Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore ایک سو ایک لوکانے منسانے شغلانے اور منظومے

ایک سو ایک لوکانے منسانے شغلانے اور منظومے

Published by maqsood5, 2017-05-20 12:02:13

Description: ایک سو ایک
لوکانے منسانے شغلانے اور منظومے
مقصود حسنی
ابو زر برقی کتب خانہ

Search

Read the Text Version

‫‪1‬‬ ‫ایک سو ایک‬‫لوکانے منسانے شغلانے اور منظومے‬ ‫مقصود حسنی‬ ‫ابوزر برقی کتب خانہ‬ ‫فروری ‪٢٠١٧‬‬

‫‪2‬‬ ‫فہرست‬ ‫سہ گنیا ‪١-‬‬ ‫اسے معلوم نہ تھا ‪٢-‬‬ ‫ان دنوں ‪٣-‬‬ ‫آنٹی ثمرین ‪٤-‬‬ ‫انصاف کا قتل ‪٥-‬‬ ‫بےکار کی شرم ساری ‪٦-‬‬ ‫میں مولوی بنوں گا ‪٧-‬‬ ‫ایسا کیوں ہے ‪٨-‬‬ ‫یہ اچھا ہی ہوا ‪٩-‬‬ ‫وہی پرانا چالا ‪١٠‬‬ ‫سدھر جاؤ ‪١١-‬‬ ‫اچھا نہیں ہوتا ‪١٢-‬‬ ‫آئندہ کے لیے ‪١٣-‬‬ ‫منہ سے نکلی ‪١٤-‬‬

‫‪3‬‬ ‫یک مشت ‪١٥-‬‬ ‫دیگچہ تہی دامن تھا ‪١٦-‬‬ ‫حکم عدولی ‪١٧-‬‬ ‫لوگ کیا جانیں ‪١٨-‬‬ ‫چپ کا معاہدہ ‪١٩-‬‬ ‫کالی زبان ‪٢٠-‬‬ ‫فیصلہ ‪٢١-‬‬ ‫قاتل ‪٢٢-‬‬ ‫میں کریک ہوں ‪٢٣-‬‬ ‫ان ہونی‘ ان ہونی نہیں ہوتی ‪٢٤-‬‬ ‫جذبے کی سزا ‪٢٥-‬‬ ‫اللہ بھلی کرے ‪٢٦-‬‬ ‫آخری کوشش ‪٢٧-‬‬ ‫تیسری دفع کا ذکر ہے ‪٢٨-‬‬ ‫انگلی ‪٢٩-‬‬

‫‪4‬‬ ‫آخری تبدیلی کوئی نہیں ‪٣٠-‬‬ ‫کھڑ پینچ دی جئے ہو ‪٣١-‬‬ ‫سراپے کی دنیا ‪٣٢-‬‬ ‫میں ہی قاتل ہوں ‪٣٣-‬‬ ‫خیالی پلاؤ ‪٣٤-‬‬ ‫تعلیم اور روٹی ‪٣٥-‬‬ ‫بوسیدہ لاش ‪٣٦-‬‬ ‫وبال دیکھیے ‪٣٧-‬‬ ‫عصری ضرورت ‪٣٨-‬‬ ‫اماں جیناں ‪٣٩-‬‬ ‫اس کا نام ہدایتا ہی رہا ‪٤٠-‬‬ ‫بھاری پتھر ‪٤١-‬‬ ‫ایسے لوگ کہاں ہیں ‪٤٢-‬‬ ‫واہ مولوی صاحب واہ شغلان ‪٤٣-‬‬ ‫ذات کا خول ‪٤٤-‬‬

‫‪5‬‬ ‫ہزار کا نوٹ ‪٤٥-‬‬ ‫پتنائی مہاورہ ‪٤٦-‬‬ ‫کچھ ہی دور ‪٤٧-‬‬ ‫ضروری نہیں ‪٤٨-‬‬ ‫اس حمام میں ‪٤٩-‬‬ ‫صرف اور صرف ‪٥٠-‬‬ ‫نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن ‪٥١-‬‬ ‫سنیئر سیٹیزنز ‪٥٢-‬‬ ‫امتیاز ‪٥٣-‬‬ ‫چوتھے کی چوتھی ‪٥٤-‬‬ ‫منظومے ‪٥٥-‬‬ ‫شاعر اور غزل ‪٥٦-‬‬ ‫ٹیکسالی کے شیشہ میں ‪٥٧-‬‬ ‫کالے سویرے ‪٥٨-‬‬ ‫کیچڑ کا کنول ‪٥٩-‬‬

‫‪6‬‬ ‫دو لقمے ‪٦٠-‬‬ ‫آخری خبریں آنے تک ‪٦١-‬‬ ‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا ‪٦٢-‬‬ ‫حیرت تو یہ ہے‪٦٣-‬‬ ‫میں نے دیکھا ‪٦٤-‬‬ ‫کس منہ سے ‪٦٥-‬‬ ‫حیات کے برزخ میں ‪٦٦-‬‬ ‫سورج دوزخی ہو گیا تھا ‪٦٧-‬‬ ‫فیکٹری کا دھواں ‪٦٨-‬‬ ‫مطلع رہیں ‪٦٩-‬‬ ‫امید ہی تو زندگی ہے‪٧٠-‬‬ ‫میٹھی گولی ‪٧١-‬‬ ‫دو بیلوں کی مرضی ہے ‪٧٢-‬‬ ‫ذات کے قیدی ‪٧٣-‬‬ ‫چل' محمد کے در پر چل ‪٧٤-‬‬

‫‪7‬‬ ‫عطائیں اللہ کی کب بخیل ہیں ‪٧٥-‬‬ ‫کرپانی فتوی ‪٧٦-‬‬ ‫مقدر ‪٧٧-‬‬ ‫دو بانٹ ‪٧٨-‬‬ ‫دو حرفی بات ‪٧٩-‬‬ ‫سوچ کے گھروندوں میں ‪٨٠-‬‬ ‫کیا یہ کافی نہیں ‪٨١-‬‬ ‫یادوں کی دودھ ندیا ‪٨٢-‬‬ ‫باؤ بہشتی ‪٨٣-‬‬ ‫کوئی کیا جانے ‪٨٤-‬‬ ‫کل کو آتی دفع کا ذکر ہے ‪٨٥-‬‬ ‫کڑکتا نوٹ ‪٨٦-‬‬ ‫اسلام سب کا ہے ‪٨٧-‬‬ ‫ڈنگ ٹپانی ‪٨٨-‬‬ ‫ایک اور اندھیر دیکھیے‪٨٩-‬‬

‫‪8‬‬ ‫یہ حرف ‪٩٠-‬‬ ‫عہد کا در وا ہوا ‪٩١-‬‬ ‫مشینی دیو کے خواب ‪٩٢-‬‬ ‫اک مفتا سوال ‪٩٣-‬‬ ‫ریت بت کی شناسائی مانگ ‪٩٤-‬‬ ‫آنکھوں دیکھے موسم ‪٩٥-‬‬ ‫سوال کا جواب ‪٩٦-‬‬ ‫یہ ہی دنیا ہے ‪٩٧-‬‬ ‫مالک کی مرضی ہے ‪٩٨-‬‬ ‫سیاست ‪٩٩-‬‬ ‫وہ لفظ کہاں ہے‘ کدھر ہے ‪١٠٠-‬‬ ‫اچھا نہیں ہوتا ‪١٠١-‬‬

‫‪9‬‬ ‫سہ گنیا‬ ‫لوکانہ‬ ‫ایک بادشاہ اور اس کا وزیر گشت پر نکلے ہوئے تھے۔ دیکھا‬ ‫ایک درخت کے نیچے ایک ادمی سویا ہوا ہے۔ وزیر نے بادشاہ‬ ‫سے کہا‪ :‬بادشاہ سلامت درخت کے نیچے سویا ہوا آدمی بڑے‬ ‫کام کا ہے۔ وہ دونوں اس شخص کے پاس چلے گئے۔ اسے‬ ‫جگایا اور پوچھا کہ تم کیا کیا ہنر رکھتے ہو۔ اس شخص نے‬ ‫بتایا کہ میں تین گن رکھتا ہوں‪:‬‬ ‫اول‪ -‬میں اصلی اور نقلی ہیرے کی جانچ کر سکتا ہوں۔‬ ‫دوئم‪ -‬مجھے نسلی اور غیرنسلی گھوڑوں کی پہچان ہے۔‬ ‫سوئم‪ -‬مجھے آدمیوں کی پہچان ہے۔‬ ‫بادشاہ اسے اپنے ساتھ لے آیا اور اس کی پانچ روپے ماہانہ‬ ‫تنخواہ مقرر کر دی اور اسے کہا جاؤ ہمارے قرب وجوار میں‬ ‫موج کرو جب تمہاری ضرورت پڑے گی بلا لیں گے۔‬ ‫ایک مرتبہ دربار میں ہیروں کا سوداگر آیا۔ بادشاہ کو ہیرے‬ ‫دکھائے۔ بادشاہ کو ایک ہیرا بہت پسند آیا۔ اچانک اسے اپنا سہ‬ ‫گنیا ملازم یاد آ گیا۔ اسے بلایا گیا اور پسند کیے گئے ہیرے کے‬ ‫متعلق پوچھا۔ اس نے وہ خوب صورت ہیرا دیکھا۔ جانچنے کے‬

‫‪10‬‬ ‫بعد کہنے لگا یہ ہیرا نقلی ہے اور اس میں ریت بھری ہوئی ہے‬ ‫اور سوداگر سے کہا تم خاک ہیروں کے سوداگر ہو جو اصلی‬ ‫اور نقلی ہیرے کی پہچان نہیں رکھتے۔‬ ‫سوداگر کے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اور وہ بہت پریشان‬ ‫ہوا۔ حیران تو بادشا بھی ہوا۔ بادشاہ نے سوداگر سے کہا اگر‬ ‫اس شخص کی بات صحیح نکلی تو میں تمہارا سر اڑا دوں گا‬ ‫اگر یہ ہیرا اصلی نکلا تو خرید لوں گا۔ پھر اس شخص سے کہا‬ ‫اگر ہیرا درست نکلا تو تم جان سے جاؤ گے۔‬ ‫ہیرا توڑا گیا تو ہیرے میں سے ریت برآمد ہوئی۔ بادشاہ اس‬ ‫شخص سے راضی ہوا اور اس کی پانچ روپے تنخواہ برقرار‬ ‫رکھی۔‬ ‫کچھ ہی وقت گزا ہو گا کہ ایک گھوڑوں کا سوداگر آیا۔ اس کے‬ ‫پاس ون سونی نسل کے گھوڑے تھے۔ ان میں سے بادشاہ کو‬ ‫ایک گھوڑا بہت پسند ایا۔ پہچان کے لیے اس شخص کو دوبارہ‬ ‫سے طلب کیا گیا گیا اور اپنی پسند کے گھوڑے کے متعلق‬ ‫دریافت کیا۔‬ ‫اس شخص نے گھوڑے کو دیکھنے کے بعد کہا‪ :‬گھوڑے کے‬ ‫نسلی ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن اس کی کمر میں رسولی‬ ‫ہے۔ گھوڑوں کے سوداگر سے کہا تم کیسے گھوڑوں کے‬ ‫سوداگر ہو کہ جانور میں موجود اعضائی نقص سے بےخبر‬

‫‪11‬‬ ‫رہتے ہو۔‬ ‫گھوڑوں کے سوداگر کو سخت پریشانی ہوئی۔ اس گھوڑے کے‬ ‫حوالہ سے اسے انعام واکرام ملنے کی امید تھی۔‬ ‫جانوروں کے امراض کے ماہر کو بلایا گیا۔ اس نے گھوڑے کا‬ ‫طبی معائینہ کیا اور کمر میں رسولی ہونے کی تصدیق کر دی۔‬ ‫بادشاہ گھوڑوں کے سوداگر سے سخت خفا ہوا اور اسے دربار‬ ‫سے دھکے دے کر نکال دیا۔ بادشاہ اپنے اس ملازم کی پرکھ‬ ‫پہچان پر بہت راضی ہوا اور اس کی تنخواہ پانچ روپے برقرار‬ ‫رکھی۔‬ ‫ایک دن بادشاہ نے سوچا کیوں نہ تیسری خوبی بھی آزمائی‬ ‫جائے۔ اسے بلایا گیا۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ تم میرے‬ ‫بارے میں کیا کہتے ہو کہ میں کون ہوں۔ بادشاہ کو اپنے اعلی‬ ‫نسل ہونے کا یقین تھا اور اس پر فخر و غرور بھی تھا۔ اس‬ ‫شخص نے کافی پس و پیش سے کام لیا لیکن بادشاہ کا اصرار‬ ‫بڑھتا گیا۔ اس شخص نے جان بخشی کی درخواست کی۔ بادشاہ‬‫نے جان بخشی کا وعدہ کیا تو اس شخص نے بتایا کہ تم چوڑے‬ ‫کی اولاد ہو۔‬‫بادشاہ نے تلوار نیام سے نکالی اور کہا کہ یہ تم کیسے اور کس‬ ‫بنیاد پر کہتے ہو۔ بادشاہ کے ہاتھ میں وعدہ خلافی کے حوالہ‬ ‫سے تلوار دیکھی تو زوردار قہقہ لگا کر کہنے لگا‪ :‬اے بادشاہ‬

‫‪12‬‬ ‫میں نے ہیرے کی پرکھ بتائی تم خوش ہوئے لیکن میری تنخواہ‬ ‫پانچ ہی رہنے دی۔ گھوڑے کے متعلق درست بتایا تم خوش‬ ‫ہوئے لیکن میری پانچ روپے ہی رہنے دی۔ اب وعدہ خلافی‬ ‫کرکے تلوار نیام سے نکال رہے ہو۔ جب میں نے بتانے سے‬ ‫انکار کیا تو تمہیں علیدگی میں پوچھنا چاہیے تھا۔ تمہارے کام‬ ‫ہی چوڑوں جیسے ہیں‘ میں نے اسی بنیاد پر تمہیں چوڑے کی‬ ‫اولاد کہا ہے۔ مجھے قتل کرنے سے پہلے اپنی ماں سے جا کر‬ ‫پوچھ کہ تم کس کی اولاد ہو۔‬ ‫بادشاہ غصہ سے ہاتھ میں ننگی تلوار لے کر ماں کی طرف‬‫بھاگا۔ اس کی ماں آرام کر رہی تھی۔ اس نے جا کر ماں کو اٹھایا‬ ‫اور کہا سچ بتا کہ میں کس کی اولاد ہوں۔ ماں اس کا یہ رویہ‬‫اور تیور دیکھ کر حیران رہ گئی۔ اس نے کہا اپنے باپ کی اولاد‬ ‫ہو اور کس کی ہو۔ پھر بادشاہ نے تلوار لہرائی اور کہا سچ سچ‬‫بتاؤ کہ میں کس کی اولاد ہوں۔ پھر اس کی ماں نے بتایا کہ میرا‬‫خاوند جنگ میں تھا اور اسے گھر آئے کافی دن ہو گئے میرا دل‬ ‫بڑا چاہا تو میں نے گھر میں جھاڑو بھاری کرنے والے کو‬ ‫استعمال کر لیا اور پھر وہ ہی میرے کام آنے لگا۔ تمہارا وزیر‬‫وہی چوڑا ہی تو ہے۔ محلوں میں یہ الگ سے اور انوکھا واقعہ‬ ‫نہیں ہے۔‬ ‫یہ سننا تھا کہ بادشاہ چکرا گیا اور وہیں سر پکڑ کر زمین پر‬ ‫بیٹھ گیا۔‬

‫‪13‬‬ ‫اسے معلوم نہ تھا‬ ‫لوکانہ‬ ‫ایک شخص درخت کے نیچے منہ کھولے گہری نیند سو رہا تھا‬‫کہ ایک سپولیہ اس کی جانب بڑھا۔ دریں اثنا ایک گھڑسوار وہاں‬ ‫آ پہنچا۔ وہ پھرتی سے گھوڑے سے نیچے اترا۔ اس کے نیچے‬ ‫اترتے اترتے سپولیہ سوئے ہوئے شخص کے منہ میں گھس‬ ‫گیا۔ وہ بڑا پریشان ہوا۔ اچانک اسے کچھ سوجھا اور اس نے‬ ‫سوئے ہوئے شخص کو زور زور سے چھانٹے مارنا شروع کر‬ ‫دیے۔ سویا ہوا شخص گھبرا کر جاگ اٹھا اور اس نے گھڑسوار‬‫اس نے کہا وجہ چھوڑو ‘سے چھانٹے مارنے کی وجہ پوچھی‬ ‫اور تیز رفتاری سے بھاگو ورنہ اور زور سے ماروں گا۔‬ ‫اس شخص نے بھاگنا شروع کر دیا۔ جب رکنے لگتا تو وہ‬ ‫چھانٹے مارنا شروع کر دیتا۔ رستے میں ایک ندی آ گئی۔‬ ‫گھڑسوار نے کہا پانی پیو۔ اس نے پیا۔ اس نے چھانٹا مارتے‬ ‫ہوئے کہا اور پیو۔ اس نے اور پیا اور کہا اب مزید نہیں پی‬ ‫سکتا۔ اچھا نہیں پی سکتے تو بھاگو۔‬ ‫وہ بھاگتا جا رہا تھا اور ساتھ میں وجہ بھی پوچھے جاتا۔‬ ‫گھڑسوار وجہ نہیں بتا رہا تھا ہاں البتہ بھاگنے کے لیے کہے‬ ‫جاتا تھا۔‬

‫‪14‬‬ ‫تھوڑا آگے گیے تو ایک سیبوں کا باغ آ گیا۔ گھڑ سوار نے کہا‬ ‫نیچے گرے ہوئے سیب کھاؤ۔ اس نے کھائے اور کہا مزید نہیں‬ ‫کھا سکتا۔ گھڑسوار نے زوردار چھانٹا مارتے ہوئے کہا‘ میں‬ ‫کہتا ہوں اور کھاؤ۔ اس نے کھانا شروع کر دیا۔ پھر کہنے لگا‬ ‫اور نہیں کھا سکتا مجھے قے آ رہی ہے۔ ہاں ہاں کھاتے جاؤ‬ ‫جب تک قے نہیں آ جاتی تمہیں سیب کھاتے رہنا ہو گا۔‬ ‫وہ سیب کھاتا رہا کہ اسے زوردار قے آ گئی۔ قے کے ساتھ ہی‬ ‫سپولیہ بھی باہر آ گیا۔ تب اس پر اصل ماجرا کھلا۔ وہ گھڑسوار‬ ‫کا شکرگزار ہوا اور اس نے معافی مانگی کہ وہ بھاگتے پانی‬ ‫پیتے اور سیب کھاتے ہوئے جی ہی جی میں اسے گالیاں اور‬ ‫بددعائیں دے رہا تھا اور اس مصبیت سے چھٹکارے کے لیے‬ ‫دعائیں کر رہا تھا۔‬ ‫تمہاری بددعائیں مٹی ہوئیں ہاں البتہ دعائیں کارگر ثابت ہوئیں۔۔‬ ‫اسے قطعا معلوم نہ تھا کہ اس ظاہری برائی میں خیر چھپی‬ ‫ہوئی ہے۔ گھڑسوار مسکرایا اور اپنی منزل کو چل دیا‬

‫‪15‬‬ ‫ان دنوں‬ ‫لوکانہ‬ ‫اس بچی کا اصل نام ارشاد تھا لیکن سیاہ رنگت کے سبب کالی‬ ‫ماتا نام عرف عام میں آ گیا تھا۔ خصوصا بچے اسے چھیڑنے‬ ‫کے لیے شاداں کالی ماتا کہہ کر پکارتے۔ وہ اس نام پر پٹ پٹ‬‫جاتی۔ اکثر نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی۔ وہ تو چڑتی تھی‬‫ہی لیکن اس کی ماں اس سے زیادہ تاؤ میں آ جاتی اور چھیڑنے‬ ‫والے کو اگلے گھر تک پہنچا کر آتی۔‬ ‫اس روز ہم سائے کا لڑکا جو عمر میں شاداں کے برابر کا تھا۔‬ ‫شاداں کو کالی ماتا کہہ کر اپنے گھر بھاگ گیا۔ شاداں نے اپنی‬‫ماں کو آ کر شکایت لگائی۔ شاداں کی ماں نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ‬ ‫ان کے گھر جا کر اس لڑکے کو دو تین زوردار جڑ آئی۔ پھر کیا‬ ‫تھا میدان لگ گیا۔ اس لڑکے کی ماں نے اونچی اونچی بولنا‬ ‫شروع کر دیا۔ شاداں کی ماں بھی نیچے چونکی رکھ کر دیوار‬ ‫کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ پہلے سادا گرم کاری ہوئی اس کے بعد‬ ‫آلودہ لفظوں کے دھارے کھل گئے۔ دونوں بیبیاں تھکنے کا نام‬ ‫ہی نہیں لے رہی تھیں۔ انہوں نے ایک دوسرے کے نئے پرانے‬ ‫راز اگل کر رکھ دیے۔ بہت سی پس پردہ باتیں اور حقائق کھل‬‫گئے اور دونوں کی کردای شرافت پر برسوں کا پڑا پردہ اٹھ گیا۔‬

‫‪16‬‬‫ابھی زور دار بم باری کا سلسلہ جاری تھا کہ شاداں کا دادا گھر آ‬ ‫گیا۔ بہو کو گرجتے برستے دیکھ کر ماجرہ پوچھا۔ شاداں کی‬ ‫ماں نے بہت سی پاس سے لگا کر سسر کو کہانیاں سنائیں۔ یہ‬ ‫بھی بتایا کہ کافٹین کا بیٹا میری شاداں کو کالی ماتا کہہ کر‬ ‫چھیڑتا ہے۔‬ ‫بندہ سیانا تھا۔ اس نے بہو سے پوچھا شاداں کدھر ہے۔ شاداں‬ ‫کی ماں نے گھر میں ادھر ادھر اسے تلاشا وہ گھر پر نہ تھی۔‬‫شاداں کا دادا کہنے لگا اسے نہ تلاشو وہ گھر میں نہیں ہے باہر‬ ‫بچوں کے ساتھ کھیل رہی ہے۔ اس کی پارٹی میں ہم سائی کا‬ ‫لڑکا ہے۔ پھر اس نے اونچی آواز میں ہم سائی سے کہا بیٹا‬ ‫بچوں کی وجہ سے نہ لڑو‘ تم ادھر لڑ رہی ہو باہر یہ ہی بچے‬‫آپس میں مل کر کھیل رہے ہیں۔ بچوں کے لیے لڑنا کھلی حماقت‬ ‫ہے۔‬‫بلڑے کی باتیں سن کر دونوں بیبیاں بڑی شرمندہ ہوئیں اور شرم‬ ‫سے اندر گھس گئیں۔ بچوں نے تو ان کے پلے کچھ نہ چھوڑا‬ ‫تھا۔‬ ‫کئی دنوں تک بول بلارے کے نتیجہ میں ان کی باہمی رنجش‬ ‫چلتی رہی اور پھر ماضی گئی گزری کی قبر میں دفن ہو گیا۔‬ ‫وقت پر لگا کر محو سفر رہا۔ بچے جوان ہو گئے۔ شیداں اور‬ ‫کافٹین کا لڑکا جیرا آپس میں سٹ ہو گئے۔ ان کی یہ باہمی ہیلو‬

‫‪17‬‬ ‫ہائے دو سال تک چلی۔ عزت بچانے کی خاطر دونوں کے مائی‬ ‫باپ کو راضی ہونا پڑا اور ان کی شادی طے کر دی گئی۔‬‫ان دنوں جیرا اور شیداں ایک چھت تلے رہ رہے ہیں اور جیرے‬ ‫کے لیے شیداں حسینہ عالم ہے۔ وہ اس کی بات ٹالنے کو بھی‬ ‫پاپ سمجھتا ہے۔‬

‫‪18‬‬ ‫آنٹی ثمرین‬ ‫منسانہ‬ ‫ماں کی محبت کے بارے میں کچھ کہنا سورج کو چاند دکھانے‬ ‫والی بات ہے۔ یہ کسی دلیل یا ثبوت کی محتاج نہیں ہوتی۔ ماں‬ ‫بچوں کے لیے جو مشقت اٹھاتی ہے کوئی اٹھا ہی نہیں سکتا۔‬‫اس کی سانسیں اپنے بچے کے ساتھ اول تا آخر جڑی رہتی ہیں۔‬ ‫وہ اپنے بچے کے لیے کسی بھی سطع تک جا سکتی ہے۔ اس‬ ‫کا ہر کیا بلا کا حیرت انگیز ہوتا ہے۔ ماں بچے کے لیے اپنی‬ ‫جان سے بھی گزر جاتی ہے۔ یہ محبت اور شفقت اس کی ممتا‬ ‫کی گرہ میں بندھا ہوا ہوتا ہے اس لیے حیران ہونے کی‬ ‫ضرورت نہیں۔ محبت اس کی ممتا کا خاصا اور لازمہ ہے۔‬ ‫عورت اپنے پچھلوں کے معاملہ میں اولاد سے بھی زیادہ‬ ‫حساس ہوتی ہے۔ اس ذیل میں اس کا قول زریں ہے کہ نہ ماں‬ ‫باپ نے دوبارہ آنا ہے اور نہ بہن اور بھائی پیدا ہو سکتے ہیں۔‬ ‫اس کا دو نمبر بھائی بھی قطب نما اور باپ کو نبی قریب‬‫سمجھتی ہے۔ ان کی کوئی کمی خامی یا خرابی اس کو نظر نہیں‬ ‫آتی یا ان سے کمی کوتاہی سرزد ہوتی ہی نہیں۔ جب کہ خاوند‬ ‫کی ماں عموما ففے کٹن اور باپ لوبھی اور لالچی ہوتا ہے۔ بہن‬‫بھائی تو خیر دو نمبری کی آخری سطع کو چھو رہے ہوتے ہیں۔‬

‫‪19‬‬ ‫کرم بی بی بھی اول تا آخر عورت تھی اور وہ بھی یہ ہی‬ ‫اصولی اطوار رکھتی تھی۔ وہ اپنے بیٹے کے لیے بہن کی بیٹی‬ ‫لانا چاہتی تھی جب کہ اس کا خاوند ادھر رشتہ نہیں کرنا چاہتا‬ ‫تھا۔ لڑکی میں کوئی کجی یا خامی نہ تھی۔ بس وہ ادھر رشتہ‬ ‫نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ان کے گھر میں کئی ماہ سے یہ ہی رگڑا‬ ‫جھگڑا چل رہا تھا۔ جوں ہی گھر میں وہ قدم رکھتا کل کلیان‬ ‫شروع ہو جاتی اور یہ اگلے دن اس کے کام پر جانے تک‬ ‫تھوڑے تھوڑے وقفے کے ساتھ چلتی رہتی۔‬ ‫ایک دن اس نے اپنے ایک قریبی دوست سے معاملہ شیئر کیا‪،‬‬ ‫وہ ہنس پڑا‬ ‫او یار اس میں پریشانی والی کیا بات ہے۔ بھابی کو اپنی ڈال دو‬ ‫سب ٹھیک ہو جائے گا۔‬ ‫اپنی کیا ڈالوں۔‬ ‫یہ ہی کہ تم درسری شادی کرنے والے ہو۔ عورت تم نے پسند‬ ‫کر لی ہے۔ اس نے کہا‬ ‫یار میں پاگل ہوں جو ایک بار شدگی کے بعد کوئی عورت پسند‬ ‫کروں گا۔‬ ‫تمہیں کس نے کہا ہے کہ یہ حماقت کرو‘ جعلی کردار تخلیق‬ ‫کرو۔‬

‫‪20‬‬ ‫اسے اپنے دوست کا آئیڈیا پسند آیا۔ طے یہ پایا کہ وہ ٹیلی فون‬ ‫پر مس کال کرے گا۔ اس کے بعد وہ جعلی عورت سے دیر تک‬ ‫رومان پرور باتیں کرتا رہے گا۔ پہلے ہفتے زبانی کلامی اگلے‬ ‫ہفتے سے ٹیلی فونک سلسلہ چلے گا۔‬ ‫اس دن جب رشتے کی بات شروع ہوئی تو اس نے اپنی محبت‬‫کی کہانی چھیڑ دی۔ پہلے تو اس کی بیوی کو یقین نہ آیا۔ اس کا‬ ‫خیال تھا کہ اسے کون پسند کرے گی۔ اس نے بتایا کہ وہ بڑے‬‫بلند مرتبہ شخص کی سالی ہے۔ اسے طلاق ہو گئی ہے۔ بڑی ہی‬ ‫خوب صورت ہے۔ اس کی چھوٹی چھوٹی دو بیٹیاں ہیں۔‬ ‫کرم بی بی کچھ دن اسے لاف زنی خیال کرتی رہی ۔ اگلے ہفتے‬ ‫ٹیلی فون آنا شروع ہو گئے۔ وہ دیر تک جعلی عورت سے جعلی‬ ‫رومان پرور باتیں کرتا۔ کئی بار باتوں کے درمیان کہیں سے‬ ‫ٹیلی فون بھی آیا۔ کرم بی بی اتنی پیدل ہو گئی کہ اس نے غور‬‫ہی نہ کیا کہ ٹیلی فون کرنے کے دوران ٹیلی فون کیسے آ سکتا‬ ‫ہے۔‬ ‫کرم بی بی بھانجی کا رشتہ لانے کا مسلہ بھول سی گئی اسے‬ ‫اپنی پڑ گئی۔ اسے گھر میں اپنے وجود کا خطرہ لاحق ہو گیا۔‬ ‫گھر میں اکیلی دھندناتی تھی سوت کے آ جانے کے دکھ نے‬ ‫اسے ادھ موا کر دیا۔ ان ہی دنوں لڑکے کا رشتہ آ گیا جیسے‬‫سوت کے آنے سے پہلے کر لیا گیا مبادہ سوت کے آنے کے بعد‬

‫‪21‬‬ ‫کیا حالات ہوں۔ کرم بی بی کے ذہن میں یہ بات نقش ہو گئی کہ‬ ‫سوت کے آنے کے بعد حالات برعکس ہو جائیں گے۔‬ ‫لڑکے کی شادی کو ابھی دس دن ہی گزرے ہوں گے کہ ولی‬ ‫محمد اپنے کمرے میں اداس بیٹھا ہوا تھا۔ بات بات پر برہم ہوتا‬ ‫اور کبھی رونے لگتا۔ کوئی کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اسے‬ ‫اچانک کیا ہو گیا ہے۔ اتنا اداس اور رنجیدہ کیوں ہے۔ سب بار‬ ‫بار پوچھتے کہ آپ اتنے پریشان اور اداس کیوں ہیں۔ ہر کسی‬ ‫سے یہ ہی کہتا کب پریشان ہوں۔ میں کیوں اور کس سے اداس‬ ‫ہونے لگا۔‬ ‫آخر کرم بی بی ہی دور کی کوڑی لائی۔ کہنے لگی تمہاری‬ ‫ثمرین تو دغا نہیں دے گئی ۔ ولی محمد نے حیرت سے پوچھا‬ ‫تمہیں کیسے پتا چلا۔ کوئی ٹیلی فون تو نہیں ایا۔‬ ‫کرم بی بی کی باچھیں کھل گئیں۔ کہنے لگی کہتی تھی نا کہ تم‬‫سے عین غین بندے سے کون نبھا کر سکتا ہے وہ میں ہی ہوں‬ ‫جو تمہارے ساتھ نبھا کر رہی ہوں ۔ کرم بی بی بلا تھکان بولتی‬ ‫رہی وہ موٹے موٹے آنسوبہاتا گیا۔ اس کی یہ کئی ماہ اور‬ ‫خصوصا اس روز کی اداکاری دلیپ کمار بھی دیکھ لیتا تو عش‬ ‫عش کر اٹھتا۔‬‫اس گیم میں اسے تین نوعیت کے دکھوں سے پالا پڑا۔ سالی کی‬‫بیٹی کا بیٹے کے لیے رشتہ نہ لینے کی وجہ سے عارضی سہی‬

‫‪22‬‬ ‫قیامت سے گزرنا پڑا۔ جعلی ثمرین کی جعلی محبت کا ڈرامہ‬ ‫زبردست بےسکونی کا سبب بنا لیکن اصل مسلہ حل ہو گیا۔‬ ‫جعلی ثمرین آج بھی کنبہ میں اپنے حقیقی وجود کے ساتھ‬ ‫موجود ہے۔‬ ‫آج جب وہ بوڑھا ہو چکا ہے۔ چلنے پھرنے سے بھی قاصر‬ ‫وعاجز ہے اسے ثمرین سے دیوانگی کے ساتھ محبت کا طعنہ‬ ‫ملتا ہے۔ یہ طعنہ اسے اتنا ذلیل نہیں کرتا جتنا کہ اس کے‬ ‫چھوڑ جانے کا طعنہ ذلیل کرتا ہے۔ کرم بی بی کہتی آ رہی ہے‬ ‫اگر تم ساؤ پتر ہوتے تو وہ تمہیں چھوڑ کر کیوں جاتی۔ یہ میں‬ ‫ہی ہوں جو تم ایسے بندے کے ساتھ گزرا کرتی چلی آ رہی ہوں‬ ‫کوئی اور ہوتی تو کب کی چھوڑ کرچلی جاتی۔ خاندانی ہوں اور‬ ‫میں اپنے مائی باپ کی لاج نبھا رہی ہوں۔‬

‫‪23‬‬ ‫انصاف کا قتل‬ ‫لوکانہ‬ ‫ایک بار ایک بادشاہ جوانوں کے لنگر خانے گیا۔ صفائی‬ ‫درست تھی۔ پھر اس نے پوچھا کہ جوانوں ‘ستھرائی چیک کی‬ ‫کے لیے کیا پکایا ہے۔ جواب ملا بتاؤں یعنی بیگن۔ بادشاہ سخت‬ ‫ناراض ہوا کہ جوانوں کے لیے اتنا گھٹیا کھانا کیوں پکایا گیا‬‫ہے۔ اس کے مشیر نے بیگن کی بدتعریفی میں زمین آسمان ایک‬ ‫کر دیے۔ بہر کیف لنگر کمانڈڑ نے معذرت کی اور آئندہ سے‬ ‫بیگن نہ پکانے اور اچھا کھانا پکانے کا وعدہ کیا تو بادشاہ‬ ‫لنگرخانے سے رخصت ہو گیا۔‬ ‫کچھ وقت گزرنے کے بعد بادشاہ کو دوبارہ سے جوانوں کے‬ ‫لنگرخانے جانے کا اتفاق ہوا۔ سوئے اتفاق اس روز بھی بیگن‬ ‫پکائے گئے تھے۔ بادشاہ نے بیگن کی تعریف کی۔ وہ ہی مشیر‬ ‫ساتھ تھا اس نے بیگن کی تعریف میں ممکنہ سے بھی آگے‬‫بیگن کے فوائد بیان کر دیے۔ گویا بیگن کے توڑ کی کوئی سبزی‬ ‫اور پکوان باقی نہ رہے۔ لنگر کمانڈر خوش ہوا اور آگے سے‬ ‫بیگن کے برابر اور متوار پکائے جانے کا وعدہ کیا۔‬

‫‪24‬‬‫بادشاہ اس مشیر کی جانب مڑا اور کہنے لگا کہ اس دن میں نے‬ ‫بیگن کی بدتعریفی کی تو تم نے بیگن کی بدتعریفی میں کوئی‬ ‫کسر نہ چھوڑی۔ آج جب کہ میں نے تعریف کی ہے تو تم نے‬ ‫کیوں۔ ‘بیگن کی تعریف میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی‬ ‫اس نے جوابا کہا حضور میں آپ کا غلام ہوں بیگن کا نہیں۔‬ ‫یہ سن کر بادشاہ نے کہا تم سے جی حضوریے حق اور سچ کو‬ ‫سامنے نہیں آنے دیتے جس کے سبب صاحب اقتدار متکبر ہو‬ ‫جاتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں ان سے انصاف نہیں ہو پاتا۔‬ ‫انصاف کا قتل ہی قوموں کے زوال کا سبب بنتا ہے۔‬ ‫پہلے تو وہ جی حضوریہ چپ رہا پھر کہنے لگا حضور جان کی‬ ‫امان پاؤں تو ایک عرض کروں۔‬ ‫بادشاہ نے کہا‪ :‬کہو کیا کہنا چاہتے ہو۔‬ ‫حضور سچ اور حق کی کہنے والے ہمیشہ جان سے گئے ہیں۔‬ ‫بادشاہ نے کہا‪ :‬یاد رکھو سچ اور حق جان سے بڑھ کر قیمتی‬ ‫ہیں۔ مرنا تو ایک روز ہے ہی سچ کہتے مرو گے تو باقی رہو‬ ‫گے۔ ہاں جھوٹ کہنے یا اس پر درست کی مہر ثبت کرنے کی‬‫صورت میں بھی زندہ رہو گے لیکن لعنت اور پھٹکار اس زندگی‬ ‫کا مقدر بنی رہے گی۔‬

‫‪25‬‬ ‫بےکار کی شرم ساری‬ ‫منسانہ‬‫یہ ہی کوئی پچیس تیس سال پہلے کی بات ہے۔ یہاں اللہ بخشے‬‫مولوی دین محمد ہوا کرتے تھے۔ بڑے ہنس مکھ اور خوش طبع‬ ‫تھے۔ کھانے پینے کے معاملہ میں بڑے سادہ اور فراخ مزاج‬ ‫واقع ہوئے تھے۔ پہلے کتنا بھی کھا چکے ہوتے اس کے بعد‬ ‫بھی جو ملتا بسم اللہ کرکے ہڑپ جاتے۔ اس ذیل میں انکار نام‬‫کی چیز سے بھی ناآشنا تھے۔ اولاد بھی اللہ نے انہیں کافی سے‬ ‫زیادہ دے رکھی تھی۔‬‫ان کی رن حد درجہ کی کپتی تھی۔ عزت افزائی کرتے آیا گیا بھی‬‫نہ دیکھتی تھی۔ گویا وہ مولوی صاحب کی لہہ پہا کے لیے موقع‬ ‫تلاشتی رہتی تھی۔ بعض اوقات بلاموقع بھی بہت کچھ منہ سے‬‫نکال جاتی تھی۔ انسان تھے چھوٹی موٹی غلطی ہو ہی جاتی بس‬ ‫پھر وہ شروع ہو جاتی۔ سب جانتے تھے کہ حد درجہ کی بولار‬ ‫ہے۔ ہاں اس کے بولارے سے مولوی صاحب کے بہت سے‬ ‫پوشیدہ راز ضرور کھل جاتے۔ مولوی صاحب نے کبھی اسے‬ ‫ذلیل کرنے کے لیے موقع کی تلاش نہ کی تھی۔ ہاں البتہ خود‬ ‫بچاؤ کی حالت میں ضرور رہتے تھے۔‬ ‫انسان تھے آخر کب تک برداشت کرتے‘ انہوں نے بھی اسے‬

‫‪26‬‬ ‫ذلیل کرنے کی ٹھان لی۔ ایک مرتبہ ان کے گھر میں بہت سے‬ ‫مہمان آئے ہوئے تھے۔ کھرے میں دھونے والے کافی برتن‬‫پڑے ہوئے تھے‘ انہیں دھونے بیٹھ گئے اور ساتھ میں مولویانہ‬ ‫انداز میں آواز لگائی کہ کوئی اور برتن موجود ہو تو دے جاؤ۔‬ ‫ان کی بیوی نے نوٹس لیا اور گرج دار آواز میں کہنے لگی‬‫کیوں ذلیل کرنے پر اتر آئے ہو پہلے تم دھوتے ہو۔ پھر اس نے‬ ‫زبردستی انہیں وہاں سے اٹھا دیا۔ مولوی نے اس کے ہارے‬ ‫ہارے سے طور کو خوب انجوائے کیا۔‬ ‫کچھ ہی دنوں بعد ایک اور ایسا واقعہ پیش آیا۔ اندر پان سات‬ ‫عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں یہ کپڑے دھونے کے انداز میں بیٹھ‬ ‫گئے اور آواز لگائی کوئی اور دھونے والا کپڑا پڑا ہو تو دے‬ ‫جاؤ مجھے کہیں جانا ہے۔ کوئی رہ گیا تو مجھے نہ کہنا۔‬ ‫مولویانی پر پہلے کی کیفیت طاری ہو گئی اور اس نے انہیں‬ ‫کھرے سے اٹھا دیا کہ کیوں ذلیل کرتے ہو۔‬ ‫مولوی صاحب کا خیال تھا کہ ان کی رن عورتوں میں ذلیل ہو‬ ‫جائے گی اور سب اسے توئے توئے کریں گے لیکن معاملہ الٹ‬ ‫ہو گیا۔ عورتوں میں مشہور ہو گیا کہ مولوی صاحب کے پہلے‬ ‫کچھ نہیں رہا تب ہی تو اتنا تھلے لگ گیا ہے۔ پاگل تھیں کہ اگر‬ ‫مولوی صاحب کے پلے کچھ نہ ہوتا تو اتنے بچے کیسے ہو‬ ‫گئے۔ رشتہ داروں میں جاتے یا گلی سے گزرتے تو عورتیں‬ ‫انہیں دیکھ کر ہنستیں۔ وہ کیسے ان سب کو یقین دلاتے کہ وہ‬

‫‪27‬‬‫ٹھیک ہیں انہوں نے تو یہ سب ان کے ساتھ ہونی کا بدلا اتارنے‬ ‫کے لیے کیا تھا۔‬ ‫اتنے خوش طبع مولوی صاحب سنجیدہ سے ہو گئے۔ اسی طرح‬‫لوگوں کے ہاں سے کھانے پینے کے مواقع بھی بےکار کی شرم‬ ‫ساری کی لحد میں اتر گیے۔ اس واقعے کے بعد انہوں نے کہنا‬ ‫شروع کر دیا کہ کوئی کیا کرتا ہے اس کو مت دیکھو تم ہمیشہ‬ ‫اچھا کیا کرو کیوں کہ اچھا کرنے میں ہی خیر اور اچھائی ہے۔‬ ‫‪.....................................‬‬

‫‪28‬‬ ‫میں مولوی بنوں گا‬ ‫منسانہ‬ ‫میں نے تنویر کے مستقبل کے بڑے سنہرے خواب دیکھ رکھے‬‫تھے۔ ًمیں اسے بہت بڑا آدمی بنانا چاہتا تھا۔ اس نے میٹرک میں‬ ‫اچھے نمبر حاصل کرکے دل خوش کر دیا۔ اسے کھیل کود سے‬ ‫کم کتاب سے زیادہ دلچسپی تھی۔ جب کبھی اسکول گیا استاد‬ ‫اس کی تعلیمی حالت کی تعریف کرتے۔ ان کے منہ سے اپنے‬ ‫بیٹے کی تعریف سن کر دل خوشی سے باغ باغ ہو جاتا۔ منہ‬ ‫سے اس کے اچھے مستقبل کے لیے بےاختیار ڈھیر ساری‬ ‫دعائیں نکل جاتیں۔‬ ‫ایف اے میں بھی تعلیمی معاملہ میں اچھا رہا۔ تھرڈ ایئر میں آیا‬ ‫تو اس نے چھوٹی چھوٹی داڑھی رکھ لی۔ نماز روزے کا بھی‬ ‫پابند ہو گیا۔ یہ دیکھ کر اور بھی خوشی ہوئی کہ چلو تعلیم میں‬ ‫بہتر کارگزاری کے ساتھ ساتھ نیک راہ پر بھی چل نکلا ہے‬‫ورنہ آج کے ماحول میں بےراہروی ہی لڑکی لڑکوں کا وتیرہ بن‬ ‫گیا ہے۔ یہ بےراہروی انہیں بدتمیز بھی بنا رہی ہے۔ بڑے‬ ‫چھوٹے کا کوئی پاس لحاظ ہی نہیں رہا۔ تھرڈ ایئر تو خیر سے‬‫گزر گئی اور اس نے اچھے نمبر بھی حاصل کیے۔ فورتھ ائیر ہم‬‫سب کے لیے قیامت ثابت ہوئی۔ اس نے داڑھی بڑھا دی اور ایک‬

‫‪29‬‬ ‫دن کالج کی پڑھائی چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔ اس کا یہ اعلان‬‫میرے دل و دماغ پر اٹیم بم بن کر گرا۔ مجھے پریشانی کے ساتھ‬ ‫ساتھ حیرانی بھی ہوئی کہ آخر اسے اچانک یہ کیا ہو گیا ہے۔‬ ‫اس نے یہ فیصلہ کیوں کیا ہے کہ میں دینی مدرسے میں داخل‬ ‫ہو کر مستند مولوی بنوں گا۔ کہاں کالج کی پڑھائی کہاں مولوی‬ ‫بننے کا اعلان‘ عجب مخمصے میں پڑ گیا۔‬ ‫میں دو تین دن اس کے پیچھے پڑا رہا کہ آخر اس نے مولوی‬ ‫بننے کا کیوں ارادہ کیا ہے۔ کچھ بتاتا ہی نہ تھا۔ چوتھے دن اس‬ ‫نے بڑے غصے اور اکتائے ہوئے لہجے میں کہا کہ میں کفر‬ ‫کے فتوے جاری کرنے کے لیے مستند مولوی بننا چاہتا ہوں۔‬ ‫کفر کے فتوے۔۔۔ کس پر۔۔۔۔ مگر کیوں۔‬ ‫میں پہلا کفر کا فتوی آپ کے خلاف جاری کروں گا۔‬ ‫یہ سن کر میرے طور پہوں گئے۔ میرے خلاف یعنی باپ کے‬ ‫خلاف۔ میں اس کا کھلا اعلان سن کر دم بہ خود رہ گیا۔‬ ‫پھر میں نے پوچھا‪ :‬میاں آخر تم نے مجھ میں کون سی ایسی‬ ‫کفریہ بات دیکھ لی ہے۔‬ ‫کہنے لگا‪ :‬میری ماں آپ کی خالہ زاد ہے آپ انہیں خوب خوب‬‫جانتے تھے کہ بڑی بولار ہے تو شادی کیوں کی۔ کیا اور لڑکیاں‬ ‫مر گئی تھیں۔ آپ دونوں نے لڑ لڑ کر ہم سب کا جینا حرام کر‬‫دیا ہے۔ غلطی آپ کی ہے کہ آپ اسے بولنے کا موقع دیتے ہیں۔‬

‫‪30‬‬ ‫اییسی بات کیوں کرتے ہیں کہ وہ سارا سارا دن اور پھر رات‬ ‫گئے تک بولتی رہے۔‬ ‫اس کی اس بات نے مجھے پریشان کر دیا۔ میں نے فیضاں کو‬ ‫بلوایا اور کہا بیٹے کے ارادے سنے ہیں نا۔‬ ‫ہاں میں نے سب کچھ سن لیا ہے۔ ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہے۔‬ ‫ایسی بات کیوں کرتے ہیں جس سے مجھے غصہ آئے اور میں‬ ‫بولنے لگوں۔‬ ‫چلو میں کسی دوسری جگہ تبادلہ کروا لیتا ہوں لہذا تم کالج کی‬ ‫پڑھائی جاری رکھو۔‬ ‫ہاں ہاں اچھا فیصلہ ہے کہ پھر ہمارے ساتھ ڈٹ کر بول بولارا‬ ‫کرتی رہے۔ وہ تلخ اور طنز آمیز لہجے میں بولا‬ ‫ماں آپ فکر نہ کرو آپ بھی میرے فتوے کی زد میں آؤ گی۔‬ ‫خاوند کی اتنی بےعزتی اسلام میں جائز نہیں۔‬‫بیٹے کی یہ بات سن کر وہ ہکا بکا رہ گئی۔ اسے امید نہ تھی کہ‬‫تنویر ایسی بات کرے۔ پھر ہم دونوں میاں بیوی کی نظریں ملیں۔‬ ‫ہم دونوں کی آنکھوں میں دکھ اور پریشانی کے بادل تیر رہے‬ ‫تھے۔ ہم اسے بہت بڑا آدمی بنانے کے خواب دیکھ رہے تھے‬ ‫کہ بیٹا کچھ کا کچھ سوچ رہا تھا۔ پھر ہم دونوں کے منہ سے‬ ‫بےاختیار نکل گیا۔ بیٹا تم کالج کی پڑھائی نہ چھوڑو ہم آگے‬

‫‪31‬‬ ‫سے نہیں لڑیں گے بل کہ معاملات بات چیت سے طے کر لیا‬ ‫کریں گے۔‬ ‫تنویر مان ہی نہیں رہا تھا۔ اس کا اصرار تھا کہ وہ مولوی ہی‬ ‫بنے گا۔ وہ کہے جا رہا تھا کہ آپ وعدہ پر پورا نہیں اترو گے۔‬ ‫کافی دیر تکرار و اصرار کا سلسلہ جاری رہا۔ تنویر کو آخر‬ ‫ہمارے تکرار اصرار کے سامنے ہتھیار ڈالنا ہی پڑے اور وہ‬ ‫کالج کی کتاب لے کر بیٹھ گیا اور ہم چپ چاپ اس کے کمرے‬ ‫سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گیے۔‬

‫‪32‬‬ ‫ایسا کیوں ہے‬ ‫لوکانہ‬‫میں عقیدت‘ پیار‘ محبت اور کچھ موسمی سوغات کی پنڈ اٹھائے‬ ‫پیر صاحب کے در دولت پر حاضر ہوا۔ دروازے پر دستک دی۔‬ ‫اندر سے ان کی بےغم صاحب دروازے پر آئیں۔ میں نے انہیں‬ ‫اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ میں ان کا ماننے والا خادم ہوں‬ ‫اور یہ سوغات باطور نذرانہ لے کر حاضر ہوا ہوں۔ بےغم‬‫صاحب نے سوغات کی پنڈ لے لی اور کہا‪ :‬تمہارا جعلی پیر ادھر‬ ‫ادھر ہی کہیں دھکے کھاتا پھرتا ہو گا۔ جاؤ جا کر تلاش لو۔‬ ‫اس کے انداز اور رویے پر مجھے حیرت اور پریشانی ہوئی۔‬‫اس کے خاوند کو ایک زمانہ مانتا تھا لیکن یہ ان کے لیے رائی‬ ‫بھر دل میں عزت نہ رکھتی تھی۔ اس کا لہجہ انتہائی ذلت آمیز‬‫طنز میں ملفوف تھا۔ بڑا ہی حیران کن تجربہ تھا۔ سوغات حاصل‬‫کرنے میں ایک منٹ کی دیر نہ کی۔ پانی دھانی ایک طرف اس کا‬ ‫اپنے خاوند کے بارے انداز قطعی افسوس ناک تھا۔ کیا کہتا‘ وہ‬ ‫میری عزت کی جا تھی۔ میں چپ چاپ وہاں سے افسوسیہ سوچ‬ ‫لے کر چل دیا۔‬ ‫سوچوں میں غلطاں میں یوں ہی ایک طرف کو چل دیا۔ ابھی‬ ‫تھوڑی ہی دور گیا ہوں گا کہ حضرت پیر صاحب آتے دکھائی‬

‫‪33‬‬‫دیے۔ وہ ببر شیر پر سوار تھے۔ شیر کو لگام ڈالی ہوئی تھی ببر‬ ‫شیر بڑی تابعداری سے ان کے حکم کی تعمیل میں قدم اٹھا رہا‬ ‫تھا۔ انہوں نے میری طرف دیکھا اور مسکرائے۔ فرمانے لگے‪:‬‬ ‫بیٹا شیر کو لگام ڈالنا آسان کام ہے مگر گھروالی کو تابع رکھنا‬ ‫ممکن نہیں۔ دیکھو سیدنا نوح علیہ السلام کتنے بڑے انسان‬ ‫تھے لیکن بیگم انہیں نہیں پہچانتی تھی تب ہی تو نافرمان تھی۔‬ ‫سقراط کو لے لو منفرد اور نایاب شخص تھا۔ ساری دنیا عزت‬ ‫کرتی تھی لیکن گھروالی اسے نہیں پہچانتی تھی‘ تب ہی تو‬ ‫گستاخ تھی۔‬ ‫یہ بھی یاد رکھو! پیٹ نواز حفظ مراتب جان لیں تو زندگی نکھر‬ ‫نہ جائے۔ بیٹا دل میں ملال نہ لاؤ۔ جو تم نے دیکھا وہ اس کی‬ ‫کرنی ہے برداشت اللہ کے احسان سے میرا فعل ہے۔‬‫میں درحقیقت اپنی گھر والی کی شکایت لے کر گیا تھا اور چاہتا‬ ‫تھا کہ وہ دعا فرمائیں تا کہ اس کا منہ بند ہو جائے۔ واپسی پر‬ ‫سوچتا سوچتا آ رہا تھا کہ ہم تو معمولی لوگ ہیں‘ پیر صاحب‬‫سے بڑے لوگ ان بیبیوں کے سامنے بےبس ہیں۔ میں سوچ رہا‬ ‫تھا کہ ایسا کیوں ہے۔ پھر خیال گزرا کہ ان بیبیوں کے سامنے‬ ‫رات تنہائی میں فعل مخصوص انجام دینے کے دوران کمل‬ ‫مارنے والا شخص ہوتا ہے اور وہ اسی تناظر میں صبح انجام‬‫پانے والے امور کو دیکھتی ہیں اور وہ سب انہیں خودساختہ سا‬

‫‪34‬‬ ‫محسوس ہوتا ہے حالاں کہ وہ ہر اچھا اللہ کی رضا کے لیے‬ ‫انجام دے رہے ہوتے ہیں۔‬ ‫ممکن ہے یہ سوچ غلط اور بےبنیاد ہو لیکن کہیں ناکہیں اور‬ ‫کسی سطح پر اس امر کا عمل دخل ضرور ہوتا ہے۔‬

‫‪35‬‬ ‫یہ اچھا ہی ہوا‬ ‫لوکانہ‬ ‫علاقے کے مولوی صاحب دھنیے دکان دار سے ادھار سودا لیا‬ ‫کرتے تھے۔ چوں کہ مولوی صاحب تھے اس لیے وہ بڑی‬ ‫برداشت اور لحاظ مروت سے ادھار سودا دیتا رہا۔ ادھار کی رقم‬‫کافی ہو گئی اور معاملہ دھنیے کی بسات و برداشت سے باہر ہو‬ ‫گیا تو اس نے ادھار سودا دینے سے صاف انکار کر دیا۔‬ ‫مولوی صاحب نے کہا‪ :‬اگر تم نے سودا نہ دیا تو یہ تمہارے‬ ‫لیے اچھا نہ ہو گا۔‬ ‫دھنیے نے کہا‪ :‬ٹھیک ہے جو ہو گا دیکھا جائے گا۔‬ ‫مولوی صاحب نے اس کی جانب طنز آمیز غصے سے دیکھا۔‬‫دھنیے کے چہرے پر کسی قسم کی فکرمندی یا ملال نہ تھا۔ گویا‬ ‫یہ ہی تاثر تھا کہ جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ مولوی صاحب کو‬ ‫تین قول پورے کرنا چاہیے تھے لیکن انہوں نے دوسری بار‬ ‫کچھ کہنے یا وارننگ کو مذید زوردار اور سخت بنانے کی‬ ‫زحمت ہی نہ اٹھائی اور پیر پٹکتے ہوئے وہاں سے روانہ ہو‬ ‫گئے۔ جاتے ہیں تو جائیں دھینا بڑبڑایا اور اس نے ان کی جانب‬ ‫سرسری نظر سے بھی نہ دیکھا۔‬

‫‪36‬‬ ‫مولوی صاحب نے مسجد میں آ کر سپیکر کھولا اور دکھ بھری‬ ‫آواز میں اعلان کیا۔‬ ‫حضرات ایک ضروری اعلان سنیے۔ بڑے دکھ اور افسوس کی‬ ‫بات ہے کہ دھنیا دکان دار وہابی ہو گیا ہے لہذا اس سے کسی‬‫قسم کی سودا نہ خریدا جائے اور نہ کسی قسم کا لین دین یا بول‬‫چال رکھا جائے جو اس سے سودا خریدے گا یا کسی قسم کا لین‬ ‫دین کرے گا یا بول چال رکھے گا سیدھا جہنم کی بھڑکتی آگ‬ ‫میں جائے گا۔‬ ‫لوگوں نے دھنیے سے ہر قسم کی خریداری بول چال اور لین‬ ‫دین بند کر دیا۔ اس کے بعد دھنیا سارا دن ہاتھ پہ ہاتھ دھرے‬ ‫بیٹھا بدنصیبی کی مکھیاں مارتا رہتا۔ کوئی اس کی دکان کے‬ ‫نزدیک سے بھی نہ گزرتا۔‬ ‫کچھ دن تو اس نے برداشت سے کام لیا جب بائیکاٹ میں کسی‬‫قسم کی لچک پیدا نہ ہوئی تو وہ مولوی صاحب کے در دولت پر‬ ‫حاضر ہوا اور ہتھیار ڈالتے ہوئے کہنے لگا‪ :‬مولوی صاحب آپ‬ ‫جتنا جی چاہے سودا لے لیں لیکن یہ کٹھور پابندی اٹھا لیں۔‬ ‫مولوی صاحب اس کی دکان پر گئے اور اچھا خاصا سودا لیا۔‬ ‫سودا گھر پر چھوڑ کر مسجد میں جا کر اعلان کیا۔ حضرات آپ‬‫کے لیے خوشی کی یہ ہے بات کہ دھنیا دکان دار تائب ہو گیا ہے‬ ‫اب اسی سے سودا خرید کیا کریں کہیں اور سے سودا نہ‬

‫‪37‬‬ ‫خریدیں ۔ اپنا قریبی دکان دار چھوڑ کر کسی اور سے سودا‬ ‫خریدنے سے پاپ لگتا ہے۔ دھنیے نے ایشور کا شکریہ ادا کیا‬‫اور چھری پہلے سے تیز کر دی۔ اپنی اصل میں بالوسطہ دھنیے‬ ‫کے لیے یہ اچھا ہی ہوا کہ اس کے منافع کی شرح میں ہرچند‬ ‫اضافہ ہی ہوا۔‬

‫‪38‬‬ ‫وہی پرانا چالا‬ ‫منسانہ‬ ‫بیٹی کو رخصتی کے وقت یہ سختی سے ہداہت کی جانی چاہیے‬ ‫کہ وہ میکہ کی کوئی منفی بات سسرال میں یا سسرال کی کوئی‬ ‫منفی بات میکہ میں شیئر نہ کرے۔ اس علت بد کے سبب غلط‬ ‫فہمیاں جنم لیتی ہیں جو بعد میں تلخیوں کا سبب بن جاتی ہیں۔‬ ‫ہنستی مسکراتی زندگی پریشانیوں میں بدل جاتی ہے۔ بدقسمتی‬ ‫سے گھر کے گھر اس بیماری کے باعث تباہ ہو جاتے ہیں۔ یہ‬ ‫ہی لوتیاں بعد میں کورٹ کچہری والوں کی کھٹی کا ذریعہ بن‬ ‫جاتی ہیں۔ ڈاکٹر ہوں کہ یہ کورٹ کچہری والے‘ ہنستے‬ ‫مسکراتے چلتے پھرتے لوگ انہیں بھلے نہں لگتے۔‬ ‫حنیف گربت کی چکی میں پس رہا تھا۔ سارا دن مشقت میں کٹ‬ ‫جاتا۔ رات میاں بیوی کی لایعنی چخ چخ میں گزر جاتی۔ دونوں‬ ‫میاں بیوی کو پچھلوں میں چھوٹی چھوٹی بات شیئر کرنے کی‬ ‫عادت بد لاحق تھی۔ پچھلے کوئی مالی مدد تو نہ کرتے ہاں‬ ‫دونوں میاں بیوی میں غلط فہمیاں پیدا کرنے والے سبق ضرور‬ ‫پڑھاتے رہتے تھے۔ یہ تھے کہ اس عادت سے باز ہی نہیں آ‬ ‫رہے تھے۔ پچھلوں کے پڑھائے گئے اسباق کی وجہ سے ان‬ ‫کے درمیان نفرتوں میں ہرچند اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا تھا۔‬

‫‪39‬‬ ‫انہوں نے کبھی سر جوڑ کر حالات سے لڑنے کی مشاورت کی‬‫ضرورت ہی محسوس نہ کی تھی حالاں کہ ایسے حالات میں سر‬ ‫جوڑ کر مشاورت بہت ضروری ہوتی ہے۔‬ ‫خدا معلوم حنیف کی کس طرح درک لگ گئی کہ اس کی بیرون‬ ‫ملک میں سرکاری نوکری لگ گئی۔ پھر کیا تھا‘ نوٹ آنا شروع‬ ‫ہو گئے۔ جہاں بھوک بھنگڑے ڈالتی تھی وہاں رج کے نقارے‬ ‫بجنا شروع ہو گئے۔ جو بیوی کو رقم بھجتا اس کی خبریں‬‫پچھلوں کو بھجوا دیتا۔ ادھر اس کی بیوی میکہ اور ارد گرد میں‬ ‫یہ مشہور کرنے بیٹھ گئی جو کماتا ہے اپنے پچھلوں کو بھجوا‬ ‫دیتا ہے اور ہم اسی طرح گربت کی زندگی گزارتے ہیں۔ جب کہ‬ ‫حقیقت یہ تھی کہ جو حنیف بھجواتا اس سے اس کے میکہ کی‬ ‫بھوک نکلنے لگی تھی۔ اس غلطی کے سبب دونوں خاندانوں‬‫میں اٹ کتے کا بیر چل نکلا۔ وہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے‬ ‫کے بھی روادار نہ رہے۔‬‫حنیف چھٹی پر آیا تو اطراف سے خوب لون مرچ محالحہ لگا کر‬‫اسے خبریں دی گئیں۔ بجائے چھٹی کے دن ہنس کھیڈ کر گزارے‬ ‫جاتے جنگ جدل کی عملی کیفیتں طاری رہیں۔ ان کی اس باہمی‬ ‫بکواس کے سبب بچے بڑے ڈسٹرب ہوتے۔ جب چھٹی کاٹ کر‬ ‫جانے لگا تو اس نے عنائتاں کو گھر سے نکال دیا۔‬

‫‪40‬‬ ‫چند دن تو اس نے بھائیوں کے ہاں گزارے۔ باہر سے آئی رقم‬ ‫سے اس نے پائی بھی جمع نہ کی تھی۔ کھانے والے کب کھلا‬ ‫سکتے ہیں۔ وہاں اس کی زندگی عذاب ہو گئی۔ بچے کھانے‬ ‫پینے کی چیزوں تک کو ترسنے لگے۔ حنیف نے رقم بھجوانا‬ ‫بند کر دی۔ حنیف کے بڑے بھائی نے بچوں کی یہ حالت دیکھی‬‫تو بڑا افسردہ ہوا۔ اس نے بچوں کو کچھ کھانے پینے کی چیزیں‬ ‫بھجوانا شروع کر دیں۔‬ ‫اپنے ہی لوگوں کو یہ برداشت نہ ہوا۔ اس امر کی بڑھا چڑھا کر‬ ‫حنیف کو خبریں بیجھنا شروع کر دیں۔‬ ‫حنیف کو بھائی کی اس حرکت پر سخت غصہ آیا۔ اس نے ٹیلی‬ ‫فون پر اپنے بڑے بھائی کی بڑی بےعزتی کی۔ اس نے کسی‬ ‫الزام سے بچنے کے لیے عنائتاں اور بچوں کو کچھ بیجھنا بند‬ ‫کر دیا۔ پھر ہونا کیا تھا‘ باپ کی بھری جیب ہوتے بچے بھوکوں‬ ‫مرنے لگے۔ اللہ تو نافرمان سے نافرمان کا رزق بند نہیں کرتا‬ ‫بل کہ اسے سدھرنے کے مواقع مسیر کرتا ہے اگر نہ سمجھے‬ ‫تو وہ اپنی ہی کسی کرنی میں پھنس جاتا ہے۔‬ ‫حنیف کے دماغ میں اوقات سے باہر میسر کا فتور آ گیا تھا اور‬ ‫وہ یہ سوچنے سے عاری ہو گیا تھا کہ رزق تو اللہ کا دیا ہوا‬ ‫ہے اور اس کی جیب میں پڑا بھی اللہ ہی کا ہے۔ وہ تو اپنے‬ ‫سانس کا بھی مالک و وارث نہیں۔‬

‫‪41‬‬ ‫پتا نہیں اس سے کیا ہو گیا اور وہ نوکری سے نکال باہر کر دیا‬ ‫گیا۔ جوتے چٹخاتا ہوا واپس لوٹ آیا۔ اس نے عنائتاں سے‬ ‫چھٹکارے کے لیے عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔ جو ساتھ لایا‬ ‫تھا کورٹ کچہری کی نذر ہو گیا۔ دوبارہ سے مشقت کی جانب‬ ‫راغب ہوا۔ اس سے پہلے کی طرح کام نہیں ہو پا رہا تھا۔ بڑے‬ ‫بھائی نے کافی بھاگ دوڑ کی اور دونوں میاں بیوی کی صلاح‬ ‫کروا دی۔ ان دنوں دونوں میاں بیوی ایک چھت کے نیچے رہ‬ ‫رہے تھے لیکن اتنا بڑا جھٹکا لگنے کے باوجود انہیں عقل‬ ‫نہیں آئی تھی اور اب بھی ان کا چالا وہ ہی پرانا تھا۔‬

‫‪42‬‬ ‫سدھر جاؤ‬ ‫منسانہ‬ ‫خوش حال زندگی کون گزارنا نہیں چاہتا۔ خوش حال زندگی کے‬ ‫لیے ہر کوئی کوشش اور محنت کرتا ہے۔ اٹھتے بیٹھتے چلتے‬ ‫پھرتے سوتے جاتے سوچتا اور سو طرح کے منصوبے بناتا‬‫ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی کوشش اور سوچ کا ثمرہ محدود‬ ‫رہتا ہے اور ان حد دولت اس کے پاس آ نہیں پاتی۔ آنکھ کی‬ ‫سیری نہ ہونے کے باعث پریشانی بےسکونی اور گھر میں‬ ‫باہمی غلط فہمیوں کے سائے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔‬ ‫سب کچھ میسر ہونے کے باوجود مایوسی کی فضا طاری رہتی‬ ‫ہے۔ قناعت کا آئینہ اندھا ہو جاتا ہے اور شخص اپنی حقیقی‬ ‫صورت دیکھنے سے بھی معذور ہو جاتا ہے۔‬ ‫لالے کرم دین کے شریف اور بھلامانس ہونے میں قطعی شبہ‬ ‫نہیں کیا جا سکتا۔ زبردست مشقتی تھا۔ وہ میسر پر گزارا کرنے‬ ‫والا شخص تھا لیکن اس کے بیوی بچے اس قماش کے نہ‬ ‫تھے۔ وہ دنیا کی ساری دولت گرہ کر لینے کی ہوس رکھتے‬‫تھے۔ اس کا محنتانہ ان کی ہوس کے پاسنگ نہ تھا ۔ ان کی اس‬ ‫ہوس کے باعث گھر میں ہر وقت بےچینی اور بےسکونی کی‬ ‫کیفیت طاری رہتی۔‬

‫‪43‬‬ ‫وہ اکثر سوچتا آخر اس کا جرم کیا ہے جو اس کے اپنے گھر‬ ‫والے اسے سزا دے رہے ہیں۔ فارغ تو نہیں رہتا۔۔۔۔ جوا نہیں‬‫کھلتا۔۔۔۔ شراب نہیں پیتا۔۔۔۔ عورتوں کے پیچھے نہیں جاتا۔۔۔۔ سارا‬ ‫دن مشقت کرتا ہے اور جو میسر آتا ہے ان لوگوں پر خرچ کر‬ ‫دیتا ہے۔ یہ ہیں کہ خوش ہی نہیں ہوتے۔ خدمت تو دور رہی‘ ان‬ ‫کے پاس تو اس کے لیے ایک مسکراہٹ تک نہیں۔ جب دیکھو‬‫گلے شکوے‘ بول بولارا۔ آخر اس کا جرم کیا ہے۔ اس نے کیا کیا‬ ‫ہے جس کی یہ لوگ اسے سزا دے رہے ہیں۔‬ ‫اس روز اس نے طے کر لیا کہ شیداں سے ضرور پوچھے گا‬ ‫کہ اس کا جرم کیا ہے اور وہ کیا کرے کہ اس کی زبان بند ہو‬ ‫جائے۔‬‫قدرتی بات تھی کہ اس روز جانے کیوں شیداں کا موڈ خوشگوار‬ ‫تھا۔ اس نے موقع کو غنیمت جانا اور شیداں سے پوچھ ہی لیا‬ ‫کہ اس میں کیا پرائی اور خرابی ہے کہ وہ ہر وقت ٹکوا لے کر‬ ‫اس کے پیچھے پڑی رہتی ہے اور وہ کیا کرے جس سے گھر‬ ‫میں سکھ اورشانتی کی فضا قائم ہو۔‬ ‫شیداں نے جوابا کہا کہ وہ سدھر جائے اپنی ان حرکتوں سے‬ ‫باز آ جائے۔‬ ‫اس نے کہا یہ ہی تو میں جاننا چاہتا ہوں کہ کن حرکتوں سے‬ ‫باز آ جاؤں۔‬

‫‪44‬‬‫اپنی کمائی غیروں پر خرچ کرنا بند کر دو۔ اپنے بچوں کا حق نہ‬ ‫مارو۔‬‫تم کن غیروں کی بات کر رہی ہو جن پر میں اپنی کمائی ضائع کر‬ ‫رہا ہوں۔‬‫کہنے لگی بڑے بھولے بنتے ہو۔ سب کچھ ماں ففےکٹن اور اپنی‬ ‫کمینی بہن کو کھلا رہے ہو۔ ہمیں دیتے ہی کیا ہو۔‬ ‫وہ جانتا تھا کہ شیداں کو کیا پیڑ ہے اور وہ کیوں رولا ڈالتی‬ ‫ہے۔ وہ ماں کو دیتا ہی کیا تھا۔ ہفتے عشرے بعد چند ٹکے اور‬ ‫بیوہ بہن اور اس کے بچوں کو عید شبرات پر سستے قسم کے‬ ‫کپُڑے بنا دیتا تھا اور بس۔ یہ ہی اسے کھٹکتے تھے۔ ماں اور‬ ‫بہن کا اس پر حق تھا۔‬ ‫شیداں جب بھی بولتی اس کی ماں کو ففےکٹن کہتی جب کہ اپنی‬ ‫ماں کو ہمیشہ امی جان کہتی۔ جب اس کی ماں آتی تو بوتھا‬ ‫ٹیڑھا کر لیتی پانی تک نہ پوچھتی۔ جب اس کی ماں آتی تو امی‬ ‫جان امی جان کرتی اس کے آگے پیچھے ہوتی۔ خوب خدمت‬ ‫تواضح کرتی۔ یہ ہی نہیں اچھا پکا تک ان کے گھر بھجوا کر‬ ‫سانس لیتی۔ بچت کرکے اس کی چوری چھپے مٹھی بھی گرم‬ ‫کرتی رہتی تھی۔ بھائی کے بیٹے کا اسکول کا خرچا اٹھایا ہوا‬ ‫تھا۔ بھائی تھا کہ سیدھے منہ سے حضرت کا سلام بلانا پسند‬ ‫نہیں کرتا تھا۔‬

‫‪45‬‬ ‫اگر کبھی کبھار ماں کو پنج دس روپے دے دیتا ہے تو اس سے‬ ‫کیا فرق پڑتا ہے۔ کون سا روز روز دیتا ہے۔ رہ گئی بہن اس کو‬ ‫کیا دیتا ہے۔ عید شبرات پر تیسرے درجے کے کپڑے اور بس۔‬ ‫وہ کہتی تو پھر اتنی کمائی کہاں جاتی ہے۔ اتنی پر اسے بڑا تاؤ‬ ‫آتا جیسے اس کے باپ نے دو مربعے زمین اس کے نام کر دی‬ ‫ہو یا جہیز میں ملیں لائی تھی۔‬ ‫کمائی کیا تھی وہ ہی دن بھر کا محنتانہ جو وہ ان پر خرچ کر‬ ‫دیتا تھا۔‬ ‫وہ سوچتا رہا کہ دنیا کوئی آرام دہ مقام نہیں ہے۔ باہر دنیا اور‬‫گھر میں اپنے لوگ زمین پر پاؤں نہیں آنے دیتے۔ کتنا بھی کچھ‬ ‫کر لو‘ خوش نہیں ہوتے۔ ایک اللہ ہی ہے جو معمولی سی‬ ‫اچھائی پر خوش ہو جاتا ہے۔ اس روز وہ بڑا ہی ڈس ہارٹ ہوا‬ ‫تھا۔ کچھ بھی کر لے‘ کتنی قسمیں کھا لے‘ گھر میں کوئی یقین‬‫کرنے والا نہیں تھا۔ اس کے سوچ کے حلقے گہرے ہوتے چلے‬ ‫گئے۔‬ ‫اسے یاد آیا شیداں نے کہا تھا کہ سدھر جاؤ۔ اس نے سوچا یہ‬ ‫سدھرنا کیا ہے۔ اللہ کی طرف پھرنا ہی تو اپنی حقیقت میں‬ ‫سدھرنا ہے۔ اس نے پہلی بار اللہ کو دل سے یاد کیا اور درود‬ ‫پاک پڑھنے لگا۔ ابھی آدھا بھی نہیں پڑھ پایا ہو گا کہ گہری اور‬ ‫پرسکون نیند نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔‬

‫‪46‬‬ ‫بےشک اللہ اور اس کے رسول کے ہاں ہی سکھ اور چین کی‬ ‫دنیا آباد ہے۔ اگر موت جو لمبی نیند ہے‘ میسر نہ ہوتی تو دنیا‬ ‫میں پاگلوں اور وحشیوں کے سوا کے سوا کچھ نہ ہوتا۔‬

‫‪47‬‬ ‫اچھا نہیں ہوتا‬ ‫ہاں میں موت‬ ‫ناں میں بہن کا گھر اجڑتا تھا‬ ‫برسوں کا بنا کھیل بگڑتا تھا‬ ‫چپ میں کب سکھ تھا‬ ‫چار سو بچھا دکھ تھا‬ ‫زندگی کیا تھی اک وبال تھا‬ ‫بھاگ نکلنے کو نہ کوئی رستہ بچا تھا‬ ‫پہیہ زندگی کا پٹڑی سے اتر رہا تھا‬ ‫زیست کا پاؤں بےبصر دلدل میں گر رہا تھا‬ ‫بےچارگی کا نیا دانت نکل رہا تھا‬ ‫بہنوئی کی آنکھوں میں سکوں کی ہریالی تھی‬ ‫آتی ہر گھڑی اس کے لیے کرماوالی تھی‬ ‫بہن کی آنکھ سے چپ کے آنسو گرتے‬ ‫ماں کی آنکھوں کے حسیں سپنے‬ ‫بےکسی کے قدموں میں بکھرتے‬

‫‪48‬‬ ‫کیا کرتا کدھر کو جاتا‬ ‫خود کو بچاتا‬ ‫کہ ماں کے آنسوؤں کے صدقے واری جاتا‬ ‫زہر کا پیالہ مرے رو بہ رو تھا‬ ‫تذبذب کی صلیب پہ لٹکا کے‬ ‫شنی اپنے کارے میں سفل ہوا‬ ‫پیتا تو یہ خود کشی ہوتی‬ ‫ٹھکراتا تو خود پرستی ہوتی‬ ‫پیچھے ہٹوں کہ آگے بڑھوں‬ ‫ہاں نہ کے پل پر‬ ‫بےکسی کی میت اٹھائے کھڑا تھا‬ ‫آگے پیچھے اندھیرا منہ پھاڑے‬ ‫فیصلے کی راہ دیکھ رہا تھا‬ ‫پھر میں آگے بڑھا اور زہر کا پیالہ اٹھا لیا‬ ‫خودکشی حرام سہی‬ ‫کیا کرتا‬

‫‪49‬‬ ‫بہن کی بےکسی‬ ‫ماں کے آنسو بےوقار کیوں کرتا‬ ‫ابلیس قہقے لگا رہا تھا‬ ‫نہ پیتا تب بھی اسی کی جیت تھی‬ ‫پھر بھی وہ قہقے لگاتا‬ ‫دوزخی بلا نے مرے گھر قدم رکھا‬ ‫گھر کا ہر ذرہ لرز لرز گیا‬ ‫میں بھی موت کے گھاٹ اتر گیا‬ ‫جسے تم دیکھ رہے ہو‬ ‫ہنستی بستی زندگی کا بےکفن لاشہ ہے‬ ‫پہلے دو ٹھکانے لگا آئی تھی‬ ‫لاشے کو کیوں ٹھکانے لگاتی‬ ‫لاشے کا ماس کھا چکی ہے‬ ‫ہڈیاں مگر باقی ہیں‬ ‫بہن لاشے کو دیکھ کر روتی ہے‬ ‫ہڈیاں مگر کیا تیاگ کریں‬

‫‪50‬‬ ‫آنسوؤں کے قدموں میں کیا دھریں‬ ‫کوئی اس کو جا کر بتائے‬ ‫لالسہ سرحدوں کی کب چیز ہے‬ ‫جہاں تم کھڑی ہو وہ تو فقط اس کی دہلیز ہے‬ ‫کوئی حادثہ ہی‬ ‫تمہیں خاوند کی لالسہ کے جہنم سے باہر لائے گا‬ ‫پھر تمہارا ہر آنسو پچھتاوے کی اگنی میں جلے گا‬ ‫تب تک‬ ‫ہڈیاں بھی یہ دوزخ کی رانی کھا چکی ہوگی‬ ‫راکھ ہو گی نہ کوئی رفتہ کی چنگاری‬ ‫ہو گی تو لالسہ کی آری‬ ‫دکھ کا دریا بہہ رہا ہو گا‬ ‫ہر لمحہ تمہیں کہہ رہا ہو گا‬ ‫حق کی بھی کبھی سوچ لیا کرو‬ ‫لقموں کا دم بھرنا اچھا نہیں ہوتا‬ ‫اچھا نہیں ہوتا‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook