301 میں ابھی تک قسمت کو کوس رہا تھا ایک صاحب نے بلاتکلف کہا پاگل اصل کاغذ دیتے نہیں کبھی بابو کو کبھی قسمت کو کوستے ہو کس کاغذ کی آپ بات کرتے ہیں میں نے پوچھ ہی لیا بڑا نوٹ جس پر بانی کی تصویر چھپی ہو فائل میں لگاؤ پھر بےچنت ہو جاؤ کام ہو جائے گا سوچ میں پڑ گیا یہ بگلا بھگت کتنے روپ دھارتا ہے لو دور کیا جانا ہے ہماری گلی کے موڑ پر ہی وہ رہتا ہے کچہری میں منصف کے روبرو کلام پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہے جو کہوں گا سچ کہوں گا
302 سچ کے سوا کچھ نہ کہوں گا ان دیکھے سچ کی کھاتا ہے کیا کروں اس کے کس روپ پر یقین کروں مرا ہم جنس بن کر دغا کرتا ہے ایک اور اندھیر دیکھیے انگلی مری اوروں کی جانب تو اٹھ رہی ہے جیسے ہل پر نہایا ہوا ہوں کرتوت یہ ہے کہ زوج کے حضور جب جاتا ہوں میں اس سا وہ مجھ سا ہو جاتا ہے سچ مر جاتا ہے یا پھر سات سمندر پار کر جاتا ہے
303 یہ حرف کل طلوع سے پہلے کان جزو جسد شرق تھے ودوا کا نالہ سنتے نہ تھے ہاتھ آہنی ضرور تھے ریکھاؤں میں مگر مغرب کے مانجے کا گوبر بھرا تھا خورشید اہل شرق کا سہی شرق کی صبح شام شرق کی نہیں منہ اپنا زبان اپنی بیان اپنا نہیں چٹے مندر کے دروازے پر یک ٹانگ کھڑا صبح شام
304 ہر آتے دم کے ساتھ شری جھاڑی مہاراج کی جئے ہو شری جھاڑی مہاراج کی جئے ہو بکے جاتا ہے فاختہ کے گلو میں نامہء منتی باندھ دیا کبوتر جھاڑی مہاراج کی قید میں ہے بازگزشت کٹی آواز تاریخ کا حرف کب بنتی ہے بےدر گھرانے کہرے کی زد میں رہتے ہیں ‘جو ہیں نفرتوں کے بارود میں بھی جشن آزادی مناتے ہیں جو نہیں ہیں جھاڑی مہاراج کی خصیہ سہلائی کا
305 شغل باکمال رکھتے ہیں یہ حرف مورکھ کی کوئی لکھت نہیں ہیں پھر بھی کل کو شہید وفا ہوں گے شاہد جفا ہوں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منتی‘ منت سے مورکھ سے مراد مورخ
306 عہد کا در وا ہوا عہد کا در وا ہوا دور افق میں کم زور کی مقدر ریکھا لہو بن کر پھیل گئی تھی آس کا سورج ڈوب گیا تھا یاس کا سورج سوا نیزے پر آ چکا تھا شانتی کے شبد کھا چکا تھا پھر بھی ماتھے پر چٹا گھر کا ٹکا سجائے شانتی کی ڈگڈگی بجائے جا رہا تھا لومڑ گیڈر جشن سیری منا رہے تھے لگڑبگڑ اپنا حصہ کھا رہے تھے گریب ہڈیوں کا گودا
307 رینگتوں کے کام آ رہا تھا بٹنوں کی دوکان سج گئی تھی گوریوں کی چڈی ہو کہ پستانوں کے کھوپے ان ہی سے تو بندھے ہوئے تھے آگہی کا در وا ہوا تو گریب گلیوں میں بھوک کی دھند پھیل گئی محل جگمگا اٹھے ہواؤں میں کومل ہونٹوں پر شراب کی بو مچل گئی شاہ اور اہل شاہ پریوں کی کمر میں ہاتھ سجائے تھرک رہے تھے جھوم رہے تھے اپریل ١٠- ١٩٧٨
308 مشینی دیو کے خواب وہ اس کا باپ دادا پردادا بھی اسی پیشہ سے وابستہ تھے شکار کی ٹانگوں پر نام کے ساجی دم پر چمچے گردن پر کڑچھے لگڑبگڑ کے تیور لے کر پل پڑتے تھے اب کہ نخچیر کئی چیتوں بگھیاّڑوں کے دم خم دیکھ چکا تھا تب ہی تو
309 گرفت میں آ کر بھی گردن کے جھٹکے جاری تھے کرتب ان کا شیوا جھٹکے اس کا حق جگ کے دانے سوچ رہے تھے بھوکے پیاسے صید کا ماس صیاد کے پیٹ کی آنتیں جسم کا پانی کھا پی کر مشینی دیو کے خواب چکنا چور نہ کر دے
310 اک مفتا سوال ہزاروں لاکھوں کی حیثیت اپنی جگہ دس روپیے کی حیثیت اپنی جگہ رسک میں ایک روپیے کا ضیاع بھری تجوری کا زوال ہے جیت گیے تو چڑھی قسمت ہار گیے تو! تجوری کا یہ سوال ہے جیتنے والا سکون کی نیند لوٹے گا ہار عمر بھر کا ملال ہے کچھ دے کر پایا تو کیا پایا اس جہاں میں کہاں ملتا ایسا دلال ہے سوچ کے دائرہ وسعت لیتے گئے کہ پھر کان میں گونجی یہ آواز میاں صاحب دس روپیے کا سوال ہے
311 پھر ہوش آیا یہاں تو فقط لینا ہے دینے کا کب ذکر ہے میاں صاحب کی باچھیں کھل گیئں خوش ہو کر بولے پوچھ لو‘ ہو سکتا ہے بتا ہی دوں یہ بعید از قیاس نہیں فقیر کا سوچ حیرت کی نذر ہوا کچھ بھی نہ سمجھ سکا یہ تو خود اک مفتا سوال تھا بڑبڑاتا ہوا واں سے چل دیا میاں صاحب دکھ کے سمندر میں غرق ہوئے کم بخت دس کا چونا لگا گیا
312 سوال کا جواب بےشک یہ ان ہونی تھی حیرت ہے کہ ہو گئی کمیوں کی بہو بیٹیاں لمبٹروں کے گلپ کرتی ہیں حاجت بھی بر لاتی اترن میں جیتی اترن میں مرتی ہیں کس سے کہیں کیا کہیں سر تاج ان کے ڈیرے کی چلم بھرتے ہیں اک مراسی اور لمبڑ کا کیا جوڑ پھر بھی سلام دعا لڑ گئی تعلق کی گڈی چڑھ گئی زمین پر لوگ آسمان پر فرشتے دیکھتے رہ گئے
313 اٹھنا اکٹھا بیٹھنا اکٹھا کھانا اکٹھا پینا اکٹھا آنا اکٹھا جانا اکٹھا صلاح اکٹھی مشورہ اکٹھا اک روز مراسی کے ذہن میں آیا اتنی محبت اتنا پیار ہے کیوں نہ یہ نسلوں تک چلے آتے وقتوں میں چھوٹے بڑے کا فرق مٹ جائے موقع پاتے ہی مراسی نے لمبڑ سے کہا چودھری زندگی کیا خوب گزر رہی ہے محبت شاید ہی ایسی رہی ہو گی کیوں نہ ہم اس کو دوام بحشیں چودھری مسکرایا اور کہا کہو پھر ایسا کیا کریں لوہا گرم دیکھ کر مراسی نے چوٹ لگائی
314 بہن تمہاری جوان ہے اب اس کی شادی ہو جانی چاہیے چودھری خوش ہوا کہ یار ہے شاید کسی چودھری کا پیغام لایا ہے میں خوب صورت خوب سیرت ہوں بڑی بات یہ کہ تمہارا چھوٹا ویر ہوں اسے سکھی رکھوں گا جب تک زندہ ہوں پیر تمہارے دھو کر پیوں گا چودھری ہکا بکا رہ گیا پھر ہتھے سے اکھڑ گیا ذات کا مراسی اور یہ جرآت گردن سے پکڑا اور خوب وجایا نیچے گرا مراسی پاؤں پر کھڑا ہوا یار مار تو تم نے خواب لیا مرے سوال کا جواب اپنی جگہ رہا
315 چودھری نے چار گولے بلائے اور کہا اس حرامی کی طبعیت صاف کرو ذات کی کوڑ کرلی چھتیروں سے جپھے سلام دعا کیا ہوئی کہ اوقات ہی بھول گیا خوب پٹا بےہوش ہو گیا جب ہوش میں آیا تو بولا چودھری یار پیار میں اتنی مار کوئی بات نہیں‘ چلتا ہے دوستی میں تمہیں اتنا تو حق ہے کسی کی بھڑاس مجھ پر نکالو ہاں تو مرے سوال کا جواب تم نے دیا نہیں سب نے پوچھا چودھری یہ شوھدا ڈوم کیا کہتا ہے کیا جواب دیتا ہاتھوں کی دی گھانٹیں دانتوں سے کھول رہا تھا
316 تنا سر جھکا کر گھر کو چل دیا چودھری کب کسی کے ہوئے ہیں سب انسان ایک سے ہیں‘ یہ اسلام کہتا ہے اسلام ابھی حلق سے اترا نہیں حلق سے جب اترے گا سیاہ حبشی غلام‘ صاحب جاہ کا آقا ہو گا بامی متکبر کٹیرے میں کھڑا ہو گا
317 یہ ہی دنیا ہے کاروبار کے لیے فجے سے خیرے نے قرض لیا کاروبار تو ہو نہ سکا ہاں سب کچھ معشوقہ کی بلی چڑھ گیا کنگلا پھانگ ہوا تو کسی اور کی ڈولی وہ چڑھ گئی یہ کوئی نئی بات نہ تھی ایسا ہوتا آیا ہے قرض کی واپسی کے وعدے کا دن تو آنا ہی تھا آ گیا اور آ کر گزر گیا پھر کئی دن آئے اور گزر گئے وعدوں کی بھرمار ہوئی وعدوں کی بھی اک حد ہوتی ہے انتظار کی گھڑیاں مشکل سہی گزر جاتی ہیں
318 فجا کب تک انتظار کرتا کچے وعدوں پر اعتبار کرتا فجا خیرے کے تائے کو درمیان میں لایا خیرا اپنی بدحالی کا رونا لے کر بیٹھ گیا اس نے کچھ قرضہ معاف کروا دیا باقی کے لیے وعدہ لے لیا وعدے کا وہ دن بھی آیا اور گزر گیا رقم آئی نہ خیرا آیا نیا وعدہ ہی آ جاتا کہ فجے کو تسلی ہوتی خیرے کو قرضہ یاد ہے ٹال مٹول کا پھر سے سلسلہ شروع ہوا ناچار فجا اک اور معزز کو اس کے دروازے پر لے آیا خیرے نے پہلے سے بڑھ کر اپنی غربت کا ڈرامہ رچایا اس نے بھی رقم میں کچھ چھوٹ دلوا دی
319 جواب میں وعدہ لے لیا وہ صاحب بھی خیرے کو تاکید کرتے رخصت ہوئے امید بندھی اب کہ وصولی ہو گی ‘مگر کہاں پھر سے آج کل پر بات پڑنے لگی فجا اس ٹال مٹول سے اکتا گیا جو نہیں چاہتا تھا کرنا پڑ گیا خیرے کو اس نے لمبڑ کے ڈیرے پر بلا لیا وہاں آ کر وہ لمبڑ کے پاؤں لگ گیا یوں گڑگڑایا جیسے عرصہ سے فاقہ میں ہو لمبڑ کو بھی ترس آ گیا کچھ رعایت اس نے بھی کروا دی لمبڑ نے تاکیدا کہا وعدہ پر رقم دے دینا ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا حضور قسطوں پر سہی
320 رقم واپس ہو رہی ہے بات غلط نہ تھی ایک تہائی رقم دم توڑ چکی تھی اس کی اس بات پر سب ہنس پڑے اس پر وہ کہنے لگا ہاسے کیوں نہ آئیں رقمیں جو تر رہی ہیں بات اس کی سن کر سب کھل کھلا پڑے اپنے اپنے گھر کو چل دیے فجے کا منہ لٹک گیا صبر شکر کے سوا اب کوئی چارہ نہ تھا نیکاں خاوند کے بستر پر بےچنت سوتی ہے خیرا بھی کوئی تھا‘ اسے یاد نہیں خیرا نیکاں کی بےوفائی پر دن رات روتا ہے فجے کو دی رقم کی جدائی کھا گئی ہے یہ ہی دنیا ہے کہیں ہریالی تو کہیں ویرانی ہے
321 مالک کی مرضی ہے شاید ہی کوئی عیدے کے دست بد سے بچا ہو گا ہر گھر میں اس کی کہانی تھی ہر ڈیرے کا موضع کلام تھا کئی بار جیل گیا وہاں سے اور نکھر کے آیا باپ اس کا شریف اور مشقتی تھا ماں بھی اچھی تھی پنج وقتن تھی چودھری کا بھی ناک میں دم تھا کچھ دوست کھوکھے پر بیٹھے اسی کا ذکر بد کر رہے تھے اچانک انو اک خبر لایا عیدا اللہ کو پیارا ہو گیا خبر ہی ایسی تھی کہ سب حیران ہو گئے
322 پھر سب نے کلمہءشکر ادا کیا چنگا بھلا تو تھا ایک دم سے کیا ہوا کہ حق ہو گیا او یار تم غلط سمجھے ہو انو نے زور کا قہقہ لگایا مرا نہیں زندہ ہے پتا نہیں اسے کیا ہوا مکے مدینے ٹر گیا واہ واہ کی صدائیں فلک بوس ہوئیں مالک کی مرضی ہے مٹی کو سونا سونے کو مٹی کر دے کارج کی بات میں دم تھا سب نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی سینے میں کہیں خیر کی کرن باقی ہو تو ہی بگڑی سنورتی ہے ورنہ پنج وقتے پٹری سے اتر جاتے ہیں
323 دینے کی بات بھی غلط نہ تھی جو بھی سہی چائے کی پیالی میں آج خوشیوں کا اک جہاں آباد تھا ہر دل کھلا گلاب تھا خدا نے جانے کس کی سن لی ٹل گیا علاقے میں اترا جو عذاب تھا
324 سیاست کسی چودھری کے سامنے کوئی چوں کرے کب کسی میں اتنا دم رہا ہے کون منصور بنے کون حسین کے قدموں پر چلے پکی پکائی کے سب گاہک ہیں جیدا چودھری کے خلاف سرعام بک رہا تھا یہ خبر اٹم بم سے کچھ کم نہ تھی چودھری بھی سکتے میں آ گیا چپ رہا منہ سے کچھ نہ بولا بچارے دینو کی مفت میں لترول ہو گئی اس نے تو محض خبر سنائی تھی محفل کو پھر چپ لگ گئی یہ اس کا قصور نہیں جوانی کی بھول مرے آگے آئی ہے
325 بڑا خون ہی بولتا ہے ورنہ کوئی کمی اس قابل کہاں ہوتا ہے چودھری نے یہ کر محفل کی چپ کا روزہ توڑا پھر کیا تھا چودھری کا کہا اس ًموڑ سے اس موڑ تک گیا جیدے نے جب یہ بات سنی غصے سے آگ بگولا ہو گیا سیدھا گھر آیا ماں کا سر تن سے جدا کیا خود رسی سے لٹک مرا چودھری کو کچھ بھی نہ کرنا پڑا سیاست سے رستہ صاف ہو گیا
326
327
328 واہ مولوی صاحب واہ شغلانہ وہ سیدھا سادا مزدور آدمی تھا۔ بامشکل گھر کا خرچہ چلا پا رہا تھا۔ غربت و عسرت کے سبب گھر میں ہر وقت کلکل چلتی رہتی۔ وہ اپنی حد تک تو مشقت اٹھا رہا تھا۔ یہ ہی اس کے بس میں تھا۔ وافر کہاں سے لاتا۔ باپ بھی مشقتی تھا۔ اس نے بھی اسی طرح محنت مشقت سے انہیں پالا پوسا تھا۔ بھوک اور ہمہ وقت کی تو تکرار نے اس کے ذہن کو تقریبا معطل سا کر دیا تھا۔ اس کی ہر سوچ کی تان روٹی پانی پر ہی ٹوٹتی تھی۔ یہ اس نے کوئی پہلی بار مسجد میں قدم نہ رکھا تھا۔ اس سے پہلے بھی وہ کئی بار مسجد میں عید نماز پڑھنے آ چکا تھا۔ ہر بار اسے نصیحتوں سے پالا پڑا تھا۔ مولوی صاحب نے کبھی بھوک سے نجات کا کبھی کوئی طریقہ یا رستہ بیان نہ کیا تھا۔ مولوی صاحب کو کھلا اچھا اور ونسوونا کھانے کو مل جاتا تھا۔ نئی پرانی علاقے کی حوریں ‘دم اور تعویز دھاگے کے لیے آتی تھیں۔ پرہیزی سہی
329 ٹھرک جھاڑنے کا موقع مل جاتا۔ عادت سے مجبور اپنے اور دوسرے گھروں کے اندر کے بھید سنا جاتیں اس لیے اسے کسی قسم کی بھوک پیاس ہی نہ تھی۔ بھوک یا کاروباری قسم کی باتیں اس کے مطلب کی نہ تھیں۔ یہ پہلی بار تھی جو مولوی صاحب کو کوئی کاروباری باتکرنے کی توفیق ہوئی۔ مولوی صاحب نے جنت کی حوروں کا بڑے ہی رومانی اور دلکش انداز میں تذکرہ کیا۔ مولوی صاحب نے کہا کہ وہ انڈے کی طرح سفید ہوں گی اور ہر جنتی کو تعداد میں ستر ملیں گی۔ مولوی صاحب نے تو ان کی رنگت بیان کی لیکن اس کی سمجھ میں یہ آیا کہ حوریں انڈے دیں گی۔ مولوی صاحب جانے اور کیا کچھ کہتے رہے لیکن بھوک نے اس کے سوچ کو انڈوں کے گرداب سے باہر نہ آنے دیا۔اس نے سوچا سب لوگ تو جنت میں نہیں جائیں گے۔ اچھا کرنے والے ہی جنت میں جا سکیں گے۔ وہ ستر انڈے ابال کر بےحوری علاقہ میں ہر روز بیچا کرے گا۔ ایک انڈا اگردس روپے میں فروخت ہوا تو سات سو روپیے سیدھے ہو جائیں گے۔ سات سو روپیے منہ سے ہی کہنا ہے ہاتھ آنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ سوچ ذرا پھیلی تو مایوسی کا دوبارہ
330 سے دروازہ کھل گیا۔ سات سو میں ستر وہ اور ایک یہگویا اکہتر کا ناشتہ پانی ہی نہیں ہو سکے گا۔ باقی کا خرچہکہاں سے آئے گا۔ یہاں ایک کے لیے سارا دن مشقت اٹھاتاہے پھر بھی پوری نہیں پڑتی اور رات گئے تک ہاجاں کے کوسنے سنتا ہے۔ وہاں ستر کے طعنے مینے کیسے سن سکے گا۔ اسے مولوی صاحب کے اس ڈنڈی مار رویے پر سخت افسوس ہوا۔ خود پیٹ بھر کھاتا ہے اور اوروں کے لیے پیٹ بھر کھانے کا رستہ تنگ اور مشکل بنا رہا ہے۔ پھر اس کے منہ سے نکل گیا واہ مولوی صاحب واہ کیا کہنے آپ کے خود پیٹ بھر کھاتے ہو اور گریبوں کے لیے جنت میں بھی مشقت اور وہ ہی زمینی فاقہ۔
331 جواب :واہ مولوی صاحب واہ بروز :مئی 12:25:19 ,2017 ,18شام ُمحترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب۔ السلام علیکم۔ اپسے شاید پہلی دفعہ ُمخاطب ہو رہا ہوں۔ اور دیکھا یہی ہے کہ جناب اپنے مضامین پر تبصروں کا کم کم ہی جواب دیتے ہیں۔ لیکن اج مجھے لکھنا پڑا۔ جناب نے میرے دل کی بات کی۔ مولوی صاحبان جس طرح حوروں کے قصے سناتے ہیں تعجب ہوتا ہے کہ جنت کی ساری نعمتوں کو چھوڑ کر اس ’نعمت‘ ہی کی تفصیل کیوں اتنی محنت سےکرتے ہیں۔ ہمارے جاوید احمد غامدی صاحب کے مطابق تو یہ سب بس قصے کہانیاں ہیں۔ حوریں تو دنیا ہی کیخواتین کو کہا گیا ہے۔ خیر ،جو بھی ہے ،مجھ جیسا انسان تو جنت میں جا کر شاید اس طرف توجہ ہی نہ کر سکے۔ شاید کسی ابشار کے برابر چٹان پر بیٹھ کر غور و فکرمیں محو رہے۔ غور و فکر نہ بھی کرے تو ُچپ چاپ خالی دماغ کے ساتھ دور افق کو گھورتا رہے۔ یہ بھی کسینعمت سے کم نہیں۔ ابشار کا شور ہو ،فرصت ہو ،اور دماغ میں کوئی خیال نہ رہے۔ مارک گنگر کے مطابق ،جو
332 شادیوں کے نباہ کے طریقوں پر درس دیتے ہیں ،یہ نعمت (کہ دماغ میں کچھ سوچنے کی سرگرمی نہ چل رہی ہو) خواتین کو میسر نہیں۔ اور نہ ہی مرد ایسی کیفیت کے دوران خواتین کی مداخلت برداشت کرتے ہیں۔ اپنی بیویوں کی بھی نہیںُ ،کجا ستر ستر حوریں؟ یا شاید میرے جیسا ادمی جنت میں جا کر ان تمام سوالوں کے جوابات مانگے جو ہمارے لیے معمہ ہی بنے رہے ہیں۔ مثلاً کائنات کی ابتدا کیسے ہوئی؟ انسان کی تخلیق کیسے ہوئی؟ انسان کا ابتدائی دور کیسا رہا؟ کائینات کی وسعتیں کتنی ہیں؟ ہمارے مرنے کے بعد دُنیا میں کیا کیا ہوا؟ قران میں ہر خواہش پوری کرنے کا وعدہ ہے امیدہے یہ جوابات بھی ملیں گے۔ اور اگر رسائی پیغمبروں کے حصے تک ہو سکی تو ان سے ان کے قصے سن سن کر کتنا مزہ ائے گا؟ اس سب کے لیے وقت ہی کہاں ملے گا؟ میری سمجھ میں نہیں اتا کہ قُران نے تین چار مقامات پر اور نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے حوروں کا بھی چلتے چلتے ذکر کر دیا لیکن مسلمانوں کی تمام دلچسپیوں کا مرکز یہ حوریں ہی کیوں ہیں؟ یہ دیکھیے اس وڈیو میںایک مولوی صاحب کیسے للچائے ہوئے انداز میں حوروں
333 کا ذکر فرما رہے ہیں ،اور حوروں کے شوق میں ایسے بہکے کہ دنیاوی خواتین کو میلی ُکچیلی ،سڑی گلی اور :نجانے کیا کیا کہ رہے ہیں https://www.youtube.com/watch?v=WyeLaf1BCH0 اور کس انداز میں جنتیوں کے حوروں کے ساتھ تعلقات کا ذکر فرما رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے نبی ﷺنے ایسا کچھ نہیں کہا ہوگا۔ اور اگر کوئی حدیثوں کا حوالہدے گا تو میں بغیر تحقیق راویوں کو تو جھوٹا مان لوں گا لیکن یہ بازاری باتیں اپنے نبی سے منسوب نہیں کرنے دوں گا۔ پتہ نہیں یہ وڈیو مجھے یہاں دکھانی چاہیے بھی تھی کہ نہیں ،شرم محسوس ہوتی ہے۔ یہاں انے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ چند اصطلاحات جو اپ نے استعمال کی ہیں ان پر مجھے ذرا شک ہے۔ اور میں تمام احباب سے جو یہ پڑھ رہے ہوں رائے دینے کی درخواست کروں گا۔
334 ١۔ ’سیدھا سادا‘۔ میرے خیال میں (اور جو میں نے پڑھا ہے) یہ لفظ ’سیدھا سادھا‘ ہونا چاہیے۔ سادھا مہمل ہے سیدھا کا۔ کچھ لوگ سیدھا سادہ بھی لکھتے ہیں ،لیکن سادہ تو فارسی کا لفظ ہے اور اس کا مونث اور جمع بھی سادہ ہی ہونا چاہیے(سادہ روٹی ،سادہ کپڑے)۔ اس طرح سیدھا سادہ سے سیدھی سادی اور سیدھے سادے غلط ہوگا۔٢۔ ’ت ُو تکرار‘ نہیں ُسنا ،ہاں یہاں پنجاب میں ’تُو تکار‘ عامہے۔ لیکن شاید اردو میں ’تو تڑاق‘ کی ترکیب مستعمل ہے۔٣۔ کیا ’ٹھرک‘ اردو کا لفظ ہے؟ کوئی یوپی کے بزرگ ہوں تو بتا دیں۔ اخر میں پھر ڈاکٹر صاحب کا اپنی تحریر سے نوازنے کا شکریہ۔ ہمیں بھی دل کے پھپھولے پھوڑنے کا موقع مل گیا۔ اسد اللہhttp://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10617.0
335 ذات کا خول منسانہ اہل فقر کا عصری شاہ یا اس کے چمچوں کڑچوں سے کبھی کوئی ذاتی مسلہ نہیں رہا۔ سقراط‘ پادری ویلنٹائن‘ حسین ع‘ منصور ہوں کہ سرمد‘ نے کسی ذاتی مسلہ کی وجہ سے طاقت کے خلاف آواز نہیں اٹھائی اور ناہی کسی حصولی کی پاداش میں موت کو گلے لگایا۔ حصولی کے گاہک موت کے خریددار نہیں ہوتے۔ وہ لوگوں کے ساتھہونے والے ان جسٹ کے خلاف میدان میں اترتے آئے ہیں۔ ظلم اور ناانصافی کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ موت :کے منہ میں لوگوں کی خاطر گیے۔ لوگ مرے تھے جن کی خاطر وہ رہے وضو کرتےایک ہی چیز کا ایک ہی فروخت کنندہ لوگوں سے الگ الگ بھاؤ کرتا ہے۔ حالاں کہ اصولا ایک ہی بھاؤ ہونا چاہیے۔ کئی طرح کے بھاؤ معاشی ناہمواری کا سبب بنتے ہیں۔ اس روز مجھ میں بھی فقیری نے سر اٹھایا اور میں نے سوچا کہ یہ کئی بھاؤ کا رواج ختم ہونا چاہیے۔ میں نے
336 ایک دوکان دار سے اس طرح سے آخری بھاؤ کے لیےاچھی خاصی بحث کی جیسے میں پرچون کا نہیں‘ تھوک کا گاہک ہوں۔ میں نے اسے صاف صاف لفظوں میں کہا کہوہ بھاؤ بتاؤ جو لینا ہے۔ اس نے آخری بھاؤ بتا دیا جو اس کے منہ سے نکلنے والے بھاؤ سے کہیں کم تھا۔ مجھے بڑا برا لگا کہ یہ کیسے لوگ ہیں۔ اتنا منافع کماتے ہیں۔ میں نے اسے اس طرح سے آرڈر جاری کیا‘ جیسے میں مارکیٹ کا بڑا منشی ہوں حالاں کہ بڑے منشی کو کم یا زیادہ بھاؤ سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ وہ تو معاملے کو اپنی حصولی تک محدود رکھتا ہے۔ دوکان دار کو جب معلوم ہوا کہ میں نے کچھ لینا دینا نہیں بل کہ ایک ریٹ مقرر کرنے کے لیے بحث کر رہا ہوں‘ پہلے تو اس نے مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا‘ پھر پان سات نہایت آلودہ گالیاں نکالیں۔ وہ اسی پر ہی نہ رہا بل کہ پھرتی سے اٹھا اور میرے بوتھے پر کرارے کرارے کئی تھپڑ بھی جڑ دیے۔ میں اس ناگہانی حملے کی توقع نہ کرتا تھا لہذا اللہ کی زمین پر آ رہا۔ اچھے خاصے لوگ جمع ہو گیے۔ میں نے تو لوگوں کی بھلائی اور آسانی کے لیے یہ سب کیا تھا۔ لوگ میری
337سننے کے لیے تیار ہی نہ تھے۔ دوکان دار جو فروخت کے معاملہ میں کئی زبانیں رکھتا تھا‘ کی اونچی اونچی یاوہ گوئی پر توجہ کر رہے تھے۔ کسی کو یہ کہنے کی توفیقنہ ہوئی کہ یار وہ تو ٹھیک‘ حق اور معاشی توازن کی بات کر رہا ہے۔ ہر کوئی مجھ پر ہنس رہا تھا میرا ہی مذاق اڑا رہا تھا۔ اس واقعے کے بعد مجھ پر کھل گیا کہ حق سچ کے لیے لڑنا میرے بس کا روگ نہیں یہ منصور سے لوگوں کا ہی کام ہے۔ وہ دن جائے اور آج کا آئے میں نے بھی اوروں کی طرح معاملات کو اپنی ذات تک محدود کر لیا ہے۔ لوگآج بھی مجھے دیکھ کر ہنس پڑتے ہیں۔ ان کا ہنسنا مجھے اب ذات کے خول سے باہر نہیں ہی دیتا۔
338 ہزار کا نوٹ منسانہ جیب خالی ہونے کے سبب اور تو اور‘ میرے اپنے بچے اور ان کی ماں‘ جن کے لیے میں دن رات جیا اور زندگی کی مشقت اٹھاتا رہا۔ ان کی خوش حالی اور بہبود کے لیے میری سوچیں‘ خون پسینے میں نہاتی رہیں‘ پیار تو بہت دور کی بات‘ ٹوٹ ٹوٹ پڑتے تھے۔ وہ مجھے لایعنی اوربےکار کا بوجھ سجھتے تھے۔ دنیا چاری کے تحت دو وقت کی بچی کچی چار و ناچار مہیا کر رہے تھے۔ گھر کے ہرچھوٹے بڑے کے منہ یہ ہی رہتا‘ تم نے ہمارے لیے کیا ہی کیا ہے۔ حالاں کہ میں نے زندگی کا ہر لمحہ ان کے لیے گزرا تھا۔ بچے اسی عمل سے گزر رہے تھے‘ لیکن انہیں کبھی بھی یاد نہ آیا کہ ابا بھی ان مراحل سے گزرا ہو گا۔ مجھے دو روپیے دیتے ہوئے‘ ان پر غشی کی سی کیفیت طاری ہو جاتی۔ میرا لنگوٹیا کرم الہی کمائی کے لیے ولایت گیا ہوا تھا۔ ایک عرصہ بعد واپس لوٹا۔ ایک روز مجھے ملنے آ گیا۔
339 میرے گھر والوں نے اس کی بڑی عزت کی۔ اس کے باوجود اس نے نوٹ کیا کہ جیب کے بےوفائی نے مجھے گلی کے کتے سے بھی بدتر کر دیا ہے۔ میں نے اس سےان لوگوں کی کوئی شکایت نہ کی تھی۔ ان کے میرے ساتھرویے اور لباس کی عسرت نے اس پر سب کچھ کھول دیا۔ اس نے چلتے ہوئے ہزار کا نوٹ ۔۔۔۔۔ یقین مانیں ہزار کا نوٹ‘ میری مٹھی میں بند کر دیا اور آنکھوں آنکھوں میں کہہ دیا :احتیاط سے خود پر خرچ کرتے رہو‘ دیر تک چلے گا۔ میری آنکھیں تشکر سے لبریز ہو گیئں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ اس سے میرا کوئی خون رشتہ نہ تھا۔ بیس پچیس سال پہلے کی سلام دعا تھی۔ بےشک یہ بہت بڑے جگرے کی بات تھی۔ میری جیب کی ہریالی جانے گھر والوں پر کس طرح کھل گئی کہ وہ ہی گھر والے مجھے ہاتھوں پر اٹھائے پھرتے تھے۔ بڑے لڑکے نے اپنا تقریبا نیا جوڑا مجھے دے دیا۔ گھر والی میری چائے پانی کا خیال کرنے لگی۔ میمو ٹھگنی کی طرح شہد سے بڑھ کر میٹھی ہو گئی۔ میں ان کی ان اداؤں کو سمجھ رہا تھا۔ میں نے انہیں اپنا پلو نہ پکڑایا اور گانٹھ کا پکا رہا۔
340 گاؤں میں ہزار کا کھلا مل جانا ممکن نہ تھا۔ سوچا کرم الہی ہی سے کہتا ہوں کہ اس کا کھلا کروا دو۔ پھر سوچ گزرا کہیں اتنا بڑا نوٹ اس کی نیت ہی خراب نہ کر دے۔میں نے چار کوس کا سفر طے کرنا مناسب جانا۔ بازار آ کر کھلا کروایا اور کھلے پر گرفت کرکے اکیلے میں اسے گنا تو اس میں سے بیس کم تھے۔ مجھے بڑا افسوس ہوا کہشحص کے اندر بددیانتی کس طرح گھر کیے ہوئے ہے۔ اب وہ ہزار کا نوٹ نہیں نو سو اسی تھے۔ پھر مجھے خود اپنے اندر کی بددیانتی کا احساس ہوا کہ یار بلا مانگے دینے والا واپس کیوں لے گا ،کیسے ہیں ہم لوگ جواوروں پر تو انگلی رکھتے ہیں لیکن اپنے گریبان میں نہیںجھانکتے۔ شاید مفلسی و ناداری شخص کے سوچ کو گھٹیا بنا دیتی ہے۔ میں ان میں سے تھوڑے تھوڑے کرکے استعمال میں لاتا رہا۔ ایک دن گنتی کی تو معلوم ہوا کہ وہ سات سو اسی روپیے تھے۔ میں دیر تک غور کرتا رہا کہ ہزار کے نوٹ کی یہ اوقات ہے کہ اپنی حالت برقرار نہیں رکھ سکا۔ اس ہزار کے لیے سب میری عزت کر رہے تھے اور اس کےنہ ہونے کے سبب مجھے کتے سے بھی برتر سمجھ رہے
341 تھے۔ میں نے بقیہ رقم رشتے سے بڑھ کر نوٹ کی عزتکرنے والوں میں تقسیم کر دی اور خود مسجد میں ظہر کی نماز ادا کرنے چلا گیا۔ میں نے سوچا جو اللہ ماں کے پیٹ میں رزق فراہم کرتا مجھے کرتا ہی رہے گا۔ اللہ کو بھول کر نوٹ کے پجاریوں کی گرہ پر کیوں اعتماد کروں۔ اس بات کو دو سال ہو گئےہیں یقین مانیں کبھی فاقہ سے نہیں سویا۔ کہیں ناکہیں سے میسر آ ہی رہا ہے۔
342 پتنائی مہاورہ منسانہ کچھ بھی جو مہارت میں آ جائے اس کا روایت بن جانا فطری سی بات ہوتی ہے۔ روایت ایک شخص تک محدود نہیں رہتی۔ ایک سے دوسرا دوسرے سے تیسرا اور پھر اس کا سماج گیر ہو جانا اور اگلی نسلوں کو منتقل ہونا فطری عمل ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مختلف امرجہ میں اس کی ہیتی اور معنوی صورت بدل جاتی ہے۔ آتے وقتوں میں بھی وہ رواج میں رہتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ ویسا نہیں رہ پاتا جیسا ابتدا میں تھا۔ تکیہ ء کلام بھی اگر رواج میں آ جائے تو اسے محاورے- مہاورے کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح الگ سے کہی ہوئی بات بھی مہاورہ بن جاتی ہے یا بن سکتی ہے‘ جیسے کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
343 زلف کا سر ہونا :مہاورہ نہیں غالب کی اختراع ہے لیکن اسے مہاورے کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔یہ ہی صورت ایجادات و تخلیقات کی ہے۔ مارکونی کا ریڈیو کہاں سے کہاں تک جا پہنچا۔ آج اس کے بانی کا کوئی نام تک نہیں جانتا یا مار کونی کسی کو یاد تک نہیں۔ داستانی ادب میں دیکھیے کس طرح سے تبدیلی آئی۔ ناول افسانہ منی افسانہ نظمانہ منظومہ منسانہ شغلانہ وغیرہ اسی کی ترقی یافتہ صورتیں ہیں۔ ہائے میں مر جاں‘ ماں صدقے جائے‘ کتی دیا پترا وغیرہصدیوں سے چلے آتے‘ زنانہ مہاورے ہیں۔ کتی دیا پترا کو گلی میں مختلف اشکال ملی ہیں۔ ہاں البتہ باقی دو محضشخصی اور تقریبا ہر ماں خاتون کے تکیہءکلام تک محدود رہے ہیں۔ بھاگ پری بچوں کے حوالہ سے اس قسم کی بولیاں بولتی چلی آتی ہے۔ ایک دن مجھے خیال گزرا گلی میں خاتونی تکیہ کلام کو گھر میں بھی رواج دیا جائے۔ میں تاڑ میں رہا کہ کب لڑکا یا لڑکی کوئی شرارت کرتی ہے تو اسے کتی دیا پترا یا کتی دیئے دھیے کہتا ہوں۔ ایک بار بلا
344 ردعمل معاملہ ہو گیا تو اسے تکیہءکلام بنانا چنداں مشکل نہ ہو گا۔میری خواہش تھی کہ لڑکا ہی ٹارگٹ میں آئے کیوں کہ میںنے اپنی بچیوں کو کبھی کچھ نہیں کہا۔ پتا نہیں کیسا نصیبا ہو۔ ماں باپ کے گھر میں ہی سکھ سکون ملتا آیا ہے۔ میری خواہش پوری ہوئی منجھلا ہی گرفت میں آیا اور خاتونی مہاورے کے گھر میں رواج پانے کی خواہش کاتلخ تجربہ ہوا۔ وہ شرارتیں کرتا ہوا اچھل کود رہا تھا کہ گر گیا۔ بری چوٹ آئی۔ میں پھرتی سے اٹھا۔ خیال گزرا موقع ہے مہاورہ آزمایا اور اس کا ردعمل دیکھا جائے۔ میں نے اٹھتے ہی اسے کتی دیا پترا دیکھتے نہیں ہو چوٹ آ گئی ہے‘ کہا۔ یقین مانیے میں نے چور آنکھ سے بھی بھاگ پری کی طرف نہ دیکھا۔ جب کوئی بچہ گر جاتا اس کا بھی ردعمل یہ ہی ہوتا تھا۔میں نے کوئی الگ سے نہ کیا تھا۔ بچہ برابر روئے جا رہا تھا۔ اس کو پوچھنے اور دیکھنے کی بجائے مجھ پر برس پڑی کہ اب میں کتی ہو گئی ہوں۔ میں ہی زیادہ بولتی ہوں۔ تمہارا ماں کم بولتی ہے۔ تمہاری بہن کی تو گز پھر زبان ہے۔ انہیں تو تم نے کبھی کتی نہیں کہا۔ دیر تک بلاتھکان
345بولتی رہی اور میں بھ بھیڑ بنا بیٹھا رہا۔ کچھ میں بھی کہتا تو سارا دن بنے تھا۔ پھر اس نے برقعہ اوڑھا اور میکے جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ میں نے بڑی منت سماجت کی لیکن وہ نہ مانی۔ آخر وہ جا کر رہی۔ آج اس کو گئے بیس دن ہو گئے ہیں۔ دو بار لینے گیا ہوں لیکن وہ نہ آئی۔ اب صبح سویرے اٹھتا ہوں بچوں کو اسکول کے لیے تیار کرتا ہوں۔ انہیں رخصت کرکے دوکان پر بیٹھ جاتا ہوں۔بچے اسکول سے سیدھے دوکان پر آ جاتے ہیں۔ انہیں لے کر گھر آ جاتا ہوں۔ ان کے ناشتے پانی کا بندوبست کرتا ہوں۔ گویا بھاگ پری کی ذمہ داری بھی اچھی بری مجھے ہی نبھانا پڑ رہی ہے۔ ایک بار اس نے کہا تھا میں چلی گئی تو ہی تمہیں میری قدر پڑے گی۔ اس کے جانے سے میری جیب اور کان سکھی ہیں لیکن لیبر کے اضافے نے تھوڑا نہیں کافیپریشان کر رکھا ہے۔ اس تجربے کی بنا پر میں یہ کہتا ہوںکہ پتنائی مہاورے کو گھر میں رواج دینے کی بجائے ان کا پتنی تک محدود رہنا ہی گھریلو لیبریائی حیات سے بچا سکتا ہے۔
346 سوچا تھا اگر برداشت کر گئی تو اس کے بولنے پر یا دنبھر کی تھکن ان مہاوروں کے استعمال سے کچھ ناکچھ تو کم کرنے میں آسانی ہو جائے گی۔ یہ بھی ایک طرح سےمیری تھکن اور غصے کا کتھارس-انشراع ہوتا۔ مگر ایسیقسمت کہاں کہ میری خواہش کو بھی تکمیل کا مزا مل جاتا۔ اب مجھے کیا پتا تھا کہ میں دانستہ اپنے کلہاڑی مار رہا ہوں۔ اس کا عمل کتنا دوہرا تھا کہ اپنے ہی عمومی کہے گئے کے دہرانے کو گل سے لل ١بنانے پر اتر آئی تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گل بات ١- لل لیلا سے‘ داستان کہانی -پھیلاؤ
347 کچھ ہی دور لوکانہ کرداری اعتبار سے بلاشبہ وہ بےمثال تھی۔ اب تو وہ ادھ کھڑ تھی لیکن جوانی میں بھی کبھی کسی نے اس کےمتعلق کوئی غلط بات نہ سنی تھی۔ جوان تھی خوب صورت تھی ہر لباس اس پر جچ جاتا تھا۔ ناز نخرا ادائیں سب کچھ تھا لیکن کسی کو اس کی جانب نظر اٹھانے کی جرآت نہ ہوتی تھی۔ برے کا اس کی قبر تک پیچھا کرتی تھی۔ غصہ کی اس وقت بھی سور ١تھی۔ اب تو خیر تجربہ کار تھی۔ منٹ سکنٹ میں لال پیلی ہو جاتی۔ میاں اور اس کے رشتہ دار ایک طرف ہم سایہ کی عورتیں بھی اس کے سامنے کسکتی نہ تھی۔ میدان کی بڑی بڑی یودھا اس کے سامنے ڈھیر ہو جاتی تھیں۔ کوئی مان نہیں سکتا تھا کہ وہ بھی مر جائے گی۔ اس کا سامنا کرتے موت کا فرشتہ بھی کانپ کانپ جائے گا۔ بڑی حیرت کی بات تھی کہ موت کا فرشتہ اس کی جان لے ہی گیا۔ اچھی بھلی تھی۔ باتیں کر رہی تھی۔ صبح ہی اس نے
348 خاتون میدان خالہ کرامتے کی بس بس کرا دی تھی۔ سارادن یہ ہی موضوع زیر گفت گو رہا۔ سب حیران تھے کہ اس نے خالہ کرامتے کو بھی میدان میں چت کر دیا۔ زہے افسوس موت کا فرشتہ میدان مر گیا۔ یہ ایک کرشمہ تھا جو ہو گیا۔ اس کا سفر آخرت شروع ہوا۔ جنازہ میں توقع سے زیادہ لوگ شامل تھے۔ ہر کسی کے منہ سے اس کے لیے اچھا ہی کلمہ نکل رہا۔ اس کے کردار کی ہر کسی کے منہ میں ستائش تھی۔ جنازے کی روانگی میں حسب روایت بڑی سرعت تھی۔ اچانک ارتھی کھمبے سے تکرائی۔ کندھا دینے والوں نے نیچے تو نہ گرنے دی لیکن ایک اچھا خاصا جھٹکا ضرور لگا کہ میت کا انجر پنجر ہل گیا۔ میت اٹھ کر بیٹھ گئی۔ سب حیرت میں ڈوب گئے کہ موت کیتصدیق تو ڈاکٹر نے بھی کر دی تھی۔ عالم برزخ تک جاتے دھائی کے یدھ ہوئے ہوں گے۔ وہ سب کو پچھاڑ کر واپسلوٹ آئی تھی۔ بڑے بڑے وجیتا رہے ہوں گے لیکن اس سا وجئی شاید ہی کوئی رہا ہو گا۔ اب وہ پہلے سی نہ تھی۔ کوئی کچھ کہتا تو زیادہ ترخاموش رہتی۔ پہلے کی طرح مرنے مارنے پر نہ اترتی۔ یہ
349 بہت بڑی تبدیلی تھی۔ اس کی اس تبدیلی پر سب حیران تھے۔ اس سے جب کوئی اس عارضی موت کے متعلق پوچھتا تو وہ منہ کھولنے سے زیادہ کچھ نہ کر پاتی۔ خدائی راز ہوں گے جو کہے نہ جا سکتے ہوں گے۔ اس حادثے کے بعد وہ چار سال زندہ رہی۔ نماز روزہ کی پابند ہو گئی۔ اچھے منہ بولتی ہاں البتہ کام کاج سے موڑگئی۔ سارا دن بیٹھی رہتی گویا پکی پکائی کی طالب ہو گئی۔ پہلے اس کی زبان سے گھر اور باہر کے چالو تھے۔ ابباہر کسی خاتون کو اس سے کوئی شکایت نہ تھی ہاں گھر کے لوگ اس کے نکمےپن سے اکتا اور تھک سے گئے تھے۔ وہ ان کے لیے لایعنی سی ہو گئی تھی۔ پھر ایک دن اللہ کو پیاری ہو گئی۔ محلہ کے لوگ ان کے ہاں بڑھے چلے آئے۔ گھر کے لوگ پہلی مرتبہ کی طرح جعلی رونا دھونا کر رہے تھے۔ آخر آخری آرام گاہ کی طرف سفر شروع ہو گیا۔ ہر کوئی جانتا تھا کہ اب وہ موت کے فرشتے سے جنگ نہیں کرے گی۔ اب اس کی واپسی نہیں ہو سکے گی۔ کھبے سے کچھ ہی دور سے اس کے :خاوند نے چلانا شروع کر دیا
350 پہا جی کھمبا بچا کے ۔۔۔۔ پہا جی کھمبا بچا کے۔۔۔۔۔ پہا جی کھمبا بچا کے کھمبا خیر خیریت سے گزرا تو اس کی زبان منہ میں پڑی۔ یہ بات سب کے لیے حیرت کی تھی کی اب وہ یدھا نہ رہی تھی۔ وہ پہلے کی سی تھی ہی نہیں پھر اس کا خاوند کیوں مسلسل چلائے جا رہا تھا پہا جی کمبا بچا کے۔ شاید اسےاب بھی شک تھا کہ مرنے والی کا اس موقع پر پرانا جوش و جذبہ بیدار نہ ہو جائے۔ اسے آسودہءخاک ہوئے آج ایک عرصہ ہو گیا ہے لیکنلوگ اس واقعہ کو اب تک نہیں بھلا سکے۔ کبھی کبھار اس واقعہ کا ذکر کہیں ناکہیں ہو ہی جاتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زبردست‘ بہادر ١-
Search
Read the Text Version
- 1
- 2
- 3
- 4
- 5
- 6
- 7
- 8
- 9
- 10
- 11
- 12
- 13
- 14
- 15
- 16
- 17
- 18
- 19
- 20
- 21
- 22
- 23
- 24
- 25
- 26
- 27
- 28
- 29
- 30
- 31
- 32
- 33
- 34
- 35
- 36
- 37
- 38
- 39
- 40
- 41
- 42
- 43
- 44
- 45
- 46
- 47
- 48
- 49
- 50
- 51
- 52
- 53
- 54
- 55
- 56
- 57
- 58
- 59
- 60
- 61
- 62
- 63
- 64
- 65
- 66
- 67
- 68
- 69
- 70
- 71
- 72
- 73
- 74
- 75
- 76
- 77
- 78
- 79
- 80
- 81
- 82
- 83
- 84
- 85
- 86
- 87
- 88
- 89
- 90
- 91
- 92
- 93
- 94
- 95
- 96
- 97
- 98
- 99
- 100
- 101
- 102
- 103
- 104
- 105
- 106
- 107
- 108
- 109
- 110
- 111
- 112
- 113
- 114
- 115
- 116
- 117
- 118
- 119
- 120
- 121
- 122
- 123
- 124
- 125
- 126
- 127
- 128
- 129
- 130
- 131
- 132
- 133
- 134
- 135
- 136
- 137
- 138
- 139
- 140
- 141
- 142
- 143
- 144
- 145
- 146
- 147
- 148
- 149
- 150
- 151
- 152
- 153
- 154
- 155
- 156
- 157
- 158
- 159
- 160
- 161
- 162
- 163
- 164
- 165
- 166
- 167
- 168
- 169
- 170
- 171
- 172
- 173
- 174
- 175
- 176
- 177
- 178
- 179
- 180
- 181
- 182
- 183
- 184
- 185
- 186
- 187
- 188
- 189
- 190
- 191
- 192
- 193
- 194
- 195
- 196
- 197
- 198
- 199
- 200
- 201
- 202
- 203
- 204
- 205
- 206
- 207
- 208
- 209
- 210
- 211
- 212
- 213
- 214
- 215
- 216
- 217
- 218
- 219
- 220
- 221
- 222
- 223
- 224
- 225
- 226
- 227
- 228
- 229
- 230
- 231
- 232
- 233
- 234
- 235
- 236
- 237
- 238
- 239
- 240
- 241
- 242
- 243
- 244
- 245
- 246
- 247
- 248
- 249
- 250
- 251
- 252
- 253
- 254
- 255
- 256
- 257
- 258
- 259
- 260
- 261
- 262
- 263
- 264
- 265
- 266
- 267
- 268
- 269
- 270
- 271
- 272
- 273
- 274
- 275
- 276
- 277
- 278
- 279
- 280
- 281
- 282
- 283
- 284
- 285
- 286
- 287
- 288
- 289
- 290
- 291
- 292
- 293
- 294
- 295
- 296
- 297
- 298
- 299
- 300
- 301
- 302
- 303
- 304
- 305
- 306
- 307
- 308
- 309
- 310
- 311
- 312
- 313
- 314
- 315
- 316
- 317
- 318
- 319
- 320
- 321
- 322
- 323
- 324
- 325
- 326
- 327
- 328
- 329
- 330
- 331
- 332
- 333
- 334
- 335
- 336
- 337
- 338
- 339
- 340
- 341
- 342
- 343
- 344
- 345
- 346
- 347
- 348
- 349
- 350
- 351
- 352
- 353
- 354
- 355
- 356
- 357
- 358
- 359
- 360
- 361
- 362
- 363
- 364
- 365
- 366
- 367
- 368
- 369
- 370
- 371
- 372
- 373
- 374
- 375
- 376
- 377
- 378
- 379
- 380
- 381
- 382