pensionپنشن وغیرہ شپ shirtشرٹ sheetشیٹ shiftشفٹ shایس ایچ وغیرہship ciسی آئی socialسوشل specialاسپیشل chicagoشکاگو ceس ای croceکروشے chسی ایچیہ جرمن لفظ ہیں لیکن انگریزی میں Fitcheنٹشے فٹشے
مستعمل ہیں ssiڈبل ایس آئی missionمشن permissionپرمشن admissionاڈمشن ssuڈبل ایس یو issueایشو assureاشور pressureپریشر suاسی یو sugerشوگر
شؤرsure انشورنسinsurance ایس سی ایچsch شیڈول schizophrenia شیزفرنا tu چchay/chu) picture (pikchar) پیکچر, nature (naichar) نیچر,mixture (mixchar) مکسچر, actual (akchal) ایکچل,punctual (punkchual) پنکچل,
,ہبچل )habitual (habichual ,ٹورچر )torture (torcher ,ایٹیچود )attitude (attichud ,کلچر )culture (kachar ورچول )vertual (virchual ,فورچونیٹ )fortunate (forchunate فیوچرہر )future (fucharہر جگہ اس مرکب آواز کی یہ صورت برقرار نہیں رہتی۔ chکو چ کے لیے استعمال میں لاتے ہیں۔ مثلا چٹ chitچیٹ cheatچسٹ chest کو خ کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ chسی ایچ
یہ جرمن لفظ ہے لیکن انگریزی میں مستعمل ہے۔ 'میونخ مثلا munich اس مرکب سے ش کی آواز کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ مثلا cliche nietzoche, Fitche, charade chکو ک کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ جیسے کیمسٹ chemistسکول schoolکیمیکل chemical,باور رہنا چاہیے کہ اسی طرح مفرد آوزوں کے لیے مرکب لیٹرز سے کام چلایا جاتا ہے۔ یہ بھی کہ یہ مرکبات کسی ایک آواز کے لیے مخصوص نہیں ہیں۔ مختلف جگہوںپرمختلف آوازیں دیتے ہیں۔ اس سے پچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ یہی نہیں اظہاری عمل میں روکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔مفاہیم اور تلفظ میں ابہام کی صورتیں بڑھتی ہیں۔ غرض کہانگریزی کا ساؤنڈ سسٹم بنیادی طور پر انتہائی ناقص ہے۔ایسی زبان جس کا ساؤنڈ سسٹم ناکارہ یا خرابیوں کا شکار ہو اسے ترقی کا ذریعہ قرار دینا دماغی خلل اور حد سے بڑی ٹی سی کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
میجک ان ریسرچ اور میری تفہیمی معروضات ہمارے ہاں معمولی سی بات کو بھی‘ بڑھا چڑھا کر‘ غیر معمولی اور پچیدہ بنا دینے کا عام رواج ہے۔ شاید اسی حوالہ سے‘ محاورہ بات کا بتنگڑ بنانا‘ تشکیل پایا ہے۔ دفاتر میں کلرک بادشاہ‘ معاملے کو گھمبیر مسلہ بنا کر‘پیش کرتے ہیں‘ جییسے ابھی ابھی قیامت ٹوٹنے والی ہےاور قانون ان پر ستویں آسمان سے اترا ہے۔ یہ کھیل سائل سے ہی نہیں‘ اپنے افسر سے بھی کھیلتے ہیں۔ افسر کلرک کی نہیں مانیں گے‘ تو ناصرف کام رک جائے گا‘ لفافے سے بھی مرحوم ہو جائیں گے۔ محرومی اور مرحومی سے الله ویری دشمن کو بھی محفوظ رکھے۔محرومی پشیمانی کے ساتھ ساتھ‘ احساس کہتری کا بھیسبب بنتی ہے۔ اس میں عذاب کی سی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ مرحومی میں نام ونشان مٹ جاتا ہے۔ اس کے کیے
کو‘ کوئی اپنی مرضی کی وضع قطع دے سکتا ہے۔ یہاں‘کرپٹ سیاسی‘ معاشی اور دفتری فرشتوں کے ہاتھوں‘ ہرلمحے قتل ہونا پڑتا ہے۔ وہاں قبری فرشتے قابو کر لیتےہیں۔ سوال و جواب کا مرحلہ بڑا دشوارگزار ہوتا ہے۔ اگر یہ سوال جواب کا معاملہ آسان ہوتا تو‘ ہر کوئی اپنی مرضی کی افسری یا کلرکی کے تخت پر‘ خود اختیاری اختیارات کا تاج پہن کر بیٹھ جاتا۔معاملات کی تفیہم سادہ اور عام فہم ہوتی‘ تو مسائل جنم نہ لیتے۔ قدم قدم پر رپھڑوں اور لفڑوں سے پالا نہ پڑتا۔ دوسری طرف یہ بھی پرابلم ہے‘ کہ سادگی رہتی اور پچیدگی پیدا نہ کی جاتی‘ تو معاملات کی اوقات باقی نہ رہتی۔ یہ پچیدگی اور گھمن گھیریاں ہی‘ معمولی کو‘ غیر معمولی بنا کر‘ بالائی کا ذریعہ بنتی ہیں۔مجھے زندگی سے متعلق اور دفتر شاہی سے ڈنگ رسیدہہو کر بھی‘ گلہ یا شکوہ نہیں‘ کیوں کہ یہ نہ کبھی شفاف تھے اور ناہی بادشاہ لوگ اس کی شفافی کے طلب گار
رہے ہیں۔ جنتا الجھاؤ پچیدگی اور ٹنشن کا شکار رہے‘ تو ہی کاروبار شکم‘ تروتازہ اور صحت مند رہ سکتا ہے۔مجھے دانش گاہوں سے متعلق لوگوں پر افسوس ہوتا ہے‘ کہ وہ آگہی سے متعلق معاملات کو‘ الجھاؤ اور پچیدگی کے گٹر میں کیوں گھسیڑتے ہیں۔ کسی پر اپنی اہلیت اورقابلیت کا سکہ جمانے کی‘ ایسی کیا ضرورت ہوتی ہے۔ کیایہ شرف کافی نہیں‘ کہ اس سے پوچھا جا رہا ہوتا ہے۔ وہ سامنے والی کرسی پر تشریف رکھتا ہے‘ جبکہ سامنےوالی کرسیوں سو پچاس لوگ بیٹھے ہوتے ہیں اور اسے‘ خود سے متعلقہ سبجیکٹ میں‘ بہتر سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ آگہی کو سادہ اور اس کی ترسیل بھی سادگی سےنتھی رہنی چاہیے۔ لوگ معاملے یا مسلے سے متعلق جان کر‘ اسے عملی زندگی پر لاگو کریں گے۔ معاملہ جلد تجربے کے میدان میں آ کر‘ زندگی کو کچھ نیا دے سکتا ہے۔آج کل میجک ان ریسرچ کو سر پر چڑھایا جا رہا ہے۔ باتکو معاشی مسلہ یا پھر سیاسی گتھی بنا دیا گیا ہے۔ سیدھیاور سادہ سی بات ہے کہ یہ انگریزی اصطلاح نہیں۔ اس کا
اسلوب دیسی ہے۔ اس لیے اسے‘ کسی رواں فقرے سے نکال کر‘ ہوا سا بنا دیا گیا ہے۔ کچھ لوگ جان کیٹس کے مرکب a fine excess کو اصطلاح کا نام دیتے ہیں۔ میجک ان ریسرچ کی طرحاسے فقرے سے الگ کیا گیا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہانگریز کا اسلوب تکلم ہے اور باقاعدہ انگریزی مرکب ہے۔ تفہیمی اعتبار سے‘ اصطلاح سمجھا جا سکتاہے‘ لیکن اپنی اصل میں اصطلاح نہیں ہے جبکہ میجک ان ریسرچکسی غیر انگریز کا اسلوب ہے اور اسے جملے سے نکالا گیا ہے۔ اس کے دائرہ میں کئی باتیں آ جاتی ہیں۔ مثلا ٠۔ مستعمل کی صحت مشکوک قرار دے دی جائے۔ ٦۔ مستعمل کو یکسر مسترد کر دیا جائے۔٣۔ اس کی ہئیت وہی رہے‘ لیکن استعمال بدل دیا جائے یابرعکس راءج کر دیا جائے اور کسی قسم کی خرابی راہ نہ پکڑے۔
اس طرح کی یا اس سے ملتی جلتی چیزیں مراد لی جا سکتی ہیں۔زندگی اور اس سے متعلق معاملات محدود نہیں ہیں۔ محدود کینوس پر رکھ کر‘ حاصل کی گئ تفہیم‘ مستعمل ہو گئ ہواور اس کے برعکس یا اس سے آگے کی سوچنا‘ لکیرکے فقرا کے لیے‘ سراسر بدعت ہوتی ہے حالانکہ امکانات کو کبھی اور کسی سطع پر‘ رد کرنا درست نہیں۔ جب مستعمل سے الگ دریافت ہو‘ وہی میجک ان ریسرچ ہے۔کچھ نیا‘ پہلے سے بڑھ کر دریافت ہی تو‘ میجک ان ریسچ ہے۔اب میں اسے مثالوں سے واضح کرنے کی سعی کرتا ہوں۔ مارکونی کی دریافت کے نتیجہ میں‘ ٹی وی‘ ریڈار‘انٹرنیٹ‘ موبائل فون وغیرہ آج ہمارے استعمال میں ہیں۔ یہ نئ نئ اور حیرت میں ڈال دینے والی اشیا‘ میجک ان ریسرچ ہی تو ہیں۔
سکندر کو فاتح قرار دیا جاتا ہے۔ میں اسے مفتوح اورجنگی بھگوڑا ثابت کرتا ہوں‘ یہ کیا ہے‘ میجک ان ریسرچ ہی تو ہے۔ پورس ہندو تھا۔ بغض معاویہ کے تحت‘ سکندر کو فاتح قرار دیا جاتا ہے۔ ارسطو جو اس کا استاد تھا‘ بذات خود بھگوڑا تھا۔ اگر جان باز ہوتا‘ میدان جنگ میں جان دیتا۔حسین نے میدان میں جان دی۔ ٹیپو میدان سے بھاگا نہیں۔سکندر کے حامی بتائیں‘ کہ آخر وہ کون سی انسانی خدمت کی غرض سے برصغیر میں آیا۔ بستیاں تباہ برباد نہ ہوئیں؟ بچے بوڑھے اور عورتیں ہلاک نہ ہوءیں؟ ان کا کیا جرم تھا؟ اس نے برصغیر میں کون سی اصلاحات کیں؟
سچائ اور درستی کا معیار‘ طاقت ور ہونا‘ کون سے مذہب‘ اصول اور ضابطے کی لغت میں درج ہے؟اگر وہ زخمی ہو کر پلٹا‘ تو وہ کون لوگ تھے‘ جو گھاؤ کا سبب بنے۔ برصغیر والے تھے‘ تو بھی بھگوڑا ہوا۔ اس کے کسی اپنے نے زخمی کیا تو بھی فاتح قرار نہیں دیا جا سکتا۔اگر مچھر کے کاٹنے کے سبب‘ بیمار ہو کر بھاگا‘ تو بھی مفتوح اور بھگوڑا‘ کیوں کہ مچھر برصغیر کا تھا۔ کہتے ہیں اس کی فوج نے مزید لڑنے سے انکار کر دیا‘ تو بھی اسے کامیاب جرنل‘ منتظم اور حاکم قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اگر میں ان حقائق کے تناظر میں کہتا ہوں سکندر ناکام‘مفتوح اور ناکارہ جرنیل تھا‘ تو یہ میجک ان ریسرچ ہے۔طارق ابن زیاد نے کشتیاں جلائیں‘ فوج منہ کو نہ آئ‘ اسلیے وہ کامیاب جرنیل تھا۔ ہٹلر ناکام ہو گیا‘ لیکن اس نےبرطانیہ کا چراغ بجھا دیا۔ مار کر مرا‘ اس لیے اسےناکامجرنیل اور حاکم نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے برعکس‘ چرچل نے پچھلی تمکنت کا ستیاس مار کر رکھ دیا دوسرا وہ امریکہ کے سہارے‘ جیت حاصل کرکے‘ لامحدود سے محدود ترین ہو گیا۔ میں جو عرض کر رہا ہوں مستعمل سے ہٹ کر ہے اور الگ تر ہے۔ یہی تو میجک ان ریسرچ ہے۔ ہندوی کے انگریزی پر لسانیاتی اثرات
مختلف علاقوں کے لوگوں کی زبان' میں حیرت انگیز لسانیاتی مماثلتوں کا پایا جانا' اتفاقیہ نہیں ہو سکتا۔ اس کے پس منظر میں' کسی سطع پر کوئی ناکوئی واقعہ'معاملہ' حادثہ' بات یا کچھ ناکچھ ضرور وقوع میں آیا ہوتاہے' چاہے اس کی حیثیت معمولی ہی کیوں نہ رہی ہو' اس کا اثر ضرور مرتب ہوا ہوتا ہے۔ایک دیسی یا بدیسی شخص' بازار میں کچھ خریدنے' کسی سے ملنے یا کسی اور کام سے آتا ہے۔ وہ اپنے اس ٹھہراؤ کے مختصر دورانیے میں' کوئی اصطلاح' کوئیضرب المثل' کوئی محاورہ یا کوئی لفظ چھوڑ جاتا ہے۔ اس کا بولا' ایک شخص استعمال میں لاتا ہے' پھر دوسرا' انکی دیکھا دیکھی میں وہ مہارت میں آ جاتا ہے۔ اب یہ لازمنہیں کہ وہ اصل تلفظ' اصل معنوں یا پھر اصل استعمال کےمطابق' استعمال میں آ جائے۔ وہ اپنی اصل سے کہیں دور'بل کہ بہت دور جا سکتا ہے۔ معنوی اعتبار سے اصل سے برعکس استعمال میں آ سکتا ہے۔ کئی معنی اور استعمال
سامنے آ سکتے ہیں اور پھر اس کے غیر ہونے کا گمان تک نہیں گزرتا۔یونانیوں کا سیاسی' علمی' ادبی اور ثقافتی حوالہ سے' دنیا بھر میں ٹہکا تھا۔ آتے وقتوں کی عظیم سیاسی' عسکری اور مکار قوت' برطانیہ ان کی دسترس سے باہر نہ تھی۔اسی طرح برصغیر بھی یونانیوں کے زیر اثر رہا۔ یونان کا لٹیرا اعظم' برصغیر پر بھی حملہ ہوا۔ یہاں پٹ گیا۔ زخمی ہوا اور یہاں سے دم دبا کر بھاگ گیا۔ ایک یونانی قبیلہ یہاں رک گیا۔ کیلاش میں ان کا پڑاؤ ٹھہرا۔ یہ یونانی کئی ولائیتوں پر حکومت کرتے رہے۔ اس یونانی عسکری قبیلے کی نسل' آج بھی' یہاں بہت ساری اپنی یونانی روایات کے ساتھ موجود ہے۔رومن برٹن :بریطانیہ' بریٹن' برطانیہ۔ آئی لینڈ کا علاقہ تھا' جو کہ رومن ایمپائر کی حکومت میں تھا۔ برصغیر رومنشہنشاہت سے باہر نہ تھا۔ برصغیر میں ان کے ہونے کے بہت سے اثار انٹرنیٹ پر تلاشے جا سکتے ہیں۔ انگریزی
کا رسم الخط آج بھی رومن ہے۔ اس رسم الخط میں لکھی اردو کو رومن اردو کا نام دیا جاتا ہے۔برطانیہ والے 7581سے بہت پہلے' برصغیر میں وارد ہوگیے تھے' تاہم 7581سے 7491تک برصغیر ان کا رہا۔محسن آزادی ہٹلر کی عنایت اور مہربانی سے' برطانیہ کے ہاتھ' پاؤں اور کمر کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں اور سونے کیچڑیا' اس کی دسترس میں نہ رہی۔ اس کے بعد امریکہ کی گڈی چڑھی اور آج تک چڑھی ہوئی ہے۔ گویا دونوںیونیوں کے زیر تسلط تھے' اس کے بعد رومیوں کے رہے۔اس کے بعد برصغیر پر برطانیہ کا کھرا کھوٹا سکا چلا اور اب حضرت امریکہ بہادر کی خداوندی کا دور دورہ ہے۔اسم کی ترکیب کے لیے' انگریزی یں لاحقہ موجود نہیں۔ یہ خالص برصغیر سے متعلق ہے۔ مثلا دیوارکا' پریمیکا' انومیکا' کامولیکا وغیرہ گویا امریکا' برصغیر کا لفظ ہے۔مثلا امبڑیکا .اگر کسی شخص کا نام ہے' تو اس کا برصغیرسے کوئی ناکوئی رشتہ' ضرور رہا ہو گا۔ امریکہ میں بھی
انگریزی زبان استعمال میں آتی ہے۔صاف ظاہر ہے' ان علاقوں کے لوگ یہاں آئے۔ ان علاقوں سے' جس حوالہ سے بھی سہی' یہاں سے لوگ گیے۔ مزے کی بات یہ کہ آج بھی لاکھوں کی تعداد میں مغرب کے مختلف علاقوں میں برصغیر کے لوگ' عارضی اور مستقل اقامت رکھتے ہیں۔ یہ کہنا کہ برصغیر والے ہیمتاثر ہوئے' سراسر زیادتی کے مترادف ہو گا۔ حاکم ہو کہ محکوم' ایک ولایت میں اقامت رکھنے کے سبب' ایک دوسرے سے متاثر ہوتے ہیں۔ ہندوی' جوآل ہند کی زبانہے' نے دنیا کی تمام زبانوں کو' لسانی' فکری اور اسلوبیحوالہ سے متاثر کیا .اسی طرح یہ بھی اپنی بےپناہ لچکپذیری کے باعث' ان سے متاثر ہوئی۔ مختلف زبانوں کے الفاظ' اس کے ذخیرہءاستعمال میں داخل ہیں۔ متاثر کرنے کی' کئی صورتیں اور سطحیں ہوسکتی ہیں۔ 1
کلچر زیادہ تر خواتین کے زیر اثر رہا ہے۔زیورات' لباس' بناؤ سنگار کے اطوار' ناز و نخرہ وغیرہ کے چلن' ایک دوسرے کے اختیار کرتی ہیں۔ نشت و برخواست کے اصول اختیار کرتی ہیں۔ گفت گو میں' ایک دوسرے کی طرز اختیار کرتی ہیں۔گھر میں سامان کی درآمد اور اس کے رکھنے اور سجانے کے طور' اپناتی ہیں۔ کچن اور اس سے متعلقہ امور میں' نقالی کرتی ہیں۔ اشیائے اور اطوار پکوان اپناتی ہیں۔فقط یہ امور ہی انجام نہیں پاتے' بل کہ ان کے حوالہ سے اسما' صفات' سابقے' لاحقے' اسلوب بھی اس گھر میں منتقل ہوتے ہیں۔ 2 کم زوروں کی ہنرمندی اور ہنرمندوں پر ڈاکے پڑتے ہیں ان کے وسائل قدرت پر قبضہ جمایا جاتا ہےان کے علمی و ادبی ورثے کو غارت کرنے کے ساتھ اس
کی بڑی بےدردی سے لوٹ مار کی جاتی ہے۔ ان تینوں امور کے حوالہ سے ان کی زبان میں بہت کچھ بدیسی داخل ہو جاتا ہے۔ 3 اس کے علاوہ معاشرتوں کے انسلاک سے بہت سے معاشرتی اطوار انسانی رویے رسم و رواج مذہبی اور نظریاتی اصولسیاسی' معاشی اور ارضیاتی طور طریقے اور خصوصی و عمومی چلنایک دوسرے کے ہاں منتقل ہوتے ہیں اور صدیوں کا سفر کرتے ہیں۔ آتے وقتوں میں کچھ کے کچھ ہو جاتے ہیں' لیکن باقی رہتے ہیں۔ بعض کی' ہزاروں سال بعد بھی' بازگشت باقی رہتی ہے۔ یہ امور زبان سے بالا بالا نہیں ہوتے۔ ان سب کا زبان سے اٹوٹ رشتہ استوار ہوتا ہے۔
اشیائے خوردنی اور اشیائے استعمال مثلا کپڑے' برتن وغیرہ اشیائے حرب اور حربی ضوابط طرز تعمیر وغیرہ قبریں بنانے کے انداز کا تبادلہ ہوتا ہے' ان کے حوالہ سے زبان کو بہت کچھ میسر آتا ہے۔ میں نے یہاں' محض گنتی کے دو چار اموردرج کیے ہیں' ورنہ ایسی بیسیوں چیزیں ہیں' جووقوع میں آتی ہیں اور ان کا زبانوں پر اثر مرتب ہوتا ہے۔اس ذیل میں' قرتہ العین حیدر کی تحریروں کا مطالعہ مفیدرہے گا۔ انگریزی بھی' برصغیر کی زبان ہندوی سے' متاثر ہوتی آئی ہے جس کے لیے' ان کی شاعری کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔بعض اردو اور انگریزی کی ضمیروں میں' صوتی مماثلت موجود ہے۔ مثلا
Of fortune’s favoured sons, not me. نظم: Wish شاعر: Matthew Arnold To die: and the quick leaf tore me meکے لیے اردو میں مجھے مستعمل ہے۔ پوٹھوہار میں ضمیر می آج بھی بول چال میں ہے۔ ........ My feeble faith still clings to Thee, نظم: My God! O Let Me Call Thee Mine! شاعر: Anne Bronte my
انگریزی میں عام استعمال کی ضمیر اردو میں اس ضمیر کے میرا مستعمل ہے۔ ........ you can keep your head when all about you : Ifنظم : Rudyard Kiplingشاعر اردو میں تو عام بول چال میں موجود ہے۔ ........بہت سے الفاظ آوازوں کے تبادل یا کسی اور صورت میں انگریزی میں مستعمل ہیں۔ مثلا اردو میں دن انگریزی میں ڈان moreمور mاور الف کی آواز میم یعنی
mمیں بدلی ہے۔ کو حشوی قرار دیا جا سکتا ہے۔ Once more before my dying eyes Wish: Matthew Arnoldودوا اپنی اص میں ود اور وا کا مرکب ہے۔ بےوا مستعمل صورت بیوہ۔ بے نہی کا سابقہ ہے بہت سے لفظ اس طور سے لکھے جاتے ہیں۔ مثلا بیچارہ بجائے بےچارہ بیدل بجائے بےدل بیہوش بجائے بےہوش بیکار بجائے بےکار
بیوہ بےوا بمعنی جس کا ور نہ رہا ہو ر کی آواز گر گئی ہے .ودوا بےوا کے لیے بولا جاتا ہے۔ انگریزی میں وڈو۔ وڈ او widow وڈ آؤٹ اس کے' یعنی ور' او ۔ ور ...............کئی ایک لفظ انگریزی کی صوتیات کے پیش نظر' معمولی سی تبدیلی کے ساتھ' انگریزی میں داخل ہو گئے ہیں۔ noانگریزی میں نفی کے لیے استعمال ہوتا ہے اردو میں نہ جب کہ انگریزی میں نو نو' باطور نہی کا سابقہ نوسر نوٹنکی نو .سر .باز باطور سابقہ نا ناکافی نازیبا ناچیز
نہ باطور سابقہ نہ جاؤ' نہ چھیڑو' نہ کرو' نہ مارو ان بولتے لفظوں کو‘ ہم سن نہ سکے آنکھوں سے‘ چن نہ سکے مقصود حسنی:کس منہ سے نہ کڑا نہ کھارا مقصود حسنی:چل' محمد کے در پر چل I have no wit, no words, no tears; A Better Resurrection: Christina Rossetti No motion has she now, no force; A Slumber Did My Spirit Seal: William Wordsworth Thou hast no reason why ! Thou canst have none ;
Human Life: Samuel Taylor Coleridge ............رشتوں کے حوالہ سے بھی انگریزی میں کچھ الفاظ داخل ہوئے ہیں۔ مثلا پنجابی میں بھرا فارسی میں برادر اردو میں بھی برادر مستعمل ہے انگریزی میں brotherاصل لفظ برا۔ بھرا ہی ہے جب کہ در باطور لاحقہ داخل ہواہے۔ ایک پہلے ہے تب ہی دوسرا برا یا بھرا ہے۔ دونوں کابرابر کا رشتہ ہے۔ انگریزی میں واؤ الف کا تبادل ہے۔ یہرویہ طور میواتی اور راجھستانی میں موجود ہے۔ برا سے برو بامعنی بھائی۔
در کا لاحقہ father, mother میں بھی موجود ہےدر' باطور سابقہ اور لاحقہ اردو میں بھی رواج رکھتا ہے. مثلا درگزر' درحقیقت' درکنار چادر چا در His brother doctor of the soul, Wish: Matthew Arnoldفارسی میں' ماں کے لیے مادر مستعمل ہے۔ اردو میں مادر پدر آزاد عام بول چال میں ہے۔ اصل لفظ ما ہی ہے۔ ںحشوی ہے .یہ ہی صورت فارسی کے ساتھ ہے۔ انگریزی میں motherبولتے ہیں۔ اس میں اصل لفظ مو ہی ہے' فارسی کی طرح
در الحاقی یعنی خارجی ہے۔ ہر برتن کی زبان پہ اس کی مرحوم ماں کا نوحہ باپ کی بےحسی اور جنسی تسکین کا بین تھا نوحہ :مقصود حسنی ............مرکبات حسن شعر میں داخل ہیں۔ یہ شخصی اور مجموعی رویوں کے عکاس اور شاعر کی اختراعی فکر کےغمازہوتے ہیں۔ یہ ہی نہیں' زبان کی وسعت بیانی کی بھی گواہی دیتے ہیں۔ اردو اس ذیل میں کمال کی شکتی رکھتی ہے۔ انگریزی میں بھی مرکبات ملتے ہیں۔ اس ذیل میں اردو کے پائے کے مرکبات کی حامل ناسہی' لیکن اس کا دامناس کمال زبان سے تہی نہیں۔ اردو اور انگریزی سے چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
موسم گل ابھی محو کلام تھا کہ .......... پریت پرندہ .......... اس کی بینائی کا دیا بجھ گیا .........پھر اک درویش مینار آگہی پر چڑھا ...... یتیمی کا ذوق لٹیا ڈبو دیتا ہے من کے موسم دبوچ لیتا ہے حیرت تو یہ ہے :مقصود حسنی
greedy heirs, ceremonious air, hideous show, poor sinner,undiscovered mystery, death’s winnowing wings, dying eyes, dew of morn, generous sun, silent moves, ruddy eyes, tears of gold, clouds of gloom, golden wings, trembling soul, make dreams,worth of distance, Shadows of the world, golden Galaxy, happy hours, sun in flight, Wish: Matthew Arnold From bands of greedy heirs be free; The ceremonious air of gloom – All which makes death a hideous show!
پوشیدہ نمائش Of the poor sinner bound for death, مفلس گناہ گار بےچارہ گناہ گار That undiscovered mysteryWhich one who feels death’s winnowing wings Once more before my dying eyes ڈوبتی آنکھیں Bathed in the sacred dew of morn تاسف کی بوندیں But lit for all its generous sun, Where lambs have nibbled, silent moves They look in every thoughtless nest,
فکر سے عاری گھروندا Seeking to drive their thirst away, ہانکتی پیاس And there the lion’s ruddy eyes مغرور نگاہیں Shall flow with tears of gold, Night: William Blake Sometimes there are clouds of gloom Still buoyant are her Life: Charlotte BronteMy trembling soul would fain be Thine لرزتی روح
My God! O Let Me Call Thee Mine! Anne BronteIf you can dream – and not make dreams your master; خواب بننا With sixty seconds’ worth of distance run - If: Rudyard Kipling Shadows of the world appear. Hung in the golden Galaxy. The Lady Of Shalott: Alfred Tennyson Now stand you on the top of happy hours, مسرور لمحے But wherefore do not you a mightier way
Shakespeare And then, O what a glorious sight Address To A Haggis: Robert Burns Wild men who caught and sang the sun in flight,مرکبات تحریر کے اختصاری معاملے میں' حد درجہ معاونہوتے ہیں' بعینہ تشبیہات ناصرف اسم کو نمایاں کرتی ہیں'بل کہ اسم کی کائنات میں مماثلتیں بھی تلاشتی ہیں۔ یہ ہی نہیں' اختصاری عمل میں بھی' اپنے حصہ کا کردار ادا کرتی ہیں۔ میر کا یہ معروف ترین شعر ملاحظہ ہو۔ نازکی اس کے لب کی کیا کہیے پنکھڑی اک گلاب سی ہے
اس سے ناصرف لبوں کی نازکی سامنے آئی ہے' بل کہ چند لفظوں میں کئی صفحات پر محیط کام سمیٹ دیا گیاہے۔ تشبیہات کے معاملہ میں' انگریزی اردو کے قریب تر ہے۔ ماضی بعید اورانگریز کے برصغیری عہد میں' اسزبان نے انگریزی کو متاثر کیا ہو گا۔ اردو اور انگریزی سے چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔ سلوٹ سے پاک سہی پھر بھی حنطل سے کڑوا اترن کا پھل چل' محمد کے در پر چل :مقصود حسنی ساون رت میں آنکھوں کی برکھا کیسے ہوتی ہے مت پوچھو :مقصود حسنی
My life is like a faded leaf My life is like a frozen thing, My life is like a broken bowl, Can make you live yourself in eyes of men. But wherefore do not you a mightier way Shakespeare ........ A Better Resurrection: Christina RossettiBlind eyes could blaze like meteors and be gay, ........
Do Not Go Gentle Into That Good Night Dylan Thomas The moon like a flower Night: William Blake ........ And Joy shall overtake us as a flood, On Time: Milton ........Blind eyes could blaze like meteors and be gay, Do Not Go Gentle Into That Good Night Dylan Thomas
........Made snow of all the blossoms; at my feet Like silver moons the pale narcissi lay Holy Week At Genoa: Oscar Wilde ........ Shall shine like the gold Night: William Blake ........ Hops like a frog before me. Brooding Grief: D.H.Lawrence
حسن واختصار' موازنہ' تاریخ اور علوم سے راوبط کی ذیلمیں تلمیح کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اردو شاعری میں اس کا عام' برمحل اور بلاتکلف استعمال ملتا ہے۔ مثلا سنا ہے یوسف کی قیمت سوت کی اک انٹی لگی تھی عصر حاضر کا مرد آزاد دھویں کے عوض ضمیر اپنا بیچ دیتا ہے نظم :سنا ہے' مقصود حسنی وہ آگ عزازئیل کی جو سرشت میں تھی
اس آگ کو نمرود نے ہوا دی اس آگ کا ایندھن قارون نے پھر خرید کیا اس آگ کو فرعون پی گیا اس آگ کو حر نے اگل دیا یزید مگر نگل گیا صبح ہی سے :مقصود حسنیانگریزی میں باکثرت ناسہی' اس سے کام ضرور لیا گیا ہے۔ مثلا ;To feel the universe my home Wish: Matthew Arnold In heaven’s high bower,
The angels, most heedful, Night: William Blake And flamed upon the brazen greaves Of bold Sir Lancelot. The Lady Of Shalott: Alfred TennysonShall I compare thee to a summer’s day? So are you to my thoughts
That God Forbid That time of year Against My Love: Shakespeare Cast in the fire the perish’d thing; Melt and remould it, till it be A royal cup for Him, my King: O Jesus, drink of meA Better Resurrection: Christina Rossetti ‘Jesus the son of Mary has been slain,
Holy Week At Genoa: Oscar WildeI long for scenes where man hath never trodA place where woman never smiled or wept there to abide with my creator God, خالق I am: John ClareIf even a soul like Milton’s can know death ; Human Life: Samuel Taylor Coleridge
Biting my truant pen, beating myself for spite: \"\"Fool,\" said my Muse to me, \"look in thy heart, and write. Loving in truth: Phlip Sidney ضدین پر کائنات استوار ہے۔ یہ شناخت کا کلیدی وسیلہہیں۔ اردو شاعری میں' صنعت تضاد کا استعمال ملتا ہے۔خوبی کی بات یہ کہ ضدین ایک دوسرے سے متعلق ہوتی ہیں۔ مثلا وہ قیدی نہ تھا خیر وشر سے بے خبر معصوم فرشتوں کی طرح نظم :نوحہ' مقصود حسنی
ایندھن دیکھتا اندھا سنتا بہرا سکنے کی منزل سے دور کھڑا ظلم دیکھتا ہے آہیں سنتا ہے بولتا نہیں کہتا نہیں جہنم ضرور جائے گا نظم :نوحہ' مقصود حسنی اس صنعت کا' انگریزی شاعری میں بھی ملتا ہے اوراستعمال کا طریقہ اردو سے قطعی مختلف نہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں
And up and down the people go, The Lady Of Shalott: Alfred Tennyson The friends who come, and gape, and go; Wish: Matthew Arnold And by his health, sickness Night: William BlakeA place where woman never smiled or wept
I am: John Clare ہم صوت الفظ کا استعمال' غنا اور آہنگ کی حصولی میں' بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اردو غزل میں شگفتگی'شائستگی اور وارفتگی اسی کی مرہون منت ہے۔ نظم کے شعرا نے بھی اس صنعت کو بلا تکلف استعمال میں رکھا ہے۔ مثلا عہد شہاب میں بےحجاب بےکسی بھی عجب قیامت تھی۔صبح اٹھتے مشقت اٹھاتےعوضوانے کو ہاتھ بڑھاتے بے نقط سنتے۔ سانسیں اکھڑ جاتیں مہر بہ لب جیتے کہ سانسیں باقی تھیں۔ جینا تو تھا ہی لہو تو پینا تھا ہی۔ یہ ہی فیصلہ ہوا تھا :مقصود حسنیمضمون ایک طرف' یہ ہم صوت الفاظ ہی' اس پہرے کو نثرکا سرمایا رہنے نہیں دیتے۔ انگریزی شاعری میں بھی' یہ
صنعت دیکھنے کو ملتی ہے۔ مثلاMust need read clearer, sure, than he! Bring none of these; but let me be, Nor bring, to see me cease to live, To work or wait elsewhere or here! Wish: Matthew Arnold Still strong to bear us well. Manfully, fearlessly, The day of trial bear,
For gloriously, victoriously, !Can courage quell despair Life: Charlotte Bronteصنعت تکرار لفظی' جہاں آہنگ کے لیے ناگزیر ہے' وہاںبات میں زور اور وضاحت کا سبب بنتی بھی ہے۔ اردو میں اس صنعت کا استعمال عام ملتا ہے۔ مثلا وہ قتل ہو گیا پھر قتل ہوا ایک بار پھر قتل ہوا اس کے بعد بھی قتل ہوا وہ مسلسل قتل ہوتا رہا
جب تک سیٹھوں کی بھوک‘ نہیں مٹ جاتی جب تک خواہشوں کا‘ جنازہ نہیں اٹھ جا وہ قتل ہوتا رہے گا وہ قتل ہوتا رہے گا مقصود حسنی:جب تکاب انگریزی شاعری سے چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔ If you can wait and not be tired by waiting, Or, being lied about, don’t deal in lies, Or, being hated, don’t give way to hating, And yet don’t look too good, nor talk too wise; .................. If you can dream – and not make dreams your master;
Search
Read the Text Version
- 1
- 2
- 3
- 4
- 5
- 6
- 7
- 8
- 9
- 10
- 11
- 12
- 13
- 14
- 15
- 16
- 17
- 18
- 19
- 20
- 21
- 22
- 23
- 24
- 25
- 26
- 27
- 28
- 29
- 30
- 31
- 32
- 33
- 34
- 35
- 36
- 37
- 38
- 39
- 40
- 41
- 42
- 43
- 44
- 45
- 46
- 47
- 48
- 49
- 50
- 51
- 52
- 53
- 54
- 55
- 56
- 57
- 58
- 59
- 60
- 61
- 62
- 63
- 64
- 65
- 66
- 67
- 68
- 69
- 70
- 71
- 72
- 73
- 74
- 75
- 76
- 77
- 78
- 79
- 80
- 81
- 82
- 83
- 84
- 85
- 86
- 87
- 88
- 89
- 90
- 91
- 92
- 93
- 94
- 95
- 96
- 97
- 98
- 99
- 100
- 101
- 102
- 103
- 104
- 105
- 106
- 107
- 108
- 109
- 110
- 111
- 112
- 113
- 114
- 115
- 116
- 117
- 118
- 119
- 120
- 121
- 122
- 123
- 124
- 125
- 126
- 127
- 128
- 129
- 130
- 131
- 132
- 133
- 134
- 135
- 136
- 137
- 138
- 139
- 140
- 141
- 142
- 143
- 144
- 145
- 146
- 147
- 148
- 149
- 150
- 151
- 152
- 153
- 154
- 155
- 156
- 157
- 158
- 159
- 160
- 161
- 162
- 163
- 164
- 165
- 166
- 167
- 168
- 169
- 170
- 171
- 172
- 173
- 174
- 175
- 176
- 177
- 178
- 179
- 180
- 181
- 182
- 183
- 184
- 185
- 186
- 187
- 188
- 189
- 190
- 191
- 192
- 193
- 194
- 195
- 196
- 197
- 198
- 199
- 200
- 201
- 202
- 203
- 204
- 205
- 206
- 207
- 208
- 209
- 210
- 211