Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore چھیاسی اختصارئیے

چھیاسی اختصارئیے

Published by maqsood5, 2017-02-18 07:17:38

Description: abk_ksr_mh.960/2016
چھیاسی اختصارئیے
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
فروری ٢٠١٧

Search

Read the Text Version

‫‪1‬‬ ‫چھی سی اختص رئیے‬ ‫مقصود حسنی‬ ‫ابوزر برقی کت خ نہ‬ ‫فروری‬

‫‪2‬‬ ‫فہرست‬‫لوک نہ ‪-‬‬ ‫سہ گنی‬‫اسے م و نہ تھ لوک نہ ‪-‬‬‫منس نہ ‪-‬‬ ‫ان دنوں‬‫منس نہ ‪-‬‬ ‫آنٹی ثمرین‬‫لوک نہ ‪-‬‬ ‫انص ف ک قتل‬‫بےک ر کی شر س ری منس نہ ‪-‬‬‫میں مولوی بنوں گ منس نہ ‪-‬‬‫لوک نہ ‪-‬‬ ‫ایس کیوں ہے‬‫لوک نہ ‪-‬‬ ‫یہ اچھ ہی ہوا‬‫منس نہ‬ ‫وہی پران چ ا‬‫منس نہ ‪-‬‬ ‫سدھر ج ؤ‬‫منظومہ ‪-‬‬ ‫اچھ نہیں ہوت‬‫منس نہ ‪-‬‬ ‫آئندہ کے لیے‬‫منس نہ ‪-‬‬ ‫منہ سے نک ی‬

‫‪3‬‬ ‫منس نہ ‪-‬‬ ‫یک مشت‬ ‫دیگچہ تہی دامن تھ لوک نہ ‪-‬‬ ‫لوک نہ ‪-‬‬ ‫حک عدولی‬ ‫لوک نہ ‪-‬‬ ‫لوگ کی ج نیں‬ ‫منس نہ ‪-‬‬ ‫چپ ک م ہدہ‬ ‫لوک نہ ‪-‬‬ ‫ک لی زب ن‬ ‫لوک نہ ‪-‬‬ ‫فیص ہ‬ ‫منس نہ‪-‬‬ ‫ق تل‬ ‫میں کریک ہوں ‪-‬‬ ‫ان ہونی‘ ان ہونی نہیں ہوتی ‪-‬‬ ‫جذبے کی سزا ‪-‬‬ ‫ہ بھ ی کرے ‪-‬‬ ‫آخری کوشش ‪-‬‬ ‫تیسری دفع ک ذکر ہے ‪-‬‬ ‫انگ ی ‪-‬‬ ‫آخری تبدی ی کوئی نہیں ‪-‬‬

‫‪4‬‬ ‫کھڑ پینچ دی جئے ہو ‪-‬‬ ‫سراپے کی دنی ‪-‬‬ ‫میں ہی ق تل ہوں ‪-‬‬ ‫خی لی پاؤ ‪-‬‬ ‫ت ی اور روٹی ‪-‬‬ ‫بوسیدہ اش ‪-‬‬ ‫وب ل دیکھیے ‪-‬‬ ‫عصری ضرورت ‪-‬‬ ‫ام ں جین ں ‪-‬‬ ‫اس ک ن ہدایت ہی رہ ‪-‬‬ ‫بھ ری پتھر ‪-‬‬ ‫ایسے لوگ کہ ں ہیں ‪-‬‬ ‫منظومے‬ ‫ش عر اور غزل ‪-‬‬ ‫ٹیکس لی کے شیشہ میں ‪-‬‬ ‫ک لے سویرے ‪-‬‬

‫‪5‬‬ ‫کیچڑ ک کنول ‪-‬‬ ‫دو لقمے ‪-‬‬ ‫آخری خبریں آنے تک ‪-‬‬ ‫یہ ہی فیص ہ ہوا تھ ‪-‬‬ ‫حیرت تو یہ ہے ‪-‬‬ ‫میں نے دیکھ ‪-‬‬ ‫کس منہ سے ‪-‬‬ ‫حی ت کے برزخ میں ‪-‬‬ ‫سورج دوزخی ہو گی تھ ‪-‬‬ ‫فیکٹری ک دھواں ‪-‬‬ ‫مط ع رہیں ‪-‬‬ ‫امید ہی تو زندگی ہے ‪-‬‬ ‫میٹھی گولی ‪-‬‬ ‫دو بی وں کی مرضی ہے ‪-‬‬ ‫ذات کے قیدی ‪-‬‬ ‫چل' محمد کے در پر چل ‪-‬‬

‫‪6‬‬ ‫عط ئیں ہ کی ک بخیل ہیں ‪-‬‬ ‫کرپ نی فتوی ‪-‬‬ ‫مقدر ‪-‬‬ ‫دو ب نٹ ‪-‬‬ ‫دو حرفی ب ت ‪-‬‬ ‫سوچ کے گھروندوں میں ‪-‬‬ ‫کی یہ ک فی نہیں ‪-‬‬ ‫ی دوں کی دودھ ندی ‪-‬‬ ‫ب ؤ بہشتی ‪-‬‬ ‫کوئی کی ج نے ‪-‬‬ ‫کل کو آتی دفع ک ذکر ہے ‪-‬‬ ‫کڑکت نوٹ ‪-‬‬ ‫اسا س ک ہے ‪-‬‬ ‫ڈنگ ٹپ نی ‪-‬‬ ‫ایک اور اندھیر دیکھیے ‪-‬‬ ‫یہ حرف ‪-‬‬

‫‪7‬‬ ‫عہد ک در وا ہوا ‪-‬‬ ‫مشینی دیو کے خوا ‪-‬‬ ‫اک م ت سوال ‪-‬‬ ‫ریت بت کی شن س ئی م نگ ‪-‬‬ ‫آنکھوں دیکھے موس ‪-‬‬ ‫سوال ک جوا ‪-‬‬ ‫یہ ہی دنی ہے ‪-‬‬ ‫م لک کی مرضی ہے ‪-‬‬ ‫سی ست ‪-‬‬

‫‪8‬‬ ‫سہ گنی‬ ‫لوک نہ‬ ‫ایک ب دش ہ اور اس ک وزیر گشت پر نک ے ہوئے تھے۔ دیکھ‬ ‫ایک درخت کے نیچے ایک ادمی سوی ہوا ہے۔ وزیر نے ب دش ہ‬ ‫سے کہ ‪ :‬ب دش ہ سامت درخت کے نیچے سوی ہوا آدمی بڑے‬ ‫ک ک ہے۔ وہ دونوں اس شخص کے پ س چ ے گئے۔ اسے‬ ‫جگ ی اور پوچھ کہ ت کی کی ہنر رکھتے ہو۔ اس شخص نے‬ ‫بت ی کہ میں تین گن رکھت ہوں‪:‬‬ ‫اول‪ -‬میں اص ی اور نق ی ہیرے کی ج نچ کر سکت ہوں۔‬ ‫دوئ ‪ -‬مجھے نس ی اور غیرنس ی گھوڑوں کی پہچ ن ہے۔‬ ‫سوئ ‪ -‬مجھے آدمیوں کی پہچ ن ہے۔‬ ‫ب دش ہ اسے اپنے س تھ لے آی اور اس کی پ نچ روپے م ہ نہ‬ ‫تنخواہ مقرر کر دی اور اسے کہ ج ؤ ہم رے قر وجوار میں‬ ‫موج کرو ج تمہ ری ضرورت پڑے گی با لیں گے۔‬ ‫ایک مرتبہ درب ر میں ہیروں ک سوداگر آی ۔ ب دش ہ کو ہیرے‬ ‫دکھ ئے۔ ب دش ہ کو ایک ہیرا بہت پسند آی ۔ اچ نک اسے اپن سہ‬ ‫گنی ماز ی د آ گی ۔ اسے بای گی اور پسند کیے گئے ہیرے کے‬ ‫مت پوچھ ۔ اس نے وہ خو صورت ہیرا دیکھ ۔ ج نچنے کے‬

‫‪9‬‬ ‫ب د کہنے لگ یہ ہیرا نق ی ہے اور اس میں ریت بھری ہوئی ہے‬ ‫اور سوداگر سے کہ ت خ ک ہیروں کے سوداگر ہو جو اص ی‬ ‫اور نق ی ہیرے کی پہچ ن نہیں رکھتے۔‬ ‫سوداگر کے تو ہ تھوں کے طوطے اڑ گئے اور وہ بہت پریش ن‬ ‫ہوا۔ حیران تو ب دش بھی ہوا۔ ب دش ہ نے سوداگر سے کہ اگر‬ ‫اس شخص کی ب ت صحیح نک ی تو میں تمہ را سر اڑا دوں گ‬ ‫اگر یہ ہیرا اص ی نکا تو خرید لوں گ ۔ پھر اس شخص سے کہ‬ ‫اگر ہیرا درست نکا تو ت ج ن سے ج ؤ گے۔‬ ‫ہیرا توڑا گی تو ہیرے میں سے ریت برآمد ہوئی۔ ب دش ہ اس‬ ‫شخص سے راضی ہوا اور اس کی پ نچ روپے تنخواہ برقرار‬ ‫رکھی۔‬ ‫کچھ ہی وقت گزا ہو گ کہ ایک گھوڑوں ک سوداگر آی ۔ اس کے‬ ‫پ س ون سونی نسل کے گھوڑے تھے۔ ان میں سے ب دش ہ کو‬ ‫ایک گھوڑا بہت پسند ای ۔ پہچ ن کے لیے اس شخص کو دوب رہ‬ ‫سے ط کی گی گی اور اپنی پسند کے گھوڑے کے مت‬ ‫دری فت کی ۔‬ ‫اس شخص نے گھوڑے کو دیکھنے کے ب د کہ ‪ :‬گھوڑے کے‬ ‫نس ی ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن اس کی کمر میں رسولی‬ ‫ہے۔ گھوڑوں کے سوداگر سے کہ ت کیسے گھوڑوں کے‬ ‫سوداگر ہو کہ ج نور میں موجود اعض ئی نقص سے بےخبر‬

‫‪10‬‬ ‫رہتے ہو۔‬ ‫گھوڑوں کے سوداگر کو سخت پریش نی ہوئی۔ اس گھوڑے کے‬ ‫حوالہ سے اسے ان واکرا م نے کی امید تھی۔‬ ‫ج نوروں کے امراض کے م ہر کو بای گی ۔ اس نے گھوڑے ک‬ ‫طبی م ئینہ کی اور کمر میں رسولی ہونے کی تصدی کر دی۔‬ ‫ب دش ہ گھوڑوں کے سوداگر سے سخت خ ہوا اور اسے درب ر‬ ‫سے دھکے دے کر نک ل دی ۔ ب دش ہ اپنے اس ماز کی پرکھ‬ ‫پہچ ن پر بہت راضی ہوا اور اس کی تنخواہ پ نچ روپے برقرار‬ ‫رکھی۔‬ ‫ایک دن ب دش ہ نے سوچ کیوں نہ تیسری خوبی بھی آزم ئی‬ ‫ج ئے۔ اسے بای گی ۔ ب دش ہ نے اس سے پوچھ کہ ت میرے‬ ‫ب رے میں کی کہتے ہو کہ میں کون ہوں۔ ب دش ہ کو اپنے اع ی‬ ‫نسل ہونے ک یقین تھ اور اس پر فخر و غرور بھی تھ ۔ اس‬ ‫شخص نے ک فی پس و پیش سے ک لی لیکن ب دش ہ ک اصرار‬ ‫بڑھت گی ۔ اس شخص نے ج ن بخشی کی درخواست کی۔ ب دش ہ‬‫نے ج ن بخشی ک وعدہ کی تو اس شخص نے بت ی کہ ت چوڑے‬ ‫کی اواد ہو۔‬‫ب دش ہ نے ت وار نی سے نک لی اور کہ کہ یہ ت کیسے اور کس‬ ‫بنی د پر کہتے ہو۔ ب دش ہ کے ہ تھ میں وعدہ خافی کے حوالہ‬ ‫سے ت وار دیکھی تو زوردار قہقہ لگ کر کہنے لگ ‪ :‬اے ب دش ہ‬

‫‪11‬‬ ‫میں نے ہیرے کی پرکھ بت ئی ت خوش ہوئے لیکن میری تنخواہ‬ ‫پ نچ ہی رہنے دی۔ گھوڑے کے مت درست بت ی ت خوش‬ ‫ہوئے لیکن میری پ نچ روپے ہی رہنے دی۔ ا وعدہ خافی‬ ‫کرکے ت وار نی سے نک ل رہے ہو۔ ج میں نے بت نے سے‬ ‫انک ر کی تو تمہیں ع یدگی میں پوچھن چ ہیے تھ ۔ تمہ رے ک‬ ‫ہی چوڑوں جیسے ہیں‘ میں نے اسی بنی د پر تمہیں چوڑے کی‬ ‫اواد کہ ہے۔ مجھے قتل کرنے سے پہ ے اپنی م ں سے ج کر‬ ‫پوچھ کہ ت کس کی اواد ہو۔‬ ‫ب دش ہ غصہ سے ہ تھ میں ننگی ت وار لے کر م ں کی طرف‬ ‫بھ گ ۔ اس کی م ں آرا کر رہی تھی۔ اس نے ج کر م ں کو اٹھ ی‬ ‫اور کہ سچ بت کہ میں کس کی اواد ہوں۔ م ں اس ک یہ رویہ‬‫اور تیور دیکھ کر حیران رہ گئی۔ اس نے کہ اپنے ب پ کی اواد‬ ‫ہو اور کس کی ہو۔ پھر ب دش ہ نے ت وار لہرائی اور کہ سچ سچ‬‫بت ؤ کہ میں کس کی اواد ہوں۔ پھر اس کی م ں نے بت ی کہ میرا‬‫خ وند جنگ میں تھ اور اسے گھر آئے ک فی دن ہو گئے میرا دل‬ ‫بڑا چ ہ تو میں نے گھر میں جھ ڑو بھ ری کرنے والے کو‬ ‫است م ل کر لی اور پھر وہ ہی میرے ک آنے لگ ۔ تمہ را وزیر‬‫وہی چوڑا ہی تو ہے۔ مح وں میں یہ الگ سے اور انوکھ واق ہ‬ ‫نہیں ہے۔‬ ‫یہ سنن تھ کہ ب دش ہ چکرا گی اور وہیں سر پکڑ کر زمین پر‬ ‫بیٹھ گی ۔‬

‫‪12‬‬ ‫اسے م و نہ تھ‬ ‫لوک نہ‬ ‫ایک شخص درخت کے نیچے منہ کھولے گہری نیند سو رہ تھ‬‫کہ ایک سپولیہ اس کی ج ن بڑھ ۔ دریں اثن ایک گھڑسوار وہ ں‬ ‫آ پہنچ ۔ وہ پھرتی سے گھوڑے سے نیچے اترا۔ اس کے نیچے‬ ‫اترتے اترتے سپولیہ سوئے ہوئے شخص کے منہ میں گھس‬ ‫گی ۔ وہ بڑا پریش ن ہوا۔ اچ نک اسے کچھ سوجھ اور اس نے‬ ‫سوئے ہوئے شخص کو زور زور سے چھ نٹے م رن شروع کر‬ ‫دیے۔ سوی ہوا شخص گھبرا کر ج گ اٹھ اور اس نے گھڑسوار‬‫اس نے کہ وجہ چھوڑو ‘سے چھ نٹے م رنے کی وجہ پوچھی‬ ‫اور تیز رفت ری سے بھ گو ورنہ اور زور سے م روں گ ۔‬ ‫اس شخص نے بھ گن شروع کر دی ۔ ج رکنے لگت تو وہ‬ ‫چھ نٹے م رن شروع کر دیت ۔ رستے میں ایک ندی آ گئی۔‬ ‫گھڑسوار نے کہ پ نی پیو۔ اس نے پی ۔ اس نے چھ نٹ م رتے‬ ‫ہوئے کہ اور پیو۔ اس نے اور پی اور کہ ا مزید نہیں پی‬ ‫سکت ۔ اچھ نہیں پی سکتے تو بھ گو۔‬ ‫وہ بھ گت ج رہ تھ اور س تھ میں وجہ بھی پوچھے ج ت ۔‬ ‫گھڑسوار وجہ نہیں بت رہ تھ ہ ں البتہ بھ گنے کے لیے کہے‬ ‫ج ت تھ ۔‬

‫‪13‬‬ ‫تھوڑا آگے گیے تو ایک سیبوں ک ب آ گی ۔ گھڑ سوار نے کہ‬ ‫نیچے گرے ہوئے سی کھ ؤ۔ اس نے کھ ئے اور کہ مزید نہیں‬ ‫کھ سکت ۔ گھڑسوار نے زوردار چھ نٹ م رتے ہوئے کہ ‘ میں‬ ‫کہت ہوں اور کھ ؤ۔ اس نے کھ ن شروع کر دی ۔ پھر کہنے لگ‬ ‫اور نہیں کھ سکت مجھے قے آ رہی ہے۔ ہ ں ہ ں کھ تے ج ؤ‬ ‫ج تک قے نہیں آ ج تی تمہیں سی کھ تے رہن ہو گ ۔‬ ‫وہ سی کھ ت رہ کہ اسے زوردار قے آ گئی۔ قے کے س تھ ہی‬ ‫سپولیہ بھی ب ہر آ گی ۔ ت اس پر اصل م جرا کھا۔ وہ گھڑسوار‬ ‫ک شکرگزار ہوا اور اس نے م فی م نگی کہ وہ بھ گتے پ نی‬ ‫پیتے اور سی کھ تے ہوئے جی ہی جی میں اسے گ لی ں اور‬ ‫بددع ئیں دے رہ تھ اور اس مصبیت سے چھٹک رے کے لیے‬ ‫دع ئیں کر رہ تھ ۔‬ ‫تمہ ری بددع ئیں مٹی ہوئیں ہ ں البتہ دع ئیں ک رگر ث بت ہوئیں۔۔‬ ‫اسے قط م و نہ تھ کہ اس ظ ہری برائی میں خیر چھپی‬ ‫ہوئی ہے۔ گھڑسوار مسکرای اور اپنی منزل کو چل دی‬

‫‪14‬‬ ‫ان دنوں‬ ‫لوک نہ‬ ‫اس بچی ک اصل ن ارش د تھ لیکن سی ہ رنگت کے سب ک لی‬ ‫م ت ن عرف ع میں آ گی تھ ۔ خصوص بچے اسے چھیڑنے‬ ‫کے لیے ش داں ک لی م ت کہہ کر پک رتے۔ وہ اس ن پر پٹ پٹ‬‫ج تی۔ اکثر نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ ج تی۔ وہ تو چڑتی تھی‬‫ہی لیکن اس کی م ں اس سے زی دہ ت ؤ میں آ ج تی اور چھیڑنے‬ ‫والے کو اگ ے گھر تک پہنچ کر آتی۔‬ ‫اس روز ہ س ئے ک لڑک جو عمر میں ش داں کے برابر ک تھ ۔‬ ‫ش داں کو ک لی م ت کہہ کر اپنے گھر بھ گ گی ۔ ش داں نے اپنی‬‫م ں کو آ کر شک یت لگ ئی۔ ش داں کی م ں نے نہ آؤ دیکھ نہ ت ؤ‬ ‫ان کے گھر ج کر اس لڑکے کو دو تین زوردار جڑ آئی۔ پھر کی‬ ‫تھ میدان لگ گی ۔ اس لڑکے کی م ں نے اونچی اونچی بولن‬ ‫شروع کر دی ۔ ش داں کی م ں بھی نیچے چونکی رکھ کر دیوار‬ ‫کے س تھ کھڑی ہو گئی۔ پہ ے س دا گر ک ری ہوئی اس کے ب د‬ ‫آلودہ ل ظوں کے دھ رے کھل گئے۔ دونوں بیبی ں تھکنے ک ن‬ ‫ہی نہیں لے رہی تھیں۔ انہوں نے ایک دوسرے کے نئے پرانے‬ ‫راز اگل کر رکھ دیے۔ بہت سی پس پردہ ب تیں اور حق ئ کھل‬‫گئے اور دونوں کی کردای شرافت پر برسوں ک پڑا پردہ اٹھ گی ۔‬

‫‪15‬‬‫ابھی زور دار ب ب ری ک س س ہ ج ری تھ کہ ش داں ک دادا گھر آ‬ ‫گی ۔ بہو کو گرجتے برستے دیکھ کر م جرہ پوچھ ۔ ش داں کی‬ ‫م ں نے بہت سی پ س سے لگ کر سسر کو کہ نی ں سن ئیں۔ یہ‬ ‫بھی بت ی کہ ک فٹین ک بیٹ میری ش داں کو ک لی م ت کہہ کر‬ ‫چھیڑت ہے۔‬ ‫بندہ سی ن تھ ۔ اس نے بہو سے پوچھ ش داں کدھر ہے۔ ش داں‬ ‫کی م ں نے گھر میں ادھر ادھر اسے تاش وہ گھر پر نہ تھی۔‬‫ش داں ک دادا کہنے لگ اسے نہ تاشو وہ گھر میں نہیں ہے ب ہر‬ ‫بچوں کے س تھ کھیل رہی ہے۔ اس کی پ رٹی میں ہ س ئی ک‬ ‫لڑک ہے۔ پھر اس نے اونچی آواز میں ہ س ئی سے کہ بیٹ‬ ‫بچوں کی وجہ سے نہ لڑو‘ ت ادھر لڑ رہی ہو ب ہر یہ ہی بچے‬‫آپس میں مل کر کھیل رہے ہیں۔ بچوں کے لیے لڑن کھ ی حم قت‬ ‫ہے۔‬ ‫ب ڑے کی ب تیں سن کر دونوں بیبی ں بڑی شرمندہ ہوئیں اور شر‬ ‫سے اندر گھس گئیں۔ بچوں نے تو ان کے پ ے کچھ نہ چھوڑا‬ ‫تھ ۔‬ ‫کئی دنوں تک بول بارے کے نتیجہ میں ان کی ب ہمی رنجش‬ ‫چ تی رہی اور پھر م ضی گئی گزری کی قبر میں دفن ہو گی ۔‬ ‫وقت پر لگ کر محو س ر رہ ۔ بچے جوان ہو گئے۔ شیداں اور‬ ‫ک فٹین ک لڑک جیرا آپس میں سٹ ہو گئے۔ ان کی یہ ب ہمی ہی و‬

‫‪16‬‬ ‫ہ ئے دو س ل تک چ ی۔ عزت بچ نے کی خ طر دونوں کے م ئی‬ ‫ب پ کو راضی ہون پڑا اور ان کی ش دی طے کر دی گئی۔‬‫ان دنوں جیرا اور شیداں ایک چھت ت ے رہ رہے ہیں اور جیرے‬ ‫کے لیے شیداں حسینہ ع ل ہے۔ وہ اس کی ب ت ٹ لنے کو بھی‬ ‫پ پ سمجھت ہے۔‬

‫‪17‬‬ ‫آنٹی ثمرین‬ ‫منس نہ‬ ‫م ں کی محبت کے ب رے میں کچھ کہن سورج کو چ ند دکھ نے‬ ‫والی ب ت ہے۔ یہ کسی دلیل ی ثبوت کی محت ج نہیں ہوتی۔ م ں‬ ‫بچوں کے لیے جو مشقت اٹھ تی ہے کوئی اٹھ ہی نہیں سکت ۔‬‫اس کی س نسیں اپنے بچے کے س تھ اول ت آخر جڑی رہتی ہیں۔‬ ‫وہ اپنے بچے کے لیے کسی بھی سطع تک ج سکتی ہے۔ اس‬ ‫ک ہر کی با ک حیرت انگیز ہوت ہے۔ م ں بچے کے لیے اپنی‬ ‫ج ن سے بھی گزر ج تی ہے۔ یہ محبت اور ش قت اس کی ممت‬ ‫کی گرہ میں بندھ ہوا ہوت ہے اس لیے حیران ہونے کی‬ ‫ضرورت نہیں۔ محبت اس کی ممت ک خ ص اور ازمہ ہے۔‬ ‫عورت اپنے پچھ وں کے م م ہ میں اواد سے بھی زی دہ‬ ‫حس س ہوتی ہے۔ اس ذیل میں اس ک قول زریں ہے کہ نہ م ں‬ ‫ب پ نے دوب رہ آن ہے اور نہ بہن اور بھ ئی پیدا ہو سکتے ہیں۔‬ ‫اس ک دو نمبر بھ ئی بھی قط نم اور ب پ کو نبی قری‬‫سمجھتی ہے۔ ان کی کوئی کمی خ می یا خرابی اس کو نظر نہیں‬ ‫آتی یا ان سے کمی کوت ہی سرزد ہوتی ہی نہیں۔ ج کہ خ وند‬ ‫کی م ں عموم ف ے کٹن اور ب پ لوبھی اور الچی ہوت ہے۔ بہن‬‫بھ ئی تو خیر دو نمبری کی آخری سطع کو چھو رہے ہوتے ہیں۔‬

‫‪18‬‬ ‫کر بی بی بھی اول ت آخر عورت تھی اور وہ بھی یہ ہی‬ ‫اصولی اطوار رکھتی تھی۔ وہ اپنے بیٹے کے لیے بہن کی بیٹی‬ ‫ان چ ہتی تھی ج کہ اس ک خ وند ادھر رشتہ نہیں کرن چ ہت‬ ‫تھ ۔ لڑکی میں کوئی کجی یا خ می نہ تھی۔ بس وہ ادھر رشتہ‬ ‫نہیں کرن چ ہت تھ ۔ ان کے گھر میں کئی م ہ سے یہ ہی رگڑا‬ ‫جھگڑا چل رہ تھ ۔ جوں ہی گھر میں وہ قد رکھت کل ک ی ن‬ ‫شروع ہو ج تی اور یہ اگ ے دن اس کے ک پر ج نے تک‬ ‫تھوڑے تھوڑے وق ے کے س تھ چ تی رہتی۔‬ ‫ایک دن اس نے اپنے ایک قریبی دوست سے م م ہ شیئر کی ‪،‬‬ ‫وہ ہنس پڑا‬ ‫او ی ر اس میں پریش نی والی کی ب ت ہے۔ بھ بی کو اپنی ڈال دو‬ ‫س ٹھیک ہو ج ئے گ ۔‬ ‫اپنی کی ڈالوں۔‬ ‫یہ ہی کہ ت درسری ش دی کرنے والے ہو۔ عورت ت نے پسند‬ ‫کر لی ہے۔ اس نے کہ‬ ‫ی ر میں پ گل ہوں جو ایک ب ر شدگی کے ب د کوئی عورت پسند‬ ‫کروں گ ۔‬ ‫تمہیں کس نے کہ ہے کہ یہ حم قت کرو‘ ج ی کردار تخ ی‬ ‫کرو۔‬

‫‪19‬‬ ‫اسے اپنے دوست ک آئیڈی پسند آی ۔ طے یہ پ ی کہ وہ ٹی ی فون‬ ‫پر مس ک ل کرے گ ۔ اس کے ب د وہ ج ی عورت سے دیر تک‬ ‫روم ن پرور ب تیں کرت رہے گ ۔ پہ ے ہ تے زب نی کامی اگ ے‬ ‫ہ تے سے ٹی ی فونک س س ہ چ ے گ ۔‬ ‫اس دن ج رشتے کی ب ت شروع ہوئی تو اس نے اپنی محبت‬ ‫کی کہ نی چھیڑ دی۔ پہ ے تو اس کی بیوی کو یقین نہ آی ۔ اس ک‬ ‫خی ل تھ کہ اسے کون پسند کرے گی۔ اس نے بت ی کہ وہ بڑے‬‫ب ند مرتبہ شخص کی س لی ہے۔ اسے طا ہو گئی ہے۔ بڑی ہی‬ ‫خو صورت ہے۔ اس کی چھوٹی چھوٹی دو بیٹی ں ہیں۔‬ ‫کر بی بی کچھ دن اسے اف زنی خی ل کرتی رہی ۔ اگ ے ہ تے‬ ‫ٹی ی فون آن شروع ہو گئے۔ وہ دیر تک ج ی عورت سے ج ی‬ ‫روم ن پرور ب تیں کرت ۔ کئی ب ر ب توں کے درمی ن کہیں سے‬ ‫ٹی ی فون بھی آی ۔ کر بی بی اتنی پیدل ہو گئی کہ اس نے غور‬ ‫ہی نہ کی کہ ٹی ی فون کرنے کے دوران ٹی ی فون کیسے آ سکت‬ ‫ہے۔‬ ‫کر بی بی بھ نجی ک رشتہ انے ک مس ہ بھول سی گئی اسے‬ ‫اپنی پڑ گئی۔ اسے گھر میں اپنے وجود ک خطرہ اح ہو گی ۔‬ ‫گھر میں اکی ی دھندن تی تھی سوت کے آ ج نے کے دکھ نے‬ ‫اسے ادھ موا کر دی ۔ ان ہی دنوں لڑکے ک رشتہ آ گی جیسے‬‫سوت کے آنے سے پہ ے کر لی گی مب دہ سوت کے آنے کے ب د‬

‫‪20‬‬ ‫کی ح ات ہوں۔ کر بی بی کے ذہن میں یہ ب ت نقش ہو گئی کہ‬ ‫سوت کے آنے کے ب د ح ات برعکس ہو ج ئیں گے۔‬ ‫لڑکے کی ش دی کو ابھی دس دن ہی گزرے ہوں گے کہ ولی‬ ‫محمد اپنے کمرے میں اداس بیٹھ ہوا تھ ۔ ب ت ب ت پر برہ ہوت‬ ‫اور کبھی رونے لگت ۔ کوئی کچھ سمجھ نہیں پ رہ تھ کہ اسے‬ ‫اچ نک کی ہو گی ہے۔ اتن اداس اور رنجیدہ کیوں ہے۔ س ب ر‬ ‫ب ر پوچھتے کہ آپ اتنے پریش ن اور اداس کیوں ہیں۔ ہر کسی‬ ‫سے یہ ہی کہت ک پریش ن ہوں۔ میں کیوں اور کس سے اداس‬ ‫ہونے لگ ۔‬ ‫آخر کر بی بی ہی دور کی کوڑی ائی۔ کہنے لگی تمہ ری‬ ‫ثمرین تو دغ نہیں دے گئی ۔ ولی محمد نے حیرت سے پوچھ‬ ‫تمہیں کیسے پت چا۔ کوئی ٹی ی فون تو نہیں ای ۔‬ ‫کر بی بی کی ب چھیں کھل گئیں۔ کہنے لگی کہتی تھی ن کہ ت‬‫سے عین غین بندے سے کون نبھ کر سکت ہے وہ میں ہی ہوں‬ ‫جو تمہ رے س تھ نبھ کر رہی ہوں ۔ کر بی بی با تھک ن بولتی‬ ‫رہی وہ موٹے موٹے آنسوبہ ت گی ۔ اس کی یہ کئی م ہ اور‬ ‫خصوص اس روز کی اداک ری دلیپ کم ر بھی دیکھ لیت تو عش‬ ‫عش کر اٹھت ۔‬‫اس گی میں اسے تین نوعیت کے دکھوں سے پ ا پڑا۔ س لی کی‬

‫‪21‬‬‫بیٹی ک بیٹے کے لیے رشتہ نہ لینے کی وجہ سے ع رضی سہی‬ ‫قی مت سے گزرن پڑا۔ ج ی ثمرین کی ج ی محبت ک ڈرامہ‬ ‫زبردست بےسکونی ک سب بن لیکن اصل مس ہ حل ہو گی ۔‬ ‫ج ی ثمرین آج بھی کنبہ میں اپنے حقیقی وجود کے س تھ‬ ‫موجود ہے۔‬ ‫آج ج وہ بوڑھ ہو چک ہے۔ چ نے پھرنے سے بھی ق صر‬ ‫وع جز ہے اسے ثمرین سے دیوانگی کے س تھ محبت ک ط نہ‬ ‫م ت ہے۔ یہ ط نہ اسے اتن ذلیل نہیں کرت جتن کہ اس کے‬ ‫چھوڑ ج نے ک ط نہ ذلیل کرت ہے۔ کر بی بی کہتی آ رہی ہے‬ ‫اگر ت س ؤ پتر ہوتے تو وہ تمہیں چھوڑ کر کیوں ج تی۔ یہ میں‬ ‫ہی ہوں جو ت ایسے بندے کے س تھ گزرا کرتی چ ی آ رہی ہوں‬ ‫کوئی اور ہوتی تو ک کی چھوڑ کرچ ی ج تی۔ خ ندانی ہوں اور‬ ‫میں اپنے م ئی ب پ کی اج نبھ رہی ہوں۔‬

‫‪22‬‬ ‫انص ف ک قتل‬ ‫لوک نہ‬ ‫ایک ب ر ایک ب دش ہ جوانوں کے لنگر خ نے گی ۔ ص ئی‬ ‫درست تھی۔ پھر اس نے پوچھ کہ جوانوں ‘ستھرائی چیک کی‬ ‫کے لیے کی پک ی ہے۔ جوا ما بت ؤں ی نی بیگن۔ ب دش ہ سخت‬ ‫ن راض ہوا کہ جوانوں کے لیے اتن گھٹی کھ ن کیوں پک ی گی‬‫ہے۔ اس کے مشیر نے بیگن کی بدت ری ی میں زمین آسم ن ایک‬ ‫کر دیے۔ بہر کیف لنگر کم نڈڑ نے م ذرت کی اور آئندہ سے‬ ‫بیگن نہ پک نے اور اچھ کھ ن پک نے ک وعدہ کی تو ب دش ہ‬ ‫لنگرخ نے سے رخصت ہو گی ۔‬ ‫کچھ وقت گزرنے کے ب د ب دش ہ کو دوب رہ سے جوانوں کے‬ ‫لنگرخ نے ج نے ک ات ہوا۔ سوئے ات اس روز بھی بیگن‬ ‫پک ئے گئے تھے۔ ب دش ہ نے بیگن کی ت ریف کی۔ وہ ہی مشیر‬ ‫س تھ تھ اس نے بیگن کی ت ریف میں ممکنہ سے بھی آگے‬‫بیگن کے فوائد بی ن کر دیے۔ گوی بیگن کے توڑ کی کوئی سبزی‬ ‫اور پکوان ب قی نہ رہے۔ لنگر کم نڈر خوش ہوا اور آگے سے‬ ‫بیگن کے برابر اور متوار پک ئے ج نے ک وعدہ کی ۔‬‫ب دش ہ اس مشیر کی ج ن مڑا اور کہنے لگ کہ اس دن میں نے‬ ‫بیگن کی بدت ری ی کی تو ت نے بیگن کی بدت ری ی میں کوئی‬

‫‪23‬‬ ‫کسر نہ چھوڑی۔ آج ج کہ میں نے ت ریف کی ہے تو ت نے‬ ‫کیوں۔ ‘بیگن کی ت ریف میں کوئی کسر اٹھ نہیں رکھی‬ ‫اس نے جواب کہ حضور میں آپ ک غا ہوں بیگن ک نہیں۔‬ ‫یہ سن کر ب دش ہ نے کہ ت سے جی حضوریے ح اور سچ کو‬ ‫س منے نہیں آنے دیتے جس کے سب ص ح اقتدار متکبر ہو‬ ‫ج تے ہیں اور اس کے نتیجہ میں ان سے انص ف نہیں ہو پ ت ۔‬ ‫انص ف ک قتل ہی قوموں کے زوال ک سب بنت ہے۔‬ ‫پہ ے تو وہ جی حضوریہ چپ رہ پھر کہنے لگ حضور ج ن کی‬ ‫ام ن پ ؤں تو ایک عرض کروں۔‬ ‫ب دش ہ نے کہ ‪ :‬کہو کی کہن چ ہتے ہو۔‬ ‫حضور سچ اور ح کی کہنے والے ہمیشہ ج ن سے گئے ہیں۔‬ ‫ب دش ہ نے کہ ‪ :‬ی د رکھو سچ اور ح ج ن سے بڑھ کر قیمتی‬ ‫ہیں۔ مرن تو ایک روز ہے ہی سچ کہتے مرو گے تو ب قی رہو‬ ‫گے۔ ہ ں جھوٹ کہنے ی اس پر درست کی مہر ثبت کرنے کی‬‫صورت میں بھی زندہ رہو گے لیکن ل نت اور پھٹک ر اس زندگی‬ ‫ک مقدر بنی رہے گی۔‬

‫‪24‬‬ ‫بےک ر کی شر س ری‬ ‫منس نہ‬‫یہ ہی کوئی پچیس تیس س ل پہ ے کی ب ت ہے۔ یہ ں ہ بخشے‬‫مولوی دین محمد ہوا کرتے تھے۔ بڑے ہنس مکھ اور خوش طبع‬ ‫تھے۔ کھ نے پینے کے م م ہ میں بڑے س دہ اور فراخ مزاج‬ ‫واقع ہوئے تھے۔ پہ ے کتن بھی کھ چکے ہوتے اس کے ب د‬ ‫بھی جو م ت بس ہ کرکے ہڑپ ج تے۔ اس ذیل میں انک ر ن‬‫کی چیز سے بھی ن آشن تھے۔ اواد بھی ہ نے انہیں ک فی سے‬ ‫زی دہ دے رکھی تھی۔‬‫ان کی رن حد درجہ کی کپتی تھی۔ عزت افزائی کرتے آی گی بھی‬‫نہ دیکھتی تھی۔ گوی وہ مولوی ص ح کی لہہ پہ کے لیے موقع‬ ‫تاشتی رہتی تھی۔ ب ض اوق ت باموقع بھی بہت کچھ منہ سے‬‫نک ل ج تی تھی۔ انس ن تھے چھوٹی موٹی غ طی ہو ہی ج تی بس‬ ‫پھر وہ شروع ہو ج تی۔ س ج نتے تھے کہ حد درجہ کی بوار‬ ‫ہے۔ ہ ں اس کے بوارے سے مولوی ص ح کے بہت سے‬ ‫پوشیدہ راز ضرور کھل ج تے۔ مولوی ص ح نے کبھی اسے‬ ‫ذلیل کرنے کے لیے موقع کی تاش نہ کی تھی۔ ہ ں البتہ خود‬ ‫بچ ؤ کی ح لت میں ضرور رہتے تھے۔‬ ‫انس ن تھے آخر ک تک برداشت کرتے‘ انہوں نے بھی اسے‬

‫‪25‬‬ ‫ذلیل کرنے کی ٹھ ن لی۔ ایک مرتبہ ان کے گھر میں بہت سے‬ ‫مہم ن آئے ہوئے تھے۔ کھرے میں دھونے والے ک فی برتن‬‫پڑے ہوئے تھے‘ انہیں دھونے بیٹھ گئے اور س تھ میں مولوی نہ‬ ‫انداز میں آواز لگ ئی کہ کوئی اور برتن موجود ہو تو دے ج ؤ۔‬ ‫ان کی بیوی نے نوٹس لی اور گرج دار آواز میں کہنے لگی‬‫کیوں ذلیل کرنے پر اتر آئے ہو پہ ے ت دھوتے ہو۔ پھر اس نے‬ ‫زبردستی انہیں وہ ں سے اٹھ دی ۔ مولوی نے اس کے ہ رے‬ ‫ہ رے سے طور کو خو انجوائے کی ۔‬ ‫کچھ ہی دنوں ب د ایک اور ایس واق ہ پیش آی ۔ اندر پ ن س ت‬ ‫عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں یہ کپڑے دھونے کے انداز میں بیٹھ‬ ‫گئے اور آواز لگ ئی کوئی اور دھونے واا کپڑا پڑا ہو تو دے‬ ‫ج ؤ مجھے کہیں ج ن ہے۔ کوئی رہ گی تو مجھے نہ کہن ۔‬ ‫مولوی نی پر پہ ے کی کی یت ط ری ہو گئی اور اس نے انہیں‬ ‫کھرے سے اٹھ دی کہ کیوں ذلیل کرتے ہو۔‬ ‫مولوی ص ح ک خی ل تھ کہ ان کی رن عورتوں میں ذلیل ہو‬ ‫ج ئے گی اور س اسے توئے توئے کریں گے لیکن م م ہ الٹ‬ ‫ہو گی ۔ عورتوں میں مشہور ہو گی کہ مولوی ص ح کے پہ ے‬ ‫کچھ نہیں رہ ت ہی تو اتن تھ ے لگ گی ہے۔ پ گل تھیں کہ اگر‬ ‫مولوی ص ح کے پ ے کچھ نہ ہوت تو اتنے بچے کیسے ہو‬ ‫گئے۔ رشتہ داروں میں ج تے ی گ ی سے گزرتے تو عورتیں‬ ‫انہیں دیکھ کر ہنستیں۔ وہ کیسے ان س کو یقین داتے کہ وہ‬

‫‪26‬‬‫ٹھیک ہیں انہوں نے تو یہ س ان کے س تھ ہونی ک بدا ات رنے‬ ‫کے لیے کی تھ ۔‬ ‫اتنے خوش طبع مولوی ص ح سنجیدہ سے ہو گئے۔ اسی طرح‬ ‫لوگوں کے ہ ں سے کھ نے پینے کے مواقع بھی بےک ر کی شر‬ ‫س ری کی لحد میں اتر گیے۔ اس واق ے کے ب د انہوں نے کہن‬ ‫شروع کر دی کہ کوئی کی کرت ہے اس کو مت دیکھو ت ہمیشہ‬ ‫اچھ کی کرو کیوں کہ اچھ کرنے میں ہی خیر اور اچھ ئی ہے۔‬ ‫‪.....................................‬‬

‫‪27‬‬ ‫میں مولوی بنوں گ‬ ‫منس نہ‬ ‫میں نے تنویر کے مستقبل کے بڑے سنہرے خوا دیکھ رکھے‬‫تھے۔ ًمیں اسے بہت بڑا آدمی بن ن چ ہت تھ ۔ اس نے میٹرک میں‬ ‫اچھے نمبر ح صل کرکے دل خوش کر دی ۔ اسے کھیل کود سے‬ ‫ک کت سے زی دہ دلچسپی تھی۔ ج کبھی اسکول گی است د‬ ‫اس کی ت یمی ح لت کی ت ریف کرتے۔ ان کے منہ سے اپنے‬ ‫بیٹے کی ت ریف سن کر دل خوشی سے ب ب ہو ج ت ۔ منہ‬ ‫سے اس کے اچھے مستقبل کے لیے بےاختی ر ڈھیر س ری‬ ‫دع ئیں نکل ج تیں۔‬ ‫ایف اے میں بھی ت یمی م م ہ میں اچھ رہ ۔ تھرڈ ایئر میں آی‬ ‫تو اس نے چھوٹی چھوٹی داڑھی رکھ لی۔ نم ز روزے ک بھی‬ ‫پ بند ہو گی ۔ یہ دیکھ کر اور بھی خوشی ہوئی کہ چ و ت ی میں‬ ‫بہتر ک رگزاری کے س تھ س تھ نیک راہ پر بھی چل نکا ہے‬‫ورنہ آج کے م حول میں بےراہروی ہی لڑکی لڑکوں ک وتیرہ بن‬ ‫گی ہے۔ یہ بےراہروی انہیں بدتمیز بھی بن رہی ہے۔ بڑے‬ ‫چھوٹے ک کوئی پ س لح ظ ہی نہیں رہ ۔ تھرڈ ایئر تو خیر سے‬ ‫گزر گئی اور اس نے اچھے نمبر بھی ح صل کیے۔ فورتھ ائیر ہ‬‫س کے لیے قی مت ث بت ہوئی۔ اس نے داڑھی بڑھ دی اور ایک‬

‫‪28‬‬ ‫دن ک لج کی پڑھ ئی چھوڑنے ک اعان کر دی ۔ اس ک یہ اعان‬‫میرے دل و دم پر اٹی ب بن کر گرا۔ مجھے پریش نی کے س تھ‬ ‫س تھ حیرانی بھی ہوئی کہ آخر اسے اچ نک یہ کی ہو گی ہے۔‬ ‫اس نے یہ فیص ہ کیوں کی ہے کہ میں دینی مدرسے میں داخل‬ ‫ہو کر مستند مولوی بنوں گ ۔ کہ ں ک لج کی پڑھ ئی کہ ں مولوی‬ ‫بننے ک اعان‘ عج مخمصے میں پڑ گی ۔‬ ‫میں دو تین دن اس کے پیچھے پڑا رہ کہ آخر اس نے مولوی‬ ‫بننے ک کیوں ارادہ کی ہے۔ کچھ بت ت ہی نہ تھ ۔ چوتھے دن اس‬ ‫نے بڑے غصے اور اکت ئے ہوئے لہجے میں کہ کہ میں ک ر‬ ‫کے فتوے ج ری کرنے کے لیے مستند مولوی بنن چ ہت ہوں۔‬ ‫ک ر کے فتوے۔۔۔ کس پر۔۔۔۔ مگر کیوں۔‬ ‫میں پہا ک ر ک فتوی آپ کے خاف ج ری کروں گ ۔‬ ‫یہ سن کر میرے طور پہوں گئے۔ میرے خاف ی نی ب پ کے‬ ‫خاف۔ میں اس ک کھا اعان سن کر د بہ خود رہ گی ۔‬ ‫پھر میں نے پوچھ ‪ :‬می ں آخر ت نے مجھ میں کون سی ایسی‬ ‫ک ریہ ب ت دیکھ لی ہے۔‬ ‫کہنے لگ ‪ :‬میری م ں آپ کی خ لہ زاد ہے آپ انہیں خو خو‬‫ج نتے تھے کہ بڑی بوار ہے تو ش دی کیوں کی۔ کی اور لڑکی ں‬ ‫مر گئی تھیں۔ آپ دونوں نے لڑ لڑ کر ہ س ک جین حرا کر‬‫دی ہے۔ غ طی آپ کی ہے کہ آپ اسے بولنے ک موقع دیتے ہیں۔‬

‫‪29‬‬ ‫اییسی ب ت کیوں کرتے ہیں کہ وہ س را س را دن اور پھر رات‬ ‫گئے تک بولتی رہے۔‬ ‫اس کی اس ب ت نے مجھے پریش ن کر دی ۔ میں نے فیض ں کو‬ ‫ب وای اور کہ بیٹے کے ارادے سنے ہیں ن ۔‬ ‫ہ ں میں نے س کچھ سن لی ہے۔ ٹھیک ہی تو کہہ رہ ہے۔‬ ‫ایسی ب ت کیوں کرتے ہیں جس سے مجھے غصہ آئے اور میں‬ ‫بولنے لگوں۔‬ ‫چ و میں کسی دوسری جگہ تب دلہ کروا لیت ہوں لہذا ت ک لج کی‬ ‫پڑھ ئی ج ری رکھو۔‬ ‫ہ ں ہ ں اچھ فیص ہ ہے کہ پھر ہم رے س تھ ڈٹ کر بول بوارا‬ ‫کرتی رہے۔ وہ ت خ اور طنز آمیز لہجے میں بوا‬ ‫م ں آپ فکر نہ کرو آپ بھی میرے فتوے کی زد میں آؤ گی۔‬ ‫خ وند کی اتنی بےعزتی اسا میں ج ئز نہیں۔‬‫بیٹے کی یہ ب ت سن کر وہ ہک بک رہ گئی۔ اسے امید نہ تھی کہ‬‫تنویر ایسی ب ت کرے۔ پھر ہ دونوں می ں بیوی کی نظریں م یں۔‬ ‫ہ دونوں کی آنکھوں میں دکھ اور پریش نی کے ب دل تیر رہے‬ ‫تھے۔ ہ اسے بہت بڑا آدمی بن نے کے خوا دیکھ رہے تھے‬ ‫کہ بیٹ کچھ ک کچھ سوچ رہ تھ ۔ پھر ہ دونوں کے منہ سے‬ ‫بےاختی ر نکل گی ۔ بیٹ ت ک لج کی پڑھ ئی نہ چھوڑو ہ آگے‬

‫‪30‬‬ ‫سے نہیں لڑیں گے بل کہ م مات ب ت چیت سے طے کر لی‬ ‫کریں گے۔‬ ‫تنویر م ن ہی نہیں رہ تھ ۔ اس ک اصرار تھ کہ وہ مولوی ہی‬ ‫بنے گ ۔ وہ کہے ج رہ تھ کہ آپ وعدہ پر پورا نہیں اترو گے۔‬ ‫ک فی دیر تکرار و اصرار ک س س ہ ج ری رہ ۔ تنویر کو آخر‬ ‫ہم رے تکرار اصرار کے س منے ہتھی ر ڈالن ہی پڑے اور وہ‬ ‫ک لج کی کت لے کر بیٹھ گی اور ہ چپ چ پ اس کے کمرے‬ ‫سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چ ے گیے۔‬

‫‪31‬‬ ‫ایس کیوں ہے‬ ‫لوک نہ‬‫میں عقیدت‘ پی ر‘ محبت اور کچھ موسمی سوغ ت کی پنڈ اٹھ ئے‬ ‫پیر ص ح کے در دولت پر ح ضر ہوا۔ دروازے پر دستک دی۔‬ ‫اندر سے ان کی بےغ ص ح دروازے پر آئیں۔ میں نے انہیں‬ ‫اپن ت رف کراتے ہوئے بت ی کہ میں ان ک م ننے واا خ د ہوں‬ ‫اور یہ سوغ ت ب طور نذرانہ لے کر ح ضر ہوا ہوں۔ بےغ‬‫ص ح نے سوغ ت کی پنڈ لے لی اور کہ ‪ :‬تمہ را ج ی پیر ادھر‬ ‫ادھر ہی کہیں دھکے کھ ت پھرت ہو گ ۔ ج ؤ ج کر تاش لو۔‬ ‫اس کے انداز اور رویے پر مجھے حیرت اور پریش نی ہوئی۔‬‫اس کے خ وند کو ایک زم نہ م نت تھ لیکن یہ ان کے لیے رائی‬ ‫بھر دل میں عزت نہ رکھتی تھی۔ اس ک لہجہ انتہ ئی ذلت آمیز‬‫طنز میں م وف تھ ۔ بڑا ہی حیران کن تجربہ تھ ۔ سوغ ت ح صل‬ ‫کرنے میں ایک منٹ کی دیر نہ کی۔ پ نی دھ نی ایک طرف اس ک‬ ‫اپنے خ وند کے ب رے انداز قط ی افسوس ن ک تھ ۔ کی کہت ‘ وہ‬ ‫میری عزت کی ج تھی۔ میں چپ چ پ وہ ں سے افسوسیہ سوچ‬ ‫لے کر چل دی ۔‬ ‫سوچوں میں غ ط ں میں یوں ہی ایک طرف کو چل دی ۔ ابھی‬ ‫تھوڑی ہی دور گی ہوں گ کہ حضرت پیر ص ح آتے دکھ ئی‬

‫‪32‬‬‫دیے۔ وہ ببر شیر پر سوار تھے۔ شیر کو لگ ڈالی ہوئی تھی ببر‬ ‫شیر بڑی ت ب داری سے ان کے حک کی ت میل میں قد اٹھ رہ‬ ‫تھ ۔ انہوں نے میری طرف دیکھ اور مسکرائے۔ فرم نے لگے‪:‬‬ ‫بیٹ شیر کو لگ ڈالن آس ن ک ہے مگر گھروالی کو ت بع رکھن‬ ‫ممکن نہیں۔ دیکھو سیدن نوح ع یہ السا کتنے بڑے انس ن‬ ‫تھے لیکن بیگ انہیں نہیں پہچ نتی تھی ت ہی تو ن فرم ن تھی۔‬ ‫سقراط کو لے لو من رد اور ن ی شخص تھ ۔ س ری دنی عزت‬ ‫کرتی تھی لیکن گھروالی اسے نہیں پہچ نتی تھی‘ ت ہی تو‬ ‫گست خ تھی۔‬ ‫یہ بھی ی د رکھو! پیٹ نواز ح ظ مرات ج ن لیں تو زندگی نکھر‬ ‫نہ ج ئے۔ بیٹ دل میں مال نہ اؤ۔ جو ت نے دیکھ وہ اس کی‬ ‫کرنی ہے برداشت ہ کے احس ن سے میرا ف ل ہے۔‬ ‫میں درحقیقت اپنی گھر والی کی شک یت لے کر گی تھ اور چ ہت‬ ‫تھ کہ وہ دع فرم ئیں ت کہ اس ک منہ بند ہو ج ئے۔ واپسی پر‬ ‫سوچت سوچت آ رہ تھ کہ ہ تو م مولی لوگ ہیں‘ پیر ص ح‬ ‫سے بڑے لوگ ان بیبیوں کے س منے بےبس ہیں۔ میں سوچ رہ‬ ‫تھ کہ ایس کیوں ہے۔ پھر خی ل گزرا کہ ان بیبیوں کے س منے‬ ‫رات تنہ ئی میں ف ل مخصوص انج دینے کے دوران کمل‬ ‫م رنے واا شخص ہوت ہے اور وہ اسی تن ظر میں صبح انج‬ ‫پ نے والے امور کو دیکھتی ہیں اور وہ س انہیں خودس ختہ س‬

‫‪33‬‬ ‫محسوس ہوت ہے ح اں کہ وہ ہر اچھ ہ کی رض کے لیے‬ ‫انج دے رہے ہوتے ہیں۔‬ ‫ممکن ہے یہ سوچ غ ط اور بےبنی د ہو لیکن کہیں ن کہیں اور‬ ‫کسی سطح پر اس امر ک عمل دخل ضرور ہوت ہے۔‬

‫‪34‬‬ ‫یہ اچھ ہی ہوا‬ ‫لوک نہ‬ ‫عاقے کے مولوی ص ح دھنیے دک ن دار سے ادھ ر سودا لی‬ ‫کرتے تھے۔ چوں کہ مولوی ص ح تھے اس لیے وہ بڑی‬ ‫برداشت اور لح ظ مروت سے ادھ ر سودا دیت رہ ۔ ادھ ر کی رق‬‫ک فی ہو گئی اور م م ہ دھنیے کی بس ت و برداشت سے ب ہر ہو‬ ‫گی تو اس نے ادھ ر سودا دینے سے ص ف انک ر کر دی ۔‬ ‫مولوی ص ح نے کہ ‪ :‬اگر ت نے سودا نہ دی تو یہ تمہ رے‬ ‫لیے اچھ نہ ہو گ ۔‬ ‫دھنیے نے کہ ‪ :‬ٹھیک ہے جو ہو گ دیکھ ج ئے گ ۔‬ ‫مولوی ص ح نے اس کی ج ن طنز آمیز غصے سے دیکھ ۔‬‫دھنیے کے چہرے پر کسی قس کی فکرمندی ی مال نہ تھ ۔ گوی‬ ‫یہ ہی ت ثر تھ کہ جو ہو گ دیکھ ج ئے گ ۔ مولوی ص ح کو‬ ‫تین قول پورے کرن چ ہیے تھے لیکن انہوں نے دوسری ب ر‬ ‫کچھ کہنے ی وارننگ کو مذید زوردار اور سخت بن نے کی‬ ‫زحمت ہی نہ اٹھ ئی اور پیر پٹکتے ہوئے وہ ں سے روانہ ہو‬ ‫گئے۔ ج تے ہیں تو ج ئیں دھین بڑبڑای اور اس نے ان کی ج ن‬ ‫سرسری نظر سے بھی نہ دیکھ ۔‬

‫‪35‬‬ ‫مولوی ص ح نے مسجد میں آ کر سپیکر کھوا اور دکھ بھری‬ ‫آواز میں اعان کی ۔‬ ‫حضرات ایک ضروری اعان سنیے۔ بڑے دکھ اور افسوس کی‬ ‫ب ت ہے کہ دھنی دک ن دار وہ بی ہو گی ہے لہذا اس سے کسی‬‫قس کی سودا نہ خریدا ج ئے اور نہ کسی قس ک لین دین ی بول‬‫چ ل رکھ ج ئے جو اس سے سودا خریدے گ ی کسی قس ک لین‬ ‫دین کرے گ ی بول چ ل رکھے گ سیدھ جہن کی بھڑکتی آگ‬ ‫میں ج ئے گ ۔‬ ‫لوگوں نے دھنیے سے ہر قس کی خریداری بول چ ل اور لین‬ ‫دین بند کر دی ۔ اس کے ب د دھنی س را دن ہ تھ پہ ہ تھ دھرے‬ ‫بیٹھ بدنصیبی کی مکھی ں م رت رہت ۔ کوئی اس کی دک ن کے‬ ‫نزدیک سے بھی نہ گزرت ۔‬ ‫کچھ دن تو اس نے برداشت سے ک لی ج ب ئیک ٹ میں کسی‬‫قس کی لچک پیدا نہ ہوئی تو وہ مولوی ص ح کے در دولت پر‬ ‫ح ضر ہوا اور ہتھی ر ڈالتے ہوئے کہنے لگ ‪ :‬مولوی ص ح آپ‬ ‫جتن جی چ ہے سودا لے لیں لیکن یہ کٹھور پ بندی اٹھ لیں۔‬ ‫مولوی ص ح اس کی دک ن پر گئے اور اچھ خ ص سودا لی ۔‬ ‫سودا گھر پر چھوڑ کر مسجد میں ج کر اعان کی ۔ حضرات آپ‬‫کے لیے خوشی کی یہ ہے ب ت کہ دھنی دک ن دار ت ئ ہو گی ہے‬ ‫ا اسی سے سودا خرید کی کریں کہیں اور سے سودا نہ‬

‫‪36‬‬ ‫خریدیں ۔ اپن قریبی دک ن دار چھوڑ کر کسی اور سے سودا‬ ‫خریدنے سے پ پ لگت ہے۔ دھنیے نے ایشور ک شکریہ ادا کی‬‫اور چھری پہ ے سے تیز کر دی۔ اپنی اصل میں ب لوسطہ دھنیے‬ ‫کے لیے یہ اچھ ہی ہوا کہ اس کے من فع کی شرح میں ہرچند‬ ‫اض فہ ہی ہوا۔‬

‫‪37‬‬ ‫وہی پ ن چ ا‬ ‫منس نہ‬ ‫بیٹی کو رخصتی کے وقت یہ سختی سے ہداہت کی ج نی چ ہیے‬ ‫کہ وہ میکہ کی کوئی من ی ب ت سسرال میں ی سسرال کی کوئی‬ ‫من ی ب ت میکہ میں شیئر نہ کرے۔ اس ع ت بد کے سب غ ط‬ ‫فہمی ں جن لیتی ہیں جو ب د میں ت خیوں ک سب بن ج تی ہیں۔‬ ‫ہنستی مسکراتی زندگی پریش نیوں میں بدل ج تی ہے۔ بدقسمتی‬ ‫سے گھر کے گھر اس بیم ری کے ب عث تب ہ ہو ج تے ہیں۔ یہ‬ ‫ہی لوتی ں ب د میں کورٹ کچہری والوں کی کھٹی ک ذری ہ بن‬ ‫ج تی ہیں۔ ڈاکٹر ہوں کہ یہ کورٹ کچہری والے‘ ہنستے‬ ‫مسکراتے چ تے پھرتے لوگ انہیں بھ ے نہں لگتے۔‬ ‫حنیف گربت کی چکی میں پس رہ تھ ۔ س را دن مشقت میں کٹ‬ ‫ج ت ۔ رات می ں بیوی کی ای نی چخ چخ میں گزر ج تی۔ دونوں‬ ‫می ں بیوی کو پچھ وں میں چھوٹی چھوٹی ب ت شیئر کرنے کی‬ ‫ع دت بد اح تھی۔ پچھ ے کوئی م لی مدد تو نہ کرتے ہ ں‬ ‫دونوں می ں بیوی میں غ ط فہمی ں پیدا کرنے والے سب ضرور‬ ‫پڑھ تے رہتے تھے۔ یہ تھے کہ اس ع دت سے ب ز ہی نہیں آ‬ ‫رہے تھے۔ پچھ وں کے پڑھ ئے گئے اسب کی وجہ سے ان‬ ‫کے درمی ن ن رتوں میں ہرچند اض فہ ہی ہوت چا ج رہ تھ ۔‬

‫‪38‬‬ ‫انہوں نے کبھی سر جوڑ کر ح ات سے لڑنے کی مش ورت کی‬‫ضرورت ہی محسوس نہ کی تھی ح اں کہ ایسے ح ات میں سر‬ ‫جوڑ کر مش ورت بہت ضروری ہوتی ہے۔‬ ‫خدا م و حنیف کی کس طرح درک لگ گئی کہ اس کی بیرون‬ ‫م ک میں سرک ری نوکری لگ گئی۔ پھر کی تھ ‘ نوٹ آن شروع‬ ‫ہو گئے۔ جہ ں بھوک بھنگڑے ڈالتی تھی وہ ں رج کے نق رے‬ ‫بجن شروع ہو گئے۔ جو بیوی کو رق بھجت اس کی خبریں‬‫پچھ وں کو بھجوا دیت ۔ ادھر اس کی بیوی میکہ اور ارد گرد میں‬ ‫یہ مشہور کرنے بیٹھ گئی جو کم ت ہے اپنے پچھ وں کو بھجوا‬ ‫دیت ہے اور ہ اسی طرح گربت کی زندگی گزارتے ہیں۔ ج کہ‬ ‫حقیقت یہ تھی کہ جو حنیف بھجوات اس سے اس کے میکہ کی‬ ‫بھوک نک نے لگی تھی۔ اس غ طی کے سب دونوں خ ندانوں‬‫میں اٹ کتے ک بیر چل نکا۔ وہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے‬ ‫کے بھی روادار نہ رہے۔‬‫حنیف چھٹی پر آی تو اطراف سے خو لون مرچ مح لحہ لگ کر‬‫اسے خبریں دی گئیں۔ بج ئے چھٹی کے دن ہنس کھیڈ کر گزارے‬ ‫ج تے جنگ جدل کی عم ی کی یتں ط ری رہیں۔ ان کی اس ب ہمی‬ ‫بکواس کے سب بچے بڑے ڈسٹر ہوتے۔ ج چھٹی ک ٹ کر‬ ‫ج نے لگ تو اس نے عن ئت ں کو گھر سے نک ل دی ۔‬

‫‪39‬‬ ‫چند دن تو اس نے بھ ئیوں کے ہ ں گزارے۔ ب ہر سے آئی رق‬ ‫سے اس نے پ ئی بھی جمع نہ کی تھی۔ کھ نے والے ک کھا‬ ‫سکتے ہیں۔ وہ ں اس کی زندگی عذا ہو گئی۔ بچے کھ نے‬ ‫پینے کی چیزوں تک کو ترسنے لگے۔ حنیف نے رق بھجوان‬ ‫بند کر دی۔ حنیف کے بڑے بھ ئی نے بچوں کی یہ ح لت دیکھی‬‫تو بڑا افسردہ ہوا۔ اس نے بچوں کو کچھ کھ نے پینے کی چیزیں‬ ‫بھجوان شروع کر دیں۔‬ ‫اپنے ہی لوگوں کو یہ برداشت نہ ہوا۔ اس امر کی بڑھ چڑھ کر‬ ‫حنیف کو خبریں بیجھن شروع کر دیں۔‬ ‫حنیف کو بھ ئی کی اس حرکت پر سخت غصہ آی ۔ اس نے ٹی ی‬ ‫فون پر اپنے بڑے بھ ئی کی بڑی بےعزتی کی۔ اس نے کسی‬ ‫الزا سے بچنے کے لیے عن ئت ں اور بچوں کو کچھ بیجھن بند‬ ‫کر دی ۔ پھر ہون کی تھ ‘ ب پ کی بھری جی ہوتے بچے بھوکوں‬ ‫مرنے لگے۔ ہ تو ن فرم ن سے ن فرم ن ک رز بند نہیں کرت‬ ‫بل کہ اسے سدھرنے کے مواقع مسیر کرت ہے اگر نہ سمجھے‬ ‫تو وہ اپنی ہی کسی کرنی میں پھنس ج ت ہے۔‬ ‫حنیف کے دم میں اوق ت سے ب ہر میسر ک فتور آ گی تھ اور‬ ‫وہ یہ سوچنے سے ع ری ہو گی تھ کہ رز تو ہ ک دی ہوا‬ ‫ہے اور اس کی جی میں پڑا بھی ہ ہی ک ہے۔ وہ تو اپنے‬ ‫س نس ک بھی م لک و وارث نہیں۔‬

‫‪40‬‬ ‫پت نہیں اس سے کی ہو گی اور وہ نوکری سے نک ل ب ہر کر دی‬ ‫گی ۔ جوتے چٹخ ت ہوا واپس لوٹ آی ۔ اس نے عن ئت ں سے‬ ‫چھٹک رے کے لیے عدالت میں مقدمہ دائر کر دی ۔ جو س تھ ای‬ ‫تھ کورٹ کچہری کی نذر ہو گی ۔ دوب رہ سے مشقت کی ج ن‬ ‫راغ ہوا۔ اس سے پہ ے کی طرح ک نہیں ہو پ رہ تھ ۔ بڑے‬ ‫بھ ئی نے ک فی بھ گ دوڑ کی اور دونوں می ں بیوی کی صاح‬ ‫کروا دی۔ ان دنوں دونوں می ں بیوی ایک چھت کے نیچے رہ‬ ‫رہے تھے لیکن اتن بڑا جھٹک لگنے کے ب وجود انہیں عقل‬ ‫نہیں آئی تھی اور ا بھی ان ک چ ا وہ ہی پران تھ ۔‬

‫‪41‬‬ ‫سدھر ج ؤ‬ ‫منس نہ‬ ‫خوش ح ل زندگی کون گزارن نہیں چ ہت ۔ خوش ح ل زندگی کے‬ ‫لیے ہر کوئی کوشش اور محنت کرت ہے۔ اٹھتے بیٹھتے چ تے‬ ‫پھرتے سوتے ج تے سوچت اور سو طرح کے منصوبے بن ت‬‫ہے۔ یہ الگ ب ت ہے کہ اس کی کوشش اور سوچ ک ثمرہ محدود‬ ‫رہت ہے اور ان حد دولت اس کے پ س آ نہیں پ تی۔ آنکھ کی‬ ‫سیری نہ ہونے کے ب عث پریش نی بےسکونی اور گھر میں‬ ‫ب ہمی غ ط فہمیوں کے س ئے خت ہونے ک ن ہی نہیں لیتے۔‬ ‫س کچھ میسر ہونے کے ب وجود م یوسی کی فض ط ری رہتی‬ ‫ہے۔ قن عت ک آئینہ اندھ ہو ج ت ہے اور شخص اپنی حقیقی‬ ‫صورت دیکھنے سے بھی م ذور ہو ج ت ہے۔‬ ‫الے کر دین کے شریف اور بھام نس ہونے میں قط ی شبہ‬ ‫نہیں کی ج سکت ۔ زبردست مشقتی تھ ۔ وہ میسر پر گزارا کرنے‬ ‫واا شخص تھ لیکن اس کے بیوی بچے اس قم ش کے نہ‬ ‫تھے۔ وہ دنی کی س ری دولت گرہ کر لینے کی ہوس رکھتے‬‫تھے۔ اس ک محنت نہ ان کی ہوس کے پ سنگ نہ تھ ۔ ان کی اس‬ ‫ہوس کے ب عث گھر میں ہر وقت بےچینی اور بےسکونی کی‬ ‫کی یت ط ری رہتی۔‬

‫‪42‬‬ ‫وہ اکثر سوچت آخر اس ک جر کی ہے جو اس کے اپنے گھر‬ ‫والے اسے سزا دے رہے ہیں۔ ف ر تو نہیں رہت ۔۔۔۔ جوا نہیں‬‫کھ ت ۔۔۔۔ شرا نہیں پیت ۔۔۔۔ عورتوں کے پیچھے نہیں ج ت ۔۔۔۔ س را‬ ‫دن مشقت کرت ہے اور جو میسر آت ہے ان لوگوں پر خرچ کر‬ ‫دیت ہے۔ یہ ہیں کہ خوش ہی نہیں ہوتے۔ خدمت تو دور رہی‘ ان‬ ‫کے پ س تو اس کے لیے ایک مسکراہٹ تک نہیں۔ ج دیکھو‬‫گ ے شکوے‘ بول بوارا۔ آخر اس ک جر کی ہے۔ اس نے کی کی‬ ‫ہے جس کی یہ لوگ اسے سزا دے رہے ہیں۔‬ ‫اس روز اس نے طے کر لی کہ شیداں سے ضرور پوچھے گ‬ ‫کہ اس ک جر کی ہے اور وہ کی کرے کہ اس کی زب ن بند ہو‬ ‫ج ئے۔‬‫قدرتی ب ت تھی کہ اس روز ج نے کیوں شیداں ک موڈ خوشگوار‬ ‫تھ ۔ اس نے موقع کو غنیمت ج ن اور شیداں سے پوچھ ہی لی‬ ‫کہ اس میں کی پرائی اور خرابی ہے کہ وہ ہر وقت ٹکوا لے کر‬ ‫اس کے پیچھے پڑی رہتی ہے اور وہ کی کرے جس سے گھر‬ ‫میں سکھ اورش نتی کی فض ق ئ ہو۔‬ ‫شیداں نے جواب کہ کہ وہ سدھر ج ئے اپنی ان حرکتوں سے‬ ‫ب ز آ ج ئے۔‬ ‫اس نے کہ یہ ہی تو میں ج نن چ ہت ہوں کہ کن حرکتوں سے‬ ‫ب ز آ ج ؤں۔‬

‫‪43‬‬‫اپنی کم ئی غیروں پر خرچ کرن بند کر دو۔ اپنے بچوں ک ح نہ‬ ‫م رو۔‬‫ت کن غیروں کی ب ت کر رہی ہو جن پر میں اپنی کم ئی ض ئع کر‬ ‫رہ ہوں۔‬‫کہنے لگی بڑے بھولے بنتے ہو۔ س کچھ م ں ف ےکٹن اور اپنی‬ ‫کمینی بہن کو کھا رہے ہو۔ ہمیں دیتے ہی کی ہو۔‬ ‫وہ ج نت تھ کہ شیداں کو کی پیڑ ہے اور وہ کیوں روا ڈالتی‬ ‫ہے۔ وہ م ں کو دیت ہی کی تھ ۔ ہ تے عشرے ب د چند ٹکے اور‬ ‫بیوہ بہن اور اس کے بچوں کو عید شبرات پر سستے قس کے‬ ‫کپڑے بن دیت تھ اور بس۔ یہ ہی اسے کھٹکتے تھے۔ م ں اور‬ ‫بہن ک اس پر ح تھ ۔‬ ‫شیداں ج بھی بولتی اس کی م ں کو ف ےکٹن کہتی ج کہ اپنی‬ ‫م ں کو ہمیشہ امی ج ن کہتی۔ ج اس کی م ں آتی تو بوتھ‬ ‫ٹیڑھ کر لیتی پ نی تک نہ پوچھتی۔ ج اس کی م ں آتی تو امی‬ ‫ج ن امی ج ن کرتی اس کے آگے پیچھے ہوتی۔ خو خدمت‬ ‫تواضح کرتی۔ یہ ہی نہیں اچھ پک تک ان کے گھر بھجوا کر‬ ‫س نس لیتی۔ بچت کرکے اس کی چوری چھپے مٹھی بھی گر‬ ‫کرتی رہتی تھی۔ بھ ئی کے بیٹے ک اسکول ک خرچ اٹھ ی ہوا‬ ‫تھ ۔ بھ ئی تھ کہ سیدھے منہ سے حضرت ک سا بان پسند‬ ‫نہیں کرت تھ ۔‬

‫‪44‬‬ ‫اگر کبھی کبھ ر م ں کو پنج دس روپے دے دیت ہے تو اس سے‬ ‫کی فر پڑت ہے۔ کون س روز روز دیت ہے۔ رہ گئی بہن اس کو‬ ‫کی دیت ہے۔ عید شبرات پر تیسرے درجے کے کپڑے اور بس۔‬ ‫وہ کہتی تو پھر اتنی کم ئی کہ ں ج تی ہے۔ اتنی پر اسے بڑا ت ؤ‬ ‫آت جیسے اس کے ب پ نے دو مرب ے زمین اس کے ن کر دی‬ ‫ہو ی جہیز میں م یں ائی تھی۔‬ ‫کم ئی کی تھی وہ ہی دن بھر ک محنت نہ جو وہ ان پر خرچ کر‬ ‫دیت تھ ۔‬ ‫وہ سوچت رہ کہ دنی کوئی آرا دہ مق نہیں ہے۔ ب ہر دنی اور‬‫گھر میں اپنے لوگ زمین پر پ ؤں نہیں آنے دیتے۔ کتن بھی کچھ‬ ‫کر لو‘ خوش نہیں ہوتے۔ ایک ہ ہی ہے جو م مولی سی‬ ‫اچھ ئی پر خوش ہو ج ت ہے۔ اس روز وہ بڑا ہی ڈس ہ رٹ ہوا‬ ‫تھ ۔ کچھ بھی کر لے‘ کتنی قسمیں کھ لے‘ گھر میں کوئی یقین‬‫کرنے واا نہیں تھ ۔ اس کے سوچ کے ح قے گہرے ہوتے چ ے‬ ‫گئے۔‬ ‫اسے ی د آی شیداں نے کہ تھ کہ سدھر ج ؤ۔ اس نے سوچ یہ‬ ‫سدھرن کی ہے۔ ہ کی طرف پھرن ہی تو اپنی حقیقت میں‬ ‫سدھرن ہے۔ اس نے پہ ی ب ر ہ کو دل سے پ د کی اور درود‬ ‫پ ک پڑھنے لگ ۔ ابھی آدھ بھی نہیں پڑھ پ ی ہو گ کہ گہری اور‬ ‫پرسکون نیند نے اسے اپنی آغوش میں لے لی ۔‬

‫‪45‬‬ ‫بےشک ہ اور اس کے رسول کے ہ ں ہی سکھ اور چین کی‬ ‫دنی آب د ہے۔ اگر موت جو لمبی نیند ہے‘ میسر نہ ہوتی تو دنی‬ ‫میں پ گ وں اور وحشیوں کے سوا کے سوا کچھ نہ ہوت ۔‬

‫‪46‬‬ ‫اچھ نہیں ہوت‬ ‫ہ ں میں موت‬ ‫ن ں میں بہن ک گھر اجڑت تھ‬ ‫برسوں ک بن کھیل بگڑت تھ‬ ‫چپ میں ک سکھ تھ‬ ‫چ ر سو بچھ دکھ تھ‬ ‫زندگی کی تھی اک وب ل تھ‬ ‫بھ گ نک نے کو نہ کوئی رستہ بچ تھ‬ ‫پہیہ زندگی ک پٹڑی سے اتر رہ تھ‬ ‫زیست ک پ ؤں بےبصر دلدل میں گر رہ تھ‬ ‫بےچ رگی ک نی دانت نکل رہ تھ‬ ‫بہنوئی کی آنکھوں میں سکوں کی ہری لی تھی‬ ‫آتی ہر گھڑی اس کے لیے کرم والی تھی‬ ‫بہن کی آنکھ سے چپ کے آنسو گرتے‬ ‫م ں کی آنکھوں کے حسیں سپنے‬ ‫بےکسی کے قدموں میں بکھرتے‬

‫‪47‬‬ ‫کی کرت کدھر کو ج ت‬ ‫خود کو بچ ت‬ ‫کہ م ں کے آنسوؤں کے صدقے واری ج ت‬ ‫زہر ک پی لہ مرے رو بہ رو تھ‬ ‫تذبذ کی ص ی پہ لٹک کے‬ ‫شنی اپنے ک رے میں س ل ہوا‬ ‫پیت تو یہ خود کشی ہوتی‬ ‫ٹھکرات تو خود پرستی ہوتی‬ ‫پیچھے ہٹوں کہ آگے بڑھوں‬ ‫ہ ں نہ کے پل پر‬ ‫بےکسی کی میت اٹھ ئے کھڑا تھ‬ ‫آگے پیچھے اندھیرا منہ پھ ڑے‬ ‫فیص ے کی راہ دیکھ رہ تھ‬ ‫پھر میں آگے بڑھ اور زہر ک پی لہ اٹھ لی‬ ‫خودکشی حرا سہی‬ ‫کی کرت‬

‫‪48‬‬ ‫بہن کی بےکسی‬ ‫م ں کے آنسو بےوق ر کیوں کرت‬ ‫اب یس قہقے لگ رہ تھ‬ ‫نہ پیت ت بھی اسی کی جیت تھی‬ ‫پھر بھی وہ قہقے لگ ت‬ ‫دوزخی با نے مرے گھر قد رکھ‬ ‫گھر ک ہر ذرہ لرز لرز گی‬ ‫میں بھی موت کے گھ ٹ اتر گی‬ ‫جسے ت دیکھ رہے ہو‬ ‫ہنستی بستی زندگی ک بےک ن اشہ ہے‬ ‫پہ ے دو ٹھک نے لگ آئی تھی‬ ‫اشے کو کیوں ٹھک نے لگ تی‬ ‫اشے ک م س کھ چکی ہے‬ ‫ہڈی ں مگر ب قی ہیں‬ ‫بہن اشے کو دیکھ کر روتی ہے‬ ‫ہڈی ں مگر کی تی گ کریں‬

‫‪49‬‬ ‫آنسوؤں کے قدموں میں کی دھریں‬ ‫کوئی اس کو ج کر بت ئے‬ ‫السہ سرحدوں کی ک چیز ہے‬ ‫جہ ں ت کھڑی ہو وہ تو فقط اس کی دہ یز ہے‬ ‫کوئی ح دثہ ہی‬ ‫تمہیں خ وند کی السہ کے جہن سے ب ہر ائے گ‬ ‫پھر تمہ را ہر آنسو پچھت وے کی اگنی میں ج ے گ‬ ‫ت تک‬ ‫ہڈی ں بھی یہ دوزخ کی رانی کھ چکی ہوگی‬ ‫راکھ ہو گی نہ کوئی رفتہ کی چنگ ری‬ ‫ہو گی تو السہ کی آری‬ ‫دکھ ک دری بہہ رہ ہو گ‬ ‫ہر لمحہ تمہیں کہہ رہ ہو گ‬ ‫ح کی بھی کبھی سوچ لی کرو‬ ‫لقموں ک د بھرن اچھ نہیں ہوت‬ ‫اچھ نہیں ہوت‬

‫‪50‬‬ ‫آئندہ کے لیے‬ ‫بہت اع ی درجے کی چیزیں میسر ہوں‘ لیکن آدمی ک بس اوق ت‬ ‫ان سے ک تر درجے کی چیز کھ نے کو جی چ ہنے لگت ہے۔‬ ‫ایک مرتبہ‘ اس کے س تھ بھی کچھ ایسی ہی صورت گزری۔ س‬‫کچھ میسر تھ ‘ لیکن مولی کھ نے کے لیے‘ اس کی طبی ت مچل‬ ‫مچل گئی۔ پھر وہ سبزی منڈی کی طرف بڑھ گی ۔‬ ‫منڈی کے دروازے سے ایک ب ب جی‘ جنہوں نے اپنے کندھے‬ ‫پر‘ مولیوں ک گٹھ اٹھ رکھ تھ ‘ نک ے۔ اس میں سے ایک‬ ‫مولی نک ی اور نیچے گر گئی۔ اس نے نیچے سے مولی اتھ ئی‬ ‫اور ب ب جی کو دینے کی غرض سے آگے بڑھ ۔ ج اس نے‬ ‫آواز دی تو ب ب جی نے مڑ کر دیکھ ۔ ج ب ب جی نے مڑ کر‬‫دیکھ ‘ تو اس نے مولی ان کی ج ن بڑھ تے ہوئے کہ ‪ :‬ب ب جی‬ ‫یہ مولی گر گئی تھی‘ لے لیں۔ وہ مسکرائے اور کہ ‪ :‬ت لے لو۔‬ ‫یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیے۔‬ ‫پہ ے تو اس نے غور نہ کی ‘ اس کے ب د اس نے غور کی کہ‬ ‫مولیوں ک گٹھ ‘ اس انداز سے بندھ تھ کہ مزید مولی ں گرنے‬‫ک قوی امک ن تھ ۔ پھر وہ چھوٹے قدموں ان کے پیچھے پیچھے‬ ‫چ نے لگ ۔ ک فی دور تک گی ‘ لیکن مزید کوئی مولی نہ گری۔‬‫اچ نک ب ب جی نے دوب رہ سے پیچھے مڑ کر دیکھ ‘ تو اس نے‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook