سانپوںکےشکاری اِنبصفی عمرانسیریز۷ ۱۹۵۶
پیشرس یہرہےساپنوںکےشکاری۔۔۔نڈر۔۔۔بےخوفاورسبکچھکرگزرنے والے! کہانی ایک بڑی پرانی داستان سے شروع ہوتی ہے۔۔۔ اور اتنی سنجیدگی سے شروع ہوتی ہے کہ اُس کی صداقت میں شبہے کی گنجائش نہی رہتی۔۔۔لیکن۔۔۔؟ اصلیت!محکمہرُساغرسانیکےسپرنٹنڈنٹکیپٹنفیضکیزبانیسنیئے۔ ایک انہونی بات بھی آئے گی یعنی فیض عمران کی گرفتاری کا وارنٹ لیے گھومرہاتھا!اورعمران۔۔۔؟عمرانکواِسبارایکنئےروپمیںدیکھئے،ایک 5
رُپاسرارنمبرایکسفائیتھرینائنجسکےلیےکئپارٹیاںحرکتمیںنظر آتیہیں۔۔۔کشتوخون۔۔۔س ِرراہخوفناکدھماکہ۔۔۔ایکسفائیتھری نائن کا راز۔۔۔ عمران ہر کارنامہ تنہا سر انجام دیتا ہے۔ ایکس فائی تھری نائین۔۔۔لاکھوںروپےکیدولتلیکناسکےحصولکےلیےلڑمرنے والوں کی مایوسی! ایکس فائی تھری نائین۔۔۔ عمران اور فیض لیے ایک خطرناکلمحہ! اسکےعلاوہوہسبکچھجسکیآپاِنبصفیسےتوقعرکھتےہیں! ہمیں یقین ہے کہ یہ ناول بھی اِنب صفی کے گزشتہ کارناموں کی صف میں ایکامتیازیمقامحاصلکرےگا! پبلشر 6
()۱ تیمور اینڈ بارٹلے کا آفس پوری عمارت میں پھیلا ہوا تھا۔۔۔! اس فرم کے علاوہاسعمارتمیںاورکسیکاکاروبارنہیتھا۔۔۔اسیبناپریہعمارتکوبرا مینشنکےنامسےمشہورہوگئیتھی!ویسےاسکانامکچھاورتھا! تیمور اینڈ بارٹلے کی فرم سانپ کی کھالوں کی تجارت کرتی تھی۔۔۔ کاروبار بہتبڑاتھا۔دفترمیںدرجنوںکلرکتھے،مختلفشعبوںکےمنیجرالگالگ تھےاوراُنکیتعدادبارہسےکسیطرحکمنہیتھی۔۔۔تیندرجنشکاری تھے۔۔۔ جن کے ذےّم سانپوں کی فراہمی کا کام تھا۔۔۔ لیکن یہ سپیرے 7
نہیتھے۔۔۔اورنہاسکےقائلتھےکہبیننُسکرسانپجھومنےلگتے ہیں!یہتعلیمیافتہلوگتھےاورسانپوںکےشکارکےسلسلےمیںانکاطریقہ کارسائنٹیفکہوتاتھا۔انہیبڑیبڑیتنخواہیںملتیتھیںاورانکیظاہری حالتدیکھکرکوئینہیکہہسکتاتھاکہانکاپیشہاتناحقیراورگنداہوگا! کوبرا مینشن کا ہال فرم کا شو روم تھا۔ یہاں صرف صد ہا قسم کے سانپوں کی کھالیں موجود تھیں بلکہ مختلف قسم سے تعلق رکھنے والے زندہ سانپ بھی کثیرتعدادمیںتھے۔ہفتےمیںدو ِدنیہشورومپبلکمیوزیمبنجایاکرتاتھا ایتعونایرہتفھتاےم۔ی۔ں۔داوو ِدرکنوبہرراآمدیمنیشکنسیکرےواکسٹوبڑکےکہاےبلغیمریوہںا ِِںتجارسککھتناےتھکای۔ب۔ھی۔جآگجہ نہیتھی۔۔۔آجکچھغیر ُکلُمسانپنمائشکےلیےرکھےگئےتھےجنمیں جنوبیامریکہکےجاراکاکا۔۔۔اورافریقہکےبلیکمومبابھیتھے۔ راضیہصرفانہیدواقسامکےسانپدیکھنےکےلیےیہاںآئیتھیورنہاور سبتواسکےدیکھےہوئےتھے۔۔۔اسےسانپبہتاچھےلگتےتھے۔۔۔ 8
اسکےپاسصدہاقسمکےسانپوںکیتصویریںتھیںاوراسکےذہنپربھی سانپمسلط تھے۔وہجب بھیآنکھیںبند کرتی اسے بیکوقت ہزاروں سانپوں کی کلبلاہٹ محسوس ہونے لگتی۔۔۔ خواب میں اسے سانپ نظر آتے۔۔۔جبوہسونےکےلیےپلنگپرلیٹتیتوغنودگیکےعالممیںاسے ایسامحسوسہوتاجیسےاسکےسارےجسمپرٹھنڈےٹھنڈےسانپرینگتے پھررہےہوںلیکناِسسےاُسےوحشتنہیہوتیتھیبلکہوہایکعجیب قسمکیآسودگی اورطمانیتمحسوسکرتی۔۔۔ اسپرخود ُاسےبھی حیرت تھی۔ وہکافیدیرتککوبرامینشنکےشوروممیںرہی۔۔۔وہاتنیمحوتھیکہاسے پانچ بجنے کی بھی خبر نہ ہوئی! حالانکہ یہ وقت اس کی زندگی میں بہت اہمیت رکھتاتھا۔۔۔!وہجہاںکہیںبھیہوروزانہٹھیکپانچبجےشامکواسکاارشاد منزل پہنچنا ضروری تھا۔۔۔ رات اسے وہیں بسر کرنی پڑتی تھی۔۔۔! بوڑھا ارشاد اس کا دادا تھا۔۔۔ کروڑوں کی دولت کا مالک! اس کے تین بیٹے تھے 9
لیکنانمیںسےکوئیبھیارشادمنزلمیںقدمنہیرکھسکتاتھا۔۔۔!ٰیتح کہخودراضیہکاباپبھینہیانکاکنبہبہتبڑاتھا۔۔۔لیکنراضیہکےعلاوہ اور کوئی بھی بوڑھے ارشاد سے قریب نہی تھا۔۔۔ ارشاد اسے بہت پسند کرتاتھا۔۔۔اوروہاسکےمعاملاتمیںبہتزیادہدخیلتھی۔۔۔لیکنیہ ڈیوٹیاسےبھیبہتکھِلت ِیتھی۔۔۔خواہکچھہواسکاپانچبجےشامکوبوڑھے ارشادکےپاسپہنچنابہتضروریتھا! آج وہ ساڑھے پانچ بجے پہنچی! ارشاد جھنجھلایا ہوا تھا! اسے دیکھتے ہی برس پڑا۔۔۔ ”میںنےابھیتکچائےنہیپی!“وہغرایا!”تمجانتیہوکہمیںٹھیکسوا پانچبجےچائےپیتاہوںاورتمہرحالمیںمیرےساتھپیتیہو۔۔۔“ ”جی۔۔۔!وہمیری۔۔۔ایکسہیلی۔۔۔!“ ”سہیلی۔۔۔!مجھسےزیادہتھی۔۔۔!“ 10
”جی۔۔۔وہ۔۔۔دیکھئے۔۔۔!“ \"کچھنہی۔۔۔!جاؤ۔۔۔ابیہاںتمہاریضرورتنہیہے۔۔۔!“ارشاد نےکہالیکنلہجےمیںتحکمکیبجائےشکوےکاسااندازتھا! ”داداجان۔۔۔آپتوسمجھےنہی۔۔۔وہمیری۔۔۔سہیلی!“ ”میںنےابھیچائےنہیپی۔۔۔!“ ”تومیںمنگواتیہوںچائے۔۔۔!“راضیہکمرےسےچلیگئی۔۔۔! ارشادکیعمراسیسےکمنہیتھی!دبلاپتلاپلپلےجسمکاآدمیتھا۔۔۔چہرےپر بے شمار گہری جھریاں تھیں۔۔۔ لیکن وہ روزانہ شیو کرنے کا عادی تھا۔۔۔ لوگاسےجھکیسمجھتےتھے۔۔۔ارشادمنزلمیںوہتنہارہتاتھا۔۔۔!کنبےکے دوسرےافرادشہرکےمختلفوّصحںمیںمقیمتھے۔۔۔انکاکفیلارشادہی تھا!لیکنانہیارشادمنزلمیںقدمرکھنےکیاجازتنہیتھی۔۔۔!اسکی وجہخودانلوگوںکوبھینہیمعلومتھی۔ 11
ارشاد منزل ایک بہت بڑی عمارتتھی اور شاید شہر کی خوبصورت ترین عمارتوں میں اس کا شمار ہوتا تھا! وہاں ایک دو نہی بلکہ پورے پندرہعدد نوکروںکیفوجرہتیتھی۔۔۔لاتعدادپالتوپرندےتھے۔۔۔درجنوں ِّباں تھیں۔۔۔ اور اتنے ہی خرگوش اور کبھی کبھی راضیہ یہ سمجھنے لگتی تھی کہ وہ بھیانہیپالتوجانوروںمیںسےہے!اسخیالکامحرکارشادکابرتاؤتھا!وہ اسےایکیھّننسییّچبسمجھتاتھااوراسےاپنیمرضیکاپابندبنائےرکھناچاہتا تھا۔۔۔!اسکیذراذراسیباتوںکیٹوہمیںرہتا۔۔۔اوراسوقتتوراضیہکو سچمچہّصغآجاتا،جبوہاسکاوینٹیبیگٹٹولنےلگتا!اسےکھولکراسمیں رکھیہوئیچیزیںالٹپلٹڈالتا۔ اسوقتبھیوہیہیحرکتکررہاتھا!راضیہچائےکےلیےاسکےکمرے سےچلیگئیتھی!اوروہمیزسےاسکاوینٹیبیگاٹھاکراپنےزانوپررکھےاسے کھولرہاتھا۔ اچانکاسکےمنہسےایکہلکیسیچیخنکلیاوروہوینٹیبیگکوپرےجھٹککر 12
کرسیسمیتدوسریطرفالٹگی!۔۔۔ وینٹی بیگ سے ایک چھوٹا سا سانپ نکل کر فرش پر لہریں لے رہا تھا!۔۔۔ بوڑھاارشادبڑیپھرتیسےفرشسےاٹھا۔۔۔لیکننہتواسنےشورمچایااور نہکسیکواپنیمددکےلیےآوازدی! سانپ کی رفتار میں رُسعت نہی تھی! وہ آہستہ آہستہ فرش پر رینگ رہا تھا۔۔۔!ارشادنےاپنیواکنگاسٹکسےبہآسانیاسکاسرکچلدیا!تھوڑی دیربعدوہپھربہتاطمینانسےاسیکرسیپربیٹھاکچھسوچرہاتھا۔۔۔!راضیہ کاویبیگاسنےوہیںرکھدیاتھاجہاںسےاٹھایاتھا! تقرًابی دس منٹ بعد راضیہ خود ہی چائے کی ٹرے اپنے ہاتھوں پر اٹھائے ہوئےکمرےمیںداخلہوئی۔۔۔! ارشاد نے اپنی کرسی میز کی طرف کھسکا لی۔۔۔! اچانک راضیہ کی نظر مردہ سانپپرپڑی۔۔۔وہچائےکیٹرےمیزپررکھچکیتھی! 13
”ارے۔۔۔یہسانپ!“ بوڑھا اسے گھورنے لگا۔۔۔ لیکن راضیہ کے چہرے پر حیرت کے آثار تھے۔۔۔ ”یہیہاں!“ ”پھر!پھراسےکہاںہوناچاہیےتھا!“ارشادنےآہستہسےپوچھا! ”میں کیا جانوں۔۔۔ میرا مطلب یہ ہے کہ۔۔۔ یہ یہاں کمرے میں تھا۔۔۔“ ”میںنےاسےمارڈالا۔۔۔!“ارشاداسکاچہرہغورسےدیکھتاہوابولا! ”مگریہیہاںکیسےآیا۔۔۔!“ ”تملائیتھیں!“ارشادبدستوراسکےچہرےپرنظرجمائےرہا۔راضیہہنسنے لگی۔۔۔!لیکنارشادکیسنجیدگیمیںذرابرابربھیفرقنہیآیا۔ ”میںاسےاسپرٹمیںرکھوںگی!یہکتناخوشرنگہے۔۔۔!“ 14
راضیہنےارشادکےلیےچائےانڈیلتےہوئےکہا! دونوںتھوڑیدیرتکخاموشیسےچائےپیتےرہے،پھرارشادنےکہا! ”تممجھسےتنگآگئیہو!۔۔۔کیوں؟“ ”نہیتو۔۔۔یہآپکیاکہہرہےہیں!“ ”میں۔۔۔میںمحسوسکررہاہوں!“ ”اس معاملے میں ،میں آپ سے لڑ جاؤں گی! آخر آپ کس بناء پر ایسا کہہ رہےہیں!“ ”اسلیےکہمیںسچمچتمپرظلمکرتاہوں۔۔۔!“ ”میںتوایسانہیسمجھتی!آخرآجآپیہجھگڑاکیوںلےبیٹھےہیں!“ ”ضرورًات۔۔۔!آجمیریذراسیغفلتمجھےموتکےگھاٹاتاردیتی۔۔۔ یہسانپتمہارےوینٹیبیگمیںتھا۔۔۔!“ 15
”نہی!“راضیہبوکھلاکرکھڑیہوگئی! ”بیٹھ جاؤ۔۔۔ یہ حقیقت ہے!۔۔۔ یہ واقعی ایک نازیبا بات ہے کہ میں تمہارےوینٹیبیگمیںہاتھڈالدیاکرتاہوں۔۔۔!“ ”ارے۔۔۔ دادا جان۔۔۔ خدا کی قسم! میرے فرشتوں کو بھی۔۔۔ علم نہی!“ راضیہکاچہرہزردہوگیتھااوراسکاسینہدھونکنیکیطرحپھولاورپچکرہا تھا!وہبارباراپنےخشکہونٹوںپرزبانپھیررہیتھی! ”بیٹھ جاؤ۔۔۔ چائے پیو!“ ارشاد نے نرم لہجے میں کہا۔ راضیہ بیٹھ گئی۔۔۔ لیکن اس کا سارا جسم کانپ رہا تھا۔۔۔ ارشاد نے ایک بار پھر اسے غور سے دیکھکرپوچھا!”یہسانپتمہارےوینٹیبیگمیںکسنےرکھاہوگا!“ ”میں۔۔۔میں۔۔۔اسکےقّلعتمکچھنہیجانتی۔۔۔لیکن۔۔۔!“ ”ہاں۔۔۔لیکنکیا۔۔۔!“ 16
”ابھیمیںنے۔۔۔آپسےجھوٹبولنےکیکوششکیتھی۔۔۔!“ ”کیا؟“ ”میںکسیسہیلیکےگھرنہیگئیتھی۔۔۔بلکہمیںتیموراینڈبارٹلےکےشو رومسےسیدھییہیںآئیہوں!“ ”وہاںتمکیوںگئیتھیں!“ ”مم۔۔۔مجھےسانپوںسےدلچسپیہے۔۔۔!“ ”میںجانتاہوں!“ ”گھر سے جب میں چلی ہوں تو۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ وینٹی بیگ میں سانپ نہیتھا۔۔۔کیونکہمیںنےراستےمیںبھیایکجگہاسےکھولاتھا!“ ”شوروممیںتمہارےساتھاورکونتھا!“ ”کوئیبھینہی!میںتنہاگئیتھی!مجھےاطلاعملیتھیکہوہاںآجدوبالکلنئی قسمکےسانپنمائشکےلیےرکھےجائیںگ!“ 17
ارشاد تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا!۔۔۔ پھر بولا۔ ”میری اس بری عادت سےسبھیواقفہوںگکہمیںتمہاراوینٹیبیگکھولکردیکھاکرتاہوں!“ ”جج۔۔۔جی۔۔۔ہاں۔۔۔!“ ”تمنےشکاًاتی۔۔۔لوگوںسےتذکرہکیاہوگا۔۔۔!“ ”اوہ۔۔۔وہ۔۔۔دیکھئے۔۔۔!“ ”میںرُبانہیمانتا۔۔۔صرفیہجانناچاہتاہوںکہکچھلوگاسسےواقف ہیںیانہی!“ ”صرفگھروالے۔۔۔“ ”گھرسےمرادصرفتمہاراگھرہےنا۔۔۔یاجواداورامجدکےگھروالےبھی جانتےہیں!“ ”جیہاںانہیبھیعلمہے!“ ارشادایکطویلسانسلےکرکرسیکیپشتسےٹکگی!۔۔۔ 18
وہ چھت کی طرف دیکھ رہا تھا اور اس کے چہرے کی جھریاں کچھ اور زیادہ گہریمعلومہونےلگیتھیں! ”داداجانآپیقینکیجیے۔۔۔!“ ”میںیہنہیکہتاکہیہحرکتتمہاریہے۔۔۔!“بوڑھےارشادنےآہستہ سےکہا۔ ”آپ نے یہ کیوں پوچھا تھا کہ وینٹی بیگ کے قّلعتم کون کون جانتا ہے۔۔۔!“ ”میںپھریہیکہتاہوںکہیہحرکتتمہارینہیہوسکتی۔۔۔“ ”تواسکامطلبہےکہآپخاندانکےکسیدوسرےفردپرشبہکررہے ہیں!“ ”کیوںنہکروں۔۔۔!کیاآدمیکیوقعتدولتسےزیادہہوتیہے۔۔۔!“ ”اوہو!“یکبیکراضیہکاچہرہرُسخہوگی۔”تبتویہحرکتمیریبھیہو 19
سکتیہے!“ ”نہیتمایسانہیکرسکتیں!مجھےیقینہے۔۔۔!“ ”اسیلیےآپخاندانوالوںکویہاںنہیرکھتے!“راضیہنےپوچھا!اسکے لہجےمیںتلخیتھیاورچہرےسےصافظاہرہورہاتھاکہاسےیکبیکہّصغآ گیہے! ”ہاںاسکیوجہیہیہے!“ ”پھرآپکومجھپراتنااعتمادکیوںہے!“ ”بسیونہی۔۔۔!“ ”نہ ہونا چاہیے۔۔۔! اب میں یہاں کبھی نہ آؤں گی! کبھی نہی! میں گریجویٹہوںاوراپنیروزیخودکماسکتیہوں!“ ”میں اسی لیے تمہیں پسند کرتا ہوں! اسی لیے مجھے تم پر اعتماد ہے!“ بوڑھا ارشادمُسکراکربولا۔”تممیریخوشامدنہیکرتیں۔۔۔صافگوئیسےکام 20
لیتیہو۔“ ”لیکنمیںاسےبرداشتنہیکرسکتیکہآپوالدصاحبپرکسیقسمکاہبُش کریں!“ ”اسسےمیریاپنیپسندپرکوئیاثرنہیپڑسکتا!“ ”بہرحالآپکھلے ہوئے الفاظمیںوالد صاحب پر اپنا ہبُشظاہرکر رہے ہیں!“ ارشاد کچھ نہی بولا۔۔۔ وہ خاموشی سے چائے پی رہا تھا اور راضیہ کی چائےٹھنڈیہوچکیتھی۔۔۔اسنےابھیتکایکگھونٹنہیپیاتھا۔۔۔ ارشادخیالاتمیںکھویاہواتھا۔اسنےاسکیطرفدھیاننہدیا۔۔۔ ”پھر اب میری یہاں کیا ضرورت ہے!“ راضیہ اٹھتی ہوئی بولی۔ ”کیونکہ سانپکےےّچبسنپولیےکہلاتےہیں!والدصاحباگرآپکوختمکرکےکوئی فائدہاٹھاناچاہتےہیںتواسمیںمیرابھیہّصحہوگا۔۔۔اوردولتکےقّلعتم ابھیآپہیاظہارخیالفرماچکےہیں!“ 21
”تمہرباتمیںمیریماںسےمشابہہو!“ارشادنےاسکےہاتھپرہاتھرکھ کر آگ کی طرف جھکتے ہوئے کہا۔ ”وہی صورت شکل۔۔۔ وہی اندا ِز گفتگو۔۔۔ویساہیمزاج۔۔۔پھربتاؤ۔۔۔مگرتمکیاجانو۔۔۔یہباتتمہارے والدینکےعلممیںبھینہیہےکوئینہیجانتا۔۔۔سوائےمیرے۔۔۔!“ ”کونسیبات۔۔۔!“ ”لیکنمیںتمہیںضروربتاؤںگا!مجھےتمپراببھیاعتمادہے!“ راضیہحیرتسےاسےدیکھتیرہی۔ ”آؤ۔۔۔میرےساتھ!“بوڑھاارشاد ُاٹھتاہوابولا۔”میںتمہیںکچھدکھانا چاہتاہوں!“ وہاسےعمارتکےایکےّصحمیںلایا،جہاںکےمقفّلکمروںمیںکسیکاگزر نہی ہوتا تھا ،خود راضیہ بھی نہی جانتی تھی کہ ان میں کیا ہے اور وہ مقفّل کیوںرکھےجاتےہیں۔ارشادنےایککمرےکاقفلکھولکردروازےکو 22
دھکادیا۔۔۔کمرےمیںتاریکیتھی!دروازہکھلتےہیراضیہنےکچھاسقسمکی بومحسوسکیجیسےوہکمرہسالہاسالسےتازہہواسےمحرومرہاہو۔۔۔!اسیبو میںچمگادڑوںکےبیٹکیبدوُببھیشاملتھی! تھوڑیدیربعدجباسکیآنکھیںاندھیرےکیعادیہوگئیتواسنےدیکھا کہکمرےکافرشگردسے َاٹاہواہےاوردیواروںپربھیگردکیکافیموٹیتہہ موجودہے!یہاںاسےکسیقسمکاساماننظرنہیآیا۔۔۔الٹِ ِّنہسامنےہی دیوارپرایکبڑاسافریمآویزاںتھااوراسکےشیشےپراتنیگردجمیہوئیتھی کہوہبالکلتاریکہوکررہگیتھا۔۔۔! پھراسنےارشادکوشیشےکیگردصافکرتےدیکھا!۔۔۔اسفریممیںایک تصویرتھی!۔۔۔لیکناسکمرےمیںاسےاپنےباپنوشادکیتصویردیکھکر بڑیحیرتہوئی!آخروہاستیرہوتارکمرےمیںکیوںلگائیگئی! ”یہکونہے!“ارشادنےراضیہکیطرفمڑکرپوچھا! 23
”آخراسسےآپکامقصدکیاہے!“ راضیہنےاکتائےہوئےاندازمیںکہا۔ ”یہکسکیتصویرہے!“ارشادنےپھرپوچھا۔ ”ابکیامیںوالدصاحبکوبھینہپہچانوںگی!“راضیہنےبےدلیسےکہا! ”خوبغورسےدیکھو۔۔۔!“ ”دیکھ رہی ہوں۔۔۔ تو پھر کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ والد صاحب کی تصویرنہیہے!“ ”ہاںمیںیہیکہناچاہتاہوں!“ارشادمُسکراکربولا۔ ”تبپھرمجھےسمجھناچاہیےکہآجآپمجھےچڑانےپر ُِتگئےہیں!“ ”نہیننھییّچب!“ارشادنے سنجیدگیسےکہا۔”یہنوشادنہیہے۔۔۔یہ میرے ایک چچا کی تصویر ہے۔۔۔ اور میرے تینوں لڑکے نوشاد ،جواد اور امجداسسےمشابہترکھتےہیںاورتمہاراباپتوہوبہو ُاسیکیتصویرہے!“ راضیہآگجھککربغورتصویرکیطرفدیکھنےلگی۔اسکےچہرےپرحیرت 24
کےآثارتھے۔اگرصاحبتصویرکےجسمپرقدیموضعکالباسنہہوتاتووہ اپنےداداکےبیانپرکبھییقیننہکرتی۔۔۔لیکناببھیاسےہبُشتھا۔اس کی دانست میں قدیم وضع کا لباس اس زمانے میں اّیہم کرنا دشوار تو نہی تھا کیونکہ وہ اکثر ڈراموں اور فلموں میں دو تین ہزار سال قبل کے لباس بھی دیکھچکیتھی۔وہچندلمحےخاموشرہیپھراسنےارشادسےکہا۔ ”اگر!میںتسلیمبھیکرلوں،توپھر۔“ ”توپھر۔۔۔میںکہوںگاکہمیںاسیمشابہتکیبناءپراپنےتینوںلڑکوںسے دورہیدوررہناپسندکرتاہوں۔“ راضیہکااشتیاقبڑھگی!اسنےکہا۔”میںکچھنہیسمجھی!“ ”میںابھیسمجھاتاہوں!“ارشادنےدروازےکیطرفبڑھتےہوئےکہا۔وہ دونوں اس کمرے سے نکل آئے۔ ارشاد نے اسے پھر مقفّل کر دیا۔ پھر ارشاد نے کہا۔ ”تم یہیں ٹھہو۔ ٹارچ کے بغیر کام نہی بنے گا۔ میں ٹارچ 25
لےکرآتاہوں۔“ وہراضیہکووہیںچھوڑکرچلاگی۔آجوہبوڑھاراضیہکوحددرجہرُپاسرارمعلوم ہورہاتھا۔ تھوڑیدیربعدارشادواپسآگی۔اسکےہاتھمیںٹارچتھی۔اسنےبرابر کےدوسرےکمرےکاقُفلکھولا۔اسکمرےمیںتاریکیگندگیاوربدوُبہیکا راجتھا۔لیکنراضیہکویہاںکچھبھینہینظرآیا! ارشاداسسےکہہرہاتھا۔”تمہرمعاملےمیںبالکلاپنیپردادیہیکیطرح ہو۔مجھےتوقعہےکہانہیکیطرحایکمضبوطکردارکیمالکہوگی۔“ ”کیا اب آپ۔۔۔ کوئی بہت ڈراؤنی چیز سامنے لانا چاہتے ہیں؟“ راضیہ نے پوچھا۔ ”ہاں۔باتکچھایسیہیہے۔میںآجتمہیںسبکچھبتادیناچاہتاہوں۔یہ راز میرےعلاوہ اورکوئی نہیجانتا۔ لیکن تم اسے ہمیشہ راز ہی رکھو گی۔ 26
ہمیشہ۔۔۔مجھےیقینہےکہتماپنیپردادیہیکیطرحمضبوطکرداررکھتی ہو۔“ ”میںنہیڈروںگی۔مجھےبتائیے۔“ ”اچھا۔۔۔ ٹھہو۔“ ارشاد نے کمرے کے ایک گوشے کی طرف بڑھتے ہوئےکہا۔راضیہوہیںکھڑیرہی۔گوشےمیںپہنچکرارشادنےفرشکیگرد صاف کی اور پھر راضیہ کو ایسا محسوس ہوا جیسے اس نے کسی صندوق کا ڈھکن اٹھایاہو۔فرشمیںایکچوکورسیخلانظرآرہیتھی،جسکارقبہایکمربع فٹسےزیادہنہرہاہوگا۔ ارشادنےجِ ُھککراسخلامیںٹارچکیروشنیڈالی۔اورچندلمحےاسیحالت میںرہاپھرراضیہکیطرف ُمکربولا۔ ”آؤ۔۔۔ڈرونہی۔۔۔“ راضیہلڑکھڑاتےہوئےقدموںسےآگبڑھی۔بوڑھےارشادکےروےّی 27
نےاسےسچ ُچمخوفزدہکردیاتھا۔ ”آؤ۔۔۔دیکھو!یہایکتہہخانہہے۔۔۔“ راضیہدوزانوبیٹھکرخلامیںجھانکنےلگی۔وہچندلمحوںتکآنکھیںپھاڑتیرہی لیکناسکیسمجھمیںکچھنہآیا۔ٹارچکیروشنیکافیگہرائیمیںکسیایسیچیزپر پڑرہیتھی!جوبذا ِتخودغیرواضحتھی۔لیکنپھرجلدہیاسکےسارے چہرےپرپسینہپھوٹآیااورحلقخشکہونےلگا۔جسچیزپرٹارچکیروشنی پڑرہیتھیوہکسیآدمیکیّڈہیوںکاڈھانچہتھا۔ ”دیکھ چکیں؟“ دًاتعف ارشاد نے پوچھا۔ راضیہ کو ایسا محسوس ہوا جیسے اس کی آوازبہتدورسےآئیہو۔ ”جیہاں!“اسنےمردہسیآوازمیںجوابدیا۔ ”کیادیکھا۔۔۔؟“ ”ہڈ۔۔۔ہڈیوں۔۔۔کاڈھانچہ!“ راضیہتھوکن ِگلکربولی۔”ٹھیک۔بس 28
آؤ۔۔۔“ ارشاد اسے ایک طرفہٹاکر سوراخکاڈھکنبندکرتا ہوا بولا۔ تھوڑیدیربعدوہکمرےکےباہرآگئے۔ارشادنےاسےمقفّلکیااوروہپھر رہائشیےّصحکیطرفپلٹآئے۔ راضیہکاچہرہزردہوگیتھااورآنکھوںمیںوحشتنظرآنےلگیتھیدونوں کافیدیرتکخاموشبیٹھےرہے۔بوڑھاارشادخیالاتمیںکھویاہواتھا۔زرد رنگ کے ڈھیلے ڈھالے لبادے میں اس کا چھوٹا ساجھریایا ہوا چہرہانتہائی رُپاسرارمعلومہورہاتھا۔ ”میں جو کچھ بھی کہنے جا رہا ہوں ،وہ ہمیشہ تمہاری ہی ذات تک محدود رہے گا!“اسنےکچھدیربعدبھرائیہوئیآوازمیںکہا۔ ”میںوعدہکرتیہوں۔۔۔آپمطمئنرہئے!“راضیہکااشتیاقواضطراب بہتزیادہبڑھگیتھا۔ ”سنو۔۔۔وہمیرےداداکیّڈہیوںکاڈھانچہتھا!“ 29
راضیہ کے ہونٹ ہلے لیکن آواز نہ نکلی ،وہ حیرت سے بوڑھے ارشاد کو گھور رہیتھی! ”اسیزمیںپرآجسےپینسٹھسالپیشترایکبہتبڑیٹریجڈیہوئیتھیاور وہآجبھیایکبہتبڑیٹریجڈیہے۔صرفپچاسروپیوںکیباتتھی۔ میرےخدا۔۔۔میںآجبھییادکرتاہوںتومیرےرونگٹےکھڑےہوجاتے ہیں!“ ”جلدیسےکہہڈالیے۔۔۔مجھےاختلاجہونےلگاہے!“راضیہنےکہا۔ بوڑھاچندلمحےخاموشرہاپھراسنےکہا۔”ابھیتمجسکیتصویردیکھچکی ہو۔۔۔اسنےمیرےدادا۔۔۔یعنیاپنےباپکوصرفپچاسروپیوںکے لیےقتلکیاتھا۔۔۔اوروہلاشآجتکبےگوروکفنپڑیہے۔۔۔بےگورو کفن۔۔۔خدامجھےاورسبکومعافکرے۔۔۔مجھمیںاتنیہمّ ِتنہیہے کہانّڈہیوںکووہاںسےنکالکردفنکرسکوں۔۔۔میرےباپنےبھی ہمّ ِتہاردیتھی۔“بوڑھاارشادخاموشہوگی۔ 30
”لیکنوہّڈہیاںبےگوروکفنکیوںہیں؟“راضیہنےمُضطربانہاندازمیںکہا۔ ”مجھےپوراواقعہبتائیے۔“ ”چچاکوپچاسروپوںکیضرورتتھی۔۔۔وہاچھاآدمینہیتھا۔کسیبرے کاممیںصرفکرنےکےلیےاسےروپیوںکیضرورتتھی۔وہشرابکے نشےمیںتھا۔۔۔داداصاحبنےنہصرفانکارکردیابلکہاسےبرابھلابھی کہا۔وہیںدیوارپرایکتیرآویزاںتھا۔چچانےہّصغمیںآکروہیںاُسیتیر سےحملہکردیا۔پےدرپےتینچاروارکئےاوروہوہیںٹھنڈےہوگئے۔پھر وہکمینہفرارہوگیاوراس ِدنسےآجتکاسکیخبرہینہیملی۔والد صاحب اور میرے سب سے چھوٹے چچا گھر ہی میں موجود تھے۔ جتنی دیر میںوہوہاںپہنچتےسبکچھختمہوچکاتھا۔گھرمیںاسوقتصرفتینآدمی تھے۔میریماں،والدصاحباورچھوٹےچچا۔میںموجودنہیتھا۔تمیقین جانو چالیس سال کی عمر تک مجھے یہ واقعہ نہی معلوم ہو سکا۔ وجہ یہ ہوئی کہ داداصاحبانہیا ّیاممیںحجکےلیےجانےوالےتھے۔جبمیںگھرآیاتو 31
مجھےبتایاگیتھاکہوہحجکےلیےچلےگئے!سبیہیجانتےتھےکہوہحجکے لیےگئے۔مگرحقیقتیہیتھیکہوالدصاحباورچھوٹےچچانےملکران کیلاشتہہخانےمیںڈالدیتھی۔وہنہیچاہتےتھےکہخاندانبدنامہو کیونکہ ہماراخاندان صدیوں سے ذی ّزعت سمجھا جاتا رہا تھا۔ بہرحال کچھ ِدنوںبعدداداصاحبکےلیےیہمشہورکردیاگیکہوہبیتاللہشریفمیں فوتہوگئے۔رہگی ُگمسدہچچاکامعاملہتواسکیطرفکسینےدھیانبھینہ دیاکیونکہوہایکاوباشآدمیتھا،ویسےبھیمہینوںگھرمیںاسکیشکلنہی دکھائیدیتیتھی۔“ ”لیکن۔۔۔!“راضیہنےتھوکنگلکرکہا۔”لاشیونہیکیوںپڑیرہگئی۔“ ”اوہ۔۔۔پھرکسیکیہمّ ِتہینہیپڑیکہوہاستہہخانےمیںاُترتا۔والد صاحبنےمجھے ُاسکےقّلعتماسوقتبتایاجبمیںچالیسبرسکاتھا، یعنیآجسےچالیسسالپہلے۔لیکنمیںتمہیںکیابتاؤں۔مجھمیںبھیاتنی ہمّ ِتنہیہےکہتہہخانےمیں ُاترکرانّڈہیوںہیکوسپر ِدخاککردوں!“ 32
کچھدیرکےلیےکمرےپرخاموشیمسلطہوگئی۔ پھربوڑھا بولا۔ ”جب تک یہ واقعہ مجھے معلوم نہی ہوا تھا۔۔۔میں اپنے وّچبں پر جان دیتا تھا۔ لیکن جب یہ واقعہ معلوم ہوا ،مجھے ان تینوں سے وحشتہونےلگی!والدصاحبکیزندگیتکوہمیرےساتھرہےپھرمیں نےانہیالگکردیا۔“ ”آخرانکاکیاقصورتھا۔“راضیہنےپوچھا۔ ”چچا۔۔۔سےمشابہتکیبناپرمجھےانسےوحشتہوتیہے۔تمہاراباپتو خاصطورسے۔۔۔“ ”توکیاآپ سمجھتےہیںوہبھیاسمشابہتکیبناآپسے وہی برتاؤ کریں گ!“ ”میںجانتاہوںکہیہایکلغوخیالہےمگرمیںکیاکروں۔اورابوہمجھےاور زیادہمحتاطرہناپڑےگا۔آخروہسانپتمہارےوینٹیبیگمیںکہاںسےآیا 33
تھامجھےبتاؤ۔۔۔“ راضیہکچھنہبولی۔اسکےپاساسباتکاکوئیجوابنہیتھا۔حالاتکوم ِد نظررکھتےہوئےوہیہیسوچسکتیتھیکہسانپکسینےگھرہیمیںرکھاہو گا۔لیکناسےاچھیطرحیادتھاکہوہگھرسےروانہہوکرکوبرامینشنجانے سے پہلے ایک ریستوران میں گئی تھی اور وہاں اس نے پف کرنے کے لیے وینٹیبیگبھیکھولاتھا۔پھرکیاکوبرامینشنمیںکسینےیہحرکتکیتھی؟مگر وہاںتووینٹیبیگاسکےہاتھہیمیںرہاتھا۔۔۔ممکنہےکسینےاسکے باوجودبھیہاتھکیصفائیدکھائیہو۔مگروہاسکاباپیاکوئیچچاہرگزنہیہو سکتاتھا۔ ”کیاسوچنےلگیں۔“ارشادنےپوچھا۔ ”اسیسانپکےقّلعتم۔“ ”متسوچو۔۔۔مجھےیقینہےکہیہحرکتتمہارینہیہوسکتی۔“ 34
”مگرداداجان!میںاپنےباپیاکسیچچاپربھیشبہنہیکرسکتی!“ ”ختمکرو،انباتوںکو!“بوڑھاہاتھہلاکربولا۔”میںاپنیموتسےپہلےنہی مرسکتا!“ ”اگریہیخیالہے۔۔۔توپھرآپنےانلوگوںکوالگکیوںکردیاہے!“ ”تمہاریمنطق اوربحث مجھےتنگکرڈالتی ہے۔ میں نے الگکردیا۔۔۔ میریمرضیمیراجودلچاہےگا۔کروںگا۔“ ”بہرحالمیںابیہاںنہیرہوںگی۔“ ”کیا!“بوڑھا۔آنکھیںنکالکربولا۔”تممجھےتنہانہیچھوڑسکتیں!میںاپنی اولادمیںتمہیںسبسےزیادہپسندکرتاہوں۔تمنہیجاسکتیں۔“ راضیہخاموشبیٹھیرہی!لیکناسکےچہرےپربیزاریکےآثارتھے۔ 35
()۲ کیپٹنفیضنےجیسےہیکمرےمیںقدمرکھاعمراناپناسرپیٹنےلگا۔فیضنے اسکیپرواہنہکی۔آگبڑھکراسکےدونوںہاتھپکڑلیےاوردانتپیس کربولا۔”تمخواہمخواہایکنہایکشوشہچھوڑکرہمیشہالگہوجاتےہو!“ ”شوشہخودبخودچھوٹتاہےپیارےفیض!“عمراننےسنجیدگیسےکہا۔”غاًابل تمتیموراینڈبارٹلےوالیباتکیطرفاشارہکررہےہو۔بیٹھجاؤ۔آجمیری عقلمیںسختدردہےاسلیےمیںکوئیجسمانیمحنتنہیکرسکتا!“ ”میرا موڈ بہت خراب ہے۔ اگر تم نے اوٹ پٹانگ باتیں شروع کیں تو مار 36
بیٹھوںگا!“ ”میں آج کل طل ِسم ہوش ُربا کی آٹھویں جلد لکھ رہا ہوں۔۔۔ بیٹھو۔۔۔ بیٹھو۔۔میںتمہیںچندٹکڑےکھلاؤں۔۔۔ارر۔۔۔سناؤںگا۔۔۔“ ”عمران۔۔۔!“ ”یسمائیڈئیرسوپرفیض۔۔۔یہٹکڑابڑےغضبکاہے۔۔۔آنا ُہ ُہمرصع پوش کا طرف کوہ چقماق کے اور۔۔۔ یہاں دو کنہ داستان۔۔۔ ولد ساقی نامہ۔۔۔ماصلباقینویسارےباپرے۔۔۔!“فیضنے ُاٹھکراسکا منہدبادیا۔۔۔ ”تمخواہمخواہمجھسےنہ ُالجھوورنہ۔۔۔!“فیضبڑبڑایا۔ ”ورنہکیاہوگا؟“عمراننےاپنےمنہپرسےاسکاہاتھہٹاتےہوئےکہا! ”میں تمہیں کسی مصیبت میں پھنسا دوں گا۔۔۔ تم نے نیلے پرندوں والے معاملےمیںایکبہتبڑاجعلکیاتھا۔“ 37
”کیامطلب۔۔۔!“ ”تمنےہومسیکرٹریکاجوسرٹیفکیٹدکھایاتھاجعلیتھا!“ ”آجسمجھےہویہبات!“عمراننےقہقہہلگایا۔”مگرپیارےکپتانصاحب!تم میراکچھنہیبگاڑسکتے۔۔۔“ ”چلوچھوڑو!میںکسیسےاسکاتذکرہنہیکروںگا۔۔۔“ ”اسطرحتمخوداپنےاوپرایکاحسا ِنعظیمکروگ!“عمراننےآہستہ سےکہا! ”آخرتمتیموراینڈبارٹلےکےقّلعتمصافصافکیوںنہیبتاتے۔۔۔“ ”صافصاف۔۔۔!یہاسیوقتبتاسکوںگاجبمجھےصافصافمعلومہو جائے۔۔۔ویسےوہلوگکوئیغیرقانونیحرکتضرورکررہےہیں!“ ”نوعیتہیبتادو!“ ”یہاںسےدوکنہداستانحیرتنشانفیضخچرسوارکےبیانکئےجاتےہیں 38
کہپہلوانزبردستتھا۔۔۔مارکھانااسکاہاتھسے عمرانصاحبقران عالیشانکے۔۔۔اورروناسرپیٹپیٹکر۔۔۔ہپ!“ ”تمگدھےہو۔۔۔“فیضجھنجھلاگی۔ ”یہباتتمنےپہلےکہہدیہوتیتواتناسرنہمارناپڑتا!“ ”پرسوں۔۔۔تیموراینڈبارٹلےکےشوروممیںتمبھیتھے۔۔۔تمنےدویا تینمنٹتکوہاںارشادکیپوتیراضیہسےگفتگوبھیکیتھی۔۔۔کیوں؟کیا میںغلطکہہرہاہوں۔۔۔راضیہتمہاریبہنثر ّ ایکیدوستہے!“ ”ہاںہاں!توپھر؟“ ”تمہیںاسکااعترافہےکہوہتمہیںوہاںملیتھی!“ ”قطعیہے۔۔۔!“عمراننےکہااورجیبمیںچیونگمکاپیکٹتلاشکرنےلگا! ”تبپھرتمہیںمیرےچندسوالاتکاجوابدیناپڑےگا!“ ”سوالاتلکھکرلاؤ۔۔۔پرچہڈھائیگھنٹےسےکمنہہوناچاہیے۔۔۔ساتمیں 39
پانچسوالضروریہوں۔۔۔فارغخطی۔۔۔ار۔۔۔کیاکہتےہیں۔۔۔اسے خوش قسمتی۔۔۔ ار۔۔۔ نہی۔۔۔ کیا کہتے ہیں۔۔۔ خوشخطی۔۔۔ خوشخطی۔۔۔کےنمبرالگ!“ ”جبتماسسےملےتھےتواسکاوینٹیبیگاسکےہاتھمیںتھایانہی!“ ”نہیوینٹیبیگتونہیتھا!الٹِ ِّنہاسنےاپنےگلےمیںمتعددجھولیاںلٹکا رکھیتھیں!“ ”عمرانمیںتمسےسنجیدگیاختیارکرنےکیاستدعاکروںگا!“ ”کیافائدہ!“عمرانسرہلاکربولا۔”اگرمیںسنجیدہہوگیتوتمکمرےکےباہر نظرآؤگ۔۔۔یاپھراسقابلنہرہسکوگکہنظرآسکو۔۔۔!“ ”میرےسوالکاجوابدو!“فیضدانتپیسکربولا۔ ”چچچچ!“عمراننےتشویشآمیزلہجےمیںکہا۔”اسیقسمکیبداحتیاطیوںکی بنا پر دانت کمزور ہو جاتے ہیں! آنکھوں کے سامنے نیلی پیلی چنگاریاں اُڑتی 40
ہیں۔سرچکراتاہے۔۔۔اورعقلکامنہیکرتیکہکسدواخانہسےرجوع کیا جائے تاکہ ایمان دھرم سے کہہ دینے پر آدھی قیمت واپس مل جائے۔۔۔!“ ”اچھاتمبھگتوگ!“فیضاٹھکردروازےکیطرفبڑھتاہوابولا۔ ”بھگتنےہیکےڈرسےمیںنےابھیتکشادینہیکی!“ ”اسکےوینٹیبیگمیںسانپتھا!“فیضنےدروازےمیں ُرککرعمران کیطرف ُمتےہوئےکہا۔ ”بڑیکمہمّ ِتلڑکیمعلومہوتیہے!“عمراننےلاپروائیسےکہا۔ ”اگرمیںلڑکیہوتاتومیرےوینٹیبیگسےکمازکمایکہاتھیضروربرآمد ہوتا۔۔۔الاماشاءاللہ۔۔۔“ ”عمرانمیںتمہیںآفسمیںطلبکرکےتمہیںانسوالاتکےجوابپر مجبورکروںگا!“ 41
”جبتکتممجھےپوریباتنہیبتاؤگمجھسےکچھبھیمعلومنہیکرسکو گ!“ فیضپھرپلٹکرآیا۔۔۔چندلمحےخاموشبیٹھارہا۔۔۔پھربولا۔۔۔ ”ارشادسےواقفہو؟“ ”ہاں مشاعروں میں اکثر ّرکمر ارشاد ُُس کا ا ِّتاق ہوا ہے!“ عمران نے سنجیدگیسےکہا۔ ”میںشہرکےمشہورکروڑپتیارشادکیباتکررہاہوں!“فیضجِھ ّلاگی! ”توایسےبولونا۔۔۔ہاںمیںنےاسکانامانُسہے۔۔۔اوراسکیپوتیراضیہ سےاچھیطرحواقفہوںکیونکہوہثر ّیاکیدوستہے!“ ”پرسوںاسکیوینٹیبیگسےایکسانپبرآمدہواتھا۔۔۔وینٹیبیگارشاد نےکھولاتھا۔۔۔راضیہسانپکےوجودسےلاعلمیکااظہارکرتیرہی۔۔۔اور یہخودراضیہہیکابیانہےکہبوڑھااکثراسکاوینٹیبیگکھولکراسمیں 42
رکھیہوئیچیزیںاُلٹپلٹڈالاکرتاتھا!“ ”بہتاچھیعادتہے۔۔۔!“عمرانسرہلاکربولا۔”آجکلکیلڑکیاںنہ جانےکیاالابلاوینٹیبیگوںمیںلیےپھرتیہیں!“ ”ارشادکاخیالتھاکہیہحرکتاسےمارڈالنےکےلیےکیگئیتھی!کسنےکی تھی،یہابتکنہیمعلومہوسکا!“ ”کمالہےیارفیض۔۔۔کہیںتمہیںگھاستونہیکھاگئی!ابھیتمکہہرہے تھےکہسانپراضیہکےوینٹیبیگسےبرآمدہواتھا!“ ”وہنہیجانتیکہسانپاسکےوینٹیبیگسےکیسےپہنچاتھا!“ ”پھر میں کیا کروں۔۔۔!“ عمران اپنی پیشانی پر ہاتھ مار کر بولا۔ ”میرا دماغ کیوںچاٹرہےہو!“ ”وہتیموراینڈبارٹلےکےشوروممیںسانپدیکھنےگئیتھی۔۔۔لیکنتموہاں موجودتھے!تمہاراوہاںکیاکامتھا۔۔۔“ 43
”میںوہاںجھکماررہاتھا۔۔۔تمسےمطلب۔۔۔“ ”تم ابھی پورے حالات سے آگاہ نہی ہو!“ فیض نے رُبا سا منہ بنا کر کہا۔ ”ورنہاسطرحنہچہکت!“ ”توچہکنابندکردونا۔۔۔میرا۔۔۔“عمرانلاپروائیسےبولا۔ ”پرسوںراتراضیہاپنےکمرےمیںسورہیتھی۔۔۔وہارشادمنزلہیمیں راتبسرکرتیہے۔۔۔اسکےعلاوہارشادکےاعزہمیںسےاورکوئیارشاد منزلمیںنہیداخلہوسکتا۔۔۔بہرحالوہوہیںرہتی ہے۔اسکیاور ارشادکیخوابگاہکےدرمیانصرفایکدیوارحائلہے۔۔۔راضیہسو رہیتھی۔۔۔اچانککسیقسمکیتیزآوازنےاسےجگادیا۔۔۔اورپھردوسری چیخاسنےبیدارہوجانےپرسنی۔۔۔وہبلاشبہارشادکیچیختھی!تقرًابیپانچ چھمنٹتکوہمسہریپربےحسوحرکتپڑیرہی!ارشادکےکمرےسے اب کچھ اس قسم کی آوازیں آ رہی تھیں جیسے کئ آدمی لڑ پڑے ہوں۔۔۔ تھوڑیدیربعدبالکل ّ اسٹاہوگی۔۔۔“ 44
”خدا کا شکر ہے!“ عمران آہستہ سے بڑبڑایا! فیض کی پیشانی پر سلوٹیں ابھریںلیکنوہعمرانسےالجھےبغیربولتارہا۔”راضیہ ُاٹھکرسیدھینوکروں کے کوارٹر میں گئی۔۔۔ اور انہی جگا کر اپنے ساتھ ارشاد کی خواب گاہ تک لائیجسکادروازہکھلاہواتھا۔۔۔لیکنخوابگاہخالیتھی!ارشادکےبسترپر بہتساخونتھا!پلنگکےنیچےایکخنجرملا۔۔۔وہبھیخونآلودتھا!سرہانے کیچھوٹیمیزالٹیپڑیتھی۔دوکرسیاں ُالٹگئیتھیں۔۔۔غرضیکہصاف ظاہرہورہاتھاکہوہاںکافیدیرتککشمکشہوئیہے۔۔۔مگر۔۔۔ارشادکاکہیں پتہنہتھا۔۔۔!“ عمرانکچھنہبولا۔وہغورسےفیضکیطرفدیکھرہاتھا۔۔۔ ”ارشاد۔۔۔اببھیلاپتہہے۔۔۔راضیہنےبہتکچھبتایاہے۔۔۔حالانکہ خوداپناوجودبھیشبہےسےبالاترنہیرکھا۔۔۔“ ”اسنےکیابتایاہے؟“عمراننےپوچھا۔ 45
”یہیکہارشاداپنےتینوںلڑکوںکیطرفسےمطمئننہیتھا۔۔۔یہیوجہ انکیعلیحدگیکیبھیتھی۔۔۔راضیہکےعلاوہاورکوئیارشادمنزلمیںنہی جاسکتاتھا!“ ”اسلڑکیپراسےبہتاعتمادتھا!“ ”ہاں!اسکابیانیہیہے۔۔۔!“ ”تمہاراکیاخیالہے۔“ ”میںابھیتککوئیرائےقائمنہیکرسکا!“ ”جس ِدنتمرائےقائمکرنےکےقابلہوئےاس ِدنتمہاریبیویبالغہو جائےگی!“ ”عمران۔۔۔!میںتمسےپوچھتاہوںکہتموہاںکیاکررہےتھے۔۔۔“ ”کہاں!مائیڈئیرفیض۔۔۔“عمرانیکبیکسنجیدہہوگی۔چندلمحےفیضکو گھورتارہاپھربولا۔”تممجھپرکسباتکاہبُشکررہےہو؟“ 46
”میںفیالحالتمپرکسیقسمکاہبُشنہیکررہا۔۔۔صرفیہپوچھناچاہتاہوں کہتموہاںکیاکررہےتھے۔“ ”وہاںقریبقریبڈیڑھسوآدمیتھے۔۔۔“عمراننےسنجیدگیسےکہا۔ ”میںانسےمشورہکرنےکےبعدتمہارےاسسوالکاجوابدوںگا۔“ فیضکوپھرہّصغآگی۔اسنےغ ّراکرکہا۔ ”تمسمجھتےہوشایدمیںاسکیسمیںتمہاریمددچاہتاہوں!“ ”نہی میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم دوسروں کا وقت برباد کرنے کے اسپیشلسٹہو۔“ ”تمجھکماررہےہو!“فیضکرسیسےاُٹھتاہوابولا۔”راضیہکےوینٹیبیگ سےبرآمدہونےوالےسانپکیوجہسےمیںنےتمسےملنامناسبسمجھا! کیونکہتمنےایکبارتیموراینڈبارٹلےوالوںکیغیرقانونیحرکتکاتذکرہکیا تھا۔۔۔ راضیہ کہتی ہے کہ شو روم میں جانے سے پہلے سانپ وینٹی بیگ میں 47
نہیتھا!“ ”کہتیہوگی۔۔۔متبورکرو۔۔۔جاؤاپناکامدیکھو۔۔۔میںآجکلبہت مشغولہوںاسوقتمیرےپاسطلاقکےبارہکیسہیں۔ہرکیسمیںکم ازکمایکہزارملنےکیتوقعہے۔۔۔“ 48
()۳ تیموراینڈبارٹلےکاجنرلمنیجرتیموراپنےشاندارمکانکیشانداراسٹڈیمیں بیٹھااپنیفرمکےدوشکاریوںسےہمکلامتھا!تیموردراصلاسفرمکاہّصح دارتھا۔دوسراہّصحداربارٹلےتھاجوانگریزتھااورزیادہترسمندرپارہیرہکر بیرونیتجارتکیدیکھبھالکرتاتھا! تیمورایکدرازقداورقویہیکلآدمیتھا!عمرپچاسکےلگبھگرہیہوگی! چہرہاببھیرُپکششتھا! ”تمدونوں!“وہ شکاریوںسےکہہ رہا تھا۔ ”بعض اوقاتبہت آگ بڑھ 49
جاتےہو!میںاسےپسندنہیکرتا۔۔۔!“ شکاریوںمیںسےایکجو،جوانالعمراورمضبوطہاتھپیروالاتھابولا۔”آگ بڑھےبغیراگرکامچلسکےتواسکیضرورتہیکیاہے۔۔۔!“ ”نہی۔۔۔ اب تم اپنی مرضی سے کوئی کام نہی کرو گ!“ تیمور کے لہجے میںسختیتھی۔ ”آپاپنالہجہدرستکیجئےمسٹرتیمور۔۔۔!“جوانالعمرشکارینےکہا۔ ”کیا۔۔۔؟“تیموراسطرحچونکاجیسےاسکےسرپربمپھٹاہو۔۔۔چندلمحے اسکےچہرےپرحیرتکےآثارنظرآتےرہےپھروہیکبیکرُسخہو گی۔۔۔!”تممجھسےاساندازمیںگفتگوکیجرٔاتکررہےہو!“وہغ ّرایا۔ ”ہاںمسٹرتیمور!“جوانالعمرشکاریمُسکراکربولا۔”میںبہتباحوصلہآدمی ہوںاورمیںزندگیبھراسیکمترحیثیتمیںنہیرہوںگا۔ہوسکتاہے۔۔۔ دس پانچ سال بعد فرم کا نام ہی بدل جائے۔۔۔ لوگ اسے طارق تیمور اینڈ 50
Search
Read the Text Version
- 1
- 2
- 3
- 4
- 5
- 6
- 7
- 8
- 9
- 10
- 11
- 12
- 13
- 14
- 15
- 16
- 17
- 18
- 19
- 20
- 21
- 22
- 23
- 24
- 25
- 26
- 27
- 28
- 29
- 30
- 31
- 32
- 33
- 34
- 35
- 36
- 37
- 38
- 39
- 40
- 41
- 42
- 43
- 44
- 45
- 46
- 47
- 48
- 49
- 50
- 51
- 52
- 53
- 54
- 55
- 56
- 57
- 58
- 59
- 60
- 61
- 62
- 63
- 64
- 65
- 66
- 67
- 68
- 69
- 70
- 71
- 72
- 73
- 74
- 75
- 76
- 77
- 78
- 79
- 80
- 81
- 82
- 83
- 84
- 85
- 86
- 87
- 88
- 89
- 90
- 91
- 92
- 93
- 94
- 95
- 96
- 97
- 98
- 99
- 100
- 101
- 102
- 103
- 104
- 105
- 106
- 107
- 108
- 109
- 110
- 111
- 112
- 113
- 114
- 115
- 116
- 117
- 118
- 119
- 120
- 121
- 122
- 123
- 124
- 125
- 126
- 127
- 128
- 129
- 130
- 131
- 132
- 133
- 134
- 135
- 136
- 137
- 138
- 139
- 140
- 141
- 142
- 143
- 144
- 145
- 146
- 147
- 148
- 149
- 150
- 151
- 152
- 153
- 154
- 155
- 156
- 157
- 158
- 159
- 160
- 161
- 162
- 163
- 164
- 165
- 166
- 167
- 168
- 169
- 170
- 171
- 172
- 173
- 174
- 175
- 176
- 177
- 178
- 179
- 180