51 آئندہ کے لیے بہت اعلی درجے کی چیزیں میسر ہوں‘ لیکن آدمی کا بسا اوقات ان سے کم تر درجے کی چیز کھانے کو جی چاہنے لگتا ہے۔ایک مرتبہ‘ اس کے ساتھ بھی کچھ ایسی ہی صورت گزری۔ سبکچھ میسر تھا‘ لیکن مولی کھانے کے لیے‘ اس کی طبیعت مچل مچل گئی۔ پھر وہ سبزی منڈی کی طرف بڑھ گیا۔ منڈی کے دروازے سے ایک بابا جی‘ جنہوں نے اپنے کندھے پر‘ مولیوں کا گٹھا اٹھا رکھا تھا‘ نکلے۔ اس میں سے ایک مولی نکلی اور نیچے گر گئی۔ اس نے نیچے سے مولی اتھائی اور بابا جی کو دینے کی غرض سے آگے بڑھا۔ جب اس نے آواز دی تو بابا جی نے مڑ کر دیکھا۔ جب بابا جی نے مڑ کردیکھا‘ تو اس نے مولی ان کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا :بابا جی یہ مولی گر گئی تھی‘ لے لیں۔ وہ مسکرائے اور کہا :تم لے لو۔ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیے۔ پہلے تو اس نے غور نہ کیا‘ اس کے بعد اس نے غور کیا کہ مولیوں کا گٹھا‘ اس انداز سے بندھا تھا کہ مزید مولیاں گرنےکا قوی امکان تھا۔ پھر وہ چھوٹے قدموں ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ کافی دور تک گیا‘ لیکن مزید کوئی مولی نہ گری۔اچانک بابا جی نے دوبارہ سے پیچھے مڑ کر دیکھا‘ تو اس نے
52کہا :بابا جی میں یہ مولی آپ کو دینے کے لیے‘ آپ کے پیچھے آ رہ تھا۔ یہ سن کر‘ بابا جی نے بڑے غصے سے اس کی جانب دیکھا۔ مولی تو نہ لی‘ لیکن بڑی سنجیدگی سے کہا :یاد رکھواللہ تمہیں اور تمہاری حاجات کو‘ تم سے زیادہ جانتا ہے اور اس کے مطابق عطا کر دیتا ہے۔ جب بھی‘ موجود میں مزید کا طمع کرو گے‘ پہلے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھو گے۔ موجود پر اللہ کا شکر ادا کرو‘ تا کہ وہ تمہیں تمہاری ضرورت کے مطابق عطا فرماتا رہے۔ اسے اپنی حرکت پر سخت شرمندگی ہوئی‘ لیکن آئندہ کے لیے کان ہو گئے۔ محترم ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب السلام علیکم مختصر ،پُرمغز ،سبق آموز ،فکر کا مواد لئے یہ افسانہ بہتاچھا لگا۔ خاص کر یہ ہماری دو ِر حاضر کی \" اشرافیہ\" کے منہ پر طمانچہ نہیں بلکہ تپنچہ ہے لیکن اگر اشرافیہ ڈھیٹ ہو ،جو ہے ،بڑے بڑے توپ بھی بےکار ہیں۔
53 ڈاکٹر صاحب معاشرہ کو آئینہ دکھانا آپ کا کام ہے اسی احسن طریقہ سے نباہتے رہئے۔ سدا سلامت رہیں اور قلم کا پاس کرتے رہیں۔ والسلام طال ِب دعا کفیل آحمد http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10463.0
54 منہ سے نکلی جب بھی کوئی بچہ گر جاتا یا اسے کسی اور وجہ سے چوٹ آ جاتی‘ فتو کے منہ سے بےساختہ نکل جاتا :ہائے تیری ماں مرے۔ یہ فتو کے نہیں‘ ممتا کے منہ نکلی آواز ہوتی اور اس میں درد بھی ہوتا۔ ماں بےشک ماں ہوتی ہے اور دنیا میں اس کا کوئی متبادل رشتہ موجود نہیں۔ اس قسم کی مادرانہ شفقت‘ میں اپنی ماں کے ہاں بھی دیکھتا اور سنتا آرہا ہوں۔ تب ہی تو تکلیف میں بےساختہ منہ سے ہائے ماں نکل جاتا ہے۔ ایک بار میں بیمار پڑا۔ فتو میرا سر دبا رہی تھی۔ تکلیف میں شدت ہوئی تو میرے منہ سے ہائے ماں نکل گیا۔ فتو نے وہیں ہاتھ روک لیے اور غصہ سے اپنی چارپائی پر جا کر لیٹ گئی۔میں نے اس کی طرف دیکھا اور کہا :کیا ہوا‘ کیوں روٹھ کر چلی گئی ہو۔ دیکھ تو رہی ہو کہ میں تکلیف میں ہوں۔ بڑی غصیلی آواز میں کہنے لگی :دبا میں رہی ہوں‘ یاد ماں کو کرتے ہو۔ جاؤ اسی سے دبوا لو۔
55اس کی بات میں دم تھا اور میں شرمندہ سا ہو گیا۔ کافی دیر تک من من کرتا رہا لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ منہ سے نکلی کیسے منہ میں جا سکتی تھی۔ آئندہ سے اس کا نام لینے کا وعدہ بھی کیا حالاں کہ یہ بس سے باہر کی چیز تھی۔ اس روز چھوٹی کاکی گر پڑی مجھے دکھ ہوا۔ میں تیزی سے اس کی جانب بڑا۔ میری پدرتا پورے پہار کے ساتھ جاگی۔ سابقہ تجربے کے تابع‘ میں نے منہ سے ہائے تیری ماں مرے نکالا۔ اپنی اصل میں یہ مادرتا کی قدر کرنے کے مترادف تھا۔ وہ کاکی کا دکھ تو بول گئی اور دونوں پاؤں سمیت مجھ پر چڑھ دوڑی۔ ہاں ہاں تم تو چاہتے کہ میں مر جاؤں ،میں بڑے دنوں سے تمہارے بدلے بدلے تیور دیکھ رہی ہوں۔ تم تو ہو ہی ناشکرے۔ جتنا کرو یہاں اس کیے کی کوئی وٹک نہیں۔ یہ کہہ کر بھائی کے گھر روٹھ کر جانے کے لیے تیار ہونے لگی۔ میں نے قسم کھا کر اس پر اصل حقیقت واضح کرنے کی کوشش کی ،مگر کہاں جی خلاصی نہیں کر رہی تھی۔ مانتا ہوں میرے کہے میں سو فی صد دانستگی تھی۔ دس بیس پرسنٹ خواہش بھی تھی لیکن خواہش سو فی صد نہ تھی۔ دوسرا میرے کہے پر وہ مر تھوڑا جاتی۔ اگر ایسا ہوتا تو دنیا میں کوئی عورت باقی نہ رہتی۔ اس کے منہ سے سیکڑوں بار ہائے تیری ماں مرے نکلا لیکن وہ ایک بار بھی نہ مری تھی۔
56کچھ باتیں کہنے کی ہوتی ہیں لیکن ہونے کا اس سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا۔ خیر چھوڑیے مجھے اپنی اس دانستگی کی بڑی کڑی سزا ملی۔ منتیں ترلے تو کیے ہی‘ کانوں کو ہاتھ لگانا پڑے‘ ساتھ میں پلا بھی جھاڑنا پڑا۔
57 عزیز مکرم حسنی صاحب :سلام مسنون آپ کے یہ مختصر لیکن معنی آفریں انشائیے دلچسپ اور سبق آموز ہوتے ہیں باہر لوگ ان کو بہت شوق سے پڑھتے ہیں۔ افسوس کہ ہر شخص (بشمول راقم الحروف) ہر انشائیے پر اظہار خیال نہیں کرتا ہے اور شاید کر بھی نہیں سکتا۔ میری ناچیز داد حاضر ہے۔ اللہ آپ کو نوازے آپ کی موجودگی ہمارے لئے باعث مسرت وافتخار ہے۔ اور اردو انجمن اس عنایت کے لئے آپ کی ممنون احسان ہے۔ یقین ہے کہ اپ اسی طرح ہماری ہمت افزائی کرتے رہیں گے۔ ایک گزارش ہے۔ آپ لکھتے رہتے ہیں لیکن دوسروں کی تخلیقات پر کبھی اظہار خیال نہیں کرتےہیں۔ آپ کی اعانت اور رہنمائی اور گاہےگاہے داد کی ہم سب کو ضرورت ہے۔ خدا را دوسروں پر بھی لکھئے اورصرف رسمی ستائش نہیں بلکہ ناقدانہ نگاہ ڈالئے۔ بڑی عنایت ہوگی۔ شکریہ سرور راز http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10464.0
58 یک مشت شہاب دین سارا دن دفتر میں صاحب کی چاکری کرتا۔ وہاں سے ایک مل مالک کے گھر جاتا۔ ان کا سودا سلف لاتا یا کوئی اورکام ہوتا تو وہ انجام دیتا۔ کبھی آٹھ بجے تو کبھی دس بجے وہاںسے خلاصی پاتا تو گھر آتا۔ اس وقت اس کا جسم ٹوٹ پھوٹ ساگیا ہوتا اور اسے آرام کی اشد ضرورت ہوتی۔ مگر کہاں‘ گھر آتا تو کوئی ناکوئی گھریلو رپھڑ اس کا انتظار کر رہا ہوتا۔ اسےنپٹانے میں اچھا خاصا وقت اٹھ جاتا۔ گھر والی اس سے بےنیاز تھی کہ وہ سارا دن کتنی مشقت اٹھاتا ہے۔ گھر کی دال روٹی چلانے کے لیے اسے کتنے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ اس روز بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ اس نے گھر کی دہلیز پر قدمرکھا ہی تھا کہ زکو اپنے دانت درد کا سیاپا لے کر بیٹھ گئی۔ اس نے بڑے تحمل سے کہا۔ کاکے کو ساتھ لے کر ڈاکٹر سے دوا لے آنا تھی۔ ابھی ایک پیراسیٹامول کی گولی لے لو اور ساتھمیں اچھی طرح حکیم صاحب والا منجن کر لو۔ مجھے کھانے کو کچھ دو سخت بھوک لگی ہوئی ہے۔ تمہیں کھانے کی پڑی ہے ادھر میں درد سے مر رہی ہوں۔ وہ بڑ بڑ کرتا ہوا صبر شکر کرکے بھوکا ہی چارپائی پر لیٹ گیا۔ تھکا ہوا تھا سخت بھوک کے باوجود نیند نے اس کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ چوں کہ
59 پیشاب کرکے نہیں سویا تھا اس لیے اسے آدھی رات کو اٹھناپڑا۔ زکو گہری نیند سو رہی تھی لہذا اس نے اسے جگانا مناسب نہ سمجھا اور دوبارہ آ کر لیٹ گیا۔ صبح ٹھیک ٹھاک اٹھی بچوں کو کھلا پلا کر سکول بھیج دیا۔ پھر خود بھی پیٹ بھر کر کھایا۔ وہ بھی اتنی دیر میں کام پر جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ ناشتہ پانی دینے کی بجائے دانت کا درد لے کر بیٹھ گئی۔ کہنے لگی ساری رات درد سے سو نہیں حالاں کہ وہ خراٹے بھری نیند سوئی تھی۔ وہ خود ہی ‘سکی رسوئی میں گھس گیا۔ بھوک نے اسے نڈل کر دیا‘ جو ہاتھ لگاکھا لیا۔ وہ متواتر بولے جا رہی تھی۔ اس نے کام پر جاتے ہوئے کہا :ڈاکٹر کے پاس جا کر دوائی لے آنا۔ دانت کا درد سخت تکلیف دیتا ہے۔ پیسے تمہارے پاس ہیں ہی۔ اس کے بعد کوئی جواب سنے بغیر کام پر چلا گیا۔ اسے زکو کی اس حرکت پرکوئی غصہ نہ آیا‘ کیوں کہ یہ کوئی نئی بات نہ تھی روز کا رونا تھا۔ رات کو جب گھر لوٹا تو اس نے پوچھا :دوا لائی ہو۔ دانت میں سخت درد ہو رہا ہے۔ ‘اس نے جوابا کہا :نہیں لائی لانا تھی۔ خواہ مخواہ درد برداشت کر رہی ہو۔ ‘کیوں نہیں لائی لگتا ہے دانت نکلوانا پڑے گا۔
60کیوں نکلواتی ہو‘ دانت دوبارہ تو نہیں اگے گا۔ کھانے پینے میں دشواری ہو گی۔ باطنی طور پر وہ چاہتا تھا کہ نکلوا ہی لے چلو چار دن تو اس کے منہ کو چپ لگے گی۔ پھر وہ اس سے جعلی ہم دردانہ بحث کرتا رہا۔ اسے معلوم تھا کہ جس کام سے وہ منع کرئے گا زکووہ کام کرکے ہی رہے گی۔ کافی دیر بحث کرنے کے بعد اس نے کہا چلو جس طرح مناسب سمجھتی ہو‘ کر لو۔ اچھا تو کل میں گاؤں جاتی ہوں وہاں سے دانت نکلواتی ہوں۔ ہمارے گاؤں کا ڈاکٹر بڑا سیانا ہے۔دلی طور پر وہ چاہتا تھا کہ چلی ہی جائے چار دن تو سکون کے کٹیں گے۔ دانت نکلوا کر آئے گی تو بھی دو ایک دن اس کے منہ کو سکون رہے گا۔ اس نے کہا :شہر چھوڑ کر گاؤں جاتی ہو۔۔۔۔ نہیں نہیں یہاں ہی سے نکلوا لو یا ڈاکٹر کو دیکھا لو جو مشورہ دے گا کر لینا۔ اسے دوبارہ سے ناٹک کرنا پڑا۔ وہ گاؤں جانے پر اڑی رہی۔ پھر اس نے کہا اچھا جیسے تمہاری مرضی کر لو۔ وہ اپنی جیت پر خوش تھی۔ حالاں کہ جیت اسی کی ہوا کرتی تھی۔ اگلے دن صبح صبح ہی وہ گاؤں جانے کے لیے بچوںسمیت تیار ہو گئی۔ کام پر جاتے ہوئے اس نے کہا گھر کی چابی
61 خالہ رحمتے کو دے دینا۔ زکو گاؤں میں پورا ہفتہ گزار کر آئی۔ اس نے گھر آتے ہی اسسے دانت کے متعلق پوچھا۔ تمہیں اس سے کیا۔ تم کون سا میرا پوچھنے گاؤں آ گئے تھے۔ اس نے ہفتہ عیش اور مرضی کاگزرا تھا۔ دانت اس نے نکلوایا یا نہیں نکلوایا وہ یہ نہ جان سکاہاں البتہ اس نے اس کی کوتاہی کی پاداش میں ہفتہ بھر کی یک مشت کسر نکال دی اور اسے چوں تک کرنے کا موقع فراہم نہ کیا۔ ………………..
62 دیگچہ تہی دامن تھا بہت پہلے کی ناسہی لیکن اتنا ضرور طے ہے کہ یہ بات پہلے کی ہے۔ اب کہ دو نمبری کے لیے اتنی مشقت نہیں اٹھانا پڑتی۔ دو نمبری کا سامان سامی خود اپنے ہاتھ سے فراہم کرتی ہے۔ ہاں یہ بات حتمی طور پر نہیں کہی جا سکتی کہ دو نمبری کے لیے دو نمبر کا سامان فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہ چھین لینے کا رواج عام ہو گیا ہے۔ ہتھیار آکڑ خان کے لیے اٹھانا پڑتا ہےورنہ قدرے شریف کو آنکھیں دیکھا کر اس کی گرہ صاف کر لی جاتی ہے۔ اسی طرح قدرے شریف‘ شریف سے اونچی یا گلا پھاڑ آواز سے کام لے کر اس کی گرہ خالی کرنے کا ڈھنگ خوب خوب جانتا ہے۔ اس روز ان چاروں کو کافی مشقت سے کام لینا پڑا تب جا کر ڈوموں کی مرغی ہاتھ لگی۔ مرغی پلی پلائی نفیس اور بڑی نخرے والی تھی۔ جھانسہ دینے میں بھی بڑی طاق تھی۔ ادھرسے ادھر اور ادھر سے ادھر آنے جانے میں اسے ملکہ حاصل تھا۔ وہ بھی ہٹ کے پکے تھے۔ ان کا روز کا کام تھا کیسے بچ کر نکل جاتی۔ ساتھ کے گاؤں کے مولوی صاحب سے تکبیر پڑھائی اور اسے ڈکرے ڈکرے کرکے دیگچے کے حوالے کر دیا۔ پکنے کے بعد حسب معاہدہ چوتھائی مولوی صاحب کی
63 خدمت میں نذرانہ پیش کر دیا۔ یہ ان کا یقینا بہت بڑا احسان تھا وہ حرام کو حلال میں تبدیل کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے آ رہے تھے تاہم حلال کو حرام قرار دینا بھی ان کے لیے قطعا دشوار نہ تھا۔کھانے لگے تو انہیں ایک انوکھا طور سوجھا۔ ان میں سے ایک کہنے لگا۔ اس پکوان کو کل صبح وہ کھائے جو سب سے اچھا اور بڑھیا خواب دیکھے۔ یہ تجویز سب کو بھائی۔ پھر وہ آرام اور سکون کی نیند سو گئے۔ اگلی صبح اٹھے اور اپنا اپنا خواب سنانے لگے۔ ایک نے اپنا خواب سنایا کہ وہ ساری رات پیرس کے بازاروں میں پھرا اور خوب خریداری کی۔ پیرس کی نخریلی چھوریوں کے ساتھ آنکھ مٹکا کرتا رہا۔ ایک دو تو اس کی باہوں میں بھی رہیں۔سب نے واہ واہ کی اور اس کے خواب کی اچھی خاصی داد دی۔ دوسرے نے خواب سنایا کہ اسے خواب میں امریکی صدر کی جانب سے امریکہ آنے کی دعوت ملی۔ وہ خوشی خوشی ہوائی جہاز پر بیٹھ کر امریکہ گیا۔ امریکی صدر اور اس کے اعلی عہدےدار ہوائی اڈے پر اس کا استقبال کرنے آئے۔ اس کے بعد وہ امریکی صدر کے ساتھ بھاری پہرے میں امریکہ کی سیر کرتا رہا۔ ایک دو جگہ پر اسے خطاب کرنے کا موقع بھی ملا۔
64خواب کے اچھا نہیں‘ بہت اچھا ہونے میں رائی بھر شک نہ تھا۔ زمینی خدا کے ساتھ ہونا اور پھر اتنی عزت ملنا کوئی عام بات نہ تھی۔ اب تیسرے کی باری تھی۔ اس نے کہا خواب میں آسمانی گھوڑااسے اسمانوں کی سیر کرانے کے لیے آ گیا۔ اس نے دل بھر کرچاند ستاروں کی سیر کی۔ حوریں اور فرشتے قطار در قطار اس کے ساتھ رہے۔ پھر اس نے جنت کی سیر کی۔ بڑے بڑے بزرگوں سے بھی ملاقات ہوئی۔ یہ خواب پہلے دونوں کو کٹ کر رہا تھا۔ پکوان پر اسی کا حق ٹھہرتا تھا۔ چوتھے نے کہا یار رات کو میرے ساتھ بڑا دھرو ہو گیا۔ سب پریشان ہو گئے اور یک زبان ہو کر بولے کیوں کیا ہوا۔ بولا یار ہونا کیا تھا میں گہری نیند سو رہا تھا کہ ایک حبشی جس کے ہاتھ میں تیز دھار تلوار تھی۔ اس نے مجھے زور سے جھنجھوڑا۔ میں ڈر کر اٹھ بیٹھا۔ اس نے تلوار دیکھاتے ہوئےکہا :یہ تمہارے دوست ہیں تمہیں یہاں اکیلا چھوڑ کر موج مستی کر رہے ہیں۔ چل اٹھ اور تو مرغی کھا کر دیگچہ خالی کر۔ میں نے جب پس وپیش کی تو اس نے مجھے تلوار دیکھاتے ہوئے کہا اگر نہیں کھائے گا تو تمہارا سر اڑا دوں گا۔ زور دبردستی کے سامنے کب کسی کی چلی ہے‘ مجبورا مجھے سارا دیگچہ
65 خالی کرنا پڑا۔ یقین مانیں پریشانی اور بدہضمی کے سبب اس کے بعد مجھے نیند نہ آ سکی۔تینوں جلدی سے دیگچے کی جانب بڑے‘ دیکھا دیگچہ اپنی تہی دامنی پر خون کے آنسو بہا رہا تھا۔
66 حکم عدولیزندگی جو جیسی تھی‘ چل رہی تھی۔ ہر کوئی اپنے کام میں مگن تھا۔۔ گریب‘ گربت عسرت بےبسی بےچارگی اور تنگی ترسی‘ چودھری بلامشقت عیش وعشرت اور مولوی صاحب مذہبی مسلے مسائل سنا کر چوپڑی کھانے میں مصروف تھے۔ کوئی معاملہ الجھ جاتا تو چودھری کے ڈیرے پر چلا جاتا اور وہاں سے اپنے بندے انصاف لے کر خوشی خوشی اور جیت کے نشے میں گھر لوٹتے۔ کوئی الجھاؤ کی گھمیر صورت نہ تھی۔ ہر کسی کا شخصی اسٹیٹس طے تھا۔ صدیوں سے چودھری زمین کا مالک تھا‘ باقی اس کے کامے یا پھر کچھ کمی تھے۔مراسی باطور ڈاکیا اور ایلچی اپنے فرائض انجام دیتا تھا۔ مولوی صاحب مذہبی امور اپنی مرضی اور اپنے سلیقے سے طے کرتے تھے۔ مائی صاحبہ بچوں کو چار دیواری میں تعلیم دیتی تھیں۔ گویا زندگی سالوں سے ایک ہی ڈگر پر چلی آ رہی تھی۔چھوٹی موٹی زمینی و سماوی آفاتیں ٹوٹتی رہتی تھیں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ان سے نپٹتے رہتے تھے اور اپنی بسات میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کرتے۔ کچھ مجبوروں کی مجبوری سے فائدہ بھی اٹھاتے۔ چودھری اپنوں اور جوانبیٹیوں اور بہنوں والوں کی مدد کرتا۔ باقی لوگوں کو تسلی تشفی
67دیتا۔ اپنے حریفوں یا بدتمیزوں کی مالی اور زبانی خوب لہہ پہہ کرتا۔ مولوی صاحب دعا وغیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو ان کے گناہوں کی یاد دلاتے۔ اکثر فرماتے یہ سب شامت اعمال ہے۔ تمہارے کیے کے جرم میں یہ عذاب اترا ہے۔ توبہ کرو صدقہ خیرات کرو اور اللہ کے گھر کی خوب خدمت کرو تا کہ تم پر آسمان سے آسانیاں نازل ہوں۔وہ مصیبت یا عذاب سے زیادہ قیامت تھی۔ اس ہڑ کے سبب لوگ پریشانی اور افراتفری میں گھر گئے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ لوگوں کو اشیا سے زیادہ جان کی فکر تھی۔ جان بچ گئی تو یہ چیزیں دوبارہ سے بن جائیں گی۔ جان ہی نہ رہی تو چیزوں کو سر میں مارنا ہے۔ چودھری کو اپنی پڑی تھی وہ کسی اپنے بندے کی کیا مدد کرتا۔ آخر سب جڑ کر مولوی صاحب کے پاس گئے کہ دعا کریں کہ آسمان سے آسانیاں نازل ہوں۔ مولوی صاحب کے اپنے ہاتھوںکے توتے اڑے ہوئے تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے کہا کہ تم سب اللہ کو ماننے والے ہو بسم اللہ شریف پڑھو اور پانی میں قدم رکھو اور اس کی برکت سے دوسرے کنارے پر پہنچ جاؤ۔ چودھری سمیت سب نے مولوی صاحب کے کہے پر عمل کیا اور اللہ کے فضل وکرم اور احسان سے‘ سلامتی کے ساتھ دریا کے دوسرے کنارے پر پہنچ گئے۔ انہیں کچھ بھی نہ ہوا‘ حالاں
68کہ دریا سب کچھ مٹا دینے پر تلا ہوا تھا۔ اللہ کے کلام اور اللہ پر کامل یقین ہونے کے سبب وہ ان کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکا۔ مولوی صاحب ان میں نہ تھے۔ لوگ پریشان ہوئے کہ اتنا نیک اور اللہ کا بندہ ان کے ساتھ نہیں ہے۔ انہوں نے دیکھا مولوی صاحب اپنے بیوی بچوں سمیت چودھری کی رہائش گاہ کی تیسری منزل پر کھڑا تھا۔ انہوں نے مولوی صاحب کو آوازیں دی کہ آپ بھی اللہ کو یاد کرکے بسم اللہ شریف پڑھ کر آ جائیں۔ مولوی صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے۔ پھر ایک قیامت خیز لہر ابھری اور گاؤں کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔ ہاں البتہ مولوی صاحب کا بڑا بیٹا باپ کی حکم عدولی کرکے گاؤں والوں کے ساتھ آ گیا تھا۔
69 لوگ کیا جانیں شمو کی شادی کو چھے سال ہو گئے تھے۔ یہ اس کے پیار کی تیسری شادی تھی۔ اس کی گود ابھی تک خالی تھی۔ پہلے پیارسے حمل ہوا تھا جو اس نے دوسرے پیار میں اندھی ہو کر گرادیا تھا۔ دوسرا تین سال چلا لیکن امید سے نہ ہوئی۔ تیسرے پیار سے ابھی تک کوئی پیار کی نشانی سامنے نہ آ سکی تھی۔ پھر وہ اچانک ایک مقامی بابا صاحب کے مزار پر حاضری دینے لگی۔ بگو نے سمجھا بےچاری کی گود خالی ہے اسی لیے باباصاحب کے دربار پر حاضری دینے لگی ہے۔ بگو کا دل بھی گھرکی رونق کے لیے مچل مچل رہا تھا لیکن یہ اس کے اختیار میں نہ تھا۔ یہ تو اللہ کریم کی مہربانی ہوتی ہے کہ وہ گھر کو رونقیں بخش دے یا وہ ویرانہ رہے۔ اگر یہ شخص کے بس کا روگ ہوتا تو دھن دولت ہی نہیں اولاد کا میوا بھی اہل ثروت اپنے تک محدود رکھتے۔ ایک دن اس نے سوچا کیوں نہ دیکھا جائے کہ شمو بابا صاحب کے دربار پر کس طرح سے اور کیا دعا مانگتی ہے۔ وہ دربارکے عقب میں چھپ گیا۔ شمو کی دعا سن کر حیرت میں گم ہو گیا اور کچھ نہ سمجھ پایا۔ وہ بڑی آہستگی سے بڑے قدموں اسسے پہلے گھر آ گیا اور سوچنے لگا کہ وہ اس قسم کی دعا کیوں
70 مانگ رہی ہے۔ اس کا سوچ سوچ کر دماغ پھٹنے لگا۔ اس نے اگلے روز دوبارہ سے دربار پر جانے کا فیصلہ کر لیا۔ اتنی دیر میں شمو گھر لوٹ آئی۔ وہ چپ رہا اور شمو کو کچھ نہ جتایا۔ اگلے دن وہ شمو سے تھوڑا پہلے دربار پر پہنچ گیا۔ شمو بھی تھوڑی دیر کے بعد دربار کے اندر داخل ہوئی۔ اس نے دوبارہ سے دعا مانگنا شروع کر دی۔ پیرا بگو کو اندھا کر دے میں میٹھے چاولوں کی دیگ چڑھوا چڑھاؤں گی۔ بگو نے آواز بدل کر کہا :ٹھیک ہے بچہ ہم تیری دعا قبول کرتے ہیں۔ پر ایک شرط ہے۔ حکم کر سوہنیا پیرا جا بچہ تیس دن اپنے شوہر کو دیسی گھی میں دیسی مرغا بھون کر کھلا۔ اس کی آنکھوں میں چربی چڑھ آئے گی اور وہ کچھ بھی نہ دیکھ سکے گا۔ ٹھیک اے پیرا میں آج سے ہی یہ کام شروع کر دیتی ہوں۔ اس نے گھر آ کر دیسی مرغا ذبح کروایا اور اسے دیسی گھی میں بھونا۔ بگو کو بڑی پلیٹ میں ڈال کر دے دیا۔ بگو جعلی حیرانی سے کہنے لگا۔ بھئی بڑی خدمت کر رہی ہو خیر تو ہے۔ شمو نے بھرپور اداکاری دیکھاتے ہوئے کہا :میں نے سوچا کام
71 بہت کرتے ہو تمہیں اچھی اور زبردست خوراک کی ضروت ہے۔ کچھ دن دیسی گھی میں بھنا مرغا کھاؤ گے تو تمہاری جان بن جائے گی۔ واہ بھئی واہ۔ کیا بات ہے۔ پھر وہ کچھ دیر تک جعلی پیار محبت کی باتیں کرتے رہے۔ دیسی گھی میں بھنا مرغا کھا کھا کر بگو کی واقعی جان بن گئی۔ مرغا کھاتے وہ بائیسواں دن تھا۔ بگو کہنے لگا۔ شمو یار یہ مجھے کیا ہو رہا ہے۔ جی گھبرا رہا ہے اور آنکھوں میں تارے سے ناچنے لگے ہیں۔ شمو جی میں خوش ہوئی کہ پیر کی کرامت سامنے آ رہی ہے۔ وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ سچے پیر کسی کا کسی بھی صورت میں برا نہیں کرتے۔ اس نے قیامتی مسکراہٹ کے ساتھ کہا کچھ نہیں ہوا بس تمہیں وہم ہو رہا ہے۔اس دن کے بعد اس نے نظر کے کم اور پھر تقریبا ختم ہونے کی خبر سنائی۔ آخر تیسویں دن کچھ بھی نظر نہ آنے کی خوش خبری سنا ہی دی۔ وہ دن شمو کی خوشیوں کا دن تھا۔ اس کا زمین پر پیر ہی نہیں آ رہا تھا۔ بگو نے کہا :اب میں کسی کام کا نہیں رہا ڈیوڑی میں میرا منجا
72 بچھا دو اور میرا کھونڈا دے دو کتے بلے اندر نہ آنے دوں گا۔ آ کر چیزوں کا ستیاناس مار دیتے ہیں۔ شمو نے کہا :ٹھیک ہے۔ اس نے ڈیوڑی میں اسے منجا بچھا دیا۔ وہ جانتا تھا کہ شمو جاگ رہی ہے۔ تھوڑی ہی دیر بعد وہ جعلی خراٹے بھرنے لگا۔ شمو گھر سے چپکے سے باہر نکل گئی اور کچھ دیر کے بعد واپس آ گئی۔ اس نے اچھی طرح دیکھا۔ بگو گہری نیند سو رہا تھا۔ کچھ ہی دیر ہوئی ہو گی کہ ایک مشٹنڈا چپکے چپکے گھر میںداخل ہونے لگا۔ وہ ذہنی طور پر تیار تھا۔ بگو نے اس کے سر پر ایسا کھونڈا مارا کہ وہ چوں بھی نہ کر سکا اور پاؤں پر ٹکی ہو گیا۔گھنٹہ ہی گزرا ہو گا ایک اور مشٹنڈا گھر میں داخل ہونے لگا اس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا۔ غرض سرگی ویلے تک گیارہ ڈھیر ہو گئے۔ اندر شمو چارپائی پر کرواٹیں لے رہی تھی۔ اسے اپنے ان پیاروں کے پیار پر سخت غصہ آ رہا تھا۔ پھر وہ تھک ہار کر سو رہی۔ بگو چارپائی سے اٹھا اور اس نے ڈبو چرسی کو جا اٹھایا۔ اس کے مال پانی کا اس نے پہلے ہی بندوبست کر رکھا تھا۔ جب وہآسمانون کی سیریں کرنے لگا تو اس نے اسے نوٹ وکھائے اور
73 کہا یار یہ لاش دریا میں پھنک آؤ اور آ کر سارے نوٹ لے لو۔ ڈبو چرسی دریا میں لاش پھینکنے چلا گیا تو اس نے دیوار کے ساتھ دوسری لاش کھڑی کر دی۔ واپس آ کر کہنے لگا لاؤ نوٹ تو بگو نے کہا لاش تو پھینک کر آؤ دوبارہ سے آ گئی ہے۔ ڈبو چرسی رات بھر اسی کام میں مصروف رہا۔ جب آتا لاش وہاں کھڑی ہوتی۔ گیارویں لاش ٹھکانے لگاتے تقریبا دن چڑھ گیا تھا اور ایک بندہ دریا نہا کر گھر واپس جا رہا تھا۔ ڈبو چرسی کو بڑا قہر آیا کہ یہ اب پھر دوبارہ سے واپس جا رہا ہے۔ اس نے اسے گردن سے پکڑا اور گالیاں بکتا ہوا دریا کے اندر لے گیا۔ اسے خوب ڈبکیاں دیں جب مر گیا تو واپس بگو کے پاس آ گیا اور کہنے لگا سالا دریا سے نکل کر واپس آ رہا تھا‘ اب نہیں آئے گا‘ میں اسے مار کر ہی واپس آیا ہوں۔ بگو ہنسا اور کہنے لگا گیارہ شمو کے ایک تمہارا۔ ڈبو چرسی کچھ نہ سمجھا اور مطلب پوچھنے لگا۔ خیر چھوڑو تم یہ کش لگاؤ اور نوٹ جیب میں پا کر غائب ہو جاؤ۔ صبح علاقے میں کہرام مچ گیا لوگ کیا جانیں کہ گیارہ جنسی پیار کی بھینٹ چڑھگئے جب کہ باہرواں ان حدویں جنسی پیار کی غرقابی کی راہ میں آنے کے سبب دریا برد ہو گیا
74 چپ کا معاہدہہماری ساتھ کی گلی میں ایک صاحب رہا کرتے تھے جو آنٹا جی کے نام سے معروف تھے۔ کیا کام کرتے تھے۔ کوئی نہیں جان پایا ناہی کسی کے پاس اتنا وقت تھا کہ ان کی کھوج کو نکلتا‘ ان کی بیگم اتنی ملنسار نہ تھی کہ اس کے پاس عورتیں آ کر بیٹھ جاتیں۔ وہ کسی سے کوئی بات ہی نہ کرتی تھی۔ اگر کوئی عورت اس کے پاس جاتی تو مسکرا کر ملتی۔ آنے والی کی باتیں سن لیتی لیکن خود ہوں ہاں سے زیادہ بات نہ کرتی۔ محلہ میں کسی عورت سے ملنے یا اس کے دکھ سکھ میں نہ جاتی۔ ہاں آنٹا جی کوئی مر جاتا تو اس کا جنازہ ہر صورت میں اٹنڈ کرتے اور بس وہیں سے گھر لوٹ جاتے۔ شام کو گھر آتے اور پھر تھوڑی ہی دیر بعد بیٹھک میں آ بیٹھجاتے اور دیر تک اکیلے ہی بیٹھے رہتے۔ ہاں محلہ کے چھوٹےچھوٹے بچے ان کی بیٹھک میں جمع رہتے اور وہ ان کے ساتھ بچوں کی طرح کھیلتے ان کے ساتھ خوب موج مستی کرتے۔ جیب میں کھلا رکھتے بلا تفریق بچوں کو پیسے دیتے۔ چھٹی والا دن ان بچوں کے ساتھ بیٹھک میں گزارتے۔ کسی بچے کو کوئی مارتا تو لڑ پڑتے چاہے اس بچے کا باپ ہی کیوں نہ ہوتا۔
75میں نے غور کیا ایک بچے کے ساتھ وہ خصوصی برتاؤ کرتے۔وہ بچہ بھی ان کے ساتھ بڑا مانوس تھا۔ ایک بار میں نے دیکھا کہ اس بچے کا ناک بہہ رہا تھا اور وہ اس کا ناک بڑے پیار سے اپنے رومال کے ساتھ صآف کر رہے تھے۔ میں ان کی بیٹھک میں داخل ہو گیا۔ انہوں نے بڑی اپناہت سے بیٹھنے کوکہا اور دوبارہ سے اس بچے کا ناک صاف کرنے لگے۔ میں نے پوچھ ہی لیا کہ یہ آپ کا بچہ ہے۔ انہوں نے میری طرف دیکھنے کی بجائے اس بچے سے پوچھنے لگے تمہاری ماں کو میں نے دیکھا ہوا ہے۔ بچے نے نفی میں سر ہلایا۔ جب میں نے اس کی ماں کو دیکھا ہی نہیں تو اس کی کیسے دیکھ لی۔ پھر میری طرف دیکھا اور کہا نہیں جی یہ میرا بچہ نہیں ہے۔ مجھے ان کی اس حرکت پر حیرت ہوئی اور میں چپ چاپ اٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔ مجھے ان کی یہ حرکت بڑی عجیب لگی۔ یہ حرکت تھی بھی عجیب نوعیت کی تھی۔ ایک دن معلوم ہوا آنٹا جی فوت ہو گئے ہیں اور بیٹھک میں ہی ان کی موت ہوئی۔ کیا وہ اندر نہیں سوتے تھے۔ اس روز وہ آنٹی دھاڑیں مار مار کر روئی اور انہیں اکلاپے کا احساس ہوا۔وہ ان کی تھی تو بیوی لیکن بیوی کے اطوار نہ رکھتی تھی۔ وہ اس کا ہر قسم کا خرچہ پانی اٹھائے ہوئے تھے۔
76 دس بیس سال پہلے منہ میں ڈھائی گز زبان رکھتی تھی۔ اس کاآگا پچھا کوئی بھی نہ تھا۔ بانجھ بھی تھی۔ اس کے باوجود انہوں نے اسے برداشت کیا ہوا تھا۔ تین بار طلاق طلاق طلاق کہنے سے ہمیشہ کے لیے خلاصی ہو سکتی تھی۔ وہ ان کی خالہ کی لے پالک بیٹی تھی۔ ماں نے مرتے وقت بیٹے سے اپنے سر پر ہاتھ رکھ کر قسم لی تھی کہ کبھی اور کسی صورت میں اس کا ساتھ نہیں چھوڑے گا۔ بس آنٹا جی کے منہ کو تالا لگ گیا اور وہ بیٹھک اور محلہ کے بچوں کے ہو رہے۔ آنٹی اور آنٹا جی کے درمیان چپ کا معاہدہ ہو گیا تھا۔ اب وہ دروازے کی دہلیز پر بیٹھی رہتی تھی۔ جب بھی کوئی آنٹا جی کا ذکر کرتا تو زار و قطار رونے لگتی لیکن منہ سے کچھ نہ کہتی۔ بڑی بات ہے کہ اتنا بڑا سانحہ گزر گیا آنٹا جی ہمیشہ کے لیے چلے گئے پھر بھی اس نے چپ کا معاہدہ نہ توڑا۔
77 کالی زبانجیجاں اور سائیں کی دو سال سے سلام دعا چل رہی تھی۔ انہوں نے ایک ساتھ مرنے جینے قسمیں کھا رکھیں تھیں۔ معاشقہاپنی جگہ دونوں برے نہ تھے اور ناہی ان کی محبت رواجی اور وقتی تھی۔ انہوں نے ایک ساتھ رہ کر اور موقع ملنے کے باوجود کوئی ناشائستہ حرکت نہ کی تھی۔ اس رشتے کے بارے ہر روز دونوں گھروں میں گرما گرم بحث اور تکرار چلتی۔ معاملہ سنورنے کی بجائے دن بہ دن الجھتا ہی جا رہا تھا۔ سائیں کی ماں جب کہ جیجاں کا باپ اس رشتے کے زبردستحامی تھے۔ اطراف میں کڑی منڈا اپنی جگہ میاں بیوی کا جھگڑا چلتا۔ باطور ہم سایہ تعلقات بھی برے نہ تھے۔ وہ لوگ ایک دوسرے کی عزت اور پاس لحاظ کرتے تھے۔ لین دین بھی تھا۔ اوکھے سوکھے وقت میں ایک دوسرے کے کام بھی آتے تھے لیکن رشتہ داری بننے کی راہ میں ظالم سماج بنے ہوئے تھے۔ کہا جاتا تھا کہ سائیں کی زبان کالی ہے۔ اس روز باپ بیٹے میں بڑی تکرار ہوئی۔ وہ ایک دوسرے کو مارنے پر تلے ہوئےتھے۔ سائیں تھک ہار کر سر پکڑ کر وہیں زمین پر بیٹھ گیا۔ اس کی ماں آ گئی اور بیٹے کو دلاسا دینے لگی۔ سائیں کا باپ بولا جتنے مرضی دلاسے دے لو میں یہ رشتہ نہیں کرنے والا۔
78 سائیں کے منہ سے بےساختہ نکل گیا یا اللہ میرا باپ مر ہی جائے۔ سائیں کا باپ اندر سے کانپ گیا لیکن اکڑ قائم رکھتے ہوئے کہنے لگا :جتنی مرضی بددعائیں مانگ لو میرا کچھ نہیں بگڑے گا۔ سائیں کا باپ ساری رات نہ سو سکا۔ اس کے اندر قیامت مچیرہی۔ صبح وہ صحیح سلامت اٹھا۔ ہاں البتہ جیجاں کا باپ مر گیا۔ وہ سائیں کی ماں کو شریف عورت سمجھ رہا تھا لیکن وہ تو چھپی رستم نکلی۔ یہ بات ضرور خوش آئند تھی کہ وہ بچ گیا اور یہ بھی پردہ میں رہ گیا کہ جیجاں مرحوم کی نہیں لبھو کی بیٹی ہے۔ سائیں کی کالی زبان نے ایک کا پردہ جب کہ دوسرے کا پردہ چاک کر دیا۔
79 فیصلہ ندی پر بڑی سی لکڑی رکھ کر لوگوں کی سہولت کے لیےچودھری نے پل بنوایا تھا۔ ندی پار آبادی نہ تھی محض جھاڑیاں تھیں۔ عورتیں مل کر رات کو جھاڑے کے لیے ندی پار جاتی تھیں۔ جھاڑے کے ساتھ ساتھ معاملات کی مشاورت جاری رہتی۔ زیادہ تر ساس سسر یا پھر نند کی زیادتیاں یا پھر جنسی کرتوتوں کے قصے بھی زیر بحث آتے۔ دو ایک خاوند بھی گفتگو کی گرفت میں آ جاتے۔ رات کو ہونے والے مذاکرات اگلی صبح گھر کے کام کاج سے فراغت اور خاندوں کو کام پر روانہ کرنے کے بعد دو دو گھنٹے بعض اوقات اس سے بھی زیادہ وقت دیوار پر کھڑے ہو کر رواں اور بلاتھکان تبصرے ہوتے۔ اس دن چودھری کے ڈیرے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ شیدو نے بتایا کہ اس کی عورت نے بتایا ہے کہ ندی پار رات کو کبوتر آتے ہیں۔ ڈیرے سے سنی بات کھبو نے گھر آ کر اپنی زنانی کو بتائی۔ اس کی زنانی نے پتا نہیں رات بھر یہ بات کس طرح ہضم کی پھر صبح اٹھتے ہی ہم سائی کے کان میں ڈالی۔ پھر یہ بات ایک سے دوسری پھر تیسری غرض شام تک وہ محلہ کیا آس پاس کے محلوں میں اپڑ گئی۔ اگلے وقتوں میں ریڈیو ٹی وی یا موبائل فون نہیں ہوا کرتے تھے‘ بس اسی طرح سے دور دراز
80 کے علاقوں کی خبریں دنیا بھر میں پھیل جاتیں تھیں۔ کوئی دوسری ولائت سے آتا کوئی نئی خبر لاتا تو یہ پورے علاقے میں پھیل کر مختلف نوعیت کے تبصروں کی زد میں آ جاتی۔ یہ خبر کہ رام نگر کی جھاڑیوں میں کبوتروں کی ڈاریں کی ڈاریں رات کو اترتی ہیں‘ جئےپور پہنچنے میں کوئی زیادہ دیرنہ لگی۔ وہاں کے معروف شکاری رات کو ان جھاریوں میں پہنچ گیے۔ صبح تک کبوتروں کا انتظار کرتے رہے لیکن صبح تک ایک کبوتر بھی نہ آیا۔ انہوں نے صبح اٹھ کر دیکھا۔ ایک کبوترکے کچھ پر بکھرے پڑے تھے۔ انہیں سخت مایوسی ہوئی۔ انہوں نے طے کیا آئندہ زنانیوں کی باتوں میں آ کر عملی قدم نہیں اٹھائیں گے۔ افسوس یہ فیصلہ محض زبانی کلامی کا تھا۔ عمل زنانیوں کے کہے پر ہی ہوتا رہا اور ہوتا آ رہا ہے۔ اگلے وقتوں میں کھمب سے ڈار بنتے تھوڑا وقت لگتا تھا لیکن آج بھلا ہو موبائل فون کا ایسا ہونے کے لیے منٹ سکنٹ خرچ ہوتے ہیں۔ مڈیا بھی کمپنی کی مشہوری کے لیے کچھ کا کچھ بنا دیتا ہے۔
81 قاتلبہت سے اوروں کے کارنامے شاہوں اور شاہ والوں کے کھاتے چڑھتے آئے ہیں اور آتے وقتوں میں ان کارناموں کے حوالہ سے شاہ اور شاہ والے جانے اور پہچانے گئے ہیں۔ اسی طرح ناکردہ یا شاہوں کے کردہ پاپ اور جرم کم زوروں کا مقدر ٹھہرے ہیں۔ ہٹلر انسانیت کا بدترین دشمن کہا جاتا ہے لیکن ١٨٥٧میں خون میں رنگ دینے والا چٹا ساب ہل پر نہایا تاریخ کے اوراق پر نظر آتا ہے۔ دھرتی اور دھرتی والوں سے غداری کرنے والے شورےفا میں داخل ہوئے۔ اندھیر یہ کہ آج بھی انہیں قوم کے ہیرو سمجھا اور جانا جاتا ہے۔شکورے کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا حالاں کہ وہ وچارہ شاہ یا کسی شاہ والے کا غدار نہ تھا۔ مشقتی تھا صبح جاتا رات کو آتا۔ جو محنتانہ میسر آتا بیوی بچوں پر خرچ کر دیتا۔ اپنے لیےایک پائی بھی بچا کر نہ رکھتا۔ اس کا مؤقف تھا اگر یہ پل سمبھ گئے تو وہ سفل ہو جائے گا۔ اس کا خلوص اور پیار اس کیکپتی بیوی کے نزدیک صفر کی حیثیت نہ رکھتا تھا۔ اس کا خیالتھا کہ شکورے نے باہر باہر بہت کچھ جمع کر رکھا ہے اور اس جمع پونجی پر سانپ بن کر بیٹھا ہوا ہے۔ لاکھ قسمیں کھانے اور یقین دلانے کے باوجود وہ اپنی ہٹ پر ڈٹی ہوئی تھی۔ وہ
82 چاہتی تھی کہ ساری جمع پونجی اور مکان جو شکورے کوواراثت ملا تھا۔ اس کے نام کرکے مرنے کی کرے۔ اس کے پاستھا ہی لیا جو بیوی کے نام کر دیتا۔ رہ گیا مکان وہ کون سا اس نے قبر میں لے جانا تھا۔ بچوں کا ہی تو تھا۔ اس کی بیوی کا اصل مسلہ یہ تھا کہ وہ سب کچھ حاصل کرکے اپنے یار ڈرائیور کے ساتھ جنت بسانا چاہتی تھی۔ خود تو سارا دن کھاتی پیتی اور جی بھر کر سوتی جب شکورا گھر آتا تو کوئی ناکوئی بہانہ تراش کر رات گئے تک اس کی ماں بہن ایک کر دیتی۔ وہ وہ باتیں اس سے منسوب کر دیتی جن کا اس کے فرشتوں کو بھی علم نہ ہوتا۔ وہ جان چھڑانے کی لاکھ کوشش کرتا مگر کہاں۔ رات گئے تک مختلف قسم کے میزائل اور بم برساتی۔ بڑی مشکل سے خلاصی ہوتی تو بن کھائے پئے صبر شکر کے گھونٹ پی کر سو رہتا۔ وہ یہ سب اس لیے برداشت کرتا کہ اس کے بچے بڑے ہو کر یہ نہ کہیں کہ باپ نے انہیں راہ میں ہی چھوڑ دیا۔ اس دن تو کمال ہی ہو گیا۔ شانو نے ایسا الزام اس پر دھر دیا جو کبھی اس سے متعلق رہا ہی نہ تھا۔ لڑائی میں کہنے لگی تمنے اپنی پہلی بیوی اور بچے کو اپنی معشوقہ رجو کے لیے زہر دے کر مار دیا۔ اس بیوی کو مارا جو اس کی جان تھی جب کہ بچہ بڑی منتوں مرادوں سے ہوا تھا۔ شکورے نے پوچھا یہ تمہیں کس نے بتایا‘ کہنے لگی تمہاری بھرجائی نے جو بڑی
83 کھری عورت تھی۔ وہ کھری عورت جو پچاس خصم بدل کر آئی تھی۔ سچ اور حق کی سخت دشمن تھی۔ وہ یہ سب سن کر بڑا حیران ہوا اس نے اپنے بچے اور بیوی کو اس رجو کے لیےمارا جسے اس نے کبھی دیکھا سنا ہی نہ تھا۔ جان پہچان یا پیار محبت تو بڑی دور کی بات۔آدھی رات کو باآواز بلند کہی گئی اس بات کو آج چالیس برس ہو چلے ہیں۔ وہ بہ مشکل چلتا پھرتا ہے لوگ اسے آج بھی بیویاور بچے کا قاتل سمجھتے ہیں۔ وہ مسجد میں سر پر کلام مقدس رکھ کر قسمیں کھا چکا ہے لیکن لوگ کہتے ہیں چور یار اور ٹھگ کی قسم کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی شرافت اورعلاقہ کے لوگوں سے بھلائی کسی کو یاد تک نہیں۔ قیامت یہ کہ اسے اس کے بچے بھی بڑی امی اور اپنے بڑے بھائی کا قاتل سمجھتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ کہ شکورے کی بیوی نہ شاہ تھی اور نہ شاہ والی تھی اس کے باوجود اس کا کہا شاہ یا شاہ والی کا سا ثابت ہوا۔
84 میں کریک ہوں ببو ہمارے محلے کا اکلوتا دکان دار ہے۔ برا نہیں تو اچھا بھی نہیں۔ بےایمان نہیں تو اسے ایمان دار بھی نہیں کہا جا سکتا۔ میری اس سے کوئی گہری سلام دعا نہیں‘ بس راہ چلتے ہیلو ہائے ہو جاتی ہے۔اس نے دکان بدلی تو میں نے پوچھا :دکان کیوں بدلی ہے۔ کہنےلگا :ایک تو تنگ تھی سودا پورا نہیں آتا تھا دوسرا ٹپکنے لگی تھی۔میں نے کہا چلو تم نے ٹھیک کیا۔ یہ کہہ کر کام پر روانہ ہو گیا۔رستہ وہ ہی تھا واپسی پر سلام دعا کے بعد میں نے دکان بدلنے کی وجہ دریافت کی۔ اس نے بلا تردد و ترمیم وہ ہی وجہ بتائی۔اگلے دن جمعہ تھا‘ چھٹی ہونے کے سبب میں نے سارا دن گھر پر ہی گزرا۔ہفتے کو کام پر جاتے ہوئے اس کے پاس رکا۔ دعا سلام اور حال احوال پوچھنے کے بعد دکان بدلنے کی وجہ پوچھی۔ اس نے میری طرف بڑے غور سے دیکھا اور وہ ہی وجہ بتائی۔ وہ مجھے بھلکڑ سمجھ رہا تھا۔ اس کے ساتھ زیادہ تعلقات ہی نہ تھے اور بات کیا کرتا۔ یہ ہی
85 ایک بات تھی جو اس سے آتا جاتا کرتا۔ واپسی پر حسب معمول رکا۔ سلام بلایا حال احوال پوچھا اور دکان بدلنے کی وجہ پوچھی۔ وہ اونچی اونچی بولنے لگا اور مجھ سے لڑ پڑا۔ لگتا تھا کہ ہاتھا پائی پر اتر آئے گا۔ میں بھی ذہنی طور پر بھاگنے کے لیے تیار تھا۔ مجھے معلوم تھا دوڑ میں وہ میرا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ وہ تو خیر ہوئی لوگ جمع ہو گئے اور لڑنے کی وجہ پوچھی۔ وہ چوں کہ زور زور سے بول رہا تھااس لیے میں نے بڑے تحمل سے وجہ بتا دی۔ ساتھ میں یہ بھی کہا میرا ببو سے کوئی خاص تعلق واسطہ نہیں اس لیے سلام دعا کی برقراری کے لیے پوچھ لیتا ہوں۔ یہ غصہ کر گیا ہے۔ اس میں غصہ کرنے والی ایسی کون سی بات ہے۔ سب ہنسنے لگے اور مجھے کہا باؤ جی آپ جائیں۔ اسی طرحکچھ ببو کو ٹھنڈا کرنے لگے۔ ایک بندے نے ببو کی طرف دیکھ کر سر پر انگلی رکھی۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ میں کریک ہوں۔ میں جعلی سنجیدگی سے ہولے قدمدں سے اپنے گھر کی جانب بڑھ گیا۔
86 ان ہونی‘ ان ہونی نہیں ہوتی تھیلا مردود ہیرا پھیری اور دو نمبری میں بےمثل اور بےمثالرہا جب کہ تھیلا شکی زندگی کے ہر معاملے کو شک و شبہ کینظروں سے دیکھنے میں ضرب المثل چلا آتا تھا۔ اس کا کہنا کہکچھ بھی خالص نہیں رہا۔ جعلی بھی اصلی کے موافق دکھتا ہے‘ کو سو فی ناسہی کسی ناکسی فی صد تو درست ماننا ہی پڑے گا۔ تھیلا مردود بات اس انداز سے کرتا کہ اس کا کہا اصلی سے بھی دو چار قدم آگے نکل جاتا۔ جسے ہاتھ لگے ہوئے ہوتے وہ بھی دھوکہ کھا جاتا۔ بات کہے تک ہی محدود نہ تھی‘ اس کا کیا بھی عین اصلی کی چغلی کھا رہا ہوتا۔ اسی وقت نہیں‘ بہت بعدمیں کھلتا کہ وہ تو سراسر فراڈ تھا لیکن اس وقت جھانسے میںآنے والے کا کھیسہ خالی ہو چکا ہوتا۔ لٹے کی باریابی کے لیے وہ مزید بل کہ برابر اور بار بار لٹتا چلا جاتا۔ ہم سب تھیلے شکی کے کہے کو بکواس کا نام دیتے رہے‘ بلکہ اس کا مذاق اڑاتے رہے۔ اس کا کہنا تھا کہ پیرو نے اس کے باپ اور بہن کو تعویز ڈال ڈال کر مارا۔ میری ماں نے پیرو سے نکاح تو کر لیا لیکن اپنے خاوند اور بیٹی کا قتل اسے مرتے دم تک معاف نہ کیا۔ اس کا یہ کہا میں نے بمشکل ہنسی پر قابو پا
87کر سنا۔ وہاں تو اس کی ہاں میں ملائی لیکن گھر آ کر خوب ہنسا اور انجوائے کیا۔ ایسی بات پیٹ میں کب رہتی ہے۔ دوستوں کو بھی لطف اندوز کیا۔ دشمنی کا یہ انداز‘ یقین مانیں بالکل انوکھا اور الگ سے لگا۔ نکاح بھی خاوند اور بیٹی کے قاتل سے کیا اور معاف بھی نہ کیا۔ عجیب اور سمجھ سے بالا لوجک تھی۔ دوسرا اگر تعویزوں سے لوگ مرنے لگتے تو آج دنیا میں ایک بھی زندہ نہ پھرتا۔یہ بات عجیب بھی ہے اور فوق الفطرت بھی۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ کوئی آپ سے کہے کہ کل میں نے مگرمچھ کو جاگتےمیں اڑتے دیکھا۔ ایسی بات کہنے والا پاگل ہی ہو سکتا ہے یا وہ آپ سے شغلا لگا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے‘ بےوقوف بنا رہا ہو۔ بکری صدیوں سے ہاتھی چٹ کرتے آئی ہے لیکن مگرمچھ اڑتے نہیں دیکھا گیا۔ علامتا مگرمچھ ہی اڑتے آئے ہیں۔ مزے کی بات دیکھیے اس کی عملی صورت دیکھنے میں آ گئی۔ اس کا مطلب یہ ٹھہرے گا‘ ان ہونی‘ ان ہونی نہیں رہی۔ گویا مگرمچھ کا اڑنا‘ غلط نہیں رہا۔ کہنے والے نے مگرمچھ کو ضرور اڑتے دیکھا ہو گا۔ یعنی مگرمچھ کی اڑان امکان میں داخل ہے۔ سدی پڑھا لکھا احمق اور یبل ہے۔ لکھائی پڑھائی کی بات کرو‘فٹافٹ وہ کچھ بتلا دے گا جو کسی کے خواب وخیال میں نہیں ہو گا۔ زبانی کلامی سماجیات میں بھی بڑا کمال کا ہے۔ عملی طور
88پر منفی صفر سے بھی گیا گزرا ہے۔ اللہ نے اسے دو بیٹے عطا فرمائے۔ بڑا لڑکا کچھ سال اور چھوٹا لڑکا کچھ دن کا تھا کہ بیوی انتقال کر گئی۔ بآمر مجبوری اسے شادی کرنا پڑی‘ جس عورت سے شادی کی زبان طراز تو تھی ہی‘ بانجھ بھی تھی۔ تھیلا مردود جو اس کا بہنوئی تھا نے سدی یبل کی بہن کو ہاتھوں میں کیا اور اس کا سب کچھ چٹ کر جانے کے طمع میں سدی کی شادی انتہائی گھٹیا اور چول عورت سے کروا دی۔ لوٹنے کے ساتھ ساتھ اپنی ہوس کی آگ بھی بجھانے لگا۔تھوڑی ہی مدت کے بعد اس عورت کی تھیلے مردود سے ان بن ہو گئی اور وہ سدی یبل کو لے کر وہاں سے نکل آئی۔ اللہ نے سدی یبل کو ایک بیٹے سے نوازا۔ سدی یبل کی خوشیکی انتہا نہ رہی ہاں البتہ اس عورت نے سدی کا سانس لینا بھی حرام کر دیا۔ پہلے ہی چھوٹا مر گیا تھا اب وہ اس بیٹے کی خاطر اس جہنم زادی کے ساتھ نبھا کر رہا تھا۔ وہ تھیلے شکی کی ماں کے گزارے کا مذاق اڑایا کرتا تھا لیکن اب اس کیسمجھ میں آیا تھیلے شکی کا کہا غلط نہیں تھا۔ بعض حالات کے تحت ناخوش گواری اور ناپسند کو بھی سینے سے لگانا پڑتا ہے۔ گویا مگرمچھ کا ہوا میں پرواز کرنا غلط نہیں۔
89 جذبے کی سزا اس میں بگڑنے والی ایسی کوئی بات ہی نہ تھی۔ بنے میاں کا بیٹا اپنے چھوٹے بھائی کو مار رہا تھا۔ میں نے اسے دو تین بار منع کیا لیکن وہ مارنے سے باز نہ آیا تو میں نے اس کیکھتی میں ایک رکھ دی۔ وہ روتا ہوا گھر چلا گیا۔ بنے میاں بڑے غصہ سے باہر آئے۔ کچھ پوچھے بغیر ناصرف مجھ پر برس پڑے بل کہ زناٹے کی دو تین دھر بھی دیں۔ میں ان کے اس رویے پر سخت حیران ہوا۔ یوں لگا جیسے انہوں نے مجھ سے کوئی پرانا بدلا چکایا ہو۔ میں بھی جوابا ان کی ٹھیک ٹھاک خاطر تواضح کر سکتا تھا لیکن کیجو کا منہ مار گیا۔ میں نے بامشکل درگزر سے کام لیا۔ اس نے ہاتھ چلا لیے اور میں چپ رہا‘ وہ سمجھا کہ ڈر گیا ہوں اسی لیے زبان بھی دیر تک چلاتا رہا۔ اردگرد کے لوگوں نے ٹھنڈا کیا کہ جسے بک رہے ہو وہ تو چپ ہے۔ میں بچوں کے معاملہ میں کبھی نہیں پڑا۔ شاید یہاں بھی نہ پڑتا جذبہءپدری نے مجھے بدحواس کر دیا اور میرا ہاتھ اٹھ گیا۔کیجو کا چھوٹا لڑکا میرے اچھے وقتوں کی یاد تھا۔ خیر اب بھیجب پہاگاں گھر پر نہ ہوتی تو کیجو مزے کرا جاتی۔ اس کا سنور جاتا اور میرا بھی ذائقہ تبدل ہو جاتا۔ بنے میاں کو محض شک
90 تھا مگر شک یقین میں نہ بدلا تھا۔ اس روز اگر میں بھی جوابا کچھ کرتا تو لمبا چوڑا کھڑاک ہوجاتا۔ کیجو دنیاداری میں کمال کی مہارت رکھتی تھی۔ اگرچہ سبجعلی کرتی لیکن اس کا یہ فرضی بھی اول درجے کا اصلی ہوتا۔ پہاگاں گھر پر تھی اور وہ کیجو کی بھی نانی تھی۔ بول بولارے کا ایسا میدان لگتا کہ شیطان بھی توبہ توبہ کر جاتا۔ ماضی اورحال کے وہ وہ قصے دہرائے جاتے جو کسی کے خواب و خیال میں نہیں رہے۔ بکوبکی سے میری بڑی جان جاتی ہے۔ جذبے کی سزا بڑی ازیت خیز ہوتی ہے۔ مجھے بہت معمولی سزا ملی تھی‘ میری چپ نے متوقع رن کا رستہ بند کر دیا تھا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میری چپ نے کیجو سے تعلق خراب ہونے کا دروازہ بھی بند کر دیا تھا۔
91 اللہ بھلی کرے وہ اچھا خاصا بیٹھا باتیں کر رہا تھا‘ قہقے لگا رہا تھا۔ پتا نہیں اچانک کیا ہو گیا‘ او خو کہتا ہوا اٹھ بیٹھا اور بڑی تیزی سے گھر کی طرف بڑھ گیا۔ پیچھے سے ککو نے آواز دی‘ اوے کیا ہوا جو بلا بتلائے بھاگ اٹھے ہو۔ ایمرجنسی۔۔۔آ کر بتاتا ہوں۔ وہ تو چلا گیا لیکن ایک موضوع چھیڑ گیا۔ اکی کا خیال تھا کہ اس کی بیوی کا آج کیس ہونا تھا۔ اللہ خیر کرے اور اللہ جو بھی دے نیک اور زندگی والا دے۔ دوکڑ نے قہقہ لگایا او نئیں یار وہ کوئی دائی ہے جو کیس اس نے کرنا ہے۔ آج اس کی کمیٹی نکلنی تھی‘ ادھر ہی گیا ہو گا۔ بگڑ نے اپنی چھوڑی۔ ہاں ہاں یہ ہی بات ہے۔ نکے نے گرہ لگائی چھوڑو یار اس کا کیا ہے کہو کچھ کرتا کچھ ہے۔ گھر سے کچھ لینے آیا ہو گا‘ ادھر بیٹھ کر گپیں ہانکنے لگا۔ اب دو گھنٹے بعد یاد آیا ہو گا‘ تب ہی تو دوڑکی لگا کر گیا ہے۔ بیگم شری سے چھتر کھا رہا ہوگا۔
92 اس کی اس بات پر سب ہنس پڑے کالیے کی بات میں دم تھا لیکن مہاجے نے اپنی ہی کہہ دی۔ کسی مار پر گیا ہے ورنہ اس طرح سے نہ بھاگ نکلتا۔ تم کیا جانو‘ جانو بڑا سیانا ہے۔ اسے ملنے گیا ہوگا۔ شبے نے ایک اور ہی شگوفہ چھوڑا۔ اسے کیسے نیکو نے حیرت سے پوچھا تمہیں نہیں پتا نہیں تو ادھر کان کرو‘ بیبو بیبو کون واہ گاؤں میں خاک رہتے ہو جگو کی بیٹی ہائیں‘ میں یہ کیا سن رہا ہوں جی ہاں بڑا چھپا رستم نکلا پس دیوار کی کے سیکڑوں معنی نکالے جاتے ہیں ،قیافوں اندازوں کا انبار لگ جاتا ہے۔ سب قریب قریب کی کہتے چلے جاتے ہیں۔ کھوج یا اسرار کھلنے کے وقت کا کوئی انتظار نہیں
93 کرتا۔منچلے اپنی اپنی تشریح و وضاحت میں مصروف تھے کہ جانو آ ہی گیا اور سر سٹ کر بیٹھ گیا۔ سب اس کے منہ کی طرف دیکھنے لگے۔ یار کچھ بکو گے یا یوں ہی منہ لمکائے بیٹھے رہو گے۔ بگی نے پوچھا کام نہیں ہوا۔ جانو نے تقریبا روتے ہوئے کہا بڑا دکھ ہوا جانو یار لیکن کون سا کام۔ بگی نے افسوسیہ انداز اختیار کرتے ہو۔ یار تم لوگ جانتے ہو معدے کا مریض ہوں۔ آج تین دن ہوئے پوٹی نہیں آئی۔ لگا تھا پوٹی آئی ہے۔ لیٹرین میں بیٹھ بیٹھ کر تھک گیا۔ صرف ہوا سری ہے۔ ہار کر اٹھ آیا ہوں۔ سب اس کا جواب سن کر ہنسنے لگے۔ واہ جی واہ‘ کھودا پہاڑ نکلا چوہا جگو نے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ او جگو یار تم جاہل ہو نا۔ جانو نے جوابا کہاہاں جی میں جاہل ہوں تم تو دلی سے ایم آ پاس کرکے آ گئے ہو نا۔ پاگل قبض تمام بیماروں کی ماں ہے۔ میرے اندر جو قیامت بپا
94 ہے وہ میں ہی جانتا ہوں۔ جانو نے روتے ہوئے کہا ماحول ناخوشگوار ہو گیا۔ چند لمحوں کے لیے سب کو چپ سیلگ گئی۔ جگو ہی نے سوگواری سی توڑتے ہوئے کیا۔ یار کیوں پریشان ہوتے ہو‘ اللہ بھلی کرے۔
95 آخری کوشش درندے کے قدموں کی آہٹ اور بھی قریب ہو گئی تھی۔ اس نے سوچا اگر اس کے دوڑنے کی رفتار یہی رہی تو جلد ہی درندے کے پنجوں میں ہو گا۔ اس نے دوڑنے کی رفتار اور تیز کر دی۔ پھر اس نے سوچا کیا وہ اور اس جیسے کمزور طاقتور کے آگے دوڑنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں؟ جب اور جہاں کمزور کی رفتار کم پڑ جاتی ہے طاقتور دبوچ لیتا ہے۔ اس کے بعد زندگی کا ہر لمحہ طاقتور کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ چند لمحوں کےذہنی سکون کے بعد طاقتور چیر پھاڑ کر اپنی مرضی کے حصے کھا پی کر جان بناتا ہے۔ لمحہ بھر کے لیے بھی وہ یہ سوچنےکی ذحمت گوارا نہیں کرتا کہ کمزور کے دودھ پیتے بچوں کا کیا ہو گا۔ اس کے جانے کے بعد اس سے کم طاقتور بقیہ پر بڑیبے دردی سے ٹوٹ پڑتے ہیں اور وہ بوٹی بوٹی نوچ لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہڈیوں پر بھی رحم کھایا نہیں جاتا۔ کھایا بھی کیوں جائے ہڈیاں فاسفورس کی کانیں ہیں۔ بٹنوں کے لیے ان کی ضرورت رہتی ہے۔ اس کے بھاگنے کی رفتار میں مزید اضافہ ہو چکا تھا۔ سوچ خوف اور بچ نکلنے کی خواہش نے اس کے جسم میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کا احساس تک نہ ہونے دیا۔ وہ ہر حالت میں
96 دشمن کی گرفت سے باہر نکل جانا جاہتا تھا لیکن دشمن بھی اسے بخش دینے کے موڈ میں نہ تھا کیونکہ اس کی رفتار میں بھی ہر اضافہ ہو گیا تھا۔ موت کا گھیرا تنگ ہو گیا تھا۔ اس کے سامنے کھلا میدان دائیں دریا بائیں گہری کھائی اور پیچھے خونخوار درندہ تھا۔ رستے کے انتخاب کے حوالہ سے یہ بڑی سخت گھڑی تھی۔ پھر وہ بائیں مڑ گیا۔ اس نے جسم کی ساری طاقت جمع کرکے کھائی تک پہنچنے کی کوشش کی۔ درندہ فقط ایک قدم کے فاصلے پر رہ گیا تھا۔ اس سے پہلے درندے کا پنجہ اس کی گردن پر پڑتا اس نے کھائی میں چھلانگ لگا دی۔ درندے کے اپنے قدم اس کی گرفت میں نہ رہے۔ کوشش کے باوجود رک نہ سکا اور وہ بھی گہری کھائی کی نذر ہو گیا۔ کمزور کے جسم کی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں اور دم اکھڑ رہا تھا۔اس نے سراٹھا کر دیکھا کچھ ہی دور درندہ پڑا کراہ رہا تھا۔ اسکی ٹانگیں ٹوٹ گئی تھیں۔ بھوک درد کے زنداں میں مقید ہو گئی تھی۔ کمزور کے چہرے پر آخری مسکراہٹ صبح کازب کے ستارے کی طرح ابھری۔ اس کی آخری کوشش رنگ لا چکی تھی۔ اسے اپنی موت کا رائی بھر دکھ نہ تھا۔ اس نے خود یہ رستہ منتخب کیا تھا۔ اب یہ درندہ کبھی کسی کمزور کا وحشیانہتعاقب نہ کر سکے گا اور اس کی ٹانگوں سے ہمیشہ اف اف اف کے بزدل نعرے بلند ہوتے رہیں گے۔
97 مکرم بندہ جناب حسنی صاحب :تسلیماتفی زمانہ نثر نگاری کا فن زنگ آلود ہو چلاہے۔ کوئی رسالہ بھیاٹھا کر دیکھئے توسوائے چند اوسط درجہ کے افسانوں اور چند منظومات (غزل اور آزاد نظمیں) کے علاوہ کچھ اور نظر نہیں آتا۔ ماضی میں رسالوں میں ادبی ،علمی اور تحقیقی مضامین کثرت سے ہوا کرتے تھے۔ تنقید و تبصرہ فن کی حیثیت سےسیکھے اور سکھائے جاتے تھے اورافسانہ نگاری بھی اونچے معیار کی حامل تھی۔ اب ادب پر ایک عمومی زوال تو طاری ہے ہی نثر نگاری خصوصا اضمحلال کا شکار ہے۔ غزل کہنا لوگ آسان سمجھتے ہیں (حالانکہ ایسا نہیں ہے)۔ غزل میں وقت کم لگتا ہے اور نظم میں اور نثر میں زیادہ ۔ نثر مطالعہ اور تحقیق بھی چاہتی ہے جس سے ہماری نئی نسل بیگانہ ہو کر رہ گئیہے۔ یہ ظاہر ہے کہ کوئی زبان بھی صرف ایک صنف سخن کے بل بوتے پر پھل پھول نہیں سکتی لیکن اردو والے اس معمولی سی حقیقت سے یا تو واقف ہی نہیں ہیں یا دانستہ اس سے صرف نظر کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کی اردو محفلیں بھی اسی مرض کا شکار ہیں اور وہاں بھی سوائے معمولی غزلوں کے (جن میں سے بیشتر تک بندی ہوتی ہیں) کچھ اور نظر نہیں آتا۔ آپ کی نثرنویسی میں مختلف کوششیں اس حوالے سےنہایت خوش آئند ہیں۔ آپ مطالعہ کرتے ہیں ،سوچتے ہیں اور انشائیے لکھتےہیں۔ اس جدوجہد کو قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ میں
98 اپنی مثال کسی خودستائی کی شہ پر نہیں دیتا بلکہ دوستوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ شوق،محنت اور لگن ہو تو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ میں نے انجینیرنگ پر نصابی کتابیں لکھی ہیں۔ ان کے علاوہ غزل ،نظم ،افسانے ،ادبی مضامین ،تحقیقی مضامین، ادبی تنقید وغیرہ سب ہی لکھا ہے۔ یقینا سب کچھ اعلی معیار کا نہیں ہے لیکن بیشتر اچھے معیار کا ہے اور ہندو پاک کے معتبر اور موقر رسالوں میں شائع ہوتا ہے۔ میں آپ کی انشائیہ نگاری کا مداح ہوں اور درخواست کرتا ہوں کہ برابر لکھتے رہہئے۔زیر نظر انشائیہ اچھا ہے لیکن یہ مزید بہتر ہو سکتا تھا سو اپ وقت کے ساتھ خود ہی کر لیں گے۔ خاکسار کی داد حاضر ہے ۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔ سرور عالم راز
99 ُمحترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سلام اس تحریر پر ہم ُکچھ نہ لکھیں گے۔ فقط یہی کہ اسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور تحریر کے اختتام کے قریب سانسیں ُرک جاتی ہیں۔ اور پھر منہ ک ُھلا کا ک ُھلا رہ جاتا ہے۔ اس کے اندر جو کرب ہے اور جو ُکچھ یہ انگلیاں لکھنے کو دوڑ رہی ہیں ،اُسے بصد مشکل روکتے ہوئے ،ایک بار پھر سے بھرپور داد ۔۔۔ دُعا گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7975.0
100 تیسری دفع کا ذکر ہےپہلی دفعہ کا ذکر اس لیے اتنا اہم نہیں کہ یہ دو ٹوک تھا اور اس کے ساتھ کوئی واقعہ ،معاملہ یا مسلہ وابستہ نہیں۔ میں بیمار پڑا۔ طبعیت ضرورت سے زیادہ بوجھل تھی۔ طبعیت خراب ہو تو ہائے وائے کی آوازیں ناچاہتے ہوئے بھی بےساختہ بل کہ ازخود منہ سے نکل جاتی ہیں۔ اگر توجہ اور خدمت کی تمنا ہو تو آدمی اس ذیل میں منہ کا سپیکر قدرے بلند کر دیتا ہے۔ یقین مانیے میں سچ مچ میں بیمار تھا اس لیے خصوصی توجہ کا طالب بھی تھی۔ خیال تھا کہ میرے پورے گھر والی پریشان ہوکر توجہ دے گی۔ میرا یہ خیال خاک کا شکار ہو گیا جب اس نے کہا نیچے چلے جاؤ کہیں میرے متھے لگتے ہو۔ میں کپڑے جھاڑتا ہوا نیچے آ گیا۔ ایک بیمار تھا اوپر اس بے رخی کا صدمہ بھی ہوا۔ چوں کہ پہلی دفعہ کا ذکر دو لمحوں کا تھا اس لیے اسے دفع کو ماریے۔ دوسری دفعہ چوں کہ بے ہوشی کی حالت ناسہی نیم بےہوشی کی کیفیت ضرور تھی۔ ہسپتال سے چوتڑوں اور بازوں پر کئی ایک ٹیکے لگوا کر گھر لایا گیا۔ چوتڑوں کے ٹیکے اس لیے محسوس نہ ہوئے کہ پیاری سی نرس نے دلی ہم دردی سے لگائے تھے‘ ہاں البتہ بازو ضرور دکھے کہ وارڈ بوائے نے
Search
Read the Text Version
- 1
- 2
- 3
- 4
- 5
- 6
- 7
- 8
- 9
- 10
- 11
- 12
- 13
- 14
- 15
- 16
- 17
- 18
- 19
- 20
- 21
- 22
- 23
- 24
- 25
- 26
- 27
- 28
- 29
- 30
- 31
- 32
- 33
- 34
- 35
- 36
- 37
- 38
- 39
- 40
- 41
- 42
- 43
- 44
- 45
- 46
- 47
- 48
- 49
- 50
- 51
- 52
- 53
- 54
- 55
- 56
- 57
- 58
- 59
- 60
- 61
- 62
- 63
- 64
- 65
- 66
- 67
- 68
- 69
- 70
- 71
- 72
- 73
- 74
- 75
- 76
- 77
- 78
- 79
- 80
- 81
- 82
- 83
- 84
- 85
- 86
- 87
- 88
- 89
- 90
- 91
- 92
- 93
- 94
- 95
- 96
- 97
- 98
- 99
- 100
- 101
- 102
- 103
- 104
- 105
- 106
- 107
- 108
- 109
- 110
- 111
- 112
- 113
- 114
- 115
- 116
- 117
- 118
- 119
- 120
- 121
- 122
- 123
- 124
- 125
- 126
- 127
- 128
- 129
- 130
- 131
- 132
- 133
- 134
- 135
- 136
- 137
- 138
- 139
- 140
- 141
- 142
- 143
- 144
- 145
- 146
- 147
- 148
- 149
- 150
- 151
- 152
- 153
- 154
- 155
- 156
- 157
- 158
- 159
- 160
- 161
- 162
- 163
- 164
- 165
- 166
- 167
- 168
- 169
- 170
- 171
- 172
- 173
- 174
- 175
- 176
- 177
- 178
- 179
- 180
- 181
- 182
- 183
- 184
- 185
- 186
- 187
- 188
- 189
- 190
- 191
- 192
- 193
- 194
- 195
- 196
- 197
- 198
- 199
- 200
- 201
- 202
- 203
- 204
- 205
- 206
- 207
- 208
- 209
- 210
- 211
- 212
- 213
- 214
- 215
- 216
- 217
- 218
- 219
- 220
- 221
- 222
- 223
- 224
- 225
- 226
- 227
- 228
- 229
- 230
- 231
- 232
- 233
- 234
- 235
- 236
- 237
- 238
- 239
- 240
- 241
- 242
- 243
- 244
- 245
- 246
- 247
- 248
- 249
- 250
- 251
- 252
- 253
- 254
- 255
- 256
- 257
- 258
- 259
- 260
- 261
- 262
- 263
- 264
- 265
- 266
- 267
- 268
- 269
- 270
- 271
- 272
- 273
- 274
- 275
- 276
- 277
- 278
- 279
- 280
- 281
- 282
- 283
- 284
- 285
- 286
- 287
- 288
- 289
- 290
- 291
- 292
- 293
- 294
- 295
- 296
- 297
- 298
- 299
- 300
- 301
- 302
- 303
- 304
- 305
- 306
- 307
- 308
- 309
- 310
- 311
- 312
- 313
- 314
- 315
- 316
- 317
- 318
- 319
- 320
- 321
- 322
- 323
- 324
- 325
- 326
- 327
- 328
- 329
- 330
- 331
- 332
- 333
- 334
- 335
- 336
- 337
- 338
- 339
- 340
- 341
- 342
- 343
- 344
- 345
- 346
- 347
- 348
- 349
- 350
- 351
- 352
- 353
- 354
- 355
- 356
- 357
- 358
- 359
- 360
- 361
- 362
- 363
- 364
- 365
- 366
- 367
- 368
- 369
- 370
- 371
- 372
- 373
- 374
- 375
- 376
- 377
- 378
- 379
- 380
- 381
- 382