Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore میرے بیس منسانے

میرے بیس منسانے

Published by maqsood5, 2016-11-29 11:07:37

Description: abk_ksr_mh.906/2016
میرے بیس منسانے
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
نومبر ٢٠١٦

Search

Read the Text Version

‫ہم اک دوجے کو پہچان گئے‬ ‫وہ چھوٹا تھا میں نیچے بیٹھ گیا‬ ‫گلے لگایا خوب پیار کیا دعا دی‬ ‫مری گرہ کی یہ ہی اوقات تھی‬ ‫وہ ہاں وہ بچہ‬‫نوشیرواں سے کہیں بڑھ کر دیالو نکلا‬ ‫میٹھی گولی اس کے منہ میں تھی‬ ‫اس نے اپنا وہ لقمہ‬ ‫مرے منہ میں ڈالا‬ ‫خوش ہو کر مرے منہ کو دیکھا‬ ‫مرے منہ میں وہ تھا‬ ‫جو جنت سوگ میں بھی نہ ہو گا‬ ‫مرے چہرے پر‬ ‫خوشی کے لڈو پھوٹ رہے تھے‬‫اس کے پاس ایک اور میٹھی گولی تھی‬ ‫جو اس نے مرے ہاتھ پر رکھ دی‬

‫اکبر ہو کہ کوئی اور شاہ‬ ‫کیا کسی کو دیں گے‬ ‫مہان تھا دیا کا پردھان تھا‬ ‫وہ معصوم بچہ‬ ‫شاہوں کی شاہی ایک طرف‬ ‫الفت پریم سے لبریز‬ ‫میٹھی گولی ایک طرف‬ ‫تول میں کہیں بھاری ہے‬ ‫گو اک عرصہ ہوا‬ ‫اس میٹھی گولی کا مزا‬ ‫مری رگ وپے میں‬ ‫آج بھی رقصاں ہے‬ ‫پریم و الفت کے آب زم زم میں بھیگی‬ ‫ہات پر اس بچے کی رکھی میٹھی گولی‬‫آتی نسلوں کے لیے میں نے رکھ دی ہے‬ ‫کہ حجت رہے‬

‫محبتوں کا کوئی مول نہیں‬ ‫یہ جیتی ہیں مرتی نہیں‬ ‫لوگوں کو یہ‬ ‫خیر کی شکتی بردان میں دیتی ہیں‬‫دو بیلوں کی مرضی ہے‬

‫تمثالی وعلامتی‬ ‫م نظومہ‬ ‫بندر کے بچوں کے‬ ‫آتے کل کی بھوک کے غم میں‬ ‫وہ اور یہ‬ ‫آدم کے زخموں سے چور‬ ‫بھوک سے نڈھال‬ ‫قول کے سچے‘ پکے‬ ‫بچوں پر‬ ‫بھونکتے ٹونکتے‬ ‫زخمی سؤر بھوکے کتے‬ ‫ٹوٹ پڑے ہیں‬ ‫ظلم کے ہر حامی کے منہ میں‬‫خون کی ٹیکسال سے نکلے ڈالر‬

‫ہاتھ میں وعدوں کے پرزے ہیں‬ ‫ظلم کی نندا کرنے والے‬ ‫توپوں کی زد میں ہیں‬ ‫جبر کے ٹوکے میں‬ ‫اپنی سانسیں گنتے ہیں‬ ‫ہونٹوں سے باہر آتی جیبا‬ ‫خنجر کی کھا جا ہے‬ ‫گھورتی آنکھیں‬ ‫اگنی کا رن ہے‬ ‫سچ تو یہ ہے‬ ‫کمزور باشندے‬ ‫پشو جناور کا اترن اور‬ ‫ماس خور درندوں کا جیون ہیں‬ ‫لومڑ اور گیڈر بھی‬‫گھاس پھوس سے نفرت کرتے ہیں‬ ‫اک کا جیون‬

‫دوجے کی مرتیو پر اٹھتا ہے‬ ‫دیا اور کرپا کے سب جذبے‬ ‫شوگر کو نائٹروکولین ہیں‬ ‫اب دو بیلوں کی مرضی ہے‬ ‫اک ساتھ چلیں‬ ‫بے خوفی کا جیون جئیں‬ ‫یا پھر‬ ‫دو راہوں کے راہی ٹھہریں‬ ‫کتوں سؤروں کا فضلہ بن کر‬ ‫بے نامی کی نالی میں بہہ جائیں‬‫ذات کے قیدی‬

‫قصور تو خیر دونوں کا تھا‬ ‫اس نے گالیاں بکیں‬ ‫اس نے خنجر چلایا‬ ‫سزا دونوں کو ملی‬ ‫وہ جان سے گیا‬ ‫یہ جہان سے گیا‬ ‫اس کے بچے یتیم ہوئے‬ ‫اس کے بچے گلیاں رولے‬ ‫اس کی ماں بینائی سے گئی‬‫اس کی ماں کے آنسو تھمتے نہیں‬ ‫اس کا باپ کچری چڑھا‬ ‫اس کا باپ بستر لگا‬ ‫دونوں کنبے کاسہء گدائی لیے‬ ‫گھر گھر کی دہلیز چڑھے‬ ‫بے کسی کی تصویر بنے‬

