Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore میرے بیس منسانے

میرے بیس منسانے

Published by maqsood5, 2016-11-29 11:07:37

Description: abk_ksr_mh.906/2016
میرے بیس منسانے
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
نومبر ٢٠١٦

Search

Read the Text Version

‫اکثر سوچتا‬‫مرے ساتھ کے ترقی انجوائے کر رہے تھے‬ ‫میں ابھی تک قسمت کو کوس رہا تھا‬ ‫ایک صاحب نے بلاتکلف کہا‬ ‫پاگل اصل کاغذ دیتے نہیں‬ ‫کبھی بابو کو کبھی قسمت کو کوستے ہو‬ ‫کس کاغذ کی آپ بات کرتے ہیں‬ ‫میں نے پوچھ ہی لیا‬ ‫بڑا نوٹ جس پر بانی کی تصویر چھپی ہو‬ ‫فائل میں لگاؤ پھر بےچنت ہو جاؤ‬ ‫کام ہو جائے گا‬ ‫سوچ میں پڑ گیا‬ ‫یہ بگلا بھگت کتنے روپ دھارتا ہے‬ ‫لو دور کیا جانا ہے‬ ‫ہماری گلی کے موڑ پر ہی وہ رہتا ہے‬ ‫کچہری میں منصف کے روبرو‬

‫کلام پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہے‬ ‫جو کہوں گا سچ کہوں گا‬ ‫سچ کے سوا کچھ نہ کہوں گا‬ ‫ان دیکھے سچ کی کھاتا ہے‬ ‫کیا کروں‬ ‫اس کے کس روپ پر یقین کروں‬ ‫مرا ہم جنس بن کر دغا کرتا ہے‬ ‫ایک اور اندھیر دیکھیے‬‫انگلی مری اوروں کی جانب تو اٹھ رہی ہے‬ ‫جیسے ہل پر نہایا ہوا ہوں‬ ‫کرتوت یہ ہے کہ‬ ‫زوج کے حضور جب جاتا ہوں‬ ‫میں اس سا وہ مجھ سا ہو جاتا ہے‬ ‫سچ مر جاتا ہے‬ ‫یا پھر سات سمندر پار کر جاتا ہے‬ ‫یہ حرف‬

‫کل طلوع سے پہلے‬ ‫کان جزو جسد شرق تھے‬ ‫ودوا کا نالہ سنتے نہ تھے‬ ‫ہاتھ آہنی ضرور تھے‬ ‫ریکھاؤں میں مگر‬‫مغرب کے مانجے کا گوبر بھرا تھا‬ ‫خورشید اہل شرق کا سہی‬ ‫شرق کی صبح شام‬ ‫شرق کی نہیں‬ ‫منہ اپنا زبان اپنی‬ ‫بیان اپنا نہیں‬ ‫چٹے مندر کے دروازے پر‬ ‫یک ٹانگ کھڑا‬ ‫صبح شام‬ ‫ہر آتے دم کے ساتھ‬ ‫شری جھاڑی مہاراج کی جئے ہو‬

‫شری جھاڑی مہاراج کی جئے ہو‬ ‫بکے جاتا ہے‬ ‫فاختہ کے گلو میں‬ ‫نامہء منتی باندھ دیا‬‫کبوتر جھاڑی مہاراج کی قید میں ہے‬ ‫بازگزشت کٹی آواز‬ ‫تاریخ کا حرف کب بنتی ہے‬ ‫بےدر گھرانے‬ ‫کہرے کی زد میں رہتے ہیں‬ ‫‘جو ہیں‬ ‫نفرتوں کے بارود میں بھی‬ ‫جشن آزادی مناتے ہیں‬ ‫جو نہیں ہیں‬ ‫جھاڑی مہاراج کی خصیہ سہلائی کا‬ ‫شغل باکمال رکھتے ہیں‬ ‫یہ حرف‬

‫مورکھ کی کوئی لکھت نہیں ہیں‬ ‫پھر بھی کل کو‬ ‫شہید وفا ہوں گے‬ ‫شاہد جفا ہوں گے‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫منت سے ‘منتی‬ ‫مورکھ سے مراد مورخ‬‫عہد کا در وا ہوا‬

‫عہد کا در وا ہوا‬ ‫دور افق میں‬ ‫کم زور کی مقدر ریکھا‬ ‫لہو بن کر پھیل گئی تھی‬ ‫آس کا سورج ڈوب گیا تھا‬ ‫یاس کا سورج‬ ‫سوا نیزے پر آ چکا تھا‬ ‫شانتی کے شبد کھا چکا تھا‬ ‫پھر بھی‬ ‫ماتھے پر چٹا گھر کا ٹکا سجائے‬ ‫شانتی کی ڈگڈگی بجائے جا رہا تھا‬‫لومڑ گیڈر جشن سیری منا رہے تھے‬ ‫لگڑبگڑ اپنا حصہ کھا رہے تھے‬ ‫گریب ہڈیوں کا گودا‬ ‫رینگتوں کے کام آ رہا تھا‬ ‫بٹنوں کی دوکان سج گئی تھی‬

‫گوریوں کی چڈی ہو کہ پستانوں کے کھوپے‬ ‫ان ہی سے تو بندھے ہوئے تھے‬ ‫آگہی کا در وا ہوا تو‬ ‫گریب گلیوں میں‬ ‫بھوک کی دھند پھیل گئی‬ ‫محل جگمگا اٹھے‬ ‫ہواؤں میں‬ ‫کومل ہونٹوں پر‬ ‫شراب کی بو مچل گئی‬ ‫شاہ اور اہل شاہ‬ ‫پریوں کی کمر میں ہاتھ سجائے‬ ‫تھرک رہے تھے‬ ‫جھوم رہے تھے‬ ‫اپریل ‪١٠- ١٩٧٨‬‬‫مشینی دیو کے خواب‬

‫وہ‬ ‫اس کا باپ‬ ‫دادا پردادا بھی‬ ‫اسی پیشہ سے وابستہ تھے‬ ‫شکار کی ٹانگوں پر‬ ‫نام کے ساجی‬ ‫دم پر چمچے‬ ‫گردن پر کڑچھے‬ ‫لگڑبگڑ کے تیور لے کر‬ ‫پل پڑتے تھے‬ ‫اب کہ نخچیر‬ ‫کئی چیتوں بگھیاّڑوں کے‬ ‫دم خم دیکھ چکا تھا‬ ‫تب ہی تو‬ ‫گرفت میں آ کر بھی‬‫گردن کے جھٹکے جاری تھے‬

‫کرتب ان کا شیوا‬ ‫جھٹکے اس کا حق‬ ‫جگ کے دانے سوچ رہے تھے‬ ‫بھوکے پیاسے صید کا ماس‬ ‫صیاد کے پیٹ کی آنتیں‬ ‫جسم کا پانی‬ ‫کھا پی کر‬ ‫مشینی دیو کے خواب‬ ‫چکنا چور نہ کر دے‬‫اک مفتا سوال‬

‫ہزاروں لاکھوں کی حیثیت اپنی جگہ‬ ‫دس روپیے کی حیثیت اپنی جگہ‬ ‫رسک میں ایک روپیے کا ضیاع‬ ‫بھری تجوری کا زوال ہے‬ ‫جیت گیے تو چڑھی قسمت‬ ‫ہار گیے تو!‬ ‫تجوری کا یہ سوال ہے‬ ‫جیتنے والا سکون کی نیند لوٹے گا‬ ‫ہار عمر بھر کا ملال ہے‬ ‫کچھ دے کر پایا تو کیا پایا‬ ‫اس جہاں میں کہاں ملتا ایسا دلال ہے‬ ‫سوچ کے دائرہ وسعت لیتے گئے کہ‬ ‫پھر کان میں گونجی یہ آواز‬ ‫میاں صاحب دس روپیے کا سوال ہے‬ ‫پھر ہوش آیا‬‫یہاں تو فقط لینا ہے دینے کا کب ذکر ہے‬

‫میاں صاحب کی باچھیں کھل گیئں‬ ‫خوش ہو کر بولے‬ ‫پوچھ لو‘ ہو سکتا ہے بتا ہی دوں‬ ‫یہ بعید از قیاس نہیں‬ ‫فقیر کا سوچ حیرت کی نذر ہوا‬ ‫کچھ بھی نہ سمجھ سکا‬ ‫یہ تو خود اک مفتا سوال تھا‬ ‫بڑبڑاتا ہوا واں سے چل دیا‬‫میاں صاحب دکھ کے سمندر میں غرق ہوئے‬ ‫کم بخت دس کا چونا لگا گیا‬ ‫سوال کا جواب‬

‫بےشک یہ ان ہونی تھی‬ ‫حیرت ہے کہ ہو گئی‬ ‫کمیوں کی بہو بیٹیاں‬ ‫لمبٹروں کے گلپ کرتی ہیں‬ ‫حاجت بھی بر لاتی‬‫اترن میں جیتی اترن میں مرتی ہیں‬ ‫کس سے کہیں کیا کہیں‬ ‫سر تاج ان کے‬ ‫ڈیرے کی چلم بھرتے ہیں‬ ‫اک مراسی اور لمبڑ کا کیا جوڑ‬ ‫پھر بھی سلام دعا لڑ گئی‬ ‫تعلق کی گڈی چڑھ گئی‬ ‫زمین پر لوگ آسمان پر فرشتے‬ ‫دیکھتے رہ گئے‬ ‫اٹھنا اکٹھا بیٹھنا اکٹھا‬ ‫کھانا اکٹھا پینا اکٹھا‬

‫آنا اکٹھا جانا اکٹھا‬ ‫صلاح اکٹھی مشورہ اکٹھا‬ ‫اک روز مراسی کے ذہن میں آیا‬ ‫اتنی محبت اتنا پیار ہے‬ ‫کیوں نہ یہ نسلوں تک چلے‬ ‫آتے وقتوں میں‬ ‫چھوٹے بڑے کا فرق مٹ جائے‬ ‫موقع پاتے ہی مراسی نے لمبڑ سے کہا‬ ‫چودھری زندگی کیا خوب گزر رہی ہے‬ ‫محبت شاید ہی ایسی رہی ہو گی‬ ‫کیوں نہ ہم اس کو دوام بحشیں‬ ‫چودھری مسکرایا اور کہا‬ ‫کہو پھر ایسا کیا کریں‬‫لوہا گرم دیکھ کر مراسی نے چوٹ لگائی‬ ‫بہن تمہاری جوان ہے‬ ‫اب اس کی شادی ہو جانی چاہیے‬

‫چودھری خوش ہوا کہ یار ہے‬ ‫شاید کسی چودھری کا پیغام لایا ہے‬ ‫میں خوب صورت خوب سیرت ہوں‬ ‫بڑی بات یہ کہ تمہارا چھوٹا ویر ہوں‬ ‫اسے سکھی رکھوں گا‬ ‫جب تک زندہ ہوں‬ ‫پیر تمہارے دھو کر پیوں گا‬ ‫چودھری ہکا بکا رہ گیا‬ ‫پھر ہتھے سے اکھڑ گیا‬ ‫ذات کا مراسی اور یہ جرآت‬ ‫گردن سے پکڑا اور خوب وجایا‬ ‫نیچے گرا مراسی پاؤں پر کھڑا ہوا‬ ‫یار مار تو تم نے خواب لیا‬ ‫مرے سوال کا جواب اپنی جگہ رہا‬‫چودھری نے چار گولے بلائے اور کہا‬ ‫اس حرامی کی طبعیت صاف کرو‬

‫ذات کی کوڑ کرلی چھتیروں سے جپھے‬ ‫سلام دعا کیا ہوئی کہ اوقات ہی بھول گیا‬ ‫خوب پٹا بےہوش ہو گیا‬ ‫جب ہوش میں آیا تو بولا‬ ‫چودھری یار پیار میں اتنی مار‬ ‫کوئی بات نہیں‘ چلتا ہے‬ ‫دوستی میں تمہیں اتنا تو حق ہے‬ ‫کسی کی بھڑاس مجھ پر نکالو‬‫ہاں تو مرے سوال کا جواب تم نے دیا نہیں‬ ‫سب نے پوچھا‬ ‫چودھری یہ شوھدا ڈوم کیا کہتا ہے‬ ‫کیا جواب دیتا‬ ‫ہاتھوں کی دی گھانٹیں‬ ‫دانتوں سے کھول رہا تھا‬ ‫تنا سر جھکا کر گھر کو چل دیا‬ ‫چودھری کب کسی کے ہوئے ہیں‬

‫یہ اسلام کہتا ہے ‘سب انسان ایک سے ہیں‬ ‫اسلام ابھی حلق سے اترا نہیں‬ ‫حلق سے جب اترے گا‬ ‫سیاہ حبشی غلام‘ صاحب جاہ کا آقا ہو گا‬ ‫بامی متکبر کٹیرے میں کھڑا ہو گا‬ ‫یہ ہی دنیا ہے‬

‫کاروبار کے لیے فجے سے‬ ‫خیرے نے قرض لیا‬ ‫کاروبار تو ہو نہ سکا‬ ‫ہاں سب کچھ معشوقہ کی بلی چڑھ گیا‬ ‫کنگلا پھانگ ہوا تو‬ ‫کسی اور کی ڈولی وہ چڑھ گئی‬ ‫یہ کوئی نئی بات نہ تھی‬ ‫ایسا ہوتا آیا ہے‬‫قرض کی واپسی کے وعدے کا دن تو آنا ہی تھا‬ ‫آ گیا اور آ کر گزر گیا‬ ‫پھر کئی دن آئے اور گزر گئے‬ ‫وعدوں کی بھرمار ہوئی‬ ‫وعدوں کی بھی اک حد ہوتی ہے‬ ‫انتظار کی گھڑیاں مشکل سہی گزر جاتی ہیں‬ ‫فجا کب تک انتظار کرتا‬ ‫کچے وعدوں پر اعتبار کرتا‬

‫فجا خیرے کے تائے کو درمیان میں لایا‬ ‫خیرا اپنی بدحالی کا رونا لے کر بیٹھ گیا‬ ‫اس نے کچھ قرضہ معاف کروا دیا‬ ‫باقی کے لیے وعدہ لے لیا‬ ‫وعدے کا وہ دن بھی آیا اور گزر گیا‬ ‫رقم آئی نہ خیرا آیا‬‫نیا وعدہ ہی آ جاتا کہ فجے کو تسلی ہوتی‬ ‫خیرے کو قرضہ یاد ہے‬ ‫ٹال مٹول کا پھر سے سلسلہ شروع ہوا‬ ‫ناچار فجا اک اور معزز کو‬ ‫اس کے دروازے پر لے آیا‬ ‫خیرے نے پہلے سے بڑھ کر‬ ‫اپنی غربت کا ڈرامہ رچایا‬‫اس نے بھی رقم میں کچھ چھوٹ دلوا دی‬ ‫جواب میں وعدہ لے لیا‬ ‫وہ صاحب بھی خیرے کو تاکید کرتے‬

‫رخصت ہوئے‬ ‫امید بندھی اب کہ وصولی ہو گی‬ ‫‘مگر کہاں‬ ‫پھر سے آج کل پر بات پڑنے لگی‬ ‫فجا اس ٹال مٹول سے اکتا گیا‬ ‫جو نہیں چاہتا تھا کرنا پڑ گیا‬‫خیرے کو اس نے لمبڑ کے ڈیرے پر بلا لیا‬ ‫وہاں آ کر وہ لمبڑ کے پاؤں لگ گیا‬‫یوں گڑگڑایا جیسے عرصہ سے فاقہ میں ہو‬ ‫لمبڑ کو بھی ترس آ گیا‬ ‫کچھ رعایت اس نے بھی کروا دی‬ ‫لمبڑ نے تاکیدا کہا وعدہ پر رقم دے دینا‬ ‫ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا‬ ‫حضور قسطوں پر سہی‬ ‫رقم واپس ہو رہی ہے‬ ‫بات غلط نہ تھی‬

‫ایک تہائی رقم دم توڑ چکی تھی‬ ‫اس کی اس بات پر سب ہنس پڑے‬ ‫اس پر وہ کہنے لگا‬ ‫ہاسے کیوں نہ آئیں رقمیں جو تر رہی ہیں‬ ‫بات اس کی سن کر سب کھل کھلا پڑے‬ ‫اپنے اپنے گھر کو چل دیے‬ ‫فجے کا منہ لٹک گیا‬ ‫صبر شکر کے سوا اب کوئی چارہ نہ تھا‬‫نیکاں خاوند کے بستر پر بےچنت سوتی ہے‬ ‫خیرا بھی کوئی تھا‘ اسے یاد نہیں‬‫خیرا نیکاں کی بےوفائی پر دن رات روتا ہے‬ ‫فجے کو دی رقم کی جدائی کھا گئی ہے‬ ‫یہ ہی دنیا ہے‬ ‫کہیں ہریالی تو کہیں ویرانی ہے‬ ‫مالک کی مرضی ہے‬

‫شاید ہی کوئی‬ ‫عیدے کے دست بد سے بچا ہو گا‬ ‫ہر گھر میں اس کی کہانی تھی‬ ‫ہر ڈیرے کا موضع کلام تھا‬ ‫کئی بار جیل گیا‬ ‫وہاں سے اور نکھر کے آیا‬ ‫باپ اس کا شریف اور مشقتی تھا‬ ‫ماں بھی اچھی تھی پنج وقتن تھی‬ ‫چودھری کا بھی ناک میں دم تھا‬ ‫کچھ دوست کھوکھے پر بیٹھے‬ ‫اسی کا ذکر بد کر رہے تھے‬ ‫اچانک انو اک خبر لایا‬ ‫عیدا الله کو پیارا ہو گیا‬‫خبر ہی ایسی تھی کہ سب حیران ہو گئے‬ ‫پھر سب نے کلمہءشکر ادا کیا‬ ‫چنگا بھلا تو تھا‬

‫ایک دم سے کیا ہوا کہ حق ہو گیا‬ ‫او یار تم غلط سمجھے ہو‬ ‫انو نے زور کا قہقہ لگایا‬ ‫مرا نہیں زندہ ہے‬ ‫پتا نہیں اسے کیا ہوا‬ ‫مکے مدینے ٹر گیا‬ ‫واہ واہ کی صدائیں فلک بوس ہوئیں‬ ‫مالک کی مرضی ہے‬ ‫مٹی کو سونا سونے کو مٹی کر دے‬ ‫کارج کی بات میں دم تھا‬ ‫سب نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی‬ ‫سینے میں کہیں خیر کی کرن باقی ہو‬ ‫تو ہی بگڑی سنورتی ہے‬‫ورنہ پنج وقتے پٹری سے اتر جاتے ہیں‬ ‫دینے کی بات بھی غلط نہ تھی‬ ‫جو بھی سہی‬

‫چائے کی پیالی میں آج‬ ‫خوشیوں کا اک جہاں آباد تھا‬ ‫ہر دل کھلا گلاب تھا‬ ‫خدا نے جانے کس کی سن لی‬ ‫ٹل گیا‬ ‫علاقے میں اترا جو عذاب تھا‬ ‫سیاست‬‫کسی چودھری کے سامنے کوئی چوں کرے‬ ‫کب کسی میں اتنا دم رہا ہے‬ ‫کون منصور بنے‬ ‫کون حسین کے قدموں پر چلے‬ ‫پکی پکائی کے سب گاہک ہیں‬‫جیدا چودھری کے خلاف سرعام بک رہا تھا‬ ‫یہ خبر اٹم بم سے کچھ کم نہ تھی‬

‫چودھری بھی سکتے میں آ گیا‬ ‫چپ رہا منہ سے کچھ نہ بولا‬‫بچارے دینو کی مفت میں لترول ہو گئی‬ ‫اس نے تو محض خبر سنائی تھی‬ ‫محفل کو پھر چپ لگ گئی‬ ‫یہ اس کا قصور نہیں‬ ‫جوانی کی بھول مرے آگے آئی ہے‬ ‫بڑا خون ہی بولتا ہے‬‫ورنہ کوئی کمی اس قابل کہاں ہوتا ہے‬ ‫چودھری نے یہ کر‬ ‫محفل کی چپ کا روزہ توڑا‬ ‫پھر کیا تھا‬ ‫چودھری کا کہا‬ ‫اس ًموڑ سے اس موڑ تک گیا‬ ‫جیدے نے جب یہ بات سنی‬ ‫غصے سے آگ بگولا ہو گیا‬

‫سیدھا گھر آیا‬ ‫ماں کا سر تن سے جدا کیا‬ ‫خود رسی سے لٹک مرا‬‫چودھری کو کچھ بھی نہ کرنا پڑا‬ ‫سیاست سے رستہ صاف ہو گیا‬

‫کچھ نظمیں اور چوالیس منظومے‬ ‫مقصود حسنی‬ ‫ابوزر برقی کتب خانہ‬ ‫نومبر ‪٢٠١٦‬‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook