مخالفت کی گئی۔ شاعری کو‘ مخصوص حوالوں کا پابند کرنے کی بھی سعی کی گئی۔ شاعری کے خلاف‘ بعضلوگوں نے‘ علم بغاوت بھی بلند کیا۔ ان تمام کوششوں اوردلائل کے باوجود‘ شاعری کی راہ میں‘ دیوار نہ کھڑی کیجا سکی۔ شاعری کا دھارا‘ اپنی مخصوص رفتار سے بہتارہا۔ شاعر اور شاعری کے شائقین‘ موجود رہے۔ یہ چوںکہ غیرفطری نظریات تھے‘ اسی لیے‘ انہیں کبھی پذیرائی حاصل نہ ہو سکی۔ اس مضمون کی تیاری کے لیے‘ ان کتب سے‘ شکریے کے ساتھ‘ استفادہ کیا گیا۔مغرب کے تنقیدی اصول پروفیسر سجاد باقر رضوی مطبع عالیہ‘ لاہور ٠٦٢٢ارسطو سے ایلیٹ تک ڈاکٹر جمیل جالبی نیشنل فاؤنڈیشن ٠٦٧٥محمد ہادی حسین مغربی شعریاتمجلس ترقی ادب‘ لاہور س ن
انگریزی آج اور آتا کل اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریزی اس وقت دنیا کیحاکم زبان ہے اور یہ فخر وافتخار انگریزی تک ہی محدود نہیں دنیا کی ہر حاکم زبان اس مرتبے پر فائز رہی ہے۔چونکہ حاکم زبان کا بول چال کا حلقہ پہلے سے وسیع ہو گیا ہوتا ہے اس لیے اس کا دامن پہلے کی نسبت دراز ہوجاتا ہے۔ اسے ایسے مخصوص لوگ‘ جن کی کہ وہ زبان نہیں ہوتی اپنی حاکم سے وفاداری ظاہر کرنے کے لیےحاکم زبان کی خوبیوں کےبلندوبالا محل اسار دیتے ہیں اور اس کے صلے میں حاکم کی خالص دیسی گھی سے بنیجوٹھی چوری میسر آ جاتی ہے۔ جب حاکم زبان رابطے کیزبان ٹھہر جاتی ہے تو اسے جہاں فخر دستیاب ہوتا ہے تووہاں محکوم کی ضرورت حالات آلات نطق اور معاون آلات نطق کے مطابق ڈھلنا بھی پڑتا ہے بصورت دیگر رابطےبحال نہیں ہو پاتے۔ یہ حاکم زبان کی مجبوری اور محکوم کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اپنا مزاج تلفظ استعمال اور
معنوں میں تبدیلی اور ردوبدل کا شکار ہو۔ ان امور کے حوالہ سے کچھ باتیں بطور خاص وقوع میں آتی ہیں۔ ٠۔حاکم زبان بھی متاثر ہوتی ہے۔٦۔ لسانی اور اظہاری سلیقے صیغے اور طورواطوار میں تبدیلی آتی ہے۔٣۔ مقامی اسلوب اور لب ولہجہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ ٤۔ نحوی سیٹ اپ میں تبدیلی آتی ہے۔ الفاظ کے مفاہیم بدل جاتے ہیں۔ ٥۔ نے مرکبات تشکیل پاتے ہیں۔ ۔ زبان کی نفسیات اور کلچر جو اس کے الفاظ سے مخصوص ہوتا ہے یکسر بدل جاتا ہےاس کے برعکس اگر وہ محکوم کی نہیں بنتی تواپنا سکہجما نہیں پاتی۔ جس کے نتیجہ میں خون ریزی ختم نہیں ہوپاتی۔ غلط فہمی کی دیواریں بلند سے بلند ہوتی چلی جاتیہیں۔ آج دنیا میں قتل وغارت کا بازار گرم ہے۔ اس کی کئوجوہات میں ایک وجہ انگریزی بھی ہے۔ ایک عرصہ گزرجانے کے باوجود انگریزی لوگوں کے دلوں میں مقام نہیں
بنا سکی۔ لوگ آج بھی اسےاجنبی سمجھتے ہیں اور اسجبری تعلیم کو ریاستی جبر تصور کرتے ہیں۔ اس زبان کے لوگوں سے نفرت کرتے ہیں۔ عربی اور فارسی کا ایکعرصہ تک طوطی نہیں طوطا بولتا رہا۔ اسے کبھی ریاستی جبر نہیں سمجھا گیا حالانکہ وہ بھی ریاستی جبر ہی تھا۔ ہر آنے والے کو جانا ہی ہوتا ہے۔ کوئی قائم بالذات نہیں۔ یہ شرف صرف اور صرف الله کی ذات گرامی کو حاصل ہے۔ اس حوالہ سے ہر آنے والے کا سکہ اور زبان چلتی ہے۔ کوئی بھی سر پھرا اچانک تاریخ کا دھارا بدل سکتا ہے۔حاکم قوت کسی بھی وقت ملکی حالات کے حوالہ سے زوال کا شکار ہو سکتی ہے۔قدرتی آفت یا آفات اسے گرفت میں لے سکتی ہے۔ جو لوگیہ سمجھتے ہیں کہ آج کیا‘ آتے وقتوں میں انگریزی کرہ ارض کی زبان ہو گی سخت فہمی میں مبتلا ہیں۔انگریزی کے خلاف دلوں میں نفرتیں بڑھ رہی ہیں اور ایک روز انگریزی کیا امریکہ بھی ان نفرتوں کے سیلاب میں بہہ جائے گا۔ ۔یہاں یہ سوچنا یا کہنا کہ عوام تو محض کیڑے مکوڑے ہیں‘ کیا کر لیں گے۔ بھولنا نہیں چاہیے ایک
چونٹی ہاتھی کی موت کا سبب بن سکتی ہے۔ انگریزی کا لسانی نظام اتہائی کمزور ہے۔ خیال کے اظہار کے حوالہ سے ناقص ہےاور آج کی انسانی پستی میں انگریزی کے کردار کو نظر انداز کرنا بہت بڑی غلطی ہو گی۔انگریزی کا کھردرا اور اکھرا لہجہ اور اڑیل مزاج و رجحانانسانی ترقی کی راہ میں دیوار چین سے کم نہیں۔ آج انسان ترقی نہیں کر رہا مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔ انگریزیدوسروں کے آلات نطق اور معاون آلات نطق کا ساتھ دینے سے قاصر و عاجز ہے۔ یہ غیر انگریزوں کے حالات ماحول موسوں شخصی رجحانات معاشی اور معاشرتی .ضرورتوں وغیرہ کا ساتھ نہیں دے سکتی۔انگریزی لوگوں کی ترقی کی راہ میں کوہ ہمالیہ سے سےبڑھ کر روکاوٹ ثابت ہو رہی ہے۔ لوگوں کی ساری توانائی اسے سیکھنے میں صرف ہو رہی ہے اس طرح وہ مزیدکچھ نہیں کر پا رہے۔ عوامی تاثر یہی ہے کہ یہ مفاد پرست عناصر کی گورا نوازی اور چمچہ گیری کے نتیجہ میں لوگوں کے لیے گل گلاواں بنی ہوئ ہے۔
ہندوی(ہندی+اردو) اس وقت دنیا کی واحد زبان ہے جو کرہ ارض کی زبان بننے کے جوہر رکھتی ہے۔ یہ کوئی نئی زبان نہیں ہے۔ یہ ہزاروں سال کاسفر طے کر چکی ہے۔ اس وقت اس کے تین رسم الخط ہیں۔ اردو دیو ناگری رومنپنجابی کے سوا دنیا کی کوئی زبان نہیں جس کے اس وقت تین رسم الخط مستعمل ہوں اور ان میں باقائدہ لڑیچر موجود ہو۔ یہ تینوں اس کے اپنے نہیں ہیں۔ اس کے ذاتی رسم الخطکو تلاشنے کی ضرورت ہے۔ اس کڑوی حقیقت کے باوجود یہ تینوں اجنبی نیہں ہیں اور اس زبان کے ہی سمجھے جاتے ہیں۔ انگریزی سرکاری سرپرستی حاصل ہونے کے باوجود اپناپن حاصل نہیں کر سکی۔ میں بڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ انگریزی ٦فیصد سے زیادہ آگے نہیں بڑھ پائی۔ اس کے برعکس ہندوی دنیا کی دوسری بڑی بولیاور سمجھی جانے والی زبان ہے جبکہ لسانی حوالہ سے
.دنیا کی سب سے بڑی اور مظبوط زبان ہے۔ جب انگریزی دنیا کی حاکم زبان نہیں تھی انگریزیاصطلاحات رائج تھیں یا سائنس اور ٹیکنالوجی کے متعلق !اصطلاحات موجود ہی نہیں تھیں؟کیا انگریزی اصطلاحات اس کی ذاتی ہیں یا مانگے تانگے کی ہیں؟ کیا وہ اپنے اصل تلفظ کے ساتھ مستعمل ہیں؟ اس زبان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس میں تمام علومسے متعلق کتابیں موجود ہیں۔ اس سے زیادہ کوئی بودہ دلیل ہو ہی نہیں سکتی۔ چینی جاپانی فرانسیسی جرمن یا پھر ہندوی کے پاس کچھ نہیں۔ ہندسنتان میں اشیاء کیمرمت کا کام انگریزی کتابیں پڑھ کر کیا جاتا ہے؟ یا پھر گوروں کو بلایا جاتا ہے؟ کرہ ارض کی زبان بننے کی صلاحیت صرف اور صرف ہندوی میں موجود ہے۔ اس میں لفظ گھڑنے نئے دینے اشکالی تبدیلی نئے استعمالات تلاشنے کی صلاحیت دوسری زبانوں سے کہیں زیادہ موجود ہے۔
جس زبان کو وسائل اور توجہ دو گے ترقی کرے گی۔ ہندوی کبھی بھی توجہ کا مرکز نہیں بنی۔ اسے اس کے چاہنے والوں نےاپنا خون جگر پلایا ہے۔ ان کے خلوصاور محبت کے سبب یہ ناصرف زندہ ہے بلکہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔انگریزی کے حوالہ سے ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہانگریزی کے باعث تجارت کو وسعت ملی ہے۔ کیا احمقانہدلیل ہے۔ انگریزی سے پہلے تجارت کا کام نہیں ہوتا تھا؟ تجارت کا تعلق ضرورت سے ہے اورضرورت کو رستہ تلاشنا خوب خوب آتا ہے۔ ہندوی سے متعلق لوگوں کی تعداد دنیا کی دوسری بڑیآبادی ہے اس لیے ان سے رابطہ پوری دنیا کی مجبوری ہے۔ رابطہ نہیں کریں گے تو بھوکے مر جائیں۔ موجودہ مختصر لباس بھی خواب ہو جائے گا۔ پھل صرف پڑھنے سننے کی چیز ہو جائیں گے۔ کم مزدوری میں زیادہ کامکرنے والا مزدور کہاں سے لائیں گے۔ یونیورسٹیوں میںدماغ نچوڑ کر محض ایک گیڈر پروانے پر خوش ہو جانے والے کدھر سے آئیں گے؟کہا جاتا ہے کہ ہم اپنا اصل انگریزی میں ہی تلاش سکتے
ہیں۔ دنیا کی ہر زبان کا اپنا لسانی نظام ہے۔ زبانیں اپنےلوگوں کے حوالہ سے آگے بڑھتی ہیں۔ اگر اثر قبول کرتیہیں تو اثرانداز بھی ہوتی ہیں۔ ہندوی کی اپنی تاریخ ہے۔ ہر ہندسنتانی اپنا اصل اسی میں تلاش سکتا ہے۔ بڑے وثوق سے کہا جا سکتا ہے انگریزی کسی زبان کا ماخذ نہیں۔ انگریزی دوسری زبانوں کی طرح محض اظہار کا ایکذریعہ ہے۔ اس میں بھی دوسری زبانوں کے سیکڑوں الفاظ موجود ہیں۔ بہت سارے سابقے لاحقے درامدہ ہیں۔ اگر یہ نکال لیے جائیں تو اس کے ذخیرہ الفاظ میں آٹھ دس فیصد سے زیادہ کچھ نہ رہے۔کہا جا رہا ہے کہ ہندوی میں ادب کے سوا ہے کیا۔ زبانیں ادب کے سہارے زندہ ہیں۔ زبانوں سے ادب نکال دیں تو وہ کھوکھلی ہو جائیں گی۔ ادب الفا ظ میسر کرتا ہے۔ زندگی کے تجربے ریکارڑ میں لاتا ہے۔ قوموں کی حقیقی تاریخ مہیا کرتا ہے۔ سماجی رویوں کی نشاندہی اور ان کی ترکیب و تشکیل کا
فریضہ سر انجام دیتا ہے۔ اس کے بغیر انسانی زندگی کی حیثیت مشین سے زیادہ نہیں رہ پاتی۔ اظہار کو سلیقہ عطا کرتا ہے۔ اظہار میں وسعت لاتا ہے۔ قوموں کا تشخص اسی کے حوالہ سے واضع ہوتا ہے۔ سماج کی بقا میں ادب کلیدی حثیت کا حامل ہے۔کہا جاتا ہے کہ اردو جو اپنی اصل میں ہندوی کا ایک خطہے کے اشاعتے ادارے تحریروں کی حوصلہ افزائ نہیںکرتے۔ اشاعتی ادارے خدمت سے زیادہ مال پانی پر یقین رکھتے ہیں۔ آج انٹرنیٹ کا دور ہے ان اداروں کی حیثیت بارہ فیصد سے زیادہ نہیں رہی۔ انٹرنیٹ پر ہندوی کے تینوں خطوں میں بہت سارا مواد ہے۔ آتے دنوں میں اشاعتی ادارے پی ٹی سی ایل کا سا درجہ حاصل کر لیں کے۔مزے کی بات یہ کہ انگریزی کی حمایت کرنے والے رومن ہندوی یا اردو رسم الخط کا سہارا لیتے ہیں۔انگریزی کے متعلق جو دلائل دیے جاتے ہیں ان سے قطعا
واضع نہیں ہوتا کہ انگریزی آتے کل کی زبان ہو گی۔ ہاںشدید دباؤ اور کچھاؤ کی حالت میں ہندوی کا دامن وسیع تر ہوتا جائے گا۔ قومی ترقی اپنی زبان میں ہی ممکن ہے \"In my opinion language is for communication. no language isbetter or worse than other. English is considered to be necessary for progress simply because now it’s become kind of international language. Most of the books and knowledge available in it.\" (P gal: www.forumpakistan.com)
1- Language is for communication یہ بات سو فیصد سچائی اور حقائق پر مبنی ہے کہ زبان رابطے کا ذریعہ ہے۔ زبان اسی کی ہے جو اسے استعمالمیں لاتا ہے۔ اس کے استعمال کی چار صورتیں ہیں :بولنا‘لکھنا‘ پڑھنا اورسمجھنا۔ ان میں سے کسی ایک کا استعمال خواندگی کے زمرے میں داخل کر دیتا ہے۔ اس حوالہ سے موجودہ خواندگی کے تعدادی ریکارڑ کوکسی بھی زبان کے لیے درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس معاملے میں دوبارہ سے سروے کرنے کی ضرورت ہے۔ زبان شخص کے جذبات احساسات اور خیالات کا اظہار کرتی ہے لہذا ٠۔ زبان کا کوئی مذہب نہیں۔ ٦۔ زبان ہر قسم کی علاقائی تقسیم وتخصیص سے بالا تر ہے۔٣۔ زبان شخص سے جڑی ہوئی ہے اور شخص کے مزاج و رجحان کی تابع فرمان ہے۔گویا وہ وہی کچھ بیان کرے گی جو شخص کی مرضی اورمنشا ہو گی اسی طرح لہجے اور میں بھی شخص کے آلات
نطق اور معاون آلات نطق کے ماتحت رہے گی۔ زبان انشراع کے حوالہ سے بلا تفریق و امتیاز شخص کو شخص کے قریب لاتی ہے تاہم ہم خیالی نہ ہونے کیصورت میں زبان ہی کے حوالہ شخص‘ شخص سے دور ہو جاتا ہے۔ زبان ہی کے زیر اثر اشاراتی زبان وجودپکڑتی ہے۔ اس میں زبان کا کوئی قصور نہیں ہوتا‘ قصورالفاظ کے اندر موجود مفاہیم کا ہوتا ہے اوراس معاملے کا تعلق انداز تکلم اور لب و لہجہ سے بھی ہوتا ہے۔ 2- No language is better or worse than other یہ نقطہ دو حصوں پر مشتمل ہے اول۔ بیٹر بیٹر ‘Better Better زبان وہی کہلا سکتی ہے جو اظہاراور انشراع کے معاملے میں بہتر ہو اور اس حوالہ سے
کسی قسم کی رکاوٹ اور پچیدگی نہ پیدا ہو۔ رکاوٹ اور پچیدگی کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں ٠۔ ذخیرہ الفاظ محدود ہو سکتا ہے۔ ٦۔ آوازوں کا نظام ناقص ہو سکتا ہے۔ ٣۔ لچک پذیری میں نقص ممکن ہے۔ ٤۔ سوشل نہ ہو۔ ٥۔ مختلف لہجوں کا ساتھ نہ دیتی ہو۔ ٢۔ آلات نطق یا معاون آلات نطق اس کے ساؤنڈ سسٹم کا ساتھ نہ دیتے ہوں۔ ٧۔ تبادل آوازوں کا نظام بہتر نہ ہو۔٨۔ مفرد آواز کے لیے مرکب آواز کا سہارا لینا پڑتا ہو۔ یہمرکب آوازیں ایک سے زیادہ آوازیں دیتی ہوں۔ یا پھر تلفظ میں پچیدگی پیدا ہوتی ہو۔ ٦۔ لکھنے پڑھنے کے حوالہ خرابی کی صورتیں نکلتی ہوں۔ ۔٠سیکھنے میں آسان نہ ہو۔ ٠٠۔ سیکھنے والے کی دلچسپی باقی نہ رہتی ہو۔
٠٦۔ متبادلات کی تعداد زیادہ نہ ہو۔ ٠٣۔ ایک لفظ کے بہت سے معنی ہوتے ہیں۔ جملے میں مطلوبہ معنی واضع نہ ہوتے ہوں۔ ٠٤۔ عمومی بول چال میں لفظوں کی فطری ادائیگی سماعت پر گراں گزرتی ہو۔ ۔۔٠٥اصطلاحات کا ذخیرہ وافر نہ ہو یا پھر گھڑنے پر فطری اصولوں کے مطابق نہ رہتی ہو ٠٢۔ ایک ہی بات کہنے کے لیے مختلف ڈھنگ اور طور اپنانے سے قاصر ہو۔٠٧۔ رشتے ناتے واضع کرنے کی اہلیت نہ رکھتی ہو۔ واحدجمع اور مونث مذکر بنانے کے لیے فطری اصول نہ رکھتی ہو۔ غرض ایسی بہت ساری باتیں ہیں جو na’betterاور better سے علاقہ رکھتی ہیں۔ Worseدوم۔ ورس
نہیں ہوتی ہاں اس میں کہی گئ Worseکوئی بھی زبان بات‘ اچھی یا بری ہو سکتی ہے۔ English is considered to be necessary for progressایسی بات کو احمقانہ اور غیردانش مندانہ کہنے میں کوئ برائ یا خرابی محسوس نہیں ہوتی۔ ماہرین لسانیات اوردوسری زبانیں استعمال کرنے والوں کے لیے یہ بات انکے ہاضمے کی دسترس سے قطعی باہر ہے۔ یہی سنہری کلمات یونانی عربی فارسی ترکی وغیرہ کے لیے کہےجاتے رہے ہیں۔ کہاں گیا وہ رعب و دابدبہ؟! سب مٹی ہوگیا۔ بالکل اسی طرح کل کو یہ بھی مٹ جاءے۔ انگریزی کا لسانی مطالعہ کر دیکھیں اس کی بالادستی اور رعب ودبدبے کا چانن ہو جاءے گا۔ Now it (English) become kind of international languageیہ بات امریکہ بہادر کی عسکری قوت سے مرعوب ہو کر
تو کہی جا سکتی ہے ورنہ خود مغرب میں انگریزی بولنے والوں کی تعداد اتتہائی غیر معقول ہے۔ بہت سے مغربیممالک کا کاروبار ان کی اپنی زبان میں چل رہا ہے۔ ماضی بعید کی ان گنت چیزیں آج حیرت کا سبب ہیں۔ کیا وہ انگریزی کا کارنامہ قرار دیا جائے۔ چمچے اہرام مصر کو انگریزی کی دین قرار دیں گے۔ ان کی چھوڑیے‘ سچائی کیا ہے‘ اس کا کھوج کرنا ضروری ہے۔ بہت ساریاستعمال کی اشیاء کے نام جاپانی اور چینی ہیں‘ بازار میں مستعمل بھی ہیں۔ ان اشیاء کی تخلیق کی پگڑی انگریزی کے سر پر رکھی جائے؟!ان حقائق کی روشنی میں ماسی انگریزی کو بین الاقوامیزبان کہنا کیونکر مناسب ہو گا۔ اگر اسے امریکہ بہادر سے رابطے کی زبان کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔ ہماری اور دیگر ممالک کی بہت ساری بیبیاں ہندوی (اردو+ہندی) کی فلمیں دیکھتی ہیں اور اپنی زبان میں بخوبی مفاہیم سمجھ رہی ہوتی ہیں۔ حالانکہ وہ ہندویلکھنے پڑھنے اور بولنے سے قاصر ہوتی ہیں۔ ہندوی ان کی کبھی بھی زبان نہیں رہی ہوتی۔ ان کے گھر یا ان کے قرب و جوار میں ہندوی کا نشان تک نہیں ملتا۔
ہندوی اس وقت دنیا دوسری بڑی زبان ہے لیکن اپنے لسانی نظام اور ساؤنڈ سسٹم کے حوالہ سے پہلی بڑی زبان ہے۔ یوکے اور کنیڈا میں وہاں کی دوسری بڑی استعمال کی زبان ہے۔ دنیا کے کسی خطے میں چلے جاءیں ہندوی سے متعلق اچھے خاصے لوگ مل جائیں گےاس لیے انگریزی کودھونس سے بین الا قومی زبان کا درجہ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہندوی سے متعلق لوگ دنا کے سب سے بڑے خریددارہیں۔ خام مال برامد کرنے کے حوالہ سے بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ پھل اناج سبزیاں پوری دنیا میں برصغیر سے جاتی ہیں۔ ذاتی مفادات کے تحت اس سے متعلق وڈیرےبےحسی کا شکار ہیں۔ وہ نہیں جانتے یا جاننا نہیں چاہتے کہ دنیا کی اقتصادیات میں ان کی کیا اہمیت ہے۔ 5- Most of the books and knowledge available in (english) it.
یہ نقطہ ہر حوالہ سے ضعف باہ کا مریض نظر آتا ہے۔ دنیاکی کون سی بڑی کتاب ہے جس کا ہندوی میں ترجمہ نہیں ہوا۔ اس وقت ہندوی میں ا۔ مذہبی لڑیچر کی کتابیں دنیا کی تمام زبانوں سے زیادہ ترجمہ ہوئی ہیں۔ب۔فنون وغیرہ کی ہر بڑی کتاب ترجمہ ہو کر اس میں داخل ہو چکی ہے۔شعری اصناف سخن میں انگریزی اس کے قریب سے بھی گزرنے کی تاب نہیں رکھتی۔ کوئی انگریزی میں استاد غالب کا سا نکال کر ہی دکھا دے۔ ج۔ اقتصادیات سے متعلق ترجمہ ہو چکی ہیں۔ بے شمار کتابیں۔آخری بات اس ذیل میں یہ ہے کہ یہ کہنا سو فیصد غلط ہےکہ کوئی قوم مانگے یا ریاستی جبر کے تحت پڑھائی جانے والی زبان میں ترقی کر سکتی۔ ترقی کا خواب قوموں کی اپنی زبان میں ہی شرمندء تعبیر ہو سکتا ۔ہے۔
انگریزی کے ہندوی پرلسانیاتی اثراتعموما سمجھا سوچا اور کہا جاتا ہے کہ حاکم زبان لسانیحوالہ سے محکوم زبانوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ یہ نظریہ ایک حد تک درست ہو سکتا ہے لیکن اس کی صحت کامکمل طور اقرار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ معاملہ حاکم اور اسکی حاکمیت سے تعلق نہیں رکھتا۔ ہاں جبر اور مجبوری کیایک صورت ہمزاد بن کر ساتھ چلتی رہتی ہے۔ انگریزی آج جبر اور مجبوری بنی ہوئ ہے۔ زبانی کی بات چوڑیے عملی تجزیہ کر دیکھیں پانچ سے سات فیصد لوگانگریزی جانتے ہیں ورنہ لوگ ڈگری یا سند حاصل کرنے کے رٹالائزیشن کو شعار بناتے ہیں۔ زبانیں انسانوں سے وابستہ ہیں انسان جب بھی کسی بھی حوالہ سے ایکدوسرے کے قریب آتے ہیں اپنی زبان کا لسانی اثر ضرورچھوڑتے ہیں۔ کم یا زیادہ کے ضمن میں چند امور از خود
پیش پیش رہتے ہیں۔ مثلا ٠۔ آوازوں کی گنتی اور ان کا لسانی نظام ٦۔ زبانوں کی لچک پذیری کا تناسب ٣۔ مترادف اور متبادل آوازوں کی فراہمی اور موجودگی ٤۔ بولنے والوں کا مزاج رجحانات اور موجودہ رویے ٥۔ بولنے والوں کی میل ملاقات کی صورتیں ٢۔ شخصی اور مجموعی انداز و اطوار ٧۔ حالات ماحول اور معاشرت ٨۔ ضرورتیں اور ان ضرورتوں کی اہمیت اور نوعیت ٦۔ زبانوں کی انا‘ جو ان سے مخصوص ہوتی ہے ٠١۔ آلات نطق اور معاون آلات نطق مرکب آوازیں٠٠۔ ٠٦۔ شخصی اور قومی ترجیحاتمجبوری سے جڑے افعال استحکام سے دور رہتے ہیں یاان کا سلیقہ درست نہیں رہتا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان کےانداز و اطوار نادرست رہے ہوں اور فٹیک کا عنصر غالب
رہا ہو۔ بہرطور کہیں ناکہیں خرابی کجی گڑبڑ یا ادھورےپن کی کوئی ناکوئی صورت ضرور باقی رہتی ہے جس کے سبب آتے وقتوں میں ان افعال کی موت واقع ہو جاتی ہے اور وہ قصہ پارینہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔مختلف علاقوں اور قومیتوں کے لوگ مختلف حوالوں سےبرصغیر میں آتے جاتے رہے ہیں۔ برصغیر کی زبانوں نے بدیسی زبانوں کے اثرات قبول کیے ہیں۔ ہندوی نے بھیبدیسی زبانوں کے اثرات قبول کیے ہیں۔ ہندوی دنیا کی تمامزبانوں سے زیادہ سوشل ملنسار اور اؤل درجے کی لچک پذیری کی حامل ہے۔ اسی وجہ سے یہ دنیا کی استعمالہونے والی دوسری بڑی زبان ہے اوراس کا اور زبانوں کیطرح دائرہء اظہار محدود نہیں۔ جب یہ محض بولی رہی ہوگی اس کا قد کاٹھ اس عہد کے حوالہ سے محدود نہیں رہاہو گا۔ اس کا خصوصی وصف یہ ہے کہ جب جس سے ملی اس کو اپنا کر لیا۔بدیسی لفظوں کو اپناتے اپنا چلن نہیں بدلا بلکہ بدیسی کو اپنے رستوں پر چلایا۔ احوال حور اوقات دیکھنے عربی ہیں لیکن عربی نہیںرہے۔ کوئی عربی انہیں واحد تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہو
گا۔ مجلس اور جلوس اپنے عربی معنوں سے دور ہو ئے ہیں۔ ٹوچن ٹچ میچا نیچا لیڈیاں سیٹیاں وٹران سپوٹران مسیںوغیرہ کو کوئی انگریز انگریزی زبان کے الفاظ تسلیم نہیںکرے گا۔ ہندوی میں ان کی اپنی حثیت ضرورت استعمالات اور نحوی صورتیں ہیں۔ اس طرح کے ان گنت مختلف زبانوں کے الفاظ ہیں جن کا جغرافیہ ہی تبدیل ہو چکا ہے اور وہ ہندوی کے اپنے ذاتی الفاظ بن چکے ہیں۔ وہ مستعمل اور مانوس ہو گیے ہیں۔ یہی نہیں ان کا استعمالہندوی کے اپنے لسانی سٹ اپ اور شخصی ضرورت اورتر جیح کے تابع ہو گیا ہے۔ انگریزی بہادر شاہ اؤل کے عہد سے تقریبا مجبوری کا درجہ اختیار کر گئی لیکن جب اردو کے جثے کو ملاحظہکرتے ہیں تو بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اسے مجبوری کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ انگریزی کو قبولتے وقت کہیں اور کسی موڑ پر اس کی لسانی انا مجروع نہیں ہوئی بلکہہندوی میں ان کا حلیہ ہی بگڑ گیا ہے۔ بدیسی یا مہاجر کو اس کا لباس زیب تن کرنا پڑا ہے۔ ذرا غور کریں یہاں کا
باشندہ جب پتلون شرٹ پہنتا ہے انگریز نہیں ہو جاتا۔ پتلون شرٹ کو دیسی ہونا پڑتا ہے۔ کہیں ناکہیں کوئی ناکوئی تبدیلی ضرور محسوس کی جا سکتی ہے۔ ہندوی نےانگریزی الفاظ کو شلوار قمیض پہنا کر قبولا ہے۔ ہر بدیسی لفظ کو ہندوی کی ذاتی شناخت میسر آئی ہے۔ اگلی سطور میں چند ایک مثالیں درج کر رہا تاکہ سند رہے اور بوقتضرورت کام آ سکیں۔ قبلہ اکبر الہ آبادی کے کلام سے لی گئ ہیں۔ گویا آج ہی نہیں بہت پہلے بھی یہی رویہ موجود تھا۔کچھ مثالیں دانستہ انگریزی ہندوی مرکباتلاٹ صاحب‘ جھوٹے بسکٹ‘ نیچرل چیز‘ نیچرل بات‘ نیچرلہے پیپر دھندلی‘ شوخ مس‘ اگلا کورس‘ لندن تک‘ آنریریعندلیب‘ غربی مشینوں پیش کمشن‘ مغربی اپریشن‘ شعیہ کالج‘ سیاسی کمیٹی‘ مخفی پالیسی‘ انگریزی سوسائٹی‘ ٹکٹ گھر‘ ڈاک ٹرین‘ ملا مجسٹریٹ‘ صوفی پروفیسر‘ پولیٹیکل ضرورت‘ تھرڈ والے‘ پولیٹیکل حالات‘ پولیٹیکل آب و ہوا‘ ایک انچ‘ کالج سے‘ کالج کے‘ بار میں‘ ہوٹل میں ملت انگریز‘ ترقی پنشن‘ ‘ چشم مس‘ شاہ ‘مس فرنگ
انگلینڈ‘ مشن انقلاب‘ تقلید انگلش‘ ساز پیانو‘ دین نیچری‘شاہد ہوٹل‘ سرجن رقیب‘ فکر سلوشن‘ عہد انگلش‘ پابندی پتلون ' پردہ سکرین پتلون و کوٹ‘ بنگلہ و بسکٹ‘ کالج و ٹیچر‘ شیخی و کلرکی‘ نغمہء اسپنسر ومل‘ کرنل و کمشنر ‘نوکری و ممبری نغمہ ء یورپ‘ غمزہ ء انگریزی‘ مئے لندن‘ سایہ ء ہوٹل مئے نیچر 'سوئے لندن کرسمس کا پچھلا‘ کلکٹر کا ڈے اسپیچ کا ہنر‘ اسپیچ کاسر‘ انگلش کا بوجھ‘ یورپ کا قافیہ‘ کونسل کا ووٹ‘ مسجد کا نوٹس‘ شاہی کا چارج‘ کلکٹر کا دیدار‘ یونیورسٹی کامسلہ‘ بسکٹ کا چور‘ لیکچر کا سبق‘ انگلش کا دور دورہ‘ بیف کا چسکا‘ پتلون کا پیچعزت کی ہسٹری‘ یورپ کی طرف‘ بوٹ کی چر چر‘ وحدت کی مسٹری‘ ہسٹری کی بستی‘ اسپتال کی دوا‘ کالج کیبکواس‘ لیگ کی گورنمنٹ‘ یورپ کی داستان‘ریل کی پٹڑی‘ نیٹو کی گھس گھس‘ نیٹو کی تنخواہ‘ اسکول کی گرائمرپریڈ پر قواعد‘ چہرے پر گلٹ‘موٹر پر سوار‘ اسٹیج پر دنیا
کمیٹی اور ریزولوشن‘ تجارت اور پولیٹکس دسمبر ہو یا اگست گورنمنٹ ہی رسپنونسیبل منشی کہ کلکرک کلیسا میں انگریزی سابقوں لاحقوں کا بھی بخوبی استعمال ہوتا رہتا ہے۔ مثلابے ٹکٹ‘ خوش ڈنر‘ دلکشا سائنس‘ بے حارم‘ بلا گلٹ‘ بلاکلر‘بلا آپریشن‘مس ناشناس‘ پنشن یافتہ‘ سائنسدان‘ کلرک بادشاہ‘ مکنلٹی وغیرہ انگریزی الفاظ کی اردو جمعیں ٹربلات‘ کاروں‘ بنگلوں‘ کولیگوں‘ لیڈیوں‘ مسوں‘ ممبروں‘ ووٹوں‘ بلوں‘ بنکوں‘ یونیورسٹیوں‘ سکولوں‘ کالجوں‘ موٹروں‘ سپوٹروں‘ ٹیچروں‘ ڈاکٹروں‘ پروفیسروں‘ ججوں‘ پروفیسر حضرات مسیں‘ بسیں‘ کاریں‘ کالیں کمیٹیاں‘ سوسائٹیاں‘ ورائیٹیاں بعض جمعیں اردو میں واحد مستعمل ہیں۔ مثلا میڈیا‘
بکٹیریا وغیرہ ی بڑھانے کا رجحان کلرکی‘ منسٹری‘ رجسٹری‘ ڈاکٹری‘ ماسٹری‘ منیٹری‘ بیرسٹری‘ لیڈری مونث بنانے کے لیے دیسی طور اپنایا جاتا ہے مثلا ڈاکٹرنی‘ ماسٹرنی‘ مبرنی‘ لیڈرنی‘ افسرنی بہت ساری اشیاء کے نام عمومی بول چال کا حصہ بن گءے ہینتاہم ان کا استعمال انگریزی نہیں رہا۔ مثلابہت سارے نجی اداروں کے نام انگریزی یا انگریزی نما ہو گئے ہیں۔ مثلا سٹی ویو ہائی سکول‘ پاکستان ماڈل ہائی سکول‘ گرین کالج‘ الخیر یویورسٹی‘ ارحا پوسٹ گریجویٹ کالج‘ لاہور کالج آف سائنس‘ سعیدہ ڈیلوری ہاؤس‘ نوشابہ بیوٹی سنٹر‘ جدید بک ہاؤس‘ سجاد لانڈری‘ شیزان بیکری‘ ذکی ٹرانسپورٹ‘ چناب ٹرانپورٹ سروسز وغیرہ بہت سے پرزوں کے نام ہندوی میں مستعمل ہو گیے ہیں۔
مثلارنگ پسٹن لیور بریک اکسل بل رینچ سکریو ہنڈل سٹیرنگ مڈگارڈ ٹائر ٹیوب چین کریئر پلگ وغیرہ ان دونوں زبانوں کا مشترک سابقہ ہے۔ غالبا ہندوی میں پہلے سے مستعمل ہے۔ مثلاان پڑھ‘ ان گنت‘ انجان‘ ان دیکھا‘ ان مٹ‘ ان داتا‘ ان حد ان ڈیو‘ ان نون‘ ان جسٹ‘ ان ایبل‘ان لائک بہت سے الفاظ تبدیلی مفہوم کے سا ہندوی کا حصہ بنے ہیں۔ مثلا Blade, break, discharge, taxi, copy, glass, circle, school, tube, lead, plate jugمتبادل آوازوں کے ساتھ بہت سے الفاظ پڑھنے سننے کو ملتے ہیں۔ مثلا سی ڈی سے سی ٹی‘ پیڈ سے پریٹ‘ رپورٹ سے رپٹ وغیرہ
انگریزی الفاظ کے ساتھ ہندوی مصادر کی بڑھوتی عام سی بات ہے۔ مثلااپریشن کرنا‘ ہونا‘ ہو چکنا۔ ایڈٹ کرنا‘ ہونا۔ ایڈوانس دینا‘ ہونا‘ لینا۔ ریجکٹ کرنا‘ ہونا۔ ٹکٹ دینا‘ لینا‘ ملنا۔ لیکچر دینا‘ ہونا۔ ایڈوائس دینا‘ کرنا‘ ملنا‘ ہونا۔ ہسٹری پڑھنا‘ پڑھانا‘ لکھنا‘ بننا۔ رپوارٹ کرنا‘ ملنا‘ ہونا‘ لکھنا۔ بعض بڑے عجیب و غریب آمیزے سننے کو ملتے ہیں۔ مثلا چیبڑ (چپ بورڑ)‘ منٹ مار‘ ممکنلٹی‘ ٹربلات وغیرہ ch سی ایچ چ کے لیے چرچ‘ چٹ‘ چارج‘ چیپ وغیرہ shایس ایچ ش کے لیے جیسے شرٹ‘ شپ‘ شیپ‘ فش وغیرہ انگریزی میں مرکب جبکہ ہندوی میں ان کے لیے مفرد آوازیں موجود ہیں۔ بہت سی چیزوں کے نام اردو میں داخل ہو گیے ہیں۔ اکثر
چیزیں بیرونی ممالک کی ایجاد ہیں۔ کولر‘ فریج‘ ڈش؛ گلاس‘ پلیٹ‘ بیف‘ مٹن‘ کک‘ کلرک‘کلاک‘ فین‘ واشنگ مشین‘ ٹیلی فون‘ موبائل‘ واش روم‘ کچن‘ ٹیلی ویژن‘ بیسن‘ اوون‘ بیڈ‘ شمپو‘ چیئر‘ ٹیبل‘ کوٹ‘ کورٹ‘ شرٹ‘ کوکر‘ شمیز‘ کپ‘ سوپ‘ بک‘ کاپی‘ پنسل‘ پن‘ ماڈل‘ پیپر‘ بلیڈ وغیرہ دفاتر کے نام داخل ہو گئے ہیں۔ مثلاپریذنٹ ہاؤس‘ پی ایم ہاؤس‘ سی ایم ‘بیورو‘ سیکٹریریٹہاؤس‘ اسمبلی چیمبرز‘ اسمبلی ہال‘ گورنر ہاؤس‘ ڈی سیآفس‘ ڈی ای او آفس‘ انسپکٹریٹ‘ ڈاکٹریٹ‘ اے جی آفس‘ پولیس اسٹیشن‘ ریلوے اسٹیشن‘ بکنگ آفس وغیرہ بہت ساری ادویات کے نام ہندوی کے ذخیرہء الفاظ میںداخل ہو گئے ہیں اور ان کا استعمال ہندوی اور اس سےمتعلق لوگوں کے مزاج اور ضرورت کے مطاق ہوتا ہے۔ مثلا بیروفین‘ سپٹران‘ پیراسیٹامول‘ ڈسپرین‘کال پولمیڈیکل سے متعلق لوگوں کے عہدوں کے نام بھی مانوس ہو گئے ہیں۔ مثلا
نرس‘ وارڑ بوائے‘ ڈسپنسر‘ ڈاکٹر‘ سرجن ایم ایس اور بہت سے الفاظ غیرمانوس نہیں رہے۔ مثلا میڈیکل سٹور‘ بلڈ گروپ‘ ایمرجنسی‘ ڈیلوری‘ سزرین‘ وارڑفوجی عہدوں اور فوج سے بہت سے متعلقات کے نام اس زبان میں داخل ہو گئے ہیں۔ مثلا لنگر کمانڈرصوبیدار میجر‘ کیپٹن‘ میجر‘ کرنل‘ برگیڈیر‘جرنل‘ چیف آف آرمی سٹاف‘ کمانڈنٹ‘ کور کمانڈر‘ ونگکمانڈر‘ گن‘ سٹین گن‘ برین گن‘ ٹینک‘ پریڈ‘ پریڈ گراؤنڈ وغیرہان گنت سول عہدوں کے نام پڑھنے سننے کو ملتے ہیں۔ مثلا میٹر ریڈر‘ ڈرائیور‘ پوسٹ مین‘ پوسٹ ماسٹر‘ اسٹیشنماسٹر‘ لائین مین‘ یس ڈی او‘ اکاؤنٹنٹ‘کنٹرولر‘ پرنسپل‘ سول جج‘ سیشن جج‘ جسٹس‘ چیف جسٹس‘ بریسٹر‘کونسلر‘ ڈی جی‘ اکانومسٹ‘ ڈین‘ چانسلر‘ منیجر‘ کیشئر‘ گیٹ کیپر‘ ریکارڈ کیپر‘ ڈائریکٹر ایسی ان گنت صورتیں زبان کے سنجیدہ مطالعہ سے
سامنے لائی جا سکتی ہیں۔ اس ذیل میں نے ایک ارتعاشپیدا کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ اہل فکر اس موضوع پر سنجیدہ توجہ دے سکیں۔ کچھ لوگ الفاظ کے دخول سےچڑتے ہیں حالانکہ اس میں چڑنے والی کوئی بات نہیں۔ یہ کوئی ایسی نئی بات اس سے اس زبان کی لچک پذیری اور اس کے ساؤنڈ سسٹم کی وسعت و فراخی کاایسا تو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔نہیںہر زاویہ نظر سے دیکھ لیں ہندوی کی ٹانگ باہر نظر نہیں آرے۔ اس سے اظہاری عمل میں فراخی کے رستے دراز ہوتے ہیں ڈاکٹر اقبال اور مغربی مفکریناقبال نے اسکاچ مشن اسکول‘ سیال کوٹ سے‘ مشرقی ومغربی طرز پر ایف اے کیا۔ مزید تعلیم کے لیے لاہور آئے۔
یہاں بیک وقت تین تعلیمی و فکری دھارے بہتے تھے۔ ا سر سید کے حوالہ سے‘ مغربی اطوار و نظریات ٠- معتارف کرانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ ب گورنمنٹ کالج‘ لاہور میں‘ پروفیسر آرنلڈ کے حوالہ سے‘ طلبا مغرب سے بالواسطہ معتارف ہو رہے تھے۔ علوم شرقیہ سے متعلق مختلف اسکول مشرقی فکر ٦- عام کرنے میں مصروف تھے۔ ایک طبقہ مخلوط نظریات پھیلا رہا تھا۔ ٣- اقبال کے پروفیسر آرنلڈ سے‘ خصوصی تعلق خاطر کا اندازہ‘ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب وہ ٠٦١٤ میں‘ انگلستان واپس گیے‘ تو اقبال نے ان کے رخصت ہونے پر نظم۔۔۔۔نالہءفراق۔۔۔۔۔ قلم بند کی۔ اس نظم کےمندرجات سے‘ اقبال کی آرنلڈ سے قلبی وابستگی کا اندازہلگایا جا سکتا ہے۔ اقبال نے اس نظم میں موصوف کو کلیم‘خورشید آشنا‘ ابر رحمت‘ موج نفس باد نشاط وغیرہ ایسے القابات سے ملقوب کیا۔ ان دنوں گورنمنٹ کالج‘ لاہور بانجھ نہ تھا اور ناہی کبھی
رہا ہے۔ اسے ہر دور میں‘ سعادت سعید اور تبسم کاشمیری سے بےبدل عالم فاضل‘ میسر رہے ہیں۔ آرنلڈ ہی سےکیوں یہ رشتہءالفت استوار ہوا۔ اس سوالیے کا جواب نظم کے اندر موجود ہے۔ کھول دے گا دشت وحشت عقدہء تقدیر کو توڑ کر پہنچوں گا میں پنجاب کی زنجیر کو اقبال زبردست نباض تھے۔ مغرب کو بھی نمائندوں کیضرورت تھی۔ اپنی دھرتی زنجیر نہیں ہوتی۔ اپنی دھرتی کوزنجیر کہنے والا اپنی دھرتی سے کتنا مخلص ہو سکتا ہے اس کا اندازہ لگانا کوئی پچیدہ عمل نہیں۔ اقبال نے گورنمنٹ کالج‘ لاہور میں تدریسی فرائض بھیانجام دئیے۔ جس سے‘ ناصرف سوچ کو فراخی میسر آئی‘ بلکہ نظریات کو بھی ایک سمت‘ دستیاب ہوئی۔ لاہور میںرہتے ہوئے‘ انھوں نے مختلف مشاعروں میں شرکت کی۔ مختلف نظریات کے شعرا سے مل بیٹھنے کا موقع بھیہاتھ لگا۔ اس سے ان کا شعری شعور پختہ ہوا۔ ٠٦١٥تک انھوں نے مشرق کی اقدار سے وقفیت حاصل کی۔ ستمبر ٠٦١٥کو‘ ٧
عازم انگلستان ہوئے۔ ابتدا ہی میں‘ ان کی ملاقات میگ ٹیگارٹ سے ہوئی جو ہیگل کا پیرو تھا۔ اس کے علاوہآکسفررڈ یونیورسٹی میں پروفیسر براؤن اور پروفیسر وارڈسارلے سے خصوصی طور پر علمی و فکری استفادے کا موقع ملا۔ پروفیسر سارلے کے حوالہ سے لفظ کی حقیقی قدر اور حرمت سے آگاہی حاصل کی۔انگلستان میں رہتے ہوئے‘ ڈاکٹر نکلسن کی ایما پر فارسی ادبیات کا مطالعہ کیا۔ حافظ شیرازی کے نظریہءوحدت الوجود کے تناظر یا کانٹ کے۔۔۔۔وجود کی تلاش۔۔۔۔ اور فشٹے کے نظریہ انا یعنی ایگو کے تناظر میں حافظشیرازی کا مطالعہ کیا۔ پھر وہ فلسفہءخودی کے موجد قرار پائے۔ کلیسا اخلاقی اقدار کا سرچشمہ رہا ہے۔ اپنی اہمیت کھو بیٹھا تھا۔ سیاست اور مذہب‘ دو الگ الگ شعبے قرار پا گیے تھے۔ مذہب‘ کلیسا کی چار دیواری کے اندر‘ محض دعاؤں کا مجموعہ ہو کر رہ گیا تھا۔ سیاست کے علمبرداروں نے‘ اپنے الگ سے سیاسی اصول وضع کرلیے تھے۔ اس طرح انھیں‘ سماجی اور معاشرتی رویوں پر گرفت حاصل ہو گئی تھی۔
کارل مارکس نے‘ سسکتی حیات‘ معاشرتی جبر‘ سیاسی حیلہ سازیوں اور معاشی قتل عام کے ردعمل میں‘ اپنا نظریہء معیشت پیش کیا۔ انقلاب فرانس اور امریکہ کیجنگ آزادی بھی‘ اسی عدم مساوات اور معاشی ناہمواریوں کا نتیجہ تھی۔ فرد کی حیثیت‘ مشین کے کسی کل پرزےسے زیادہ نہ رہی تھی۔ نطشے نے‘ انسان کے وجود کو‘استحقام دینے کے لیے‘ فوق البشر یعنی سپرمین کا نظریہ دیا۔ کارل مارکس اور لینن نے مذہب کو افیون قرار دیا۔ نطشے‘ جمہوریت اور اشتراکیت کو بھی‘ عوام اور اقوامکو غلام بنانے کی سازش قرار دیتا ہے۔ وہ خدا کے وجودکا منکر ہے۔ وہ مغربی استعمار اور مسیحی فلسفہءاخلاق پر چوٹ کرتا ہے۔ اس لیے‘ کسی غیر مسیحی کو‘ اس کاخوش آنا فطری سی بات ہے۔ سپرمین کے حوالہ سے‘ جوباتیں سامنے آتی ہیں‘ ان میں سے اکثر اقبال کے۔۔۔۔۔ مردکامل۔۔۔۔۔ میں بھی ملتی ہیں‘ تاہم اسے اس کا بےلگام ہونا کھٹکتا ہے۔اقبال نے جس مرد کامل کا نظریہ دیا‘ جہاں وہ ذات پرست‘ ذات پسند اور دوسروں کے لیے کچھ نہیں‘ وہاں اس کا خصوصی وصف یہ بھی ہے‘ کہ وہ کائناتی ہے۔
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق اقبال کا مرد کامل بہت سے حوالوں سے نطشے کے سپرمین سے الگ ہے۔ ہو حلقہءیاراں تو ہے ابریشم کی طرح نرم رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن اقبال نے مرد کامل میں چار صفات کی نشان دہی کی ہے۔ قہاری و جباری و قددسی و جبروت یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمانیہاں مرد کامل کے لیے مسلمان ہونے کی شرط عائد کر دیہے۔ اقبال کے محقیقن نے‘ مرد کامل کے لیے اس شعر کوبھی حوالہ بنایا ہے۔ گویا سلمان ہونے کی صورت میں ہی‘ مرد کامل کے اعزاز سے سرفراز ہو سکتا ہے۔ اس شعر کے حوالہ سے اس کا مخاطب انسان نہیں بلکہ اسلامی برادری سے متعلق شخص ہی کامل ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف ان عناص سے محروم مسلمان ہی نہیں۔ اقبال اس پیمانے ہر مسلمان فاتح بیٹھے گا۔ مسلمان دل
تسخیر کرتا ہے۔ پتھر اینٹ برسانے والوں کے لیے دعاکے لیے ہاتھ اٹھاتا ہے۔ دشمن کی بھی مدد کرتا ہے۔ بانٹ میں کسی قسم کی تخصیص روا نہیں رکھتا۔ مہربان اور سراپا عطا والا ہوتا ہے۔ قہار اور جبار کو دیسی معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ نطشے کے متعلق اقبال کا کہنا ہے۔ تیرے سینے میں نہیں شمع یقین اس لیے تاریک یہ کاشانہ ہے کس طرح پائے سراغ آشنا تو کہ اپنے آپ سے بیگانہ ہے جو بھی سہی‘ اقبال کے فلسفہءخودی میں نطشے کے کہے کی بازگشت موجود ہے۔ مرد کامل میں سپرمین کی پرچھائیں موجود ہے۔ کارل مارکس‘ درحقیقت مغرب کے مظوم‘ مفلس اور پسماندہ لوگوں کا نمائندہ ہے۔ اس نے مادہ پرستی کے ماحول و حالات میں رہ کر‘ اپنا نظرہءمعیشت پیش کیا ہے۔ اس
کے نظریے کے پس منظر میں‘ کلیسا کا استحصالی رویہ‘ جمہوریت کے خوش نما لباس میں جمہوریت کا منفیطرزعمل‘ مساوات کے پردے میں توہین آدمیت جیسے قبیعفعل تھے۔ ملوکیت اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کے خلاف اس نے نعرہ بلند کیا۔ اقبال کو اس کا درس مساوات اور اس کا محنت کشوں سے ہمدردی کا رویہ‘ پسند آیا۔ اقبالنے اس کے اس رویے کو پسند کیا ہے لیکن اسے اس کیمادہ پرستی اور مادہ پسندی خوش نہیں آتی۔ جو بھی سہی‘ مارکس کی مغربی تہذیب پر ضرب‘ اقبال کو اچھی لگی۔ اقبال نے مسیولینی سے بھی ملاقات کی۔ وہ اس کیشخصیت سے متاثر ہوئے۔ اس کی شخصیت میں تاثیر تھی۔ اس عہد کے مشاہیر عالم اس کی دل آویز شخصیت کے مداح تھے۔ اقبال کو اس کا نظم و ضبط پسند آیا۔ اس ذیل میں اقبال کا یہ شعر ملاحظہ ہو۔ فیض یہ کس کی نظر کا ہے‘ کرامت کس کی ہے وہ کہ ہے جس کی نگہ مثل شعاع آفتاب
جرمن شاعر گوئٹے کے فکری رویے سے بھی اقبال نے اثرات قبول کیے۔ اس کے دیوان کے جواب میں ۔۔۔۔ پیام مشرق۔۔۔۔۔ وجود میں آئی۔ڈاکٹر اقبال‘ ہیگل کے نظریات کو روح سے خالی قرار دیتاہے۔ اقبال کے خیال میں اگر ہیگل کے نظریات میں اسلامیروح کارفرما ہوتی تو وہ بلاشبہ انسانی سرفرازی کے لیے مثال ہوتے۔ اقبال برگساں کے نظریہء زمان سے بھی اثر لیتے ہیں۔برگساں کے نزدیک‘ زندگی تغیر اور تخلیق ہے۔ زندگی کے جن پہلوؤں میں تقلید اور ثبات نظر آتا ہے وہاں زندگیموج بےتاب نہیں۔ اقبال کے نزیک بھی زندگی متحرک اورتغیر پذیر ہے۔ اور ہر لمحہ تخلیقی مراحل سے گزرتی ہے۔ان کے نزدیک چلتے رہنا زندگی‘ جب کہ ٹھہرنا موت ہے۔ برگساں نے زمان و مکآن میں وجود کی حیثیت محض جبلی قرار دی ہے۔ اقبال کے خیال میں‘ زمان عمل تخیلق
سے پیدا ہوتا ہے‘ ایک غیر متواتر حرکت‘ تغیر پر مبنی ہے۔ سلسلہءروز وشب نقش گر حادثات سلسلہءروز وشب اصل حیات و ممات ایک دوسری جگہ کہتے ہیں فریب نظر ہے سکون و ثبات تڑپتا ہے ہر زرہء کائنات ٹھہرتا نہیں کاروان وجود کہ ہر لحظہ ہے تازہ شان وجوداقبال کسی ایک منزل پر ٹھہر جانے کے قائل نہیں ہیں۔ وہمتحرک زندگی کو زندگی مانتے ہیں۔ جوں جوں خودی ارتقا کی منازل طے کرے گی زمانہ تخلیق ہوتا چلا جائے گا۔ کہتے ہیں۔ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں اقبال شعرائے مغرب کی شعریت سے بھی متاثر تھے۔ورڈزورتھ کی فطرت نگاری‘ انھیں پسند تھی۔ اقبال نے اس کا رنگ اپنی نظموں میں اختیار کیا۔ نظم۔۔۔۔ ایک شام۔۔۔۔۔ سے بطور نمونہ دو شعر ملاحظہ ہوں۔ خاموش ہے چاندنی قمر کی شاخیں ہیں خموش ہر شجر کی وادی کے نوا فروش خاموش کہسار کے سبزپوش خاموش شیلے اور کیٹس کی رنگین مزاجی اور ٹی ایس کولرج کازندگی سے گلہ شکوہ بھی‘ اسے اچھا لگتا ہے۔ اقبال کے
ہاں حسن‘ عشق اور محبت جہاں نئے نئے رنگ لیے ہوئے ہیں‘ تو وہاں روایت کا دامن بھی نہیں چھوڑتے۔ شیلے اجزائے عالم کی باہمی وابستگی کو محبت سےتعبیر کرتا ہے اور محبت کے بغیر کائنات کا وجود ناممکن خیال کرتا ہے۔ شیشہء دہر میں ماند ہے ناب ہے عشق روح خورشید ہے خون رگ مہتاب ہے عشق اقبال کی حسن سے لطف اندوزی کا ذوق ملاحظہ ہو۔ ہوئی ہے رنگ تغیر سے جب سے نمود اس کی وہی حسین ہے حقیقت زوال ہے جس کی اقبال شیکسپیئر کے لب و لہجہ سے بھی متاثر ہے اور اسے ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔ تجھ کو جب دیدہءدیدار طلب نے ڈھونڈا تاب خورشید میں خورشید کو پنہاں دیکھا چشم عالم سے تو ہستی رہی مستور تری
اور عالم کو تری آنکھ نے عریاں دیکھا حفظ اسرار کافطرت کو ہے سودا ایسا رازداں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسااقبال نے برصغیر میں رہتے ہوئے‘ مغرب کو سنی سنائی کے حوالہ سے‘ جانا پہچانا۔ ستمبر ٠٦١٥سے جولائی ٠٦١٨تک‘ وہ مغرب میں قیام پذیر رہے۔ اس عرصہ میں‘ انھوں نے مختلف مفکرین سے ملاقات کی‘ انھیں پڑھا۔ مغرب کے سماجی حلقوں اور اداروں سے تعلق رکھا۔ لوگوں کو اور ان کے رہن سہن کو‘ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ مغرب کے معاشی نظام کا مشاہدہ کیا۔ مغرب کی سیاست کا تنقیدی زاویوں سے مطالعہ کیا۔ مغرب کے تعلیمی نظام کا مشاہدہ کیا۔ گویا سب اپنی آنکھوں سےدیکھا۔ ان تمام امور سے‘ جو منفی یا مثبت اثرات لیے‘ ان کے اثرات ان کی شاعری میں نظر آتے ہیں۔ اس مضمون کی تیاری میں درج ذیل کتب سے معاونت
حاصل کی گئی۔نیرنگ خیال‘ لاہور‘ اقبال نمبر‘ شمارہ ستمبر‘ اکتوبر‘ ٠- ٠٦٣٦مقام اقبال‘ اشفاق حسین‘ ادارہ اشاعت اردو‘ حیدرآباد ٦- دکن ٠٦٤٥مقالات اقبال‘ مرتبہ انٹر کالجیٹ مسلم برادرزہڈ‘ قومی ٣- کتب خانہ‘ لاہور‘ ٠٦٤٨ اقبال کامل‘ عبدالام ندوی‘ مطبع معارف‘ اعظم گڑھ‘ ٤- ٠٦٤٨اقبالیات کا تنقیدی جائزہ‘ احمد میاں قاضی جونا گڑھی‘ ٥- اقبال اکادمی‘ لاہور‘ ٠٦٢٥اقبال کا تنقیدی مطالعہ‘ اے جی نیازی‘ عشرت پبلشنگ ٢- ہاؤس‘ لاہور‘ ٠٦٢٥تصورات اقبال ج ‘٠-مولوی صلاح الدین احمد‘ مقبول ٧-
پبلی کیشنز‘ لاہور‘ ٠٦٢٦مطالعہءاقبال کے چند نئے رخ‘ ڈاکٹر سید محمد عبدالله‘ ٨- بزم اقبال‘ لاہور‘ ٠٦٨٤اقبال اور ثقافت‘ ڈاکٹر مظفر حسن‘ اقبال اکادمی‘ لاہور‘ ٦- ٠٦٨٢ ڈاکٹر محمد اقبال‘ کلیات اقبال -اردو‘ المسلم پبلیشرز‘ ٠١- کراچی ‘ ٠٦٦٤ انگریزی دنیا کی بہترین زبان نہیں ہےہم جس عہد سےگزر رہےہیں وہ انگریز اور اس کی زبان انگریزی کا ہے۔ انگریز کے چیلوں چمٹوں اور گماشتوں
نے یہ تاثر عام کر رکھا ہے کہ انگریزی زبان کے بغیر تر قی کا دروازہ کھل ہی نہیں سکتا۔ نتیجہ کار بچے کی دنیا میں آنے کی غلطی کے ساتھ ہی انگریزی کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس طرحوہ انگریزی کی تعلیم حاصل کرنے میں زندگی گزار دیتا ہےلیکن دیگر مضامین میں واجبی سا بھی نہیں رہ پاتا۔ تقریبا ٠٧٥٤سے برصغیر انگریزی گذیدہ ہے اور یہاں کے باسی جو بڑے زبردست یودھا جفاکش محنتی اور ہنرمند ہیں اپنوں کے بناءے گءے اس قلعلے کو سر نہیں کر سکے۔ اب ایک ہی صورت نظر آتی ہے کہ جوں ہی بچہ پیدا ہواسے امریکہ کے کسی نرسری ہاؤس میں بجھوا دیا جائے تا کہ وہ وہاں ناصرف انگریزی سیکھ سکے بلکہ اسکلچر سے بھی آگہی حاصل کر سکے۔ موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے آتے برسوں میں ٠۔ بھوک کے سبب بچوں کو پیدا ہوتے ہی مار دیا جائے گا۔ ٦۔ لوگ بھوک پیاس اندھیرے ریاستی جبر وغیرہ سے تنگ آ کر خودکشی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
٣۔ گریب اور کمزور کے بچے تعلیم حاصل کرنے کا خواب دیکھنا بند کر دیں گے۔٤۔ چوری ڈاکے مار دھاڑ اور ہیرا پھیری سے وابستہ لوگ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر سکیں گے۔ عملی سطع پر دیکھ لیں دس سال پڑھنے اور سارے مضامین میں کامیابی حاصل کرنے کے باوجود انگریزی میں فیل ہو جانے کے سبب طالب علم صفر پر آ جاتا ہے۔ نقل پر گرفت کی صورت میں بچہ ان پڑھ رہ جاتا ہے۔ انگریزی کے پرچے کے دن نقل خوب ہوتی ہے آگے پیچھے یہ تناسب دس فیصد سے زیادہ نہیں رہ پاتا۔ پانیکے ہزار بوکے نکال لینے سے پانی پاک نہیں ہو جاتا جب تک کھوہ سے کتا نکال باہر نہیں کیا جا تا۔ سوچنے کیبات یہ ہے کہ جو انگریزی پڑھنے میں عمر کا اچھا خاصا وقت برباد کر دیتے ہیں انھیں انگریزی آ جاتی ہے؟! سارا کام تو گائیڈوں کے سہارے چل رہا ہے۔ ایسے میں انگریزی کیسے آئے گی۔ سدا بادشاہی الله کی ‘ برصغر میں بھانت بھانت کے لوگ
آئے۔ ان کی زبان کے متعلق بھی اسی قسم کی باتیں کی جاتی تھیں ترقی تو نہیں ہوئی ۔ یہاں کا شخص جہاں تھا وہیں کھڑا ہے۔ گولے اور گماشتے عین سے عیش کررہے ہیں۔ ان کے کردار پر اگلی رکھنے والے پولے کھاتے ہیں۔ پھر بھی اپنی زبان کو لگام نہیں دیتے تو جان سے جاتے ہیں۔ زبان کا انسانی ترقی سے کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ ترقی انسانی ذہانت پر انحصار کرتی ہے۔ ذہانت زبان کو ترقیسے ہمکنار کرتی ہے۔ بیجھے میں کچھ ہو گا تو ہی بولا یا لکھا جائے گا۔انگریزی جسے یہاں کی ماسی بنا رکھا ہے اس کی دو ایک بنیادی خامیوں کا تذکرہ کرتا ہوں ٠۔ ابتدائ آوازیں اظہار کے حوالہ سے ناکافی ہیں۔ ٦۔ نہایت اہم آوازیں چ اور ش اس میں موجود نہیں ہیں۔٣۔ مرکب آوازوں کا نظام کمزور دہرا ناقصں اور پچیدہ ہے۔ اب ضمن نمبر ٣کے حوالہ سے چند مثالیں ملاحظہ فرماءیں ش کے لیے دس یا دس سے زیادہ مرکب استعمال ہوتے
ہیں جبکہ دوسری جگہ ان کی آواز کچھ اور ہوتی ہے۔ جیسے ٹی آئی ایکشن action mentionمنشن essentialاسنشیل admitionاڈمیشن وغیرہ siایس آئی asiaایشیا malaysiaملیشیا tesionٹنشن
Search
Read the Text Version
- 1
- 2
- 3
- 4
- 5
- 6
- 7
- 8
- 9
- 10
- 11
- 12
- 13
- 14
- 15
- 16
- 17
- 18
- 19
- 20
- 21
- 22
- 23
- 24
- 25
- 26
- 27
- 28
- 29
- 30
- 31
- 32
- 33
- 34
- 35
- 36
- 37
- 38
- 39
- 40
- 41
- 42
- 43
- 44
- 45
- 46
- 47
- 48
- 49
- 50
- 51
- 52
- 53
- 54
- 55
- 56
- 57
- 58
- 59
- 60
- 61
- 62
- 63
- 64
- 65
- 66
- 67
- 68
- 69
- 70
- 71
- 72
- 73
- 74
- 75
- 76
- 77
- 78
- 79
- 80
- 81
- 82
- 83
- 84
- 85
- 86
- 87
- 88
- 89
- 90
- 91
- 92
- 93
- 94
- 95
- 96
- 97
- 98
- 99
- 100
- 101
- 102
- 103
- 104
- 105
- 106
- 107
- 108
- 109
- 110
- 111
- 112
- 113
- 114
- 115
- 116
- 117
- 118
- 119
- 120
- 121
- 122
- 123
- 124
- 125
- 126
- 127
- 128
- 129
- 130
- 131
- 132
- 133
- 134
- 135
- 136
- 137
- 138
- 139
- 140
- 141
- 142
- 143
- 144
- 145
- 146
- 147
- 148
- 149
- 150
- 151
- 152
- 153
- 154
- 155
- 156
- 157
- 158
- 159
- 160
- 161
- 162
- 163
- 164
- 165
- 166
- 167
- 168
- 169
- 170
- 171
- 172
- 173
- 174
- 175
- 176
- 177
- 178
- 179
- 180
- 181
- 182
- 183
- 184
- 185
- 186
- 187
- 188
- 189
- 190
- 191
- 192
- 193
- 194
- 195
- 196
- 197
- 198
- 199
- 200
- 201
- 202
- 203
- 204
- 205
- 206
- 207
- 208
- 209
- 210
- 211