Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore ایک سو ایک لوکانے منسانے شغلانے اور منظومے

ایک سو ایک لوکانے منسانے شغلانے اور منظومے

Published by maqsood5, 2017-05-20 12:02:13

Description: ایک سو ایک
لوکانے منسانے شغلانے اور منظومے
مقصود حسنی
ابو زر برقی کتب خانہ

Search

Read the Text Version

‫‪301‬‬ ‫میں ابھی تک قسمت کو کوس رہا تھا‬ ‫ایک صاحب نے بلاتکلف کہا‬ ‫پاگل اصل کاغذ دیتے نہیں‬ ‫کبھی بابو کو کبھی قسمت کو کوستے ہو‬ ‫کس کاغذ کی آپ بات کرتے ہیں‬ ‫میں نے پوچھ ہی لیا‬ ‫بڑا نوٹ جس پر بانی کی تصویر چھپی ہو‬ ‫فائل میں لگاؤ پھر بےچنت ہو جاؤ‬ ‫کام ہو جائے گا‬ ‫سوچ میں پڑ گیا‬ ‫یہ بگلا بھگت کتنے روپ دھارتا ہے‬ ‫لو دور کیا جانا ہے‬ ‫ہماری گلی کے موڑ پر ہی وہ رہتا ہے‬ ‫کچہری میں منصف کے روبرو‬ ‫کلام پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہے‬ ‫جو کہوں گا سچ کہوں گا‬

‫‪302‬‬ ‫سچ کے سوا کچھ نہ کہوں گا‬ ‫ان دیکھے سچ کی کھاتا ہے‬ ‫کیا کروں‬ ‫اس کے کس روپ پر یقین کروں‬ ‫مرا ہم جنس بن کر دغا کرتا ہے‬ ‫ایک اور اندھیر دیکھیے‬ ‫انگلی مری اوروں کی جانب تو اٹھ رہی ہے‬ ‫جیسے ہل پر نہایا ہوا ہوں‬ ‫کرتوت یہ ہے کہ‬ ‫زوج کے حضور جب جاتا ہوں‬ ‫میں اس سا وہ مجھ سا ہو جاتا ہے‬ ‫سچ مر جاتا ہے‬ ‫یا پھر سات سمندر پار کر جاتا ہے‬

‫‪303‬‬ ‫یہ حرف‬ ‫کل طلوع سے پہلے‬ ‫کان جزو جسد شرق تھے‬ ‫ودوا کا نالہ سنتے نہ تھے‬ ‫ہاتھ آہنی ضرور تھے‬ ‫ریکھاؤں میں مگر‬ ‫مغرب کے مانجے کا گوبر بھرا تھا‬ ‫خورشید اہل شرق کا سہی‬ ‫شرق کی صبح شام‬ ‫شرق کی نہیں‬ ‫منہ اپنا زبان اپنی‬ ‫بیان اپنا نہیں‬ ‫چٹے مندر کے دروازے پر‬ ‫یک ٹانگ کھڑا‬ ‫صبح شام‬

‫‪304‬‬ ‫ہر آتے دم کے ساتھ‬ ‫شری جھاڑی مہاراج کی جئے ہو‬ ‫شری جھاڑی مہاراج کی جئے ہو‬ ‫بکے جاتا ہے‬ ‫فاختہ کے گلو میں‬ ‫نامہء منتی باندھ دیا‬ ‫کبوتر جھاڑی مہاراج کی قید میں ہے‬ ‫بازگزشت کٹی آواز‬ ‫تاریخ کا حرف کب بنتی ہے‬ ‫بےدر گھرانے‬ ‫کہرے کی زد میں رہتے ہیں‬ ‫‘جو ہیں‬ ‫نفرتوں کے بارود میں بھی‬ ‫جشن آزادی مناتے ہیں‬ ‫جو نہیں ہیں‬ ‫جھاڑی مہاراج کی خصیہ سہلائی کا‬

‫‪305‬‬ ‫شغل باکمال رکھتے ہیں‬ ‫یہ حرف‬ ‫مورکھ کی کوئی لکھت نہیں ہیں‬ ‫پھر بھی کل کو‬ ‫شہید وفا ہوں گے‬ ‫شاہد جفا ہوں گے‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫منتی‘ منت سے‬ ‫مورکھ سے مراد مورخ‬

‫‪306‬‬ ‫عہد کا در وا ہوا‬ ‫عہد کا در وا ہوا‬ ‫دور افق میں‬ ‫کم زور کی مقدر ریکھا‬ ‫لہو بن کر پھیل گئی تھی‬ ‫آس کا سورج ڈوب گیا تھا‬ ‫یاس کا سورج‬ ‫سوا نیزے پر آ چکا تھا‬ ‫شانتی کے شبد کھا چکا تھا‬ ‫پھر بھی‬ ‫ماتھے پر چٹا گھر کا ٹکا سجائے‬ ‫شانتی کی ڈگڈگی بجائے جا رہا تھا‬ ‫لومڑ گیڈر جشن سیری منا رہے تھے‬ ‫لگڑبگڑ اپنا حصہ کھا رہے تھے‬ ‫گریب ہڈیوں کا گودا‬

‫‪307‬‬ ‫رینگتوں کے کام آ رہا تھا‬ ‫بٹنوں کی دوکان سج گئی تھی‬ ‫گوریوں کی چڈی ہو کہ پستانوں کے کھوپے‬ ‫ان ہی سے تو بندھے ہوئے تھے‬ ‫آگہی کا در وا ہوا تو‬ ‫گریب گلیوں میں‬ ‫بھوک کی دھند پھیل گئی‬ ‫محل جگمگا اٹھے‬ ‫ہواؤں میں‬ ‫کومل ہونٹوں پر‬ ‫شراب کی بو مچل گئی‬ ‫شاہ اور اہل شاہ‬ ‫پریوں کی کمر میں ہاتھ سجائے‬ ‫تھرک رہے تھے‬ ‫جھوم رہے تھے‬ ‫اپریل ‪١٠- ١٩٧٨‬‬

‫‪308‬‬ ‫مشینی دیو کے خواب‬ ‫وہ‬ ‫اس کا باپ‬ ‫دادا پردادا بھی‬ ‫اسی پیشہ سے وابستہ تھے‬ ‫شکار کی ٹانگوں پر‬ ‫نام کے ساجی‬ ‫دم پر چمچے‬ ‫گردن پر کڑچھے‬ ‫لگڑبگڑ کے تیور لے کر‬ ‫پل پڑتے تھے‬ ‫اب کہ نخچیر‬ ‫کئی چیتوں بگھیاّڑوں کے‬ ‫دم خم دیکھ چکا تھا‬ ‫تب ہی تو‬

‫‪309‬‬ ‫گرفت میں آ کر بھی‬ ‫گردن کے جھٹکے جاری تھے‬ ‫کرتب ان کا شیوا‬ ‫جھٹکے اس کا حق‬ ‫جگ کے دانے سوچ رہے تھے‬ ‫بھوکے پیاسے صید کا ماس‬ ‫صیاد کے پیٹ کی آنتیں‬ ‫جسم کا پانی‬ ‫کھا پی کر‬ ‫مشینی دیو کے خواب‬ ‫چکنا چور نہ کر دے‬

‫‪310‬‬ ‫اک مفتا سوال‬ ‫ہزاروں لاکھوں کی حیثیت اپنی جگہ‬ ‫دس روپیے کی حیثیت اپنی جگہ‬ ‫رسک میں ایک روپیے کا ضیاع‬ ‫بھری تجوری کا زوال ہے‬ ‫جیت گیے تو چڑھی قسمت‬ ‫ہار گیے تو!‬ ‫تجوری کا یہ سوال ہے‬ ‫جیتنے والا سکون کی نیند لوٹے گا‬ ‫ہار عمر بھر کا ملال ہے‬ ‫کچھ دے کر پایا تو کیا پایا‬ ‫اس جہاں میں کہاں ملتا ایسا دلال ہے‬ ‫سوچ کے دائرہ وسعت لیتے گئے کہ‬ ‫پھر کان میں گونجی یہ آواز‬ ‫میاں صاحب دس روپیے کا سوال ہے‬

‫‪311‬‬ ‫پھر ہوش آیا‬ ‫یہاں تو فقط لینا ہے دینے کا کب ذکر ہے‬ ‫میاں صاحب کی باچھیں کھل گیئں‬ ‫خوش ہو کر بولے‬ ‫پوچھ لو‘ ہو سکتا ہے بتا ہی دوں‬ ‫یہ بعید از قیاس نہیں‬ ‫فقیر کا سوچ حیرت کی نذر ہوا‬ ‫کچھ بھی نہ سمجھ سکا‬ ‫یہ تو خود اک مفتا سوال تھا‬ ‫بڑبڑاتا ہوا واں سے چل دیا‬ ‫میاں صاحب دکھ کے سمندر میں غرق ہوئے‬ ‫کم بخت دس کا چونا لگا گیا‬

‫‪312‬‬ ‫سوال کا جواب‬ ‫بےشک یہ ان ہونی تھی‬ ‫حیرت ہے کہ ہو گئی‬ ‫کمیوں کی بہو بیٹیاں‬ ‫لمبٹروں کے گلپ کرتی ہیں‬ ‫حاجت بھی بر لاتی‬ ‫اترن میں جیتی اترن میں مرتی ہیں‬ ‫کس سے کہیں کیا کہیں‬ ‫سر تاج ان کے‬ ‫ڈیرے کی چلم بھرتے ہیں‬ ‫اک مراسی اور لمبڑ کا کیا جوڑ‬ ‫پھر بھی سلام دعا لڑ گئی‬ ‫تعلق کی گڈی چڑھ گئی‬ ‫زمین پر لوگ آسمان پر فرشتے‬ ‫دیکھتے رہ گئے‬

‫‪313‬‬ ‫اٹھنا اکٹھا بیٹھنا اکٹھا‬ ‫کھانا اکٹھا پینا اکٹھا‬ ‫آنا اکٹھا جانا اکٹھا‬ ‫صلاح اکٹھی مشورہ اکٹھا‬ ‫اک روز مراسی کے ذہن میں آیا‬ ‫اتنی محبت اتنا پیار ہے‬ ‫کیوں نہ یہ نسلوں تک چلے‬ ‫آتے وقتوں میں‬ ‫چھوٹے بڑے کا فرق مٹ جائے‬ ‫موقع پاتے ہی مراسی نے لمبڑ سے کہا‬ ‫چودھری زندگی کیا خوب گزر رہی ہے‬ ‫محبت شاید ہی ایسی رہی ہو گی‬ ‫کیوں نہ ہم اس کو دوام بحشیں‬ ‫چودھری مسکرایا اور کہا‬ ‫کہو پھر ایسا کیا کریں‬ ‫لوہا گرم دیکھ کر مراسی نے چوٹ لگائی‬

‫‪314‬‬ ‫بہن تمہاری جوان ہے‬ ‫اب اس کی شادی ہو جانی چاہیے‬ ‫چودھری خوش ہوا کہ یار ہے‬ ‫شاید کسی چودھری کا پیغام لایا ہے‬ ‫میں خوب صورت خوب سیرت ہوں‬ ‫بڑی بات یہ کہ تمہارا چھوٹا ویر ہوں‬ ‫اسے سکھی رکھوں گا‬ ‫جب تک زندہ ہوں‬ ‫پیر تمہارے دھو کر پیوں گا‬ ‫چودھری ہکا بکا رہ گیا‬ ‫پھر ہتھے سے اکھڑ گیا‬ ‫ذات کا مراسی اور یہ جرآت‬ ‫گردن سے پکڑا اور خوب وجایا‬ ‫نیچے گرا مراسی پاؤں پر کھڑا ہوا‬ ‫یار مار تو تم نے خواب لیا‬ ‫مرے سوال کا جواب اپنی جگہ رہا‬

‫‪315‬‬ ‫چودھری نے چار گولے بلائے اور کہا‬ ‫اس حرامی کی طبعیت صاف کرو‬ ‫ذات کی کوڑ کرلی چھتیروں سے جپھے‬ ‫سلام دعا کیا ہوئی کہ اوقات ہی بھول گیا‬ ‫خوب پٹا بےہوش ہو گیا‬ ‫جب ہوش میں آیا تو بولا‬ ‫چودھری یار پیار میں اتنی مار‬ ‫کوئی بات نہیں‘ چلتا ہے‬ ‫دوستی میں تمہیں اتنا تو حق ہے‬ ‫کسی کی بھڑاس مجھ پر نکالو‬ ‫ہاں تو مرے سوال کا جواب تم نے دیا نہیں‬ ‫سب نے پوچھا‬ ‫چودھری یہ شوھدا ڈوم کیا کہتا ہے‬ ‫کیا جواب دیتا‬ ‫ہاتھوں کی دی گھانٹیں‬ ‫دانتوں سے کھول رہا تھا‬

‫‪316‬‬ ‫تنا سر جھکا کر گھر کو چل دیا‬ ‫چودھری کب کسی کے ہوئے ہیں‬ ‫سب انسان ایک سے ہیں‘ یہ اسلام کہتا ہے‬ ‫اسلام ابھی حلق سے اترا نہیں‬ ‫حلق سے جب اترے گا‬ ‫سیاہ حبشی غلام‘ صاحب جاہ کا آقا ہو گا‬ ‫بامی متکبر کٹیرے میں کھڑا ہو گا‬

‫‪317‬‬ ‫یہ ہی دنیا ہے‬ ‫کاروبار کے لیے فجے سے‬ ‫خیرے نے قرض لیا‬ ‫کاروبار تو ہو نہ سکا‬ ‫ہاں سب کچھ معشوقہ کی بلی چڑھ گیا‬ ‫کنگلا پھانگ ہوا تو‬ ‫کسی اور کی ڈولی وہ چڑھ گئی‬ ‫یہ کوئی نئی بات نہ تھی‬ ‫ایسا ہوتا آیا ہے‬ ‫قرض کی واپسی کے وعدے کا دن تو آنا ہی تھا‬ ‫آ گیا اور آ کر گزر گیا‬ ‫پھر کئی دن آئے اور گزر گئے‬ ‫وعدوں کی بھرمار ہوئی‬ ‫وعدوں کی بھی اک حد ہوتی ہے‬ ‫انتظار کی گھڑیاں مشکل سہی گزر جاتی ہیں‬

‫‪318‬‬ ‫فجا کب تک انتظار کرتا‬ ‫کچے وعدوں پر اعتبار کرتا‬ ‫فجا خیرے کے تائے کو درمیان میں لایا‬ ‫خیرا اپنی بدحالی کا رونا لے کر بیٹھ گیا‬ ‫اس نے کچھ قرضہ معاف کروا دیا‬ ‫باقی کے لیے وعدہ لے لیا‬ ‫وعدے کا وہ دن بھی آیا اور گزر گیا‬ ‫رقم آئی نہ خیرا آیا‬ ‫نیا وعدہ ہی آ جاتا کہ فجے کو تسلی ہوتی‬ ‫خیرے کو قرضہ یاد ہے‬ ‫ٹال مٹول کا پھر سے سلسلہ شروع ہوا‬ ‫ناچار فجا اک اور معزز کو‬ ‫اس کے دروازے پر لے آیا‬ ‫خیرے نے پہلے سے بڑھ کر‬ ‫اپنی غربت کا ڈرامہ رچایا‬ ‫اس نے بھی رقم میں کچھ چھوٹ دلوا دی‬

‫‪319‬‬ ‫جواب میں وعدہ لے لیا‬ ‫وہ صاحب بھی خیرے کو تاکید کرتے‬ ‫رخصت ہوئے‬ ‫امید بندھی اب کہ وصولی ہو گی‬ ‫‘مگر کہاں‬ ‫پھر سے آج کل پر بات پڑنے لگی‬ ‫فجا اس ٹال مٹول سے اکتا گیا‬ ‫جو نہیں چاہتا تھا کرنا پڑ گیا‬ ‫خیرے کو اس نے لمبڑ کے ڈیرے پر بلا لیا‬ ‫وہاں آ کر وہ لمبڑ کے پاؤں لگ گیا‬ ‫یوں گڑگڑایا جیسے عرصہ سے فاقہ میں ہو‬ ‫لمبڑ کو بھی ترس آ گیا‬ ‫کچھ رعایت اس نے بھی کروا دی‬ ‫لمبڑ نے تاکیدا کہا وعدہ پر رقم دے دینا‬ ‫ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا‬ ‫حضور قسطوں پر سہی‬

‫‪320‬‬ ‫رقم واپس ہو رہی ہے‬ ‫بات غلط نہ تھی‬ ‫ایک تہائی رقم دم توڑ چکی تھی‬ ‫اس کی اس بات پر سب ہنس پڑے‬ ‫اس پر وہ کہنے لگا‬ ‫ہاسے کیوں نہ آئیں رقمیں جو تر رہی ہیں‬ ‫بات اس کی سن کر سب کھل کھلا پڑے‬ ‫اپنے اپنے گھر کو چل دیے‬ ‫فجے کا منہ لٹک گیا‬ ‫صبر شکر کے سوا اب کوئی چارہ نہ تھا‬ ‫نیکاں خاوند کے بستر پر بےچنت سوتی ہے‬ ‫خیرا بھی کوئی تھا‘ اسے یاد نہیں‬ ‫خیرا نیکاں کی بےوفائی پر دن رات روتا ہے‬ ‫فجے کو دی رقم کی جدائی کھا گئی ہے‬ ‫یہ ہی دنیا ہے‬ ‫کہیں ہریالی تو کہیں ویرانی ہے‬

‫‪321‬‬ ‫مالک کی مرضی ہے‬ ‫شاید ہی کوئی‬ ‫عیدے کے دست بد سے بچا ہو گا‬ ‫ہر گھر میں اس کی کہانی تھی‬ ‫ہر ڈیرے کا موضع کلام تھا‬ ‫کئی بار جیل گیا‬ ‫وہاں سے اور نکھر کے آیا‬ ‫باپ اس کا شریف اور مشقتی تھا‬ ‫ماں بھی اچھی تھی پنج وقتن تھی‬ ‫چودھری کا بھی ناک میں دم تھا‬ ‫کچھ دوست کھوکھے پر بیٹھے‬ ‫اسی کا ذکر بد کر رہے تھے‬ ‫اچانک انو اک خبر لایا‬ ‫عیدا اللہ کو پیارا ہو گیا‬ ‫خبر ہی ایسی تھی کہ سب حیران ہو گئے‬

‫‪322‬‬ ‫پھر سب نے کلمہءشکر ادا کیا‬ ‫چنگا بھلا تو تھا‬ ‫ایک دم سے کیا ہوا کہ حق ہو گیا‬ ‫او یار تم غلط سمجھے ہو‬ ‫انو نے زور کا قہقہ لگایا‬ ‫مرا نہیں زندہ ہے‬ ‫پتا نہیں اسے کیا ہوا‬ ‫مکے مدینے ٹر گیا‬ ‫واہ واہ کی صدائیں فلک بوس ہوئیں‬ ‫مالک کی مرضی ہے‬ ‫مٹی کو سونا سونے کو مٹی کر دے‬ ‫کارج کی بات میں دم تھا‬ ‫سب نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی‬ ‫سینے میں کہیں خیر کی کرن باقی ہو‬ ‫تو ہی بگڑی سنورتی ہے‬ ‫ورنہ پنج وقتے پٹری سے اتر جاتے ہیں‬

‫‪323‬‬ ‫دینے کی بات بھی غلط نہ تھی‬ ‫جو بھی سہی‬ ‫چائے کی پیالی میں آج‬ ‫خوشیوں کا اک جہاں آباد تھا‬ ‫ہر دل کھلا گلاب تھا‬ ‫خدا نے جانے کس کی سن لی‬ ‫ٹل گیا‬ ‫علاقے میں اترا جو عذاب تھا‬

‫‪324‬‬ ‫سیاست‬ ‫کسی چودھری کے سامنے کوئی چوں کرے‬ ‫کب کسی میں اتنا دم رہا ہے‬ ‫کون منصور بنے‬ ‫کون حسین کے قدموں پر چلے‬ ‫پکی پکائی کے سب گاہک ہیں‬ ‫جیدا چودھری کے خلاف سرعام بک رہا تھا‬ ‫یہ خبر اٹم بم سے کچھ کم نہ تھی‬ ‫چودھری بھی سکتے میں آ گیا‬ ‫چپ رہا منہ سے کچھ نہ بولا‬ ‫بچارے دینو کی مفت میں لترول ہو گئی‬ ‫اس نے تو محض خبر سنائی تھی‬ ‫محفل کو پھر چپ لگ گئی‬ ‫یہ اس کا قصور نہیں‬ ‫جوانی کی بھول مرے آگے آئی ہے‬

‫‪325‬‬ ‫بڑا خون ہی بولتا ہے‬ ‫ورنہ کوئی کمی اس قابل کہاں ہوتا ہے‬ ‫چودھری نے یہ کر‬ ‫محفل کی چپ کا روزہ توڑا‬ ‫پھر کیا تھا‬ ‫چودھری کا کہا‬ ‫اس ًموڑ سے اس موڑ تک گیا‬ ‫جیدے نے جب یہ بات سنی‬ ‫غصے سے آگ بگولا ہو گیا‬ ‫سیدھا گھر آیا‬ ‫ماں کا سر تن سے جدا کیا‬ ‫خود رسی سے لٹک مرا‬ ‫چودھری کو کچھ بھی نہ کرنا پڑا‬ ‫سیاست سے رستہ صاف ہو گیا‬

326

327

‫‪328‬‬ ‫واہ مولوی صاحب واہ‬ ‫شغلانہ‬ ‫وہ سیدھا سادا مزدور آدمی تھا۔ بامشکل گھر کا خرچہ چلا‬ ‫پا رہا تھا۔ غربت و عسرت کے سبب گھر میں ہر وقت کل‬‫کل چلتی رہتی۔ وہ اپنی حد تک تو مشقت اٹھا رہا تھا۔ یہ ہی‬ ‫اس کے بس میں تھا۔ وافر کہاں سے لاتا۔ باپ بھی مشقتی‬ ‫تھا۔ اس نے بھی اسی طرح محنت مشقت سے انہیں پالا‬ ‫پوسا تھا۔ بھوک اور ہمہ وقت کی تو تکرار نے اس کے‬ ‫ذہن کو تقریبا معطل سا کر دیا تھا۔ اس کی ہر سوچ کی تان‬ ‫روٹی پانی پر ہی ٹوٹتی تھی۔‬ ‫یہ اس نے کوئی پہلی بار مسجد میں قدم نہ رکھا تھا۔ اس‬ ‫سے پہلے بھی وہ کئی بار مسجد میں عید نماز پڑھنے آ‬ ‫چکا تھا۔ ہر بار اسے نصیحتوں سے پالا پڑا تھا۔ مولوی‬ ‫صاحب نے کبھی بھوک سے نجات کا کبھی کوئی طریقہ یا‬ ‫رستہ بیان نہ کیا تھا۔ مولوی صاحب کو کھلا اچھا اور ون‬‫سوونا کھانے کو مل جاتا تھا۔ نئی پرانی علاقے کی حوریں‬ ‫‘دم اور تعویز دھاگے کے لیے آتی تھیں۔ پرہیزی سہی‬

‫‪329‬‬ ‫ٹھرک جھاڑنے کا موقع مل جاتا۔ عادت سے مجبور اپنے‬ ‫اور دوسرے گھروں کے اندر کے بھید سنا جاتیں اس لیے‬ ‫اسے کسی قسم کی بھوک پیاس ہی نہ تھی۔ بھوک یا‬ ‫کاروباری قسم کی باتیں اس کے مطلب کی نہ تھیں۔‬ ‫یہ پہلی بار تھی جو مولوی صاحب کو کوئی کاروباری بات‬‫کرنے کی توفیق ہوئی۔ مولوی صاحب نے جنت کی حوروں‬ ‫کا بڑے ہی رومانی اور دلکش انداز میں تذکرہ کیا۔ مولوی‬ ‫صاحب نے کہا کہ وہ انڈے کی طرح سفید ہوں گی اور ہر‬ ‫جنتی کو تعداد میں ستر ملیں گی۔ مولوی صاحب نے تو ان‬ ‫کی رنگت بیان کی لیکن اس کی سمجھ میں یہ آیا کہ‬ ‫حوریں انڈے دیں گی۔ مولوی صاحب جانے اور کیا کچھ‬ ‫کہتے رہے لیکن بھوک نے اس کے سوچ کو انڈوں کے‬ ‫گرداب سے باہر نہ آنے دیا۔‬‫اس نے سوچا سب لوگ تو جنت میں نہیں جائیں گے۔ اچھا‬ ‫کرنے والے ہی جنت میں جا سکیں گے۔ وہ ستر انڈے ابال‬ ‫کر بےحوری علاقہ میں ہر روز بیچا کرے گا۔ ایک انڈا اگر‬‫دس روپے میں فروخت ہوا تو سات سو روپیے سیدھے ہو‬ ‫جائیں گے۔ سات سو روپیے منہ سے ہی کہنا ہے ہاتھ آنا‬ ‫اتنا آسان نہیں ہوتا۔ سوچ ذرا پھیلی تو مایوسی کا دوبارہ‬

‫‪330‬‬ ‫سے دروازہ کھل گیا۔ سات سو میں ستر وہ اور ایک یہ‬‫گویا اکہتر کا ناشتہ پانی ہی نہیں ہو سکے گا۔ باقی کا خرچہ‬‫کہاں سے آئے گا۔ یہاں ایک کے لیے سارا دن مشقت اٹھاتا‬‫ہے پھر بھی پوری نہیں پڑتی اور رات گئے تک ہاجاں کے‬ ‫کوسنے سنتا ہے۔ وہاں ستر کے طعنے مینے کیسے سن‬ ‫سکے گا۔‬ ‫اسے مولوی صاحب کے اس ڈنڈی مار رویے پر سخت‬ ‫افسوس ہوا۔ خود پیٹ بھر کھاتا ہے اور اوروں کے لیے‬ ‫پیٹ بھر کھانے کا رستہ تنگ اور مشکل بنا رہا ہے۔ پھر‬ ‫اس کے منہ سے نکل گیا واہ مولوی صاحب واہ کیا کہنے‬ ‫آپ کے خود پیٹ بھر کھاتے ہو اور گریبوں کے لیے جنت‬ ‫میں بھی مشقت اور وہ ہی زمینی فاقہ۔‬

‫‪331‬‬ ‫جواب‪ :‬واہ مولوی صاحب واہ‬ ‫بروز‪ :‬مئی ‪ 12:25:19 ,2017 ,18‬شام‬ ‫ُمحترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب۔ السلام علیکم۔ اپ‬‫سے شاید پہلی دفعہ ُمخاطب ہو رہا ہوں۔ اور دیکھا یہی ہے‬ ‫کہ جناب اپنے مضامین پر تبصروں کا کم کم ہی جواب‬ ‫دیتے ہیں۔ لیکن اج مجھے لکھنا پڑا۔ جناب نے میرے دل‬ ‫کی بات کی۔ مولوی صاحبان جس طرح حوروں کے قصے‬ ‫سناتے ہیں تعجب ہوتا ہے کہ جنت کی ساری نعمتوں کو‬ ‫چھوڑ کر اس ’نعمت‘ ہی کی تفصیل کیوں اتنی محنت سے‬‫کرتے ہیں۔ ہمارے جاوید احمد غامدی صاحب کے مطابق تو‬ ‫یہ سب بس قصے کہانیاں ہیں۔ حوریں تو دنیا ہی کی‬‫خواتین کو کہا گیا ہے۔ خیر‪ ،‬جو بھی ہے‪ ،‬مجھ جیسا انسان‬ ‫تو جنت میں جا کر شاید اس طرف توجہ ہی نہ کر سکے۔‬ ‫شاید کسی ابشار کے برابر چٹان پر بیٹھ کر غور و فکر‬‫میں محو رہے۔ غور و فکر نہ بھی کرے تو ُچپ چاپ خالی‬ ‫دماغ کے ساتھ دور افق کو گھورتا رہے۔ یہ بھی کسی‬‫نعمت سے کم نہیں۔ ابشار کا شور ہو‪ ،‬فرصت ہو‪ ،‬اور دماغ‬ ‫میں کوئی خیال نہ رہے۔ مارک گنگر کے مطابق‪ ،‬جو‬

‫‪332‬‬ ‫شادیوں کے نباہ کے طریقوں پر درس دیتے ہیں‪ ،‬یہ نعمت‬ ‫(کہ دماغ میں کچھ سوچنے کی سرگرمی نہ چل رہی ہو)‬ ‫خواتین کو میسر نہیں۔ اور نہ ہی مرد ایسی کیفیت کے‬ ‫دوران خواتین کی مداخلت برداشت کرتے ہیں۔ اپنی بیویوں‬ ‫کی بھی نہیں‪ُ ،‬کجا ستر ستر حوریں؟‬ ‫یا شاید میرے جیسا ادمی جنت میں جا کر ان تمام سوالوں‬ ‫کے جوابات مانگے جو ہمارے لیے معمہ ہی بنے رہے‬ ‫ہیں۔ مثلاً کائنات کی ابتدا کیسے ہوئی؟ انسان کی تخلیق‬ ‫کیسے ہوئی؟ انسان کا ابتدائی دور کیسا رہا؟ کائینات کی‬ ‫وسعتیں کتنی ہیں؟ ہمارے مرنے کے بعد دُنیا میں کیا کیا‬ ‫ہوا؟ قران میں ہر خواہش پوری کرنے کا وعدہ ہے امید‬‫ہے یہ جوابات بھی ملیں گے۔ اور اگر رسائی پیغمبروں کے‬ ‫حصے تک ہو سکی تو ان سے ان کے قصے سن سن کر‬ ‫کتنا مزہ ائے گا؟ اس سب کے لیے وقت ہی کہاں ملے گا؟‬ ‫میری سمجھ میں نہیں اتا کہ قُران نے تین چار مقامات پر‬ ‫اور نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے حوروں کا بھی چلتے‬ ‫چلتے ذکر کر دیا لیکن مسلمانوں کی تمام دلچسپیوں کا‬ ‫مرکز یہ حوریں ہی کیوں ہیں؟ یہ دیکھیے اس وڈیو میں‬‫ایک مولوی صاحب کیسے للچائے ہوئے انداز میں حوروں‬

‫‪333‬‬ ‫کا ذکر فرما رہے ہیں‪ ،‬اور حوروں کے شوق میں ایسے‬ ‫بہکے کہ دنیاوی خواتین کو میلی ُکچیلی‪ ،‬سڑی گلی اور‬ ‫‪:‬نجانے کیا کیا کہ رہے ہیں‬ ‫‪https://www.youtube.com/watch?v=WyeLaf1BCH0‬‬ ‫اور کس انداز میں جنتیوں کے حوروں کے ساتھ تعلقات کا‬ ‫ذکر فرما رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے نبی ﷺ‬‫نے ایسا کچھ نہیں کہا ہوگا۔ اور اگر کوئی حدیثوں کا حوالہ‬‫دے گا تو میں بغیر تحقیق راویوں کو تو جھوٹا مان لوں گا‬ ‫لیکن یہ بازاری باتیں اپنے نبی سے منسوب نہیں کرنے‬ ‫دوں گا۔ پتہ نہیں یہ وڈیو مجھے یہاں دکھانی چاہیے بھی‬ ‫تھی کہ نہیں‪ ،‬شرم محسوس ہوتی ہے۔‬ ‫یہاں انے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ چند اصطلاحات جو‬ ‫اپ نے استعمال کی ہیں ان پر مجھے ذرا شک ہے۔ اور‬ ‫میں تمام احباب سے جو یہ پڑھ رہے ہوں رائے دینے کی‬ ‫درخواست کروں گا۔‬

‫‪334‬‬ ‫‪١‬۔ ’سیدھا سادا‘۔ میرے خیال میں (اور جو میں نے پڑھا‬ ‫ہے) یہ لفظ ’سیدھا سادھا‘ ہونا چاہیے۔ سادھا مہمل ہے‬ ‫سیدھا کا۔ کچھ لوگ سیدھا سادہ بھی لکھتے ہیں‪ ،‬لیکن‬ ‫سادہ تو فارسی کا لفظ ہے اور اس کا مونث اور جمع بھی‬ ‫سادہ ہی ہونا چاہیے(سادہ روٹی‪ ،‬سادہ کپڑے)۔ اس طرح‬ ‫سیدھا سادہ سے سیدھی سادی اور سیدھے سادے غلط‬ ‫ہوگا۔‬‫‪٢‬۔ ’ت ُو تکرار‘ نہیں ُسنا‪ ،‬ہاں یہاں پنجاب میں ’تُو تکار‘ عام‬‫ہے۔ لیکن شاید اردو میں ’تو تڑاق‘ کی ترکیب مستعمل ہے۔‬‫‪٣‬۔ کیا ’ٹھرک‘ اردو کا لفظ ہے؟ کوئی یوپی کے بزرگ ہوں‬ ‫تو بتا دیں۔‬ ‫اخر میں پھر ڈاکٹر صاحب کا اپنی تحریر سے نوازنے کا‬ ‫شکریہ۔ ہمیں بھی دل کے پھپھولے پھوڑنے کا موقع مل‬ ‫گیا۔‬ ‫اسد اللہ‬‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10617.0‬‬

‫‪335‬‬ ‫ذات کا خول‬ ‫منسانہ‬ ‫اہل فقر کا عصری شاہ یا اس کے چمچوں کڑچوں سے‬ ‫کبھی کوئی ذاتی مسلہ نہیں رہا۔ سقراط‘ پادری ویلنٹائن‘‬ ‫حسین ع‘ منصور ہوں کہ سرمد‘ نے کسی ذاتی مسلہ کی‬ ‫وجہ سے طاقت کے خلاف آواز نہیں اٹھائی اور ناہی کسی‬ ‫حصولی کی پاداش میں موت کو گلے لگایا۔ حصولی کے‬ ‫گاہک موت کے خریددار نہیں ہوتے۔ وہ لوگوں کے ساتھ‬‫ہونے والے ان جسٹ کے خلاف میدان میں اترتے آئے ہیں۔‬ ‫ظلم اور ناانصافی کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ موت‬ ‫‪:‬کے منہ میں لوگوں کی خاطر گیے۔ لوگ‬ ‫مرے تھے جن کی خاطر وہ رہے وضو کرتے‬‫ایک ہی چیز کا ایک ہی فروخت کنندہ لوگوں سے الگ الگ‬ ‫بھاؤ کرتا ہے۔ حالاں کہ اصولا ایک ہی بھاؤ ہونا چاہیے۔‬ ‫کئی طرح کے بھاؤ معاشی ناہمواری کا سبب بنتے ہیں۔‬ ‫اس روز مجھ میں بھی فقیری نے سر اٹھایا اور میں نے‬ ‫سوچا کہ یہ کئی بھاؤ کا رواج ختم ہونا چاہیے۔ میں نے‬

‫‪336‬‬ ‫ایک دوکان دار سے اس طرح سے آخری بھاؤ کے لیے‬‫اچھی خاصی بحث کی جیسے میں پرچون کا نہیں‘ تھوک کا‬ ‫گاہک ہوں۔ میں نے اسے صاف صاف لفظوں میں کہا کہ‬‫وہ بھاؤ بتاؤ جو لینا ہے۔ اس نے آخری بھاؤ بتا دیا جو اس‬ ‫کے منہ سے نکلنے والے بھاؤ سے کہیں کم تھا۔ مجھے‬ ‫بڑا برا لگا کہ یہ کیسے لوگ ہیں۔ اتنا منافع کماتے ہیں۔‬ ‫میں نے اسے اس طرح سے آرڈر جاری کیا‘ جیسے میں‬ ‫مارکیٹ کا بڑا منشی ہوں حالاں کہ بڑے منشی کو کم یا‬ ‫زیادہ بھاؤ سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ وہ تو معاملے کو‬ ‫اپنی حصولی تک محدود رکھتا ہے۔‬ ‫دوکان دار کو جب معلوم ہوا کہ میں نے کچھ لینا دینا نہیں‬ ‫بل کہ ایک ریٹ مقرر کرنے کے لیے بحث کر رہا ہوں‘‬ ‫پہلے تو اس نے مجھے کھا جانے والی نظروں سے‬ ‫دیکھا‘ پھر پان سات نہایت آلودہ گالیاں نکالیں۔ وہ اسی پر‬ ‫ہی نہ رہا بل کہ پھرتی سے اٹھا اور میرے بوتھے پر‬ ‫کرارے کرارے کئی تھپڑ بھی جڑ دیے۔ میں اس ناگہانی‬ ‫حملے کی توقع نہ کرتا تھا لہذا اللہ کی زمین پر آ رہا۔‬ ‫اچھے خاصے لوگ جمع ہو گیے۔ میں نے تو لوگوں کی‬ ‫بھلائی اور آسانی کے لیے یہ سب کیا تھا۔ لوگ میری‬

‫‪337‬‬‫سننے کے لیے تیار ہی نہ تھے۔ دوکان دار جو فروخت کے‬ ‫معاملہ میں کئی زبانیں رکھتا تھا‘ کی اونچی اونچی یاوہ‬ ‫گوئی پر توجہ کر رہے تھے۔ کسی کو یہ کہنے کی توفیق‬‫نہ ہوئی کہ یار وہ تو ٹھیک‘ حق اور معاشی توازن کی بات‬ ‫کر رہا ہے۔ ہر کوئی مجھ پر ہنس رہا تھا میرا ہی مذاق اڑا‬ ‫رہا تھا۔‬ ‫اس واقعے کے بعد مجھ پر کھل گیا کہ حق سچ کے لیے‬ ‫لڑنا میرے بس کا روگ نہیں یہ منصور سے لوگوں کا ہی‬ ‫کام ہے۔ وہ دن جائے اور آج کا آئے میں نے بھی اوروں‬ ‫کی طرح معاملات کو اپنی ذات تک محدود کر لیا ہے۔ لوگ‬‫آج بھی مجھے دیکھ کر ہنس پڑتے ہیں۔ ان کا ہنسنا مجھے‬ ‫اب ذات کے خول سے باہر نہیں ہی دیتا۔‬

‫‪338‬‬ ‫ہزار کا نوٹ‬ ‫منسانہ‬ ‫جیب خالی ہونے کے سبب اور تو اور‘ میرے اپنے بچے‬ ‫اور ان کی ماں‘ جن کے لیے میں دن رات جیا اور زندگی‬ ‫کی مشقت اٹھاتا رہا۔ ان کی خوش حالی اور بہبود کے لیے‬ ‫میری سوچیں‘ خون پسینے میں نہاتی رہیں‘ پیار تو بہت‬ ‫دور کی بات‘ ٹوٹ ٹوٹ پڑتے تھے۔ وہ مجھے لایعنی اور‬‫بےکار کا بوجھ سجھتے تھے۔ دنیا چاری کے تحت دو وقت‬ ‫کی بچی کچی چار و ناچار مہیا کر رہے تھے۔ گھر کے ہر‬‫چھوٹے بڑے کے منہ یہ ہی رہتا‘ تم نے ہمارے لیے کیا ہی‬ ‫کیا ہے۔ حالاں کہ میں نے زندگی کا ہر لمحہ ان کے لیے‬ ‫گزرا تھا۔ بچے اسی عمل سے گزر رہے تھے‘ لیکن انہیں‬ ‫کبھی بھی یاد نہ آیا کہ ابا بھی ان مراحل سے گزرا ہو گا۔‬ ‫مجھے دو روپیے دیتے ہوئے‘ ان پر غشی کی سی کیفیت‬ ‫طاری ہو جاتی۔‬ ‫میرا لنگوٹیا کرم الہی کمائی کے لیے ولایت گیا ہوا تھا۔‬ ‫ایک عرصہ بعد واپس لوٹا۔ ایک روز مجھے ملنے آ گیا۔‬

‫‪339‬‬ ‫میرے گھر والوں نے اس کی بڑی عزت کی۔ اس کے‬ ‫باوجود اس نے نوٹ کیا کہ جیب کے بےوفائی نے مجھے‬ ‫گلی کے کتے سے بھی بدتر کر دیا ہے۔ میں نے اس سے‬‫ان لوگوں کی کوئی شکایت نہ کی تھی۔ ان کے میرے ساتھ‬‫رویے اور لباس کی عسرت نے اس پر سب کچھ کھول دیا۔‬ ‫اس نے چلتے ہوئے ہزار کا نوٹ ۔۔۔۔۔ یقین مانیں ہزار کا‬ ‫نوٹ‘ میری مٹھی میں بند کر دیا اور آنکھوں آنکھوں میں‬ ‫کہہ دیا‪ :‬احتیاط سے خود پر خرچ کرتے رہو‘ دیر تک‬ ‫چلے گا۔ میری آنکھیں تشکر سے لبریز ہو گیئں۔ یہ کوئی‬ ‫معمولی بات نہیں۔ اس سے میرا کوئی خون رشتہ نہ تھا۔‬ ‫بیس پچیس سال پہلے کی سلام دعا تھی۔ بےشک یہ بہت‬ ‫بڑے جگرے کی بات تھی۔‬ ‫میری جیب کی ہریالی جانے گھر والوں پر کس طرح کھل‬ ‫گئی کہ وہ ہی گھر والے مجھے ہاتھوں پر اٹھائے پھرتے‬ ‫تھے۔ بڑے لڑکے نے اپنا تقریبا نیا جوڑا مجھے دے دیا۔‬ ‫گھر والی میری چائے پانی کا خیال کرنے لگی۔ میمو‬ ‫ٹھگنی کی طرح شہد سے بڑھ کر میٹھی ہو گئی۔ میں ان‬ ‫کی ان اداؤں کو سمجھ رہا تھا۔ میں نے انہیں اپنا پلو نہ‬ ‫پکڑایا اور گانٹھ کا پکا رہا۔‬

‫‪340‬‬ ‫گاؤں میں ہزار کا کھلا مل جانا ممکن نہ تھا۔ سوچا کرم‬ ‫الہی ہی سے کہتا ہوں کہ اس کا کھلا کروا دو۔ پھر سوچ‬ ‫گزرا کہیں اتنا بڑا نوٹ اس کی نیت ہی خراب نہ کر دے۔‬‫میں نے چار کوس کا سفر طے کرنا مناسب جانا۔ بازار آ کر‬ ‫کھلا کروایا اور کھلے پر گرفت کرکے اکیلے میں اسے گنا‬ ‫تو اس میں سے بیس کم تھے۔ مجھے بڑا افسوس ہوا کہ‬‫شحص کے اندر بددیانتی کس طرح گھر کیے ہوئے ہے۔ اب‬ ‫وہ ہزار کا نوٹ نہیں نو سو اسی تھے۔ پھر مجھے خود‬ ‫اپنے اندر کی بددیانتی کا احساس ہوا کہ یار بلا مانگے‬ ‫دینے والا واپس کیوں لے گا‪ ،‬کیسے ہیں ہم لوگ جو‬‫اوروں پر تو انگلی رکھتے ہیں لیکن اپنے گریبان میں نہیں‬‫جھانکتے۔ شاید مفلسی و ناداری شخص کے سوچ کو گھٹیا‬ ‫بنا دیتی ہے۔‬ ‫میں ان میں سے تھوڑے تھوڑے کرکے استعمال میں لاتا‬ ‫رہا۔ ایک دن گنتی کی تو معلوم ہوا کہ وہ سات سو اسی‬ ‫روپیے تھے۔ میں دیر تک غور کرتا رہا کہ ہزار کے نوٹ‬ ‫کی یہ اوقات ہے کہ اپنی حالت برقرار نہیں رکھ سکا۔ اس‬ ‫ہزار کے لیے سب میری عزت کر رہے تھے اور اس کے‬‫نہ ہونے کے سبب مجھے کتے سے بھی برتر سمجھ رہے‬

‫‪341‬‬ ‫تھے۔ میں نے بقیہ رقم رشتے سے بڑھ کر نوٹ کی عزت‬‫کرنے والوں میں تقسیم کر دی اور خود مسجد میں ظہر کی‬ ‫نماز ادا کرنے چلا گیا۔‬ ‫میں نے سوچا جو اللہ ماں کے پیٹ میں رزق فراہم کرتا‬ ‫مجھے کرتا ہی رہے گا۔ اللہ کو بھول کر نوٹ کے پجاریوں‬ ‫کی گرہ پر کیوں اعتماد کروں۔ اس بات کو دو سال ہو گئے‬‫ہیں یقین مانیں کبھی فاقہ سے نہیں سویا۔ کہیں ناکہیں سے‬ ‫میسر آ ہی رہا ہے۔‬

‫‪342‬‬ ‫پتنائی مہاورہ‬ ‫منسانہ‬ ‫کچھ بھی جو مہارت میں آ جائے اس کا روایت بن جانا‬ ‫فطری سی بات ہوتی ہے۔ روایت ایک شخص تک محدود‬ ‫نہیں رہتی۔ ایک سے دوسرا دوسرے سے تیسرا اور پھر‬ ‫اس کا سماج گیر ہو جانا اور اگلی نسلوں کو منتقل ہونا‬ ‫فطری عمل ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مختلف امرجہ میں اس‬ ‫کی ہیتی اور معنوی صورت بدل جاتی ہے۔ آتے وقتوں میں‬ ‫بھی وہ رواج میں رہتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ ویسا‬ ‫نہیں رہ پاتا جیسا ابتدا میں تھا۔‬ ‫تکیہ ء کلام بھی اگر رواج میں آ جائے تو اسے محاورے‪-‬‬ ‫مہاورے کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔‬ ‫اسی طرح الگ سے کہی ہوئی بات بھی مہاورہ بن جاتی‬ ‫ہے یا بن سکتی ہے‘ جیسے‬ ‫کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک‬

‫‪343‬‬ ‫زلف کا سر ہونا‪ :‬مہاورہ نہیں غالب کی اختراع ہے لیکن‬ ‫اسے مہاورے کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔‬‫یہ ہی صورت ایجادات و تخلیقات کی ہے۔ مارکونی کا ریڈیو‬ ‫کہاں سے کہاں تک جا پہنچا۔ آج اس کے بانی کا کوئی نام‬ ‫تک نہیں جانتا یا مار کونی کسی کو یاد تک نہیں۔‬ ‫داستانی ادب میں دیکھیے کس طرح سے تبدیلی آئی۔ ناول‬ ‫افسانہ منی افسانہ نظمانہ منظومہ منسانہ شغلانہ وغیرہ‬ ‫اسی کی ترقی یافتہ صورتیں ہیں۔‬ ‫ہائے میں مر جاں‘ ماں صدقے جائے‘ کتی دیا پترا وغیرہ‬‫صدیوں سے چلے آتے‘ زنانہ مہاورے ہیں۔ کتی دیا پترا کو‬ ‫گلی میں مختلف اشکال ملی ہیں۔ ہاں البتہ باقی دو محض‬‫شخصی اور تقریبا ہر ماں خاتون کے تکیہءکلام تک محدود‬ ‫رہے ہیں۔‬ ‫بھاگ پری بچوں کے حوالہ سے اس قسم کی بولیاں بولتی‬ ‫چلی آتی ہے۔ ایک دن مجھے خیال گزرا گلی میں خاتونی‬ ‫تکیہ کلام کو گھر میں بھی رواج دیا جائے۔ میں تاڑ میں‬ ‫رہا کہ کب لڑکا یا لڑکی کوئی شرارت کرتی ہے تو اسے‬ ‫کتی دیا پترا یا کتی دیئے دھیے کہتا ہوں۔ ایک بار بلا‬

‫‪344‬‬ ‫ردعمل معاملہ ہو گیا تو اسے تکیہءکلام بنانا چنداں مشکل‬ ‫نہ ہو گا۔‬‫میری خواہش تھی کہ لڑکا ہی ٹارگٹ میں آئے کیوں کہ میں‬‫نے اپنی بچیوں کو کبھی کچھ نہیں کہا۔ پتا نہیں کیسا نصیبا‬ ‫ہو۔ ماں باپ کے گھر میں ہی سکھ سکون ملتا آیا ہے۔‬ ‫میری خواہش پوری ہوئی منجھلا ہی گرفت میں آیا اور‬ ‫خاتونی مہاورے کے گھر میں رواج پانے کی خواہش کا‬‫تلخ تجربہ ہوا۔ وہ شرارتیں کرتا ہوا اچھل کود رہا تھا کہ گر‬ ‫گیا۔ بری چوٹ آئی۔ میں پھرتی سے اٹھا۔ خیال گزرا موقع‬ ‫ہے مہاورہ آزمایا اور اس کا ردعمل دیکھا جائے۔ میں نے‬ ‫اٹھتے ہی اسے کتی دیا پترا دیکھتے نہیں ہو چوٹ آ گئی‬ ‫ہے‘ کہا۔ یقین مانیے میں نے چور آنکھ سے بھی بھاگ‬ ‫پری کی طرف نہ دیکھا۔‬ ‫جب کوئی بچہ گر جاتا اس کا بھی ردعمل یہ ہی ہوتا تھا۔‬‫میں نے کوئی الگ سے نہ کیا تھا۔ بچہ برابر روئے جا رہا‬ ‫تھا۔ اس کو پوچھنے اور دیکھنے کی بجائے مجھ پر برس‬ ‫پڑی کہ اب میں کتی ہو گئی ہوں۔ میں ہی زیادہ بولتی ہوں۔‬ ‫تمہارا ماں کم بولتی ہے۔ تمہاری بہن کی تو گز پھر زبان‬ ‫ہے۔ انہیں تو تم نے کبھی کتی نہیں کہا۔ دیر تک بلاتھکان‬

‫‪345‬‬‫بولتی رہی اور میں بھ بھیڑ بنا بیٹھا رہا۔ کچھ میں بھی کہتا‬ ‫تو سارا دن بنے تھا۔‬ ‫پھر اس نے برقعہ اوڑھا اور میکے جانے کے لیے اٹھ‬ ‫کھڑی ہوئی۔ میں نے بڑی منت سماجت کی لیکن وہ نہ‬ ‫مانی۔ آخر وہ جا کر رہی۔ آج اس کو گئے بیس دن ہو گئے‬ ‫ہیں۔ دو بار لینے گیا ہوں لیکن وہ نہ آئی۔‬ ‫اب صبح سویرے اٹھتا ہوں بچوں کو اسکول کے لیے تیار‬ ‫کرتا ہوں۔ انہیں رخصت کرکے دوکان پر بیٹھ جاتا ہوں۔‬‫بچے اسکول سے سیدھے دوکان پر آ جاتے ہیں۔ انہیں لے‬ ‫کر گھر آ جاتا ہوں۔ ان کے ناشتے پانی کا بندوبست کرتا‬ ‫ہوں۔ گویا بھاگ پری کی ذمہ داری بھی اچھی بری مجھے‬ ‫ہی نبھانا پڑ رہی ہے۔‬ ‫ایک بار اس نے کہا تھا میں چلی گئی تو ہی تمہیں میری‬ ‫قدر پڑے گی۔ اس کے جانے سے میری جیب اور کان‬ ‫سکھی ہیں لیکن لیبر کے اضافے نے تھوڑا نہیں کافی‬‫پریشان کر رکھا ہے۔ اس تجربے کی بنا پر میں یہ کہتا ہوں‬‫کہ پتنائی مہاورے کو گھر میں رواج دینے کی بجائے ان کا‬ ‫پتنی تک محدود رہنا ہی گھریلو لیبریائی حیات سے بچا‬ ‫سکتا ہے۔‬

‫‪346‬‬ ‫سوچا تھا اگر برداشت کر گئی تو اس کے بولنے پر یا دن‬‫بھر کی تھکن ان مہاوروں کے استعمال سے کچھ ناکچھ تو‬ ‫کم کرنے میں آسانی ہو جائے گی۔ یہ بھی ایک طرح سے‬‫میری تھکن اور غصے کا کتھارس‪-‬انشراع ہوتا۔ مگر ایسی‬‫قسمت کہاں کہ میری خواہش کو بھی تکمیل کا مزا مل جاتا۔‬ ‫اب مجھے کیا پتا تھا کہ میں دانستہ اپنے کلہاڑی مار رہا‬ ‫ہوں۔ اس کا عمل کتنا دوہرا تھا کہ اپنے ہی عمومی کہے‬ ‫گئے کے دہرانے کو گل سے لل ‪ ١‬بنانے پر اتر آئی تھی۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫گل بات ‪١-‬‬ ‫لل لیلا سے‘ داستان کہانی‪ -‬پھیلاؤ‬

‫‪347‬‬ ‫کچھ ہی دور‬ ‫لوکانہ‬ ‫کرداری اعتبار سے بلاشبہ وہ بےمثال تھی۔ اب تو وہ ادھ‬ ‫کھڑ تھی لیکن جوانی میں بھی کبھی کسی نے اس کے‬‫متعلق کوئی غلط بات نہ سنی تھی۔ جوان تھی خوب صورت‬ ‫تھی ہر لباس اس پر جچ جاتا تھا۔ ناز نخرا ادائیں سب کچھ‬ ‫تھا لیکن کسی کو اس کی جانب نظر اٹھانے کی جرآت نہ‬ ‫ہوتی تھی۔ برے کا اس کی قبر تک پیچھا کرتی تھی۔ غصہ‬ ‫کی اس وقت بھی سور‪ ١‬تھی۔ اب تو خیر تجربہ کار تھی۔‬ ‫منٹ سکنٹ میں لال پیلی ہو جاتی۔ میاں اور اس کے رشتہ‬ ‫دار ایک طرف ہم سایہ کی عورتیں بھی اس کے سامنے‬ ‫کسکتی نہ تھی۔ میدان کی بڑی بڑی یودھا اس کے سامنے‬ ‫ڈھیر ہو جاتی تھیں۔‬ ‫کوئی مان نہیں سکتا تھا کہ وہ بھی مر جائے گی۔ اس کا‬ ‫سامنا کرتے موت کا فرشتہ بھی کانپ کانپ جائے گا۔ بڑی‬ ‫حیرت کی بات تھی کہ موت کا فرشتہ اس کی جان لے ہی‬ ‫گیا۔ اچھی بھلی تھی۔ باتیں کر رہی تھی۔ صبح ہی اس نے‬

‫‪348‬‬ ‫خاتون میدان خالہ کرامتے کی بس بس کرا دی تھی۔ سارا‬‫دن یہ ہی موضوع زیر گفت گو رہا۔ سب حیران تھے کہ اس‬ ‫نے خالہ کرامتے کو بھی میدان میں چت کر دیا۔ زہے‬ ‫افسوس موت کا فرشتہ میدان مر گیا۔ یہ ایک کرشمہ تھا‬ ‫جو ہو گیا۔‬ ‫اس کا سفر آخرت شروع ہوا۔ جنازہ میں توقع سے زیادہ‬ ‫لوگ شامل تھے۔ ہر کسی کے منہ سے اس کے لیے اچھا‬ ‫ہی کلمہ نکل رہا۔ اس کے کردار کی ہر کسی کے منہ میں‬ ‫ستائش تھی۔ جنازے کی روانگی میں حسب روایت بڑی‬ ‫سرعت تھی۔ اچانک ارتھی کھمبے سے تکرائی۔ کندھا‬ ‫دینے والوں نے نیچے تو نہ گرنے دی لیکن ایک اچھا‬ ‫خاصا جھٹکا ضرور لگا کہ میت کا انجر پنجر ہل گیا۔ میت‬ ‫اٹھ کر بیٹھ گئی۔ سب حیرت میں ڈوب گئے کہ موت کی‬‫تصدیق تو ڈاکٹر نے بھی کر دی تھی۔ عالم برزخ تک جاتے‬ ‫دھائی کے یدھ ہوئے ہوں گے۔ وہ سب کو پچھاڑ کر واپس‬‫لوٹ آئی تھی۔ بڑے بڑے وجیتا رہے ہوں گے لیکن اس سا‬ ‫وجئی شاید ہی کوئی رہا ہو گا۔‬ ‫اب وہ پہلے سی نہ تھی۔ کوئی کچھ کہتا تو زیادہ تر‬‫خاموش رہتی۔ پہلے کی طرح مرنے مارنے پر نہ اترتی۔ یہ‬

‫‪349‬‬ ‫بہت بڑی تبدیلی تھی۔ اس کی اس تبدیلی پر سب حیران‬ ‫تھے۔ اس سے جب کوئی اس عارضی موت کے متعلق‬ ‫پوچھتا تو وہ منہ کھولنے سے زیادہ کچھ نہ کر پاتی۔‬ ‫خدائی راز ہوں گے جو کہے نہ جا سکتے ہوں گے۔‬ ‫اس حادثے کے بعد وہ چار سال زندہ رہی۔ نماز روزہ کی‬ ‫پابند ہو گئی۔ اچھے منہ بولتی ہاں البتہ کام کاج سے موڑ‬‫گئی۔ سارا دن بیٹھی رہتی گویا پکی پکائی کی طالب ہو گئی۔‬ ‫پہلے اس کی زبان سے گھر اور باہر کے چالو تھے۔ اب‬‫باہر کسی خاتون کو اس سے کوئی شکایت نہ تھی ہاں گھر‬ ‫کے لوگ اس کے نکمےپن سے اکتا اور تھک سے گئے‬ ‫تھے۔ وہ ان کے لیے لایعنی سی ہو گئی تھی۔‬ ‫پھر ایک دن اللہ کو پیاری ہو گئی۔ محلہ کے لوگ ان کے‬ ‫ہاں بڑھے چلے آئے۔ گھر کے لوگ پہلی مرتبہ کی طرح‬ ‫جعلی رونا دھونا کر رہے تھے۔ آخر آخری آرام گاہ کی‬ ‫طرف سفر شروع ہو گیا۔ ہر کوئی جانتا تھا کہ اب وہ موت‬ ‫کے فرشتے سے جنگ نہیں کرے گی۔ اب اس کی واپسی‬ ‫نہیں ہو سکے گی۔ کھبے سے کچھ ہی دور سے اس کے‬ ‫‪:‬خاوند نے چلانا شروع کر دیا‬

‫‪350‬‬ ‫پہا جی کھمبا بچا کے ۔۔۔۔ پہا جی کھمبا بچا کے۔۔۔۔۔ پہا جی‬ ‫کھمبا بچا کے‬ ‫کھمبا خیر خیریت سے گزرا تو اس کی زبان منہ میں پڑی۔‬ ‫یہ بات سب کے لیے حیرت کی تھی کی اب وہ یدھا نہ رہی‬ ‫تھی۔ وہ پہلے کی سی تھی ہی نہیں پھر اس کا خاوند کیوں‬ ‫مسلسل چلائے جا رہا تھا پہا جی کمبا بچا کے۔ شاید اسے‬‫اب بھی شک تھا کہ مرنے والی کا اس موقع پر پرانا جوش‬ ‫و جذبہ بیدار نہ ہو جائے۔‬ ‫اسے آسودہءخاک ہوئے آج ایک عرصہ ہو گیا ہے لیکن‬‫لوگ اس واقعہ کو اب تک نہیں بھلا سکے۔ کبھی کبھار اس‬ ‫واقعہ کا ذکر کہیں ناکہیں ہو ہی جاتا ہے۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫زبردست‘ بہادر ‪١-‬‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook