Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore میرے بیس منسانے

میرے بیس منسانے

Published by maqsood5, 2016-11-29 11:07:37

Description: abk_ksr_mh.906/2016
میرے بیس منسانے
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
نومبر ٢٠١٦

Search

Read the Text Version

‫صبح کا اترن لے کر‬ ‫کالی راتیں‬‫سچ کے آنگن میں جا بستی ہیں‬ ‫مارچ ‪١٩٧٤ ‘١٩‬‬ ‫میں نے دیکھا‬ ‫پانیوں پر‬ ‫میں اشک لکھنے چلا تھا‬ ‫دیدہءخوں دیکھ کر‬ ‫ہر بوند‬ ‫ہوا کے سفر بر نکل گئی‬ ‫منصف کے پاس گیا‬ ‫شاہ کی مجبوریوں میں‬ ‫وہ جکڑا ہوا تھا‬ ‫سوچا‬ ‫پانیوں کی بےمروتی کا‬

‫فتوی ہی لے لیتا ہوں‬ ‫ملاں شاہ کے دستر خوان پر‬ ‫مدہوش پڑا ہوا تھا‬ ‫دیکھا‘ شیخ کا در کھلا ہوا ہے‬ ‫سوچا‬ ‫شاید یہاں داد رسی کا‬ ‫کوئی سامان ہو جائے گا‬ ‫وہ بچارہ تو‬ ‫پریوں کے غول میں گھرا ہوا تھا‬ ‫کیا کرتا کدھر کو جاتا‬ ‫دل دروازہ کھلا‬ ‫خدا جو میرے قریب تھا‬ ‫بولا‬ ‫کتنے عجیب ہو تم بھی‬ ‫کیا میں کافی نہیں‬‫جو ہوس کے اسیروں کے پاس جاتے ہو‬

‫میرے پاس آؤ‬ ‫ادھر ادھر نہ جاؤ‬ ‫میری آغوش میں‬ ‫تمہارے اشکوں کو پناہ ملے گی‬ ‫ہر بوند‬ ‫رشک لعل فردوس بریں ہو گی‬ ‫اک قظرہ مری آنکھ سے ٹپکا‬ ‫میں نے دیکھا‬ ‫شاہ اور شاہ والوں کی گردن میں‬ ‫بے نصیبی کی زنجیر پڑی ہوئی تھی‬ ‫مکرم بندہ جناب حسنی صاحب‪ :‬سلام مسنون‬‫آزاد شاعری عام طور پر میرے سر پر سے گزر جاتی ہے۔ جب‬‫تک میں اس کے تانے بانے سلجھاتا ہوں پچھلے پڑھے ہوئے‬‫مصرعے ذہن کی تہوں میں کہیں گم ہو جاتے ہیں اور میں پھر‬ ‫نظم پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش میں گرفتار ہو جاتا ہوں۔‬‫آپ کی اس نظم کے مطالعہ میں ایسا صرف ایک بار ہوا اور میں‬ ‫جلد ہی منزل مقصود تک پہنچ گیا۔ یہ شاید اس لئے ہوا کہ آپ‬

‫کی نظم پر دلسوزی اور خلوص دل کی مہر لگی ہوئی ہے جیسے‬‫آپ اپنی آپ بیتی بیان کر رہے ہوں۔ نظم پڑھ کر متاثر ہوا۔ نظم کا‬ ‫پیغام عام سہی لیکن اہم ضرور ہے۔ ہم اہل دنیا بے تحاشہ اہل‬ ‫اقتدار کی جانب بھاگتے ہیں اور اس تگ و دو میں بھول جاتے‬ ‫ہیں کہ دینے والا تو کوئی اور ہی ہے۔ الله رحم کرے۔ ایسے ہی‬ ‫لکھتے رہئے۔ الله آپ کو ہمت اور طاقت عطا فرمائے۔ صلاحیت‬‫اور توفیق سے تو اپ بھر پور ہیں ہی۔ باقی راوی سب چین بولتا‬ ‫ہے۔‬ ‫سرور عالم را‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9132.0‬‬

‫نوحہ‬ ‫وہ قیدی نہ تھا‬ ‫خیر وشر سے بے خبر‬ ‫معصوم‬ ‫فرشتوں کی طرح‬ ‫جھوٹے برتنوں کے گرد‬‫انگلیاں محو رقص تھیں اس کی‬ ‫ہر برتن کی زبان پہ‬ ‫اس کی مرحوم ماں کا نوحہ‬ ‫باپ کی بےحسی اور‬ ‫جنسی تسکین کا بین تھا‬ ‫آنکھوں کی زبان پہ‬

‫اک سوال تھا‬ ‫‘اس کو زندگی کہتے ہیں‬ ‫یہی زندگی ہے؟؟؟‬ ‫صبح ہی سے‬ ‫وہ آگ‬‫عزازئیل کی جو سرشت میں تھی‬ ‫اس آگ کو نمرود نے ہوا دی‬ ‫اس آگ کا ایندھن‬ ‫قارون نے پھر خرید کیا‬ ‫اس آگ کو فرعون پی گیا‬ ‫اس آگ کو حر نے اگل دیا‬ ‫یزید مگر نگل گیا‬ ‫اس آگ کو‬ ‫میر جعفر نے سجدہ کیا‬

‫میر قاسم نے مشعل ہوس روشن کی‬ ‫اس آگ کے شعلے‬ ‫پھر بلند ہیں‬ ‫مخلوق ارضی‬ ‫ڈر سے سہم گئی ہے‬ ‫ابر باراں کی راہ دیکھ رہی ہے‬ ‫کوئی بادل کا ٹکڑا نہیں‬ ‫صبح ہی سے تو‬ ‫آسمان نکھر گیا ہے‬ ‫‪1980‬‬

‫جب تک‬ ‫وہ قتل ہو گیا‬ ‫پھر قتل ہوا‬ ‫ایک بار پھر قتل ہوا‬ ‫اس کے بعد بھی قتل ہوا‬ ‫وہ مسلسل قتل ہوتا رہا‬‫جب تک سیٹھوں کی بھوک‘ نہیں مٹ جاتی‬ ‫جب تک خواہشوں کا‘ جنازہ نہیں اٹھ جا‬ ‫وہ قتل ہوتا رہے گا‬ ‫وہ قتل ہوتا رہے گا‬

‫حیات کے برزخ میں‬ ‫تلاش معنویت کے سب لمحے‬ ‫صدیاں ڈکار گئیں‬‫چیتھڑوں میں ملبوس معنویت کا سفر‬ ‫اس کنارے کو چھو نہ سکا‬ ‫تاسف کے دو آنسو‬‫کاسہءمحرومی کا مقدر نہ بن سکے‬ ‫کیا ہو پاتا کہ شب کشف‬ ‫دو رانوں کی مشقت میں کٹ گئی‬ ‫صبح دھیان‬ ‫نان نارسا کی نذر ہوئی‬ ‫شاعر کا کہا‬

‫بےحواسی کا ہم نوا ہوا‬ ‫دفتر رفتہ شاہ کے گیت گاتا رہا‬ ‫وسیبی حکائتیں بےوقار ہوئیں‬ ‫قرطاس فکر پہ نہ چڑھ سکیں‬ ‫گویا روایت کا جنازہ اٹھ گیا‬ ‫ضمیر بھی چاندی میں تل گیا‬ ‫مجذوب کے خواب میں گرہ پڑی‬‫مکیش کے نغموں سے طبلہ پھسل گیا‬ ‫درویش کے حواس بیدار نقطے‬ ‫ترقی کا ڈرم نگل گیا‬ ‫نہ مشرق رہا نہ مغرب اپنا بنا‬ ‫آخر کب تک یتیم جیون‬ ‫حیات کے برزخ میں‬ ‫شناخت کے لیے بھٹکتا رہے‬

‫چل' محمد کے در پر چل‬ ‫اک پل‬ ‫آکاش اور دھرتی کو‬ ‫اک دھاگے میں بن کر‬ ‫رنگ دھنک اچھالے‬ ‫دوجا پل‬‫جو بھیک تھا پہلے کل کی‬ ‫کاسے سے اترا‬ ‫ماتھے کی ریکھا ٹھہرا‬ ‫کرپا اور دان کا پل‬ ‫پھن چکر مارا‬ ‫گرتا ہے منہ کے بل‬

‫سلوٹ سے پاک سہی‬ ‫پھر بھی‬ ‫حنطل سے کڑوا‬ ‫اترن کا پھل‬ ‫الفت میں کچھ دے کر‬ ‫پانے کی اچھا‬ ‫حاتم سے ہے چھل‬ ‫غیرت سے عاری‬ ‫حلق میں ٹپکا‬ ‫وہ قطرہ‬ ‫سقراط کا زہر‬ ‫نہ گنگا جل‬‫مہر محبت سے بھرپور‬ ‫نیم کا پانی‬ ‫نہ کڑا نہ کھارا‬ ‫وہ تو ہے‬

‫آب زم زم‬ ‫اس میں رام کا بل‬ ‫ہر فرزانہ‬‫عہد سے مکتی چاہے‬‫ہر دیوانہ عہد کا بندی‬ ‫مر مٹنے کی باتیں‬ ‫ٹالتے رہنا‬ ‫کل تا کل‬ ‫جب بھی‬ ‫پل کی بگڑی کل‬ ‫در نانک کے‬ ‫بیٹھا بےکل‬ ‫وید حکیم‬ ‫ملاں پنڈٹ‬ ‫پیر فقیر‬ ‫جب تھک ہاریں‬

‫جس ہتھ میں وقت کی نبضیں‬ ‫چل‬ ‫محمد کے در پر چل‬ ‫شہد سمندر‬ ‫ترے شبدوں میں‬ ‫شہد سمندر‬ ‫ترے ہونٹوں میں‬ ‫تخلیق کی ابجد‬ ‫تری آنکھوں میں‬ ‫کئ عرش سجے‬ ‫ترے پیروں میں‬ ‫جیون ریکھا‬ ‫تری سانسوں میں‬ ‫آج اور کل‬

‫تری کھوج کا پل‬ ‫صدیوں پر بھاری‬ ‫ترے ملن کے عشرے‬ ‫جاپیں پل دو پل‬‫ترے سوچ کے آنگن میں‬ ‫کن کے بھید چھپے‬ ‫تو چھو لے تو‬ ‫مٹی سونا اگلے‬ ‫پتھر پارس ٹھہرے‬ ‫تری ایڑ کے اندر‬‫احساس کے سات سمندر‬ ‫ترا دامن‬ ‫فرشتوں کا مسکن‬ ‫تو وہ برگد‬ ‫چرا کر سایہ جس کا‬ ‫آکاش اترائے‬

‫میں اپنے بخت پر نازاں ہوں‬ ‫تو مری ماں کہلائے‬ ‫ترے سینے میں‬ ‫مری پیاس کےدیپ جلیں‬ ‫ماں کے دل کی دھک دھک‬ ‫خلد کے گیت سنائے‬ ‫سورج ڈوب رہا ہے‬ ‫میں جو بھی ہوں‬‫چاند اور سورج کی کرنوں پر‬ ‫میرا بھی تو حق ہے‬ ‫دھرتی کا ہر موسم‬ ‫خدا کا ہر گھر‬ ‫میرا بھی تو ہے‬ ‫قرآن ہو کہ گیتا‬

‫رامائن کا ہر قصا‬ ‫گرنتھ کا ہر نقطا‬ ‫میرا بھی تو ہے‬ ‫تقسیم کا در‬ ‫جب بھی کھلتا ہے‬ ‫لاٹ کے دفتر کا منشی‬ ‫بارود کا مالک‬ ‫پرچی کا مانگت‬ ‫عطا کے بوہے‬ ‫بند کر دیتا ہے‬‫رام اور عیسی کے بول‬ ‫ناچوں کی پھرتی‬ ‫بے لباسی میں رل کر‬‫بے گھر بےدر ہوئے ہیں‬‫دفتری ملاں کےمنہ میں‬ ‫کھیر کا چمچہ ہے‬

‫پنڈت اور فادر‬ ‫ہاں ناں کے پل پر بیٹھے‬ ‫توتے کو فاختتہ کہتے ہیں‬ ‫دادگر کے در پر سائل‬ ‫پانی بلوتا ہے‬ ‫مدرسے کا ماشٹر‬ ‫کمتر سے بھی کمتر‬ ‫کالج کا منشی‬ ‫جیون دان ہوا کو ترسے‬ ‫قلم کا دھنی‬ ‫غلاموں کے سم پیتے‬ ‫برچھوں کی زد میں ہے‬ ‫سب اچھا کا تلک‬ ‫سر ماتھے پر رکھنے والے‬‫گورا ہاؤس کے چمچے کڑچھے‬ ‫طاقت کی بیلی میں‬

‫کربل کربل کرتے یہ کیڑے‬‫ہانیمن اور اجمل کا منہ چڑاتے ہیں‬ ‫مسائل کی روڑی پر بیٹھا‬ ‫میں گونگا بہرا بے بس زخمی‬ ‫نانک سے بدھ‬ ‫لچھمن سے ویر تلاشوں‬ ‫مدنی کریم کی راہ دیکھوں‬ ‫علی علی پکاروں کہ‬ ‫سورج ڈوب رہا ہے‬

‫اس روز بھی‬ ‫اس روز بھی‬ ‫اک قتل ہوا‬ ‫افق میں لہو اتر گیا‬ ‫ہات میں خنجر لے کر‬ ‫وہ شہر بھر پھرتا رہا‬ ‫ہر دیکھتا‬ ‫اسے دیکھتا رہا‬‫سسکیاں گواہ کیوں بنیں‬ ‫لہو بھی تو‬

‫بول رہا تھا‬ ‫گنگا الٹا بہنے لگی ہے‬ ‫من کی دیواروں پر‬‫یہ خون کے چھینٹے کیسے ہیں‬ ‫مردہ جسموں کی بو‬ ‫سانسوں میں‬ ‫کس نے بھر دی ہے‬ ‫برف سے جذبوں پر‬ ‫ہاتھ کی پوروں کے نقش‬ ‫کہاں سے اترے ہیں‬ ‫روح کی زلفیں‬ ‫کیوں بکھری بکھری ہیں‬

‫تمہارے جانے کے بعد‬ ‫حیات کے سب منظر‬ ‫کیوں ٹھہر گیے ہیں‬‫تم سا نہ آنے کے خدشے‬ ‫بل کھاتے سانپوں کے‬ ‫مسکن بن جاتے ہیں‬ ‫فرزانہ ہوں کہ دیوانہ‬ ‫میں کب جانت ہوں‬ ‫ہاں‬‫تمہارے جانے سے پہلے‬ ‫یہ سب کچھ نہ تھا‬ ‫تمہارے جانے کے بعد‬ ‫گنگا الٹا بہنے لگی ہے‬

‫لہو کا تقدس‬‫کلیاں اور گلاب و کنول بھی‬‫پیر مغرب کی ٹھوکر میں ہیں‬ ‫میرے دور کا ٹیپو‬ ‫غیرت کے لہو کا تقدس‬ ‫بھوک کے آئنہ میں‬ ‫دیکھتا ہے‬

‫کانچ دریچوں میں‬ ‫جیون کے‬ ‫کانچ دریچوں میں‬ ‫دیکھوں تو‬‫ارمانوں کے موسم جھلسیں‬ ‫نادیکھوں تو‬ ‫کالا پتھر ٹھہروں‬

‫خدشے جب سچ ہو جاتے ہیں‬ ‫خدشے‬ ‫جب سچ ہو جاتے ہیں‬ ‫مجروع جذبے‬‫مرتی اور جیون کے برزخ میں‬ ‫حشر برپا ہونے کی‬ ‫کامنا کرتے ہیں‬ ‫سورگ نہیں‬ ‫ناسہی‬ ‫نرک ٹھکانا رہتا ہے‬

‫طلوع میں‬ ‫آغاز سفر کا نشہ‬ ‫غروب میں ہراس نہیں‬ ‫خدشے‬ ‫جب سچ ہو جاتے ہیں‬‫اشکوں سے عاری آنکھیں‬ ‫مجرم ٹھریں‬ ‫اشکوں سے تر‬ ‫جگ پر بھاری‬ ‫خاموشی‬ ‫کانٹوں سے بدتر‬ ‫خدشے‬ ‫جب سچ ہو جاتے ہیں‬ ‫آس مر جاتی ہے‬ ‫اوجھل راہیں‬ ‫دکھنے لگتی ہیں‬

‫خدشے‬ ‫جب سچ ہو جاتے ہیں‬ ‫ہاتھ تلوار کے دستے پر‬ ‫جم جاتا ہے‬ ‫خدشے‬ ‫جب سچ ہو جاتے ہیں‬ ‫آتی نسلیں‬‫اپنے پرکھوں کی تصویروں پر‬ ‫کبھی ہنستی ہیں‬ ‫کبھی روتی ہیں‬

‫رام بھلی کرے گا‬ ‫ہاتھ کے بدلے ہاتھ‬ ‫سر کے بدلے سر‬ ‫تھپڑ کے بدلے تھپڑ‬ ‫پتھر کے بدلے پتھر‬ ‫میر جعفر نے‬ ‫مگر لوٹ لیا ہے‬‫کس سے فریاد کریں‬ ‫جس ہاتھ میں‬ ‫گلاب وسنبل‬‫اس کی بغل میں خنجر‬

‫کمزور کی جیون ریکھا کا‬ ‫منشی ٹھہرا ہے‬ ‫قاتل چور اچکا‬ ‫قانون بناتا ہے‬ ‫لوبھی قانون کا رکھوالا‬ ‫بےبس زخمی زخمی‬ ‫منصف ہوا ہے‬ ‫اور یہ‬ ‫مقولہ باقی ہے‬ ‫چڑھ جا بیٹا سولی‬ ‫رام بھلی کرے گا‬

‫بے انت سمندر‬ ‫آنکھ میں پانی‬ ‫آب کوثر‬ ‫شبنم‬‫گل کے ماتھے کا جھومر‬ ‫جل ‘جل کر‬ ‫دھرتی کو جیون بخشے‬ ‫گنگا جل ہو کہ‬ ‫زم زم کے مست پیالے‬‫دھو ڈالیں کالک کے دھبے‬ ‫جل اک قطرہ ہے‬

‫جیون بے انت سمندر‬ ‫رات ذرا ڈھل جانے دو‬ ‫رات ذرا ڈھل جانے دو‬ ‫جب دو پاٹ ندی کے‬ ‫مل جائیں گے‬‫در وصل کے کھل جائیں گے‬ ‫نیند کے جھونکے‬ ‫آغوش میں اپنی‬ ‫بستی کو لے لیں گے‬ ‫آکاش سے دھند اترے گی‬ ‫ظلمت اپنی زلفوں میں‬‫جاگتے رہنا کے آوازوں کو‬

‫کس لے گی‬ ‫تب ہوس سکوں کی‬‫گھر سے باہر نکلے گی‬‫رات ذرا ڈھل جانے دو‬ ‫تم حصہ اپنا بٹوا لینا‬ ‫راتوں کے مالک‬‫لوگ بھروسہ کے ہیں‬ ‫دن کو تو‬ ‫اجلے چہرے‬ ‫دھندلا جاتے ہیں‬‫رات ذرا ڈھل جانے دو‬

‫اردو کی پہلی سنکوئین‬ ‫آس ستارے‬ ‫من کی‬ ‫چھپا کر من میں‬ ‫دھڑکت پھڑکت پر خوف کے پہرے‬‫آس ستارے سارے کے سارے یاس افق میں‬ ‫شنانت ہوئے‬

‫حرص کی رم جم‬ ‫حرص کی رم جم میں‬ ‫ملاں پنڈت‬ ‫گرجے کا فادر‬ ‫گر کا امین‬ ‫لمبڑ کے ڈیرے پر بیٹھے‬ ‫آنکھوں میں پتھر رکھ کر‬ ‫پکون کے گیت گائیں‬ ‫لوکن کے گھر‬ ‫بھوک کا بھنگڑا‬ ‫گلیوں میں موت کا خنجر‬‫کھیتوں میں خوف کی کاشت‬ ‫جیون‬

‫تذبذب کی صلیب پر لٹکا‬ ‫تخلیق کی ابجد‬ ‫تقدیر کی ریکھا‬ ‫کیسے ٹھہرے گا؟‬ ‫آج بھی‬ ‫بہت سے گم ہوئے‬ ‫بہت سے مر گیے‬ ‫کچھ پس ستم کیے‬‫کچھ عدم معنویت کی صلیب چڑھے‬ ‫ہاں‘ شاہ نواز‬ ‫تاریخ کی لوح پر زندہ رہے‬ ‫وہ ہی وقتوں کے ہیرو ٹھہرے‬ ‫جن پر ملاں کی مہر ثبت ہوئی‬

‫انہیں کون جھٹلائے‬ ‫سچ کا آئینہ دکھائے‬ ‫‘جھوٹ‬‫معنویت کے ساتھ زندہ رہا‬ ‫سکھ کا سانس لیتا رہا‬ ‫احساس بنا‬ ‫عزت کی دلیل ہوا‬ ‫معبدءتوقیر میں پڑا‬ ‫یہ صدیوں کا ورثہ‬ ‫طاق میں رکھ کر‬ ‫‘کوئی کیوں‬ ‫اس لفظ کو تلاشے‬ ‫جو معاشی روایت نہیں‬ ‫سماجی حکایت نہیں‬‫بےسر وادی معاش ہو کہ‬ ‫شاہ کے صنم کدے‬

‫شہوت کی عشرت گاہوں‬ ‫گنجان آباد صحراؤں میں‬ ‫اس کا کیا کام‬ ‫سچ کے شبدوں کی خاطر‬ ‫فاقہ کی کربلا سے گزر کر‬ ‫حق کے ہمالہ کی چوٹی‬ ‫کوئی کیوں منزل بنائے‬ ‫سپیدی لہو‬ ‫‘کب کبھی‬‫کسی سرمد کی ہم سفر رہی ہے‬ ‫حمادی کے فتوے نے‬ ‫راکھ گنگا کے حوالے نہ کی‬ ‫شاہ نواز حرف اور نقطے‬ ‫مظلوموں کی شریعت ہے‬ ‫‘آج بھی‬‫لوح فہم و احساس کے ایوان پر‬

‫ان کی سچائی کا علم لہراتا ہے‬ ‫‪11-7-1978‬‬

‫منظومے‬ ‫منظوم افسانے‬ ‫فہرست‬ ‫شاعر اور غزل ‪١-‬‬ ‫ٹیکسالی کے شیشہ میں ‪٢-‬‬ ‫کالے سویرے ‪٣-‬‬ ‫کیچڑ کا کنول ‪٤-‬‬ ‫دو لقمے ‪٥-‬‬ ‫آخری خبریں آنے تک ‪٦-‬‬ ‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا ‪٧-‬‬ ‫حیرت تو یہ ہے ‪٨-‬‬ ‫میں نے دیکھا ‪٩-‬‬ ‫کس منہ سے ‪١٠-‬‬ ‫حیات کے برزخ میں ‪١١-‬‬ ‫سورج دوزخی ہو گیا تھا ‪١٢-‬‬ ‫فیکٹری کا دھواں ‪١٣-‬‬

‫مطلع رہیں ‪١٤-‬‬ ‫امید ہی تو زندگی ہے ‪١٥-‬‬ ‫میٹھی گولی ‪١٦-‬‬ ‫دو بیلوں کی مرضی ہے ‪١٧-‬‬ ‫ذات کے قیدی ‪١٨-‬‬ ‫چل' محمد کے در پر چل ‪١٩-‬‬‫عطائیں الله کی کب بخیل ہیں ‪٢٠-‬‬ ‫کرپانی فتوی ‪٢١-‬‬ ‫مقدر ‪٢٢-‬‬ ‫دو بانٹ ‪٢٣-‬‬ ‫دو حرفی بات ‪٢٤-‬‬ ‫سوچ کے گھروندوں میں ‪٢٥-‬‬ ‫کیا یہ کافی نہیں ‪٢٦-‬‬ ‫یادوں کی دودھ ندیا ‪٢٧-‬‬ ‫باؤ بہشتی ‪٢٨-‬‬ ‫کوئی کیا جانے ‪٢٩-‬‬

‫کل کو آتی دفع کا ذکر ہے ‪٣٠-‬‬ ‫کڑکتا نوٹ ‪٣١-‬‬ ‫اسلام سب کا ہے ‪٣٢-‬‬ ‫ڈنگ ٹپانی ‪٣٣-‬‬ ‫ایک اور اندھیر دیکھیے ‪٣٤-‬‬ ‫یہ حرف ‪٣٥-‬‬ ‫عہد کا در وا ہوا ‪٣٦-‬‬ ‫مشینی دیو کے خواب ‪٣٧-‬‬ ‫اک مفتا سوال ‪٣٨-‬‬ ‫ریت بت کی شناسائی مانگ ‪٣٩-‬‬ ‫آنکھوں دیکھے موسم ‪٤٠-‬‬ ‫سوال کا جواب ‪٤١-‬‬ ‫یہ ہی دنیا ہے ‪٤٢-‬‬ ‫مالک کی مرضی ہے ‪٤٣-‬‬ ‫سیاست ‪٤٤-‬‬‫شاعر اور غزل‬

‫چاند کی کرنوں سے غزل کی بھیک مانگی‬ ‫اس نے کاسے میں دو بوندیں نچوڑ دیں‬ ‫کہ غزل آنکھوں کی ٹھنڈک ہو جائے‬ ‫سیپ نے مروارید دیئے‬ ‫کہ دل اس کا پرسکون ہو جائے‬ ‫قوس قزح نے سرخی بخشی‬ ‫کہ رخ مثل یاقوت ہو جائے‬ ‫طبلے کی تھاپ نے‬ ‫گھنگھرو کی جھنکار نے‬ ‫مایوس نہیں کیا‬ ‫نسیم سحر سے بھی دست سوال دراز کیا‬ ‫قبروں کے کتبوں سے بھی‬ ‫غزل کی بھیک مانگ کے لایا‬ ‫سورج سے تھوڑی حدت مانگ لی‬ ‫سیماب سے بےقراری لے لی‬

‫لہر نے بغاوت دے دی‬ ‫گلاب کے پاس بھی گیا‬ ‫اس نے کاسے کو بوسہ دیا‬ ‫اور اپنی اک پنکھڑی رکھ دی‬ ‫خوش تھا کہ‬ ‫آج محنت رنگ لائے گی‬ ‫وہ مری ہو جائے گی‬‫دامن مرا خوشیوں سے بھر جائے گا‬ ‫غزل کے چہرے پر‬ ‫حسین سا عنوان لکھ دے گی‬ ‫خلوص کی طشتری میں رکھ کر‬ ‫جب غزل میں نے پیش کی‬ ‫جسارت پہ مری وہ بپھر گئی‬ ‫ضبط کی پٹڑی سے اتر گئی‬ ‫کاسے میں تھوک دیا‬ ‫بولی‬

‫بھکاری! اپنا خون جگر نچوڑ کے لاؤ‬ ‫غزل سے زندگی کی خوش بو آئے‬ ‫راحتوں کے لیے‬ ‫لہو کی اک بوند کافی ہے‬ ‫پھر اس نے‬ ‫چھاتی سے جدا کرکے‬ ‫اپنی بچی مری گود میں رکھ دی‬ ‫ممتا کی باہوں میں غزل تھی‬ ‫ممتا کی نگاہوں میں غزل تھی‬ ‫بچی کے لبوں پر‬ ‫بچی کی انگلیوں میں‬ ‫بچی کی سانسوں میں‬ ‫مگر بچی تو سراپا غزل تھی‬ ‫میں مشاہدے میں ہی تھا کہ‬ ‫اس نے بچی مجھ سے لے لی‬ ‫مری آغوش میں شرمندگی رکھ دی‬

‫درماندگی رکھ دی‬ ‫اپنی اور مانگے کی چیز میں‬ ‫کتنا فرق ہوتا ہے‬ ‫وہ لائق صد افتخار تھی‬ ‫پروقار تھی‬ ‫میں تنکے سے بھی حقیر تھا‬ ‫اس کا سر تنا ہوا تھا‬ ‫مرا سر جھکا ہوا تھا‬ ‫کہ غزل کے چہرے پر‬ ‫بھیک کا پیوند لگا ہوا تھا‬ ‫غزل کا بدن زیر عتاب تھا‬ ‫میں بھی تو ہار گیا تھا‬‫مری شاعری کی کائنات پر رعشہ تھا‬ ‫وہ مسکرا رہی تھی‬ ‫غزل سٹپٹا رہی تھی‬ ‫اجتہاد کا در وا ہوا‬

‫روایت کا دیا بجھ گیا‬ ‫حقیقیت سےپردہ اٹھ گیا‬‫شاعر نہیں‘ میں تو بھکاری تھا‬ ‫خورشید ضعیف ہو گیا‬ ‫مہتاب زرد پڑ گیا‬ ‫گلاب مرجھا گیا‬ ‫طبلے کا پول کھل گیا‬ ‫جھنکار تھم گئی‬ ‫سمندر ندامت پی گئی‬ ‫کاسہ دو لخت ہوا‬ ‫جو جس کا تھا لے گیا‬ ‫ابلیس کرچیاں چننے لگا‬ ‫بھکاری مر گیا‬ ‫قبروں کو اپنا دیا مل گیا‬ ‫پھر شاعر جاگا‬ ‫ذات میں کھو گیا‬

‫خامشی چھا گئی‬ ‫ذات میں انقلاب آ گیا‬ ‫اندر کا لاوا ابلنے لگا‬ ‫حد سے گزرنے لگا‬ ‫ابلیس کے قہقہوں کا سلسلہ رک گیا‬ ‫اب ذات تھی‬ ‫شاعر تھا‬ ‫آنکھوں میں لہو کی بوندیں‬ ‫ہاتھ میں قلم‬ ‫کاغذ پر جگر تھا‬‫ٹیکسالی کے شیشہ میں‬

‫معصوم گڑیا سی‬ ‫سراپا جس کا‬ ‫کلیوں گلابوں نے بنا تھا‬ ‫شاید سراپے کا شیش محل‬ ‫چاند کی کرنوں سے تعمیر ہوا تھا‬‫زیست کے نشیب و فراز سے بے خبر‬ ‫کہکشانی رستوں کی تلاش میں‬ ‫مشک و عنبر کی جہاں باس ہو‬ ‫ہوا جس کی مگر اسے راس ہو‬‫پریوں کے شہزادے کا میسر ساتھ ہو‬ ‫گھر سے بھاگ نکلی‬ ‫آنکھوں میں اس کے روشی تھی‬ ‫ہر دل سے درد اٹھا‬ ‫مونس و غم گسار بن گیا‬

‫وہ کیا جانے‬‫اس نگر میں بھنورے بھی رہتے ہیں‬ ‫بھیڑیے تاک میں ہیں‬ ‫اک روز پھر اخبار میں خبر چھپی‬ ‫مطلع ہوں‬‫اک لڑکی کے اعضاء بکھر گیے تھے‬ ‫گندے گٹر میں پڑے تھے‬ ‫ہر ٹکڑا زخموں سے چور تھا‬ ‫اور خون بھی بہہ رہا تھا‬ ‫گندے پانی کی ٹھوکریں سہہ رہا تھا‬ ‫کہہ رہا تھا‬ ‫شاید میرا کوئی بچ رہا ہو‬ ‫یہ بکھرے اعضاء بڑی حفاظت سے‬ ‫کڑی ریاضت سے‬ ‫جوڑ کر‘ سی کر‬ ‫دارالان بھیج دیے ہیں‬

‫دارالامان سے رابطہ کریں‬ ‫خوبی قسمت دیکھیے‬ ‫ٹیکسالی کے باسی قدر شناس نکلے‬ ‫آج بھی وہ اعضاء‬ ‫ٹیکسالی کے شیشہ میں سجے ہیں‬ ‫کہ ان کا کوئی مستقبل نہیں‬ ‫ماضی کہیں کھو گیا ہے‬ ‫حال متعین نہیں ہوا‬ ‫کہ اب ان پر سب کا حق ہے‬‫کالے سویرے‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook