ب رہ اسلامی مق لے مقصود حسنیفری ابوزر برقی کت خ نہ جون
فہرست نم ز ک سو سے زی دہ س ل ک پران اردو ترجمہ حضور کری ص ی الله ع یہ وس اور تخ ی ک ئن تقصہءآد ‘ اردو کے داست نی اد میں ایک اہ اض فہ ترجمہ سورتہ ف تحہ شجرہ ق دریہ ۔۔۔۔۔ ایک ج ئزہ ایک چرچ مین کی ی وہ گوئی اور میری م روض ت طلا کھ ی تنبیہ میں ن ہیں سبھ توں۔۔۔۔۔۔۔چند م روض ت ارشد حکی ک ایک ش ر ہ اسلا کے م ننے والے ہیں' پیروک ر نہیں عربی کے اردو پر لس نی تی اثرات ایک ج ئزہ
نم ز ک سو سے زی دہ س ل ک پران اردو ترجمہ مخدومی و مرشدی حضرت سید غلا حضور ش ہ الم روف بہ ب ب جی شکرالله کے ذخیرہءکت سے' ایک کت .......نم ز مترج منظو ۔۔۔۔۔۔۔۔ بزب ن پنج بی' دستی ہوئی ہے۔ اس کے مولف مولوی محمد فیروز الدین ڈسکوی' منشی ف ضل' مدرس ای بی ہ ئی سکول' سی لکوٹ ہیں۔انہیں اس کت کی ت لیف ک اعزاز' رائے ص ح منشی گلا سنگھ اینڈ سنز' ت جران کت ' لاہور نے دی ۔ اس کت ک سن اش عت 1907ہے اور یہ ہی س ل' مخدومی و مرشدی حضرت ب ب جی شکرالله ک سنپیدائش ہے۔ یہ کت بلاشبہ' حضرت سید ع ی احمد ش ہ کے کت خ نےکی' ب قی ت میں سے ہے۔ اس ک واضح ثبوت یہ ہے کہ کت کے ص حہ نمبر 17پر' ان کے ہ تھ ک لکھ ہوا ایک ش ر موجود ہے۔ ہ زی دہ تر ش عری ی پھر مخصوص اصن ف نثر کو' اد ک ن دیتے ہیں اور انہیں ہی' زب ن کی ترقی ک ذری ہ خی ل کرتے ہیں۔ اس قس کیہر سوچ' حقیقت سے کوئی علاقہ نہیں۔ ہر اظہ ر' اس ک ت کسی بھی ش بہ سے مت ہو' زب ن کی نشوونم اور اس کی ابلاغی قوتوں کو' ترقی دینے ک ذری ہ اور سب بنت ہے۔ مروجہ ادبی اصن ف ش ر ونثر کو اٹھ کر دیکھ لیجیے' ش ید ہی' زندگی ک کوئی ش بہ نظرانداز ہوا ہو گ ۔ یہ ں تک کہ س ئنس اور حکمت کے امور بھی' نظر آئیں گے۔ ری ضی اور شم ی ت جیسے ش بے' اس کی دسترس سے ب ہر نہیں رہے۔ ج ایسی صورت ہے' تو زب ن کی ابلاغی اور لس نی ترقی کے حوالہ سے' دیگر ع و و فنون کی ک وش ہ کو' کیوں صرف نظر کی
ج ئے۔ع و اسلامی سے مت ' اردو میں بہت کچھ لکھ گی ہے۔ دیگر زب نوں سے بھی' اسلامی ع و کی کت کے تراج ہوئے ہیں۔ اس حوالہ سے' اردو میں بہت سی مخت ف ش بوں سے مت ' اصطلاح ت داخل ہو کررواج ع بنی ہیں۔ ان گنت ت میح ت' اردو ش رواد ک گہن بنی ہیں۔ ب ت یہ ں تک ہی محدود نہیں رہی' بہت سے عربی ال ظ' اردو کے ذخیرہءال ظ میں داخل ہو کر' اردو کی ابلاغی ثروت ک ذری ہ بنے ہیں۔ بچوں کے لیے' لات داد اسلامی لڑیچر ک شت ہوا ہے۔ غیر مس بھی' اس ذیل میں نظرانداز نہیں کیے ج سکتے۔ ان ک مذہبی اث ثہ بھی' اس زب ن ک زیور بن ہے۔ گوی ان مس عی کو' لس نی حوالہ سے نظراندازنہیں کی ج ن چ ہیے۔ م ہرین لس نی ت کو' صرف اور صرف اردو اصن ف ش رونثر کو ہی' لس نی تی مط ل ہ میں نہیں رکھن چ ہیے۔ س ش بوں سے مت کت ک ' اس ذیل میں' پیش نظر رہن از بس ضروری ہے۔زیر تجزیہ کت میں نم ز کے علاوہ' منظو پنج بی میں' مخت ف مس ئل بھی بی ن کیے گیے ہیں۔ نم ز سے م ق ت' پہ ے عربی میں' ب د ازاں اردو میں ترجمہ کی گی ہے' اس کے ب د پنج بی میں منظو ترجمہ کی گی ہے۔ اس وقت میرے پیش نظر' کئی تراج ہیں' خدا لگتی ب ت تو یہ ہی ہے' س دہ اور ع فہ ہونے کے س تھ س تھ' ترچمہ اور مح ورہ کے اعتب ر سے' یہ ترجمہ اپنی ہی نوعیت ک ہے۔ بریکٹوں میں کچھنہیں لکھ گی ۔ اس لح ظ سے بھی' یہ ترجمہ خو تر ہے۔ لس نی اعتب ر سے' اس کی فص حت اور بلاغت ک اقرار نہ کرن ' سراسر زی دتی کے مترادف ہو گ ۔ میں اس ذیل میں مزید کچھ عرض کرنے کی بج ئے' ترجمہ پیش کرنے کی س دت ح صل کرت ہوں۔
الله بہت بڑا ہےاے الله تیری ذات پ ک ہے خوبیوں والی اور تیرا ن مب رک ہے اور تیری ش ن اونچی ہے اور تیرے سوا کوئی م بود نہیں میں مردود شیط ن سے خدا کی پن ہ لیت ہوں خدائے رحمن و رحی کے ن سےشروع س خوبی ں الله کو جو س رے جہ ن ک ر ہے بڑا مہرب ن نہ یت رح والا انص ف کے دن ک م لک ہ تیری عب دت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد م نگتے ہیں ہ کو سیدھی راہ دکھ ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے اپن فضل کی ان کی نہیں جن پر غض ہوا اور نہ گمراہوں کی ایس ہی ہو تو کہہ وہ الله ایک ہے الله بےنی ز ہے نہ کسی کو جن نہ کسی سے جن گی
اور نہ کوئی اس ک ہمسر ہے الله س سے بڑا ہے میرا عظمت والا ر قدوس ہے ہے جو اس کی خوبی بی ن کرے...... اے الله تجھے ہی س خوبی ں ہیں میرا ع لی ش ن ر قدوس ہے س زب نی بدنی اور م لی عب دتیں الله ہی کے لیے ہیںاے الله کے نبی تجھپہ سلا اور خدا کی رحمت اور اسکی برک ت ن زل ہوں ہ پراور خدا کے نیک بخت بندوں پر سلا .....میں اقرار کرت ہوں کہ الله کے سوا اور میں اقرار کرت ہوں کہ محمد اسک بندہ اور رسول ہے اے الله حضرت محمد اور حضرت محمد کی آل پر رحمت ن زل فرم
جیس کہ تو نے حضرت ابراہی اور ان کی آل پر رحمت ن زل کی یقین تو خوبیوں والا بزرگی والا ہے اے الله مجھے نم زوں ک ق ئ کرنے والا بن دے اولاد کو بھی اور خدای میری دع منظور فرم ..... اے الله اور میرے م ں ب پ اور س مومنوں کو بخشدے ج قی مت ق ئ ہو اے الله ہم را دنی میں بھی بھلا کر اورآخرت میں بھی بھلا اور ہ کو عذا دوزخ سے نج ت دے ت پر سلا اور الله کی رحمتمیں ب طور تبرک کت کے مت ص ح ت کی عکسی نقول بھی پیش کررہ ہوں۔ دو جگہ نقطے لگ ئے گیے ہیں' وہ ں سے ص حہ پھٹ ہوا ہے۔ میں نے اپنی طرف سے' ایک ل ظ ک ی زی دہ نہیں کی ۔ ٹ ئپ بھی اسی خط کے مط ب کی ہے۔ محترمی حسنی ص ح :سلا مسنونیہ ن ی تبرک یہ ں عن یت کرنے ک تہ دل سے شکریہ قبول کیجئے۔ یہ
ہم ری قو کی بد قسمتی ہے کہ ایسے نوادرات ج د ہی ص حہ ہستیسے مٹ ج ئیں گے۔ ہ کو ایسی بیش بہ چیزیں کبھی مح وظ کرنے کی توفی نہ ہوئی۔ میں امریکہ میں دیکھت ہوں کہ یہ اپنے ت ریخی نوادرات کس قدر محنت اور توجہ سے بچ بچ کر رکھتے ہیں۔ کت خ نے بیش قیمت کت بوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ یہ ں ک ق نون ہے کہ چھپی ہوئی جو چیز بھی (خواہ وہ کسی زب ن میں ہو) اگر م ک میں آئے گی تو اس کی ایک ج د واشنگٹن کے قومی کت خ نے میں رکھی ج ئے گی۔ میں نے اپنی کت بیں بھی اس کت خ نہ کے علاوہ ہر ایسی یونی ورسٹی کے کت خ نے کو بھیج دی ہیں جہ ں اردو پڑھ ئی ج تی ہے (ایسی درجن بھر یونی ورسٹی ں ہیں)۔ لطف یہ ہے کہ کت م نے پر ہرکت خ نے سے شکریہ ک ب ق عدہ خط آت ہے۔ یہی کت بیں میں ہندوست ن اور پ کست ن کے اردو کت خ نوں کو بھیجت ہوں تو وہ ں سے کوئی رسید نہیں آتی۔ شکریہ کے خط ک تو ذکر ہی چھوڑ دیجئے۔ اس سے زی دہ کہنے کی ش ید ضرورت نہیں ہے۔ سرور ع ل راز www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9450.0 حضور کری ص ی الله ع یہ وس اور تخ ی ک ئن ت مرشدی قب ہ حضرت سید غلا حضور الم روف ب ب جی شکرالله ۔۔۔۔ پ
1988 1907۔۔۔۔۔ کے ذخیرہ کت سے' جہ ں مخت ف موضوع ت پر مجھ ن چیز کو کت میسر آسکی ہیں' وہ ں ان میں ق می نسخے بھی م ے ہیں‘ جو انہیں‘ ان کے والد گرامی‘ ی نی مجھ ف نی کے دادا ج ن‘ حضرت سید ع ی احمد ۔۔۔۔۔۔ 1911۔۔۔۔۔۔۔ ولد سید عبدالرحمن اور ننھی ل' جو ان ک سسرا بھی تھ ' سے ورثہ میں م ے۔ حضرت سید ع ی احمد نوشہرہ' امرت سر کے رہ ئشی تھے۔ وہ عربی اور ف رسی کے ع ل ف ضل تھے۔ ان کی دو بیویوں میں' چ ر بیٹے اور دو بیٹی ں تھیں .سیدہ جنت بی بی سے' سید م ک' سید ف ک شیر اور سیدہ کرامت بی بی' ج کہ سیدہ گوہر بی بی سے سید غلا غنی' سید غلا حضوراور سیدہ زین بی بی تھیں۔ سید م ک' سید ف ک شیر اور سیدہ کرامت بی بی ک کچھ ح ل م و نہیں۔ مرشدی حضرت سید غلا حضور ت د مرگ' ان کی تلاش میں رہے۔ راق کو بھی' ان ک کچھ پت نہیں چل سک ۔ ان کی آل اولاد سے ملاق ت کی خواہش' روز اول کی طرح' آج بھی اپنی پہ ی سی شدت رکھتی ہے۔حضرت سید ع ی احمد کی وف ت کے وقت' زین بی بی س ت برس' سید غلا غنی چھے برس' ج کہ سید غلا حضور چ ر برس کے تھے. زمین پہ نڈے والے تھے۔ محمد اکبر فقیر' جو حضرت سید ع ی احمد ک خدمت گ ر تھ ' نے دیکھ بھ ل کے بہ نے' م ئی گوہر بی بی ' زوجہحضرت سید ع ی احمد ولد سید عبدالرحمن کو اعتم د میں لے لی ۔۔ محمد اکبر فقیر کی بیوی کھیواں' دہ یز کے اندر' ج کہ محمد اکبر فقیر گھر سے ب ہر کے امور انج دینے لگ ۔ م ئی ص ح کے بچے چھوٹے تھے۔ انہوں نے محمد اکبر فقیر پر اعتم د کی ۔ محمد اکبر فقیر کی بیوی کھیواں سے' دو بیٹے' محمد امین اور ق ئ ع ی کو بھی' بیٹوں کی طرح سمجھ ۔ محمد اکبر فقیر کی موت
کے ب د' اس کے بڑے بیٹے محمد امین نے انتظ سمبھ ل لی ۔ ب د ازاں خود کو' حضرت سید ع ی احمد ولد سید عبدالرحمن ک وارث قرار دےکر' ہر چیز پر قبضہ جم لی ۔ خوش ح ل گھرانہ' دنوں میں م س ہو گی ۔یہ ہی نہیں' محمد امین اور ق ئ ع ی' بدس وکی سے ک لینے لگے۔ وہ ہی' جنہیں اولاد کی طرح سمجھ اور گھر داخل ہونے کی اج زت دی'ج ن کے دشمن بن گیے۔ م ئی ص ح کے منہ سے آہیں نکل نکل گئیں۔ محمد امین کے ہ تھوں ایک قتل ہوا۔ جی وں میں سڑا اور پھر' دم غی توازن کھو بیٹھ ۔ سنگ وں سے ب ندھ گی اوراسی ح لت میں چل بس ۔ محمد امین کے دونوں بیٹے ولایوڑ نک ے' انہوں نے ب پ ک ہتھی ی ' س اج ڑ دی ۔ محمد خ ل فقیر ہو گی ' ج کہ ووسرے نے' گ ؤں میں چھوٹی موٹی پرچون کی دوک ن ڈال لی۔ ق ئ ع ی کی بیٹی ت ج' اپنی م ں رقی ں کے قدموں پر تھی۔ اس کی بدچ نی کے ہ تھوں مجبور ہو کر' اس نے چھت پر سے چھلانگ لگکر' خودکشی کر لی۔ حرف بہ حرف اسی طرح ہوا' جس طرح سے م ئی گوہر بی بی نے د دیتے وقت کہ تھ ۔ زمین ک م ل زمین پر ہی رہ گی ۔ محمد امین اور ق ئ ع ی دونوں' دنی سے خ لی ہ تھ چ ے گیے۔ رقی ںک ع ش سردار کرت ر سنگھ' 1947کے ہنگ موں کی نذر ہو گی ۔ محمد امین کے ب پ ک ہڑپ ض ئع ہو گی ' کچھ ب قی نہ رہ ۔ مرشدی حضرت سید غلا حضور کی ش دی' م موں زاد سیدہ سردار بیگ بنت سید برکت ع ی سے ہوئی۔ اس لیے دوسروں کی نسبت' ان کی ننھی ل سے زی دہ قربت رہی۔ یہ گ ؤں نگ ی' امرت سر سے ت رکھتے تھے۔ سید گوہر ع ی اور سید برکت ع ی' دونوں بھ ئی ع دوست تھے۔ کھ تے پیٹے اور خوش ح ل لوگ تھے۔ دونوں بھ ئیوں کی' بتیس کھوہ زمین تھی۔ اولاد میں' دونوں کے پ س' صرف سیدہ
سردار بیگ تھی۔ لاڈ پی ر سے پ ی بڑھی۔ یہ گھرانہ اہل تشیع تھ ۔ ان کے ہ ں' مج سیں ہوتی رہتی تھیں۔ کت بوں اور ق می نسخوں کے' انب ر لگے ہوئے تھے۔ مرشدی حضرت سید غلا حضور 1929ی 1931 میں' س کچھ چھوڑ چھ ڑ کر' قصور اٹھ آئے۔ محنت مزدوری پیشہ بن ی ' ب د ازاں سرک ری ملازمت اختی ر کر لی۔ لوگ دنی کی اشی س تھرکھتے ہیں' انہوں نے کت بوں اور ک غذوں کو س م ن س ر و حی ت بن ی ۔سید غلا غنی کو' کت بوں ک غذوں سے کوئی دل چسپی نہ تھی۔ مرشدی قب ہ حضرت سید غلا حضور کت بوں کے ع ش تھے انہوں نے' انبوسیدہ ک غذوں کو سینے سے لگ لی ۔ 1988میں' ان ک انتق ل ہوا' تو م ئی ص ح سردار بیگ نے' اپنے خ وند حضرت سید غلا حضور ک ' یہ اث ثہ سینے سے لگ لی ۔ 1996میں' وہ بھی چل بسیں۔ ان ک بڑا بیٹ ' سید منظور حسین' جو ہمیشہ سے' عورتوں ک شوقین رہ تھ ۔ خ ن دان کی عورت کو طلا دے کر' ایک نہیں' دو چ تی پھرتی عورتیں لے آی تھ ' مک ن اور س م ن پر ق بض ہو گی ۔ اس سے چھوٹ ' سید محبو حسین اسی ک بگ ڑا ہوا تھ ' ردی سے دل چسپی نہ رکھتتھ مک ن اور س م ن کے لیے بھ گ دوڑا لیکن شیر کے منہ سے' ایکلقمہ بھی نہ نک ل سک ۔ پھر تھک ہ ر کر بیٹھ گی ۔ چوروں کو پڑے مور کے مصدا سید منظور حسین کے بڑے سے چھوٹے بیٹے' مط و حسین نے مک ن پر قبضہ کر لی ۔ ذاتی مک ن بھی زوج نی س زشوں کی بھینٹ چڑھ گی ۔ سید منظور حسین کو قض نے لے لی اور یہ ضر المثل' چوروں کو پڑے مور' موروں کو پڑیں قض ئیں' منزل مقصود کو پہنچ ۔ مک ن ا بھی مط و حسین کے قبضہ اور تصرف میں ہے۔ حضرت سید غلا حضور' اپنے س سے چھوٹے بیٹے مقصود ص در الم روف مقصود حسنی کو' کچھ چیزیں مرتے وقت دے گیے تھے۔
کچھ قبضے کے غدر کے دوران' دستی ہو گیئں' کچھ کوڑا سمجھ کر جلا دی گیئں .ص ف اور ج ندار کت بیں اور ک غذ ردی چڑھ گیئں۔ اس طرح' ب ب جی حضرت سید غلا حضور ک کلا اور ان کی آواز بھرے کیسٹ بھی ض ئع ہو گیے۔ حضرت سید غلا حضور کی ش عری پر مشتمل رجسٹر وغیرہ ب طور نش نی' ان کی بڑی بیٹی فض ل بیگ لے گئی۔ یہ چیزیں ان کے بیٹے ش قث رسول نے' اپنی دک ن میں است م لکر لیں۔ وقتی طور پر ان کے نصی میں مٹھ ئی ہوئی اور پھر' سڑکوں پر گر' کر ہمیشہ کے لیے ن بود ہو گئیں میرے پ س ان ک اپن کلا رف بکھرے ک غذوں اور تین قصوں کی صورت میں موجود ہے۔ چوتھ قصہ دستی نہیں ہو رہ ۔ کوشش میںہوں ضرور کہیں ن کہیں سے مل ج ئے گ ۔ قدی ک غذات ص ف ظ ہر ہے 1911ی اس سے پہ ے کے ہیں۔ کچھ پر سن اور ت ریخ درج نہیں۔ یہ ں تک کہ مصنف ک ن بھی درج نہیں۔ کچھ بہت پرانے ہیں اور بوسیدہ ہو چکے ہیں۔ یہ اردو پنج بی میں ہیں۔ ان میں سے ایک نہاردو ہے اور نہ پنج بی ہے۔ اسے گلابی اردو ی گلابی پنج بی کہن زی دہ من س ہو گ ۔ ک غذ کی ح لت اچھی نہیں ت ہ نہیں بآس نی پڑھ ج سکت ہے۔ اس کی عمر سو س ل سے زی دہ ہے۔ مصنف ک کچھ پت نہیں۔ یہ حضرت سید ع ی احمد ک ہینڈ راٹنگ بھی نہیں ہے۔ تحریر پر کوئی عنوان درج نہیں۔ مندرج ت کے حوالہ سے' اسے۔۔۔۔۔ حضور کری ص ی الله ع یہ وس اور تخ ی ک ئن ت۔۔۔۔۔ عنوان دی ج سکت ہے۔ اس مختصر سی تحریر کے لیے' مصنف نے گی رہ م روف' مستند اور مت ع یہ کت مشکوتہ' قسطلانی' احمد' بزار' طبرانی' ح ک ' بیہقی' ح فظ ابن حجر' ابن حب ن رحمہ الرحم ن' فتوح ت مکیہ' کت التشری ت کی ور گردانی کی ہے' اس سے مصنف کی ع می
اہ یت ک ' ب خوبی اندازہ لگ ی ج سکت ہے۔ مصنف نے' چند پنج بی کے ل ظ تحریر میں داخل کرکے' پنج بی میں لکھنے ک غ لب تجربہ کی ہے اور یہ تجربہ' ک می تجربہ نہیں ہے۔ دونوں زب نوں ک نحوی سیٹ اپ الگ تر ہے' لہجہ اور اس و مخت فہیں۔ مصنف بھ ے پنج بی رہ ہو گ ' لیکن لکھن اور بولن قط ی الگ ہنر ہیں۔ تحریر بت تی ہے' کہ اس ک لکھنے والا' بنی دی طور پر اردو میں لکھنے والا ہے۔ درج ذیل امور' تحریر میں نم ی ں ہیں س ری تحریر ایک ہی پیرے میں ہے۔ نئے پیرے کے لیے ل ظ اور 1- است م ل میں لای گی ہے۔ رموز ک است م ل نہیں کی گی ۔ نئے پوائنٹ کے لیے اور' ج کہ 2- ب قی کے لیے' محض سکتہ ک است م ل کی گی ہے۔ ل ظ ملا کر لکھے گیے ہیں۔ یہ ہی طور مست مل تھ ۔ 3- دو چشمی حے کے لیے' حے مقصورہ است م ل میں لائی گئی ہے۔ 4-جس ل ظ کے لیے' آج حے مقصورہ مست مل ہے' اس کے لیے' دو 5- چشمی حے است م ل کی گئی ہے۔ نون غنہ کی جگہ' نون است م ل میں لائی گئی ہے۔ 6- تی ر کو طی ر لکھ ج ت تھ ' اس تحریر میں بھی طی ر ہی لکھ گی 7- ہے ے کی بج ئے ی است م ل کی گئی ہے۔ اس عہد میں یہ ہی عمومی 8-
چ ن تھ ۔ ترمیمی متن اول م خ الله نوری۔ مشکوتہ' قسطلانی '.احمد' بزار' طبرانی' ح ک ' بیہقی' ح فظ ابن حجر' ابن حب ن رحمہ الرحم ن :ق ل رسول الله ص ی الله ع یہ وس انی عندالله مکتو خ ت النبیین وان آد لمنجدل فی طینتہ و س خبرک ب ول امری دعوتہ ابراھی وبش رتہ عیسی ورؤی امی التی راءات حین وض تنی وقدخرخرج لہ نوراف ء لہ منہ قصور الشاور حضرت مولان وسیددن محی الدین بن عربی اپنی کت فتوح ت مکیہ :کے 6ب کے خ قت کی پیدائش کے بی ن میں لکھتے ہیں ہین ف ک ن مبتدال ل ب ئزہ و اول ظ ھر فی وجود ی نی حضرت ص ی الله ع یہ وس تم جہ ن ک شروع اور وجود اغی پیدایش میں ظ ہر اول ہیں۔ کت التشری ت میں حضرت ابوھریرہ رضی الله ت لی عنہ سے مروی ہے' جو سرور ک ئن ت ص ےالله ع یہ وس نے حضرت جبرائیل سے پوچھ ' عمر آپ کی کتنے برسوں کی ہے حضرت جبرائیل ع یہ السلا نے عرض کی :ی حبی الله ص ی الله ع یہ
وس مجھے برسوں ک ح ل کچھ م و نہیں اتن ح ل م و ہے .جو چوتھی حج میں ایک ست رہ ستر ہزار برس سے ظ ہر ہوت ہے اور میں نے وہ ست رہ بہتر ہزار مرتبہ دیکھ ہے۔ فق ل ص ی الله ع یہ وس ی جبرائیل وعزت ربی ان ذلک النج ۔ اور آں حضرت ص ی الله ع یہ وس کی اولیت ی نی س پیدایش سے افضل ہوون اور اصل اصول س مخ وق ت ک قرار پ ون اور اولویت اعنی س سے بہتر ہون اور افضل ہون بہت اح دیث مب رکہ و آث ر شری ہ سے ث بت ہے اور ح صل ان س ک یہ ہی ہے جو الله تب رک و ت لی نے آسم ن ن۔ زمین ن اور عرش۔ کرسی۔ لوح۔ ق ۔ بہشت۔ دوزخ۔ فرشتے۔ جن اور بشر ب کہ تم مخ وق ت کی پیدایش سے پہ ے کئی ہزار برس نور مظہر سرور آں حضرت ص ی الله ع یہ وس ک پیدا فرم ی اور جہ ن کے میدان میں الله جل ش نہ اس نور مب رک کی تربیت فرم دی۔کبھی اس کو سجود خشوع آمود سے م مور فرم تے اور کبھی تسبیح و تقدیس میں مشغول رکھتے۔ اور اس پ ک نور کی رہ یش کے واسطے بہت پردے بن ئے۔ ہر پردے میں بہت مدت تک خ ص تسبیح کے س تھ مشغول فرم ی ۔ تم پردوں والی ج مدت گزر گئی ت اس نور مب رک نے ب ہر رون افزا ہو کے س نس لین شروع فرم ی ۔ ان متبرک س نسوں سے فرشتے' ارواح انبی واولی وصدیقین وس ئرمؤمنین کو پیدا فرم ی ۔ اور اس جوہرنور سے عرش' کرسی' لوح' ق ' بہشت' دوژخ اور اصول م دی آسم ن و زمین اور سورج' چند ست رے' دری ' پہ ڑ وغیرہ پیدا فرم ئے .پھرزمین اور آسم ن کو پھیلا کے س ت س ت طبقے بن ئے اور ہر ایک طبقہ
میں اک اک پیدایش ک مق مقرر فرم ی ۔ اور دوسری روایت میں اس طرح آی ہے' کہ ج اس نور مب رک الظہور نے س نس لین شروع کی ۔ ان س نسوں سے' پیغبران ع یہالصحورت والا س مہ من خ ل البریہ اور اولی ' شہیدان' ع رف ن' ع لم ن' ع بدان' زاھدان۔ اور ع مومن ن کی ارواح پیدا ہوئے۔ پھر اس نور ط ہر و طہور کو دس حصوں پر تقسی فرم ی ۔ اور دسویں حصہ سے' خدائے تب رک و ت لی نےاک جوہر بن ی ' طول اور عرضجس ک اعنی لمب ئی چوڑان' چ ر چ ر ہزار برس ک رستہ تھ .اس جوہراع ے گوہر میں' رحمت کی اک نظر فرم ئی۔ بسب حی ' وہ جوہر مب رک ک نپ اور ادھ پ نی بن گی اور ادھ اگ ہو گی ۔ اس پ نی سے' دری پیدا ہوئے اور ان دری وں کی ٹھ ٹھیں شروع ہو گئیں اور ان کی حرکت اور ھ نے کے سب سے' ہوایں چ ن شروع ہو گئیں اور ان ہواو ں خ و اغی جگہیں مقرر ہوئیں اور زمین سے آسم ن کی طرف' ب رہ کوہ ن تک' ہوا ک مق ہے اور اس اوپر زمہریر' دری وغیرھم اور قری آسم ن کے' اگ ک کرہ موجود ہے اور پھر اگ کو پ نی پر' غ ل فرم ی اور پ نی نے اگ کی گرمی کے سب ' ج جوش کھ ی ' تو اسی ( سے( جھ گ پیدا ہو گئی اور اس جھ گ سے زمین بن ئی گئی' پھر اس جھ گسے جو بخ رات پیدا ہوئے' ان سے اصل م دہ آسم ن ک بن اور موجوں کے سمٹ ج نے کے سب 'پہ ڑ پیدا ہوئے۔ زمین از ت لرزہ آمدہ۔۔۔۔۔۔۔۔ فرو کوفت بردانش میخ کوہ۔۔۔۔۔۔ زمین پر پ نی کھڑا ہونے کے سب ' ہر وقت ہ تی تھی .الله تب رک وت لی نے اس کی بےقراری دور کرنے کے واسطے' ان ٹھ ٹھوں اور سمٹ و سے' پہ ڑ پیدا فرم کے زمین پر ق ئ فرم ئے
اور اک بج ی پہ ڑوں میں پہنچی' اسے م دن ی نی کھ ن پیدا ہوا اورج لوہ پتھر سے ٹکرای ' اس سے چنگ ڑی پیدا ہو کے' اگ ابل اٹھی اور اس اگ سے' دوزخ ک م دہ طی رہوا۔ ب د ازاں' زمین کو پھیلای ۔ والارض ب د ذلک دجہہ ت کہ حیوان ت'وحشی ج نور اور درندے اور چوپ ئے' اس میں مق کریں۔ پھر زمین کے س ت طبقے بن ئے اور ہر طبقے میں' الگ الگ مخ وق ت کے مق ٹھرائے اور اگ کے ش وں سے' جنوں کو بن ی اور زمین پر ان کو مس ط فرم ی ۔بہشت کو' ست ویں آسم ن پر ب ندی بخشی اور دوزخ ست ویں زمین کے ت ے' ق ئ فرم ئی اور جن کی روشنی کے واسطے سورج' چ ند اورست رے چمک ئے۔ فوائد نجو ۔ نور اور ظ مت کے م دوں سے' دن اور رات' پھر تم پیدایش اور مخ وق ت کو اپنے حبی قری پر قرب ن فرم ی ۔ وافدیت لکی ع یک ی محمد ص ے الله ع یہ وس ترمیمی ال ظ اور حروف س نس' ک نپ ' س تھ ج ' ت ' کبھی میں' پر' اور ان' جس' وہ ک ' کے' کی' کو
تھ ' گئیں تے' تی ئیں' وں' ی ' یں ا' تھ' ں' و' ہ' ے تحریر ک اصل متن اول م خ الله نوری۔ مشکوتہ .قسطلانی .احمد .بزار۔ طبرانی۔ ح ک ۔ بیہقی۔ ح فظ ابن حجر۔ ابن حب ن رحمہ الرحم ن ق ل رسول الله ص ی الله ع یہ وس انی عندالله مکتو خ ت النبیین وان آد لمنجدل فی طینتہ و س خبرک ب ول امری دعوتہ ابراھی وبش رتہ عیسی ورؤی امی التی راءات حین وض تنی وقدخرخرج لہ نوراف ء لہ منہ قصور الش اورحضرت مولان وسیددن محی الدین بن عربی اپنی کت فتوح ت مکیہ دی 6ب وچ خ قت دی پیدائش دی بی ن وچ لکہدے ہین ف ک ن مبتدال لب ئزہ و اول ظ ھر فی وجود ی نی حضرت ص ی الله ع یہ وس تم جہ ندا شروع اور وجود اغی پیدایش وچ ظ ہر اول ہیں۔ کت التشری ت وچحضرت ابوھریرہ رضی الله ت لی عنہ سے مروی ہے جو سرور ک ئن ت ص ےالله ع یہ وس نے حضرت جبرائیل سے پوچھی عمر تہ ڈی کتنے برس ن دی ہے حضرت جبرائیل ع یہ السلا نے عرض کیت ی حبی الله ص ی الله ع یہ وس مینوں برس ندا ح ل کچھ م و نہیں اتن ح ل م و ہے جو چوتہی حج وچ ایک ست رہ ستر ہزار برس توں پچھے ظ ہرہوندا ہے اور مینی اوہ ست رہ بہتر ہزار مرتبہ دیکہی ہے۔ فق ل ص ی الله ع یہ وس ی جبرائیل وعزت ربی ان ذلک النج ۔۔۔۔۔۔۔۔اور آن حضرت
ص ی الله ع یہ وس دی اولیت ی نی س پیدایش سے افضل ہوون اوراصل اصول س مخ وق ت دا قرار پ ون اتے اولویت اعنی س سے بہتر ہون اور افضل ہون بہت اح دیث مب رکہ و آث ر شری ہ سے ث بت ہےاورح صل انہ ں سبن ندا ایہو ہے جو الله تب رک و ت لی نے آسم ن ن۔ زمین ن اور عرش۔ کرسی۔ لوح۔ ق ۔ بہشت۔ دوزخ۔ فرشتے۔ جن اور بشر ب کہتم مخ وق ت دی پیدایش سے پہ ے کئی ہزار برس نور مظہر سرور آن حضرت ص ی الله ع یہ وس دا پیدا فرم ی اور جہ ن دے میدان وچ اللهجل ش نہ اس نور مب رک دی تربیت فرم ندی۔ کدے اس نو سجود خشوعآمود سے م مور فرم ندی اور کدے تسبیح و تقدیس وچ مشغول رکھدی۔ اور اس پ ک نور دی رہ یش دے واسطے بہت پردے بن ئے۔ ہر پردےوچ بہت مدت تک خ ص تسبیح دے ن ل مشغول فرم ی ۔۔۔تم پردی ن والی جد مدت گزر گئی تد اس نور مب رک نے ب ہر رون افزا ہو کے س نہہ لین شروع فرم ی ۔ انہ ں متبرک س نہ ن وچوں فرشتے۔ ارواح انبی واولی ۔ وصدیقین وس ئرمؤمنین نو پیدا فرم ی ۔ اور اس جوہر نور سے عرش۔ کرسی۔ لوح۔ ق ۔ بہشت۔ دوژخ اور اصول م دی آسم ن وزمین اور سورج۔ چند ست رے۔ دری ۔ پہ ڑ وغیرہ پیدا فرم ئے پھر زمین اورآسم ن نو پھیلا کے ست ست طبقے بن ئے اور ہر ایک طبقہ وچ اک اک پیدایش دا مق مقرر فرم ی ۔۔۔۔ اور دوسری روایت وچ اس طرح آی ہے کہ جد اس نور مب رک الظہور نے س نس لین شروع لین شروع کیت ۔ انہ ن س نہ ن وچوں پیغبران ع یہ الصحورت والا س مہ من خ ل البریہ اور اولی ۔ شہیدان ع رف ن۔ ع لم ن۔ ع بدان۔ زاھدان۔ اور ع مومن ن دی ارواح پیدا ہوئے۔ پھر اس نور ط ہر و طہور نو دس حصی ں پر تقسی فرم ی ۔ اور دسوین حصہ سے خدائے تب رک و ت لی نےاک جوہر بن طول اور عرض جسدا اعنی لمب ئی چوڑان چ ر چ ر ہزار برس دا رستہسی اس جوھر اع ے گوھر وچ رحمت دی اک نظر فرم ئی۔ بسب حی اہ
جوھر مب رک کمبی اور ادھ پ نی بن گی اور ادھ اگ ہو گی ۔ اس پ نی سے دری پیدا ہوئے اور انہ ن دری وان دی ن ٹھ ٹھ ن شروع ہوی ں اورانہ ں دی حرکت اور ھ نے دے سب سے ہواوان چ نی شروع ہوی ن اور انہ ں ہواون خ و اغی جگہ ن مقرر ہوی ں اور زمین سے آسم ن دی طرف ب ران کوہ ن تک ہوا دا مق ہے اور اس اوپر زمہریر۔ دری وغیرھم اور قری آسم ن دے اگ دا کرہ موجود ہے اورپھر اگ نو پ نی پر غ ل فرم ی اور پ نی نے اگ دی گرمی دے سب جد جوشکھ دا تو اسی ( سے( جھگ پیدا ہو گئی اور اس جھگ سے زمین بن ئی گئی پھر اس جھگ سے جو بخ رات پیدا ہوئے انہ ن سے اصل م دہآسم ن دا بنی اور موج ن دے سمٹ ج ندے سببوں پہ ڑ پیدا ہوئے۔ زمیناز ت لرزہ آمدہ۔۔۔۔۔۔۔۔ فرو کوفت بردانش میخ کوہ۔۔۔۔۔۔ زمین پرپ نی کھڑا ہوندے سب ہر وقت ھ دی سی الله تب رک وت لی نے اسدی بےقراری دور کرن واسطے انہ ن ٹھ ٹھ ندی اور سمٹ و سے پہ ڑ پیدافرم کے زمین پر ق ئ فرم ئے اور اک بج ی پہ ڑان وچ پہنچی اسے م دن ی نی کھ ن پیدا ہوی ن اور جد لوہ پتھر سے ٹکرای اس سے چنگ ڑی پیدا ہوکے اگ ابل اٹھی اور اس اگ سے دوزخ ک م دہ طی رہوا۔ ب د ازاں زمین نو پھیلای ۔ والارض ب د ذلک دجہہ ت کہ حیوان ت۔ وحشی ج نور اور درندے اتے چوپ ئے اس وچ مق کرن۔ پھر زمین دے ست طبقے بن ئےاتے ہرطبقے وچ الگ الگ مخ وق ت مق ٹھرائےاور اگ دے ش ی ن سے جن ن نو بن ی اور زمین پر اہن ن نو مس ط فرم ی ۔ بہشت ستوین آسم ن تے ب ندی بخشی اور دوزخ ستوین زمین دے ت ے ق ئ فرم ئی اور جہ ن دی روشنی دے واسطے سورج۔ چند اور ست رے چمک ئے۔ فوائد نجو ۔ نور اور ظ مت دے م دی ں سے دن اور رات پھرتم پیدایش اتے مخ وق ت نو اپنے حبی قری پر قرب ن فرم ی ۔ وافدیت لکی ع یک ی محمد ص ے الله ع یہ وس
تحریریں بھی پیش آخری ب ت اگر الله نے توفی عط فرم ئی' تو دیگر قدی و ن ی کروں گ ۔ یہ تحریریں بلاشبہ اردو ک سرم یہ ہیں۔ قصہءآد ‘ اردو کے داست نی اد میں ایک اہ اض فہ میرے والد محتر قب ہ سید غلا حضور الم روف ب ب شکرالله‘ کتدوستی میں اپنی مث ل آپ تھے۔ ان کے ذخیرہء کت میں‘ جہ ں مطبوعہ کت تھیں‘ وہ ں ان کے بڑوں کے ہ تھ سے لکھے‘ ق می نسخے بھی تھے۔ وہ یہ س ‘ ج ن سے زی دہ عزیز رکھتے تھے۔ ان کے انتق ل پرملال کے ب د‘ یہ س ح لات زم نہ ک شک ر ہو گی ۔ میرے ہ تھ بسدوایک ڈبے لگے۔ ا عمر کے آخری ای میں‘ مجھے اس سرم ئے کو مح وظ کرنے ک خی ل آی ۔ کیوں آی ‘ یہ الگ سے کہ نی ہے۔ اگر زندگی نے مہ ت دی‘ تو یہ س انٹرنیٹ پر رکھنے کی س ی کروں گ ورنہ ردی چڑھ ج ئے گ ی ڈاکٹر مس ک ل جیسے شخص کے ہ تھ لگ ج ئے گ ‘ جو میرے ہی گھر والوں سے‘ رق بٹور‘ کر اپنے ن سے چھ پ لے گ ۔ اردو‘ پنج بی ق می نسخےاور میرا لکھ اس کے تصرف میں آ سکے گ ‘ لیکن سیکزوں س ل پرانے پرانے ف رسی نسخوں ک کی بنے گ ۔ خیر جو ہو گ ‘ بہتر ہی ہو گ ۔ زندہ رہ تو ضرور کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش کروں گ ۔ مجھے میری جہ لت نے ہیشہ خوار کی ہے۔ اہل
ق کو‘ جہ لت کے سب ‘ میری بےپسی سے سب لین چ ہیے۔ انہیں ح ل میں موجود کو‘ اسی طرح کسی من ی ی ذات سے جڑی غرض کوب لائے ط رکھ کر‘ مستقبل کو منتقل کر دین چ ہیے۔ دیر ب د سہی میں نے آغ ز کر تو دی ہے۔ اردو کے داست نی اد میں‘ فورٹ ولی ک لج کی داست نیں‘ زی دہ تر ریک رڈ میں آئی ہیں۔ بیرون میں رج ع ی بیگ سرور کی داست ن کو شم ر میں رکھ گی ہے۔ ب ب ئے اردو نے ملا وجہی کی نثری داست ن‘ س رس کو داست نی اد ک حصہ بن ی ہے۔ یہ اردو میں ہے ی نہیں‘ قط ی الگ سے بحث ہے۔ سرک ری ک رخ نوں سے ہٹ کر بھی ک ہوت رہ ہے۔ محق حضرات کی نظر‘ اس ج ن بہت ہی ک گئی ہے۔ علامہ اقب ل کو ب طور ش عر س ج نتے ہیں‘ لیکن علامہ مشرقی بھی ش عرتھے‘ کوئی نہیں ج نت ۔ یہ ہی صورت ف رسی کے فردوسی کی ہے۔ غیر سرک ری شخص‘ خواہ اس کی ع می وادبی حیثیت کچھ بھی رہی ہو‘ ریک رڈ میں نہیں آ سک ۔ ک غذ پر لکھ م مولی پرزہ بھی‘ اپنی حیثیت میں بےک ر محض نہیںہوت ۔ زب ن کی ورائٹی فراہ کرنے کے س تھ س تھ اپنے بدن پر م وم ت سج ئے اور بچھ ئے ہوت ہے۔ اب حضور کے کت بی ورثے سے‘ ایک اٹھ ئیس ص ح ت ک رس لہ دستی ہوا ہے۔ اس کے پہ ے دس ص حے پھٹے ہوئے ہیں۔ ص حہ گی رہ سے‘ تخ ی آد ک قصہ شروع ہوت ہےاور یہ ص حہ ست ئیس پر خت ہوت ہے۔ ص حہ پر کت بوں کی فہرست اور آخر میں ن شر ک ات پت درج ہے۔ اسی لیے میں اسے‘ قصہ آد کن دینے کی جس رت کر رہ ہوں۔ یہ دراصل ف رسی سے اردو ترجمہ کیہوا ہے۔ اس کی اصل خوبی یہ ہے کہ یہ دو ک لمی ہے۔ پہ ے ک ل میں‘ اصل متن درج ہے‘ ج کہ دوسرے ک ل میں اردو ترجمہ پیش کی گی
ہے۔ ص حہ ست ئیس پر جہ ں قصہ تم ہوت ہے‘ وہ ں ن شر نے اپنی طرف سے فقط چ ر سطور میں کچھ لکھ ہے اور اس کے ب د اپن پنج بی میں‘ آٹھ اش ر پر مشتمل حمدیہ کلا درج کی ہے۔ ن شر کی چ ر سطور ملاحظہ فرم ئیں: حمد وشکر کے ب د واضح ہو کہ یہ کت ب د الجہ ن پورانی ق میکوشش ہےاسکو تلاش کی۔ اور اسک ترجمہ کرا کے۔ آدھے ک ل میں ف رسی اور آدھے ک ل میں اردو بڑی کوشش کے س تھ چھپ ئی۔ اللهص ح اس ع جز کی کوشش کو قبول فرم ئے۔ اسک کوشش کرنیوالا فقیر فضل ح ابن ح جی محمد علاؤالدینص حہ سے م و ہوت ہے یہ ت جرکت ہیں اور ان ک کت خ نہ پتو منڈی نوآب د ض ع لاہور تحصیل چونی ں میں تھ ۔ گوی اس کت ک ن ب د الجہ ن تھ ۔ ق می نسخہ تھ جو پران تھ ۔ دستی نہ تھ ۔فقیر فضل ح کے ع میں یہ کت تھی اور وہ اس سے دل چسپی رکھتے تھے اسی لیے اس ک کھوج لگ ی اور ش ئع کی۔کے مط ب یہ بہت اس جگہ ک موجودہ ن پتوکی ہے۔ گزٹبڑی ک ٹن کی منڈی تھی اور م روف تھی‘ نوآب د نہ تھی۔ گوی کت کیسے پہ ے کی ٹھہرتی ہے۔ اس طب عت نوآب د کے حوالہ سے‘حس سے‘ اصل ف رسی تخ ی سو پچ س س ل اس سے پیچھے ج تی
ہے۔ ف رسی اس و تک حیرت انگیز طور پر س دہ اور ع فہ ہے۔ :مثلا یہ جم ے ب طور نمونہ ملاظہ ہوں م ر سی ہ دہن کش دہ اب یس جست زدہ در دہن او ج کرد۔ بمجرد رفتن ل در دہن اب یس کرد۔ کہ ازاں زہر پیدا شد چوں ط ؤس گ ت خو کردی۔ ازیں سخن پ ئے او سی ہ شدند۔ مترج کے مت آخر میں م وم ت موجود ہیں: محمد حسن۔ س کن نشی لبیہ۔ ض ع مظ ر گڑہ۔ ح ل مدرس مترج نے‘ ک ی طور پر ل ظی اور ب مح ورہ ترجمہ نہیں کی ہے‘ ت ہ ترجمہ بے لذت اور بے ذائقہ بھی نہیں ہے۔ مترج نے‘ اردو ف رسی اش ر‘ حک ی ت اور موقع کے مط ب احک م ت ک اض فہ کی ہے۔ ترجمے میں ایک دو جگہ پر‘ عج ت ک گم ن گزرت ہے۔ وق ے کے علاوہ‘ کسی علامت ک است م ل نہیں ہوا ہے۔ علامتیں ان کے ہ ں مستمل نہیں ہوں گی ی اصل کی ییروی میں‘ صرف سکتے سے ک لی گی ہے۔ اس قصے کے ب ض مندرج ت سے کوئی مت ہو ی ن ہو‘ اس میںداست نی لوازم ت بہرطور موجود ہیں۔ تم کردار‘ اپنے ہونے اور اپنے کیے ک احس س دلاتے ہیں۔ کہ نی میں دل چسپی ک عنصر موجود ہے۔ رائٹر موقع م تے ہی‘ موقع کے مط ب اخلاقی پیغ بھی چھوڑت ہے۔ س سے بڑی ب ت یہ ہے کہ یہ ب ق عدہ ایک پلاٹ پر استوار ہےاور
اس میں ایک ب ربط کہ نی موجود ہے۔ اسے اردو کے داست نی اد میں‘ ایک اہ اض فہ قرار دین غ ط نہ ہو گ ۔ اس قصے کے مط ل ہ سے‘ ق بل غور اور الگ سے م وم ت بھی میسرآتی ہیں۔ م روف یہ ہی چلا آت ہے‘ کہ دانہءگند پہ ے حضرت آد ع یہ السلا نے کھ ی ‘ ج کہ اس قصہ سے م و ہوت ہے‘ کہ دانہءگند پہ ے ام ں حوا نے کھ ی ۔ اسی طرح یہ بھی پت چ ت ہے‘ کہ حضرت آد ع یہ السلا کی پ نچ سو ج ت ی نی ہزار اولادیں تھیں۔ یہبھی م و ہوت ہے‘ کہ بت پرستی ک آغ ز ق بیل سے ہوا۔ مزید چند ایک مث لیں ملاحظہ ہوں۔ ج فرشتوں نے سر اٹھ ی ۔ تو شیط ن کے گ ے میں ستر من ل نت ک طو پڑ گی ۔ جہٹ فرشتوں نے دوسرا سجدہ کی ۔ پہلا ک مہ الله واحد لاشریک ہے آد ص ی الله ک ہے۔ دوسرا ک مہ اللهت لے واحد اسک کوئی شریک نہیں محمد بندہ الله ک ہے پیغمبر ہے جن ک۔ آد اور حوا کو آسم ن پر ب عدن بہشت میں لاؤ۔ اسوقت بہشت سے ب ہر ج ن بغیر گند کہ نے کے مح ل تھ ۔ حوا نے کہ لی ۔ مگر ادھ دانہ نہ کہ ی تھ ۔ آد نے بھی دانہ ب قیم ندہ نصف کہ لی بوجہ۔۔۔۔ تو اسکو پ خ نہ کی ح جت پڑ گئی۔ آخر ب د ستر برس کے حوا اور آد کی ملاق ت ہوئی۔
ک بیل کو چونکہ محبت تہی لاش کو پھینکن ن گوار سمجہکر اپنی پشت پر اٹھ لی ۔ چن نچہ چھ م ہ ک عرصہ گذر گی ۔جبرائل بحک ر ج یل انکو بہشت میں لیگی ۔ تین ہزار برس عدن میں آد ع یہ السلا رہے کہتے ہیں کہ حضرت آد فرزند پ نچسو ج ت تھے۔ عورتیں دین اورعقل میں دسترس نہیں کر سکتیں۔اور کہ کہ ہر صبح نہ کر ط کھ ن اور اس بت کو سجدہ کرتے رہن ۔ ل ظوں کی املا مخت ف تھی۔ مثلا خود میں ان ک سر طی ر کروں گ ۔ نوں غنہ ک حشوی است م ل موجود نہ تھ ۔ مثلا دونو کوے ق بیل کے روبرو لڑتے ہوئے م ب پ بیٹ ایکدوسرے کو دور کر دے گ ۔ نون غنہ کی جگہ‘ لون ک است م ل بھی کی ج ت تھ ۔ مثلا میں اس زم نہ عیش و عشرت کر لون۔ ل ظوں کو ملا کر است م ل کرن عمومی اور مست مل رویہ تھ ۔ مثلا
نیچے سے تمکو دکھ ئی دیگ سوچکر کہنے لگ ۔ اس گھر رحمت نہیں اتریگی۔ گند کہ نیکی وجہ سے اپن ہی ہر ایک بوجھ اوٹھ ئیگ ۔ ایکدف ہ بہشت میں ج نے دو ق بیل نے دیکہکر ویس کی ۔ب ض ل ظوں ک است م ل اور ت ہی ‘ آج سے الگ تر ہے۔ مٹلا آد ک برح ل رہ ۔ قبر کے کھودنے کی تجویز ک بیل کو م و نہ تہی۔ شیط ن پروردگ ر جل عزاسمد کے مخ لف اصلاح کرنے لگ ۔فرشتوں نے خدائے عزوجل کے حک سے آد کے قد کو بن ی زمین پر ڈالدے ت کہ میرے قد ک م ئنہ کریں۔ انہوں نے مٹی بودار د کی تجہے موت کیچ شنی دونگ ۔ اسواسطے کہ میں نہ ئت رض مند ہوں آد سے۔ دونوں ک مہ ک ح ظ کی کرو
میوہ وغیرہ ک ن شتہ کرو شیط ن نےس نپ کے ہ ں کہ تھ بہشت کے ب ہر آد کی جستجو کریں۔ دین اورعقل میں دسترس نہیں کر سکتیںقدی اور جدید اردو میں‘ مونث اور مذکر ک است م ل مخت ف ہے‘ یہ است م ل اپنی اصل میں درست ہے‘ لیکن آج رائج نہیں۔ مثلا تجہکو خوف نہیں آئی تو م ون ہوا ہے۔ بہشت کے درب ن کے پ س ام نت ج رکھ ۔ ج حوروں نے آواز سن مح وروں ک است م ل اور م نوی ب د بھی موجود ہے۔ س کو ہ تھ افسوس م ن پڑے گ ۔ اسنے کوے کو وہیں گ ڈ دی ۔ ایک سنگ راست کرکے انکو دیدی حیض کی بیم ری ع رض ہو گئی۔ ہر صبح نہ کر ط کھ ن آد کو بہی جستجو کی تو نہ پ ی ۔
اپنی جگہ کرتے ہی س نپ کے منہ میں ل ڈالدی۔ ت زمین پر ج ٹھہرن یہ عمل درآمد کرکے آسم ن ج ن کی ۔ بولن بھی ص ی کو پہونچ ت ہے گردن موڑن موج غض ہے۔ خوا نہیں کرت تھ پ خ نہ کی ح جت پڑ گئی۔ تسبیحیں کہتے تھے۔ حور سے پرہیز کر گی ہے پرہیز کر گی کو ت کی استواری کے لیے لی گی ۔ س بقوں اور لاحقوں ک است م ل آج سے قط ی مخت ف ہے۔ مثلا جبرائیل نے غصہ ن ک ہو کربی رم نی کے بہشت سے بہت اہ نت کے س تھ نک لنے والے ہیں۔ ک بیل۔ تو بی رم ن ہو گی ہے ضم ئر میں واؤ کی بڑھوتی کر دی ج تی تھی۔ مثلا متکبر اونکو پست سمجھے۔
اونہوں نے کہ اوس نے کہ مجہکو اتنی ط قت ہے۔ اون کی ن ف پر اپنے منہ سے ل نک لکر لگ لی مص در میں بھی‘ واؤ کی بڑھوتی موجود تھی اور یہ عمومی اور مست مل چ ن تھ ۔ مثلا جسوقت نیند میں ہووے خط پ وے جو وہ ن ری ہے آد بہشت میں ج ویگ ۔پرانی اردو میں‘ بھ ری آوازوں سے زی دہ‘ ہ کی آوازوں ک است م ل کی :ج ت تھ ۔ اس کت سے‘ اس ذیل میں‘ چند ایک مث لیں ملاحظہ ہوں ت مس م ن کبہی نہیں ہو گے بھ تہوڑے دنوں کے ب د تھ ایک روز حوا رضی الله عنہ بیٹہے تھے ٹھ مجہے اس بت سے بدبو آتی ہے۔ جھ جہٹ فرشتوں نے دوسرا سجدہ کی ۔ جھ اونہوں نے پوچہ تمہ را کی ن ہے۔ چھ ورنہ پچہت ن پڑیگ ۔ چھ
یہ نہ ئت اندہیر کوٹھ ہے۔ دھ لا حول پڑہت رہے ڑھ پھر بہشت کو دیکہوں گ ۔ کھ ج اندر گہس گی گھ بھ ری آوازیں بھی است م ل میں تھیں۔ مثلا افسوس میں کوے سے بھی کمتر ہوں۔ بھ پھر ج ن ک کو روح پہونچی پھ پہ ے ن ر ہی سے تھ تھ فرشتوں نے سر اٹھ ی ٹھ اونکو پست سمجھے۔ جھ پوچھنے لگے وہ کہ ں ہے۔ چھ مثلا ہ تھ دھون ۔ منہ دھون ۔ دھ درب ن کے پ س ام نت ج رکھ ۔ کھ سو جس گھر کت ہو گ گھفصل در بی ن مہتر آد ع یہ السلا اور ہ بیل اور ک بیل کے بی نمیں
فرم ت ہے پروردگ ر۔ اے آد خبر دی اونکو شیط ن کے ن سے ج آد نے ن بتلائے تو حک سجدہ ک ہوا۔ ج چوتھی قرن کی آمد ہوئی تو خداوند ت لی نے حک دی جبرائیل میک ئیل اسرافیل عزرائیل عزازیلکو کہ ت زمین پر ج ٹھہرن ۔ فرشتوں نے حس فرم ں ر الج یل زمین پر آتے ہی حک سن ایک مرد دری کے نیچے سے تمکو دکھ ئی دیگ وہ نورمحمد ع یہ السلا ہو گ ۔ اور گل آد ہو گی اوسکو لیکر آد ک اعص راست کرن ۔ اگر تمکو کچھ راست کرنیکی تجویرید ہو۔ تو ست رہجو آد کے قد مواف ہیں انکے برابر بن ن ۔ اور خود میں ان ک سر طی ر کروں گ ۔ فرشتوں نےیہ عمل درآمد کرکے آسم ن ج ن کی ۔ ب د اسکے عزازیل کے دلمیں آی ۔ کہ کل کو یہ گل آد بہشت میں ج ویگ ۔ ہ کی کرینگے۔ اس ح لت اسکے غ پیدا ہوا۔ چ ہ کہ کسی اٹکل سے اسکولائ بہشت کے نہونے دیں۔ سوچنے کی ب ت ہے۔ تکبر یہ ہے کہ جسک مرتبہ خدا عزجل نے ع و کو پہونچ ی ہو۔ متکبر اونکو پست سمجھے۔ فی الحقیقت وہ ح کے مخ لف کرنیکی وجہ سے متکبر خدایت لی ک مق بل بن گی ہے۔ ۔۔۔۔چ ہیے کہ حک خدا کے سرکشی سے ب ز رہیں۔ورنہ تکبر یہی ہے ب ینہ اس غدر سے خط پ وے جو وہ ن ری ہے ۔۔۔۔۔ وہ طو عزازیل اسکے گ ے ہو۔ خبیث اور م ون کہینگے۔ ص- یہی سوچ کر کہ بہشت کے لائ نہو۔ گھوڑوں کی طرف گی ۔ انکے ہ ںکہنے لگ کہ ت خوشی کر رہے ہو۔ اور تمہ رے واسطےآد پیدا ہو چک ہے۔ کل تمہ ری پیٹھ پر سواری کریگ ۔ تمکو تکیف پہونچ دے گ ۔ اونہوں نے جوا دی کہ ہم رے م لک کی خوشنودی اسی میں ہے تو ہ نہ یت رض مندی سے انک محکو ہون پسند کرینگے۔ شیط ن نے سوچ میرا داؤ یہ تو نہ لگ ۔ کوئی اور تجویز کرنی چ ہیے۔ سوچکر
کہنے لگ ۔ عج ہے کہ ت اورآد ایک خ ل کی پیدائش ہیں۔ وہ آد ت پر سواری کر۔ لای قل گھوڑوں نے داؤ کھ لی ۔ پوچھنے لگے وہ کہ ںہے۔ اب یس م ون نے کہ کہ جو ن ف زمین ک ہے وہ ں ہے۔ جھٹ دوڑکر پ ش پ ش کر دی ۔ پھر ب رہ س ل کے عرصےکے ب د س فرشتوں کوحک ہوا۔ کہ دوسری دف ہ آد ک بت بن ؤ۔ شیط ن پروردگ ر جل عز اسمد کے مخ لف اصلاح کرنے لگ ۔ اور کہ اے میرے ر اگر حک ہو تو نور ی ن ر ی ہوا ی پ نی سےآد ک بت بن ئیں۔ اسواسطے کہ زمین مین بےزب ن ج نور ہیں۔ انکو توڑ ڈالتے ہیں۔ خط عزوجل ہوا۔ الا یہ میںخو ج نت ہوں تمکو خبر بہی نہیں۔ آد ک قد پہ ی طرح بن ؤ۔ دیکہو یہ اصلاح مخ لف ر ت لے اب یس کر رہ ہے۔ یہی مرحب ہو ہے۔ ص۔مخ لف حک ر الج یل اپنی رائے اور اصلاح کو دخل دین موج ہلاکت ہے۔ اس سے پرہیز کرن ۔ شیخ س دی ع یہ الرحمتہ فرم تے ہیں۔ بیت اگر ش ہ روز را گوند ش است ایں ۔۔۔۔۔۔۔۔ بب ئید گ ت اینک مہ پرویں مخ لف صلاح کو کہ ں۔ بولن بھی ص ی کو پہونچ ت ہے۔ فرشتوں نے خدائے عزوجل کے حک سے آد کے قد کو بن ی ۔ لکن بن کر واپسآسم ن پر اپنے اپنے مک ن پر چ ے گئے۔ اب یس اکیلا آد کے پ س رہ ۔ج آد اکیلا ہوا تو اون کی ن ف پر اپنے منہ سے ل نک لکر لگ لی پھر آسم ن پر چلا گی ۔ پھر دس برس کے ب د الله ت لی ک حک ہواکہ اے جبرائیل میک ئیل س ج کر ع یتیں جو مق چوتھے آسم ن پر ہے وہ ں سے روح آد ع یہ السلا ک لیکر انکے بدن میں ڈالو۔ ج فرشتے پروردگ ر کے حک سے روح پ ک کو پردہ میں لیکر بتکے قری لائے۔ تو روح القدس کو جسوقت ڈالنے لگے اس نے کہ کہ
مجہے اس بت سے بدبو آتی ہے۔ خدا کی جن میں آد نے عرض کی اے ب ر خدای مجہے بدبو آتی ہے۔ اس سے مجہے پن ہ میں رکھ۔ خدا مہرب ن نے حک دی کہ اے جبرائیل جو جگہ بدبودر ہے اونکو دور کر دے۔ ج انہوں نے مٹی بودار د کی تو اس مٹی ل شیط ن سے کتپیدا ہوا۔ وہ کت آواز کرت بت کے قری بیٹھ گی ۔ وہ فرشتے روح مقدسکو س تھ لیکر آسم ن پر چ ے گئے۔ حتے کہ ستر برس کے عرصہ تک قد آد بم ہ سگ وہ ں رہ ۔ ی نی فرشتوں کو آنے نہیں دیت تھ ۔ ص- اور وہ کت کسی فرشتہ اور حیوان کو س تھ گزرنے نہ دیت تھ ۔ خوا نہیں کرت تھ ۔ یہی وجہ ہے کہ کت اب یس کی ل سے دارمٹی سے ہے۔ شیط ن مردودورحمت سے محرو ہے ب کہ جس جگہ شیط ن ہو رحمت نہیں ہو گی۔ سو جس گھر کت ہو گ بغیر ضرورت ح ظت یشک ر خواص کے اس گھر رحمت نہیں اتریگی۔ ات ق اراوت ازلی اسکونیند آ گئی۔ فرشتوں کو حک ہوا شت بی روح قدس آد کے بدن میں ڈالو۔ ج جرائیل حس فرم ن ر ت لے بم ہ مقرب ن پردہ سے روح مقدس کو لیکر آئے تو روح مقدس نزدیک بت کے پہونچکر کہ کہ یہ نہ ئتاندہیر کوٹھ ہے۔ ی ر ت لے مجہےاپنے فضل سے ایکدف ہ اسی جگہ سے مجہے نک لن ۔ ت کہ میں اس زم نہ عیش و عشرت کر لون۔ الله ت لے نے حک دی کہ تجہے ضرور ایکدف ہ اس بدن سے نک لوں گ ۔ اور وہ نک لن تمہ ری موت ہو گ ۔ پروردگ ر فرم ت ہے س چیز کو مرن ہے مگر الله کو نہیں ہے۔ تجہے موت کیچ شنی دونگ ۔ اورآد ک سر خدایت لے نے سنگ مرمر سے راست کی تھ ۔ اسی وجہ سے آدمی کسر سخت ہوت ہے۔ اورج روح مقدس میں ڈالی گئی۔ تو سر کے راستہ ڈالی گئی۔ ص۔
اور ارش د فرم ت ہے الله ت لے میں نے روح مقدس کو ڈالکر بدن میںآد کے کہ اسکوسجدہ کرو۔ ج آد نے آنکھ کہولی تو روح نے آنکھ کے ذری ہ سے جہ ن کو دیکھ کر خوشی ح صل کی۔ پھر ج ن ک کوروح پہونچی تو آد ع یہ السلا کو چھینک آئی۔ تو کہ س ت ریف اللهت لے کی ذات کو ہے جو ر ال مین ہے ج روح منہ میں آئی تو ہر قس کی چ شنی گیر ہوئی۔ آد ع یہ السلا نے ویسی ہی خدائے خ ل کی حمد کہی۔ پھر خداے یت لے نے فرشتوں کو حک دی کہ آد ع یہ السلا کو سجدہ کرو۔ اسواسطے کہ میں نہ ئت رض مند ہوں آد سے۔ بمجرد حک ح ک ت لے کےس فرشتوں نے سجدہ کی مگر اب یسمردود نے کہ ۔ کل میں نے اپنے ہ تھ سے بن ی ہےیہ مجہے درجہ میںبھی ہے۔ اسی وجہ حقیر ج ن ۔ اور احک الح کمین کے حک سے عدول کی ۔ م مون مقہور ہوا۔ ح ک حقیقی کے حک سے گردن موڑن موج غض ہے۔ ج غلا حبشی درجہ میں بڑھ ج ئے تو اسک حک عین پروردگ ر ک ہوت ہے۔ اس سے سرکش نہون ورنہ پچہت ن پڑیگ ۔ کسی نے سچ کہ ہے۔ بیت حکمران ہو کوئی بچ پن ہو ی بیگ نہ ہو دی خدا نے جسے عزت اسکی عزت چ ہئے ص- عزتدار کی ذلت کرن اپنی ذلت ک موج ہے۔ ج فرشتوں نے سر اٹھ ی ۔ تو شیط ن کے گ ے میں ستر من ل نت ک طو پڑ گی ۔ م و ہوا کہ الله ت لے کے حک سے سرکش ہوا ہے۔ جہٹ فرشتوں نے
دوسرا سجدہ کی ۔ اب یس نے عرض کی آپ ک حک ایک سجدہ ک تھ ۔ یہ دوسرا سجدہ کیوں کر رہے ہیں۔ حک ہوا میرے خوف سے سجدہ میںپڑے ہیں۔ تجہکو خوف نہیں آئی تو م ون ہوا ہے۔ میرے حک کو پس پشت کر دی ہے۔ میں نے تجہے مردود کی ہے۔ تیری عب دت دنی میں تجہے دوں گ اور آخرت میں تو عذا الی ک مستح ہو گ ۔ پھر عزازئیل کہ ن انک پہ ے ن ر ہی سے تھ ۔ آد ع یہ السلا سے بھ گ گی ۔ تہوڑے دنوں کے ب د جبرائیل نے آد ع یہ السلا کو یہ ک مے سکھ ئے وہ یہ ہیں۔ پہلا ک مہ الله واحد لاشریک ہے آد ص ی الله ک ہے۔ دوسرا ک مہ الله ت لے واحد اسک کوئی شریک نہیں محمد بندہ الله ک ہے پیغمبر ہے جن ک ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سمجہ ی کہ ان دونوں ک مہ ک ح ظ کی کرو ج آد ع یہ السلا زمین پر سو گئے تو انکے ب ئیں کروٹ سے حوا رضی الله عنہ پیدا ہوئی۔ پھر ج دی خدا ک حک ہوا کہ اے جبرائیل آد اور حوا کو آسم ن پر ب عدن بہشت میں لاؤ۔ جبرائل بحک ر ج یل انکو بہشت میں لیگی ۔ تین ہزار برس عدن میں آد ع یہ السلا رہے جبکہ ر ت لے ارش د فرم ت ہے ی د کرو اے محمد کی ہمنے اے آد بمہ اپنی جورو بہشت میں رہ ص میوہ وغیرہ ک ن شتہ کرو اور اس درخت کے قری ہرگز نہ ج ن ۔ نہیں تو ظ ل ہو ج ؤ گے۔ ج گذرنے کو مدت پہونچی تو ایکدن عزازئیل ایک گوس ند لیکر بہشت کے درب ن کے پ س ام نت ج رکھ ۔ اور کہحس ضرورت تمسے لے لوں گ ۔ درب ن نے کہ بہت اچھ ۔ لکھتے ہیں۔ کہ آد اور حوا نے درب ن سے پوچھ یہ دنبہ کہ ں سے آی ہے۔ انہوںنے کہ عزازئیل کی ام نت ہے۔ آد ع یہ السلا نے جھٹ ذبح کرکے کھ
لی ۔ اب یس چند ای کے ب د آی ۔ اب یس نے فرشتوں سے ام نت ط کی۔انہوں نے کہ ۔ کہ آد ع یہ السلا نے نوشج ں فرم ی ہے۔ اب یس خوش ہو کر آواز کرنے لگ ۔ اے بیٹے واسوس کہ ں گیے ہو۔ جوا دی کہ میں آد اور حوا کے سینے میں گھر بن ئے بیٹھ ہوں۔ شیط ن نے کہ رحمت ہو تمکو۔ کہ پہلا ن س آد ک تو بن ہے۔ جیس کہ ر ت لے ارش د فرم ت ہے ی نے وہ انس ن کے سینے میں وسوسہ ڈالنے والاآدمی اور جن سے ہے۔ ج تین ہزار برس تم ہوئے۔ تو شیط ن بہشت کے دروازے پر ایکدن پہونچ ۔ ص۔ اسوقت ک لا س نپ اور ایک مور درب نی کر رہے تہے۔ انکے ہ ں ج کر کہنے لگ مجہے ایکدف ہ بہشت میں ج نے دو میں تجہکو تین ہزار فری ان کروں گ ۔ اونہوں نے پوچہ تمہ را کی ن ہے۔ جوا دی ۔ کہمیرا ن عزازیل ہے۔ اونہوں نے کہ کہ تجہکو اندر ج نے ک حک نہیں۔ اسواسطے کہ تو م ون ہوا ہے۔ لائ بہشت تو نہیں ہے۔ اوس نے کہمجہکو اتنی ط قت ہے۔ اگر ت مجہکو اپنی آنکھ جگہ دیویں تو غ ئ ہو ج ؤں گ پھر بہشت کو دیکہوں گ ۔ اسوقت م ر و کوا درب ن تھے۔ اور مور اندر تھ ۔ س نپ نے کہ اگر ت ج دی ب ہر آؤ گے۔ تو تمکو لے ج ت ہوں۔ س نپ نے وعدہ کی ج دی ب ہر آؤنگ ۔ س نپ نے منہ کھولا۔ جھٹ شیط ن اسکے منہ میں گھس گی ۔ اپنی جگہ کرتے ہی س نپ کے منہ میں ل ڈالدی۔ کہ اس سے یہی زہر پیدا ہوا ہے۔ اوسوقت مور نے کہ ۔ تمنے بہت اچہ کی ۔ اس ب ت کے کہنے سے اس کے پ ؤں سی ہ ہو گئے۔ لیکن شیط ن نےس نپ کے ہ ں کہ تھ کہ اندر میں جو کچہ میں کروں ت چپ چ پ رہن چن نچہ س نپ نے ایس ہی کی ۔ ج اندر گہس گی تو شیط ن رونے پیٹنے لگ ۔ ص۔
ج حوروں نے آواز سن تو حیران ہو کر خ زن بہشت کو کہنے لگیںکہ تمکو کی ہوا کہ اب یس کو ت نے اندر آنے دی ۔ اور تمہ رے منہ سےآواز کر رہ ہے۔ کہ اے حوا سنو آد اور حوا گند سے محرو ہیں۔ اوہاچھ ط ہے۔ اور دوسرا یہ کہ آد ایک حور پر ع ش ہو گی ہے۔ اور حور سے پرہیز کر گی ہے۔ وہ اس حور کے س تھ مزے اڑا رہ ہے۔ ج حوا نے یہ ب ت سنی تو بہت پریش ن ہوئی۔ آد کو بہی جستجو کی تو نہ پ ی ۔ اسوقت حوا کو اس ل ین کے مکروفری ک خی ل بھول گی تھ ۔ جھٹ حوا کو خی ل آی کہ بہشت کے ب ہر آد کی جستجو کریں۔اسوقت بہشت سے ب ہر ج ن بغیر گند کہ نے کے مح ل تھ ۔ حوا نے کہ لی ۔ مگر ادھ دانہ نہ کہ ی تھ ۔ اس حیض کی بیم ری ع رض ہو گئی۔ کہتے ہیں عورتیں دین اورعقل میں دسترس نہیں کر سکتیں۔ اسوقت سے حی اور شر شروع ہو گی ہے۔ ب د اسکے جبرائیل امین کو حک سرک ر اعظ سے ہوا کہ حوا کو بم ہ س نپ اور کبودک اور مور ب ہر نک لیں اور زمین پر ڈالدے ت کہ میرے قد ک م ئنہ کریں۔ جبرئیل ع یہالسلا حس الحک ک روائی شروع کرکے نک لدی ۔ ج آد کو خبر گذری کہ حوا کو گند کہ نیکی وجہ سے الله ت لے نے بہشت سے نک لکرزمین پر ڈالدی ۔ جھٹ آد نے بھی دانہ ب قیم ندہ نصف کہ لی بوجہ۔۔۔۔ تو اسکو پ خ نہ کی ح جت پڑ گئی۔ اسوقت حک ہوا کہ اے جبرائیل ج کر بہشت سے آد کو برہنہ کرکے نک لدے۔ بوجہ اسکے کہ میرا ن فرم ن ہوا ہے اور یہ ں ن پ کی کرت ہے اور بہشت پ ک جگہ ہے۔ ص۔ ج جبرائیل الله کے حک سے بہشت میں گئے تو کی دیکھتے ہیں کہ آد ع یہ السلا گند سے اپن پیٹ بھرے کھڑا ہے۔ جبرائیل نے غصہن ک ہو کر تم کپڑے مثلا ج مہ دست ر ٹوپی وغیرہ چھین لئے۔ ج سر سے کلاہ ات ری تو آد ع یہ السلا نے اپنے ہ تھوں کو سر پر کر لی ۔
اس وجہ سے سر ک مسح فرض ہے ی نے چہ رفرض اسوقت کے بہی ہیں۔ مثلا ہ تھ دھون ۔ منہ دھون ۔ سر ک مسح کرن ۔ پ ؤں ک دھون ۔ پھر کپڑے اوت ر کر آد جو ہم رے ب پ ہیں پیغبر خدا۔ مقبول خدا کہ بوجہمذکور کے پکڑ زمین پر ڈالدی ۔ کل شی مرجع اے اص ہ خ کی آد خ ک کیطرف گی ہے۔ وہ کوہ ق ف میں رہے۔ ستر برس تک حوا ع یہ السلاسے جدا رہے۔ آد کے رونے سے ف ل بیدا ہوئی۔ اور حوا کے رونے سے مروارید بنگئے۔ وہ جبرائیل جو پہ ے ت ظی و تکری کرنے والا تھ ۔ وہی بوجہ ایک بی رم نی کے بہشت سے بہت اہ نت کے س تھ نک لنے والے ہیں۔ مولوی رو ص ح فرم تے ہیں۔ یک گن ہ چوں کرد گ تندش تم مذہنی مذہنی بیروں خرا تو طمع میداری چندیں گن ہ داخل جنت شوی اے روسی ہ ص۔آخر ب د ستر برس کے حوا اور آد کی ملاق ت ہوئی۔ کسی نے کہ ہے۔ بیت ہر د دع ہ میکن بر خ ک مے ع ل جبیں جمع کن ب د و ست ی ج مع المت رقیں پھر حک جبرائیل کو ہوا کہ ایک جوڑا اور کچہ گند بہشت سے لیکرآد کو دیدے۔ جبرائیل نے آد کو جوڑا اور کچہ گند حوا کو دیدی اور کچہ آد کو دی۔ خدا کے حک سے ہل جوت کر بیج ڈالا۔ آد کے بیج
سے گند اور حوا کے بیج سے جو پیدا ہوئے۔ حک یت ایک روز حوا رضی الله عنہ بیٹہے تھے مت کر ہو کر۔ بہشت کی ن متیں ی د کر رہے تھے۔ تسبیحیں کہتے تھے۔ کہ ر ج یل رحمن۔ غ ورالرحی من ن تیرا ہر وقت احس ن بہشت میں عجی ن متیں تو دیت تہ ۔ شربت پلات تھ ۔ شیر شہد سے عجی تھے۔ ا آپنے کبھی نہیں عن یت فرم ئی میرا بخت سی ہ ہے تیری ن فرم نی سے ن گ ہ خند میں گر گئی ہوں۔ کوئی پوچھت نہیں۔ بیت ی د میں ن مت کے رہے ہر د کھ تے تھے بہشت ذو سے پیہ ح شیہ :ہندوانہ اور خربوزہ وہ ں کے ہیں ص۔ فری د سن کر الله ت لے فرم ی ۔ کہ اے جبریل دو خربوزہ لیکر ایک حوا کو دوسرا کو دیدے جبریل ویس ہی کی ۔ حوا ح م ہ تھیں۔ اسوجہ سے حوا ک خربوزہ ہندوانہ بن گی ۔ اور آد ک برح ل رہ ۔ ایکدن جبریل کو حک ہوا کہ حوا کے ہ ں دو بچے صبح اور دو بچے ش ہونگے اوردو بچے پہ ے پیدا ہوں انکو شت بی جدا کرن اور انک ن ہ بیل اور ک بیل رکہن ۔ اور جو لڑکی ں ش کو پیدا ہوں پہ ی ہ بیل کو اور دوسری ک بیل کو بی ہ دین ۔ ات ق دوسری لڑکی ایک آنیکھ سے دیکھ نہ سکتی تہی۔ ک بیل نے منظور نہ کی ۔ اور ہ بیل کی عورت کو لی ۔ ج آد ع یہ السلا تہوڑی دیر کے ب د آئے تو کہ ۔ اے ک بیل۔ تو بی رم ن ہو گی ہے اور غضبن ک ہو کر ک بیل کو کہ ۔ تو نے برا کی ۔ اور تو ک فر بن گی ہے۔ مجھ سے ت دونو دور ہو ج ؤ۔ اور کہیں اور زراعتک ری کرو اور اپن
بسیرا کرو۔ ندا آید درانگہ دور شو دور قی مت کے روز جسطرح حضرت آد ع یہ السلا اپنے مقر بیٹے کو ن فرم نی کی وجہ سے دور کر رہ ہے۔ اسی طرح م ب پ بیٹایکدوسرے کو دور کر دے گ ۔ اور اپن ہی ہر ایک بوجھ اوٹھ ئیگ ۔ ص۔الائیہ۔ بغیر عمل توحید کے رسول بھی ش عت نہ کرینگے۔ س کو ہ تھ افسوس م ن پڑے گ ۔ شیخ عط ر فرم تے ہیں۔ بیت۔ ہست س ط نی مس مرا درا نیست کس را زہر چوں وچرا عذر م ذرت کچہ ک نہ آئیگی۔ چن نچہ آد و حوا بغیر پرسش نک لے گئے۔ بی رم ن ک بغیر پرسش دوزخ ج ن پڑیگ ۔ اع ن الله وابوان واست ذن و س ئرالمس مین امیں۔ شیخ س دی فرم تے ہیں۔ ست بر ض ی ن مسکین مکن۔۔۔۔۔کہ ظ ل دوزخ رود بےسخن۔ اور کسی نے کہ ہے۔ وہ سنت نبی جسکو پی ری نہیں۔۔نبی بھی اس سے بیزار ہو ج ت ہے۔ جآد ع یہ السلا سے ک بیل کسی اور جگہ رہنے لگے تو ایکدن عزازیلنے آ کر کہ کہ تو اپنے بھ ئی ہ بیل کو م ر ڈال کیونکہ یہ تجھ سے بڑا ہے۔ پھر تو تم زمین کی ب دش ہی کریگ ۔ ک بیل نے کہ مجہے قتل کرن م و نہیں ہے۔ عزازیل نے کہ جسوقت نیند میں ہووے ت ایک بٹہلیکر اسکے سر خو لگ ۔ اس نے حس کہنے عزازیل کے ک کی ۔ اور ہ بیل مر گی ان لله و ان الیہ راج ون۔ ک بیل کو چونکہ محبت تہی لاش کو پھینکن ن گوار سمجہکر اپنی پشت پر اٹھ لی ۔ چن نچہ چھ م ہ ک عرصہ گذر گی ۔ قبر کے کھودنے کی تجویز ک بیل کو م و نہ تہی۔ ایکدن دو فرشتے کوے کی صورت پر گھڑا کھودا اور اسنے کوے کو
وہیں گ ڈ دی ۔ پھر ک بیل نے بھی ان کو دیکہکر اپنے بھ ئی کو دب ی ۔جیس کہ الله ت لے اپنی کلا پ ک میں فرم ت ہے۔ بھیج الله نے کوے کوزمین کھود کر اپنے بھ ئی کوے کی لاش کو دفن کرت تھ دیکہکر ک بیل نے کہ افسوس میں کوے سے بھی کمتر ہوں۔ اگر کوے جیس ہوت تو اپنے بھ ئی کی لاش کو دفن کرت ۔ یہ کہہکر شرمس ر ہوا۔ دونو کوے ق بیل کےروبرو لڑتے ہوئے ص۔ ایک کوے نے دوسرے کوے کو م ر ڈالا پھر اپنے چونچ اور پنجوں سے گڑہ کھود کر کوے ک دب ۔ق بیل نے دکھکر غ کھ ی ۔ اور کہ کہ میں کوے جیس ہوت تو اپنے ہ تھگڑہ کھودت ۔ اوراپنے بھ ئی کو دب ت ۔ پھر ق بیل نے دیکہکر ویس کی ۔ یہ طریقہ گور۔۔۔ قبر بن نے ک ۔۔۔ یہ ں سے شروع ہوا ہے۔ اور ہ یل کی س قو مس م ن ہیں۔ ایک دن آد نےق بیل سے پوچھ ہ بیل کہ ں ہے کہ مجہے م و نہیں۔ بہت دن سے مجہسے رخصت ہو گی ہے۔ آد ع یہ السلا حیران ہوا۔ خد ا کی جن سے ندا آئی کہ تیرے بیٹے ق بیل نے قتل کر ڈالا ہے۔ ت کہ تجہے م و ہو۔ کہ میرے ایسے بیٹے ہیں۔ تونہینج نت شیط ن انس ن ک دشمن ہے۔ ج آد نے جوا سن تو ق بیل پرغصہ ہوا۔ اور کہ کہ تو نہ یت پرلے درجہ ک ک فر ہے۔ ت مس م ن کبہی نہیں ہو گے۔ جیس کہ ق بیل حران ہوا۔ اسوقت سے شیط ن انس ن ک دشمن چلا آت ہے اور مرتے وقت انس ن کےس تھ بیج حرکتیں کرت رہت ہے۔ مومن کو چ ہئے کہ اس کے فری سے بچے لا حول پڑہت رہے۔ ص۔تھوڑے دنوں کے ب د اب یس نے ق بیل کے پ س آ کر کہ کہ میں جبرائیلہوں خدا یت لے نے تمہ ری طرف بھیج ہے۔ اور کہ ہے کہ اور طریقہ آد ک ب قی ہے۔ وہ ا تجہکو سیکہ ت ہوں۔ ق بیل نے خوش ہو کر کہ ۔ بہت اچھ ۔ تو عزازیل نے خوش ہو کر تس ی اپنی کر لی کہ ابھی اسکو
ک فر کر لوں گ پھر عزازیل نے کہ تجھکو خدا کے ن سکھ ت ہوں۔ انکو ہر وقت ضبط رکھن پھر شیط ن نے مذکورہ ن مردوں اورعورتوں کے بتلائے اور کہ کہ ایک اور بھی ام نت ہے۔ وہ یہ ہے ایکسنگ راست کرکے انکو دیدی ۔ اور کہ کہ ہر صبح نہ کر ط کھ ن اور اس بت کو سجدہ کرتے رہن ۔ اوراپن منھ مشر کو کرن ۔ اور تمہ رے م ں ب پ آد حوا نہیں۔ ب کہ پ ربتی اورمہ دیو ہیں۔ اوراسی راہ پر چ ن ۔اورتمکو جلائینگے۔ یہ قو ک فروں کی اسی جگہ سے شروع ہوئی ہے۔ یہ نہیں ج نتے کہ شیط ن نے اپنے پھندے میں اسکو ڈالدی ہے اور دوزخ ک س کن بن دی ہے۔ خدا نے فرم ی ہے س چیزوں کو اپنی عب دت کے واسطے پیدا کی ۔ اسکے خلاف چل رہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت آد فرزند پ نچسو ج ت تھے۔ ص۔ نقل ۔۔۔۔ ایک روز حضرت آد کے فرزند جمع ہو کر آپس میں صلاحکرنے لگے کہ ب پ کو م ر ڈالئے اور ب دش ہ اور پیغمبر ہم رے واسطے ن زل ہو ج ئیگ ۔ اسی مشورہ میں تھے کہ الله ت لے آد کو خبر دی کہ تمہیں فرزند م رن چ ہتے ہیں۔ اگر ت چ ہو۔ تو اونکو م ر ڈالو اورپھر انک ر آپک کبھی نہو۔ آد نے کہ ی خدای کوئی اور تدبر کرو۔ تو الله ت لے نے جبریل کو حک کی کہ بہشت میں ب نگ دو۔ جبریل حس الحک ر الج یل ب نگ دیدی تو اونکو آواز سنتے ہی انکی زب نیں بدل گئیں۔ جیس کہ عربی ف رسی وغیرہ جو آپسمیں مشہور ہیں۔ ایکدوسریک سخن نہیں سمجہتے تہے۔ اس وجہ سےمشورہ ب طل ہو گی ۔ یہ زب نیں اس زم نہ سے شروع ہیں۔ اوسوقت سے زب نیں مخت ف پھر م رنے کی مشورہ بدل گئی۔ وازیں وجہ مس م ن اور ہندو ہون ہوگی ۔ ج آدمی ب دش ہی کرنے لگے تو انہوں نے شہر ک ن م ت ں رکھ ۔آد ع یہ السلا کیوقت سے اسک ن م ت ن شہر ہے۔ اوراسوقت سے یہ
شہرآب د ہے۔ اس شہر میں بڑے بڑے بزرگوں کی خ نق ہیں ایکبہ ؤلح ص ح ایک شمس تبریز ص ح کی ایک موسے پ ک شہید کیعلاوہ اور بہت ہیں۔ ص۔ اور یہ ک فر کی اولاد ہیں۔ اور مس م ن بم ہ جمیع پیغبران شیث سے محمد ع یہ السلا تک ہ بیل کی اولاد ہیں۔ ص۔ ترجمہ سورتہ ف تحہ مترج ش ہ فضل الرحمن گنج مرادآب دی ترجمہ ھ ہندی اردو سے کوئی الگ سے زب ن نہیں۔ زب نوں ک دیگر سم جی حوالوں کے س تھ س تھ‘ مذہبی ک چر بھی ہوت ۔ مذہبی ک چر سے مت ال ظ‘ روزمرہ زندگی ک حصہ بن ج تے ہیں۔ مثلا اس ک میں کوئی بچت ب م نی ن ع بھی ہوا جی ہ ں الله کے فضل سے دس ہزار بچت نک ی ہے۔ رستے میں س ٹھیک رہ
جی الله ک شکر ہے خیریت سے لوٹ آی ہوں۔ ح دثے میں کوئی زی دہ نقص ن تو نہیں ہوا الله کی مہرب نی ہوئی ورنہ ج ن ج سکتی تھی۔ ولیمے میں کھ ن ک تو نہیں پڑا م لک ک احس ن تھ کہ س کچھ وافر رہ ۔ آؤ کھ ن کھ لو۔ بس الله کریں میں کھ کر آی ہوں۔ قرآن ایم ن کی کہن کہ کون سچ اور کون جھوٹ ہے۔ الله نے چ ہ تو کل س ری رق ادا کر دوں گ ۔ الله ح فظ ا کل ملاق ت ہو گی۔ م ش ءالله آج تو حوروں کو بھی م ت دے رہی ہو۔ قس لے لو جو میں نے کسی چیز کو ہ تھ بھی لگ ی ہو آج کل ک ن دفن ک خرچہ بھی کوئی ک نہیں رہ ۔یہ س بھگوان کی کرپ ہے ورنہ میں اس ق بل ک ہوں۔
یہ س ایشور کی کرپ تھی جو نپٹ آی ہوں۔ پرمیشور بڑا دی لو ہے جو آج لاکھوں میں کھیل رہ ہوں۔ ایسے سیکڑوں مذہبی ل ظ ی مرکب ت روزمرہ کی عمومی و خصوصی‘ شخصی و اجتم عی‘ رسمی و غیر رسمی‘ ذاتی ی پوشیدہ زندگی کیگ ت گو ک حصہ بن گیے ہوتے ہیں۔ کوشش سے بھی‘ انہیں اس سم ج کی بول چ ل سے‘ الگ نہیں کی ج سکت ۔ ہندو مذہ سے مت ال ظ زب ن میں داخل ہو ج تے ہیں‘ تو اس میں ایسی کوئی حیرت والی ب ت نہیں۔ ان ال ظ کے داخل ہونے سے‘ یہ کوئی نئی زب ن نہیں ہو گئی۔ عیس ئی مذہ کے ال ظ داخل ہو ج نے سے‘ زب ن عیس ئی نہیں ہو ج تی۔ زب ن وہ ہی رہتی ہے‘ ہ ں وہ اس ک چر کے مذہ کی‘ نم ئندگی کر رہی ہوتی ہے۔ گ ف سے ش ئع ہونے والے‘ رس لہ م ہ ن مہ واسطہ ک ص حہ نمبر انٹر نیٹ سے میسر آی ہے۔ اس ص حے پر‘ ش ہ فضل الرحمن گنج مرادآب دی ک سورتہ ف تحہ ک ترجمہ ش ئع ہوا ہے۔ یہ ترجمہ ھ سے ت رکھت ہے۔ سورتہ ف تحہ کے ب د سورتہ بقر کی کچھ آی ت کترجمہ‘ اسی اس و و طور کے س تھ کی گی ہے اور اس ذیل میں کوئینوٹ نہیں دی گی ۔ اسے بھی سورتہ ف تحہ کے ترجمے کے س تھ ملا دیگی ہے۔ عین ممکن ہے‘ پورے کلا ک ترجمہ اس طور سے کی گی ہو۔دیگر ترج سے یہ قط ی الگ تر اور ہٹ کر ہے۔ ایس ترجمہ‘ اس سے پہ ے دیکھنے اور پڑھنے سننے میں نہیں آی ۔ ش ہ فضل الرحمن گنج مرادآب دی کی اس ک وش کی داد نہ دین ‘ بدی نتی ہو گی۔ زب ن وطور کی
م نوسیت بڑی م نویت کی ح مل ہوتی۔ ہندو دھر سے مت لوگ‘ اس کو پڑھتے ہوئے‘ غیریت محسوس نہیں کرتے۔ اس سے رغبت ک دروازہ کھ ت ہے اور اجنبت کی دیوار گرتی ہے۔ ش ہ فضل الرحمن گنج مرادآب دی کے مزید ترجمے کی تلاش میں؛ چینی‘ ج پ نی اور انگریزی انداز عربی کی وگرافی دیکھنے کی س دت ح صل ہو گئی۔ یہ طور‘ غیرمس لوگوں کی توجہ ح صل کرنے ک ‘ انتہ ئی ک می ذری ہ ہے۔ اچھ ئی پھیلانے کے لیے‘ عر مس م نوںنے مق میوں ک لب س‘ انداز‘ زب ن وغیرہ اختی ر کی اور ب ت ریک رڈ میں موجود ہے۔ ش ہ فضل الرحمن گنج مرادآب دی نے‘ ہندو ک چر سےمت ‘ ترجمے کی زب ن اختی ر کی‘ یہ امر لائ تحسین ہے۔ بےشک الله بہتر اجر سے نوازنے والا ہے۔ ش ہ فضل الرحمن گنج مرادآب دی کے اس ترجمے کو اس کے طور و اس و اور زب ن کے حوالہ سے‘ اولیت تو ح صل ہے ہی‘ لیکن انہوں نے م روف سے ہٹ کر‘ ل ظوں کو م نویت عط کی ہے۔ الله :اس ذات ہے۔ اس کے مترداف کوئی ل ظ ہے ہی نہیں۔ مرحو نے‘ اس ک ترجمہ من موہن کی ہے۔ یہ ترجمہ محسوس سے ت رکھت ہے۔ یہ ل ظ صوری لح ظ سے بلاشبہ دل کو موہ لیت ہے۔ حمد :حمد کے م نی ت ریف اور ثن لیے ج تے ہیں‘ لیکن حضرت ش ہ
ص ح نے‘ اس ل ظ کو ال کے لیے‘ س ج کہ حمد بم نی راحت‘ ی نی خوشی کے م نے دیے ہیں۔ گوی وہ سراپ خوشی ہے۔ اس ک نلینے سے‘ رگ وپے میں خوشی کی لہر دوڑ ج تی ہے کیوں کہ وہ اول و آخر راحت ہے۔ ی یہ کہ خوشی جو اچھ ئی سے وابستہ ہوتی ہے ییہ کہ اچھ ئی خوشی میسر کرتی ہے۔ دوسرے ل ظوں میں یوں کہہ لیںاچھ ئی خوشی ہے ی نی اچھ ئی ب طنی راحت فراہ کرتی ہے۔ اس حوالہسے‘ س راحت ی نی راحتیں اسی کی ذات کے لیے ہیں۔ علامتی حوالہ سے م ہی اچھ ئی بہتری وغیرہ کی طرف پھرتے ہیں۔ ر :پ لن ہ ر ال :بڑی ع مین :سنس ر اردو میں پ لن ‘ ج کہ پنج بی میں پ لن مصدر ہے۔ پ لنے والا کے‘ مترداف پ لن ہ ر غیرم نوس نہیں۔ حضرت ش ہ ص ح نے‘ ر کے م نی پ لن ہ ر لیے ہیں۔ ع مین بذات خود جمع ہے۔ ال سے یہ ب تواضح ہوتی ہے کہ وہ ع ل جو س منے اورع میں وہ ہی نہیں وہ بھی جو س منے اورع میں نہیں۔ ج ہی س رے سنس ر م نی دیے ہیں۔گوی س رے سنس ر ک پ لن ہ ر ی نی ع لموں ک بلا کسی تخصیص پ لنے والا۔ صوری اور م نوی اعتب ر سے‘ خو صورت ترجمہ ہے۔ ہندو ک چر کے لیے بھی م نوس ترین ہے۔ الرحمن :نی ہ موہ
الرحمن :نی ہ موہ ترجمے میں‘ جہ ں ملائمیت اور ریشمیت سی محسوس ہوتی ہے‘ وہ ں صوتی حوالہ سے‘ ک نوں میں رس گھولتمحسوس ہوت ہے۔ اس میں پی ر محبت اور ش قت و عط ک عنصر غ بہرکھت ہے۔ اسے اس کے مت قہ متن میں‘ ملاحظہ فرم ئیں‘ میرے کہے کی سچ ئی واضح ہو ج ئے گی۔ تک یف دہ ح لت میں تش ی‘ بلاشبہ م ملات حی ت میں‘ بڑی م نویت کی ح مل ہوتی ہے۔ نی ہ موہ کی اصل ت ی یہ ہی ٹھہرتی ہے۔ اس ک احس ن اور فضل بھی‘ نی ہ ب انص ف اور حس ح جت ہوت ہے۔ الرحی :مہر والاالرحی :مہر والا ی نی وہ جو کسی کی تکی ف نہ دیکھ سکت ہو۔ کسی کو دکھ تک یف میں دیکھ کر‘ محبت‘ احس ن اور رح میں آ ج ئے اور اس کے مداوے ک ان ہی لمحوں میں چ رہ کرئے۔ من موہن‘ کسی کو تکیف میں مبتلا نہیں کرت ۔ ت ریخ اٹھ کر دیکھ لیں‘ نمرود‘ فرعون یزید وغیرہ‘ اپنی ہی کرنی کی پکڑ میں آئے ہیں۔ یہ ں ہو کہ روز آخرت‘ ہر کوئی اپنے کیے کی گرفت میں آئے گ ۔ م لک :بس میںم لک کو بس میں ی نی اختی ر میں‘ کے م نوں میں لی گی ہے۔ وہ جس
کے اختی ر میں ہو اور کسی اور کے اختی ر میں نہ ہو‘ م کیت کےزمرے میں آت ہے۔ اس میں کسی اور ک بس نہ چ ت ہو ی یوں کہہ لیں کہ اس کے سوا‘ وہ ں ہر کوئی مجبور و بےبس ہو۔ ہر کرن اسی کی مرضی پر مبنی ہو۔ وہ جیسے چ ہے اور جس طرح چ ہے کرئے ی کرنے پر ق در ہو۔ یہ الگ ب ت ہے‘ کہ وہ ح اور ح کے سوا نہیں کرت ۔ اس ک ہر کی ‘ عدل و انص ف پر استوار ہوت ہے۔ یو :دن یو :دن‘ دن اردو میں ع است م ل ک ل ظ ہے۔ الدین :چکوتی چک وتی یہ انص ف اور فیصے ک دن ہو گ ۔ زندگی کے دنوں میں‘ دنی کےب دش ہ فیص ے کرتے آئے ہیں لیکن اس دن‘ وہ بےبس ہوں گے۔ انہیں خود اس عمل سے گزرن ہو گ ۔ گوی یہ دن ب دش ہوں کے ب دش ہ ک ہو گ ۔ اس دن سوائے اس ب دش ہ کے کوئی ب دش ہ نہیں ہو گ ۔ صرف اور صرف اسی ک حک چ ے گ ۔ م ہو یہ ہی ٹھہرے گ ۔ یو الدین :ب دش ہوں کے ب دش ہ ک دن ن بد :پوجتے‘ عب دت کے لیے ہندو ل ظ پوج است م ل کرتے ہیں۔ جس کی پوج کی ج ئے اسے پوجیور کہ ج ت ہے۔
Search
Read the Text Version
- 1
- 2
- 3
- 4
- 5
- 6
- 7
- 8
- 9
- 10
- 11
- 12
- 13
- 14
- 15
- 16
- 17
- 18
- 19
- 20
- 21
- 22
- 23
- 24
- 25
- 26
- 27
- 28
- 29
- 30
- 31
- 32
- 33
- 34
- 35
- 36
- 37
- 38
- 39
- 40
- 41
- 42
- 43
- 44
- 45
- 46
- 47
- 48
- 49
- 50
- 51
- 52
- 53
- 54
- 55
- 56
- 57
- 58
- 59
- 60
- 61
- 62
- 63
- 64
- 65
- 66
- 67
- 68
- 69
- 70
- 71
- 72
- 73
- 74
- 75
- 76
- 77
- 78
- 79
- 80
- 81
- 82
- 83
- 84
- 85
- 86
- 87
- 88
- 89
- 90
- 91
- 92
- 93
- 94
- 95
- 96
- 97
- 98
- 99
- 100
- 101
- 102
- 103
- 104
- 105
- 106
- 107
- 108
- 109
- 110
- 111
- 112
- 113
- 114
- 115