آراء ادریس شرلی جون 2014 ,23بُہت عمدہ جناب۔ ایسی تحریروں کی معاشرے کو بہت شدت سےضرورت ہے۔ لوگوں کو ہر پہلو سے ائینہ دکھاتے رہنا ہی اپ کی تحریروں کا مقصد ہے اور وہ اپ بہترین طریقے سے کر رہے ہیں۔ ادریس صاحب میں وہ وہ خصلتیں پائی جاتی ہیں جو اکثر عورتوں میں پائی جاتی ہیں ،لیکن ُکچھ مردوں میں بھی یہخصلتیں پائی جاتی ہی ہیں۔ ہمارا ذاتی خیال ُکچھ اس بارے میں یہ ہے کہ ہمیں نیکی اور بدی کے فرق کو بہتر طور پر سمجھنےکی ضرورت ہے۔ کئی ایسی نام نہاد نیکیاں معاشرے میں عام ہیں جس سے بُہت نقصان ہو رہا ہے۔ جس کی مثال ہم ُکچھ یوں دیںگے کہ کئی غیر قانونی سرکاری مراعات یہ کہہ کہ جائز قرار دے دی جاتی ہیں :چھوڑیں جی ،یہ غریب ادمی ہے ،اس کا بھلا ہو جائے گا :۔۔۔ سرکاری مال ،مال مفت اور دل بے رحم۔ دوسری مثال ان عمر رسیدہ لوگوں کی بھی ہے جنہیں ہم اپنے بچوں سے چاچا اور انکل کہلواتے ہیں۔ بچوں کو یہ احساسضرور ہونا چاہیئے کہ عمر کے ساتھ لازماً زندگی کا وسیع تجربہمنسلک ہوتا ہے ،لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہر بات میں وہ درست ہوں۔ بقول ہمارے دیرینہ دوست شیخ سعدی
مرحوم کے: ،بزرگی بہ عقل ہست ،نہ بہ سال:۔ اندھی تقلید چاہے مذہب کی ہی کیوں نہ ہو ،ہم ذاتی طور پر اس کے حق میں نہیں ہیں۔ سو ہمارے خیال میں کہانی کے مرکزی کردار جیسے لوگوں کو ان کے منہ پر اپنے دل کی بات مناسب انداز میں بتا دینی چاہیئے اور ہر کسی کی عزت اتنی ہی کرنیچاہیئے جتنے اس کے اعمال کا حق ہو۔ ہمارے ہاں تو اپ جانتےہی ہیں کہ کسی کی تعظیم اور اس کا مقام ،اج بھی لوگ ،یا تو اسکی دولت کے حساب سے کرتے ہیں یا پھر عمر کے حساب سے۔ہماری نظرمیں یہ پیمانہ درست نہیں۔ بڑی گاڑی سے اترے والےشخص کی خدمت بھاگ بھاگ کر کی جاتی ہے ،چاہے وہ خود نہبھی چاہے ،جبکہ اس ناچیز جیسا کوئی شخص سنیارے کی دکان میں جانا چاہے تو محافظ دروازے پر ہی روک کر پوچھ گچھ ُشروع کر دیتا ہے۔ دوسری طرف اگر کوئی بزرگ ،بقول اپ ہی کے ،اپنا لُچ بیچ میں تلنے کی کوشش کرے (ویسے یہ محاورہبھی کیا ہی خوب کسی نے بنایا ہے ،ہمیں بُہت پسند ہے) تو اس پر خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔ سو ہمارے خیال میں جب تک تعظیم کا معیار درست نہیں ہوتا،معاشرتی نا انصافیاں بڑھتی ہی چلی جائیں گی۔ لوگوں کو ہر پہلوسے ائنہ اپ خوب دکھاتے رہتے ہیں تاکہ لوگ اپنے گریبان میںجھانک کر اپنے اندر موجود برائی کو جان پائیں۔ اور اگر وہ جان گئے تو اس میں سب کا بھلا ہو گا۔ایک بات ہم سے کہنا رہ گئی تھی۔ اپ کی تحریروں میں محاوراتی
زبان کا عنصر نمایاں ہے۔ اسے پڑھ کر ہمارے علم میں بہت اضافہ ہوتا ہے اور یقیناً اس کے اثر سے ہم بھی اپنی بات کو بہتر ،پُر اثر اور با معنی بنا سکا کریں گے۔ جس پر ُشکر گزار ہیں۔ ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ۔ وی بی جی 1 آخری کوشش جولائی 2013 ,15فی زمانہ نثر نگاری کا فن زنگ آلود ہو چلاہے۔ کوئی رسالہ بھی !اٹھا کر دیکھئے توسوائے چند اوسط درجہ کے افسانوں اور چندمنظومات (غزل اور آزاد نظمیں) کے علاوہ کچھ اور نظر نہیں آتا۔ ماضی میں رسالوں میں ادبی ،علمی اور تحقیقی مضامین کثرت سے ہوا کرتے تھے۔ تنقید و تبصرہ فن کی حیثیت سے سیکھےاور سکھائے جاتے تھے اورافسانہ نگاری بھی اونچے معیار کی حامل تھی۔ اب ادب پر ایک عمومی زوال تو طاری ہے ہی نثر نگاری خصوصا اضمحلال کا شکار ہے۔ غزل کہنا لوگ آسانسمجھتے ہیں (حالانکہ ایسا نہیں ہے)۔ غزل میں وقت کم لگتا ہےاور نظم میں اور نثر میں زیادہ ۔ نثر مطالعہ اور تحقیق بھی چاہتی ہے جس سے ہماری نئی نسل بیگانہ ہو کر رہ گئی ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ کوئی زبان بھی صرف ایک صنف سخن کے بل بوتے پر پھل پھول نہیں سکتی لیکن اردو والے اس معمولی سی حقیقت
سے یا تو واقف ہی نہیں ہیں یا دانستہ اس سے صرف نظر کررہے ہیں۔ انٹرنیٹ کی اردو محفلیں بھی اسی مرض کا شکار ہیں اور وہاں بھی سوائے معمولی غزلوں کے (جن میں سے بیشترتک بندی ہوتی ہیں) کچھ اور نظر نہیں آتا۔ آپ کی نثرنویسی میںمختلف کوششیں اس حوالے سےنہایت خوش آئند ہیں۔ آپ مطالعہ کرتے ہیں ،سوچتے ہیں اور انشائیے لکھتےہیں۔ اس جدو جہد کو قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ میں اپی مثال کسی خودستائی کی شہ پر نہیں دیتا بلکہ دوستوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ شوق،محنت اور لگن ہو تو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ میں نےانجینیرنگ پر نصابی کتابیں لکھی ہیں۔ ان کے علاوہ غزل ،نظم،افسانے ،ادبی مضامین ،تحقیقی مضامین ،ادبی تنقید وغیرہ سب ہی لکھا ہے۔ یقینا سب کچھ اعلی معیار کا نہیں ہے لیکن بیشتر اچھے معیار کا ہے اور ہندو پاک کے معتبر اور موقر رسالوں میں شائع ہوتا ہے۔ میں آپ کی انشائیہ نگاری کا مداح ہوں اوردرخواست کرتا ہوں کہ برابر لکھتے رہہئے۔زیر نظر انشائیہ اچھاہے لیکن یہ مزید بہتر ہو سکتا تھا سو اپ وقت کے ساتھ خود ہیکر لیں گے۔ خاکسار کی داد حاضر ہے ۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔ سرور عالم راز سلام اس تحریر پر ہم ُکچھ نہ لکھیں گے۔ فقط یہی کہ اسے پڑھکر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور تحریر کے اختتام کے قریبسانسیں ُرک جاتی ہیں۔ اور پھر منہ ک ُھلا کا ک ُھلا رہ جاتا ہے۔ اسکے اندر جو کرب ہے اور جو ُکچھ یہ انگلیاں لکھنے کو دوڑ رہی
ہیں ،اُسے بصد مشکل روکتے ہوئے ،ایک بار پھر سے بھرپور داد ۔۔۔دُعا گو وی بی جی 2 چار چہرے نومبر 2013 ,26 Pehla chehra yaqeenan sab se mumtaaz hai.Hairangi ki baat yeh hai keh iss taraf koi jaata he nahi. Danish ka barqaraar rehna aur usske liye apne aap ko qurban karna buhot baRi baat hai aur yehi baat pehle chehre ko dosrooN se mumtaz karti hai. Fikr angaiz khayyal aur umah tahreer. خلشآپ کا مختصر انشائیہ دیکھا تو مجھ کو ١٩۴٨کے آس پاس والدمرحوم کا لکھا ہوا ایک مضمون :عورت کی فطرت :یاد آ گیا جسکالب لباب یہ تھا کہ یہ معمہ اب تک حل ہوا ہے اور نہ آئندہ اس کے حل ہونے کی کوئی امید ہے۔ آپ کاانشائیہ دیکھا کہ آخری چند سطروں میں آپ نے خیال ظاہر کیے ہے کہ ان چار چہروں
کے مطالعہ سے یہ گتھی سلجھ سکتی ہے۔ میں صرف جذباتیطور پر ہی نہیں بلکہ فکری سطح پربھی والد مرحوم سے زیادہمتفق ہوں۔ آپ جب اس معمہ کو سمجھ لیں تو اپنے ارادت مندوں کو ضرور حل سے آگاہ کیجئے گا! باقی رہ گیا راوی تو وہ چین بولتا ہے۔ سرور عالم راز میرا بھی یہی خیال ہے کہ محترم راز چاند پوری نے درست فرمایا تھا ویسے یہ بھی پیش نظر رہے کہ ایک حدیث کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ عورت پسلیکی ہڈی سے پیدا ہوئی ہے ،اسے بالکل سیدھا کرنے کی کوشش نہ کرو ورنہ توڑ بیٹھو گےاس کی کجی کے ساتھ اس سے فائدہ اٹھاتے رہو والسلام تنویرپھول 3 سرگوشی جولائی 2014 ,06 آپ کاانشائیہ \"سرگوشی\" آپ کے مخصوص طرز فکر وبیان کااعلی نمونہ ہے۔ ایک ایک جملہ میں ایک داستان پوشیدہ ہے۔ بینالسطور کیا کیا نہیں کہہ دیا گیا ہے۔ پنجابی سے میں نا واقف ہوں پھر بھی سیاق و سباق سے کچھ سمجھ ہی گیا۔ اگر آپ پنجابیاشعار ،کہاوتوں اور فقروں کا ترجمہ بھی لکھ دیا کریں تو ہماریمشکل آسان ہو جائے گی۔ اس سے قبل بھی آپ کے کئی انشائیے
نظر آئے لیکن اپنی بد تقدیری کے ہاتھوں ان سے مستفید نہ ہوسکا۔ اب واپس جا کر ان کو پڑھنے کا ارادہ ہے۔ رمضان چل رہے ہیں۔ اس مبارک ماہ میں ایسے مضامین اور بھی دل پذیر ہو جاتے ہیں۔ جزاک الله خیرا۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔ سرور عالم راز 4 موازنہ جون 2014 ,27جناب عزت افزائی کا بُہت ُشکریہ۔ ہمارے لیئے اعزاز کی بات ہے کہ اپ کے قلم نے ہمیں اس لائق سمجھا ہے۔ لیکن ایک گزارش کرنا چاہیں گے کہ صاحب! یہ تعریفیں ہم سے برداشت نہیں ہوتیں۔ سمجھ لیجے کہ تعریفیں وی بی جی کی موت ہیں۔ ہمیںاچھی طرح معلوم ہے کہ اپ نے کس قدر خلوص اور محبت سے ہمارے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار فرمایا ہے۔ اور یقیناً اپ نے حق گوئی کا مظاہرہ کیا ہو گا۔ جیسا محسوس ہؤا ویسا بیان کیا ہو گا۔ ہم ُشکر گزار ہیں کہ اس لائق سمجھا اپ نے۔اپ نےبُہت ہی خوبصورت انداز میں جواب عنایت فرمایا ہے۔ اپ قلم کار ہیں سو اپ بات کہنے کا فن جانتے ہیں۔ لیکن اس گہرائی سےمشاہدہ کرنا ظاہر ہے کہ گہری سوچ اور سلجھا ہؤا ذہن چاہتا ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ جواب بھی ہمیں بہت پسند ایا ہے۔ دراصل کئی ایسے سوال ہوتے ہیں ،جن کے ذہن میں اتے ہی ،لوگ انہیں جھٹلانا ُشروع کر دیتے ہیں کہ یہ تو
سوچنا بھی گناہ ہے۔ اور اس طرح گویا یہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے جو انسان دے سکے۔ اور نتیجہ یہ کہ اپنے اپ کو دھوکہ دیتے رہتے ہیں اور ایمان کیکمزوری کا شکار رہتے ہیں۔ ہمارے خیال میں تمام سوالات کےجواب موجود ہوتے ہیں۔ الله پاک اور اس دنیا کا وجود ہمیں غیر منطقی نہیں نظر اتا۔ اگر ہم سوچنے پر ہی پابندی لگا دیں ،تو جواب کہاں سے ائیں گے۔ ایمان پُختہ ہونا چاہیئے ،راز ک ُھلتےچلے جاتے ہیں۔تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد۔۔۔ بُہت ہی عمدہتحریر ہے۔ ظاہر ہے کہ کئی سوالوں کے جواب دیتی ہے۔ ُسلجھا ہؤا انداز تحریر ہے۔ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ ۔ وی بی جی 5 پہلا قدم جون 2014 ,22بُہت عمدہ جناب۔ بُہت ہی اعلی تحریر ہے۔ بھرپور داد۔ اپ کو باتکہنے کا فن اتا ہے ،اور ظاہر ہے کہ یہی ایک قلم کار کے فن کا مظہر ہے۔یہ تحریر جس راستے پر چلنے کا سبق دے رہی ہے جناب ،وہ بُہت ہی مشکل راستہ ہے۔ اس قدر مشکل کے تصور کرنا بھی محال۔ کاش کہ ہم لوگ اس مقام تک پہنچ سکیں۔مشکلات صرف یہی نہیں جو تحریر سے عیاں ہیں ،بلکہُکچھ برعکس بھی ہیں۔ اپ نے تاریخ میں سے ُکچھ مثالیں قلمبند کی ہیں ،لیکن سچ پوچھیں تو ہم ایسی ہزاروں مثالیں پیش کر
سکتے ہیں ،جہاں بُرا کرنے والے کو اس کے کیئے کے برابرسزا نہیں ملی۔ کئی ایسی مثالیں بھی ہیں جن میں سرے سے سزاملی ہی نہیں ،بلکہ ظلم کرنے والے اخری سانس تک عیاشی اور ظلم کرتے رہے۔ کئی مثالیں تو ہمارے سامنے ہی موجود ہیںجہاں شرفا مہینوں چارپائی پر کھانس کھانس کر اور ایڑیاں رگڑرگڑ کر مرتے ہیں ،جبکہ ظالم لوگوں کے لیئے قدرت نے قدرےاسان طریقہ موت بھی ایجاد کر رکھا ہے جیسے دل کا دورہ پڑنے سے اچانک دُنیا سے اُٹھ گیا۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر دُنیا میں انصاف ہو رہا ہوتا اور ہر ظالم کو حق کے مطابق سزا مل رہیہوتی ،تو ،نہ تو یہاں ظلم عام ہوتا ،اور نہ ہی جنت اور دوزخ کے وجود کی کوئی ضرورت تھی۔جب یہ سب انسان دیکھتا ہے ،کہ دنیا میں انصاف نہیں ہے۔ اچھا کرتا اور بُرا نتیجہ لیتا ہے توظاہر ہے کہ قدم ڈگمگا جاتے ہیں۔ الله پر اعتماد بھی کہنے کو توبُہت ہوتا ہے ،لیکن دل میں کمزور پڑ جاتا ہے۔ ایسی صورت میں اس راستہ پر چلنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔باقی جناب اپ کیتحریر اس قدر خوبصورتی سے کئی پہلو سمجھا رہی ہے کہ مذیدُکچھ کہنے کو رہ ہی نہیں جاتا۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ امید ہے کہ پڑھنے والے جس قدر ہو سکا ،اثر لیتےہوئے ،سچائی کے راستہ پر ڈٹے رہیں گے۔ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ وی بی جی ہم معذرت خواہ ہیں کہ ہماری باتوں نے اپ کو کل سے عجیبسی کشمکش اور بے چینی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ہم نے کوشش
کی کہ جلد سے جلد حاضر ہو سکیں سو حاضر ہو گئے ہیں۔پہلےتو ہم یہ بتاتے چلیں کہ جو اپ 40 - 50سال سے کر رہے ہیں وہبُہت بڑا کام ہے۔ ہم نے بھی ایسی ہی تحریریں پڑھی ہیں اور ہمیںیاد تک نہیں کہ وہ کون لکھتے تھے۔ اور بھی کئی لوگ ہیں جو اس علمی خزانے سے استفاضہ حاصل کرتے ہیں۔ اپ کی تحریروں نے کئی لوگوں کو اگہی بخشی ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ اُنہیں اپ کا نام بھی یاد نہ رہے ،اور تحریروں کو سرسری پڑھ کر چلے جائیں۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ یہی وہ تحریریں ہیں جو اُن کے لاشعور میں پیوست ہو جاتی ہیں۔ اور پھر اہستہ اہستہشعور کا حصہ بنتی چلی جاتی ہیں۔اپ جانتے ہی ہیں کہ ہم قلم کار نہیں ہیں سو ُکچھ بھی لکھتے ہیں تو وہ بکھرا بکھرا اور کئی بار بے ربط سا ہو جاتا ہے۔ ُکچھ ایسا ہی یہاں بھی ہؤا۔اصل میںبات پیر صاحب کی تھی ،سو ہم اسے پیری میں ہی لے گئے۔ جوطرز عمل پیر صاحب کا اس تحریر میں تھا وہ ہمارے خیال سے صرف پیروں کے ہی بس کی سی بات ہے۔ سو ہم نے اس میں پیش انے والی مشکلات کو ذرا سا بیان کر دیا اپنی محدود عقلکے حساب سے۔ مشکلات تو اس بھی کہیں ذیادہ بڑھ کر ہیں۔ اسسے ایک درجہ اوپر کی مشکل بھی موجود ہے جسے الفاظ بھیدئیے جا سکتے ہیں ،لیکن اس کے بعد کی مشکلات کو تو الفاظ بھی دینا ممکن نظر نہیں اتا ہمیں۔ ہم اس میں ذیادہ نہیں جاتے، وگرنہ شاید ہم اپنی بے تُکی باتوں سے اپ کو مذید الجھا ہی نہدیں۔الله پاک ہم سب کو طاقت دے کہ ہر مشکل برداشت کریں لیکن نیکی کے راستے سے قدم نہ بہکیں۔ وی بی جی
اسے پیاسا ہی رہنا ہے جون 2014 ,20 آپ کی تحریر میں بہت درد ہوتا ہے اور ہر بات آپ کے دل سےنکلی ہوئی لگتی ہے۔ نئی نسل ہماراہی عکس ہے۔ ہم نے ان کے لئے جو روایات چھوڑی ہیں وہ ان سے الگ کیونکر ہو سکتےہیں۔ لوگوں سے جب ذکر ہوتا ہے تو ہمارے یہاں بندھا ٹکا جملہ ہوتا ہے کہ \"دعا کیجئے\" اور ظاہر ہے کہ صرف دعا سے کیاہوتا ہے۔ اونٹ تو بھاگ چکا ہے۔ اب ہم لاکھ دعا مانگیں وہ لوٹ کر نہیں آنے کا۔ الله الله خیر سلا۔ سرور عالم رازبُہت ہی شاندار تحریر ہے۔ ایک تو جس طرح یہ کہانی کوے کے پیاسے ہونے کی تشریح کرتی ہے بُہت ہی خوب ہے اور پھر اختتام تو سبھان الله ۔۔ ہماری طرف سے بھرپور داد۔محترم سرور عالم راز سرور صاحب کی باتوں سے بھی استفادہکیا۔ اپ کی باتیں بجا ہیں۔ حاکم ہمیشہ محکوم کی وجہ سے حاکم رہا ہے اور رہے گا۔ ہمیں اس سے کیا کہ ہماری تاریخ میں کیا ُکچھ بھرا پڑا ہے۔ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ہارون الرشید اور مامون الرشید کے دور میں فرقہ معتضلہ کی کیاحیثیت تھی۔ خاندان برامکہ کے ساتھ کیا ہؤا۔ کس کی لاش بازارمیں کتنے دن لٹکی رہی۔ اور حضرت امام احمد بن حنبل کے ساتھکیا کیا گیا۔ ہمیں صرف ان کے دور حکومت کی تعریف کرنی ہے
کیونکہ وہ مسلمان خلفا تھے۔ ہمیں مغلیہ دور کی بھی تعریفکرنی ہے ہم کیوں جانیں یا مانیں کہ نور جہاں شیر افگن کی بیوی تھی یا نہیں۔ اسے کس نے کیوں قتل کروایا۔ ہمیں ان کی تعریفہی کرنی ہے۔ اپ کئی بار کہہ ُچکے ہیں کہ مورخین نے بُہت ظلم کیا ہے۔ بالکل دُرست کہتے ہیں جناب کوا پیاسا رہے گا۔ دُرست۔ لیکن کوے کو پانی کی تلاش جاری رکھنی چاہیئے اور ہم اس کے لیے کوشاں رہیں گے۔قدرت کا کھیل ہی ایسا ہے۔ کوے کو پیاس دی ہے اور امتحان یہی ہے کہ اسے پانی پلا کر دکھاؤ تو تم کامیاب۔ یہی جہت ہے یہی جہاد۔ہماری نظر میں یہ اپ کی زور دار تحریروں میں سے ایک ہے۔ شاندار ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد۔ وی بی جی عمدہ پُر فکر تحریر سے ہمیں جھنجھوڑنے کا بے حد شکریہ مگر صاحب ہم سبھی اپنا اپنا کردار نبھاتے اپنی اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہیں ہم میں سے ہر شخص دوسرے کے ئےامتحان ہے اور اسی امتحان پر پورا اترنے کا نام ڈسپلن ہے اوریہ ڈسپلن حق ادا کرنے کا نام ہے حق مانگنے کا نہیں ،مگر آج الٹی گنگا بہ رہی ہے ہر شخص اپنا حق مانگ رہا ہے مگر دوسروں کا حق ادا نہیں کر رہا یہیتو ڈسپلن کی خلاف ورزی ہےایسی پُر فکر تحریروں کے آئینے میں ہمیں ہمارا چہرہدکھانے کا شکریہ قبول فرمائیےکبھی نہ کبھی شرم ہمیں ضرور آئے گیوالسلام 6اسماعیل اعجاز
یہ کوئی نئی بات نہ تھی جون 2014 ,18کیا ہی بات ہے جناب ۔ بُہت خوب۔ بُہت باریک معاملے پر قلم اٹھایا ہے اور کیا ہی خوب اٹھایا ہے۔ یہ انداز بھی بُہت پسند ایا جس طرح اپنے معاملے کو ایک مقالمہ کی شکل دی اور بات واضحسے واضح طور تر ہوتی چلی گئی۔ ہمیں سو فی صد اتفاق ہے اپکی اس بات سے۔ معاملے کو تھوڑا وسیع کر کے دیکھیں تو بات وہیں جنون و خرد کی لڑائی پر اتی ہے۔ ہمارا ذاتی خیال ہے کہجنوں اورد کی طرح ہے اور عموماً کسی چیز کا حقیقی اور حتمی احساس ہوتا ہے۔ خرد کو دلائل چاہیئں۔ وہی فرق جو وکالت اور نفسیات کا اپ کی تحریر میں جھلکتا محسوس ہوتا ہے۔نفسیاتچونکہ اس چیز کا مطالعہ کرتی ہے :جو ہے ،:اس لیئے حقیقتکے قریب تر ہے۔ جبکہ وکالت کا زیادہ تر زور اس پر ہے کہ :کیا ہونا چاہیئے :حالانکہ ہمارے نذدیک :کیا ہونا چاہیئے :کا اسوقت تک تعین ہی نہیں کیا جاسکتا جب تک یہ مکمل طور پر جاننہ لیا جائے :جو ہے :۔اپ نے بجا فرمایا کہ ہمارا معاشرہ ،اکہرےنہیں بلکہ دوہرے معیار کا شکار ہے بلکہ ہم تو کہیں گے کہ کئی ہرے معیاروں کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بقول شخصے :ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کی بیوی وہ ُکچھ نہ کرے جو وہ چاہتا ہے کہ پڑوسی کی بیوی کرے :اس کی وجہ ہمیں جو محسوسہوتی ہے وہ بھی اپ نے بیان فرما ہی دی ہے ،کہ ہم لوگوں نے اسلام کو اپنی ہندوستانی تہذیب کے ساتھ ہم اہنگ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسلام میں غیرت کا ایسا تصور ہمیں کہیں نہیں ملتا ،وہاں کافی باتیں ُکچھ مختلف انداز میں ہیں۔لیکن خیر یہ
واقعی کوئی نئی بات نہیں ہے ،لیکن اپ نے اسے اپنے قلم کے زور سے نیا بنا دیا ہے۔ مقالمہ بُہت اچھا لکھا ہے اپ نے۔ ہمیںتو پڑھ کر بُہت مزا ایا جناب۔ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ ۔۔۔ وی بی جی 7 دروازے سے دروازے تک جون 2014 ,14بُہت ہی دلسوز تحریر ہے جناب۔ کیا خوب قلم چلائی۔ یقین جانیےتحریر پڑھ کر اپ کے قلم کی تعریف کرنے کی بجائے ،رونے کادل چاہتا ہے۔تحریر کا پہلا حصہ جس موضوع پر قاری کا دل نرم کرتا ہے ،اُس پر ُکچھ کہتے بھی شرم محسوس ہوتی ہے لیکن اس دلسوز حقیقت کو جان لینے کے بعد تحریر کا دوسرا حصہ صحیح طور سے سمجھ بھی اتا ہے اور دل پر اثر کرتا ہے۔ مسلمان معاشرہ اتنی بیماریوں کا شکار ہو ُچکا ہے کہ بندہ کیاکہے اور کیا نہ کہے۔ لوگ اس قدر بے حس ہو ُچکے ہیں کہ ہرمعاملہ کو حکومت کی زمہ داری قرار دے کر ،پہلو تہی کر جاتےہیں۔ یہاں تک کہ کبھی کبھی ہمیں لگتا ہے کہ لوگ چاہتے ہیں وہ گھروں میں سکون سے بیٹھے رہا کریں اور حکومت سب کوگھر گھر ہر مہینے پیسوں کی بوری دے جایا کرے۔ انہیں سمجھ نہیں اتا کہ اناج نہیں اُگائیں گے تو نہیں کھائیں گے۔ ریڑھی پرلوگوں کو دھوکے سے گندے ٹماٹر بیچنے والا خود حکومت سے رنجیدہ ہے کہ وہ دھوکے باز ہے۔ لوگ نہیں سمجھتے کہ وہ
ایجادات ،تعلیم ،زراعت وغیرہ میں محنت کر کہ دنیا کو ُکچھ دیں گے نہیں تو دنیا انہیں موبائل اور کمپوٹر مفت فراہم نہیں کرےگی۔ مذہبی ُمعاملات میں انتہا پسندی یہی ہے کہ ایک فرقہ قبر کوسجدے تک کرنے پر راضی ہے تو دوسرا قبروں کو لاتیں مارتا پھرتا ہے۔ برداشت ختم ہو چکی ہے۔ ایک انگریز بوڑھی سیخاتون ایک دن ٹی وی پر کسی پروگرام میں بہت پیار اور حیرت بھرے لہجے میں فرما رہی تھیں کہ اخر مسلمانوں کو کیوں کمیونٹی بن کر رہنا نہیں ا رہا ہے۔ وہ نہیں سیکھ رہے اورنقصان بھی وہ اپنا ہی کرتے جا رہے ہیں۔ اُس کے نذدیک یہ بُہتمعمولی سی بات تھی کہ اتنی سی بات نہیں سمجھ ا رہی۔خیر ہمیں تو اب اپنے اپ سے ڈر لگنے لگ گیا ہے کہ اگر ہم اپنے قلم پر قابو نہ پا سکے تو ہمارا حال وہی ہو گا جو ساحر اور جالب کاہؤا تھا۔ لیکن خیر ،ابھی ہمیں اپنے اندر موجود ،اس بے حسی پر بھروسہ ہے ،جو اس معاشرہ نے ہمیں تحفہ میں دی ہے۔تحریر پر ہم اپ کو ایک بار پھر بھرپور داد دیتے ہیں۔ وی بی جی 8 وہ کون تھے جون 2014 ,11 سلام عاجزانہ آپ کی تحریر پڑھی دل میں برسوں سوۓ ہوۓ جذبہ رحم دلی جگا گئی ہماری طرف سے اتنی اچھی تحریر لکھنے پر بھرپور داد قبول کیجئے جناب ڈاکٹر صاحب ہمارا علم اتنا وسیع نہیں کہ
ہم اس بات کی گہرائی تک پہنچ سکیں لفظ \"حضرت\"جس کےکافی لفظی معنی ہیں لیکن اکثر یہ لفظ تعظیما استعمال کیا جاتا ہےلیکن زیادہ تر یہ لفظ کسی پیغمبر یا الله کے ولی کے نام کے ساتھ آیا \".......حضرت مہاتما بدھ کی تعلیمات\" ہمیں مہاتما بدھ کے بارے میں زیادہ علم نہیں لیکن میں نے یہ لفظ ان کے نام کے ساتھ پہلے کبھی نہیں پڑھا ہم چونکہ مہاتما بدھ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ممکن ہے کہ پہلے بھی ان کے نام کے ساتھ یہ لفظ استعمال ہوا ہو لیکن پھر بھی آپ سےگزارش ہے کہ تسلی بخش جواب دیں جس سے ہمارے علم میں اضافہ ہوغلطی گستاخ معاف دعا ہے کہ الله آپ کو اور زور قلم عطا کرے مجھے اپنی دعاؤں می یاد رکھیں وی بی جی پنگا جون 2014 ,07 آداب و تسلیمات کے بعد بہت دلکش پیرائے میں لکھی ہوئی تحریر ہے ،داد آپ کا حق ہے وصول پائیے اظہر آپ کو علم ہی ہے کہ میں آپ کے مضامین کا پرانا مداح ہوں۔ روز اول سے ہی میں اس خیال کا ہوں کہ آپ کو اپنے مضامین
کتابی صورت میں شائع کوادینا چاہئیں۔ خدا خدا کرکے آپ بالآخر اس پر راضی ہو گئے ہیں سو بصد عجز و محبت عرض ہے کہ نصف \"رائلٹی\" کا میں مستحق ہوں! یہاں لکھے دے رہا ہوں تاکہ \"سند رہےاور بوقت ضرورت کام آوے\"۔آپ کا انشائیہ\"پنگا\" آپ کے مخصوص انداز فکر و بیان کی عکاسی کرتا ہے۔ اس میں حسب معمول زندگی اور دنیا کے چہرے سے نقاب اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہر چند کہ بہت سی باتیں ظاہر سی ہیں لیکن \"گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را\" والیبات بھی تو اہم ہے۔ بہت خوب لکھا ہے آپ نے۔ الله آپ کو سلامت رکھے۔ لکھتے رہئے اور یہ بتائیں کہ کتاب کب تک آ رہی ہے۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔ سرور عالم راز بُہت خوب تحریر ہے۔ ہمیشہ کی طرح داد حاضر۔ معذرت بھیچاہتے ہیں کہ فوری حاضری نہیں دے پاتے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ اپ کی تحریر کو لفظ لفظ پڑھنا ہوتا ہے ،اور اسے انہماک سے پڑھتے وقت یکسوئی ضروری ہوتی ہے۔ جبکہ کاروبارزندگی اس کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ جیسے ہی فرصت پاتے ہیں تو حاضر ہو جاتے ہیں۔جان کر بُہت خوشی ہوئی کہ طباعت کا کام جاری ہے ،اور جلد اپ کی کتابیں شائع ہونے والی ہیں۔اپ کی تحریر بُہت جاندار ہے ،البتہ جناب پنگے کے بغیر تو دُنیا میںکوئی تبدیلی نہیں ا سکی۔ چاہے تبدیلی اچھی ہو یا بُری ،اس کےبغیر ممکن نظر نہیں اتی۔ اگرچہ ہمارا یہ بیان بھی پنگا لینے کے مترادف ہے ،لیکن چونکہ ہم پنگا لینے کے خوب حق میں ہیں،
سو یہ اعلامیہ جاری کرنا جائز سمجھتے ہیں۔تقدیر کسی کے پنگا لینے یا نہ لینے کو دیکھتی ہی نہیں۔ ٹائگر کی ہی مثال لیجے،تحریر کہیں نہیں کہتی کہ اس کو خارش لگنے کا سبب بھی کوئی پنگا ہی تھا جو ٹائگر سے سرزد ہؤا۔ وہ بغیر پنگا لیئے ہیخارش کی نظر ہو گیا۔ دوسری طرف پنگا لینے والا ناگ خود تواپنے پنگے کی سزا ب ُھگت گیا ،لیکن ساتھ میں ٹائگر کو بھی لے گیا۔ ہٹلر نے جو پنگا لیا سو لیا ،لیکن اُن لاکھوں لوگوں نے کیاپنگا لیا تھا کہ بیچارے ،ایٹم بم کی نذر ہو گئے۔ ایسے ہی سکندرکو تو جہلم کے مچھروں نے سزا دی ،لیکن اس ہاتھی بیچارے کا کیا قصور تھا جس کی سونڈ کاٹ گیا۔ نہ ہی راجہ پورس کیفوجوں نے کوئی پنگا لیا تھا کہ لتاڑی گئیں۔سو صاحب جس نے پنگا لیا ،اُس نے دوسروں کو بھی بڑا نقصان پہنچایا۔ دوسری طرف خود پنگا نہ لو تو کسی دوسرے کے پنگے کا شکار ہو جانا پڑتا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی صاحب اپنی ایک کتاب میںلکھتے ہیں کہ ایک بار اُنہیں ُکچھ دوستوں کے ساتھ خچروں پر دشوار گزار پہاڑی راستوں پر سفر کرنا پڑا۔ ایک صاحب تھے، کہ جب بھی خچر کسی دشوار اور خطرناک جگہ سے پہار پر چڑھتا تو وہ صاحب ،خچر سے نیچے اُتر جاتے اور خود چڑھتے۔ کسی نے کہا کہ صاحب ،یہ خچر ماہر ہیں یہاں پہاڑوں پر چڑھنے کے۔ اپ کا پاؤں پھسلا تو اپ بے موت گہری کھائی میں مارے جائیں گے۔ اُن صاحب نے جواب دیا کہ حضرت جانتا ہوں ،لیکن میں اپنی غلطی کی موت مرنا چاہتا ہوں ،نہ کہ اس خچر کی غلطی کی سزا میں مروں۔تو صاحب اس سے پہلے کہ کوئی اور پنگا لے کر ہماری زندگی میں خلل ڈالے ،ہم خود پنگا لے لینا مناست سمجھتے ہیں۔مزاح برطرف۔ اس بات سے انکار
نہیں کہ قدرت سے پنگا لینے والے کا انجام بُہت بُرا ہے۔ احتیاط لازم ہے۔ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ ۔۔ وی بی جی کیا ہی دلچسپ پنگا ہے کیا دلچسپ انداز بیاں ہے آپ کا کیسےکیسے پنگے منظر عام پر آپ لائے ایک منظر ابھی آنکھوں میں ہوتا ہے کہ دوسرا منظر آ جاتا ہے قائم ہو جاتا ہے اور سبھی میں دلچسپ پنگا بقول وی بی جی کہ ہر چیز میں پنگا لازم ہےپنگا نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہےیہ مانا کہ پنگے سے جیون حسیں ہےمجھ سے آ پ کی تحریر پڑھ کر خاموش نہ رہا گیا پنگا لینے چلا آیا صاحب آپ کے اس پنگے نے مجھے ایکساتھی اسلم پنگا یاد دلا دیے اسلم پنگا ہمارے بہت اچھے ساتھیتھے ہم ان دنوں 91 , 1990میں کراچی ایئر پورٹ کی تعمیر میں مصروف تھے جہاں ہماری ایک بڑی ٹیم تین حصوں پر مشتمل تھی جن میں ایپرن ،بلڈنگ اور روڈ اینڈ انفرا اسٹیکچر ورکسوغیرہ شامل تھے ہمارے پاس ایپرن والا حصہ تھا جس میں اسلم پنگا ہمارے ساتھ ہوا کرتے تھے ہم لوگ ایک فرنچ تعمیراتیکمپنی ـ’’ سوجیا پاکستان ‘‘ میں کام کر رہے تھے اسلم پنگا آج آپ کے اس پنگا مضمون کو پڑھ کر یاد آئے ان کا کام ہر ایکسے پنگا لینا ہوتا تھا بغیر پنگے کے ان کی زندگی ادھوری تھی کھانا گھر سے لایا کرتے تھے ایک دن انہوں نے انڈے اور بینگن کو ملا کر ایسا پنگا لیا کہ پہچاننا مشکل ہو گیا کہ اسخمیرہ گاؤزبان میں انڈہ کونسا ہے اور بینگن کونسا ہے الله تعالیکی تخلیق کردہ دو الگ الگ ذائقوں میں الگ الگ مزاج کی حامل
اجناس کو یکجا کر کے ایسا کشتہ تیار کیا تھا کہ جس کے کھانےکے کئی گھنٹے بعد تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ کیا کھایا بس یہ لگا کہ کسی حکیم صاحب نے اپنی زندگی کے آزمودہ نسخوں سے حاصل شدہ معجون کہہ لیں کشتہ کہہ لیں تیار کیا ہے کہ جسے کھایا تو جاسکتا ہے مگر اس میں شامل اجزا کاتجزیہ نہیں کیا جاسکتا جس کے کھانے کے بعد بہت سے رکے ہوئے معاملاتنہ صرف حل ہو جاتے ہیں بلکہ ان سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارہ مل جاتا ہےتو صاحب کبھی یہ پنگا بھی لیجئے بینگن اور انڈے کچھ اسطرح پکائیے کہ بینگن بینگن نہ رہے اور انڈہ انڈہ نہ رہے بینگنڈہ بن جائےہلکی سی کالی مرچ اور نمک کے ساتھ تناول فرمائیے مزہ نہ آنے پر انڈہ الگ اور بینگن الگ پکائیےاور الگ الگ کھائیےاس دلکش تحریر سے مستفید فرمانے کے شکریہ قبول فرمائیے اسماعیل اعجاز 9 دائیں ہاتھ کا کھیل جون 2014 ,01 تحریر ہم کئی بار پڑھ ُچکے ہیں ،لیکن یکسوئی نصیب نہ ہوسکی۔ ہر بار دھیان ادھر ادھر کرنا پڑا اور ہم ُکچھ کہنے کے لائقنہ ہو سکے۔بُہت خوب تحریر ہے جناب۔ کیا ہی بات ہے۔ بھر پور داد قبول کیجے۔ دین ایسی چیز ہے کہ اس کو حوالہ بنا کر جوچاہے کیا جا سکتا ہے۔ اس سے اشتعال پھیلانا بھی بُہت اسان ساکام ہو گیا ہے۔ چند لوگ اشتعال سچ ُمچ میں محسوس کرتے ہیں،باقی کی کثیر تعداد صرف مشتعل نظر ا کر ثواب حاصل کرنا چاہتیہے۔ ایسے ہی جس پہلو کی طرف اپ نے اشارہ فرمایا ہے ،وہاں
بھی زوجہ کے صرف حقوق ہوتے ہیں اور خاوند کے صرففرائض۔ ہمیں تو یہ بھی سمجھ نہیں اتی کہ صرف ماں کو اس قدر درجہ دے دیا جاتا ہے کہ جیسے باپ کی کوئی حیثیت ہی نہ ہو۔حالانکہ عموماً باپ ،صرف اور صرف اپنے بچوں کے لیئے ،اپنی بیوی کی کئی غلط باتیں بھی برداشت کرتا رہتا ہے۔ اور عموماًکوئی اور چیز طلاق سے مانع نہیں ہوتی۔ لیکن بچے چونکہ اپنی ماں کے پاس زیادہ وقت ُگزارتے ہیں ،تو ظاہر ہے ہمیشہ چندا ماموں ہی ہوتے ہیں ،کبھی چندا چاچو نہیں ہوتے۔اپ نے لکھا ہےحقوق کا معاملہ ذات سے‘ الله کی طرف پھرتا ہے۔یہ بات سمجھنا ،بُہت مشکل کام ہے۔ اور شائید اس کے لیئے کئیتحریریں لکھنی پڑیں۔ لوگوں کی سمجھ کو اس مقام تک لانا ،اہل قلم کی ذمہ دارہ ہے اور ہمیں خوشی ہے کہ اپ کوشاں ہیں۔ اگرایسی تربیتی تحریریں لوگوں کو پڑھنے کو ملیں یا ٹی وی ڈرامہوغیرہ میں ملتی رہیں ،تو لوگوں کی سمجھ بڑھ سکتی ہے۔ ہمیں تو محترم اشفاق احمد کے بعد کوئی ایسا ڈرامہ نگار نہیں نظر ایا ،جو ان باتوں کو اس گہرائی میں نہ صرف محسوس کرے، بلکہ لوگوں کو بھی سمجھائے۔ اج کل کے دور کی فضول اور کردار ُکشی سے بھرپور کہانیوں کے ساتھ ٹکرانے کی اشد ضرورت ہے اور اپ یہ کام کر رہے ہیں۔ ہزار دُعائیں جناب اپ کے لیئے۔تحریر پر بُہت بُہت داد جناب۔ ہزار داد وی بی جی 10 الله جانے جون 2014 ,09
جناب کیا ہی بات ہے۔ بُہت عمدہ تحریر ہے۔ داد داد داد ۔۔ اپ کی تحریروں کا خاصہ ہے کہ بات کو ایسے زاویوں سے گ ُھما کرلاتے ہیں کہ وہم و گمان میں نہیں ہوتا کہ یہ تان کہاں جا کر ختم ہو گی۔ اور اختتام بھی شاندار ہوتا ہے۔ یہاں بھی اپ نے جسطرح زرینہ کو تشبیہہ دی ہے ،بُہت ہی خوب ہے۔ عوام کی سمجھ بھی ُکچھ بڑھانے کی ضرورت ہے ،تاکہ وہ ایسی تحریروں کا دُرست ُرخ سمجھ سکیں اور نتائج اخذ کر سکیں۔دراصل ایسی کمائی جس میں مزدوری سے زیادہ مل جائے یا بغیر مزدوری کے مل جائے ہمارے اپنے خیال کے مطابق سود ہے۔ انسان کی ارام پسندی یہی چاہتی ہے کہ کم سے کم محنت سے زیادہ سےزیادہ کمائی ہو اور کامیابی کی صورت میں انسان مذید ارام پسندہوتا چلا جاتا ہے۔ یہی حال اس قرض پر پلے والی عوام کا ہو گیاہے۔ قرض حکومتی خزانے میں جاتا ہے ،اور حکومتی خزانے کا کوئی مالک نہیں ہوتا جس کی وجہ سے اس کی حفاظت کی کوشش بھی نہیں کی جا سکتی وگرنہ یہی ُسننا پڑتا ہے کہ:تمہارے باپ کا ہے کیا :۔۔ یہ کسی کے باپ کا نہیں ہوتا اور ویسا ہی اس کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے۔ لالچ ایسی ہی چیز ہے کہاگر پیٹ بھرا بھی ہو تو بقول غالبگو ہاتھ کو جنبش نہیں ،انکھوں میں تو دم ہےرہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے اگےسو مذیدسے مذید کی لالچ کبھی جان نہیں چھوڑتی۔ اپ کی تحریریں ،اُمید کی کرن ہیں۔ جتنے لوگ پڑھیں گے اپنے کردار میں ضرور جھانک کر دیکھیں گے۔ انہیں کردار کی خرابیوں کو عوام تک پُہنچانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔ہماری طرف سے ایک
بار پھر بھرپور داد جناب ۔ وی بی جی 11 پاخانہ خور مخلوق مئی 2014 ,30 بُہت اعلی تحریر ہے جناب ،کیا ہی بات ہے۔ نازک مسئلے کوچھیڑ دیا اپ نے۔ البتہ اپنا حق رائے دہی ازاد جان کر اور اپ کی پُرخلوص طبعیت کو دیکھتے ہوئے درخواست کریں گے کہ اس کا عنوان ُکچھ تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہمیں۔ ہمارا خیال ہے کہ عنوان ایسا ہونا چاہیئے کہ پڑھنے والے کیطبعیت کو مائل کرے۔دوسری طرف ،اس تحریر کے لاجواب ہونے میں کوئی کلام نہیں۔ عوام کو ایسے مضامین پڑھنے کی اشدضرورت ہے ،شائید کسی کا ضمیر جاگے۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی صاحب ایک جگہ فرماتے ہیں کہ اے ُخدا ،تُو نے میرے ہاتھ باندھ کر ُمجھے دریا میں پھینک دیا ہے اور ُحکم دیا ہے کہکپڑے گیلے نہ ہوں۔ تو جناب حمام ہے یہ تو۔ہمیں یاد پڑتا ہے ،کہ بچپن میں ہم :زمانہ قبل از اسلام میں کفار کی جہالت :پر نوٹ لکھا کرتے تھے ،اور جناب کیا کیا بُرائی نہ اُن کے سر لگاتےتھے ،اور خوب نمبر سمیٹا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ یہ بھی لکھ دیتے تھے کہ :قبل از اسلامُ ،کفار کا یہ عالم تھا کہ ناک میںاُنگلی تک ڈالتے تھے :۔ لیکن صاحب! اب سوچتے ہیں ،کہ اسلام سے کیا سیکھا ہے مسلمانوں نے تو حیرت ہوتی ہے۔ ابھی تکدو ایسی چیزیں دریافت ہو پائی ہیں جو اسلام سے سیکھی ہیں ہم
نے اور سب اس پر ُمتفق بھی ہیں۔ ایک تو یہ کہ کسی بت کی پوجا نہیں کرتے ،اور دوسری یہ کہ خنزیر نہیں کھاتے۔ اخر الزکر اگرچہ مشکوک ہے کہ یہاں تو محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاًانسان انسان کو کھا جاتا ہے۔ کیا اسلام نے اتنا ہی سکھایا ہمیں؟ ہم نے غور کیا تو معلوم ہؤا کہ انسان کو امن میں رہنے کے طریقے سمجھانے والے مذاہب کی وجہ سے دُنیا میں سب سےزیادہ قتل و غارت ہوئی ہے۔ مذہب کی بُنیاد پر جتنا نقصان انسان نے کیا ہے ،کسی اور چیز کی وجہ سے نہیں کیا۔ توبہ ہےصاحب۔خیر یہ تو تھے ہمارے کچھ بکھرے ہوئے خیالات۔ اپ کیتحریر ہماری نظر میں بُہت اعلی اور عمدہ ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ وی بی جیزیر نظر مضمون پر وی بی جی کے خیالات سے میں کلی طور پرمتفق ہوں۔ عنوان کو بدلنے کی سخت ضرورت ہے۔ قاری عنواندیکھ کر اگر ٹھٹکے تو اچھا نہیں ہے۔ مضمون ہمارے معاشرے کی تصویر کی عکاسی کرتا ہے۔ آپ یقین کیجئے کہ اپنے آسپاس مسلمانوں کا حال دیکھ کر طبیعت پر مستقل انقباض رہتا ہے۔ بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ اب ا س قوم کا کوئی پرسانحال نہیں ہے۔ یہ دنیا میں خوار ہے اور خوار ہی رہے گی کیونکہ یہ اپنی اساس سے دور ہو چکی ہے۔ دنیا میں ڈیڑھ سو \"اسلامی\" ممالک ہیں۔ افسوس کہ ان میں ایک بھی ایسا نہیں ہے جہاں ہم اور آپ اپنی اولاد کو پڑھنے لکھنے یا رہنے کے لئے بھیج سکیں۔ انا للہ و ان الیہ راجعون۔ میں امریکہ میں رہتا
ہوں اور اس کا قائل ہوں کہ ہمارے مقابلہ میں دوسرے مذاہب کے لوگوں کا اخلاق اور کردار بدرجہا بہتر اور \"اسلامی\" ہے۔ اور اس صورت حال کا علاج بھی کوئی نظر نہیں آتا۔لکھتے رہئے۔ میں کوشش کروں گا کہ یہاں آمدورفت بڑھا دوں۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔ سرور عالم راز اس ناچیز کو بہتر انسان سمجھا اپ نے ،اپ کی ذرہ نوازی ! ہے۔ ہم بیچارے اوارہ قسم کے ادمی ہیں ،کبھی کسی پہاڑ پر بیٹھے شہر کی ٹمٹماتی روشنیوں سے گوٹ بنا کر کسی پیراہنمیں ٹانکنے میں مصروف تو کبھی رات رات بھر کسی فُٹ پاتھ پربیٹھ کر کسی ُکتیا کے بچے ُگم ہو جانے کے دُکھ میں شریک۔ سو ہمارا انتظار نہ ہی کیا کیجے۔ اپ کے یاد کرنے پر محترم سرور عالم راز سرور صاحب بنفس نفیس تشریف لا ُچکے ہیں۔ وی بی جی12 ان پڑھ مئی 2014 ,27 ہمارے منہ کی بات چھین لی اپ نے۔ بُہت ہی اچھی تحریر ہے۔ بالکل دُرست ہے کہ جو اچھی صفت یا ضمیر رکھتا ہے ،وہ اس سے انحراف کر ہی نہیں سکتا۔ اور ہمارا خیال ہے کہ یہ بچپن
میں والدین یا ماحول سے انسان سیکھتا ہے۔ اگر اُس کی تعلیم اُس کے دل میں بُرائی کی نفرت ڈال دے تو زندگی بھر اُس سےبُرا کام سرزد نہیں ہوتا۔ ہمارے نذدیک اس میں اُن چھوٹی چھوٹی کہانیوں یا حکایات کی بھی بُہت اہمیت ہے ،جو دادیاں بچوں کوُسناتی ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ ہماری دادی ہمیں ایسی کئی حکایات ُسناتی تھیں ،اور کئی اس قدر جذباتی ہوتی تھیں کہ رونا ا جاتا تھا۔ اُن کہانیوں میں بُرا کبھی ہیرو نہیں ہو سکتا تھا۔ ہمیشہ اچھائی کی جیت ہوتی تھی۔ علاوہ ازیں ،ایسے حساس اور سوچنے پر مجبور کر دینے والے موضوعات ہوتے تھے کہننھی سی عمر میں ہی سوچنے اور باتوں کو سمجھنے کی طرف رجحان رہا۔ جذباتی ہونے کے نقصانات سے اگہی ہوئی ،اور ہرمعاملے کو انصاف کے ترازو میں تولنا ا گیا۔ سچ پوچھیں تو ہمنے ُکچھ بار بھرپور کوشش کی کہ رشوت لے لیں ،لیکن اُس ذاتپاک کی قسم ،ہم :اسامی :سے انکھ نہ ملا سکے۔ اپنے اپ سے ایسی گھن اتی تھی ،کہ ایک لفظ بھی نہ کہہ سکے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمیں یہ احساس نہ تھا کہ الله ناراض ہو گا ،ہمیں مسئلہ یہ پیش تھا کہ غیرت اور انا اجازت نہ دیتی تھی۔ ہم اپنی کہانی لے کر بیٹھ گئے۔کہنا یہی چاہتے تھے ،کہ تبھی ہماری خواہش رہی ہے کہ ایسی چیزوں کو تعلیم کا حصہ ہونا چاہیئے جو کردار سازی کریں۔ ہمارے بچوں کو رٹے لگانے کی کوئیضرورت نہیں ہے۔ تمام علوم اس کے محتاج ہیں۔ جس میں کردارنہیں اُس کی کوئی سائنسدانی کسی کام کی نہیں۔ اور بقول اپ کی اس تحریر کے ہی ،حکومتیں ُکچھ نہیں کر سکتیں ،سب ُکچھکرنے والی عوام ہی ہے۔ حکومت کو کوسنے والا سبزی فروش خود نگاہ بچا کر گندے ٹماٹر بیچتا ہے۔ لوگ گندم نہیں اُگائیں
گے ،تو اٹا مہنگا ہوگا ،حکومت روٹی پکا کہ نہ کبھی کسی کودے سکی ہے ،نہ کبھی دے سکے گی۔اس تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد قبول کیجے۔۔۔ ہمیں بُہت پسند ائی ہے اپ کی تحریر۔ وی بی جی 13 لاروا اور انڈے بچے مئی 2014 ,21پڑھ تو ہم فوراً ہی لیتے ہیں ،لیکن سمجھنے اور پھر ُکچھ کہنےکے لائق ہونے میں وقت لگ جاتا ہے۔ اور سچ پوچھیے تو استحریر کے آخر میں جس طرح اس کا اختتام ہوتا ہے ،کافی سوچ بچار کرنی پڑتی ہے ،کہ لاروے اور انڈے بچے سے ُمراد کیا ہے۔ بُرائی کے خلاف تو کہانی کا ہیرہ نکلا ہی تھا ،اور انہیں لارووں کا خاتمہ چاہتا تھا ،پھر آخر یہ کیا کہانی ہوئی۔کہانی لکھنے میں تو ویسے آپ کا جواب نہیں۔ اس میں تو پیچیدہصورتیں بھی نظر آئیں ،جہاں لکھنے والا راستہ بھٹک کر کسی اور سمت نکل سکتا تھا ،لیکن بُہت خوبصورتی سے آپ نے اسے اپنے مقصد کے محور میں رکھا ہے۔ ہم جہاں تک سمجھ سکے ہیں وہ یہی ہے کہ بُرائی انسان خود ہی ہے ،اور اسی کاخاتمہ بُرائی کو ختم کر سکتا ہے۔ شیطان کی غیر موجودگی کیمثال بھی خوب دی آپ نے کہ اس کی غیر موجودگی میں کس حدتک بُرائی بڑھ جاتی ہے۔ایسی تحریروں کی جگہ ہم تو سمجھتےہیں ،کہ نصابی کتابوں میں ہونی چاہیئے ،جہاں کردار سازی کی
بہت ضرورت ہے۔ اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ جتنا نُقصان پہنچا رہے ہیں ،ہم نہیں سمجھتے کہ ان پڑھ اتنا نُقصان پُہنچا بھی سکتے ہیں۔ پڑھ لکھ کر صرف تعلیمی اسناد حاصل ہوتی ہیں ،اور اس کے بعد بھی ایسی حرکتیں کرتے ہیں ،کہ شرم نام کی چیز پاس نہیں پھٹکتی۔ہماری دُعا ہے کہ آپ کی کوششیں رنگ لائیں۔ ہماری طرف سے ایک بار پھر بھرپور داد قبول کیجے۔ وی بی جی 14 سچائی کی زمین مئی 2014 ,17جنب بہت عمدہ تحریر ہے۔ اپ نے کہانی کو نیا ُرخ دیا ہے اور کیا ہی خوب دیا ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ قُدرت کا نظام اپنے اپ کوخود ہی برقرار رکھتا ہے ،لیکن یہ بات بھی بجا ہے کہ انسان اس میں بُہت بگاڑ پیدا کرنے کے درپے ہے۔ اگرچہ اس بات کا یہاں تذکرہ ُکچھ ضرری نہیں لیکن ہمارا طریقہ ُکچھ ایسے ہے کہقُدرتی نظام میں کم سے کم دخل اندازی کرتے ہیں۔ لوگ بھاگ کر بلی کے منہ سے چڑیا کا بچہ چھین لیتے ہیں ،جبکہ ہم صرف خاموشی اور خالی الذہن ہو کر دیکھتے رہتے ہیں۔ اگرچہ اسسے ہمارے اندر بُہت حد تک سفاکی پیدا کر دی ہے ،لیکن ہم نے قدرتی نظام کو اس قدر سفاک پایا ہے ،کہ بیان سے باہر ہے۔جس نظام میں ایک کی موت دوسرے کی زندگی ہو ،اُس کا علاج ہمارے پاس تو ہو نہیں سکتا۔ کئی بار خود کو سمجھاتے ہیں،
لیکن اکثر اپنی باتوں میں اتے نہیں ہیں ہم۔ دخل اندازی صرف اُس وقت روا جانتے ہیں ،جب کسی کی موت کسی کی زندگی نہہو۔تحریر جان دار ہے ،سچائی اور اچھائی کا ساتھ دینے کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ ہماری طرف سے ایک بار پھر داد قبول کیجے۔ وی بی جی 15 ابھی وہ زندہ تھا مئی 2014 ,16واہ واہ واہ جناب ،کیا ہی بات ہے۔ ہمیں تو ایسا لگا کہ ہمارے منہ کی بات ہی چھین لی ہو اپ نے۔ بے شک اپ کو بات بیان کرنے کا فن اتا ہے۔ جن الفاظ میں اپ نے ان تلخ حقیقتوں کو بیان کیا ہے وہ لائق صد تحسین ہیں۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ یہ وہ حقیقتیں ہیں جو تمام لوگ جانتے اور سمجھتے ہیں ،لیکن انہیں زبان پر لاتے ہوئے شرماتے ہیں۔ حالانکہ وہحمام والی ضربالمثل خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں۔اپ نے کسی ٹوپی سلار کا ذکر بھی کیا ہے ،اور خوب کیا ہے۔ اب اپ کا کسطرف اشارہ ہے یہ کوئی سمجھے نہ سمجھے لیکن حقیقت اپنی جگہ ٹھوس حقیقت ہی ہوتی ہے۔تحریر زبردست ہے اور طنزجس انداز میں کیا گیا ہے ،ہمیں یقین ہے کہ کئی لوگوں کا ضمیر جگا سکتی ہے۔ اس تحریر پر ہم ذیادہ اس لیئے بھی نہیں لکھ سکتے کہ اپ نے اس میں ہمارے کہنے والی ہر بات ہم سے کہیں بہتر انداز میں کہہ دی ہے۔ہماری طرف سے بھرپور داد وی بی جی16
حلالہ مارچ 2014 ,11 ڈاکٹر صاحب آپ کی تحریریں بفس نفیس بولتی ہیں اپنے پاسسے گزرنے والوں کو مخاطب کر کے کہتی ہیں کہ آؤ ہمیں پڑھو ہم سے کچھ سیکھو کچھ اخذ کرو ،یہ دل کو چھو لینے والیتحریر جو حقیقت سے قریب ترین معاشرے سے جڑے کرداروںکو بے نقاب کرتی ہوئی بہت سے سوال بہت سے باتیں ذہن میںپیدا کرتی ہوئی اپنے پڑھنے والے کو مجبور کر رہی ہے ۔ میرے ذہن میں بھی کچھ باتیں آئیں جنکا اظہار خیال ضروری سمجھتا ہونحلال و حرام کی پابندی و شرائط کب کہاں اور کس لئے کی بنیاد پر ان کا نفاذ حکمیہ طور پر خالق کائینات کا مرتّب کردہ ہےنکاح فرض ہے ،نکاح واجب ہے ،نکاح سنّت ہے ،نکاح مستحب ہے یہ وہ شکلیں ہیں جنہیں ہم جانتے ہیں مگر نکاح حرام ہے جی نکاح حرام ہے محرم کے ساتھ مگر نکاح نامحرمکہ جس سے نکاح حلال ہے حرام بھی ہے وہ اس صورت میں کہجب کوئی ایسا شخص جو نکاح تو کرلے مگر حقوق ذوجیت ادا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو نامرد ہو تو ایسے شخص کا نکاح کہ جس کی منکوحہ اپنی جنسی ضرورت اور خواہش کوکسی اور ذرائع سے پورا کرے وہ بھی حرام ہےطلاق دینا حلال ہے مرد کے لئے مگر تمام حلال کاموں میں یہ وہ حلال کام ہے جسے الله باری تعالی نے ناپسند فرمایا ہے ،عورت کو طلاقدینے کا حق حاصل نہیں ہے ہاں خلع لے سکتی ہے ،اگر عورتکو طلاق کا اختیار دے دیا جاتا تو دن بھر میں بیسیوں بار طلاق
دے دیتی اپنے مرد کو ،مگر مرد اس معاملے میں صابر ہے اوربہت ہمت و برداشت والا ہوتا ہےشرعی طریقہ یہ ھے کہ عورت تین طلاقوں کے بعد اگر دوبارہ پہلے شوھر سے نکاح کرنا چاھتی ھے تو وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے بغیر اس نیت کے کہ وہ پہلے کے لیے حلال ھونا چاھتی ھے ،پھر وہشوھر اسے اپنی مرضی سے طلاق دے،مگر اس نیت سے نہیں کہ وہ پہلے کے لیے حلال ھو جائے ،یا پھر وہ مرجائے،اس طرح عورت پہلے شوھر سے نکاح کرسکتی ھے!!! لیکن جو حلالہ کا طریقہ ھمارے معاشرےمیں رائج ھو چکاھے،جوکسیبھی صاحب علم سے مخفی نہیں ھے{اس قسم کے لوگوں پر نبیصلی الله علیہ وسلم نے لعنت کی ھے،یعنی حلالہ کرنے والا اور جس کےلیے کیاجائے ،آپ نےاسے کرائے کا سانڈ قرار دیاھے}یہ ھےاندھی تقلید جس میں یہود ونصاری مبتلاء تھےیعنیبغیر شرعی دلیل کےآنکھیں بند کرکےکسی چیز پر عمل کرنا۔سنن ابوداودكتاب النكاحنکاح کے احکام و مسائلباب في التحلیلباب:نکاح حلالہ کا بیان۔حدیث نمبر 2076 :حدثنا أحمد بن یونس ،حدثنا زھیر ،حدثني إسماعیل ،عن عامر ،عن الحارث ،عن علي ،رضى الله عن -قال إسماعیل وأراہ قد رفع إلى النبي صلى الله علیوسلم -أن النبي صلى الله علی وسلم قال \"لعن الله المحلل والمحللل \".سیدنا علی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلیالله علیہ وسلم نے فرمایا ”حلالہ کرنے والا اور جس کے لیے کیا گیا ہے (دونوں) ملعون ہیں۔\"قال الشیخ الألباني :صحیح اسماعیل اعجاز
بازگشت دسمبر 2013 ,23 بہت عمدہ ۔ بہت لطف آیا ،سلامت رہیں آپ شکریہ ضیا بلوچ فقیر بابا دسمبر 2013 ,24 آپ کا انشائیہ بہت دلچسپ ہے۔ آپ نے جس تنہائی کی کیفیت کا ذکر کیا ہے اس سے آج ساری دنیا آشنا ہے۔ انسان اب انسانکونہیں پہچانتا ہےجب تک کہ اس کی کوئی غرض کسی اور سےنہ اٹکی ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پچھلے زمانے میں سبلوگ بے غرض ہوا کرتے تھے اور اپنی طبیعت سے سب فرشتہ تھے۔ ایسا تو کبھی ہوا ہی نہیں ہے۔ اورنہ کبھی ہو گا۔ ہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ اب خلوص ،انسانیت اور بھائی چارہ پہلےسے کم ہو گیا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہ ہیں جن سے کم وبیشہم سب واقف ہیں سو تفصیل ضروری نہیں ہے۔ یادش بخیر میرےبچپن میں آس پاس کے گھروں میں ،عزیزوں دوستوں میں ،گھرکی مائوں ،بہوئوں اور بڑی بوڑھیوں میں ملنا جلنا ،آنا جانا ،بے مقصد آ کر بیٹھ جانا اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونا اتنا عام تھا کہ آج کی تنہائی کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے۔ یہ عالم تھا کہ محلہ کا ہر بزرگ (اور غیر بزرگ!) اپنے آپ کودوسروں کی اولاد کا ولی اور :ٹھیکہ دار :سمجھتا تھا۔ ایک واقعہسناتا ہوں جو اس کیفہت کو خوب بیان کرتا ہے۔ایک دن سڑک پر
سگریٹ کا ادھا سلگتا ہوا دکھائی دیا۔ بچہ تو تھا ہی ،سوچاکہ اسمیں کیا مزا ہوتا ہے جو لوگ منھ سے لگائے پھرتے ہیں۔ چنانچہاٹھا کر ڈرتے ڈرتے ایک کش لیا اور کھانسی کے دھسکے سےکھوں کھوں کرتا ہوا اسے پھینک دیا۔ لیکن محلہ کے ایک بزرگ نے دیکھ لیا تھا۔ انہوں نے پاس آکر ایک ڈانٹ پلائی اور ایکہلکا سا ہاتھ بھی رسید کیا اور پھر ہاتھ پکڑ کر ابا جان کی خدمت میں لے گئے کہ آپ کا بچہ سڑک پر سگرٹ پی رہا تھا۔ ابا جانمارتے نہیں تھے لیکن صاحب! ان کی چشم نمائی مار سے زیادہ تھی۔ انھوں نے الگ ڈانٹ نما آنکھ دکھائی اور بزرگ کا شکریہ ادا کیا۔ سچ مانئے کہ وہ دن اور آج کا دن میں نے پھر سگرٹ چکھی ہی نہیں۔ یہ وہ سماجی ماحول تھا جو بچوں کو بہت سی اچھی باتیں سکھا دیا کرتا تھا۔ اب موجود نہیں ہے اور ہماری تنہائی میں اضافہ کا باعث ہے۔دوسری طرح کی تنہائی وہ ہےجس کا آج کل میں شکارہوں۔ امریکہ میں رہتا ہوں جہاں دوستوں کا کال ہے۔ سنا ہے کہ وطن عزیز میں بھی اب یہی معمول ہے۔پھر طرفہ تماشہ یہ کہ ایسے چھوٹے قصبے میں رہتا ہوں جہاں بلا مبالغہ ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جس سے میں بات کرسکوں ،یعنی اپنے ذوق کی بات۔ بیکار باتیں کرنے کو یا سیاست اور مذہبی گفتگو کے لئے تو شاید کوئی مل جائے لیکن یہ میرامسلک نہیں سو تن تنہا دن گزارتا ہوں۔ گویا زندگی قید تنہائی ہو کر رہ گئی ہے۔آپ کی تحریر سے مستفید ہوا۔ الله آپ کو خوش رکھے۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔ سرور عالم رازaap kaa mazmoon :Faqeer Baba: paRh kar bohat khushee huwee. aap ke mazaameen maiN shauq
se paRhtaa hooN kyoN keh in meN aap kee zindagee ke tajribaat hote haiN aur in se bohatkuchh seekhaa jaa saktaa hai. Faqeer Baba bhee aisee hee daastaan hai. aap kaa qalam bohat shiguftah hai aur aaj kal aisee tehreer kam dekhne meN aatee hai. aap se darKhwaast hai keh isee tarah ham logoN ko nawaazte rahiYe. Mushir Shamsi آپ کا یہ پُر مغز انشائیہ نظر نواز ہوا استفادہ کرتے ہوئے کچھ ذہن میں آیا سوچا پاگل کو مزید چھیڑا جائے میرا مطلب سمجھا جائے پا گل کے ایک معانی ہوتے ہیں جسے آپ نے فرمایا گلپانا یعنی بات کو سمجھ جانا بالکل اسی طرح چوں کہ گل پنجابیکا لفظ ہے اسے اسی معانی میں لیتے ہوئے گل پائیے کہ گل پاناگلے میں ڈالنے کی اصطلاح میں بھی لیا جاسکتا ہے اوراگر اردوکو شاعرانہ انداز میں لایا جائے تو گل پا گئے یعنی پاؤں گل گئے ان پاؤں گل گئے کو مزید بہتر بنانے کے لئے اسے اسطرح لیجئے کہ پائے گل گئے مگر پائے بھی دو طرح کے ہوتے ہیںبھینس کے بکری کے گائے کے بھیڑ کے ہمارے ہاں لاہور میںپھجے کے مگر ساتھ سری بھی لگائیے پھجے کے سری پائےاور دوسری قسم کرسی کے میز کے چار پائی کے بھی ہوتے ہیں یہ دونوں اپنی اپنی شکل میں گل جاتے ہیں پہلی قسم کے پائے گل جانے سے کرسی پر جم کر بیٹھ کر کھائے جاتے ہیں مگر
دوسری صورت میں کرسی دھڑام سے گر جاتی ہے کرسی کے پائے گل جانے کی وجہ سے اب اس گل پانے میں مزہ بھی ہےاور تکلیف بھی ہے یہ تو دراومدار کیفیت اور حالات کا ہے کہ آپ کن حالات اور کس کیفیت سے گزر رہے ہیں یہی سوچ کر میں چلا آیا کہ پاگل کو پاگل کر دوں اسماعیل اعجازجناب عالی محبت ہے آپ کے کہ مجھ پاگل کی گل آپ پا گئے اسیگل کو مزید پاگل کرنے کے لئے سوچا ہندی میں کچھ دان کردوں مگر اس بات کا ضرور دھیان رکھوں کے پاگل سے گل زبر کےساتھ نکال کر گل پر پیش لگا کر گلدان کر دوں تو پھر پا کو کہاں لے جاؤں اس کے لئے دان سے کچھ دان لے کر پا سے پائے اور پائے میں دان ملا کر پائیدان کردوں ،مگر پاگل کو میں اسبات کا پائے بند کردوں کہ پاگل پاگل ہوتا ہے اسی لئے پا کے لئےپاجامہ بنایا گیا مگر ہمارے شاعر بھائی کچھ اور ہی سوچتے ہیں بقول ان کےسنا ہے کہ انکی کمر ہی نہیں ہےنجانے پجمیا کہاں باندھتے ہیں اسماعیل اعجازکرم نوازی ہے سرکار کہ آپ نے مجھے فنکار کہا حالاں کہ میں ایک گمنام قلمکار ہوں ،ویسے ہمارے ہاں فنکار بھی دو طرح کے ہوتے ہیں ایک فن کار اور دوسرے فن کار آپ سوچ رہےہوں گے کہ یہ دونوں تو ایک ہی ہیں یہی تو مسئلہ ہے کہ فن کار اور فن کار دونوں الگ الگ ہیں ایک فن کار ہوتے ہیں اوردوسرے فن کار ہوتے اس بات کا اندازہ خوب لگایا جا سکتا ہے
جو ان کی کلاہ سے جڑا ہوتا ہے فرق سمجھنے کا ہے کسی ماہرفن کو آپ فن کار کہہ سکتے ہیں جس کا کام بولتا ہے جس کا ہنر بولتا ہے مگر ایسے بھی لوگ مجھ جیسے ہیں جو کچھ نہیں جانتے مگر باتیں خوب بناتے ہیں انہیں بھی فن کار کہا جاتا ہےکبھی کبھی لہجہ وہی رہتا ہے مگر معانی بدل جاتے ہیںجیسے کہ ایک صاحب فرمانے لگےماں کسم ایسا بھینکر اجگر دیکھا ایسی بری طرح فن کار ریا تھا کی میرے تو دماگ کے طوطے اڑ گئے ،آج کل طوطے پکڑ ریا ہوں ۔۔۔۔۔۔ اسماعیل اعجاز بیوہ طواءف فروری 2014 ,08 اپ کا یہ چھوٹا سا افسانہ پڑھا۔ بُہت اچھا لگا۔ اپ کی تحریریںماشاالله بُہت جاندار ہوتی ہیں۔ اور اپ کے احساسات کی وسعت کو سموئے ہوتی ہیں۔ زندگی کو اس قدر قریب سے دیکھنے اور محسوس کرنے کا فن اپ کی تحریروں سے واضح ہے۔الله پاک اپ کو ہمیشہ خوش و ُخرم رکھے۔ وی بی جی 17 بڑا آدمی مارچ 2014 ,08 یہ تحریر واقعی میں بُہت کرب رکھتی ہے۔ اور پھر اپ کے
لکھنے کے انداز نے اسے بیش قیمت بنا دیا ہے۔ قاری کو ایسے جہان کی سیر کروا کر نتیجہ کی طرف لاتی ہے اثر روح تک اُترجاتا ہے۔ پھر جس قدر اپ نے حالات و واقعات لکھے ہیں اپ کے تجزیئے کی طاقت اور احساس کی وسعت اس سے ظاہر ہے کہ جیسے معلوم نہیں کتنا ہی قریب سے اپ نے یہ سب دیکھا ہے۔ہمیں وقت کی کمی رہتی ہے ،لیکن اپ کے مضامین اورافسانے پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور بُہت پسند اتا ہے ہمیں اپ کا لکھا۔ وی بی جی18 کریمو دو نمبری مئی 2014 ,12 معذرت چاہتے ہیں کہ دیر سے حاضری ہوئی۔ بُہت خوبصورتتحریر ہے ،اور اپ کی اُن بہترین تحریروں میں سے ایک ہے جن میں اپ کی اس صلاحیت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ اپ ڈرامہ بھیبُہت خوب لکھ سکتے ہیں۔ کہانی لکھنا جتنا اسان دکھائی دیتا ہے اُتنا اسان ہوتا نہیں۔ اپ کی خصوصیات ہیں کہ اپ کا قلم کسیدائرے میں مقید نہیں ہے۔یہ صدیوں سے روایت چلی اتی ہے کہبُرا کا انجام بُرا ہوتا ہے ،کئی تحریرں لکھی گئی ہیں ،جن سے یہتعلیم دی جاتی ہے۔ لیکن ذاتی طور پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا ہوتا نہیں ہے۔ ہم اوائل میں بچوں کو یہ سبق سکھانے کی کوشش کرتے ہیں ،لیکن بڑے ہوتے ہی وہ تجربات سے سیکھہی جاتے ہیں کہ نیکی کا انجام اچھا تو ہوتا ہے لیکن صرف اُس
کے حق میں جس کے ساتھ نیکی کی جاتی ہے۔ ہم مثالیں ڈھونڈتے ہیں ایسے لوگوں کی جن کا انجام بُرا ہؤا ہو ،اور اُنلوگوں کو بھول جاتے ہیں ،جو نیکی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں،یا وہ جو بُرائی کر کہ تا حیات کامیاب ہی رہتے ہیں۔ ہم خود بھی یہی کرتے ہیں ،کسی بات کو قُدرت کی طرف سے ازمائیش کے زمرے میں ڈال دیتے ہیں ،کسی نیک کے ساتھ بُرا ہو تو اُسےاُس کی کسی نامعلوم بُرائی کا نتیجہ قرار دے لیتے ہیں ،اگر کوئی بُرا دُنیا میں کامیاب رہے تو اس کی سزا اخرت پر موقوف کر دیتے ہیں۔ کیا کیجے ،الله کے ُمعاملے میں بھی جھوٹ کے بغیرچارہ نہیں۔اگر ہماری کسی بات سے دل ازاری ہوئی ہو تو معذرت چاہتے ہیں۔ لیکن جو حال سو حاضر ہے۔تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ وی بی جی 19 معالجہ مئی 2014 ,13 ہمیشہ کی طرح بُہت خوبصورت تحریر ہے۔ ایک عام سی کہانیسے اپ نے فکر امیز نتائج اخذ کیئے ہیں ،بلکہ سوچ کو اس ڈگرتک پُہنچا دیا ہے کہ انسان خود سوچ سکے ان باتوں پر۔ ہماریطرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔جیسے کہ ریت ٹھہری ہے کہ ہم اپنی سی رائے دیتے رہتے ہیں۔ خیالات ہمارے بیکار سہی لیکن اپ کو اندازہ ہو جاتا ہو گا کہ ُکچھ لوگ ایسا بھی سوچتے
ہیں۔ تو اسی حوالے سے ہم اس تحریر کے اخری پیرائے کی طرف اتے ہیں۔ اقتباس بایو کیمک اصول کے مطابق‘ منفی کی درستی کے لیے‘ منفی رستہ ہی اختیار کرنا پڑے گا۔ منفی کا‘ اس کے سوا‘ کوئی اور معالجہ میری سمجھ میں نہیں آ رہا۔ ہمارا تجزیہ اس بارے یہ کہتا ہے کہ منفی کا علاج منفی سے ممکن ضرور ہے لیکن بُہت ہی کٹھن ہے۔ منفی اور منفی اپس میں مل کر بھی مثبت نہیں بن سکتے ،اور جیسا کہ ریاضی کااصول ہے انہیں اپس میں :ضربیں :کھانی پڑتی ہیں اور نتیجہ تب ہی مثبت نکلتا ہے۔ منفی کو شکست صرف مثبت ہی سے ہوتیہے ،لیکن اس کی شرط اول مثبت کا مکمل مثبت ہونا ہے۔ وگرنہ شکست لازم ہے۔ ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ یہ کونسے مرزا صاحب تھے ،لیکن اُن سے کسی نے کہا تھا کہ صاحب! اپ کے بارےمیں فلاں صاحب نے بُہت سخت باتیں لکھی ہیں اپ کیوں خاموش ہیں ،اپ بھی لکھیئے ُکچھ ،تو اُنہوں نے فرمایا تھا کہ :بھائی! اگر گدھا تُمہیں لات مارے تو تم کیا کرو گے:ہم نے اس پر کافیغور کیا۔ لات کا جواب لات سے دینا دُرست نہیں ہو گا کیونکہ لاتمارنا گدھے کی خصلت ہے ،انسان لاتوں کے ُمقابلہ میں اُس سے جیت نہیں سکتا۔ ایسے ہی منفی کا مقابلہ کرنے کے لیئے منفیہو جانا بُہت مشکل ہے۔ ہٹلر کی اپ نے مثال دی ہے۔ اگر اُس کو لاکھوں لوگوں کے مرنے پر رحم نہ ا جاتا تو دُنیا کا نقشہ ُکچھاور ہوتا۔ اخر اُس کے اندر کی اچھائی کہیں سے اُبھر ہی ائی ،اور شکست کھانا پڑی۔ ایک مثبت کا منفی کے ُمقبالے میں ُمکملمنفی ہو جانا بُہت مشکل ہے۔ اس کی ایک اور مثال ہمارے دیرینہ
دوست مرحوم شیخ سعدی کی ایک حکایت ہے کہایک بار ایک شخص کو پاؤں میں ُکتے نے کاٹ لیا۔ بیچارہ رات بھر تکلیف میں چیختا رہا۔ اُس کی معصوم اور ننھی سی بیٹی نے اُس سے کہا کہ بابا اگر ُکتے نے اپ کو کاٹا تھا تو اپ بھی اُسے کاٹلیتے۔وہ اس تکلیف میں بھی ہنس پڑا اور کہا کہ بیٹی۔ میں یہ تو برداشت کر لوں گا کہ میرے سر میں تلوار گھس جائے لیکن یہ ُمجھ سے نہ ہوتا کہ ُکتے کے غلیظ پاؤں میں میرے دانت گھستے۔سو صاحب مثبت کے لیئے یہ بُہت ُمشکل یا تقریباًناممکن ہوتا ہے کہ وہ منفی کا مقابلہ منفی ہو کر کر سکے۔ ہاں، اسے شکل بدلنی پڑتی ہے اور اُس بدلی شکل کو منفی نہیں کہاجاتا ،بلکہ مثبت کہا جاتا ہے۔ اگر شکل نہ بدلے تو منفی اور منفی ایک صورت ہو جاتے ہیں۔قسمت بڑی مزاحیہ ہوتی ہے صاحب! کہانی کے ہیرو کے دادا نے بھی اپنی سی کوشش کی تھی۔ کیاجانئیے ،کہ اس کی کوشش کامیاب ہو کر بھی ناکام ہو جائے اورحال ویسا ہی ہو جیسا کہ اس کے دادا جان کا ہؤا۔ پھر بھی ہم ان کو یہی مشورہ دیں گے کہ چاہے منفی ہی کیوں نہ ہونا پڑے،انہیں اپنی بات منوانی چاہیئے۔ کل کو اس کی سزا ب ُھگتتے ہوئےیہ احساس تو نہ ہوگا کہ کسی اور کے کیے کی سزا ب ُھگتنی پڑی۔ایک اور مشورہ بھی ہے کہ ایک بار منفی ہونے کے بعد کامیابی اسی میں ہے کہ ہمیشہ منفی رہا جائے کیونکہ قدرت ،مثبت کیطرف لوٹنے والے کو کبھی معاف نہیں کرتی۔ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ۔ وی بی جی 20
میں ابھی اسلم ہی تھا مئی 2014 ,09 واہ واہ واہ واہ ۔۔ جناب کیا ہی بات ہے۔ واہکہاں کہاں نظر ہے جناب اپ کی ،یہ حلاج اور حمادی کے فتوے کو کہاں لے ائے اپ۔ اپ بات کہاں سے ُشروع کرتے ہیں اور کیسے اپنا مقصد بیان کر جاتے ہیں اس کے تو ہم قائل ہیں ہی۔ لیکن یہ جو لکھا ہے نا اپ نے کہ:۔ ارتعاش پیدا ہوا تھا‘ لیکن میں رقص نہ کر ‘میرے اندر بھی:سکا‘ میں اپنے آپے میں تھا۔ میں ابھی اسلم ہی تھا‘ ریحانہ نہیںہوا تھا ۔اگر ریحانہ ہو گیا ہوتا‘ تو دنیا کی پرواہ کیے بغیر‘ ملنگ بابے کے ساتھ رقص کر رہا ہوتا۔ :کمال ہے جناب۔ ڈھیروں داد قبول کیجے۔سچ ہے ،اگر منصور بھی ریحانہ نہ ہو گیا ہوتا تو حمادی کا بھی کہیں نام و نشان نہ ہوتا۔ یہ بھی دُرست ہے کہمنصور بھی اسی ملنگ بابے کی طرح اپے میں نہ رہا۔ یہی وجہہے کہ شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی اپنی کتاب میںلکھتے ہیں کہ منصور کو اخری وقت پر پتہ چل گیا تھا کہ وہ بھی :اسلم ہی تھا ،ریحانہ نہیں ہؤا تھا اور نہ ہو سکتا تھا :اور یہ خود کو ریحانہ سمجھنے سے اوپر کا درجہ تھا۔۔ہماری طرف سے اس خوبصورت تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد جناب۔ وی بی جیاپ کا علمی مراسلہ پڑھا اور خوشی ہوئی ُکچھ تاریخی پس منظر
جان کر اس کے لیئے ُشکریہ قبول کیجے۔اپ جس قدر علم رکھتے ہیں اور اپ کا جس قدر مطالعہ ہے اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے۔ ہم اس بارے میں جو خیال رکھتے ہیں وہ تھوڑا سا بیان کر دیتے ہیں ،کہ اپ کا وقت بھی نہ ذائع ہو اورخیال بھی اپ تک پہنچ جائے۔اس پر غور کریں تو ُمعاملہ :وحدتالوجود :اور :وحدت الشہود :کے نظریات کی طرف چلا جاتا ہے۔ ہمیں وحدت الوجود کے قائل صوفیا کرام کی اس قدر بڑی تعداد ملتی ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ اپ جانتے ہی ہونگے لیکن بات کے تواتر کے لیئے تھوڑا سا بیان کر دیتے ہیں کہ :وحدت الوجود :کا نظریہ یعنی \"ایک ہو جانا\" یعنی الله تعالی کی ہستیمیں گم ہو جانا۔ ۔اور :وحدت الشہود :سے مراد :ایک دیکھنا ہے:یعنی چاروں طرف :تو ہی تو :ہے والا معاملہ ہو جاتا ہے ۔ سالک ہر چیز میں جلوہ باری تعالی دیکھتا ہے۔حضرت امام غزالی اور اُس کے بعد کے کئی صوفیا نے جو سالک کے لیئے منازل بیانکی ہیں یا :طریقت :بیان کی ہے اُس میں انسان خود کو ہر نفسانی خواہش سے پاک کر کہ جب اس راہ چلتا ہے تو وہ ذکر کے دوران ایک بُہت بڑا منبع نور دیکھتا ہے ،اور خود کو اہستہ اہستہ اس میں جذب ہوتا محسوس کرتا ہے۔ اخر کار وہ خود کوُمکمل طور پر اس کا حصہ محسوس کرتا ہے۔ تمام صوفیا اس پر متفق ہیں کہ انسان خود کو ذات باری تعالی میں ضم ہوتا محسوس کرتا ہے اور خود کو خدا محسوس کرتا ہے۔ حضرتمجدد الف ثانی سے پہلے تک یہی نظریہ :وحدت الوجود :تھا اوراس مقام کو اخری اور سب سے اونچا ُمقام سمجھا جاتا تھا۔ اس نظریئے نے کئی مسلے پیدا کیئے کہ کئی لوگ راہ بھٹکے اور خود کو خدا سمجھنے لگ گئے۔ پھر مجدد الف ثانی نے :نظریہ
وحدت الشہود :پیش کیا کہ صاحب اس سے اونچا ُمقام بھیموجود ہے۔ اس میں انسان خود کو ذات باری تعالی سے الگ ہوتامحسوس کرتا ہے اور اخر اسے ہر طرف خدا نظر اتا ہے ،اور وہ خود کو خدا محسوس نہیں کرتا۔ حضرت مجدد الف ثانی فرماتے ہیں کہ کئی صوفیا اس درجے پر نہیں گئے اور انہیں تامرگ معلوم تک نہ ہؤا کہ وہ غلطی کر رہے ہیں۔ صرف منصور کے بارے وہ لکھتے ہیں کہ اخری ایام میں اسے علم ہو گیا تھا۔انباتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے جو اخذ کر رکھا ہے وہ یہ ہے کہ منصور چونکہ :وحدت الوجود :کا معتقد تھا اور :وحدتالشہود :کا نظریہ بُہت بعد میں ایا ،سو اس کا خود کو خدا سمجھنا یا کہہ دینا عین ممکن نظر اتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ عالم وجدمیں کہی گئی بات سے اُس کا کیا ُمراد تھا ،وہ سب کو سمجھا پاتا یا نہیں۔ اُس کا علم الہامی تھا اور اس کے لیئے دلائل نہیں ہؤا کرتے۔یہ ہمارا خیال ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے اتفاق ضرورینہیں۔ اُمید ہے اسی طرح اپ ہمیں بھی تاریخ کی ُکچھ نہ ُکچھ تعلیم دیتے رہیں گے۔ وی بی جی پٹھی بابا مئی 2014 ,06بُہت عمدہ جناب۔ اچھی تحریر ہے۔ ہمارے خیال کے ُمطابق ،یہ تو ایک عام سا ُمعاشرتی رویہ ہے کہ ہر :عاشق پُتر :کو ماں ،بہن یاد کروائی جاتی ہے ،لیکن اپ نے اسی بات کو قدرے ُمختلف
رنگ دیا ہے۔ جہاں :بابا حق ، :نا صرف دلائل کے ساتھ ،دھیدو،سکندر اور محمود کی بات کرتا ہے ،بلکہ ُکچھ غلط العام پیمانوں کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے جن کے ذریعے دُنیا اچھا بُراپہچانتی ہے۔ اپ کی بیش تر باتوں سے ہمیں اتفاق ہے۔ رانجھے کا قصہ (ہر وارث شاہ) پڑھیں تو حضرت رانجھا صاحب کا ،باغ میں ہیر اور اُس کی سہیلیوں کے ساتھ سلوک کا ،جو ذکر ملتاہے ،وہ اپ کی بات کی تصدیق ہے۔ سکندر اعظم کے بارے بھی ہمیں اپ سے اتفاق ہے ،اور یہ بات دُرست ہے کہ راجہ پورسکی اپنے ہی ہاتھیوں کے باعث شکست صرف اس لیئے صراحی جاتی ہے کہ ،ایک ہندو راجہ تھا ،یہ کوئی نہیں کہتا کہ اُس کیفوج نے اُس کے بعد مذید اگے جانے سے انکار کیوں کیا۔ محمود کے بارے ہم ذیادہ نہیں جانتے اس لیئے ُکچھ کہہ نہیں سکتے،لیکن جب اتنا ُکچھ اپ نے دُرست کہا ہے تو یقیناً اس کی تاریخ پر بھی اپ کی نظر ہو گی۔ دُنیاوی عشق کے بارے ہمارا خیال ہے کہ ،بقول بابائے نفسیات ،فرائڈ کے ہر انسانی خواہش ،جنسیہوس اور بھوک وغیرہ سب ایک ہی اشتہا کا نام ہے۔ جب تک دُنیامیں بھوک ہے ،اور جب تک شیر ،ہرن کو کھاتا رہے گا ،اس کو ختم نہیں کر سکتے۔ جب تک خواہشیں ہیں ،تکمیل کی کوشش انسان کرتا رہے گا اور یہی ترقی کا دوسرا نام بھی ہے۔ اب رہ یہی جاتا ہے ،کہ خواہشیں اگرچہ تمام ہی بُری ہیں ،لیکن ان کواچھی اور بری اقسام میں تقسیم کیا جائے۔ بُری خواہشوں کو کمسے کم کیا جائے ،یا کم از کم ان کی تکمیل کرنے کی کاوش سے انسان کو روکا جائے۔ یہی اپ نے کیا ہے ،اور خوب کیا ہے۔ہمارا خیال ہے کہ دُنیاوی ُمحبت ،عشق وغیرہ اپ کے کہنے کےُمطابق ہی اصل میں جنسی ہوس ہی ہے ،یہی فرائڈ بھی کہتا ہے،
لیکن ہمارا خیال ہے کہ انسان نے یہ دیکھتے ہوئے کہ ،اس گھوڑے کو روکا نہیں جا سکتا ،اسے ُمحبت اور عشق جیسے پاکیزہ نام دے کر ،اس کی باگ موڑنے کی کوشش کی ہے۔ اور بُہت حد تک کامیاب بھی ہؤا ہے۔ یہ وہ طریقہ ہے جو مرد کو عورت اور عورت کو مرد پسند کرنے کی اجازت بھی دیتا ہے، اور غلاظت سے دور بھی رکھتا ہے۔ ہمارے نذدیک وہ تمام کہانیاں جو عشق و ُمحبت کی پاکیزگی بیان کرتی ہیں اور انسانکو اس بات پر امادہ کر دیتی ہیں کہ وہ انہیں خوبصورت جذبے کا نام دے کر ،برائی سے دور رہے ،وہ اس قدر غلط نہیں ہیں۔سوائے اس ایک بات کے ،کہ وہ عشق اور محبت کی ناکامی کیصورت میں ،انسان کو لاغر اور بےکار بن جانے کی ترغیب دیتی ہیں۔ اس کو روکنا بُہت ضروری ہے۔اب اس پر باقی ُکچھ ہم کہہ نہیں سکتے ،کیونکہ ہم خود اُن لوگوں میں سے ہیں جو بقول شخصے یہ چاہتے ہیں کہ ہماری بیوی وہ ُکچھ نہ کرے جو وہ چاہتے ہیں کہ پڑوسی کی بیوی کرے۔ تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد۔ رواں رکھیں۔ انہیں پڑھ کر ہمیں بُہت فائدہ ہوتا ہے۔ ُکچھ دیر سوچنے کا موقع ملتا ہے اور اپنے اپ کو پرکھنے کا بھی۔ وی بی جی جی دُرست فرمایا اپ نے۔ ُظلم تو واقعی ہے۔ ہم لوگ اج بھی خلیفہ ہارون الرشید کی تعریفیں کتابوں میں پڑھتے ہیں ،بلکہ تمام ُمسلمان بادشاہوں ،جیسے ُمغلیہ خاندان وغیرہ کی تعریف کرتے ہیں۔ کبھی نہیں کہتے کہ ،خاندان برامکہ کا کیا حال ہؤا
تھا ،کبھی نہیں لکھتے کہ فرقہ معتذلہ کیا تھا ،کبھی نہیں پڑھتے کہ ،امام احمد بن حنبل کے ساتھ کیا سلوک ہؤا۔ تب بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ لیکن افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ اب بھی ہم ایسا ہی کر رہے ہیں۔ بقول فرازیہاں قلم کی نوک پر ہے نوک خنجر کیاپ کی دُعاؤں کا ُشکریہ۔ ہم ُگم ہو جائیں تو :انا للہ :پڑھ لیا کیجے۔ ُسنا ہے کوئی چیز ُگم ہو جائے تو یہی پڑھنا چاہیئے۔ اگر دُنیا میں نہ ہوئے تو مغفرت کے کام ائے گی۔ وی بی جی 21 جواب کا سکتہ اپریل 2014 ,04 اپ کی ُکچھ تحریریں ایسی ہوتی ہیں ،کہ اُنہیں پڑھ کر انسان کولگتا ہے کہ ابھی اور اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ پڑھ کر انسان جو ُکچھ محسوس کرتا ہے اُسے الفاظ نہیں دے پاتا۔ کئی افسانے اپ کے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ کہتے ُکچھ نظر اتے ہیں لیکن کہہ ُکچھ اور رہےہوتے ہیں۔ :نقاد :تو بُہت اونچا مرتبہ ہے ،ہم تو صرف ایک عامادمی کی سی عقل کے حامل ہیں اور صرف یہ سوچ کر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ جو ہم نے محسوس کیا وہ اپ تک پُہنچ جائے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ جو ُکچھ اپ اپنی تحریر میں کہہ رہے ہوتے ہیں ،ہم ُجزوی یا پھر ہو سکتا ہے کہ ُکلی طور پر بھی نہ سمجھ پائے ہوں۔ ہمارے بیان سے اپ کو اتنا تو علم ہو
ہی جائے گا کہ ایک عام شخص نے پڑھ کر کیا محسوس کیا۔یہ تحریر بھی سوال چھوڑ جاتی ہے ،افسانے کا ہیرو چونکہ خود ایک اسامیاں پھنسانے والا شخص ہے اس لیئے اُس کے اپنی بیوی کے بارے جو بھی خیالات ہیں وہ مشکوک ہیں اور بھروسے کے لائق نہیں۔ دوسری طرف بیویوں کے عام رویوںکی طرف اشارہ ہے کہ اپنے بچے اُسے اپنے بچے ہی ہوتے ہیں جبکہ شوہر کسی اور کا بچہ ہوتا ہے۔ دوسری طرف یہ بھیمحسوس ہوتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ رقیہ کو معلوم ہو کہ اس کاشوہر باہر کے کھانے پسند کرتا ہے سو اُس نے پہلے دن ہی اُسکو خوش کر دیا ہو)۔ یہ بھی اخض نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنےبچوں کو حرام نہیں کھلانا چاہتی تھی کیونکہ گھر کا کھانا بھی تو اُسی کمائی کا ہو گا۔ویسے بیوی کے ُمعاملے میں زیادہ سوچنا نہیں چاہیئے کیونکہ اُس کے کئی کام عقل سے باہر ہی ہوتےہیناور عورتوں کا منطقی طرز علم مردوں سے یکسر ُمختلف ہوتاہے۔اس ُمعمے کو ُمعاشرتی طرز عمل سے دریافت کرنے اور پھر الفاظ دینے پر داد قبول کیجے وی بی جی 22 ماسٹر جی مئی 2014 ,02 بُہت اچھی تحریر جناب۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبولکیجے۔ اپ بات کرنے کا فن جانتے ہیں۔ خوبی یہ ہے کہ ُمعاشرےکے ایک تلخ رویئے کو اپ نے ایک چھوٹی سی کہانی میں سمو
دیا ہے۔ اور پھر پُر اثر بھی ہے۔ پڑھ کر ہمیں ُکچھ ُکچھ محسوس ہؤا کہ ماسٹر جی شکل ہم سے کچھ ملتی ُجلتی سی ہے۔ لیکنمسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کو تلقین کرنا ماسٹر جی کا اصلی روپ ،یااصلی چہرہ تھا۔ اور اُس پر کتنے ہی نقاب ڈال لیئے جائیں وہ اس سے بچ نہیں سکتے تھے۔ مذہب والا نقطہ بھی ١٠٠فی صد دُرست ہے ،کہ اس میں ویسے ہی عقل کو ایک طرف رکھ دیا جانا ہوتا ہے سو ان معاملوں میں سمجھ کی ضرورت تو ہوتی نہیں۔ مولوی صاحب کے ساتھ بھی یہی ہؤا کہ ایک دن اصلیچہرہ سامنے ا ہی گیا۔ ہماری طرف سے بھروپر داد قبول کیجے۔ وی بی جی سچ پوچھیں تو ہم ُشروع میں یہاں ائے تھے تو اپ کے لکھےکی طرف انا دُشوار سا لگتا تھا کہ لمبی تحریروں کو کون پڑھے اور وہ بھی توجہ مانگتی ہیں۔ پھر ایک ادھ بار پڑھا تو دل کو بُہت بھایا۔ پھر ان پر لکھنے کی ہمت نہ پڑتی تھی کہ صاحبہماری داد کس لائق ہے اس قدر تفکر امیز تحریروں کے سامنے،لیکن پھر ہم سے رہا نہیں گیا۔ اپ نے 1993کے بعد کوئی کتاب شائع نہیں کروائی ،وجوہات بھی ہونگی۔ لیکن ہماری درخواست یہی رہے گی کہ جہاں تک ہو سکے ،ہمیں ان سے مستفیضہونے کا شرف دیتے رہیئے گا۔ داد و تحسین ،اپ جانتے ہی ہیں،کہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ :ہم تو پکھی واس ہوویں :سو جانےیہاں کب تک ہیں ،لیکن یہ سلسلہ جاری رہے تو اچھا ہے۔ کوئینہ کوئی ان سے استفاضہ حاصل کرتا رہے گا۔ اپ جانتے ہی ہیںکہ انٹرنیٹ پر اگر کوئی چیز ٢٠٠لوگ پڑھتے ہیں تو ١٠٠لوگ
پسند بھی کرتے ہیں ،لیکن اپنی پسند کا اظہار فقط کوئی ایک ادھشخص ہی کرتا ہے۔ بہار اتی ہے کویل کوکتی ہے ،کوئی ُسنے نہُسنے۔ ایسے ہی اپ کے یہ خوبصورت احساسات ہیں ،جو پڑھنےوالوں کے زہنوں کو پختگی دیتے ہیں۔ مردہ ضمیر کو زندہ کرتےہیں۔ اپ کو قدرت نے یہ صلاحیت دی ہے کہ اپ کی تحریر صرف ایک قول کی طرح اچھا یا بُرا بتا نہیں دیتی ،بلکہ ضمیر کوجگاتی ہے۔ صرف اچھائی کی تغیب اور بُرائی چھوڑنے کی تلقین نہیں کرتی ،بلکہ اچھائی کرواتی ہے اور بُرائی کی طرف بڑھتا ہاتھ روکتی ہے۔ بقول ہمارے ہیکھولے نہ کھولے در کوئی ،ہےُمجھ کو اس سے کیامیں چیختا رہوں گا تیرے در کے سامنےالله پاک کا ہمیشہ کرم رہے اپ پر۔ وی بی جی بڑے ابا اپریل 2014 ,28 بُہت ہی خوبصورت تحریر ہے۔ جہاں اپ نے انسان کے بٹتے چلے جانے کی بات کی ہے وہاں یہ تحریر ایک دوسرے کےساتھ ُمحبتوں کے ساتھ جینے کا بھی سبق دیتی ہے۔ تحریر میںموجود کرب کا احساس اسے اور زیادہ جاندار کر رہا ہے۔ واقعیصفر کا ہندسہ بُہت طاقت رکھتا ہے ،اور اپ نے اسے اپنے اندازمیں بُہت خوبصورتی سے ُمعاملے کے ساتھ جوڑا ہے۔ صفر کےساتھ صرف ایک کا اضافہ اسے بُہت طاقتور کر دیتا ہے اور خود
بھی بُہت طاقتور ہو جاتا ہے بشرطیکہ کہ :صحیح سمت :میں اضافہ ہو۔ غلط سمت میں اگر ایک کا اضافہ ہو تو ایک ،ایک ہیرہتا ہے لیکن صفر اپنا وجود بھی کھو دیتا ہے۔ ایک کو چاہیئے کہ کوشش کرے کہ کئی صفروں کے ساتھ لگ جائے اور اسی طرح اپنی اور دوسروں کی قیمت میں اضافہ کرے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ بُہت ہی عمدہ تحریر ہے۔ہم نےانسان کے بٹنے کے عمل کو ایک اور نقطہ نظر سے بھی دیکھاہے۔ شیکسپئر کے ُمطابق :ال دا ورلڈ از سٹیج :۔ اُنہوں نے انسانکی زندگی کے ادوار کو کردار دیئے ہیں ،جبکہ ہمارا خیال ہے کہ انسان ایک ہی وقت میں کئی کردار بھی نبھاتا ہے۔ باپ بھی ہے بیٹا بھی۔ دفتر میں ایک چہرہ تو رشتہ داروں کے سامنے کوئی اور چہرہ۔ کہیں اداب بھری محفل میں ایک مؤدب شخص تو دوستوں کے سامنے ایک گالم گلوچ والے انسان کا چہرہ۔ کہیں چالاک اور مکار تو مولوی صاحب کے سامنے عجز و انکسار۔ کہیں خوشی نہ ہوتے بھی ہنسنا پڑتا ہے تو کہیں کسی کو موت پر زبردستی رونے کی کوشش کرتا ہے۔ کردار نبھاتا ہے۔ اورانہیں کرداروں میں بٹتا بٹتا ،اپنا اصلی چہرہ بھول جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک کردار یہ :وی بی :ہے جس میں ہمیں اپنا چہرہ نظر اتاہے اور ہم اس کے ساتھ وقت ُگزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمنے اپ کی تحریر پڑھ کر زیادہ وقت نہیں لیا ،سو جذباتی سی چندباتیں جو ذہن میں اُبھریں بیان کر گئے ہیں ،جس پر معذرت بھی چاہتے ہیں۔ ائندہ کوشش کریں گے کہ اپ کی تحریر کے ساتھ زیادہ وقت ُگزاریں تاکہ جذبات ُکچھ ٹھنڈے ہو جائیں اور ہم ُکچھعقل کو لگتی کہہ سکیں۔اپ کی یہ تحریر بھی بُہت خوب ہے ،اور ہمیں یقین ہے کہ پڑھنے والے اس سے ضرور اثر لیں گے۔
Search
Read the Text Version
- 1
- 2
- 3
- 4
- 5
- 6
- 7
- 8
- 9
- 10
- 11
- 12
- 13
- 14
- 15
- 16
- 17
- 18
- 19
- 20
- 21
- 22
- 23
- 24
- 25
- 26
- 27
- 28
- 29
- 30
- 31
- 32
- 33
- 34
- 35
- 36
- 37
- 38
- 39
- 40
- 41
- 42
- 43
- 44
- 45
- 46
- 47
- 48
- 49
- 50
- 51
- 52
- 53
- 54
- 55
- 56
- 57
- 58
- 59
- 60
- 61
- 62
- 63
- 64
- 65
- 66
- 67
- 68
- 69
- 70
- 71
- 72
- 73
- 74
- 75
- 76
- 77
- 78
- 79
- 80
- 81
- 82
- 83
- 84
- 85
- 86
- 87
- 88
- 89
- 90
- 91
- 92
- 93
- 94
- 95
- 96
- 97
- 98
- 99
- 100
- 101
- 102
- 103
- 104
- 105
- 106
- 107
- 108
- 109
- 110
- 111
- 112
- 113
- 114
- 115
- 116
- 117
- 118
- 119
- 120
- 121
- 122
- 123
- 124
- 125
- 126
- 127
- 128
- 129
- 130
- 131
- 132
- 133
- 134
- 135
- 136
- 137
- 138
- 139
- 140
- 141
- 142
- 143
- 144
- 145
- 146
- 147
- 148
- 149
- 150
- 151
- 152
- 153
- 154
- 155
- 156
- 157
- 158
- 159
- 160
- 161
- 162
- 163
- 164
- 165
- 166
- 167
- 168
- 169
- 170
- 171
- 172
- 173
- 174
- 175
- 176
- 177
- 178
- 179
- 180
- 181
- 182
- 183
- 184
- 185
- 186
- 187
- 188
- 189
- 190
- 191
- 192
- 193
- 194
- 195
- 196
- 197
- 198
- 199
- 200
- 201
- 202
- 203
- 204
- 205
- 206
- 207
- 208
- 209
- 210
- 211
- 212
- 213
- 214
- 215
- 216