Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore مقصود حسنی اور انگریزی زبان و ادب

مقصود حسنی اور انگریزی زبان و ادب

Published by maqsood5, 2016-09-07 07:23:36

Description: مقصود حسنی اور انگریزی زبان و ادب

پیش کار
پروفیسر نیامت علی مرتضائی

ابوزر برقی کتب خانہ
ستمبر ٢٠١٦

Search

Read the Text Version

‫معنی یہ نہیں‘ کہ تجربات نہ کیے جائیں۔ تجربہ‘ ادب کی‬ ‫جان اور تاریخ ہوتا ہے۔‬ ‫روایات اور تجربات‘ ایک دوسرے کے متضاد نہیں ہیں۔‬‫تجربات کے لیے‘ کسی زمین کا ہونا ضروری ہے۔ یہ زمین‬ ‫روایت فراہم کرتی ہے۔ ادب اور فن میں‘ جہاں دوسری‬‫روایت کی طرح پڑتی ہے‘ وہاں تجربے کا بھی پتا چلتا ہے۔‬ ‫ایک بڑا شاعر‘ روایت پرست بھی ہوتا ہے‘ اور تجرباتی‬ ‫بھی۔ اس کے بزرگوں نے‘ جو دریافتیں کی ہوتی ہیں‘ وہ‬‫انہیں نظرانداز نہیں کر سکتا‘ بصورت دیگر‘ اس کی آواز‘‬ ‫محض صدائے بازگشت ہو کر رہ جائے گی‘ اور وہ اپنے‬ ‫بزرگوں کے پائے تک‘ نہیں پہنچ پائے گا۔‬‫تاریخی روایات کے حصول کے لیے‘ ایلیٹ نے‘ شاعر کے‬‫تاریخی شعور کو‘ اہم قرار دیا ہے۔ جو پچیس سال کی عمر‬ ‫کے بعد بھی‘ شاعر رہنا چاہتا ہے‘ اس کے لیے تاریخی‬ ‫شعور ناگزیر ہے۔ یہ تاریخی شعور‘ ادب کی لازمانی کا‬ ‫شعور بھی ہے‘ اور اس کے زمانی ہونے کا ثبوت بھی۔‬

‫زمانی اور لازمانی ہونے کا شعور‘ شاعر کو روایت کا‬ ‫شاعر بناتا ہے‘ اور اسی سے‘ اس کے زمانی مقام کا‘‬‫تعین ہوتا ہے۔ ایلیٹ کے نزدیک‘ لافانیت کو سمجھنے کے‬ ‫لیے‘ روایت کا شعور‘ شرط لازم ہے۔ تاہم وہ روایت کے‬‫شعرا کے کلام کو‘ نقالی نہیں سمجھتا۔ یہ شعور شعرا کو‘‬‫مجبور کرتا ہے‘ کہ وہ لکھتے وقت اپنے عہد ہی کو‘ پیش‬‫نظر نہ رکھیں‘ بلکہ گزشتہ سے آج تک کے ادب کو‘ اور‬ ‫اپنے ملک کے سارے ادب کو‘ اپنا ہم عصر تصور کریں۔‬ ‫ایلیٹ ادب اور زندگی‘ دونوں میں معیارات کے نفوذ اور‬ ‫غیر شخصی و غیرذاتی‘ میلانات و رجحانات کا قائل ہے۔‬‫اسی لیے وہ‘ احساس رفتہ اور احساس روایت کو ضروری‬ ‫سمجھتا ہے۔اس کی نظر میں‘ تمام ادبی فن پارے ایک‬ ‫سلسلہ میں‘ تنظیم و ترتیب پاتے ہیں۔ اس کے خیال میں‘‬ ‫روایت کے یہ معنی نہیں ہیں‘ کہ ادب کو محض چند‬‫تعصبات سے پاک رکھا جائے۔ تعصبات روایت کے تشکیلی‬ ‫عمل کے دوران‘ وجود پکڑتے ہیں۔‬

‫ایلیٹ کے روایت سے متعلق خیالات کا‘ لب لباب کچھ یوں‬ ‫‪:‬ٹھہرے گا‬ ‫روایت لکیر کےفقیر ہونے کا نام نہیں۔ ‪٠-‬‬‫روایت کے حصول کے لیے‘ محنت و کاوش سے‘ کام ‪٦-‬‬ ‫لینا پڑتا ہے۔‬ ‫تاریخی شعور کا مطلب یہ ہے‘ کہ شاعر کو احساس ‪٣-‬‬ ‫ہو‘ کہ ماضی صرف ماضی ہی نہیں‘ بلکہ اس کے اعلی‬‫اور آفاقی عناصر‘ ایک زندہ شے کی طرح‘ نشوونما پاتے‬ ‫ہوئے‘ حال میں پہنچ گیے ہوتے ہیں۔‬‫شاعری کی ادبی حیثیت کا اندازہ‘ کسی شاعر کی‘ دیگر ‪٤-‬‬ ‫شعرا کے کلام ہی سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس کی مجرد‬ ‫طور پر‘ قدروقیمت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا‘ کیوں کہ‬ ‫وہ پورے ادبی نظام کا‘ حصہ ہوتا ہے۔‬‫ہر نیا فن پارہ‘ اپنے نئے پن سے تمام فن پاروں کی ‪٥-‬‬

‫قدروقیمت کو متاثر کرتا ہے۔ اس کی روشنی میں گزشتہ‬ ‫کے فن پاروں کا‘ پھر سے جائزہ لینا پڑتا ہے۔‬ ‫ایمان دارانہ تنقید‘ شاعر پر نہیں‘ شاعری پر ہونی ‪٢-‬‬ ‫چاہیے۔ یہ اس لیے ضروری ہے‘ کہ کسی ایک نظم کا‬ ‫تعلق‘ دوسری نظموں سے ہوتا ہے۔‬‫نظم صرف ایک مفہوم ہی نہیں‘ اپنا زندہ وجود رکھتی ‪٧-‬‬‫ہے۔ اس کے مختلف حصوں سے‘ جو ترکیب بنتی ہے‘ وہ‬‫واضح حالات کی فہرست سے مختلف ہوتی ہے۔ وہ احساس‬ ‫یا جذبہ یا عرفان جو نظم سے حاصل ہوتا ہے‘ وہ شاعر‬ ‫کے ذہن میں ہوتا ہے۔‬‫اس مضمون کی تیاری میں خصوصا درج ذیل کتب شکریے‬ ‫‪:‬کے ساتھ پیش نظر رہیں‬ ‫مغرب کے تنقیدی اصول پروفیسر سجاد باقر رضوی‬ ‫مطبع عالیہ ‪٠٦٢٢‬‬ ‫ارسطو سے ایلیٹ تک ڈاکٹر جمیل جالبی نیشنل‬

‫فاؤنڈیشن ‪٠٦٧٥‬‬ ‫انگریزی کے ہندوی پرلسانی اثرات‬ ‫مختلف علاقوں کے لوگوں کی زبان' میں حیرت انگیز‬ ‫لسانیاتی مماثلتوں کا پایا جانا' اتفاقیہ نہیں ہو سکتا۔ اس‬ ‫کے پس منظر میں' کسی سطع پر کوئی ناکوئی واقعہ'‬‫معاملہ' حادثہ' بات یا کچھ ناکچھ ضرور وقوع میں آیا ہوتا‬‫ہے' چاہے اس کی حیثیت معمولی ہی کیوں نہ رہی ہو' اس‬ ‫کا اثر ضرور مرتب ہوا ہوتا ہے۔‬‫ایک دیسی یا بدیسی شخص' بازار میں کچھ خریدنے' کسی‬ ‫سے ملنے یا کسی اور کام سے آتا ہے۔ وہ اپنے اس‬

‫ٹھہراؤ کے مختصر دورانیے میں' کوئی اصطلاح' کوئی‬‫ضرب المثل' کوئی محاورہ یا کوئی لفظ چھوڑ جاتا ہے۔ اس‬ ‫کا بولا' ایک شخص استعمال میں لاتا ہے' پھر دوسرا' ان‬‫کی دیکھا دیکھی میں وہ مہارت میں آ جاتا ہے۔ اب یہ لازم‬‫نہیں کہ وہ اصل تلفظ' اصل معنوں یا پھر اصل استعمال کے‬‫مطابق' استعمال میں آ جائے۔ وہ اپنی اصل سے کہیں دور'‬‫بل کہ بہت دور جا سکتا ہے۔ معنوی اعتبار سے اصل سے‬ ‫برعکس استعمال میں آ سکتا ہے۔ کئی معنی اور استعمال‬ ‫سامنے آ سکتے ہیں اور پھر اس کے غیر ہونے کا گمان‬ ‫تک نہیں گزرتا۔‬‫یونانیوں کا سیاسی' علمی' ادبی اور ثقافتی حوالہ سے' دنیا‬ ‫بھر میں ٹہکا تھا۔ آتے وقتوں کی عظیم سیاسی' عسکری‬ ‫اور مکار قوت' برطانیہ ان کی دسترس سے باہر نہ تھی۔‬‫اسی طرح برصغیر بھی یونانیوں کے زیر اثر رہا۔ یونان کا‬ ‫لٹیرا اعظم' برصغیر پر بھی حملہ ہوا۔ یہاں پٹ گیا۔ زخمی‬ ‫ہوا اور یہاں سے دم دبا کر بھاگ گیا۔ ایک یونانی قبیلہ‬ ‫یہاں رک گیا۔ کیلاش میں ان کا پڑاؤ ٹھہرا۔ یہ یونانی کئی‬ ‫ولائیتوں پر حکومت کرتے رہے۔ اس یونانی عسکری‬

‫قبیلے کی نسل' آج بھی' یہاں بہت ساری اپنی یونانی‬ ‫روایات کے ساتھ موجود ہے۔‬‫رومن برٹن‪ :‬بریطانیہ' بریٹن' برطانیہ۔ آئی لینڈ کا علاقہ تھا'‬ ‫جو کہ رومن ایمپائر کی حکومت میں تھا۔ برصغیر رومن‬‫شہنشاہت سے باہر نہ تھا۔ برصغیر میں ان کے ہونے کے‬ ‫بہت سے اثار انٹرنیٹ پر تلاشے جا سکتے ہیں۔ انگریزی‬ ‫کا رسم الخط آج بھی رومن ہے۔ اس رسم الخط میں لکھی‬ ‫اردو کو رومن اردو کا نام دیا جاتا ہے۔‬‫برطانیہ والے ‪ 7581‬سے بہت پہلے' برصغیر میں وارد ہو‬‫گیے تھے' تاہم ‪ 7581‬سے ‪ 7491‬تک برصغیر ان کا رہا۔‬‫محسن آزادی ہٹلر کی عنایت اور مہربانی سے' برطانیہ کے‬ ‫ہاتھ' پاؤں اور کمر کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں اور سونے کی‬‫چڑیا' اس کی دسترس میں نہ رہی۔ اس کے بعد امریکہ کی‬ ‫گڈی چڑھی اور آج تک چڑھی ہوئی ہے۔ گویا دونوں‬‫یونیوں کے زیر تسلط تھے' اس کے بعد رومیوں کے رہے۔‬‫اس کے بعد برصغیر پر برطانیہ کا کھرا کھوٹا سکا چلا اور‬

‫اب حضرت امریکہ بہادر کی خداوندی کا دور دورہ ہے۔‬ ‫اسم کی ترکیب کے لیے' انگریزی یں لاحقہ موجود نہیں۔‬ ‫یہ خالص برصغیر سے متعلق ہے۔ مثلا دیوارکا' پریمیکا'‬‫انومیکا' کامولیکا وغیرہ گویا امریکا' برصغیر کا لفظ ہے۔‬‫مثلا امبڑیکا‪ .‬اگر کسی شخص کا نام ہے' تو اس کا برصغیر‬‫سے کوئی ناکوئی رشتہ' ضرور رہا ہو گا۔ امریکہ میں بھی‬ ‫انگریزی زبان استعمال میں آتی ہے۔‬‫صاف ظاہر ہے' ان علاقوں کے لوگ یہاں آئے۔ ان علاقوں‬ ‫سے' جس حوالہ سے بھی سہی' یہاں سے لوگ گیے۔‬ ‫مزے کی بات یہ کہ آج بھی لاکھوں کی تعداد میں مغرب‬ ‫کے مختلف علاقوں میں برصغیر کے لوگ' عارضی اور‬ ‫مستقل اقامت رکھتے ہیں۔ یہ کہنا کہ برصغیر والے ہی‬‫متاثر ہوئے' سراسر زیادتی کے مترادف ہو گا۔ حاکم ہو کہ‬ ‫محکوم' ایک ولایت میں اقامت رکھنے کے سبب' ایک‬ ‫دوسرے سے متاثر ہوتے ہیں۔ ہندوی' جوآل ہند کی زبان‬‫ہے' نے دنیا کی تمام زبانوں کو' لسانی' فکری اور اسلوبی‬

‫حوالہ سے متاثر کیا‪ .‬اسی طرح یہ بھی اپنی بےپناہ لچک‬‫پذیری کے باعث' ان سے متاثر ہوئی۔ مختلف زبانوں کے‬ ‫الفاظ' اس کے ذخیرہءاستعمال میں داخل ہیں۔‬ ‫متاثر کرنے کی' کئی صورتیں اور سطحیں ہوسکتی ہیں۔‬ ‫‪1‬‬ ‫کلچر زیادہ تر خواتین کے زیر اثر رہا ہے۔‬‫زیورات' لباس' بناؤ سنگار کے اطوار' ناز و نخرہ وغیرہ‬ ‫کے چلن' ایک دوسرے کے اختیار کرتی ہیں۔‬ ‫نشت و برخواست کے اصول اختیار کرتی ہیں۔‬ ‫گفت گو میں' ایک دوسرے کی طرز اختیار کرتی ہیں۔‬‫گھر میں سامان کی درآمد اور اس کے رکھنے اور سجانے‬ ‫کے طور' اپناتی ہیں۔‬ ‫کچن اور اس سے متعلقہ امور میں' نقالی کرتی ہیں۔‬ ‫اشیائے اور اطوار پکوان اپناتی ہیں۔‬‫فقط یہ امور ہی انجام نہیں پاتے' بل کہ ان کے حوالہ سے‬

‫اسما' صفات' سابقے' لاحقے' اسلوب بھی اس گھر میں‬ ‫منتقل ہوتے ہیں۔‬ ‫‪2‬‬ ‫کم زوروں کی ہنرمندی اور ہنرمندوں پر ڈاکے پڑتے ہیں‬ ‫ان کے وسائل قدرت پر قبضہ جمایا جاتا ہے‬‫ان کے علمی و ادبی ورثے کو غارت کرنے کے ساتھ اس‬ ‫کی بڑی بےدردی سے لوٹ مار کی جاتی ہے۔‬ ‫ان تینوں امور کے حوالہ سے ان کی زبان میں بہت کچھ‬ ‫بدیسی داخل ہو جاتا ہے۔‬ ‫‪3‬‬ ‫اس کے علاوہ معاشرتوں کے انسلاک سے‬ ‫بہت سے معاشرتی اطوار‬ ‫انسانی رویے‬ ‫رسم و رواج‬ ‫مذہبی اور نظریاتی اصول‬

‫سیاسی' معاشی اور ارضیاتی طور طریقے اور خصوصی و‬ ‫عمومی چلن‬‫ایک دوسرے کے ہاں منتقل ہوتے ہیں اور صدیوں کا سفر‬ ‫کرتے ہیں۔ آتے وقتوں میں کچھ کے کچھ ہو جاتے ہیں'‬ ‫لیکن باقی رہتے ہیں۔ بعض کی' ہزاروں سال بعد بھی'‬ ‫بازگشت باقی رہتی ہے۔ یہ امور زبان سے بالا بالا نہیں‬ ‫ہوتے۔ ان سب کا زبان سے اٹوٹ رشتہ استوار ہوتا ہے۔‬ ‫اشیائے خوردنی اور اشیائے استعمال مثلا کپڑے' برتن‬ ‫وغیرہ‬ ‫اشیائے حرب اور حربی ضوابط‬ ‫طرز تعمیر وغیرہ‬ ‫قبریں بنانے کے انداز‬ ‫کا تبادلہ ہوتا ہے' ان کے حوالہ سے زبان کو بہت کچھ‬ ‫میسر آتا ہے۔ میں نے یہاں' محض گنتی کے دو چار‬ ‫اموردرج کیے ہیں' ورنہ ایسی بیسیوں چیزیں ہیں' جو‬‫وقوع میں آتی ہیں اور ان کا زبانوں پر اثر مرتب ہوتا ہے۔‬

‫اس ذیل میں' قرتہ العین حیدر کی تحریروں کا مطالعہ مفید‬‫رہے گا۔ انگریزی بھی' برصغیر کی زبان ہندوی سے' متاثر‬‫ہوتی آئی ہے جس کے لیے' ان کی شاعری کا مطالعہ کیا‬ ‫جا سکتا ہے۔‬‫بعض اردو اور انگریزی کی ضمیروں میں' صوتی مماثلت‬ ‫موجود ہے۔ مثلا‬ ‫‪Of fortune’s favoured sons, not me.‬‬ ‫‪: Wish‬نظم‬ ‫‪: Matthew Arnold‬شاعر‬ ‫‪To die: and the quick leaf tore me‬‬ ‫‪me‬‬ ‫کے لیے اردو میں مجھے مستعمل ہے۔ پوٹھوہار میں‬ ‫ضمیر می آج بھی بول چال میں ہے۔‬

........ My feeble faith still clings to Thee, ‫نظم‬: My God! O Let Me Call Thee Mine! ‫شاعر‬: Anne Bronte my‫انگریزی میں عام استعمال کی ضمیر اردو میں اس ضمیر‬ ‫کے میرا مستعمل ہے۔‬ ........ you can keep your head when all about you ‫نظم‬: If ‫شاعر‬: Rudyard Kipling ‫اردو میں تو عام بول چال میں موجود ہے۔‬

‫‪........‬‬‫بہت سے الفاظ آوازوں کے تبادل یا کسی اور صورت میں‬ ‫انگریزی میں مستعمل ہیں۔ مثلا‬ ‫اردو میں دن انگریزی میں ڈان‬ ‫‪ more‬مور‬ ‫‪ m‬اور الف کی آواز میم یعنی‬ ‫‪ m‬میں بدلی ہے۔‬ ‫کو حشوی قرار دیا جا سکتا ہے۔‬ ‫‪Once more before my dying eyes‬‬ ‫‪Wish: Matthew Arnold‬‬‫ودوا اپنی اص میں ود اور وا کا مرکب ہے۔ بےوا مستعمل‬

‫صورت بیوہ۔‬ ‫بے نہی کا سابقہ ہے‬ ‫بہت سے لفظ اس طور سے لکھے جاتے ہیں۔ مثلا‬ ‫بیچارہ بجائے بےچارہ‬ ‫بیدل بجائے بےدل‬ ‫بیہوش بجائے بےہوش‬ ‫بیکار بجائے بےکار‬‫بیوہ بےوا بمعنی جس کا ور نہ رہا ہو ر کی آواز گر گئی‬ ‫ہے‪ .‬ودوا بےوا کے لیے بولا جاتا ہے۔‬ ‫انگریزی میں وڈو۔ وڈ او‬ ‫‪widow‬‬ ‫وڈ آؤٹ اس کے' یعنی ور' او ۔ ور‬ ‫‪...............‬‬‫کئی ایک لفظ انگریزی کی صوتیات کے پیش نظر' معمولی‬ ‫سی تبدیلی کے ساتھ' انگریزی میں داخل ہو گئے ہیں۔‬

‫‪no‬‬‫انگریزی میں نفی کے لیے استعمال ہوتا ہے اردو میں نہ‬ ‫جب کہ انگریزی میں نو‬ ‫نو' باطور نہی کا سابقہ‬ ‫نوسر نوٹنکی‬ ‫نو‪ .‬سر‪ .‬باز‬ ‫باطور سابقہ نا ناکافی نازیبا ناچیز‬ ‫نہ باطور سابقہ نہ جاؤ' نہ چھیڑو' نہ کرو' نہ مارو‬ ‫ان بولتے لفظوں کو‘ ہم سن نہ سکے‬ ‫آنکھوں سے‘ چن نہ سکے‬ ‫کس منہ سے‪ :‬مقصود حسنی‬ ‫نہ کڑا نہ کھارا‬ ‫چل' محمد کے در پر چل‪ :‬مقصود حسنی‬

I have no wit, no words, no tears; A Better Resurrection: Christina Rossetti No motion has she now, no force; A Slumber Did My Spirit Seal: William Wordsworth Thou hast no reason why ! Thou canst have none ; Human Life: Samuel Taylor Coleridge ............‫رشتوں کے حوالہ سے بھی انگریزی میں کچھ الفاظ داخل‬ ‫ہوئے ہیں۔ مثلا‬ ‫پنجابی میں بھرا‬ ‫فارسی میں برادر‬ ‫اردو میں بھی برادر مستعمل ہے‬

‫انگریزی میں‬ ‫‪brother‬‬‫اصل لفظ برا۔ بھرا ہی ہے جب کہ در باطور لاحقہ داخل ہوا‬‫ہے۔ ایک پہلے ہے تب ہی دوسرا برا یا بھرا ہے۔ دونوں کا‬‫برابر کا رشتہ ہے۔ انگریزی میں واؤ الف کا تبادل ہے۔ یہ‬‫رویہ طور میواتی اور راجھستانی میں موجود ہے۔ برا سے‬ ‫برو بامعنی بھائی۔‬ ‫در کا لاحقہ‬ ‫‪father, mother‬‬ ‫میں بھی موجود ہے‬‫در' باطور سابقہ اور لاحقہ اردو میں بھی رواج رکھتا ہے‪.‬‬ ‫مثلا‬ ‫درگزر' درحقیقت' درکنار‬ ‫چادر چا در‬ ‫‪His brother doctor of the soul,‬‬

‫‪Wish: Matthew Arnold‬‬‫فارسی میں' ماں کے لیے مادر مستعمل ہے۔ اردو میں مادر‬ ‫پدر آزاد عام بول چال میں ہے۔ اصل لفظ ما ہی ہے۔ ں‬‫حشوی ہے‪ .‬یہ ہی صورت فارسی کے ساتھ ہے۔ انگریزی‬ ‫میں‬ ‫‪mother‬‬ ‫بولتے ہیں۔ اس میں اصل لفظ مو ہی ہے' فارسی کی طرح‬ ‫در الحاقی یعنی خارجی ہے۔‬ ‫ہر برتن کی زبان پہ‬ ‫اس کی مرحوم ماں کا نوحہ‬ ‫باپ کی بےحسی اور‬ ‫جنسی تسکین کا بین تھا‬ ‫نوحہ‪ :‬مقصود حسنی‬ ‫‪............‬‬

‫مرکبات حسن شعر میں داخل ہیں۔ یہ شخصی اور مجموعی‬ ‫رویوں کے عکاس اور شاعر کی اختراعی فکر کےغماز‬ ‫ہوتے ہیں۔ یہ ہی نہیں' زبان کی وسعت بیانی کی بھی‬‫گواہی دیتے ہیں۔ اردو اس ذیل میں کمال کی شکتی رکھتی‬ ‫ہے۔ انگریزی میں بھی مرکبات ملتے ہیں۔ اس ذیل میں‬ ‫اردو کے پائے کے مرکبات کی حامل ناسہی' لیکن اس کا‬‫دامن اس کمال زبان سے تہی نہیں۔ اردو اور انگریزی سے‬ ‫چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔‬ ‫موسم گل ابھی محو کلام تھا کہ‬ ‫‪..........‬‬ ‫پریت پرندہ‬ ‫‪..........‬‬ ‫اس کی بینائی کا دیا بجھ گیا‬ ‫‪.........‬‬ ‫پھر اک درویش مینار آگہی پر چڑھا‬

...... ‫یتیمی کا ذوق لٹیا ڈبو دیتا ہے‬ ‫من کے موسم دبوچ لیتا ہے‬ ‫ مقصود حسنی‬:‫حیرت تو یہ ہے‬ greedy heirs, ceremonious air, hideous show, poor sinner,undiscovered mystery, death’s winnowing wings, dying eyes, dew of morn, generous sun, silent moves, ruddy eyes, tears of gold, clouds of gloom, golden wings, trembling soul, make dreams,worth of distance, Shadows of the world, golden Galaxy, happy hours, sun in flight,

Wish: Matthew Arnold From bands of greedy heirs be free; The ceremonious air of gloom – All which makes death a hideous show! ‫پوشیدہ نمائش‬ Of the poor sinner bound for death, ‫مفلس گناہ گار بےچارہ گناہ گار‬ That undiscovered mysteryWhich one who feels death’s winnowing wings Once more before my dying eyes ‫ڈوبتی آنکھیں‬ Bathed in the sacred dew of morn

‫تاسف کی بوندیں‬ But lit for all its generous sun,Where lambs have nibbled, silent moves They look in every thoughtless nest, ‫فکر سے عاری گھروندا‬ Seeking to drive their thirst away, ‫ہانکتی پیاس‬ And there the lion’s ruddy eyes ‫مغرور نگاہیں‬ Shall flow with tears of gold, Night: William Blake Sometimes there are clouds of gloom

Still buoyant are her Life: Charlotte Bronte My trembling soul would fain be Thine ‫لرزتی روح‬ My God! O Let Me Call Thee Mine! Anne BronteIf you can dream – and not make dreams your master; ‫خواب بننا‬ With sixty seconds’ worth of distance run - If: Rudyard Kipling Shadows of the world appear. Hung in the golden Galaxy.

The Lady Of Shalott: Alfred Tennyson Now stand you on the top of happy hours, ‫مسرور لمحے‬ But wherefore do not you a mightier way Shakespeare And then, O what a glorious sight Address To A Haggis: Robert Burns Wild men who caught and sang the sun in flight,‫مرکبات تحریر کے اختصاری معاملے میں' حد درجہ معاون‬'‫ہوتے ہیں' بعینہ تشبیہات ناصرف اسم کو نمایاں کرتی ہیں‬‫بل کہ اسم کی کائنات میں مماثلتیں بھی تلاشتی ہیں۔ یہ ہی‬ ‫نہیں' اختصاری عمل میں بھی' اپنے حصہ کا کردار ادا‬

‫کرتی ہیں۔ میر کا یہ معروف ترین شعر ملاحظہ ہو۔‬ ‫نازکی اس کے لب کی کیا کہیے‬ ‫پنکھڑی اک گلاب سی ہے‬‫اس سے ناصرف لبوں کی نازکی سامنے آئی ہے' بل کہ‬ ‫چند لفظوں میں کئی صفحات پر محیط کام سمیٹ دیا گیا‬‫ہے۔ تشبیہات کے معاملہ میں' انگریزی اردو کے قریب تر‬ ‫ہے۔ ماضی بعید اورانگریز کے برصغیری عہد میں' اس‬‫زبان نے انگریزی کو متاثر کیا ہو گا۔ اردو اور انگریزی‬ ‫سے چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔‬ ‫سلوٹ سے پاک سہی‬ ‫پھر بھی‬ ‫حنطل سے کڑوا‬

‫اترن کا پھل‬‫ مقصود حسنی‬:‫چل' محمد کے در پر چل‬ ‫ساون رت میں‬ ‫آنکھوں کی برکھا کیسے ہوتی ہے‬ ‫ مقصود حسنی‬:‫مت پوچھو‬ My life is like a faded leaf My life is like a frozen thing, My life is like a broken bowl,Can make you live yourself in eyes of men.But wherefore do not you a mightier way Shakespeare

........ A Better Resurrection: Christina RossettiBlind eyes could blaze like meteors and be gay, ........ Do Not Go Gentle Into That Good Night Dylan Thomas The moon like a flower Night: William Blake ........ And Joy shall overtake us as a flood, On Time: Milton

........Blind eyes could blaze like meteors and be gay, Do Not Go Gentle Into That Good Night Dylan Thomas ........ Made snow of all the blossoms; at my feet Like silver moons the pale narcissi lay Holy Week At Genoa: Oscar Wilde ........ Shall shine like the gold Night: William Blake

‫‪........‬‬ ‫‪Hops like a frog before me.‬‬ ‫‪Brooding Grief: D.H.Lawrence‬‬‫حسن واختصار' موازنہ' تاریخ اور علوم سے راوبط کی ذیل‬‫میں تلمیح کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اردو شاعری میں اس‬ ‫کا عام' برمحل اور بلاتکلف استعمال ملتا ہے۔ مثلا‬ ‫سنا ہے‬ ‫یوسف کی قیمت‬ ‫سوت کی اک انٹی لگی تھی‬ ‫عصر حاضر کا مرد آزاد‬ ‫دھویں کے عوض‬ ‫ضمیر اپنا بیچ دیتا ہے‬

‫نظم‪ :‬سنا ہے' مقصود حسنی‬ ‫وہ آگ‬ ‫عزازئیل کی جو سرشت میں تھی‬ ‫اس آگ کو نمرود نے ہوا دی‬ ‫اس آگ کا ایندھن‬ ‫قارون نے پھر خرید کیا‬ ‫اس آگ کو فرعون پی گیا‬ ‫اس آگ کو حر نے اگل دیا‬ ‫یزید مگر نگل گیا‬ ‫صبح ہی سے‪ :‬مقصود حسنی‬‫انگریزی میں باکثرت ناسہی' اس سے کام ضرور لیا گیا‬ ‫ہے۔ مثلا‬

To feel the universe my home; Wish: Matthew Arnold In heaven’s high bower, The angels, most heedful, Night: William BlakeAnd flamed upon the brazen greaves Of bold Sir Lancelot.The Lady Of Shalott: Alfred Tennyson

Shall I compare thee to a summer’s day? So are you to my thoughts That God Forbid That time of year Against My Love: Shakespeare Cast in the fire the perish’d thing; Melt and remould it, till it be A royal cup for Him, my King: O Jesus, drink of me

A Better Resurrection: Christina Rossetti ‘Jesus the son of Mary has been slain, Holy Week At Genoa: Oscar WildeI long for scenes where man hath never trodA place where woman never smiled or wept there to abide with my creator God, ‫خالق‬ I am: John Clare

If even a soul like Milton’s can know death ; Human Life: Samuel Taylor Coleridge Biting my truant pen, beating myself for spite: \"Fool,\" said my Muse to me, \"look in thy heart, and write.\" Loving in truth: Phlip Sidney ‫ضدین پر کائنات استوار ہے۔ یہ شناخت کا کلیدی وسیلہ‬‫ہیں۔ اردو شاعری میں' صنعت تضاد کا استعمال ملتا ہے۔‬‫خوبی کی بات یہ کہ ضدین ایک دوسرے سے متعلق ہوتی‬ ‫ہیں۔ مثلا‬ ‫وہ قیدی نہ تھا‬

‫خیر وشر سے بے خبر‬ ‫معصوم‬ ‫فرشتوں کی طرح‬ ‫نظم‪ :‬نوحہ' مقصود حسنی‬ ‫ایندھن‬ ‫دیکھتا اندھا سنتا بہرا‬‫سکنے کی منزل سے دور کھڑا‬ ‫ظلم دیکھتا ہے‬ ‫آہیں سنتا ہے‬ ‫بولتا نہیں کہتا نہیں‬ ‫جہنم ضرور جائے گا‬ ‫نظم‪ :‬نوحہ' مقصود حسنی‬

‫اس صنعت کا' انگریزی شاعری میں بھی ملتا ہے اور‬‫استعمال کا طریقہ اردو سے قطعی مختلف نہیں۔ چند مثالیں‬ ‫ملاحظہ فرمائیں‬ And up and down the people go, The Lady Of Shalott: Alfred Tennyson The friends who come, and gape, and go; Wish: Matthew Arnold And by his health, sickness

‫‪Night: William Blake‬‬ ‫‪A place where woman never smiled or wept‬‬ ‫‪I am: John Clare‬‬‫ہم صوت الفظ کا استعمال' غنا اور آہنگ کی حصولی میں'‬ ‫بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اردو غزل میں شگفتگی'‬‫شائستگی اور وارفتگی اسی کی مرہون منت ہے۔ نظم کے‬‫شعرا نے بھی اس صنعت کو بلا تکلف استعمال میں رکھا‬ ‫ہے۔ مثلا‬ ‫عہد شہاب میں بےحجاب بےکسی بھی عجب قیامت تھی۔‬‫صبح اٹھتے مشقت اٹھاتےعوضوانے کو ہاتھ بڑھاتے بے‬ ‫نقط سنتے۔ سانسیں اکھڑ جاتیں مہر بہ لب جیتے کہ‬ ‫سانسیں باقی تھیں۔ جینا تو تھا ہی لہو تو پینا تھا ہی۔‬

‫ مقصود حسنی‬:‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا‬‫مضمون ایک طرف' یہ ہم صوت الفاظ ہی' اس پہرے کو نثر‬‫کا سرمایا رہنے نہیں دیتے۔ انگریزی شاعری میں بھی' یہ‬ ‫صنعت دیکھنے کو ملتی ہے۔ مثلا‬ Must need read clearer, sure, than he! Bring none of these; but let me be, Nor bring, to see me cease to live, To work or wait elsewhere or here! Wish: Matthew Arnold Still strong to bear us well.

‫‪Manfully, fearlessly,‬‬ ‫‪The day of trial bear,‬‬ ‫‪For gloriously, victoriously,‬‬ ‫!‪Can courage quell despair‬‬ ‫‪Life: Charlotte Bronte‬‬‫صنعت تکرار لفظی' جہاں آہنگ کے لیے ناگزیر ہے' وہاں‬‫بات میں زور اور وضاحت کا سبب بنتی بھی ہے۔ اردو میں‬ ‫اس صنعت کا استعمال عام ملتا ہے۔ مثلا‬ ‫وہ قتل ہو گیا‬ ‫پھر قتل ہوا‬ ‫ایک بار پھر قتل ہوا‬

‫اس کے بعد بھی قتل ہوا‬ ‫وہ مسلسل قتل ہوتا رہا‬ ‫جب تک سیٹھوں کی بھوک‘ نہیں مٹ جاتی‬ ‫جب تک خواہشوں کا‘ جنازہ نہیں اٹھ جا‬ ‫وہ قتل ہوتا رہے گا‬ ‫وہ قتل ہوتا رہے گا‬ ‫جب تک‪ :‬مقصود حسنی‬‫اب انگریزی شاعری سے چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔‬ ‫‪If you can wait and not be tired by waiting,‬‬ ‫‪Or, being lied about, don’t deal in lies,‬‬ ‫‪Or, being hated, don’t give way to hating,‬‬ ‫;‪And yet don’t look too good, nor talk too wise‬‬

..................If you can dream – and not make dreams your master; If: Rudyard Kipling If you can bear to hear the truth you’ve spoken Life: Charlotte Bronte Four grey walls, and four grey towers, ......... The knights come riding two and two: ........

The helmet and the helmet-feather Burned like one burning flame together, The Lady Of Shalott: Alfred TennysonThen, horn for horn, they stretch an strive: Address To A Haggis: Robert Burns A little while, a little while, The weary task is put away, And I can sing and I can smile, Alike, while I have holiday.

‫‪A Little While: Emily Bronte‬‬ ‫نوٹ‬‫انگریزی میں غزل نہیں اسی لیے مثالیں نظم سے لی گئی‬ ‫ہیں۔‬ ‫شاعری اور مغرب کے چند ناقدین‬‫افلاطون کے تنقد شعر کے متعلق نظریات کو‘ بڑی اہمیت‬ ‫حاصل رہی ہے۔ وہ ناصرف حظ کی اہمیت سے آگاہ تھا‘‬‫بلکہ خود بھی تخلیقی صلاحتیں رکھتا تھا۔ وہ شعر کی اثر‬‫آفرینی سے‘ آگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ‘ خود بھی شاعر‬‫تھا۔ اس نے اپنے استاد کے زیر اثر‘ اپنا کلام تلف کر دیا‘‬ ‫اور شاعری کی مخالفت کا علم اٹھایا۔ اس کے نزدیک‬ ‫شاعر پست اور منفی جذبات ابھارتے ہیں۔ شاعری‬‫لاقانونیت کو جنم دیتی ہے۔ وہ شاعری کو‘ لاشعوری عمل‬

‫کا نام دیتا تھا۔ شاعر وہ ہی کچھ قلم بند کرتا ہے‘ جو‬‫شاعری کی دیوی اسے سجھاتی ہے۔ گویا شاعری کی بنیاد‬ ‫عقل پر نہیں اٹھتی۔‬‫اس کے نزدیک ۔۔۔۔۔ مثالی ریاست۔۔۔۔ کے حاکموں کے لیے‘‬‫شاعری کی تعلیم مضر اثرات کی حامل ہے۔ اس کے خیال‬ ‫میں‘ شاعر اچھا اور بااخلاق شہری بننے کی راہ میں‘‬‫روکاوٹ بنتے ہیں۔ اس کا یہ بھی خیال تھا‘ کہ شاعر خود‬ ‫اپنے کلام کی وضاحت سے معذور ہوتے ہیں جب کہ نقاد‬‫اور شارح‘ مختلف معنی اخذ کرتے ہیں‘ جن کی صحت پر‬ ‫یقین نہیں کیا جا سکتا۔ افلاطون شاعری کی تمثیلی اور‬ ‫علامتی حیثیتوں کو‘ یکسر رد کرتا ہے۔ وہ کہتا تھا‘ کہ‬ ‫شاعری کا زمانہ لد گیا ہے‘ اب فلسفے کا عہد ہے‘ اور‬ ‫فلسفہ ہی صداقتوں اور علوم سے آگاہ کر سکتا ہے۔‬‫افلاطون کا دوسرا نقطہ یہ تھا‘ کہ شاعری اخلاقیات مضر‬ ‫اثر ڈالتی ہے۔ صحیح اخلاقیات کے لیے‘ الوہی قوتوں کا‬‫درست تصور پیش کیا جائے۔ اس کا خیال تھا‘ کہ دیوتا جو‬

‫تمام تر خوبیوں کا مظہر ہوتے ہیں‘ انہیں لڑتے جھگڑتے‘‬‫اور انسانوں پر ظلم ڈھاتے‘ دیکھانا درست نہیں۔ افلاطون؛‬‫شاعری کو تین اصناف میں تقسیم کرتا ہے‪ :‬بیانیہ‘ رزمیہ‬ ‫اور ڈرامائی شاعری۔ اسے رزمیہ اور ڈرامائی شاعری‬ ‫میں‘ نقل کا عنصر نظر آتا تھا۔ اس کا خیال تھا‘ کہ ان‬‫اصناف میں‘ شاعر خود کو مختلف کرداروں کی شکل میں‘‬ ‫پیش کرتا ہے۔ وہ ناظرین اور سامعین کو‘ موقع دیتا ہے‘‬‫کہ وہ خود کو اس میں ضم کر دیں۔ اس کے نزدیک نقالی‬ ‫اور تقلید‘ فرد کے لیے غیر صحت مند چیزیں ہیں۔ خاص‬‫طور پر‘ بزدل‘ بدمعاش‘ مجرم اور پاگل اشخاص کی نقالی‘‬‫اور اس میں ضم ہونا‘ یا اثرات لینا‘ نقصان دہ ہے۔ یہ نقالی‬ ‫ایک سطح پر جا کر فطرت ثانیہ بن جاتی ہے۔‬ ‫اس کا ایک اعتراض یہ بھی تھا‘ کہ شاعری انسان کے‘‬‫جذباتی پہلوؤں کے لیے نقصان دہ ہے۔ شاعر احساسات کو‬‫توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے۔ وہ زندگی کا خود فریب تصور‬‫دیتا ہے‘ جس سے ہجانی صورت پیدا ہوتی ہے‘ جو انسان‬ ‫کی صلاحیتوں کے لیے‘ نقصان دہ ہوتی ہے‘ اور نظم و‬‫ضبط میں خرابی کا موجب بنتی ہے۔ جذبات عقل پر حاوی‬

‫ہو جاتے ہیں۔‬ ‫ٹامس لو پیکوک‘ شاعری کے ضمن میں کہتا ہے‘ کہ‬ ‫شاعر مہذب قوم میں وحشی ہے۔ وہ خیالوں میں زندگی‬‫بسر کرتا ہے۔ شاعری کو ترقی دینا‘ مفید مطالعے کی طرف‬ ‫سے‘ توجہ کم کرنا ہے‘ اور بےمقصد کام پر وقت برباد‬ ‫کرنا ہے۔‬ ‫ہیگل رومانوی تحریک سے سخت متنفر تھا۔ اس کے‬ ‫نزدیک‘ شاعری قنوطیت پھیلانے کا سبب بنتی ہے‘ اور‬ ‫انسانی جدو وجہد میں‘ رکاوٹ کا سبب بنتی ہے۔ انسان‬ ‫خیالی دنیا میں کھو کر‘ عملی زندگی سے ہاتھ کھینچ لیتا‬ ‫ہے۔ وہ اپنے ہی‘ حقوق کی حصولی میں بھی‘ تساہل‬ ‫پسندی سے کام لیتا ہے۔ ہیگل کے نزدیک‘ فرد میں‘‬‫معاشرت سازی کے جذبات ہونا چاہیں۔ فرد اپنی جبلتوں کو‬ ‫الگ رکھ کر‘ بہتر طور پر‘ فرائض انجام نہیں دے سکتا۔‬‫فرد کو ہر حال میں‘ معاشرے کی خدمت کرتی چاہیے‘ اور‬ ‫اسے ہر حال میں معاشرے کا زیردست ہونا چاہیے۔ ہیگل‬

‫کے خیال میں‘ شاعر اپنے قلم کو‘ معاشرے کا پابند نہیں‬‫بناتا اور معاشرے کی عصری ضرورتوں کو‘ شاعری کی‬‫اساس نہیں بناتا۔ گویا شاعری میں‘ اس کی انفرادیت باقی‬ ‫رہتی ہے۔‬‫ویکو نے کہا‘ کہ پورے ترقی یافتہ ذہن میں‘ شاعری کے‬ ‫لیے کنئی جگہ نہیں۔ شاعری حقائق پر مبنی نہیں ہوتی۔‬ ‫اس میں‘ شاعر فرضی تصورات سے‘ کام لیتا ہے۔ وہ‬ ‫زندگی کی حقیقتوں کی‘ ترجمانی نہیں کرتا‘ بلکہ مبالغہ‬ ‫آرائی سے کام لیتا ہے۔ وہ حقائق کو‘ پس پشت ڈال دیتا‬ ‫ہے۔ ترقی یافتی ذہن‘ حقائق قبول کرتے ہیں۔ حقائق‘‬‫سائنس اور معاشرتی علوم ہی دستیاب کر سکتے ہیں۔ وہ‬‫مزید کہتا ہے‘ کہ شاعری تہذیبی روایات کو آگے بڑھانے‘‬‫اور ترقی دینے میں مدد نہیں کرتی۔ اس کے مطابق‘ شاعر‬ ‫کا علم مستند نہیں ہوتا۔ اس کی شاعری کی بنیاد‘ غیر‬ ‫حقیقی تصورات پر استوار ہوتی ہے۔ ویکو کے مطابق‘‬‫معاشرے کو ترقی دینے‘ معاشی اور معاشرتی زندگی میں‬‫تبدیلیاں لانے‘ اور اسے بہتر بنانے کے لیے‘ ان علوم کو‬ ‫عام کیا جائے‘ جو زندگی کے حقائق کو پیش کرتے ہیں۔‬

‫گوسن نے‘ شاعری کے غیراخلاقی اور مضررساں پہلو‬‫کے خلاف‘ احتجاجی رسالہ لکھا۔ اس رسالے میں‘ اس نے‬ ‫شاعری پر اعتراض کیا‘ کہ شاعری جھوٹ کی ماں ہے‘‬ ‫اور ہر قسم کے دروغ کا ماخذ ہے۔ یہ انسانی کردار کو‬ ‫بیمار خواہشات کے ذریعے‘ کم زور بناتی ہے‘ اور‬‫نوجوانوں کے پختہ ذہنوں کو‘ واہموں سے بھر دیتی ہے۔‬ ‫شاعری عقل کو کم زور کرتی ہے۔ گناہوں کی طرف لے‬‫جاتی ہے‘ اور سفلی جذبات کو بےدار کرتی ہے۔ گوسن کے‬‫خیال کے مطابق‘ گویا شاعری وقت ضائع کرنے کا نام ہے۔‬‫لائجانس‘ افلاطون کا مداح تھا‘ اور اس کی فکر سے متاثر‬‫بھی تھا‘ تاہم وہ اس لخاظ سے‘ اس سے مختلف بھی تھا‘‬‫کہ وہ شاعروں کو ریاست بدر کرنے کی بات نہیں کرتا۔ وہ‬‫سبق آموز شاعری میں‘ کیفیت آفرینی پر زور دیتا ہے۔ وہ‬‫اعلی ادب سے‘ اس امر کا تقاضا کرتا ہے‘ کہ وہ قاری پر‬ ‫سحر کی سی کیفیت طاری کر دے۔ وہ الفاظ کے جادو کا‬ ‫قائل ہے۔ اس لیے شاعر سے تقاضا کرتا ہے‘ کہ شاعر‬

‫اپنی شاعری میں‘ ایسا جوش پیدا کرے‘ جو پڑھنے والے‬ ‫پر‘ دیوانگی طاری کر دے۔ گویا شاعری اخلاقیات کی‬ ‫ترسیل کا اہم ترین ذریعہ بن جائے۔‬‫میتھیو آرنلذ کے خیال میں‘ ہر انسان خیالات اور اقدار ہی‬ ‫سے‘ اپنی قابلیت حاصل کرتا ہے۔ وہ کلاسیکل روایت کا‬ ‫حمائیتی تھا۔ اس کے خیال میں‘ رومانوی شعرا کے ہاں‘‬ ‫توازن اور اعتدال کی کیفیت موجود نہیں۔ عدم اعتدال کی‬ ‫بنیاد پر‘ وہ شاعری پر کڑی تنقید کرتا ہے۔ اس لیے‬ ‫رومانوی تحریک سے وابستہ‘ بیشتر شعرا کا کلام دیرپا‬ ‫نہیں ہے۔ آرنلڈ کا دور‘ اقدار کی ٹوٹ پھوٹ اور نودولتی‬ ‫اقدار کا ترجمان تھا۔ آرنلڈ نے ان امور کے خلاف بغاوت‬‫کرتے ہوئے لکھا‘ کہ ایسے دور میں‘ نہ تو ادب کی درست‬‫انداز سے‘ تخلیق پروری کی جا سکتی ہے اور ناہی خوش‬‫ذوق قاری پیدا کے جا سکتے ہیں۔ وہ زندگی کی اعلی اقدار‬ ‫کو رائج کرنے پر زور دیتا ہے۔‬ ‫مختلف ادوار میں‘ شاعری کی مختلف حوالوں سے‘‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook