151 مری آغوش میں شرمندگی رکھ دی درماندگی رکھ دی اپنی اور مانگے کی چیز میں کتنا فرق ہوتا ہے وہ لائق صد افتخار تھی پروقار تھی میں تنکے سے بھی حقیر تھا اس کا سر تنا ہوا تھا مرا سر جھکا ہوا تھا کہ غزل کے چہرے پر بھیک کا پیوند لگا ہوا تھا غزل کا بدن زیر عتاب تھا میں بھی تو ہار گیا تھا مری شاعری کی کائنات پر رعشہ تھا وہ مسکرا رہی تھی غزل سٹپٹا رہی تھی
152 اجتہاد کا در وا ہوا روایت کا دیا بجھ گیا حقیقیت سےپردہ اٹھ گیا شاعر نہیں‘ میں تو بھکاری تھا خورشید ضعیف ہو گیا مہتاب زرد پڑ گیا گلاب مرجھا گیا طبلے کا پول کھل گیا جھنکار تھم گئی سمندر ندامت پی گئی کاسہ دو لخت ہوا جو جس کا تھا لے گیا ابلیس کرچیاں چننے لگا بھکاری مر گیا قبروں کو اپنا دیا مل گیا پھر شاعر جاگا
153 ذات میں کھو گیا خامشی چھا گئی ذات میں انقلاب آ گیا اندر کا لاوا ابلنے لگا حد سے گزرنے لگا ابلیس کے قہقہوں کا سلسلہ رک گیا اب ذات تھی شاعر تھا آنکھوں میں لہو کی بوندیں ہاتھ میں قلم کاغذ پر جگر تھا
154 ٹیکسالی کے شیشہ میں معصوم گڑیا سی سراپا جس کا کلیوں گلابوں نے بنا تھا شاید سراپے کا شیش محل چاند کی کرنوں سے تعمیر ہوا تھا زیست کے نشیب و فراز سے بے خبر کہکشانی رستوں کی تلاش میں مشک و عنبر کی جہاں باس ہو ہوا جس کی مگر اسے راس ہو پریوں کے شہزادے کا میسر ساتھ ہو گھر سے بھاگ نکلی آنکھوں میں اس کے روشی تھی ہر دل سے درد اٹھا مونس و غم گسار بن گیا
155 وہ کیا جانے اس نگر میں بھنورے بھی رہتے ہیں بھیڑیے تاک میں ہیں اک روز پھر اخبار میں خبر چھپی مطلع ہوں اک لڑکی کے اعضاء بکھر گیے تھے گندے گٹر میں پڑے تھے ہر ٹکڑا زخموں سے چور تھا اور خون بھی بہہ رہا تھا گندے پانی کی ٹھوکریں سہہ رہا تھا کہہ رہا تھا شاید میرا کوئی بچ رہا ہو یہ بکھرے اعضاء بڑی حفاظت سے کڑی ریاضت سے جوڑ کر‘ سی کر دارالان بھیج دیے ہیں
156 دارالامان سے رابطہ کریں خوبی قسمت دیکھیے ٹیکسالی کے باسی قدر شناس نکلے آج بھی وہ اعضاء ٹیکسالی کے شیشہ میں سجے ہیں کہ ان کا کوئی مستقبل نہیں ماضی کہیں کھو گیا ہے حال متعین نہیں ہوا کہ اب ان پر سب کا حق ہے
157 کالے سویرے مجھے ڈر لگتا ہے علم و فن کے کالے سویروں سے جن کے بطن سے ہوس کے ناگ جنم لیتے ہیں منصف کے من کی آواز کو جو ڈس لیتے ہیں سہاگن کے سہاگ کی پیاسی آتما سے ہوس کی آگ بجھاتے ہیں سچ کے موسموں کے چراغوں کی روشنی دھندلا دھندلا دیتے ہیں حقیقتوں کا ہم زاد گھبرا کر ویران اور اداس لفظوں کا آس سے
158 جو خود فریبی کے جھولے میں پڑی فرار کے رستے سوچ رہی ہے رستہ پوچھتا ہے ان زہریلے ناگوں کی آنکھوں کی مقناطیسیت اپنے حصار میں اسے بھی لے لیتی ہے یہ ناگ انا اور اساس کو بھی ڈستے ہیں یہ خونی منظر دیکھ کر کانپ جاتا ہوں کہ یہ اب ضمیر کو بھی ڈس لیں گے کالے سویروں کی زرد روشنی کے سائے جوں جوں دراز ہوتے ہیں زندگی کو اک اور کربلا سے گزرنا پڑتا ہے ان ناگوں کی زبانیں چمکتی‘ زہر میں بجھی تیز دھار تلواریں ہیں
159 گھاؤ کرنے میں یہ اپنا جواب نہیں رکھتیں زندگی خوف کے سائے میں کیوں کر پروان چڑھ سکتی ہے جہاں کوئی روٹی دینے والا نہیں پانی کی اک بوند نایاب ہے جہاں خودکشی حرام جینا جرم ہے جہاں نیلے آسمان کی چاند ستاروں سے لبریز چھت اپنی نہیں ہوا کا بھی گزر نہیں ہوتا بدلتے موسوں کا تصور شیخ چلی کا خواب ہے بوسیدگی اور غلاظت شخص کا مقدر ہے یا پھر
160 زہر بجھی یہ چمکتی تلواریں ہیں یقین مانو‘ یہ ہی کچھ ہے پھر میں یاس کی تاریکیوں کی تمنا کرتا ہوں جانت ہوں کہ یہ ناگ تاریکیوں سے نہیں گھبرائیں گے پھر بھی کاٹیں گے گدھ نوچیں گے کتے ہڈیوں پر ٹوٹیں گے ہر ہڈی پر گھمسان کا رن ہو گا اپنا حصہ لگڑ بگڑ بھی مانگیں گے فاسفورس کی بانٹ ًپر بھی تنازعے اٹھیں گے درد پھر بھی ہو گا کرب پھر بھی ہو گا
161 زہر پھر بھی پھیلے گا کانچ بدن پھر بھی نیلا ہو گا مایوسی کی سیاہ ذلفوں کے سائے میں بصارت کو بصیرت کو شائد پناہ مل جائے گی میں ناگوں کے پہرے نہ دیکھ سکوں گا لہو رستے پر نظر نہ جائے گی مگر کیا کروں سچ کی حسین تمنا مجھے مرنے نہیں مرنے نہیں دے گی اور میں اس سراب جیون میں نہ مروں گا نہ جی سکوں گا
162 کیچڑ کا کنول میلا سا چیتھڑا ‘آلودہ شاید حاجت سے بچا ہوگا ‘آدم زادے کا پراہین !عییب نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔؟ گلاب سے چہرے پر بلور ایسی‘ دیکھتی آنکھیں حیرت خوف غم غصہ اورافسوس جانے کیا کچھ تھا ان میں سماج کی بےحسی پہ ان ٹھہری مگر دیکھتی آنکھوں میں دو بوند‘ لہو سی صدیوں کے ظلم کی داستان لیے ہوئے تھیں اتنی حدت اتنی اتنی تپش کہ
163 پتھر بھی پگھل کر پانی ہو ترسی ترسی باہیں میرے بوبی کی باہیں ایسی ہی تھیں کہ جب وہ بچہ تھا تب محبتوں کا حصار تھا اور اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خفت ندامت کا حصار مرے گرد ہے لمحہ بہ لمحہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دائرہ تنگ ہو رہا ہے مجھے فنکار سے نسبت ہے فنکار‘ سب کا درد سینے کی وسعتوں میں سمو لیتا ہے ‘اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساکت وجامد مٹی کے بت کی طرح
164 خاموش تماشائی تھا اس نے پکارا آواز دی احتجاج بھی کیا کچھ نہ میں کر سکا ‘جیسے وہ آدم زادہ نہ ہو ہمالہ سے گرا کوئ پتھر ہو :اس نے کہا !فنکار۔۔۔۔۔۔۔“ مجھے اپنی باہوں میں سما لو \"ازل سے پیاسا ہوں گھبرا کر تھوڑا سا )پستیوں کی جانب) پیچھے سرکا کوئی مصیبت کوئی وبال تہمت یا بدنامی سر نہ آئے
165 چیخا “فنکار کا سینہ !کب سے تنگ ہوا ہے؟ میری باہیں غیر جنس کی باہیں ہیں؟ ان کا تم پر کوئی حق نہیں؟؟؟ وہ کہتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں سنتا رہا کیا جواب تھا میرے پاس !کاش میرے شعور کی آنکھیں بند ہو جاتیں یوں جیسے ممتا کی سماج کی آنکھیں بند تھیں سوچتا ہوں‘ مجرم کون ہے ‘گناہ کس نے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ ماں یا سماج نے وہ تو اپنے گھروں میں آسودہ سانسوں کے ساتھ گرم کافی پی رہے ہوں گے
166 یا میں نے جو شب کی بھیانک تنہائ میں ندامت سے سگریٹ کے دھوئیں میں تحلیل ہو رہا ہوں گٹرکے قریب پڑا‘ وہ کنول مجھ سے میرے ضمیر سے انصاف طلب کر رہا ہے کہ تم‘ خدائے عزوجل کی تخلق کا یہ حشر کرتے ہو مجھے حرامی کہتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ بتاؤ‘ حامی کون ہے؟ ضمیر کس کا مردہ ہے؟ مجرم کون ہے؟ میں یا تم؟؟؟ !میری بستی کے باسیو
167 کہ تمہیں عظیم مخلوق ہونے کا دعوی ہے کیا جواب دوں اسے؟ اس کا ننھا سا معصوم چہرا احتجاج سے لبریزآنکھیں پنکھڑی سے ہونٹوں پر تھرکتی بےصدا سسکیاں مجھے پاگل کر دیں گی پاگل ہاں پاگل
168 دو لقمے تعفن میں اٹی ‘اندھیاروں میں لیپٹی وہ بستی جہاں چھیتڑوں میں ملفوف زندہ لاشوں کے دل کی دھڑکنیں دیوار پر آویزاں کلاک کی ٹک ٹک کی آوازیں تھیں۔ ‘بھوک کی اہیں بےبسی کی سسکیوں میں مدغم ہو رہی تھیں۔ آس کا سایہ آس پاس نہ تھا۔ تھا کچھ تو قاتل خاموشی تھی۔ بھوک کا ناگ پھن پھیلائے بیٹھا تھا۔ مایوسیوں کی اس بستی سے رحم کا دیوتا شاید خفا تھا یا پھر وہ بھی تہی دست تہی دامن ہو گیا تھا۔ اک مسکراہٹ کے طلبگار یہ لاشے بے حس نہیں‘ بے بس تھے۔ پھر اک لاشہ بھوک ناگ جس کے قریب تر تھا۔۔۔۔۔۔ تڑپا اوررینگ کر روشنی کی شہراہ پر آ گیا۔ اس حرکت میں اس نے اپنی ساری توانائی صرف کر دی۔ ہر سو اجالے تھے لیکن وہ بھوک
169کے سیاہ کفن میں ملبوس تھا۔۔۔۔۔۔۔۔پھر بھی۔۔۔۔۔۔۔ ہاں پھر‘ بھی وہ زندہ تھا اور اجالوں کی شہراہ پر پڑا ہانپ رہا تھا۔ سانسیں بےترتیب تھیں۔ خوش پوش راہی شاید اسے دیکھ نہیں رہےتھے۔ جو دیکھ رہے تھے ناک پر رومال رکھ کر گزر رہے تھے۔ وہ سب اس کے ہم جنس تھے۔ کتنی آس لے کر وہ یہاں تک آیا تھا۔ ان دیکھتے کرب لمحوں کو کون جان پاتا۔ وہ اس بستی کا نہ تھا۔بھوک ناگ بولا :کہاں تک بھاگو گے‘ تمہیں میرا لقمہ بننا ہی ہو گا کہ خود میں بھوکا ہوں۔ پھر وہ تھوڑا آگے بڑھا۔ لاشہ چلایا :نہیں۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔ رکو۔۔۔۔۔ٹھہرو۔۔۔۔۔۔ روٹی ضرور آئے گی۔ سب بےکار۔۔۔۔۔روٹی کوئی نہیں دے گا۔۔۔۔۔۔ یہ پیٹ بھر کر بھی آنکھوں میں بھوک لیے پھرتے ہیں۔ ان میں سے کون دے گا روٹی۔ ان کے ہشاش بشاش چہروں پر نہ جاؤ۔ ان کے من کی بھوک کو دیکھو اور میرے صبر کا امتحان نہ لو۔ :لاشہ سٹپٹایا اور چلایا !اجالوں کے باسیو !علم و فن کے دعوےدارو
170 !سیاست میں شرافت کے مدعیو !جمہوریت کے علم بردارو !اسلحہ خرید کرنے والو !فلاحی اداروں کے نمبردارو ‘عالمی وڈیرو ‘کہاں ہو تم سب تمہارے وعدے اور دعوے کیا ہوئے؟ اپنی بھوک سے دو لقمے میرے لیے بچا لو۔ بھوک ناگ میرے قریب آ گیا ہے۔ دیکھو غور کرو‘ میں تمہارا ہم جنس ہوں ‘۔ دو لقمے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں فقط دو لقمے میری زندگی کے ضامن ہیں۔ ایف سولہ ہائیڈروجن بم مجھے نہیں چاہیے۔ میری ضرورت روٹی کے دو لقمے ہیں۔ اس دور کی یہ تمہاری بہت بڑی جیت ہو گی جو تاریخ میں تمہیں امر کر دے گی۔
171 آخری خبریں آنے تک کون انصاف تمہارا یہاں کیا کام جہاں میری ضرورت ہوتی ہے بن بلائے چلا آتا ہوں بن بلائے کی اوقات سمجھتے ہو جی ہاں اوقات عمل سے بنتی ہے تمہاری ماننے والے بھوکے مرے بھوک نے انہیں ہمیشہ سرخرو کیا ہے لوگ ہمیں سلام کرتے ہیں تمہیں نہیں‘ تمہاری شر کو سلام کہتے ہیں تاریخ میں دھنوان امر رہا ہے تاریخ پیٹ کے بندوں کا روزنامچہ ہے پیٹ ہی تو سب کچھ ہے
172 تب ہی تو بالا سطع پر رہتے ہو تہہ کے متعلق تم کیا جانو بڑے ڈھیٹ ہو بننا پڑتا ہے تمہیں تمہاری اوقات میں لانا پڑے گا کیا کر لو گے؟؟؟ تمہاری ہڈی پسلی ایک کر دوں گا یہ سب تو پہلے بھی میرے ساتھ ہو چکا ہے کوئی نئی ترکیب سوچو تمہیں جلا کر راکھ کر دوں گا عبرت کے لیے تمہاری راکھ گلیوں میں بکھیر دوں گا یہ تو اور بھی اچھا ہو گا وہ کیسے؟ میری راکھ کا ہر ذرا انقلاب بن ابھرے گا اہ مائی گاڈ‘ تو پھر میں کیا کروں؟
173 مجھے اپنے سینے سے لگا لو یہ مجھ سے نہیں ہو گا تو طے یہ ہوا تمہاری اور میری جنگ کا کوئی انت نہیں دیکھتا ہوں کہاں تک اذیت برداشت کرتے ہو چلو میں بھی دیکھتا ہوں اذیت میں کس حد تک جاتے ہو اس کے بعد گھمسان کی جنگ چھڑ گئی اور آخری خبریں آنے تک جنگ جاری تھی
174 یہ ہی فیصلہ ہوا تھا عہد شہاب میں بےحجاب بےکسی بھی عجب قیامت تھی۔ صبحاٹھتے مشقت اٹھاتےعوضوانے کو ہاتھ بڑھاتے بے نقط سنتے۔سانسیں اکھڑ جاتیں مہر بہ لب جیتے کہ سانسیں باقی تھیں۔ جینا تو تھا ہی لہو تو پینا تھا ہی۔ ادھر ایونوں میں آزادی کی صدائیں گونج رہی تھیں ادھر گلیوں میں خوف کا پہرا تھا کہ شاہ بہرا تھا۔ شاہ والے گلیوں میں بےچنت کرپانیں لیے پھرتے تھے۔ نقاہت ہاتھ باندھے شکم میںبھوک آنکھوں میں پیاس لیے کھڑی تھی ہاں مگر شاہ کی دیا کا بول بالا تھا۔ پنڈت کے ہونٹوں پر شانتی بغل میں درانتی ملاں بھی من میں تفریق کا بارود بھرے امن امن امن کیے جا رہا تھا۔ اب جب کہ پیری پہ شنی کا پہرا ہے بھوک کا گھاؤ گہرا ہے۔ جیب میں دمڑی نہیں امبڑی نہیں کہ وید حکیموں کے دامچکائے بڑے شفاخانے کے در پر لائے مایوسی کی کالک مٹائے آہیں سنے تشفی کی لوری سنائے۔ ہونٹوں پہ گلاب سجائے دل میں کرب اٹھائے اب کون ہے جو مرے مرنے سے مر جائے۔
175 بیٹے کو اپنی پتنی سے فرصت نہیں بیٹی کی ساس کپتی ہے بھائی کے گھر تیل نہ بتی ہے مری بہن کی کون سنتا ہے سیٹھ کے برتن دھو سیٹھنی کے کوسنے سن کر پیٹ بھرتی ہے۔ بیگم روتی ہے نہ ہنسی ہے سوچتی ہے کفن دفن کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے کہیں اس کے بھائیوں کی چمڑے نہ ادھڑ جائے وہ تو بہنوئی کی کھاتے تھے جب بھی آتے تھے کچھ ناکچھ لے جاتے تھے۔ جیتا ہوں تو مصیبت مرتا ہوں تو مصیبت۔ میں وہ ہی ہوں جواندھیروں میں رہ کر ایونوں کے دیپ جلاتا رہا دوا دور رہی مری گرہ میں تو اس اجڑے گلستان کا کرایہ نہیں۔ گھر میں روشنی نہیں ناسہی شاید کوئی فرشتہ مری لحد میں بوند بھر روشنی لے کر آ جائے عمر بھر خود کو نہ دیکھ سکاسوچ سکا واں سکوں ہو گا خود کو دیکھ سکوں گا سوچ سکوں گا خود کو دیکھنے سوچنے کی حسرت بر آئے گی۔ خود کو دیکھ کر سوچ کر ارضی خدائی سے مکتی قلبی خدا کی بےکراں عظمتوں کا اسرار کھل جائے گا وہ میرا تھا میرا ہےمجھے مل جائے گا۔ سردست کفن و دفن کے سامان کی فکر ہے۔ کفن ملے ناملے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ عمر بھر اس نے مری پردہ پوشی کی ہے اب بھی کرئے گا۔
176 ایونوں میں بستے سفیدی میں لپٹے شیطانوں کا نگر مرا نہیں مرا نہیں گورنگر مرا ہو گا مرا خدا کچھ لیتا نہیں دیتا ہے۔ لینا مری عادت دینا اس کی فطرت روٹی کی فکر کیسی کرائے کی چنتا میں کیوں کروں مری جان میں آ رہا ہوں تو مختصر سہی مرے لیے مری حسرتوں کے لیے سات زمینوں سے بڑھ کروسعت رکھتی ہے میں بھول میں رہا کہ یہاں کچھ بھی مرا نہ تھا زیست کے کچھ لمحوں کی دیری تھی تو ہی تو مری تھی یہ ہی فیصلہ ہوا تھا یہ ہی فیصلہ ہوا تھا یہ ہی فیصلہ ہوا تھا۔
177 حیرت تو یہ ہے موسم گل ابھی محو کلام تھا کہ مہتاب بادلوں میں جا چھپا اندھیرا چھا گیا پریت پرندہ ہوس کے جنگلوں میں کھو گیا اس کی بینائی کا دیا بجھ گیا کوئی ذات سے‘ کوئی حالات سے الجھ گیا کیا اپنا ہے‘ کیا بیگانہ‘ یاد میں نہ رہا بادل چھٹنے کو تھے کہ افق لہو اگلنے لگا دو بم ادھر دو ادھر گرے پھر تو ہر سو دھواں ہی دھواں تھا چہرے جب دھول میں اٹے تو
178 ظلم کا اندھیر مچ گیا پھر اک درویش مینار آگہی پر چڑھا کہنے لگا سنو سنو دامن سب سمو لیتا ہے اپنے دامن سے چہرے صاف کرو شاید کہ تم میں سے کوئی ابھی یتیم نہ ہوا ہو یتیمی کا ذوق لٹیا ڈبو دیتا ہے من کے موسم دبوچ لیتا ہے کون سنتا پھٹی پرانی آواز کو حیرت تو یہ ہے موسم گل کا سب کو انتظار ہے گرد سے اپنا دامن بھی بچاتا ہے اوروں سے کہے جاتا ہے چہرہ اپنا صاف کرو‘ چہرہ اپنا صاف کرو
179 میں نے دیکھا پانیوں پر میں اشک لکھنے چلا تھا دیدہءخوں دیکھ کر ہر بوند ہوا کے سفر بر نکل گئی منصف کے پاس گیا شاہ کی مجبوریوں میں وہ جکڑا ہوا تھا سوچا پانیوں کی بےمروتی کا فتوی ہی لے لیتا ہوں ملاں شاہ کے دستر خوان پر مدہوش پڑا ہوا تھا دیکھا‘ شیخ کا در کھلا ہوا ہے
180 سوچا شاید یہاں داد رسی کا کوئی سامان ہو جائے گا وہ بچارہ تو پریوں کے غول میں گھرا ہوا تھا کیا کرتا کدھر کو جاتا دل دروازہ کھلا خدا جو میرے قریب تھا بولا کتنے عجیب ہو تم بھی کیا میں کافی نہیں جو ہوس کے اسیروں کے پاس جاتے ہو میرے پاس آؤ ادھر ادھر نہ جاؤ میری آغوش میں تمہارے اشکوں کو پناہ ملے گی
181 ہر بوند رشک لعل فردوس بریں ہو گی اک قظرہ مری آنکھ سے ٹپکا میں نے دیکھا شاہ اور شاہ والوں کی گردن میں بے نصیبی کی زنجیر پڑی ہوئی تھی
182 کس منہ سے چلم بھرتے ہات‘ اٹھ نہیں سکتے ہونٹوں پر فقیہ عصر نے چپ رکھ دی ہے کتنا عظیم تھا وہ شخص گلیوں میں رسولوں کے لفظ بانٹتا رہا ان بولتے لفظوں کو‘ ہم سن نہ سکے آنکھوں سے‘ چن نہ سکے ہمارے کانوں میں‘ جبر کی پوریں رہیں آنکھوں میں خوف نے پتھر رکھ دیے ہم جانتے ہیں‘ وہ سچا تھا قول کا پکا تھا مرنا تو ہے‘ ہمیں یاد نہ رہا ہم جانتے ہیں اس نے جو کیا
183 ہمارے لیے کیا جیا تو ہمارے لیے جیا کتنا عجیب تھا زندہ لاشوں کا دم بھرتا رہا مصلوب ہوا ہم دیکھتے رہے نیزے چڑھا ہم دیکھتے رہے مرا جلا راکھ اڑی ہم دیکھتے رہے اس کے کہے پر دو گام تو چلا ہوتا کس منہ سے اب اس کی راہ دیکھتے ہیں ہم خاموش تماشائی مظلومیت کا فقط ڈھونگ رچاتے ہیں بے جان جیون کے دامن میں غیرت کہاں جو رن میں اترے یا پھر پس لب اس کی مدح ہی کر سکے
184 چلو دنیا چاری ہی سہی آؤ اندرون لب دعا کریں ان مول سی مدح کہیں
185 حیات کے برزخ میں تلاش معنویت کے سب لمحے صدیاں ڈکار گئیں چیتھڑوں میں ملبوس معنویت کا سفر اس کنارے کو چھو نہ سکا تاسف کے دو آنسو کاسہءمحرومی کا مقدر نہ بن سکے کیا ہو پاتا کہ شب کشف دو رانوں کی مشقت میں کٹ گئی صبح دھیان نان نارسا کی نذر ہوئی شاعر کا کہا بےحواسی کا ہم نوا ہوا دفتر رفتہ شاہ کے گیت گاتا رہا وسیبی حکائتیں بےوقار ہوئیں
186 قرطاس فکر پہ نہ چڑھ سکیں گویا روایت کا جنازہ اٹھ گیا ضمیر بھی چاندی میں تل گیا مجذوب کے خواب میں گرہ پڑی مکیش کے نغموں سے طبلہ پھسل گیا درویش کے حواس بیدار نقطے ترقی کا ڈرم نگل گیا نہ مشرق رہا نہ مغرب اپنا بنا آخر کب تک یتیم جیون حیات کے برزخ میں شناخت کے لیے بھٹکتا رہے
187 سورج دوزخی ہو گیا تھا گدھ خلیج کے بیماروں کی سانسیں گن رہے ہیں لاشوں کو کفن دفن غسل کی ضرورت نہیں ہو گی اگست ١٩٤٥کو ١٦ سورج دوزخی ہو گیا تھا گنگا سے اٹھتے بخارات دعا کا اٹھتے ہات گلاب کی مہک مٹی سے رشتے کب پوتر رہے ہیں درگاوتی کی عصمت مرنے کے بعد اپنوں کے ہات لٹ گئی تھی ‘ہم تو
188 حنوط شدہ ممیاں ہیں رگوں میں لہو نہیں کیمیکل دوڑتا ہے کہ آکسیجن جلتی نہیں جلنے میں معاون ہے ڈوبتی سانسوں کو مسیحا کی ضرورت نہیں گوشت گدھ کھائیں گے ‘ہڈیاں فاسفورس کی کانیں ہیں یہودی لابی کے گلے کھلے ہیں بٹنوں کی سخت ضرورت ہے
189 فیکٹری کا دھواں اس نے کہا یہ سب کس کے لیے لکھتے ہو میں نے کہا تمہارے لیے بولا مگر مجھے تم سے گھن آتی ہے میلے میلے لفظوں میلے میلے جذبوں سے روشنیوں کی بات کرو حسن کی کہو حسین آنکھوں سے ٹپکتی شاب کی بات کرو کانچ سے بدنوں سے ٹپکتے رومان کی بات کرو بہاروں میں مچلتے شباب کی بات کرو
190 روٹی ملے گی‘ شہرت ملے گی بھوک اور افلاس کیا رکھا ہے چیٹھڑوں کی دنیا میں سوچتا ہوں شہرت لے لوں روٹی لے لوں کئی روز کی بھوک ہے لباس بھی الجھا الجھا ہے سسکتے بلکتے جذبوں کو بےلباسی کی دنیا میں رہنے دوں پھر سوچ کے افق سے اک شہاب ثاقب ٹوٹا زہریلی سوچ کا چہرا فیکٹری کی چمنی سے اٹھتے دھویں میں مدغم ہو گیا
191 مطلع رہیں مسز ریحانہ کوثر بلا دکھ تحریر کیا جاتا ہے آپ کی خدمات کی اب یہاں ضرورت نہیں رہی آپ کی بریزئر کا سائز بڑھ گیا ہے آنکھوں کے گرد حلقے بھی ہیں بالوں میں چاندی آ گئی ہے رخسار پچک گئے ہیں روزن نشاط کی فراخی سے پرفومنس گھٹ گئی ہے سابقہ کارگزاری کے پیش نظر کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے آپ کی بیٹی ظل ہما کو آپ کی سیٹ پر
192 آپ کے ہی پے سکیل پر مع مروجہ الاؤنسز اکتیس مئی کلوزنگ ٹائم تک تعینات کیا جا سکتا ہے آپ کو ہدایت کی جاتی ہے تاریخ مقررہ کے اندر زیر دستخطی کو مطلع کریں اپنے واجبات کی وصولی کے لیے زیر دستخطی کے حاضر ہونے کی ضرورت نہیں یہ خدمت اب آفس سپرٹنڈنٹ انجام دیتا ہے فائلوں کی سیاہی سپیدی کا وہ ہی تو مالک ہے مطلع رہیں ضروری نوت
193 آپ اپنی کنگی اور نیل پالش ہمارے میز پر کل کی امید میں بھول گئی ہیں یہ چیزیں جن کی آپ کو اشد ضرورت ہو گی مس ظل ہما کو آفس ٹائم کے بعد بھیج کر منگوا سکتی ہیں کہ ان کی اب یاں ضرورت نہیں رہی مطلع رہیں
194 امید ہی تو زندگی ہے زکرا بولے جا رہی تھی بولے جا رہی تھی شاید آتی صدیوں کے غم مٹا رہی تھی خوب گرجی خوب برسی اس کے گرجنے میں دھواں برسنے میں مسلا دھار تھی رانی توپ کے گرجنے سے حمل گر جاتے تھے برسنے سے بستیاں زمین بوس ہوتی تھیں اس کے برسنے سے سکون کے شہر آگ پکڑتے تھے گرجنے سے حواس بدحواس ہوتے تھے
195 کس سے گلہ کرتا جھورا مردود مر چکا تھا تھیلا مردود آج بھی رشوت ڈکارتا ہے وہ چپ تھا مسلسل چپ تھا منہ میں زبان رکھتا تھا پھر بھی چپ تھا چپ میں شاید اسے سکھ تھا جو بھی سہی یہ سوال نوشتہءدیوار بنا تھا وہ چپ تھا تو کیوں چپ تھا ہر زبان پر یہ ہی سوال تھا وہ بزدل تھا یا صبر میں باکمال تھا کچھ اسے زن مرید کہتے تھے
196 کسی کے خیال میں مرد کی انا کا وہ کھلا زوال تھا وہ تو خیر زیر عتاب تھا ہی اس کے پچھلے بھی کوسنوں کے دفتر چڑھ رہے تھے اس سے کوئی کیوں پوچھتا ہر دوسرے امریش پوری سے ڈائیلاگ سننے کو ملتے تھے نمرود وقت بھی کانوں پر پہرے نہیں رکھ سکتا پہلے ریڈیو ہی تو تھا ٹی وی تو کل کی دین ہے کان سنتے تھے تصور امیج بناتا تھا آخر چپ تھا تو کیوں چپ تھا
197 اک روز میں نے پوچھ ہی لیا میرا کہا اس کے قہقہوں میں اڑنے لگا میں نے سوچا کہنا کچھ تھا شاید کہہ کچھ اور گیا ہوں بھول میں کسی سردار کا لطیفہ کہہ گیا ہوں بھلکڑ ہوں یہ قول زریں مری زوجہ کا ہے زوجہ کے کہے کو غلط کہوں کہوں تو کس بل پر اگلے سے ناسہی اس جہان سے جاؤں گا مہر بہ لب رہا کہ دیواروں کو بھی کان ہوتے ہیں مجھے کیا پڑی غیروں کی اپنے سر لوں
198 میں نے بھی چپ میں عافیت جانی ہم کیؤں پرائی آگ میں کودیں مرے لیے خالہ کی لگائی ہی کافی ہے خود چل بسی میں بھی چل بسوں سامان کر گئی ہے پھر وہ دفعتا چپ ہو گیا مری طرف بےبس بے کس نظروں سے دیکھنے لگا چند لمحے خامشی رہی جاہل جانتے ہو بولنے میں کتنے اعضا خرچ ہوتے ہیں حیرت ہوئی‘ بھلا یہ کیا جواب ہوا غصہ میں بولنے سے چودہ اعضا کشٹ اٹھاتے ہیں مرا کیا ہے ادھر سے سنتا ہوں ادھر سے نکال دیتا ہوں
199 چہرے کے بدلتے رنگوں کا اپنا ہی سواد ہوتا ہے ہاں سٹپٹانے میں کھونے کے آثار ہوتے ہیں گھورنے بسورنے میں کہکشانی اطوار ہوتے ہیں شخص پڑھو کہ حیات کے تم پر پوشیدہ اطوار کھلیں ہاں غصہ میں دماغ کی کوئی نس پھٹ سکتی ہے خیر یہ وقت خیر نہیں آئے گا دماغ ہوتا تو صبر کا جہاں آباد کرتی دل کا دورہ بھی بعید از قیاس نہیں اس امید پر ہی تو جی رہا ہوں کبھی تو غصہ کے افق سے خوشی کا چاند مسکرائے گا پھر مستی میں آ کر گنگنائے گا
200 آ گئی بہار گلوں کا رنگ اور بھی نکھر گیا پیاسی آتمائیں آ رہی ہیں روپ بدل بدل کے میں پڑھا لکھا سہی اپنی اوقات میں ہوں تو مزدور زوجہ گزیدہ ہوں بھاشا فلسفے کی میں کیا جانوں بولا :جاؤ امید پر زندہ رہو امید پر میں زندہ ہوں امید ہی تو زندگی ہے
Search
Read the Text Version
- 1
- 2
- 3
- 4
- 5
- 6
- 7
- 8
- 9
- 10
- 11
- 12
- 13
- 14
- 15
- 16
- 17
- 18
- 19
- 20
- 21
- 22
- 23
- 24
- 25
- 26
- 27
- 28
- 29
- 30
- 31
- 32
- 33
- 34
- 35
- 36
- 37
- 38
- 39
- 40
- 41
- 42
- 43
- 44
- 45
- 46
- 47
- 48
- 49
- 50
- 51
- 52
- 53
- 54
- 55
- 56
- 57
- 58
- 59
- 60
- 61
- 62
- 63
- 64
- 65
- 66
- 67
- 68
- 69
- 70
- 71
- 72
- 73
- 74
- 75
- 76
- 77
- 78
- 79
- 80
- 81
- 82
- 83
- 84
- 85
- 86
- 87
- 88
- 89
- 90
- 91
- 92
- 93
- 94
- 95
- 96
- 97
- 98
- 99
- 100
- 101
- 102
- 103
- 104
- 105
- 106
- 107
- 108
- 109
- 110
- 111
- 112
- 113
- 114
- 115
- 116
- 117
- 118
- 119
- 120
- 121
- 122
- 123
- 124
- 125
- 126
- 127
- 128
- 129
- 130
- 131
- 132
- 133
- 134
- 135
- 136
- 137
- 138
- 139
- 140
- 141
- 142
- 143
- 144
- 145
- 146
- 147
- 148
- 149
- 150
- 151
- 152
- 153
- 154
- 155
- 156
- 157
- 158
- 159
- 160
- 161
- 162
- 163
- 164
- 165
- 166
- 167
- 168
- 169
- 170
- 171
- 172
- 173
- 174
- 175
- 176
- 177
- 178
- 179
- 180
- 181
- 182
- 183
- 184
- 185
- 186
- 187
- 188
- 189
- 190
- 191
- 192
- 193
- 194
- 195
- 196
- 197
- 198
- 199
- 200
- 201
- 202
- 203
- 204
- 205
- 206
- 207
- 208
- 209
- 210
- 211
- 212
- 213
- 214
- 215
- 216
- 217
- 218
- 219
- 220
- 221
- 222
- 223
- 224
- 225
- 226
- 227
- 228
- 229
- 230
- 231
- 232
- 233
- 234
- 235
- 236
- 237
- 238
- 239
- 240
- 241
- 242
- 243
- 244
- 245
- 246
- 247
- 248
- 249
- 250
- 251
- 252
- 253
- 254
- 255
- 256
- 257
- 258
- 259
- 260
- 261
- 262
- 263
- 264
- 265
- 266
- 267
- 268
- 269
- 270
- 271
- 272
- 273
- 274
- 275
- 276
- 277
- 278
- 279
- 280
- 281
- 282
- 283
- 284
- 285
- 286
- 287
- 288
- 289
- 290
- 291
- 292
- 293
- 294
- 295
- 296
- 297
- 298
- 299
- 300
- 301
- 302
- 303
- 304
- 305
- 306
- 307
- 308
- 309
- 310
- 311
- 312
- 313
- 314
- 315
- 316
- 317
- 318
- 319
- 320
- 321
- 322
- 323
- 324
- 325
- 326
- 327
- 328
- 329
- 330
- 331
- 332
- 333
- 334
- 335
- 336
- 337
- 338
- 339
- 340
- 341
- 342
- 343
- 344
- 345
- 346
- 347
- 348
- 349
- 350
- 351
- 352
- 353
- 354
- 355
- 356
- 357
- 358
- 359
- 360
- 361
- 362
- 363
- 364
- 365
- 366
- 367
- 368
- 369
- 370
- 371
- 372
- 373
- 374
- 375
- 376
- 377
- 378
- 379
- 380
- 381
- 382