‫بے توقیر ہوئے‬ ‫ضبط کا فقدان‬ ‫بربادی کی انتہا بنا‬ ‫سماج کے سکون پر پتھر لگا‬ ‫قصور تو خیر دونوں کا تھا‬ ‫جیو اور جینے دو کے اصول پر‬ ‫جی سکتے تھے‬ ‫اپنے لیے جینا کیا جینا‬ ‫دھرتی کا ہر ذرہ‬ ‫تزئین کی آشا رکھتا ہے‬ ‫ذات کے قیدی‬ ‫مردوں سے بدتر‬ ‫سسی فس کا جینا جیتے ہیں‬‫چل' محمد کے در پر چل‬

‫اک پل‬ ‫آکاش اور دھرتی کو‬ ‫اک دھاگے میں بن کر‬ ‫رنگ دھنک اچھالے‬ ‫دوجا پل‬‫جو بھیک تھا پہلے کل کی‬ ‫کاسے سے اترا‬ ‫ماتھے کی ریکھا ٹھہرا‬ ‫کرپا اور دان کا پل‬ ‫پھن چکر مارا‬ ‫گرتا ہے منہ کے بل‬ ‫سلوٹ سے پاک سہی‬ ‫پھر بھی‬ ‫حنطل سے کڑوا‬ ‫اترن کا پھل‬ ‫الفت میں کچھ دے کر‬

‫پانے کی اچھا‬ ‫حاتم سے ہے چھل‬ ‫غیرت سے عاری‬ ‫حلق میں ٹپکا‬ ‫وہ قطرہ‬ ‫سقراط کا زہر‬ ‫نہ گنگا جل‬‫مہر محبت سے بھرپور‬ ‫نیم کا پانی‬ ‫نہ کڑا نہ کھارا‬ ‫وہ تو ہے‬ ‫آب زم زم‬ ‫اس میں رام کا بل‬ ‫ہر فرزانہ‬ ‫عہد سے مکتی چاہے‬ ‫ہر دیوانہ عہد کا بندی‬

‫مر مٹنے کی باتیں‬ ‫ٹالتے رہنا‬ ‫کل تا کل‬ ‫جب بھی‬ ‫پل کی بگڑی کل‬ ‫در نانک کے‬ ‫بیٹھا بےکل‬ ‫وید حکیم‬ ‫ملاں پنڈٹ‬ ‫پیر فقیر‬ ‫جب تھک ہاریں‬ ‫جس ہتھ میں وقت کی نبضیں‬ ‫چل' محمد کے در پر چل‬‫عطائیں الله کی کب بخیل ہیں‬

‫مدحیہ کہانی‬‫حضور کے قدموں کی برکت دیکھیے‬ ‫آنکھیں جو قدم بوس رہیں‬ ‫کمال ہوئیں‬ ‫رشک ہلال ہوئیں‬ ‫تہی بر ملال ہوئیں‬ ‫اس سے بڑھ کر یہ‬ ‫بلال ہوئیں‬‫ان آنکھوں نے موت کو حیات بخشی‬ ‫زمینی خداؤں کو بندگی بخشی‬ ‫ہر لمحہ ان سے اخوت ٹپکی‬ ‫شریعت ٹپکی‬ ‫طریقت ٹپکی‬ ‫حقیقت ٹپکی‬ ‫میں نے سنا تھا‬

‫شاہ حسین کے دربار کے عقب میں‬ ‫حضور کے قدموں کے نشان‬ ‫اہل ظرف نے محفوظ کر رکھے ہیں‬ ‫گناہ گار سیاہ کار سہی‬ ‫شوق لیکن مجھے وہاں لے گیا‬‫ڈرتے ڈرتے حضرت کے دربار میں داخل ہوا‬ ‫بساط بھر ادب سے سلام کیا‬ ‫درود پڑھا دعا کی اور دربار سے باہر آ گیا‬ ‫وجود میں ہمت باندھی‬ ‫ہر بری کرنی کی معافی مانگی‬ ‫تب کہیں جا کے دربار کے عقب میں گیا‬ ‫حضور کے قدموں کے نشان‬ ‫بڑے احترام بڑی ّعقیدت سے محفوظ تھے‬ ‫تازہ پھولوں سے سجے تھے‬ ‫لوگ بھی وہاں کھڑے تھے‬ ‫ہر آنکھ میں محبت تھی ّعقیدت تھی‬

‫دل بےشک طواف الفت میں تھے‬ ‫ہاں کچھ لب بھی متحرک تھے‬ ‫انگلیاں شیشہءپا کو چھو رہی تھیں‬ ‫سوچا آگے بڑھوں‬ ‫شیشہءنقش پا کو چوم لوں‬ ‫پھر سوچا مرے لب اس قابل کہاں‬‫انگلیوں سے ہی شیشہء پا چھو لیتا ہوں‬ ‫انگلیوں میں مگر اتنا دم کہاں‬ ‫خواہش ابھری قدموں کو چھوتی‬ ‫پھول کی اک پتی ہی مل جاتی‬ ‫دونوں جہاں گویا مل جائیں گے‬ ‫گناہ گا ہو کہ نیکوکار‬ ‫عطائیں الله کی کب بخیل ہیں‬ ‫ایسا اگر ہوتا‬ ‫تو مجھ سے بھوکے مر جاتے‬ ‫تالہ اس شیشے کے بکسے کا‬

‫کھولا خدمت گار نے‬ ‫حضور کے قدموں کو چھوتی‬ ‫اک پتی مرے ہات پر رکھ دی‬ ‫میں اور یہ فضل بےبہا ‘حیرت ہوئی‬ ‫دنیا و عقبی کی عطا‬ ‫سجدہ شکر کا مجھے کب ڈھنگ رہا ہے‬ ‫خدا جانتا تھا کہ اس کا بندہ ممنون ہے‬ ‫میں نے وہ پتی بصد شکر‬ ‫سدا خالی رہتے پرس میں ڈال لی‬‫مرے حضور کے قدموں کی برکت دیکھیے‬ ‫مری میں مر گئی‬ ‫مرا پرس بھی خالی نہیں رہتا‬ ‫راز یہ کھل گیا ہے‬ ‫قدموں میں ہی حضور کے‬ ‫دونوں جہاں ہیں‬ ‫جاؤں گا اگر حضور سے‬

‫کسی جہاں کا نہ رہوں گا‬ ‫جو حضور کے قدم لیتا رہے گا‬ ‫اویس بنے گا‬ ‫منصورٹھہرے گا‬ ‫سرمد لقب پائے گا‬‫کرپانی فتوی‬

‫فیقا ہمارے محلے کا درزی ہے‬ ‫ہے تو سکا ان پڑھ‬ ‫سوچ میں مگر فلاطو لگتا ہے‬ ‫دور کی کوڑی ڈھونڈ کے لاتا ہے‬ ‫سوچ ہی الگ تر نہیں‬ ‫کپڑے بھی بلا کے سیتا ہے‬ ‫الجھا الجھا سڑا بجھا بھی رہتا ہے‬ ‫الله جانے گھر والی سے‬ ‫نبھا اس کا کیسے ہوتا ہے‬ ‫بےشک وہ اس کی عجیب باتوں سے‬ ‫گھبرا جاتی ہو گی‬ ‫پلے جو ُپڑ گیا‘ رو دھو کر نبھاتی ہو گی‬‫کم ہی لوگ اس کی باتوں پر غور کرتے ہیں‬ ‫ہاں جو کرتے ہیں اس کے ہو جاتے ہیں‬ ‫بڑا زیرک ہے دانا ہے‬

‫بات کرتے بندہ کوبندہ دیکھ لیتا ہے‬ ‫باتوں کی کھٹی کب کھاتا ہے‬ ‫ڈٹ محنت کرتا ہے‬ ‫خوب کماتا ہے‬ ‫اس روز سب چھوڑ چھاڑ کر‬ ‫چپ چاپ بستر پر لیٹا ہوا تھا‬ ‫خلا میں بٹربٹر دیکھے جاتا تھا‬ ‫پہلے سوچا بیمار ہے‬ ‫بیماروں کے طور کب ایسے ہوتے ہیں‬ ‫سوچا چلو حال چال پوچھ لیتے ہیں‬‫بیمار ہوا تو کوئی خدمت پوچھ لیتے ہیں‬ ‫میں اس کی دکان میں داخل ہو گیا‬ ‫سلام دعا کرکے بیٹھ گیا‬ ‫پوچھا کیا حال ہے‬ ‫کیوں بےکار میں لیٹے ہوئے ہو‬ ‫اٹھو شیر بنو‬

‫کوئی دو چار تروپے بھرو‬ ‫آخر بات کیا ہے‬ ‫جو تم نے یہ حالت بنا رکھی ہے‬ ‫آ جی بات کیا ہونی ہے‬ ‫کل سے مسلسل سوچے جا رہا ہوں‬ ‫یہ کہہ کر وہ فلاطو کی اولاد چپ ہو گیا‬ ‫کچھ دیر انتظار کیا کہ اب بولتا ہے‬ ‫جب خامشی نہ ٹوٹی تو میں نے کہا‬ ‫منہ سے کچھ پھوٹو گے تو پتا چلے گا‬‫نبی نہیں ہوں جو مجھ پر وحی اتر آئے گی‬ ‫اس نے مری طرف دیکھا‬ ‫اور اداس لفظوں میں یوں گویا ہوا‬ ‫کالا ہو کہ چٹا‬ ‫شرقی ہو کہ غربی‬ ‫پنجابی ہو کہ عربی‬ ‫شعیہ ہو کہ وہابی‬

‫چاہے اس سا ہو تول میں‬ ‫کھوٹا رہا ہو یا کھرا بول میں‬ ‫اس سے اسے کوئی غرض نہیں‬‫مسلماں کشی میں کہیں رائی بھر جھول نہیں‬ ‫ہر مسلمان کو ایک آنکھ سے دیکھتا ہے‬ ‫مطلب بری کے بعد‬ ‫اپنا چمچہ بھی توڑ دیتا ہے‬‫اس کے قریبی گولی کی زد میں آ جاتے ہیں‬ ‫جو لینا ہوتا ہے لے لیتا ہے‬ ‫اس کے ہر دینے میں بھی لینا ہوتا ہے‬ ‫شلوار ٹخنوں سے اوپر ہو کہ نیچے‬ ‫ہاتھ چھوڑے یا باندھے‬ ‫داڑھی بڑی ہو کہ چھوٹی‬ ‫توند پتلی ہو کہ موٹی‬ ‫اسے اس سے کیا‬ ‫بس مسلمان ہو اتنا کافی ہے‬

‫اس کے مجرم ہونے میں‬ ‫اس سے بڑا کوئی ثبوت نہیں‬ ‫یہ معاملہ مسلمانوں کا ہے‬ ‫اس کا نہیں‬ ‫وہ صرف اتنا جانتا ہے‬ ‫یہ مسلمان ہے‬ ‫اس کی گردن زنی ہونی چاہیے‬‫مسلمانوں کا عقیدہ و نظریہ اس سے الگ تر ہے‬ ‫ان وہابی سنی شعیوں نے‬ ‫اپنے اپنے مولوی پالے ہیں‬ ‫بلا کی توندیں وہ رکھتے ہیں‬ ‫شورےفا بڑے ہوٹلوں میں‬ ‫سائلوں کی گرہ سے کھاتے ہیں‬ ‫مولوی بھی باہر کی کھاتے ہیں‬ ‫دونوں اوروں کے پلے کی‬ ‫باہر سے گھر بھجواتے ہیں‬

‫حلوہ ہو کہ ہو آوارہ مرغا‬ ‫توند اٹھائے بھاگے جاتے ہیں‬‫ہاں مگر کھیسہ میں کفر کا فتوی رکھتے ہیں‬ ‫مسلمانوں کے ہاں‬ ‫مسلمان کم پائے جاتے ہیں‬ ‫وہابی سنی شعیہ کی بہتات ہے‬ ‫کئی اور ایسوں کی برسات ہے‬ ‫فقط چند لقموں کے لیے‬ ‫تفریق کے ایٹم بم‬ ‫کبھی ادھر کبھی ادھر گراتے ہیں‬ ‫تفریق کا بم‬ ‫ایٹم بم سے کہیں مہلک ہے‬ ‫آخر وہ دن کب آئیں گے‬ ‫وہابی رہیں گے نہ شعیہ سنی‬ ‫سب مسلمان ہوں گے‬ ‫اگر تفریق مٹ گئی‬

‫تو اس کے ہر بم سے بچ جائیں گے‬ ‫ایکتا پیٹ کے بندوں کو‬ ‫کب خوش آتی ہے‬ ‫لڑانے مروانے کا شوق‬ ‫صدیوں سے چلا آتا ہے‬ ‫وہ ان پڑھ درزی مسلسل بولتا رہا‬ ‫شاید پچھلے جنم میں‬ ‫مدینہ کی گلیوں میں گھوما پھرا تھا‬ ‫اک ان پڑھ درزی کے سامنے‬ ‫مری بولتی بند تھی‬ ‫بات تو وہ ٹھیک کہہ رہا تھا‬ ‫لیٹا ہوا تھا‬ ‫کب پیٹ سے سوچ رہا تھا‬‫پیٹ سے نکلتی سوچ مسمانوں کو کھا گئی ہے‬ ‫مگر کیا کریں‬ ‫جو بولے گا مولوی کا کرپانی فتوی‬

‫اسے کھا جائے گا‬ ‫اک درزی اور یہ سوچ‬ ‫یہاں کوئی باپ کے لیے نہیں سوچتا‬‫پوری امت کے لیے وہ سوچے جا رہا تھا‬ ‫سچ تو یہ ہے‬ ‫اس کا انداز فکر مجھے بھا گیا‬ ‫اس کا ہر لفظ قلب و نظر پر چھا گیا‬ ‫جواب میں کیا کہتآ‬ ‫بجھے دل اور بھیگی آنکھوں سے‬ ‫میں واں سے اٹھ گیا‬ ‫مرے بس میں یہ ہی کچھ تھا‬ ‫میں بھلا اور کیا کر سکتا تھا‬ ‫مقدر‬

‫ہیلو ہیلو‬ ‫کون‬ ‫شانتی‬ ‫کیا چاہتی ہو‬ ‫دوستی‬ ‫کر لو‬‫تمہاری کرخت نگاہوں سے ڈر لگتا یے‬ ‫ہا۔۔۔ہا۔۔۔۔۔ہا۔۔۔۔۔ہا‬ ‫پگلی! نادان!‬ ‫گلاب کانٹوں سے نبھا کرتا ہے‬ ‫تم بھی کر لو‬‫سسکیوں میں شانتی کی آواز ڈوب گئی‬ ‫بزدل‘ جاہل‘ دقیانوسی‬ ‫بارود تو امن کی ضمانت ہے‬ ‫زمانہ روایت کی لحد میں‬ ‫اتار دے گا تم کو‬

‫اور تم‬ ‫سسک بھی نہ سکو گی‬‫جدید سکول میں چار دن گزار دیکھو‬ ‫ہیلو‘ سن رہی ہو نا‬ ‫ہاں سن رہی ہوں‬ ‫مگر یہ مجھ سے نہ ہو گا‬ ‫‘تو پھر جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫تنہائی کے زنداں میں مقید رہو‬ ‫یہ ہی تمہارا مقدر ہے‬‫دو بانٹ‬

‫جھورے کے سسر تھے کمال کے‬ ‫تامرگ سگے رہے مال کے‬ ‫کدھر سے آتا ہے چھوڑیے‬ ‫انگلی اٹھائے جو‬ ‫بلا تکلف سر اس کا پھوڑیے‬ ‫تول کے بھی ان کے دو بانٹ تھے‬‫ایک سے لیتے تھے ایک سے دیتے تھے‬ ‫یہاں ایک پیر صاحب رہتے تھے‬ ‫نام ان کا کچھ اور ہے‬ ‫پیار سے میں انہیں بابا دو بانٹ کہتا تھا‬ ‫برائیلر فروش کے ہاتھ کا گوشت‬ ‫خود پر حرام جانتے تھے‬ ‫روڑی کھا کر پلا مرغا ہو کہ مرغی‬ ‫بڑے شوق سے کھاتے تھے‬ ‫جو ان کا شوق یاد رکھتے‬

‫بافیض بس وہ ہی ہوتے تھے‬ ‫کمال کے طبع شفیق تھے‬ ‫بوڑھی ہو کہ کم صورت‬ ‫بیٹا کہہ کر بلاتے‬ ‫سر پر پیار دے کر دعا دیتے‬ ‫کام کی چیز اگر ساتھ لائی ہو‬ ‫اندر بھجوا دیتے‬ ‫دولت کو جیب میں رکھنے کا‬ ‫انہیں کوئی شوق نہ تھا‬‫گھٹنے کے نیچے دبا کر رکھتے تھے‬ ‫بڑے دیالو اور کرپالو تھے‬ ‫ہر عام چیز سے‬ ‫خلیفوں کی دنیا بساتے‬ ‫لنگر میں سے بےمایہ ادھر پڑا رہتا‬ ‫ہر ستھرا مگر اندر چلا جاتا‬ ‫گویا اندر بھی راضی باہر بھی راضی‬

‫بے داغ کپڑے ہوں اور پیٹ میں دال روٹی‬ ‫بات کچھ جچتی نہیں‬ ‫ہاں پیٹ میں ہو اگر دیسی مرغا‬ ‫تو ہی بات بنتی ہے‬ ‫گویا من بھی راضی تن بھی راضی‬‫جھورے کے سسر سے مماثل بات کی بات ہی کچھ اور تھی‬ ‫باصورت عورتیں انہیں خوش آتی تھیں‬ ‫اوپر سے‬ ‫چھوئی موئی سی ہوتیں تو‬ ‫پیچے لڑ جاتے تھے‬ ‫یہ ہی اک بات تھی‬ ‫جس پر اندر اعتراض رہتا تھا‬ ‫وہ کیا جانے‬ ‫اک تو وہ پرانی تھی‬ ‫پیپا بھی تھی‬ ‫اوپر سے عادات میں بال ایانی تھی‬

‫دیسی مرغا جب ڈکارا ہو‬ ‫ہر سو کنول چہروں کا نظارہ ہو‬ ‫تن من میں مستی آ ہی جاتی ہے‬ ‫مستی حواس کیا‬ ‫ایمان بھی کھا جاتی ہے‬ ‫جھورے کا سسر یاد میں اپنی‬ ‫دو بانٹ چھوڑ گیا‬ ‫اس کی بیٹی‬ ‫یہ دونوں لے کر خاوند کے گھر گئی‬ ‫پھر یہ ہی متاع جہیز لے کر‬ ‫جھورے کے ساتھ نکل گئی‬‫طلاق و نکاح کی اسے کیا ضرورت تھی‬ ‫دو بانٹ کا یہ ہی تو کمال ہے‬‫اصول و ضوابط سے آزادی دلا دیتا ہے‬ ‫تاعمر مستی کی گزاری‬ ‫جھورا مر گیا قولاں بھی مر گئی‬

‫شیخ تو حضور کے قدموں پر ہوتا ہے‬ ‫حیرت تو یہ ہے‬ ‫اس پیر کے ہاتھ‬ ‫قولاں کے جہیز کی یہ متاع پلید‬ ‫کیسے آئی‬ ‫یہ بات پکی ہے‬ ‫مائی جہیز میں نہیں لائی تھی‬ ‫سنا ہے کھاتی خوب تھی‬ ‫لیکن نیک اور پردہ میں رہتی تھی‬ ‫ممکن ہے‬‫جھورے کے ہمسایا میں کبھی رہے ہوں‬ ‫وہاں سے چرا لائے ہوں‬ ‫یقین نہیں آتا‬ ‫پر کیا کریں‬ ‫چوروں کو مور پڑتے آئے ہیں‬ ‫دو حرفی بات‬

‫عادت نہ ماننے کی اچھی نہیں ہوتی‬‫جیتے جی مقدر اس کا بنتی ہے نیستی‬‫اس کے پیرو سدا زیر عتاب رہتے ہیں‬ ‫آگے بڑھتے قدم پیچھے کو آتے ہیں‬ ‫اپنی پہ اڑنا گھاٹے کا سودا ہے‬ ‫یہ بےجڑا پودا ہے‬ ‫ریت کی دیوار کیسے کھڑی کرو گے‬ ‫بلا ہنر گر دریا میں چھلانگ لگاؤ گے‬ ‫غوطے کھاؤ گے ڈوبو گے مرو گے‬ ‫شیطان اپنی پہ اڑا ہوا ہے‬ ‫صبح و شام لعنتیں ہی نہیں‬ ‫ہر لمحہ پتھر روڑے کھاتا ہے‬ ‫بس سچے دل سے توبہ ہی کرنی ہے‬‫ایسا لمبا چوڑا اس کا حساب کتاب نہیں‬ ‫پر کیا کریں‬ ‫شخص انا کی غلامی کیے جاتا ہے‬

‫پھر بھی کہے جاتا ہے‬ ‫میں آزاد ہوں میں آزاد ہوں‬ ‫کہتا ہے یہ غیر کی داری نہیں‬ ‫میں کہتا ہوں انا کس کی پیرو ہے‬‫الله کے بنائے شخص کی یہ چیز نہیں‬ ‫برسوں سے‬ ‫میں اسے یہ ہی کہے جا رہا تھا‬ ‫مری وہ کب مانتا تھا‬ ‫مرا کہا حرف آخر ہے‬ ‫یہ ہی اس کی ہٹ تھی‬ ‫مرا کہا کوئی الف لیلی نہ تھا‬ ‫دو حرفی بات تھی‬ ‫میں کہتا تھا‬ ‫کرنا اور ہونا میں فرق ہے‬ ‫وہ کہتا تھا‬ ‫ہونا کچھ نہیں کرنا ہی سب کچھ ہے‬

‫ہونی کرنے سے ٹل جاتی ہے‬ ‫ہر بگڑی اس سے سنور جاتی ہے‬ ‫کئی بار بیمار پڑا‬ ‫میں کہتا رہا اب سناؤ‬ ‫کرنے اور ہونے میں بڑا فرق ہے‬‫جوابا کہتا بدپرہیزی کے سبب بیمار پڑا ہوں‬ ‫مری گرہ میں مال ہے‬ ‫ہتھیار دوا دارو کا مرے ہاتھ ہے‬ ‫چنگا بھلا ہو جاؤں گا‬ ‫عشق کی گرفت میں آیا‬ ‫اٹھنا بیٹھنا سونا جاگنا گنوایا‬ ‫روپیا پیسا بھی اس راہ میں لٹایا‬ ‫گرہ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے‬ ‫کنگلا ہوا تو معشوقہ وہ گئی‬ ‫بھوک ننگ کے نکاح میں کیوں آتی‬ ‫میں نے کہا کرنے کی‬

‫اس سے بڑھ کر ناکامی اور کیا ہو گی‬ ‫ہونی کا تو اس میں عمل دخل ہی نہیں‬ ‫بھوکا ننگا ہو کر بھی‬ ‫اپنے کہے پر ڈٹا رہا‬ ‫کہنے لگا دولت ہاتھ کی میل ہے‬ ‫عورت پاؤں کی جوتی‬‫مری کرنی میں ہی کہیں چوک ہوئی ہے‬ ‫ورنہ اس سالی کی ایسی کی تیسی‬ ‫محنت کروں گا اور کما لوں گا‬ ‫پھر اس سی بیسیوں‬ ‫مرے چرنوں میں ہوں گی‬ ‫اک روز‬ ‫میں نے سنا آخری سانسوں پر ہے‬ ‫میں اسے ملنے گیا‬ ‫حواس بگڑے ہوئے تھے‬ ‫چہرے کا رنگ بھی زرد پڑ گیا تھا‬

‫میں نے کہا سناؤ بھیا کیسے ہو‬ ‫کیا سناؤں سانسیں گن رہا ہوں‬ ‫اب تو ہونی کو مانتے ہو‬ ‫یار اس میں ہونی کہاں سے آ گئی‬ ‫میں اپنی غلط کرنی کی بھگت رہا ہوں‬ ‫میں نے سوچا اب کچھ کہنا درست نہیں‬ ‫اس کے دل پر تو‬ ‫ختم الله کی مہر لگی ہوئی تھی‬ ‫اسی شام ہونی کی گرفت میں آیا‬ ‫چل بسا‬‫جاتے ہوئے بھی نٹکا اس نے اوپر رکھا‬ ‫ہونی کیسے ٹل سکتی تھی‬ ‫کرنی کے ساتھ اگر ہونی کو بھی مانتا‬ ‫اس میں آخر اس کا کیا بگڑ جاتا‬ ‫مجنوں ہو کہ رانجھا‬ ‫کرنی کی کب کھٹی کھا سکے ہیں‬

‫نکاح کرتے نہیں نکاح تو ہوتے آئے ہیں‬ ‫جوڑے آسمان پر بنتے ہیں‬ ‫زور زبردستی کے کام بگڑ جاتے ہیں‬‫سوچ کے گھروندوں میں‬

‫علم و فن کے‬ ‫کالے سویروں سے‬ ‫مجھے ڈر لگتا ہے‬ ‫ان کے بطن سے‬ ‫ہوس کے ناگ جنم لیتے ہیں‬ ‫سچ کی آواز کو‬ ‫جو ڈس لیتے ہیں‬ ‫سہاگنوں کی پیاسی آتما سے‬ ‫ہوس کی آگ بجھاتے ہیں‬‫صلاحیتوں کے چراغوں کی روشنی کو‬ ‫دھندلا دیتے ہیں‬ ‫بجھا دیتے ہیں‬ ‫حق کے ایوانوں میں‬ ‫اندھیر مچا دیتے ہیں‬ ‫حقیقتوں کا ہم زاد‬

‫اداس لفظوں کے جنگلوں کا‬ ‫آس سے‬ ‫ٹھکانہ پوچھتا ہے‬ ‫انا اور آس کو‬ ‫جب یہ ڈستے ہیں‬ ‫آدمیت کی آرتھی اٹھتی ہے‬‫کم کوسی' بےہمتی بےاعتنائی کے شراپ کے سائے‬ ‫ابلیس کے قدم لیتے ہیں‬ ‫شخص کبھی جیتا کبھی مرتا ہے‬ ‫کھانے کو عذاب ٹکڑے‬ ‫پینے کو تیزاب بوندیں ملتی ہیں‬ ‫خود کشی حرام سہی‬ ‫مگر جینا بھی تو جرم ٹھہرا ہے‬ ‫ستاروں سے لبریز چھت کا‬ ‫دور تک اتا پتا نہیں‬ ‫ہوا ادھر سے گزرتے ڈرتی ہے‬

‫بدلتے موسموں کا تصور‬ ‫شیخ چلی کا خواب ٹھہرا ہے‬ ‫یہاں اگر کچھ ہے‬ ‫تو‪'...........‬‬ ‫منہ میں زہر بجھی تلواریں ہیں‬ ‫پیٹ سوچ کا گھر‬ ‫ہات بھیک کا کٹورا ہوئے ہیں‬ ‫بچوں کے کانچ بدن‬ ‫بھوک سے‬‫کبھی نیلے کبھی پیلے پڑتے ہیں‬ ‫اے صبح بصیرت!‬ ‫تو ہی لوٹ آ‬ ‫کہ ناگوں کے پہرے‬ ‫کرب زخموں سے‬ ‫رستا برف لہو‬ ‫تو نہ دیکھ سکوں گا‬

‫سچ کے اجالوں کی حسین تمنا‬ ‫مجھے مرنے نہ دے گی‬ ‫اور میں‬ ‫اس بےوضو تمنا کے سہارے‬ ‫کچھ تو سوچ سکوں گا‬ ‫سوچ کے گھروندوں میں‬ ‫زیست کے سارے موسم بستے ہیں‬ ‫قاضی جرار حسنی‬ ‫‪1974‬‬‫کیا یہ کافی نہیں‬

‫الله بخشے نابخشے الله کی مرضی‬‫یہاں اک حاجی صاصب ہوا کرتے تھے‬ ‫پنج وقتے تھے‬ ‫ہاں صدقہ زکوت خیرت میں‬ ‫کافی بخل کرتے تھے‬ ‫حسیں بیبیوں کا دل کب توڑتے تھے‬ ‫دوریاں کم کرکے‬ ‫ان سے رشتے جوڑتے تھے‬ ‫ان کا کہنا تھا سچ بولو پورا تولو‬ ‫لوگوں کے لیے یہ ہی نصحیت تھی‬ ‫یہ الگ بات ہے‬ ‫ان کے کہے پر یقین کرنا‬ ‫سو کا گھاٹا تھا‬ ‫کہا کب کرتے تھے‬‫کبھی اس سے الٹا بھی چل جاتے تھے‬

‫اک عاشق اپنی معشوقہ سے کہتا رہا‬ ‫ستارے تمہارے لیے توڑ لاؤں گا‬ ‫بپھرے دریا کی لہروں سے لڑ جاؤں گا‬ ‫اک روز فون پر اس کی معشوقہ نے کہا‬‫آج باغ میں ملو‘ مجھے تم سے اک کام ہے‬ ‫جواب میں اس نے کہا‬ ‫کیوں نہیں‘ آؤں گا اگر بارش نہ پڑی‬ ‫ہمارے یہاں اک لیڈر ہوا کرتے تھے‬ ‫تھے بلا کے خوش خیال‬ ‫لباس میں اپنی مثال آپ تھے‬ ‫کار سے باہر جب قدم رنجہ فرماتے‬‫لوگ ان کی عیار معصومیت پر مر مر جاتے‬ ‫پھول تو پھول جئے جئے کار نثار کرتے‬ ‫کہا کرتے تھے‬ ‫شہر کو پیرس بنا دوں گا‬ ‫شہر‘ شہر نہ بن سکا پیرس کہاں بنتا‬

‫یہ جانتے کہ بےزر ہوں‬ ‫زبانی کلامی‬ ‫میں بھی گھر میں بیسیوں چیزیں لاتا ہوں‬ ‫بیگم کا اچھا مؤڈ اگر کبھی رہا ہو‬ ‫نور محل کبھی تاج محل‬ ‫لمحوں میں وائٹ ہاؤس سے کہیں بڑھ کر‬ ‫عمارت تعمیر کیے دیتا ہوں‬ ‫یہ الگ بات ہے‬ ‫آتے دنوں میں کچھ نہ ہو پانے پر‬ ‫عزت بچانے کی خاطر‬ ‫ٹھوک کر بیزتی کراتا ہوں‬ ‫کھسیانی ہنسی بھی ہنستا ہوں‬‫چلو کچھ لمحے اچھے کچھ برے گزرتے ہیں‬ ‫جیون کوئی ٹھہرا پانی نہیں‬ ‫ناہی یہ بےبل پگ ڈنڈی ہے‬ ‫صالیحین کہتے آئے ہیں‬

‫جو کہو وہ کرو‬ ‫ہم اہل شکم ضدین کے قائل ہیں‬‫کہنا اور کرنا زیست کے دو الگ رستے ہیں‬ ‫کہے بن بن نہیں آتی‬ ‫کرتے ہیں تو شکم پر لات لگتی ہے‬ ‫نہ کرنے میں ہی تو شکم کی سلامتی ہے‬ ‫جو شکم کا دشمن بنے گا‬ ‫نیزے چڑھے گا‬ ‫زہر کا پیالہ اس کا مقدر ٹھہرے گا‬ ‫آگ میں ڈالا جائے گا‬ ‫زبان سے کہتے رہو‬ ‫ہم جو کہتے ہیں وہ کرتے ہیں‬ ‫ہم بھی یہ جانتے ہیں سننے والا بھی‬ ‫اس حقیقت سے بے خبر نہیں‬ ‫ہم الله اور اس کے رسول کا‬ ‫دل و جان سے احترام کرتے ہیں‬

‫شیو ہو کہ وشنو‬ ‫موسی ہو کہ عیسی‬ ‫زرتشت ہو کہ مہآتما بدھ‬ ‫رام اور کرشن بڑے لوگ تھے‬ ‫بھلا ہم ان سے کیسے ہو سکتے ہیں‬ ‫ان کی ہر کرنی کو سلام و پرنام‬ ‫بےشک وہ عزت کی جا ہیں‬ ‫ان کی کہنی اور کرنی ایک تھی‬ ‫وہ ایک کے قائل تھے‬ ‫مصیبت میں رہے ہر لمحہ صعوبت میں رہے‬‫اپنی کہنی پر استوار کرنی کا پرنالہ نہ وہ بدل سکے‬ ‫وہ بڑے تھے بھوکے رہ سکتے تھے‬ ‫ہماری ضرورتیں حاجتیں ان سے جدا‬ ‫وہ کہنی پر چل کر بڑے تھے‬ ‫کہہ کر نہ کرنے سے ہی مال آتا ہے‬ ‫اچھا کھاتے ہیں بڑے گھر میں رہتے ہیں‬

‫لوگ سلام بلاتے ہیں‬ ‫یہ ہی نہیں ہم سے ڈرتے ہیں‬ ‫دنیا میں رہتے ہیں‬ ‫دنیا کی اور بڑائی کیا ہوتی ہے‬ ‫ان سے کون ڈرتا تھا‬ ‫ان کی کون سنتا تھا‬ ‫ان کے جو قدم لیتا رہا‬ ‫وہ ہی معتوب ہوا‬ ‫کیا یہ کم ہے کہ ہم خود سے گزر کر‬ ‫انہیں مانتے ہیں‬ ‫قبر میں کیا ہو گا حشر میں کیا ہو گا‬ ‫یہ آتے وقتوں کی بات ہے‬ ‫قبروں میں ان پر کیا ہو رہا ہے‬ ‫کب کوئی دیکھ رہا ہے‬ ‫مجرم تب ٹھہریں گے‬‫جب کہنی پر کرنی استوار نہ مانیں گے‬

‫یہ تو اصول حیات ہے‬ ‫اس کا کون کافر منکر ہے‬ ‫کیا یہ کافی نہیں‬ ‫اس پر ہمارا ایمان و یقین ہے‬‫یادوں کی دودھ ندیا‬

‫وہ نم صبح کی تمثال تھی‬ ‫خود اپنی مثال تھی‬ ‫پہلی بار جو میں نے اسے دیکھا‬ ‫مری آنکھوں میں زندگی اتر گئی‬ ‫دل کی ویران بستی میں‬ ‫زندگی کے ڈنکے بجنے لگے‬ ‫خوشی کے ترانے مچلنے لگے‬ ‫ہواؤں کا لہجہ بھی بدل گیا‬ ‫زیست کا گرم موسم‬ ‫رخ اپنا بدل گیا‬ ‫اس کے رخساروں کا عکس‬ ‫شفق کے پیلے رنگ بدلنے لگا‬ ‫شفق کیا‘ افق بھی‬ ‫اس کی مسکان کے رنگ لینے لگا‬‫میں نے پیار سے جو چھوا اس کے رخسار کو‬ ‫اک کرنٹ سا لگا اور میں پیچھے ہٹ گیا‬

‫وہ سراپا زندگی تھی‬ ‫میں صدیوں کا بےجان جسد تھا‬ ‫لا سے اثبات میں آیا نہ تھا‬ ‫نہ مجھ پر اپنی حقیقت کھلی تھی‬ ‫کیا تھا میں کون تھا‬ ‫اس کی مسرور آنکھوں میں‬ ‫مرے ہونے کی دلیل تھی‬ ‫مرے من آنگن میں اس نے‬ ‫قدم کیا رکھا‬ ‫فرشتے بھی سوچ کا بت بن گئے‬ ‫میں اور یہ خوبی قسمت‬‫سورج شاید مغرب سے نکل آیا تھا‬ ‫دست قدرت سے یہ کب بعید ہے‬ ‫ہونی میں بدل جاتی ہے ‘ان ہونی‬ ‫اس کے مری من بستی میں‬ ‫قدم دھرنے کی دیر تھی‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook