اکثر سوچتامرے ساتھ کے ترقی انجوائے کر رہے تھے میں ابھی تک قسمت کو کوس رہا تھا ایک صاحب نے بلاتکلف کہا پاگل اصل کاغذ دیتے نہیں کبھی بابو کو کبھی قسمت کو کوستے ہو کس کاغذ کی آپ بات کرتے ہیں میں نے پوچھ ہی لیا بڑا نوٹ جس پر بانی کی تصویر چھپی ہو فائل میں لگاؤ پھر بےچنت ہو جاؤ کام ہو جائے گا سوچ میں پڑ گیا یہ بگلا بھگت کتنے روپ دھارتا ہے لو دور کیا جانا ہے ہماری گلی کے موڑ پر ہی وہ رہتا ہے کچہری میں منصف کے روبرو
کلام پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہے جو کہوں گا سچ کہوں گا سچ کے سوا کچھ نہ کہوں گا ان دیکھے سچ کی کھاتا ہے کیا کروں اس کے کس روپ پر یقین کروں مرا ہم جنس بن کر دغا کرتا ہے ایک اور اندھیر دیکھیےانگلی مری اوروں کی جانب تو اٹھ رہی ہے جیسے ہل پر نہایا ہوا ہوں کرتوت یہ ہے کہ زوج کے حضور جب جاتا ہوں میں اس سا وہ مجھ سا ہو جاتا ہے سچ مر جاتا ہے یا پھر سات سمندر پار کر جاتا ہے یہ حرف
کل طلوع سے پہلے کان جزو جسد شرق تھے ودوا کا نالہ سنتے نہ تھے ہاتھ آہنی ضرور تھے ریکھاؤں میں مگرمغرب کے مانجے کا گوبر بھرا تھا خورشید اہل شرق کا سہی شرق کی صبح شام شرق کی نہیں منہ اپنا زبان اپنی بیان اپنا نہیں چٹے مندر کے دروازے پر یک ٹانگ کھڑا صبح شام ہر آتے دم کے ساتھ شری جھاڑی مہاراج کی جئے ہو
شری جھاڑی مہاراج کی جئے ہو بکے جاتا ہے فاختہ کے گلو میں نامہء منتی باندھ دیاکبوتر جھاڑی مہاراج کی قید میں ہے بازگزشت کٹی آواز تاریخ کا حرف کب بنتی ہے بےدر گھرانے کہرے کی زد میں رہتے ہیں ‘جو ہیں نفرتوں کے بارود میں بھی جشن آزادی مناتے ہیں جو نہیں ہیں جھاڑی مہاراج کی خصیہ سہلائی کا شغل باکمال رکھتے ہیں یہ حرف
مورکھ کی کوئی لکھت نہیں ہیں پھر بھی کل کو شہید وفا ہوں گے شاہد جفا ہوں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منت سے ‘منتی مورکھ سے مراد مورخعہد کا در وا ہوا
عہد کا در وا ہوا دور افق میں کم زور کی مقدر ریکھا لہو بن کر پھیل گئی تھی آس کا سورج ڈوب گیا تھا یاس کا سورج سوا نیزے پر آ چکا تھا شانتی کے شبد کھا چکا تھا پھر بھی ماتھے پر چٹا گھر کا ٹکا سجائے شانتی کی ڈگڈگی بجائے جا رہا تھالومڑ گیڈر جشن سیری منا رہے تھے لگڑبگڑ اپنا حصہ کھا رہے تھے گریب ہڈیوں کا گودا رینگتوں کے کام آ رہا تھا بٹنوں کی دوکان سج گئی تھی
گوریوں کی چڈی ہو کہ پستانوں کے کھوپے ان ہی سے تو بندھے ہوئے تھے آگہی کا در وا ہوا تو گریب گلیوں میں بھوک کی دھند پھیل گئی محل جگمگا اٹھے ہواؤں میں کومل ہونٹوں پر شراب کی بو مچل گئی شاہ اور اہل شاہ پریوں کی کمر میں ہاتھ سجائے تھرک رہے تھے جھوم رہے تھے اپریل ١٠- ١٩٧٨مشینی دیو کے خواب
وہ اس کا باپ دادا پردادا بھی اسی پیشہ سے وابستہ تھے شکار کی ٹانگوں پر نام کے ساجی دم پر چمچے گردن پر کڑچھے لگڑبگڑ کے تیور لے کر پل پڑتے تھے اب کہ نخچیر کئی چیتوں بگھیاّڑوں کے دم خم دیکھ چکا تھا تب ہی تو گرفت میں آ کر بھیگردن کے جھٹکے جاری تھے
کرتب ان کا شیوا جھٹکے اس کا حق جگ کے دانے سوچ رہے تھے بھوکے پیاسے صید کا ماس صیاد کے پیٹ کی آنتیں جسم کا پانی کھا پی کر مشینی دیو کے خواب چکنا چور نہ کر دےاک مفتا سوال
ہزاروں لاکھوں کی حیثیت اپنی جگہ دس روپیے کی حیثیت اپنی جگہ رسک میں ایک روپیے کا ضیاع بھری تجوری کا زوال ہے جیت گیے تو چڑھی قسمت ہار گیے تو! تجوری کا یہ سوال ہے جیتنے والا سکون کی نیند لوٹے گا ہار عمر بھر کا ملال ہے کچھ دے کر پایا تو کیا پایا اس جہاں میں کہاں ملتا ایسا دلال ہے سوچ کے دائرہ وسعت لیتے گئے کہ پھر کان میں گونجی یہ آواز میاں صاحب دس روپیے کا سوال ہے پھر ہوش آیایہاں تو فقط لینا ہے دینے کا کب ذکر ہے
میاں صاحب کی باچھیں کھل گیئں خوش ہو کر بولے پوچھ لو‘ ہو سکتا ہے بتا ہی دوں یہ بعید از قیاس نہیں فقیر کا سوچ حیرت کی نذر ہوا کچھ بھی نہ سمجھ سکا یہ تو خود اک مفتا سوال تھا بڑبڑاتا ہوا واں سے چل دیامیاں صاحب دکھ کے سمندر میں غرق ہوئے کم بخت دس کا چونا لگا گیا سوال کا جواب
بےشک یہ ان ہونی تھی حیرت ہے کہ ہو گئی کمیوں کی بہو بیٹیاں لمبٹروں کے گلپ کرتی ہیں حاجت بھی بر لاتیاترن میں جیتی اترن میں مرتی ہیں کس سے کہیں کیا کہیں سر تاج ان کے ڈیرے کی چلم بھرتے ہیں اک مراسی اور لمبڑ کا کیا جوڑ پھر بھی سلام دعا لڑ گئی تعلق کی گڈی چڑھ گئی زمین پر لوگ آسمان پر فرشتے دیکھتے رہ گئے اٹھنا اکٹھا بیٹھنا اکٹھا کھانا اکٹھا پینا اکٹھا
آنا اکٹھا جانا اکٹھا صلاح اکٹھی مشورہ اکٹھا اک روز مراسی کے ذہن میں آیا اتنی محبت اتنا پیار ہے کیوں نہ یہ نسلوں تک چلے آتے وقتوں میں چھوٹے بڑے کا فرق مٹ جائے موقع پاتے ہی مراسی نے لمبڑ سے کہا چودھری زندگی کیا خوب گزر رہی ہے محبت شاید ہی ایسی رہی ہو گی کیوں نہ ہم اس کو دوام بحشیں چودھری مسکرایا اور کہا کہو پھر ایسا کیا کریںلوہا گرم دیکھ کر مراسی نے چوٹ لگائی بہن تمہاری جوان ہے اب اس کی شادی ہو جانی چاہیے
چودھری خوش ہوا کہ یار ہے شاید کسی چودھری کا پیغام لایا ہے میں خوب صورت خوب سیرت ہوں بڑی بات یہ کہ تمہارا چھوٹا ویر ہوں اسے سکھی رکھوں گا جب تک زندہ ہوں پیر تمہارے دھو کر پیوں گا چودھری ہکا بکا رہ گیا پھر ہتھے سے اکھڑ گیا ذات کا مراسی اور یہ جرآت گردن سے پکڑا اور خوب وجایا نیچے گرا مراسی پاؤں پر کھڑا ہوا یار مار تو تم نے خواب لیا مرے سوال کا جواب اپنی جگہ رہاچودھری نے چار گولے بلائے اور کہا اس حرامی کی طبعیت صاف کرو
ذات کی کوڑ کرلی چھتیروں سے جپھے سلام دعا کیا ہوئی کہ اوقات ہی بھول گیا خوب پٹا بےہوش ہو گیا جب ہوش میں آیا تو بولا چودھری یار پیار میں اتنی مار کوئی بات نہیں‘ چلتا ہے دوستی میں تمہیں اتنا تو حق ہے کسی کی بھڑاس مجھ پر نکالوہاں تو مرے سوال کا جواب تم نے دیا نہیں سب نے پوچھا چودھری یہ شوھدا ڈوم کیا کہتا ہے کیا جواب دیتا ہاتھوں کی دی گھانٹیں دانتوں سے کھول رہا تھا تنا سر جھکا کر گھر کو چل دیا چودھری کب کسی کے ہوئے ہیں
یہ اسلام کہتا ہے ‘سب انسان ایک سے ہیں اسلام ابھی حلق سے اترا نہیں حلق سے جب اترے گا سیاہ حبشی غلام‘ صاحب جاہ کا آقا ہو گا بامی متکبر کٹیرے میں کھڑا ہو گا یہ ہی دنیا ہے
کاروبار کے لیے فجے سے خیرے نے قرض لیا کاروبار تو ہو نہ سکا ہاں سب کچھ معشوقہ کی بلی چڑھ گیا کنگلا پھانگ ہوا تو کسی اور کی ڈولی وہ چڑھ گئی یہ کوئی نئی بات نہ تھی ایسا ہوتا آیا ہےقرض کی واپسی کے وعدے کا دن تو آنا ہی تھا آ گیا اور آ کر گزر گیا پھر کئی دن آئے اور گزر گئے وعدوں کی بھرمار ہوئی وعدوں کی بھی اک حد ہوتی ہے انتظار کی گھڑیاں مشکل سہی گزر جاتی ہیں فجا کب تک انتظار کرتا کچے وعدوں پر اعتبار کرتا
فجا خیرے کے تائے کو درمیان میں لایا خیرا اپنی بدحالی کا رونا لے کر بیٹھ گیا اس نے کچھ قرضہ معاف کروا دیا باقی کے لیے وعدہ لے لیا وعدے کا وہ دن بھی آیا اور گزر گیا رقم آئی نہ خیرا آیانیا وعدہ ہی آ جاتا کہ فجے کو تسلی ہوتی خیرے کو قرضہ یاد ہے ٹال مٹول کا پھر سے سلسلہ شروع ہوا ناچار فجا اک اور معزز کو اس کے دروازے پر لے آیا خیرے نے پہلے سے بڑھ کر اپنی غربت کا ڈرامہ رچایااس نے بھی رقم میں کچھ چھوٹ دلوا دی جواب میں وعدہ لے لیا وہ صاحب بھی خیرے کو تاکید کرتے
رخصت ہوئے امید بندھی اب کہ وصولی ہو گی ‘مگر کہاں پھر سے آج کل پر بات پڑنے لگی فجا اس ٹال مٹول سے اکتا گیا جو نہیں چاہتا تھا کرنا پڑ گیاخیرے کو اس نے لمبڑ کے ڈیرے پر بلا لیا وہاں آ کر وہ لمبڑ کے پاؤں لگ گیایوں گڑگڑایا جیسے عرصہ سے فاقہ میں ہو لمبڑ کو بھی ترس آ گیا کچھ رعایت اس نے بھی کروا دی لمبڑ نے تاکیدا کہا وعدہ پر رقم دے دینا ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا حضور قسطوں پر سہی رقم واپس ہو رہی ہے بات غلط نہ تھی
ایک تہائی رقم دم توڑ چکی تھی اس کی اس بات پر سب ہنس پڑے اس پر وہ کہنے لگا ہاسے کیوں نہ آئیں رقمیں جو تر رہی ہیں بات اس کی سن کر سب کھل کھلا پڑے اپنے اپنے گھر کو چل دیے فجے کا منہ لٹک گیا صبر شکر کے سوا اب کوئی چارہ نہ تھانیکاں خاوند کے بستر پر بےچنت سوتی ہے خیرا بھی کوئی تھا‘ اسے یاد نہیںخیرا نیکاں کی بےوفائی پر دن رات روتا ہے فجے کو دی رقم کی جدائی کھا گئی ہے یہ ہی دنیا ہے کہیں ہریالی تو کہیں ویرانی ہے مالک کی مرضی ہے
شاید ہی کوئی عیدے کے دست بد سے بچا ہو گا ہر گھر میں اس کی کہانی تھی ہر ڈیرے کا موضع کلام تھا کئی بار جیل گیا وہاں سے اور نکھر کے آیا باپ اس کا شریف اور مشقتی تھا ماں بھی اچھی تھی پنج وقتن تھی چودھری کا بھی ناک میں دم تھا کچھ دوست کھوکھے پر بیٹھے اسی کا ذکر بد کر رہے تھے اچانک انو اک خبر لایا عیدا الله کو پیارا ہو گیاخبر ہی ایسی تھی کہ سب حیران ہو گئے پھر سب نے کلمہءشکر ادا کیا چنگا بھلا تو تھا
ایک دم سے کیا ہوا کہ حق ہو گیا او یار تم غلط سمجھے ہو انو نے زور کا قہقہ لگایا مرا نہیں زندہ ہے پتا نہیں اسے کیا ہوا مکے مدینے ٹر گیا واہ واہ کی صدائیں فلک بوس ہوئیں مالک کی مرضی ہے مٹی کو سونا سونے کو مٹی کر دے کارج کی بات میں دم تھا سب نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی سینے میں کہیں خیر کی کرن باقی ہو تو ہی بگڑی سنورتی ہےورنہ پنج وقتے پٹری سے اتر جاتے ہیں دینے کی بات بھی غلط نہ تھی جو بھی سہی
چائے کی پیالی میں آج خوشیوں کا اک جہاں آباد تھا ہر دل کھلا گلاب تھا خدا نے جانے کس کی سن لی ٹل گیا علاقے میں اترا جو عذاب تھا سیاستکسی چودھری کے سامنے کوئی چوں کرے کب کسی میں اتنا دم رہا ہے کون منصور بنے کون حسین کے قدموں پر چلے پکی پکائی کے سب گاہک ہیںجیدا چودھری کے خلاف سرعام بک رہا تھا یہ خبر اٹم بم سے کچھ کم نہ تھی
چودھری بھی سکتے میں آ گیا چپ رہا منہ سے کچھ نہ بولابچارے دینو کی مفت میں لترول ہو گئی اس نے تو محض خبر سنائی تھی محفل کو پھر چپ لگ گئی یہ اس کا قصور نہیں جوانی کی بھول مرے آگے آئی ہے بڑا خون ہی بولتا ہےورنہ کوئی کمی اس قابل کہاں ہوتا ہے چودھری نے یہ کر محفل کی چپ کا روزہ توڑا پھر کیا تھا چودھری کا کہا اس ًموڑ سے اس موڑ تک گیا جیدے نے جب یہ بات سنی غصے سے آگ بگولا ہو گیا
سیدھا گھر آیا ماں کا سر تن سے جدا کیا خود رسی سے لٹک مراچودھری کو کچھ بھی نہ کرنا پڑا سیاست سے رستہ صاف ہو گیا
کچھ نظمیں اور چوالیس منظومے مقصود حسنی ابوزر برقی کتب خانہ نومبر ٢٠١٦
Search
Read the Text Version
- 1
- 2
- 3
- 4
- 5
- 6
- 7
- 8
- 9
- 10
- 11
- 12
- 13
- 14
- 15
- 16
- 17
- 18
- 19
- 20
- 21
- 22
- 23
- 24
- 25
- 26
- 27
- 28
- 29
- 30
- 31
- 32
- 33
- 34
- 35
- 36
- 37
- 38
- 39
- 40
- 41
- 42
- 43
- 44
- 45
- 46
- 47
- 48
- 49
- 50
- 51
- 52
- 53
- 54
- 55
- 56
- 57
- 58
- 59
- 60
- 61
- 62
- 63
- 64
- 65
- 66
- 67
- 68
- 69
- 70
- 71
- 72
- 73
- 74
- 75
- 76
- 77
- 78
- 79
- 80
- 81
- 82
- 83
- 84
- 85
- 86
- 87
- 88
- 89
- 90
- 91
- 92
- 93
- 94
- 95
- 96
- 97
- 98
- 99
- 100
- 101
- 102
- 103
- 104
- 105
- 106
- 107
- 108
- 109
- 110
- 111
- 112
- 113
- 114
- 115
- 116
- 117
- 118
- 119
- 120
- 121
- 122
- 123
- 124
- 125
- 126
- 127
- 128
- 129
- 130
- 131
- 132
- 133
- 134
- 135
- 136
- 137
- 138
- 139
- 140
- 141
- 142
- 143
- 144
- 145
- 146
- 147
- 148
- 149
- 150
- 151
- 152
- 153
- 154
- 155
- 156
- 157
- 158
- 159
- 160
- 161
- 162
- 163
- 164
- 165
- 166
- 167
- 168
- 169
- 170
- 171
- 172
- 173
- 174
- 175
- 176
- 177
- 178
- 179
- 180
- 181
- 182
- 183
- 184
- 185
- 186
- 187
- 188
- 189
- 190
- 191
- 192
- 193
- 194
- 195
- 196
- 197
- 198
- 199
- 200
- 201
- 202
- 203
- 204
- 205
- 206
- 207
- 208
- 209
- 210
- 211
- 212
- 213
- 214
- 215
- 216
- 217
- 218
- 219
- 220
- 221
- 222
- 223
- 224
- 225
- 226
- 227
- 228
- 229
- 230
- 231
- 232
- 233
- 234
- 235
- 236
- 237
- 238
- 239
- 240
- 241
- 242
- 243
- 244
- 245
- 246
- 247
- 248
- 249
- 250
- 251
- 252
- 253
- 254
- 255
- 256
- 257
- 258
- 259
- 260
- 261
- 262
- 263
- 264
- 265
- 266
- 267
- 268
- 269
- 270
- 271
- 272
- 273
- 274
- 275
- 276
- 277
- 278
- 279
- 280
- 281
- 282
- 283
- 284
- 285
- 286
- 287
- 288
- 289
- 290
- 291
- 292
- 293
- 294
- 295
- 296
- 297
- 298
- 299
- 300
- 301
- 302
- 303
- 304
- 305
- 306
- 307
- 308
- 309
- 310
- 311
- 312
- 313
- 314
- 315
- 316
- 317
- 318
- 319
- 320
- 321
- 322
- 323
- 324
- 325
- 326