مقصود حسنی اور انگریزی زبان و ادب پیش کار پروفیسر نیامت علی مرتضائی ابوزر برقی کتب خانہ ستمبر ٦١٠٢
فہرستاردو کی آوازوں کا نظام اور لارڑ بائرن کی شعری زبانٹی اردو اور جان کیٹس کی شعری زبان ایس ایلیٹ اور روایت کی اہمیت انگریزی کے ہندوی پرلسانیاتی اثرات شاعری اور مغرب کے چند ناقدین انگریزی آج اور آتا کل قومی ترقی اپنی زبان میں ہی ممکن ہے انگریزی کے ہندوی پرلسانی اثرات ڈاکٹر اقبال اور مغربی مفکرین انگریزی دنیا کی بہترین زبان نہیں ہے میجک ان ریسرچ اور میری تفہیمی معروضات ہندوی کے انگریزی پر لسانیاتی اثرات The Idiomatic Association Of Urdu And English
اردو کی آوازوں کا نظام اور لارڑ بائرن کی شعری زبانٹی ہندوی‘ المعروف اردو ہندی استعمال ۔۔۔۔ بولی سمجھی لکھی پڑھی ۔۔۔۔میں آنے والی‘ دنیا کی دوسری بڑی اور پرانی زبان ہے‘ جب کہ اپنے لسانیاتی نظام کے حوالہ سے‘ دنیا کی سبسے بڑی زبان ہے۔ لچک پذیری اور الفاظ گھڑنے میں اپنا جواب نہیں رکھتی۔ انگریز عہد کے سوا‘ اس کی کبھیسرپرستی نہیں ہوئی۔ انگریز نے بھی‘ فارسی کا پتا کاٹنے کے لیے‘ اس کی سرپرستی کی۔ اس اکیلی ہی کی نہیں‘ دیگر مقامی زبانوں کی بھی حوصلہ افزائی کی۔ وقت گزرنے کے بعد‘ کیلے کے چھلکے کی طرح پرے دےمارا۔ اس زبان کی یہ بھی خاصیت ہے‘ کہ پورے برصغیر میں استعمال ہوتی ہے۔
یہ برصغیر کے سماج سے پھوٹی اور سماج ہی میں پلیبڑھی۔ یہ حد درجہ کی ملن سار ہے۔ پنجابی کے علاوہ‘ تین رسم الخط کی حامل زبان ہے۔ ماسی مصیبتے‘ اس وقت دنیا کی چودھرین بنی ہوئی ہے کہ اسے سیکھے اورجانے بغیر‘ ترقی کرنا ممکن ہی نہیں۔ اکثر سوچتا ہوں کہبالجبر ہونے والے کام‘ کب منزل کو پہنچے ہیں۔ ہمارا بچہ انگریز پڑھتا ہوا‘ کر کرا کر بی اے پاس کر لیتا ہے۔ بڑیہی چھلانگ لگائے گا‘ تو کسی منشی گاہ میں کلرک بادشاہ بن جائے گا۔ میں نے آج تک یہاں کے کسی انگریزی پڑھے کو‘ اباما کی سیٹ پر براجمان نہیں دیکھا‘ ہاں البتہ اباما کے کسی گماشتے کا چمچہ بن گیا ہو‘ تو یہ الگ بات ہے۔ ماسی مصیبتے سے گہرا رشتہ استوار کیے بغیر‘ ترقی ممکن نہیں۔ بےشک اس سے بڑھ کر‘ کوئی احمقانہ اور گمراہ کن بات ہو ہی نہیں سکتی۔ میں نے اپنے اس لسانی مطالعہ
کے لیے زبان وفکر کے مستند شاعر لارڈ بائرن کو لیا ہے۔ مثالیں اسی کے کلام سے پیش کی گئی ہیں۔ اس مطالعہ کے دوران‘ کسی نوعیت کی لسانی عصیبت میرے پیش نظر نہیں۔ وہ ہی لکھا ہے‘ جو میری سمجھ میں آیاہے۔ باور رہے‘ اردو میری زبان یا بولی نہیں رہی۔ میں اولتا آخر پنجابی ہوں‘ اس لیے کسی لسانی عصبیت کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ اردو زبان کے استعمال کا نظام پانچ قسم کی آوازوں پر :استوار ہے الپ پران ہلکی آوازیں اس میں الف سے ے تک آوازیں شامل ہیں۔ انگریزی میں کچھ آوازیں شامل نہیں ہیں۔ ان کے لیےمرکب آوازیں استعمال میں لائی جاتی ہیں۔ یہ مرکب آوازیںپچیدگی کا سبب بنتی ہیں۔ جیسے شین کے لیے دس یا اس سے زائد مرکب آوازیں استعمال میں آتی ہیں۔
بعض آوازیں ایک سے زائد آوازیں پیدا کرتی ہیں۔ مثلا سیکاف کی آواز بھی دیتی ہے۔ ایس سے زیڈ یعنی ز ذ ض ظ کی آواز بھی حاصل کی جاتی ہے۔ دوہری آواز Morn came and went--and came, and brought no day came کم میں‘ سی کاف کی آواز دے رہا ہے Nor age can chill, nor rival steal, can کین میں‘ سی کاف کی آواز دے رہا ہے As once I wept, if I could weep, once
وانس میں‘ سی سین کی آواز دے رہا ہے could کڈ میں‘ سی کاف کی آواز دے رہا ہے The palaces of crowned kings--the huts, palaces پلیسز میں‘ سین کی آواز دے رہا ہے۔ crowned کراؤڈ میں‘ کاف کی آواز دے رہا ہے۔ ...............ایس سے سین کی آواز حاصل کی جاتی ہے۔ مثلا Forests were set on fire--but hour by hour setاور Forests میں ایس سین کی آواز دے رہا ہے۔
Wore an unearthly aspect, as by fits aspect میں ایس سین کی آواز دے رہا ہے۔The habitations of all things which dwell, habitations thingsمیں ایس ذ ز ض ظ کی آواز دے رہا ہےHappy were those who dwelt within the eye thoseمیں ایس ذ ز ض ظ کی آواز دے رہا ہےTo chase the glowing hours with flying feet. chase
میں ایس ذ ز ض ظ کی آواز دے رہا ہے They fell and faded--and the crackling trunks crackling trunks میں کے ک کی آواز کے لیے استعمال ہوا ہے And a quick desolate cry, licking the hand licking میں کے ک کی آواز کے لیے استعمال ہوا ہے ..............بعض آوازوں کے لیے ایک مفرد آواز سے کام چلایا جاتاہے۔ مثلا ذ ز ض ظ کے لیے زیڈ کی آواز استعمال کی جاتیہے جو غیر اردو دان کے لیے پچیدگی کا موجب بنتی ہے۔ مثلا zulm کو
ذلم‘ زلم‘ ضلم zaef کو ذعیف زعیف ظعیف zillat کو ضلت ظلت زلت rozeel کو روذیل روضیل روظیل بھی لکھا جا سکتا ہے تاہم سمجھنے تک معاملہصاف رہتا ہے۔ ہاں لکھتے وقت‘ پچیدگی کا رستہ کھلتا ہے۔
اس مسلے کا تعلق آوازوں کے تبادلی نظام سے نہیں۔ یہ ایک کمی اور کم زوری کی طرف اشارہ ہے۔ رومن میںلکھتے وقت‘ اردو پشتو پنجابی عربی فارسی وغیرہ والے‘ زیڈ سے کام چلا لیں گے‘ لیکن لکھتے وقت پچیدگی تو پیدا ہو گی۔ ..............چ بڑی اہم آواز ہے‘ یہ آواز انگریزی کے حروف ابجد میں نہیں ہے‘ تاہم اس کے لیے انگریزی میں مرکب سی ایچ استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلا ch And form so soft, and charms so rare, And they did live by watchfires--and the thrones, To watch it withering, leaf by leaf, شروع درمیان یا آخر میں‘ آواز چ دیتا ہے۔ میونخ میں یہ مرکب خ کی آواز دیتا ہے۔
..............انگریزی میں آواز د موجود نہیں اس کے لیے مرکب ٹی ایچ استعمال میں آتا ہے۔ مثلا There is an eye which could not brook The night that follow'd such a morn ;Than see it pluck'd to-day And men forgot their passions in the dread The flashes fell upon them; some lay downاس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انگریزی والے د کی آواز نکال سکتے ہیں تاہم د کے لیے یہ مرکب مستقل اور مستعمل نہیں۔ مخصوص لفظوں تک محدود ہے۔ ..............
انگریزی میں آواز شین موجود نہیں۔ اس کے لیے مرکب ایس ایچ استعمال میں آتا ہے۔ مثلا The flashes fell upon them; some lay down The feeble ashes, and their feeble breath Ships sailorless lay rotting on the sea, Blushed at the praise of their own loveliness. IS time the heart should be unmoved, ..............اس کے علاوہ کئی مرکب‘ شین کی آواز کے لیے مستعملہیں‘ جو انگریزوں کے علاوہ انگریزی سے جبری متعلقلوگوں کے لیے‘ پچیدگی کے دروازے کھولتے ہیں۔ مثلا And men forgot their passions in the dread Of this their desolation; and all hearts
یہ معاملہ شین ش تک ہی محدود نہیں‘ سین کے ساتھ بھی‘ یہ ہی صورت حال درپیش ہے۔ مثلا Immediate and inglorious; and the pang But with a piteous and perpetual moan, ..............مرکب آواز جی ایچ اردو والے رومن میں غین کی آواز کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ئی اور ف کی آواز سے اس کا کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ یہ مرکب آواز انگریزی میںمستعمل ہے۔ مفرد آواز ف کے لئے اس مرکب کا استعمال ملاحظہ ہو۔ It is enough for me to prove کئی الفظ میں‘ اس کی آواز دب بھی جاتی ہے۔ مثلا HERE be none of Beauty's daughters ..............
انگریزی میں ف کے لیے آواز ایف حروف ابجد میںموجود ہے۔ اردو میں کسی مفرد آواز کے لیے مرکب آوازکا استعمال رواج نہیں رکھتا۔ اس ذیل میں اس کا نظام الگ سے ہے۔ انگریزی میں اس کے لیے جی ایچ مرکباستعمال میں آتا ہے۔ اوپر اس کا مع مثال ذکر موجود ہے۔ .............. :دوہری آواز آ درحیقیقت‘ اردو کی مفرد اور ہلکی آوازوں میں شاملنہیں۔ انگریزی میں اکثر سنگل اے سے کام چلایا جاتا ہے۔ اہل زبان کے لیے دشواری نہیں بنتی‘ ہاں البتہ غیر انگریزی طبقے کے لیے تلفظ میں مشکل پیدا ہوتی ہے۔ مثلا Wore an unearthly aspect, as by fits .............. علامتی آوازیںان میں زیر زبر شد جزم‘ پیش وغیرہ شامل ہیں۔ اہل زبان
کے لیے اس کی مکتوبی صورت لازم نہیں۔ انگریزی میںواول وغیرہ جب کہ شد کے لیے ڈبل ساؤنڈ یعنی ایک ہی حرف لکھا جاتا ہے۔شد اہم اور نمایاں ترین علامتی آواز ہے۔ اس میں ایک لفظ ایک بار لکھ کر دو بار پڑھنے میں آتا ہے اور اپنیشناخت برقرار رکھتا ہے۔ اہل زبان بلاعلامت اسے اس کے تلفظ کے مطابق پڑھ لیتے ہیں۔ مثلا ذرہ‘ جنت‘ قوت‘ مجسم‘ اول‘ تصوف انگریزی میں‘ علامتی آوازیں موجود نہیں ہیں اس لیے‘حرف کو دو مرتبہ رقم کر دیا جاتا ہے۔ دونوں آوازیں‘ اپنا وجود برقرار رکھتی ہیں۔ مثلا ;Like common earth can rot com mon The sun that cheers, the storm that lowers,
che ers Uphold thy drooping head; dro opingHissing, but stingless--they were slain for food. His sing Immediate and inglorious; and the pang Im mediate And evil dread so ill dissembled, dis sembled, ..............
غنا کے لیے‘ ایک ہی آواز‘ دو مرتبہ باسلیقہ استعمال کرنے کا رجحان ملتا ہے۔ مثلا تسلسل‘ مسلسل‘ تذبذب Than thus remember thee! remember A moment on that grave to look. moment Swung blind and blackening in the moonless air; blackening The habitations of all things which dwell, habitations The brows of men by the despairing light
despairing .............. اردو میں ایک ہی لفظ میں؛ ایک ہی آواز‘ تین مرتبہاستعمال کرنے کا چلن موجود ہے۔ دو بار مسلسل اور ایک‘ علامتی آواز شد کی مدد سے حاصل کی جاتی ہے۔ مثلا مکرر‘ مقرر‘ مخفف‘ تشدد انگریزی میں یہ طور نہیں ملتا۔ ہاں البتہ‘ ایک لفظ میں ایک آواز کا تین بار استعمال نظر آتا ہے۔ مثلا And the eyes of the sleepers waxed deadly and chill, اصل لفظ sle ہے مستعمل sleep
ہے er کی بڑھوتی حالت کی وضاحت کے لیے ہوئی ہے۔ And when they smiled because he deemed it near,..............میں زمانے کی وضاحت کے لیے استعمال ہوا ہے۔ انگریزی میں ایک آواز کو؛ ایک ہی لفظ میں‘ ایک جا‘ استعمال کا چلن موجود ہے‘ لیکن ان کی الگ سےشناخت‘ موجود نہیں‘ ہاں البتہ آواز میں زور‘ آہنگ اور غنا میں ہر چند اضافہ ضرور ہو جاتا ہے۔ مثلا The flower in ripen'd bloom unmatch'd As stars that shoot along the sky And men forgot their passions in the dread The feeble ashes, and their feeble breath
.............. بھاری آوازیں یعنی مہاپرانیہ خاص برصغیر کی آوازیں ہیں۔ سنسکریت سے حاصلکی گئی ہیں۔ یہ تعداد میں بہت زیادہ ہیں‘ لیکن اردو میںچند ایک مستعمل ہیں۔ یہ آوازیں انگریزی میں نہیں ہیں۔جہاں کہیں ان کا استعمال ہوا ہے‘ مرکب آواز کی صورتمیں ہوا ہے۔ اس کی جڑ ھ ہے۔ ابتدا میں باقاعدہ آواز کی جڑت ہو جاتی ہے۔اردو کی بھاری آواز ت ھ تھ انگریزی میں عام استعمالکی ہے اور غالبا ادھر ہی سے گئی ہے۔ نمونہ کے چند الفاظ ملاحظہ ہوں ,Though Earth receiv'd them in her bed The loveliest things that still remain, Through dark and dread Eternity Rayless, and pathless, and the icy earth
All earth was but one thought--and that was death bh jh dh rh gh kh ph مرکبات رومن اردو لکھنے والوں کی ضرورت ہیں۔ .............. غیر مشمولہ آواز ںحروف ابجد میں شامل نہیں‘ لیکن اس کا جمع بنانے کے علاوہ بھی‘ بڑی کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ انگریزیمیں یہ آواز موجود نہیں ہے۔ انگریزی میں‘ ڈبل او این کااستعمال ملتا ہے لیکن آواز کو گولائی اور دائرہ نہیں میسر آتا۔ دوسرا این کی آواز ڈبل او میں مدغم نہیں ہوتی۔ .............. مرکب آوازیںاردو میں بہت سی مرکب آوازیں مستعمل ہیں۔ انگریزی کا
دامن مرکب آوازوں سے تہی نہیں لیکن اردو اس معاملہ میں بہت فراخ ہے۔ مرکب آوازوں میں‘ سابقے لاحقےوغیرہ شامل ہیں‘ جو حالت اور صیغے کی تبدیلی کے لیے لفظ کا حصہ بنا دیے جاتے ہیں۔ اس ذیل میں چند ایک مثالیں ملاحظہ ہوں۔ کر پیکر‘ دنکر‘ منافکر‘ ہیکر The worm, the canker, and the grief گر جادوگر‘ کاریگر Till hunger clung them, or the dropping dead ار ارضی‘ ارکان‘ ارشی عرشی With silence and tears.
Like the swell of Summer's ocean. کن کارکن‘ کان کنWere burnt for beacons; cities were consum'd, ری کراری‘ گراری‘ ہتھاری Of cloudless climes and starry skies; Where glory decks the hero's bier, Than thus remember thee! Returns again to me, ٹی پھینٹی‘ بالٹی‘ کانٹی ہٹی‘ ٹٹی
بتی‘ پتی درانتی Through dark and dread Eternity ور زیور طاقت ور وردان There flowers or weeds at will may grow, بی باادب‘ باوقار‘ باجماعت بیمار بےکار‘ بےزار‘ بےوقوف یائے مصدری اضافے سےخراب ی خرابی‘ شراب ی شرابی‘ کباب ی کبابی
So I behold them not: ان ان تھک‘ ان گنت‘ انجان عنقریب Wore an unearthly aspect, as by fits IS time the heart should be unmoved, Though by no hand untimely snatch'd, گھٹن باطن سوتنAnd shivering scrap'd with their cold skeleton hands ئی سلائی کڑھائی
Shine brightest as they fall from high. My tears might well be shed,ایسی؛ بہت سی مرکب آوازیں موجود ہیں‘ یہاں باطور نمونہچند آوازیں درج کی گئی ہیں‘ تا کہ دونوں زبانوں کی لسانیقربت اور اردو کے آوازوں کے نظام کا‘ محدود سہی‘ کسی حد تک تھوڑا بہت اندازہ ہو سکے۔ اردو اور جان کیٹس کی شعری زبان Born: October 31, 1795, Moorgate, City of London, United Kingdom
Died: February 23, 1821, Rome, Italy انسان ایک دوسرے کے قریب آئے یا نہ آئے یا مفاد پرست عناصر‘ ان میں دوریاں پیدا کیے رکھیں‘ اس کےباوجود اس کی نفسیات‘ سماجیات اور معاشیات میں قربت رہتی ہے۔ نظریاتی اور امرجاتی حوالہ سے‘ کوسوں دوررہ کر بھی‘ ان تینوں کے زیر اثر‘ ایک دوسرے کے قریبرہتا ہے۔ مزدور سیٹھ کی مجبوری ہے اور سیٹھ مزدور کیکم زوری ہے۔ دوکان دار گاہک کے ساتھ اور گاہک دوکاندار کے ساتھ منسلک ہیں۔ دکھ سکھ میں‘ تنہائی کاٹنے کو دوڑتی ہے۔ اس وقت دشمن کی سانجھ بھی‘ مداوے کا کام کرتی ہے۔ جب انسان ایک دوسرے سے نفسیات‘ سماجیات اورمعاشیات کے حوالہ سے‘ قربت رکھتے ہیں‘ تو زبانیں کس
طرح ایک دوسرے سے دور رہ سکتی ہیں۔ کسی نہ کسی سطع پر‘ ان میں لسانیاتی قربت موجود ہوتی ہے۔ اسناچیز تحریر میں‘ انگریزی کے رومانوی شاعرجان کیٹس کی زبان کا‘ اردو کے تناظر میں‘ لسانیاتی مطالعہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ الله کرے‘ میری یہ حقیر کوشش احباب کے کام کی نکلے۔مرکب آواز ری‘ اردو میں مستعمل ہے۔ آخر میں رے آنےوالی آواز کے بعد‘ یائے مصدری بڑھا کر‘ لفظ کی مختلف صورتیں اور حالتیں بنا لی جاتی ہیں۔ مثلا صفتی :بھاری‘ ساری‘ کاری‘ عاری فعلی :جاری‘ اتاری‘ ماری اسمی :آری‘ ہاری‘ کیاری‘ لاری باور رہنا چاہیے اردو میں اس کا باطور مرکب آواز
استعمال نہیں ہوا۔ باطور سابقہ استعمال ملتا ہے۔ مثلا ریحان :اس کی دو صورتیں ہیں ری حان‘ ریح ان ریح ان :انس ان‘ شیط ان ری حان میں باطور صفتی سابقہ ہے۔انگریزی میں بھی باطور صفتی سابقہ استعمال میں آتا ہے۔ :جان کیٹس کے ہاں اس کا استعمال ملاحظہ ہو Never have relish in the faery powerتر :اردو میں صفت کی دوسری حالت بیان کرنے کے لیے باطور لاحقہ استعمال میں آتا ہے۔ مثلا
تر :خوب تر‘ قریب تر‘ عظیم تر بدترانگریزی میں‘ ت کی آواز موجود نہیں اس کی متبادل آوازٹ ہے‘ اس لیے تر کی بجائے ٹر استعمال میں آتا ہے۔ ٹراردو ہی کی طرح‘ اسی طور سے‘ صفت کی دوسری حالتواضح کرنے کے لیے‘ باطور لاحقہ استعمال میں آتا ہے۔ :جان کیٹس کے ہاں اس کا استعمال ملاحظہ ہو ;Are sweeter; therefore, ye soft pipes, play on ان نہی کا سابقہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سنسکرت سے آیاہے۔ جو بھی سہی‘ اردو میں عام استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ان :ان پڑھ‘ ان تھک‘ ان جان‘ ان حد‘ ان گنت وغیرہ انگریزی میں بھی یہ سابقہ نہی کی تفہیم کے لیے عام استعمال میں آتا ہے۔ جان کیٹس کے ہاں اس سابقے کا استعمال ملاحظہ ہو۔ -unان
Thou still unravish'd bride of quietness, Heard melodies are sweet, but those unheard And, happy melodist, unwearied, That I might drink, and leave the world unseen, Of unreflecting love;--then on the shore Heard melodies are sweet, but those unheardانگریزی لفظ ہائی ہا کے ساتھ ئی لاحقے کی بڑھوتی سے ترکیب پایا۔ مرکب آواز جی ایچ سے ای کی آواز پیدا کی گئی ہے۔ یہ انگریزی کا اپنا اسلوب تکلم نہیں۔ بہرطور ہاکے لیے بالا مترادف ہے جب کہ ئی کا لاحقہ اردو میں بھی موجود ہے۔ مثلا ہائی :بالائی مزید کھائی لائی پائی گائی سلائی
جان کیٹس کے ہاں ہائی کا استعمال ملاحظہ ہو That leaves a heart high-sorrowful and cloy'd, لاحقہ کر فاعل کی ترکیب کے لیے استمال آتا ہے۔ مثلا کر :دنکر‘ پربھاکر‘ بھیانکر‘ عطاکر‘ جادوکر‘ محاکاتکر یہ لاحقہ اسی مقصد کے لیے انگریزی میں بھی مستعملہے۔ جان کیٹس کے ہاں اس لاحقے کا استعمال ملاحظہ ہو۔ Bold Lover, never, never canst thou kiss, And sometimes like a gleaner thou dost keep اس لاحقے کی ترکیب و استعمال کا چلن اردو سے قطعی مختلف نہیں۔
انسانی موڈ و مزاج سے میل کھاتے طور‘ انداز اور رویے کے اظہار کے لیے‘ سے کی بڑھوتی کرتے ہیں۔ جیسے الفت سے شفقت سے‘ غضب سے‘ قہر سے‘ محبت سے اس کے لیے لاحقہ یہ بھی بڑھاتے ہیں۔ مثلا شوقیہ‘ مذاقیہ‘ ذوقیہاس کے لیے‘ سابقہ بہ بھی استعمال میں آتا ہے۔ جیسے بہ مشکل بہ قدر بہ حیثیتانگریزی میں لی لاحقہ پیوست کرتے ہیں۔ اردو لفظ گھڑنےمیں اپنا جواب نہیں رکھتی۔ جیسے لفظ ٹربلات سننے میںآیا ہے۔ لی لاحقہ بڑھانے سے یہ لفظ کچھ یوں ترکیب پائیں گے۔ الفتلی ‘ شفقتلی ‘ غضبلی ‘ قہرلی ‘ محبتلی اردو سابقہ لی سے تہی نہیں۔ جھولی‘ کھولی‘ سولی‘ شرلی بریلی‘ حویلی
معروف نحو :اکیلی اصل نحو :ایکلی :جان کیٹس کے ہاں لاحقہ لی کا استعمال ملاحظہ ہو A flowery tale more sweetly than our rhyme:اردو میں ور عام استعمال کا لاحقہ ہے۔ مثلا طاقت ور‘ دیدہ ور -باور انگریزی میں بھی یہ لاحقہ مستعمل ہے ۔ مثال میں جان کیٹس کی یہ لائین ملاحظہ ہو۔ Never have relish in the faery powerلفظ کے ساتھ سابقہ اور لاحقہ ایک ساتھ استعمال کا اردو میں چلن موجود ہے۔ مثلا
ہمنوائی :ہم نوا ئی بےوفائی :بے وفا ئی روسیاہی :رو سیاہ ی‘ رو سیا ہی لامتناہی :لا متناہ ی‘ لا متنا ہی یہ طور انگریزی میں موجود ہے۔ جان کیٹس کے ہاں یہ :چلن ملاحظہ فرمائیں No -yet still steadfast, still unchangeable, un change able, اردو میں تشبیہ‘ حسن شعر میں نمایاں حیثیت کی حامل ہے۔ کسی شے‘ جگہ‘ شخص اور معاملے کو اجاگر اور نمایاں کرنے میں‘ بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے۔ انگریزیشاعری میں اس کا اسی غرض اور طور سے استعمال ملتا
likeہے۔ حرف تشبیہ میں کا سا‘ جیسا‘ کی طرح کے لیے استعمال میں آتا ہے۔ جان کیٹس نے بھی اس حسن شعر سے‘ باکثرت کام لیا ہے۔ اس ذیل میں چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔ Forlorn! the very word is like a bell Like Nature's patient sleepless Eremite, ;Hold like rich garners the full ripen'd grainمرکبات کی تشکیل زبان کی بہت بڑی خدمت ہے۔ اردو شعرا کے ہاں کئی طرح کے مرکبات ترکیب پائے ہیں۔ انگریزی شاعری میں یہ چلن عام ملتا ہے۔ جان کیٹس کی شاعری سے چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔
Not to the sensual ear, but, more endear'd,Fair youth, beneath the trees, thou canst not leave To what green altar, O mysterious priest, Or mountain-built with peaceful citadel, Is emptied of this folk, this pious morn? O Attic shape! Fair attitude! with brede Of marble men and maidens overwrought, With forest branches and the trodden weed; Thou, silent form, dost tease us out of thought And haply the Queen-Moon is on her throne, Where beauty cannot keep her lustrous eyes
A flowery tale more sweetly than our rhyme And when I feel, fair creature of an hour, دو ہم مرتبہ لفظوں کو ملا کر لفظ بنانے کا اردو میں عام رجحان ملتا ہے۔ مثلا بزدل‘ عینکانگریزی اس رجحان سے الگ تر نہیں۔ اس میں یہ رجحان عمومی سطع پر ملتا ہے۔ جان کیٹس کے ہاں اس کی مثالیں ملاحظہ ہوں۔ And, little town, thy streets for evermore When I behold, upon the night's starr'd face, پہلے ہی
Already with thee! tender is the night, ;And leaden-eyed despairs ;The grass, the thicket, and the fruit-tree wildاہل زبان کا کوئی ناکوئی تکیہءکلام ہوتا ہے جو مہارت میںآ کر روزمرہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اردو میں بھی یہ صورت حال موجود ہے۔ شخصی اور اجتماعی تکیہءکلام کی صورتیں موجود ہیں۔ مثلا گھنٹے سے کہہ رہی ہوں‘ دو منٹ ٹھہر جاؤ۔ یار دو منٹ رکو۔ منٹ مار بجلی جانے کو ہے۔ یہاں ہی تھا دو منٹ پہلے اٹھ کر گیا ہے
آہا مزا آ گیا۔ انگریزی میں یہ دونوں موجود ہیں۔ اس ذیل میں جان کیٹس کی یہ لائنیں ملاحظہ ہوں۔ One minute past, and Lethe-wards had sunk: Ah, happy, happy boughs! that cannot shedصنعت لف و نشر اور متعلق الفاظ کا استعمال‘ اردو شاعری میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے جہاں صوتی حسن میں اضافہ ہوتا ہے‘ وہاں فکر کو بھی جلا ملتی ہے۔ یہصنعت انگریزی شاعری میں بھی پڑھنے کو ملتی ہے۔ جان کیٹس کی یہ لائنیں ملاحظہ فرمائیں۔
In ancient days by emperor and clown What little town by river or sea shore,‘تکرار لفظی‘ جہاں آہنگ اور موسیقیت کا سبب بنتی ہےوہاں فکری بالیدگی کا بھی موجب بنتی ہے۔ اردو میں‘ اس صنعت کا عام استعمال ملتا ہے۔ انگریزی میں بھی یہ صنعت نظر انداز نہیں ہوئی۔ جان کیٹس کی یہ سطور ملاحظہ ہوں۔ Still, still to hear her tender-taken breath, \"Beauty is truth, truth beauty,--that is all For ever piping songs for ever new; Of deities or mortals, or of both,
Away! away! for I will fly to thee, اردو میں صنعت تضاد حسن شعر کا درجہ رکھتی ہے۔تقابلی صورت واضح کرنے کے ساتھ ساتھ‘ ان کی معنویت بھی نمایاں کرتی ہے۔ انگریزی میں بھی اس صنعت کا استعمال ملتا ہے۔ جان کیٹس کے ہاں‘ اس کا استعمال بڑا ہی بےتکلفانہ ہے۔ یہ لائنیں پڑھیے اور لطف لیجیے۔ ?What men or gods are these? What maidens loth A flowery tale more sweetly than our rhyme: ہم صوت لفظوں کا اردو شاعری میں استعمال کمال فن سمجھا جاتا ہے۔ یہ چلن انگریزی میں بھی موجود ہے۔ جان کیٹس کی یہ لائنیں ملاحظہ ہوں۔
Bold Lover, never, never canst thou kiss, A burning forehead, and a parching tongue.بعض انگریزی اصطلاحیں‘ اردو میں اردو کے مزاج کے مطابق مستعمل ہیں۔ مثلا سلکی اب یہ ہی جان کیٹس کے ہاں ملاحظہ فرمائیں ?And all her silken flanks with garlands drest سلکی کوئی نیا طور نہیں ایسے کئی لفظ اردو میں رائج ہیں۔ مثلا نلکی‘ ہلکی پھلکیاردو شعرا اپنے اشعار میں‘ قریب قریب معنوں کے الفاظاستعمال کرکے‘ کلام میں فصاحت و بلاغت پیدا کرتے ہیں۔ انگریزی شاعری کے دامن میں‘ اردو کا یہ طور موجود
ہے۔ اس ذیل میں جان کیٹس کی یہ لائین ملاحظہ ہو۔ Through the sad heart of Ruth, when, sick for home, دونوں زبانوں میں جمع بنانے کے لیے قریب قریب کے لاحقے موجود ہیں۔ مثلا یں :حوریں‘ کاریں ین :مورخین‘ مفکرین‘ قارین جان کیٹس کے ہاں اس طور کی جمع ملاحظہ ہو Sylvan historian, who canst thus expressبےشمار انگریزی الفاظ اردو میں مستعمل ہو گیے ہیں۔ مثلا
slow, time, god, pipe, ditties, song, Lover, kiss, happy, love, green, age, pains,need, high pen, hand, chance, highحسنی صاحب یہ تو اپ نے بڑی محنت کا کام کیا ہے۔ ایسیمماثلت ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالی ہے کہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا یہ محض اتفاقات ہی ہو سکتے ہیں۔ شاید مزید تحقیق لسانیات کے کچھ نئے انکشافات کا باعث ہوسو اسے جاری رکھنے میں اور دوستوں سے شئیر کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ ہاں ایسا تجویز کرتا ہوں کہ ہر مماثلت کی مثالیں اگر زیادہ شامل کر دی جائیں اور ساتھ ہی وضاحت بھی کر دی جائے تو اچھا ہو گا کیونکہ کچھ مقامات پر بات سمجھنے میں دقت ہوئی
والسلام ڈاکٹر سہیل ملک ایس ایلیٹ اور روایت کی اہمیتٹی ایس ایلیٹ کے نزدیک‘ روایت اپنی اصل میں‘ اظہار کا تسلسل ہے‘ جو ادوار کے انقلابات سے‘ متاثر ہوتی ہے‘لیکن دم نہیں توڑتی‘ بلکہ اپنی اوریجن سے پیوستہ رہتی ہے۔ وہ محض ماضی کے تجربات کو‘ روایت کا نام نہیںدیتا‘ اور اسے درست بھی خیال نہیں کرتا۔ گویا ماضی‘ حالاور مستقبل روایت ادبی کے مفہوم میں شامل ہیں۔ روایاتہر قوم اور ہر ملک کی زندگی کے‘ ہر شعبے میں وقت کے
ساتھ ساتھ جلوہ گر ہوتی رہتی ہیں۔ تہذیب اور کلچر‘ ان ہی کے مجموعے کا نام ہے۔ یہ سب کسی قوم کے جغرافیائیحالات‘ افتاد طبح‘ فکری رجحانات اور اس پر پڑے ہوئے‘ مختلف قسم کے‘ ذہنی و وجدانی اثرات کے نتیجہ میں تشکیل پاتی ہیں۔ وراثت کی زمین میں‘ ان کے پودے جڑ پکڑتے ہیں‘ اورماحول ان کی آبیاری کرتا رہتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ‘ یہ ہی پودے تناور درختوں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے‘ کہ ہر قوم کی بڑائی اور برتری‘ روایات پرانحصار کرتی ہے۔ اس کی ذہنی‘ فکری اور تہذیبی سربلندیکو‘ اسی پیمانے سے ناپا جا سکتا ہے۔ وہ تہذیب اور کلچر کا نچوڑ ہوتے ہیں۔ ادب‘ انسانی زندگی کا اہم ترین شعبہ ہے‘ اور وہ کسی قوم کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ زمانے کے ساتھ ساتھ اس کا خمیر اٹھتا رہتا ہے۔ایلیٹ کے نزدیک‘ ہر ملک اور قوم کا‘ ادب ایک خاص قسم کی‘ آب وہوا اور مخصوص طرح کے ماحول میں‘ آنکھ
کھولتا اور پرورش پاتا ہے۔ اس لیے جو روایات‘ ادب میں تشکیل پاتی ہیں‘ ان سب کا ان روایات سے‘ ہم آہنگ ہونافطری سی بات ہے۔ کوئی ادب‘ زندہ روایات کے بغیر‘ زندہنہیں رہ سکتا۔ بڑے سے بڑا ترقی پسند‘ اس بات کا معترف ہے کہ ہر زمانے کی تہذیب کو‘ گزشتہ دور کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ماضی کا رنگ‘ چاہے کتنا ہلکا ہو‘ حال اور مستقبل میں ضرور ملے گا۔ سماجی زندگی اور تہذیب وتمدن‘ ماضی سے استفادہ کرنے پر مجبور ہیں‘ لیکن اسکا مطلب یہ نہیں‘ کہ ماضی کو اپنا آئیڈیل سمجھ لیا جائے۔ اگر سمجھ لیا جائے گا‘ تو یہ روایت پسندی نہیں روایت پرستی ہو گی۔ ایلیٹ کا موقف ہے‘ کہ جدت‘ تکرار سے بہتر ہے۔ یہورثہ میں نہیں ملتی‘ بلکہ تسلسل میں چلی آتی ہے۔ روایتکی ذیل میں‘ اس نے چند خطرات سے‘ آگاہ کیا ہے۔ بعضاوقات ہم زندگی بخش اور غیرصحت مند روایات میں‘ تمیز نہ کرتے ہوئے‘ کسی غیر صحت مند روایت سے چپکے رہتے ہیں۔ اس سے غلط اور صحیح گڈمڈ ہو جاتے ہیں۔ اس کے نزدیک‘ روایت پرستی‘ سطحی تقلید اور اندھی
نقالی‘ مضر اور خطرناک ہیں۔ تجربہ بھی‘ روایت کے بطن سے جنم لیتا ہے۔ نئے پن میں‘ پرانا پن یا نئے پن کے ساتھ پرانا پن بھی ضروری ہے۔روایت‘ ادب کی نشوونما اور ترقی میں‘ اپنا کردار ادا کرتیہے۔ ادب بدلتے حالات کی رفتار کے ساتھ‘ ارتقا اور ترقیکے راستے پر گامزن رہتا ہے۔ روایات اسے رستہ دکھاتیہیں۔ ادب کو تجربات کی نئی دنیا سے روشناس کرانا بھی‘روایات کے پیش نظر ہوتا ہے۔ وہ اس کے لیے‘ زمین تیار کرتی رہتی ہیں‘ اور جانچنے کا معیار بھی دریافت کرتی ہیں۔ روایت کے بغیر تنقیدی معیارات‘ تشکیل نہیں پاتے۔ ایلیٹ کے نزدیک‘ روایات‘ ادب اور عوام کے درمیان‘ رابطے کا ذریعہ بھی ہیں۔ ان ہی کے سبب‘ عوام ادب کو اپنا قومی سرمایہ سمجھتے ہیں۔ بعض لوگ‘ روایت کے مفہوم کو محدود کر لیتے ہیں۔ وہ غلط تحریکوں کےمحرک ہوتے ہیں‘ اور خود کو‘ جدت پسند قرار دیتے ہیں۔ وہ سارے ادب سے‘ ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ لیکن اس کے
Search
Read the Text Version
- 1
- 2
- 3
- 4
- 5
- 6
- 7
- 8
- 9
- 10
- 11
- 12
- 13
- 14
- 15
- 16
- 17
- 18
- 19
- 20
- 21
- 22
- 23
- 24
- 25
- 26
- 27
- 28
- 29
- 30
- 31
- 32
- 33
- 34
- 35
- 36
- 37
- 38
- 39
- 40
- 41
- 42
- 43
- 44
- 45
- 46
- 47
- 48
- 49
- 50
- 51
- 52
- 53
- 54
- 55
- 56
- 57
- 58
- 59
- 60
- 61
- 62
- 63
- 64
- 65
- 66
- 67
- 68
- 69
- 70
- 71
- 72
- 73
- 74
- 75
- 76
- 77
- 78
- 79
- 80
- 81
- 82
- 83
- 84
- 85
- 86
- 87
- 88
- 89
- 90
- 91
- 92
- 93
- 94
- 95
- 96
- 97
- 98
- 99
- 100
- 101
- 102
- 103
- 104
- 105
- 106
- 107
- 108
- 109
- 110
- 111
- 112
- 113
- 114
- 115
- 116
- 117
- 118
- 119
- 120
- 121
- 122
- 123
- 124
- 125
- 126
- 127
- 128
- 129
- 130
- 131
- 132
- 133
- 134
- 135
- 136
- 137
- 138
- 139
- 140
- 141
- 142
- 143
- 144
- 145
- 146
- 147
- 148
- 149
- 150
- 151
- 152
- 153
- 154
- 155
- 156
- 157
- 158
- 159
- 160
- 161
- 162
- 163
- 164
- 165
- 166
- 167
- 168
- 169
- 170
- 171
- 172
- 173
- 174
- 175
- 176
- 177
- 178
- 179
- 180
- 181
- 182
- 183
- 184
- 185
- 186
- 187
- 188
- 189
- 190
- 191
- 192
- 193
- 194
- 195
- 196
- 197
- 198
- 199
- 200
- 201
- 202
- 203
- 204
- 205
- 206
- 207
- 208
- 209
- 210
- 211