Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore چھیاسی اختصارئیے

چھیاسی اختصارئیے

Published by maqsood5, 2017-02-18 07:17:38

Description: abk_ksr_mh.960/2016
چھیاسی اختصارئیے
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
فروری ٢٠١٧

Search

Read the Text Version

‫‪51‬‬‫کہ ‪ :‬ب ب جی میں یہ مولی آپ کو دینے کے لیے‘ آپ کے پیچھے‬ ‫آ رہ تھ ۔ یہ سن کر‘ ب ب جی نے بڑے غصے سے اس کی ج ن‬ ‫دیکھ ۔ مولی تو نہ لی‘ لیکن بڑی سنجیدگی سے کہ ‪ :‬ی د رکھو‬‫ہ تمہیں اور تمہ ری ح ج ت کو‘ ت سے زی دہ ج نت ہے اور اس‬ ‫کے مط ب عط کر دیت ہے۔ ج بھی‘ موجود میں مزید ک طمع‬ ‫کرو گے‘ پہ ے سے بھی ہ تھ دھو بیٹھو گے۔ موجود پر ہ ک‬ ‫شکر ادا کرو‘ ت کہ وہ تمہیں تمہ ری ضرورت کے مط ب عط‬ ‫فرم ت رہے۔‬ ‫اسے اپنی حرکت پر سخت شرمندگی ہوئی‘ لیکن آئندہ کے لیے‬ ‫ک ن ہو گئے۔‬ ‫محتر ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح السا ع یک‬ ‫مختصر‪ ،‬پرمغز‪ ،‬سب آموز‪ ،‬فکر ک مواد لئے یہ افس نہ بہت‬‫اچھ لگ ۔ خ ص کر یہ ہم ری دور ح ضر کی \" اشرافیہ\" کے منہ‬ ‫پر طم نچہ نہیں ب کہ تپنچہ ہے لیکن اگر اشرافیہ ڈھیٹ ہو ‪ ،‬جو‬ ‫ہے ‪ ،‬بڑے بڑے توپ بھی بےک ر ہیں۔‬

‫‪52‬‬ ‫ڈاکٹر ص ح‬ ‫م شرہ کو آئینہ دکھ ن آپ ک ک ہے اسی احسن طریقہ سے‬ ‫نب ہتے رہئے۔‬ ‫سدا سامت رہیں اور ق ک پ س کرتے رہیں۔‬ ‫والسا‬ ‫ط ل دع‬ ‫ک یل آحمد‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10463.0‬‬

‫‪53‬‬ ‫منہ سے نک ی‬ ‫ج بھی کوئی بچہ گر ج ت ی اسے کسی اور وجہ سے چوٹ آ‬ ‫ج تی‘ فتو کے منہ سے بےس ختہ نکل ج ت ‪ :‬ہ ئے تیری م ں‬ ‫مرے۔‬ ‫یہ فتو کے نہیں‘ ممت کے منہ نک ی آواز ہوتی اور اس میں درد‬ ‫بھی ہوت ۔ م ں بےشک م ں ہوتی ہے اور دنی میں اس ک کوئی‬ ‫متب دل رشتہ موجود نہیں۔ اس قس کی م درانہ ش قت‘ میں اپنی‬ ‫م ں کے ہ ں بھی دیکھت اور سنت آرہ ہوں۔ ت ہی تو تک یف‬ ‫میں بےس ختہ منہ سے ہ ئے م ں نکل‬ ‫ج ت ہے۔‬ ‫ایک ب ر میں بیم ر پڑا۔ فتو میرا سر دب رہی تھی۔ تک یف میں‬ ‫شدت ہوئی تو میرے منہ سے ہ ئے م ں نکل گی ۔ فتو نے وہیں‬ ‫ہ تھ روک لیے اور غصہ سے اپنی چ رپ ئی پر ج کر لیٹ گئی۔‬‫میں نے اس کی طرف دیکھ اور کہ ‪ :‬کی ہوا‘ کیوں روٹھ کر چ ی‬ ‫گئی ہو۔ دیکھ تو رہی ہو کہ میں تک یف میں ہوں۔‬ ‫بڑی غصی ی آواز میں کہنے لگی‪ :‬دب میں رہی ہوں‘ ی د م ں کو‬ ‫کرتے ہو۔ ج ؤ اسی سے دبوا لو۔‬

‫‪54‬‬‫اس کی ب ت میں د تھ اور میں شرمندہ س ہو گی ۔ ک فی دیر تک‬ ‫من من کرت رہ لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ منہ سے نک ی‬ ‫کیسے منہ میں ج سکتی تھی۔ آئندہ سے اس ک ن لینے ک‬ ‫وعدہ بھی کی ح اں کہ یہ بس سے ب ہر کی چیز تھی۔‬ ‫اس روز چھوٹی ک کی گر پڑی مجھے دکھ ہوا۔ میں تیزی سے‬ ‫اس کی ج ن بڑا۔ میری پدرت پورے پہ ر کے س تھ ج گی۔ س بقہ‬ ‫تجربے کے ت بع‘ میں نے منہ سے ہ ئے تیری م ں مرے نک ا۔‬ ‫اپنی اصل میں یہ م درت کی قدر کرنے کے مترادف تھ ۔‬ ‫وہ ک کی ک دکھ تو بول گئی اور دونوں پ ؤں سمیت مجھ پر چڑھ‬ ‫دوڑی۔ ہ ں ہ ں ت تو چ ہتے کہ میں مر ج ؤں‪ ،‬میں بڑے دنوں‬ ‫سے تمہ رے بدلے بدلے تیور دیکھ رہی ہوں۔ ت تو ہو ہی‬ ‫ن شکرے۔ جتن کرو یہ ں اس کیے کی کوئی وٹک نہیں۔‬ ‫یہ کہہ کر بھ ئی کے گھر روٹھ کر ج نے کے لیے تی ر ہونے‬ ‫لگی۔ میں نے قس کھ کر اس پر اصل حقیقت واضح کرنے کی‬ ‫کوشش کی‪ ،‬مگر کہ ں جی خاصی نہیں کر رہی تھی۔‬ ‫م نت ہوں میرے کہے میں سو فی صد دانستگی تھی۔ دس بیس‬ ‫پرسنٹ خواہش بھی تھی لیکن خواہش سو فی صد نہ تھی۔‬ ‫دوسرا میرے کہے پر وہ مر تھوڑا ج تی۔ اگر ایس ہوت تو دنی‬ ‫میں کوئی عورت ب قی نہ رہتی۔ اس کے منہ سے سیکڑوں ب ر‬ ‫ہ ئے تیری م ں مرے نکا لیکن وہ ایک ب ر بھی نہ مری تھی۔‬

‫‪55‬‬ ‫کچھ ب تیں کہنے کی ہوتی ہیں لیکن ہونے ک اس سے کوئی ت‬ ‫واسطہ نہیں ہوت ۔‬ ‫خیر چھوڑیے مجھے اپنی اس دانستگی کی بڑی کڑی سزا م ی۔‬ ‫منتیں ترلے تو کیے ہی‘ ک نوں کو ہ تھ لگ ن پڑے‘ س تھ میں پا‬ ‫بھی جھ ڑن پڑا۔‬

‫‪56‬‬ ‫عزیز مکر حسنی ص ح ‪ :‬سا مسنون‬ ‫آپ کے یہ مختصر لیکن م نی آفریں انش ئیے دلچسپ اور سب‬ ‫آموز ہوتے ہیں ب ہر لوگ ان کو بہت شو سے پڑھتے ہیں۔‬ ‫افسوس کہ ہر شخص (بشمول راق الحروف) ہر انش ئیے پر‬ ‫اظہ ر خی ل نہیں کرت ہے اور ش ید کر بھی نہیں سکت ۔ میری‬ ‫ن چیز داد ح ضر ہے۔ ہ آپ کو نوازے‬ ‫آپ کی موجودگی ہم رے لئے ب عث مسرت وافتخ ر ہے۔ اور‬ ‫اردو انجمن اس عن یت کے لئے آپ کی ممنون احس ن ہے۔ یقین‬ ‫ہے کہ اپ اسی طرح ہم ری ہمت افزائی کرتے رہیں گے۔‬ ‫ایک گزارش ہے۔ آپ لکھتے رہتے ہیں لیکن دوسروں کی‬ ‫تخ یق ت پر کبھی اظہ ر خی ل نہیں کرتےہیں۔ آپ کی اع نت اور‬ ‫رہنم ئی اور گ ہےگ ہے داد کی ہ س کو ضرورت ہے۔ خدا را‬ ‫دوسروں پر بھی لکھئے اورصرف رسمی ست ئش نہیں ب کہ‬ ‫ن قدانہ نگ ہ ڈالئے۔ بڑی عن یت ہوگی۔ شکریہ‬ ‫سرور راز‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10464.0‬‬

‫‪57‬‬ ‫یک مشت‬ ‫شہ دین س را دن دفتر میں ص ح کی چ کری کرت ۔ وہ ں سے‬ ‫ایک مل م لک کے گھر ج ت ۔ ان ک سودا س ف ات ی کوئی اور‬‫ک ہوت تو وہ انج دیت ۔ کبھی آٹھ بجے تو کبھی دس بجے وہ ں‬ ‫سے خاصی پ ت تو گھر آت ۔ اس وقت اس ک جس ٹوٹ پھوٹ س‬ ‫گی ہوت اور اسے آرا کی اشد ضرورت ہوتی۔ مگر کہ ں‘ گھر آت‬ ‫تو کوئی ن کوئی گھری و رپھڑ اس ک انتظ ر کر رہ ہوت ۔ اسے‬‫نپٹ نے میں اچھ خ ص وقت اٹھ ج ت ۔ گھر والی اس سے بےنی ز‬ ‫تھی کہ وہ س را دن کتنی مشقت اٹھ ت ہے۔ گھر کی دال روٹی‬ ‫چانے کے لیے اسے کتنے پ پڑ بی ن پڑتے ہیں۔‬ ‫اس روز بھی کچھ ایس ہی ہوا۔ اس نے گھر کی دہ یز پر قد‬‫رکھ ہی تھ کہ زکو اپنے دانت درد ک سی پ لے کر بیٹھ گئی۔ اس‬ ‫نے بڑے تحمل سے کہ ۔ ک کے کو س تھ لے کر ڈاکٹر سے دوا‬ ‫لے آن تھی۔ ابھی ایک پیراسیٹ مول کی گولی لے لو اور س تھ‬‫میں اچھی طرح حکی ص ح واا منجن کر لو۔ مجھے کھ نے کو‬ ‫کچھ دو سخت بھوک لگی ہوئی ہے۔ تمہیں کھ نے کی پڑی ہے‬ ‫ادھر میں درد سے مر رہی ہوں۔ وہ بڑ بڑ کرت ہوا صبر شکر‬ ‫کرکے بھوک ہی چ رپ ئی پر لیٹ گی ۔ تھک ہوا تھ سخت بھوک‬ ‫کے ب وجود نیند نے اس کو اپنی گرفت میں لے لی ۔ چوں کہ‬

‫‪58‬‬ ‫پیش کرکے نہیں سوی تھ اس لیے اسے آدھی رات کو اٹھن‬ ‫پڑا۔ زکو گہری نیند سو رہی تھی لہذا اس نے اسے جگ ن من س‬ ‫نہ سمجھ اور دوب رہ آ کر لیٹ گی ۔‬ ‫صبح ٹھیک ٹھ ک اٹھی بچوں کو کھا پا کر سکول بھیج دی ۔‬ ‫پھر خود بھی پیٹ بھر کر کھ ی ۔ وہ بھی اتنی دیر میں ک پر‬ ‫ج نے کے لیے تی ر ہو گی ۔ ن شتہ پ نی دینے کی بج ئے دانت ک‬ ‫درد لے کر بیٹھ گئی۔ کہنے لگی س ری رات درد سے سو نہیں‬ ‫ح اں کہ وہ خراٹے بھری نیند سوئی تھی۔ وہ خود ہی ‘سکی‬ ‫رسوئی میں گھس گی ۔ بھوک نے اسے نڈل کر دی ‘ جو ہ تھ لگ‬‫کھ لی ۔ وہ متواتر بولے ج رہی تھی۔ اس نے ک پر ج تے ہوئے‬ ‫کہ ‪ :‬ڈاکٹر کے پ س ج کر دوائی لے آن ۔ دانت ک درد سخت‬ ‫تک یف دیت ہے۔ پیسے تمہ رے پ س ہیں ہی۔ اس کے ب د کوئی‬ ‫جوا سنے بغیر ک پر چا گی ۔ اسے زکو کی اس حرکت پر‬ ‫کوئی غصہ نہ آی ‘ کیوں کہ یہ کوئی نئی ب ت نہ تھی روز ک رون‬ ‫تھ ۔‬ ‫رات کو ج گھر لوٹ تو اس نے پوچھ ‪ :‬دوا ائی ہو۔‬ ‫دانت میں سخت درد ہو رہ ہے۔ ‘اس نے جواب کہ ‪ :‬نہیں ائی‬ ‫ان تھی۔ خواہ مخواہ درد برداشت کر رہی ہو۔ ‘کیوں نہیں ائی‬ ‫لگت ہے دانت نک وان پڑے گ ۔‬

‫‪59‬‬‫کیوں نک واتی ہو‘ دانت دوب رہ تو نہیں اگے گ ۔ کھ نے پینے میں‬ ‫دشواری ہو گی۔‬ ‫ب طنی طور پر وہ چ ہت تھ کہ نک وا ہی لے چ و چ ر دن تو اس‬ ‫کے منہ کو چپ لگے گی۔ پھر وہ اس سے ج ی ہ دردانہ بحث‬ ‫کرت رہ ۔ اسے م و تھ کہ جس ک سے وہ منع کرئے گ زکو‬‫وہ ک کرکے ہی رہے گی۔ ک فی دیر بحث کرنے کے ب د اس نے‬ ‫کہ چ و جس طرح من س سمجھتی ہو‘ کر لو۔‬ ‫اچھ تو کل میں گ ؤں ج تی ہوں وہ ں سے دانت نک واتی ہوں۔‬ ‫ہم رے گ ؤں ک ڈاکٹر بڑا سی ن ہے۔‬‫دلی طور پر وہ چ ہت تھ کہ چ ی ہی ج ئے چ ر دن تو سکون کے‬ ‫کٹیں گے۔ دانت نک وا کر آئے گی تو بھی دو ایک دن اس کے‬ ‫منہ کو سکون رہے گ ۔‬ ‫اس نے کہ ‪ :‬شہر چھوڑ کر گ ؤں ج تی ہو۔۔۔۔ نہیں نہیں یہ ں ہی‬ ‫سے نک وا لو ی ڈاکٹر کو دیکھ لو جو مشورہ دے گ کر لین ۔‬ ‫اسے دوب رہ سے ن ٹک کرن پڑا۔ وہ گ ؤں ج نے پر اڑی رہی۔‬ ‫پھر اس نے کہ اچھ جیسے تمہ ری مرضی کر لو۔‬ ‫وہ اپنی جیت پر خوش تھی۔ ح اں کہ جیت اسی کی ہوا کرتی‬ ‫تھی۔ اگ ے دن صبح صبح ہی وہ گ ؤں ج نے کے لیے بچوں‬‫سمیت تی ر ہو گئی۔ ک پر ج تے ہوئے اس نے کہ گھر کی چ بی‬

‫‪60‬‬ ‫خ لہ رحمتے کو دے دین ۔‬ ‫زکو گ ؤں میں پورا ہ تہ گزار کر آئی۔ اس نے گھر آتے ہی اس‬‫سے دانت کے مت پوچھ ۔ تمہیں اس سے کی ۔ ت کون س میرا‬ ‫پوچھنے گ ؤں آ گئے تھے۔ اس نے ہ تہ عیش اور مرضی ک‬ ‫گزرا تھ ۔ دانت اس نے نک وای ی نہیں نک وای وہ یہ نہ ج ن سک‬‫ہ ں البتہ اس نے اس کی کوت ہی کی پ داش میں ہ تہ بھر کی یک‬ ‫مشت کسر نک ل دی اور اسے چوں تک کرنے ک موقع فراہ نہ‬ ‫کی ۔‬ ‫‪………………..‬‬

‫‪61‬‬ ‫دیگچہ تہی دامن تھ‬ ‫بہت پہ ے کی ن سہی لیکن اتن ضرور طے ہے کہ یہ ب ت پہ ے‬ ‫کی ہے۔ ا کہ دو نمبری کے لیے اتنی مشقت نہیں اٹھ ن پڑتی۔‬ ‫دو نمبری ک س م ن س می خود اپنے ہ تھ سے فراہ کرتی ہے۔‬ ‫ہ ں یہ ب ت حتمی طور پر نہیں کہی ج سکتی کہ دو نمبری کے‬ ‫لیے دو نمبر ک س م ن فراہ کی ج ت ہے۔ یہ بھی کہ چھین لینے‬ ‫ک رواج ع ہو گی ہے۔ ہتھی ر آکڑ خ ن کے لیے اٹھ ن پڑت ہے‬‫ورنہ قدرے شریف کو آنکھیں دیکھ کر اس کی گرہ ص ف کر لی‬ ‫ج تی ہے۔ اسی طرح قدرے شریف‘ شریف سے اونچی ی گا‬ ‫پھ ڑ آواز سے ک لے کر اس کی گرہ خ لی کرنے ک ڈھنگ‬ ‫خو خو ج نت ہے۔‬ ‫اس روز ان چ روں کو ک فی مشقت سے ک لین پڑا ت ج کر‬ ‫ڈوموں کی مرغی ہ تھ لگی۔ مرغی پ ی پائی ن یس اور بڑی‬ ‫نخرے والی تھی۔ جھ نسہ دینے میں بھی بڑی ط تھی۔ ادھر‬‫سے ادھر اور ادھر سے ادھر آنے ج نے میں اسے م کہ ح صل‬ ‫تھ ۔ وہ بھی ہٹ کے پکے تھے۔ ان ک روز ک ک تھ کیسے بچ‬ ‫کر نکل ج تی۔ س تھ کے گ ؤں کے مولوی ص ح سے تکبیر‬ ‫پڑھ ئی اور اسے ڈکرے ڈکرے کرکے دیگچے کے حوالے کر‬ ‫دی ۔ پکنے کے ب د حس م ہدہ چوتھ ئی مولوی ص ح کی‬

‫‪62‬‬ ‫خدمت میں نذرانہ پیش کر دی ۔ یہ ان ک یقین بہت بڑا احس ن تھ‬ ‫وہ حرا کو حال میں تبدیل کرنے میں ک یدی کردار ادا کرتے آ‬ ‫رہے تھے ت ہ حال کو حرا قرار دین بھی ان کے لیے قط‬ ‫دشوار نہ تھ ۔‬‫کھ نے لگے تو انہیں ایک انوکھ طور سوجھ ۔ ان میں سے ایک‬ ‫کہنے لگ ۔ اس پکوان کو کل صبح وہ کھ ئے جو س سے اچھ‬ ‫اور بڑھی خوا دیکھے۔ یہ تجویز س کو بھ ئی۔ پھر وہ آرا‬ ‫اور سکون کی نیند سو گئے۔‬ ‫اگ ی صبح اٹھے اور اپن اپن خوا سن نے لگے۔‬ ‫ایک نے اپن خوا سن ی کہ وہ س ری رات پیرس کے ب زاروں‬ ‫میں پھرا اور خو خریداری کی۔ پیرس کی نخری ی چھوریوں‬ ‫کے س تھ آنکھ مٹک کرت رہ ۔ ایک دو تو اس کی ب ہوں میں بھی‬ ‫رہیں۔‬‫س نے واہ واہ کی اور اس کے خوا کی اچھی خ صی داد دی۔‬ ‫دوسرے نے خوا سن ی کہ اسے خوا میں امریکی صدر کی‬ ‫ج ن سے امریکہ آنے کی دعوت م ی۔ وہ خوشی خوشی ہوائی‬ ‫جہ ز پر بیٹھ کر امریکہ گی ۔ امریکی صدر اور اس کے اع ی‬ ‫عہدےدار ہوائی اڈے پر اس ک استقب ل کرنے آئے۔ اس کے ب د‬ ‫وہ امریکی صدر کے س تھ بھ ری پہرے میں امریکہ کی سیر‬ ‫کرت رہ ۔ ایک دو جگہ پر اسے خط کرنے ک موقع بھی ما۔‬

‫‪63‬‬‫خوا کے اچھ نہیں‘ بہت اچھ ہونے میں رائی بھر شک نہ تھ ۔‬ ‫زمینی خدا کے س تھ ہون اور پھر اتنی عزت م ن کوئی ع ب ت‬ ‫نہ تھی۔‬ ‫ا تیسرے کی ب ری تھی۔ اس نے کہ خوا میں آسم نی گھوڑا‬‫اسے اسم نوں کی سیر کرانے کے لیے آ گی ۔ اس نے دل بھر کر‬‫چ ند ست روں کی سیر کی۔ حوریں اور فرشتے قط ر در قط ر اس‬ ‫کے س تھ رہے۔ پھر اس نے جنت کی سیر کی۔ بڑے بڑے‬ ‫بزرگوں سے بھی ماق ت ہوئی۔‬ ‫یہ خوا پہ ے دونوں کو کٹ کر رہ تھ ۔ پکوان پر اسی ک ح‬ ‫ٹھہرت تھ ۔‬ ‫چوتھے نے کہ ی ر رات کو میرے س تھ بڑا دھرو ہو گی ۔ س‬ ‫پریش ن ہو گئے اور یک زب ن ہو کر بولے کیوں کی ہوا۔ بوا ی ر‬ ‫ہون کی تھ میں گہری نیند سو رہ تھ کہ ایک حبشی جس کے‬ ‫ہ تھ میں تیز دھ ر ت وار تھی۔ اس نے مجھے زور سے‬ ‫جھنجھوڑا۔ میں ڈر کر اٹھ بیٹھ ۔ اس نے ت وار دیکھ تے ہوئے‬‫کہ ‪ :‬یہ تمہ رے دوست ہیں تمہیں یہ ں اکیا چھوڑ کر موج مستی‬ ‫کر رہے ہیں۔ چل اٹھ اور تو مرغی کھ کر دیگچہ خ لی کر۔ میں‬ ‫نے ج پس وپیش کی تو اس نے مجھے ت وار دیکھ تے ہوئے‬ ‫کہ اگر نہیں کھ ئے گ تو تمہ را سر اڑا دوں گ ۔ زور دبردستی‬ ‫کے س منے ک کسی کی چ ی ہے‘ مجبورا مجھے س را دیگچہ‬

‫‪64‬‬ ‫خ لی کرن پڑا۔ یقین م نیں پریش نی اور بدہضمی کے سب اس‬ ‫کے ب د مجھے نیند نہ آ سکی۔‬‫تینوں ج دی سے دیگچے کی ج ن بڑے‘ دیکھ دیگچہ اپنی تہی‬ ‫دامنی پر خون کے آنسو بہ رہ تھ ۔‬

‫‪65‬‬ ‫حک عدولی‬‫زندگی جو جیسی تھی‘ چل رہی تھی۔ ہر کوئی اپنے ک میں مگن‬ ‫تھ ۔۔ گری ‘ گربت عسرت بےبسی بےچ رگی اور تنگی ترسی‘‬ ‫چودھری بامشقت عیش وعشرت اور مولوی ص ح مذہبی‬ ‫مس ے مس ئل سن کر چوپڑی کھ نے میں مصروف تھے۔ کوئی‬ ‫م م ہ الجھ ج ت تو چودھری کے ڈیرے پر چا ج ت اور وہ ں‬ ‫سے اپنے بندے انص ف لے کر خوشی خوشی اور جیت کے‬ ‫نشے میں گھر لوٹتے۔ کوئی الجھ ؤ کی گھمیر صورت نہ تھی۔‬ ‫ہر کسی ک شخصی اسٹیٹس طے تھ ۔ صدیوں سے چودھری‬ ‫زمین ک م لک تھ ‘ ب قی اس کے ک مے ی پھر کچھ کمی تھے۔‬‫مراسی ب طور ڈاکی اور ای چی اپنے فرائض انج دیت تھ ۔ مولوی‬ ‫ص ح مذہبی امور اپنی مرضی اور اپنے س یقے سے طے‬ ‫کرتے تھے۔ م ئی ص حبہ بچوں کو چ ر دیواری میں ت ی دیتی‬ ‫تھیں۔ گوی زندگی س لوں سے ایک ہی ڈگر پر چ ی آ رہی تھی۔‬‫چھوٹی موٹی زمینی و سم وی آف تیں ٹوٹتی رہتی تھیں لوگ اپنی‬ ‫مدد آپ کے تحت ان سے نپٹتے رہتے تھے اور اپنی بس ت میں‬ ‫رہتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کرتے۔ کچھ مجبوروں کی‬ ‫مجبوری سے ف ئدہ بھی اٹھ تے۔ چودھری اپنوں اور جوان‬‫بیٹیوں اور بہنوں والوں کی مدد کرت ۔ ب قی لوگوں کو تس ی تش ی‬

‫‪66‬‬‫دیت ۔ اپنے حری وں ی بدتمیزوں کی م لی اور زب نی خو لہہ پہہ‬ ‫کرت ۔ مولوی ص ح دع وغیرہ کرنے کے س تھ س تھ لوگوں کو‬ ‫ان کے گن ہوں کی ی د داتے۔ اکثر فرم تے یہ س ش مت اعم ل‬ ‫ہے۔ تمہ رے کیے کے جر میں یہ عذا اترا ہے۔ توبہ کرو‬ ‫صدقہ خیرات کرو اور ہ کے گھر کی خو خدمت کرو ت کہ ت‬ ‫پر آسم ن سے آس نی ں ن زل ہوں۔‬‫وہ مصیبت ی عذا سے زی دہ قی مت تھی۔ اس ہڑ کے سب لوگ‬ ‫پریش نی اور افرات ری میں گھر گئے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہ‬ ‫تھ کہ کی کریں اور کی نہ کریں۔ لوگوں کو اشی سے زی دہ ج ن‬ ‫کی فکر تھی۔ ج ن بچ گئی تو یہ چیزیں دوب رہ سے بن ج ئیں‬ ‫گی۔ ج ن ہی نہ رہی تو چیزوں کو سر میں م رن ہے۔‬ ‫چودھری کو اپنی پڑی تھی وہ کسی اپنے بندے کی کی مدد کرت ۔‬ ‫آخر س جڑ کر مولوی ص ح کے پ س گئے کہ دع کریں کہ‬ ‫آسم ن سے آس نی ں ن زل ہوں۔ مولوی ص ح کے اپنے ہ تھوں‬ ‫کے توتے اڑے ہوئے تھے۔ اس کے ب وجود انہوں نے کہ کہ ت‬ ‫س ہ کو م ننے والے ہو بس ہ شریف پڑھو اور پ نی میں‬ ‫قد رکھو اور اس کی برکت سے دوسرے کن رے پر پہنچ ج ؤ۔‬ ‫چودھری سمیت س نے مولوی ص ح کے کہے پر عمل کی‬ ‫اور ہ کے فضل وکر اور احس ن سے‘ سامتی کے س تھ دری‬ ‫کے دوسرے کن رے پر پہنچ گئے۔ انہیں کچھ بھی نہ ہوا‘ ح اں‬

‫‪67‬‬‫کہ دری س کچھ مٹ دینے پر تا ہوا تھ ۔ ہ کے کا اور ہ پر‬ ‫ک مل یقین ہونے کے سب وہ ان ک کچھ بھی نہ بگ ڑ سک ۔‬ ‫مولوی ص ح ان میں نہ تھے۔ لوگ پریش ن ہوئے کہ اتن نیک‬ ‫اور ہ ک بندہ ان کے س تھ نہیں ہے۔ انہوں نے دیکھ مولوی‬ ‫ص ح اپنے بیوی بچوں سمیت چودھری کی رہ ئش گ ہ کی‬ ‫تیسری منزل پر کھڑا تھ ۔ انہوں نے مولوی ص ح کو آوازیں‬ ‫دی کہ آپ بھی ہ کو ی د کرکے بس ہ شریف پڑھ کر آ ج ئیں۔‬ ‫مولوی ص ح ٹس سے مس نہ ہوئے۔ پھر ایک قی مت خیز لہر‬ ‫ابھری اور گ ؤں ک ن و نش ن تک ب قی نہ رہ ۔ ہ ں البتہ مولوی‬ ‫ص ح ک بڑا بیٹ ب پ کی حک عدولی کرکے گ ؤں والوں کے‬ ‫س تھ آ گی تھ ۔‬

‫‪68‬‬ ‫لوگ کی ج نیں‬ ‫شمو کی ش دی کو چھے س ل ہو گئے تھے۔ یہ اس کے پی ر کی‬ ‫تیسری ش دی تھی۔ اس کی گود ابھی تک خ لی تھی۔ پہ ے پی ر‬‫سے حمل ہوا تھ جو اس نے دوسرے پی ر میں اندھی ہو کر گرا‬‫دی تھ ۔ دوسرا تین س ل چا لیکن امید سے نہ ہوئی۔ تیسرے پی ر‬ ‫سے ابھی تک کوئی پی ر کی نش نی س منے نہ آ سکی تھی۔ پھر‬ ‫وہ اچ نک ایک مق می ب ب ص ح کے مزار پر ح ضری دینے‬ ‫لگی۔ بگو نے سمجھ بےچ ری کی گود خ لی ہے اسی لیے ب ب‬‫ص ح کے درب ر پر ح ضری دینے لگی ہے۔ بگو ک دل بھی گھر‬‫کی رون کے لیے مچل مچل رہ تھ لیکن یہ اس کے اختی ر میں‬ ‫نہ تھ ۔ یہ تو ہ کری کی مہرب نی ہوتی ہے کہ وہ گھر کو‬ ‫رونقیں بخش دے ی وہ ویرانہ رہے۔ اگر یہ شخص کے بس ک‬ ‫روگ ہوت تو دھن دولت ہی نہیں اواد ک میوا بھی اہل ثروت‬ ‫اپنے تک محدود رکھتے۔‬‫نے سوچ کیوں نہ یکھ ج ئے کہ ش و ب ب ص حب‬ ‫یک‬‫کے رب ر پ کس ط سے ور کی ع م نگتی ہے۔ وہ رب ر‬‫کے عقب میں چھپ گی ۔ ش و کی ع سن ک حی ت میں گم ہو گی‬‫ور کچھ نہ س ھ پ ی ۔ وہ بڑی آہ تگی سے بڑے ق موں‬‫سے پہ ے گھ آ گی ور سوچنے لگ کہ وہ ق م کی ع کیوں‬

‫‪69‬‬ ‫م نگ رہی ہے۔ ک سوچ سوچ ک م پھٹنے لگ ۔ نے‬ ‫گ ے رو وب رہ سے رب ر پ ج نے ک فی ہ ک لی ۔ تنی ی‬ ‫میں ش و گھ لوٹ آئی۔ وہ چپ رہ ور ش و کو کچھ نہ جت ی ۔‬ ‫گ ے وہ ش و سے تھوڑ پہ ے رب ر پ پہنچ گی ۔ ش و بھی‬ ‫تھوڑی ی کے ب رب ر کے ن ر خل ہوئی۔ نے وب رہ‬ ‫سے ع م نگن ش و ک ی۔‬ ‫پی بگو کو ن ھ ک ے میں میٹھے چ ولوں کی یگ چڑھو‬ ‫چڑھ ؤں گی۔‬ ‫بگو نے آو ب ل ک کہ ‪ :‬ٹھیک ہے بچہ ہم تی ی ع قبول ک تے‬ ‫ہیں۔ پ یک ش ط ہے۔‬ ‫حکم ک سوہنی پی‬ ‫ج بچہ تیس پنے شوہ کو ی ی گھی میں ی ی م غ بھو‬ ‫ک کھا۔ کی آنکھوں میں چ بی چڑھ آئے گی ور وہ کچھ‬ ‫بھی نہ یکھ سکے گ ۔‬ ‫ٹھیک ے پی میں آج سے ہی یہ ک ش و ک یتی ہوں۔‬ ‫نے گھ آ ک ی ی م غ بح ک و ی ور سے ی ی گھی‬ ‫میں بھون ۔ بگو کو بڑی پ یٹ میں ڈ ل ک ے ی ۔ بگو ج ی‬ ‫حی نی سے کہنے لگ ۔ بھ ی بڑی خ مت ک رہی ہو خی تو ہے۔‬ ‫ش و نے بھ پور ک ری یکھ تے ہوئے کہ ‪ :‬میں نے سوچ ک‬

‫‪70‬‬ ‫بہت ک تے ہو ت ہیں چھی ور ب ست خور ک کی ض وت ہے۔‬ ‫کچھ ی ی گھی میں بھن م غ کھ ؤ گے تو ت ہ ری ج بن‬ ‫ج ئے گی۔‬ ‫و ہ بھ ی و ہ۔ کی ب ت ہے۔‬ ‫پھ وہ کچھ ی تک ج ی پی ر محبت کی ب تیں ک تے رہے۔‬ ‫ی ی گھی میں بھن م غ کھ کھ ک بگو کی و ق ی ج بن گ ی۔‬ ‫م غ کھ تے وہ ب ئی و ں تھ ۔ بگو کہنے لگ ۔ ش و ی ر یہ‬ ‫م ھے کی ہو رہ ہے۔ جی گھب رہ ہے ور آنکھوں میں ت رے‬ ‫سے ن چنے لگے ہیں۔ ش و جی میں خو ہوئی کہ پی کی‬ ‫ک مت س منے آ رہی ہے۔‬ ‫وہ یہ نہیں ج نتی تھی کہ سچے پی ک ی ک ک ی بھی صورت‬ ‫میں ب نہیں ک تے۔‬ ‫نے قی متی م ک ہٹ کے س تھ کہ کچھ نہیں ہو بس ت ہیں‬ ‫وہم ہو رہ ہے۔‬‫کے ب نے ن کے کم ور پھ تق یب ختم ہونے کی‬ ‫خب سن ئی۔ آخ تی ویں کچھ بھی ن نہ آنے کی خو‬ ‫خب ی سن ہی ی۔ وہ ش و کی خوشیوں ک تھ ۔ ک‬ ‫مین پ پی ہی نہیں آ رہ تھ ۔‬ ‫بگو نے کہ ‪ :‬میں ک ی ک ک نہیں رہ ڈیوڑی میں می من‬

‫‪71‬‬ ‫بچھ و ور می کھونڈ ے و کتے ب ے ن ر نہ آنے وں گ ۔ آ‬ ‫ک چی وں ک ستی ن م ر یتے ہیں۔‬ ‫ش و نے کہ ‪ :‬ٹھیک ہے۔‬ ‫نے ڈیوڑی میں سے من بچھ ی ۔ وہ ج نت تھ کہ ش و‬ ‫ج گ رہی ہے۔ تھوڑی ہی ی ب وہ ج ی خ ٹے بھ نے لگ ۔‬ ‫ش و گھ سے چپکے سے ب ہ نکل گ ی ور کچھ ی کے ب‬ ‫و پس آ گ ی۔ نے چھی ط یکھ ۔ بگو گہ ی نین سو رہ‬ ‫تھ ۔‬ ‫کچھ ہی ی ہوئی ہو گی کہ یک مشٹنڈ چپکے چپکے گھ میں‬ ‫خل ہونے لگ ۔ وہ ہنی طور پ تی ر تھ ۔ بگو نے کے س پ‬ ‫ی کھونڈ م ر کہ وہ چوں بھی نہ ک سک ور پ ؤں پ ٹکی ہو‬ ‫گی ۔‬ ‫گھنٹہ ہی گ ر ہو گ یک ور مشٹنڈ گھ میں خل ہونے لگ‬ ‫کے س تھ بھی وہی کچھ ہو ۔ غ س گی وی ے تک گی رہ ڈھی‬ ‫ہو گ ے۔ ن ر ش و چ رپ ئی پ ک و ٹیں لے رہی تھی۔ سے پنے‬ ‫پی روں کے پی ر پ س ت غ ہ آ رہ تھ ۔ پھ وہ تھک ہ ر ک‬ ‫سو رہی۔‬ ‫بگو چ رپ ئی سے ٹھ ور نے ڈبو چ سی کو ج ٹھ ی ۔‬ ‫کے م ل پ نی ک نے پہ ے ہی بن وب ت ک رکھ تھ ۔ جب وہ‬‫آس نو کی سی یں ک نے لگ تو نے سے نوٹ وکھ ئے ور‬

‫‪72‬‬ ‫کہ ی ر یہ ا ری میں پھنک آؤ ور آ ک س رے نوٹ لے لو۔‬ ‫ڈبو چ سی ری میں ا پھینکنے چا گی تو نے یو ر کے‬ ‫س تھ وس ی ا کھڑی ک ی۔‬ ‫و پس آ ک کہنے لگ اؤ نوٹ تو بگو نے کہ ا تو پھینک ک‬ ‫آؤ وب رہ سے آ گ ی ہے۔ ڈبو چ سی ر ت بھ سی ک میں‬ ‫م وف رہ ۔ جب آت ا وہ ں کھڑی ہوتی۔ گی رویں ا‬ ‫ٹھک نے لگ تے تق یب چڑھ گی تھ ور یک بن ہ ری نہ ک‬ ‫گھ و پس ج رہ تھ ۔ ڈبو چ سی کو بڑ قہ آی کہ یہ پھ‬ ‫وب رہ سے و پس ج رہ ہے۔ نے سے گ سے پکڑ ور‬ ‫گ لی ں بکت ہو ری کے ن ر لے گی ۔ سے خو ڈبکی ں یں جب‬ ‫م گی تو و پس بگو کے پ آ گی ور کہنے لگ س ا ری سے‬ ‫نکل ک و پس آ رہ تھ ش نہیں آئے گ ش میں سے م ر ک ہی‬ ‫و پس آی ہوں۔‬ ‫بگو ہن ور کہنے لگ گی رہ ش و کے یک ت ہ ر ۔ ڈبو چ سی‬ ‫کچھ نہ س ھ ور مط ب پوچھنے لگ ۔ خی چھوڑو تم یہ کش‬ ‫لگ ؤ ور نوٹ جیب میں پ ک غ ئب ہو ج ؤ۔ صبح عاقے میں‬ ‫کہ مچ گی لوگ کی ج نیں کہ گی رہ جن ی پی ر کی بھینٹ چڑھ‬‫گ ے جب کہ ب ہ و ں ح ویں جن ی پی ر کی غ ق بی کی ر ہ میں‬ ‫آنے کے سبب ری ب ہو گی‬

‫‪73‬‬ ‫چپ ک م ہدہ‬‫ہم ری س تھ کی گ ی میں ایک ص ح رہ کرتے تھے جو آنٹ جی‬ ‫کے ن سے م روف تھے۔ کی ک کرتے تھے۔ کوئی نہیں ج ن‬ ‫پ ی ن ہی کسی کے پ س اتن وقت تھ کہ ان کی کھوج کو نک ت ‘‬ ‫ان کی بیگ اتنی م نس ر نہ تھی کہ اس کے پ س عورتیں آ کر‬ ‫بیٹھ ج تیں۔ وہ کسی سے کوئی ب ت ہی نہ کرتی تھی۔ اگر کوئی‬ ‫عورت اس کے پ س ج تی تو مسکرا کر م تی۔ آنے والی کی‬ ‫ب تیں سن لیتی لیکن خود ہوں ہ ں سے زی دہ ب ت نہ کرتی۔ مح ہ‬ ‫میں کسی عورت سے م نے ی اس کے دکھ سکھ میں نہ ج تی۔‬ ‫ہ ں آنٹ جی کوئی مر ج ت تو اس ک جن زہ ہر صورت میں اٹنڈ‬ ‫کرتے اور بس وہیں سے گھر لوٹ ج تے۔‬ ‫ش کو گھر آتے اور پھر تھوڑی ہی دیر ب د بیٹھک میں آ بیٹھ‬‫ج تے اور دیر تک اکی ے ہی بیٹھے رہتے۔ ہ ں مح ہ کے چھوٹے‬‫چھوٹے بچے ان کی بیٹھک میں جمع رہتے اور وہ ان کے س تھ‬ ‫بچوں کی طرح کھی تے ان کے س تھ خو موج مستی کرتے۔‬ ‫جی میں کھا رکھتے با ت ری بچوں کو پیسے دیتے۔ چھٹی‬ ‫واا دن ان بچوں کے س تھ بیٹھک میں گزارتے۔ کسی بچے کو‬ ‫کوئی م رت تو لڑ پڑتے چ ہے اس بچے ک ب پ ہی کیوں نہ ہوت ۔‬

‫‪74‬‬‫میں نے غور کی ایک بچے کے س تھ وہ خصوصی برت ؤ کرتے۔‬‫وہ بچہ بھی ان کے س تھ بڑا م نوس تھ ۔ ایک ب ر میں نے دیکھ‬ ‫کہ اس بچے ک ن ک بہہ رہ تھ اور وہ اس ک ن ک بڑے پی ر‬ ‫سے اپنے روم ل کے س تھ صآف کر رہے تھے۔ میں ان کی‬ ‫بیٹھک میں داخل ہو گی ۔ انہوں نے بڑی اپن ہت سے بیٹھنے کو‬‫کہ اور دوب رہ سے اس بچے ک ن ک ص ف کرنے لگے۔ میں نے‬ ‫پوچھ ہی لی کہ یہ آپ ک بچہ ہے۔ انہوں نے میری طرف‬ ‫دیکھنے کی بج ئے اس بچے سے پوچھنے لگے تمہ ری م ں‬ ‫کو میں نے دیکھ ہوا ہے۔ بچے نے ن ی میں سر ہای ۔ ج میں‬ ‫نے اس کی م ں کو دیکھ ہی نہیں تو اس کی کیسے دیکھ لی۔‬ ‫پھر میری طرف دیکھ اور کہ نہیں جی یہ میرا بچہ نہیں ہے۔‬ ‫مجھے ان کی اس حرکت پر حیرت ہوئی اور میں چپ چ پ اٹھ‬ ‫کر وہ ں سے چا گی ۔ مجھے ان کی یہ حرکت بڑی عجی لگی۔‬ ‫یہ حرکت تھی بھی عجی نوعیت کی تھی۔‬ ‫ایک دن م و ہوا آنٹ جی فوت ہو گئے ہیں اور بیٹھک میں ہی‬ ‫ان کی موت ہوئی۔ کی وہ اندر نہیں سوتے تھے۔ اس روز وہ‬ ‫آنٹی دھ ڑیں م ر م ر کر روئی اور انہیں اکاپے ک احس س ہوا۔‬‫وہ ان کی تھی تو بیوی لیکن بیوی کے اطوار نہ رکھتی تھی۔ وہ‬ ‫اس ک ہر قس ک خرچہ پ نی‬ ‫اٹھ ئے ہوئے تھے۔‬

‫‪75‬‬ ‫دس بیس س ل پہ ے منہ میں ڈھ ئی گز زب ن رکھتی تھی۔ اس ک‬‫آگ پچھ کوئی بھی نہ تھ ۔ ب نجھ بھی تھی۔ اس کے ب وجود انہوں‬ ‫نے اسے برداشت کی ہوا تھ ۔ تین ب ر طا طا طا کہنے‬ ‫سے ہمیشہ کے لیے خاصی ہو سکتی تھی۔ وہ ان کی خ لہ کی‬ ‫لے پ لک بیٹی تھی۔ م ں نے مرتے وقت بیٹے سے اپنے سر پر‬ ‫ہ تھ رکھ کر قس لی تھی کہ کبھی اور کسی صورت میں اس ک‬ ‫س تھ نہیں چھوڑے گ ۔ بس آنٹ جی کے منہ کو ت ا لگ گی اور‬ ‫وہ بیٹھک اور مح ہ کے بچوں کے ہو رہے۔ آنٹی اور آنٹ جی‬ ‫کے درمی ن چپ ک م ہدہ ہو گی تھ ۔‬ ‫ا وہ دروازے کی دہ یز پر بیٹھی رہتی تھی۔ ج بھی کوئی آنٹ‬ ‫جی ک ذکر کرت تو زار و قط ر رونے لگتی لیکن منہ سے کچھ‬ ‫نہ کہتی۔ بڑی ب ت ہے کہ اتن بڑا س نحہ گزر گی آنٹ جی ہمیشہ‬ ‫کے لیے چ ے گئے پھر بھی اس نے چپ ک م ہدہ نہ توڑا۔‬

‫‪76‬‬ ‫ک لی زب ن‬‫جیج ں اور س ئیں کی دو س ل سے سا دع چل رہی تھی۔ انہوں‬ ‫نے ایک س تھ مرنے جینے قسمیں کھ رکھیں تھیں۔ م شقہ‬‫اپنی جگہ دونوں برے نہ تھے اور ن ہی ان کی محبت رواجی اور‬ ‫وقتی تھی۔ انہوں نے ایک س تھ رہ کر اور موقع م نے کے‬ ‫ب وجود کوئی ن ش ئستہ حرکت نہ کی تھی۔ اس رشتے کے ب رے‬ ‫ہر روز دونوں گھروں میں گرم گر بحث اور تکرار چ تی۔‬ ‫م م ہ سنورنے کی بج ئے دن بہ دن الجھت ہی ج رہ تھ ۔‬ ‫س ئیں کی م ں ج کہ جیج ں ک ب پ اس رشتے کے زبردست‬‫ح می تھے۔ اطراف میں کڑی منڈا اپنی جگہ می ں بیوی ک جھگڑا‬ ‫چ ت ۔ ب طور ہ س یہ ت ق ت بھی برے نہ تھے۔ وہ لوگ ایک‬ ‫دوسرے کی عزت اور پ س لح ظ کرتے تھے۔ لین دین بھی تھ ۔‬ ‫اوکھے سوکھے وقت میں ایک دوسرے کے ک بھی آتے تھے‬ ‫لیکن رشتہ داری بننے کی راہ میں ظ ل سم ج بنے ہوئے تھے۔‬ ‫کہ ج ت تھ کہ س ئیں کی زب ن ک لی ہے۔ اس روز ب پ بیٹے میں‬ ‫بڑی تکرار ہوئی۔ وہ ایک دوسرے کو م رنے پر ت ے ہوئے‬‫تھے۔ س ئیں تھک ہ ر کر سر پکڑ کر وہیں زمین پر بیٹھ گی ۔ اس‬ ‫کی م ں آ گئی اور بیٹے کو داس دینے لگی۔ س ئیں ک ب پ بوا‬ ‫جتنے مرضی داسے دے لو میں یہ رشتہ نہیں کرنے واا۔‬

‫‪77‬‬ ‫س ئیں کے منہ سے بےس ختہ نکل گی ی ہ میرا ب پ مر ہی‬ ‫ج ئے۔ س ئیں ک ب پ اندر سے ک نپ گی لیکن اکڑ ق ئ رکھتے‬ ‫ہوئے کہنے لگ ‪ :‬جتنی مرضی بددع ئیں م نگ لو میرا کچھ نہیں‬ ‫بگڑے گ ۔‬ ‫س ئیں ک ب پ س ری رات نہ سو سک ۔ اس کے اندر قی مت مچی‬‫رہی۔ صبح وہ صحیح سامت اٹھ ۔ ہ ں البتہ جیج ں ک ب پ مر گی ۔‬ ‫وہ س ئیں کی م ں کو شریف عورت سمجھ رہ تھ لیکن وہ تو‬ ‫چھپی رست نک ی۔ یہ ب ت ضرور خوش آئند تھی کہ وہ بچ گی‬ ‫اور یہ بھی پردہ میں رہ گی کہ جیج ں مرحو کی نہیں لبھو کی‬ ‫بیٹی ہے۔ س ئیں کی ک لی زب ن نے ایک ک پردہ ج کہ دوسرے‬ ‫ک پردہ چ ک کر دی ۔‬

‫‪78‬‬ ‫فیص ہ‬ ‫ندی پر بڑی سی لکڑی رکھ کر لوگوں کی سہولت کے لیے‬‫چودھری نے پل بنوای تھ ۔ ندی پ ر آب دی نہ تھی محض جھ ڑی ں‬ ‫تھیں۔ عورتیں مل کر رات کو جھ ڑے کے لیے ندی پ ر ج تی‬ ‫تھیں۔ جھ ڑے کے س تھ س تھ م مات کی مش ورت ج ری رہتی۔‬ ‫زی دہ تر س س سسر ی پھر نند کی زی دتی ں ی پھر جنسی‬ ‫کرتوتوں کے قصے بھی زیر بحث آتے۔ دو ایک خ وند بھی‬ ‫گ تگو کی گرفت میں آ ج تے۔ رات کو ہونے والے مذاکرات اگ ی‬ ‫صبح گھر کے ک ک ج سے فراغت اور خ ندوں کو ک پر روانہ‬ ‫کرنے کے ب د دو دو گھنٹے ب ض اوق ت اس سے بھی زی دہ‬ ‫وقت دیوار پر کھڑے ہو کر رواں اور باتھک ن تبصرے ہوتے۔‬ ‫اس دن چودھری کے ڈیرے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ شیدو نے‬ ‫بت ی کہ اس کی عورت نے بت ی ہے کہ ندی پ ر رات کو کبوتر‬ ‫آتے ہیں۔ ڈیرے سے سنی ب ت کھبو نے گھر آ کر اپنی زن نی کو‬ ‫بت ئی۔ اس کی زن نی نے پت نہیں رات بھر یہ ب ت کس طرح ہض‬ ‫کی پھر صبح اٹھتے ہی ہ س ئی کے ک ن میں ڈالی۔ پھر یہ ب ت‬ ‫ایک سے دوسری پھر تیسری غرض ش تک وہ مح ہ کی آس‬ ‫پ س کے مح وں میں اپڑ گئی۔ اگ ے وقتوں میں ریڈیو ٹی وی ی‬ ‫موب ئل فون نہیں ہوا کرتے تھے‘ بس اسی طرح سے دور دراز‬

‫‪79‬‬ ‫کے عاقوں کی خبریں دنی بھر میں پھیل ج تیں تھیں۔ کوئی‬ ‫دوسری وائت سے آت کوئی نئی خبر ات تو یہ پورے عاقے‬ ‫میں پھیل کر مخت ف نوعیت کے تبصروں کی زد میں آ ج تی۔‬ ‫یہ خبر کہ را نگر کی جھ ڑیوں میں کبوتروں کی ڈاریں کی‬ ‫ڈاریں رات کو اترتی ہیں‘ جئےپور پہنچنے میں کوئی زی دہ دیر‬‫نہ لگی۔ وہ ں کے م روف شک ری رات کو ان جھ ریوں میں پہنچ‬ ‫گیے۔ صبح تک کبوتروں ک انتظ ر کرتے رہے لیکن صبح تک‬ ‫ایک کبوتر بھی نہ آی ۔ انہوں نے صبح اٹھ کر دیکھ ۔ ایک کبوتر‬‫کے کچھ پر بکھرے پڑے تھے۔ انہیں سخت م یوسی ہوئی۔ انہوں‬ ‫نے طے کی آئندہ زن نیوں کی ب توں میں آ کر عم ی قد نہیں‬ ‫اٹھ ئیں گے۔‬ ‫افسوس یہ فیص ہ محض زب نی کامی ک تھ ۔ عمل زن نیوں کے‬ ‫کہے پر ہی ہوت رہ اور ہوت آ رہ ہے۔ اگ ے وقتوں میں کھم‬ ‫سے ڈار بنتے تھوڑا وقت لگت تھ لیکن آج بھا ہو موب ئل فون‬ ‫ک ایس ہونے کے لیے منٹ سکنٹ خرچ ہوتے ہیں۔ مڈی بھی‬ ‫کمپنی کی مشہوری کے لیے کچھ ک کچھ بن دیت ہے۔‬

‫‪80‬‬ ‫ق تل‬‫بہت سے اوروں کے ک رن مے ش ہوں اور ش ہ والوں کے کھ تے‬ ‫چڑھتے آئے ہیں اور آتے وقتوں میں ان ک رن موں کے حوالہ‬ ‫سے ش ہ اور ش ہ والے ج نے اور پہچ نے گئے ہیں۔ اسی طرح‬ ‫ن کردہ ی ش ہوں کے کردہ پ پ اور جر ک زوروں ک مقدر‬ ‫ٹھہرے ہیں۔ ہٹ ر انس نیت ک بدترین دشمن کہ ج ت ہے لیکن‬‫میں خون میں رنگ دینے واا چٹ س ہل پر نہ ی ت ریخ‬ ‫کے اورا پر نظر آت ہے۔ دھرتی اور دھرتی والوں سے غداری‬ ‫کرنے والے شورےف میں داخل ہوئے۔ اندھیر یہ کہ آج بھی‬ ‫انہیں قو کے ہیرو سمجھ اور ج ن ج ت ہے۔‬‫شکورے کے س تھ بھی کچھ ایس ہی ہوا ح اں کہ وہ وچ رہ ش ہ‬ ‫ی کسی ش ہ والے ک غدار نہ تھ ۔ مشقتی تھ صبح ج ت رات کو‬ ‫آت ۔ جو محنت نہ میسر آت بیوی بچوں پر خرچ کر دیت ۔ اپنے لیے‬‫ایک پ ئی بھی بچ کر نہ رکھت ۔ اس ک مؤقف تھ اگر یہ پل سمبھ‬ ‫گئے تو وہ س ل ہو ج ئے گ ۔ اس ک خ وص اور پی ر اس کی‬‫کپتی بیوی کے نزدیک ص ر کی حیثیت نہ رکھت تھ ۔ اس ک خی ل‬‫تھ کہ شکورے نے ب ہر ب ہر بہت کچھ جمع کر رکھ ہے اور اس‬ ‫جمع پونجی پر س نپ بن کر بیٹھ ہوا ہے۔ اکھ قسمیں کھ نے‬ ‫اور یقین دانے کے ب وجود وہ اپنی ہٹ پر ڈٹی ہوئی تھی۔ وہ‬

‫‪81‬‬ ‫چ ہتی تھی کہ س ری جمع پونجی اور مک ن جو شکورے کو‬‫واراثت ما تھ ۔ اس کے ن کرکے مرنے کی کرے۔ اس کے پ س‬‫تھ ہی لی جو بیوی کے ن کر دیت ۔ رہ گی مک ن وہ کون س اس‬ ‫نے قبر میں لے ج ن تھ ۔ بچوں ک ہی تو تھ ۔‬ ‫اس کی بیوی ک اصل مس ہ یہ تھ کہ وہ س کچھ ح صل کرکے‬ ‫اپنے ی ر ڈرائیور کے س تھ جنت بس ن چ ہتی تھی۔ خود تو س را‬ ‫دن کھ تی پیتی اور جی بھر کر سوتی ج شکورا گھر آت تو‬ ‫کوئی ن کوئی بہ نہ تراش کر رات گئے تک اس کی م ں بہن ایک‬ ‫کر دیتی۔ وہ وہ ب تیں اس سے منسو کر دیتی جن ک اس کے‬ ‫فرشتوں کو بھی ع نہ ہوت ۔ وہ ج ن چھڑانے کی اکھ کوشش‬ ‫کرت مگر کہ ں۔ رات گئے تک مخت ف قس کے میزائل اور ب‬ ‫برس تی۔ بڑی مشکل سے خاصی ہوتی تو بن کھ ئے پئے صبر‬ ‫شکر کے گھونٹ پی کر سو رہت ۔ وہ یہ س اس لیے برداشت‬ ‫کرت کہ اس کے بچے بڑے ہو کر یہ نہ کہیں کہ ب پ نے انہیں‬ ‫راہ میں ہی چھوڑ دی ۔‬ ‫اس دن تو کم ل ہی ہو گی ۔ ش نو نے ایس الزا اس پر دھر دی‬ ‫جو کبھی اس سے مت رہ ہی نہ تھ ۔ لڑائی میں کہنے لگی ت‬‫نے اپنی پہ ی بیوی اور بچے کو اپنی م شوقہ رجو کے لیے زہر‬ ‫دے کر م ر دی ۔ اس بیوی کو م را جو اس کی ج ن تھی ج کہ‬ ‫بچہ بڑی منتوں مرادوں سے ہوا تھ ۔ شکورے نے پوچھ یہ‬ ‫تمہیں کس نے بت ی ‘ کہنے لگی تمہ ری بھرج ئی نے جو بڑی‬

‫‪82‬‬ ‫کھری عورت تھی۔ وہ کھری عورت جو پچ س خص بدل کر آئی‬ ‫تھی۔ سچ اور ح کی سخت دشمن تھی۔ وہ یہ س سن کر بڑا‬ ‫حیران ہوا اس نے اپنے بچے اور بیوی کو اس رجو کے لیے‬‫م را جسے اس نے کبھی دیکھ سن ہی نہ تھ ۔ ج ن پہچ ن ی پی ر‬ ‫محبت تو بڑی دور کی ب ت۔‬‫آدھی رات کو ب آواز ب ند کہی گئی اس ب ت کو آج چ لیس برس ہو‬ ‫چ ے ہیں۔ وہ بہ مشکل چ ت پھرت ہے لوگ اسے آج بھی بیوی‬‫اور بچے ک ق تل سمجھتے ہیں۔ وہ مسجد میں سر پر کا مقدس‬ ‫رکھ کر قسمیں کھ چک ہے لیکن لوگ کہتے ہیں چور ی ر اور‬ ‫ٹھگ کی قس ک اعتب ر نہیں کی ج سکت ۔ اس کی شرافت اور‬‫عاقہ کے لوگوں سے بھائی کسی کو ی د تک نہیں۔ قی مت یہ کہ‬ ‫اسے اس کے بچے بھی بڑی امی اور اپنے بڑے بھ ئی ک ق تل‬ ‫سمجھتے ہیں۔ حیرت کی ب ت یہ کہ شکورے کی بیوی نہ ش ہ‬ ‫تھی اور نہ ش ہ والی تھی اس کے ب وجود اس ک کہ ش ہ ی ش ہ‬ ‫والی ک س ث بت ہوا۔‬

‫‪83‬‬ ‫میں کریک ہوں‬ ‫ببو ہم رے مح ے ک اک وت دک ن دار ہے۔ برا نہیں تو اچھ بھی‬ ‫نہیں۔ بےایم ن نہیں تو اسے ایم ن دار بھی نہیں کہ ج سکت ۔‬ ‫میری اس سے کوئی گہری سا دع نہیں‘ بس راہ چ تے ہی و‬ ‫ہ ئے ہو ج تی ہے۔‬‫اس نے دک ن بدلی تو میں نے پوچھ ‪ :‬دک ن کیوں بدلی ہے۔ کہنے‬‫لگ ‪ :‬ایک تو تنگ تھی سودا پورا نہیں آت تھ دوسرا ٹپکنے لگی‬ ‫تھی۔‬‫میں نے کہ چ و ت نے ٹھیک کی ۔ یہ کہہ کر ک پر روانہ ہو گی ۔‬‫رستہ وہ ہی تھ واپسی پر سا دع کے ب د میں نے دک ن بدلنے‬ ‫کی وجہ دری فت کی۔ اس نے با تردد و ترمی وہ ہی وجہ بت ئی۔‬‫اگ ے دن جم ہ تھ ‘ چھٹی ہونے کے سب میں نے س را دن گھر‬ ‫پر ہی گزرا۔‬‫ہ تے کو ک پر ج تے ہوئے اس کے پ س رک ۔ دع سا اور ح ل‬ ‫احوال پوچھنے کے ب د دک ن بدلنے کی وجہ پوچھی۔ اس نے‬ ‫میری طرف بڑے غور سے دیکھ اور وہ ہی وجہ بت ئی۔ وہ‬ ‫مجھے بھ کڑ سمجھ رہ تھ ۔‬ ‫اس کے س تھ زی دہ ت ق ت ہی نہ تھے اور ب ت کی کرت ۔ یہ ہی‬

‫‪84‬‬ ‫ایک ب ت تھی جو اس سے آت ج ت کرت ۔ واپسی پر حس م مول‬ ‫رک ۔ سا بای ح ل احوال پوچھ اور دک ن بدلنے کی وجہ‬ ‫پوچھی۔ وہ اونچی اونچی بولنے لگ اور مجھ سے لڑ پڑا۔‬ ‫لگت تھ کہ ہ تھ پ ئی پر اتر آئے گ ۔ میں بھی ذہنی طور پر‬ ‫بھ گنے کے لیے تی ر تھ ۔ مجھے م و تھ دوڑ میں وہ میرا‬ ‫مق ب ہ نہیں کر سکے گ ۔ وہ تو خیر ہوئی لوگ جمع ہو گئے اور‬ ‫لڑنے کی وجہ پوچھی۔ وہ چوں کہ زور زور سے بول رہ تھ‬‫اس لیے میں نے بڑے تحمل سے وجہ بت دی۔ س تھ میں یہ بھی‬ ‫کہ میرا ببو سے کوئی خ ص ت واسطہ نہیں اس لیے سا‬ ‫دع کی برقراری کے لیے پوچھ لیت ہوں۔ یہ غصہ کر گی ہے۔‬ ‫اس میں غصہ کرنے والی ایسی کون سی ب ت ہے۔‬ ‫س ہنسنے لگے اور مجھے کہ ب ؤ جی آپ ج ئیں۔ اسی طرح‬‫کچھ ببو کو ٹھنڈا کرنے لگے۔ ایک بندے نے ببو کی طرف دیکھ‬ ‫کر سر پر انگ ی رکھی۔ جس ک مط یہ تھ کہ میں کریک ہوں۔‬ ‫میں ج ی سنجیدگی سے ہولے قدمدں سے اپنے گھر کی ج ن‬ ‫بڑھ گی ۔‬

‫‪85‬‬ ‫ان ہونی‘ ان ہونی نہیں ہوتی‬ ‫تھیا مردود ہیرا پھیری اور دو نمبری میں بےمثل اور بےمث ل‬‫رہ ج کہ تھیا شکی زندگی کے ہر م م ے کو شک و شبہ کی‬‫نظروں سے دیکھنے میں ضر المثل چا آت تھ ۔ اس ک کہن کہ‬‫کچھ بھی خ لص نہیں رہ ۔ ج ی بھی اص ی کے مواف دکھت ہے‘‬ ‫کو سو فی ن سہی کسی ن کسی فی صد تو درست م نن ہی پڑے‬ ‫گ۔‬ ‫تھیا مردود ب ت اس انداز سے کرت کہ اس ک کہ اص ی سے‬ ‫بھی دو چ ر قد آگے نکل ج ت ۔ جسے ہ تھ لگے ہوئے ہوتے وہ‬ ‫بھی دھوکہ کھ ج ت ۔ ب ت کہے تک ہی محدود نہ تھی‘ اس ک کی‬ ‫بھی عین اص ی کی چغ ی کھ رہ ہوت ۔ اسی وقت نہیں‘ بہت ب د‬‫میں کھ ت کہ وہ تو سراسر فراڈ تھ لیکن اس وقت جھ نسے میں‬‫آنے والے ک کھیسہ خ لی ہو چک ہوت ۔ لٹے کی ب ری بی کے لیے‬ ‫وہ مزید بل کہ برابر اور ب ر ب ر لٹت چا ج ت ۔‬ ‫ہ س تھی ے شکی کے کہے کو بکواس ک ن دیتے رہے‘ بل‬‫کہ اس ک مذا اڑاتے رہے۔ اس ک کہن تھ کہ پیرو نے اس کے‬ ‫ب پ اور بہن کو ت ویز ڈال ڈال کر م را۔ میری م ں نے پیرو سے‬ ‫نک ح تو کر لی لیکن اپنے خ وند اور بیٹی ک قتل اسے مرتے د‬ ‫تک م ف نہ کی ۔ اس ک یہ کہ میں نے بمشکل ہنسی پر ق بو پ‬

‫‪86‬‬‫کر سن ۔ وہ ں تو اس کی ہ ں میں مائی لیکن گھر آ کر خو ہنس‬ ‫اور انجوائے کی ۔ ایسی ب ت پیٹ میں ک رہتی ہے۔ دوستوں کو‬ ‫بھی لطف اندوز کی ۔ دشمنی ک یہ انداز‘ یقین م نیں ب لکل انوکھ‬ ‫اور الگ سے لگ ۔ نک ح بھی خ وند اور بیٹی کے ق تل سے کی‬ ‫اور م ف بھی نہ کی ۔ عجی اور سمجھ سے ب ا لوجک تھی۔‬ ‫دوسرا اگر ت ویزوں سے لوگ مرنے لگتے تو آج دنی میں ایک‬ ‫بھی زندہ نہ پھرت ۔‬‫یہ ب ت عجی بھی ہے اور فو ال طرت بھی۔ یہ تو ایسی ہی ب ت‬ ‫ہے کہ کوئی آپ سے کہے کہ کل میں نے مگرمچھ کو ج گتے‬‫میں اڑتے دیکھ ۔ ایسی ب ت کہنے واا پ گل ہی ہو سکت ہے ی وہ‬ ‫آپ سے شغا لگ رہ ہے۔ ہو سکت ہے‘ بےوقوف بن رہ ہو۔‬ ‫بکری صدیوں سے ہ تھی چٹ کرتے آئی ہے لیکن مگرمچھ‬ ‫اڑتے نہیں دیکھ گی ۔ عامت مگرمچھ ہی اڑتے آئے ہیں۔ مزے‬ ‫کی ب ت دیکھیے اس کی عم ی صورت دیکھنے میں آ گئی۔ اس‬ ‫ک مط یہ ٹھہرے گ ‘ ان ہونی‘ ان ہونی نہیں رہی۔ گوی‬ ‫مگرمچھ ک اڑن ‘ غ ط نہیں رہ ۔ کہنے والے نے مگرمچھ کو‬ ‫ضرور اڑتے دیکھ ہو گ ۔ ی نی مگرمچھ کی اڑان امک ن میں‬ ‫داخل ہے۔‬ ‫سدی پڑھ لکھ احم اور یبل ہے۔ لکھ ئی پڑھ ئی کی ب ت کرو‘‬‫فٹ فٹ وہ کچھ بتا دے گ جو کسی کے خوا وخی ل میں نہیں ہو‬ ‫گ ۔ زب نی کامی سم جی ت میں بھی بڑا کم ل ک ہے۔ عم ی طور‬

‫‪87‬‬ ‫پر من ی ص ر سے بھی گی گزرا ہے۔ ہ نے اسے دو بیٹے عط‬ ‫فرم ئے۔ بڑا لڑک کچھ س ل اور چھوٹ لڑک کچھ دن ک تھ کہ‬ ‫بیوی انتق ل کر گئی۔ بآمر مجبوری اسے ش دی کرن پڑی‘ جس‬ ‫عورت سے ش دی کی زب ن طراز تو تھی ہی‘ ب نجھ بھی تھی۔‬ ‫تھیا مردود جو اس ک بہنوئی تھ نے سدی یبل کی بہن کو‬ ‫ہ تھوں میں کی اور اس ک س کچھ چٹ کر ج نے کے طمع میں‬ ‫سدی کی ش دی انتہ ئی گھٹی اور چول عورت سے کروا دی۔‬ ‫لوٹنے کے س تھ س تھ اپنی ہوس کی آگ بھی بجھ نے لگ ۔‬‫تھوڑی ہی مدت کے ب د اس عورت کی تھی ے مردود سے ان بن‬ ‫ہو گئی اور وہ سدی یبل کو لے کر وہ ں سے نکل آئی۔‬ ‫ہ نے سدی یبل کو ایک بیٹے سے نوازا۔ سدی یبل کی خوشی‬‫کی انتہ نہ رہی ہ ں البتہ اس عورت نے سدی ک س نس لین بھی‬ ‫حرا کر دی ۔ پہ ے ہی چھوٹ مر گی تھ ا وہ اس بیٹے کی‬ ‫خ طر اس جہن زادی کے س تھ نبھ کر رہ تھ ۔ وہ تھی ے شکی‬ ‫کی م ں کے گزارے ک مذا اڑای کرت تھ لیکن ا اس کی‬‫سمجھ میں آی تھی ے شکی ک کہ غ ط نہیں تھ ۔ ب ض ح ات کے‬ ‫تحت ن خوش گواری اور ن پسند کو بھی سینے سے لگ ن پڑت‬ ‫ہے۔ گوی مگرمچھ ک ہوا میں پرواز کرن غ ط نہیں۔‬

‫‪88‬‬ ‫جذبے کی سزا‬ ‫اس میں بگڑنے والی ایسی کوئی ب ت ہی نہ تھی۔ بنے می ں ک‬ ‫بیٹ اپنے چھوٹے بھ ئی کو م ر رہ تھ ۔ میں نے اسے دو تین‬ ‫ب ر منع کی لیکن وہ م رنے سے ب ز نہ آی تو میں نے اس کی‬‫کھتی میں ایک رکھ دی۔ وہ روت ہوا گھر چا گی ۔ بنے می ں بڑے‬ ‫غصہ سے ب ہر آئے۔ کچھ پوچھے بغیر ن صرف مجھ پر برس‬ ‫پڑے بل کہ زن ٹے کی دو تین دھر بھی دیں۔ میں ان کے اس‬ ‫رویے پر سخت حیران ہوا۔ یوں لگ جیسے انہوں نے مجھ سے‬ ‫کوئی پران بدا چک ی ہو۔ میں بھی جواب ان کی ٹھیک ٹھ ک‬ ‫خ طر تواضح کر سکت تھ لیکن کیجو ک منہ م ر گی ۔ میں نے‬ ‫ب مشکل درگزر سے ک لی ۔‬ ‫اس نے ہ تھ چا لیے اور میں چپ رہ ‘ وہ سمجھ کہ ڈر گی‬ ‫ہوں اسی لیے زب ن بھی دیر تک چات رہ ۔ اردگرد کے لوگوں‬ ‫نے ٹھنڈا کی کہ جسے بک رہے ہو وہ تو چپ ہے۔ میں بچوں‬ ‫کے م م ہ میں کبھی نہیں پڑا۔ ش ید یہ ں بھی نہ پڑت‬ ‫جذبہءپدری نے مجھے بدحواس کر دی اور میرا ہ تھ اٹھ گی ۔‬‫کیجو ک چھوٹ لڑک میرے اچھے وقتوں کی ی د تھ ۔ خیر ا بھی‬‫ج پہ گ ں گھر پر نہ ہوتی تو کیجو مزے کرا ج تی۔ اس ک سنور‬ ‫ج ت اور میرا بھی ذائقہ تبدل ہو ج ت ۔ بنے می ں کو محض شک‬

‫‪89‬‬ ‫تھ مگر شک یقین میں نہ بدا تھ ۔‬ ‫اس روز اگر میں بھی جواب کچھ کرت تو لمب چوڑا کھڑاک ہو‬ ‫ج ت ۔ کیجو دنی داری میں کم ل کی مہ رت رکھتی تھی۔ اگرچہ س‬‫ج ی کرتی لیکن اس ک یہ فرضی بھی اول درجے ک اص ی ہوت ۔‬ ‫پہ گ ں گھر پر تھی اور وہ کیجو کی بھی ن نی تھی۔ بول بوارے‬ ‫ک ایس میدان لگت کہ شیط ن بھی توبہ توبہ کر ج ت ۔ م ضی اور‬‫ح ل کے وہ وہ قصے دہرائے ج تے جو کسی کے خوا و خی ل‬ ‫میں نہیں رہے۔ بکوبکی سے میری بڑی ج ن ج تی ہے۔‬ ‫جذبے کی سزا بڑی ازیت خیز ہوتی ہے۔ مجھے بہت م مولی‬ ‫سزا م ی تھی‘ میری چپ نے متوقع رن ک رستہ بند کر دی تھ ۔‬ ‫سچی ب ت تو یہ ہے کہ میری چپ نے کیجو سے ت خرا‬ ‫ہونے ک دروازہ بھی بند کر دی تھ ۔‬

‫‪90‬‬ ‫ہ بھ ی کرے‬ ‫وہ اچھ خ ص بیٹھ ب تیں کر رہ تھ ‘ قہقے لگ رہ تھ ۔ پت نہیں‬ ‫اچ نک کی ہو گی ‘ او خو کہت ہوا اٹھ بیٹھ اور بڑی تیزی سے‬ ‫گھر کی طرف بڑھ گی ۔ پیچھے سے ککو نے آواز دی‘ اوے کی‬ ‫ہوا جو با بتائے بھ گ اٹھے ہو۔ ایمرجنسی۔۔۔آ کر بت ت ہوں۔‬ ‫وہ تو چا گی لیکن ایک موضوع چھیڑ گی ۔‬ ‫اکی ک خی ل تھ کہ اس کی بیوی ک آج کیس ہون تھ ۔ ہ خیر‬ ‫کرے اور ہ جو بھی دے نیک اور زندگی واا دے۔‬ ‫دوکڑ نے قہقہ لگ ی او نئیں ی ر وہ کوئی دائی ہے جو کیس اس‬ ‫نے کرن ہے۔‬ ‫آج اس کی کمیٹی نک نی تھی‘ ادھر ہی گی ہو گ ۔ بگڑ نے اپنی‬ ‫چھوڑی۔‬ ‫ہ ں ہ ں یہ ہی ب ت ہے۔ نکے نے گرہ لگ ئی‬ ‫چھوڑو ی ر اس ک کی ہے کہو کچھ کرت کچھ ہے۔ گھر سے کچھ‬ ‫لینے آی ہو گ ‘ ادھر بیٹھ کر گپیں ہ نکنے لگ ۔ ا دو گھنٹے ب د‬ ‫ی د آی ہو گ ‘ ت ہی تو دوڑکی لگ کر گی ہے۔ بیگ شری سے‬ ‫چھتر کھ رہ ہوگ ۔‬

‫‪91‬‬ ‫اس کی اس ب ت پر س ہنس پڑے‬ ‫ک لیے کی ب ت میں د تھ لیکن مہ جے نے اپنی ہی کہہ دی۔‬ ‫کسی م ر پر گی ہے ورنہ اس طرح سے نہ بھ گ نک ت ۔ ت کی‬ ‫ج نو‘ ج نو بڑا سی ن ہے۔‬ ‫اسے م نے گی ہوگ ۔ شبے نے ایک اور ہی شگوفہ چھوڑا۔‬ ‫اسے کیسے نیکو نے حیرت سے پوچھ‬ ‫تمہیں نہیں پت‬ ‫نہیں تو‬ ‫ادھر ک ن کرو‘ بیبو‬ ‫بیبو کون‬ ‫واہ گ ؤں میں خ ک رہتے ہو جگو کی بیٹی‬ ‫ہ ئیں‘ میں یہ کی سن رہ ہوں‬ ‫جی ہ ں‬ ‫بڑا چھپ رست نکا‬ ‫پس دیوار کی کے سیکڑوں م نی نک لے ج تے ہیں‪ ،‬قی فوں‬ ‫اندازوں ک انب ر لگ ج ت ہے۔ س قری قری کی کہتے چ ے‬ ‫ج تے ہیں۔ کھوج ی اسرار کھ نے کے وقت ک کوئی انتظ ر نہیں‬

‫‪92‬‬ ‫کرت ۔‬‫منچ ے اپنی اپنی تشریح و وض حت میں مصروف تھے کہ ج نو آ‬ ‫ہی گی اور سر سٹ کر بیٹھ گی ۔ س اس کے منہ کی طرف‬ ‫دیکھنے لگے۔‬ ‫ی ر کچھ بکو گے ی یوں ہی منہ لمک ئے بیٹھے رہو گے۔ بگی‬ ‫نے پوچھ‬ ‫ک نہیں ہوا۔ ج نو نے تقریب روتے ہوئے کہ‬ ‫بڑا دکھ ہوا ج نو ی ر لیکن کون س ک ۔ بگی نے افسوسیہ انداز‬ ‫اختی ر کرتے ہو۔‬ ‫ی ر ت لوگ ج نتے ہو م دے ک مریض ہوں۔ آج تین دن ہوئے‬ ‫پوٹی نہیں آئی۔ لگ تھ پوٹی آئی ہے۔ لیٹرین میں بیٹھ بیٹھ کر‬ ‫تھک گی ۔ صرف ہوا سری ہے۔ ہ ر کر اٹھ آی ہوں۔‬ ‫س اس ک جوا سن کر ہنسنے لگے۔ واہ جی واہ‘ کھودا پہ ڑ‬ ‫نکا چوہ جگو نے ہ تھ پر ہ تھ م رتے ہوئے کہ ۔‬ ‫او جگو ی ر ت ج ہل ہو ن ۔ ج نو نے جواب کہ‬‫ہ ں جی میں ج ہل ہوں ت تو دلی سے ای آ پ س کرکے آ گئے ہو‬ ‫ن۔‬ ‫پ گل قبض تم بیم روں کی م ں ہے۔ میرے اندر جو قی مت بپ‬

‫‪93‬‬ ‫ہے وہ میں ہی ج نت ہوں۔ ج نو نے روتے ہوئے کہ‬ ‫م حول ن خوشگوار ہو گی ۔ چند لمحوں کے لیے س کو چپ سی‬‫لگ گئی۔ جگو ہی نے سوگواری سی توڑتے ہوئے کی ۔ ی ر کیوں‬ ‫پریش ن ہوتے ہو‘ ہ بھ ی کرے۔‬

‫‪94‬‬ ‫آخری کوشش‬ ‫درندے کے قدموں کی آہٹ اور بھی قری ہو گئی تھی۔ اس نے‬ ‫سوچ اگر اس کے دوڑنے کی رفت ر یہی رہی تو ج د ہی درندے‬ ‫کے پنجوں میں ہو گ ۔ اس نے دوڑنے کی رفت ر اور تیز کر دی۔‬ ‫پھر اس نے سوچ کی وہ اور اس جیسے کمزور ط قتور کے‬ ‫آگے دوڑنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں؟ ج اور جہ ں کمزور کی‬ ‫رفت ر ک پڑ ج تی ہے ط قتور دبوچ لیت ہے۔ اس کے ب د زندگی‬ ‫ک ہر لمحہ ط قتور کے رح و کر پر ہوت ہے۔ چند لمحوں کے‬‫ذہنی سکون کے ب د ط قتور چیر پھ ڑ کر اپنی مرضی کے حصے‬ ‫کھ پی کر ج ن بن ت ہے۔ لمحہ بھر کے لیے بھی وہ یہ سوچنے‬ ‫کی ذحمت گوارا نہیں کرت کہ کمزور کے دودھ پیتے بچوں ک کی‬ ‫ہو گ ۔ اس کے ج نے کے ب د اس سے ک ط قتور بقیہ پر بڑی‬‫بے دردی سے ٹوٹ پڑتے ہیں اور وہ بوٹی بوٹی نوچ لیتے ہیں۔‬ ‫یہ ں تک کہ ہڈیوں پر بھی رح کھ ی نہیں ج ت ۔ کھ ی بھی کیوں‬ ‫ج ئے ہڈی ں ف س ورس کی ک نیں ہیں۔ بٹنوں کے لیے ان کی‬ ‫ضرورت رہتی ہے۔‬ ‫اس کے بھ گنے کی رفت ر میں مزید اض فہ ہو چک تھ ۔ سوچ‬ ‫خوف اور بچ نک نے کی خواہش نے اس کے جس میں ہونے‬ ‫والی ٹوٹ پھوٹ ک احس س تک نہ ہونے دی ۔ وہ ہر ح لت میں‬

‫‪95‬‬ ‫دشمن کی گرفت سے ب ہر نکل ج ن ج ہت تھ لیکن دشمن بھی‬ ‫اسے بخش دینے کے موڈ میں نہ تھ کیونکہ اس کی رفت ر میں‬ ‫بھی ہر اض فہ ہو گی تھ ۔‬ ‫موت ک گھیرا تنگ ہو گی تھ ۔ اس کے س منے کھا میدان دائیں‬ ‫دری ب ئیں گہری کھ ئی اور پیچھے خونخوار درندہ تھ ۔ رستے‬ ‫کے انتخ کے حوالہ سے یہ بڑی سخت گھڑی تھی۔ پھر وہ‬ ‫ب ئیں مڑ گی ۔ اس نے جس کی س ری ط قت جمع کرکے کھ ئی‬ ‫تک پہنچنے کی کوشش کی۔ درندہ فقط ایک قد کے ف ص ے پر‬ ‫رہ گی تھ ۔ اس سے پہ ے درندے ک پنجہ اس کی گردن پر پڑت‬ ‫اس نے کھ ئی میں چھانگ لگ دی۔ درندے کے اپنے قد اس‬ ‫کی گرفت میں نہ رہے۔ کوشش کے ب وجود رک نہ سک اور وہ‬ ‫بھی گہری کھ ئی کی نذر ہو گی ۔‬ ‫کمزور کے جس کی ہڈی ں ٹوٹ گئی تھیں اور د اکھڑ رہ تھ ۔‬‫اس نے سراٹھ کر دیکھ کچھ ہی دور درندہ پڑا کراہ رہ تھ ۔ اس‬‫کی ٹ نگیں ٹوٹ گئی تھیں۔ بھوک درد کے زنداں میں مقید ہو گئی‬ ‫تھی۔ کمزور کے چہرے پر آخری مسکراہٹ صبح ک ز کے‬ ‫ست رے کی طرح ابھری۔ اس کی آخری کوشش رنگ ا چکی‬ ‫تھی۔ اسے اپنی موت ک رائی بھر دکھ نہ تھ ۔ اس نے خود یہ‬ ‫رستہ منتخ کی تھ ۔ ا یہ درندہ کبھی کسی کمزور ک وحشی نہ‬‫ت ق نہ کر سکے گ اور اس کی ٹ نگوں سے ہمیشہ اف اف اف‬ ‫کے بزدل ن رے ب ند ہوتے رہیں گے۔‬

‫‪96‬‬ ‫مکر بندہ جن حسنی ص ح ‪ :‬تس یم ت‬‫فی زم نہ نثر نگ ری ک فن زنگ آلود ہو چاہے۔ کوئی رس لہ بھی‬‫اٹھ کر دیکھئے توسوائے چند اوسط درجہ کے افس نوں اور چند‬ ‫منظوم ت (غزل اور آزاد نظمیں) کے عاوہ کچھ اور نظر نہیں‬ ‫آت ۔ م ضی میں رس لوں میں ادبی‪ ،‬ع می اور تحقیقی مض مین‬ ‫کثرت سے ہوا کرتے تھے۔ تنقید و تبصرہ فن کی حیثیت سے‬‫سیکھے اور سکھ ئے ج تے تھے اورافس نہ نگ ری بھی اونچے‬ ‫م ی ر کی ح مل تھی۔ ا اد پر ایک عمومی زوال تو ط ری ہے‬ ‫ہی نثر نگ ری خصوص اضمحال ک شک ر ہے۔ غزل کہن لوگ‬ ‫آس ن سمجھتے ہیں (ح انکہ ایس نہیں ہے)۔ غزل میں وقت ک‬ ‫لگت ہے اور نظ میں اور نثر میں زی دہ ۔ نثر مط ل ہ اور تحقی‬ ‫بھی چ ہتی ہے جس سے ہم ری نئی نسل بیگ نہ ہو کر رہ گئی‬‫ہے۔ یہ ظ ہر ہے کہ کوئی زب ن بھی صرف ایک صنف سخن کے‬ ‫بل بوتے پر پھل پھول نہیں سکتی لیکن اردو والے اس م مولی‬ ‫سی حقیقت سے ی تو واقف ہی نہیں ہیں ی دانستہ اس سے‬ ‫صرف نظر کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کی اردو مح یں بھی اسی‬ ‫مرض ک شک ر ہیں اور وہ ں بھی سوائے م مولی غزلوں کے‬ ‫(جن میں سے بیشتر تک بندی ہوتی ہیں) کچھ اور نظر نہیں آت ۔‬ ‫آپ کی نثرنویسی میں مخت ف کوششیں اس حوالے سےنہ یت‬ ‫خوش آئند ہیں۔ آپ مط ل ہ کرتے ہیں ‪،‬سوچتے ہیں اور انش ئیے‬ ‫لکھتےہیں۔ اس جدوجہد کو ق ئ رکھنے کی ضرورت ہے۔ میں‬

‫‪97‬‬ ‫اپنی مث ل کسی خودست ئی کی شہ پر نہیں دیت ب کہ دوستوں کو‬ ‫یہ بت ن چ ہت ہوں کہ شو ‪،‬محنت اور لگن ہو تو بہت کچھ ہو‬ ‫سکت ہے۔ میں نے انجینیرنگ پر نص بی کت بیں لکھی ہیں۔ ان‬ ‫کے عاوہ غزل‪ ،‬نظ ‪ ،‬افس نے‪ ،‬ادبی مض مین‪ ،‬تحقیقی مض مین‪،‬‬ ‫ادبی تنقید وغیرہ س ہی لکھ ہے۔ یقین س کچھ اع ی م ی ر ک‬ ‫نہیں ہے لیکن بیشتر اچھے م ی ر ک ہے اور ہندو پ ک کے‬ ‫م تبر اور موقر رس لوں میں ش ئع ہوت ہے۔ میں آپ کی انش ئیہ‬ ‫نگ ری ک مداح ہوں اور درخواست کرت ہوں کہ برابر لکھتے‬ ‫رہہئے۔‬‫زیر نظر انش ئیہ اچھ ہے لیکن یہ مزید بہتر ہو سکت تھ سو اپ‬ ‫وقت کے س تھ خود ہی کر لیں گے۔ خ کس ر کی داد ح ضر ہے ۔‬ ‫ب قی راوی س چین بولت ہے۔‬ ‫سرور ع ل راز‬

‫‪98‬‬ ‫محتر جن ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح ! سا‬ ‫اس تحریر پر ہ کچھ نہ لکھیں گے۔ فقط یہی کہ اسے پڑھ کر‬ ‫رونگٹے کھڑے ہو ج تے ہیں۔ اور تحریر کے اختت کے قری‬ ‫س نسیں رک ج تی ہیں۔ اور پھر منہ کھا ک کھا رہ ج ت ہے۔‬ ‫اس کے اندر جو کر ہے اور جو کچھ یہ انگ ی ں لکھنے کو‬ ‫دوڑ رہی ہیں‪ ،‬اسے بصد مشکل روکتے ہوئے‪ ،‬ایک ب ر پھر‬ ‫سے بھرپور داد ۔۔۔‬ ‫دع گو‬ ‫وی بی جی‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7975.0‬‬

‫‪99‬‬ ‫تیسری دفع ک ذکر ہے‬‫پہ ی دف ہ ک ذکر اس لیے اتن اہ نہیں کہ یہ دو ٹوک تھ اور اس‬ ‫کے س تھ کوئی واق ہ‪ ،‬م م ہ ی مس ہ وابستہ نہیں۔ میں بیم ر‬ ‫پڑا۔ طب یت ضرورت سے زی دہ بوجھل تھی۔ طب یت خرا ہو تو‬ ‫ہ ئے وائے کی آوازیں ن چ ہتے ہوئے بھی بےس ختہ بل کہ از‬‫خود منہ سے نکل ج تی ہیں۔ اگر توجہ اور خدمت کی تمن ہو تو‬ ‫آدمی اس ذیل میں منہ ک سپیکر قدرے ب ند کر دیت ہے۔ یقین‬ ‫م نیے میں سچ مچ میں بیم ر تھ اس لیے خصوصی توجہ ک‬ ‫ط ل بھی تھی۔ خی ل تھ کہ میرے پورے گھر والی پریش ن ہو‬‫کر توجہ دے گی۔ میرا یہ خی ل خ ک ک شک ر ہو گی ج اس نے‬ ‫کہ نیچے چ ے ج ؤ کہیں میرے متھے لگتے ہو۔ میں کپڑے‬ ‫جھ ڑت ہوا نیچے آ گی ۔ ایک بیم ر تھ اوپر اس بے رخی ک‬ ‫صدمہ بھی ہوا۔ چوں کہ پہ ی دف ہ ک ذکر دو لمحوں ک تھ اس‬ ‫لیے اسے دفع کو م ریے۔‬ ‫دوسری دف ہ چوں کہ بے ہوشی کی ح لت ن سہی نی بےہوشی‬ ‫کی کی یت ضرور تھی۔ ہسپت ل سے چوتڑوں اور ب زوں پر کئی‬ ‫ایک ٹیکے لگوا کر گھر ای گی ۔ چوتڑوں کے ٹیکے اس لیے‬ ‫محسوس نہ ہوئے کہ پی ری سی نرس نے دلی ہ دردی سے‬ ‫لگ ئے تھے‘ ہ ں البتہ ب زو ضرور دکھے کہ وارڈ بوائے نے‬

‫‪100‬‬ ‫پوری بےدردی سے لگ ئے تھے۔‬‫چھوٹی گھروالی ک ہسپت ل ج کر پوچھن تو بہت دور کی ب ت ہے‬‫اسے گھر میں آ ج نے کے ب د آدھی زب ن سے پوچھنے تک کی‬ ‫توفی نہ ہوئی۔ میں نی مردہ سی ح لت میں لیٹ ہوا تھ ۔ اچ نک‬ ‫اسے کوئی خی ل آی ‘ پھر کی تھ کہ باتک ن دو گھنٹے انت لیس‬‫منٹ بولتی رہی۔ ل لب یہ تھ کہ میں نے بیم ر ہونے ک محض‬ ‫ڈونگ رچ ی ہے۔ بیم ر اس ک اب ہوا تھ اور عاج م لجے کے‬‫ب وجود قبر میں ج بسیرا کی ۔ اگر میں بیم ر ہوا ہوت تو اش گھر‬‫پر آتی۔ اس کی ب ت میں چوں کہ د تھ اس لیے دوسری دفع کو‬ ‫بیچ میں انے کی ایسی کوئی خ ص وجہ نظر نہیں آتی۔‬ ‫ہ ں البتہ تیسری دفع اوج کم ل کو چھوتی نظر آتی ہے اس لیے‬‫اس ک ذکر خصوص میں داخل کرن اصؤلی سی ب ت نظر آتی ہے۔‬ ‫ہوا یہ کہ میں بیم ر پڑا تو میری ہ ئے اوے ہ ئے اوے کے‬ ‫ن روں سے بےزار ہو گئی۔ میں بھی تو باوق ہ اور باتک ن یہ‬ ‫آوازے کسے ج رہ تھ ۔ ان آوازوں سے اس ک سر بوجھل ہو‬ ‫گی ۔ کچھ بولی تو نہ‘ البتہ سر پر کپڑا ب ندھ کر ب ہر صحن میں‬ ‫بیٹھ گئی اور میری آخری س نس ک انتظ ر کرنے لگی۔ آخری‬‫س نس بڑی ڈھیٹ تھی‘ ک بخت نہ آئی۔ میں نے اس کی آوازاری‬ ‫محسوس کر لی اور پوری ط قت سمیٹ کر بیٹھک میں آ کر‬ ‫صوفے پر لیٹ گی ۔ پت نہیں رات کتنی دیر تک صوفے پر لیٹ‬ ‫رہ ‘ ج قدرے بہتری ہوئی تو ج کر چ رپ ئی پر لیٹ گی ۔ میرے‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook