Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore چھیاسی اختصارئیے

چھیاسی اختصارئیے

Published by maqsood5, 2017-02-18 07:17:38

Description: abk_ksr_mh.960/2016
چھیاسی اختصارئیے
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
فروری ٢٠١٧

Search

Read the Text Version

‫‪151‬‬ ‫اجتہ د ک در وا ہوا‬ ‫روایت ک دی بجھ گی‬ ‫حقیقیت سےپردہ اٹھ گی‬ ‫ش عر نہیں‘ میں تو بھک ری تھ‬ ‫خورشید ض یف ہو گی‬ ‫مہت زرد پڑ گی‬ ‫گا مرجھ گی‬ ‫طب ے ک پول کھل گی‬ ‫جھنک ر تھ گئی‬ ‫سمندر ندامت پی گئی‬ ‫ک سہ دو لخت ہوا‬ ‫جو جس ک تھ لے گی‬ ‫اب یس کرچی ں چننے لگ‬ ‫بھک ری مر گی‬ ‫قبروں کو اپن دی مل گی‬ ‫پھر ش عر ج گ‬

‫‪152‬‬ ‫ذات میں کھو گی‬ ‫خ مشی چھ گئی‬ ‫ذات میں انقا آ گی‬ ‫اندر ک اوا اب نے لگ‬ ‫حد سے گزرنے لگ‬ ‫اب یس کے قہقہوں ک س س ہ رک گی‬ ‫ا ذات تھی‬ ‫ش عر تھ‬ ‫آنکھوں میں لہو کی بوندیں‬ ‫ہ تھ میں ق‬ ‫ک غذ پر جگر تھ‬

‫‪153‬‬ ‫ٹیکس لی کے شیشہ میں‬ ‫م صو گڑی سی‬ ‫سراپ جس ک‬ ‫ک یوں گابوں نے بن تھ‬ ‫ش ید سراپے ک شیش محل‬ ‫چ ند کی کرنوں سے ت میر ہوا تھ‬ ‫زیست کے نشی و فراز سے بے خبر‬ ‫کہکش نی رستوں کی تاش میں‬ ‫مشک و عنبر کی جہ ں ب س ہو‬ ‫ہوا جس کی مگر اسے راس ہو‬ ‫پریوں کے شہزادے ک میسر س تھ ہو‬ ‫گھر سے بھ گ نک ی‬ ‫آنکھوں میں اس کے روشی تھی‬ ‫ہر دل سے درد اٹھ‬ ‫مونس و غ گس ر بن گی‬

‫‪154‬‬ ‫وہ کی ج نے‬ ‫اس نگر میں بھنورے بھی رہتے ہیں‬ ‫بھیڑیے ت ک میں ہیں‬ ‫اک روز پھر اخب ر میں خبر چھپی‬ ‫مط ع ہوں‬ ‫اک لڑکی کے اعض ء بکھر گیے تھے‬ ‫گندے گٹر میں پڑے تھے‬ ‫ہر ٹکڑا زخموں سے چور تھ‬ ‫اور خون بھی بہہ رہ تھ‬ ‫گندے پ نی کی ٹھوکریں سہہ رہ تھ‬ ‫کہہ رہ تھ‬ ‫ش ید میرا کوئی بچ رہ ہو‬ ‫یہ بکھرے اعض ء بڑی ح ظت سے‬ ‫کڑی ری ضت سے‬ ‫جوڑ کر‘ سی کر‬ ‫داراان بھیج دیے ہیں‬

‫‪155‬‬ ‫داراام ن سے رابطہ کریں‬ ‫خوبی قسمت دیکھیے‬ ‫ٹیکس لی کے ب سی قدر شن س نک ے‬ ‫آج بھی وہ اعض ء‬ ‫ٹیکس لی کے شیشہ میں سجے ہیں‬ ‫کہ ان ک کوئی مستقبل نہیں‬ ‫م ضی کہیں کھو گی ہے‬ ‫ح ل مت ین نہیں ہوا‬ ‫کہ ا ان پر س ک ح ہے‬

‫‪156‬‬ ‫ک لے سویرے‬ ‫مجھے ڈر لگت ہے‬ ‫ع و فن کے ک لے سویروں سے‬ ‫جن کے بطن سے‬ ‫ہوس کے ن گ جن لیتے ہیں‬ ‫منصف کے من کی آواز کو‬ ‫جو ڈس لیتے ہیں‬ ‫سہ گن کے سہ گ کی پی سی آتم سے‬ ‫ہوس کی آگ بجھ تے ہیں‬ ‫سچ کے موسموں کے چراغوں کی روشنی‬ ‫دھندا دھندا دیتے ہیں‬ ‫حقیقتوں ک ہ زاد‬ ‫گھبرا کر‬ ‫ویران اور اداس ل ظوں ک‬ ‫آس سے‬

‫‪157‬‬ ‫جو خود فریبی کے جھولے میں پڑی‬ ‫فرار کے رستے سوچ رہی ہے‬ ‫رستہ پوچھت ہے‬ ‫ان زہری ے ن گوں کی آنکھوں کی مقن طیسیت‬ ‫اپنے حص ر میں‬ ‫اسے بھی لے لیتی ہے‬ ‫یہ ن گ‬ ‫ان اور اس س کو بھی ڈستے ہیں‬ ‫یہ خونی منظر دیکھ کر ک نپ ج ت ہوں‬ ‫کہ یہ ا ضمیر کو بھی ڈس لیں گے‬ ‫ک لے سویروں کی زرد روشنی کے س ئے‬ ‫جوں جوں دراز ہوتے ہیں‬ ‫زندگی کو اک اور کربا سے گزرن پڑت ہے‬ ‫ان ن گوں کی زب نیں‬ ‫چمکتی‘ زہر میں بجھی‬ ‫تیز دھ ر ت واریں ہیں‬

‫‪158‬‬ ‫گھ ؤ کرنے میں‬ ‫یہ اپن جوا نہیں رکھتیں‬ ‫زندگی خوف کے س ئے میں‬ ‫کیوں کر پروان چڑھ سکتی ہے‬ ‫جہ ں کوئی روٹی دینے واا نہیں‬ ‫پ نی کی اک بوند ن ی ہے‬ ‫جہ ں خودکشی حرا جین جر ہے‬ ‫جہ ں نی ے آسم ن کی‬ ‫چ ند ست روں سے لبریز چھت‬ ‫اپنی نہیں‬ ‫ہوا ک بھی گزر نہیں ہوت‬ ‫بدلتے موسوں ک تصور‬ ‫شیخ چ ی ک خوا ہے‬ ‫بوسیدگی اور غاظت‬ ‫شخص ک مقدر ہے‬ ‫ی پھر‬

‫‪159‬‬ ‫زہر بجھی یہ چمکتی ت واریں ہیں‬ ‫یقین م نو‘ یہ ہی کچھ ہے‬ ‫پھر میں‬ ‫ی س کی ت ریکیوں کی تمن کرت ہوں‬ ‫ج نت ہوں کہ یہ ن گ‬ ‫ت ریکیوں سے نہیں گھبرائیں گے‬ ‫پھر بھی ک ٹیں گے‬ ‫گدھ نوچیں گے‬ ‫کتے ہڈیوں پر ٹوٹیں گے‬ ‫ہر ہڈی پر‬ ‫گھمس ن ک رن ہو گ‬ ‫اپن حصہ لگڑ بگڑ بھی م نگیں گے‬ ‫ف س ورس کی ب نٹ ًپر بھی‬ ‫تن زعے اٹھیں گے‬ ‫درد پھر بھی ہو گ‬ ‫کر پھر بھی ہو گ‬

‫‪160‬‬ ‫زہر پھر بھی پھی ے گ‬ ‫ک نچ بدن پھر بھی نیا ہو گ‬ ‫م یوسی کی سی ہ ذل وں کے س ئے میں‬ ‫بص رت کو بصیرت کو‬ ‫ش ئد پن ہ مل ج ئے گی‬ ‫میں ن گوں کے پہرے نہ دیکھ سکوں گ‬ ‫لہو رستے پر نظر نہ ج ئے گی‬ ‫مگر کی کروں‬ ‫سچ کی حسین تمن مجھے مرنے نہیں‬ ‫مرنے نہیں دے گی‬ ‫اور میں اس سرا جیون میں‬ ‫نہ مروں گ نہ جی سکوں گ‬

‫‪161‬‬ ‫کیچڑ ک کنول‬ ‫میا س چیتھڑا ‘آلودہ‬ ‫ش ید ح جت سے بچ ہوگ‬ ‫‘آد زادے ک پراہین‬ ‫!عیی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔؟‬ ‫گا سے چہرے پر‬ ‫ب ور ایسی‘ دیکھتی آنکھیں‬ ‫حیرت خوف غ غصہ اورافسوس‬ ‫ج نے کی کچھ تھ ان میں‬ ‫سم ج کی بےحسی پہ‬ ‫ان ٹھہری مگر دیکھتی آنکھوں میں‬ ‫دو بوند‘ لہو سی‬ ‫صدیوں کے ظ کی داست ن‬ ‫لیے ہوئے تھیں‬ ‫اتنی حدت اتنی اتنی تپش کہ‬

‫‪162‬‬ ‫پتھر بھی پگھل کر پ نی ہو‬ ‫ترسی ترسی ب ہیں‬ ‫میرے بوبی کی ب ہیں ایسی ہی تھیں کہ‬ ‫ج وہ بچہ تھ‬ ‫ت محبتوں ک حص ر تھ‬ ‫اور ا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫خ ت ندامت ک حص ر‬ ‫مرے گرد ہے‬ ‫لمحہ بہ لمحہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫دائرہ تنگ ہو رہ ہے‬ ‫مجھے فنک ر سے نسبت ہے‬ ‫فنک ر‘ س ک درد‬ ‫سینے کی وس توں میں سمو لیت ہے‬ ‫‘اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫س کت وج مد‬ ‫مٹی کے بت کی طرح‬

‫‪163‬‬ ‫خ موش تم ش ئی تھ‬ ‫اس نے پک را آواز دی‬ ‫احتج ج بھی کی‬ ‫کچھ نہ میں کر سک‬ ‫‘جیسے وہ آد زادہ نہ ہو‬ ‫ہم لہ سے گرا‬ ‫کوئ پتھر ہو‬ ‫‪:‬اس نے کہ‬ ‫!فنک ر۔۔۔۔۔۔۔“‬ ‫مجھے اپنی ب ہوں میں سم لو‬ ‫\"ازل سے پی س ہوں‬ ‫گھبرا کر تھوڑا س‬ ‫)پستیوں کی ج ن )‬ ‫پیچھے سرک‬ ‫کوئی مصیبت کوئی وب ل‬ ‫تہمت ی بدن می سر نہ آئے‬

‫‪164‬‬ ‫چیخ “فنک ر ک سینہ‬ ‫!ک سے تنگ ہوا ہے؟‬ ‫میری ب ہیں غیر جنس کی ب ہیں ہیں؟‬ ‫ان ک ت پر کوئی ح نہیں؟؟؟‬ ‫وہ کہت رہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں سنت رہ‬ ‫کی جوا تھ میرے پ س‬ ‫!ک ش‬ ‫میرے ش ور کی آنکھیں بند ہو ج تیں‬ ‫یوں جیسے ممت کی سم ج کی‬ ‫آنکھیں بند تھیں‬ ‫سوچت ہوں‘ مجر کون ہے‬ ‫‘گن ہ کس نے کی ۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫م ں ی سم ج نے‬ ‫وہ تو اپنے گھروں میں‬ ‫آسودہ س نسوں کے س تھ‬ ‫گر ک فی پی رہے ہوں گے‬

‫‪165‬‬ ‫ی میں نے جو‬ ‫ش کی بھی نک تنہ ئ میں‬ ‫ندامت سے‬ ‫سگریٹ کے دھوئیں میں‬ ‫تح یل ہو رہ ہوں‬ ‫گٹرکے قری پڑا‘ وہ کنول‬ ‫مجھ سے میرے ضمیر سے‬ ‫انص ف ط کر رہ ہے‬ ‫کہ ت ‘ خدائے عزوجل کی تخ ک‬ ‫یہ حشر کرتے ہو‬ ‫مجھے حرامی کہتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‬ ‫بت ؤ‘ ح می کون ہے؟‬ ‫ضمیر کس ک مردہ ہے؟‬ ‫مجر کون ہے؟‬ ‫میں ی ت ؟؟؟‬ ‫!میری بستی کے ب سیو‬

‫‪166‬‬ ‫کہ تمہیں عظی مخ و ہونے ک دعوی ہے‬ ‫کی جوا دوں اسے؟‬ ‫اس ک ننھ س م صو چہرا‬ ‫احتج ج سے لبریزآنکھیں‬ ‫پنکھڑی سے ہونٹوں پر‬ ‫تھرکتی بےصدا سسکی ں‬ ‫مجھے پ گل کر دیں گی‬ ‫پ گل‬ ‫ہ ں پ گل‬

‫‪167‬‬ ‫دو لقمے‬ ‫ت ن میں اٹی‬ ‫‘اندھی روں میں لیپٹی وہ بستی‬ ‫جہ ں چھیتڑوں میں م وف زندہ اشوں کے دل کی دھڑکنیں‬ ‫دیوار پر آویزاں کاک کی ٹک ٹک کی آوازیں تھیں۔‬ ‫‘بھوک کی اہیں‬ ‫بےبسی کی سسکیوں میں مدغ ہو رہی تھیں۔‬ ‫آس ک س یہ آس پ س نہ تھ ۔ تھ کچھ تو ق تل خ موشی تھی۔‬ ‫بھوک ک ن گ پھن پھیائے بیٹھ تھ ۔‬ ‫م یوسیوں کی اس بستی سے رح ک دیوت ش ید خ تھ ی پھر‬ ‫وہ بھی تہی دست تہی دامن ہو گی تھ ۔‬ ‫اک مسکراہٹ کے ط بگ ر یہ اشے بے حس نہیں‘ بے بس‬ ‫تھے۔‬ ‫پھر اک اشہ بھوک ن گ جس کے قری تر تھ ۔۔۔۔۔۔ تڑپ اور‬‫رینگ کر روشنی کی شہراہ پر آ گی ۔ اس حرکت میں اس نے اپنی‬ ‫س ری توان ئی صرف کر دی۔ ہر سو اج لے تھے لیکن وہ بھوک‬

‫‪168‬‬‫کے سی ہ ک ن میں م بوس تھ ۔۔۔۔۔۔۔۔پھر بھی۔۔۔۔۔۔۔ ہ ں پھر‘ بھی وہ‬ ‫زندہ تھ اور اج لوں کی شہراہ پر پڑا ہ نپ رہ تھ ۔ س نسیں‬ ‫بےترتی تھیں۔ خوش پوش راہی ش ید اسے دیکھ نہیں رہے‬‫تھے۔ جو دیکھ رہے تھے ن ک پر روم ل رکھ کر گزر رہے تھے۔‬ ‫وہ س اس کے ہ جنس تھے۔ کتنی آس لے کر وہ یہ ں تک آی‬ ‫تھ ۔ ان دیکھتے کر لمحوں کو کون ج ن پ ت ۔‬ ‫وہ اس بستی ک نہ تھ ۔‬‫بھوک ن گ بوا‪ :‬کہ ں تک بھ گو گے‘ تمہیں میرا لقمہ بنن ہی ہو‬ ‫گ کہ خود میں بھوک ہوں۔‬ ‫پھر وہ تھوڑا آگے بڑھ ۔‬ ‫اشہ چای ‪ :‬نہیں۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔ رکو۔۔۔۔۔ٹھہرو۔۔۔۔۔۔ روٹی ضرور آئے‬ ‫گی۔‬ ‫س بےک ر۔۔۔۔۔روٹی کوئی نہیں دے گ ۔۔۔۔۔۔ یہ پیٹ بھر کر بھی‬ ‫آنکھوں میں بھوک لیے پھرتے ہیں۔ ان میں سے کون دے گ‬ ‫روٹی۔ ان کے ہش ش بش ش چہروں پر نہ ج ؤ۔ ان کے من کی‬ ‫بھوک کو دیکھو اور میرے صبر ک امتح ن نہ لو۔‬ ‫‪:‬اشہ سٹپٹ ی اور چای‬ ‫!اج لوں کے ب سیو‬ ‫!ع و فن کے دعوےدارو‬

‫‪169‬‬ ‫!سی ست میں شرافت کے مدعیو‬ ‫!جمہوریت کے ع بردارو‬ ‫!اس حہ خرید کرنے والو‬ ‫!فاحی اداروں کے نمبردارو‬ ‫‘ع لمی وڈیرو‬ ‫‘کہ ں ہو ت س‬ ‫تمہ رے وعدے اور دعوے کی ہوئے؟‬ ‫اپنی بھوک سے دو لقمے میرے لیے بچ لو۔ بھوک ن گ میرے‬ ‫قری آ گی ہے۔‬ ‫دیکھو غور کرو‘ میں تمہ را ہ جنس ہوں‬ ‫‘۔ دو لقمے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہ ں فقط دو لقمے‬ ‫میری زندگی کے ض من ہیں۔‬ ‫ایف سولہ ہ ئیڈروجن ب مجھے نہیں چ ہیے۔‬ ‫میری ضرورت روٹی کے دو لقمے ہیں۔‬ ‫اس دور کی یہ تمہ ری بہت بڑی جیت ہو گی جو ت ریخ میں‬ ‫تمہیں امر کر دے گی۔‬

‫‪170‬‬ ‫آخری خبریں آنے تک‬ ‫کون‬ ‫انص ف‬ ‫تمہ را یہ ں کی ک‬ ‫جہ ں میری ضرورت ہوتی ہے بن بائے چا آت ہوں‬ ‫بن بائے کی اوق ت سمجھتے ہو‬ ‫جی ہ ں‬ ‫اوق ت عمل سے بنتی ہے‬ ‫تمہ ری م ننے والے بھوکے مرے‬ ‫بھوک نے انہیں ہمیشہ سرخرو کی ہے‬ ‫لوگ ہمیں سا کرتے ہیں‬ ‫تمہیں نہیں‘ تمہ ری شر کو سا کہتے ہیں‬ ‫ت ریخ میں دھنوان امر رہ ہے‬ ‫ت ریخ پیٹ کے بندوں ک روزن مچہ ہے‬ ‫پیٹ ہی تو س کچھ ہے‬

‫‪171‬‬ ‫ت ہی تو ب ا سطع پر رہتے ہو‬ ‫تہہ کے مت ت کی ج نو‬ ‫بڑے ڈھیٹ ہو‬ ‫بنن پڑت ہے‬ ‫تمہیں تمہ ری اوق ت میں ان پڑے گ‬ ‫کی کر لو گے؟؟؟‬ ‫تمہ ری ہڈی پس ی ایک کر دوں گ‬ ‫یہ س تو پہ ے بھی میرے س تھ ہو چک ہے‬ ‫کوئی نئی ترکی سوچو‬ ‫تمہیں جا کر راکھ کر دوں گ‬ ‫عبرت کے لیے‬ ‫تمہ ری راکھ گ یوں میں بکھیر دوں گ‬ ‫یہ تو اور بھی اچھ ہو گ‬ ‫وہ کیسے؟‬ ‫میری راکھ ک ہر ذرا انقا بن ابھرے گ‬ ‫اہ م ئی گ ڈ‘ تو پھر میں کی کروں؟‬

‫‪172‬‬ ‫مجھے اپنے سینے سے لگ لو‬ ‫یہ مجھ سے نہیں ہو گ‬ ‫تو طے یہ ہوا‬ ‫تمہ ری اور میری جنگ ک کوئی انت نہیں‬ ‫دیکھت ہوں کہ ں تک اذیت برداشت کرتے ہو‬ ‫چ و میں بھی دیکھت ہوں‬ ‫اذیت میں کس حد تک ج تے ہو‬ ‫اس کے ب د‬ ‫گھمس ن کی جنگ چھڑ گئی‬ ‫اور آخری خبریں آنے تک‬ ‫جنگ ج ری تھی‬

‫‪173‬‬ ‫یہ ہی فیص ہ ہوا تھ‬ ‫عہد شہ میں بےحج بےکسی بھی عج قی مت تھی۔ صبح‬‫اٹھتے مشقت اٹھ تےعوضوانے کو ہ تھ بڑھ تے بے نقط سنتے۔‬ ‫س نسیں اکھڑ ج تیں مہر بہ ل جیتے کہ س نسیں ب قی تھیں۔ جین‬ ‫تو تھ ہی لہو تو پین تھ ہی۔‬ ‫ادھر ایونوں میں آزادی کی صدائیں گونج رہی تھیں ادھر گ یوں‬ ‫میں خوف ک پہرا تھ کہ ش ہ بہرا تھ ۔ ش ہ والے گ یوں میں‬ ‫بےچنت کرپ نیں لیے پھرتے تھے۔ نق ہت ہ تھ ب ندھے شک میں‬ ‫بھوک آنکھوں میں پی س لیے کھڑی تھی ہ ں مگر ش ہ کی دی ک‬ ‫بول ب ا تھ ۔‬ ‫پنڈت کے ہونٹوں پر ش نتی بغل میں درانتی ماں بھی من میں‬ ‫ت ری ک ب رود بھرے امن امن امن کیے ج رہ تھ ۔‬ ‫ا ج کہ پیری پہ شنی ک پہرا ہے بھوک ک گھ ؤ گہرا ہے۔‬ ‫جی میں دمڑی نہیں امبڑی نہیں کہ وید حکیموں کے دا‬‫چک ئے بڑے ش خ نے کے در پر ائے م یوسی کی ک لک مٹ ئے‬ ‫آہیں سنے تش ی کی لوری سن ئے۔ ہونٹوں پہ گا سج ئے دل‬ ‫میں کر اٹھ ئے ا کون ہے جو مرے مرنے سے مر ج ئے۔‬

‫‪174‬‬ ‫بیٹے کو اپنی پتنی سے فرصت نہیں بیٹی کی س س کپتی ہے‬ ‫بھ ئی کے گھر تیل نہ بتی ہے مری بہن کی کون سنت ہے سیٹھ‬ ‫کے برتن دھو سیٹھنی کے کوسنے سن کر پیٹ بھرتی ہے۔‬ ‫بیگ روتی ہے نہ ہنسی ہے سوچتی ہے ک ن دفن کے لیے‬ ‫پیسے کہ ں سے آئیں گے کہیں اس کے بھ ئیوں کی چمڑے نہ‬ ‫ادھڑ ج ئے وہ تو بہنوئی کی کھ تے تھے ج بھی آتے تھے‬ ‫کچھ ن کچھ لے ج تے تھے۔‬ ‫جیت ہوں تو مصیبت مرت ہوں تو مصیبت۔ میں وہ ہی ہوں‬ ‫جواندھیروں میں رہ کر ایونوں کے دیپ جات رہ دوا دور رہی‬ ‫مری گرہ میں تو اس اجڑے گ ست ن ک کرایہ نہیں۔‬ ‫گھر میں روشنی نہیں ن سہی ش ید کوئی فرشتہ مری لحد میں‬ ‫بوند بھر روشنی لے کر آ ج ئے عمر بھر خود کو نہ دیکھ سک‬‫سوچ سک واں سکوں ہو گ خود کو دیکھ سکوں گ سوچ سکوں‬ ‫گ خود کو دیکھنے سوچنے کی حسرت بر آئے گی۔‬ ‫خود کو دیکھ کر سوچ کر ارضی خدائی سے مکتی ق بی خدا کی‬ ‫بےکراں عظمتوں ک اسرار کھل ج ئے گ وہ میرا تھ میرا ہے‬‫مجھے مل ج ئے گ ۔ سردست ک ن و دفن کے س م ن کی فکر ہے۔‬ ‫ک ن م ے ن م ے اس سے کی فر پڑت ہے۔ عمر بھر اس نے‬ ‫مری پردہ پوشی کی ہے ا بھی کرئے گ ۔‬

‫‪175‬‬ ‫ایونوں میں بستے س یدی میں لپٹے شیط نوں ک نگر مرا نہیں‬ ‫مرا نہیں گورنگر مرا ہو گ مرا خدا کچھ لیت نہیں دیت ہے۔ لین‬ ‫مری ع دت دین اس کی فطرت روٹی کی فکر کیسی کرائے کی‬ ‫چنت میں کیوں کروں مری ج ن میں آ رہ ہوں تو مختصر سہی‬ ‫مرے لیے مری حسرتوں کے لیے س ت زمینوں سے بڑھ کر‬‫وس ت رکھتی ہے میں بھول میں رہ کہ یہ ں کچھ بھی مرا نہ تھ‬ ‫زیست کے کچھ لمحوں کی دیری تھی تو ہی تو مری تھی‬ ‫یہ ہی فیص ہ ہوا تھ‬ ‫یہ ہی فیص ہ ہوا تھ‬ ‫یہ ہی فیص ہ ہوا تھ ۔‬

‫‪176‬‬ ‫حیرت تو یہ ہے‬ ‫موس گل ابھی محو کا تھ کہ‬ ‫مہت ب دلوں میں ج چھپ‬ ‫اندھیرا چھ گی‬ ‫پریت پرندہ‬ ‫ہوس کے جنگ وں میں کھو گی‬ ‫اس کی بین ئی ک دی بجھ گی‬ ‫کوئی ذات سے‘ کوئی ح ات سے الجھ گی‬ ‫کی اپن ہے‘ کی بیگ نہ‘ ی د میں نہ رہ‬ ‫ب دل چھٹنے کو تھے کہ‬ ‫اف لہو اگ نے لگ‬ ‫دو ب ادھر دو ادھر گرے‬ ‫پھر تو‬ ‫ہر سو دھواں ہی دھواں تھ‬ ‫چہرے ج دھول میں اٹے تو‬

‫‪177‬‬ ‫ظ ک اندھیر مچ گی‬ ‫پھر اک درویش مین ر آگہی پر چڑھ‬ ‫کہنے لگ سنو سنو‬ ‫دامن س سمو لیت ہے‬ ‫اپنے دامن سے چہرے ص ف کرو‬ ‫ش ید کہ ت میں سے کوئی‬ ‫ابھی یتی نہ ہوا ہو‬ ‫یتیمی ک ذو لٹی ڈبو دیت ہے‬ ‫من کے موس دبوچ لیت ہے‬ ‫کون سنت پھٹی پرانی آواز کو‬ ‫حیرت تو یہ ہے‬ ‫موس گل ک س کو انتظ ر ہے‬ ‫گرد سے اپن دامن بھی بچ ت ہے‬ ‫اوروں سے کہے ج ت ہے‬ ‫چہرہ اپن ص ف کرو‘ چہرہ اپن ص ف کرو‬

‫‪178‬‬ ‫میں نے دیکھ‬ ‫پ نیوں پر‬ ‫میں اشک لکھنے چا تھ‬ ‫دیدہءخوں دیکھ کر‬ ‫ہر بوند‬ ‫ہوا کے س ر بر نکل گئی‬ ‫منصف کے پ س گی‬ ‫ش ہ کی مجبوریوں میں‬ ‫وہ جکڑا ہوا تھ‬ ‫سوچ‬ ‫پ نیوں کی بےمروتی ک‬ ‫فتوی ہی لے لیت ہوں‬ ‫ماں ش ہ کے دستر خوان پر‬ ‫مدہوش پڑا ہوا تھ‬ ‫دیکھ ‘ شیخ ک در کھا ہوا ہے‬

‫‪179‬‬ ‫سوچ‬ ‫ش ید یہ ں داد رسی ک‬ ‫کوئی س م ن ہو ج ئے گ‬ ‫وہ بچ رہ تو‬ ‫پریوں کے غول میں گھرا ہوا تھ‬ ‫کی کرت کدھر کو ج ت‬ ‫دل دروازہ کھا‬ ‫خدا جو میرے قری تھ‬ ‫بوا‬ ‫کتنے عجی ہو ت بھی‬ ‫کی میں ک فی نہیں‬ ‫جو ہوس کے اسیروں کے پ س ج تے ہو‬ ‫میرے پ س آؤ‬ ‫ادھر ادھر نہ ج ؤ‬ ‫میری آغوش میں‬ ‫تمہ رے اشکوں کو پن ہ م ے گی‬

‫‪180‬‬ ‫ہر بوند‬ ‫رشک ل ل فردوس بریں ہو گی‬ ‫اک قظرہ مری آنکھ سے ٹپک‬ ‫میں نے دیکھ‬ ‫ش ہ اور ش ہ والوں کی گردن میں‬ ‫بے نصیبی کی زنجیر پڑی ہوئی تھی‬

‫‪181‬‬ ‫کس منہ سے‬ ‫چ بھرتے ہ ت‘ اٹھ نہیں سکتے‬ ‫ہونٹوں پر فقیہ عصر نے‬ ‫چپ رکھ دی ہے‬ ‫کتن عظی تھ وہ شخص‬ ‫گ یوں میں‬ ‫رسولوں کے ل ظ ب نٹت رہ‬ ‫ان بولتے ل ظوں کو‘ ہ سن نہ سکے‬ ‫آنکھوں سے‘ چن نہ سکے‬ ‫ہم رے ک نوں میں‘ جبر کی پوریں رہیں‬ ‫آنکھوں میں خوف نے پتھر رکھ دیے‬ ‫ہ ج نتے ہیں‘ وہ سچ تھ‬ ‫قول ک پک تھ‬ ‫مرن تو ہے‘ ہمیں ی د نہ رہ‬ ‫ہ ج نتے ہیں اس نے جو کی‬

‫‪182‬‬ ‫ہم رے لیے کی‬ ‫جی تو ہم رے لیے جی‬ ‫کتن عجی تھ‬ ‫زندہ اشوں ک د بھرت رہ‬ ‫مص و ہوا ہ دیکھتے رہے‬ ‫نیزے چڑھ ہ دیکھتے رہے‬ ‫مرا جا راکھ اڑی ہ دیکھتے رہے‬ ‫اس کے کہے پر دو گ تو چا ہوت‬ ‫کس منہ سے ا‬ ‫اس کی راہ دیکھتے ہیں‬ ‫ہ خ موش تم ش ئی‬ ‫مظ ومیت ک فقط ڈھونگ رچ تے ہیں‬ ‫بے ج ن جیون کے دامن میں‬ ‫غیرت کہ ں جو رن میں اترے‬ ‫ی پھر‬ ‫پس ل اس کی مدح ہی کر سکے‬

‫‪183‬‬ ‫چ و دنی چ ری ہی سہی‬ ‫آؤ‬ ‫اندرون ل دع کریں‬ ‫ان مول سی مدح کہیں‬

‫‪184‬‬ ‫حی ت کے برزخ میں‬ ‫تاش م نویت کے س لمحے‬ ‫صدی ں ڈک ر گئیں‬ ‫چیتھڑوں میں م بوس م نویت ک س ر‬ ‫اس کن رے کو چھو نہ سک‬ ‫ت سف کے دو آنسو‬ ‫ک سہءمحرومی ک مقدر نہ بن سکے‬ ‫کی ہو پ ت کہ ش کشف‬ ‫دو رانوں کی مشقت میں کٹ گئی‬ ‫صبح دھی ن‬ ‫ن ن ن رس کی نذر ہوئی‬ ‫ش عر ک کہ‬ ‫بےحواسی ک ہ نوا ہوا‬ ‫دفتر رفتہ ش ہ کے گیت گ ت رہ‬ ‫وسیبی حک ئتیں بےوق ر ہوئیں‬

‫‪185‬‬ ‫قرط س فکر پہ نہ چڑھ سکیں‬ ‫گوی روایت ک جن زہ اٹھ گی‬ ‫ضمیر بھی چ ندی میں تل گی‬ ‫مجذو کے خوا میں گرہ پڑی‬ ‫مکیش کے نغموں سے طب ہ پھسل گی‬ ‫درویش کے حواس بیدار نقطے‬ ‫ترقی ک ڈر نگل گی‬ ‫نہ مشر رہ نہ مغر اپن بن‬ ‫آخر ک تک یتی جیون‬ ‫حی ت کے برزخ میں‬ ‫شن خت کے لیے بھٹکت رہے‬

‫‪186‬‬ ‫سورج دوزخی ہو گی تھ‬ ‫گدھ‬ ‫خ یج کے بیم روں کی س نسیں گن رہے ہیں‬ ‫اشوں کو ک ن دفن‬ ‫غسل کی ضرورت نہیں ہو گی‬ ‫اگست کو‬ ‫سورج دوزخی ہو گی تھ‬ ‫گنگ سے اٹھتے بخ رات‬ ‫دع ک اٹھتے ہ ت‬ ‫گا کی مہک‬ ‫مٹی سے رشتے‬ ‫ک پوتر رہے ہیں‬ ‫درگ وتی کی عصمت مرنے کے ب د‬ ‫اپنوں کے ہ ت لٹ گئی تھی‬ ‫‘ہ تو‬

‫‪187‬‬ ‫حنوط شدہ ممی ں ہیں‬ ‫رگوں میں لہو نہیں‬ ‫کیمیکل دوڑت ہے کہ‬ ‫آکسیجن ج تی نہیں‬ ‫ج نے میں م ون ہے‬ ‫ڈوبتی س نسوں کو‬ ‫مسیح کی ضرورت نہیں‬ ‫گوشت گدھ کھ ئیں گے‬ ‫‘ہڈی ں‬ ‫ف س ورس کی ک نیں ہیں‬ ‫یہودی ابی کے گ ے کھ ے ہیں‬ ‫بٹنوں کی سخت ضرورت ہے‬

‫‪188‬‬ ‫فیکٹری ک دھواں‬ ‫اس نے کہ‬ ‫یہ س کس کے لیے لکھتے ہو‬ ‫میں نے کہ‬ ‫تمہ رے لیے‬ ‫بوا‬ ‫مگر مجھے ت سے گھن آتی ہے‬ ‫می ے می ے ل ظوں می ے می ے جذبوں سے‬ ‫روشنیوں کی ب ت کرو‬ ‫حسن کی کہو‬ ‫حسین آنکھوں سے‬ ‫ٹپکتی ش کی ب ت کرو‬ ‫ک نچ سے بدنوں سے‬ ‫ٹپکتے روم ن کی ب ت کرو‬ ‫بہ روں میں مچ تے شب کی ب ت کرو‬

‫‪189‬‬ ‫روٹی م ے گی‘ شہرت م ے گی‬ ‫بھوک اور افاس‬ ‫کی رکھ ہے چیٹھڑوں کی دنی میں‬ ‫سوچت ہوں‬ ‫شہرت لے لوں‬ ‫روٹی لے لوں‬ ‫کئی روز کی بھوک ہے‬ ‫لب س بھی الجھ الجھ ہے‬ ‫سسکتے ب کتے جذبوں کو‬ ‫بےلب سی کی دنی میں رہنے دوں‬ ‫پھر سوچ کے اف سے‬ ‫اک شہ ث ق ٹوٹ‬ ‫زہری ی سوچ ک چہرا‬ ‫فیکٹری کی چمنی سے‬ ‫اٹھتے دھویں میں مدغ ہو گی‬

‫‪190‬‬ ‫مط ع رہیں‬ ‫مسز ریح نہ کوثر‬ ‫با دکھ تحریر کی ج ت ہے‬ ‫آپ کی خدم ت کی ا یہ ں‬ ‫ضرورت نہیں رہی‬ ‫آپ کی بریزئر ک س ئز بڑھ گی ہے‬ ‫آنکھوں کے گرد ح قے بھی ہیں‬ ‫ب لوں میں چ ندی آ گئی ہے‬ ‫رخس ر پچک گئے ہیں‬ ‫روزن نش ط کی فراخی سے‬ ‫پرفومنس گھٹ گئی ہے‬ ‫س بقہ ک رگزاری کے پیش نظر‬ ‫کمیٹی نے فیص ہ کی ہے‬ ‫آپ کی بیٹی ظل ہم کو‬ ‫آپ کی سیٹ پر‬

‫‪191‬‬ ‫آپ کے ہی پے سکیل پر‬ ‫مع مروجہ ااؤنسز‬ ‫اکتیس مئی ک وزنگ ٹ ئ تک‬ ‫ت ین ت کی ج سکت ہے‬ ‫آپ کو ہدایت کی ج تی ہے‬ ‫ت ریخ مقررہ کے اندر‬ ‫زیر دستخطی کو مط ع کریں‬ ‫اپنے واجب ت کی وصولی کے لیے‬ ‫زیر دستخطی کے‬ ‫ح ضر ہونے کی ضرورت نہیں‬ ‫یہ خدمت ا‬ ‫آفس سپرٹنڈنٹ انج دیت ہے‬ ‫ف ئ وں کی سی ہی سپیدی ک‬ ‫وہ ہی تو م لک ہے‬ ‫مط ع رہیں‬ ‫ضروری نوت‬

‫‪192‬‬ ‫آپ اپنی کنگی اور نیل پ لش‬ ‫ہم رے میز پر کل کی امید میں‬ ‫بھول گئی ہیں‬ ‫یہ چیزیں‬ ‫جن کی آپ کو اشد ضرورت ہو گی‬ ‫مس ظل ہم کو‬ ‫آفس ٹ ئ کے ب د بھیج کر‬ ‫منگوا سکتی ہیں‬ ‫کہ ان کی ا ی ں ضرورت نہیں رہی‬ ‫مط ع رہیں‬

‫‪193‬‬ ‫امید ہی تو زندگی ہے‬ ‫زکرا بولے ج رہی تھی‬ ‫بولے ج رہی تھی‬ ‫ش ید آتی صدیوں کے غ مٹ رہی تھی‬ ‫خو گرجی خو برسی‬ ‫اس کے گرجنے میں دھواں‬ ‫برسنے میں مسا دھ ر تھی‬ ‫رانی توپ کے گرجنے سے‬ ‫حمل گر ج تے تھے‬ ‫برسنے سے‬ ‫بستی ں زمین بوس ہوتی تھیں‬ ‫اس کے برسنے سے‬ ‫سکون کے شہر آگ پکڑتے تھے‬ ‫گرجنے سے حواس‬ ‫بدحواس ہوتے تھے‬

‫‪194‬‬ ‫کس سے گ ہ کرت‬ ‫جھورا مردود مر چک تھ‬ ‫تھیا مردود آج بھی‬ ‫رشوت ڈک رت ہے‬ ‫وہ چپ تھ‬ ‫مس سل چپ تھ‬ ‫منہ میں زب ن رکھت تھ‬ ‫پھر بھی چپ تھ‬ ‫چپ میں ش ید اسے سکھ تھ‬ ‫جو بھی سہی‬ ‫یہ سوال نوشتہءدیوار بن تھ‬ ‫وہ چپ تھ تو کیوں چپ تھ‬ ‫ہر زب ن پر یہ ہی سوال تھ‬ ‫وہ بزدل تھ‬ ‫ی صبر میں ب کم ل تھ‬ ‫کچھ اسے زن مرید کہتے تھے‬

‫‪195‬‬ ‫کسی کے خی ل میں‬ ‫مرد کی ان ک وہ کھا زوال تھ‬ ‫وہ تو خیر زیر عت تھ ہی‬ ‫اس کے پچھ ے بھی‬ ‫کوسنوں کے دفتر چڑھ رہے تھے‬ ‫اس سے کوئی کیوں پوچھت‬ ‫ہر دوسرے‬ ‫امریش پوری سے ڈائیاگ‬ ‫سننے کو م تے تھے‬ ‫نمرود وقت بھی‬ ‫ک نوں پر پہرے نہیں رکھ سکت‬ ‫پہ ے ریڈیو ہی تو تھ‬ ‫ٹی وی تو کل کی دین ہے‬ ‫ک ن سنتے تھے‬ ‫تصور امیج بن ت تھ‬ ‫آخر چپ تھ تو کیوں چپ تھ‬

‫‪196‬‬ ‫اک روز میں نے پوچھ ہی لی‬ ‫میرا کہ‬ ‫اس کے قہقہوں میں اڑنے لگ‬ ‫میں نے سوچ‬ ‫کہن کچھ تھ‬ ‫ش ید کہہ کچھ اور گی ہوں‬ ‫بھول میں‬ ‫کسی سردار ک لطی ہ کہہ گی ہوں‬ ‫بھ کڑ ہوں‬ ‫یہ قول زریں مری زوجہ ک ہے‬ ‫زوجہ کے کہے کو غ ط کہوں‬ ‫کہوں تو کس بل پر‬ ‫اگ ے سے ن سہی اس جہ ن سے ج ؤں گ‬ ‫مہر بہ ل رہ کہ‬ ‫دیواروں کو بھی ک ن ہوتے ہیں‬ ‫مجھے کی پڑی غیروں کی اپنے سر لوں‬

‫‪197‬‬ ‫میں نے بھی چپ میں ع فیت ج نی‬ ‫ہ کیؤں پرائی آگ میں کودیں‬ ‫مرے لیے خ لہ کی لگ ئی ہی ک فی ہے‬ ‫خود چل بسی‬ ‫میں بھی چل بسوں س م ن کر گئی ہے‬ ‫پھر وہ دف ت چپ ہو گی‬ ‫مری طرف‬ ‫بےبس بے کس نظروں سے دیکھنے لگ‬ ‫چند لمحے خ مشی رہی‬ ‫ج ہل ج نتے ہو‬ ‫بولنے میں کتنے اعض خرچ ہوتے ہیں‬ ‫حیرت ہوئی‘ بھا یہ کی جوا ہوا‬ ‫غصہ میں بولنے سے‬ ‫چودہ اعض کشٹ اٹھ تے ہیں‬ ‫مرا کی ہے‬ ‫ادھر سے سنت ہوں ادھر سے نک ل دیت ہوں‬

‫‪198‬‬ ‫چہرے کے بدلتے رنگوں ک اپن ہی سواد ہوت ہے‬ ‫ہ ں سٹپٹ نے میں‬ ‫کھونے کے آث ر ہوتے ہیں‬ ‫گھورنے بسورنے میں‬ ‫کہکش نی اطوار ہوتے ہیں‬ ‫شخص پڑھو کہ حی ت کے‬ ‫ت پر پوشیدہ اطوار کھ یں‬ ‫ہ ں غصہ میں‬ ‫دم کی کوئی نس پھٹ سکتی ہے‬ ‫خیر یہ وقت خیر نہیں آئے گ‬ ‫دم ہوت تو صبر ک جہ ں آب د کرتی‬ ‫دل ک دورہ بھی ب ید از قی س نہیں‬ ‫اس امید پر ہی تو جی رہ ہوں‬ ‫کبھی تو غصہ کے اف سے‬ ‫خوشی ک چ ند مسکرائے گ‬ ‫پھر مستی میں آ کر گنگن ئے گ‬

‫‪199‬‬ ‫آ گئی بہ ر گ وں ک رنگ اور بھی نکھر گی‬ ‫پی سی آتم ئیں آ رہی ہیں روپ بدل بدل کے‬ ‫میں پڑھ لکھ سہی‬ ‫اپنی اوق ت میں ہوں تو مزدور‬ ‫زوجہ گزیدہ ہوں‬ ‫بھ ش ف س ے کی میں کی ج نوں‬ ‫بوا‪ :‬ج ؤ امید پر زندہ رہو‬ ‫امید پر میں زندہ ہوں‬ ‫امید ہی تو زندگی ہے‬

‫‪200‬‬ ‫میٹھی گولی‬ ‫ہ کچھ دوست‬ ‫ہوٹل میں چ ئے پیتے ہیں‬ ‫اور اکثر پیتے ہیں‬ ‫سچی پوچھو تو‬ ‫چ ئے پر ہی تو جیتے ہیں‬ ‫زندگی میں ورنہ‬ ‫چ ئے کے سوا رکھ کی ہے‬ ‫بھوک ک پرن پی س ک پٹک‬ ‫ہم ری زیست ک یہ ہی اث ثہ ہے‬ ‫جسے دیکھو رکھے ہے ہزار گز ک نٹک‬ ‫امیر وقت‬ ‫ب ت گریبوں کی کرت ہے‬ ‫کھیسہ مگر اپن بھرت ہے‬ ‫ہر بولت‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook