مجھے ڈر لگتا ہے علم و فن کے کالے سویروں سے جن کے بطن سے ہوس کے ناگ جنم لیتے ہیں منصف کے من کی آواز کو جو ڈس لیتے ہیں سہاگن کے سہاگ کی پیاسی آتما سے ہوس کی آگ بجھاتے ہیںسچ کے موسموں کے چراغوں کی روشنی دھندلا دھندلا دیتے ہیں حقیقتوں کا ہم زاد گھبرا کر ویران اور اداس لفظوں کا آس سے
جو خود فریبی کے جھولے میں پڑی فرار کے رستے سوچ رہی ہے رستہ پوچھتا ہےان زہریلے ناگوں کی آنکھوں کی مقناطیسیت اپنے حصار میں اسے بھی لے لیتی ہے یہ ناگ انا اور اساس کو بھی ڈستے ہیں یہ خونی منظر دیکھ کر کانپ جاتا ہوں کہ یہ اب ضمیر کو بھی ڈس لیں گے کالے سویروں کی زرد روشنی کے سائے جوں جوں دراز ہوتے ہیں زندگی کو اک اور کربلا سے گزرنا پڑتا ہے ان ناگوں کی زبانیں زہر میں بجھی ‘چمکتی تیز دھار تلواریں ہیں
گھاؤ کرنے میں یہ اپنا جواب نہیں رکھتیں زندگی خوف کے سائے میں کیوں کر پروان چڑھ سکتی ہے جہاں کوئی روٹی دینے والا نہیں پانی کی اک بوند نایاب ہےجہاں خودکشی حرام جینا جرم ہے جہاں نیلے آسمان کی چاند ستاروں سے لبریز چھت اپنی نہیں ہوا کا بھی گزر نہیں ہوتا بدلتے موسوں کا تصور شیخ چلی کا خواب ہے بوسیدگی اور غلاظت شخص کا مقدر ہے یا پھر
زہر بجھی یہ چمکتی تلواریں ہیں یہ ہی کچھ ہے ‘یقین مانو پھر میںیاس کی تاریکیوں کی تمنا کرتا ہوں جانت ہوں کہ یہ ناگ تاریکیوں سے نہیں گھبرائیں گے پھر بھی کاٹیں گے گدھ نوچیں گے کتے ہڈیوں پر ٹوٹیں گے ہر ہڈی پر گھمسان کا رن ہو گااپنا حصہ لگڑ بگڑ بھی مانگیں گے فاسفورس کی بانٹ ًپر بھی تنازعے اٹھیں گے درد پھر بھی ہو گا کرب پھر بھی ہو گا
زہر پھر بھی پھیلے گا کانچ بدن پھر بھی نیلا ہو گامایوسی کی سیاہ ذلفوں کے سائے میں بصارت کو بصیرت کو شائد پناہ مل جائے گیمیں ناگوں کے پہرے نہ دیکھ سکوں گا لہو رستے پر نظر نہ جائے گی مگر کیا کروں سچ کی حسین تمنا مجھے مرنے نہیں مرنے نہیں دے گی اور میں اس سراب جیون میں نہ مروں گا نہ جی سکوں گاکیچڑ کا کنول
میلا سا چیتھڑا ‘آلودہ شاید حاجت سے بچا ہوگا ‘آدم زادے کا پراہین !عییب نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔؟ گلاب سے چہرے پر دیکھتی آنکھیں ‘بلور ایسی حیرت خوف غم غصہ اورافسوس جانے کیا کچھ تھا ان میں سماج کی بےحسی پہان ٹھہری مگر دیکھتی آنکھوں میں دو بوند‘ لہو سی صدیوں کے ظلم کی داستان لیے ہوئے تھیں اتنی حدت اتنی اتنی تپش کہ
پتھر بھی پگھل کر پانی ہو ترسی ترسی باہیںمیرے بوبی کی باہیں ایسی ہی تھیں کہ جب وہ بچہ تھا تب محبتوں کا حصار تھا اور اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خفت ندامت کا حصار مرے گرد ہے لمحہ بہ لمحہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دائرہ تنگ ہو رہا ہے مجھے فنکار سے نسبت ہے فنکار‘ سب کا درد سینے کی وسعتوں میں سمو لیتا ہے ‘اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساکت وجامد مٹی کے بت کی طرح
خاموش تماشائی تھا اس نے پکارا آواز دی احتجاج بھی کیا کچھ نہ میں کر سکا ‘جیسے وہ آدم زادہ نہ ہو ہمالہ سے گرا کوئ پتھر ہو :اس نے کہا !فنکار۔۔۔۔۔۔۔“مجھے اپنی باہوں میں سما لو \"ازل سے پیاسا ہوں گھبرا کر تھوڑا سا )پستیوں کی جانب) پیچھے سرکا کوئی مصیبت کوئی وبال تہمت یا بدنامی سر نہ آئے
چیخا “فنکار کا سینہ !کب سے تنگ ہوا ہے؟میری باہیں غیر جنس کی باہیں ہیں؟ ان کا تم پر کوئی حق نہیں؟؟؟ وہ کہتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں سنتا رہا کیا جواب تھا میرے پاس !کاشمیرے شعور کی آنکھیں بند ہو جاتیں یوں جیسے ممتا کی سماج کی آنکھیں بند تھیں سوچتا ہوں‘ مجرم کون ہے ‘گناہ کس نے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ ماں یا سماج نے وہ تو اپنے گھروں میں آسودہ سانسوں کے ساتھ گرم کافی پی رہے ہوں گے
یا میں نے جو شب کی بھیانک تنہائ میں ندامت سے سگریٹ کے دھوئیں میں تحلیل ہو رہا ہوں گٹرکے قریب پڑا‘ وہ کنول مجھ سے میرے ضمیر سے انصاف طلب کر رہا ہےکہ تم‘ خدائے عزوجل کی تخلق کا یہ حشر کرتے ہو مجھے حرامی کہتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ بتاؤ‘ حامی کون ہے؟ ضمیر کس کا مردہ ہے؟ مجرم کون ہے؟ میں یا تم؟؟؟ !میری بستی کے باسیو
کہ تمہیں عظیم مخلوق ہونے کا دعوی ہے کیا جواب دوں اسے؟ اس کا ننھا سا معصوم چہرا احتجاج سے لبریزآنکھیں پنکھڑی سے ہونٹوں پر تھرکتی بےصدا سسکیاں مجھے پاگل کر دیں گی پاگل ہاں پاگل دو لقمے
تعفن میں اٹی ‘اندھیاروں میں لیپٹی وہ بستی جہاں چھیتڑوں میں ملفوف زندہ لاشوں کے دل کی دھڑکنیں دیوار پر آویزاں کلاک کی ٹک ٹک کی آوازیں تھیں۔ ‘بھوک کی اہیں بےبسی کی سسکیوں میں مدغم ہو رہی تھیں۔ آس کا سایہ آس پاس نہ تھا۔ تھا کچھ تو قاتل خاموشی تھی۔ بھوک کا ناگ پھن پھیلائے بیٹھا تھا۔ مایوسیوں کی اس بستی سے رحم کا دیوتا شاید خفا تھا یا پھر وہ بھی تہی دست تہی دامن ہو گیا تھا۔ اک مسکراہٹ کے طلبگار یہ لاشے بے حس نہیں‘ بے بس تھے۔ پھر اک لاشہ بھوک ناگ جس کے قریب تر تھا۔۔۔۔۔۔ تڑپا اوررینگ کر روشنی کی شہراہ پر آ گیا۔ اس حرکت میں اس نے اپنی ساری توانائی صرف کر دی۔ ہر سو اجالے تھے لیکن وہ بھوککے سیاہ کفن میں ملبوس تھا۔۔۔۔۔۔۔۔پھر بھی۔۔۔۔۔۔۔ ہاں پھر‘ بھی وہ
زندہ تھا اور اجالوں کی شہراہ پر پڑا ہانپ رہا تھا۔ سانسیں بےترتیب تھیں۔ خوش پوش راہی شاید اسے دیکھ نہیں رہےتھے۔ جو دیکھ رہے تھے ناک پر رومال رکھ کر گزر رہے تھے۔ وہ سب اس کے ہم جنس تھے۔ کتنی آس لے کر وہ یہاں تک آیا تھا۔ ان دیکھتے کرب لمحوں کو کون جان پاتا۔ وہ اس بستی کا نہ تھا۔بھوک ناگ بولا :کہاں تک بھاگو گے‘ تمہیں میرا لقمہ بننا ہی ہو گا کہ خود میں بھوکا ہوں۔ پھر وہ تھوڑا آگے بڑھا۔لاشہ چلایا :نہیں۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔ رکو۔۔۔۔۔ٹھہرو۔۔۔۔۔۔ روٹی ضرور آئے گی۔ سب بےکار۔۔۔۔۔روٹی کوئی نہیں دے گا۔۔۔۔۔۔ یہ پیٹ بھر کر بھی آنکھوں میں بھوک لیے پھرتے ہیں۔ ان میں سے کون دے گا روٹی۔ ان کے ہشاش بشاش چہروں پر نہ جاؤ۔ ان کے من کی بھوک کو دیکھو اور میرے صبر کا امتحان نہ لو۔ :لاشہ سٹپٹایا اور چلایا !اجالوں کے باسیو !علم و فن کے دعوےدارو !سیاست میں شرافت کے مدعیو
!جمہوریت کے علم بردارو !اسلحہ خرید کرنے والو !فلاحی اداروں کے نمبردارو ‘عالمی وڈیرو ‘کہاں ہو تم سب تمہارے وعدے اور دعوے کیا ہوئے؟اپنی بھوک سے دو لقمے میرے لیے بچا لو۔ بھوک ناگ میرے قریب آ گیا ہے۔ دیکھو غور کرو‘ میں تمہارا ہم جنس ہوں ‘۔ دو لقمے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں فقط دو لقمے میری زندگی کے ضامن ہیں۔ ایف سولہ ہائیڈروجن بم مجھے نہیں چاہیے۔ میری ضرورت روٹی کے دو لقمے ہیں۔ اس دور کی یہ تمہاری بہت بڑی جیت ہو گی جو تاریخ میں تمہیں امر کر دے گی۔ آخری خبریں آنے تک
کون انصاف تمہارا یہاں کیا کامجہاں میری ضرورت ہوتی ہے بن بلائے چلا آتا ہوں بن بلائے کی اوقات سمجھتے ہو جی ہاں اوقات عمل سے بنتی ہے تمہاری ماننے والے بھوکے مرے بھوک نے انہیں ہمیشہ سرخرو کیا ہے لوگ ہمیں سلام کرتے ہیں تمہیں نہیں‘ تمہاری شر کو سلام کہتے ہیں تاریخ میں دھنوان امر رہا ہے تاریخ پیٹ کے بندوں کا روزنامچہ ہے پیٹ ہی تو سب کچھ ہے تب ہی تو بالا سطع پر رہتے ہو تہہ کے متعلق تم کیا جانو
بڑے ڈھیٹ ہو بننا پڑتا ہے تمہیں تمہاری اوقات میں لانا پڑے گا کیا کر لو گے؟؟؟ تمہاری ہڈی پسلی ایک کر دوں گایہ سب تو پہلے بھی میرے ساتھ ہو چکا ہے کوئی نئی ترکیب سوچو تمہیں جلا کر راکھ کر دوں گا عبرت کے لیے تمہاری راکھ گلیوں میں بکھیر دوں گا یہ تو اور بھی اچھا ہو گا وہ کیسے؟ میری راکھ کا ہر ذرا انقلاب بن ابھرے گا اہ مائی گاڈ‘ تو پھر میں کیا کروں؟ مجھے اپنے سینے سے لگا لو یہ مجھ سے نہیں ہو گا
تو طے یہ ہوا تمہاری اور میری جنگ کا کوئی انت نہیںدیکھتا ہوں کہاں تک اذیت برداشت کرتے ہو چلو میں بھی دیکھتا ہوں اذیت میں کس حد تک جاتے ہو اس کے بعد گھمسان کی جنگ چھڑ گئی اور آخری خبریں آنے تک جنگ جاری تھی یہ ہی فیصلہ ہوا تھا
عہد شہاب میں بےحجاب بےکسی بھی عجب قیامت تھی۔ صبحاٹھتے مشقت اٹھاتےعوضوانے کو ہاتھ بڑھاتے بے نقط سنتے۔سانسیں اکھڑ جاتیں مہر بہ لب جیتے کہ سانسیں باقی تھیں۔ جینا تو تھا ہی لہو تو پینا تھا ہی۔ ادھر ایونوں میں آزادی کی صدائیں گونج رہی تھیں ادھر گلیوں میں خوف کا پہرا تھا کہ شاہ بہرا تھا۔ شاہ والے گلیوں میں بےچنت کرپانیں لیے پھرتے تھے۔ نقاہت ہاتھ باندھے شکم میںبھوک آنکھوں میں پیاس لیے کھڑی تھی ہاں مگر شاہ کی دیا کا بول بالا تھا۔ پنڈت کے ہونٹوں پر شانتی بغل میں درانتی ملاں بھی من میں تفریق کا بارود بھرے امن امن امن کیے جا رہا تھا۔ اب جب کہ پیری پہ شنی کا پہرا ہے بھوک کا گھاؤ گہرا ہے۔ جیب میں دمڑی نہیں امبڑی نہیں کہ وید حکیموں کے دامچکائے بڑے شفاخانے کے در پر لائے مایوسی کی کالک مٹائے آہیں سنے تشفی کی لوری سنائے۔ ہونٹوں پہ گلاب سجائے دل
میں کرب اٹھائے اب کون ہے جو مرے مرنے سے مر جائے۔ بیٹے کو اپنی پتنی سے فرصت نہیں بیٹی کی ساس کپتی ہے بھائی کے گھر تیل نہ بتی ہے مری بہن کی کون سنتا ہے سیٹھ کے برتن دھو سیٹھنی کے کوسنے سن کر پیٹ بھرتی ہے۔ بیگم روتی ہے نہ ہنسی ہے سوچتی ہے کفن دفن کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے کہیں اس کے بھائیوں کی چمڑے نہ ادھڑ جائے وہ تو بہنوئی کی کھاتے تھے جب بھی آتے تھے کچھ ناکچھ لے جاتے تھے۔ جیتا ہوں تو مصیبت مرتا ہوں تو مصیبت۔ میں وہ ہی ہوں جواندھیروں میں رہ کر ایونوں کے دیپ جلاتا رہا دوا دور رہی مری گرہ میں تو اس اجڑے گلستان کا کرایہ نہیں۔ گھر میں روشنی نہیں ناسہی شاید کوئی فرشتہ مری لحد میں بوند بھر روشنی لے کر آ جائے عمر بھر خود کو نہ دیکھ سکاسوچ سکا واں سکوں ہو گا خود کو دیکھ سکوں گا سوچ سکوں گا خود کو دیکھنے سوچنے کی حسرت بر آئے گی۔
خود کو دیکھ کر سوچ کر ارضی خدائی سے مکتی قلبی خدا کی بےکراں عظمتوں کا اسرار کھل جائے گا وہ میرا تھا میرا ہےمجھے مل جائے گا۔ سردست کفن و دفن کے سامان کی فکر ہے۔ کفن ملے ناملے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ عمر بھر اس نے مری پردہ پوشی کی ہے اب بھی کرئے گا۔ ایونوں میں بستے سفیدی میں لپٹے شیطانوں کا نگر مرا نہیں مرا نہیں گورنگر مرا ہو گا مرا خدا کچھ لیتا نہیں دیتا ہے۔ لینا مری عادت دینا اس کی فطرت روٹی کی فکر کیسی کرائے کی چنتا میں کیوں کروں مری جان میں آ رہا ہوں تو مختصر سہی مرے لیے مری حسرتوں کے لیے سات زمینوں سے بڑھ کروسعت رکھتی ہے میں بھول میں رہا کہ یہاں کچھ بھی مرا نہ تھا زیست کے کچھ لمحوں کی دیری تھی تو ہی تو مری تھی یہ ہی فیصلہ ہوا تھا۔ یہ ہی فیصلہ ہوا تھا۔ یہ ہی فیصلہ ہوا تھا۔ حیرت تو یہ ہے
موسم گل ابھی محو کلام تھا کہ مہتاب بادلوں میں جا چھپا اندھیرا چھا گیا پریت پرندہ ہوس کے جنگلوں میں کھو گیا اس کی بینائی کا دیا بجھ گیاکوئی ذات سے‘ کوئی حالات سے الجھ گیا یاد میں نہ رہا ‘کیا اپنا ہے‘ کیا بیگانہ بادل چھٹنے کو تھے کہ افق لہو اگلنے لگا دو بم ادھر دو ادھر گرے پھر تو ہر سو دھواں ہی دھواں تھا چہرے جب دھول میں اٹے تو ظلم کا اندھیر مچ گیا
پھر اک درویش مینار آگہی پر چڑھا کہنے لگا سنو سنو دامن سب سمو لیتا ہے اپنے دامن سے چہرے صاف کرو شاید کہ تم میں سے کوئی ابھی یتیم نہ ہوا ہو یتیمی کا ذوق لٹیا ڈبو دیتا ہے من کے موسم دبوچ لیتا ہے کون سنتا پھٹی پرانی آواز کو حیرت تو یہ ہے موسم گل کا سب کو انتظار ہے گرد سے اپنا دامن بھی بچاتا ہے اوروں سے کہے جاتا ہےچہرہ اپنا صاف کرو‘ چہرہ اپنا صاف کرو میں نے دیکھا
پانیوں پر میں اشک لکھنے چلا تھا دیدہءخوں دیکھ کر ہر بوند ہوا کے سفر بر نکل گئی منصف کے پاس گیا شاہ کی مجبوریوں میں وہ جکڑا ہوا تھا سوچا پانیوں کی بےمروتی کا فتوی ہی لے لیتا ہوں ملاں شاہ کے دستر خوان پر مدہوش پڑا ہوا تھادیکھا‘ شیخ کا در کھلا ہوا ہے سوچا
شاید یہاں داد رسی کا کوئی سامان ہو جائے گا وہ بچارہ تو پریوں کے غول میں گھرا ہوا تھا کیا کرتا کدھر کو جاتا دل دروازہ کھلا خدا جو میرے قریب تھا بولا کتنے عجیب ہو تم بھی کیا میں کافی نہیںجو ہوس کے اسیروں کے پاس جاتے ہو میرے پاس آؤ ادھر ادھر نہ جاؤ میری آغوش میں تمہارے اشکوں کو پناہ ملے گی ہر بوند
رشک لعل فردوس بریں ہو گی اک قظرہ مری آنکھ سے ٹپکا میں نے دیکھا شاہ اور شاہ والوں کی گردن میں بے نصیبی کی زنجیر پڑی ہوئی تھیکس منہ سے
چلم بھرتے ہات‘ اٹھ نہیں سکتے ہونٹوں پر فقیہ عصر نے چپ رکھ دی ہے کتنا عظیم تھا وہ شخص گلیوں میں رسولوں کے لفظ بانٹتا رہا ان بولتے لفظوں کو‘ ہم سن نہ سکے آنکھوں سے‘ چن نہ سکےہمارے کانوں میں‘ جبر کی پوریں رہیں آنکھوں میں خوف نے پتھر رکھ دیے ہم جانتے ہیں‘ وہ سچا تھا قول کا پکا تھا مرنا تو ہے‘ ہمیں یاد نہ رہا ہم جانتے ہیں اس نے جو کیا ہمارے لیے کیا
جیا تو ہمارے لیے جیا کتنا عجیب تھا زندہ لاشوں کا دم بھرتا رہا مصلوب ہوا ہم دیکھتے رہے نیزے چڑھا ہم دیکھتے رہے مرا جلا راکھ اڑی ہم دیکھتے رہے اس کے کہے پر دو گام تو چلا ہوتا کس منہ سے اب اس کی راہ دیکھتے ہیں ہم خاموش تماشائیمظلومیت کا فقط ڈھونگ رچاتے ہیں بے جان جیون کے دامن میں غیرت کہاں جو رن میں اترے یا پھر پس لب اس کی مدح ہی کر سکے چلو دنیا چاری ہی سہی
آؤ اندرون لب دعا کریں ان مول سی مدح کہیںحیات کے برزخ میں
تلاش معنویت کے سب لمحے صدیاں ڈکار گئیںچیتھڑوں میں ملبوس معنویت کا سفر اس کنارے کو چھو نہ سکا تاسف کے دو آنسو کاسہءمحرومی کا مقدر نہ بن سکے کیا ہو پاتا کہ شب کشف دو رانوں کی مشقت میں کٹ گئی صبح دھیان نان نارسا کی نذر ہوئی شاعر کا کہا بےحواسی کا ہم نوا ہوا دفتر رفتہ شاہ کے گیت گاتا رہا وسیبی حکائتیں بےوقار ہوئیں قرطاس فکر پہ نہ چڑھ سکیں گویا روایت کا جنازہ اٹھ گیا
ضمیر بھی چاندی میں تل گیا مجذوب کے خواب میں گرہ پڑی مکیش کے نغموں سے طبلہ پھسل گیا درویش کے حواس بیدار نقطے ترقی کا ڈرم نگل گیا نہ مشرق رہا نہ مغرب اپنا بنا آخر کب تک یتیم جیون حیات کے برزخ میں شناخت کے لیے بھٹکتا رہےسورج دوزخی ہو گیا تھا
گدھخلیج کے بیماروں کی سانسیں گن رہے ہیں لاشوں کو کفن دفن غسل کی ضرورت نہیں ہو گی ١٦اگست ١٩٤٥کو سورج دوزخی ہو گیا تھا گنگا سے اٹھتے بخارات دعا کا اٹھتے ہات گلاب کی مہک مٹی سے رشتے کب پوتر رہے ہیں درگاوتی کی عصمت مرنے کے بعد اپنوں کے ہات لٹ گئی تھی ‘ہم تو حنوط شدہ ممیاں ہیں
رگوں میں لہو نہیں کیمیکل دوڑتا ہے کہ آکسیجن جلتی نہیں جلنے میں معاون ہے ڈوبتی سانسوں کو مسیحا کی ضرورت نہیں گوشت گدھ کھائیں گے ‘ہڈیاں فاسفورس کی کانیں ہیں یہودی لابی کے گلے کھلے ہیں بٹنوں کی سخت ضرورت ہےفیکٹری کا دھواں
اس نے کہا یہ سب کس کے لیے لکھتے ہو میں نے کہا تمہارے لیے بولا مگر مجھے تم سے گھن آتی ہےمیلے میلے لفظوں میلے میلے جذبوں سے روشنیوں کی بات کرو حسن کی کہو حسین آنکھوں سے ٹپکتی شاب کی بات کرو کانچ سے بدنوں سے ٹپکتے رومان کی بات کرو بہاروں میں مچلتے شباب کی بات کرو شہرت ملے گی ‘روٹی ملے گی
بھوک اور افلاس کیا رکھا ہے چیٹھڑوں کی دنیا میں سوچتا ہوں شہرت لے لوں روٹی لے لوں کئی روز کی بھوک ہے لباس بھی الجھا الجھا ہے سسکتے بلکتے جذبوں کو بےلباسی کی دنیا میں رہنے دوں پھر سوچ کے افق سے اک شہاب ثاقب ٹوٹا زہریلی سوچ کا چہرا فیکٹری کی چمنی سے اٹھتے دھویں میں مدغم ہو گیامطلع رہیں
مسز ریحانہ کوثر بلا دکھ تحریر کیا جاتا ہے آپ کی خدمات کی اب یہاں ضرورت نہیں رہیآپ کی بریزئر کا سائز بڑھ گیا ہے آنکھوں کے گرد حلقے بھی ہیں بالوں میں چاندی آ گئی ہے رخسار پچک گئے ہیں روزن نشاط کی فراخی سے پرفومنس گھٹ گئی ہے سابقہ کارگزاری کے پیش نظر کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے آپ کی بیٹی ظل ہما کو آپ کی سیٹ پر آپ کے ہی پے سکیل پر مع مروجہ الاؤنسز
اکتیس مئی کلوزنگ ٹائم تک تعینات کیا جا سکتا ہے آپ کو ہدایت کی جاتی ہے تاریخ مقررہ کے اندر زیر دستخطی کو مطلع کریںاپنے واجبات کی وصولی کے لیے زیر دستخطی کے حاضر ہونے کی ضرورت نہیں یہ خدمت اب آفس سپرٹنڈنٹ انجام دیتا ہے فائلوں کی سیاہی سپیدی کا وہ ہی تو مالک ہے مطلع رہیں ضروری نوت آپ اپنی کنگی اور نیل پالش ہمارے میز پر کل کی امید میں
بھول گئی ہیں یہ چیزیں جن کی آپ کو اشد ضرورت ہو گی مس ظل ہما کو آفس ٹائم کے بعد بھیج کر منگوا سکتی ہیں کہ ان کی اب یاں ضرورت نہیں رہی مطلع رہیںامید ہی تو زندگی ہے
زکرا بولے جا رہی تھی بولے جا رہی تھی مسلسل بولے جا رہی تھیشاید آتی صدیوں کے غم مٹا رہی تھی خوب گرجی خوب برسی اس کے گرجنے میں دھواں برسنے میں مسلا دھار تھی رانی توپ کے گرجنے سے حمل گر جاتے تھے برسنے سے بستیاں زمین بوس ہوتی تھیں اس کے برسنے سے سکون کے شہر آگ پکڑتے تھے گرجنے سے حواس بدحواس ہوتے تھے کس سے گلہ کرتا
جھورا مردود مر چکا تھا تھیلا مردود آج بھی رشوت ڈکارتا ہے وہ چپ تھا مسلسل چپ تھا منہ میں زبان رکھتا تھا پھر بھی چپ تھا چپ میں شاید اسے سکھ تھا جو بھی سہی یہ سوال نوشتہءدیوار بنا تھا وہ چپ تھا تو کیوں چپ تھا ہر زبان پر یہ ہی سوال تھا وہ بزدل تھا یا صبر میں باکمال تھاکچھ اسے زن مرید کہتے تھے کسی کے خیال میں
مرد کی انا کا وہ کھلا زوال تھا وہ تو خیر زیر عتاب تھا ہی اس کے پچھلے بھیکوسنوں کے دفتر چڑھ رہے تھے اس سے کوئی کیوں پوچھتا ہر دوسرے امریش پوری سے ڈائیلاگ سننے کو ملتے تھے نمرود وقت بھی کانوں پر پہرے نہیں رکھ سکتا پہلے ریڈیو ہی تو تھا ٹی وی تو کل کی دین ہے کان سنتے تھے تصور امیج بناتا تھا آخر چپ تھا تو کیوں چپ تھا اک روز میں نے پوچھ ہی لیا
میرا کہا اس کے قہقہوں میں اڑنے لگا میں نے سوچا کہنا کچھ تھا شاید کہہ کچھ اور گیا ہوں بھول میں کسی سردار کا لطیفہ کہہ گیا ہوں بھلکڑ ہوں یہ قول زریں مری زوجہ کا ہے زوجہ کے کہے کو غلط کہوں کہوں تو کس بل پراگلے سے ناسہی اس جہان سے جاؤں گا مہر بہ لب رہا کہ دیواروں کو بھی کان ہوتے ہیںمجھے کیا پڑی غیروں کی اپنے سر لوں میں نے بھی چپ میں عافیت جانی
ہم کیؤں پرائی آگ میں کودیں مرے لیے خالہ کی لگائی ہی کافی ہے خود چل بسی میں بھی چل بسوں سامان کر گئی ہے پھر وہ دفعتا چپ ہو گیا مری طرف بےبس بے کس نظروں سے دیکھنے لگا چند لمحے خامشی رہی جاہل جانتے ہو بولنے میں کتنے اعضا خرچ ہوتے ہیں یہ کیا جواب ہوا بھلا ‘حیرت ہوئی غصہ میں بولنے سے چودہ اعضا کشٹ اٹھاتے ہیں مرا کیا ہے ادھر سے سنتا ہوں ادھر سے نکال دیتا ہوںچہرے کے بدلتے رنگوں کا اپنا ہی سواد ہوتا ہے
ہاں سٹپٹانے میں کھونے کے آثار ہوتے ہیں گھورنے بسورنے میں کہکشانی اطوار ہوتے ہیں شخص پڑھو کہ حیات کے تم پر پوشیدہ اطوار کھلیں ہاں غصہ میں دماغ کی کوئی نس پھٹ سکتی ہے خیر یہ وقت خیر نہیں آئے گا دماغ ہوتا تو صبر کا جہاں آباد کرتی دل کا دورہ بھی بعید از قیاس نہیں اس امید پر ہی تو جی رہا ہوں کبھی تو غصہ کے افق سے خوشی کا چاند مسکرائے گا پھر مستی میں آ کر گنگنائے گاآ گئی بہار گلوں کا رنگ اور بھی نکھر گیا
پیاسی آتمائیں آ رہی ہیں روپ بدل بدل کے میں پڑھا لکھا سہی اپنی اوقات میں ہوں تو مزدور زوجہ گزیدہ ہوں بھاشا فلسفے کی میں کیا جانوں بولا :جاؤ امید پر زندہ رہو امید پر میں زندہ ہوں امید ہی تو زندگی ہے میٹھی گولی
ہم کچھ دوست ہوٹل میں چائے پیتے ہیں اور اکثر پیتے ہیں سچی پوچھو تو چائے پر ہی تو جیتے ہیں زندگی میں ورنہ چائے کے سوا رکھا کیا ہے بھوک کا پرنا پیاس کا پٹکا ہماری زیست کا یہ ہی اثاثہ ہےجسے دیکھو رکھے ہے ہزار گز کا نٹکا امیر وقت بات گریبوں کی کرتا ہے کھیسہ مگر اپنا بھرتا ہے ہر بولتا سر بازار نیلام ہوتا ہے
سر اس کے کوئی ناکوئی الزام ہوتا ہے بےکیے خوب بدنام ہوتا ہے امیر وقت کو کون پوچھے کہا اس کا بےلگام ہوتا ہے کوئی ایشور کا اسے اوتار کہے اس کی کرتوتوں سے بےخبرمقدس روحوں کا اسے سالار سمجھیں یہ ہی نہیں نوع انسانی کا وقار سمجھیںسب چمچے اسے کان رزق کہتے ہیں مورکھ بھی اسی کے گن گاتا ہے حیرت تو یہ ہے جس خوبی کا وہ تاعمر قاتل رہا اسی خوبی کو مورکھ اس کی گرہ میں رکھتا رہا
اسے جینا ہے یہ ہی اس کا طور رہا یہ کوئی نئی بات نہیں ہر دور اہل ثروت کا دور رہا کوئی بھوک مرتا ہے مرے انہیں اس سے کیا ان کی بلا سے گریب کے بچے بےلباس ہیں وہ کیا کریں انہیں کیا ان کا اس سے کوئی کام نہیں مالک تو ہے ناگریب کا سنور جاتا ہے دعا سے خیر چھوڑیے ان باتوں کو کوئی نئی بات ہو تو بات کریں جو وقت گزر گیا سو گزر گیا ان بےگھر بےبستر راتوں کو
یاد کیوں کریں ہاں بس اتنا دکھ ہے گریب کی روکھی سوکھی پر پنجہ رکھ کر تاج محل کبھی نور محل تعمیر ہوا شاہ پھر بھی دیالو ہے کرپالو ہےپھر بھی لوگ ان سے آسیں باندھیں ان کی آنکھوں میں ٹک تلاشیںامید کی قاشیں کب یک جا ہوتی ہیں پتی پتی گلاب بُنے قدموں میں اس کے بکھری پتیاں حسن کے ماتھے پر ناقدری کا ٹکا قدموں میں بکھری پتیوں کو کون چنے جو چننے بیٹھے گا پولے کھائے گا۔
خیر چھوڑیںمیں کیا ظلم و ستم کی رام کہانی لے بیٹھا ہوں چائے کی مست پیالی میں ہمارا امریکی طور نہیں رہا کبھی میں کبھی وہ ادائیگی کر دیتے ہیں ہم ایک کشتی کے مسافر ہیں پھر تو میں کیسی اک روز کیا ہوا بچہ جو چائے لا کر دیتا تھا ہاتھ سے اس کے برتن گرے اور ٹوٹ گئے پھر کیا تھا مالک نے وہ مارا اشک فرشتوں کے بھی گرے ہوں گے وہ دن اس کےالف انار بے بکری تے تختی پڑھنے کے تھے
بھوک اسے وہاں لائی تھیالله جانے کتنی مجبور اس کی مائی تھی سچی بات تو یہ ہے مری چائے حرام ہوئی میں بےبس کنگلا کیا کر سکتا تھا بس دو بےبس اشک بہا سکتا تھا میرا یہ ہی کل سرمایا تھا زیست میں یہ ہی کچھ کمایا تھا جب برتن لینے وہ آیا میں نے اسے گلے لگایا رویا پیار کیا منہ ماتھا چوما چپ چاپ وہاں سے اٹھ آیا جہاں نمرود کی شریعت چلتی ہو وہاں پھر کیا آنا کیا جانا بعد مدت مرا اس کا ملنا ہوا ہماری آنکھیں ملیں
Search
Read the Text Version
- 1
- 2
- 3
- 4
- 5
- 6
- 7
- 8
- 9
- 10
- 11
- 12
- 13
- 14
- 15
- 16
- 17
- 18
- 19
- 20
- 21
- 22
- 23
- 24
- 25
- 26
- 27
- 28
- 29
- 30
- 31
- 32
- 33
- 34
- 35
- 36
- 37
- 38
- 39
- 40
- 41
- 42
- 43
- 44
- 45
- 46
- 47
- 48
- 49
- 50
- 51
- 52
- 53
- 54
- 55
- 56
- 57
- 58
- 59
- 60
- 61
- 62
- 63
- 64
- 65
- 66
- 67
- 68
- 69
- 70
- 71
- 72
- 73
- 74
- 75
- 76
- 77
- 78
- 79
- 80
- 81
- 82
- 83
- 84
- 85
- 86
- 87
- 88
- 89
- 90
- 91
- 92
- 93
- 94
- 95
- 96
- 97
- 98
- 99
- 100
- 101
- 102
- 103
- 104
- 105
- 106
- 107
- 108
- 109
- 110
- 111
- 112
- 113
- 114
- 115
- 116
- 117
- 118
- 119
- 120
- 121
- 122
- 123
- 124
- 125
- 126
- 127
- 128
- 129
- 130
- 131
- 132
- 133
- 134
- 135
- 136
- 137
- 138
- 139
- 140
- 141
- 142
- 143
- 144
- 145
- 146
- 147
- 148
- 149
- 150
- 151
- 152
- 153
- 154
- 155
- 156
- 157
- 158
- 159
- 160
- 161
- 162
- 163
- 164
- 165
- 166
- 167
- 168
- 169
- 170
- 171
- 172
- 173
- 174
- 175
- 176
- 177
- 178
- 179
- 180
- 181
- 182
- 183
- 184
- 185
- 186
- 187
- 188
- 189
- 190
- 191
- 192
- 193
- 194
- 195
- 196
- 197
- 198
- 199
- 200
- 201
- 202
- 203
- 204
- 205
- 206
- 207
- 208
- 209
- 210
- 211
- 212
- 213
- 214
- 215
- 216
- 217
- 218
- 219
- 220
- 221
- 222
- 223
- 224
- 225
- 226
- 227
- 228
- 229
- 230
- 231
- 232
- 233
- 234
- 235
- 236
- 237
- 238
- 239
- 240
- 241
- 242
- 243
- 244
- 245
- 246
- 247
- 248
- 249
- 250
- 251
- 252
- 253
- 254
- 255
- 256
- 257
- 258
- 259
- 260
- 261
- 262
- 263
- 264
- 265
- 266
- 267
- 268
- 269
- 270
- 271
- 272
- 273
- 274
- 275
- 276
- 277
- 278
- 279
- 280
- 281
- 282
- 283
- 284
- 285
- 286
- 287
- 288
- 289
- 290
- 291
- 292
- 293
- 294
- 295
- 296
- 297
- 298
- 299
- 300
- 301
- 302
- 303
- 304
- 305
- 306
- 307
- 308
- 309
- 310
- 311
- 312
- 313
- 314
- 315
- 316
- 317
- 318
- 319
- 320
- 321
- 322
- 323
- 324
- 325
- 326