201 میٹھی گولی ہم کچھ دوست ہوٹل میں چائے پیتے ہیں اور اکثر پیتے ہیں سچی پوچھو تو چائے پر ہی تو جیتے ہیں زندگی میں ورنہ چائے کے سوا رکھا کیا ہے بھوک کا پرنا پیاس کا پٹکا ہماری زیست کا یہ ہی اثاثہ ہے جسے دیکھو رکھے ہے ہزار گز کا نٹکا امیر وقت بات گریبوں کی کرتا ہے کھیسہ مگر اپنا بھرتا ہے ہر بولتا
202 سر بازار نیلام ہوتا ہے سر اس کے کوئی ناکوئی الزام ہوتا ہے بےکیے خوب بدنام ہوتا ہے امیر وقت کو کون پوچھے کہا اس کا بےلگام ہوتا ہے کوئی ایشور کا اسے اوتار کہے اس کی کرتوتوں سے بےخبر مقدس روحوں کا اسے سالار سمجھیں یہ ہی نہیں نوع انسانی کا وقار سمجھیں سب چمچے اسے کان رزق کہتے ہیں مورکھ بھی اسی کے گن گاتا ہے حیرت تو یہ ہے جس خوبی کا وہ تاعمر قاتل رہا اسی خوبی کو
203 مورکھ اس کی گرہ میں رکھتا رہا اسے جینا ہے یہ ہی اس کا طور رہا یہ کوئی نئی بات نہیں ہر دور اہل ثروت کا دور رہا کوئی بھوک مرتا ہے مرے انہیں اس سے کیا ان کی بلا سے گریب کے بچے بےلباس ہیں وہ کیا کریں انہیں کیا ان کا اس سے کوئی کام نہیں مالک تو ہے نا گریب کا سنور جاتا ہے دعا سے خیر چھوڑیے ان باتوں کو کوئی نئی بات ہو تو بات کریں جو وقت گزر گیا سو گزر گیا
204 ان بےگھر بےبستر راتوں کو یاد کیوں کریں ہاں بس اتنا دکھ ہے گریب کی روکھی سوکھی پر پنجہ رکھ کر تاج محل کبھی نور محل تعمیر ہوا شاہ پھر بھی دیالو ہے کرپالو ہے پھر بھی لوگ ان سے آسیں باندھیں ان کی آنکھوں میں ٹک تلاشیں امید کی قاشیں کب یک جا ہوتی ہیں پتی پتی گلاب بُنے قدموں میں اس کے بکھری پتیاں حسن کے ماتھے پر ناقدری کا ٹکا قدموں میں بکھری پتیوں کو کون چنے جو چننے بیٹھے گا
205 پولے کھائے گا۔ خیر چھوڑیں میں کیا ظلم و ستم کی رام کہانی لے بیٹھا ہوں چائے کی مست پیالی میں ہمارا امریکی طور نہیں رہا کبھی میں کبھی وہ ادائیگی کر دیتے ہیں ہم ایک کشتی کے مسافر ہیں پھر تو میں کیسی اک روز کیا ہوا بچہ جو چائے لا کر دیتا تھا ہاتھ سے اس کے برتن گرے اور ٹوٹ گئے پھر کیا تھا مالک نے وہ مارا اشک فرشتوں کے بھی گرے ہوں گے وہ دن اس کے
206 الف انار بے بکری تے تختی پڑھنے کے تھے بھوک اسے وہاں لائی تھی اللہ جانے کتنی مجبور اس کی مائی تھی سچی بات تو یہ ہے مری چائے حرام ہوئی میں بےبس کنگلا کیا کر سکتا تھا بس دو بےبس اشک بہا سکتا تھا میرا یہ ہی کل سرمایا تھا زیست میں یہ ہی کچھ کمایا تھا جب برتن لینے وہ آیا میں نے اسے گلے لگایا رویا پیار کیا منہ ماتھا چوما چپ چاپ وہاں سے اٹھ آیا جہاں نمرود کی شریعت چلتی ہو وہاں پھر کیا آنا کیا جانا بعد مدت مرا اس کا ملنا ہوا
207 ہماری آنکھیں ملیں ہم اک دوجے کو پہچان گئے وہ چھوٹا تھا میں نیچے بیٹھ گیا گلے لگایا خوب پیار کیا دعا دی مری گرہ کی یہ ہی اوقات تھی وہ ہاں وہ بچہ نوشیرواں سے کہیں بڑھ کر دیالو نکلا میٹھی گولی اس کے منہ میں تھی اس نے اپنا وہ لقمہ مرے منہ میں ڈالا خوش ہو کر مرے منہ کو دیکھا مرے منہ میں وہ تھا جو جنت سوگ میں بھی نہ ہو گا مرے چہرے پر خوشی کے لڈو پھوٹ رہے تھے اس کے پاس ایک اور میٹھی گولی تھی
208 جو اس نے مرے ہاتھ پر رکھ دی اکبر ہو کہ کوئی اور شاہ کیا کسی کو دیں گے مہان تھا دیا کا پردھان تھا وہ معصوم بچہ شاہوں کی شاہی ایک طرف الفت پریم سے لبریز میٹھی گولی ایک طرف تول میں کہیں بھاری ہے گو اک عرصہ ہوا اس میٹھی گولی کا مزا مری رگ وپے میں آج بھی رقصاں ہے پریم و الفت کے آب زم زم میں بھیگی ہات پر اس بچے کی رکھی میٹھی گولی آتی نسلوں کے لیے میں نے رکھ دی ہے
209 کہ حجت رہے محبتوں کا کوئی مول نہیں یہ جیتی ہیں مرتی نہیں لوگوں کو یہ خیر کی شکتی بردان میں دیتی ہیں
210 دو بیلوں کی مرضی ہے تمثالی وعلامتی افسانہ بندر کے بچوں کے آتے کل کی بھوک کے غم میں وہ اور یہ آدم کے زخموں سے چور بھوک سے نڈھال قول کے سچے‘ پکے بچوں پر بھونکتے ٹونکتے زخمی سؤر بھوکے کتے ٹوٹ پڑے ہیں ظلم کے ہر حامی کے منہ میں
211 خون کی ٹیکسال سے نکلے ڈالر ہاتھ میں وعدوں کے پرزے ہیں ظلم کی نندا کرنے والے توپوں کی زد میں ہیں جبر کے ٹوکے میں اپنی سانسیں گنتے ہیں ہونٹوں سے باہر آتی جیبا خنجر کی کھا جا ہے گھورتی آنکھیں اگنی کا رن ہے سچ تو یہ ہے کمزور باشندے پشو جناور کا اترن اور ماس خور درندوں کا جیون ہیں لومڑ اور گیڈر بھی گھاس پھوس سے نفرت کرتے ہیں
212 اک کا جیون دوجے کی مرتیو پر اٹھتا ہے دیا اور کرپا کے سب جذبے شوگر کو نائٹروکولین ہیں اب دو بیلوں کی مرضی ہے اک ساتھ چلیں بے خوفی کا جیون جئیں یا پھر دو راہوں کے راہی ٹھہریں کتوں سؤروں کا فضلہ بن کر بے نامی کی نالی میں بہہ جائیں
213 ذات کے قیدی قصور تو خیر دونوں کا تھا اس نے گالیاں بکیں اس نے خنجر چلایا سزا دونوں کو ملی وہ جان سے گیا یہ جہان سے گیا اس کے بچے یتیم ہوئے اس کے بچے گلیاں رولے اس کی ماں بینائی سے گئی اس کی ماں کے آنسو تھمتے نہیں اس کا باپ کچری چڑھا اس کا باپ بستر لگا دونوں کنبے کاسہء گدائی لیے گھر گھر کی دہلیز چڑھے
214 بے کسی کی تصویر بنے بے توقیر ہوئے ضبط کا فقدان بربادی کی انتہا بنا سماج کے سکون پر پتھر لگا قصور تو خیر دونوں کا تھا جیو اور جینے دو کے اصول پر جی سکتے تھے اپنے لیے جینا کیا جینا دھرتی کا ہر ذرہ تزئین کی آشا رکھتا ہے ذات کے قیدی مردوں سے بدتر سسی فس کا جینا جیتے ہیں
215 چل' محمد کے در پر چل اک پل آکاش اور دھرتی کو اک دھاگے میں بن کر رنگ دھنک اچھالے دوجا پل جو بھیک تھا پہلے کل کی کاسے سے اترا ماتھے کی ریکھا ٹھہرا کرپا اور دان کا پل پھن چکر مارا گرتا ہے منہ کے بل سلوٹ سے پاک سہی پھر بھی حنطل سے کڑوا
216 اترن کا پھل الفت میں کچھ دے کر پانے کی اچھا حاتم سے ہے چھل غیرت سے عاری حلق میں ٹپکا وہ قطرہ سقراط کا زہر نہ گنگا جل مہر محبت سے بھرپور نیم کا پانی نہ کڑا نہ کھارا وہ تو ہے آب زم زم اس میں رام کا بل ہر فرزانہ
217 عہد سے مکتی چاہے ہر دیوانہ عہد کا بندی مر مٹنے کی باتیں ٹالتے رہنا کل تا کل جب بھی پل کی بگڑی کل در نانک کے بیٹھا بےکل وید حکیم ملاں پنڈٹ پیر فقیر جب تھک ہاریں جس ہتھ میں وقت کی نبضیں چل محمد کے در پر چل
218 عطائیں اللہ کی کب بخیل ہیں مدحیہ کہانی حضور کے قدموں کی برکت دیکھیے آنکھیں جو قدم بوس رہیں کمال ہوئیں رشک ہلال ہوئیں تہی بر ملال ہوئیں اس سے بڑھ کر یہ بلال ہوئیں ان آنکھوں نے موت کو حیات بخشی زمینی خداؤں کو بندگی بخشی ہر لمحہ ان سے اخوت ٹپکی شریعت ٹپکی طریقت ٹپکی
219 حقیقت ٹپکی میں نے سنا تھا شاہ حسین کے دربار کے عقب میں حضور کے قدموں کے نشان اہل ظرف نے محفوظ کر رکھے ہیں گناہ گار سیاہ کار سہی شوق لیکن مجھے وہاں لے گیا ڈرتے ڈرتے حضرت کے دربار میں داخل ہوا بساط بھر ادب سے سلام کیا درود پڑھا دعا کی اور دربار سے باہر آ گیا وجود میں ہمت باندھی ہر بری کرنی کی معافی مانگی تب کہیں جا کے دربار کے عقب میں گیا حضور کے قدموں کے نشان بڑے احترام بڑی ّعقیدت سے محفوظ تھے تازہ پھولوں سے سجے تھے
220 لوگ بھی وہاں کھڑے تھے ہر آنکھ میں محبت تھی ّعقیدت تھی دل بےشک طواف الفت میں تھے ہاں کچھ لب بھی متحرک تھے انگلیاں شیشہءپا کو چھو رہی تھیں سوچا آگے بڑھوں شیشہءنقش پا کو چوم لوں پھر سوچا مرے لب اس قابل کہاں انگلیوں سے ہی شیشہء پا چھو لیتا ہوں انگلیوں میں مگر اتنا دم کہاں خواہش ابھری قدموں کو چھوتی پھول کی اک پتی ہی مل جاتی دونوں جہاں گویا مل جائیں گے گناہ گا ہو کہ نیکوکار عطائیں اللہ کی کب بخیل ہیں ایسا اگر ہوتا
221 تو مجھ سے بھوکے مر جاتے تالہ اس شیشے کے بکسے کا کھولا خدمت گار نے حضور کے قدموں کو چھوتی اک پتی مرے ہات پر رکھ دی حیرت ہوئی‘ میں اور یہ فضل بےبہا دنیا و عقبی کی عطا سجدہ شکر کا مجھے کب ڈھنگ رہا ہے خدا جانتا تھا کہ اس کا بندہ ممنون ہے میں نے وہ پتی بصد شکر سدا خالی رہتے پرس میں ڈال لی مرے حضور کے قدموں کی برکت دیکھیے مری میں مر گئی مرا پرس بھی خالی نہیں رہتا راز یہ کھل گیا ہے قدموں میں ہی حضور کے
222 دونوں جہاں ہیں جاؤں گا اگر حضور سے کسی جہاں کا نہ رہوں گا جو حضور کے قدم لیتا رہے گا اویس بنے گا منصورٹھہرے گا سرمد لقب پائے گا
223 کرپانی فتوی فیقا ہمارے محلے کا درزی ہے ہے تو سکا ان پڑھ سوچ میں مگر فلاطو لگتا ہے دور کی کوڑی ڈھونڈ کے لاتا ہے سوچ ہی الگ تر نہیں کپڑے بھی بلا کے سیتا ہے الجھا الجھا سڑا بجھا بھی رہتا ہے اللہ جانے گھر والی سے نبھا اس کا کیسے ہوتا ہے بےشک وہ اس کی عجیب باتوں سے گھبرا جاتی ہو گی پلے جو ُپڑ گیا‘ رو دھو کر نبھاتی ہو گی کم ہی لوگ اس کی باتوں پر غور کرتے ہیں ہاں جو کرتے ہیں اس کے ہو جاتے ہیں
224 بڑا زیرک ہے دانا ہے بات کرتے بندہ کوبندہ دیکھ لیتا ہے باتوں کی کھٹی کب کھاتا ہے ڈٹ محنت کرتا ہے خوب کماتا ہے اس روز سب چھوڑ چھاڑ کر چپ چاپ بستر پر لیٹا ہوا تھا خلا میں بٹربٹر دیکھے جاتا تھا پہلے سوچا بیمار ہے بیماروں کے طور کب ایسے ہوتے ہیں سوچا چلو حال چال پوچھ لیتے ہیں بیمار ہوا تو کوئی خدمت پوچھ لیتے ہیں میں اس کی دکان میں داخل ہو گیا سلام دعا کرکے بیٹھ گیا پوچھا کیا حال ہے کیوں بےکار میں لیٹے ہوئے ہو
225 اٹھو شیر بنو کوئی دو چار تروپے بھرو آخر بات کیا ہے جو تم نے یہ حالت بنا رکھی ہے آ جی بات کیا ہونی ہے کل سے مسلسل سوچے جا رہا ہوں یہ کہہ کر وہ فلاطو کی اولاد چپ ہو گیا کچھ دیر انتظار کیا کہ اب بولتا ہے جب خامشی نہ ٹوٹی تو میں نے کہا منہ سے کچھ پھوٹو گے تو پتا چلے گا نبی نہیں ہوں جو مجھ پر وحی اتر آئے گی اس نے مری طرف دیکھا اور اداس لفظوں میں یوں گویا ہوا کالا ہو کہ چٹا شرقی ہو کہ غربی پنجابی ہو کہ عربی
226 شعیہ ہو کہ وہابی چاہے اس سا ہو تول میں کھوٹا رہا ہو یا کھرا بول میں اس سے اسے کوئی غرض نہیں مسلماں کشی میں کہیں رائی بھر جھول نہیں ہر مسلمان کو ایک آنکھ سے دیکھتا ہے مطلب بری کے بعد اپنا چمچہ بھی توڑ دیتا ہے اس کے قریبی گولی کی زد میں آ جاتے ہیں جو لینا ہوتا ہے لے لیتا ہے اس کے ہر دینے میں بھی لینا ہوتا ہے شلوار ٹخنوں سے اوپر ہو کہ نیچے ہاتھ چھوڑے یا باندھے داڑھی بڑی ہو کہ چھوٹی توند پتلی ہو کہ موٹی اسے اس سے کیا
227 بس مسلمان ہو اتنا کافی ہے اس کے مجرم ہونے میں اس سے بڑا کوئی ثبوت نہیں یہ معاملہ مسلمانوں کا ہے اس کا نہیں وہ صرف اتنا جانتا ہے یہ مسلمان ہے اس کی گردن زنی ہونی چاہیے مسلمانوں کا عقیدہ و نظریہ اس سے الگ تر ہے ان وہابی سنی شعیوں نے اپنے اپنے مولوی پالے ہیں بلا کی توندیں وہ رکھتے ہیں شورےفا بڑے ہوٹلوں میں سائلوں کی گرہ سے کھاتے ہیں مولوی بھی باہر کی کھاتے ہیں دونوں اوروں کے پلے کی
228 باہر سے گھر بھجواتے ہیں حلوہ ہو کہ ہو آوارہ مرغا توند اٹھائے بھاگے جاتے ہیں ہاں مگر کھیسہ میں کفر کا فتوی رکھتے ہیں مسلمانوں کے ہاں مسلمان کم پائے جاتے ہیں وہابی سنی شعیہ کی بہتات ہے کئی اور ایسوں کی برسات ہے فقط چند لقموں کے لیے تفریق کے ایٹم بم کبھی ادھر کبھی ادھر گراتے ہیں تفریق کا بم ایٹم بم سے کہیں مہلک ہے آخر وہ دن کب آئیں گے وہابی رہیں گے نہ شعیہ سنی سب مسلمان ہوں گے
229 اگر تفریق مٹ گئی تو اس کے ہر بم سے بچ جائیں گے ایکتا پیٹ کے بندوں کو کب خوش آتی ہے لڑانے مروانے کا شوق صدیوں سے چلا آتا ہے وہ ان پڑھ درزی مسلسل بولتا رہا شاید پچھلے جنم میں مدینہ کی گلیوں میں گھوما پھرا تھا اک ان پڑھ درزی کے سامنے مری بولتی بند تھی بات تو وہ ٹھیک کہہ رہا تھا لیٹا ہوا تھا کب پیٹ سے سوچ رہا تھا پیٹ سے نکلتی سوچ مسمانوں کو کھا گئی ہے مگر کیا کریں
230 جو بولے گا مولوی کا کرپانی فتوی اسے کھا جائے گا اک درزی اور یہ سوچ یہاں کوئی باپ کے لیے نہیں سوچتا پوری امت کے لیے وہ سوچے جا رہا تھا سچ تو یہ ہے اس کا انداز فکر مجھے بھا گیا اس کا ہر لفظ قلب و نظر پر چھا گیا جواب میں کیا کہتآ بجھے دل اور بھیگی آنکھوں سے میں واں سے اٹھ گیا مرے بس میں یہ ہی کچھ تھا میں بھلا اور کیا کر سکتا تھا
231 مقدر ہیلو ہیلو کون شانتی کیا چاہتی ہو دوستی کر لو تمہاری کرخت نگاہوں سے ڈر لگتا یے ہا۔۔۔ہا۔۔۔۔۔ہا۔۔۔۔۔ہا پگلی! نادان! گلاب کانٹوں سے نبھا کرتا ہے تم بھی کر لو سسکیوں میں شانتی کی آواز ڈوب گئی بزدل‘ جاہل‘ دقیانوسی بارود تو امن کی ضمانت ہے
232 زمانہ روایت کی لحد میں اتار دے گا تم کو اور تم سسک بھی نہ سکو گی جدید سکول میں چار دن گزار دیکھو ہیلو‘ سن رہی ہو نا ہاں سن رہی ہوں مگر یہ مجھ سے نہ ہو گا ‘تو پھر جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تنہائی کے زنداں میں مقید رہو یہ ہی تمہارا مقدر ہے
233 دو بانٹ جھورے کے سسر تھے کمال کے تامرگ سگے رہے مال کے کدھر سے آتا ہے چھوڑیے انگلی اٹھائے جو بلا تکلف سر اس کا پھوڑیے تول کے بھی ان کے دو بانٹ تھے ایک سے لیتے تھے ایک سے دیتے تھے یہاں ایک پیر صاحب رہتے تھے نام ان کا کچھ اور ہے پیار سے میں انہیں بابا دو بانٹ کہتا تھا برائیلر فروش کے ہاتھ کا گوشت خود پر حرام جانتے تھے روڑی کھا کر پلا مرغا ہو کہ مرغی بڑے شوق سے کھاتے تھے
234 جو ان کا شوق یاد رکھتے بافیض بس وہ ہی ہوتے تھے کمال کے طبع شفیق تھے بوڑھی ہو کہ کم صورت بیٹا کہہ کر بلاتے سر پر پیار دے کر دعا دیتے کام کی چیز اگر ساتھ لائی ہو اندر بھجوا دیتے دولت کو جیب میں رکھنے کا انہیں کوئی شوق نہ تھا گھٹنے کے نیچے دبا کر رکھتے تھے بڑے دیالو اور کرپالو تھے ہر عام چیز سے خلیفوں کی دنیا بساتے لنگر میں سے بےمایہ ادھر پڑا رہتا ہر ستھرا مگر اندر چلا جاتا
235 گویا اندر بھی راضی باہر بھی راضی بے داغ کپڑے ہوں اور پیٹ میں دال روٹی بات کچھ جچتی نہیں ہاں پیٹ میں ہو اگر دیسی مرغا تو ہی بات بنتی ہے گویا من بھی راضی تن بھی راضی جھورے کے سسر سے مماثل بات کی بات ہی کچھ اور تھی باصورت عورتیں انہیں خوش آتی تھیں اوپر سے چھوئی موئی سی ہوتیں تو پیچے لڑ جاتے تھے یہ ہی اک بات تھی جس پر اندر اعتراض رہتا تھا وہ کیا جانے اک تو وہ پرانی تھی پیپا بھی تھی
236 اوپر سے عادات میں بال ایانی تھی دیسی مرغا جب ڈکارا ہو ہر سو کنول چہروں کا نظارہ ہو تن من میں مستی آ ہی جاتی ہے مستی حواس کیا ایمان بھی کھا جاتی ہے جھورے کا سسر یاد میں اپنی دو بانٹ چھوڑ گیا اس کی بیٹی یہ دونوں لے کر خاوند کے گھر گئی پھر یہ ہی متاع جہیز لے کر جھورے کے ساتھ نکل گئی طلاق و نکاح کی اسے کیا ضرورت تھی دو بانٹ کا یہ ہی تو کمال ہے اصول و ضوابط سے آزادی دلا دیتا ہے تاعمر مستی کی گزاری
237 جھورا مر گیا قولاں بھی مر گئی شیخ تو حضور کے قدموں پر ہوتا ہے حیرت تو یہ ہے اس پیر کے ہاتھ قولاں کے جہیز کی یہ متاع پلید کیسے آئی یہ بات پکی ہے مائی جہیز میں نہیں لائی تھی سنا ہے کھاتی خوب تھی لیکن نیک اور پردہ میں رہتی تھی ممکن ہے جھورے کے ہمسایا میں کبھی رہے ہوں وہاں سے چرا لائے ہوں یقین نہیں آتا پر کیا کریں چوروں کو مور پڑتے آئے ہیں
238 دو حرفی بات عادت نہ ماننے کی اچھی نہیں ہوتی جیتے جی مقدر اس کا بنتی ہے نیستی اس کے پیرو سدا زیر عتاب رہتے ہیں آگے بڑھتے قدم پیچھے کو آتے ہیں اپنی پہ اڑنا گھاٹے کا سودا ہے یہ بےجڑا پودا ہے ریت کی دیوار کیسے کھڑی کرو گے بلا ہنر گر دریا میں چھلانگ لگاؤ گے غوطے کھاؤ گے ڈوبو گے مرو گے شیطان اپنی پہ اڑا ہوا ہے صبح و شام لعنتیں ہی نہیں ہر لمحہ پتھر روڑے کھاتا ہے بس سچے دل سے توبہ ہی کرنی ہے ایسا لمبا چوڑا اس کا حساب کتاب نہیں
239 پر کیا کریں شخص انا کی غلامی کیے جاتا ہے پھر بھی کہے جاتا ہے میں آزاد ہوں میں آزاد ہوں کہتا ہے یہ غیر کی داری نہیں میں کہتا ہوں انا کس کی پیرو ہے اللہ کے بنائے شخص کی یہ چیز نہیں برسوں سے میں اسے یہ ہی کہے جا رہا تھا مری وہ کب مانتا تھا مرا کہا حرف آخر ہے یہ ہی اس کی ہٹ تھی مرا کہا کوئی الف لیلی نہ تھا دو حرفی بات تھی میں کہتا تھا کرنا اور ہونا میں فرق ہے
240 وہ کہتا تھا ہونا کچھ نہیں کرنا ہی سب کچھ ہے ہونی کرنے سے ٹل جاتی ہے ہر بگڑی اس سے سنور جاتی ہے کئی بار بیمار پڑا میں کہتا رہا اب سناؤ کرنے اور ہونے میں بڑا فرق ہے جوابا کہتا بدپرہیزی کے سبب بیمار پڑا ہوں مری گرہ میں مال ہے ہتھیار دوا دارو کا مرے ہاتھ ہے چنگا بھلا ہو جاؤں گا عشق کی گرفت میں آیا اٹھنا بیٹھنا سونا جاگنا گنوایا روپیا پیسا بھی اس راہ میں لٹایا گرہ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے کنگلا ہوا تو معشوقہ وہ گئی
241 بھوک ننگ کے نکاح میں کیوں آتی میں نے کہا کرنے کی اس سے بڑھ کر ناکامی اور کیا ہو گی ہونی کا تو اس میں عمل دخل ہی نہیں بھوکا ننگا ہو کر بھی اپنے کہے پر ڈٹا رہا کہنے لگا دولت ہاتھ کی میل ہے عورت پاؤں کی جوتی مری کرنی میں ہی کہیں چوک ہوئی ہے ورنہ اس سالی کی ایسی کی تیسی محنت کروں گا اور کما لوں گا پھر اس سی بیسیوں مرے چرنوں میں ہوں گی اک روز میں نے سنا آخری سانسوں پر ہے میں اسے ملنے گیا
242 حواس بگڑے ہوئے تھے چہرے کا رنگ بھی زرد پڑ گیا تھا میں نے کہا سناؤ بھیا کیسے ہو کیا سناؤں سانسیں گن رہا ہوں اب تو ہونی کو مانتے ہو یار اس میں ہونی کہاں سے آ گئی میں اپنی غلط کرنی کی بھگت رہا ہوں میں نے سوچا اب کچھ کہنا درست نہیں اس کے دل پر تو ختم اللہ کی مہر لگی ہوئی تھی اسی شام ہونی کی گرفت میں آیا چل بسا جاتے ہوئے بھی نٹکا اس نے اوپر رکھا ہونی کیسے ٹل سکتی تھی کرنی کے ساتھ اگر ہونی کو بھی مانتا اس میں آخر اس کا کیا بگڑ جاتا
243 مجنوں ہو کہ رانجھا کرنی کی کب کھٹی کھا سکے ہیں نکاح کرتے نہیں نکاح تو ہوتے آئے ہیں جوڑے آسمان پر بنتے ہیں زور زبردستی کے کام بگڑ جاتے ہیں
244 سوچ کے گھروندوں میں علم و فن کے کالے سویروں سے مجھے ڈر لگتا ہے ان کے بطن سے ہوس کے ناگ جنم لیتے ہیں سچ کی آواز کو جو ڈس لیتے ہیں سہاگنوں کی پیاسی آتما سے ہوس کی آگ بجھاتے ہیں صلاحیتوں کے چراغوں کی روشنی کو دھندلا دیتے ہیں بجھا دیتے ہیں حق کے ایوانوں میں اندھیر مچا دیتے ہیں
245 حقیقتوں کا ہم زاد اداس لفظوں کے جنگلوں کا آس سے ٹھکانہ پوچھتا ہے انا اور آس کو جب یہ ڈستے ہیں آدمیت کی آرتھی اٹھتی ہے کم کوسی' بےہمتی بےاعتنائی کے شراپ کے سائے ابلیس کے قدم لیتے ہیں شخص کبھی جیتا کبھی مرتا ہے کھانے کو عذاب ٹکڑے پینے کو تیزاب بوندیں ملتی ہیں خود کشی حرام سہی مگر جینا بھی تو جرم ٹھہرا ہے ستاروں سے لبریز چھت کا دور تک اتا پتا نہیں
246 ہوا ادھر سے گزرتے ڈرتی ہے بدلتے موسموں کا تصور شیخ چلی کا خواب ٹھہرا ہے یہاں اگر کچھ ہے تو'........... منہ میں زہر بجھی تلواریں ہیں پیٹ سوچ کا گھر ہات بھیک کا کٹورا ہوئے ہیں بچوں کے کانچ بدن بھوک سے کبھی نیلے کبھی پیلے پڑتے ہیں اے صبح بصیرت! تو ہی لوٹ آ کہ ناگوں کے پہرے کرب زخموں سے رستا برف لہو
247 تو نہ دیکھ سکوں گا سچ کے اجالوں کی حسین تمنا مجھے مرنے نہ دے گی اور میں اس بےوضو تمنا کے سہارے کچھ تو سوچ سکوں گا سوچ کے گھروندوں میں زیست کے سارے موسم بستے ہیں قاضی جرار حسنی 1974
248 کیا یہ کافی نہیں اللہ بخشے نابخشے اللہ کی مرضی یہاں اک حاجی صاصب ہوا کرتے تھے پنج وقتے تھے ہاں صدقہ زکوت خیرت میں کافی بخل کرتے تھے حسیں بیبیوں کا دل کب توڑتے تھے دوریاں کم کرکے ان سے رشتے جوڑتے تھے ان کا کہنا تھا سچ بولو پورا تولو لوگوں کے لیے یہ ہی نصحیت تھی یہ الگ بات ہے ان کے کہے پر یقین کرنا سو کا گھاٹا تھا کہا کب کرتے تھے
249 کبھی اس سے الٹا بھی چل جاتے تھے اک عاشق اپنی معشوقہ سے کہتا رہا ستارے تمہارے لیے توڑ لاؤں گا بپھرے دریا کی لہروں سے لڑ جاؤں گا اک روز فون پر اس کی معشوقہ نے کہا آج باغ میں ملو‘ مجھے تم سے اک کام ہے جواب میں اس نے کہا کیوں نہیں‘ آؤں گا اگر بارش نہ پڑی ہمارے یہاں اک لیڈر ہوا کرتے تھے تھے بلا کے خوش خیال لباس میں اپنی مثال آپ تھے کار سے باہر جب قدم رنجہ فرماتے لوگ ان کی عیار معصومیت پر مر مر جاتے پھول تو پھول جئے جئے کار نثار کرتے کہا کرتے تھے شہر کو پیرس بنا دوں گا
250 شہر‘ شہر نہ بن سکا پیرس کہاں بنتا یہ جانتے کہ بےزر ہوں زبانی کلامی میں بھی گھر میں بیسیوں چیزیں لاتا ہوں بیگم کا اچھا مؤڈ اگر کبھی رہا ہو نور محل کبھی تاج محل لمحوں میں وائٹ ہاؤس سے کہیں بڑھ کر عمارت تعمیر کیے دیتا ہوں یہ الگ بات ہے آتے دنوں میں کچھ نہ ہو پانے پر عزت بچانے کی خاطر ٹھوک کر بیزتی کراتا ہوں کھسیانی ہنسی بھی ہنستا ہوں چلو کچھ لمحے اچھے کچھ برے گزرتے ہیں جیون کوئی ٹھہرا پانی نہیں ناہی یہ بےبل پگ ڈنڈی ہے
Search
Read the Text Version
- 1
- 2
- 3
- 4
- 5
- 6
- 7
- 8
- 9
- 10
- 11
- 12
- 13
- 14
- 15
- 16
- 17
- 18
- 19
- 20
- 21
- 22
- 23
- 24
- 25
- 26
- 27
- 28
- 29
- 30
- 31
- 32
- 33
- 34
- 35
- 36
- 37
- 38
- 39
- 40
- 41
- 42
- 43
- 44
- 45
- 46
- 47
- 48
- 49
- 50
- 51
- 52
- 53
- 54
- 55
- 56
- 57
- 58
- 59
- 60
- 61
- 62
- 63
- 64
- 65
- 66
- 67
- 68
- 69
- 70
- 71
- 72
- 73
- 74
- 75
- 76
- 77
- 78
- 79
- 80
- 81
- 82
- 83
- 84
- 85
- 86
- 87
- 88
- 89
- 90
- 91
- 92
- 93
- 94
- 95
- 96
- 97
- 98
- 99
- 100
- 101
- 102
- 103
- 104
- 105
- 106
- 107
- 108
- 109
- 110
- 111
- 112
- 113
- 114
- 115
- 116
- 117
- 118
- 119
- 120
- 121
- 122
- 123
- 124
- 125
- 126
- 127
- 128
- 129
- 130
- 131
- 132
- 133
- 134
- 135
- 136
- 137
- 138
- 139
- 140
- 141
- 142
- 143
- 144
- 145
- 146
- 147
- 148
- 149
- 150
- 151
- 152
- 153
- 154
- 155
- 156
- 157
- 158
- 159
- 160
- 161
- 162
- 163
- 164
- 165
- 166
- 167
- 168
- 169
- 170
- 171
- 172
- 173
- 174
- 175
- 176
- 177
- 178
- 179
- 180
- 181
- 182
- 183
- 184
- 185
- 186
- 187
- 188
- 189
- 190
- 191
- 192
- 193
- 194
- 195
- 196
- 197
- 198
- 199
- 200
- 201
- 202
- 203
- 204
- 205
- 206
- 207
- 208
- 209
- 210
- 211
- 212
- 213
- 214
- 215
- 216
- 217
- 218
- 219
- 220
- 221
- 222
- 223
- 224
- 225
- 226
- 227
- 228
- 229
- 230
- 231
- 232
- 233
- 234
- 235
- 236
- 237
- 238
- 239
- 240
- 241
- 242
- 243
- 244
- 245
- 246
- 247
- 248
- 249
- 250
- 251
- 252
- 253
- 254
- 255
- 256
- 257
- 258
- 259
- 260
- 261
- 262
- 263
- 264
- 265
- 266
- 267
- 268
- 269
- 270
- 271
- 272
- 273
- 274
- 275
- 276
- 277
- 278
- 279
- 280
- 281
- 282
- 283
- 284
- 285
- 286
- 287
- 288
- 289
- 290
- 291
- 292
- 293
- 294
- 295
- 296
- 297
- 298
- 299
- 300
- 301
- 302
- 303
- 304
- 305
- 306
- 307
- 308
- 309
- 310
- 311
- 312
- 313
- 314
- 315
- 316
- 317
- 318
- 319
- 320
- 321
- 322
- 323
- 324
- 325
- 326
- 327
- 328
- 329
- 330
- 331
- 332
- 333
- 334
- 335
- 336
- 337
- 338
- 339
- 340
- 341
- 342
- 343
- 344
- 345
- 346
- 347
- 348
- 349
- 350
- 351
- 352
- 353
- 354
- 355
- 356
- 357
- 358
- 359
- 360
- 361
- 362
- 363
- 364
- 365
- 366
- 367
- 368
- 369
- 370
- 371
- 372
- 373
- 374
- 375
- 376
- 377
- 378
- 379
- 380
- 381
- 382