Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore ایک سو ایک لوکانے منسانے شغلانے اور منظومے

ایک سو ایک لوکانے منسانے شغلانے اور منظومے

Published by maqsood5, 2017-05-20 12:02:13

Description: ایک سو ایک
لوکانے منسانے شغلانے اور منظومے
مقصود حسنی
ابو زر برقی کتب خانہ

Search

Read the Text Version

‫‪351‬‬ ‫ضروری نہیں‬ ‫بادشاہ لوگ برے نہیں ہوتے۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے‬ ‫شاید ہی کوئی بادشاہ برا رہا ہوگا۔ چمچے‘ کڑچھے‘‬ ‫گماشتے‘ خوشامدی وغیرہ تو الگ رہے‘ مورکھ بھی ان‬ ‫کے گن گاتا چلا آ رہا ہے۔ وہ وہ کارنامے ان کے نام کر‬‫دیے گیے ہیں‘ جو ان کے فرشتوں تک کو علم نہیں رہا ہو‬ ‫گا۔ ان کی دیا و کرپا ایک طرف‘ زنجیر عدل کے ڈھنڈورے‬ ‫پیٹنے میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ حالاں کہ‬ ‫عدل و انصاف کا ان سے کبھی کوئی تعلق اور واسطہ ہی‬ ‫نہیں رہا تھا۔ چوری خور مورکھ کے لفظوں نے آتے وقت‬ ‫کے لوگوں کو گم راہ کیا ہے۔ ان کی کرتوتوں سے نفرت‬ ‫کی بجائے‘ آتی نسل کی جذباتی وابستگی محبت اور‬ ‫عقیدتوں کو چھوتی نظر آتی ہے۔‬ ‫ان کے تعمیر کیے گیے محلوں‘ عشرت کدوں اور ایسی‬ ‫بہت سی لغویات کو تحسین کی نظروں سے دیکھا گیا ہے۔‬ ‫کبھی کسی نے ان پر انگلی نہیں رکھی کہ یہ سب کن کی‬ ‫کمائی سے بنایا گیا۔ انگلی رکھنے والے کی جذبات میں آ‬

‫‪352‬‬‫کر انگلی کاٹی جاتی رہی ہے‘ جیسے کسی نبی یا بزرگ کی‬ ‫شان میں گستاخی کر دی گئی ہو۔‬‫کیا شاہ نے گلیوں میں گول گپے بیچ کر سب بنایا تھا یا وہ‬ ‫کسی سیٹھ کے ہاں مزدوری کرتا رہا تھا۔ عوام کی مشقت‬ ‫کی کمائی جو ان کی بہبود کے نام پر حاصل کی گئی‘ اپنی‬ ‫عیش کوشی پر صرف کی۔ ان پہلووں پر کبھی کسی نے‬ ‫سوچنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی۔‬‫اس روز بوبا اور اس کی بیوی اچھے اور رومانی موڈ میں‬ ‫بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کی بیوی نے بڑے نخرے اور لاڈ‬ ‫میں آ کر کہا‪ :‬شاہ جہاں نے اپنی بیوی کے لیے تاج محل‬ ‫بنایا تھا اور آج وہ دنیا جہاں کے لیے محبت کی خوب‬ ‫صورت نشانی ہے۔ دور دور سے لوگ اسے دیکھنے آتے‬ ‫ہیں۔ کیا تم بھی میرے مرنے کے بعد میرے لیے تاج محل‬ ‫بناؤ گے۔‬ ‫بوبے نے یہ کہنے کی بجائے کہ وہ بادشاہ نہیں ایک‬ ‫مزدور ہے۔ دوسرا اس کی کمائی لوٹ کی نہیں۔ یہ بھی کہ‬ ‫تم ملکہ نہیں ہو جو ملکہ ماں کا نام دے کر لوگوں سے‬ ‫چندہ اکٹھا کر لے گا۔‬

‫‪353‬‬ ‫بوبے نے بھی پررومان انداز میں کہا‪ :‬میں نے پلاٹ خرید‬ ‫لیا ہے بس اب دیر تمہاری طرف سے ہے۔‬ ‫اس کی کہنی اندر کی نہ تھی۔ اس نے ڈیڑھ مرلے کا پلاٹ‬ ‫نیچے دکان اور اوپر اپنی محبوبہ چھما کے ساتھ رہائش‬ ‫کے لیے خرید کیا تھا۔‬‫ضروری نہیں کہنی اندر کی پر استوار ہو۔ بیوی بھی خوش‬ ‫اور اندر کی کا اظہار بھی ہو گیا۔‬ ‫ہونی کا اندر کی پر استوار ہونا ضروری نہیں۔ ہونی اپنی‬ ‫مرضی کی مالک ہوتی ہے۔ بوبا بازار سے آ رہا تھا کہ‬ ‫کھتوتی ریڑھی سے ٹکرا کر سر کے بل گرا اور گرتے ہی‬ ‫تھاں پر ٹکی ہو گیا۔ اس کی موت پر شنو نے رونے‬‫دھونے کا خوب ڈراما رچایا کہ زمانہ اس کی محبت پرعش‬ ‫عش کر اٹھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ادھر عدت پوری ہوئی‬ ‫ادھر اس نے اپنے بچپن کے سنگی سے نکاح کر لیا۔‬ ‫ان دنوں اس ڈیڑھ مرلہ پر بوبے کے سالے کا دھکے‬ ‫شاہی قبضہ ہے۔ شنو کا سنگی ہاتھ ملتا پھرتا ہے کہ جس‬‫زمین کے لیے اس نے شنو فٹ فٹی سے شادی کی تھی وہ‬

‫‪354‬‬ ‫ہاتھ نہ آئی اور پلے میں یہ سیکنڈ ہینڈ شنو فٹ فٹی ہی رہ‬ ‫گئی ہے۔‬ ‫اس حمام میں‬ ‫منسانہ‬ ‫محلہ کے اکلوتے عطائی ڈاکٹر کے پاس‘ میرے اکیلے کا‬ ‫ہی نہیں‘ سب کا آنا جانا رہتا ہے۔ کافی تجربہ کار ہو گیا‬ ‫ہے۔ دوسری سب سے بڑی بات یہ کہ کچھ ناکچھ مدد مل‬ ‫جاتی ہے اور چمڑی برقرار رہتی ہے۔ تسلی کی بات یہ کہ‬‫بڑے ڈاکٹروں کی طرح مکمل چیک اپ کرتا ہے لیکن چیک‬ ‫اپ کروائی نہیں لیتا اور ناہی ٹستوں کے چکروں میں ڈالتا‬ ‫ہے۔ بڑے ڈاکٹر چیک اپ کم ٹسٹ زیادہ لکھتے ہیں۔ اس‬ ‫روز سے سمجھو اجاڑہ شروع ہو جاتا ہے۔ ان کے اپنے‬ ‫ٹسٹ کدے موجود ہوتے ہیں۔ اگر باہر سے کروائیں تو‬ ‫وہاں ان کا بھی فی صد مقرر ہوتا ہے۔ ایک کا رزلٹ‬ ‫دوسرے سے قطعی الگ تر ہوتا ہے۔‬ ‫کبھی ایک اور کبھی کبھی ایک ساتھ تین چار بیماریاں‬‫گھیر لیتی ہیں۔ مجال ہے جو اس کے ماتھے پر کبھی کوئی‬

‫‪355‬‬ ‫تریلی آئی ہو۔ بڑی تسلی سے دوائی دینے کے ساتھ ساتھ‬ ‫ہم دردی کا اظہار بھی کرتا ہے۔ آدھی بیماری تو اس کے‬ ‫حسن سلوک ہی سے کٹ جاتی ہے۔‬ ‫اس کی دواگاہ پر جاتے ہوئے کئی سال بیت گیے ہیں۔ ایک‬ ‫ساتھ دو دو چار چار بیماریاں لاحق ہوئی ہیں۔ اللہ نے شفا‬ ‫بھی دی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نیت کا کھوتا‪١‬‬‫نہیں۔ اسے ضرورت بھر اللہ رزق دیے جا رہا ہے اسی لیے‬ ‫مریض کی شفا کی خواہش کرتا ہے۔ مریض کی دیر تک‬ ‫آنیاں جانیاں اسے خوش نہیں آتیں۔ اگر کوئی تین چار بار‬ ‫ایک ہی بیماری کے لیے آتا ہے تو پریشان ہو جاتا ہے‘‬ ‫ہاں کسی دوسری بیماری کے لیے آتا ہے تو سو بسم اللہ‬ ‫ہزار بار آئے کوئی بات نہیں۔ یہ تو خوش گوار چیز ہوتی‬ ‫ہے۔ اسی بہانے ملاقات ہو جاتی ہے‘ دوا دارو کا کام بھی‬ ‫چلتا رہتا ہے۔‬ ‫کھرک کو میں نے ہمیشہ خوش گوار اور پرلطف بیماری‬ ‫سمجھا ہے لیکن یہ اس بار ایسی جگہ لاحق ہوئی جہاں‬ ‫سماجی سطع پر متواتر کھرکے جانا معیوب سمجھا جاتا‬ ‫ہے۔ گھر میں بہو بیٹیاں ہیں۔ بڑی ہی حیا آتی تھی۔ مجبورا‬ ‫مجھے دوا کے لیے جانا پڑا۔ میں نے ڈاکٹر سے براہ‬

‫‪356‬‬‫راست حقیقت کہہ دی۔ دریں اثنا ایک اور صاحب آ گئے اور‬‫انہوں نے کھرک کو الرجی کا نام دیتے ہوئے دوا طلب کی۔‬ ‫اب میں کچھ ٹھیک سے نہیں کہہ سکتا کہ انہیں کہاں‬ ‫کھرک پڑی ہوئی تھی۔ میرے منہ سے بےساختہ نکل گیا‪:‬‬ ‫یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔‬‫میں نے بقیہ جملہ کہ میں اس حمام میں اکیلا ہی نہیں ہوں‘‬ ‫کو پس زبان ہی رکھا۔‬ ‫انہوں نے کھا جانے کے انداز کی گھرکی سے میری جانب‬ ‫دیکھا۔ ڈاکٹر نے بھی بڑی سنجیدگی سے میری طرف‬‫دیکھا۔ میں نے خطرہ محسوس کر لیا کہ کچھ بھی ہو سکتا‬‫ہے‘ تاہم میرے لیے یہ کوئی غیرمتوقع ردعمل نہ تھا۔ میں‬ ‫جانتا تھا کہ کیا ردعمل ہو سکتا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ‬ ‫مجھے ایک دو جڑ دیتے‘ میں نے ان کی جانب دیکھتے‬ ‫ہوئے کہا‪ :‬محتاجی بری بلا ہے۔ اللہ اپنے پاؤں پر ہی‬ ‫رکھے۔ آج کل تو سگی اولاد تک نہیں پوچھتی۔ غیر کو کیا‬ ‫پڑی جو دکھ میں ساتھ دیتا پھرے۔ اللہ کا شکر ہے جو‬ ‫اپنے پاؤں پر چل رہے ہیں۔‬‫میں نے احتیاطا ان کی ہاں بھی ملوائی تا کہ تلخی کے ختم‬ ‫ہونے کا یقین ہو جائے۔ انہوں نے میری ہاں میں ہاں‬

‫‪357‬‬ ‫ملائی‘ اس کے باوجود کسی ناگواری کی صورت سے‬‫بچنے کے لیے‘ ڈاکٹر نے انہیں پہلے فارغ کر دیا حالاں کہ‬ ‫پہلے میں آیا تھا۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫یہ کتابت کی غلطی ہے ٹ کی بجائے ت درج ہو گیا ہے۔‬

‫‪358‬‬ ‫صرف اور صرف‬ ‫لوکانہ‬ ‫ایک خوشامدی نے بادشاہ سے کہا‪ :‬حضور آپ کی کیا بات‬‫ہے۔ آپ سا نہ کوئی ہوا ہے اور نہ کبھی کوئی ہوگا۔ آپ کی‬ ‫بڑی لمبی عمر ہے اور آپ تا دیر سلامت رہیں گے۔ جب‬ ‫کوئی نہیں ہو گا تب بھی آپ کی بادشاہت قائم ہو گی۔ دریا‬ ‫کی منہ زور لہریں بھی آپ کے حکم کی تابع ہیں اور تابع‬ ‫رہیں گی۔ وہ بھی آپ کے حکم کے بغیر حرکت میں نہیں‬ ‫آتیں۔‬ ‫خوش آمدی کے کہے نے بادشاہ کی روح کو سکون دیا‬ ‫اور دل تر وتازہ کر دیا۔ اس نے بہت سی اشرفیاں اس کی‬ ‫آغوش میں ڈال دیں۔‬ ‫بادشاہ نے پاس کھڑے گماشتے سے کہا۔ رملی کو بلواؤ۔‬ ‫اس نے فورا سے پہلے ایلچی کو حکم دیا کہ رملی کو‬ ‫شاہی دربار میں حاضر کیا جائے۔‬

‫‪359‬‬ ‫وہ تیر کی طرح اڑتا ہوا رملی کو بلانے چلا گیا۔ دریں اثنا‬ ‫بادشاہ نے جی حضوریے سے کہا کہ ہمارا تخت فوری‬ ‫طور پر دریا کے کنارے لگوایا جائے۔ جی حضوریہ بادشاہ‬ ‫کے حکم کی تعمیل میں جٹ گیا۔‬ ‫رملی آ گیا۔ بادشاہ نے کہا کہ ہمارے اس کارندے نے کہا‬ ‫ہے کہ ہم تادیر جیئں گے۔ جب کچھ بھی نہیں ہو گا اس‬ ‫وقت بھی ہماری بادشاہت قائم ہو گی۔ بتاؤ اس کا کہنا کہاں‬ ‫تک درست ہے۔‬ ‫رملی تھوڑی دیر تک حساب کتاب لگاتا رہا۔ وہ جانتا تھا‬ ‫کہ بادشاہ سچ اور حق کی سننے کے عادی نہیں ہوتے۔‬‫حق سچ کی کہنے والے ہمیشہ جان سے گیے ہیں۔ اگر اس‬ ‫نے بھی آج حق سچ کی کہی تو جان سے جائے گا۔‬ ‫خوشامدی انعام و اکرام لے کر گیا ہے اور وہ اپنے قدموں‬ ‫واپس گھر نہ جا سکے گا۔ پھر اس نے جعلی خوش خبری‬ ‫لبریز خوشی کے ساتھ اس خبر کی تصدیق کر دی۔ یہ ہی‬ ‫نہیں اس نے پان سات جملے اپنے پاس سے بھی جڑ‬ ‫دیئے۔‬

‫‪360‬‬ ‫رملی کی باتوں نے بادشاہ کو خوش کر دیا ہاں البتہ خوش‬ ‫آمدی پر ناراض ہوا کہ اس نے ساری باتیں کیوں نہیں‬ ‫بتائیں۔‬ ‫اسی دوران حکم شاہی کی تعمیل میں بادشاہ کا تخت دریا‬‫کنارے آراستہ کر دیا گیا۔ بادشاہ چیلوں‘ چمٹوں‘ گماشتوں‘‬ ‫خوش آمدیوں وغیرہ کے ساتھ دریا کنارے لگے تخت پر آ‬ ‫بیٹھا۔ سرد اور رومان خیز ہوا نے اسے بہت لطف دیا۔‬ ‫بادشاہ نے ماحول اور فضا کی تعریف کی اور آئندہ سے‬ ‫دریا کنارے تخت آراستہ کرنے کا حکم دیا۔ کسی کو اصل‬ ‫حقیقت کہنے کی جرآت نہ ہوئی۔‬ ‫بادشاہ خوش آمدیوں کی خوش آمد سننے میں مگن تھا کہ‬ ‫دریا کی ایک منہ زور لہر آئی سب کچھ بہا کر لے گئی۔‬‫بادشاہ کی ٹانگیں اوپر اور سر نیچے ہو گیا۔ بادشاہ کا تخت‬‫بہتا ہوا جانے کہاں چلا گیا اور وہ خود بہتا ہوا اپنی سلطنت‬ ‫کی حدوں بہت دور نکل گیا۔ دیکھا وہاں ویرانیوں کے سوا‬ ‫کچھ بھی نہ تھا۔ کسے حکم جاری کرتا کہ اسے اس کے‬ ‫قدموں پر کرے۔ ہاں اللہ کے حکم کی تعمیل میں موت کا‬‫فرشتہ اس کے سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا اور چند لمحوں‬ ‫کی مہلت دینے کے لیے بھی تیار نہ تھا۔‬

‫‪361‬‬ ‫رملی سیانا تھا تب ہی تو خبر کی تصدیق اور اپنے جھوٹ‬ ‫کا انعام لے کر چپکے سے دربار سے کھسک گیا تھا۔‬ ‫دریا کی ایک لہر نے ثابت کر دیا کچھ باقی رہنے کے لیے‬‫نہیں ہے۔ بقا صرف اور صرف اللہ ہی کی ذات کے لیے ہے۔‬

‫‪362‬‬ ‫نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن‬ ‫منسانہ‬ ‫کسی کے معاملے میں یوں ہی ٹانگ اڑانا بلا طلب مشورہ‬ ‫دینا یا ذاتی معاملات میں دخل اندازی مجھے اچھی نہیں‬‫لگتی۔ ہاں کسی برائی سے روکنا مجھے کبھی برا نہیں لگا۔‬ ‫کوئی غصہ کرتا ہے تو کرتا رہے‘ میں نےکبھی اس کی‬ ‫پرواہ نہیں کی۔ اچھائی کے زمرے میں‘ میں کسی‬ ‫کمپرومائز کا قائل نہیں۔ برائی کو ہر حال میں برائی ہی کہا‬ ‫جانا چاہیے۔ برائی کی تائید یا خاموشی بہت بڑے سماجی‬ ‫نقصان کا موجب ہو سکتی ہے۔‬ ‫میں کسی کے کیا اپنی اولاد کے ذاتی گھریلو معاملات میں‬ ‫دخل اندازی کا قائل نہیں۔ ہاں البتہ مشورہ طلب کرنے کی‬ ‫صورت میں بڑی دیانت داری سے دو ٹوک اور بلا لگی‬ ‫لپٹی اپنی رائے کا اظہار کر دیتا ہوں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ‬ ‫میں نے ڈرتے ڈرتے اور جھجکتے ہوئے اس سے پوچھ‬ ‫ہی لیا کہ وہ گھر میں صرف دو لوگ رہتے ہیں تو پھر اتنا‬ ‫گوشت کیوں لے کر جاتے ہو۔ مہمان بھی کوئی خاص آتے‬

‫‪363‬‬‫جاتے نہیں دیکھے۔ میری سن کر وہ کھل کھلا کر ہنس پڑا‬ ‫اور کہنے لگا۔ میری بیگم صرف گوشت کھانا پسند کرتی‬‫ہے۔ گوشت کی مختلف نوعیت کی ڈیشیں بنانے میں مہارت‬ ‫رکھتی ہے۔ وہ سبزی سے چڑتی ہے لیکن میں گوشت‬ ‫پسند نہیں کرتا۔ لیگ پیس تو اس کی من بھاتی کھا جا ہے۔‬ ‫رات کو آخر سونا بھی ہوتا ہے۔‬ ‫ابے لیگ پیس اور رات کو سونا بھی ہوتا ہے کوئی میل‬ ‫کھاتی بات نہیں۔ بالکل بےسری سی کہہ گئے ہو‬ ‫جناب بےسری نہیں حقیقت اور میل کھاتی ہوئی بات کی‬ ‫ہے۔‬ ‫وہ کیسے‘ میں سجھا نہیں‬‫جناب مرغ کی ٹانگیں نہیں لا کر دوں گا تو ہو سکتا ہے کہ‬‫رات کو اس کا موڈ بن جائے اور اٹھ کر میری ایک یا زیادہ‬ ‫ضرورت کی صورت میں دونوں ہڑپ جائے اور مجھے‬‫صبح اٹھ کر پتا چلے۔ ایک ٹانگوں سے جاؤں اوپر سے یہ‬ ‫معنا سنوں‘ تم جیب کے بڑے پکے ہو‘ یہ الگ بات ہے کہ‬ ‫میری کوئی جیب ہی نہیں جیب تو اسی کی ہے۔‬

‫‪364‬‬ ‫میں اس کی بات پر ہنسا بھی اور مجھے اس کی کمال کی‬ ‫مبالغہ آرائی نے لطف بھی دیا‪،‬‬ ‫اس نے بتایا کہ اس کی زوجہ سرکار نے فقط چار شوق‬ ‫پالے ہیں۔ کھانا‘ لڑنا‘ سونا اور چوتھا ڈیش ڈیش ڈیش۔ ان‬ ‫چاروں میں سے کسی ایک پر کمپرومائز نہیں ہو سکتا۔‬ ‫لڑائی میں چاردیواری میں مقفل آواز کی قائل نہیں۔‬ ‫اس کی آواز صور اسرافیل سے مماثل ہوتی ہے۔ گھر کے‬ ‫در و دیوار پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ لفظوں کے پھوٹتے‬ ‫انگارے میرے وجود اور روح کو چھلنی کر رہے ہوتے‬ ‫ہیں جب کہ محلہ لفظوں کی ادائیگی اسلوب اور نشت و‬ ‫برخواست سے لظف اندوز ہو رہا ہوتا ہے۔ وہ ان لمحات‬ ‫میں غلط اور صحیح کو ایک آنکھ سے دیکھ رہی ہوتی‬ ‫ہے۔ اس کے منہ سے نکلتے زہر آلود لفظ‘ لفظ کم حاویہ‬ ‫کے دہکتے انگارے زیادہ ہوتے ہیں جو انا اور ہونے کی‬‫حسوں کو تنور کی راکھ میں بدل رہے ہوتے ہیں۔ ان خوف‬ ‫ناک لمحوں میں کانوں میں شائیں شائیں ہوتی ہے اور‬ ‫آنکھوں میں اندھیرا چھا رہا ہوتا ہے۔ اپنی خیر مناتے‬ ‫کوئی بچ بچا کے لیے راہ میں نہیں آتا۔‬

‫‪365‬‬ ‫دسمبر کی قلفی بنا دینے والی سردی میں پنکھا فل اسپیڈ‬ ‫پر چلا کر استراحت فرماتی ہے۔ سوچتا ہوں جہنم میں گئی‬ ‫تو جہنم کی آگ کا اس پر کیا اثر انداز ہو سکے گی ہاں‬ ‫البتہ اس میں تیزی ضرور آ جائے گی۔ بےچارے جہنمیوں‬ ‫پر مزید قیامت توڑے گی۔‬ ‫ایک مرتبہ غلطی سے میں سگریٹ ایش ٹرے کی بجائے‬ ‫نیچے پھینک بیٹھا۔ یہ ننگے پاؤں تھی اس کا پاؤں‬ ‫سگریٹ پر آ گیا۔ یوں پٹ پٹ پئی جیسے تنور میں گر گئی‬ ‫ہو۔ میرے ساتھ جو ہوا اس کو چھوڑیے مجھ پر یہ‬ ‫انکشاف ضرور ہوا کہ آگ‘ آگ کو بھی جلاتی ہے اور کم‬ ‫زور آگ ازیت کا شکار ہوتی ہے۔‬ ‫پھر خیال گزرا اگر خدا نخواستہ جنت میں داخل ہو گئی تو‬ ‫وہاں کا ماحول حبسی ہو جائے گا۔ اس بات کو چھوڑیے‬ ‫میرا کیا بنے گا۔ ہر وقت میری بہتر حوروں کو اسٹینڈ ٹو‬ ‫رکھے گی۔ میری ہر چھوٹی موٹی غلطی پر یلغار کا کاشن‬ ‫جاری کرتی رہے گی۔‬‫میں اٹھنا چاہتا تھا کہ یہ حضرت چل سو چل ہو گئے تھے۔‬ ‫ان کی رام کہانی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ میری‬‫کیفیت نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کی سی تھی۔ اٹھتا ہوں‬

‫‪366‬‬ ‫تو بد اخلاقی بیٹھا رہتا ہوں تو دماغ میں سوراخ ہو رہے‬ ‫تھے۔ پہلے تو میں مداخلت کو غیراخلاقی کام سمجھتا تھا‬ ‫لیکن اب معلوم ہوا کہ مداخلت وقت اور دماغ کے زیاں‬ ‫سے زیادہ چیز نہیں۔ میں نے دل ہی دل میں توبہ کی کہ‬ ‫اس کے بعد ایسی غلطی نہیں کروں گا۔ دو حرفی بات کو‬ ‫انہوں نے شیطان کی آنت بنا دیا۔‬

‫‪367‬‬ ‫امتیاز‬ ‫لوکانہ‬ ‫تھانے دار جو گھوڑے پر سوار تھا‘ گاؤں میں کسی‬‫ضروری تفتیش کے لیے آیا۔ صاف ظاہر ہے اس نے سیدھا‬ ‫لمبڑ کے گھر جانا تھا۔ لمبڑ کے گھر کا اسے اتا پتا نہ تھا۔‬ ‫اس نے گاؤں میں داخل ہوتے ہی سامنے آتی ایک خاتون‬ ‫سے لمبڑ کے گھر کا پوچھا۔ اس بی بی نے بتایا کہ جو‬‫مکان سب سے اونچا پکا اور خوب صورت ہے وہ ہی لمبڑ‬ ‫کا ہے۔ تھانے دار نے ادھر ادھر نظر دوڑائی اسے سب‬ ‫سے اونچا پکا اور خوب صورت مکان نظر آ گیا۔‬ ‫بی بی گھر آ گئی۔ بہو نے کچھ پوچھا تو اس بی بی نے‬ ‫ناک چڑھا کر منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ اس نے یہ ہی‬ ‫طور بیٹے اور بیٹی سے اختیار کیا۔ شام کو جب تھکا ہارا‬ ‫خاوند گھر آیا تو اس نے اس کے ساتھ بھی یہ ہی انداز‬ ‫اختیار کیا۔ اسے بڑی حیرت ہوئی۔ اس نے بہو سے ماجرہ‬ ‫پوچھا۔ بہو نے جوابا کہا‪ :‬پتا نہیں کہ بےبے کو کیا ہو گیا‬ ‫ہے صبح ہی سے ایسا کر رہی ہے۔‬

‫‪368‬‬ ‫اس نے پہلے پیار سے پوچھا تو وہ اور مچھر گئی۔ اس‬ ‫نے اس کے بعد دو چار چوندی چوندی گالیاں ٹکائیں‬ ‫اورمعاملہ پوچھا۔ گالیاں سن کر وہ ٹھٹھکی اور بولی‪:‬‬ ‫تھانےدار سے تو نہیں مل کر آئے ہو۔‬ ‫اس کا جواب سن کر لامحالہ اسے حیرت ہونا ہی تھی۔ اس‬ ‫نے پوچھی گئی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا‪ :‬تم‬ ‫مجھے چھوڑو اپنے اس انداز کی وجہ بتاؤ۔‬‫بی بی نے جواب دیا‪ :‬اس منہ سے میں نے تھانےدار سے‬ ‫بات کی تھی اور اب اسی منہ سے کتوں بلوں کے ساتھ‬ ‫بھی بات کروں۔‬ ‫وہ شخص افسردہ ہو گیا اور چارپائی پر چپ چاپ لیٹ گیا۔‬ ‫تھوڑی دیر بعد اٹھا اور اس نے فخریہ قسم کا قہقہ داغا۔‬ ‫سب اس کے اس طور پر حیران رہ گئے۔ اب کہ تھانےدار‬ ‫کی سابقہ ہم کلام نے تکبر کی گرہ توڑتے ہوئے کہا‪ :‬بھلیا‬‫کیا ہوا‘ پہلے افسردہ ہو گئے تھے اور اب قہقہے لگا رہے‬ ‫ہو۔‬ ‫پاگل اگر میں تھانےدار سے ہم کلام ہوا ہوتا تو تمہیں‬ ‫دھکے مار کر گھر سے نہ نکال دیتا۔ ہاں اتنا ٍفخر ضرور‬

‫‪369‬‬ ‫ہے کہ میں ایسی عورت کا خاوند ہوں جسے تھانےدار‬ ‫سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ تمہارے مائی باپ‬ ‫بلاشبہ بڑے عظیم ہیں جو انہؤں نے تم ایسی عزت مآب‬ ‫بیٹی کو جنم دیا۔ اٹھو اور تیاری کرو کہ ان عظیم ہستیوں‬ ‫کے چرن چھونے چلیں۔ پھر وہ بہو بیٹی اور بیٹے کو نظر‬ ‫انداز کرتے ہوئے گھر سے باہر نکل گئے۔‬ ‫اس واقعے کے بعد بہو کا نظرانداز ہو جانا فطری سی بات‬ ‫تھی۔ کہاں وہ تھوڑ پونجوں کی اولاد کہاں یہ تھانےدار‬ ‫سے ہم کلام ہونے والی ماں کی اولاد‘ دونوں خان دانوں‬ ‫میں حالات نے زمین آسمان کا فرق ڈال دیا تھا۔ بےشک یہ‬ ‫اونچ نیچ کا امتیاز نسلوں کو ورثہ میں منتقل ہو جانا تھا۔‬ ‫کھوتے کہوڑے کا امتیاز اگر مٹ جائے تو عام اور خاص‬ ‫کی اصطلاحیں بےمعنی اور لایعنی سی ہو کر رہ جائیں۔‬

‫‪370‬‬ ‫چوتھے کی چوتھی‬ ‫ہمارے گھر سے خالہ کا گھر کوئی بیس پچیس منٹ پیدل‬ ‫فاصلے کا رستہ تھا۔ دونوں گھروں کے مراسم بھی خوش‬ ‫گوار تھے۔ ہم ایک دوسرے کے ہاں بلا کسی ٹوک آتے‬ ‫جاتے رہتے تھے۔‬‫دونوں گھروں کا ماحول عادات رویے طور و اطوار معاشی‬ ‫حالات ایک جیسے تھے۔ مثلا میری خالہ‘ خالو کی عزت‬ ‫نہیں کرتی تھی ہماری اماں بھی ابا کی دن میں دو چار بار‬ ‫بےعزتی ضرور کرتی تھی۔ ان کی معاشی حالت درمیانی‬ ‫تھی ہمارا گھرانہ بھی کھاتا پیتا نہ تھا۔ وہ تین بہنیں اور‬‫تین بھائی تھے جب کہ تعدادی اعتبار سے ہم بھی اتنے ہی‬ ‫تھے۔ جیا کا گھر میں چوتھا نمبر تھا میرا بھی چوتھا نمبر‬‫تھا۔ جیا کے ابا پرلے درجے کے جھوٹے تھے جب کہ سچ‬ ‫میرے ابا کے بھی قریب سے نہ گزرا تھا۔‬ ‫خالہ دیوار کے اس پار کی ہمسائی سے دو دو گھنٹے‬ ‫کھڑی ہو کر باتیں کرتی تھی۔ میری ماں بھی یہ ہی طور‬ ‫رکھتی تھی۔ گھر میں آئی ہمسائی کے ساتھ گھنٹوں باتیں‬

‫‪371‬‬ ‫کر لینے کے بعد بھی اماں دروازے پر آ کر اس سے دیر‬ ‫تک مکالمہ کرتی خالہ بھی اس عادت سے دور نہ تھی۔‬ ‫کہیں جا رہے ہوتے رستہ میں اگر کوئی مل جاتی اماں‬ ‫اسے گلے ملتی جیسے صدیوں بعد ملاقات ہوئی ہو اور‬ ‫پھر وہاں کھڑے ہو کر دیر تک ان کی بیت بازی ہوتی اور‬ ‫ہم سب ان کی باتوں کے اختتام کا انتظار کرتے۔ خالہ بھی‬ ‫اس ملنساری کے طور سے بہرہ ور تھی۔‬ ‫بجلی کے جانے آنے کے اوقات ایک سے تھے۔ بجلی‬ ‫خراب ہو جاتی تو بلاوصولی نہ ادھر نہ ادھر بجلی والے‬ ‫آتے تھے۔‬ ‫سردیوں میں دونوں طرف گیس کا کرفیو لگ جاتا۔ عمومی‬ ‫اطوار ایک طرف میرے اور جیا کے شخصی اطوار بھی‬ ‫ایک سے تھے مثلا بھوک وہ برداشت نہ کرتی تھی بھوک‬‫کے معاملہ میں میں بھی بڑا کم زور واقع ہوا تھا۔ لگ پیس‬ ‫اسے خوش آتے تھے لگ پیس میری بھی کم زوری تھی۔‬ ‫کسی کی جیب سے کھانا ہمیں اچھا لگتا تھا۔ جیا سیر‬ ‫سپاٹے کی بڑی شوقین تھی پھرنا ٹرنا مجھے بھی اچھا‬ ‫لگتا تھا۔ جیا بڑی کام چور تھی اس معاملے میں میں اس‬ ‫سے پیچھے نہ تھا۔‬

‫‪372‬‬ ‫عادات اطوار ایک سے ہونے کی وجہ سے میرا خیال تھا‬‫کہ ہماری جوڑی خوب جمے گی۔ خالہ منتیں ترلے کروانے‬‫کی عادی تھی اسی لیے اڑی ہوئی تھی۔ میری ماں بھی اس‬ ‫کی بری بہن تھی۔ ہر دوسرے ان کے ہاں چلی جاتی۔ خوب‬ ‫بول بلارا کرکے آتی اور ہر بار دوبارہ سے نہ آنے کا کہہ‬‫کر چلی آتی۔ آخر خالہ کو ہتھیار ڈالنا پڑے اور ہماری شادی‬ ‫ہو ہی گئی۔‬ ‫اتنا قریب ہو کر بھی میں جیا کے باطن کو نہ پڑھ سکا‘‬ ‫شادی کے بعد جیا‘ جیا وہ نہ رہی۔ حد درجہ کی ہٹ دھرم‬ ‫تھی۔ میری ماں کا بول بلارے میں چار سو ڈنکا بجتا تھا‬ ‫لیکن جیا کے سامنے بھیڑ ہو گئی۔ کسکتی بھی نہ تھی۔‬‫ہمہ وقت کی قربت کے بعد معلوم پڑا کہ ہمارا ظاہر ایک سا‬ ‫کنورپن میں ضرور تھا لیکن شادی کے بعد باطن تو باطن‘‬ ‫ظاہر میں بھی زمین آسمان کا فرق تھا۔‬ ‫وہ کھانے‘ سونے اور لڑنے میں اپنی مثال آپ تھی۔ ہر‬ ‫اچھی چیز ماں کے گھر بھجوا دیتی اور پھر ہے نا کی‬ ‫گردان پڑھنا شروع کر دیتی۔ ہم میں سے کسی میں اتنی‬ ‫ہمت نہ تھی کہ پہلی کا تذکرہ بھی کر پاتا۔ وہ ہی چیز‬ ‫دوبارہ سے لانا پڑتی۔‬

‫‪373‬‬ ‫جنسی معاملات میں بھی کچھ کم نہ تھی۔ اسے تو لوہے کا‬ ‫مرد چاہیے تھا۔ ہمارا ظاہر باطن تو ایک ثابت نہ ہوا ہاں‬ ‫البتہ بچوں کے حوالہ سے ہم اپنی ماؤں پر ضرور گئے۔‬ ‫ہمارے بھی گنتی میں چھے بچے ہوئے۔ مماثلت میں ایک‬ ‫ان ہونی ضرور ہوئی۔ ہمارا چوتھا اپنی خالہ کی بیٹی کا‬ ‫دیوانہ ہو گیا۔ میرے سمجھانے پر بھی نہ سمجھا۔ وہ‬ ‫مجھے کھپتا خیال کرتا تھا۔ اس کی ماں نے میری ماں کا‬ ‫سا کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔ آخر ان کی شادی ہو گئی۔‬ ‫ہاں البتہ جیا اور چوتھے کی چوتھی میں یہ فرق باقی رہا‬ ‫کہ وہ دس دن بعد ہی ہم سے الگ ہو گئے۔ جیا اپنی خالہ‬‫کی بےعزتی کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا خیال بھی رکھتی‬ ‫تھی۔ زندگی بھر ساس سسر کے ہاں ہی رہی۔ یہ تو آدھا‬ ‫مہینہ بھی ہمارے ساتھ نہ رہے۔‬

‫‪374‬‬ ‫وہ لفظ کہاں ہے‘ کدھر ہے‬ ‫سرخ ہو کہ سپید‬ ‫سیاہ ہو کہ کاسنی‬ ‫جدید ہو کہ قدیم‬ ‫دوست ہو کہ دشمن‬ ‫کیسا بھی رہا ہو‬ ‫مجھے اس سے کوئی غرض نہیں‬ ‫ہاں مگر‬ ‫سخت ہو مونگے کی طرح‬ ‫نرم ہو ریشم کی طرح‬ ‫بلند ہو ہمالہ ایسا‬ ‫روشن ہو آفتاب ایسا‬ ‫حسین ہو مہتاب ایسا‬ ‫عاشق ہو بلال ایسا‬

‫‪375‬‬ ‫عمیق ہو بحر الکاہل ایسا‬ ‫پرواز میں جبریل ایسا‬ ‫سماّعت میں صور اسرافیل ایسا‬ ‫بےکراں‘ چرخ نیل فام ایسا‬ ‫ذات کا کھوجی لہر ایسا‬ ‫گوہر شناس ہو ہنس ایسا‬ ‫بےقرار‘ سیماب ایسا‬ ‫شجاع‘ حیدر کرار ایسا‬ ‫یہ ہی نہیں‬ ‫اپنی ذات میں‘ باکمال ہو لازوال ہو‬ ‫وہ لفظ کہاں ہے‘ کدھر ہے‬ ‫صدیوں سے میں اس کی تلاش میں ہوں‬ ‫کہ‬ ‫نوع بشر کو‬ ‫اس کی عظمتوں کا راز کہہ دوں‬

‫‪376‬‬ ‫عظمت آدم کا آج پھر چرچا ہو‬ ‫مخلوق فلکی پھر سے‬ ‫تجدید عظمت آدم کرے‬ ‫خدا لم یزل کہہ دے‬ ‫کہتا نہ تھا‬ ‫جو جانتا ہوں میں کب جانتے ہو تم‬ ‫کوئی تو کھوجے‘ کوئی تو تلاشے‬ ‫کہ‬ ‫وہ لفظ کہاں ہے‘ کدھر ہے‬ ‫‪...........‬‬ ‫قاضی جرار حسنی‬ ‫فروری ‪١٩٧٧‬‬

‫‪377‬‬ ‫اچھا نہیں ہوتا‬ ‫منظومہ‬ ‫ہاں میں موت‬ ‫ناں میں بہن کا گھر اجڑتا تھا‬ ‫برسوں کا بنا کھیل بگڑتا تھا‬ ‫چپ میں کب سکھ تھا‬ ‫چار سو بچھا دکھ تھا‬ ‫زندگی کیا تھی اک وبال تھا‬ ‫بھاگ نکلنے کو نہ کوئی رستہ بچا تھا‬ ‫پہیہ زندگی کا پٹڑی سے اتر رہا تھا‬ ‫زیست کا پاؤں بےبصر دلدل میں گر رہا تھا‬ ‫بےچارگی کا نیا دانت نکل رہا تھا‬ ‫بہنوئی کی آنکھوں میں سکوں کی ہریالی تھی‬

‫‪378‬‬ ‫آتی ہر گھڑی اس کے لیے کرماوالی تھی‬ ‫بہن کی آنکھ سے چپ کے آنسو گرتے‬ ‫ماں کی آنکھوں کے حسیں سپنے‬ ‫بےکسی کے قدموں میں بکھرتے‬ ‫کیا کرتا کدھر کو جاتا‬ ‫خود کو بچاتا‬ ‫کہ ماں کے آنسوؤں کے صدقے واری جاتا‬ ‫زہر کا پیالہ مرے رو بہ رو تھا‬ ‫تذبذب کی صلیب پہ لٹکا کے‬ ‫شنی اپنے کارے میں سفل ہوا‬ ‫پیتا تو یہ خود کشی ہوتی‬ ‫ٹھکراتا تو خود پرستی ہوتی‬ ‫پیچھے ہٹوں کہ آگے بڑھوں‬ ‫ہاں نہ کے پل پر‬ ‫بےکسی کی میت اٹھائے کھڑا تھا‬

‫‪379‬‬ ‫آگے پیچھے اندھیرا منہ پھاڑے‬ ‫فیصلے کی راہ دیکھ رہا تھا‬ ‫پھر میں آگے بڑھا اور زہر کا پیالہ اٹھا لیا‬ ‫خودکشی حرام سہی‬ ‫کیا کرتا‬ ‫بہن کی بےکسی‬ ‫ماں کے آنسو بےوقار کیوں کرتا‬ ‫ابلیس قہقے لگا رہا تھا‬ ‫نہ پیتا تب بھی اسی کی جیت تھی‬ ‫پھر بھی وہ قہقے لگاتا‬ ‫دوزخی بلا نے مرے گھر قدم رکھا‬ ‫گھر کا ہر ذرہ لرز لرز گیا‬ ‫میں بھی موت کے گھاٹ اتر گیا‬ ‫جسے تم دیکھ رہے ہو‬ ‫ہنستی بستی زندگی کا بےکفن لاشہ ہے‬

‫‪380‬‬ ‫پہلے دو ٹھکانے لگا آئی تھی‬ ‫لاشے کو کیوں ٹھکانے لگاتی‬ ‫لاشے کا ماس کھا چکی ہے‬ ‫ہڈیاں مگر باقی ہیں‬ ‫بہن لاشے کو دیکھ کر روتی ہے‬ ‫ہڈیاں مگر کیا تیاگ کریں‬ ‫آنسوؤں کے قدموں میں کیا دھریں‬ ‫کوئی اس کو جا کر بتائے‬ ‫لالسہ سرحدوں کی کب چیز ہے‬ ‫جہاں تم کھڑی ہو وہ تو فقط اس کی دہلیز ہے‬ ‫کوئی حادثہ ہی‬ ‫تمہیں خاوند کی لالسہ کے جہنم سے باہر لائے گا‬ ‫پھر تمہارا ہر آنسو پچھتاوے کی اگنی میں جلے گا‬ ‫تب تک‬ ‫ہڈیاں بھی یہ دوزخ کی رانی کھا چکی ہوگی‬

‫‪381‬‬ ‫راکھ ہو گی نہ کوئی رفتہ کی چنگاری‬ ‫ہو گی تو لالسہ کی آری‬ ‫دکھ کا دریا بہہ رہا ہو گا‬ ‫ہر لمحہ تمہیں کہہ رہا ہو گا‬ ‫حق کی بھی کبھی سوچ لیا کرو‬ ‫لقموں کا دم بھرنا اچھا نہیں ہوتا‬ ‫اچھا نہیں ہوتا‬ ‫ابوزر برقی کتب خانہ‬ ‫مئی ‪٢٠١٧‬‬

382


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook