Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore میرے بیس منسانے

میرے بیس منسانے

Published by maqsood5, 2016-11-29 11:07:37

Description: abk_ksr_mh.906/2016
میرے بیس منسانے
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
نومبر ٢٠١٦

Search

Read the Text Version

‫مجھے ڈر لگتا ہے‬ ‫علم و فن کے کالے سویروں سے‬ ‫جن کے بطن سے‬ ‫ہوس کے ناگ جنم لیتے ہیں‬ ‫منصف کے من کی آواز کو‬ ‫جو ڈس لیتے ہیں‬ ‫سہاگن کے سہاگ کی پیاسی آتما سے‬ ‫ہوس کی آگ بجھاتے ہیں‬‫سچ کے موسموں کے چراغوں کی روشنی‬ ‫دھندلا دھندلا دیتے ہیں‬ ‫حقیقتوں کا ہم زاد‬ ‫گھبرا کر‬ ‫ویران اور اداس لفظوں کا‬ ‫آس سے‬

‫جو خود فریبی کے جھولے میں پڑی‬ ‫فرار کے رستے سوچ رہی ہے‬ ‫رستہ پوچھتا ہے‬‫ان زہریلے ناگوں کی آنکھوں کی مقناطیسیت‬ ‫اپنے حصار میں‬ ‫اسے بھی لے لیتی ہے‬ ‫یہ ناگ‬ ‫انا اور اساس کو بھی ڈستے ہیں‬ ‫یہ خونی منظر دیکھ کر کانپ جاتا ہوں‬ ‫کہ یہ اب ضمیر کو بھی ڈس لیں گے‬ ‫کالے سویروں کی زرد روشنی کے سائے‬ ‫جوں جوں دراز ہوتے ہیں‬ ‫زندگی کو اک اور کربلا سے گزرنا پڑتا ہے‬ ‫ان ناگوں کی زبانیں‬ ‫زہر میں بجھی ‘چمکتی‬ ‫تیز دھار تلواریں ہیں‬

‫گھاؤ کرنے میں‬ ‫یہ اپنا جواب نہیں رکھتیں‬ ‫زندگی خوف کے سائے میں‬ ‫کیوں کر پروان چڑھ سکتی ہے‬ ‫جہاں کوئی روٹی دینے والا نہیں‬ ‫پانی کی اک بوند نایاب ہے‬‫جہاں خودکشی حرام جینا جرم ہے‬ ‫جہاں نیلے آسمان کی‬ ‫چاند ستاروں سے لبریز چھت‬ ‫اپنی نہیں‬ ‫ہوا کا بھی گزر نہیں ہوتا‬ ‫بدلتے موسوں کا تصور‬ ‫شیخ چلی کا خواب ہے‬ ‫بوسیدگی اور غلاظت‬ ‫شخص کا مقدر ہے‬ ‫یا پھر‬

‫زہر بجھی یہ چمکتی تلواریں ہیں‬ ‫یہ ہی کچھ ہے ‘یقین مانو‬ ‫پھر میں‬‫یاس کی تاریکیوں کی تمنا کرتا ہوں‬ ‫جانت ہوں کہ یہ ناگ‬ ‫تاریکیوں سے نہیں گھبرائیں گے‬ ‫پھر بھی کاٹیں گے‬ ‫گدھ نوچیں گے‬ ‫کتے ہڈیوں پر ٹوٹیں گے‬ ‫ہر ہڈی پر‬ ‫گھمسان کا رن ہو گا‬‫اپنا حصہ لگڑ بگڑ بھی مانگیں گے‬ ‫فاسفورس کی بانٹ ًپر بھی‬ ‫تنازعے اٹھیں گے‬ ‫درد پھر بھی ہو گا‬ ‫کرب پھر بھی ہو گا‬

‫زہر پھر بھی پھیلے گا‬ ‫کانچ بدن پھر بھی نیلا ہو گا‬‫مایوسی کی سیاہ ذلفوں کے سائے میں‬ ‫بصارت کو بصیرت کو‬ ‫شائد پناہ مل جائے گی‬‫میں ناگوں کے پہرے نہ دیکھ سکوں گا‬ ‫لہو رستے پر نظر نہ جائے گی‬ ‫مگر کیا کروں‬ ‫سچ کی حسین تمنا مجھے مرنے نہیں‬ ‫مرنے نہیں دے گی‬ ‫اور میں اس سراب جیون میں‬ ‫نہ مروں گا نہ جی سکوں گا‬‫کیچڑ کا کنول‬

‫میلا سا چیتھڑا ‘آلودہ‬ ‫شاید حاجت سے بچا ہوگا‬ ‫‘آدم زادے کا پراہین‬ ‫!عییب نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔؟‬ ‫گلاب سے چہرے پر‬ ‫دیکھتی آنکھیں ‘بلور ایسی‬ ‫حیرت خوف غم غصہ اورافسوس‬ ‫جانے کیا کچھ تھا ان میں‬ ‫سماج کی بےحسی پہ‬‫ان ٹھہری مگر دیکھتی آنکھوں میں‬ ‫دو بوند‘ لہو سی‬ ‫صدیوں کے ظلم کی داستان‬ ‫لیے ہوئے تھیں‬ ‫اتنی حدت اتنی اتنی تپش کہ‬

‫پتھر بھی پگھل کر پانی ہو‬ ‫ترسی ترسی باہیں‬‫میرے بوبی کی باہیں ایسی ہی تھیں کہ‬ ‫جب وہ بچہ تھا‬ ‫تب محبتوں کا حصار تھا‬ ‫اور اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫خفت ندامت کا حصار‬ ‫مرے گرد ہے‬ ‫لمحہ بہ لمحہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫دائرہ تنگ ہو رہا ہے‬ ‫مجھے فنکار سے نسبت ہے‬ ‫فنکار‘ سب کا درد‬ ‫سینے کی وسعتوں میں سمو لیتا ہے‬ ‫‘اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫ساکت وجامد‬ ‫مٹی کے بت کی طرح‬

‫خاموش تماشائی تھا‬ ‫اس نے پکارا آواز دی‬ ‫احتجاج بھی کیا‬ ‫کچھ نہ میں کر سکا‬ ‫‘جیسے وہ آدم زادہ نہ ہو‬ ‫ہمالہ سے گرا‬ ‫کوئ پتھر ہو‬ ‫‪:‬اس نے کہا‬ ‫!فنکار۔۔۔۔۔۔۔“‬‫مجھے اپنی باہوں میں سما لو‬ ‫\"ازل سے پیاسا ہوں‬ ‫گھبرا کر تھوڑا سا‬ ‫)پستیوں کی جانب)‬ ‫پیچھے سرکا‬ ‫کوئی مصیبت کوئی وبال‬ ‫تہمت یا بدنامی سر نہ آئے‬

‫چیخا “فنکار کا سینہ‬ ‫!کب سے تنگ ہوا ہے؟‬‫میری باہیں غیر جنس کی باہیں ہیں؟‬ ‫ان کا تم پر کوئی حق نہیں؟؟؟‬ ‫وہ کہتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں سنتا رہا‬ ‫کیا جواب تھا میرے پاس‬ ‫!کاش‬‫میرے شعور کی آنکھیں بند ہو جاتیں‬ ‫یوں جیسے ممتا کی سماج کی‬ ‫آنکھیں بند تھیں‬ ‫سوچتا ہوں‘ مجرم کون ہے‬ ‫‘گناہ کس نے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫ماں یا سماج نے‬ ‫وہ تو اپنے گھروں میں‬ ‫آسودہ سانسوں کے ساتھ‬ ‫گرم کافی پی رہے ہوں گے‬

‫یا میں نے جو‬ ‫شب کی بھیانک تنہائ میں‬ ‫ندامت سے‬ ‫سگریٹ کے دھوئیں میں‬ ‫تحلیل ہو رہا ہوں‬ ‫گٹرکے قریب پڑا‘ وہ کنول‬ ‫مجھ سے میرے ضمیر سے‬ ‫انصاف طلب کر رہا ہے‬‫کہ تم‘ خدائے عزوجل کی تخلق کا‬ ‫یہ حشر کرتے ہو‬ ‫مجھے حرامی کہتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‬ ‫بتاؤ‘ حامی کون ہے؟‬ ‫ضمیر کس کا مردہ ہے؟‬ ‫مجرم کون ہے؟‬ ‫میں یا تم؟؟؟‬ ‫!میری بستی کے باسیو‬

‫کہ تمہیں عظیم مخلوق ہونے کا دعوی ہے‬ ‫کیا جواب دوں اسے؟‬ ‫اس کا ننھا سا معصوم چہرا‬ ‫احتجاج سے لبریزآنکھیں‬ ‫پنکھڑی سے ہونٹوں پر‬ ‫تھرکتی بےصدا سسکیاں‬ ‫مجھے پاگل کر دیں گی‬ ‫پاگل‬ ‫ہاں پاگل‬ ‫دو لقمے‬

‫تعفن میں اٹی‬ ‫‘اندھیاروں میں لیپٹی وہ بستی‬ ‫جہاں چھیتڑوں میں ملفوف زندہ لاشوں کے دل کی دھڑکنیں‬ ‫دیوار پر آویزاں کلاک کی ٹک ٹک کی آوازیں تھیں۔‬ ‫‘بھوک کی اہیں‬ ‫بےبسی کی سسکیوں میں مدغم ہو رہی تھیں۔‬ ‫آس کا سایہ آس پاس نہ تھا۔ تھا کچھ تو قاتل خاموشی تھی۔‬ ‫بھوک کا ناگ پھن پھیلائے بیٹھا تھا۔‬ ‫مایوسیوں کی اس بستی سے رحم کا دیوتا شاید خفا تھا یا پھر‬ ‫وہ بھی تہی دست تہی دامن ہو گیا تھا۔‬ ‫اک مسکراہٹ کے طلبگار یہ لاشے بے حس نہیں‘ بے بس‬ ‫تھے۔‬ ‫پھر اک لاشہ بھوک ناگ جس کے قریب تر تھا۔۔۔۔۔۔ تڑپا اور‬‫رینگ کر روشنی کی شہراہ پر آ گیا۔ اس حرکت میں اس نے اپنی‬ ‫ساری توانائی صرف کر دی۔ ہر سو اجالے تھے لیکن وہ بھوک‬‫کے سیاہ کفن میں ملبوس تھا۔۔۔۔۔۔۔۔پھر بھی۔۔۔۔۔۔۔ ہاں پھر‘ بھی وہ‬

‫زندہ تھا اور اجالوں کی شہراہ پر پڑا ہانپ رہا تھا۔ سانسیں‬ ‫بےترتیب تھیں۔ خوش پوش راہی شاید اسے دیکھ نہیں رہے‬‫تھے۔ جو دیکھ رہے تھے ناک پر رومال رکھ کر گزر رہے تھے۔‬ ‫وہ سب اس کے ہم جنس تھے۔ کتنی آس لے کر وہ یہاں تک آیا‬ ‫تھا۔ ان دیکھتے کرب لمحوں کو کون جان پاتا۔‬ ‫وہ اس بستی کا نہ تھا۔‬‫بھوک ناگ بولا‪ :‬کہاں تک بھاگو گے‘ تمہیں میرا لقمہ بننا ہی ہو‬ ‫گا کہ خود میں بھوکا ہوں۔‬ ‫پھر وہ تھوڑا آگے بڑھا۔‬‫لاشہ چلایا‪ :‬نہیں۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔ رکو۔۔۔۔۔ٹھہرو۔۔۔۔۔۔ روٹی ضرور آئے‬ ‫گی۔‬ ‫سب بےکار۔۔۔۔۔روٹی کوئی نہیں دے گا۔۔۔۔۔۔ یہ پیٹ بھر کر بھی‬ ‫آنکھوں میں بھوک لیے پھرتے ہیں۔ ان میں سے کون دے گا‬ ‫روٹی۔ ان کے ہشاش بشاش چہروں پر نہ جاؤ۔ ان کے من کی‬ ‫بھوک کو دیکھو اور میرے صبر کا امتحان نہ لو۔‬ ‫‪:‬لاشہ سٹپٹایا اور چلایا‬ ‫!اجالوں کے باسیو‬ ‫!علم و فن کے دعوےدارو‬ ‫!سیاست میں شرافت کے مدعیو‬

‫!جمہوریت کے علم بردارو‬ ‫!اسلحہ خرید کرنے والو‬ ‫!فلاحی اداروں کے نمبردارو‬ ‫‘عالمی وڈیرو‬ ‫‘کہاں ہو تم سب‬ ‫تمہارے وعدے اور دعوے کیا ہوئے؟‬‫اپنی بھوک سے دو لقمے میرے لیے بچا لو۔ بھوک ناگ میرے‬ ‫قریب آ گیا ہے۔‬ ‫دیکھو غور کرو‘ میں تمہارا ہم جنس ہوں‬ ‫‘۔ دو لقمے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں فقط دو لقمے‬ ‫میری زندگی کے ضامن ہیں۔‬ ‫ایف سولہ ہائیڈروجن بم مجھے نہیں چاہیے۔‬ ‫میری ضرورت روٹی کے دو لقمے ہیں۔‬ ‫اس دور کی یہ تمہاری بہت بڑی جیت ہو گی جو تاریخ میں‬ ‫تمہیں امر کر دے گی۔‬ ‫آخری خبریں آنے تک‬

‫کون‬ ‫انصاف‬ ‫تمہارا یہاں کیا کام‬‫جہاں میری ضرورت ہوتی ہے بن بلائے چلا آتا ہوں‬ ‫بن بلائے کی اوقات سمجھتے ہو‬ ‫جی ہاں‬ ‫اوقات عمل سے بنتی ہے‬ ‫تمہاری ماننے والے بھوکے مرے‬ ‫بھوک نے انہیں ہمیشہ سرخرو کیا ہے‬ ‫لوگ ہمیں سلام کرتے ہیں‬ ‫تمہیں نہیں‘ تمہاری شر کو سلام کہتے ہیں‬ ‫تاریخ میں دھنوان امر رہا ہے‬ ‫تاریخ پیٹ کے بندوں کا روزنامچہ ہے‬ ‫پیٹ ہی تو سب کچھ ہے‬ ‫تب ہی تو بالا سطع پر رہتے ہو‬ ‫تہہ کے متعلق تم کیا جانو‬

‫بڑے ڈھیٹ ہو‬ ‫بننا پڑتا ہے‬ ‫تمہیں تمہاری اوقات میں لانا پڑے گا‬ ‫کیا کر لو گے؟؟؟‬ ‫تمہاری ہڈی پسلی ایک کر دوں گا‬‫یہ سب تو پہلے بھی میرے ساتھ ہو چکا ہے‬ ‫کوئی نئی ترکیب سوچو‬ ‫تمہیں جلا کر راکھ کر دوں گا‬ ‫عبرت کے لیے‬ ‫تمہاری راکھ گلیوں میں بکھیر دوں گا‬ ‫یہ تو اور بھی اچھا ہو گا‬ ‫وہ کیسے؟‬ ‫میری راکھ کا ہر ذرا انقلاب بن ابھرے گا‬ ‫اہ مائی گاڈ‘ تو پھر میں کیا کروں؟‬ ‫مجھے اپنے سینے سے لگا لو‬ ‫یہ مجھ سے نہیں ہو گا‬

‫تو طے یہ ہوا‬ ‫تمہاری اور میری جنگ کا کوئی انت نہیں‬‫دیکھتا ہوں کہاں تک اذیت برداشت کرتے ہو‬ ‫چلو میں بھی دیکھتا ہوں‬ ‫اذیت میں کس حد تک جاتے ہو‬ ‫اس کے بعد‬ ‫گھمسان کی جنگ چھڑ گئی‬ ‫اور آخری خبریں آنے تک‬ ‫جنگ جاری تھی‬ ‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا‬

‫عہد شہاب میں بےحجاب بےکسی بھی عجب قیامت تھی۔ صبح‬‫اٹھتے مشقت اٹھاتےعوضوانے کو ہاتھ بڑھاتے بے نقط سنتے۔‬‫سانسیں اکھڑ جاتیں مہر بہ لب جیتے کہ سانسیں باقی تھیں۔ جینا‬ ‫تو تھا ہی لہو تو پینا تھا ہی۔‬ ‫ادھر ایونوں میں آزادی کی صدائیں گونج رہی تھیں ادھر گلیوں‬ ‫میں خوف کا پہرا تھا کہ شاہ بہرا تھا۔ شاہ والے گلیوں میں‬ ‫بےچنت کرپانیں لیے پھرتے تھے۔ نقاہت ہاتھ باندھے شکم میں‬‫بھوک آنکھوں میں پیاس لیے کھڑی تھی ہاں مگر شاہ کی دیا کا‬ ‫بول بالا تھا۔‬ ‫پنڈت کے ہونٹوں پر شانتی بغل میں درانتی ملاں بھی من میں‬ ‫تفریق کا بارود بھرے امن امن امن کیے جا رہا تھا۔‬ ‫اب جب کہ پیری پہ شنی کا پہرا ہے بھوک کا گھاؤ گہرا ہے۔‬ ‫جیب میں دمڑی نہیں امبڑی نہیں کہ وید حکیموں کے دام‬‫چکائے بڑے شفاخانے کے در پر لائے مایوسی کی کالک مٹائے‬ ‫آہیں سنے تشفی کی لوری سنائے۔ ہونٹوں پہ گلاب سجائے دل‬

‫میں کرب اٹھائے اب کون ہے جو مرے مرنے سے مر جائے۔‬ ‫بیٹے کو اپنی پتنی سے فرصت نہیں بیٹی کی ساس کپتی ہے‬ ‫بھائی کے گھر تیل نہ بتی ہے مری بہن کی کون سنتا ہے سیٹھ‬ ‫کے برتن دھو سیٹھنی کے کوسنے سن کر پیٹ بھرتی ہے۔‬ ‫بیگم روتی ہے نہ ہنسی ہے سوچتی ہے کفن دفن کے لیے‬ ‫پیسے کہاں سے آئیں گے کہیں اس کے بھائیوں کی چمڑے نہ‬ ‫ادھڑ جائے وہ تو بہنوئی کی کھاتے تھے جب بھی آتے تھے‬ ‫کچھ ناکچھ لے جاتے تھے۔‬ ‫جیتا ہوں تو مصیبت مرتا ہوں تو مصیبت۔ میں وہ ہی ہوں‬ ‫جواندھیروں میں رہ کر ایونوں کے دیپ جلاتا رہا دوا دور رہی‬ ‫مری گرہ میں تو اس اجڑے گلستان کا کرایہ نہیں۔‬ ‫گھر میں روشنی نہیں ناسہی شاید کوئی فرشتہ مری لحد میں‬ ‫بوند بھر روشنی لے کر آ جائے عمر بھر خود کو نہ دیکھ سکا‬‫سوچ سکا واں سکوں ہو گا خود کو دیکھ سکوں گا سوچ سکوں‬ ‫گا خود کو دیکھنے سوچنے کی حسرت بر آئے گی۔‬

‫خود کو دیکھ کر سوچ کر ارضی خدائی سے مکتی قلبی خدا کی‬ ‫بےکراں عظمتوں کا اسرار کھل جائے گا وہ میرا تھا میرا ہے‬‫مجھے مل جائے گا۔ سردست کفن و دفن کے سامان کی فکر ہے۔‬ ‫کفن ملے ناملے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ عمر بھر اس نے‬ ‫مری پردہ پوشی کی ہے اب بھی کرئے گا۔‬ ‫ایونوں میں بستے سفیدی میں لپٹے شیطانوں کا نگر مرا نہیں‬ ‫مرا نہیں گورنگر مرا ہو گا مرا خدا کچھ لیتا نہیں دیتا ہے۔ لینا‬ ‫مری عادت دینا اس کی فطرت روٹی کی فکر کیسی کرائے کی‬ ‫چنتا میں کیوں کروں مری جان میں آ رہا ہوں تو مختصر سہی‬ ‫مرے لیے مری حسرتوں کے لیے سات زمینوں سے بڑھ کر‬‫وسعت رکھتی ہے میں بھول میں رہا کہ یہاں کچھ بھی مرا نہ تھا‬ ‫زیست کے کچھ لمحوں کی دیری تھی تو ہی تو مری تھی‬ ‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا۔ یہ ہی فیصلہ ہوا تھا۔ یہ ہی فیصلہ ہوا تھا۔‬ ‫حیرت تو یہ ہے‬

‫موسم گل ابھی محو کلام تھا کہ‬ ‫مہتاب بادلوں میں جا چھپا‬ ‫اندھیرا چھا گیا‬ ‫پریت پرندہ‬ ‫ہوس کے جنگلوں میں کھو گیا‬ ‫اس کی بینائی کا دیا بجھ گیا‬‫کوئی ذات سے‘ کوئی حالات سے الجھ گیا‬ ‫یاد میں نہ رہا ‘کیا اپنا ہے‘ کیا بیگانہ‬ ‫بادل چھٹنے کو تھے کہ‬ ‫افق لہو اگلنے لگا‬ ‫دو بم ادھر دو ادھر گرے‬ ‫پھر تو‬ ‫ہر سو دھواں ہی دھواں تھا‬ ‫چہرے جب دھول میں اٹے تو‬ ‫ظلم کا اندھیر مچ گیا‬

‫پھر اک درویش مینار آگہی پر چڑھا‬ ‫کہنے لگا سنو سنو‬ ‫دامن سب سمو لیتا ہے‬ ‫اپنے دامن سے چہرے صاف کرو‬ ‫شاید کہ تم میں سے کوئی‬ ‫ابھی یتیم نہ ہوا ہو‬ ‫یتیمی کا ذوق لٹیا ڈبو دیتا ہے‬ ‫من کے موسم دبوچ لیتا ہے‬ ‫کون سنتا پھٹی پرانی آواز کو‬ ‫حیرت تو یہ ہے‬ ‫موسم گل کا سب کو انتظار ہے‬ ‫گرد سے اپنا دامن بھی بچاتا ہے‬ ‫اوروں سے کہے جاتا ہے‬‫چہرہ اپنا صاف کرو‘ چہرہ اپنا صاف کرو‬ ‫میں نے دیکھا‬

‫پانیوں پر‬ ‫میں اشک لکھنے چلا تھا‬ ‫دیدہءخوں دیکھ کر‬ ‫ہر بوند‬ ‫ہوا کے سفر بر نکل گئی‬ ‫منصف کے پاس گیا‬ ‫شاہ کی مجبوریوں میں‬ ‫وہ جکڑا ہوا تھا‬ ‫سوچا‬ ‫پانیوں کی بےمروتی کا‬ ‫فتوی ہی لے لیتا ہوں‬ ‫ملاں شاہ کے دستر خوان پر‬ ‫مدہوش پڑا ہوا تھا‬‫دیکھا‘ شیخ کا در کھلا ہوا ہے‬ ‫سوچا‬

‫شاید یہاں داد رسی کا‬ ‫کوئی سامان ہو جائے گا‬ ‫وہ بچارہ تو‬ ‫پریوں کے غول میں گھرا ہوا تھا‬ ‫کیا کرتا کدھر کو جاتا‬ ‫دل دروازہ کھلا‬ ‫خدا جو میرے قریب تھا‬ ‫بولا‬ ‫کتنے عجیب ہو تم بھی‬ ‫کیا میں کافی نہیں‬‫جو ہوس کے اسیروں کے پاس جاتے ہو‬ ‫میرے پاس آؤ‬ ‫ادھر ادھر نہ جاؤ‬ ‫میری آغوش میں‬ ‫تمہارے اشکوں کو پناہ ملے گی‬ ‫ہر بوند‬

‫رشک لعل فردوس بریں ہو گی‬ ‫اک قظرہ مری آنکھ سے ٹپکا‬ ‫میں نے دیکھا‬ ‫شاہ اور شاہ والوں کی گردن میں‬ ‫بے نصیبی کی زنجیر پڑی ہوئی تھی‬‫کس منہ سے‬

‫چلم بھرتے ہات‘ اٹھ نہیں سکتے‬ ‫ہونٹوں پر فقیہ عصر نے‬ ‫چپ رکھ دی ہے‬ ‫کتنا عظیم تھا وہ شخص‬ ‫گلیوں میں‬ ‫رسولوں کے لفظ بانٹتا رہا‬ ‫ان بولتے لفظوں کو‘ ہم سن نہ سکے‬ ‫آنکھوں سے‘ چن نہ سکے‬‫ہمارے کانوں میں‘ جبر کی پوریں رہیں‬ ‫آنکھوں میں خوف نے پتھر رکھ دیے‬ ‫ہم جانتے ہیں‘ وہ سچا تھا‬ ‫قول کا پکا تھا‬ ‫مرنا تو ہے‘ ہمیں یاد نہ رہا‬ ‫ہم جانتے ہیں اس نے جو کیا‬ ‫ہمارے لیے کیا‬

‫جیا تو ہمارے لیے جیا‬ ‫کتنا عجیب تھا‬ ‫زندہ لاشوں کا دم بھرتا رہا‬ ‫مصلوب ہوا ہم دیکھتے رہے‬ ‫نیزے چڑھا ہم دیکھتے رہے‬ ‫مرا جلا راکھ اڑی ہم دیکھتے رہے‬ ‫اس کے کہے پر دو گام تو چلا ہوتا‬ ‫کس منہ سے اب‬ ‫اس کی راہ دیکھتے ہیں‬ ‫ہم خاموش تماشائی‬‫مظلومیت کا فقط ڈھونگ رچاتے ہیں‬ ‫بے جان جیون کے دامن میں‬ ‫غیرت کہاں جو رن میں اترے‬ ‫یا پھر‬ ‫پس لب اس کی مدح ہی کر سکے‬ ‫چلو دنیا چاری ہی سہی‬

‫آؤ‬ ‫اندرون لب دعا کریں‬ ‫ان مول سی مدح کہیں‬‫حیات کے برزخ میں‬

‫تلاش معنویت کے سب لمحے‬ ‫صدیاں ڈکار گئیں‬‫چیتھڑوں میں ملبوس معنویت کا سفر‬ ‫اس کنارے کو چھو نہ سکا‬ ‫تاسف کے دو آنسو‬ ‫کاسہءمحرومی کا مقدر نہ بن سکے‬ ‫کیا ہو پاتا کہ شب کشف‬ ‫دو رانوں کی مشقت میں کٹ گئی‬ ‫صبح دھیان‬ ‫نان نارسا کی نذر ہوئی‬ ‫شاعر کا کہا‬ ‫بےحواسی کا ہم نوا ہوا‬ ‫دفتر رفتہ شاہ کے گیت گاتا رہا‬ ‫وسیبی حکائتیں بےوقار ہوئیں‬ ‫قرطاس فکر پہ نہ چڑھ سکیں‬ ‫گویا روایت کا جنازہ اٹھ گیا‬

‫ضمیر بھی چاندی میں تل گیا‬ ‫مجذوب کے خواب میں گرہ پڑی‬ ‫مکیش کے نغموں سے طبلہ پھسل گیا‬ ‫درویش کے حواس بیدار نقطے‬ ‫ترقی کا ڈرم نگل گیا‬ ‫نہ مشرق رہا نہ مغرب اپنا بنا‬ ‫آخر کب تک یتیم جیون‬ ‫حیات کے برزخ میں‬ ‫شناخت کے لیے بھٹکتا رہے‬‫سورج دوزخی ہو گیا تھا‬

‫گدھ‬‫خلیج کے بیماروں کی سانسیں گن رہے ہیں‬ ‫لاشوں کو کفن دفن‬ ‫غسل کی ضرورت نہیں ہو گی‬ ‫‪ ١٦‬اگست ‪ ١٩٤٥‬کو‬ ‫سورج دوزخی ہو گیا تھا‬ ‫گنگا سے اٹھتے بخارات‬ ‫دعا کا اٹھتے ہات‬ ‫گلاب کی مہک‬ ‫مٹی سے رشتے‬ ‫کب پوتر رہے ہیں‬ ‫درگاوتی کی عصمت مرنے کے بعد‬ ‫اپنوں کے ہات لٹ گئی تھی‬ ‫‘ہم تو‬ ‫حنوط شدہ ممیاں ہیں‬

‫رگوں میں لہو نہیں‬ ‫کیمیکل دوڑتا ہے کہ‬ ‫آکسیجن جلتی نہیں‬ ‫جلنے میں معاون ہے‬ ‫ڈوبتی سانسوں کو‬ ‫مسیحا کی ضرورت نہیں‬ ‫گوشت گدھ کھائیں گے‬ ‫‘ہڈیاں‬ ‫فاسفورس کی کانیں ہیں‬ ‫یہودی لابی کے گلے کھلے ہیں‬ ‫بٹنوں کی سخت ضرورت ہے‬‫فیکٹری کا دھواں‬

‫اس نے کہا‬ ‫یہ سب کس کے لیے لکھتے ہو‬ ‫میں نے کہا‬ ‫تمہارے لیے‬ ‫بولا‬ ‫مگر مجھے تم سے گھن آتی ہے‬‫میلے میلے لفظوں میلے میلے جذبوں سے‬ ‫روشنیوں کی بات کرو‬ ‫حسن کی کہو‬ ‫حسین آنکھوں سے‬ ‫ٹپکتی شاب کی بات کرو‬ ‫کانچ سے بدنوں سے‬ ‫ٹپکتے رومان کی بات کرو‬ ‫بہاروں میں مچلتے شباب کی بات کرو‬ ‫شہرت ملے گی ‘روٹی ملے گی‬

‫بھوک اور افلاس‬ ‫کیا رکھا ہے چیٹھڑوں کی دنیا میں‬ ‫سوچتا ہوں‬ ‫شہرت لے لوں‬ ‫روٹی لے لوں‬ ‫کئی روز کی بھوک ہے‬ ‫لباس بھی الجھا الجھا ہے‬ ‫سسکتے بلکتے جذبوں کو‬ ‫بےلباسی کی دنیا میں رہنے دوں‬ ‫پھر سوچ کے افق سے‬ ‫اک شہاب ثاقب ٹوٹا‬ ‫زہریلی سوچ کا چہرا‬ ‫فیکٹری کی چمنی سے‬ ‫اٹھتے دھویں میں مدغم ہو گیا‬‫مطلع رہیں‬

‫مسز ریحانہ کوثر‬ ‫بلا دکھ تحریر کیا جاتا ہے‬ ‫آپ کی خدمات کی اب یہاں‬ ‫ضرورت نہیں رہی‬‫آپ کی بریزئر کا سائز بڑھ گیا ہے‬ ‫آنکھوں کے گرد حلقے بھی ہیں‬ ‫بالوں میں چاندی آ گئی ہے‬ ‫رخسار پچک گئے ہیں‬ ‫روزن نشاط کی فراخی سے‬ ‫پرفومنس گھٹ گئی ہے‬ ‫سابقہ کارگزاری کے پیش نظر‬ ‫کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے‬ ‫آپ کی بیٹی ظل ہما کو‬ ‫آپ کی سیٹ پر‬ ‫آپ کے ہی پے سکیل پر‬ ‫مع مروجہ الاؤنسز‬

‫اکتیس مئی کلوزنگ ٹائم تک‬ ‫تعینات کیا جا سکتا ہے‬ ‫آپ کو ہدایت کی جاتی ہے‬ ‫تاریخ مقررہ کے اندر‬ ‫زیر دستخطی کو مطلع کریں‬‫اپنے واجبات کی وصولی کے لیے‬ ‫زیر دستخطی کے‬ ‫حاضر ہونے کی ضرورت نہیں‬ ‫یہ خدمت اب‬ ‫آفس سپرٹنڈنٹ انجام دیتا ہے‬ ‫فائلوں کی سیاہی سپیدی کا‬ ‫وہ ہی تو مالک ہے‬ ‫مطلع رہیں‬ ‫ضروری نوت‬ ‫آپ اپنی کنگی اور نیل پالش‬ ‫ہمارے میز پر کل کی امید میں‬

‫بھول گئی ہیں‬ ‫یہ چیزیں‬ ‫جن کی آپ کو اشد ضرورت ہو گی‬ ‫مس ظل ہما کو‬ ‫آفس ٹائم کے بعد بھیج کر‬ ‫منگوا سکتی ہیں‬ ‫کہ ان کی اب یاں ضرورت نہیں رہی‬ ‫مطلع رہیں‬‫امید ہی تو زندگی ہے‬

‫زکرا بولے جا رہی تھی‬ ‫بولے جا رہی تھی‬ ‫مسلسل بولے جا رہی تھی‬‫شاید آتی صدیوں کے غم مٹا رہی تھی‬ ‫خوب گرجی خوب برسی‬ ‫اس کے گرجنے میں دھواں‬ ‫برسنے میں مسلا دھار تھی‬ ‫رانی توپ کے گرجنے سے‬ ‫حمل گر جاتے تھے‬ ‫برسنے سے‬ ‫بستیاں زمین بوس ہوتی تھیں‬ ‫اس کے برسنے سے‬ ‫سکون کے شہر آگ پکڑتے تھے‬ ‫گرجنے سے حواس‬ ‫بدحواس ہوتے تھے‬ ‫کس سے گلہ کرتا‬

‫جھورا مردود مر چکا تھا‬ ‫تھیلا مردود آج بھی‬ ‫رشوت ڈکارتا ہے‬ ‫وہ چپ تھا‬ ‫مسلسل چپ تھا‬ ‫منہ میں زبان رکھتا تھا‬ ‫پھر بھی چپ تھا‬ ‫چپ میں شاید اسے سکھ تھا‬ ‫جو بھی سہی‬ ‫یہ سوال نوشتہءدیوار بنا تھا‬ ‫وہ چپ تھا تو کیوں چپ تھا‬ ‫ہر زبان پر یہ ہی سوال تھا‬ ‫وہ بزدل تھا‬ ‫یا صبر میں باکمال تھا‬‫کچھ اسے زن مرید کہتے تھے‬ ‫کسی کے خیال میں‬

‫مرد کی انا کا وہ کھلا زوال تھا‬ ‫وہ تو خیر زیر عتاب تھا ہی‬ ‫اس کے پچھلے بھی‬‫کوسنوں کے دفتر چڑھ رہے تھے‬ ‫اس سے کوئی کیوں پوچھتا‬ ‫ہر دوسرے‬ ‫امریش پوری سے ڈائیلاگ‬ ‫سننے کو ملتے تھے‬ ‫نمرود وقت بھی‬ ‫کانوں پر پہرے نہیں رکھ سکتا‬ ‫پہلے ریڈیو ہی تو تھا‬ ‫ٹی وی تو کل کی دین ہے‬ ‫کان سنتے تھے‬ ‫تصور امیج بناتا تھا‬ ‫آخر چپ تھا تو کیوں چپ تھا‬ ‫اک روز میں نے پوچھ ہی لیا‬

‫میرا کہا‬ ‫اس کے قہقہوں میں اڑنے لگا‬ ‫میں نے سوچا‬ ‫کہنا کچھ تھا‬ ‫شاید کہہ کچھ اور گیا ہوں‬ ‫بھول میں‬ ‫کسی سردار کا لطیفہ کہہ گیا ہوں‬ ‫بھلکڑ ہوں‬ ‫یہ قول زریں مری زوجہ کا ہے‬ ‫زوجہ کے کہے کو غلط کہوں‬ ‫کہوں تو کس بل پر‬‫اگلے سے ناسہی اس جہان سے جاؤں گا‬ ‫مہر بہ لب رہا کہ‬ ‫دیواروں کو بھی کان ہوتے ہیں‬‫مجھے کیا پڑی غیروں کی اپنے سر لوں‬ ‫میں نے بھی چپ میں عافیت جانی‬

‫ہم کیؤں پرائی آگ میں کودیں‬ ‫مرے لیے خالہ کی لگائی ہی کافی ہے‬ ‫خود چل بسی‬ ‫میں بھی چل بسوں سامان کر گئی ہے‬ ‫پھر وہ دفعتا چپ ہو گیا‬ ‫مری طرف‬ ‫بےبس بے کس نظروں سے دیکھنے لگا‬ ‫چند لمحے خامشی رہی‬ ‫جاہل جانتے ہو‬ ‫بولنے میں کتنے اعضا خرچ ہوتے ہیں‬ ‫یہ کیا جواب ہوا بھلا ‘حیرت ہوئی‬ ‫غصہ میں بولنے سے‬ ‫چودہ اعضا کشٹ اٹھاتے ہیں‬ ‫مرا کیا ہے‬ ‫ادھر سے سنتا ہوں ادھر سے نکال دیتا ہوں‬‫چہرے کے بدلتے رنگوں کا اپنا ہی سواد ہوتا ہے‬

‫ہاں سٹپٹانے میں‬ ‫کھونے کے آثار ہوتے ہیں‬ ‫گھورنے بسورنے میں‬ ‫کہکشانی اطوار ہوتے ہیں‬ ‫شخص پڑھو کہ حیات کے‬ ‫تم پر پوشیدہ اطوار کھلیں‬ ‫ہاں غصہ میں‬ ‫دماغ کی کوئی نس پھٹ سکتی ہے‬ ‫خیر یہ وقت خیر نہیں آئے گا‬ ‫دماغ ہوتا تو صبر کا جہاں آباد کرتی‬ ‫دل کا دورہ بھی بعید از قیاس نہیں‬ ‫اس امید پر ہی تو جی رہا ہوں‬ ‫کبھی تو غصہ کے افق سے‬ ‫خوشی کا چاند مسکرائے گا‬ ‫پھر مستی میں آ کر گنگنائے گا‬‫آ گئی بہار گلوں کا رنگ اور بھی نکھر گیا‬

‫پیاسی آتمائیں آ رہی ہیں روپ بدل بدل کے‬ ‫میں پڑھا لکھا سہی‬ ‫اپنی اوقات میں ہوں تو مزدور‬ ‫زوجہ گزیدہ ہوں‬ ‫بھاشا فلسفے کی میں کیا جانوں‬ ‫بولا‪ :‬جاؤ امید پر زندہ رہو‬ ‫امید پر میں زندہ ہوں‬ ‫امید ہی تو زندگی ہے‬ ‫میٹھی گولی‬

‫ہم کچھ دوست‬ ‫ہوٹل میں چائے پیتے ہیں‬ ‫اور اکثر پیتے ہیں‬ ‫سچی پوچھو تو‬ ‫چائے پر ہی تو جیتے ہیں‬ ‫زندگی میں ورنہ‬ ‫چائے کے سوا رکھا کیا ہے‬ ‫بھوک کا پرنا پیاس کا پٹکا‬ ‫ہماری زیست کا یہ ہی اثاثہ ہے‬‫جسے دیکھو رکھے ہے ہزار گز کا نٹکا‬ ‫امیر وقت‬ ‫بات گریبوں کی کرتا ہے‬ ‫کھیسہ مگر اپنا بھرتا ہے‬ ‫ہر بولتا‬ ‫سر بازار نیلام ہوتا ہے‬

‫سر اس کے‬ ‫کوئی ناکوئی الزام ہوتا ہے‬ ‫بےکیے خوب بدنام ہوتا ہے‬ ‫امیر وقت کو کون پوچھے‬ ‫کہا اس کا بےلگام ہوتا ہے‬ ‫کوئی ایشور کا اسے اوتار کہے‬ ‫اس کی کرتوتوں سے بےخبر‬‫مقدس روحوں کا اسے سالار سمجھیں‬ ‫یہ ہی نہیں‬ ‫نوع انسانی کا وقار سمجھیں‬‫سب چمچے اسے کان رزق کہتے ہیں‬ ‫مورکھ بھی اسی کے گن گاتا ہے‬ ‫حیرت تو یہ ہے‬ ‫جس خوبی کا وہ تاعمر قاتل رہا‬ ‫اسی خوبی کو‬ ‫مورکھ اس کی گرہ میں رکھتا رہا‬

‫اسے جینا ہے‬ ‫یہ ہی اس کا طور رہا‬ ‫یہ کوئی نئی بات نہیں‬ ‫ہر دور اہل ثروت کا دور رہا‬ ‫کوئی بھوک مرتا ہے مرے‬ ‫انہیں اس سے کیا‬ ‫ان کی بلا سے‬ ‫گریب کے بچے بےلباس ہیں‬ ‫وہ کیا کریں انہیں کیا‬ ‫ان کا اس سے کوئی کام نہیں‬ ‫مالک تو ہے نا‬‫گریب کا سنور جاتا ہے دعا سے‬ ‫خیر چھوڑیے ان باتوں کو‬ ‫کوئی نئی بات ہو تو بات کریں‬ ‫جو وقت گزر گیا سو گزر گیا‬ ‫ان بےگھر بےبستر راتوں کو‬

‫یاد کیوں کریں‬ ‫ہاں بس اتنا دکھ ہے‬ ‫گریب کی روکھی سوکھی پر‬ ‫پنجہ رکھ کر‬ ‫تاج محل کبھی نور محل تعمیر ہوا‬ ‫شاہ پھر بھی دیالو ہے کرپالو ہے‬‫پھر بھی لوگ ان سے آسیں باندھیں‬ ‫ان کی آنکھوں میں ٹک تلاشیں‬‫امید کی قاشیں کب یک جا ہوتی ہیں‬ ‫پتی پتی گلاب بُنے‬ ‫قدموں میں اس کے بکھری پتیاں‬ ‫حسن کے ماتھے پر ناقدری کا ٹکا‬ ‫قدموں میں بکھری‬ ‫پتیوں کو کون چنے‬ ‫جو چننے بیٹھے گا‬ ‫پولے کھائے گا۔‬

‫خیر چھوڑیں‬‫میں کیا ظلم و ستم کی رام کہانی لے بیٹھا ہوں‬ ‫چائے کی مست پیالی میں‬ ‫ہمارا امریکی طور نہیں رہا‬ ‫کبھی میں کبھی وہ‬ ‫ادائیگی کر دیتے ہیں‬ ‫ہم ایک کشتی کے مسافر ہیں‬ ‫پھر تو میں کیسی‬ ‫اک روز کیا ہوا‬ ‫بچہ جو چائے لا کر دیتا تھا‬ ‫ہاتھ سے اس کے برتن گرے اور ٹوٹ گئے‬ ‫پھر کیا تھا‬ ‫مالک نے وہ مارا‬ ‫اشک فرشتوں کے بھی گرے ہوں گے‬ ‫وہ دن اس کے‬‫الف انار بے بکری تے تختی پڑھنے کے تھے‬

‫بھوک اسے وہاں لائی تھی‬‫الله جانے کتنی مجبور اس کی مائی تھی‬ ‫سچی بات تو یہ ہے‬ ‫مری چائے حرام ہوئی‬ ‫میں بےبس کنگلا کیا کر سکتا تھا‬ ‫بس دو بےبس اشک بہا سکتا تھا‬ ‫میرا یہ ہی کل سرمایا تھا‬ ‫زیست میں یہ ہی کچھ کمایا تھا‬ ‫جب برتن لینے وہ آیا‬ ‫میں نے اسے گلے لگایا‬ ‫رویا پیار کیا منہ ماتھا چوما‬ ‫چپ چاپ وہاں سے اٹھ آیا‬ ‫جہاں نمرود کی شریعت چلتی ہو‬ ‫وہاں پھر کیا آنا کیا جانا‬ ‫بعد مدت مرا اس کا ملنا ہوا‬ ‫ہماری آنکھیں ملیں‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook