Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore میرے بیس منسانے

میرے بیس منسانے

Published by maqsood5, 2016-11-29 11:07:37

Description: abk_ksr_mh.906/2016
میرے بیس منسانے
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
نومبر ٢٠١٦

Search

Read the Text Version

‫خوشیاں ادھر بھی‬ ‫ادھر بھی برسنے لگیں‬ ‫میں اگلے روز جب کام پر آیا‬ ‫ابھی بیٹھا بھی نہ تھا‬ ‫دفتری نے‬ ‫اک سرکاری کاغذ مجھے تھمایا‬ ‫خوش نظروں سے مجھے دیکھنے لگا‬‫اس کی آنکھوں میں بخشیش کی تمنا تھی‬ ‫جوں ہی لفظ اس کاغذ کے‬ ‫مری نظروں سے گزرے‬ ‫بات ہی ایسی تھی کہ‬ ‫مرا ہاتھ جیب کی جانب بڑھ گیا‬ ‫جو ہاتھ لگا‘ میں نے اسے نذر کیا‬ ‫خوشی سے وہ مسکرا اور چل دیا‬ ‫اس کاغذ نے مجھے بتایا‬ ‫ترقی نے مرے قدم لیے ہیں‬

‫پھر مٹھائی آئی‬ ‫چائے بھی چلی‬ ‫کچھ دوست بولے‬ ‫حضرت اس سے تو نہ بات بنے گی‬ ‫آج تو نان مچھلی اڑے گی‬ ‫مرے دل سے‬ ‫کل کی خوشیوں کا خمار کب اترا تھا‬ ‫نان مچھلی کیا‬ ‫جان بھی مانگتے تو حاضر تھی‬‫خوشی کے خمار کی اپنی ہی بات تھی‬ ‫خوشیوں کے اوتار نے‬ ‫مجھے وہ کچھ دیا‬ ‫جو مرے پاس کبھی نہ رہا تھا‬ ‫کرائے کا مکاں ملکیت میں بدل گیا‬ ‫میں بھی اپنا نہ رہا سب کا ہو گیا‬ ‫جو آتا خالی ہاتھ نہ جاتا‬

‫کوئی مٹھی بھر‬ ‫کوئی جھولی بھر کے لے جاتا‬ ‫میں کون سا اپنے پلے سے دیتا رہا‬ ‫مرا کیا تھا‬ ‫جو مرے پاس تھا مالک کا دیا تھا‬ ‫جوانی سے بڑھاپے تک‬ ‫وہ پرخوش بو کنول‬ ‫مرے من آنگن کی زینت بنا رہا‬ ‫عجب ریت ہے اس زندگی کی‬ ‫جو آتا ہے چلا جاتا ہے‬ ‫میں بوڑھا ہو گیا ہوں‬ ‫بس اب جانے کو ہوں‬‫بیٹیاں کب تادیر باپ کے گھر رہتی ہیں‬ ‫بس آج کل میں وہ بھی جانے کو ہے‬ ‫تب اکیلا تھا اب اکیلا نہیں رہوں گا‬ ‫اس کی پیار بھری مستیوں کی یاد‬

‫مرا من آنگن سونا نہ ہونے دے گی‬ ‫جب تلک جیوں گا‬ ‫وہ مجھے بہلاتی رہیں گی‬ ‫دکھ درد بیماری میں‬ ‫مجھے سہلاتی رہیں گی‬ ‫تنہائی کے بھوت بھگاتی رہیں گی‬ ‫مری اس بےگیاہ زندگی کو‬ ‫یادوں کی دودھ ندیا سے‬ ‫سیراب کرتی رہیں گی‬ ‫تامرگ اسے بنجر نہ ہونے دے گی‬ ‫خیر سے اپنے سسرال جائے‬ ‫دودھ نہائے پوت کھیلائے‬‫دکھ درد کا دور تک نام و نشاں نہ ہو‬ ‫اس کی زیست کے ہر موڑ پر‬ ‫خوشیوں کے پھول‬ ‫اس کا استقبال کرتے رہیں‬

‫جس جیون کے ہر موڑ پر‬ ‫یادوں کے بلاگنت دریچے کھلتے ہوں‬ ‫سمجھو وہ جیون سفل رہا‬ ‫کچھ ہوا یا کیا تو ہی یادیں‬ ‫من آنگن میں ٹھکانہ کرتی ہیں‬ ‫میں نے کیا کرنا تھا‬ ‫مرے الله نے‬ ‫مجھے کبھی تنہا نہ رہنے دیا‬ ‫مری بچی مری جان‬ ‫کبھی کسی کے سامنے‬ ‫دست سوال دراز نہ کرنا‬ ‫جب بھی مانگنا اپنے الله سے مانگنا‬ ‫اپنے خاوند سے مخلص رہنا‬ ‫جب باہر جائے خیر کی دعا کرنا‬‫جب گھر آئے دن بھر کی تھکن بھول کر‬ ‫تہ دل سے مسکرانا‬

‫سو بسم الله کہنا‬ ‫دل میکے میں نہ رکھنا‬ ‫اپنے گھر میں مست رہنا‬ ‫کبھی کسی بات پر فخر تکبر نہ کرنا‬ ‫سب دیا الله کا دیا ہے‬ ‫جان رکھو سب اسی کا ہے‬ ‫ہاں کبھی کبھار‬ ‫اس بڈھے کو یاد کر لیا کرنا‬‫مر گیا تو بقدر بساط مغفرت کی دعا کرنا‬ ‫یہ ہی تحفہ ان مول ہو گا‬ ‫مری طرح‬ ‫اپنے باپ کو یاد کرکے نہ روتے رہنا‬ ‫میں بےچارہ اس قابل کہاں‬ ‫ہاں وہ اس قابل ضرور ہے کہ‬ ‫اسے یادوں میں بسایا جائے‬‫ہر پل الله اسے قبر میں پرسکوں رکھے‬

‫وہ وہاں کبھی تنہا نہ رہے‬ ‫الله کی عطائیں اس کے ساتھ رہیں‬‫اس کی عنائتیں قبر میں اس پر سایہ کیے رہیں‬ ‫جا مری ارحا خیر سے جانے کے لیے جا‬ ‫جا‘ جا کر وہاں خوشیوں کا جہان آباد کر‬ ‫خوشیوں کی جینی جی‬ ‫شاد رہ‬ ‫مجھ کو خود کو بھول کر‬ ‫سب کو شاد کر‬ ‫مری بچی مری جان جا‬ ‫جا خیر سے جا‬ ‫الله تم پر مہربان رہے‬ ‫باؤ بہشتی‬

‫باپ ہو کہ ماں‬ ‫معتبر ہیں محترم ہیں‬ ‫زندگی کی مشقت تو ہے ہی‬ ‫بچوں کے پالن پوسن کی بھی‬ ‫محبت سے پیار سے خلوص سے‬ ‫ماں مشقت اٹھاتی ہے‬ ‫زبان پر شکوے کا کلمہ‬ ‫کب لاتی ہے‬ ‫باپ بھی دنیا میں بےبدل رشتہ ہے‬ ‫منہ کا لقمہ جیب میں رکھ لاتا ہے‬ ‫منا کھائے گا گڑیا کے کام آئے گا‬‫دونمبری کمائی اکیلا وہ کب کھا جاتا ہے‬ ‫حصہ کے لقمے ‘پیٹ بھر سہی‬ ‫پیٹ میں لے جاتا ہے‬ ‫عمرا چور اپنے بچوں پر جان دیتا تھا‬ ‫خراش بھی آتی تو تڑپ تڑپ جاتا تھا‬

‫کس کے لیے‬ ‫آدھی رات کو گھر سے قدم باہر رکھتا تھا‬ ‫وہ ڈاکو نہیں تھا‬ ‫ہاں چوری میں نام خوب کمایا تھا‬ ‫پر اتنی بات ہے‬ ‫علاقے کا ہر گھر عزیز رکھتا تھا‬ ‫اس ذیل میں‬ ‫کوئی اس پر انگلی اٹھا نہیں سکتا‬ ‫جانا تو ہے اس سے کب مفر ہے‬ ‫اک روز وہ بھی حرف آخر ہوا‬ ‫جنازے میں خاص و عام شامل تھے‬ ‫چڑھی قسمت دیکھیے‬ ‫سات صفوں کا جنازہ ہوا‬ ‫ہر کوئی‬‫علاقے میں اس کی شرافت کے گن گا رہا تھا‬ ‫کئی دن بھورا بےرونق نہ ہوا‬

‫اک آ رہا ہے تو اک جا رہا ہے‬ ‫اس کا بڑا لڑکا بھورا نشین رہا‬ ‫اپنے انداز سے باپ کے گن گاتا تھا‬ ‫کہتا تھا‬ ‫باؤ بہشی کوئی کچا چور نہ تھا‬ ‫بس اک ادھ بار پکڑا گیا‬ ‫پلس ٹل لگاتی رہی مگر وہ نہ مانا تھا‬ ‫قسم لے لو‬ ‫جو کبھی چوری کے جرم میں جیل گیا‬‫اس کی کوئی چوری پلس ریکارڈ میں نہیں‬ ‫یہ کھلی بکواس ہے کہ وہ چور تھا‬ ‫اس کے پکے پیڈے ہونے پر‬ ‫سب عش عش کر اٹھے‬ ‫یہ بھی اس نے بتایا‬ ‫جب عمرا اس کی ماں کو بھگا کر لایا‬ ‫وہ اس کے پیٹ میں تھا‬

‫نانا اس کا علاقے کا بڑا کھنی خاں تھا‬ ‫زور اس نے ایڑی چوٹی کا لگایا‬ ‫مگر کہاں‬ ‫باؤ بہشی نے اس کی ایک بھی نہ چلنے دی‬ ‫بازو دے دیتا تو کیا لاج رہتی‬ ‫تھک ہار کر نانا ہی اس کا چپ ہو گیا‬‫اس کے پاس اس کے سوا کوئی رستہ بھی نہ تھا‬ ‫آفرین آفرین فلک بوس نعرہ بلند ہوا‬ ‫عمو کماگر نے یہ لقمہ دیا‬ ‫صدیوں بعد ایسے پوت جنم لیتے ہیں‬ ‫انو کہنے لگا‬ ‫ہمیں اس کی جی داری پر ناز ہے‬ ‫شیر تھا دلیر تھا‬ ‫یہ سب کیوں تھا‬ ‫عمرے کا بڑا پوت‬ ‫باپ کے اصولوں کو بھول گیا تھا‬

‫آغاز اس کا علاقے سے ہوتا تھا‬‫جب کبھی خالی ہاتھ رہتا تو ہی رخ باہر کا کرتا‬ ‫محنت کی کمائی ہر کسی کو عزیز ہوتی ہے‬ ‫ٹی سی ہی وہ راہ تھی کہ‬ ‫وہ اس کے گھر سے ٹلا رہے‬ ‫اس حوالہ سے اس کے باؤ بہشتی کی‬ ‫ہر دل میں یاد تازہ بہ تازہ تھی‬ ‫اگلے وقتوں کے طور ہی کچھ اور تھے‬ ‫اپنے علاقے کی عزت ہر آنکھ میں تھی‬ ‫آج خرابی گھر سے شروع ہوتی ہے‬ ‫خیر اب چوری کی رسم بد کب رہ گئی ہے‬ ‫یہ رسم اگلے وقتوں کی تھی‬ ‫نمرود عصر بڑی کرسی پر بیٹھ کر‬ ‫ڈاکے ڈلواتا ہے‬ ‫سامان لٹ جائے خیر ہے‬ ‫اور آ جائے گا‬

‫فرعؤن بچوں کو مرواتا تھا‬‫یہ بچوں بوڑھوں ضعیفوں گریبوں مسکینوں کو بھی‬ ‫کھا پی جاتا ہے‬ ‫ہاں اتنا ضرور ہے‬ ‫عمرے کے قدموں پر ہے‬ ‫مگر اس کے حرامی بچے‬ ‫عمرے کے بچے کے پیرو ہیں‬ ‫لوگ آج بھی عمرے کو یاد کرتے ہیں‬ ‫منہ پر نہیں پر آگے پیچھے‬ ‫اس کے بیٹے کو برا بھلا کہتے ہیں‬ ‫کوئی کیا جانے‬

‫اس کے اچھا اور سچا ہونے میں‬ ‫مجھ کو کیا‘ کسی کو شک نہیں‬ ‫برے وقت میں‬ ‫اوروں کی طرح منہ پھیر نہیں لیتا‬ ‫دامے درمے سخنے ساتھ رہتا ہے‬ ‫سچے کو سچا جھوٹے کو جھوٹا‬ ‫منہ پر کہتا ہے‬ ‫جینے کے لیے یہ طور اچھا نہیں‬ ‫اس کی اس گندگی عادت نے‬ ‫مفت میں‬ ‫اس کے کئی دشمن بنا رکھے ہیں‬ ‫اصل اندھیر یہ‬ ‫جن کے حق میں کہہ جاتا ہے‬ ‫وہ ہی اس سے منہ پھیر لیتے ہیں‬ ‫بہت کم‬‫اسے پرے پنچایت میں بلایا جاتا ہے‬

‫بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہو جاتی‬ ‫اٹھنے بیٹھنے کے‬‫مغرب نے ہمیں طور طریقے سکھائے ہیں‬ ‫بقول مغرب کے‬ ‫ابھی ہم چودہ سو سال پیچھے ہیں‬ ‫دس محرم کو‬ ‫اک ماتمی جلوس گزر رہا تھا‬ ‫اک انگریز جو ادھر سے گزر رہا تھا‬ ‫اس نے ساتھ چلتے چمچے سے پوچھا‬ ‫یہاں کیا معاملہ ہے کیا ہو رہا ہے‬ ‫چمچے نے بتایا‬ ‫حسین کی شہادت کا جلوس گزر رہا ہے‬ ‫وہ حیران ہوا اور کہا‬ ‫انہیں اب پتا چلا ہے‬ ‫چمچمے نے‬ ‫وضاحت نہ کی اور ہاں میں ہاں ملائی‬

‫وہ صاحب تھا‬ ‫یس سری کا ہی تو عوضانہ دیتا تھا‬ ‫میاں حق قناعت لیے پھرتا تھا‬ ‫تب ہی تو بھوکا مرتا تھا‬ ‫سب چھوڑو‬‫ایک عادت اس کی عصری آدب سے قطعی ہٹ کر تھی‬ ‫کار قضا کبھی کسی تقریب میں بلا لیا جاتا‬ ‫دیسی کپڑوں میں چلا جاتا‬ ‫چٹے دیس کے اہل جاہ کی‬ ‫برائیاں گننے بیٹھ جاتا‬ ‫یہ بھی نہ دیکھتا کہ کوئی ناک منہ چڑھتا ہے‬ ‫لوگ کھانا کھانے کھڑے ہوتے‬ ‫زمین پر وہ رومال بچھا کر بیٹھ جاتا‬ ‫کانٹوں چمچوں کے ہوتے‬ ‫ہاتھ سے کھاتا‬ ‫کھا کر اچھی طرح انگلیاں چاٹتا‬

‫ٹشو پیپر کو چھوڑ کر ہاتھ دھوتا‬ ‫سچی بات ہے یہ اطوار دیکھ کر‬ ‫سب کو بڑی کراہت ہوتی‬‫ہمارے ہاں اک اور سچ پتر رہتے ہیں‬ ‫معاملہ ان سے پوچھنے چلے گیے‬ ‫بقول اس کے میاں حق کا کہنا ہے‬ ‫کھڑے ہو کر کھانے سے‬‫شخص کا زمین سے رشتہ نہیں رہتا‬ ‫معدہ متاثرہوتا ہے‬ ‫دل دماغ اعصاب پر برا اثر پڑتا ہے‬ ‫بیٹھ کر کھانے سے‬ ‫جسم کا زمین سے رشتہ رہتا ہے‬ ‫زمین میں سو طرح کی دھاتیں ہیں‬ ‫جو جسم پر اپنے اثر چھوڑتی ہیں‬ ‫چوکڑی مار کر بیٹھنے سے‬ ‫سکون کی کیفیت رہتی ہے‬

‫ہر انگلی کو دل ہر لمحہ‬ ‫تازہ خون سپلائی کرتا ہے‬ ‫ہر شخص کے خون کا گروپ الگ ہوتا ہے‬ ‫ہاتھ ملانے‬ ‫گلے ملنے سے‬ ‫سو طرح کے جراثیموں سے‬ ‫مکتی ملتی ہے‬ ‫ہاں زنا کی بات اور ہے‬ ‫زانی تم نے دیکھے ہوں گے‬ ‫ذرا غور کرنا‬ ‫یک زنی اور صد زنی کے اطوار میں‬ ‫فرق کیا ہے‬ ‫حلالی حرامی کی پیدائش کو الگ رکھیے‬‫زانی کا بدن زانی کے بول زانی کی شخصیت‬ ‫فطری توزان میں نہیں رہتی‬ ‫ہمارے اس سچ پتر پر‬

‫میاں حق کی باتوں کا بڑا اثر ہوا‬ ‫ساری رام لیلی اس نے آ کر ہمیں سنائی‬‫سارے ان باتوں پر خوب ہنسے اور ٹھٹھا بنایا‬ ‫وہ رائی بھر بھی نہ ہنسا نہ مسکرایا‬ ‫ہم نے اسے بڑا ڈھیٹ کیا‬ ‫ٹس سے مس نہ ہوا‬ ‫سب یک زبان ہو کر بولے‬ ‫لو اک اور علاقے کے گلے گلاواں پڑا‬ ‫میاں حق چل بسا‬ ‫رنگو نے آ کر اچانک یہ خبر سنائی‬ ‫محفل پر سکوت چھا گیا‬ ‫سچ پتر ڈھاڑیں مار کر رونے لگا‬ ‫قانون قدرت ہے‬ ‫سچ باقی رہے گا اسے باقی رہنا ہے‬ ‫کوئی کیا جانے‬ ‫میاں حق علاقے کا گہنا تھا‬

‫اب سچ پتر گہنا ہے‬‫کل کو آتی دفع کا ذکر ہے‬

‫پچھلی دفعہ کی اہمیت سے مجھ کو انکار نہیں‬ ‫شخص کا وہ اترن ہے‬ ‫یہ اترن ہی شخص کی وضاحت ہے‬ ‫اس پر ناز کیسا غرور کیسا‬ ‫میں کیسا ہوں یہ ہی اصل حقیقیت ہے‬ ‫خدارا مورکھ کے پاس نہ جائیے‬ ‫سچ کم جھوٹ زیادہ بولتا ہے‬ ‫جو ہوتا نہیں کہتا ہے جو ہوتا ہے کہتا نہیں‬ ‫شاہ کا چمچہ ہی نہیں‬ ‫وہ فصلی بٹیرا بھی ہے‬ ‫چوری خور کب حق سچ کی کہتے ہیں‬ ‫شخص کا کاتب نہیں‬‫شاہ اور شاہ والوں کی وہ منشی گیری کرتا ہے‬ ‫شخص کے اس اترن کی کتھا‬ ‫شاعروں کے ہاں تلاشیے‬

‫سچ وہاں مل جائے گا‬ ‫علامتوں استعاروں میں ہی سہی‬ ‫سب کچھ وہ کہہ گیے ہیں‬ ‫اورنگی عہد کا سچ کہیں اور کب ملتا ہے‬ ‫رحمان بابا کہتا ہے‬ ‫مجنوں کا کوئی کیا حال پوچھے‬ ‫ہر گھر صحرا کا نقشا ہے‬ ‫یہ شاعر ہی تھا جو اشارے میں‬ ‫بہت کچھ کہہ گیا‬ ‫مورکھ کو سچ کہنے کی توفیق کہاں‬ ‫ہاں داستانی ادب ہو کہ مقامی حکائتیں‬‫حق ان بھی بھی کہیں ناکہیں لکا چھپا ہوتا ہے‬ ‫خیر جو بھی معاملہ رہا ہو‬ ‫پچھلی دفعہ کا یہ ذکر ہی نہیں‬ ‫یہ کل کو آتی دفع کا ذکر ہے‬ ‫شرق کا اک سیانا‬

‫ستاروں کے علم سے آگاہ تھا‬ ‫زمین کا وڈیرا لٹیرا‬ ‫دھونس سے اسے اپنے پاس لے گیا‬ ‫پہلے آنکھیں دکھائیں‬ ‫نہ مانا تو تشدد کیا‬ ‫بڑا ڈھیٹ نکلا تو بھوک کی چادر اڑھا دی‬ ‫آخر کب تب تک‬ ‫زبان اس نے کھول ہی دی‬ ‫موت سے ڈرا موت صلہ ٹھہری‬ ‫بھلائی کے بدلے شاباش کم ہی ملتی ہے‬‫خیر اس نے تو مجبوری میں آ کر اپنا سینہ کھولا‬‫پولے پیریں بتا دیتا تو بھی اس کا یہ ہی حشر ہوتا‬ ‫زمین کے ہر چپے پراس کی حکومت تھی‬ ‫سورج چاند ستارے سارے کے سارے‬ ‫تصرف میں اس کے آ چکے تھے‬ ‫اس حقیقت کے باوجود‬

‫کوئی ناکوئی زمین کا سانس لیتا مردہ‬ ‫کچھ ناکچھ کہیں ناکہیں گڑبڑ کر ہی دیتا‬ ‫سرکوبی کے جتن میں‬ ‫گرہ خود سے ہتھیایا سکہ نکل جاتا‬ ‫ہر جاتا سکہ اس کو ادھ مویا کر دیتا‬ ‫کل کو آتی دفع کے ذکر میں‬ ‫اس بات کا باور کرانا ضروری ہے‬ ‫وہ شرقی جان سے گیا‬ ‫کسی شریک کا ہونا وڈیرے کو کیسے گوارہ ہوتا‬‫ستاروں کا علم آنے کی دیر تھی کہ حوصلہ اس کا‬ ‫ہمالہ کی بلندی کو بھی پار کر گیا‬ ‫ہر چلتا پھرتا بدیسی‬ ‫اس کو کیڑا مکوڑا لگنے لگا‬ ‫اس کے کسی دیسی کو‬ ‫اس کے کسی عمل پر کیوں اعتراض ہوتا‬ ‫پیٹ بھرے سوتا پیٹ بھرے اٹھتا‬

‫جو بولتا اس کے منہ میں زیرہ رکھ دیتا‬ ‫بدیسی کسکتا بھی تو اس کا ستارہ بدل دیتا‬ ‫مشتری سے جب وہ زحل میں آتا‬‫وہ جی جان سے جاتا یہ مسکراتا قہقہے لگاتا‬ ‫اسے کوئی پوچھنے والا نہ رہا‬ ‫ہر سو خوف و ہراس کا پہرا ہوا‬ ‫ہر بدیسی کے زحل میں آنے سے‬ ‫قتل و غارت کی دنیا شاد و شاداب تھی‬ ‫اک بے سہارا وچارے سے لڑکے کا‬ ‫بھوک کے سبب میٹر گھوم گیا‬ ‫زحل میں آئے اس کے ستارے کی‬ ‫یہ بددیسی چال تھی‬ ‫کسی میاں میٹھو نے اسے خبر کر دی‬ ‫اس نے فورا سے پہلے اس کا ستارہ بدل دیا‬ ‫جلدی میں اس سے چوک ہو گئی‬ ‫درمیاں زحل کے جانے کی بجائے‬

‫ستارہ مشتری میں جا بسا‬ ‫پھر کیا تھا‬ ‫دیکھتے ہی دیکھتے کچھ کا کچھ ہو گیا‬ ‫اس کے اقتدار کا گراف نیچے گرنے لگا‬ ‫وہ بوکھلا گیا‬‫بوکھلاہٹ میں ہر صحیح بھی غلط ہونے لگا‬ ‫پھر کیا تھا‬ ‫آتے کل کی دفع میں وڈیرے کا اپنا ستارہ‬ ‫کہیں گم ہو گیا‬‫سب سے پہلی دفعہ میں بھی ایسا ہی ہوا تھا‬ ‫ابلیس کی گڈی چڑھی ہوئی تھی‬ ‫فرشتہ ہو کہ جن اس کے قدم لیتا تھا‬ ‫تکبر زہریلا لاوا اگلنے لگا‬ ‫اس کے سب کے خالق نے‬ ‫پہلا آدم تخلیق کیا‬ ‫اسے ہی نہیں‬

‫سب کو سجدہ کا حکم دیا‬ ‫اس کا قیاس تھا کہ آدم زحل ًمیں وجود پایا ہے‬ ‫اس کی یہ ہی بھول تھی‬ ‫غصہ و قہر میں لمحوں کی گنتی بھول گیا‬ ‫آدم تو مشتری کی بہترین ساعت کی تخلیق تھا‬ ‫الله کی حکمت اگر کھل جائے تو وہ الله تو نہ ہوا‬ ‫الله کے آنے کے ان حد رستے ہیں‬‫قہر کے رستے سے آئے یا عطا کے رستے سے‬ ‫کون جان سکا ہے‬ ‫آتے کل کی دفع میں‬ ‫شکست آخر ابلیس کے پیرو کا مقدر ٹھہری‬ ‫ویدی کا ویدان تو اپنی ذات میں اٹل ہے‬ ‫دیو ہو کہ جن شخص ہو کہ ملک‬ ‫اس کے سامنے بےبس ہے‬ ‫اس کی ہونی میں کب کسی کا کوئی دخل ہے‬ ‫دجال آئے کہ اس کا پیو آئے‬

‫اس کی خدائی نہیں چل سکتی‬‫حسین کے پیرو اس کی راہ میں آتے رہیں گے‬ ‫وہ آگ میں پڑنے سے زہر پینے سے‬ ‫سر کٹوانے سے کب ڈرتے ہیں‬ ‫دجال عصر سن لو!‬ ‫تمہیں میں یہ کہے دیتا ہوں‬ ‫تمہارا ستارہ زحل میں آنے کو ہے‬ ‫یہ ہی ہوتا آیا ہے یہ ہی ہوتا رہے گا‬ ‫کہاں ہیں یونانی کہاں ہیں رومی‬ ‫بس ان کی کہانیاں باقی ہیں‬ ‫ہاں وہ سب تکبر کی آگ کا ایندھن بنے‬ ‫جل بھن گئے راکھ تک باقی نہ رہی‬ ‫سکندر ہو کہ قاسم محمود ہو کہ چرچل‬ ‫بابر بھی عیش کوشی کے سامان کرتا رہا‬ ‫کچھ کھا پی گئے‬ ‫کچھ جمع آوری میں مشغول رہے‬

‫کسی نے تاج محل تعمیر کیا‬‫عورت کے تھلے کی خوشنودی کی خاطر‬ ‫کئی نور محل تعمیر ہوئے‬ ‫کوئی اپنے ساتھ کب کچھ لے گیا‬‫نام الله کا باقی ہے نام الله کا باقی رہے گا‬ ‫گزری دفعہ کی یہ ہی کتھا تھی‬ ‫آتی دفع کی بھی یہ ہی کتھا ہوگی‬ ‫کڑکتا نوٹ‬

‫اس بات کو‬ ‫آج کوئی نصف صدی ہوئی‬ ‫آج بھی نوششہءصدر ہے‬ ‫سکول کی اسمبلی میں کھڑے تھے‬ ‫بڑے ماسٹر صاحب نے‬ ‫باآواز بلند کہآ‬‫کسی کے پاس روپے کا کڑکتا نوٹ ہے‬ ‫خاموشی چھا گئی‬ ‫روپیے کا نوٹ اوپر سے کڑکتا‬ ‫گریبوں کا فیس معافی سکول تھا‬ ‫کسی سیٹھ کی تجوری نہ تھی‬ ‫سو کا نوٹ بھی پوچھتے‬ ‫اس کے غلے میں مقید ملتا‬ ‫آخر چپ ٹوٹی‬ ‫سکول کے مالی کی جیب سے نکل آیا‬ ‫سب کو حیرت ہوئی‬

‫مالی کی جیب میں روپیے کا کڑکتا نوٹ‬ ‫میلا رام کا سر فخر سے تن گیا‬ ‫فخر اسے کیوں نہ ہوتا‬ ‫اتنوں میں فقط ایک وہ ہی تھا‬ ‫جس کی جیب سے‬ ‫روپیے کا کڑکتا نوٹ نکلا تھا‬‫خیر چھوڑیں بات ذرا آگے بڑھاتے ہیں‬ ‫بڑے ماسٹر صاحب نے‬ ‫روپیے کا وہ نوٹ سب کو دکھایا‬ ‫پتا نہیں کتنے مونہوں میں پانی آ گیا‬ ‫انہوں نے پوچھا یہ نوٹ کتنے کا ہے‬‫سب نے یک زبان ہو کر کہا ایک کا ہے‬ ‫نوٹ انہوں نے دوہرا چوہرا کر دیا‬ ‫پوچھا اب یہ نوٹ کتنے کا ہے‬ ‫سب نے کہا ایک کا‬ ‫ہاں البتہ میلہ رام کے تیور بگڑ گئے‬

‫بعد اس کے‬ ‫نوٹ انہوں نے ہاتھوں میں مسل دیا‬ ‫پھر پوچھا یہ نوٹ کتنے کا‬ ‫جواب وہ ہی تھا کہ ایک کا‬ ‫نوٹ کی حالت دیکھ کر‬ ‫میلہ رام کا چہرا زرد پڑ گیا‬‫نوٹ انہوں نے اپنے پاؤں سے مسل دیا‬ ‫پوچھا اس نوٹ کی قدر کیا ہے‬ ‫سب نے کہا ایک روپیہ‬ ‫اب کہ میلہ رام کی طبیت خراب ہو گئی‬‫بڑے ماسٹر صاحب کی وہ نگاہ میں تھا‬ ‫انہوں نے فورا سے پہلے کڑکتا نوٹ‬‫جیب سے نکالا اور میلا رام کو تھما دیا‬ ‫رگڑا مسلا نوٹ اپنی جیب رکھ لیا‬ ‫کہ وہ اب بھی ایک کا تھا‬ ‫چیز دونوں کی ایک سی آنی تھی‬

‫نیا ہو کہ پرانا اس سے کیا فرق پڑتا ہے‬ ‫نوٹ دونوں ایک کے تھے‬ ‫بڑے ماسٹر صاحب بولے‬ ‫اس نوٹ پر کوئی بھی قیامت گزرے‬ ‫اس کی قیمت میں فرق نہ آئے گا‬ ‫ہاں اتنا ضرور ہے یہ ترا مرا نہیں‬ ‫یہ جس کا بھی ہو ایک کا ہے‬ ‫خرچ کرو گے تو ایک کا نہیں رہے گا‬ ‫آگہی جتنی بھی خرچ ہو‬ ‫اس کی قدر کم نہیں ہوتی‬ ‫میں نے سب کو دانش کی بات بتائی‬ ‫قدر مگر اس کی کم نہیں ہوئی‬ ‫تم جتنا بھی اسے خرچ کرو گے‬ ‫یہ جتنی ہے اتنی ہی رہے گی‬ ‫اسے زنگ نہیں آتا یہ پرانی نہیں ہوتی‬ ‫کس نے کہا مت دیکھو‬

‫کیا کہا یہ ہی دیکھو‬ ‫صوفی یا بھگت کے منہ سے نکلے‬ ‫گالی ہو گی ‘گالی‬ ‫بدمعاش لفنگے کے منہ نکلے‬ ‫دعا‘ دعا ہو گی‬ ‫پلے سے مری یہ بات باندھ لو‬ ‫علم کی جناب میں‬ ‫فرشتے بھی سجدہ ریز ہوئے‬ ‫اچھا‘ اچھا ہی رہتا ہے‬ ‫کالک سو غازوں کے پیچھے‬ ‫کالک ہی رہتی ہے‬ ‫سقراط ہو کہ منصور‬‫وقت کی دھول میں کب چھپ سکے ہیں‬ ‫انہیں مسلا گیا کچلا گیا‬ ‫قدر ان کی مگر کوئی کم نہ کر سکا‬ ‫وقت انہیں سلام کرتا آیا ہے‬

‫سلام کرتا رہے گا‬‫اسلام سب کا ہے‬

‫سچی کہانی‬ ‫بابا شکر الله بھلے آدمی تھے‬ ‫صوم و صلوتہ کے ہی پابند نہ تھے‬ ‫قول کے کھرے‬ ‫ہاتھ کے بھی کھلے تھے‬ ‫اچھا کہتے اچھا کہنے کو کہتے‬ ‫اچھا کرتے اچھا کرنے کو کہتے‬ ‫لوگوں کا ان کے پاس آنا جانا تھا‬ ‫بساط بھر ان کی خدمت کرتے‬ ‫لینے کے خلاف تھے‬ ‫اگر کوئی کچھ لے آتا‬ ‫واپس اسے لے جانا پڑتا‬ ‫جعلی پیروں کی ٹھگی پر افسردہ رہتے‬ ‫کہتے‬‫انہیں تو لوگوں کو حضور کی راہ پر چلانا ہے‬

‫حضور دیتے تھے‬ ‫ان کا لینا کہیں ثابت نہیں‬ ‫لوگ انہیں پیر سمجھتے تھے‬ ‫یہ الگ بات ہے‬‫انہوں نے خود کو کبھی پیر مانا نہیں‬ ‫کوئی پیر کہتا تو برا مناتے‬ ‫پنشن پر گزرا کرتے‬ ‫اماں جی گھر میں‬ ‫بلا فیس بچوں کو پڑھاتیں‬ ‫عرصہ سے‬ ‫ان کے ہاں یہ ہی طور چلا آتا تھا‬ ‫مجھ ناچیز کو بھی‬ ‫ان کے پاس بیٹھنے کا شرف رہتا‬ ‫ایک بار‬ ‫اک مولوی صاحب ان کے پاس آئے‬ ‫سلام دعا بلا کے بیٹھ گئے‬

‫توند بس مناسب ہی تھی‬ ‫ہاں شلوار ٹخنوں سے اوپر تھی‬ ‫مونچھوں کا کہیں نام و نشان نہ تھا‬ ‫داڑھی سرسیدی تھی‬ ‫بولے حضرت اک سوال پوچھنا ہے‬ ‫بابا بولے الله علیم و خبیر ہے‬ ‫معلوم ہوا تو ہی جواب دے سکوں گا‬ ‫ہاں غور تو ہو سکتا ہے‬‫مولوی صاحب بولے‪ :‬کیا حضور کو ّعلم غائب تھا‬ ‫مولوی کے لہجے میں‬ ‫مولوی کی آنکھوں میں شرارت تھی‬ ‫بابا صاحب پہلے تو مسکرائے‬ ‫پھر رنجیدہ ہو گئے‬ ‫بابا صاحب نے کہا‪ :‬افسوس مولوی صاحب‬ ‫افسوس صد افسوس‬ ‫کرنے کے کام کرتے نہیں ہو‬

‫یہ الله اور اس رسول کا معاملہ ہے‬ ‫اس پر زور آزماتے ہو‬ ‫نہیں ہے تو بھی ‘ہے تو بھی‬ ‫یہ ہمارا معاملہ نہیں ہے‬ ‫ہمیں تو بس اس سے کام ہے‬ ‫آپ کے کہے میں وحی کا اہتمام ہے‬ ‫آپ کا کہا گویا الله کا کہا ہے‬ ‫مولوی صاحب کیسے ہیں آپ‬ ‫کان دیکھتے نہیں‬‫کتے کے پیچھے دوڑے بھاگے جاتے ہو‬ ‫کبھی خود سے بھی سوچ لیا کرو‬ ‫دعوی تمہارا ہو گا کہ پڑھا لکھا ہوں‬ ‫علم قریب سے بھی گزرا ہوتا‬ ‫یہ سوال نہ کرتے‬ ‫کیا حضور کو ّعلم غائب تھا‬ ‫تمہارا کہا ہی تضاد کا شکار ہے‬

‫کہتے ہو حضور‬ ‫صیغہ تھا کا استعمال کرتے ہو‬ ‫لفظ حضور حاضر کے لیے ہے‬ ‫مانتے ہو آپ حاضر ہیں‬ ‫تھا کہہ کر نفی کرتے ہو‬ ‫یہ کیا بات ہوئی‬ ‫وہ حاضر ہیں پر کیا کریں‬ ‫ہماری آنکھں‬ ‫انہیں دیکھنے کے قابل نہیں ہیں‬ ‫دیکھنے والے دیکھتے ہیں‬ ‫یوں بھی لے سکتے ہو‬ ‫تاقیامت قرآن باقی ہے‬ ‫آپ حاضر ہیں‬ ‫خیر یہ تضاد تمہارے پوچھنے میں ہے‬ ‫تضاد کی دنیا سے نکلو کہ امت متحد ہو‬‫مذاہب غیب پر ایمان رکھنے پر استوار ہیں‬

‫الله تم نے دیکھا‘ نہیں‬ ‫جنت دوزخ جن فرشتے تم دیکھے‘ نہیں‬ ‫حاضر کو دیکھا‘ نہیں‬ ‫قرآن اترتے دیکھا‘ نہیں‬ ‫ان سب پر ہر کلمہ گو کا ایمان ہے‬ ‫تب ہی تو مسلمان ہے‬ ‫حضور پر قرآن اترا‬‫بے شک لانے والے کو حضور نے دیکھا‬ ‫وہ فرشتہ تھا انسان نہیں تھا‬ ‫بھیجنے والے سے متعلق آگہی ہو گی‬ ‫جو کسی نے نہیں دیکھا‬ ‫حضور نے دیکھا جانا‬ ‫علم غیب کا ہونا اور کس کو کہتے ہیں‬ ‫میں سے گزر کر تو میں آنے والا‬ ‫کب کسی پر کھل سکتا ہے‬ ‫یہ معاملہ حضور کا ہے‬

‫وہ جانیں یا ان کا خدا جانے‬ ‫ہمیں اس سے مطلب نہیں‬ ‫اگر ہم مسمان ہیں تو سیدھا چلیں‬ ‫الله کی مخوق کے کام آئیں‬ ‫لایعنی چکروں میں پڑو گے‬ ‫تو مرو گے‬ ‫خود ڈوبو گے یہ معاملہ تمہارا ہے‬ ‫اوروں کو ڈبو دو گے‬ ‫یہ معاملہ اسلام کا ہے‬ ‫اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا‬ ‫اسلام تمہارا ہی نہیں‬ ‫اسلام سب کا ہے‬‫ڈنگ ٹپانی‬

‫الله بخشے تایا نواب لڑکوں کو‬ ‫چوکوں میں کھڑا ہونے سے منع کرتے تھے‬ ‫رشتہ میں وہ کسی کے کچھ نہ تھے‬ ‫بوڑھے تھے حیادار تھے‬ ‫سب انہیں تایا کہتے تھے‬ ‫اچھا دور تھا اچھے لوگ تھے‬ ‫ہر کس کی عزت اپنی عزت جانتے تھے‬ ‫سب کی بھنیں اپنی بھنیں تھیں‬ ‫آہ! وہ مر گئے‬ ‫اچھی روائتیں بھی مر گئیں‬ ‫آنکھوں میں شرم تھی حیا تھی‬ ‫آج کوئی کوئی پرانا بات کرے تو کہتے ہیں‪:‬‬ ‫چھوڑو جی دقیانوسی ہے‬ ‫بیبیاں بادوپٹہ یا بابرقعہ گھر سے نکلتی تھیں‬‫آج برقعہ تو دور رہا دوپٹہ بھی غائب ہو گیا ہے‬ ‫شریف سے اور باحیا سے رہو تو‬

‫کڑیاں مذاق اڑاتی ہیں‬ ‫چھیڑو تو پلے پڑ جاتی ہیں‬ ‫نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن‬ ‫اسی کو تو کہتے ہیں‬‫بیدا اور شیدا محلہ کے چوک میں کھڑے تھے‬ ‫لایعنی گپیں ہانک رہے تھے‬ ‫تانک جھانک دیدار بازی کا عمل جاری تھا‬‫کوئی ناک چڑھا کر کوئی مسکرا کر گزر جاتی‬ ‫ہاجاں تیلن کا بھی ادھر سے گزر ہوا‬ ‫منہ متھے لگتی تھی شیدا نہ رہ سکا‬ ‫اس نے پرامید پراسلوب فوجی سلیوٹ کیا‬ ‫وہ کھل کھلائی‬ ‫ہنسی اس کی پورے منہ کی تھی‬ ‫وہ گزر گئی بات آئی گئی ہو گئی‬ ‫وہ پھر سے گپوں میں جھٹ گئے‬ ‫اسی شام ہاجاں تیلن بیدے کے گھر آئی‬

‫بیدے کی ماں سے کہنے لگی‬ ‫بیدے نے محلہ کے چوک میں‬ ‫مجھے چھڑا ہے‬ ‫مرا ویر ادھر نہ تھا‬ ‫ورنہ‬ ‫پیر پر ڈکرے کر دیتا‬‫بیدے کی ماں شکایت سن کر ہکی بکی رہ گئی‬ ‫اس نے غصے سے بیدے کو آواز دی‬ ‫آیآ ماں جی کہہ کر‬ ‫کچھ ہی دیر بعد چھت سے نیچے اتر آیا‬ ‫وہ گڈی اڑا رہا تھا‬ ‫اتنی دیر میں ہاجاں تیلن جا چکی تھی‬ ‫بیدے کی ماں نے بنا کچھ سنے‬ ‫بیدے کی لہہ پہہ کر دی‬ ‫بیدے نے تو اسے چھیڑا ہی نہ تھا‬ ‫یہ گلاواں مفت میں اس کے گلے آ پڑا تھا‬

‫بیدے کی ماں بےچاری کیا جانے‬ ‫رولا چھیڑنے کا تھا ہی نہیں‬ ‫وہ شیدے کی پسند تھی‬ ‫شیدا مگر ہاجاں کی دل آنکھ میں نہ تھا‬ ‫ہاں وہ بیدے کی دیونی تھی‬‫بیدے کو کیا مری پڑی جو اس نے نہ چھیڑا‬ ‫پر کیا کریں‬ ‫چھماں بیدے کے دل کی رانی تھی‬ ‫سوہنی تو تھی ہی‬ ‫ہاجاں سے بڑھ کر سیانی تھی‬ ‫یہ بات تو‬ ‫فرشتوں کے لکھے پر‬ ‫ناحق پکڑے جانے والی کی سی تھی‬ ‫کیسی بات ہے یہ‬ ‫شادی کرنے کے ارادے دور تک نہ تھے‬ ‫ہاں مگر دو طرفہ محض ڈنگ ٹپانی تھی‬

‫ایک اور اندھیر دیکھیے‬ ‫ہر چپہ پہ سجدہ ریز ہوا‬ ‫پھر بھی میں کی گرفت میں رہا‬ ‫کرنی اپنی ہی کرنی تھی‬ ‫سجدوں کا محض ڈھونگ رچا تھا‬ ‫آخر کب تک‬ ‫آزمائش میں آ ہی گیا‬ ‫میں سر چڑھ کر بولی تو‬ ‫ڈھول کا بھید کھل گیا‬ ‫پھر کیا تھا‬ ‫مالک نے حضوری دوری میں بدل دی‬ ‫معافی کی طرف کیوں آتا‬‫دیکھتے ہی دیکھتے نٹکا اس کا آسمان لگا تھا‬

‫خالق اسے جانتا تھا‬ ‫وہ تو خود سے بےبہرہ تھا‬‫رنگ روپ شکل بدل بدل کے ملتا رہتا ہے‬ ‫کچھ ہی لمحے ہوئے ہوں گے‬ ‫مجھے ملا تھا‬ ‫بےشک بڑا خوش لباس تھا‬ ‫مرے سامنے سو کا اس نے دنبہ خریدا‬‫میں دیکھ رہا ہوں اس سے وہ بےخبر تھا‬ ‫میں نے پوچھا دنبہ کتنے کا دو گے‬‫ریٹ دنبے کا اس نے ایک سو چالیس بتایا‬ ‫میں نے کہا کچھ تو کم کرو‬ ‫بڑی مشکل سے ایک سو تیس تک آیا‬ ‫اصرار کیا تو کہنے لگا‬ ‫قرآن کی قسم کھا کر کہتا ہؤں‬ ‫ایک سو پچیس مری خرید ہے‬ ‫پانچ منافع لوں گا‬

‫میں نے بصد افسوس اس کی طرف دیکھا‬ ‫دنبہ خرید لیا کہ قرآن پر مرا یقین تھا‬ ‫یہ قریبا دو بجے کی بات ہے‬ ‫باریش تھا مسجد سے نکل رہا تھا‬ ‫جلدیوں میں تھا‬ ‫لگتا تھا کہیں کام ڈالے گا‬ ‫سیدھا گودام میں آیا‬ ‫پیسی مرچوں کے دو بورے واں پڑے تھے‬ ‫پیسی اینٹوں کا ایک بورا‬ ‫اس کی راہ دیکھ رہا تھا‬ ‫اپنے ہنر میں صاحب کمال تھا‬ ‫منٹوں سکنٹوں میں یہ پرایا‬ ‫مرچوں کا ہم سفر ہوا‬ ‫اب کہ تین بورے مرچوں کے ٹھہرے‬‫رنگ روپ حسب نسب کا جھگڑا ہی ختم ہو گیا‬ ‫مسجد میں اس کے طور ہی کچھ اور تھے‬

‫باہر آ کر یکسر بدل گیا‬ ‫حاجی کے روپ میں بھی ملا‬ ‫بڑا خوش اخلاق شیریں زبان تھا‬ ‫مری بیوی کو شروع سے بیٹی کہتا تھا‬ ‫سر پر ہاتھ پھرتا نگاہ نیچی رکھتا‬ ‫یہ تو بہت بعد میں معلوم ہوا‬ ‫مرے گھر کی ساری رونق‬ ‫اسی کا لطف و احسان تھا‬ ‫مجھ سا ناکارہ وگرنہ کب اس لائق تھا‬ ‫کاش سائنس اتنی ترقی نہ کرتی‬ ‫اور میں بےخبر ہی رہتا‬‫عاشاں شکل و صورت میں کتنی معصوم لگتی تھی‬ ‫باطن میں شیطان ہی کا اترن تھی‬ ‫برسوں سے مرا پرموشن کیس اڑا پھسا تھا‬ ‫بڑا بابو کبھی یہ کبھی وہ کاغذ مانگ رہا تھا‬ ‫مرے ساتھ کیا ہو رہا ہے‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook