ہم اک دوجے کو پہچان گئے وہ چھوٹا تھا میں نیچے بیٹھ گیا گلے لگایا خوب پیار کیا دعا دی مری گرہ کی یہ ہی اوقات تھی وہ ہاں وہ بچہنوشیرواں سے کہیں بڑھ کر دیالو نکلا میٹھی گولی اس کے منہ میں تھی اس نے اپنا وہ لقمہ مرے منہ میں ڈالا خوش ہو کر مرے منہ کو دیکھا مرے منہ میں وہ تھا جو جنت سوگ میں بھی نہ ہو گا مرے چہرے پر خوشی کے لڈو پھوٹ رہے تھےاس کے پاس ایک اور میٹھی گولی تھی جو اس نے مرے ہاتھ پر رکھ دی
اکبر ہو کہ کوئی اور شاہ کیا کسی کو دیں گے مہان تھا دیا کا پردھان تھا وہ معصوم بچہ شاہوں کی شاہی ایک طرف الفت پریم سے لبریز میٹھی گولی ایک طرف تول میں کہیں بھاری ہے گو اک عرصہ ہوا اس میٹھی گولی کا مزا مری رگ وپے میں آج بھی رقصاں ہے پریم و الفت کے آب زم زم میں بھیگی ہات پر اس بچے کی رکھی میٹھی گولیآتی نسلوں کے لیے میں نے رکھ دی ہے کہ حجت رہے
محبتوں کا کوئی مول نہیں یہ جیتی ہیں مرتی نہیں لوگوں کو یہ خیر کی شکتی بردان میں دیتی ہیںدو بیلوں کی مرضی ہے
تمثالی وعلامتی م نظومہ بندر کے بچوں کے آتے کل کی بھوک کے غم میں وہ اور یہ آدم کے زخموں سے چور بھوک سے نڈھال قول کے سچے‘ پکے بچوں پر بھونکتے ٹونکتے زخمی سؤر بھوکے کتے ٹوٹ پڑے ہیں ظلم کے ہر حامی کے منہ میںخون کی ٹیکسال سے نکلے ڈالر
ہاتھ میں وعدوں کے پرزے ہیں ظلم کی نندا کرنے والے توپوں کی زد میں ہیں جبر کے ٹوکے میں اپنی سانسیں گنتے ہیں ہونٹوں سے باہر آتی جیبا خنجر کی کھا جا ہے گھورتی آنکھیں اگنی کا رن ہے سچ تو یہ ہے کمزور باشندے پشو جناور کا اترن اور ماس خور درندوں کا جیون ہیں لومڑ اور گیڈر بھیگھاس پھوس سے نفرت کرتے ہیں اک کا جیون
دوجے کی مرتیو پر اٹھتا ہے دیا اور کرپا کے سب جذبے شوگر کو نائٹروکولین ہیں اب دو بیلوں کی مرضی ہے اک ساتھ چلیں بے خوفی کا جیون جئیں یا پھر دو راہوں کے راہی ٹھہریں کتوں سؤروں کا فضلہ بن کر بے نامی کی نالی میں بہہ جائیںذات کے قیدی
قصور تو خیر دونوں کا تھا اس نے گالیاں بکیں اس نے خنجر چلایا سزا دونوں کو ملی وہ جان سے گیا یہ جہان سے گیا اس کے بچے یتیم ہوئے اس کے بچے گلیاں رولے اس کی ماں بینائی سے گئیاس کی ماں کے آنسو تھمتے نہیں اس کا باپ کچری چڑھا اس کا باپ بستر لگا دونوں کنبے کاسہء گدائی لیے گھر گھر کی دہلیز چڑھے بے کسی کی تصویر بنے
بے توقیر ہوئے ضبط کا فقدان بربادی کی انتہا بنا سماج کے سکون پر پتھر لگا قصور تو خیر دونوں کا تھا جیو اور جینے دو کے اصول پر جی سکتے تھے اپنے لیے جینا کیا جینا دھرتی کا ہر ذرہ تزئین کی آشا رکھتا ہے ذات کے قیدی مردوں سے بدتر سسی فس کا جینا جیتے ہیںچل' محمد کے در پر چل
اک پل آکاش اور دھرتی کو اک دھاگے میں بن کر رنگ دھنک اچھالے دوجا پلجو بھیک تھا پہلے کل کی کاسے سے اترا ماتھے کی ریکھا ٹھہرا کرپا اور دان کا پل پھن چکر مارا گرتا ہے منہ کے بل سلوٹ سے پاک سہی پھر بھی حنطل سے کڑوا اترن کا پھل الفت میں کچھ دے کر
پانے کی اچھا حاتم سے ہے چھل غیرت سے عاری حلق میں ٹپکا وہ قطرہ سقراط کا زہر نہ گنگا جلمہر محبت سے بھرپور نیم کا پانی نہ کڑا نہ کھارا وہ تو ہے آب زم زم اس میں رام کا بل ہر فرزانہ عہد سے مکتی چاہے ہر دیوانہ عہد کا بندی
مر مٹنے کی باتیں ٹالتے رہنا کل تا کل جب بھی پل کی بگڑی کل در نانک کے بیٹھا بےکل وید حکیم ملاں پنڈٹ پیر فقیر جب تھک ہاریں جس ہتھ میں وقت کی نبضیں چل' محمد کے در پر چلعطائیں الله کی کب بخیل ہیں
مدحیہ کہانیحضور کے قدموں کی برکت دیکھیے آنکھیں جو قدم بوس رہیں کمال ہوئیں رشک ہلال ہوئیں تہی بر ملال ہوئیں اس سے بڑھ کر یہ بلال ہوئیںان آنکھوں نے موت کو حیات بخشی زمینی خداؤں کو بندگی بخشی ہر لمحہ ان سے اخوت ٹپکی شریعت ٹپکی طریقت ٹپکی حقیقت ٹپکی میں نے سنا تھا
شاہ حسین کے دربار کے عقب میں حضور کے قدموں کے نشان اہل ظرف نے محفوظ کر رکھے ہیں گناہ گار سیاہ کار سہی شوق لیکن مجھے وہاں لے گیاڈرتے ڈرتے حضرت کے دربار میں داخل ہوا بساط بھر ادب سے سلام کیا درود پڑھا دعا کی اور دربار سے باہر آ گیا وجود میں ہمت باندھی ہر بری کرنی کی معافی مانگی تب کہیں جا کے دربار کے عقب میں گیا حضور کے قدموں کے نشان بڑے احترام بڑی ّعقیدت سے محفوظ تھے تازہ پھولوں سے سجے تھے لوگ بھی وہاں کھڑے تھے ہر آنکھ میں محبت تھی ّعقیدت تھی
دل بےشک طواف الفت میں تھے ہاں کچھ لب بھی متحرک تھے انگلیاں شیشہءپا کو چھو رہی تھیں سوچا آگے بڑھوں شیشہءنقش پا کو چوم لوں پھر سوچا مرے لب اس قابل کہاںانگلیوں سے ہی شیشہء پا چھو لیتا ہوں انگلیوں میں مگر اتنا دم کہاں خواہش ابھری قدموں کو چھوتی پھول کی اک پتی ہی مل جاتی دونوں جہاں گویا مل جائیں گے گناہ گا ہو کہ نیکوکار عطائیں الله کی کب بخیل ہیں ایسا اگر ہوتا تو مجھ سے بھوکے مر جاتے تالہ اس شیشے کے بکسے کا
کھولا خدمت گار نے حضور کے قدموں کو چھوتی اک پتی مرے ہات پر رکھ دی میں اور یہ فضل بےبہا ‘حیرت ہوئی دنیا و عقبی کی عطا سجدہ شکر کا مجھے کب ڈھنگ رہا ہے خدا جانتا تھا کہ اس کا بندہ ممنون ہے میں نے وہ پتی بصد شکر سدا خالی رہتے پرس میں ڈال لیمرے حضور کے قدموں کی برکت دیکھیے مری میں مر گئی مرا پرس بھی خالی نہیں رہتا راز یہ کھل گیا ہے قدموں میں ہی حضور کے دونوں جہاں ہیں جاؤں گا اگر حضور سے
کسی جہاں کا نہ رہوں گا جو حضور کے قدم لیتا رہے گا اویس بنے گا منصورٹھہرے گا سرمد لقب پائے گاکرپانی فتوی
فیقا ہمارے محلے کا درزی ہے ہے تو سکا ان پڑھ سوچ میں مگر فلاطو لگتا ہے دور کی کوڑی ڈھونڈ کے لاتا ہے سوچ ہی الگ تر نہیں کپڑے بھی بلا کے سیتا ہے الجھا الجھا سڑا بجھا بھی رہتا ہے الله جانے گھر والی سے نبھا اس کا کیسے ہوتا ہے بےشک وہ اس کی عجیب باتوں سے گھبرا جاتی ہو گی پلے جو ُپڑ گیا‘ رو دھو کر نبھاتی ہو گیکم ہی لوگ اس کی باتوں پر غور کرتے ہیں ہاں جو کرتے ہیں اس کے ہو جاتے ہیں بڑا زیرک ہے دانا ہے
بات کرتے بندہ کوبندہ دیکھ لیتا ہے باتوں کی کھٹی کب کھاتا ہے ڈٹ محنت کرتا ہے خوب کماتا ہے اس روز سب چھوڑ چھاڑ کر چپ چاپ بستر پر لیٹا ہوا تھا خلا میں بٹربٹر دیکھے جاتا تھا پہلے سوچا بیمار ہے بیماروں کے طور کب ایسے ہوتے ہیں سوچا چلو حال چال پوچھ لیتے ہیںبیمار ہوا تو کوئی خدمت پوچھ لیتے ہیں میں اس کی دکان میں داخل ہو گیا سلام دعا کرکے بیٹھ گیا پوچھا کیا حال ہے کیوں بےکار میں لیٹے ہوئے ہو اٹھو شیر بنو
کوئی دو چار تروپے بھرو آخر بات کیا ہے جو تم نے یہ حالت بنا رکھی ہے آ جی بات کیا ہونی ہے کل سے مسلسل سوچے جا رہا ہوں یہ کہہ کر وہ فلاطو کی اولاد چپ ہو گیا کچھ دیر انتظار کیا کہ اب بولتا ہے جب خامشی نہ ٹوٹی تو میں نے کہا منہ سے کچھ پھوٹو گے تو پتا چلے گانبی نہیں ہوں جو مجھ پر وحی اتر آئے گی اس نے مری طرف دیکھا اور اداس لفظوں میں یوں گویا ہوا کالا ہو کہ چٹا شرقی ہو کہ غربی پنجابی ہو کہ عربی شعیہ ہو کہ وہابی
چاہے اس سا ہو تول میں کھوٹا رہا ہو یا کھرا بول میں اس سے اسے کوئی غرض نہیںمسلماں کشی میں کہیں رائی بھر جھول نہیں ہر مسلمان کو ایک آنکھ سے دیکھتا ہے مطلب بری کے بعد اپنا چمچہ بھی توڑ دیتا ہےاس کے قریبی گولی کی زد میں آ جاتے ہیں جو لینا ہوتا ہے لے لیتا ہے اس کے ہر دینے میں بھی لینا ہوتا ہے شلوار ٹخنوں سے اوپر ہو کہ نیچے ہاتھ چھوڑے یا باندھے داڑھی بڑی ہو کہ چھوٹی توند پتلی ہو کہ موٹی اسے اس سے کیا بس مسلمان ہو اتنا کافی ہے
اس کے مجرم ہونے میں اس سے بڑا کوئی ثبوت نہیں یہ معاملہ مسلمانوں کا ہے اس کا نہیں وہ صرف اتنا جانتا ہے یہ مسلمان ہے اس کی گردن زنی ہونی چاہیےمسلمانوں کا عقیدہ و نظریہ اس سے الگ تر ہے ان وہابی سنی شعیوں نے اپنے اپنے مولوی پالے ہیں بلا کی توندیں وہ رکھتے ہیں شورےفا بڑے ہوٹلوں میں سائلوں کی گرہ سے کھاتے ہیں مولوی بھی باہر کی کھاتے ہیں دونوں اوروں کے پلے کی باہر سے گھر بھجواتے ہیں
حلوہ ہو کہ ہو آوارہ مرغا توند اٹھائے بھاگے جاتے ہیںہاں مگر کھیسہ میں کفر کا فتوی رکھتے ہیں مسلمانوں کے ہاں مسلمان کم پائے جاتے ہیں وہابی سنی شعیہ کی بہتات ہے کئی اور ایسوں کی برسات ہے فقط چند لقموں کے لیے تفریق کے ایٹم بم کبھی ادھر کبھی ادھر گراتے ہیں تفریق کا بم ایٹم بم سے کہیں مہلک ہے آخر وہ دن کب آئیں گے وہابی رہیں گے نہ شعیہ سنی سب مسلمان ہوں گے اگر تفریق مٹ گئی
تو اس کے ہر بم سے بچ جائیں گے ایکتا پیٹ کے بندوں کو کب خوش آتی ہے لڑانے مروانے کا شوق صدیوں سے چلا آتا ہے وہ ان پڑھ درزی مسلسل بولتا رہا شاید پچھلے جنم میں مدینہ کی گلیوں میں گھوما پھرا تھا اک ان پڑھ درزی کے سامنے مری بولتی بند تھی بات تو وہ ٹھیک کہہ رہا تھا لیٹا ہوا تھا کب پیٹ سے سوچ رہا تھاپیٹ سے نکلتی سوچ مسمانوں کو کھا گئی ہے مگر کیا کریں جو بولے گا مولوی کا کرپانی فتوی
اسے کھا جائے گا اک درزی اور یہ سوچ یہاں کوئی باپ کے لیے نہیں سوچتاپوری امت کے لیے وہ سوچے جا رہا تھا سچ تو یہ ہے اس کا انداز فکر مجھے بھا گیا اس کا ہر لفظ قلب و نظر پر چھا گیا جواب میں کیا کہتآ بجھے دل اور بھیگی آنکھوں سے میں واں سے اٹھ گیا مرے بس میں یہ ہی کچھ تھا میں بھلا اور کیا کر سکتا تھا مقدر
ہیلو ہیلو کون شانتی کیا چاہتی ہو دوستی کر لوتمہاری کرخت نگاہوں سے ڈر لگتا یے ہا۔۔۔ہا۔۔۔۔۔ہا۔۔۔۔۔ہا پگلی! نادان! گلاب کانٹوں سے نبھا کرتا ہے تم بھی کر لوسسکیوں میں شانتی کی آواز ڈوب گئی بزدل‘ جاہل‘ دقیانوسی بارود تو امن کی ضمانت ہے زمانہ روایت کی لحد میں اتار دے گا تم کو
اور تم سسک بھی نہ سکو گیجدید سکول میں چار دن گزار دیکھو ہیلو‘ سن رہی ہو نا ہاں سن رہی ہوں مگر یہ مجھ سے نہ ہو گا ‘تو پھر جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تنہائی کے زنداں میں مقید رہو یہ ہی تمہارا مقدر ہےدو بانٹ
جھورے کے سسر تھے کمال کے تامرگ سگے رہے مال کے کدھر سے آتا ہے چھوڑیے انگلی اٹھائے جو بلا تکلف سر اس کا پھوڑیے تول کے بھی ان کے دو بانٹ تھےایک سے لیتے تھے ایک سے دیتے تھے یہاں ایک پیر صاحب رہتے تھے نام ان کا کچھ اور ہے پیار سے میں انہیں بابا دو بانٹ کہتا تھا برائیلر فروش کے ہاتھ کا گوشت خود پر حرام جانتے تھے روڑی کھا کر پلا مرغا ہو کہ مرغی بڑے شوق سے کھاتے تھے جو ان کا شوق یاد رکھتے
بافیض بس وہ ہی ہوتے تھے کمال کے طبع شفیق تھے بوڑھی ہو کہ کم صورت بیٹا کہہ کر بلاتے سر پر پیار دے کر دعا دیتے کام کی چیز اگر ساتھ لائی ہو اندر بھجوا دیتے دولت کو جیب میں رکھنے کا انہیں کوئی شوق نہ تھاگھٹنے کے نیچے دبا کر رکھتے تھے بڑے دیالو اور کرپالو تھے ہر عام چیز سے خلیفوں کی دنیا بساتے لنگر میں سے بےمایہ ادھر پڑا رہتا ہر ستھرا مگر اندر چلا جاتا گویا اندر بھی راضی باہر بھی راضی
بے داغ کپڑے ہوں اور پیٹ میں دال روٹی بات کچھ جچتی نہیں ہاں پیٹ میں ہو اگر دیسی مرغا تو ہی بات بنتی ہے گویا من بھی راضی تن بھی راضیجھورے کے سسر سے مماثل بات کی بات ہی کچھ اور تھی باصورت عورتیں انہیں خوش آتی تھیں اوپر سے چھوئی موئی سی ہوتیں تو پیچے لڑ جاتے تھے یہ ہی اک بات تھی جس پر اندر اعتراض رہتا تھا وہ کیا جانے اک تو وہ پرانی تھی پیپا بھی تھی اوپر سے عادات میں بال ایانی تھی
دیسی مرغا جب ڈکارا ہو ہر سو کنول چہروں کا نظارہ ہو تن من میں مستی آ ہی جاتی ہے مستی حواس کیا ایمان بھی کھا جاتی ہے جھورے کا سسر یاد میں اپنی دو بانٹ چھوڑ گیا اس کی بیٹی یہ دونوں لے کر خاوند کے گھر گئی پھر یہ ہی متاع جہیز لے کر جھورے کے ساتھ نکل گئیطلاق و نکاح کی اسے کیا ضرورت تھی دو بانٹ کا یہ ہی تو کمال ہےاصول و ضوابط سے آزادی دلا دیتا ہے تاعمر مستی کی گزاری جھورا مر گیا قولاں بھی مر گئی
شیخ تو حضور کے قدموں پر ہوتا ہے حیرت تو یہ ہے اس پیر کے ہاتھ قولاں کے جہیز کی یہ متاع پلید کیسے آئی یہ بات پکی ہے مائی جہیز میں نہیں لائی تھی سنا ہے کھاتی خوب تھی لیکن نیک اور پردہ میں رہتی تھی ممکن ہےجھورے کے ہمسایا میں کبھی رہے ہوں وہاں سے چرا لائے ہوں یقین نہیں آتا پر کیا کریں چوروں کو مور پڑتے آئے ہیں دو حرفی بات
عادت نہ ماننے کی اچھی نہیں ہوتیجیتے جی مقدر اس کا بنتی ہے نیستیاس کے پیرو سدا زیر عتاب رہتے ہیں آگے بڑھتے قدم پیچھے کو آتے ہیں اپنی پہ اڑنا گھاٹے کا سودا ہے یہ بےجڑا پودا ہے ریت کی دیوار کیسے کھڑی کرو گے بلا ہنر گر دریا میں چھلانگ لگاؤ گے غوطے کھاؤ گے ڈوبو گے مرو گے شیطان اپنی پہ اڑا ہوا ہے صبح و شام لعنتیں ہی نہیں ہر لمحہ پتھر روڑے کھاتا ہے بس سچے دل سے توبہ ہی کرنی ہےایسا لمبا چوڑا اس کا حساب کتاب نہیں پر کیا کریں شخص انا کی غلامی کیے جاتا ہے
پھر بھی کہے جاتا ہے میں آزاد ہوں میں آزاد ہوں کہتا ہے یہ غیر کی داری نہیں میں کہتا ہوں انا کس کی پیرو ہےالله کے بنائے شخص کی یہ چیز نہیں برسوں سے میں اسے یہ ہی کہے جا رہا تھا مری وہ کب مانتا تھا مرا کہا حرف آخر ہے یہ ہی اس کی ہٹ تھی مرا کہا کوئی الف لیلی نہ تھا دو حرفی بات تھی میں کہتا تھا کرنا اور ہونا میں فرق ہے وہ کہتا تھا ہونا کچھ نہیں کرنا ہی سب کچھ ہے
ہونی کرنے سے ٹل جاتی ہے ہر بگڑی اس سے سنور جاتی ہے کئی بار بیمار پڑا میں کہتا رہا اب سناؤ کرنے اور ہونے میں بڑا فرق ہےجوابا کہتا بدپرہیزی کے سبب بیمار پڑا ہوں مری گرہ میں مال ہے ہتھیار دوا دارو کا مرے ہاتھ ہے چنگا بھلا ہو جاؤں گا عشق کی گرفت میں آیا اٹھنا بیٹھنا سونا جاگنا گنوایا روپیا پیسا بھی اس راہ میں لٹایا گرہ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے کنگلا ہوا تو معشوقہ وہ گئی بھوک ننگ کے نکاح میں کیوں آتی میں نے کہا کرنے کی
اس سے بڑھ کر ناکامی اور کیا ہو گی ہونی کا تو اس میں عمل دخل ہی نہیں بھوکا ننگا ہو کر بھی اپنے کہے پر ڈٹا رہا کہنے لگا دولت ہاتھ کی میل ہے عورت پاؤں کی جوتیمری کرنی میں ہی کہیں چوک ہوئی ہے ورنہ اس سالی کی ایسی کی تیسی محنت کروں گا اور کما لوں گا پھر اس سی بیسیوں مرے چرنوں میں ہوں گی اک روز میں نے سنا آخری سانسوں پر ہے میں اسے ملنے گیا حواس بگڑے ہوئے تھے چہرے کا رنگ بھی زرد پڑ گیا تھا
میں نے کہا سناؤ بھیا کیسے ہو کیا سناؤں سانسیں گن رہا ہوں اب تو ہونی کو مانتے ہو یار اس میں ہونی کہاں سے آ گئی میں اپنی غلط کرنی کی بھگت رہا ہوں میں نے سوچا اب کچھ کہنا درست نہیں اس کے دل پر تو ختم الله کی مہر لگی ہوئی تھی اسی شام ہونی کی گرفت میں آیا چل بساجاتے ہوئے بھی نٹکا اس نے اوپر رکھا ہونی کیسے ٹل سکتی تھی کرنی کے ساتھ اگر ہونی کو بھی مانتا اس میں آخر اس کا کیا بگڑ جاتا مجنوں ہو کہ رانجھا کرنی کی کب کھٹی کھا سکے ہیں
نکاح کرتے نہیں نکاح تو ہوتے آئے ہیں جوڑے آسمان پر بنتے ہیں زور زبردستی کے کام بگڑ جاتے ہیںسوچ کے گھروندوں میں
علم و فن کے کالے سویروں سے مجھے ڈر لگتا ہے ان کے بطن سے ہوس کے ناگ جنم لیتے ہیں سچ کی آواز کو جو ڈس لیتے ہیں سہاگنوں کی پیاسی آتما سے ہوس کی آگ بجھاتے ہیںصلاحیتوں کے چراغوں کی روشنی کو دھندلا دیتے ہیں بجھا دیتے ہیں حق کے ایوانوں میں اندھیر مچا دیتے ہیں حقیقتوں کا ہم زاد
اداس لفظوں کے جنگلوں کا آس سے ٹھکانہ پوچھتا ہے انا اور آس کو جب یہ ڈستے ہیں آدمیت کی آرتھی اٹھتی ہےکم کوسی' بےہمتی بےاعتنائی کے شراپ کے سائے ابلیس کے قدم لیتے ہیں شخص کبھی جیتا کبھی مرتا ہے کھانے کو عذاب ٹکڑے پینے کو تیزاب بوندیں ملتی ہیں خود کشی حرام سہی مگر جینا بھی تو جرم ٹھہرا ہے ستاروں سے لبریز چھت کا دور تک اتا پتا نہیں ہوا ادھر سے گزرتے ڈرتی ہے
بدلتے موسموں کا تصور شیخ چلی کا خواب ٹھہرا ہے یہاں اگر کچھ ہے تو'........... منہ میں زہر بجھی تلواریں ہیں پیٹ سوچ کا گھر ہات بھیک کا کٹورا ہوئے ہیں بچوں کے کانچ بدن بھوک سےکبھی نیلے کبھی پیلے پڑتے ہیں اے صبح بصیرت! تو ہی لوٹ آ کہ ناگوں کے پہرے کرب زخموں سے رستا برف لہو تو نہ دیکھ سکوں گا
سچ کے اجالوں کی حسین تمنا مجھے مرنے نہ دے گی اور میں اس بےوضو تمنا کے سہارے کچھ تو سوچ سکوں گا سوچ کے گھروندوں میں زیست کے سارے موسم بستے ہیں قاضی جرار حسنی 1974کیا یہ کافی نہیں
الله بخشے نابخشے الله کی مرضییہاں اک حاجی صاصب ہوا کرتے تھے پنج وقتے تھے ہاں صدقہ زکوت خیرت میں کافی بخل کرتے تھے حسیں بیبیوں کا دل کب توڑتے تھے دوریاں کم کرکے ان سے رشتے جوڑتے تھے ان کا کہنا تھا سچ بولو پورا تولو لوگوں کے لیے یہ ہی نصحیت تھی یہ الگ بات ہے ان کے کہے پر یقین کرنا سو کا گھاٹا تھا کہا کب کرتے تھےکبھی اس سے الٹا بھی چل جاتے تھے
اک عاشق اپنی معشوقہ سے کہتا رہا ستارے تمہارے لیے توڑ لاؤں گا بپھرے دریا کی لہروں سے لڑ جاؤں گا اک روز فون پر اس کی معشوقہ نے کہاآج باغ میں ملو‘ مجھے تم سے اک کام ہے جواب میں اس نے کہا کیوں نہیں‘ آؤں گا اگر بارش نہ پڑی ہمارے یہاں اک لیڈر ہوا کرتے تھے تھے بلا کے خوش خیال لباس میں اپنی مثال آپ تھے کار سے باہر جب قدم رنجہ فرماتےلوگ ان کی عیار معصومیت پر مر مر جاتے پھول تو پھول جئے جئے کار نثار کرتے کہا کرتے تھے شہر کو پیرس بنا دوں گا شہر‘ شہر نہ بن سکا پیرس کہاں بنتا
یہ جانتے کہ بےزر ہوں زبانی کلامی میں بھی گھر میں بیسیوں چیزیں لاتا ہوں بیگم کا اچھا مؤڈ اگر کبھی رہا ہو نور محل کبھی تاج محل لمحوں میں وائٹ ہاؤس سے کہیں بڑھ کر عمارت تعمیر کیے دیتا ہوں یہ الگ بات ہے آتے دنوں میں کچھ نہ ہو پانے پر عزت بچانے کی خاطر ٹھوک کر بیزتی کراتا ہوں کھسیانی ہنسی بھی ہنستا ہوںچلو کچھ لمحے اچھے کچھ برے گزرتے ہیں جیون کوئی ٹھہرا پانی نہیں ناہی یہ بےبل پگ ڈنڈی ہے صالیحین کہتے آئے ہیں
جو کہو وہ کرو ہم اہل شکم ضدین کے قائل ہیںکہنا اور کرنا زیست کے دو الگ رستے ہیں کہے بن بن نہیں آتی کرتے ہیں تو شکم پر لات لگتی ہے نہ کرنے میں ہی تو شکم کی سلامتی ہے جو شکم کا دشمن بنے گا نیزے چڑھے گا زہر کا پیالہ اس کا مقدر ٹھہرے گا آگ میں ڈالا جائے گا زبان سے کہتے رہو ہم جو کہتے ہیں وہ کرتے ہیں ہم بھی یہ جانتے ہیں سننے والا بھی اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہم الله اور اس کے رسول کا دل و جان سے احترام کرتے ہیں
شیو ہو کہ وشنو موسی ہو کہ عیسی زرتشت ہو کہ مہآتما بدھ رام اور کرشن بڑے لوگ تھے بھلا ہم ان سے کیسے ہو سکتے ہیں ان کی ہر کرنی کو سلام و پرنام بےشک وہ عزت کی جا ہیں ان کی کہنی اور کرنی ایک تھی وہ ایک کے قائل تھے مصیبت میں رہے ہر لمحہ صعوبت میں رہےاپنی کہنی پر استوار کرنی کا پرنالہ نہ وہ بدل سکے وہ بڑے تھے بھوکے رہ سکتے تھے ہماری ضرورتیں حاجتیں ان سے جدا وہ کہنی پر چل کر بڑے تھے کہہ کر نہ کرنے سے ہی مال آتا ہے اچھا کھاتے ہیں بڑے گھر میں رہتے ہیں
لوگ سلام بلاتے ہیں یہ ہی نہیں ہم سے ڈرتے ہیں دنیا میں رہتے ہیں دنیا کی اور بڑائی کیا ہوتی ہے ان سے کون ڈرتا تھا ان کی کون سنتا تھا ان کے جو قدم لیتا رہا وہ ہی معتوب ہوا کیا یہ کم ہے کہ ہم خود سے گزر کر انہیں مانتے ہیں قبر میں کیا ہو گا حشر میں کیا ہو گا یہ آتے وقتوں کی بات ہے قبروں میں ان پر کیا ہو رہا ہے کب کوئی دیکھ رہا ہے مجرم تب ٹھہریں گےجب کہنی پر کرنی استوار نہ مانیں گے
یہ تو اصول حیات ہے اس کا کون کافر منکر ہے کیا یہ کافی نہیں اس پر ہمارا ایمان و یقین ہےیادوں کی دودھ ندیا
وہ نم صبح کی تمثال تھی خود اپنی مثال تھی پہلی بار جو میں نے اسے دیکھا مری آنکھوں میں زندگی اتر گئی دل کی ویران بستی میں زندگی کے ڈنکے بجنے لگے خوشی کے ترانے مچلنے لگے ہواؤں کا لہجہ بھی بدل گیا زیست کا گرم موسم رخ اپنا بدل گیا اس کے رخساروں کا عکس شفق کے پیلے رنگ بدلنے لگا شفق کیا‘ افق بھی اس کی مسکان کے رنگ لینے لگامیں نے پیار سے جو چھوا اس کے رخسار کو اک کرنٹ سا لگا اور میں پیچھے ہٹ گیا
وہ سراپا زندگی تھی میں صدیوں کا بےجان جسد تھا لا سے اثبات میں آیا نہ تھا نہ مجھ پر اپنی حقیقت کھلی تھی کیا تھا میں کون تھا اس کی مسرور آنکھوں میں مرے ہونے کی دلیل تھی مرے من آنگن میں اس نے قدم کیا رکھا فرشتے بھی سوچ کا بت بن گئے میں اور یہ خوبی قسمتسورج شاید مغرب سے نکل آیا تھا دست قدرت سے یہ کب بعید ہے ہونی میں بدل جاتی ہے ‘ان ہونی اس کے مری من بستی میں قدم دھرنے کی دیر تھی
Search
Read the Text Version
- 1
- 2
- 3
- 4
- 5
- 6
- 7
- 8
- 9
- 10
- 11
- 12
- 13
- 14
- 15
- 16
- 17
- 18
- 19
- 20
- 21
- 22
- 23
- 24
- 25
- 26
- 27
- 28
- 29
- 30
- 31
- 32
- 33
- 34
- 35
- 36
- 37
- 38
- 39
- 40
- 41
- 42
- 43
- 44
- 45
- 46
- 47
- 48
- 49
- 50
- 51
- 52
- 53
- 54
- 55
- 56
- 57
- 58
- 59
- 60
- 61
- 62
- 63
- 64
- 65
- 66
- 67
- 68
- 69
- 70
- 71
- 72
- 73
- 74
- 75
- 76
- 77
- 78
- 79
- 80
- 81
- 82
- 83
- 84
- 85
- 86
- 87
- 88
- 89
- 90
- 91
- 92
- 93
- 94
- 95
- 96
- 97
- 98
- 99
- 100
- 101
- 102
- 103
- 104
- 105
- 106
- 107
- 108
- 109
- 110
- 111
- 112
- 113
- 114
- 115
- 116
- 117
- 118
- 119
- 120
- 121
- 122
- 123
- 124
- 125
- 126
- 127
- 128
- 129
- 130
- 131
- 132
- 133
- 134
- 135
- 136
- 137
- 138
- 139
- 140
- 141
- 142
- 143
- 144
- 145
- 146
- 147
- 148
- 149
- 150
- 151
- 152
- 153
- 154
- 155
- 156
- 157
- 158
- 159
- 160
- 161
- 162
- 163
- 164
- 165
- 166
- 167
- 168
- 169
- 170
- 171
- 172
- 173
- 174
- 175
- 176
- 177
- 178
- 179
- 180
- 181
- 182
- 183
- 184
- 185
- 186
- 187
- 188
- 189
- 190
- 191
- 192
- 193
- 194
- 195
- 196
- 197
- 198
- 199
- 200
- 201
- 202
- 203
- 204
- 205
- 206
- 207
- 208
- 209
- 210
- 211
- 212
- 213
- 214
- 215
- 216
- 217
- 218
- 219
- 220
- 221
- 222
- 223
- 224
- 225
- 226
- 227
- 228
- 229
- 230
- 231
- 232
- 233
- 234
- 235
- 236
- 237
- 238
- 239
- 240
- 241
- 242
- 243
- 244
- 245
- 246
- 247
- 248
- 249
- 250
- 251
- 252
- 253
- 254
- 255
- 256
- 257
- 258
- 259
- 260
- 261
- 262
- 263
- 264
- 265
- 266
- 267
- 268
- 269
- 270
- 271
- 272
- 273
- 274
- 275
- 276
- 277
- 278
- 279
- 280
- 281
- 282
- 283
- 284
- 285
- 286
- 287
- 288
- 289
- 290
- 291
- 292
- 293
- 294
- 295
- 296
- 297
- 298
- 299
- 300
- 301
- 302
- 303
- 304
- 305
- 306
- 307
- 308
- 309
- 310
- 311
- 312
- 313
- 314
- 315
- 316
- 317
- 318
- 319
- 320
- 321
- 322
- 323
- 324
- 325
- 326