251 صالیحین کہتے آئے ہیں جو کہو وہ کرو ہم اہل شکم ضدین کے قائل ہیں کہنا اور کرنا زیست کے دو الگ رستے ہیں کہے بن بن نہیں آتی کرتے ہیں تو شکم پر لات لگتی ہے نہ کرنے میں ہی تو شکم کی سلامتی ہے جو شکم کا دشمن بنے گا نیزے چڑھے گا زہر کا پیالہ اس کا مقدر ٹھہرے گا آگ میں ڈالا جائے گا زبان سے کہتے رہو ہم جو کہتے ہیں وہ کرتے ہیں ہم بھی یہ جانتے ہیں سننے والا بھی اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہم اللہ اور اس کے رسول کا
252 دل و جان سے احترام کرتے ہیں شیو ہو کہ وشنو موسی ہو کہ عیسی زرتشت ہو کہ مہآتما بدھ رام اور کرشن بڑے لوگ تھے بھلا ہم ان سے کیسے ہو سکتے ہیں ان کی ہر کرنی کو سلام و پرنام بےشک وہ عزت کی جا ہیں ان کی کہنی اور کرنی ایک تھی وہ ایک کے قائل تھے مصیبت میں رہے ہر لمحہ صعوبت میں رہے اپنی کہنی پر استوار کرنی کا پرنالہ نہ وہ بدل سکے وہ بڑے تھے بھوکے رہ سکتے تھے ہماری ضرورتیں حاجتیں ان سے جدا وہ کہنی پر چل کر بڑے تھے کہہ کر نہ کرنے سے ہی مال آتا ہے
253 اچھا کھاتے ہیں بڑے گھر میں رہتے ہیں لوگ سلام بلاتے ہیں یہ ہی نہیں ہم سے ڈرتے ہیں دنیا میں رہتے ہیں دنیا کی اور بڑائی کیا ہوتی ہے ان سے کون ڈرتا تھا ان کی کون سنتا تھا ان کے جو قدم لیتا رہا وہ ہی معتوب ہوا کیا یہ کم ہے کہ ہم خود سے گزر کر انہیں مانتے ہیں قبر میں کیا ہو گا حشر میں کیا ہو گا یہ آتے وقتوں کی بات ہے قبروں میں ان پر کیا ہو رہا ہے کب کوئی دیکھ رہا ہے مجرم تب ٹھہریں گے
254 جب کہنی پر کرنی استوار نہ مانیں گے یہ تو اصول حیات ہے اس کا کون کافر منکر ہے کیا یہ کافی نہیں اس پر ہمارا ایمان و یقین ہے
255
256
257 باؤ بہشتی باپ ہو کہ ماں معتبر ہیں محترم ہیں زندگی کی مشقت تو ہے ہی بچوں کے پالن پوسن کی بھی محبت سے پیار سے خلوص سے ماں مشقت اٹھاتی ہے زبان پر شکوے کا کلمہ کب لاتی ہے باپ بھی دنیا میں بےبدل رشتہ ہے منہ کا لقمہ جیب میں رکھ لاتا ہے منا کھائے گا گڑیا کے کام آئے گا دونمبری کمائی اکیلا وہ کب کھا جاتا ہے پیٹ بھر سہی‘ حصہ کے لقمے پیٹ میں لے جاتا ہے
258 عمرا چور اپنے بچوں پر جان دیتا تھا خراش بھی آتی تو تڑپ تڑپ جاتا تھا کس کے لیے آدھی رات کو گھر سے قدم باہر رکھتا تھا وہ ڈاکو نہیں تھا ہاں چوری میں نام خوب کمایا تھا پر اتنی بات ہے علاقے کا ہر گھر عزیز رکھتا تھا اس ذیل میں کوئی اس پر انگلی اٹھا نہیں سکتا جانا تو ہے اس سے کب مفر ہے اک روز وہ بھی حرف آخر ہوا جنازے میں خاص و عام شامل تھے چڑھی قسمت دیکھیے سات صفوں کا جنازہ ہوا ہر کوئی
259 علاقے میں اس کی شرافت کے گن گا رہا تھا کئی دن بھورا بےرونق نہ ہوا اک آ رہا ہے تو اک جا رہا ہے اس کا بڑا لڑکا بھورا نشین رہا اپنے انداز سے باپ کے گن گاتا تھا کہتا تھا باؤ بہشی کوئی کچا چور نہ تھا بس اک ادھ بار پکڑا گیا پلس ٹل لگاتی رہی مگر وہ نہ مانا تھا قسم لے لو جو کبھی چوری کے جرم میں جیل گیا اس کی کوئی چوری پلس ریکارڈ میں نہیں یہ کھلی بکواس ہے کہ وہ چور تھا اس کے پکے پیڈے ہونے پر سب عش عش کر اٹھے یہ بھی اس نے بتایا
260 جب عمرا اس کی ماں کو بھگا کر لایا وہ اس کے پیٹ میں تھا نانا اس کا علاقے کا بڑا کھنی خاں تھا زور اس نے ایڑی چوٹی کا لگایا مگر کہاں باؤ بہشی نے اس کی ایک بھی نہ چلنے دی بازو دے دیتا تو کیا لاج رہتی تھک ہار کر نانا ہی اس کا چپ ہو گیا اس کے پاس اس کے سوا کوئی رستہ بھی نہ تھا آفرین آفرین فلک بوس نعرہ بلند ہوا عمو کماگر نے یہ لقمہ دیا صدیوں بعد ایسے پوت جنم لیتے ہیں انو کہنے لگا ہمیں اس کی جی داری پر ناز ہے شیر تھا دلیر تھا یہ سب کیوں تھا
261 عمرے کا بڑا پوت باپ کے اصولوں کو بھول گیا تھا آغاز اس کا علاقے سے ہوتا تھا جب کبھی خالی ہاتھ رہتا تو ہی رخ باہر کا کرتا محنت کی کمائی ہر کسی کو عزیز ہوتی ہے ٹی سی ہی وہ راہ تھی کہ وہ اس کے گھر سے ٹلا رہے اس حوالہ سے اس کے باؤ بہشتی کی ہر دل میں یاد تازہ بہ تازہ تھی اگلے وقتوں کے طور ہی کچھ اور تھے اپنے علاقے کی عزت ہر آنکھ میں تھی آج خرابی گھر سے شروع ہوتی ہے خیر اب چوری کی رسم بد کب رہ گئی ہے یہ رسم اگلے وقتوں کی تھی نمرود عصر بڑی کرسی پر بیٹھ کر ڈاکے ڈلواتا ہے
262 سامان لٹ جائے خیر ہے اور آ جائے گا فرعؤن بچوں کو مرواتا تھا یہ بچوں بوڑھوں ضعیفوں گریبوں مسکینوں کو بھی کھا پی جاتا ہے ہاں اتنا ضرور ہے عمرے کے قدموں پر ہے مگر اس کے حرامی بچے عمرے کے بچے کے پیرو ہیں لوگ آج بھی عمرے کو یاد کرتے ہیں منہ پر نہیں پر آگے پیچھے اس کے بیٹے کو برا بھلا کہتے ہیں
263 کوئی کیا جانے اس کے اچھا اور سچا ہونے میں مجھ کو کیا‘ کسی کو شک نہیں برے وقت میں اوروں کی طرح منہ پھیر نہیں لیتا دامے درمے سخنے ساتھ رہتا ہے سچے کو سچا جھوٹے کو جھوٹا منہ پر کہتا ہے جینے کے لیے یہ طور اچھا نہیں اس کی اس گندگی عادت نے مفت میں اس کے کئی دشمن بنا رکھے ہیں اصل اندھیر یہ جن کے حق میں کہہ جاتا ہے وہ ہی اس سے منہ پھیر لیتے ہیں
264 بہت کم اسے پرے پنچایت میں بلایا جاتا ہے بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہو جاتی اٹھنے بیٹھنے کے مغرب نے ہمیں طور طریقے سکھائے ہیں بقول مغرب کے ابھی ہم چودہ سو سال پیچھے ہیں دس محرم کو اک ماتمی جلوس گزر رہا تھا اک انگریز جو ادھر سے گزر رہا تھا اس نے ساتھ چلتے چمچے سے پوچھا یہاں کیا معاملہ ہے کیا ہو رہا ہے چمچے نے بتایا حسین کی شہادت کا جلوس گزر رہا ہے وہ حیران ہوا اور کہا انہیں اب پتا چلا ہے
265 چمچمے نے وضاحت نہ کی اور ہاں میں ہاں ملائی وہ صاحب تھا یس سری کا ہی تو عوضانہ دیتا تھا میاں حق قناعت لیے پھرتا تھا تب ہی تو بھوکا مرتا تھا سب چھوڑو ایک عادت اس کی عصری آدب سے قطعی ہٹ کر تھی کار قضا کبھی کسی تقریب میں بلا لیا جاتا دیسی کپڑوں میں چلا جاتا چٹے دیس کے اہل جاہ کی برائیاں گننے بیٹھ جاتا یہ بھی نہ دیکھتا کہ کوئی ناک منہ چڑھتا ہے لوگ کھانا کھانے کھڑے ہوتے زمین پر وہ رومال بچھا کر بیٹھ جاتا کانٹوں چمچوں کے ہوتے
266 ہاتھ سے کھاتا کھا کر اچھی طرح انگلیاں چاٹتا ٹشو پیپر کو چھوڑ کر ہاتھ دھوتا سچی بات ہے یہ اطوار دیکھ کر سب کو بڑی کراہت ہوتی ہمارے ہاں اک اور سچ پتر رہتے ہیں معاملہ ان سے پوچھنے چلے گیے بقول اس کے میاں حق کا کہنا ہے کھڑے ہو کر کھانے سے شخص کا زمین سے رشتہ نہیں رہتا معدہ متاثرہوتا ہے دل دماغ اعصاب پر برا اثر پڑتا ہے بیٹھ کر کھانے سے جسم کا زمین سے رشتہ رہتا ہے زمین میں سو طرح کی دھاتیں ہیں جو جسم پر اپنے اثر چھوڑتی ہیں
267 چوکڑی مار کر بیٹھنے سے سکون کی کیفیت رہتی ہے ہر انگلی کو دل ہر لمحہ تازہ خون سپلائی کرتا ہے ہر شخص کے خون کا گروپ الگ ہوتا ہے ہاتھ ملانے گلے ملنے سے سو طرح کے جراثیموں سے مکتی ملتی ہے ہاں زنا کی بات اور ہے زانی تم نے دیکھے ہوں گے ذرا غور کرنا یک زنی اور صد زنی کے اطوار میں فرق کیا ہے حلالی حرامی کی پیدائش کو الگ رکھیے زانی کا بدن زانی کے بول زانی کی شخصیت
268 فطری توزان میں نہیں رہتی ہمارے اس سچ پتر پر میاں حق کی باتوں کا بڑا اثر ہوا ساری رام لیلی اس نے آ کر ہمیں سنائی سارے ان باتوں پر خوب ہنسے اور ٹھٹھا بنایا وہ رائی بھر بھی نہ ہنسا نہ مسکرایا ہم نے اسے بڑا ڈھیٹ کیا ٹس سے مس نہ ہوا سب یک زبان ہو کر بولے لو اک اور علاقے کے گلے گلاواں پڑا میاں حق چل بسا رنگو نے آ کر اچانک یہ خبر سنائی محفل پر سکوت چھا گیا سچ پتر ڈھاڑیں مار کر رونے لگا قانون قدرت ہے سچ باقی رہے گا اسے باقی رہنا ہے
269 کوئی کیا جانے میاں حق علاقے کا گہنا تھا اب سچ پتر گہنا ہے
270 کل کو آتی دفع کا ذکر ہے پچھلی دفعہ کی اہمیت سے مجھ کو انکار نہیں شخص کا وہ اترن ہے یہ اترن ہی شخص کی وضاحت ہے اس پر ناز کیسا غرور کیسا میں کیسا ہوں یہ ہی اصل حقیقیت ہے خدارا مورکھ کے پاس نہ جائیے سچ کم جھوٹ زیادہ بولتا ہے جو ہوتا نہیں کہتا ہے جو ہوتا ہے کہتا نہیں شاہ کا چمچہ ہی نہیں وہ فصلی بٹیرا بھی ہے چوری خور کب حق سچ کی کہتے ہیں شخص کا کاتب نہیں شاہ اور شاہ والوں کی وہ منشی گیری کرتا ہے شخص کے اس اترن کی کتھا
271 شاعروں کے ہاں تلاشیے سچ وہاں مل جائے گا علامتوں استعاروں میں ہی سہی سب کچھ وہ کہہ گیے ہیں اورنگی عہد کا سچ کہیں اور کب ملتا ہے رحمان بابا کہتا ہے مجنوں کا کوئی کیا حال پوچھے ہر گھر صحرا کا نقشا ہے یہ شاعر ہی تھا جو اشارے میں بہت کچھ کہہ گیا مورکھ کو سچ کہنے کی توفیق کہاں ہاں داستانی ادب ہو کہ مقامی حکائتیں حق ان بھی بھی کہیں ناکہیں لکا چھپا ہوتا ہے خیر جو بھی معاملہ رہا ہو پچھلی دفعہ کا یہ ذکر ہی نہیں یہ کل کو آتی دفع کا ذکر ہے
272 شرق کا اک سیانا ستاروں کے علم سے آگاہ تھا زمین کا وڈیرا لٹیرا دھونس سے اسے اپنے پاس لے گیا پہلے آنکھیں دکھائیں نہ مانا تو تشدد کیا بڑا ڈھیٹ نکلا تو بھوک کی چادر اڑھا دی آخر کب تب تک زبان اس نے کھول ہی دی موت سے ڈرا موت صلہ ٹھہری بھلائی کے بدلے شاباش کم ہی ملتی ہے خیر اس نے تو مجبوری میں آ کر اپنا سینہ کھولا پولے پیریں بتا دیتا تو بھی اس کا یہ ہی حشر ہوتا زمین کے ہر چپے پراس کی حکومت تھی سورج چاند ستارے سارے کے سارے تصرف میں اس کے آ چکے تھے
273 اس حقیقت کے باوجود کوئی ناکوئی زمین کا سانس لیتا مردہ کچھ ناکچھ کہیں ناکہیں گڑبڑ کر ہی دیتا سرکوبی کے جتن میں گرہ خود سے ہتھیایا سکہ نکل جاتا ہر جاتا سکہ اس کو ادھ مویا کر دیتا کل کو آتی دفع کے ذکر میں اس بات کا باور کرانا ضروری ہے وہ شرقی جان سے گیا کسی شریک کا ہونا وڈیرے کو کیسے گوارہ ہوتا ستاروں کا علم آنے کی دیر تھی کہ حوصلہ اس کا ہمالہ کی بلندی کو بھی پار کر گیا ہر چلتا پھرتا بدیسی اس کو کیڑا مکوڑا لگنے لگا اس کے کسی دیسی کو اس کے کسی عمل پر کیوں اعتراض ہوتا
274 پیٹ بھرے سوتا پیٹ بھرے اٹھتا جو بولتا اس کے منہ میں زیرہ رکھ دیتا بدیسی کسکتا بھی تو اس کا ستارہ بدل دیتا مشتری سے جب وہ زحل میں آتا وہ جی جان سے جاتا یہ مسکراتا قہقہے لگاتا اسے کوئی پوچھنے والا نہ رہا ہر سو خوف و ہراس کا پہرا ہوا ہر بدیسی کے زحل میں آنے سے قتل و غارت کی دنیا شاد و شاداب تھی اک بے سہارا وچارے سے لڑکے کا بھوک کے سبب میٹر گھوم گیا زحل میں آئے اس کے ستارے کی یہ بددیسی چال تھی کسی میاں میٹھو نے اسے خبر کر دی اس نے فورا سے پہلے اس کا ستارہ بدل دیا جلدی میں اس سے چوک ہو گئی
275 درمیاں زحل کے جانے کی بجائے ستارہ مشتری میں جا بسا پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے کچھ کا کچھ ہو گیا اس کے اقتدار کا گراف نیچے گرنے لگا وہ بوکھلا گیا بوکھلاہٹ میں ہر صحیح بھی غلط ہونے لگا پھر کیا تھا آتے کل کی دفع میں وڈیرے کا اپنا ستارہ کہیں گم ہو گیا سب سے پہلی دفعہ میں بھی ایسا ہی ہوا تھا ابلیس کی گڈی چڑھی ہوئی تھی فرشتہ ہو کہ جن اس کے قدم لیتا تھا تکبر زہریلا لاوا اگلنے لگا اس کے سب کے خالق نے پہلا آدم تخلیق کیا
276 اسے ہی نہیں سب کو سجدہ کا حکم دیا اس کا قیاس تھا کہ آدم زحل ًمیں وجود پایا ہے اس کی یہ ہی بھول تھی غصہ و قہر میں لمحوں کی گنتی بھول گیا آدم تو مشتری کی بہترین ساعت کی تخلیق تھا اللہ کی حکمت اگر کھل جائے تو وہ اللہ تو نہ ہوا اللہ کے آنے کے ان حد رستے ہیں قہر کے رستے سے آئے یا عطا کے رستے سے کون جان سکا ہے آتے کل کی دفع میں شکست آخر ابلیس کے پیرو کا مقدر ٹھہری ویدی کا ویدان تو اپنی ذات میں اٹل ہے دیو ہو کہ جن شخص ہو کہ ملک اس کے سامنے بےبس ہے اس کی ہونی میں کب کسی کا کوئی دخل ہے
277 دجال آئے کہ اس کا پیو آئے اس کی خدائی نہیں چل سکتی حسین کے پیرو اس کی راہ میں آتے رہیں گے وہ آگ میں پڑنے سے زہر پینے سے سر کٹوانے سے کب ڈرتے ہیں دجال عصر سن لو! تمہیں میں یہ کہے دیتا ہوں تمہارا ستارہ زحل میں آنے کو ہے یہ ہی ہوتا آیا ہے یہ ہی ہوتا رہے گا کہاں ہیں یونانی کہاں ہیں رومی بس ان کی کہانیاں باقی ہیں ہاں وہ سب تکبر کی آگ کا ایندھن بنے جل بھن گئے راکھ تک باقی نہ رہی سکندر ہو کہ قاسم محمود ہو کہ چرچل بابر بھی عیش کوشی کے سامان کرتا رہا کچھ کھا پی گئے
278 کچھ جمع آوری میں مشغول رہے کسی نے تاج محل تعمیر کیا عورت کے تھلے کی خوشنودی کی خاطر کئی نور محل تعمیر ہوئے کوئی اپنے ساتھ کب کچھ لے گیا نام اللہ کا باقی ہے نام اللہ کا باقی رہے گا گزری دفعہ کی یہ ہی کتھا تھی آتی دفع کی بھی یہ ہی کتھا ہوگی
279 کڑکتا نوٹ اس بات کو آج کوئی نصف صدی ہوئی آج بھی نوششہءصدر ہے سکول کی اسمبلی میں کھڑے تھے بڑے ماسٹر صاحب نے باآواز بلند کہآ کسی کے پاس روپے کا کڑکتا نوٹ ہے خاموشی چھا گئی روپیے کا نوٹ اوپر سے کڑکتا گریبوں کا فیس معافی سکول تھا کسی سیٹھ کی تجوری نہ تھی سو کا نوٹ بھی پوچھتے اس کے غلے میں مقید ملتا آخر چپ ٹوٹی
280 سکول کے مالی کی جیب سے نکل آیا سب کو حیرت ہوئی مالی کی جیب میں روپیے کا کڑکتا نوٹ میلا رام کا سر فخر سے تن گیا فخر اسے کیوں نہ ہوتا اتنوں میں فقط ایک وہ ہی تھا جس کی جیب سے روپیے کا کڑکتا نوٹ نکلا تھا خیر چھوڑیں بات ذرا آگے بڑھاتے ہیں بڑے ماسٹر صاحب نے روپیے کا وہ نوٹ سب کو دکھایا پتا نہیں کتنے مونہوں میں پانی آ گیا انہوں نے پوچھا یہ نوٹ کتنے کا ہے سب نے یک زبان ہو کر کہا ایک کا ہے نوٹ انہوں نے دوہرا چوہرا کر دیا پوچھا اب یہ نوٹ کتنے کا ہے
281 سب نے کہا ایک کا ہاں البتہ میلہ رام کے تیور بگڑ گئے بعد اس کے نوٹ انہوں نے ہاتھوں میں مسل دیا پھر پوچھا یہ نوٹ کتنے کا جواب وہ ہی تھا کہ ایک کا نوٹ کی حالت دیکھ کر میلہ رام کا چہرا زرد پڑ گیا نوٹ انہوں نے اپنے پاؤں سے مسل دیا پوچھا اس نوٹ کی قدر کیا ہے سب نے کہا ایک روپیہ اب کہ میلہ رام کی طبیت خراب ہو گئی بڑے ماسٹر صاحب کی وہ نگاہ میں تھا انہوں نے فورا سے پہلے کڑکتا نوٹ جیب سے نکالا اور میلا رام کو تھما دیا رگڑا مسلا نوٹ اپنی جیب رکھ لیا
282 کہ وہ اب بھی ایک کا تھا چیز دونوں کی ایک سی آنی تھی نیا ہو کہ پرانا اس سے کیا فرق پڑتا ہے نوٹ دونوں ایک کے تھے بڑے ماسٹر صاحب بولے اس نوٹ پر کوئی بھی قیامت گزرے اس کی قیمت میں فرق نہ آئے گا ہاں اتنا ضرور ہے یہ ترا مرا نہیں یہ جس کا بھی ہو ایک کا ہے خرچ کرو گے تو ایک کا نہیں رہے گا آگہی جتنی بھی خرچ ہو اس کی قدر کم نہیں ہوتی میں نے سب کو دانش کی بات بتائی قدر مگر اس کی کم نہیں ہوئی تم جتنا بھی اسے خرچ کرو گے یہ جتنی ہے اتنی ہی رہے گی
283 اسے زنگ نہیں آتا یہ پرانی نہیں ہوتی کس نے کہا مت دیکھو کیا کہا یہ ہی دیکھو صوفی یا بھگت کے منہ سے نکلے گالی‘ گالی ہو گی بدمعاش لفنگے کے منہ نکلے دعا‘ دعا ہو گی پلے سے مری یہ بات باندھ لو علم کی جناب میں فرشتے بھی سجدہ ریز ہوئے اچھا‘ اچھا ہی رہتا ہے کالک سو غازوں کے پیچھے کالک ہی رہتی ہے سقراط ہو کہ منصور وقت کی دھول میں کب چھپ سکے ہیں انہیں مسلا گیا کچلا گیا
284 قدر ان کی مگر کوئی کم نہ کر سکا وقت انہیں سلام کرتا آیا ہے سلام کرتا رہے گا
285 اسلام سب کا ہے سچی کہانی بابا شکر اللہ بھلے آدمی تھے صوم و صلوتہ کے ہی پابند نہ تھے قول کے کھرے ہاتھ کے بھی کھلے تھے اچھا کہتے اچھا کہنے کو کہتے اچھا کرتے اچھا کرنے کو کہتے لوگوں کا ان کے پاس آنا جانا تھا بساط بھر ان کی خدمت کرتے لینے کے خلاف تھے اگر کوئی کچھ لے آتا واپس اسے لے جانا پڑتا جعلی پیروں کی ٹھگی پر افسردہ رہتے
286 کہتے انہیں تو لوگوں کو حضور کی راہ پر چلانا ہے حضور دیتے تھے ان کا لینا کہیں ثابت نہیں لوگ انہیں پیر سمجھتے تھے یہ الگ بات ہے انہوں نے خود کو کبھی پیر مانا نہیں کوئی پیر کہتا تو برا مناتے پنشن پر گزرا کرتے اماں جی گھر میں بلا فیس بچوں کو پڑھاتیں عرصہ سے ان کے ہاں یہ ہی طور چلا آتا تھا مجھ ناچیز کو بھی ان کے پاس بیٹھنے کا شرف رہتا ایک بار
287 اک مولوی صاحب ان کے پاس آئے سلام دعا بلا کے بیٹھ گئے توند بس مناسب ہی تھی ہاں شلوار ٹخنوں سے اوپر تھی مونچھوں کا کہیں نام و نشان نہ تھا داڑھی سرسیدی تھی بولے حضرت اک سوال پوچھنا ہے بابا بولے اللہ علیم و خبیر ہے معلوم ہوا تو ہی جواب دے سکوں گا ہاں غور تو ہو سکتا ہے مولوی صاحب بولے :کیا حضور کو ّعلم غائب تھا مولوی کے لہجے میں مولوی کی آنکھوں میں شرارت تھی بابا صاحب پہلے تو مسکرائے پھر رنجیدہ ہو گئے بابا صاحب نے کہا :افسوس مولوی صاحب
288 افسوس صد افسوس کرنے کے کام کرتے نہیں ہو یہ اللہ اور اس رسول کا معاملہ ہے اس پر زور آزماتے ہو ہے تو بھی‘ نہیں ہے تو بھی یہ ہمارا معاملہ نہیں ہے ہمیں تو بس اس سے کام ہے آپ کے کہے میں وحی کا اہتمام ہے آپ کا کہا گویا اللہ کا کہا ہے مولوی صاحب کیسے ہیں آپ کان دیکھتے نہیں کتے کے پیچھے دوڑے بھاگے جاتے ہو کبھی خود سے بھی سوچ لیا کرو دعوی تمہارا ہو گا کہ پڑھا لکھا ہوں علم قریب سے بھی گزرا ہوتا یہ سوال نہ کرتے
289 کیا حضور کو ّعلم غائب تھا تمہارا کہا ہی تضاد کا شکار ہے کہتے ہو حضور صیغہ تھا کا استعمال کرتے ہو لفظ حضور حاضر کے لیے ہے مانتے ہو آپ حاضر ہیں تھا کہہ کر نفی کرتے ہو یہ کیا بات ہوئی وہ حاضر ہیں پر کیا کریں ہماری آنکھں انہیں دیکھنے کے قابل نہیں ہیں دیکھنے والے دیکھتے ہیں یوں بھی لے سکتے ہو تاقیامت قرآن باقی ہے آپ حاضر ہیں خیر یہ تضاد تمہارے پوچھنے میں ہے
290 تضاد کی دنیا سے نکلو کہ امت متحد ہو مذاہب غیب پر ایمان رکھنے پر استوار ہیں اللہ تم نے دیکھا‘ نہیں جنت دوزخ جن فرشتے تم دیکھے‘ نہیں حاضر کو دیکھا‘ نہیں قرآن اترتے دیکھا‘ نہیں ان سب پر ہر کلمہ گو کا ایمان ہے تب ہی تو مسلمان ہے حضور پر قرآن اترا بے شک لانے والے کو حضور نے دیکھا وہ فرشتہ تھا انسان نہیں تھا بھیجنے والے سے متعلق آگہی ہو گی جو کسی نے نہیں دیکھا حضور نے دیکھا جانا علم غیب کا ہونا اور کس کو کہتے ہیں میں سے گزر کر تو میں آنے والا
291 کب کسی پر کھل سکتا ہے یہ معاملہ حضور کا ہے وہ جانیں یا ان کا خدا جانے ہمیں اس سے مطلب نہیں اگر ہم مسمان ہیں تو سیدھا چلیں اللہ کی مخوق کے کام آئیں لایعنی چکروں میں پڑو گے تو مرو گے خود ڈوبو گے یہ معاملہ تمہارا ہے اوروں کو ڈبو دو گے یہ معاملہ اسلام کا ہے اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا اسلام تمہارا ہی نہیں اسلام سب کا ہے
292 ڈنگ ٹپانی اللہ بخشے تایا نواب لڑکوں کو چوکوں میں کھڑا ہونے سے منع کرتے تھے رشتہ میں وہ کسی کے کچھ نہ تھے بوڑھے تھے حیادار تھے سب انہیں تایا کہتے تھے اچھا دور تھا اچھے لوگ تھے ہر کس کی عزت اپنی عزت جانتے تھے سب کی بھنیں اپنی بھنیں تھیں آہ! وہ مر گئے اچھی روائتیں بھی مر گئیں آنکھوں میں شرم تھی حیا تھی آج کوئی کوئی پرانا بات کرے تو کہتے ہیں: چھوڑو جی دقیانوسی ہے بیبیاں بادوپٹہ یا بابرقعہ گھر سے نکلتی تھیں
293 آج برقعہ تو دور رہا دوپٹہ بھی غائب ہو گیا ہے شریف سے اور باحیا سے رہو تو کڑیاں مذاق اڑاتی ہیں چھیڑو تو پلے پڑ جاتی ہیں نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن اسی کو تو کہتے ہیں بیدا اور شیدا محلہ کے چوک میں کھڑے تھے لایعنی گپیں ہانک رہے تھے تانک جھانک دیدار بازی کا عمل جاری تھا کوئی ناک چڑھا کر کوئی مسکرا کر گزر جاتی ہاجاں تیلن کا بھی ادھر سے گزر ہوا منہ متھے لگتی تھی شیدا نہ رہ سکا اس نے پرامید پراسلوب فوجی سلیوٹ کیا وہ کھل کھلائی ہنسی اس کی پورے منہ کی تھی وہ گزر گئی بات آئی گئی ہو گئی
294 وہ پھر سے گپوں میں جھٹ گئے اسی شام ہاجاں تیلن بیدے کے گھر آئی بیدے کی ماں سے کہنے لگی بیدے نے محلہ کے چوک میں مجھے چھڑا ہے مرا ویر ادھر نہ تھا ورنہ پیر پر ڈکرے کر دیتا بیدے کی ماں شکایت سن کر ہکی بکی رہ گئی اس نے غصے سے بیدے کو آواز دی آیآ ماں جی کہہ کر کچھ ہی دیر بعد چھت سے نیچے اتر آیا وہ گڈی اڑا رہا تھا اتنی دیر میں ہاجاں تیلن جا چکی تھی بیدے کی ماں نے بنا کچھ سنے بیدے کی لہہ پہہ کر دی
295 بیدے نے تو اسے چھیڑا ہی نہ تھا یہ گلاواں مفت میں اس کے گلے آ پڑا تھا بیدے کی ماں بےچاری کیا جانے رولا چھیڑنے کا تھا ہی نہیں وہ شیدے کی پسند تھی شیدا مگر ہاجاں کی دل آنکھ میں نہ تھا ہاں وہ بیدے کی دیونی تھی بیدے کو کیا مری پڑی جو اس نے نہ چھیڑا پر کیا کریں چھماں بیدے کے دل کی رانی تھی سوہنی تو تھی ہی ہاجاں سے بڑھ کر سیانی تھی یہ بات تو فرشتوں کے لکھے پر ناحق پکڑے جانے والی کی سی تھی کیسی بات ہے یہ
296 شادی کرنے کے ارادے دور تک نہ تھے ہاں مگر دو طرفہ محض ڈنگ ٹپانی تھی
297 ایک اور اندھیر دیکھیے ہر چپہ پہ سجدہ ریز ہوا پھر بھی میں کی گرفت میں رہا کرنی اپنی ہی کرنی تھی سجدوں کا محض ڈھونگ رچا تھا آخر کب تک آزمائش میں آ ہی گیا میں سر چڑھ کر بولی تو ڈھول کا بھید کھل گیا پھر کیا تھا مالک نے حضوری دوری میں بدل دی معافی کی طرف کیوں آتا دیکھتے ہی دیکھتے نٹکا اس کا آسمان لگا تھا خالق اسے جانتا تھا وہ تو خود سے بےبہرہ تھا
298 رنگ روپ شکل بدل بدل کے ملتا رہتا ہے کچھ ہی لمحے ہوئے ہوں گے مجھے ملا تھا بےشک بڑا خوش لباس تھا مرے سامنے سو کا اس نے دنبہ خریدا میں دیکھ رہا ہوں اس سے وہ بےخبر تھا میں نے پوچھا دنبہ کتنے کا دو گے ریٹ دنبے کا اس نے ایک سو چالیس بتایا میں نے کہا کچھ تو کم کرو بڑی مشکل سے ایک سو تیس تک آیا اصرار کیا تو کہنے لگا قرآن کی قسم کھا کر کہتا ہؤں ایک سو پچیس مری خرید ہے پانچ منافع لوں گا میں نے بصد افسوس اس کی طرف دیکھا دنبہ خرید لیا کہ قرآن پر مرا یقین تھا
299 یہ قریبا دو بجے کی بات ہے باریش تھا مسجد سے نکل رہا تھا جلدیوں میں تھا لگتا تھا کہیں کام ڈالے گا سیدھا گودام میں آیا پیسی مرچوں کے دو بورے واں پڑے تھے پیسی اینٹوں کا ایک بورا اس کی راہ دیکھ رہا تھا اپنے ہنر میں صاحب کمال تھا منٹوں سکنٹوں میں یہ پرایا مرچوں کا ہم سفر ہوا اب کہ تین بورے مرچوں کے ٹھہرے رنگ روپ حسب نسب کا جھگڑا ہی ختم ہو گیا مسجد میں اس کے طور ہی کچھ اور تھے باہر آ کر یکسر بدل گیا حاجی کے روپ میں بھی ملا
300 بڑا خوش اخلاق شیریں زبان تھا مری بیوی کو شروع سے بیٹی کہتا تھا سر پر ہاتھ پھرتا نگاہ نیچی رکھتا یہ تو بہت بعد میں معلوم ہوا مرے گھر کی ساری رونق اسی کا لطف و احسان تھا مجھ سا ناکارہ وگرنہ کب اس لائق تھا کاش سائنس اتنی ترقی نہ کرتی اور میں بےخبر ہی رہتا عاشاں شکل و صورت میں کتنی معصوم لگتی تھی باطن میں شیطان ہی کا اترن تھی برسوں سے مرا پرموشن کیس اڑا پھسا تھا بڑا بابو کبھی یہ کبھی وہ کاغذ مانگ رہا تھا مرے ساتھ کیا ہو رہا ہے اکثر سوچتا مرے ساتھ کے ترقی انجوائے کر رہے تھے
Search
Read the Text Version
- 1
- 2
- 3
- 4
- 5
- 6
- 7
- 8
- 9
- 10
- 11
- 12
- 13
- 14
- 15
- 16
- 17
- 18
- 19
- 20
- 21
- 22
- 23
- 24
- 25
- 26
- 27
- 28
- 29
- 30
- 31
- 32
- 33
- 34
- 35
- 36
- 37
- 38
- 39
- 40
- 41
- 42
- 43
- 44
- 45
- 46
- 47
- 48
- 49
- 50
- 51
- 52
- 53
- 54
- 55
- 56
- 57
- 58
- 59
- 60
- 61
- 62
- 63
- 64
- 65
- 66
- 67
- 68
- 69
- 70
- 71
- 72
- 73
- 74
- 75
- 76
- 77
- 78
- 79
- 80
- 81
- 82
- 83
- 84
- 85
- 86
- 87
- 88
- 89
- 90
- 91
- 92
- 93
- 94
- 95
- 96
- 97
- 98
- 99
- 100
- 101
- 102
- 103
- 104
- 105
- 106
- 107
- 108
- 109
- 110
- 111
- 112
- 113
- 114
- 115
- 116
- 117
- 118
- 119
- 120
- 121
- 122
- 123
- 124
- 125
- 126
- 127
- 128
- 129
- 130
- 131
- 132
- 133
- 134
- 135
- 136
- 137
- 138
- 139
- 140
- 141
- 142
- 143
- 144
- 145
- 146
- 147
- 148
- 149
- 150
- 151
- 152
- 153
- 154
- 155
- 156
- 157
- 158
- 159
- 160
- 161
- 162
- 163
- 164
- 165
- 166
- 167
- 168
- 169
- 170
- 171
- 172
- 173
- 174
- 175
- 176
- 177
- 178
- 179
- 180
- 181
- 182
- 183
- 184
- 185
- 186
- 187
- 188
- 189
- 190
- 191
- 192
- 193
- 194
- 195
- 196
- 197
- 198
- 199
- 200
- 201
- 202
- 203
- 204
- 205
- 206
- 207
- 208
- 209
- 210
- 211
- 212
- 213
- 214
- 215
- 216
- 217
- 218
- 219
- 220
- 221
- 222
- 223
- 224
- 225
- 226
- 227
- 228
- 229
- 230
- 231
- 232
- 233
- 234
- 235
- 236
- 237
- 238
- 239
- 240
- 241
- 242
- 243
- 244
- 245
- 246
- 247
- 248
- 249
- 250
- 251
- 252
- 253
- 254
- 255
- 256
- 257
- 258
- 259
- 260
- 261
- 262
- 263
- 264
- 265
- 266
- 267
- 268
- 269
- 270
- 271
- 272
- 273
- 274
- 275
- 276
- 277
- 278
- 279
- 280
- 281
- 282
- 283
- 284
- 285
- 286
- 287
- 288
- 289
- 290
- 291
- 292
- 293
- 294
- 295
- 296
- 297
- 298
- 299
- 300
- 301
- 302
- 303
- 304
- 305
- 306
- 307
- 308
- 309
- 310
- 311
- 312
- 313
- 314
- 315
- 316
- 317
- 318
- 319
- 320
- 321
- 322
- 323
- 324
- 325
- 326
- 327
- 328
- 329
- 330
- 331
- 332
- 333
- 334
- 335
- 336
- 337
- 338
- 339
- 340
- 341
- 342
- 343
- 344
- 345
- 346
- 347
- 348
- 349
- 350
- 351
- 352
- 353
- 354
- 355
- 356
- 357
- 358
- 359
- 360
- 361
- 362
- 363
- 364
- 365
- 366
- 367
- 368
- 369
- 370
- 371
- 372
- 373
- 374
- 375
- 376
- 377
- 378
- 379
- 380
- 381
- 382