صبح کا اترن لے کر کالی راتیںسچ کے آنگن میں جا بستی ہیں مارچ ١٩٧٤ ‘١٩ میں نے دیکھا پانیوں پر میں اشک لکھنے چلا تھا دیدہءخوں دیکھ کر ہر بوند ہوا کے سفر بر نکل گئی منصف کے پاس گیا شاہ کی مجبوریوں میں وہ جکڑا ہوا تھا سوچا پانیوں کی بےمروتی کا
فتوی ہی لے لیتا ہوں ملاں شاہ کے دستر خوان پر مدہوش پڑا ہوا تھا دیکھا‘ شیخ کا در کھلا ہوا ہے سوچا شاید یہاں داد رسی کا کوئی سامان ہو جائے گا وہ بچارہ تو پریوں کے غول میں گھرا ہوا تھا کیا کرتا کدھر کو جاتا دل دروازہ کھلا خدا جو میرے قریب تھا بولا کتنے عجیب ہو تم بھی کیا میں کافی نہیںجو ہوس کے اسیروں کے پاس جاتے ہو
میرے پاس آؤ ادھر ادھر نہ جاؤ میری آغوش میں تمہارے اشکوں کو پناہ ملے گی ہر بوند رشک لعل فردوس بریں ہو گی اک قظرہ مری آنکھ سے ٹپکا میں نے دیکھا شاہ اور شاہ والوں کی گردن میں بے نصیبی کی زنجیر پڑی ہوئی تھی مکرم بندہ جناب حسنی صاحب :سلام مسنونآزاد شاعری عام طور پر میرے سر پر سے گزر جاتی ہے۔ جبتک میں اس کے تانے بانے سلجھاتا ہوں پچھلے پڑھے ہوئےمصرعے ذہن کی تہوں میں کہیں گم ہو جاتے ہیں اور میں پھر نظم پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش میں گرفتار ہو جاتا ہوں۔آپ کی اس نظم کے مطالعہ میں ایسا صرف ایک بار ہوا اور میں جلد ہی منزل مقصود تک پہنچ گیا۔ یہ شاید اس لئے ہوا کہ آپ
کی نظم پر دلسوزی اور خلوص دل کی مہر لگی ہوئی ہے جیسےآپ اپنی آپ بیتی بیان کر رہے ہوں۔ نظم پڑھ کر متاثر ہوا۔ نظم کا پیغام عام سہی لیکن اہم ضرور ہے۔ ہم اہل دنیا بے تحاشہ اہل اقتدار کی جانب بھاگتے ہیں اور اس تگ و دو میں بھول جاتے ہیں کہ دینے والا تو کوئی اور ہی ہے۔ الله رحم کرے۔ ایسے ہی لکھتے رہئے۔ الله آپ کو ہمت اور طاقت عطا فرمائے۔ صلاحیتاور توفیق سے تو اپ بھر پور ہیں ہی۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔ سرور عالم را http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9132.0
نوحہ وہ قیدی نہ تھا خیر وشر سے بے خبر معصوم فرشتوں کی طرح جھوٹے برتنوں کے گردانگلیاں محو رقص تھیں اس کی ہر برتن کی زبان پہ اس کی مرحوم ماں کا نوحہ باپ کی بےحسی اور جنسی تسکین کا بین تھا آنکھوں کی زبان پہ
اک سوال تھا ‘اس کو زندگی کہتے ہیں یہی زندگی ہے؟؟؟ صبح ہی سے وہ آگعزازئیل کی جو سرشت میں تھی اس آگ کو نمرود نے ہوا دی اس آگ کا ایندھن قارون نے پھر خرید کیا اس آگ کو فرعون پی گیا اس آگ کو حر نے اگل دیا یزید مگر نگل گیا اس آگ کو میر جعفر نے سجدہ کیا
میر قاسم نے مشعل ہوس روشن کی اس آگ کے شعلے پھر بلند ہیں مخلوق ارضی ڈر سے سہم گئی ہے ابر باراں کی راہ دیکھ رہی ہے کوئی بادل کا ٹکڑا نہیں صبح ہی سے تو آسمان نکھر گیا ہے 1980
جب تک وہ قتل ہو گیا پھر قتل ہوا ایک بار پھر قتل ہوا اس کے بعد بھی قتل ہوا وہ مسلسل قتل ہوتا رہاجب تک سیٹھوں کی بھوک‘ نہیں مٹ جاتی جب تک خواہشوں کا‘ جنازہ نہیں اٹھ جا وہ قتل ہوتا رہے گا وہ قتل ہوتا رہے گا
حیات کے برزخ میں تلاش معنویت کے سب لمحے صدیاں ڈکار گئیںچیتھڑوں میں ملبوس معنویت کا سفر اس کنارے کو چھو نہ سکا تاسف کے دو آنسوکاسہءمحرومی کا مقدر نہ بن سکے کیا ہو پاتا کہ شب کشف دو رانوں کی مشقت میں کٹ گئی صبح دھیان نان نارسا کی نذر ہوئی شاعر کا کہا
بےحواسی کا ہم نوا ہوا دفتر رفتہ شاہ کے گیت گاتا رہا وسیبی حکائتیں بےوقار ہوئیں قرطاس فکر پہ نہ چڑھ سکیں گویا روایت کا جنازہ اٹھ گیا ضمیر بھی چاندی میں تل گیا مجذوب کے خواب میں گرہ پڑیمکیش کے نغموں سے طبلہ پھسل گیا درویش کے حواس بیدار نقطے ترقی کا ڈرم نگل گیا نہ مشرق رہا نہ مغرب اپنا بنا آخر کب تک یتیم جیون حیات کے برزخ میں شناخت کے لیے بھٹکتا رہے
چل' محمد کے در پر چل اک پل آکاش اور دھرتی کو اک دھاگے میں بن کر رنگ دھنک اچھالے دوجا پلجو بھیک تھا پہلے کل کی کاسے سے اترا ماتھے کی ریکھا ٹھہرا کرپا اور دان کا پل پھن چکر مارا گرتا ہے منہ کے بل
سلوٹ سے پاک سہی پھر بھی حنطل سے کڑوا اترن کا پھل الفت میں کچھ دے کر پانے کی اچھا حاتم سے ہے چھل غیرت سے عاری حلق میں ٹپکا وہ قطرہ سقراط کا زہر نہ گنگا جلمہر محبت سے بھرپور نیم کا پانی نہ کڑا نہ کھارا وہ تو ہے
آب زم زم اس میں رام کا بل ہر فرزانہعہد سے مکتی چاہےہر دیوانہ عہد کا بندی مر مٹنے کی باتیں ٹالتے رہنا کل تا کل جب بھی پل کی بگڑی کل در نانک کے بیٹھا بےکل وید حکیم ملاں پنڈٹ پیر فقیر جب تھک ہاریں
جس ہتھ میں وقت کی نبضیں چل محمد کے در پر چل شہد سمندر ترے شبدوں میں شہد سمندر ترے ہونٹوں میں تخلیق کی ابجد تری آنکھوں میں کئ عرش سجے ترے پیروں میں جیون ریکھا تری سانسوں میں آج اور کل
تری کھوج کا پل صدیوں پر بھاری ترے ملن کے عشرے جاپیں پل دو پلترے سوچ کے آنگن میں کن کے بھید چھپے تو چھو لے تو مٹی سونا اگلے پتھر پارس ٹھہرے تری ایڑ کے اندراحساس کے سات سمندر ترا دامن فرشتوں کا مسکن تو وہ برگد چرا کر سایہ جس کا آکاش اترائے
میں اپنے بخت پر نازاں ہوں تو مری ماں کہلائے ترے سینے میں مری پیاس کےدیپ جلیں ماں کے دل کی دھک دھک خلد کے گیت سنائے سورج ڈوب رہا ہے میں جو بھی ہوںچاند اور سورج کی کرنوں پر میرا بھی تو حق ہے دھرتی کا ہر موسم خدا کا ہر گھر میرا بھی تو ہے قرآن ہو کہ گیتا
رامائن کا ہر قصا گرنتھ کا ہر نقطا میرا بھی تو ہے تقسیم کا در جب بھی کھلتا ہے لاٹ کے دفتر کا منشی بارود کا مالک پرچی کا مانگت عطا کے بوہے بند کر دیتا ہےرام اور عیسی کے بول ناچوں کی پھرتی بے لباسی میں رل کربے گھر بےدر ہوئے ہیںدفتری ملاں کےمنہ میں کھیر کا چمچہ ہے
پنڈت اور فادر ہاں ناں کے پل پر بیٹھے توتے کو فاختتہ کہتے ہیں دادگر کے در پر سائل پانی بلوتا ہے مدرسے کا ماشٹر کمتر سے بھی کمتر کالج کا منشی جیون دان ہوا کو ترسے قلم کا دھنی غلاموں کے سم پیتے برچھوں کی زد میں ہے سب اچھا کا تلک سر ماتھے پر رکھنے والےگورا ہاؤس کے چمچے کڑچھے طاقت کی بیلی میں
کربل کربل کرتے یہ کیڑےہانیمن اور اجمل کا منہ چڑاتے ہیں مسائل کی روڑی پر بیٹھا میں گونگا بہرا بے بس زخمی نانک سے بدھ لچھمن سے ویر تلاشوں مدنی کریم کی راہ دیکھوں علی علی پکاروں کہ سورج ڈوب رہا ہے
اس روز بھی اس روز بھی اک قتل ہوا افق میں لہو اتر گیا ہات میں خنجر لے کر وہ شہر بھر پھرتا رہا ہر دیکھتا اسے دیکھتا رہاسسکیاں گواہ کیوں بنیں لہو بھی تو
بول رہا تھا گنگا الٹا بہنے لگی ہے من کی دیواروں پریہ خون کے چھینٹے کیسے ہیں مردہ جسموں کی بو سانسوں میں کس نے بھر دی ہے برف سے جذبوں پر ہاتھ کی پوروں کے نقش کہاں سے اترے ہیں روح کی زلفیں کیوں بکھری بکھری ہیں
تمہارے جانے کے بعد حیات کے سب منظر کیوں ٹھہر گیے ہیںتم سا نہ آنے کے خدشے بل کھاتے سانپوں کے مسکن بن جاتے ہیں فرزانہ ہوں کہ دیوانہ میں کب جانت ہوں ہاںتمہارے جانے سے پہلے یہ سب کچھ نہ تھا تمہارے جانے کے بعد گنگا الٹا بہنے لگی ہے
لہو کا تقدسکلیاں اور گلاب و کنول بھیپیر مغرب کی ٹھوکر میں ہیں میرے دور کا ٹیپو غیرت کے لہو کا تقدس بھوک کے آئنہ میں دیکھتا ہے
کانچ دریچوں میں جیون کے کانچ دریچوں میں دیکھوں توارمانوں کے موسم جھلسیں نادیکھوں تو کالا پتھر ٹھہروں
خدشے جب سچ ہو جاتے ہیں خدشے جب سچ ہو جاتے ہیں مجروع جذبےمرتی اور جیون کے برزخ میں حشر برپا ہونے کی کامنا کرتے ہیں سورگ نہیں ناسہی نرک ٹھکانا رہتا ہے
طلوع میں آغاز سفر کا نشہ غروب میں ہراس نہیں خدشے جب سچ ہو جاتے ہیںاشکوں سے عاری آنکھیں مجرم ٹھریں اشکوں سے تر جگ پر بھاری خاموشی کانٹوں سے بدتر خدشے جب سچ ہو جاتے ہیں آس مر جاتی ہے اوجھل راہیں دکھنے لگتی ہیں
خدشے جب سچ ہو جاتے ہیں ہاتھ تلوار کے دستے پر جم جاتا ہے خدشے جب سچ ہو جاتے ہیں آتی نسلیںاپنے پرکھوں کی تصویروں پر کبھی ہنستی ہیں کبھی روتی ہیں
رام بھلی کرے گا ہاتھ کے بدلے ہاتھ سر کے بدلے سر تھپڑ کے بدلے تھپڑ پتھر کے بدلے پتھر میر جعفر نے مگر لوٹ لیا ہےکس سے فریاد کریں جس ہاتھ میں گلاب وسنبلاس کی بغل میں خنجر
کمزور کی جیون ریکھا کا منشی ٹھہرا ہے قاتل چور اچکا قانون بناتا ہے لوبھی قانون کا رکھوالا بےبس زخمی زخمی منصف ہوا ہے اور یہ مقولہ باقی ہے چڑھ جا بیٹا سولی رام بھلی کرے گا
بے انت سمندر آنکھ میں پانی آب کوثر شبنمگل کے ماتھے کا جھومر جل ‘جل کر دھرتی کو جیون بخشے گنگا جل ہو کہ زم زم کے مست پیالےدھو ڈالیں کالک کے دھبے جل اک قطرہ ہے
جیون بے انت سمندر رات ذرا ڈھل جانے دو رات ذرا ڈھل جانے دو جب دو پاٹ ندی کے مل جائیں گےدر وصل کے کھل جائیں گے نیند کے جھونکے آغوش میں اپنی بستی کو لے لیں گے آکاش سے دھند اترے گی ظلمت اپنی زلفوں میںجاگتے رہنا کے آوازوں کو
کس لے گی تب ہوس سکوں کیگھر سے باہر نکلے گیرات ذرا ڈھل جانے دو تم حصہ اپنا بٹوا لینا راتوں کے مالکلوگ بھروسہ کے ہیں دن کو تو اجلے چہرے دھندلا جاتے ہیںرات ذرا ڈھل جانے دو
اردو کی پہلی سنکوئین آس ستارے من کی چھپا کر من میں دھڑکت پھڑکت پر خوف کے پہرےآس ستارے سارے کے سارے یاس افق میں شنانت ہوئے
حرص کی رم جم حرص کی رم جم میں ملاں پنڈت گرجے کا فادر گر کا امین لمبڑ کے ڈیرے پر بیٹھے آنکھوں میں پتھر رکھ کر پکون کے گیت گائیں لوکن کے گھر بھوک کا بھنگڑا گلیوں میں موت کا خنجرکھیتوں میں خوف کی کاشت جیون
تذبذب کی صلیب پر لٹکا تخلیق کی ابجد تقدیر کی ریکھا کیسے ٹھہرے گا؟ آج بھی بہت سے گم ہوئے بہت سے مر گیے کچھ پس ستم کیےکچھ عدم معنویت کی صلیب چڑھے ہاں‘ شاہ نواز تاریخ کی لوح پر زندہ رہے وہ ہی وقتوں کے ہیرو ٹھہرے جن پر ملاں کی مہر ثبت ہوئی
انہیں کون جھٹلائے سچ کا آئینہ دکھائے ‘جھوٹمعنویت کے ساتھ زندہ رہا سکھ کا سانس لیتا رہا احساس بنا عزت کی دلیل ہوا معبدءتوقیر میں پڑا یہ صدیوں کا ورثہ طاق میں رکھ کر ‘کوئی کیوں اس لفظ کو تلاشے جو معاشی روایت نہیں سماجی حکایت نہیںبےسر وادی معاش ہو کہ شاہ کے صنم کدے
شہوت کی عشرت گاہوں گنجان آباد صحراؤں میں اس کا کیا کام سچ کے شبدوں کی خاطر فاقہ کی کربلا سے گزر کر حق کے ہمالہ کی چوٹی کوئی کیوں منزل بنائے سپیدی لہو ‘کب کبھیکسی سرمد کی ہم سفر رہی ہے حمادی کے فتوے نے راکھ گنگا کے حوالے نہ کی شاہ نواز حرف اور نقطے مظلوموں کی شریعت ہے ‘آج بھیلوح فہم و احساس کے ایوان پر
ان کی سچائی کا علم لہراتا ہے 11-7-1978
منظومے منظوم افسانے فہرست شاعر اور غزل ١- ٹیکسالی کے شیشہ میں ٢- کالے سویرے ٣- کیچڑ کا کنول ٤- دو لقمے ٥- آخری خبریں آنے تک ٦- یہ ہی فیصلہ ہوا تھا ٧- حیرت تو یہ ہے ٨- میں نے دیکھا ٩- کس منہ سے ١٠- حیات کے برزخ میں ١١- سورج دوزخی ہو گیا تھا ١٢- فیکٹری کا دھواں ١٣-
مطلع رہیں ١٤- امید ہی تو زندگی ہے ١٥- میٹھی گولی ١٦- دو بیلوں کی مرضی ہے ١٧- ذات کے قیدی ١٨- چل' محمد کے در پر چل ١٩-عطائیں الله کی کب بخیل ہیں ٢٠- کرپانی فتوی ٢١- مقدر ٢٢- دو بانٹ ٢٣- دو حرفی بات ٢٤- سوچ کے گھروندوں میں ٢٥- کیا یہ کافی نہیں ٢٦- یادوں کی دودھ ندیا ٢٧- باؤ بہشتی ٢٨- کوئی کیا جانے ٢٩-
کل کو آتی دفع کا ذکر ہے ٣٠- کڑکتا نوٹ ٣١- اسلام سب کا ہے ٣٢- ڈنگ ٹپانی ٣٣- ایک اور اندھیر دیکھیے ٣٤- یہ حرف ٣٥- عہد کا در وا ہوا ٣٦- مشینی دیو کے خواب ٣٧- اک مفتا سوال ٣٨- ریت بت کی شناسائی مانگ ٣٩- آنکھوں دیکھے موسم ٤٠- سوال کا جواب ٤١- یہ ہی دنیا ہے ٤٢- مالک کی مرضی ہے ٤٣- سیاست ٤٤-شاعر اور غزل
چاند کی کرنوں سے غزل کی بھیک مانگی اس نے کاسے میں دو بوندیں نچوڑ دیں کہ غزل آنکھوں کی ٹھنڈک ہو جائے سیپ نے مروارید دیئے کہ دل اس کا پرسکون ہو جائے قوس قزح نے سرخی بخشی کہ رخ مثل یاقوت ہو جائے طبلے کی تھاپ نے گھنگھرو کی جھنکار نے مایوس نہیں کیا نسیم سحر سے بھی دست سوال دراز کیا قبروں کے کتبوں سے بھی غزل کی بھیک مانگ کے لایا سورج سے تھوڑی حدت مانگ لی سیماب سے بےقراری لے لی
لہر نے بغاوت دے دی گلاب کے پاس بھی گیا اس نے کاسے کو بوسہ دیا اور اپنی اک پنکھڑی رکھ دی خوش تھا کہ آج محنت رنگ لائے گی وہ مری ہو جائے گیدامن مرا خوشیوں سے بھر جائے گا غزل کے چہرے پر حسین سا عنوان لکھ دے گی خلوص کی طشتری میں رکھ کر جب غزل میں نے پیش کی جسارت پہ مری وہ بپھر گئی ضبط کی پٹڑی سے اتر گئی کاسے میں تھوک دیا بولی
بھکاری! اپنا خون جگر نچوڑ کے لاؤ غزل سے زندگی کی خوش بو آئے راحتوں کے لیے لہو کی اک بوند کافی ہے پھر اس نے چھاتی سے جدا کرکے اپنی بچی مری گود میں رکھ دی ممتا کی باہوں میں غزل تھی ممتا کی نگاہوں میں غزل تھی بچی کے لبوں پر بچی کی انگلیوں میں بچی کی سانسوں میں مگر بچی تو سراپا غزل تھی میں مشاہدے میں ہی تھا کہ اس نے بچی مجھ سے لے لی مری آغوش میں شرمندگی رکھ دی
درماندگی رکھ دی اپنی اور مانگے کی چیز میں کتنا فرق ہوتا ہے وہ لائق صد افتخار تھی پروقار تھی میں تنکے سے بھی حقیر تھا اس کا سر تنا ہوا تھا مرا سر جھکا ہوا تھا کہ غزل کے چہرے پر بھیک کا پیوند لگا ہوا تھا غزل کا بدن زیر عتاب تھا میں بھی تو ہار گیا تھامری شاعری کی کائنات پر رعشہ تھا وہ مسکرا رہی تھی غزل سٹپٹا رہی تھی اجتہاد کا در وا ہوا
روایت کا دیا بجھ گیا حقیقیت سےپردہ اٹھ گیاشاعر نہیں‘ میں تو بھکاری تھا خورشید ضعیف ہو گیا مہتاب زرد پڑ گیا گلاب مرجھا گیا طبلے کا پول کھل گیا جھنکار تھم گئی سمندر ندامت پی گئی کاسہ دو لخت ہوا جو جس کا تھا لے گیا ابلیس کرچیاں چننے لگا بھکاری مر گیا قبروں کو اپنا دیا مل گیا پھر شاعر جاگا ذات میں کھو گیا
خامشی چھا گئی ذات میں انقلاب آ گیا اندر کا لاوا ابلنے لگا حد سے گزرنے لگا ابلیس کے قہقہوں کا سلسلہ رک گیا اب ذات تھی شاعر تھا آنکھوں میں لہو کی بوندیں ہاتھ میں قلم کاغذ پر جگر تھاٹیکسالی کے شیشہ میں
معصوم گڑیا سی سراپا جس کا کلیوں گلابوں نے بنا تھا شاید سراپے کا شیش محل چاند کی کرنوں سے تعمیر ہوا تھازیست کے نشیب و فراز سے بے خبر کہکشانی رستوں کی تلاش میں مشک و عنبر کی جہاں باس ہو ہوا جس کی مگر اسے راس ہوپریوں کے شہزادے کا میسر ساتھ ہو گھر سے بھاگ نکلی آنکھوں میں اس کے روشی تھی ہر دل سے درد اٹھا مونس و غم گسار بن گیا
وہ کیا جانےاس نگر میں بھنورے بھی رہتے ہیں بھیڑیے تاک میں ہیں اک روز پھر اخبار میں خبر چھپی مطلع ہوںاک لڑکی کے اعضاء بکھر گیے تھے گندے گٹر میں پڑے تھے ہر ٹکڑا زخموں سے چور تھا اور خون بھی بہہ رہا تھا گندے پانی کی ٹھوکریں سہہ رہا تھا کہہ رہا تھا شاید میرا کوئی بچ رہا ہو یہ بکھرے اعضاء بڑی حفاظت سے کڑی ریاضت سے جوڑ کر‘ سی کر دارالان بھیج دیے ہیں
دارالامان سے رابطہ کریں خوبی قسمت دیکھیے ٹیکسالی کے باسی قدر شناس نکلے آج بھی وہ اعضاء ٹیکسالی کے شیشہ میں سجے ہیں کہ ان کا کوئی مستقبل نہیں ماضی کہیں کھو گیا ہے حال متعین نہیں ہوا کہ اب ان پر سب کا حق ہےکالے سویرے
Search
Read the Text Version
- 1
- 2
- 3
- 4
- 5
- 6
- 7
- 8
- 9
- 10
- 11
- 12
- 13
- 14
- 15
- 16
- 17
- 18
- 19
- 20
- 21
- 22
- 23
- 24
- 25
- 26
- 27
- 28
- 29
- 30
- 31
- 32
- 33
- 34
- 35
- 36
- 37
- 38
- 39
- 40
- 41
- 42
- 43
- 44
- 45
- 46
- 47
- 48
- 49
- 50
- 51
- 52
- 53
- 54
- 55
- 56
- 57
- 58
- 59
- 60
- 61
- 62
- 63
- 64
- 65
- 66
- 67
- 68
- 69
- 70
- 71
- 72
- 73
- 74
- 75
- 76
- 77
- 78
- 79
- 80
- 81
- 82
- 83
- 84
- 85
- 86
- 87
- 88
- 89
- 90
- 91
- 92
- 93
- 94
- 95
- 96
- 97
- 98
- 99
- 100
- 101
- 102
- 103
- 104
- 105
- 106
- 107
- 108
- 109
- 110
- 111
- 112
- 113
- 114
- 115
- 116
- 117
- 118
- 119
- 120
- 121
- 122
- 123
- 124
- 125
- 126
- 127
- 128
- 129
- 130
- 131
- 132
- 133
- 134
- 135
- 136
- 137
- 138
- 139
- 140
- 141
- 142
- 143
- 144
- 145
- 146
- 147
- 148
- 149
- 150
- 151
- 152
- 153
- 154
- 155
- 156
- 157
- 158
- 159
- 160
- 161
- 162
- 163
- 164
- 165
- 166
- 167
- 168
- 169
- 170
- 171
- 172
- 173
- 174
- 175
- 176
- 177
- 178
- 179
- 180
- 181
- 182
- 183
- 184
- 185
- 186
- 187
- 188
- 189
- 190
- 191
- 192
- 193
- 194
- 195
- 196
- 197
- 198
- 199
- 200
- 201
- 202
- 203
- 204
- 205
- 206
- 207
- 208
- 209
- 210
- 211
- 212
- 213
- 214
- 215
- 216
- 217
- 218
- 219
- 220
- 221
- 222
- 223
- 224
- 225
- 226
- 227
- 228
- 229
- 230
- 231
- 232
- 233
- 234
- 235
- 236
- 237
- 238
- 239
- 240
- 241
- 242
- 243
- 244
- 245
- 246
- 247
- 248
- 249
- 250
- 251
- 252
- 253
- 254
- 255
- 256
- 257
- 258
- 259
- 260
- 261
- 262
- 263
- 264
- 265
- 266
- 267
- 268
- 269
- 270
- 271
- 272
- 273
- 274
- 275
- 276
- 277
- 278
- 279
- 280
- 281
- 282
- 283
- 284
- 285
- 286
- 287
- 288
- 289
- 290
- 291
- 292
- 293
- 294
- 295
- 296
- 297
- 298
- 299
- 300
- 301
- 302
- 303
- 304
- 305
- 306
- 307
- 308
- 309
- 310
- 311
- 312
- 313
- 314
- 315
- 316
- 317
- 318
- 319
- 320
- 321
- 322
- 323
- 324
- 325
- 326