Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore سانپوں کے شکاری

سانپوں کے شکاری

Published by Muhammad Umer Farooq, 2022-11-19 19:56:12

Description: عمران سیریز نمبر ۷

Search

Read the Text Version

‫سانپوںکےشکاری‬ ‫اِنبصفی‬ ‫عمرانسیریز‪۷‬‬ ‫‪۱۹۵۶‬‬



‫پیشرس‬ ‫یہرہےساپنوںکےشکاری۔۔۔نڈر۔۔۔بےخوفاورسبکچھکرگزرنے‬ ‫والے! کہانی ایک بڑی پرانی داستان سے شروع ہوتی ہے۔۔۔ اور اتنی‬ ‫سنجیدگی سے شروع ہوتی ہے کہ اُس کی صداقت میں شبہے کی گنجائش نہی‬ ‫رہتی۔۔۔لیکن۔۔۔؟‬ ‫اصلیت!محکمہرُساغرسانیکےسپرنٹنڈنٹکیپٹنفیضکیزبانیسنیئے۔‬ ‫ایک انہونی بات بھی آئے گی یعنی فیض عمران کی گرفتاری کا وارنٹ لیے‬ ‫گھومرہاتھا!اورعمران۔۔۔؟عمرانکواِسبارایکنئےروپمیںدیکھئے‪،‬ایک‬ ‫‪5‬‬

‫رُپاسرارنمبرایکسفائیتھرینائنجسکےلیےکئپارٹیاںحرکتمیںنظر‬ ‫آتیہیں۔۔۔کشتوخون۔۔۔س ِرراہخوفناکدھماکہ۔۔۔ایکسفائیتھری‬ ‫نائن کا راز۔۔۔ عمران ہر کارنامہ تنہا سر انجام دیتا ہے۔ ایکس فائی تھری‬ ‫نائین۔۔۔لاکھوںروپےکیدولتلیکناسکےحصولکےلیےلڑمرنے‬ ‫والوں کی مایوسی! ایکس فائی تھری نائین۔۔۔ عمران اور فیض لیے ایک‬ ‫خطرناکلمحہ!‬ ‫اسکےعلاوہوہسبکچھجسکیآپاِنبصفیسےتوقعرکھتےہیں!‬ ‫ہمیں یقین ہے کہ یہ ناول بھی اِنب صفی کے گزشتہ کارناموں کی صف میں‬ ‫ایکامتیازیمقامحاصلکرےگا!‬ ‫پبلشر‬ ‫‪6‬‬

‫(‪)۱‬‬ ‫تیمور اینڈ بارٹلے کا آفس پوری عمارت میں پھیلا ہوا تھا۔۔۔! اس فرم کے‬ ‫علاوہاسعمارتمیںاورکسیکاکاروبارنہیتھا۔۔۔اسیبناپریہعمارتکوبرا‬ ‫مینشنکےنامسےمشہورہوگئیتھی!ویسےاسکانامکچھاورتھا!‬ ‫تیمور اینڈ بارٹلے کی فرم سانپ کی کھالوں کی تجارت کرتی تھی۔۔۔ کاروبار‬ ‫بہتبڑاتھا۔دفترمیںدرجنوںکلرکتھے‪،‬مختلفشعبوںکےمنیجرالگالگ‬ ‫تھےاوراُنکیتعدادبارہسےکسیطرحکمنہیتھی۔۔۔تیندرجنشکاری‬ ‫تھے۔۔۔ جن کے ذےّم سانپوں کی فراہمی کا کام تھا۔۔۔ لیکن یہ سپیرے‬ ‫‪7‬‬

‫نہیتھے۔۔۔اورنہاسکےقائلتھےکہبیننُسکرسانپجھومنےلگتے‬ ‫ہیں!یہتعلیمیافتہلوگتھےاورسانپوںکےشکارکےسلسلےمیںانکاطریقہ‬ ‫کارسائنٹیفکہوتاتھا۔انہیبڑیبڑیتنخواہیںملتیتھیںاورانکیظاہری‬ ‫حالتدیکھکرکوئینہیکہہسکتاتھاکہانکاپیشہاتناحقیراورگنداہوگا!‬ ‫کوبرا مینشن کا ہال فرم کا شو روم تھا۔ یہاں صرف صد ہا قسم کے سانپوں کی‬ ‫کھالیں موجود تھیں بلکہ مختلف قسم سے تعلق رکھنے والے زندہ سانپ بھی‬ ‫کثیرتعدادمیںتھے۔ہفتےمیںدو ِدنیہشورومپبلکمیوزیمبنجایاکرتاتھا‬ ‫ایتعونایرہتفھتاےم۔ی۔ں۔داوو ِدرکنوبہرراآمدیمنیشکنسیکرےواکسٹوبڑکےکہاےبلغیمریوہںا ِِںتجارسککھتناےتھکای۔ب۔ھی۔جآگجہ‬ ‫نہیتھی۔۔۔آجکچھغیر ُکلُمسانپنمائشکےلیےرکھےگئےتھےجنمیں‬ ‫جنوبیامریکہکےجاراکاکا۔۔۔اورافریقہکےبلیکمومبابھیتھے۔‬ ‫راضیہصرفانہیدواقسامکےسانپدیکھنےکےلیےیہاںآئیتھیورنہاور‬ ‫سبتواسکےدیکھےہوئےتھے۔۔۔اسےسانپبہتاچھےلگتےتھے۔۔۔‬ ‫‪8‬‬

‫اسکےپاسصدہاقسمکےسانپوںکیتصویریںتھیںاوراسکےذہنپربھی‬ ‫سانپمسلط تھے۔وہجب بھیآنکھیںبند کرتی اسے بیکوقت ہزاروں‬ ‫سانپوں کی کلبلاہٹ محسوس ہونے لگتی۔۔۔ خواب میں اسے سانپ نظر‬ ‫آتے۔۔۔جبوہسونےکےلیےپلنگپرلیٹتیتوغنودگیکےعالممیںاسے‬ ‫ایسامحسوسہوتاجیسےاسکےسارےجسمپرٹھنڈےٹھنڈےسانپرینگتے‬ ‫پھررہےہوںلیکناِسسےاُسےوحشتنہیہوتیتھیبلکہوہایکعجیب‬ ‫قسمکیآسودگی اورطمانیتمحسوسکرتی۔۔۔ اسپرخود ُاسےبھی حیرت‬ ‫تھی۔‬ ‫وہکافیدیرتککوبرامینشنکےشوروممیںرہی۔۔۔وہاتنیمحوتھیکہاسے‬ ‫پانچ بجنے کی بھی خبر نہ ہوئی! حالانکہ یہ وقت اس کی زندگی میں بہت اہمیت‬ ‫رکھتاتھا۔۔۔!وہجہاںکہیںبھیہوروزانہٹھیکپانچبجےشامکواسکاارشاد‬ ‫منزل پہنچنا ضروری تھا۔۔۔ رات اسے وہیں بسر کرنی پڑتی تھی۔۔۔! بوڑھا‬ ‫ارشاد اس کا دادا تھا۔۔۔ کروڑوں کی دولت کا مالک! اس کے تین بیٹے تھے‬ ‫‪9‬‬

‫لیکنانمیںسےکوئیبھیارشادمنزلمیںقدمنہیرکھسکتاتھا۔۔۔!ٰیتح‬ ‫کہخودراضیہکاباپبھینہیانکاکنبہبہتبڑاتھا۔۔۔لیکنراضیہکےعلاوہ‬ ‫اور کوئی بھی بوڑھے ارشاد سے قریب نہی تھا۔۔۔ ارشاد اسے بہت پسند‬ ‫کرتاتھا۔۔۔اوروہاسکےمعاملاتمیںبہتزیادہدخیلتھی۔۔۔لیکنیہ‬ ‫ڈیوٹیاسےبھیبہتکھِلت ِیتھی۔۔۔خواہکچھہواسکاپانچبجےشامکوبوڑھے‬ ‫ارشادکےپاسپہنچنابہتضروریتھا!‬ ‫آج وہ ساڑھے پانچ بجے پہنچی! ارشاد جھنجھلایا ہوا تھا! اسے دیکھتے ہی برس‬ ‫پڑا۔۔۔‬ ‫”میںنےابھیتکچائےنہیپی!“وہغرایا!”تمجانتیہوکہمیںٹھیکسوا‬ ‫پانچبجےچائےپیتاہوںاورتمہرحالمیںمیرےساتھپیتیہو۔۔۔“‬ ‫”جی۔۔۔!وہمیری۔۔۔ایکسہیلی۔۔۔!“‬ ‫”سہیلی۔۔۔!مجھسےزیادہتھی۔۔۔!“‬ ‫‪10‬‬

‫”جی۔۔۔وہ۔۔۔دیکھئے۔۔۔!“‬ ‫\"کچھنہی۔۔۔!جاؤ۔۔۔ابیہاںتمہاریضرورتنہیہے۔۔۔!“ارشاد‬ ‫نےکہالیکنلہجےمیںتحکمکیبجائےشکوےکاسااندازتھا!‬ ‫”داداجان۔۔۔آپتوسمجھےنہی۔۔۔وہمیری۔۔۔سہیلی!“‬ ‫”میںنےابھیچائےنہیپی۔۔۔!“‬ ‫”تومیںمنگواتیہوںچائے۔۔۔!“راضیہکمرےسےچلیگئی۔۔۔!‬ ‫ارشادکیعمراسیسےکمنہیتھی!دبلاپتلاپلپلےجسمکاآدمیتھا۔۔۔چہرےپر‬ ‫بے شمار گہری جھریاں تھیں۔۔۔ لیکن وہ روزانہ شیو کرنے کا عادی تھا۔۔۔‬ ‫لوگاسےجھکیسمجھتےتھے۔۔۔ارشادمنزلمیںوہتنہارہتاتھا۔۔۔!کنبےکے‬ ‫دوسرےافرادشہرکےمختلفوّصحںمیںمقیمتھے۔۔۔انکاکفیلارشادہی‬ ‫تھا!لیکنانہیارشادمنزلمیںقدمرکھنےکیاجازتنہیتھی۔۔۔!اسکی‬ ‫وجہخودانلوگوںکوبھینہیمعلومتھی۔‬ ‫‪11‬‬

‫ارشاد منزل ایک بہت بڑی عمارتتھی اور شاید شہر کی خوبصورت ترین‬ ‫عمارتوں میں اس کا شمار ہوتا تھا! وہاں ایک دو نہی بلکہ پورے پندرہعدد‬ ‫نوکروںکیفوجرہتیتھی۔۔۔لاتعدادپالتوپرندےتھے۔۔۔درجنوں ِّباں‬ ‫تھیں۔۔۔ اور اتنے ہی خرگوش اور کبھی کبھی راضیہ یہ سمجھنے لگتی تھی کہ وہ‬ ‫بھیانہیپالتوجانوروںمیںسےہے!اسخیالکامحرکارشادکابرتاؤتھا!وہ‬ ‫اسےایکیھّننسییّچبسمجھتاتھااوراسےاپنیمرضیکاپابندبنائےرکھناچاہتا‬ ‫تھا۔۔۔!اسکیذراذراسیباتوںکیٹوہمیںرہتا۔۔۔اوراسوقتتوراضیہکو‬ ‫سچمچہّصغآجاتا‪،‬جبوہاسکاوینٹیبیگٹٹولنےلگتا!اسےکھولکراسمیں‬ ‫رکھیہوئیچیزیںالٹپلٹڈالتا۔‬ ‫اسوقتبھیوہیہیحرکتکررہاتھا!راضیہچائےکےلیےاسکےکمرے‬ ‫سےچلیگئیتھی!اوروہمیزسےاسکاوینٹیبیگاٹھاکراپنےزانوپررکھےاسے‬ ‫کھولرہاتھا۔‬ ‫اچانکاسکےمنہسےایکہلکیسیچیخنکلیاوروہوینٹیبیگکوپرےجھٹککر‬ ‫‪12‬‬

‫کرسیسمیتدوسریطرفالٹگی!۔۔۔‬ ‫وینٹی بیگ سے ایک چھوٹا سا سانپ نکل کر فرش پر لہریں لے رہا تھا!۔۔۔‬ ‫بوڑھاارشادبڑیپھرتیسےفرشسےاٹھا۔۔۔لیکننہتواسنےشورمچایااور‬ ‫نہکسیکواپنیمددکےلیےآوازدی!‬ ‫سانپ کی رفتار میں رُسعت نہی تھی! وہ آہستہ آہستہ فرش پر رینگ رہا‬ ‫تھا۔۔۔!ارشادنےاپنیواکنگاسٹکسےبہآسانیاسکاسرکچلدیا!تھوڑی‬ ‫دیربعدوہپھربہتاطمینانسےاسیکرسیپربیٹھاکچھسوچرہاتھا۔۔۔!راضیہ‬ ‫کاویبیگاسنےوہیںرکھدیاتھاجہاںسےاٹھایاتھا!‬ ‫تقرًابی دس منٹ بعد راضیہ خود ہی چائے کی ٹرے اپنے ہاتھوں پر اٹھائے‬ ‫ہوئےکمرےمیںداخلہوئی۔۔۔!‬ ‫ارشاد نے اپنی کرسی میز کی طرف کھسکا لی۔۔۔! اچانک راضیہ کی نظر مردہ‬ ‫سانپپرپڑی۔۔۔وہچائےکیٹرےمیزپررکھچکیتھی!‬ ‫‪13‬‬

‫”ارے۔۔۔یہسانپ!“‬ ‫بوڑھا اسے گھورنے لگا۔۔۔ لیکن راضیہ کے چہرے پر حیرت کے آثار‬ ‫تھے۔۔۔‬ ‫”یہیہاں!“‬ ‫”پھر!پھراسےکہاںہوناچاہیےتھا!“ارشادنےآہستہسےپوچھا!‬ ‫”میں کیا جانوں۔۔۔ میرا مطلب یہ ہے کہ۔۔۔ یہ یہاں کمرے میں‬ ‫تھا۔۔۔“‬ ‫”میںنےاسےمارڈالا۔۔۔!“ارشاداسکاچہرہغورسےدیکھتاہوابولا!‬ ‫”مگریہیہاںکیسےآیا۔۔۔!“‬ ‫”تملائیتھیں!“ارشادبدستوراسکےچہرےپرنظرجمائےرہا۔راضیہہنسنے‬ ‫لگی۔۔۔!لیکنارشادکیسنجیدگیمیںذرابرابربھیفرقنہیآیا۔‬ ‫”میںاسےاسپرٹمیںرکھوںگی!یہکتناخوشرنگہے۔۔۔!“‬ ‫‪14‬‬

‫راضیہنےارشادکےلیےچائےانڈیلتےہوئےکہا!‬ ‫دونوںتھوڑیدیرتکخاموشیسےچائےپیتےرہے‪،‬پھرارشادنےکہا!‬ ‫”تممجھسےتنگآگئیہو!۔۔۔کیوں؟“‬ ‫”نہیتو۔۔۔یہآپکیاکہہرہےہیں!“‬ ‫”میں۔۔۔میںمحسوسکررہاہوں!“‬ ‫”اس معاملے میں‪ ،‬میں آپ سے لڑ جاؤں گی! آخر آپ کس بناء پر ایسا کہہ‬ ‫رہےہیں!“‬ ‫”اسلیےکہمیںسچمچتمپرظلمکرتاہوں۔۔۔!“‬ ‫”میںتوایسانہیسمجھتی!آخرآجآپیہجھگڑاکیوںلےبیٹھےہیں!“‬ ‫”ضرورًات۔۔۔!آجمیریذراسیغفلتمجھےموتکےگھاٹاتاردیتی۔۔۔‬ ‫یہسانپتمہارےوینٹیبیگمیںتھا۔۔۔!“‬ ‫‪15‬‬

‫”نہی!“راضیہبوکھلاکرکھڑیہوگئی!‬ ‫”بیٹھ جاؤ۔۔۔ یہ حقیقت ہے!۔۔۔ یہ واقعی ایک نازیبا بات ہے کہ میں‬ ‫تمہارےوینٹیبیگمیںہاتھڈالدیاکرتاہوں۔۔۔!“‬ ‫”ارے۔۔۔ دادا جان۔۔۔ خدا کی قسم! میرے فرشتوں کو بھی۔۔۔ علم‬ ‫نہی!“‬ ‫راضیہکاچہرہزردہوگیتھااوراسکاسینہدھونکنیکیطرحپھولاورپچکرہا‬ ‫تھا!وہبارباراپنےخشکہونٹوںپرزبانپھیررہیتھی!‬ ‫”بیٹھ جاؤ۔۔۔ چائے پیو!“ ارشاد نے نرم لہجے میں کہا۔ راضیہ بیٹھ گئی۔۔۔‬ ‫لیکن اس کا سارا جسم کانپ رہا تھا۔۔۔ ارشاد نے ایک بار پھر اسے غور سے‬ ‫دیکھکرپوچھا!”یہسانپتمہارےوینٹیبیگمیںکسنےرکھاہوگا!“‬ ‫”میں۔۔۔میں۔۔۔اسکےقّلعتمکچھنہیجانتی۔۔۔لیکن۔۔۔!“‬ ‫”ہاں۔۔۔لیکنکیا۔۔۔!“‬ ‫‪16‬‬

‫”ابھیمیںنے۔۔۔آپسےجھوٹبولنےکیکوششکیتھی۔۔۔!“‬ ‫”کیا؟“‬ ‫”میںکسیسہیلیکےگھرنہیگئیتھی۔۔۔بلکہمیںتیموراینڈبارٹلےکےشو‬ ‫رومسےسیدھییہیںآئیہوں!“‬ ‫”وہاںتمکیوںگئیتھیں!“‬ ‫”مم۔۔۔مجھےسانپوںسےدلچسپیہے۔۔۔!“‬ ‫”میںجانتاہوں!“‬ ‫”گھر سے جب میں چلی ہوں تو۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ وینٹی بیگ میں سانپ‬ ‫نہیتھا۔۔۔کیونکہمیںنےراستےمیںبھیایکجگہاسےکھولاتھا!“‬ ‫”شوروممیںتمہارےساتھاورکونتھا!“‬ ‫”کوئیبھینہی!میںتنہاگئیتھی!مجھےاطلاعملیتھیکہوہاںآجدوبالکلنئی‬ ‫قسمکےسانپنمائشکےلیےرکھےجائیںگ!“‬ ‫‪17‬‬

‫ارشاد تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا!۔۔۔ پھر بولا۔ ”میری اس بری عادت‬ ‫سےسبھیواقفہوںگکہمیںتمہاراوینٹیبیگکھولکردیکھاکرتاہوں!“‬ ‫”جج۔۔۔جی۔۔۔ہاں۔۔۔!“‬ ‫”تمنےشکاًاتی۔۔۔لوگوںسےتذکرہکیاہوگا۔۔۔!“‬ ‫”اوہ۔۔۔وہ۔۔۔دیکھئے۔۔۔!“‬ ‫”میںرُبانہیمانتا۔۔۔صرفیہجانناچاہتاہوںکہکچھلوگاسسےواقف‬ ‫ہیںیانہی!“‬ ‫”صرفگھروالے۔۔۔“‬ ‫”گھرسےمرادصرفتمہاراگھرہےنا۔۔۔یاجواداورامجدکےگھروالےبھی‬ ‫جانتےہیں!“‬ ‫”جیہاںانہیبھیعلمہے!“‬ ‫ارشادایکطویلسانسلےکرکرسیکیپشتسےٹکگی!۔۔۔‬ ‫‪18‬‬

‫وہ چھت کی طرف دیکھ رہا تھا اور اس کے چہرے کی جھریاں کچھ اور زیادہ‬ ‫گہریمعلومہونےلگیتھیں!‬ ‫”داداجانآپیقینکیجیے۔۔۔!“‬ ‫”میںیہنہیکہتاکہیہحرکتتمہاریہے۔۔۔!“بوڑھےارشادنےآہستہ‬ ‫سےکہا۔‬ ‫”آپ نے یہ کیوں پوچھا تھا کہ وینٹی بیگ کے قّلعتم کون کون جانتا‬ ‫ہے۔۔۔!“‬ ‫”میںپھریہیکہتاہوںکہیہحرکتتمہارینہیہوسکتی۔۔۔“‬ ‫”تواسکامطلبہےکہآپخاندانکےکسیدوسرےفردپرشبہکررہے‬ ‫ہیں!“‬ ‫”کیوںنہکروں۔۔۔!کیاآدمیکیوقعتدولتسےزیادہہوتیہے۔۔۔!“‬ ‫”اوہو!“یکبیکراضیہکاچہرہرُسخہوگی۔”تبتویہحرکتمیریبھیہو‬ ‫‪19‬‬

‫سکتیہے!“‬ ‫”نہیتمایسانہیکرسکتیں!مجھےیقینہے۔۔۔!“‬ ‫”اسیلیےآپخاندانوالوںکویہاںنہیرکھتے!“راضیہنےپوچھا!اسکے‬ ‫لہجےمیںتلخیتھیاورچہرےسےصافظاہرہورہاتھاکہاسےیکبیکہّصغآ‬ ‫گیہے!‬ ‫”ہاںاسکیوجہیہیہے!“‬ ‫”پھرآپکومجھپراتنااعتمادکیوںہے!“‬ ‫”بسیونہی۔۔۔!“‬ ‫”نہ ہونا چاہیے۔۔۔! اب میں یہاں کبھی نہ آؤں گی! کبھی نہی! میں‬ ‫گریجویٹہوںاوراپنیروزیخودکماسکتیہوں!“‬ ‫”میں اسی لیے تمہیں پسند کرتا ہوں! اسی لیے مجھے تم پر اعتماد ہے!“ بوڑھا‬ ‫ارشادمُسکراکربولا۔”تممیریخوشامدنہیکرتیں۔۔۔صافگوئیسےکام‬ ‫‪20‬‬

‫لیتیہو۔“‬ ‫”لیکنمیںاسےبرداشتنہیکرسکتیکہآپوالدصاحبپرکسیقسمکاہبُش‬ ‫کریں!“‬ ‫”اسسےمیریاپنیپسندپرکوئیاثرنہیپڑسکتا!“‬ ‫”بہرحالآپکھلے ہوئے الفاظمیںوالد صاحب پر اپنا ہبُشظاہرکر رہے‬ ‫ہیں!“ ارشاد کچھ نہی بولا۔۔۔ وہ خاموشی سے چائے پی رہا تھا اور راضیہ کی‬ ‫چائےٹھنڈیہوچکیتھی۔۔۔اسنےابھیتکایکگھونٹنہیپیاتھا۔۔۔‬ ‫ارشادخیالاتمیںکھویاہواتھا۔اسنےاسکیطرفدھیاننہدیا۔۔۔‬ ‫”پھر اب میری یہاں کیا ضرورت ہے!“ راضیہ اٹھتی ہوئی بولی۔ ”کیونکہ‬ ‫سانپکےےّچبسنپولیےکہلاتےہیں!والدصاحباگرآپکوختمکرکےکوئی‬ ‫فائدہاٹھاناچاہتےہیںتواسمیںمیرابھیہّصحہوگا۔۔۔اوردولتکےقّلعتم‬ ‫ابھیآپہیاظہارخیالفرماچکےہیں!“‬ ‫‪21‬‬

‫”تمہرباتمیںمیریماںسےمشابہہو!“ارشادنےاسکےہاتھپرہاتھرکھ‬ ‫کر آگ کی طرف جھکتے ہوئے کہا۔ ”وہی صورت شکل۔۔۔ وہی اندا ِز‬ ‫گفتگو۔۔۔ویساہیمزاج۔۔۔پھربتاؤ۔۔۔مگرتمکیاجانو۔۔۔یہباتتمہارے‬ ‫والدینکےعلممیںبھینہیہےکوئینہیجانتا۔۔۔سوائےمیرے۔۔۔!“‬ ‫”کونسیبات۔۔۔!“‬ ‫”لیکنمیںتمہیںضروربتاؤںگا!مجھےتمپراببھیاعتمادہے!“‬ ‫راضیہحیرتسےاسےدیکھتیرہی۔‬ ‫”آؤ۔۔۔میرےساتھ!“بوڑھاارشاد ُاٹھتاہوابولا۔”میںتمہیںکچھدکھانا‬ ‫چاہتاہوں!“‬ ‫وہاسےعمارتکےایکےّصحمیںلایا‪،‬جہاںکےمقفّلکمروںمیںکسیکاگزر‬ ‫نہی ہوتا تھا‪ ،‬خود راضیہ بھی نہی جانتی تھی کہ ان میں کیا ہے اور وہ مقفّل‬ ‫کیوںرکھےجاتےہیں۔ارشادنےایککمرےکاقفلکھولکردروازےکو‬ ‫‪22‬‬

‫دھکادیا۔۔۔کمرےمیںتاریکیتھی!دروازہکھلتےہیراضیہنےکچھاسقسمکی‬ ‫بومحسوسکیجیسےوہکمرہسالہاسالسےتازہہواسےمحرومرہاہو۔۔۔!اسیبو‬ ‫میںچمگادڑوںکےبیٹکیبدوُببھیشاملتھی!‬ ‫تھوڑیدیربعدجباسکیآنکھیںاندھیرےکیعادیہوگئیتواسنےدیکھا‬ ‫کہکمرےکافرشگردسے َاٹاہواہےاوردیواروںپربھیگردکیکافیموٹیتہہ‬ ‫موجودہے!یہاںاسےکسیقسمکاساماننظرنہیآیا۔۔۔الٹِ ِّنہسامنےہی‬ ‫دیوارپرایکبڑاسافریمآویزاںتھااوراسکےشیشےپراتنیگردجمیہوئیتھی‬ ‫کہوہبالکلتاریکہوکررہگیتھا۔۔۔!‬ ‫پھراسنےارشادکوشیشےکیگردصافکرتےدیکھا!۔۔۔اسفریممیںایک‬ ‫تصویرتھی!۔۔۔لیکناسکمرےمیںاسےاپنےباپنوشادکیتصویردیکھکر‬ ‫بڑیحیرتہوئی!آخروہاستیرہوتارکمرےمیںکیوںلگائیگئی!‬ ‫”یہکونہے!“ارشادنےراضیہکیطرفمڑکرپوچھا!‬ ‫‪23‬‬

‫”آخراسسےآپکامقصدکیاہے!“ راضیہنےاکتائےہوئےاندازمیںکہا۔‬ ‫”یہکسکیتصویرہے!“ارشادنےپھرپوچھا۔‬ ‫”ابکیامیںوالدصاحبکوبھینہپہچانوںگی!“راضیہنےبےدلیسےکہا!‬ ‫”خوبغورسےدیکھو۔۔۔!“‬ ‫”دیکھ رہی ہوں۔۔۔ تو پھر کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ والد صاحب کی‬ ‫تصویرنہیہے!“‬ ‫”ہاںمیںیہیکہناچاہتاہوں!“ارشادمُسکراکربولا۔‬ ‫”تبپھرمجھےسمجھناچاہیےکہآجآپمجھےچڑانےپر ُِتگئےہیں!“‬ ‫”نہیننھییّچب!“ارشادنے سنجیدگیسےکہا۔”یہنوشادنہیہے۔۔۔یہ‬ ‫میرے ایک چچا کی تصویر ہے۔۔۔ اور میرے تینوں لڑکے نوشاد‪ ،‬جواد اور‬ ‫امجداسسےمشابہترکھتےہیںاورتمہاراباپتوہوبہو ُاسیکیتصویرہے!“‬ ‫راضیہآگجھککربغورتصویرکیطرفدیکھنےلگی۔اسکےچہرےپرحیرت‬ ‫‪24‬‬

‫کےآثارتھے۔اگرصاحبتصویرکےجسمپرقدیموضعکالباسنہہوتاتووہ‬ ‫اپنےداداکےبیانپرکبھییقیننہکرتی۔۔۔لیکناببھیاسےہبُشتھا۔اس‬ ‫کی دانست میں قدیم وضع کا لباس اس زمانے میں اّیہم کرنا دشوار تو نہی تھا‬ ‫کیونکہ وہ اکثر ڈراموں اور فلموں میں دو تین ہزار سال قبل کے لباس بھی‬ ‫دیکھچکیتھی۔وہچندلمحےخاموشرہیپھراسنےارشادسےکہا۔‬ ‫”اگر!میںتسلیمبھیکرلوں‪،‬توپھر۔“‬ ‫”توپھر۔۔۔میںکہوںگاکہمیںاسیمشابہتکیبناءپراپنےتینوںلڑکوںسے‬ ‫دورہیدوررہناپسندکرتاہوں۔“‬ ‫راضیہکااشتیاقبڑھگی!اسنےکہا۔”میںکچھنہیسمجھی!“‬ ‫”میںابھیسمجھاتاہوں!“ارشادنےدروازےکیطرفبڑھتےہوئےکہا۔وہ‬ ‫دونوں اس کمرے سے نکل آئے۔ ارشاد نے اسے پھر مقفّل کر دیا۔ پھر‬ ‫ارشاد نے کہا۔ ”تم یہیں ٹھہو۔ ٹارچ کے بغیر کام نہی بنے گا۔ میں ٹارچ‬ ‫‪25‬‬

‫لےکرآتاہوں۔“‬ ‫وہراضیہکووہیںچھوڑکرچلاگی۔آجوہبوڑھاراضیہکوحددرجہرُپاسرارمعلوم‬ ‫ہورہاتھا۔‬ ‫تھوڑیدیربعدارشادواپسآگی۔اسکےہاتھمیںٹارچتھی۔اسنےبرابر‬ ‫کےدوسرےکمرےکاقُفلکھولا۔اسکمرےمیںتاریکیگندگیاوربدوُبہیکا‬ ‫راجتھا۔لیکنراضیہکویہاںکچھبھینہینظرآیا!‬ ‫ارشاداسسےکہہرہاتھا۔”تمہرمعاملےمیںبالکلاپنیپردادیہیکیطرح‬ ‫ہو۔مجھےتوقعہےکہانہیکیطرحایکمضبوطکردارکیمالکہوگی۔“‬ ‫”کیا اب آپ۔۔۔ کوئی بہت ڈراؤنی چیز سامنے لانا چاہتے ہیں؟“ راضیہ نے‬ ‫پوچھا۔‬ ‫”ہاں۔باتکچھایسیہیہے۔میںآجتمہیںسبکچھبتادیناچاہتاہوں۔یہ‬ ‫راز میرےعلاوہ اورکوئی نہیجانتا۔ لیکن تم اسے ہمیشہ راز ہی رکھو گی۔‬ ‫‪26‬‬

‫ہمیشہ۔۔۔مجھےیقینہےکہتماپنیپردادیہیکیطرحمضبوطکرداررکھتی‬ ‫ہو۔“‬ ‫”میںنہیڈروںگی۔مجھےبتائیے۔“‬ ‫”اچھا۔۔۔ ٹھہو۔“ ارشاد نے کمرے کے ایک گوشے کی طرف بڑھتے‬ ‫ہوئےکہا۔راضیہوہیںکھڑیرہی۔گوشےمیںپہنچکرارشادنےفرشکیگرد‬ ‫صاف کی اور پھر راضیہ کو ایسا محسوس ہوا جیسے اس نے کسی صندوق کا ڈھکن‬ ‫اٹھایاہو۔فرشمیںایکچوکورسیخلانظرآرہیتھی‪،‬جسکارقبہایکمربع‬ ‫فٹسےزیادہنہرہاہوگا۔‬ ‫ارشادنےجِ ُھککراسخلامیںٹارچکیروشنیڈالی۔اورچندلمحےاسیحالت‬ ‫میںرہاپھرراضیہکیطرف ُمکربولا۔‬ ‫”آؤ۔۔۔ڈرونہی۔۔۔“‬ ‫راضیہلڑکھڑاتےہوئےقدموںسےآگبڑھی۔بوڑھےارشادکےروےّی‬ ‫‪27‬‬

‫نےاسےسچ ُچمخوفزدہکردیاتھا۔‬ ‫”آؤ۔۔۔دیکھو!یہایکتہہخانہہے۔۔۔“‬ ‫راضیہدوزانوبیٹھکرخلامیںجھانکنےلگی۔وہچندلمحوںتکآنکھیںپھاڑتیرہی‬ ‫لیکناسکیسمجھمیںکچھنہآیا۔ٹارچکیروشنیکافیگہرائیمیںکسیایسیچیزپر‬ ‫پڑرہیتھی!جوبذا ِتخودغیرواضحتھی۔لیکنپھرجلدہیاسکےسارے‬ ‫چہرےپرپسینہپھوٹآیااورحلقخشکہونےلگا۔جسچیزپرٹارچکیروشنی‬ ‫پڑرہیتھیوہکسیآدمیکیّڈہیوںکاڈھانچہتھا۔‬ ‫”دیکھ چکیں؟“ دًاتعف ارشاد نے پوچھا۔ راضیہ کو ایسا محسوس ہوا جیسے اس کی‬ ‫آوازبہتدورسےآئیہو۔‬ ‫”جیہاں!“اسنےمردہسیآوازمیںجوابدیا۔‬ ‫”کیادیکھا۔۔۔؟“‬ ‫”ہڈ۔۔۔ہڈیوں۔۔۔کاڈھانچہ!“ راضیہتھوکن ِگلکربولی۔”ٹھیک۔بس‬ ‫‪28‬‬

‫آؤ۔۔۔“ ارشاد اسے ایک طرفہٹاکر سوراخکاڈھکنبندکرتا ہوا بولا۔‬ ‫تھوڑیدیربعدوہکمرےکےباہرآگئے۔ارشادنےاسےمقفّلکیااوروہپھر‬ ‫رہائشیےّصحکیطرفپلٹآئے۔‬ ‫راضیہکاچہرہزردہوگیتھااورآنکھوںمیںوحشتنظرآنےلگیتھیدونوں‬ ‫کافیدیرتکخاموشبیٹھےرہے۔بوڑھاارشادخیالاتمیںکھویاہواتھا۔زرد‬ ‫رنگ کے ڈھیلے ڈھالے لبادے میں اس کا چھوٹا ساجھریایا ہوا چہرہانتہائی‬ ‫رُپاسرارمعلومہورہاتھا۔‬ ‫”میں جو کچھ بھی کہنے جا رہا ہوں‪ ،‬وہ ہمیشہ تمہاری ہی ذات تک محدود رہے‬ ‫گا!“اسنےکچھدیربعدبھرائیہوئیآوازمیںکہا۔‬ ‫”میںوعدہکرتیہوں۔۔۔آپمطمئنرہئے!“راضیہکااشتیاقواضطراب‬ ‫بہتزیادہبڑھگیتھا۔‬ ‫”سنو۔۔۔وہمیرےداداکیّڈہیوںکاڈھانچہتھا!“‬ ‫‪29‬‬

‫راضیہ کے ہونٹ ہلے لیکن آواز نہ نکلی‪ ،‬وہ حیرت سے بوڑھے ارشاد کو گھور‬ ‫رہیتھی!‬ ‫”اسیزمیںپرآجسےپینسٹھسالپیشترایکبہتبڑیٹریجڈیہوئیتھیاور‬ ‫وہآجبھیایکبہتبڑیٹریجڈیہے۔صرفپچاسروپیوںکیباتتھی۔‬ ‫میرےخدا۔۔۔میںآجبھییادکرتاہوںتومیرےرونگٹےکھڑےہوجاتے‬ ‫ہیں!“‬ ‫”جلدیسےکہہڈالیے۔۔۔مجھےاختلاجہونےلگاہے!“راضیہنےکہا۔‬ ‫بوڑھاچندلمحےخاموشرہاپھراسنےکہا۔”ابھیتمجسکیتصویردیکھچکی‬ ‫ہو۔۔۔اسنےمیرےدادا۔۔۔یعنیاپنےباپکوصرفپچاسروپیوںکے‬ ‫لیےقتلکیاتھا۔۔۔اوروہلاشآجتکبےگوروکفنپڑیہے۔۔۔بےگورو‬ ‫کفن۔۔۔خدامجھےاورسبکومعافکرے۔۔۔مجھمیںاتنیہمّ ِتنہیہے‬ ‫کہانّڈہیوںکووہاںسےنکالکردفنکرسکوں۔۔۔میرےباپنےبھی‬ ‫ہمّ ِتہاردیتھی۔“بوڑھاارشادخاموشہوگی۔‬ ‫‪30‬‬

‫”لیکنوہّڈہیاںبےگوروکفنکیوںہیں؟“راضیہنےمُضطربانہاندازمیںکہا۔‬ ‫”مجھےپوراواقعہبتائیے۔“‬ ‫”چچاکوپچاسروپوںکیضرورتتھی۔۔۔وہاچھاآدمینہیتھا۔کسیبرے‬ ‫کاممیںصرفکرنےکےلیےاسےروپیوںکیضرورتتھی۔وہشرابکے‬ ‫نشےمیںتھا۔۔۔داداصاحبنےنہصرفانکارکردیابلکہاسےبرابھلابھی‬ ‫کہا۔وہیںدیوارپرایکتیرآویزاںتھا۔چچانےہّصغمیںآکروہیںاُسیتیر‬ ‫سےحملہکردیا۔پےدرپےتینچاروارکئےاوروہوہیںٹھنڈےہوگئے۔پھر‬ ‫وہکمینہفرارہوگیاوراس ِدنسےآجتکاسکیخبرہینہیملی۔والد‬ ‫صاحب اور میرے سب سے چھوٹے چچا گھر ہی میں موجود تھے۔ جتنی دیر‬ ‫میںوہوہاںپہنچتےسبکچھختمہوچکاتھا۔گھرمیںاسوقتصرفتینآدمی‬ ‫تھے۔میریماں‪،‬والدصاحباورچھوٹےچچا۔میںموجودنہیتھا۔تمیقین‬ ‫جانو چالیس سال کی عمر تک مجھے یہ واقعہ نہی معلوم ہو سکا۔ وجہ یہ ہوئی کہ‬ ‫داداصاحبانہیا ّیاممیںحجکےلیےجانےوالےتھے۔جبمیںگھرآیاتو‬ ‫‪31‬‬

‫مجھےبتایاگیتھاکہوہحجکےلیےچلےگئے!سبیہیجانتےتھےکہوہحجکے‬ ‫لیےگئے۔مگرحقیقتیہیتھیکہوالدصاحباورچھوٹےچچانےملکران‬ ‫کیلاشتہہخانےمیںڈالدیتھی۔وہنہیچاہتےتھےکہخاندانبدنامہو‬ ‫کیونکہ ہماراخاندان صدیوں سے ذی ّزعت سمجھا جاتا رہا تھا۔ بہرحال کچھ‬ ‫ِدنوںبعدداداصاحبکےلیےیہمشہورکردیاگیکہوہبیتاللہشریفمیں‬ ‫فوتہوگئے۔رہگی ُگمسدہچچاکامعاملہتواسکیطرفکسینےدھیانبھینہ‬ ‫دیاکیونکہوہایکاوباشآدمیتھا‪،‬ویسےبھیمہینوںگھرمیںاسکیشکلنہی‬ ‫دکھائیدیتیتھی۔“‬ ‫”لیکن۔۔۔!“راضیہنےتھوکنگلکرکہا۔”لاشیونہیکیوںپڑیرہگئی۔“‬ ‫”اوہ۔۔۔پھرکسیکیہمّ ِتہینہیپڑیکہوہاستہہخانےمیںاُترتا۔والد‬ ‫صاحبنےمجھے ُاسکےقّلعتماسوقتبتایاجبمیںچالیسبرسکاتھا‪،‬‬ ‫یعنیآجسےچالیسسالپہلے۔لیکنمیںتمہیںکیابتاؤں۔مجھمیںبھیاتنی‬ ‫ہمّ ِتنہیہےکہتہہخانےمیں ُاترکرانّڈہیوںہیکوسپر ِدخاککردوں!“‬ ‫‪32‬‬

‫کچھدیرکےلیےکمرےپرخاموشیمسلطہوگئی۔‬ ‫پھربوڑھا بولا۔ ”جب تک یہ واقعہ مجھے معلوم نہی ہوا تھا۔۔۔میں اپنے‬ ‫وّچبں پر جان دیتا تھا۔ لیکن جب یہ واقعہ معلوم ہوا‪ ،‬مجھے ان تینوں سے‬ ‫وحشتہونےلگی!والدصاحبکیزندگیتکوہمیرےساتھرہےپھرمیں‬ ‫نےانہیالگکردیا۔“‬ ‫”آخرانکاکیاقصورتھا۔“راضیہنےپوچھا۔‬ ‫”چچا۔۔۔سےمشابہتکیبناپرمجھےانسےوحشتہوتیہے۔تمہاراباپتو‬ ‫خاصطورسے۔۔۔“‬ ‫”توکیاآپ سمجھتےہیںوہبھیاسمشابہتکیبناآپسے وہی برتاؤ کریں‬ ‫گ!“‬ ‫”میںجانتاہوںکہیہایکلغوخیالہےمگرمیںکیاکروں۔اورابوہمجھےاور‬ ‫زیادہمحتاطرہناپڑےگا۔آخروہسانپتمہارےوینٹیبیگمیںکہاںسےآیا‬ ‫‪33‬‬

‫تھامجھےبتاؤ۔۔۔“‬ ‫راضیہکچھنہبولی۔اسکےپاساسباتکاکوئیجوابنہیتھا۔حالاتکوم ِد‬ ‫نظررکھتےہوئےوہیہیسوچسکتیتھیکہسانپکسینےگھرہیمیںرکھاہو‬ ‫گا۔لیکناسےاچھیطرحیادتھاکہوہگھرسےروانہہوکرکوبرامینشنجانے‬ ‫سے پہلے ایک ریستوران میں گئی تھی اور وہاں اس نے پف کرنے کے لیے‬ ‫وینٹیبیگبھیکھولاتھا۔پھرکیاکوبرامینشنمیںکسینےیہحرکتکیتھی؟مگر‬ ‫وہاںتووینٹیبیگاسکےہاتھہیمیںرہاتھا۔۔۔ممکنہےکسینےاسکے‬ ‫باوجودبھیہاتھکیصفائیدکھائیہو۔مگروہاسکاباپیاکوئیچچاہرگزنہیہو‬ ‫سکتاتھا۔‬ ‫”کیاسوچنےلگیں۔“ارشادنےپوچھا۔‬ ‫”اسیسانپکےقّلعتم۔“‬ ‫”متسوچو۔۔۔مجھےیقینہےکہیہحرکتتمہارینہیہوسکتی۔“‬ ‫‪34‬‬

‫”مگرداداجان!میںاپنےباپیاکسیچچاپربھیشبہنہیکرسکتی!“‬ ‫”ختمکرو‪،‬انباتوںکو!“بوڑھاہاتھہلاکربولا۔”میںاپنیموتسےپہلےنہی‬ ‫مرسکتا!“‬ ‫”اگریہیخیالہے۔۔۔توپھرآپنےانلوگوںکوالگکیوںکردیاہے!“‬ ‫”تمہاریمنطق اوربحث مجھےتنگکرڈالتی ہے۔ میں نے الگکردیا۔۔۔‬ ‫میریمرضیمیراجودلچاہےگا۔کروںگا۔“‬ ‫”بہرحالمیںابیہاںنہیرہوںگی۔“‬ ‫”کیا!“بوڑھا۔آنکھیںنکالکربولا۔”تممجھےتنہانہیچھوڑسکتیں!میںاپنی‬ ‫اولادمیںتمہیںسبسےزیادہپسندکرتاہوں۔تمنہیجاسکتیں۔“‬ ‫راضیہخاموشبیٹھیرہی!لیکناسکےچہرےپربیزاریکےآثارتھے۔‬ ‫‪35‬‬

‫(‪)۲‬‬ ‫کیپٹنفیضنےجیسےہیکمرےمیںقدمرکھاعمراناپناسرپیٹنےلگا۔فیضنے‬ ‫اسکیپرواہنہکی۔آگبڑھکراسکےدونوںہاتھپکڑلیےاوردانتپیس‬ ‫کربولا۔”تمخواہمخواہایکنہایکشوشہچھوڑکرہمیشہالگہوجاتےہو!“‬ ‫”شوشہخودبخودچھوٹتاہےپیارےفیض!“عمراننےسنجیدگیسےکہا۔”غاًابل‬ ‫تمتیموراینڈبارٹلےوالیباتکیطرفاشارہکررہےہو۔بیٹھجاؤ۔آجمیری‬ ‫عقلمیںسختدردہےاسلیےمیںکوئیجسمانیمحنتنہیکرسکتا!“‬ ‫”میرا موڈ بہت خراب ہے۔ اگر تم نے اوٹ پٹانگ باتیں شروع کیں تو مار‬ ‫‪36‬‬

‫بیٹھوںگا!“‬ ‫”میں آج کل طل ِسم ہوش ُربا کی آٹھویں جلد لکھ رہا ہوں۔۔۔ بیٹھو۔۔۔‬ ‫بیٹھو۔۔میںتمہیںچندٹکڑےکھلاؤں۔۔۔ارر۔۔۔سناؤںگا۔۔۔“‬ ‫”عمران۔۔۔!“‬ ‫”یسمائیڈئیرسوپرفیض۔۔۔یہٹکڑابڑےغضبکاہے۔۔۔آنا ُہ ُہمرصع‬ ‫پوش کا طرف کوہ چقماق کے اور۔۔۔ یہاں دو کنہ داستان۔۔۔ ولد ساقی‬ ‫نامہ۔۔۔ماصلباقینویسارےباپرے۔۔۔!“فیضنے ُاٹھکراسکا‬ ‫منہدبادیا۔۔۔‬ ‫”تمخواہمخواہمجھسےنہ ُالجھوورنہ۔۔۔!“فیضبڑبڑایا۔‬ ‫”ورنہکیاہوگا؟“عمراننےاپنےمنہپرسےاسکاہاتھہٹاتےہوئےکہا!‬ ‫”میں تمہیں کسی مصیبت میں پھنسا دوں گا۔۔۔ تم نے نیلے پرندوں والے‬ ‫معاملےمیںایکبہتبڑاجعلکیاتھا۔“‬ ‫‪37‬‬

‫”کیامطلب۔۔۔!“‬ ‫”تمنےہومسیکرٹریکاجوسرٹیفکیٹدکھایاتھاجعلیتھا!“‬ ‫”آجسمجھےہویہبات!“عمراننےقہقہہلگایا۔”مگرپیارےکپتانصاحب!تم‬ ‫میراکچھنہیبگاڑسکتے۔۔۔“‬ ‫”چلوچھوڑو!میںکسیسےاسکاتذکرہنہیکروںگا۔۔۔“‬ ‫”اسطرحتمخوداپنےاوپرایکاحسا ِنعظیمکروگ!“عمراننےآہستہ‬ ‫سےکہا!‬ ‫”آخرتمتیموراینڈبارٹلےکےقّلعتمصافصافکیوںنہیبتاتے۔۔۔“‬ ‫”صافصاف۔۔۔!یہاسیوقتبتاسکوںگاجبمجھےصافصافمعلومہو‬ ‫جائے۔۔۔ویسےوہلوگکوئیغیرقانونیحرکتضرورکررہےہیں!“‬ ‫”نوعیتہیبتادو!“‬ ‫”یہاںسےدوکنہداستانحیرتنشانفیضخچرسوارکےبیانکئےجاتےہیں‬ ‫‪38‬‬

‫کہپہلوانزبردستتھا۔۔۔مارکھانااسکاہاتھسے عمرانصاحبقران‬ ‫عالیشانکے۔۔۔اورروناسرپیٹپیٹکر۔۔۔ہپ!“‬ ‫”تمگدھےہو۔۔۔“فیضجھنجھلاگی۔‬ ‫”یہباتتمنےپہلےکہہدیہوتیتواتناسرنہمارناپڑتا!“‬ ‫”پرسوں۔۔۔تیموراینڈبارٹلےکےشوروممیںتمبھیتھے۔۔۔تمنےدویا‬ ‫تینمنٹتکوہاںارشادکیپوتیراضیہسےگفتگوبھیکیتھی۔۔۔کیوں؟کیا‬ ‫میںغلطکہہرہاہوں۔۔۔راضیہتمہاریبہنثر ّ ایکیدوستہے!“‬ ‫”ہاںہاں!توپھر؟“‬ ‫”تمہیںاسکااعترافہےکہوہتمہیںوہاںملیتھی!“‬ ‫”قطعیہے۔۔۔!“عمراننےکہااورجیبمیںچیونگمکاپیکٹتلاشکرنےلگا!‬ ‫”تبپھرتمہیںمیرےچندسوالاتکاجوابدیناپڑےگا!“‬ ‫”سوالاتلکھکرلاؤ۔۔۔پرچہڈھائیگھنٹےسےکمنہہوناچاہیے۔۔۔ساتمیں‬ ‫‪39‬‬

‫پانچسوالضروریہوں۔۔۔فارغخطی۔۔۔ار۔۔۔کیاکہتےہیں۔۔۔اسے‬ ‫خوش قسمتی۔۔۔ ار۔۔۔ نہی۔۔۔ کیا کہتے ہیں۔۔۔ خوشخطی۔۔۔‬ ‫خوشخطی۔۔۔کےنمبرالگ!“‬ ‫”جبتماسسےملےتھےتواسکاوینٹیبیگاسکےہاتھمیںتھایانہی!“‬ ‫”نہیوینٹیبیگتونہیتھا!الٹِ ِّنہاسنےاپنےگلےمیںمتعددجھولیاںلٹکا‬ ‫رکھیتھیں!“‬ ‫”عمرانمیںتمسےسنجیدگیاختیارکرنےکیاستدعاکروںگا!“‬ ‫”کیافائدہ!“عمرانسرہلاکربولا۔”اگرمیںسنجیدہہوگیتوتمکمرےکےباہر‬ ‫نظرآؤگ۔۔۔یاپھراسقابلنہرہسکوگکہنظرآسکو۔۔۔!“‬ ‫”میرےسوالکاجوابدو!“فیضدانتپیسکربولا۔‬ ‫”چچچچ!“عمراننےتشویشآمیزلہجےمیںکہا۔”اسیقسمکیبداحتیاطیوںکی‬ ‫بنا پر دانت کمزور ہو جاتے ہیں! آنکھوں کے سامنے نیلی پیلی چنگاریاں اُڑتی‬ ‫‪40‬‬

‫ہیں۔سرچکراتاہے۔۔۔اورعقلکامنہیکرتیکہکسدواخانہسےرجوع‬ ‫کیا جائے تاکہ ایمان دھرم سے کہہ دینے پر آدھی قیمت واپس مل‬ ‫جائے۔۔۔!“‬ ‫”اچھاتمبھگتوگ!“فیضاٹھکردروازےکیطرفبڑھتاہوابولا۔‬ ‫”بھگتنےہیکےڈرسےمیںنےابھیتکشادینہیکی!“‬ ‫”اسکےوینٹیبیگمیںسانپتھا!“فیضنےدروازےمیں ُرککرعمران‬ ‫کیطرف ُمتےہوئےکہا۔‬ ‫”بڑیکمہمّ ِتلڑکیمعلومہوتیہے!“عمراننےلاپروائیسےکہا۔‬ ‫”اگرمیںلڑکیہوتاتومیرےوینٹیبیگسےکمازکمایکہاتھیضروربرآمد‬ ‫ہوتا۔۔۔الاماشاءاللہ۔۔۔“‬ ‫”عمرانمیںتمہیںآفسمیںطلبکرکےتمہیںانسوالاتکےجوابپر‬ ‫مجبورکروںگا!“‬ ‫‪41‬‬

‫”جبتکتممجھےپوریباتنہیبتاؤگمجھسےکچھبھیمعلومنہیکرسکو‬ ‫گ!“‬ ‫فیضپھرپلٹکرآیا۔۔۔چندلمحےخاموشبیٹھارہا۔۔۔پھربولا۔۔۔‬ ‫”ارشادسےواقفہو؟“‬ ‫”ہاں مشاعروں میں اکثر ّرکمر ارشاد ُُس کا ا ِّتاق ہوا ہے!“ عمران نے‬ ‫سنجیدگیسےکہا۔‬ ‫”میںشہرکےمشہورکروڑپتیارشادکیباتکررہاہوں!“فیضجِھ ّلاگی!‬ ‫”توایسےبولونا۔۔۔ہاںمیںنےاسکانامانُسہے۔۔۔اوراسکیپوتیراضیہ‬ ‫سےاچھیطرحواقفہوںکیونکہوہثر ّیاکیدوستہے!“‬ ‫”پرسوںاسکیوینٹیبیگسےایکسانپبرآمدہواتھا۔۔۔وینٹیبیگارشاد‬ ‫نےکھولاتھا۔۔۔راضیہسانپکےوجودسےلاعلمیکااظہارکرتیرہی۔۔۔اور‬ ‫یہخودراضیہہیکابیانہےکہبوڑھااکثراسکاوینٹیبیگکھولکراسمیں‬ ‫‪42‬‬

‫رکھیہوئیچیزیںاُلٹپلٹڈالاکرتاتھا!“‬ ‫”بہتاچھیعادتہے۔۔۔!“عمرانسرہلاکربولا۔”آجکلکیلڑکیاںنہ‬ ‫جانےکیاالابلاوینٹیبیگوںمیںلیےپھرتیہیں!“‬ ‫”ارشادکاخیالتھاکہیہحرکتاسےمارڈالنےکےلیےکیگئیتھی!کسنےکی‬ ‫تھی‪،‬یہابتکنہیمعلومہوسکا!“‬ ‫”کمالہےیارفیض۔۔۔کہیںتمہیںگھاستونہیکھاگئی!ابھیتمکہہرہے‬ ‫تھےکہسانپراضیہکےوینٹیبیگسےبرآمدہواتھا!“‬ ‫”وہنہیجانتیکہسانپاسکےوینٹیبیگسےکیسےپہنچاتھا!“‬ ‫”پھر میں کیا کروں۔۔۔!“ عمران اپنی پیشانی پر ہاتھ مار کر بولا۔ ”میرا دماغ‬ ‫کیوںچاٹرہےہو!“‬ ‫”وہتیموراینڈبارٹلےکےشوروممیںسانپدیکھنےگئیتھی۔۔۔لیکنتموہاں‬ ‫موجودتھے!تمہاراوہاںکیاکامتھا۔۔۔“‬ ‫‪43‬‬

‫”میںوہاںجھکماررہاتھا۔۔۔تمسےمطلب۔۔۔“‬ ‫”تم ابھی پورے حالات سے آگاہ نہی ہو!“ فیض نے رُبا سا منہ بنا کر کہا۔‬ ‫”ورنہاسطرحنہچہکت!“‬ ‫”توچہکنابندکردونا۔۔۔میرا۔۔۔“عمرانلاپروائیسےبولا۔‬ ‫”پرسوںراتراضیہاپنےکمرےمیںسورہیتھی۔۔۔وہارشادمنزلہیمیں‬ ‫راتبسرکرتیہے۔۔۔اسکےعلاوہارشادکےاعزہمیںسےاورکوئیارشاد‬ ‫منزلمیںنہیداخلہوسکتا۔۔۔بہرحالوہوہیںرہتی ہے۔اسکیاور‬ ‫ارشادکیخوابگاہکےدرمیانصرفایکدیوارحائلہے۔۔۔راضیہسو‬ ‫رہیتھی۔۔۔اچانککسیقسمکیتیزآوازنےاسےجگادیا۔۔۔اورپھردوسری‬ ‫چیخاسنےبیدارہوجانےپرسنی۔۔۔وہبلاشبہارشادکیچیختھی!تقرًابیپانچ‬ ‫چھمنٹتکوہمسہریپربےحسوحرکتپڑیرہی!ارشادکےکمرےسے‬ ‫اب کچھ اس قسم کی آوازیں آ رہی تھیں جیسے کئ آدمی لڑ پڑے ہوں۔۔۔‬ ‫تھوڑیدیربعدبالکل ّ اسٹاہوگی۔۔۔“‬ ‫‪44‬‬

‫”خدا کا شکر ہے!“ عمران آہستہ سے بڑبڑایا! فیض کی پیشانی پر سلوٹیں‬ ‫ابھریںلیکنوہعمرانسےالجھےبغیربولتارہا۔”راضیہ ُاٹھکرسیدھینوکروں‬ ‫کے کوارٹر میں گئی۔۔۔ اور انہی جگا کر اپنے ساتھ ارشاد کی خواب گاہ تک‬ ‫لائیجسکادروازہکھلاہواتھا۔۔۔لیکنخوابگاہخالیتھی!ارشادکےبسترپر‬ ‫بہتساخونتھا!پلنگکےنیچےایکخنجرملا۔۔۔وہبھیخونآلودتھا!سرہانے‬ ‫کیچھوٹیمیزالٹیپڑیتھی۔دوکرسیاں ُالٹگئیتھیں۔۔۔غرضیکہصاف‬ ‫ظاہرہورہاتھاکہوہاںکافیدیرتککشمکشہوئیہے۔۔۔مگر۔۔۔ارشادکاکہیں‬ ‫پتہنہتھا۔۔۔!“‬ ‫عمرانکچھنہبولا۔وہغورسےفیضکیطرفدیکھرہاتھا۔۔۔‬ ‫”ارشاد۔۔۔اببھیلاپتہہے۔۔۔راضیہنےبہتکچھبتایاہے۔۔۔حالانکہ‬ ‫خوداپناوجودبھیشبہےسےبالاترنہیرکھا۔۔۔“‬ ‫”اسنےکیابتایاہے؟“عمراننےپوچھا۔‬ ‫‪45‬‬

‫”یہیکہارشاداپنےتینوںلڑکوںکیطرفسےمطمئننہیتھا۔۔۔یہیوجہ‬ ‫انکیعلیحدگیکیبھیتھی۔۔۔راضیہکےعلاوہاورکوئیارشادمنزلمیںنہی‬ ‫جاسکتاتھا!“‬ ‫”اسلڑکیپراسےبہتاعتمادتھا!“‬ ‫”ہاں!اسکابیانیہیہے۔۔۔!“‬ ‫”تمہاراکیاخیالہے۔“‬ ‫”میںابھیتککوئیرائےقائمنہیکرسکا!“‬ ‫”جس ِدنتمرائےقائمکرنےکےقابلہوئےاس ِدنتمہاریبیویبالغہو‬ ‫جائےگی!“‬ ‫”عمران۔۔۔!میںتمسےپوچھتاہوںکہتموہاںکیاکررہےتھے۔۔۔“‬ ‫”کہاں!مائیڈئیرفیض۔۔۔“عمرانیکبیکسنجیدہہوگی۔چندلمحےفیضکو‬ ‫گھورتارہاپھربولا۔”تممجھپرکسباتکاہبُشکررہےہو؟“‬ ‫‪46‬‬

‫”میںفیالحالتمپرکسیقسمکاہبُشنہیکررہا۔۔۔صرفیہپوچھناچاہتاہوں‬ ‫کہتموہاںکیاکررہےتھے۔“‬ ‫”وہاںقریبقریبڈیڑھسوآدمیتھے۔۔۔“عمراننےسنجیدگیسےکہا۔‬ ‫”میںانسےمشورہکرنےکےبعدتمہارےاسسوالکاجوابدوںگا۔“‬ ‫فیضکوپھرہّصغآگی۔اسنےغ ّراکرکہا۔‬ ‫”تمسمجھتےہوشایدمیںاسکیسمیںتمہاریمددچاہتاہوں!“‬ ‫”نہی میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم دوسروں کا وقت برباد کرنے کے‬ ‫اسپیشلسٹہو۔“‬ ‫”تمجھکماررہےہو!“فیضکرسیسےاُٹھتاہوابولا۔”راضیہکےوینٹیبیگ‬ ‫سےبرآمدہونےوالےسانپکیوجہسےمیںنےتمسےملنامناسبسمجھا!‬ ‫کیونکہتمنےایکبارتیموراینڈبارٹلےوالوںکیغیرقانونیحرکتکاتذکرہکیا‬ ‫تھا۔۔۔ راضیہ کہتی ہے کہ شو روم میں جانے سے پہلے سانپ وینٹی بیگ میں‬ ‫‪47‬‬

‫نہیتھا!“‬ ‫”کہتیہوگی۔۔۔متبورکرو۔۔۔جاؤاپناکامدیکھو۔۔۔میںآجکلبہت‬ ‫مشغولہوںاسوقتمیرےپاسطلاقکےبارہکیسہیں۔ہرکیسمیںکم‬ ‫ازکمایکہزارملنےکیتوقعہے۔۔۔“‬ ‫‪48‬‬

‫(‪)۳‬‬ ‫تیموراینڈبارٹلےکاجنرلمنیجرتیموراپنےشاندارمکانکیشانداراسٹڈیمیں‬ ‫بیٹھااپنیفرمکےدوشکاریوںسےہمکلامتھا!تیموردراصلاسفرمکاہّصح‬ ‫دارتھا۔دوسراہّصحداربارٹلےتھاجوانگریزتھااورزیادہترسمندرپارہیرہکر‬ ‫بیرونیتجارتکیدیکھبھالکرتاتھا!‬ ‫تیمورایکدرازقداورقویہیکلآدمیتھا!عمرپچاسکےلگبھگرہیہوگی!‬ ‫چہرہاببھیرُپکششتھا!‬ ‫”تمدونوں!“وہ شکاریوںسےکہہ رہا تھا۔ ”بعض اوقاتبہت آگ بڑھ‬ ‫‪49‬‬

‫جاتےہو!میںاسےپسندنہیکرتا۔۔۔!“‬ ‫شکاریوںمیںسےایکجو‪،‬جوانالعمراورمضبوطہاتھپیروالاتھابولا۔”آگ‬ ‫بڑھےبغیراگرکامچلسکےتواسکیضرورتہیکیاہے۔۔۔!“‬ ‫”نہی۔۔۔ اب تم اپنی مرضی سے کوئی کام نہی کرو گ!“ تیمور کے لہجے‬ ‫میںسختیتھی۔‬ ‫”آپاپنالہجہدرستکیجئےمسٹرتیمور۔۔۔!“جوانالعمرشکارینےکہا۔‬ ‫”کیا۔۔۔؟“تیموراسطرحچونکاجیسےاسکےسرپربمپھٹاہو۔۔۔چندلمحے‬ ‫اسکےچہرےپرحیرتکےآثارنظرآتےرہےپھروہیکبیکرُسخہو‬ ‫گی۔۔۔!”تممجھسےاساندازمیںگفتگوکیجرٔاتکررہےہو!“وہغ ّرایا۔‬ ‫”ہاںمسٹرتیمور!“جوانالعمرشکاریمُسکراکربولا۔”میںبہتباحوصلہآدمی‬ ‫ہوںاورمیںزندگیبھراسیکمترحیثیتمیںنہیرہوںگا۔ہوسکتاہے۔۔۔‬ ‫دس پانچ سال بعد فرم کا نام ہی بدل جائے۔۔۔ لوگ اسے طارق تیمور اینڈ‬ ‫‪50‬‬