!تخلیق جہاں سے کم نہیں ہے سرور عالم راز
ڈاکٹر مقصود حسنی بطور ایک اسلامی مفکر اور اسکالر مرتبہ :پروفیسر یونس حسن ڈاکٹر مقصود حسنی بلاشبہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ مختلف ادبی سائنسی سماجی صحافتی وغیرہ فیلڈز میں اپنے قلم کا جوہر دکھلاتے چلے آ رہے ہیں۔ ان کے دوجنوںمقالے مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ بیس سےزائد کتب بھی منظر عام پر آ چکی ہیں۔ یہ اس امر کی دلیل ہےکہ ان کا تخلیقی اور تحقیقی سفر نت نئی منزلوں کی جانب رواں دواں رہا ہے۔ ان کے اس سفر میں ہر سطح پر تنوع اور رنگارنگی کی صورت نطر آتی ہے۔ ڈاکٹر اختر شمار انہیں ادبی جنکہتے ہیں۔ راقم نے حال ہی میں ان کے اسلام سے متعلق کچھ مضامین کا سراغ لگایا ہے۔ یہ مختلف اخبارات میں شائع ہوچکے ہیں۔ یہ کل کتنے ہوں گے ٹھیک سے کہہ نہیں سکتا تاہم ستر کا میں کھوج لگا سکا۔ ان مضامین کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا اسلام کے بارے مطالعہ سرسری اور عام نوعیت کا نہیں۔ انہوں نے اپنے مضامین میں انسان اور عصر حاضر کے مسائل کو موضوع گفتگو بنایا ہے۔ ان کے موضوعات ان کیگہری تلاش اور سنجیدہ غور و فکر کا مظہر ہیں۔ وہ روایت سے ہٹ کر کفتگو کرتے ہیں۔ انہوں نے فلسیفانہ موشلافیوں کو چھوڑ کر نہایت سادہ اور دلنشین انداز میں اپنی بات قاری تک
پہنچائی ہے۔ اسلام کا موڈریٹ اور روشن چہرا دکھایا ہے۔ انہوں نے ہر قسم کے تعصبات تنگ نظری اور رجعت پسندی کی نفی کرتے ہوئے حقیقت اور انسانیت سے محبت کے پہلو کو اجاگر کیا ہے۔ ان کے نزدیک ہر انسان قابل قدر ہے اور اسے معاشی سماجی عزت اور انصاف مہیا ہونا چاہیے۔ اسلام کے گوناں گوں موضوعات اور پہلووں پر لکھے ہوئے مضامین میں رواداری ایثار اور قربانی کا پیغام ملتا ہے۔ ان کے نزدیک انسان کو دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کیے تخلیق کیا گیا ہے۔ اسے ان کی مشکلات مصائب اور المیوں کے تدارک کے لیے اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ ان کے نزدیک اختلاف رائے پرداشت کرنے کا مادہ پیدا کرنا چاہیے۔ دلیل سے بات کرنے کی طرح ڈالنا ہی آج کی ضرورت ہے۔ اسلام کے گونا گوں موضوعات پر ڈاکٹر مقصود حسنی کےمضامین اور کالم اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ وہ صرف اردو ادب کی یگانہء روزگار شخصیت نہیں ہیں بلکہ اسلامی امور کے بھی ایک اہم اسکالر ہیں۔ ان کی شخصیت کا یہ شیڈ اور زاویہ شاید ان کے بہت سے پڑھنے والوں پر وا نہ ہوا ہو گا۔راقم نے بصد کوشش ستر مضامین کا کھوج لگایا ہے۔ ہو سکتا ہے میری یہ کوشش کسی کے کام کی نکلے۔ ان مضامین کےتناظر میں ان کی اسلامی سوچ کی ندرت اوراپج انہیں سمجھنےمیں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔ ان کا یہ اسلوب روانی دلکشی اور مخصوص رعنائی رکھتا ہے۔ ذیل میں ان کے مضامین کی
فہرست قارئین کی نذر کی جاتی ہے۔تعبیر شریعت‘ قومی اسمبلی اور مخصوص صلاحیتیں ١-روزنامہ مشرق لاہور ٢٠دسمبر ١٩٨٦شریعت عین دین نہیں‘ جزو دین ہے ٢-روزنامہ مشرق لاہور ٥جنوری ١٩٨٧اسلام کا نظریہء قومیت اور جی ایم سید کا موقف روزنامہ ٣- مشرق لاہور ١٥فروری ١٩٨٧غیر اسلامی قوتیں اور وفاق اسلام کی ضرورت ٤-روزنامہ مشرق لاہور ٢٩اپریل ١٩٨٧روزنامہ ٥- غیر اسلامی قوانین اور وفاق اسلام مشرق لاہور ٢٨اپریل ١٩٨٧روزنامہ ٦- اسلام ایک مکمل ضابطہءحیات وفاق لاہور ٧جنوری ١٩٨٨اسلام مسائل و معاملات کے حل کے لیے اجتہاد کے در وا ٧- کرتا ہےروزنامہ مشرق لاہور ٧جنوری ١٩٨٨روز نامہ ٨- اسلام سیاست اور جمہوریت -جنگ لاہور ٢٦جنوری ١٩٨٨٨روزنامہ ٩- اسلام میں سپر پاور کا تصور مشرق لاہور ٥فروری ١٩٨٨ہفت روزہ ١٠- پاکستان اور غلبہءاسلام دو اقساط ١٩فروری ‘١٩٨٨الاصلاح لاہور ١٢مسلمانوں کی نجات اسلام میں ہے ہفت روزہ الاصلاح ١١- لاہور ٢٢فروری ١٩٨٨
انسان کی ذمہ داری خیر و نیکی کی طرف بلانا اور برائی ١٢- سے منع کرنا ہےروزنامہ مشرق لاہور ٢٢فروری ١٩٨٨خداوند عالم‘ انسان دوست حلقے اور انسانی خون ١٣-روزنامہ مشرق لاہور ٧مارچ ١٩٨٨روزنامہ ١٤- اسلامی دنیا اور قران و سننت مشرق لاہور ٢٦مارچ ١٩٨٨جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی ١٥-روزنامہ مشرق لاہور ٢٩مارچ ١٩٨٨ربط ملت میں علمائے امت کا کردار ہفت روزہ الاصلاح ١٦- لاہور ١٥اپریل ١٩٨٨غلبہءاسلام کے لیے متحد اور یک جا ہونے کی ضرورت ١٧-روزنامہ مشرق لاہور ٣٠اپریل ١٩٨٨اسلام کا پارلیمانی نظام رائے پر استوار ہوتا ہے روزنامہ ١٨- مشرق لاہور ٧مئی ١٩٨٨نفاذ اسلام اور عصری جمہوریت کے حیلے روزنامہ ١٩- نوائے وقت لاہور ١٤مئی ١٩٨٨ہفت روزہ ٢٠- اسلام انسان اور تقاضے الاصح لاہور ٢٧مئی ١٩٨٨روزنامہ مشرق ٢١- بنگلہ دیش میں اسلام یا سیکولرازم لاہور ١جون ١٩٨٨بنگلہ دیش میں اسلام۔۔۔۔۔اسلامی تاریخ کی درخشاں مثال ٢٢-روزنامہ مشرق لاہور ٢٠جون ١٩٨٨روزنامہ ٢٣- اسلام کا نظریہءقومیت اور اسلامی دنیا امروز لاہور ٢٠جون ١٩٨٨
روزنامہ ٢٤- اسلام کا نظریہءقومیت مشرق لاہور ١٥جولائی ١٩٨٨ہماری نجات اتحاد اور لہو سے مشروط ہے روزنامہ ٢٥- مشرق لاہور ٣٠اگست ١٩٨٨روزنامہ وفاق ٢٦- اسلام اور کفر کا اتحاد ممکن نہیں لاہور ٣٠اگست ١٩٨٨روزنامہ امروز ٢٧- انسان زمین پر خدا کا خلیفہ ہے لاہور ٣٠اگست ١٩٨٨روزنامہ مشرق ٢٨- جمہوریت اشتراکیت اور اسلام لاہور ٣٠اگست ١٩٨٨حضور کا پیغام ہے برائی کو طاقت سے روک دو روزنامہ ٢٩- مشرق لاہور ٣١اگست ١٩٨٨امت مسلمہ رنگ و نسل‘ علاقہ زبان اور نظریات کے ٣٠- حصار میں مقید ہےروزنامہ مشرق لاہور ٣١اگست ١٩٨٨آزاد مملکت میں اسلامی نقطہءنظر اور آزادی روزنامہ ٣١- وفاق لاہور ٥ستمبر ١٩٨٨روز نامہ ٣٢- اسلامی دنیا سے ایک سوال وفاق لاہور ٥ستمبر ١٩٨٨روزنامہ ٣٣- پاکستان میں نفاذاسلام کا عمل وفاق لاہور ٢اکتوبر ١٩٨٨روزنامہ وفاق ٣٤- اسلام میں عورت کا مقام لاہور ٢٥اکتوبر ١٩٨٨انسانی فلاح اسلام کےبغیر ممکن نہیں روزنامہ وفاق ٣٥- لاہور ٢٨اکتوبر ١٩٨٨
اسلام کی پیروی کا دعوی تو ہے مگر! روزنامہ آفتاب ٣٦- لاہور ٢٨اکتوبر ١٩٨٨پاکستان میں نفاذ اسلام کیوں نہیں ہو سکا روزنامہ ٣٧- ٣١اکتوبر ١٩٨٨ وفاق لاہورروزنامہ ٣٨- نفاذ اسلام میں تاخیر کیوں آفتاب لاہور ٨نومبر ١٩٨٨ہفت روزہ ٣٩- اسلامی دنیا کے قلعہ میں داڑاڑیں کیوں جہاں نما لاہور ١٠نومبر ١٩٨٨اعتدال اور توازن کا رستہ عین اسلام ہے روزنامہ مشرق ٤٠- لاہور ٢٠نومبر ١٩٨٨روزنامہ مشرق ٤١- اسلام کا نظام سیاست و حکومت لاہور ٢٢نومبر ١٩٨٨روزنامہ ٤٢- شناخت‘ اسلامائزیشن کا پہلا زینہ مشرق لاہور ٣٠نومبر ١٩٨٨اسلام کے داعی طبقے کی شکست کیوں روزنامہ ٤٣- مساوات لاہور ٥دسمبر ١٩٨٨روزنامہ وفاق ٤٤- کیا اسلام ایک قدیم مذہب ہے لاہور ١٠جنوری ١٩٨٩روزنامہ وفاق ٤٥- ملت اسلامیہ کی عظمت رفتہ لاہور ٢فروری ١٩٨٩اسلام اور عصری جمہوریت چار اقساط روزنامہ وفاق ٤٦- لاہور ٢٨اگست ‘١٩٨٩مارچ ‘٣فروریاہل اسلام کے لیے لمحہءفکریہ روز نامہ وفاق لاہور ٤٧- ٨ مارچ ١٩٨٩
اسلام دوست حلقوں کے لیے لمحہءفکریہ روزنامہ وفاق ٤٨- لاہور ١٩مارچ ١٩٨٩غیر اسلامی دنیا کے خلاف جہاد کرنے کی ضرورت ٤٩- روزنامہ وفاق لاہور ١٩مارچ ١٩٨٩اسلامی دنیا‘ ذلت و خواری کیوں روزنامہ وفاق لاہور ٥٠- ٢٢مئی ١٩٨٩امور حرامین میں اسلامی دنیا کا کردار ماہنامہ ٥١- وحدت اسلامی اسلام آباد محرم ١٣١١ھروزنامہ وفاق ٥٢- حج کی اہمیت عظمت اور فضیلت لاہور جولائی ١٩٨٩اسلامی مملکت میں سربراہ مملکت کی حیثیت روزنامہ ٥٣- وفاق لاہور ٦جولائی ١٩٨٩روز نامہ ٥٤- نفاذ اسلام کی کوششیں وفاق لاہور ٣اگست ١٩٨٩اسلام عصر جدید کے تقاضے پورا کرتا ہے روزنامہ ٥٥- مشرق لاہور ٤اگست ١٩٨٩روزنامہ اسلام اور عصری ے جمہوریت چار اقساط وفاق لاہور ٢٨اگست ‘١٩٨٩مارچ ‘٣فروریمسلم دنیا کی نادانی جوہرقسم کی ارزانی ہفت روزہ جہاں ٥٦- نما لاہور ١٧ستمبر ١٩٨٩روزنامہ ٥٧- اسلام میں جہاد کی ضرورت و اہمیت وفاق لاہور ٣٠ستمبر ١٩٨٩روزنامہ وفاق ٥٨- ورقہ بن نوفل کا قبول لاہور ١٥اکتوبر ١٩٨٩
روزنامہ مشرق ٥٩- اسلام میں جرم و سزا کا تصور لاہور ١٥اکتوبر ١٩٨٩پاکستان اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کے ٦٠- لیے حاصل کیا گیا تھاروزنامہ مشرق لاہور ١٥اکتوبر ١٩٩٠ہم اسلام کے ماننے والے ہیں پیروکار نہیں اردو نیٹ ٦١- جاپاناردو نیٹ ٦٢- ہم مسلمان کیوں ہیں جاپاناردو نیٹ ٦٣- مذہب اور حقوق العباد کی اہمیت جاپانورڈز ٦٤- آقا کریم کی آمد ولیج ڈاٹ کامفورم ٦٥- الله انسان کی غلامی پسند نہیں کرتا پاکستان ڈاٹ کامسکربڈ ٦٦- مسلمان کون ہے ڈاٹ کاماردو نیٹ ٦٧- سکھ ازم یا ایک صوفی سلسلہ جاپانشرک ایک مہلک اور خطرناک بیماری ٦٨- www.dirale.comاسلامی سزائیں اور اسلامی و غیراسلامی انسان اردو ٦٩- نیٹ جاپانسکربڈ ٧٠- پہلا آدم کون تھا ڈاٹ کام
ڈاکٹر مقصود حسنی بطور مترجم از پروفیسر یونس حسن ڈاکٹر مقصود حسنی ایک نامور محقق‘ نقاد اور ماہرلسانیات ہونے کے ساتھ ایک کامیاب مترجم بھی ہیں۔ انہوںنے جن فن پاروں کا ترجمہ کیا ہے ان پر طبع زاد ہونے کا گمان گزرتا ہے۔ ان کے تراجم سادگی سلاست اور رونی کاعمدہ نمونہ ہیں۔ ایک کامیاب مترجم کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اصل کے مفاہیم کو خوب ہضم کرکے ترجمے کا فریضہ انجام دے تا کہ ترجمہ اصل کے قریب تر ہو۔موصوف کے تراجم کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نےاصل کی تفہیم پر دسترس حاصل کرنے کے بعد ہی یہ کام کیا ہے۔ان کے تراجم روایت سے ہٹ کر ہیں۔ یہاں تک کہ متعلقہ فن پارے کی ہیئت سے بھی تجاوز کیا ہے۔ اس کی مثال رباعیات کا سہ مصرعی ترجمہ ہے جسے برصغیر کےنامور علما نے پسند کیا اور حسنی صاحب کو اس کام پر دادبھی دی۔ ان کے تراجم میں ایک ندرت اور چاشنی پائی جاتی ہے۔ ان کے تراجم کو جہاں ایک نئی جہت عطا ہوئی ہے وہاں الفاظ پر ان کی غیر معمولی گرفت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔حسنی صاحب کے تراجم کے مطالعہ سے یہ بھی کھلتا ہےکہ مترجم لفظ کے نئے نئے استعمالات سے آگاہ ہے۔ ڈاکٹر
ابو سعید نورالدین نے ان تراجم پر بات کرتے ہوئے درست :کہا تھاواقعی تعجب ہوتا ہے۔ آپ نے رباعیات کا اردو ترجمہ چہارمصرعی کی بجائے سہ مصرعی میں اتنی کامیابی کے ساتھ کیسے کیا۔ یہ آپ کا کمال ہے۔ ترجمے کے لیے لازمی ہوتا ہے کہ مترجم کی اس میں مکمل دلچسپی ہو ورنہ اس کی ساری محنت اکارت چلی جائے گی۔ حسنی صاحب نے ترجمے کا کام پوری دلچسپیاور بھرپور کمٹ منٹ کے ساتھ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے تراجم اصل کی بھرپور نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کےرباعیات خیام کے تراجم کے حوالہ سے پروفیسر کلیم ضیا :نے کہا تھا سہ مصرعی ترجمے ماشاءالله بہت عمدہ ہیں۔ ہر مصرعہ رواں ہے۔ ابتددائی دونوں مصرعے پڑھ پڑھ لینے کے بعدمفہوم اس وقت تک واضح اور مکمل نہیں ہو سکتا جب تککہ مصرع سوئم پڑھ نہ لیا جائے۔ یہی خوبی رباعی میں بھی :ہے کہ چوتھا مصرع قفل کا کام کرتا ہے۔ ان کے تراجم کا یہی کمال نہیں کہ وہ اصل کے مطابق ہیںبلکہ ان میں جازبیت اور حسن آفرینی کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ بڑھتے جائیں طبیعت بوجھل نہیں ہوتی۔ ان کے تراجممیں پایا جانے والا فطری بہاؤ قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ شاید اسی بنیاد پر ڈاکٹر عبدالقوی ضیاء نے کہا :تھا حسنی صاحب ماہر تیراک اور غوطہ خور ہیں ان کے سہ مصرعوں میں اثرآفرینی ہے‘ روانی ہے‘ حسن بیان ہے‘
تازہ کاری اور طرحداری ہے۔ قاری کو مفہوم سمجھنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی بلکہ لطف آتا ہے۔ گویا ان کا مخصوص اسلوب تکلم اور طرز ادا ترجمے کو کہیں بھی خشک اور بےمزہ نہیں ہونے دیتا بلکہ اس کی اسلوبی اور معنوی سطح برقرار رہتی ہے۔انہوں نے عمر خیام کی چوراسی رباعیات کا اردو ترجمہ کیا۔یہی نہیں اپنی کتاب۔۔۔۔۔ شعریات خیام۔۔۔۔۔ میں خیام کی سوانح کے ساتھ ساتھ چار ابواب میں ان کا تنقیدی و لسانی جائزہ بھی پیش کیا۔پچاس ترکی نظموں کا اردو ترجمہ کیا اس ترجمے کو ڈاکٹر نوریہ بلیک قونیہ یونیورسٹی نے پسند کیا۔ یہ ترجمہ ۔۔۔۔۔ستارے بنتی آنکھیں۔۔۔۔۔ کے نام سے کتابی شکل میں پیش کیا گیا۔انہوں نے فینگ سیو فینگ کے کلام پر تنقیدی گفتگو کی۔ ان کا یہ تنقیدی مضمون۔۔۔۔۔ فینگ سیو فینگ جذبوں کا شاعر۔۔۔۔۔۔ کے عنوان سے روزنامہ نوائے وقت لاہور کی اشاعت اپریل 1988 '8میں شائع ہوا۔ اس کی نظموں کے ترجمے بھی پیش کیے۔اس کے علاوہ معروف انگریزی شاعر ولیم بلیک کی نظموںکا بھی اردو ترجمہ کیا۔ ان کے یہ تراجم تجدید نو میں شائع ہوئے۔ ہنری لانگ فیلو کی نظموں کے ترجمے بھی کیے۔ قراتہ العین طاہرہ کی غزلوں کا پنجابی اور انگریزی آزاد ترجمہ کیا۔سو کے قریب غالب کے اشعار کا پنجابی ترجمہ کیا۔ ان کے یہ تراجم انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔
فرہنگ غالب ایک نادر مخطوطہ از پروفیسر یونس حسن ڈاکٹر مقصود حسنی عصر حاضر کے ایک نامور غالب شناس ہیں۔ غالب کی لسانیات پر ان کی متعدد کتابیں چھپ چکی ہیں۔ جناب لطیف اشعر ان پر اس حوالہ سے ایم فل سطح کا تحقیقی مقالہ بھی رقم کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر مقصود ‘اصطلاحی ‘تمدنی ‘حسنی نے لفظیات غالب کے تہذیبی ساختیاتی اور لسانیاتی پہلووں پر نہایت جامع اور وقع کامکیا ہے۔ ان کا کام اپنی نوعیت کا منفرد اور جداگانہ کام ہے۔ابھی تک غالب کی لسانیات پر تحقیقی کام دیکھنے میں نہیںآیا۔ ان کے کام کی انفرادیت اس حوالے سے بھی ہے کہ آجتک غالب کی تشریحات کے حوالہ سے ہی کام ہوا ہے جبکہ غالب کی لسانیات پر ابھی تک کسی نے کام نہیں کیا۔لسانیات غالب پر ان کا ایک نادر مخطوطہ۔۔۔۔فرہنگ غالب۔۔۔۔بھی ہے۔ یہ مخطوطہ فرہنگ سے زیادہ لغات غالب ہے۔ اسمخطوطے کے حوالہ سے لفظات غالب کی تفہیم میں شارحکو کئی نئے گوشے ملتے ہیں اور وہ تفہیم میں زیادہ آسانیمحسوس کر سکتا ہے۔ غالب کے ہاں الفظ کا استعمال روایت سے قطعی ہٹ کر ہوا ہے۔ روایتی اور مستعمل مفاہیم میں اشعار غالب کی تفہیم ممکن ہی نہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے یہلغات بھی عجب ڈھنگ سے ترتیب دی ہے۔ لفظ کو عہد غالبسے پہلے‘ عہد غالب اور عہد غالب کے بعد تک دیکھا ہے۔
ان کے نزدیک غالب شاعر فردا ہے۔ لفظ کے مفاہیم اردواصناف شعر میں بھی تلاش کیے گیے ہیں۔ یہاں تک کہ جدید صنف شعر ہائیکو اور فلمی شاعری کو بھی نظرانداز نہیں کیا گیا۔ امکانی معنی بھی درج کر دیے گیے ہیں۔ اس مخطوطے کے مطالعہ سے ڈاکٹر مقصود حسنی کی لفظوں کے باب میں گہری کھوج اور تلاش کا پتا جلتا ہے۔لگن اور ‘اس تلاش کے سفر میں ان کی ریاضت‘ مغز ماری سنجیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ انہوں نے لفظ کی تفہیم کے لیے‘ اردو کی تمام شعری اصناف کو کھنگال ڈالا ہے۔ ایکایک لفظ کے درجنوں اسناد کے ساتھ معنی پڑھنے کو ملتےہیں۔ ماضی سے تادم تحریر شعرا کے کلام سے استفادہ کیا گیا ہے۔ گویا لفظ کے مفاہیم کی گرہیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔ اس نادر مخطوطے کا سرسری جائزہ بھی اس جانب توجہ مبذول کراتا ہے کہ غالب کو محض سطعی انداز سے نہ دیکھیں۔ اس کے کلام کی تفہیم سرسری مطالعے سے ہاتھ آنے کی نہیں۔ اسے سمجھنے کے لیے سنجیدہ غوروفکر کرنا پڑتا ہے۔ پروفیسر حسنی کی یہ کاوش فکر و تلاشاسی امر کی عملی دلیل ہے۔ انہوں غالب کے قاری کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے لیے اپنی سی جو کوششیں کی ہیں وہ بلاشبہ لایق تحسین ہیں۔ ماضی میں غالب پر بڑا کام ہوا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ وہ آج بھی ادبی حلقوں میں تشریح طلب مصرعے کا درجہ رکھتا ہے۔ تشنگی کی کیفیت میں ہرچند اضافہ ہی ہوا ہے۔اس صورت حال کے تحت بڑے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ غالب مستقبل قریب و بعید میں اپنی ضرورت اور اہمیت
نہیں کھوئے گا یا اس پر ہونے والے کام کو حتمی قرار نہیں دے دیا جائے گا۔ جہاں تفہیم غالب کی ضرورت باقی رہے گی وہاں ڈاکٹر مقصود حسنی کی فرہنگ غالب کو بنیادیماخذ کا درجہ بھی حاصل رہے گا۔ اسے تفہیم غالب کی ذیلمیں نظر انداز کرنے سے ادھورہ پن محسوس کیا جاتا رہے گا۔ اس مخطوطے کی اشاعت کی جانب توجہ دینا غالب فہمی کے لیے ازبس ضروری محسوس ہوتا ہے۔ جب تک یہ مخطوطہ چھپ کر منظر عام پر نہیں آ جاتا غالب شناسی تشنگی کا شکار رہے گی۔ لوگوں تک اس میں موجودگوشوں کا پہنچنا غالب شناسی کا تقاضا ہے کیونکہ جب تکیہ نادر مخطوطہ چھپ کر سامنے نہیں آ جاتا اس کی اہمیت اور ضرورت کا اندازہ نہیں ہو سکے گا۔ یہ بھی کہ غالبکے حوالہ سے پروفیسر حسنی کی لسانی بصیرت کا اندازہنہیں ہو سکے گا۔ وہ گویا لسانیات غالب پر کام کرنے والوںمیں نقش اول کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ لغت آ سے شروع ہو کر لفظ یگانہ کی معنوی تفہیم تک جاتی ہے۔
مقصود حسنی کی ادبی خدمات ایک مختصر جائزہ مرتبہ: پروفیسر نیامت علی مرتضائی مقصود حسنی بوزر برقی کتب خانہ فروری ٢٠١٧
Search
Read the Text Version
- 1
- 2
- 3
- 4
- 5
- 6
- 7
- 8
- 9
- 10
- 11
- 12
- 13
- 14
- 15
- 16
- 17
- 18
- 19
- 20
- 21
- 22
- 23
- 24
- 25
- 26
- 27
- 28
- 29
- 30
- 31
- 32
- 33
- 34
- 35
- 36
- 37
- 38
- 39
- 40
- 41
- 42
- 43
- 44
- 45
- 46
- 47
- 48
- 49
- 50
- 51
- 52
- 53
- 54
- 55
- 56
- 57
- 58
- 59
- 60
- 61
- 62
- 63
- 64
- 65
- 66
- 67
- 68
- 69
- 70
- 71
- 72
- 73
- 74
- 75
- 76
- 77
- 78
- 79
- 80
- 81
- 82
- 83
- 84
- 85
- 86
- 87
- 88
- 89
- 90
- 91
- 92
- 93
- 94
- 95
- 96
- 97
- 98
- 99
- 100
- 101
- 102
- 103
- 104
- 105
- 106
- 107
- 108
- 109
- 110
- 111
- 112
- 113
- 114
- 115
- 116
- 117
- 118
- 119
- 120
- 121
- 122
- 123
- 124
- 125
- 126
- 127
- 128
- 129
- 130
- 131
- 132
- 133
- 134
- 135
- 136
- 137
- 138
- 139
- 140
- 141
- 142
- 143
- 144
- 145
- 146
- 147
- 148
- 149
- 150
- 151
- 152
- 153
- 154
- 155
- 156
- 157
- 158
- 159
- 160
- 161
- 162
- 163
- 164
- 165
- 166
- 167
- 168
- 169
- 170
- 171
- 172
- 173
- 174
- 175
- 176
- 177
- 178
- 179
- 180
- 181
- 182
- 183
- 184
- 185
- 186
- 187
- 188
- 189
- 190
- 191
- 192
- 193
- 194
- 195
- 196
- 197
- 198
- 199
- 200
- 201
- 202
- 203
- 204
- 205
- 206
- 207
- 208
- 209
- 210
- 211
- 212
- 213
- 214
- 215
- 216