خوشیاں ادھر بھی ادھر بھی برسنے لگیں میں اگلے روز جب کام پر آیا ابھی بیٹھا بھی نہ تھا دفتری نے اک سرکاری کاغذ مجھے تھمایا خوش نظروں سے مجھے دیکھنے لگااس کی آنکھوں میں بخشیش کی تمنا تھی جوں ہی لفظ اس کاغذ کے مری نظروں سے گزرے بات ہی ایسی تھی کہ مرا ہاتھ جیب کی جانب بڑھ گیا جو ہاتھ لگا‘ میں نے اسے نذر کیا خوشی سے وہ مسکرا اور چل دیا اس کاغذ نے مجھے بتایا ترقی نے مرے قدم لیے ہیں
پھر مٹھائی آئی چائے بھی چلی کچھ دوست بولے حضرت اس سے تو نہ بات بنے گی آج تو نان مچھلی اڑے گی مرے دل سے کل کی خوشیوں کا خمار کب اترا تھا نان مچھلی کیا جان بھی مانگتے تو حاضر تھیخوشی کے خمار کی اپنی ہی بات تھی خوشیوں کے اوتار نے مجھے وہ کچھ دیا جو مرے پاس کبھی نہ رہا تھا کرائے کا مکاں ملکیت میں بدل گیا میں بھی اپنا نہ رہا سب کا ہو گیا جو آتا خالی ہاتھ نہ جاتا
کوئی مٹھی بھر کوئی جھولی بھر کے لے جاتا میں کون سا اپنے پلے سے دیتا رہا مرا کیا تھا جو مرے پاس تھا مالک کا دیا تھا جوانی سے بڑھاپے تک وہ پرخوش بو کنول مرے من آنگن کی زینت بنا رہا عجب ریت ہے اس زندگی کی جو آتا ہے چلا جاتا ہے میں بوڑھا ہو گیا ہوں بس اب جانے کو ہوںبیٹیاں کب تادیر باپ کے گھر رہتی ہیں بس آج کل میں وہ بھی جانے کو ہے تب اکیلا تھا اب اکیلا نہیں رہوں گا اس کی پیار بھری مستیوں کی یاد
مرا من آنگن سونا نہ ہونے دے گی جب تلک جیوں گا وہ مجھے بہلاتی رہیں گی دکھ درد بیماری میں مجھے سہلاتی رہیں گی تنہائی کے بھوت بھگاتی رہیں گی مری اس بےگیاہ زندگی کو یادوں کی دودھ ندیا سے سیراب کرتی رہیں گی تامرگ اسے بنجر نہ ہونے دے گی خیر سے اپنے سسرال جائے دودھ نہائے پوت کھیلائےدکھ درد کا دور تک نام و نشاں نہ ہو اس کی زیست کے ہر موڑ پر خوشیوں کے پھول اس کا استقبال کرتے رہیں
جس جیون کے ہر موڑ پر یادوں کے بلاگنت دریچے کھلتے ہوں سمجھو وہ جیون سفل رہا کچھ ہوا یا کیا تو ہی یادیں من آنگن میں ٹھکانہ کرتی ہیں میں نے کیا کرنا تھا مرے الله نے مجھے کبھی تنہا نہ رہنے دیا مری بچی مری جان کبھی کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرنا جب بھی مانگنا اپنے الله سے مانگنا اپنے خاوند سے مخلص رہنا جب باہر جائے خیر کی دعا کرناجب گھر آئے دن بھر کی تھکن بھول کر تہ دل سے مسکرانا
سو بسم الله کہنا دل میکے میں نہ رکھنا اپنے گھر میں مست رہنا کبھی کسی بات پر فخر تکبر نہ کرنا سب دیا الله کا دیا ہے جان رکھو سب اسی کا ہے ہاں کبھی کبھار اس بڈھے کو یاد کر لیا کرنامر گیا تو بقدر بساط مغفرت کی دعا کرنا یہ ہی تحفہ ان مول ہو گا مری طرح اپنے باپ کو یاد کرکے نہ روتے رہنا میں بےچارہ اس قابل کہاں ہاں وہ اس قابل ضرور ہے کہ اسے یادوں میں بسایا جائےہر پل الله اسے قبر میں پرسکوں رکھے
وہ وہاں کبھی تنہا نہ رہے الله کی عطائیں اس کے ساتھ رہیںاس کی عنائتیں قبر میں اس پر سایہ کیے رہیں جا مری ارحا خیر سے جانے کے لیے جا جا‘ جا کر وہاں خوشیوں کا جہان آباد کر خوشیوں کی جینی جی شاد رہ مجھ کو خود کو بھول کر سب کو شاد کر مری بچی مری جان جا جا خیر سے جا الله تم پر مہربان رہے باؤ بہشتی
باپ ہو کہ ماں معتبر ہیں محترم ہیں زندگی کی مشقت تو ہے ہی بچوں کے پالن پوسن کی بھی محبت سے پیار سے خلوص سے ماں مشقت اٹھاتی ہے زبان پر شکوے کا کلمہ کب لاتی ہے باپ بھی دنیا میں بےبدل رشتہ ہے منہ کا لقمہ جیب میں رکھ لاتا ہے منا کھائے گا گڑیا کے کام آئے گادونمبری کمائی اکیلا وہ کب کھا جاتا ہے حصہ کے لقمے ‘پیٹ بھر سہی پیٹ میں لے جاتا ہے عمرا چور اپنے بچوں پر جان دیتا تھا خراش بھی آتی تو تڑپ تڑپ جاتا تھا
کس کے لیے آدھی رات کو گھر سے قدم باہر رکھتا تھا وہ ڈاکو نہیں تھا ہاں چوری میں نام خوب کمایا تھا پر اتنی بات ہے علاقے کا ہر گھر عزیز رکھتا تھا اس ذیل میں کوئی اس پر انگلی اٹھا نہیں سکتا جانا تو ہے اس سے کب مفر ہے اک روز وہ بھی حرف آخر ہوا جنازے میں خاص و عام شامل تھے چڑھی قسمت دیکھیے سات صفوں کا جنازہ ہوا ہر کوئیعلاقے میں اس کی شرافت کے گن گا رہا تھا کئی دن بھورا بےرونق نہ ہوا
اک آ رہا ہے تو اک جا رہا ہے اس کا بڑا لڑکا بھورا نشین رہا اپنے انداز سے باپ کے گن گاتا تھا کہتا تھا باؤ بہشی کوئی کچا چور نہ تھا بس اک ادھ بار پکڑا گیا پلس ٹل لگاتی رہی مگر وہ نہ مانا تھا قسم لے لو جو کبھی چوری کے جرم میں جیل گیااس کی کوئی چوری پلس ریکارڈ میں نہیں یہ کھلی بکواس ہے کہ وہ چور تھا اس کے پکے پیڈے ہونے پر سب عش عش کر اٹھے یہ بھی اس نے بتایا جب عمرا اس کی ماں کو بھگا کر لایا وہ اس کے پیٹ میں تھا
نانا اس کا علاقے کا بڑا کھنی خاں تھا زور اس نے ایڑی چوٹی کا لگایا مگر کہاں باؤ بہشی نے اس کی ایک بھی نہ چلنے دی بازو دے دیتا تو کیا لاج رہتی تھک ہار کر نانا ہی اس کا چپ ہو گیااس کے پاس اس کے سوا کوئی رستہ بھی نہ تھا آفرین آفرین فلک بوس نعرہ بلند ہوا عمو کماگر نے یہ لقمہ دیا صدیوں بعد ایسے پوت جنم لیتے ہیں انو کہنے لگا ہمیں اس کی جی داری پر ناز ہے شیر تھا دلیر تھا یہ سب کیوں تھا عمرے کا بڑا پوت باپ کے اصولوں کو بھول گیا تھا
آغاز اس کا علاقے سے ہوتا تھاجب کبھی خالی ہاتھ رہتا تو ہی رخ باہر کا کرتا محنت کی کمائی ہر کسی کو عزیز ہوتی ہے ٹی سی ہی وہ راہ تھی کہ وہ اس کے گھر سے ٹلا رہے اس حوالہ سے اس کے باؤ بہشتی کی ہر دل میں یاد تازہ بہ تازہ تھی اگلے وقتوں کے طور ہی کچھ اور تھے اپنے علاقے کی عزت ہر آنکھ میں تھی آج خرابی گھر سے شروع ہوتی ہے خیر اب چوری کی رسم بد کب رہ گئی ہے یہ رسم اگلے وقتوں کی تھی نمرود عصر بڑی کرسی پر بیٹھ کر ڈاکے ڈلواتا ہے سامان لٹ جائے خیر ہے اور آ جائے گا
فرعؤن بچوں کو مرواتا تھایہ بچوں بوڑھوں ضعیفوں گریبوں مسکینوں کو بھی کھا پی جاتا ہے ہاں اتنا ضرور ہے عمرے کے قدموں پر ہے مگر اس کے حرامی بچے عمرے کے بچے کے پیرو ہیں لوگ آج بھی عمرے کو یاد کرتے ہیں منہ پر نہیں پر آگے پیچھے اس کے بیٹے کو برا بھلا کہتے ہیں کوئی کیا جانے
اس کے اچھا اور سچا ہونے میں مجھ کو کیا‘ کسی کو شک نہیں برے وقت میں اوروں کی طرح منہ پھیر نہیں لیتا دامے درمے سخنے ساتھ رہتا ہے سچے کو سچا جھوٹے کو جھوٹا منہ پر کہتا ہے جینے کے لیے یہ طور اچھا نہیں اس کی اس گندگی عادت نے مفت میں اس کے کئی دشمن بنا رکھے ہیں اصل اندھیر یہ جن کے حق میں کہہ جاتا ہے وہ ہی اس سے منہ پھیر لیتے ہیں بہت کماسے پرے پنچایت میں بلایا جاتا ہے
بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہو جاتی اٹھنے بیٹھنے کےمغرب نے ہمیں طور طریقے سکھائے ہیں بقول مغرب کے ابھی ہم چودہ سو سال پیچھے ہیں دس محرم کو اک ماتمی جلوس گزر رہا تھا اک انگریز جو ادھر سے گزر رہا تھا اس نے ساتھ چلتے چمچے سے پوچھا یہاں کیا معاملہ ہے کیا ہو رہا ہے چمچے نے بتایا حسین کی شہادت کا جلوس گزر رہا ہے وہ حیران ہوا اور کہا انہیں اب پتا چلا ہے چمچمے نے وضاحت نہ کی اور ہاں میں ہاں ملائی
وہ صاحب تھا یس سری کا ہی تو عوضانہ دیتا تھا میاں حق قناعت لیے پھرتا تھا تب ہی تو بھوکا مرتا تھا سب چھوڑوایک عادت اس کی عصری آدب سے قطعی ہٹ کر تھی کار قضا کبھی کسی تقریب میں بلا لیا جاتا دیسی کپڑوں میں چلا جاتا چٹے دیس کے اہل جاہ کی برائیاں گننے بیٹھ جاتا یہ بھی نہ دیکھتا کہ کوئی ناک منہ چڑھتا ہے لوگ کھانا کھانے کھڑے ہوتے زمین پر وہ رومال بچھا کر بیٹھ جاتا کانٹوں چمچوں کے ہوتے ہاتھ سے کھاتا کھا کر اچھی طرح انگلیاں چاٹتا
ٹشو پیپر کو چھوڑ کر ہاتھ دھوتا سچی بات ہے یہ اطوار دیکھ کر سب کو بڑی کراہت ہوتیہمارے ہاں اک اور سچ پتر رہتے ہیں معاملہ ان سے پوچھنے چلے گیے بقول اس کے میاں حق کا کہنا ہے کھڑے ہو کر کھانے سےشخص کا زمین سے رشتہ نہیں رہتا معدہ متاثرہوتا ہے دل دماغ اعصاب پر برا اثر پڑتا ہے بیٹھ کر کھانے سے جسم کا زمین سے رشتہ رہتا ہے زمین میں سو طرح کی دھاتیں ہیں جو جسم پر اپنے اثر چھوڑتی ہیں چوکڑی مار کر بیٹھنے سے سکون کی کیفیت رہتی ہے
ہر انگلی کو دل ہر لمحہ تازہ خون سپلائی کرتا ہے ہر شخص کے خون کا گروپ الگ ہوتا ہے ہاتھ ملانے گلے ملنے سے سو طرح کے جراثیموں سے مکتی ملتی ہے ہاں زنا کی بات اور ہے زانی تم نے دیکھے ہوں گے ذرا غور کرنا یک زنی اور صد زنی کے اطوار میں فرق کیا ہے حلالی حرامی کی پیدائش کو الگ رکھیےزانی کا بدن زانی کے بول زانی کی شخصیت فطری توزان میں نہیں رہتی ہمارے اس سچ پتر پر
میاں حق کی باتوں کا بڑا اثر ہوا ساری رام لیلی اس نے آ کر ہمیں سنائیسارے ان باتوں پر خوب ہنسے اور ٹھٹھا بنایا وہ رائی بھر بھی نہ ہنسا نہ مسکرایا ہم نے اسے بڑا ڈھیٹ کیا ٹس سے مس نہ ہوا سب یک زبان ہو کر بولے لو اک اور علاقے کے گلے گلاواں پڑا میاں حق چل بسا رنگو نے آ کر اچانک یہ خبر سنائی محفل پر سکوت چھا گیا سچ پتر ڈھاڑیں مار کر رونے لگا قانون قدرت ہے سچ باقی رہے گا اسے باقی رہنا ہے کوئی کیا جانے میاں حق علاقے کا گہنا تھا
اب سچ پتر گہنا ہےکل کو آتی دفع کا ذکر ہے
پچھلی دفعہ کی اہمیت سے مجھ کو انکار نہیں شخص کا وہ اترن ہے یہ اترن ہی شخص کی وضاحت ہے اس پر ناز کیسا غرور کیسا میں کیسا ہوں یہ ہی اصل حقیقیت ہے خدارا مورکھ کے پاس نہ جائیے سچ کم جھوٹ زیادہ بولتا ہے جو ہوتا نہیں کہتا ہے جو ہوتا ہے کہتا نہیں شاہ کا چمچہ ہی نہیں وہ فصلی بٹیرا بھی ہے چوری خور کب حق سچ کی کہتے ہیں شخص کا کاتب نہیںشاہ اور شاہ والوں کی وہ منشی گیری کرتا ہے شخص کے اس اترن کی کتھا شاعروں کے ہاں تلاشیے
سچ وہاں مل جائے گا علامتوں استعاروں میں ہی سہی سب کچھ وہ کہہ گیے ہیں اورنگی عہد کا سچ کہیں اور کب ملتا ہے رحمان بابا کہتا ہے مجنوں کا کوئی کیا حال پوچھے ہر گھر صحرا کا نقشا ہے یہ شاعر ہی تھا جو اشارے میں بہت کچھ کہہ گیا مورکھ کو سچ کہنے کی توفیق کہاں ہاں داستانی ادب ہو کہ مقامی حکائتیںحق ان بھی بھی کہیں ناکہیں لکا چھپا ہوتا ہے خیر جو بھی معاملہ رہا ہو پچھلی دفعہ کا یہ ذکر ہی نہیں یہ کل کو آتی دفع کا ذکر ہے شرق کا اک سیانا
ستاروں کے علم سے آگاہ تھا زمین کا وڈیرا لٹیرا دھونس سے اسے اپنے پاس لے گیا پہلے آنکھیں دکھائیں نہ مانا تو تشدد کیا بڑا ڈھیٹ نکلا تو بھوک کی چادر اڑھا دی آخر کب تب تک زبان اس نے کھول ہی دی موت سے ڈرا موت صلہ ٹھہری بھلائی کے بدلے شاباش کم ہی ملتی ہےخیر اس نے تو مجبوری میں آ کر اپنا سینہ کھولاپولے پیریں بتا دیتا تو بھی اس کا یہ ہی حشر ہوتا زمین کے ہر چپے پراس کی حکومت تھی سورج چاند ستارے سارے کے سارے تصرف میں اس کے آ چکے تھے اس حقیقت کے باوجود
کوئی ناکوئی زمین کا سانس لیتا مردہ کچھ ناکچھ کہیں ناکہیں گڑبڑ کر ہی دیتا سرکوبی کے جتن میں گرہ خود سے ہتھیایا سکہ نکل جاتا ہر جاتا سکہ اس کو ادھ مویا کر دیتا کل کو آتی دفع کے ذکر میں اس بات کا باور کرانا ضروری ہے وہ شرقی جان سے گیا کسی شریک کا ہونا وڈیرے کو کیسے گوارہ ہوتاستاروں کا علم آنے کی دیر تھی کہ حوصلہ اس کا ہمالہ کی بلندی کو بھی پار کر گیا ہر چلتا پھرتا بدیسی اس کو کیڑا مکوڑا لگنے لگا اس کے کسی دیسی کو اس کے کسی عمل پر کیوں اعتراض ہوتا پیٹ بھرے سوتا پیٹ بھرے اٹھتا
جو بولتا اس کے منہ میں زیرہ رکھ دیتا بدیسی کسکتا بھی تو اس کا ستارہ بدل دیتا مشتری سے جب وہ زحل میں آتاوہ جی جان سے جاتا یہ مسکراتا قہقہے لگاتا اسے کوئی پوچھنے والا نہ رہا ہر سو خوف و ہراس کا پہرا ہوا ہر بدیسی کے زحل میں آنے سے قتل و غارت کی دنیا شاد و شاداب تھی اک بے سہارا وچارے سے لڑکے کا بھوک کے سبب میٹر گھوم گیا زحل میں آئے اس کے ستارے کی یہ بددیسی چال تھی کسی میاں میٹھو نے اسے خبر کر دی اس نے فورا سے پہلے اس کا ستارہ بدل دیا جلدی میں اس سے چوک ہو گئی درمیاں زحل کے جانے کی بجائے
ستارہ مشتری میں جا بسا پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے کچھ کا کچھ ہو گیا اس کے اقتدار کا گراف نیچے گرنے لگا وہ بوکھلا گیابوکھلاہٹ میں ہر صحیح بھی غلط ہونے لگا پھر کیا تھا آتے کل کی دفع میں وڈیرے کا اپنا ستارہ کہیں گم ہو گیاسب سے پہلی دفعہ میں بھی ایسا ہی ہوا تھا ابلیس کی گڈی چڑھی ہوئی تھی فرشتہ ہو کہ جن اس کے قدم لیتا تھا تکبر زہریلا لاوا اگلنے لگا اس کے سب کے خالق نے پہلا آدم تخلیق کیا اسے ہی نہیں
سب کو سجدہ کا حکم دیا اس کا قیاس تھا کہ آدم زحل ًمیں وجود پایا ہے اس کی یہ ہی بھول تھی غصہ و قہر میں لمحوں کی گنتی بھول گیا آدم تو مشتری کی بہترین ساعت کی تخلیق تھا الله کی حکمت اگر کھل جائے تو وہ الله تو نہ ہوا الله کے آنے کے ان حد رستے ہیںقہر کے رستے سے آئے یا عطا کے رستے سے کون جان سکا ہے آتے کل کی دفع میں شکست آخر ابلیس کے پیرو کا مقدر ٹھہری ویدی کا ویدان تو اپنی ذات میں اٹل ہے دیو ہو کہ جن شخص ہو کہ ملک اس کے سامنے بےبس ہے اس کی ہونی میں کب کسی کا کوئی دخل ہے دجال آئے کہ اس کا پیو آئے
اس کی خدائی نہیں چل سکتیحسین کے پیرو اس کی راہ میں آتے رہیں گے وہ آگ میں پڑنے سے زہر پینے سے سر کٹوانے سے کب ڈرتے ہیں دجال عصر سن لو! تمہیں میں یہ کہے دیتا ہوں تمہارا ستارہ زحل میں آنے کو ہے یہ ہی ہوتا آیا ہے یہ ہی ہوتا رہے گا کہاں ہیں یونانی کہاں ہیں رومی بس ان کی کہانیاں باقی ہیں ہاں وہ سب تکبر کی آگ کا ایندھن بنے جل بھن گئے راکھ تک باقی نہ رہی سکندر ہو کہ قاسم محمود ہو کہ چرچل بابر بھی عیش کوشی کے سامان کرتا رہا کچھ کھا پی گئے کچھ جمع آوری میں مشغول رہے
کسی نے تاج محل تعمیر کیاعورت کے تھلے کی خوشنودی کی خاطر کئی نور محل تعمیر ہوئے کوئی اپنے ساتھ کب کچھ لے گیانام الله کا باقی ہے نام الله کا باقی رہے گا گزری دفعہ کی یہ ہی کتھا تھی آتی دفع کی بھی یہ ہی کتھا ہوگی کڑکتا نوٹ
اس بات کو آج کوئی نصف صدی ہوئی آج بھی نوششہءصدر ہے سکول کی اسمبلی میں کھڑے تھے بڑے ماسٹر صاحب نے باآواز بلند کہآکسی کے پاس روپے کا کڑکتا نوٹ ہے خاموشی چھا گئی روپیے کا نوٹ اوپر سے کڑکتا گریبوں کا فیس معافی سکول تھا کسی سیٹھ کی تجوری نہ تھی سو کا نوٹ بھی پوچھتے اس کے غلے میں مقید ملتا آخر چپ ٹوٹی سکول کے مالی کی جیب سے نکل آیا سب کو حیرت ہوئی
مالی کی جیب میں روپیے کا کڑکتا نوٹ میلا رام کا سر فخر سے تن گیا فخر اسے کیوں نہ ہوتا اتنوں میں فقط ایک وہ ہی تھا جس کی جیب سے روپیے کا کڑکتا نوٹ نکلا تھاخیر چھوڑیں بات ذرا آگے بڑھاتے ہیں بڑے ماسٹر صاحب نے روپیے کا وہ نوٹ سب کو دکھایا پتا نہیں کتنے مونہوں میں پانی آ گیا انہوں نے پوچھا یہ نوٹ کتنے کا ہےسب نے یک زبان ہو کر کہا ایک کا ہے نوٹ انہوں نے دوہرا چوہرا کر دیا پوچھا اب یہ نوٹ کتنے کا ہے سب نے کہا ایک کا ہاں البتہ میلہ رام کے تیور بگڑ گئے
بعد اس کے نوٹ انہوں نے ہاتھوں میں مسل دیا پھر پوچھا یہ نوٹ کتنے کا جواب وہ ہی تھا کہ ایک کا نوٹ کی حالت دیکھ کر میلہ رام کا چہرا زرد پڑ گیانوٹ انہوں نے اپنے پاؤں سے مسل دیا پوچھا اس نوٹ کی قدر کیا ہے سب نے کہا ایک روپیہ اب کہ میلہ رام کی طبیت خراب ہو گئیبڑے ماسٹر صاحب کی وہ نگاہ میں تھا انہوں نے فورا سے پہلے کڑکتا نوٹجیب سے نکالا اور میلا رام کو تھما دیا رگڑا مسلا نوٹ اپنی جیب رکھ لیا کہ وہ اب بھی ایک کا تھا چیز دونوں کی ایک سی آنی تھی
نیا ہو کہ پرانا اس سے کیا فرق پڑتا ہے نوٹ دونوں ایک کے تھے بڑے ماسٹر صاحب بولے اس نوٹ پر کوئی بھی قیامت گزرے اس کی قیمت میں فرق نہ آئے گا ہاں اتنا ضرور ہے یہ ترا مرا نہیں یہ جس کا بھی ہو ایک کا ہے خرچ کرو گے تو ایک کا نہیں رہے گا آگہی جتنی بھی خرچ ہو اس کی قدر کم نہیں ہوتی میں نے سب کو دانش کی بات بتائی قدر مگر اس کی کم نہیں ہوئی تم جتنا بھی اسے خرچ کرو گے یہ جتنی ہے اتنی ہی رہے گی اسے زنگ نہیں آتا یہ پرانی نہیں ہوتی کس نے کہا مت دیکھو
کیا کہا یہ ہی دیکھو صوفی یا بھگت کے منہ سے نکلے گالی ہو گی ‘گالی بدمعاش لفنگے کے منہ نکلے دعا‘ دعا ہو گی پلے سے مری یہ بات باندھ لو علم کی جناب میں فرشتے بھی سجدہ ریز ہوئے اچھا‘ اچھا ہی رہتا ہے کالک سو غازوں کے پیچھے کالک ہی رہتی ہے سقراط ہو کہ منصوروقت کی دھول میں کب چھپ سکے ہیں انہیں مسلا گیا کچلا گیا قدر ان کی مگر کوئی کم نہ کر سکا وقت انہیں سلام کرتا آیا ہے
سلام کرتا رہے گااسلام سب کا ہے
سچی کہانی بابا شکر الله بھلے آدمی تھے صوم و صلوتہ کے ہی پابند نہ تھے قول کے کھرے ہاتھ کے بھی کھلے تھے اچھا کہتے اچھا کہنے کو کہتے اچھا کرتے اچھا کرنے کو کہتے لوگوں کا ان کے پاس آنا جانا تھا بساط بھر ان کی خدمت کرتے لینے کے خلاف تھے اگر کوئی کچھ لے آتا واپس اسے لے جانا پڑتا جعلی پیروں کی ٹھگی پر افسردہ رہتے کہتےانہیں تو لوگوں کو حضور کی راہ پر چلانا ہے
حضور دیتے تھے ان کا لینا کہیں ثابت نہیں لوگ انہیں پیر سمجھتے تھے یہ الگ بات ہےانہوں نے خود کو کبھی پیر مانا نہیں کوئی پیر کہتا تو برا مناتے پنشن پر گزرا کرتے اماں جی گھر میں بلا فیس بچوں کو پڑھاتیں عرصہ سے ان کے ہاں یہ ہی طور چلا آتا تھا مجھ ناچیز کو بھی ان کے پاس بیٹھنے کا شرف رہتا ایک بار اک مولوی صاحب ان کے پاس آئے سلام دعا بلا کے بیٹھ گئے
توند بس مناسب ہی تھی ہاں شلوار ٹخنوں سے اوپر تھی مونچھوں کا کہیں نام و نشان نہ تھا داڑھی سرسیدی تھی بولے حضرت اک سوال پوچھنا ہے بابا بولے الله علیم و خبیر ہے معلوم ہوا تو ہی جواب دے سکوں گا ہاں غور تو ہو سکتا ہےمولوی صاحب بولے :کیا حضور کو ّعلم غائب تھا مولوی کے لہجے میں مولوی کی آنکھوں میں شرارت تھی بابا صاحب پہلے تو مسکرائے پھر رنجیدہ ہو گئے بابا صاحب نے کہا :افسوس مولوی صاحب افسوس صد افسوس کرنے کے کام کرتے نہیں ہو
یہ الله اور اس رسول کا معاملہ ہے اس پر زور آزماتے ہو نہیں ہے تو بھی ‘ہے تو بھی یہ ہمارا معاملہ نہیں ہے ہمیں تو بس اس سے کام ہے آپ کے کہے میں وحی کا اہتمام ہے آپ کا کہا گویا الله کا کہا ہے مولوی صاحب کیسے ہیں آپ کان دیکھتے نہیںکتے کے پیچھے دوڑے بھاگے جاتے ہو کبھی خود سے بھی سوچ لیا کرو دعوی تمہارا ہو گا کہ پڑھا لکھا ہوں علم قریب سے بھی گزرا ہوتا یہ سوال نہ کرتے کیا حضور کو ّعلم غائب تھا تمہارا کہا ہی تضاد کا شکار ہے
کہتے ہو حضور صیغہ تھا کا استعمال کرتے ہو لفظ حضور حاضر کے لیے ہے مانتے ہو آپ حاضر ہیں تھا کہہ کر نفی کرتے ہو یہ کیا بات ہوئی وہ حاضر ہیں پر کیا کریں ہماری آنکھں انہیں دیکھنے کے قابل نہیں ہیں دیکھنے والے دیکھتے ہیں یوں بھی لے سکتے ہو تاقیامت قرآن باقی ہے آپ حاضر ہیں خیر یہ تضاد تمہارے پوچھنے میں ہے تضاد کی دنیا سے نکلو کہ امت متحد ہومذاہب غیب پر ایمان رکھنے پر استوار ہیں
الله تم نے دیکھا‘ نہیں جنت دوزخ جن فرشتے تم دیکھے‘ نہیں حاضر کو دیکھا‘ نہیں قرآن اترتے دیکھا‘ نہیں ان سب پر ہر کلمہ گو کا ایمان ہے تب ہی تو مسلمان ہے حضور پر قرآن اترابے شک لانے والے کو حضور نے دیکھا وہ فرشتہ تھا انسان نہیں تھا بھیجنے والے سے متعلق آگہی ہو گی جو کسی نے نہیں دیکھا حضور نے دیکھا جانا علم غیب کا ہونا اور کس کو کہتے ہیں میں سے گزر کر تو میں آنے والا کب کسی پر کھل سکتا ہے یہ معاملہ حضور کا ہے
وہ جانیں یا ان کا خدا جانے ہمیں اس سے مطلب نہیں اگر ہم مسمان ہیں تو سیدھا چلیں الله کی مخوق کے کام آئیں لایعنی چکروں میں پڑو گے تو مرو گے خود ڈوبو گے یہ معاملہ تمہارا ہے اوروں کو ڈبو دو گے یہ معاملہ اسلام کا ہے اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا اسلام تمہارا ہی نہیں اسلام سب کا ہےڈنگ ٹپانی
الله بخشے تایا نواب لڑکوں کو چوکوں میں کھڑا ہونے سے منع کرتے تھے رشتہ میں وہ کسی کے کچھ نہ تھے بوڑھے تھے حیادار تھے سب انہیں تایا کہتے تھے اچھا دور تھا اچھے لوگ تھے ہر کس کی عزت اپنی عزت جانتے تھے سب کی بھنیں اپنی بھنیں تھیں آہ! وہ مر گئے اچھی روائتیں بھی مر گئیں آنکھوں میں شرم تھی حیا تھی آج کوئی کوئی پرانا بات کرے تو کہتے ہیں: چھوڑو جی دقیانوسی ہے بیبیاں بادوپٹہ یا بابرقعہ گھر سے نکلتی تھیںآج برقعہ تو دور رہا دوپٹہ بھی غائب ہو گیا ہے شریف سے اور باحیا سے رہو تو
کڑیاں مذاق اڑاتی ہیں چھیڑو تو پلے پڑ جاتی ہیں نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن اسی کو تو کہتے ہیںبیدا اور شیدا محلہ کے چوک میں کھڑے تھے لایعنی گپیں ہانک رہے تھے تانک جھانک دیدار بازی کا عمل جاری تھاکوئی ناک چڑھا کر کوئی مسکرا کر گزر جاتی ہاجاں تیلن کا بھی ادھر سے گزر ہوا منہ متھے لگتی تھی شیدا نہ رہ سکا اس نے پرامید پراسلوب فوجی سلیوٹ کیا وہ کھل کھلائی ہنسی اس کی پورے منہ کی تھی وہ گزر گئی بات آئی گئی ہو گئی وہ پھر سے گپوں میں جھٹ گئے اسی شام ہاجاں تیلن بیدے کے گھر آئی
بیدے کی ماں سے کہنے لگی بیدے نے محلہ کے چوک میں مجھے چھڑا ہے مرا ویر ادھر نہ تھا ورنہ پیر پر ڈکرے کر دیتابیدے کی ماں شکایت سن کر ہکی بکی رہ گئی اس نے غصے سے بیدے کو آواز دی آیآ ماں جی کہہ کر کچھ ہی دیر بعد چھت سے نیچے اتر آیا وہ گڈی اڑا رہا تھا اتنی دیر میں ہاجاں تیلن جا چکی تھی بیدے کی ماں نے بنا کچھ سنے بیدے کی لہہ پہہ کر دی بیدے نے تو اسے چھیڑا ہی نہ تھا یہ گلاواں مفت میں اس کے گلے آ پڑا تھا
بیدے کی ماں بےچاری کیا جانے رولا چھیڑنے کا تھا ہی نہیں وہ شیدے کی پسند تھی شیدا مگر ہاجاں کی دل آنکھ میں نہ تھا ہاں وہ بیدے کی دیونی تھیبیدے کو کیا مری پڑی جو اس نے نہ چھیڑا پر کیا کریں چھماں بیدے کے دل کی رانی تھی سوہنی تو تھی ہی ہاجاں سے بڑھ کر سیانی تھی یہ بات تو فرشتوں کے لکھے پر ناحق پکڑے جانے والی کی سی تھی کیسی بات ہے یہ شادی کرنے کے ارادے دور تک نہ تھے ہاں مگر دو طرفہ محض ڈنگ ٹپانی تھی
ایک اور اندھیر دیکھیے ہر چپہ پہ سجدہ ریز ہوا پھر بھی میں کی گرفت میں رہا کرنی اپنی ہی کرنی تھی سجدوں کا محض ڈھونگ رچا تھا آخر کب تک آزمائش میں آ ہی گیا میں سر چڑھ کر بولی تو ڈھول کا بھید کھل گیا پھر کیا تھا مالک نے حضوری دوری میں بدل دی معافی کی طرف کیوں آتادیکھتے ہی دیکھتے نٹکا اس کا آسمان لگا تھا
خالق اسے جانتا تھا وہ تو خود سے بےبہرہ تھارنگ روپ شکل بدل بدل کے ملتا رہتا ہے کچھ ہی لمحے ہوئے ہوں گے مجھے ملا تھا بےشک بڑا خوش لباس تھا مرے سامنے سو کا اس نے دنبہ خریدامیں دیکھ رہا ہوں اس سے وہ بےخبر تھا میں نے پوچھا دنبہ کتنے کا دو گےریٹ دنبے کا اس نے ایک سو چالیس بتایا میں نے کہا کچھ تو کم کرو بڑی مشکل سے ایک سو تیس تک آیا اصرار کیا تو کہنے لگا قرآن کی قسم کھا کر کہتا ہؤں ایک سو پچیس مری خرید ہے پانچ منافع لوں گا
میں نے بصد افسوس اس کی طرف دیکھا دنبہ خرید لیا کہ قرآن پر مرا یقین تھا یہ قریبا دو بجے کی بات ہے باریش تھا مسجد سے نکل رہا تھا جلدیوں میں تھا لگتا تھا کہیں کام ڈالے گا سیدھا گودام میں آیا پیسی مرچوں کے دو بورے واں پڑے تھے پیسی اینٹوں کا ایک بورا اس کی راہ دیکھ رہا تھا اپنے ہنر میں صاحب کمال تھا منٹوں سکنٹوں میں یہ پرایا مرچوں کا ہم سفر ہوا اب کہ تین بورے مرچوں کے ٹھہرےرنگ روپ حسب نسب کا جھگڑا ہی ختم ہو گیا مسجد میں اس کے طور ہی کچھ اور تھے
باہر آ کر یکسر بدل گیا حاجی کے روپ میں بھی ملا بڑا خوش اخلاق شیریں زبان تھا مری بیوی کو شروع سے بیٹی کہتا تھا سر پر ہاتھ پھرتا نگاہ نیچی رکھتا یہ تو بہت بعد میں معلوم ہوا مرے گھر کی ساری رونق اسی کا لطف و احسان تھا مجھ سا ناکارہ وگرنہ کب اس لائق تھا کاش سائنس اتنی ترقی نہ کرتی اور میں بےخبر ہی رہتاعاشاں شکل و صورت میں کتنی معصوم لگتی تھی باطن میں شیطان ہی کا اترن تھی برسوں سے مرا پرموشن کیس اڑا پھسا تھا بڑا بابو کبھی یہ کبھی وہ کاغذ مانگ رہا تھا مرے ساتھ کیا ہو رہا ہے
Search
Read the Text Version
- 1
- 2
- 3
- 4
- 5
- 6
- 7
- 8
- 9
- 10
- 11
- 12
- 13
- 14
- 15
- 16
- 17
- 18
- 19
- 20
- 21
- 22
- 23
- 24
- 25
- 26
- 27
- 28
- 29
- 30
- 31
- 32
- 33
- 34
- 35
- 36
- 37
- 38
- 39
- 40
- 41
- 42
- 43
- 44
- 45
- 46
- 47
- 48
- 49
- 50
- 51
- 52
- 53
- 54
- 55
- 56
- 57
- 58
- 59
- 60
- 61
- 62
- 63
- 64
- 65
- 66
- 67
- 68
- 69
- 70
- 71
- 72
- 73
- 74
- 75
- 76
- 77
- 78
- 79
- 80
- 81
- 82
- 83
- 84
- 85
- 86
- 87
- 88
- 89
- 90
- 91
- 92
- 93
- 94
- 95
- 96
- 97
- 98
- 99
- 100
- 101
- 102
- 103
- 104
- 105
- 106
- 107
- 108
- 109
- 110
- 111
- 112
- 113
- 114
- 115
- 116
- 117
- 118
- 119
- 120
- 121
- 122
- 123
- 124
- 125
- 126
- 127
- 128
- 129
- 130
- 131
- 132
- 133
- 134
- 135
- 136
- 137
- 138
- 139
- 140
- 141
- 142
- 143
- 144
- 145
- 146
- 147
- 148
- 149
- 150
- 151
- 152
- 153
- 154
- 155
- 156
- 157
- 158
- 159
- 160
- 161
- 162
- 163
- 164
- 165
- 166
- 167
- 168
- 169
- 170
- 171
- 172
- 173
- 174
- 175
- 176
- 177
- 178
- 179
- 180
- 181
- 182
- 183
- 184
- 185
- 186
- 187
- 188
- 189
- 190
- 191
- 192
- 193
- 194
- 195
- 196
- 197
- 198
- 199
- 200
- 201
- 202
- 203
- 204
- 205
- 206
- 207
- 208
- 209
- 210
- 211
- 212
- 213
- 214
- 215
- 216
- 217
- 218
- 219
- 220
- 221
- 222
- 223
- 224
- 225
- 226
- 227
- 228
- 229
- 230
- 231
- 232
- 233
- 234
- 235
- 236
- 237
- 238
- 239
- 240
- 241
- 242
- 243
- 244
- 245
- 246
- 247
- 248
- 249
- 250
- 251
- 252
- 253
- 254
- 255
- 256
- 257
- 258
- 259
- 260
- 261
- 262
- 263
- 264
- 265
- 266
- 267
- 268
- 269
- 270
- 271
- 272
- 273
- 274
- 275
- 276
- 277
- 278
- 279
- 280
- 281
- 282
- 283
- 284
- 285
- 286
- 287
- 288
- 289
- 290
- 291
- 292
- 293
- 294
- 295
- 296
- 297
- 298
- 299
- 300
- 301
- 302
- 303
- 304
- 305
- 306
- 307
- 308
- 309
- 310
- 311
- 312
- 313
- 314
- 315
- 316
- 317
- 318
- 319
- 320
- 321
- 322
- 323
- 324
- 325
- 326