور جہ ن دی روشنی دے واسطے سورج۔ چند اور ست رے‬ ‫چمک ئے۔ فوائد نجو ۔ نور اور ظ مت دے م دی ں سے دن اور رات پھر‬‫تم پیدایش اتے مخ وق ت نو اپنے حبی قری پر قرب ن فرم ی ۔ وافدیت‬ ‫لکی ع یک ی محمد ص ے الله ع یہ وس‬

‫تحریریں بھی پیش‬ ‫آخری ب ت‬ ‫اگر الله نے توفی عط فرم ئی' تو دیگر قدی و ن ی‬ ‫کروں گ ۔ یہ تحریریں بلاشبہ اردو ک سرم یہ ہیں۔‬ ‫قصہءآد ‘ اردو کے داست نی اد میں ایک اہ اض فہ‬ ‫میرے والد محتر قب ہ سید غلا حضور الم روف ب ب شکرالله‘ کت‬‫دوستی میں اپنی مث ل آپ تھے۔ ان کے ذخیرہء کت میں‘ جہ ں مطبوعہ‬ ‫کت تھیں‘ وہ ں ان کے بڑوں کے ہ تھ سے لکھے‘ ق می نسخے بھی‬ ‫تھے۔ وہ یہ س ‘ ج ن سے زی دہ عزیز رکھتے تھے۔ ان کے انتق ل‬ ‫پرملال کے ب د‘ یہ س ح لات زم نہ ک شک ر ہو گی ۔ میرے ہ تھ بس‬‫دوایک ڈبے لگے۔ ا عمر کے آخری ای میں‘ مجھے اس سرم ئے کو‬ ‫مح وظ کرنے ک خی ل آی ۔ کیوں آی ‘ یہ الگ سے کہ نی ہے۔ اگر زندگی‬ ‫نے مہ ت دی‘ تو یہ س انٹرنیٹ پر رکھنے کی س ی کروں گ ورنہ‬ ‫ردی چڑھ ج ئے گ ی ڈاکٹر مس ک ل جیسے شخص کے ہ تھ لگ ج ئے‬ ‫گ ‘ جو میرے ہی گھر والوں سے‘ رق بٹور‘ کر اپنے ن سے چھ پ‬ ‫لے گ ۔ اردو‘ پنج بی ق می نسخےاور میرا لکھ اس کے تصرف میں آ‬ ‫سکے گ ‘ لیکن سیکزوں س ل پرانے پرانے ف رسی نسخوں ک کی بنے‬ ‫گ ۔ خیر جو ہو گ ‘ بہتر ہی ہو گ ۔ زندہ رہ تو ضرور کچھ نہ کچھ کرنے‬ ‫کی کوشش کروں گ ۔ مجھے میری جہ لت نے ہیشہ خوار کی ہے۔ اہل‬

‫ق کو‘ جہ لت کے سب ‘ میری بےپسی سے سب لین چ ہیے۔ انہیں‬ ‫ح ل میں موجود کو‘ اسی طرح کسی من ی ی ذات سے جڑی غرض کو‬‫ب لائے ط رکھ کر‘ مستقبل کو منتقل کر دین چ ہیے۔ دیر ب د سہی میں‬ ‫نے آغ ز کر تو دی ہے۔‬ ‫اردو کے داست نی اد میں‘ فورٹ ولی ک لج کی داست نیں‘ زی دہ تر‬ ‫ریک رڈ میں آئی ہیں۔ بیرون میں رج ع ی بیگ سرور کی داست ن کو‬ ‫شم ر میں رکھ گی ہے۔ ب ب ئے اردو نے ملا وجہی کی نثری داست ن‘‬ ‫س رس کو داست نی اد ک حصہ بن ی ہے۔ یہ اردو میں ہے ی نہیں‘‬ ‫قط ی الگ سے بحث ہے۔ سرک ری ک رخ نوں سے ہٹ کر بھی ک ہوت‬ ‫رہ ہے۔ محق حضرات کی نظر‘ اس ج ن بہت ہی ک گئی ہے۔ علامہ‬ ‫اقب ل کو ب طور ش عر س ج نتے ہیں‘ لیکن علامہ مشرقی بھی ش عر‬‫تھے‘ کوئی نہیں ج نت ۔ یہ ہی صورت ف رسی کے فردوسی کی ہے۔ غیر‬ ‫سرک ری شخص‘ خواہ اس کی ع می وادبی حیثیت کچھ بھی رہی ہو‘‬ ‫ریک رڈ میں نہیں آ سک ۔‬ ‫ک غذ پر لکھ م مولی پرزہ بھی‘ اپنی حیثیت میں بےک ر محض نہیں‬‫ہوت ۔ زب ن کی ورائٹی فراہ کرنے کے س تھ س تھ اپنے بدن پر م وم ت‬ ‫سج ئے اور بچھ ئے ہوت ہے۔ اب حضور کے کت بی ورثے سے‘ ایک‬ ‫اٹھ ئیس ص ح ت ک رس لہ دستی ہوا ہے۔ اس کے پہ ے دس ص حے‬ ‫پھٹے ہوئے ہیں۔ ص حہ گی رہ سے‘ تخ ی آد ک قصہ شروع ہوت ہے‬‫اور یہ ص حہ ست ئیس پر خت ہوت ہے۔ ص حہ پر کت بوں کی فہرست‬ ‫اور آخر میں ن شر ک ات پت درج ہے۔ اسی لیے میں اسے‘ قصہ آد ک‬‫ن دینے کی جس رت کر رہ ہوں۔ یہ دراصل ف رسی سے اردو ترجمہ کی‬‫ہوا ہے۔ اس کی اصل خوبی یہ ہے کہ یہ دو ک لمی ہے۔ پہ ے ک ل میں‘‬ ‫اصل متن درج ہے‘ ج کہ دوسرے ک ل میں اردو ترجمہ پیش کی گی‬

‫ہے۔ ص حہ ست ئیس پر جہ ں قصہ تم ہوت ہے‘ وہ ں ن شر نے اپنی‬ ‫طرف سے فقط چ ر سطور میں کچھ لکھ ہے اور اس کے ب د اپن‬ ‫پنج بی میں‘ آٹھ اش ر پر مشتمل حمدیہ کلا درج کی ہے۔‬ ‫ن شر کی چ ر سطور ملاحظہ فرم ئیں‪:‬‬ ‫حمد وشکر کے ب د واضح ہو کہ یہ کت ب د الجہ ن پورانی ق می‬‫کوشش ہےاسکو تلاش کی۔ اور اسک ترجمہ کرا کے۔ آدھے ک ل میں‬ ‫ف رسی اور آدھے ک ل میں اردو بڑی کوشش کے س تھ چھپ ئی۔ الله‬‫ص ح اس ع جز کی کوشش کو قبول فرم ئے۔ اسک کوشش کرنیوالا‬ ‫فقیر فضل ح ابن ح جی محمد علاؤالدین‬‫ص حہ سے م و ہوت ہے یہ ت جرکت ہیں اور ان ک کت خ نہ پتو‬ ‫منڈی نوآب د ض ع لاہور تحصیل چونی ں میں تھ ۔ گوی‬ ‫اس کت ک ن ب د الجہ ن تھ ۔‬ ‫ق می نسخہ تھ جو پران تھ ۔‬ ‫دستی نہ تھ ۔‬‫فقیر فضل ح کے ع میں یہ کت تھی اور وہ اس سے دل چسپی‬ ‫رکھتے تھے اسی لیے اس ک کھوج لگ ی اور ش ئع کی۔‬‫کے مط ب یہ بہت‬ ‫اس جگہ ک موجودہ ن پتوکی ہے۔ گزٹ‬‫بڑی ک ٹن کی منڈی تھی اور م روف تھی‘ نوآب د نہ تھی۔ گوی کت کی‬‫سے پہ ے کی ٹھہرتی ہے۔ اس‬ ‫طب عت نوآب د کے حوالہ سے‘‬‫حس سے‘ اصل ف رسی تخ ی سو پچ س س ل اس سے پیچھے ج تی‬

‫ہے۔ ف رسی اس و تک حیرت انگیز طور پر س دہ اور ع فہ ہے۔‬ ‫‪:‬مثلا یہ جم ے ب طور نمونہ ملاظہ ہوں‬ ‫م ر سی ہ دہن کش دہ اب یس جست زدہ در دہن او ج کرد۔ بمجرد رفتن‬ ‫ل در دہن اب یس کرد۔ کہ ازاں زہر پیدا شد چوں ط ؤس گ ت خو‬ ‫کردی۔ ازیں سخن پ ئے او سی ہ شدند۔‬ ‫مترج کے مت آخر میں م وم ت موجود ہیں‪:‬‬ ‫محمد حسن۔‬ ‫س کن نشی لبیہ۔ ض ع مظ ر گڑہ۔‬ ‫ح ل مدرس‬ ‫مترج نے‘ ک ی طور پر ل ظی اور ب مح ورہ ترجمہ نہیں کی ہے‘ ت ہ‬ ‫ترجمہ بے لذت اور بے ذائقہ بھی نہیں ہے۔ مترج نے‘ اردو ف رسی‬ ‫اش ر‘ حک ی ت اور موقع کے مط ب احک م ت ک اض فہ کی ہے۔‬ ‫ترجمے میں ایک دو جگہ پر‘ عج ت ک گم ن گزرت ہے۔ وق ے کے‬ ‫علاوہ‘ کسی علامت ک است م ل نہیں ہوا ہے۔ علامتیں ان کے ہ ں‬ ‫مستمل نہیں ہوں گی ی اصل کی ییروی میں‘ صرف سکتے سے ک لی‬ ‫گی ہے۔‬ ‫اس قصے کے ب ض مندرج ت سے کوئی مت ہو ی ن ہو‘ اس میں‬‫داست نی لوازم ت بہرطور موجود ہیں۔ تم کردار‘ اپنے ہونے اور اپنے‬ ‫کیے ک احس س دلاتے ہیں۔ کہ نی میں دل چسپی ک عنصر موجود ہے۔‬ ‫رائٹر موقع م تے ہی‘ موقع کے مط ب اخلاقی پیغ بھی چھوڑت ہے۔‬ ‫س سے بڑی ب ت یہ ہے کہ یہ ب ق عدہ ایک پلاٹ پر استوار ہےاور‬

‫اس میں ایک ب ربط کہ نی موجود ہے۔ اسے اردو کے داست نی اد میں‘‬ ‫ایک اہ اض فہ قرار دین غ ط نہ ہو گ ۔‬ ‫اس قصے کے مط ل ہ سے‘ ق بل غور اور الگ سے م وم ت بھی‬ ‫میسرآتی ہیں۔ م روف یہ ہی چلا آت ہے‘ کہ دانہءگند پہ ے حضرت آد‬ ‫ع یہ السلا نے کھ ی ‘ ج کہ اس قصہ سے م و ہوت ہے‘ کہ‬ ‫دانہءگند پہ ے ام ں حوا نے کھ ی ۔ اسی طرح یہ بھی پت چ ت ہے‘ کہ‬ ‫حضرت آد ع یہ السلا کی پ نچ سو ج ت ی نی ہزار اولادیں تھیں۔ یہ‬‫بھی م و ہوت ہے‘ کہ بت پرستی ک آغ ز ق بیل سے ہوا۔ مزید چند ایک‬ ‫مث لیں ملاحظہ ہوں۔‬ ‫ج فرشتوں نے سر اٹھ ی ۔ تو شیط ن کے گ ے میں ستر من ل نت‬ ‫ک طو پڑ گی ۔‬ ‫جہٹ فرشتوں نے دوسرا سجدہ کی ۔‬ ‫پہلا ک مہ الله واحد لاشریک ہے آد ص ی الله ک ہے۔ دوسرا ک مہ الله‬‫ت لے واحد اسک کوئی شریک نہیں محمد بندہ الله ک ہے پیغمبر ہے جن‬ ‫ک۔‬ ‫آد اور حوا کو آسم ن پر ب عدن بہشت میں لاؤ۔‬ ‫اسوقت بہشت سے ب ہر ج ن بغیر گند کہ نے کے مح ل تھ ۔ حوا نے کہ‬ ‫لی ۔ مگر ادھ دانہ نہ کہ ی تھ ۔‬ ‫آد نے بھی دانہ ب قیم ندہ نصف کہ لی بوجہ۔۔۔۔ تو اسکو پ خ نہ کی‬ ‫ح جت پڑ گئی۔‬ ‫آخر ب د ستر برس کے حوا اور آد کی ملاق ت ہوئی۔‬

‫ک بیل کو چونکہ محبت تہی لاش کو پھینکن ن گوار سمجہکر اپنی پشت‬ ‫پر اٹھ لی ۔ چن نچہ چھ م ہ ک عرصہ گذر گی ۔‬‫جبرائل بحک ر ج یل انکو بہشت میں لیگی ۔ تین ہزار برس عدن میں‬ ‫آد ع یہ السلا رہے‬ ‫کہتے ہیں کہ حضرت آد فرزند پ نچسو ج ت تھے۔‬ ‫عورتیں دین اورعقل میں دسترس نہیں کر سکتیں۔‬‫اور کہ کہ ہر صبح نہ کر ط کھ ن اور اس بت کو سجدہ کرتے رہن ۔‬ ‫ل ظوں کی املا مخت ف تھی۔ مثلا‬ ‫خود میں ان ک سر طی ر کروں گ ۔‬ ‫نوں غنہ ک حشوی است م ل موجود نہ تھ ۔ مثلا‬ ‫دونو کوے ق بیل کے روبرو لڑتے ہوئے‬ ‫م ب پ بیٹ ایکدوسرے کو دور کر دے گ ۔‬ ‫نون غنہ کی جگہ‘ لون ک است م ل بھی کی ج ت تھ ۔ مثلا‬ ‫میں اس زم نہ عیش و عشرت کر لون۔‬ ‫ل ظوں کو ملا کر است م ل کرن عمومی اور مست مل رویہ تھ ۔ مثلا‬

‫نیچے سے تمکو دکھ ئی دیگ‬ ‫سوچکر کہنے لگ ۔‬ ‫اس گھر رحمت نہیں اتریگی۔‬ ‫گند کہ نیکی وجہ سے‬ ‫اپن ہی ہر ایک بوجھ اوٹھ ئیگ ۔‬ ‫ایکدف ہ بہشت میں ج نے دو‬ ‫ق بیل نے دیکہکر ویس کی ۔‬‫ب ض ل ظوں ک است م ل اور ت ہی ‘ آج سے الگ تر ہے۔ مٹلا‬ ‫آد ک برح ل رہ ۔‬ ‫قبر کے کھودنے کی تجویز ک بیل کو م و نہ تہی۔‬ ‫شیط ن پروردگ ر جل عزاسمد کے مخ لف اصلاح کرنے لگ ۔‬‫فرشتوں نے خدائے عزوجل کے حک سے آد کے قد کو بن ی‬ ‫زمین پر ڈالدے ت کہ میرے قد ک م ئنہ کریں۔‬ ‫انہوں نے مٹی بودار د کی‬ ‫تجہے موت کیچ شنی دونگ ۔‬ ‫اسواسطے کہ میں نہ ئت رض مند ہوں آد سے۔‬ ‫دونوں ک مہ ک ح ظ کی کرو‬

‫میوہ وغیرہ ک ن شتہ کرو‬ ‫شیط ن نےس نپ کے ہ ں کہ تھ‬ ‫بہشت کے ب ہر آد کی جستجو کریں۔‬ ‫دین اورعقل میں دسترس نہیں کر سکتیں‬‫قدی اور جدید اردو میں‘ مونث اور مذکر ک است م ل مخت ف ہے‘ یہ‬ ‫است م ل اپنی اصل میں درست ہے‘ لیکن آج رائج نہیں۔ مثلا‬ ‫تجہکو خوف نہیں آئی تو م ون ہوا ہے۔‬ ‫بہشت کے درب ن کے پ س ام نت ج رکھ ۔‬ ‫ج حوروں نے آواز سن‬ ‫مح وروں ک است م ل اور م نوی ب د بھی موجود ہے۔‬ ‫س کو ہ تھ افسوس م ن پڑے گ ۔‬ ‫اسنے کوے کو وہیں گ ڈ دی ۔‬ ‫ایک سنگ راست کرکے انکو دیدی‬ ‫حیض کی بیم ری ع رض ہو گئی۔‬ ‫ہر صبح نہ کر ط کھ ن‬ ‫آد کو بہی جستجو کی تو نہ پ ی ۔‬

‫اپنی جگہ کرتے ہی س نپ کے منہ میں ل ڈالدی۔‬ ‫ت زمین پر ج ٹھہرن‬ ‫یہ عمل درآمد کرکے آسم ن ج ن کی ۔‬ ‫بولن بھی ص ی کو پہونچ ت ہے‬ ‫گردن موڑن موج غض ہے۔‬ ‫خوا نہیں کرت تھ‬ ‫پ خ نہ کی ح جت پڑ گئی۔‬ ‫تسبیحیں کہتے تھے۔‬ ‫حور سے پرہیز کر گی ہے‬ ‫پرہیز کر گی کو ت کی استواری کے لیے لی گی ۔‬ ‫س بقوں اور لاحقوں ک است م ل آج سے قط ی مخت ف ہے۔ مثلا‬ ‫جبرائیل نے غصہ ن ک ہو کر‬‫بی رم نی کے بہشت سے بہت اہ نت کے س تھ نک لنے والے ہیں۔‬ ‫ک بیل۔ تو بی رم ن ہو گی ہے‬ ‫ضم ئر میں واؤ کی بڑھوتی کر دی ج تی تھی۔ مثلا‬ ‫متکبر اونکو پست سمجھے۔‬

‫اونہوں نے کہ‬ ‫اوس نے کہ مجہکو اتنی ط قت ہے۔‬ ‫اون کی ن ف پر اپنے منہ سے ل نک لکر لگ لی‬ ‫مص در میں بھی‘ واؤ کی بڑھوتی موجود تھی اور یہ عمومی اور‬ ‫مست مل چ ن تھ ۔ مثلا‬ ‫جسوقت نیند میں ہووے‬ ‫خط پ وے جو وہ ن ری ہے‬ ‫آد بہشت میں ج ویگ ۔‬‫پرانی اردو میں‘ بھ ری آوازوں سے زی دہ‘ ہ کی آوازوں ک است م ل کی‬ ‫‪:‬ج ت تھ ۔ اس کت سے‘ اس ذیل میں‘ چند ایک مث لیں ملاحظہ ہوں‬ ‫ت مس م ن کبہی نہیں ہو گے بھ‬ ‫تہوڑے دنوں کے ب د تھ‬ ‫ایک روز حوا رضی الله عنہ بیٹہے تھے ٹھ‬ ‫مجہے اس بت سے بدبو آتی ہے۔ جھ‬ ‫جہٹ فرشتوں نے دوسرا سجدہ کی ۔ جھ‬ ‫اونہوں نے پوچہ تمہ را کی ن ہے۔ چھ‬ ‫ورنہ پچہت ن پڑیگ ۔ چھ‬

‫یہ نہ ئت اندہیر کوٹھ ہے۔ دھ‬ ‫لا حول پڑہت رہے ڑھ‬ ‫پھر بہشت کو دیکہوں گ ۔ کھ‬ ‫ج اندر گہس گی گھ‬ ‫بھ ری آوازیں بھی است م ل میں تھیں۔ مثلا‬ ‫افسوس میں کوے سے بھی کمتر ہوں۔ بھ‬ ‫پھر ج ن ک کو روح پہونچی پھ‬ ‫پہ ے ن ر ہی سے تھ تھ‬ ‫فرشتوں نے سر اٹھ ی ٹھ‬ ‫اونکو پست سمجھے۔ جھ‬ ‫پوچھنے لگے وہ کہ ں ہے۔ چھ‬ ‫مثلا ہ تھ دھون ۔ منہ دھون ۔ دھ‬ ‫درب ن کے پ س ام نت ج رکھ ۔ کھ‬ ‫سو جس گھر کت ہو گ گھ‬‫فصل در بی ن مہتر آد ع یہ السلا اور ہ بیل اور ک بیل کے بی نمیں‬

‫فرم ت ہے پروردگ ر۔ اے آد خبر دی اونکو شیط ن کے ن سے ج‬ ‫آد نے ن بتلائے تو حک سجدہ ک ہوا۔ ج چوتھی قرن کی آمد ہوئی‬ ‫تو خداوند ت لی نے حک دی جبرائیل میک ئیل اسرافیل عزرائیل عزازیل‬‫کو کہ ت زمین پر ج ٹھہرن ۔ فرشتوں نے حس فرم ں ر الج یل زمین‬ ‫پر آتے ہی حک سن ایک مرد دری کے نیچے سے تمکو دکھ ئی دیگ‬ ‫وہ نورمحمد ع یہ السلا ہو گ ۔ اور گل آد ہو گی اوسکو لیکر آد ک‬ ‫اعص راست کرن ۔ اگر تمکو کچھ راست کرنیکی تجویرید ہو۔ تو ست رہ‬‫جو آد کے قد مواف ہیں انکے برابر بن ن ۔ اور خود میں ان ک سر طی ر‬ ‫کروں گ ۔ فرشتوں نےیہ عمل درآمد کرکے آسم ن ج ن کی ۔ ب د اسکے‬ ‫عزازیل کے دلمیں آی ۔ کہ کل کو یہ گل آد بہشت میں ج ویگ ۔ ہ کی‬ ‫کرینگے۔ اس ح لت اسکے غ پیدا ہوا۔ چ ہ کہ کسی اٹکل سے اسکو‬‫لائ بہشت کے نہونے دیں۔ سوچنے کی ب ت ہے۔ تکبر یہ ہے کہ جسک‬ ‫مرتبہ خدا عزجل نے ع و کو پہونچ ی ہو۔ متکبر اونکو پست سمجھے۔‬ ‫فی الحقیقت وہ ح کے مخ لف کرنیکی وجہ سے متکبر خدایت لی ک‬ ‫مق بل بن گی ہے۔ ۔۔۔۔چ ہیے کہ حک خدا کے سرکشی سے ب ز رہیں۔‬‫ورنہ تکبر یہی ہے ب ینہ اس غدر سے خط پ وے جو وہ ن ری ہے ۔۔۔۔۔‬ ‫وہ طو عزازیل اسکے گ ے ہو۔ خبیث اور م ون کہینگے۔ ص‪-‬‬ ‫یہی سوچ کر کہ بہشت کے لائ نہو۔ گھوڑوں کی طرف گی ۔ انکے ہ ں‬‫کہنے لگ کہ ت خوشی کر رہے ہو۔ اور تمہ رے واسطےآد پیدا ہو چک‬ ‫ہے۔ کل تمہ ری پیٹھ پر سواری کریگ ۔ تمکو تکیف پہونچ دے گ ۔‬ ‫اونہوں نے جوا دی کہ ہم رے م لک کی خوشنودی اسی میں ہے تو‬ ‫ہ نہ یت رض مندی سے انک محکو ہون پسند کرینگے۔ شیط ن نے‬ ‫سوچ میرا داؤ یہ تو نہ لگ ۔ کوئی اور تجویز کرنی چ ہیے۔ سوچکر‬

‫کہنے لگ ۔ عج ہے کہ ت اورآد ایک خ ل کی پیدائش ہیں۔ وہ آد ت‬ ‫پر سواری کر۔ لای قل گھوڑوں نے داؤ کھ لی ۔ پوچھنے لگے وہ کہ ں‬‫ہے۔ اب یس م ون نے کہ کہ جو ن ف زمین ک ہے وہ ں ہے۔ جھٹ دوڑ‬‫کر پ ش پ ش کر دی ۔ پھر ب رہ س ل کے عرصےکے ب د س فرشتوں کو‬‫حک ہوا۔ کہ دوسری دف ہ آد ک بت بن ؤ۔ شیط ن پروردگ ر جل عز اسمد‬ ‫کے مخ لف اصلاح کرنے لگ ۔ اور کہ اے میرے ر اگر حک ہو تو‬ ‫نور ی ن ر ی ہوا ی پ نی سےآد ک بت بن ئیں۔ اسواسطے کہ زمین مین‬ ‫بےزب ن ج نور ہیں۔ انکو توڑ ڈالتے ہیں۔ خط عزوجل ہوا۔ الا یہ میں‬‫خو ج نت ہوں تمکو خبر بہی نہیں۔ آد ک قد پہ ی طرح بن ؤ۔ دیکہو یہ‬ ‫اصلاح مخ لف ر ت لے اب یس کر رہ ہے۔ یہی مرحب ہو ہے۔ ص۔‬‫مخ لف حک ر الج یل اپنی رائے اور اصلاح کو دخل دین موج ہلاکت‬ ‫ہے۔ اس سے پرہیز کرن ۔ شیخ س دی ع یہ الرحمتہ فرم تے ہیں۔ بیت‬ ‫اگر ش ہ روز را گوند ش است ایں ۔۔۔۔۔۔۔۔ بب ئید گ ت اینک مہ پرویں‬ ‫مخ لف صلاح کو کہ ں۔ بولن بھی ص ی کو پہونچ ت ہے۔ فرشتوں نے‬ ‫خدائے عزوجل کے حک سے آد کے قد کو بن ی ۔ لکن بن کر واپس‬‫آسم ن پر اپنے اپنے مک ن پر چ ے گئے۔ اب یس اکیلا آد کے پ س رہ ۔‬‫ج آد اکیلا ہوا تو اون کی ن ف پر اپنے منہ سے ل نک لکر لگ لی‬ ‫پھر آسم ن پر چلا گی ۔ پھر دس برس کے ب د الله ت لی ک حک ہواکہ‬ ‫اے جبرائیل میک ئیل س ج کر ع یتیں جو مق چوتھے آسم ن پر ہے‬ ‫وہ ں سے روح آد ع یہ السلا ک لیکر انکے بدن میں ڈالو۔‬ ‫ج فرشتے پروردگ ر کے حک سے روح پ ک کو پردہ میں لیکر بت‬‫کے قری لائے۔ تو روح القدس کو جسوقت ڈالنے لگے اس نے کہ کہ‬

‫مجہے اس بت سے بدبو آتی ہے۔ خدا کی جن میں آد نے عرض کی‬ ‫اے ب ر خدای مجہے بدبو آتی ہے۔ اس سے مجہے پن ہ میں رکھ۔ خدا‬ ‫مہرب ن نے حک دی کہ اے جبرائیل جو جگہ بدبودر ہے اونکو دور کر‬ ‫دے۔ ج انہوں نے مٹی بودار د کی تو اس مٹی ل شیط ن سے کت‬‫پیدا ہوا۔ وہ کت آواز کرت بت کے قری بیٹھ گی ۔ وہ فرشتے روح مقدس‬‫کو س تھ لیکر آسم ن پر چ ے گئے۔ حتے کہ ستر برس کے عرصہ تک‬ ‫قد آد بم ہ سگ وہ ں رہ ۔ ی نی فرشتوں کو آنے نہیں دیت تھ ۔ ص‪-‬‬ ‫اور وہ کت کسی فرشتہ اور حیوان کو س تھ گزرنے نہ دیت تھ ۔ خوا‬ ‫نہیں کرت تھ ۔ یہی وجہ ہے کہ کت اب یس کی ل سے دارمٹی سے‬ ‫ہے۔ شیط ن مردودورحمت سے محرو ہے ب کہ جس جگہ شیط ن ہو‬ ‫رحمت نہیں ہو گی۔ سو جس گھر کت ہو گ بغیر ضرورت ح ظت ی‬‫شک ر خواص کے اس گھر رحمت نہیں اتریگی۔ ات ق اراوت ازلی اسکو‬‫نیند آ گئی۔ فرشتوں کو حک ہوا شت بی روح قدس آد کے بدن میں ڈالو۔‬ ‫ج جرائیل حس فرم ن ر ت لے بم ہ مقرب ن پردہ سے روح مقدس‬ ‫کو لیکر آئے تو روح مقدس نزدیک بت کے پہونچکر کہ کہ یہ نہ ئت‬‫اندہیر کوٹھ ہے۔ ی ر ت لے مجہےاپنے فضل سے ایکدف ہ اسی جگہ‬ ‫سے مجہے نک لن ۔ ت کہ میں اس زم نہ عیش و عشرت کر لون۔ الله‬ ‫ت لے نے حک دی کہ تجہے ضرور ایکدف ہ اس بدن سے نک لوں گ ۔‬ ‫اور وہ نک لن تمہ ری موت ہو گ ۔ پروردگ ر فرم ت ہے س چیز کو مرن‬ ‫ہے مگر الله کو نہیں ہے۔ تجہے موت کیچ شنی دونگ ۔ اورآد ک سر‬ ‫خدایت لے نے سنگ مرمر سے راست کی تھ ۔ اسی وجہ سے آدمی ک‬‫سر سخت ہوت ہے۔ اورج روح مقدس میں ڈالی گئی۔ تو سر کے راستہ‬ ‫ڈالی گئی۔ ص۔‬

‫اور ارش د فرم ت ہے الله ت لے میں نے روح مقدس کو ڈالکر بدن میں‬‫آد کے کہ اسکوسجدہ کرو۔ ج آد نے آنکھ کہولی تو روح نے آنکھ‬ ‫کے ذری ہ سے جہ ن کو دیکھ کر خوشی ح صل کی۔ پھر ج ن ک کو‬‫روح پہونچی تو آد ع یہ السلا کو چھینک آئی۔ تو کہ س ت ریف الله‬‫ت لے کی ذات کو ہے جو ر ال مین ہے ج روح منہ میں آئی تو ہر‬ ‫قس کی چ شنی گیر ہوئی۔ آد ع یہ السلا نے ویسی ہی خدائے خ ل‬ ‫کی حمد کہی۔ پھر خداے یت لے نے فرشتوں کو حک دی کہ آد ع یہ‬ ‫السلا کو سجدہ کرو۔ اسواسطے کہ میں نہ ئت رض مند ہوں آد سے۔‬ ‫بمجرد حک ح ک ت لے کےس فرشتوں نے سجدہ کی مگر اب یس‬‫مردود نے کہ ۔ کل میں نے اپنے ہ تھ سے بن ی ہےیہ مجہے درجہ میں‬‫بھی ہے۔ اسی وجہ حقیر ج ن ۔ اور احک الح کمین کے حک سے عدول‬ ‫کی ۔ م مون مقہور ہوا۔ ح ک حقیقی کے حک سے گردن موڑن موج‬ ‫غض ہے۔ ج غلا حبشی درجہ میں بڑھ ج ئے تو اسک حک عین‬ ‫پروردگ ر ک ہوت ہے۔‬ ‫اس سے سرکش نہون ورنہ پچہت ن پڑیگ ۔ کسی نے سچ کہ ہے۔ بیت‬ ‫حکمران ہو کوئی بچ پن ہو ی بیگ نہ ہو‬ ‫دی خدا نے جسے عزت اسکی عزت چ ہئے‬ ‫ص‪-‬‬ ‫عزتدار کی ذلت کرن اپنی ذلت ک موج ہے۔ ج فرشتوں نے سر‬ ‫اٹھ ی ۔ تو شیط ن کے گ ے میں ستر من ل نت ک طو پڑ گی ۔ م و‬ ‫ہوا کہ الله ت لے کے حک سے سرکش ہوا ہے۔ جہٹ فرشتوں نے‬

‫دوسرا سجدہ کی ۔ اب یس نے عرض کی آپ ک حک ایک سجدہ ک تھ ۔ یہ‬ ‫دوسرا سجدہ کیوں کر رہے ہیں۔ حک ہوا میرے خوف سے سجدہ میں‬‫پڑے ہیں۔ تجہکو خوف نہیں آئی تو م ون ہوا ہے۔ میرے حک کو پس‬ ‫پشت کر دی ہے۔ میں نے تجہے مردود کی ہے۔ تیری عب دت دنی میں‬ ‫تجہے دوں گ اور آخرت میں تو عذا الی ک مستح ہو گ ۔ پھر‬ ‫عزازئیل کہ ن انک پہ ے ن ر ہی سے تھ ۔ آد ع یہ السلا سے بھ گ‬ ‫گی ۔ تہوڑے دنوں کے ب د جبرائیل نے آد ع یہ السلا کو یہ ک مے‬ ‫سکھ ئے وہ یہ ہیں۔ پہلا ک مہ الله واحد لاشریک ہے آد ص ی الله ک‬ ‫ہے۔ دوسرا ک مہ الله ت لے واحد اسک کوئی شریک نہیں محمد بندہ الله‬ ‫ک ہے پیغمبر ہے جن ک ۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫اور سمجہ ی کہ ان دونوں ک مہ ک ح ظ کی کرو ج آد ع یہ السلا‬ ‫زمین پر سو گئے تو انکے ب ئیں کروٹ سے حوا رضی الله عنہ پیدا‬ ‫ہوئی۔ پھر ج دی خدا ک حک ہوا کہ اے جبرائیل آد اور حوا کو آسم ن‬ ‫پر ب عدن بہشت میں لاؤ۔ جبرائل بحک ر ج یل انکو بہشت میں‬ ‫لیگی ۔ تین ہزار برس عدن میں آد ع یہ السلا رہے جبکہ ر ت لے‬ ‫ارش د فرم ت ہے ی د کرو اے محمد کی ہمنے اے آد بمہ اپنی جورو‬ ‫بہشت میں رہ ص‬ ‫میوہ وغیرہ ک ن شتہ کرو اور اس درخت کے قری ہرگز نہ ج ن ۔ نہیں‬ ‫تو ظ ل ہو ج ؤ گے۔ ج گذرنے کو مدت پہونچی تو ایکدن عزازئیل‬ ‫ایک گوس ند لیکر بہشت کے درب ن کے پ س ام نت ج رکھ ۔ اور کہ‬‫حس ضرورت تمسے لے لوں گ ۔ درب ن نے کہ بہت اچھ ۔ لکھتے ہیں۔‬ ‫کہ آد اور حوا نے درب ن سے پوچھ یہ دنبہ کہ ں سے آی ہے۔ انہوں‬‫نے کہ عزازئیل کی ام نت ہے۔ آد ع یہ السلا نے جھٹ ذبح کرکے کھ‬

‫لی ۔ اب یس چند ای کے ب د آی ۔ اب یس نے فرشتوں سے ام نت ط‬ ‫کی۔انہوں نے کہ ۔ کہ آد ع یہ السلا نے نوشج ں فرم ی ہے۔ اب یس‬ ‫خوش ہو کر آواز کرنے لگ ۔ اے بیٹے واسوس کہ ں گیے ہو۔ جوا دی‬ ‫کہ میں آد اور حوا کے سینے میں گھر بن ئے بیٹھ ہوں۔ شیط ن نے‬ ‫کہ رحمت ہو تمکو۔ کہ پہلا ن س آد ک تو بن ہے۔ جیس کہ ر ت لے‬ ‫ارش د فرم ت ہے ی نے وہ انس ن کے سینے میں وسوسہ ڈالنے والا‬‫آدمی اور جن سے ہے۔ ج تین ہزار برس تم ہوئے۔ تو شیط ن بہشت‬ ‫کے دروازے پر ایکدن پہونچ ۔‬ ‫ص۔‬ ‫اسوقت ک لا س نپ اور ایک مور درب نی کر رہے تہے۔ انکے ہ ں ج کر‬ ‫کہنے لگ مجہے ایکدف ہ بہشت میں ج نے دو میں تجہکو تین ہزار‬ ‫فری ان کروں گ ۔ اونہوں نے پوچہ تمہ را کی ن ہے۔ جوا دی ۔ کہ‬‫میرا ن عزازیل ہے۔ اونہوں نے کہ کہ تجہکو اندر ج نے ک حک نہیں۔‬ ‫اسواسطے کہ تو م ون ہوا ہے۔ لائ بہشت تو نہیں ہے۔ اوس نے کہ‬‫مجہکو اتنی ط قت ہے۔ اگر ت مجہکو اپنی آنکھ جگہ دیویں تو غ ئ ہو‬ ‫ج ؤں گ پھر بہشت کو دیکہوں گ ۔ اسوقت م ر و کوا درب ن تھے۔ اور‬ ‫مور اندر تھ ۔ س نپ نے کہ اگر ت ج دی ب ہر آؤ گے۔ تو تمکو لے ج ت‬ ‫ہوں۔ س نپ نے وعدہ کی ج دی ب ہر آؤنگ ۔ س نپ نے منہ کھولا۔ جھٹ‬ ‫شیط ن اسکے منہ میں گھس گی ۔ اپنی جگہ کرتے ہی س نپ کے منہ‬ ‫میں ل ڈالدی۔ کہ اس سے یہی زہر پیدا ہوا ہے۔ اوسوقت مور نے‬ ‫کہ ۔ تمنے بہت اچہ کی ۔ اس ب ت کے کہنے سے اس کے پ ؤں سی ہ ہو‬ ‫گئے۔ لیکن شیط ن نےس نپ کے ہ ں کہ تھ کہ اندر میں جو کچہ میں‬ ‫کروں ت چپ چ پ رہن چن نچہ س نپ نے ایس ہی کی ۔ ج اندر گہس گی‬ ‫تو شیط ن رونے پیٹنے لگ ۔ ص۔‬

‫ج حوروں نے آواز سن تو حیران ہو کر خ زن بہشت کو کہنے لگیں‬‫کہ تمکو کی ہوا کہ اب یس کو ت نے اندر آنے دی ۔ اور تمہ رے منہ سے‬‫آواز کر رہ ہے۔ کہ اے حوا سنو آد اور حوا گند سے محرو ہیں۔ اوہ‬‫اچھ ط ہے۔ اور دوسرا یہ کہ آد ایک حور پر ع ش ہو گی ہے۔ اور‬ ‫حور سے پرہیز کر گی ہے۔ وہ اس حور کے س تھ مزے اڑا رہ ہے۔‬ ‫ج حوا نے یہ ب ت سنی تو بہت پریش ن ہوئی۔ آد کو بہی جستجو کی‬ ‫تو نہ پ ی ۔ اسوقت حوا کو اس ل ین کے مکروفری ک خی ل بھول گی‬ ‫تھ ۔ جھٹ حوا کو خی ل آی کہ بہشت کے ب ہر آد کی جستجو کریں۔‬‫اسوقت بہشت سے ب ہر ج ن بغیر گند کہ نے کے مح ل تھ ۔ حوا نے کہ‬ ‫لی ۔ مگر ادھ دانہ نہ کہ ی تھ ۔ اس حیض کی بیم ری ع رض ہو گئی۔‬ ‫کہتے ہیں عورتیں دین اورعقل میں دسترس نہیں کر سکتیں۔ اسوقت‬ ‫سے حی اور شر شروع ہو گی ہے۔ ب د اسکے جبرائیل امین کو حک‬ ‫سرک ر اعظ سے ہوا کہ حوا کو بم ہ س نپ اور کبودک اور مور ب ہر‬ ‫نک لیں اور زمین پر ڈالدے ت کہ میرے قد ک م ئنہ کریں۔ جبرئیل ع یہ‬‫السلا حس الحک ک روائی شروع کرکے نک لدی ۔ ج آد کو خبر گذری‬ ‫کہ حوا کو گند کہ نیکی وجہ سے الله ت لے نے بہشت سے نک لکر‬‫زمین پر ڈالدی ۔ جھٹ آد نے بھی دانہ ب قیم ندہ نصف کہ لی بوجہ۔۔۔۔ تو‬ ‫اسکو پ خ نہ کی ح جت پڑ گئی۔ اسوقت حک ہوا کہ اے جبرائیل ج کر‬ ‫بہشت سے آد کو برہنہ کرکے نک لدے۔ بوجہ اسکے کہ میرا ن فرم ن‬ ‫ہوا ہے اور یہ ں ن پ کی کرت ہے اور بہشت پ ک جگہ ہے۔ ص۔‬ ‫ج جبرائیل الله کے حک سے بہشت میں گئے تو کی دیکھتے ہیں کہ‬ ‫آد ع یہ السلا گند سے اپن پیٹ بھرے کھڑا ہے۔ جبرائیل نے غصہ‬‫ن ک ہو کر تم کپڑے مثلا ج مہ دست ر ٹوپی وغیرہ چھین لئے۔ ج سر‬ ‫سے کلاہ ات ری تو آد ع یہ السلا نے اپنے ہ تھوں کو سر پر کر لی ۔‬

‫اس وجہ سے سر ک مسح فرض ہے ی نے چہ رفرض اسوقت کے بہی‬ ‫ہیں۔ مثلا ہ تھ دھون ۔ منہ دھون ۔ سر ک مسح کرن ۔ پ ؤں ک دھون ۔ پھر‬ ‫کپڑے اوت ر کر آد جو ہم رے ب پ ہیں پیغبر خدا۔ مقبول خدا کہ بوجہ‬‫مذکور کے پکڑ زمین پر ڈالدی ۔ کل شی مرجع اے اص ہ خ کی آد خ ک‬ ‫کیطرف گی ہے۔ وہ کوہ ق ف میں رہے۔ ستر برس تک حوا ع یہ السلا‬‫سے جدا رہے۔ آد کے رونے سے ف ل بیدا ہوئی۔ اور حوا کے رونے‬ ‫سے مروارید بنگئے۔ وہ جبرائیل جو پہ ے ت ظی و تکری کرنے والا‬ ‫تھ ۔ وہی بوجہ ایک بی رم نی کے بہشت سے بہت اہ نت کے س تھ‬ ‫نک لنے والے ہیں۔ مولوی رو ص ح فرم تے ہیں۔‬ ‫یک گن ہ چوں کرد گ تندش تم‬ ‫مذہنی مذہنی بیروں خرا‬ ‫تو طمع میداری چندیں گن ہ‬ ‫داخل جنت شوی اے روسی ہ‬ ‫ص۔‬‫آخر ب د ستر برس کے حوا اور آد کی ملاق ت ہوئی۔ کسی نے کہ ہے۔‬ ‫بیت‬ ‫ہر د دع ہ میکن بر خ ک مے ع ل جبیں‬ ‫جمع کن ب د و ست ی ج مع المت رقیں‬ ‫پھر حک جبرائیل کو ہوا کہ ایک جوڑا اور کچہ گند بہشت سے لیکر‬‫آد کو دیدے۔ جبرائیل نے آد کو جوڑا اور کچہ گند حوا کو دیدی اور‬ ‫کچہ آد کو دی۔ خدا کے حک سے ہل جوت کر بیج ڈالا۔ آد کے بیج‬

‫سے گند اور حوا کے بیج سے جو پیدا ہوئے۔ حک یت‬ ‫ایک روز حوا رضی الله عنہ بیٹہے تھے مت کر ہو کر۔ بہشت کی‬ ‫ن متیں ی د کر رہے تھے۔ تسبیحیں کہتے تھے۔ کہ ر ج یل رحمن۔‬ ‫غ ورالرحی من ن تیرا ہر وقت احس ن بہشت میں عجی ن متیں تو دیت‬ ‫تہ ۔ شربت پلات تھ ۔ شیر شہد سے عجی تھے۔ ا آپنے کبھی نہیں‬ ‫عن یت فرم ئی میرا بخت سی ہ ہے تیری ن فرم نی سے ن گ ہ خند میں‬ ‫گر گئی ہوں۔ کوئی پوچھت نہیں۔ بیت‬ ‫ی د میں ن مت کے رہے ہر د‬ ‫کھ تے تھے بہشت ذو سے پیہ‬ ‫ح شیہ‪ :‬ہندوانہ اور خربوزہ وہ ں کے ہیں‬ ‫ص۔‬ ‫فری د سن کر الله ت لے فرم ی ۔ کہ اے جبریل دو خربوزہ لیکر ایک حوا‬ ‫کو دوسرا کو دیدے جبریل ویس ہی کی ۔ حوا ح م ہ تھیں۔ اسوجہ سے‬ ‫حوا ک خربوزہ ہندوانہ بن گی ۔ اور آد ک برح ل رہ ۔ ایکدن جبریل کو‬ ‫حک ہوا کہ حوا کے ہ ں دو بچے صبح اور دو بچے ش ہونگے اور‬‫دو بچے پہ ے پیدا ہوں انکو شت بی جدا کرن اور انک ن ہ بیل اور ک بیل‬ ‫رکہن ۔ اور جو لڑکی ں ش کو پیدا ہوں پہ ی ہ بیل کو اور دوسری ک بیل‬ ‫کو بی ہ دین ۔ ات ق دوسری لڑکی ایک آنیکھ سے دیکھ نہ سکتی تہی۔‬ ‫ک بیل نے منظور نہ کی ۔ اور ہ بیل کی عورت کو لی ۔ ج آد ع یہ السلا‬ ‫تہوڑی دیر کے ب د آئے تو کہ ۔ اے ک بیل۔ تو بی رم ن ہو گی ہے اور‬ ‫غضبن ک ہو کر ک بیل کو کہ ۔ تو نے برا کی ۔ اور تو ک فر بن گی ہے۔‬ ‫مجھ سے ت دونو دور ہو ج ؤ۔ اور کہیں اور زراعتک ری کرو اور اپن‬

‫بسیرا کرو۔‬ ‫ندا آید درانگہ دور شو دور‬ ‫قی مت کے روز جسطرح حضرت آد ع یہ السلا اپنے مقر بیٹے کو‬ ‫ن فرم نی کی وجہ سے دور کر رہ ہے۔ اسی طرح م ب پ بیٹ‬‫ایکدوسرے کو دور کر دے گ ۔ اور اپن ہی ہر ایک بوجھ اوٹھ ئیگ ۔ ص۔‬‫الائیہ۔ بغیر عمل توحید کے رسول بھی ش عت نہ کرینگے۔ س کو ہ تھ‬ ‫افسوس م ن پڑے گ ۔ شیخ عط ر فرم تے ہیں۔ بیت۔‬ ‫ہست س ط نی مس مرا درا نیست کس را زہر چوں وچرا‬ ‫عذر م ذرت کچہ ک نہ آئیگی۔ چن نچہ آد و حوا بغیر پرسش نک لے‬ ‫گئے۔ بی رم ن ک بغیر پرسش دوزخ ج ن پڑیگ ۔ اع ن الله وابوان و‬‫است ذن و س ئرالمس مین امیں۔ شیخ س دی فرم تے ہیں۔ ست بر ض ی ن‬ ‫مسکین مکن۔۔۔۔۔کہ ظ ل دوزخ رود بےسخن۔ اور کسی نے کہ ہے۔ وہ‬ ‫سنت نبی جسکو پی ری نہیں۔۔نبی بھی اس سے بیزار ہو ج ت ہے۔ ج‬‫آد ع یہ السلا سے ک بیل کسی اور جگہ رہنے لگے تو ایکدن عزازیل‬‫نے آ کر کہ کہ تو اپنے بھ ئی ہ بیل کو م ر ڈال کیونکہ یہ تجھ سے بڑا‬ ‫ہے۔ پھر تو تم زمین کی ب دش ہی کریگ ۔ ک بیل نے کہ مجہے قتل کرن‬ ‫م و نہیں ہے۔ عزازیل نے کہ جسوقت نیند میں ہووے ت ایک بٹہ‬‫لیکر اسکے سر خو لگ ۔ اس نے حس کہنے عزازیل کے ک کی ۔ اور‬ ‫ہ بیل مر گی ان لله و ان الیہ راج ون۔ ک بیل کو چونکہ محبت تہی لاش‬ ‫کو پھینکن ن گوار سمجہکر اپنی پشت پر اٹھ لی ۔ چن نچہ چھ م ہ ک‬ ‫عرصہ گذر گی ۔ قبر کے کھودنے کی تجویز ک بیل کو م و نہ تہی۔‬ ‫ایکدن دو فرشتے کوے کی صورت پر گھڑا کھودا اور اسنے کوے کو‬

‫وہیں گ ڈ دی ۔ پھر ک بیل نے بھی ان کو دیکہکر اپنے بھ ئی کو دب ی ۔‬‫جیس کہ الله ت لے اپنی کلا پ ک میں فرم ت ہے۔ بھیج الله نے کوے کو‬‫زمین کھود کر اپنے بھ ئی کوے کی لاش کو دفن کرت تھ دیکہکر ک بیل‬ ‫نے کہ افسوس میں کوے سے بھی کمتر ہوں۔ اگر کوے جیس ہوت تو‬ ‫اپنے بھ ئی کی لاش کو دفن کرت ۔ یہ کہہکر شرمس ر ہوا۔ دونو کوے‬ ‫ق بیل کےروبرو لڑتے ہوئے ص۔ ایک کوے نے دوسرے کوے کو‬ ‫م ر ڈالا پھر اپنے چونچ اور پنجوں سے گڑہ کھود کر کوے ک دب ۔‬‫ق بیل نے دکھکر غ کھ ی ۔ اور کہ کہ میں کوے جیس ہوت تو اپنے ہ تھ‬‫گڑہ کھودت ۔ اوراپنے بھ ئی کو دب ت ۔ پھر ق بیل نے دیکہکر ویس کی ۔ یہ‬ ‫طریقہ گور۔۔۔ قبر بن نے ک ۔۔۔ یہ ں سے شروع ہوا ہے۔ اور ہ یل کی س‬ ‫قو مس م ن ہیں۔ ایک دن آد نےق بیل سے پوچھ ہ بیل کہ ں ہے کہ‬ ‫مجہے م و نہیں۔ بہت دن سے مجہسے رخصت ہو گی ہے۔ آد ع یہ‬ ‫السلا حیران ہوا۔ خد ا کی جن سے ندا آئی کہ تیرے بیٹے ق بیل نے‬ ‫قتل کر ڈالا ہے۔ ت کہ تجہے م و ہو۔ کہ میرے ایسے بیٹے ہیں۔ تو‬‫نہینج نت شیط ن انس ن ک دشمن ہے۔ ج آد نے جوا سن تو ق بیل پر‬‫غصہ ہوا۔ اور کہ کہ تو نہ یت پرلے درجہ ک ک فر ہے۔ ت مس م ن کبہی‬ ‫نہیں ہو گے۔ جیس کہ ق بیل حران ہوا۔ اسوقت سے شیط ن انس ن ک‬ ‫دشمن چلا آت ہے اور مرتے وقت انس ن کےس تھ بیج حرکتیں کرت رہت‬ ‫ہے۔ مومن کو چ ہئے کہ اس کے فری سے بچے لا حول پڑہت رہے۔‬ ‫ص۔‬‫تھوڑے دنوں کے ب د اب یس نے ق بیل کے پ س آ کر کہ کہ میں جبرائیل‬‫ہوں خدا یت لے نے تمہ ری طرف بھیج ہے۔ اور کہ ہے کہ اور طریقہ‬ ‫آد ک ب قی ہے۔ وہ ا تجہکو سیکہ ت ہوں۔ ق بیل نے خوش ہو کر کہ ۔‬ ‫بہت اچھ ۔ تو عزازیل نے خوش ہو کر تس ی اپنی کر لی کہ ابھی اسکو‬

‫ک فر کر لوں گ پھر عزازیل نے کہ تجھکو خدا کے ن سکھ ت ہوں۔‬ ‫انکو ہر وقت ضبط رکھن پھر شیط ن نے مذکورہ ن مردوں اور‬‫عورتوں کے بتلائے اور کہ کہ ایک اور بھی ام نت ہے۔ وہ یہ ہے ایک‬‫سنگ راست کرکے انکو دیدی ۔ اور کہ کہ ہر صبح نہ کر ط کھ ن اور‬ ‫اس بت کو سجدہ کرتے رہن ۔ اوراپن منھ مشر کو کرن ۔ اور تمہ رے‬ ‫م ں ب پ آد حوا نہیں۔ ب کہ پ ربتی اورمہ دیو ہیں۔ اوراسی راہ پر چ ن ۔‬‫اورتمکو جلائینگے۔ یہ قو ک فروں کی اسی جگہ سے شروع ہوئی ہے۔‬ ‫یہ نہیں ج نتے کہ شیط ن نے اپنے پھندے میں اسکو ڈالدی ہے اور‬ ‫دوزخ ک س کن بن دی ہے۔ خدا نے فرم ی ہے س چیزوں کو اپنی‬ ‫عب دت کے واسطے پیدا کی ۔ اسکے خلاف چل رہے۔ کہتے ہیں کہ‬ ‫حضرت آد فرزند پ نچسو ج ت تھے۔ ص۔‬ ‫نقل ۔۔۔۔ ایک روز حضرت آد کے فرزند جمع ہو کر آپس میں صلاح‬‫کرنے لگے کہ ب پ کو م ر ڈالئے اور ب دش ہ اور پیغمبر ہم رے واسطے‬ ‫ن زل ہو ج ئیگ ۔ اسی مشورہ میں تھے کہ الله ت لے آد کو خبر دی کہ‬ ‫تمہیں فرزند م رن چ ہتے ہیں۔ اگر ت چ ہو۔ تو اونکو م ر ڈالو اورپھر‬ ‫انک ر آپک کبھی نہو۔ آد نے کہ ی خدای کوئی اور تدبر کرو۔ تو الله‬ ‫ت لے نے جبریل کو حک کی کہ بہشت میں ب نگ دو۔ جبریل حس‬ ‫الحک ر الج یل ب نگ دیدی تو اونکو آواز سنتے ہی انکی زب نیں بدل‬ ‫گئیں۔ جیس کہ عربی ف رسی وغیرہ جو آپسمیں مشہور ہیں۔‬ ‫ایکدوسریک سخن نہیں سمجہتے تہے۔ اس وجہ سےمشورہ ب طل ہو‬ ‫گی ۔ یہ زب نیں اس زم نہ سے شروع ہیں۔ اوسوقت سے زب نیں مخت ف‬ ‫پھر م رنے کی مشورہ بدل گئی۔ وازیں وجہ مس م ن اور ہندو ہون ہو‬‫گی ۔ ج آدمی ب دش ہی کرنے لگے تو انہوں نے شہر ک ن م ت ں رکھ ۔‬‫آد ع یہ السلا کیوقت سے اسک ن م ت ن شہر ہے۔ اوراسوقت سے یہ‬

‫شہرآب د ہے۔ اس شہر میں بڑے بڑے بزرگوں کی خ نق ہیں ایک‬‫بہ ؤلح ص ح ایک شمس تبریز ص ح کی ایک موسے پ ک شہید کی‬‫علاوہ اور بہت ہیں۔ ص۔ اور یہ ک فر کی اولاد ہیں۔ اور مس م ن بم ہ‬ ‫جمیع پیغبران شیث سے محمد ع یہ السلا تک ہ بیل کی اولاد ہیں۔‬ ‫ص۔‬ ‫ترجمہ سورتہ ف تحہ‬ ‫مترج‬ ‫ش ہ فضل الرحمن گنج مرادآب دی‬ ‫ترجمہ ھ‬ ‫ہندی اردو سے کوئی الگ سے زب ن نہیں۔ زب نوں ک دیگر سم جی‬ ‫حوالوں کے س تھ س تھ‘ مذہبی ک چر بھی ہوت ۔ مذہبی ک چر سے مت‬ ‫ال ظ‘ روزمرہ زندگی ک حصہ بن ج تے ہیں۔ مثلا‬ ‫اس ک میں کوئی بچت ب م نی ن ع بھی ہوا‬ ‫جی ہ ں الله کے فضل سے دس ہزار بچت نک ی ہے۔‬ ‫رستے میں س ٹھیک رہ‬

‫جی الله ک شکر ہے خیریت سے لوٹ آی ہوں۔‬ ‫ح دثے میں کوئی زی دہ نقص ن تو نہیں ہوا‬ ‫الله کی مہرب نی ہوئی ورنہ ج ن ج سکتی تھی۔‬ ‫ولیمے میں کھ ن ک تو نہیں پڑا‬ ‫م لک ک احس ن تھ کہ س کچھ وافر رہ ۔‬ ‫آؤ کھ ن کھ لو۔‬ ‫بس الله کریں میں کھ کر آی ہوں۔‬ ‫قرآن ایم ن کی کہن کہ کون سچ اور کون جھوٹ ہے۔‬ ‫الله نے چ ہ تو کل س ری رق ادا کر دوں گ ۔‬ ‫الله ح فظ ا کل ملاق ت ہو گی۔‬ ‫م ش ءالله آج تو حوروں کو بھی م ت دے رہی ہو۔‬ ‫قس لے لو جو میں نے کسی چیز کو ہ تھ بھی لگ ی ہو‬ ‫آج کل ک ن دفن ک خرچہ بھی کوئی ک نہیں رہ ۔‬‫یہ س بھگوان کی کرپ ہے ورنہ میں اس ق بل ک ہوں۔‬

‫یہ س ایشور کی کرپ تھی جو نپٹ آی ہوں۔‬ ‫پرمیشور بڑا دی لو ہے جو آج لاکھوں میں کھیل رہ ہوں۔‬ ‫ایسے سیکڑوں مذہبی ل ظ ی مرکب ت روزمرہ کی عمومی و خصوصی‘‬ ‫شخصی و اجتم عی‘ رسمی و غیر رسمی‘ ذاتی ی پوشیدہ زندگی کی‬‫گ ت گو ک حصہ بن گیے ہوتے ہیں۔ کوشش سے بھی‘ انہیں اس سم ج‬ ‫کی بول چ ل سے‘ الگ نہیں کی ج سکت ۔ ہندو مذہ سے مت ال ظ‬ ‫زب ن میں داخل ہو ج تے ہیں‘ تو اس میں ایسی کوئی حیرت والی ب ت‬ ‫نہیں۔ ان ال ظ کے داخل ہونے سے‘ یہ کوئی نئی زب ن نہیں ہو گئی۔‬ ‫عیس ئی مذہ کے ال ظ داخل ہو ج نے سے‘ زب ن عیس ئی نہیں ہو‬ ‫ج تی۔ زب ن وہ ہی رہتی ہے‘ ہ ں وہ اس ک چر کے مذہ کی‘ نم ئندگی‬ ‫کر رہی ہوتی ہے۔‬ ‫گ ف سے ش ئع ہونے والے‘ رس لہ م ہ ن مہ واسطہ ک ص حہ نمبر‬ ‫انٹر نیٹ سے میسر آی ہے۔ اس ص حے پر‘ ش ہ فضل الرحمن گنج‬ ‫مرادآب دی ک سورتہ ف تحہ ک ترجمہ ش ئع ہوا ہے۔ یہ ترجمہ ھ‬ ‫سے ت رکھت ہے۔ سورتہ ف تحہ کے ب د سورتہ بقر کی کچھ آی ت ک‬‫ترجمہ‘ اسی اس و و طور کے س تھ کی گی ہے اور اس ذیل میں کوئی‬‫نوٹ نہیں دی گی ۔ اسے بھی سورتہ ف تحہ کے ترجمے کے س تھ ملا دی‬‫گی ہے۔ عین ممکن ہے‘ پورے کلا ک ترجمہ اس طور سے کی گی ہو۔‬‫دیگر ترج سے یہ قط ی الگ تر اور ہٹ کر ہے۔ ایس ترجمہ‘ اس سے‬ ‫پہ ے دیکھنے اور پڑھنے سننے میں نہیں آی ۔ ش ہ فضل الرحمن گنج‬ ‫مرادآب دی کی اس ک وش کی داد نہ دین ‘ بدی نتی ہو گی۔ زب ن وطور کی‬

‫م نوسیت بڑی م نویت کی ح مل ہوتی۔ ہندو دھر سے مت لوگ‘ اس‬ ‫کو پڑھتے ہوئے‘ غیریت محسوس نہیں کرتے۔ اس سے رغبت ک‬ ‫دروازہ کھ ت ہے اور اجنبت کی دیوار گرتی ہے۔‬ ‫ش ہ فضل الرحمن گنج مرادآب دی کے مزید ترجمے کی تلاش میں؛‬ ‫چینی‘ ج پ نی اور انگریزی انداز عربی کی وگرافی دیکھنے کی س دت‬ ‫ح صل ہو گئی۔ یہ طور‘ غیرمس لوگوں کی توجہ ح صل کرنے ک ‘‬ ‫انتہ ئی ک می ذری ہ ہے۔ اچھ ئی پھیلانے کے لیے‘ عر مس م نوں‬‫نے مق میوں ک لب س‘ انداز‘ زب ن وغیرہ اختی ر کی اور ب ت ریک رڈ میں‬ ‫موجود ہے۔ ش ہ فضل الرحمن گنج مرادآب دی نے‘ ہندو ک چر سے‬‫مت ‘ ترجمے کی زب ن اختی ر کی‘ یہ امر لائ تحسین ہے۔ بےشک الله‬ ‫بہتر اجر سے نوازنے والا ہے۔‬ ‫ش ہ فضل الرحمن گنج مرادآب دی کے اس ترجمے کو اس کے طور و‬ ‫اس و اور زب ن کے حوالہ سے‘ اولیت تو ح صل ہے ہی‘ لیکن انہوں‬ ‫نے م روف سے ہٹ کر‘ ل ظوں کو م نویت عط کی ہے۔‬ ‫الله‪ :‬اس ذات ہے۔ اس کے مترداف کوئی ل ظ ہے ہی نہیں۔ مرحو نے‘‬ ‫اس ک ترجمہ من موہن کی ہے۔ یہ ترجمہ محسوس سے ت رکھت‬ ‫ہے۔ یہ ل ظ صوری لح ظ سے بلاشبہ دل کو موہ لیت ہے۔‬ ‫حمد‪ :‬حمد کے م نی ت ریف اور ثن لیے ج تے ہیں‘ لیکن حضرت ش ہ‬

‫ص ح نے‘ اس ل ظ کو ال کے لیے‘ س ج کہ حمد بم نی راحت‘‬ ‫ی نی خوشی کے م نے دیے ہیں۔ گوی وہ سراپ خوشی ہے۔ اس ک ن‬‫لینے سے‘ رگ وپے میں خوشی کی لہر دوڑ ج تی ہے کیوں کہ وہ اول‬ ‫و آخر راحت ہے۔ ی یہ کہ خوشی جو اچھ ئی سے وابستہ ہوتی ہے ی‬‫یہ کہ اچھ ئی خوشی میسر کرتی ہے۔ دوسرے ل ظوں میں یوں کہہ لیں‬‫اچھ ئی خوشی ہے ی نی اچھ ئی ب طنی راحت فراہ کرتی ہے۔ اس حوالہ‬‫سے‘ س راحت ی نی راحتیں اسی کی ذات کے لیے ہیں۔ علامتی حوالہ‬ ‫سے م ہی اچھ ئی بہتری وغیرہ کی طرف پھرتے ہیں۔‬ ‫ر ‪ :‬پ لن ہ ر‬ ‫ال‪ :‬بڑی‬ ‫ع مین‪ :‬سنس ر‬ ‫اردو میں پ لن ‘ ج کہ پنج بی میں پ لن مصدر ہے۔ پ لنے والا کے‘‬ ‫مترداف پ لن ہ ر غیرم نوس نہیں۔ حضرت ش ہ ص ح نے‘ ر کے‬ ‫م نی پ لن ہ ر لیے ہیں۔ ع مین بذات خود جمع ہے۔ ال سے یہ ب ت‬‫واضح ہوتی ہے کہ وہ ع ل جو س منے اورع میں وہ ہی نہیں وہ بھی‬ ‫جو س منے اورع میں نہیں۔ ج ہی س رے سنس ر م نی دیے ہیں۔‬‫گوی س رے سنس ر ک پ لن ہ ر ی نی ع لموں ک بلا کسی تخصیص پ لنے‬ ‫والا۔ صوری اور م نوی اعتب ر سے‘ خو صورت ترجمہ ہے۔ ہندو‬ ‫ک چر کے لیے بھی م نوس ترین ہے۔‬ ‫الرحمن‪ :‬نی ہ موہ‬

‫الرحمن‪ :‬نی ہ موہ ترجمے میں‘ جہ ں ملائمیت اور ریشمیت سی‬ ‫محسوس ہوتی ہے‘ وہ ں صوتی حوالہ سے‘ ک نوں میں رس گھولت‬‫محسوس ہوت ہے۔ اس میں پی ر محبت اور ش قت و عط ک عنصر غ بہ‬‫رکھت ہے۔ اسے اس کے مت قہ متن میں‘ ملاحظہ فرم ئیں‘ میرے کہے‬ ‫کی سچ ئی واضح ہو ج ئے گی۔ تک یف دہ ح لت میں تش ی‘ بلاشبہ‬ ‫م ملات حی ت میں‘ بڑی م نویت کی ح مل ہوتی ہے۔ نی ہ موہ کی اصل‬ ‫ت ی یہ ہی ٹھہرتی ہے۔ اس ک احس ن اور فضل بھی‘ نی ہ ب انص ف اور‬ ‫حس ح جت ہوت ہے۔‬ ‫الرحی ‪ :‬مہر والا‬‫الرحی ‪ :‬مہر والا ی نی وہ جو کسی کی تکی ف نہ دیکھ سکت ہو۔ کسی کو‬ ‫دکھ تک یف میں دیکھ کر‘ محبت‘ احس ن اور رح میں آ ج ئے اور اس‬ ‫کے مداوے ک ان ہی لمحوں میں چ رہ کرئے۔‬ ‫من موہن‘ کسی کو تکیف میں مبتلا نہیں کرت ۔ ت ریخ اٹھ کر دیکھ لیں‘‬ ‫نمرود‘ فرعون یزید وغیرہ‘ اپنی ہی کرنی کی پکڑ میں آئے ہیں۔ یہ ں‬ ‫ہو کہ روز آخرت‘ ہر کوئی اپنے کیے کی گرفت میں آئے گ ۔‬ ‫م لک‪ :‬بس میں‬‫م لک کو بس میں ی نی اختی ر میں‘ کے م نوں میں لی گی ہے۔ وہ جس‬

‫کے اختی ر میں ہو اور کسی اور کے اختی ر میں نہ ہو‘ م کیت کے‬‫زمرے میں آت ہے۔ اس میں کسی اور ک بس نہ چ ت ہو ی یوں کہہ لیں‬ ‫کہ اس کے سوا‘ وہ ں ہر کوئی مجبور و بےبس ہو۔ ہر کرن اسی کی‬ ‫مرضی پر مبنی ہو۔ وہ جیسے چ ہے اور جس طرح چ ہے کرئے ی‬ ‫کرنے پر ق در ہو۔ یہ الگ ب ت ہے‘ کہ وہ ح اور ح کے سوا نہیں‬ ‫کرت ۔ اس ک ہر کی ‘ عدل و انص ف پر استوار ہوت ہے۔‬ ‫یو ‪ :‬دن‬ ‫یو ‪ :‬دن‘ دن اردو میں ع است م ل ک ل ظ ہے۔‬ ‫الدین‪ :‬چکوتی‬ ‫چک وتی‬ ‫یہ انص ف اور فیصے ک دن ہو گ ۔ زندگی کے دنوں میں‘ دنی کے‬‫ب دش ہ فیص ے کرتے آئے ہیں لیکن اس دن‘ وہ بےبس ہوں گے۔ انہیں‬ ‫خود اس عمل سے گزرن ہو گ ۔ گوی یہ دن ب دش ہوں کے ب دش ہ ک ہو‬ ‫گ ۔ اس دن سوائے اس ب دش ہ کے کوئی ب دش ہ نہیں ہو گ ۔ صرف اور‬ ‫صرف اسی ک حک چ ے گ ۔ م ہو یہ ہی ٹھہرے گ ۔‬ ‫یو الدین‪ :‬ب دش ہوں کے ب دش ہ ک دن‬ ‫ن بد‪ :‬پوجتے‘ عب دت کے لیے ہندو ل ظ پوج است م ل کرتے ہیں۔ جس‬ ‫کی پوج کی ج ئے اسے پوجیور کہ ج ت ہے۔‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook