انسانی مرضی کا عمل دخل ہی نہیں تواس پر اپنی صلاحیتوں کا استعمال ،نادانی نہیں ؟ حوادث کاڈٹ کر کیوں مقابلہ کیا جائے۔ اس حوالہ سے ،حساب کتاب اور جوابدہی کا عمل لا یعنی ٹھہرتاہے۔ میر صاحب تو مختاری کی خبر کو ’’ناحق تہمت ‘‘ کا نام دیتے ہیں چاہتے ہیں سو آپ ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختار ی کی )کریں ،ہم کو عبث بدنام کیا(١١ آنکھیں : آدمی اشیا ء کو آنکھوں سے دیکھتا ہے ۔ دیکھنے کے حوالہ سے اس کی رائے اور رویہ بنتاہے۔ ہر قسم کا عمل اور ردعمل دیکھنے سے تعلق رکھتاہے۔ آنکھوں کو بہت بڑی نعمت کا درجہ دیا جاتاہے۔ دیکھنا ،روشنی کے تابع ہے ۔ روشنی ،اشیاء کو واضح اور نمایا ں کرتی ہے ۔ انسان کے دماغ میں اعصابی سلسلے آنکھوں کے لئےزیادہ کام کرتے ہیں اور دماغ کے اعلی ترین دماغی رابطے اسے زیادہ ذہین بناتے ہیں۔ ()۱۲آنکھ کی معمولی کجی دماغ کے اعلی ترین رابطوں کی راہ کا پتھر بن جاتی ہے۔ جو عضو بدن اتنا اہم اورحساس ہو اس کی اہمیت وضرورت سے کیونکر انکار کیا جاسکتاہے۔ انسان اشیاء کو مکمل صاف اور واضح دیکھنے کا ہمیشہ سے متمنی رہا ہے اور یہ سب اس کے دماغ کی بنیادی ضرورت ہے۔ بصری کار گزاری کی بہتری کے لئے اس نے خوردبین اور دوربین ایجادکیں۔فیصلوں میں چشم دید شہادت کو لازمہ اورلوازمہ کی حیثیت حاصل رہیہے جسم کے کسی عضو کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ۔ وہ آسودگیاور حظ کے تمنائی رہتے ہیں لیکن ہر عضو دوسرے عضو پر انحصار کرتاہے۔ آسودگی اور حظ کے ضمن میں جسم کے تمام عضو’’آنکھوں
‘‘پر انحصار کرتے ہیں ۔ ان کے بغیر وہ اپنی کارگزاری میں (بڑی حدتک ) معذور رہتے ہیں۔ آنکھوں کی سیرابی ،آسودگی ،حظ اور استفادہ کسی دوسرے عضو پر منحصر نہیں ہوتا ۔ دوسرے اعضاء مفلوج ہوجائیں تو بھی ح ِس تمنا زوال کا شکار نہیں ہوتی رہنے دو ابھی ساغر گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تودم ہے )و مینا مرے آگے (غالبغالب کے اس شعر سے انداز ہ ہوتاہے کہ اشیاء کاتصرف ہی حظ فراہم نہیں کرتا بلکہ انہیں دیکھنے سے بھی تسکین اور آسودگی میسر آتی ہے۔ اردو غزل میں آنکھوں کا کردار نظر انداز نہیں ہوا کیونکہ یہ ہرہونے کا بنیادی محرک ہوتی ہیں ۔ ولی وکنی نے آنکھ کے لئے ’’نین ‘‘ کا لفظ بھی استعمال کیا ہے۔ اس کاکہنا ہے آنکھ کا حسن ،کائنات کے حسن کو متاثر کر تاہے تیری نین کوں دیکھ کے گلشن میں گل بدن نرگس ہو اہے شو ق )سوں بیمار الغیاث (١۳ ہاتف کے نزدیک آنکھوں کا حسن ،بناوٹ کے حوالہ سے گرویدہ بنا لیتا ہے انکھیاں تری اور زلف سے کافر ہوا ساراجہاں اسلام اور تقوی کہاں ) ،زہد اور مسلمانی کدھر(١۴ آفتاب کے نزدیک آنکھیں ،غصے یا پھر مہر نظر کے حوالہ سے تن من جلا کر رکھ دیتی ہیں
اس شمع روصنم سے ہے میری لگن لگائی تن من مرا جلایا ،ان )آنکھوں کا بر ا ہو(١۵ میر صاحب کے نزد یک آنکھوں کی پسند پر جسم کا کوئیعضواعتراض نہیں کرتا بلکہ آنکھوں کی پسند ،سر آنکھوں پر بیٹھاتا ہے تو وہ متاع ہے کہ پڑی جس کی تجھ پہ آنکھ وہ جی کو بیچ کر بھی )خریدار ہوگیا(١۶ آنکھوں کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ محبوب کی راہ دیکھتی ہیں ۔ محبوب کی آمد سے ،جسم کے ہر اعضا سے پہلے آگاہی پاتی ہیں۔ہجر کی صور ت میں پورے جسم کی نمائندگی کرتی ہیں ۔ میر محمود صابر کی زبانی ملاحظہ فرمائیں رہیں کل رات کی اب تک جو تجھ رہ میں کھلی اکھیاں انجھوں کے )جوش سوں گنگا ہو جمنا بہہ چلی اکھیاں(١٧ جہاں یہ فرارکی راہ اختیار کرتی ہیں وہاں غلط اور گنہگار ہونے کا ثبوت بھی بن جاتی ہیں ۔حمیدہ بائی نقاب کہتی ہیں وہ کیا منہ دکھائیں گے محشر میں مجھ کو جو آنکھیں ابھی سے )چرائے ہوئے ہیں(١۸ کسی معاملے یا واقع کا اثر سب سے پہلے آنکھوں پر ہوتاہے۔ اس ضمن میں غالب کا کہناہےبات کرتے کہ میں بجلی اک کوند گئی آنکھوں کے آگے تو کیا لب تشنہء تقریر بھی تھا
زندگی کے خاتمے کا اعلان ،آنکھیں کرتی ہیں۔ کہتے ہیں مندگئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غالب !یار لائے مری بالیں پہ اسے ،پر کسی وقت؟ آنکھیں ‘‘ اپنی ضرورت اور اہمیت کے حوالہ سے ’’جوبھی سہی مختلف انداز میں توجہ کا باعث بنتی ہیں۔ اسیر : لفظ اسیر گھٹن ،پابندی ،بے چینی اور بے بسی کے دروازے کھولتا ہے ۔ اس کے ہر استعمال میں پابندی اور گھٹن کے عناصر یکساں طور پرملتے ہیں ۔ اردو غزل میں بھی یہی حوالے سامنے آئے ہیں ۔ میر صاحب ’’جہان‘‘ کو تنگ قیدخانہ اور انسان کواس قید خانے کا اسیر قرار دیتے ہیں ۔ اس حوالہ سے انہوں نے زندگی کی گھٹن ،بے چینی ،پابندی اور لاچاری کو واضح کیاہے اور انسان جیتے جی ایک ہیجان میں مبتلاہے ) مرگیا جو اسی ِر قی ِدحیات تنگ نائے جہان سے نکلا(١۹قائم چاندپوری کے نزدیک عشرت کا نتیجہ اس ماحول کی اسیری کے :سوا کچھ نہیں یہ رن ِگ طائربو ،ہم اسیر ،اے صیاد وہ ہیں کہ جن کاگلوں بیچ )آشیانا تھا(٢٠ اسیری زلف گرہ گیری ہی کی کیوں نہ ہو آدمی دوسرے مشاغل سے کٹ جاتاہے ۔ زلف کی اسیری کچھ اور سوچنے نہیں دیتی ۔اس ضمن :میں غلام علی حیدر ی کا کہناہے
یہ دلی اسیر زلف گرہ گیرہی رہا مجنوں ہمارا بستہ زنجیر ہی )رہا(٢١اسیر ’’مرز الطیف علی بیگ سپند غم کی گرفت میں آنے والے کو بھی ‘‘ ہی کا نام دیتے ہیں۔ اسیری سے چار عناصر وابستہ ہیں ۔ ١۔ پابندی دیگر فیلڈز کے دروازے بندہوجاتے ہیں ٢۔ ایک معاملے کے سوا کچھ نہیں سوجھتا ۳۔ بے چینی اور اضطرار کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ۴۔ غم پر یہ چار وں عناصر پورے اترتے ہیں۔ گویاغم بھی اسیری کے :مترادف چیز ہے۔ سپند کاشعر ملاحظہ ہو ہے اسیر غم کہاں اور کوچہ ء قاتل کہاں یہ معلوم نہیں دلی جاکر ہوا )گھائل کہاں (٢٢اسیری بلاشبہ بڑی خوفناک بلا ہے۔ یہ نہ صرف محدود کرتی ہے بلکہ غلامی مسلط کر دیتی ہے۔ شخصیت کے لئے گھن بن جاتی ہے۔ شخصیت کاتنزل یا جمود ،فکری حوالوں کو کمزور کر دیتاہے۔ فکری معذوری ترقی اور انسانی اقدار کی موت بن جاتی ہے۔ اسیری ،راہزن :کے ’’ پانوء دابنے ‘‘ پر مجبور کر دیتی ہے۔ غالب کا کہنا ہے بھاگے تھے ہم بہت سواسی کی سزا ہے یہ ہوکر اسیر دابتے ہیں راہزن کے پانوء انسان:
آدم کی نسل سے متعلق ہر آدمی کوانسان کہاجاتاہے ۔انسان اور آدمیمیں بنیادی فرق یہ کہ آدمی کا شریف النفس ہونا ،مرتبہء کما ِل انسانیت پر پہنچاتاہے اور ِاسی حوالہ سے وہ ’’انسان ‘‘کہلانے کا مستحق ٹھہرتاہے ۔ انسان ،نسیان یا انس سے مشتق ہے جبکہ یہ دونوں مادے اس کے خمیر میں پائے جاتے ہیں۔ جب وہ انس کانمونہ بن کرسامنے آتاہے توا سے انسان کے نام سے پکار اجاتاہے۔ بصور ت دیگر اسے آدمی کہنا ہی مناسب ہوتاہے۔ انسا ن کے مرتبے پر فائز ہونا بلا شبہ بڑاکٹھن گزار ہوتاہے۔ اردو غزل کے شعرا کے ہاں لفظ’’:انسان ‘‘ بکثرت اور بہت سے حوالوں کے ساتھ استعمال میں آیاہےمیاں محمدی مائل نے ’’انسان‘‘ کے فانی ہونے کے حوالہ سے کہاہے :کہ انسان کی زندگی کی معیادہی کہاہے ۔ دم آیا آیا نہ آیا نہ آیا بار کیالگتا ہے انسان کے کچھ تعجب نہیں گر مرگیا مائل تیر ا )مرجانے کو (٢۳ :امجد کے نزدیک خدا کی ذات انسان میں ملتی ہے سنتاتھا جسے کعبہ وبت خانہ میں آخر امجد میں اسے حضر ِت انسان )میں دیکھا(٢۴ خواجہ درد کا موقف ہے کہ خدا کے سب جلوے حضرت انسان میں :ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں جلوہ توہر اک طرح کاہرشان میں دیکھا جوکچھ کہ سنا تجھ میں سو )انسان میں دیکھا(٢۵ ایک دوسری جگہ پر انسان کے خلق کرنے کا مقصددردمندی بتاتے
ہیںدر ِددلی کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ )تھے ک ّروبیاں (٢۶ میر جگنو ارزاں کے مطابق انسان کے وجود خاکی میں ایک کائنات پنہاں ہے تام غوروفکر کی ضرورت ہے زمین وآسماں اور مہر ومہ سب تجھ میں ہیں انساں )نظر بھر دیکھ مش ِت خاک میں کیاکیا جھمکتا ہے (٢٧ مصطفے علی خان یکرنگ کا کہنا ہے کہ اس حسین پیکر والے کومحض انسان ہی نہ سمجھ ،یہ اپنی ذات میں کیا ہے ،کھوج کرنے کی ضرورت ہے اس پری پیکر کو مت انسان بوجھ شک میں کیوں پڑتا ہے اے دلی )جان بوجھ (٢۸حافظ عبدالواہاب سچل کے نزدیک انسان کائنات کا دلداد بننے کے لئے وجود میں آیا ہے۔ انسان حضرت باری کا گویا تمثالی اظہار ہے برائے خواہ ِش الفت ہوا اظہار وہ بے چوں اسی دنیا میں وہ دلدار بن )انسان آیاہے(٢۹ غالب انسان کو کوئی فوق الفطرت وجود نہیں سمجھتے ۔ ان کے نزدیک یہ مختلف حالتوں اور کیفیتوں سے دوچار ہوتاہے۔اس پر گھبراہٹ بھی طاری ہوتی ہے کیوں گرد ِش مدام سے گھبرانہ جائے دلی انسان ہوں پیالہ وساغر
نہیں ہوں میںانسان کوئی شے نہیں بلکہ محسوس کرنے والی مخلوق ہے۔ حالات کی گرمی سردی اس پر اثر انداز ہوتی ہے۔ تاہم پہم ایک سے حالات سے بھی ہوجاتاہے اور پھر حالات کے طلاطم کو معمول ) (Adjuestخوگرسمجھ کر زندگی گزار دیتاہے۔ غالب کے نزدیک آدمی سے انسان بننے تک ،آدمی کو نہایت کھٹن گزار مراحل سے گزرنا پڑتاہے بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا انسان بننا دشوار سہی ،امکان سے باہر نہیں ۔ اردو غزل کے شعر انے انسان سے متعلق جو نقشہ پیش کیا ہے وہ بڑا دلکش اور پرکشش ہے۔ آدمی کے اندر انسان بننے کی خواہش ابھرتی ہے لیکن جب یہشدت اختیار کرتی ہے تو اعتبار میں اضافہ ہوتاچلا جاتاہے۔ اعتبار جب معتبر ہوجاتاہے تو انسان اپنے خالق سے جاملتاہے ۔ گویا اعتبار، انسان کو آدمیوں میں محترم ٹھہراتاہے۔ اک شخص:اک‘‘ کا ’’لفظ ’’شخص‘‘ کے حوالہ سے کوئی رویہ سامنے نہیں آتا ۔سابقہ اسے عمومی سے خصوصی کا درجہ عطا کرتاہے۔ وہ شخص کون ہے ،ظاہر نہیں ہوتا لیکن اس کی کارگزاری اسے محترم اور منفر د اک ‘‘ سے متعلق سیا ق وسباق اس کے کر دار کو ’’کر دیتی ہے۔ واضح کرتے ہیں ۔غالب کا ’’اک شخص ‘‘ کردار ی حوالہ سے بڑا اہم ہے۔ اس کے نہ ہونے سے زندگی غیر متحرک ہوجاتی ہے۔ وہ تھاتو خیالات میں جولانی تھی رعنائی تھی
تھی وہ ’’ اک شخص ‘‘ کے تصور سے اب وہ رعنائ ِی خیال کہاں اردو شاعری میں شخص کی تخصیص کے لئے مختلف نوح کے سابقے لاحقے استعمال میں آئے ہیں۔ ان سابقوں اور لاحقوں کے حوالہ سے ان کے کردار کی نوعیت سامنے آتی ہے ساحل تمام اش ِک ندامت سے اٹ گیا دریاسے ’’کوئی شخص‘‘ تو پیاسا پلٹ گیا( )۳٠شکیبیہ ’’کوئی شخص ‘‘ دریا پر آکر بھی پیاسا رہا ۔ دریا سے کچھ میسر نہ آنا یقیناادریاکی توہین ہے۔ دریا دوہرے کر ب کا شکار ہے الف ۔ کوئی اس کے پاس آکر مایوس رہا !ب ۔ پیاسا ہی رہے گا؟ اس طرح دریا کے ہونے کا جواز ہی باقی نہیں رہا۔ اس کا ہونا نہ ہونا ایک ہی بات ہے۔دونوں حوالوں سے دریا کے وجود پر گہری چوٹ پڑتی ہے۔ آخر کو’’وہی شخص‘‘ بنادشم ِن جاں وہ شخص جو سرمایہ ء جان تھا پہلے( )۳١قمر ساحری وہ شخص ‘‘اس امر کو واضح کر تاہے کہ حالات ایک سے نہیں ’’ رہتے ۔ دوستی دشمنی میں اور دشمنی دوستی میں تبدیل ہوسکتی ہےاور یہ کسی وقت بھی ہوسکتا ہے ۔ اس کے لئے کسی بڑی اور معقول وجہ کا ہونا ضروری نہیں۔ گہری دوستی کسی فریق کے حوالہ سے
استوار ہوئی۔ یہ دوستی پھلی ،پھولی ،مفاد پور ا ہونے کے بعد دم توڑ گئی ۔ ایسے میں فری ِق ثانی کا غصہ ،ملال یا پھر شدید رد عمل لایعنی اور غیر فطری نہ ہوگا۔ بامعنی ،بے معنی ہو کر رہ گیا جو حال ہے بستی کا تمہارے ہاتھوں ہر شخص کے چہرے پہ نظر آوے ہے( )۳٢قمر ساحریہر شخص ،کسی کی درندگی اور ظلم و استبداد کا گواہ ہے کیونکہ وہ خودظلم و درندگی کا شکار ہے ۔ اسے اپنے بارے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے چہرے پر کسی فرعون کی فرعونیت جلی حروف میں رقم ہے۔ باغبان: ارد وغزل میں ’’باغبان‘‘ کا کردار ،علامتی اور غیر علامتی حوالوں سے معروف چلا آتاہے ۔ تزئین وآرائش ،حفاظت و نگہانی اور آباد کاری کے حوالہ سے ،اس کردار پر توجہ رہتی ہے۔ اس کردار کی دانستہ یا نادانستہ غفلت شعاری سے ناقاب ِل تلافی نقصان کا احتمالہوتاہے ۔ اس کردار کی محتاط روی ،توجہ ،محنت و کاوش اور اپنےمنصب سے لگن کے سبب بانح پھل پھول سکتاہے۔ اس لفظ کے حوالہسے ایک بڑاہی ذمہ دار کر دار ذہن کے کینوس پر ابھر تاہے ۔ اس کیہر حرکت توجہ کا مرکز رہتی ہے کیونکہ ا س کی کارگزاری کے ساتھفناوبقا کا معاملہ جڑا ہوتاہے ۔ اردو غزل سے چند مثالیں ملاحظہ ہوں ارے بلبل کسے پر باندھتی ہے آشیاں اپنا نہ گل اپنا ،نہ باغ اپنا ،نہ لط ِف باغباں اپنا ()۳۳
میاں محمد سرفراز عباسیمیاں محمد سرفراز عباسی(متوفی ۱۱۹۱ھ) کا یہ شعر عجب مخمصےکا سبب بنتاہے ۔باغبان کی عنایت ہر جانبداری سے بالا ہوتی ہے لیکنشعر میں کہا گیا ہے کہ باغبان کا لطف میسر ہی نہیں ۔ اس میں متعلق سے انحراف آگیا ہے ۔ جب باغبان توجہ کھینچ لے توخیر کی توقع حماقت کے سوا کچھ نہیں ۔ دوسری طر ف یہ معاملہ بھی سامنےآتاہے کہ دنیا کے نمبر دار غیر ہوگئے ہیں اور اپنوں ہی سے منہ پھیر ے بیٹھے ہیں ۔ اس لئے اپنے ہی دیس میں غربت سے دوچار ہوں توٹھکانہ بنانے کا سوال لایعنی ٹھہرتاہے۔باغبان تواپنے باغ کی پتی پتی ،بوٹے بوٹے سے پیار کرتاہے۔ باغبان سراپا لطف وعنایت ہو کر بھی بانٹ میں ڈنڈی مارتاہے ۔بعض کو یکسر نظر انداز کرتاہے اور کچھ کو جو باغ کے لئے با معنی ہیں جڑسے نکال باہرکرتاہے۔مرزا مظہر جا ِن جاناں کے ہاں بھی کچھ اسی قسم کا مضمون ملتا ہےیہ حسرت رہ گئی کیا کیا مزے سے زندگی کرتے اگر ہوتا چمن اپنا ،گل اپنا باغ باں اپنا()۳۴مظہر اپنا کوکلی جانبداری کے معنوں میں بھی لیا جاسکتا ہے ۔ کلی جانبداریکی توقع ہوتی ہے تاہم اس )(Demeirtکے سبب غیر مستحق جانبداری کے یہ معنی بھی نہیں بنتے کہ وہ جانتا ہی نہیں ۔ انسان کی خواہشہوتی ہے کہ بانٹ بلاشراکت غیر ے اسی کے حصہ میں آئے ۔ وہ چاہتاہے آقا کا لطف اسی سے مخصوص رہے ۔ آتش کو بھی شکوہ ہے کہ باغبان کی نوازشیں متوازن نہیں ہیں۔ وہ انصاف پرور نہیں ۔
باغبان انصاف پر بلبل سے آیا چاہیے پہنچی اس کو زرگل کی پہنچایا چاہیے ()۳۵آتش غالب کے ہاں باغبان بطور تشبیہ استعمال میں آیا ہے ۔ باغبان کے دامن میں کیا کچھ نہیں ہوتا لیکن وہ مخصوص موقعوں پر دامنکھولتاہے ۔ موقع گزر جانے کے بعد اس کا دام ِن عنایت بند ہوجاتاہے ۔ گویا باغبان ہمہ وقت کا دیا لو نہیں ہے ۔ ان حقائق کی روشنی میں باغبان سے وابستہ توقعات باطل ٹھہرتی ہیں ۔ لہذا اس سے توقعات وابستہ کرنا فع ِل لاحاصل سے زیادہ نہیں ۔ وہ نہ صر ف بخیل سے بلکہ جانبد ار اور گرہ کا پکا ہے۔ یا شب کو دیکھتے تھے کہ ہر گوشہء بساط داما ِن باغبان وک ِف گل فروش ہے باغبان اپنے پھولوں کی بولی چڑھا رہاہے اس سے زیادہ اندھیر کیا ہوگا۔ بت: انسانی معاشرتوں میں بت پرستی عام اور عروج پر رہی ہے ۔ بتوں سے بہت ساری شکتیاں منسوب رہی ہیں ۔انسان دوستوں کی انسان دوستی سے متاثر ہو کر ان کے بت بنا کر پوجا کی جاتی رہی ہے۔ انہیں طاقت کا سرچشمہ سمجھا گیا ہے ۔ کھدائیوں میں مختلف اقوام کے بنائے گئے بت ملے ہیں ۔جس سے بتوں کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ شکتی کے باعث ’’بت‘‘ معاشروں کے حقیقی اقتدار اعلی سمجھے گئے ہیں۔ بت ،موحد کے لئے کراہت جبکہ بت پرستوں کے
دلوں میں احترام کے احساس پیدا کرتے ہیں۔ اردوغزل میں لفظ’’بت‘‘ کا زیادہ تر محبوب کے معنوں میں استعمال ہواہے۔ انشا نے بت کو ایسا خوبصور ت محبوب جو دلی میں دوئی بن کر براجمان ہوجائے ،کے حوالہ سے نظم کیا ہے جادو ہے نگہ چھب ہے غضب قہر ہے مکھڑا اور قدہے قیامت اللہ کی قدرت ()۳۶انشا غارت گردیں ہے وہ بت کافر ہے سراپا بت کے ساتھ ’’کافر‘‘ پیوند کرکے اس کی کارگزاری (غارتگردیں) واضح کر دی گئی ہے۔ محمد شاکر ناجی ؔ کے ہاں ،وہ جو اپنے وصف کے سبب اچھا لگے ،اس کے متعلق باتیں سننا خوش آتا ہوگویا دلی ودماغ میں گھر کرے اور یاد مسلسل بن جائے ،کے معنوں میں استعمال کیا گیاہے۔ اے صبا کہہ بہار کی باتیں اس بت گلعذار کی باتیں ()۳٧ناجیجرات نے بت کو فلرٹ کرنے والا’’چالو‘‘ اورعیار کے طور پر استعمال کیا ہے کیا بات کوئی اس بت عیار کی سمجھے بولے ہے جو ہم سے تو اشارت کہیں اور( )۳۸جراتغالب نے ایسا محبوب جس سے پوجا کی حدتک محبت کی جائے ،کے معنوں میں لیاہے چھوڑوں گا میں نہ اس ب ِت کافر کا پوجنا چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافر کہے بغیر
ایک دوسری جگہ ،اس کی محبت کو ،ایمان کا درجہ دے رہے ہیں کیونکر اس بات سے رکھوں جان عزیز کیا نہیں ہے مجھے ایمان عزیز ایک شعر میں طنزکا نشانہ بناتے ہیں تم بت ہو پھر تمہیں پندا ِر خدائی کیوں ہے تم خداوند ہی کہلاؤ خدااور سہی درج بالا مثالوں میں بت کے ساتھ لف ِظ تخصیص بھی نظم ہواہے انشا ،غالب ب ِت کافر ب ِت گلعذار ناجی ب ِت عیار جرات اس بت غالب تم بت غالب ان سابقوں اور لاحقوں کی مدد سے بت پہچان سے باہر نہیں رہتا۔ایسے ہی جیسے لات و منات ،شیو ،وشنویا برہما ،شتی کی مورتیاں ۔ یہ بت سونے چاندی اور پھولوں سے لدھے رہتے ہیں ۔ محبوب بھی بناؤ سنگار سے غافل نہیں ہوتے۔ برہمن : برہمن کو بتکدے (مندر) کی حرمت اور احترام کا امین سمجھا جاتارہاہے ۔ اس کی وجہ سے ہندودانش کے تمام حوالے ہندوسماجمیں پھلے پھولے ہیں۔ اسے ہند ودھرم کا رکھوالا اور پرچا رک سمجھا
جاتا رہاہے۔ ہندوگیان دھیان سے متعلق اس نے دوسروں سے زیادہ علم اور ویدان حاصل کیا ہوتاہے۔ دوسراوہ اونچی ذات سے متعلق ہوتاہے اس لئے ہند و سماج میں محترم رہاہے ۔ اسے ’’برہمن دیوتا‘‘ بھی کہا جاتارہاہے ۔ برہمن اپنے موقف میں ضدی ،اڑیل اور ہٹھیلسمجھا جاتاہے ۔ لفظ برہمن جب ذہن کے پردوں سے ٹکراتاہے تو ہندو دھرم سے متعلق لوگوں کے روم روم میں پرنام کے چشمے ابلنے لگتے ہیں ۔ لفظ برہمن اردو شاعری میں مختلف حوالوں سے نمودار ہوا ہے مومن نے فدا ہوجانے والا ،اڑ جانے والا ،تل جانے والا ،دیوانہ وغیرہ کے معنوں میں استعمال کیاہے۔ بن ترے اے شعلہ روآتشکدہ تن ہوگیا شمع قدپر میرے پروانہ برہمن ہوگیا()۳۹مومن یقین ناکامی پر سٹپٹانے والا کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ برہمن سر کو پیٹتا تھا دیر کے آگے خداجانے تری صورت سے بتخانے پر کیا گزرا ()۴٠یقینمحمد عظیم الدین عظیم فنا ہوکر وصل کا طالب ،جس کا جذب و خلوص اور استقلال متاثرکرے ،وہ جسے ہرکوئی دلی دے بیٹھے ،ایسا محبوب جو بہت سوؤں کا عشق اپنے سینے میں مخفی رکھنے والاوغیرہ معنوں میں استعمال کیاہے برہمن جس کے دلی میں آرزو ہے مرکے درسن کی )مجھے ہے آرزو ہر وقت درسن اس برہمن کی (۴۱
عظیم اس حس ِن عشق آمیز نے مجھ دلی کوں گھیراہے )برہمن ہر کاعشق ہے ،میں عاشق ہوں برہمن کا (۴٢ غالب نے ستاروں کا حساب کرکے مستقبل کی پیش گوئی کرنے ولا اور دھرم سے وفادار ی کرنے والا کے معنوں میں نظم کیاہےاک برہمن نے کہا یہ دیکھئیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض سال اچھا ہے وفاداری بشر ِط استواری اصل ایماں ہے مرے بت خانے میں توکعبے میں گاڑو برہمن کو بسمل: بسمل جان قربان کرنے کے حوالہ سے اپنا جواب نہیں رکھتا ۔ وفاداری او ر استواری اس کردار کاخصوصی وصف سمجھا جاتاہے۔ میدان میں اترنے والے کے ہاں زندہ رہنے کی امید ہوتی ہے لیکن بسمل کو تڑپ تڑپ کر کشتہ ہونے کا یقین ہوتاہے۔ وہ اس کو ہی اپنی کامیاب او رمنزل سمجھتا ہے۔ اِسی حوالہ سے وہ ’’بسمل‘‘ کے لقب سے ملقوب ہوتاہے۔ جلتے ہوئے تڑپنا معشوق کو تسکین دیتاہے ۔اسے اس کے عاش ِق صادق ہونے کا یقین ہوجاتاہے تاہم دوسری طرفاذیت پسندی کے الزام سے بھی بری نہیں ہو پاتا ۔ اذیت پسندی پیمانے متوازن نہیں رہنے دیتی ۔ بسمل کے حوالہ سے تین طرح کے رویے ابھرتے ہیں الف ۔ حیرت انگیز وفاداری اور استواری ب۔ وفاداری کے یقین کے لئے اتنی کھٹن آزمائش کہ عاشق جان سے
جائے عشق کی یقین دہانی کے لئے جان پر کھیل جانا سراسر حماقت ج۔ اور نادانی ہے بسمل ‘‘ کو جان دینے اورمعشوق کو آزمانے میں ’’جوبھی سہی آسودگی حاصل ہوتی ہے اردو شاعری میں یہ کردار پوری آب وتاب سے زندہ نظر آتاہے ۔کرم دادخاں درد کاکہنا ہے ۔ محبوب کے آستانے کا احترام ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بسمل کے لئے لازم ہے کہ وہ تڑپے لیکن محبوب کےآستانے کی خا ک پر با ل وپر نہ لگنے پائیں۔محبوب ،عاشق صادق کیتڑپت کانظارہ کرے۔ ساتھ میں اس کے آستانے کی خاک کسی کے خون سے آلودہ نہ ہو یعنی اس خاک پر خون ہونے کا الزام بھی نہ آنے پائے ۔ ادب ضرورہے اس خاک آستانے کا تڑپھ تو اس طرح بسمل کہ بال وپر نہ لگے()۴۳درد خواجہ درد کا موقف ہے کشتے کا کچارہ جانا اور کشتہ کا ر کااس سے غافل ہوجانا درست نہیں کشتہ۔ میں خامی نہ رہناہی کشتہ کارکاکمال ہے۔ نیم بسمل کوئی کسوکو چھوڑ اس طرح بیٹھتا ہے غافل ہو()۴۴درد مہ لقابائی چندا نے نکتہ نکالا ہے۔ قدموں پہ سر تھا کوئی روبروئے تیغ ابھی تڑپ سے رہا بسملوں کا جی ( )۴۵چندا
غالب کے نزدیک بسمل کو اذیت لطف دیتی ہے لہذا جس قدر ممکن ہے اسد اذیت (مشق ناز) دو ۔ متقولین کاخون میں اپنی گردن پر لیتا ہوں کہ مش ِق ناز کر خو ِن بسمل ہے کس انداز کا قاتل سے کہتاہے دوعالم میری گردن پریہ کردار وفا شعاری ،استقامت ،استواری اور معاملے سے کمٹ منٹ کا لاجواب نمونہ پیش کرتاہے۔ بشر: بندہ بشر‘‘ عام بولا جانے والامحاورہ ہے۔ اس محاورے میں لغزش ’’ آدم کا واضح طور پر اشارہ موجود ہے۔ گویا بشر سے غلطی کوتاہی ناممکنات میں نہیں۔ وہ انسانیت کے کسی بھی درجے پر فائز ہوجائے اس سے چوک ہوہی جاتی ہے ۔ لفظ بشر ایسے کردار کو سامنے لاتاہے جو ضدین کا مجموعہ ہے۔ اس کی کسی لغزش یاکسی کارنامے پرحیرت نہیں ہونی چاہیے ۔ اچھائی ،برائی دونوں عناصر اس کی فطرت کاحصہ ہیں۔ بشری کوتاہیوں ‘‘ کا ریکارڈ تاریخ اور ’’محتاط اور بڑے لوگوں کی آسمانی کتابوں میں موجودہے ۔ اردو غزل میں لفظ ’’بشر‘‘مختلف حوالوں سے پینٹ ہواہے۔ حافظ عبدالوہاب سچل کاکہناہے بشر کے ظاہر کو دیکھ کر کوئی اندازہ لگا لینا مناسب نہیں ۔ بشر کے باطن میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ وہ اپنے باطن میں کیا کمال کے خزینے چھپائے بیٹھا ہے صور ت بشر کی ہے مری ،ظاہر گد اگر ہوں بنا
باطن کی پہچانے مرے ، )سلطان ہوں ،سلطان ہوں (۴۶ علامہ حالی کے نزدیک بشر اگر کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دیتا تو اس کی حیثیت صفر زیادہ نہیں ۔ بشر سے کچھ ہوسکے نہ ایسے جینے سے کیا فائدہ ہمیشہ بیکار تجھ کو پایا ،کبھی نہ سرگرم کاردیکھا ()۴٧حالی غالب بشر سے ’’بندہ بشر‘‘ ہی مراد لے رہے ہیں ۔ دیا ہے دلی اگر اس کو ،بشر ہے،کیا کہیے ہو ا رقیب توہو ،نامہ برہے ،کیاکہیے بشر کوئی فوق الفطر ت مخلوق نہیں جواس سے صرف خیر کی توقعرکھی جائے ۔ اس سے خیانت اور بددیانتی ،کوئی حیرت کی بات نہیں۔ بلبل ایران کا خوش گلو پرندہ ہے ۔فارسی اور اردو شعرا نے بلبل:اس لفظ کو مختلف مفاہیم میں استعمال کیا ہے ۔ علامتی اور استعاراتی استعمال بھی پڑھنے کو ملتا ہے ۔ اس لفظ کے استعمالات کی نوعیت کے مطابق ،مختلف قسم کے سماجی ،معاشرتی اور سیاسی حوالے ذہن میں ابھرآتے ہیں۔تاہم خوش الحانی اس کردار کا بنیادی وصف رہاہے ۔ درد سوز وگداز اور نوحہ گری کی مختلف صورتیں بھی سامنے آتی ہیں ۔ ارد وغزل مینیہ کردار مختلف حوالوں سے بڑا متحرک رہاہے۔مثلاا
مظہر جان جاناں کے ہاں عشق میں محبوب کے ہاتھوں سب کچھ لٹا دینے والا کے طور پر نمودار ہواہے گئی آخر جلا کر گل کے ہاتھوں آشیاں اپنا نہ چھوڑا ہائے بلبل نے چمن میں کچھ نشاں اپنا()۴۸مظہر بہادر مرزاخرد کے مطابق محبوب جب آزادی چھین لینے کی تمنا کرتاہے تویہ اس کی تمناکی تکمیل کے لئے از خود پابہ زنجیر ہوجاتاہے بلبل کو پر لگادئیے دلی اڑا کے پہنچا ،جب ہو ااس گل کوشو ِق صید شو ِق شکارنے ()۴۹خرد خواجہ برہان الدین آثمی ؔ نے بلبل کے ذریعے اپنے عہدے کےپرگھٹن حالات اور شخص کی بے اختیاری کو واضح کیاہے۔ بے اختیار اور آزادی سے محروم چہرے پر مسکراہٹ حرام ہوجاتی ہے لیکن وہروبھی نہیں سکتا ۔ اس کی حیثیت کسی کل پرزے سے زیادہ نہیں ہوتی جہاں میں آنکھ جو میں وہ بلبل ہوں کہ صیاد کے گھر بیچ پیدا ہوا کھولی قفس میں آشیاں دیکھا()۵٠آثمیمیر باقر حزیں کے مطابق خوبصور ت حالات میسر ہوں تو نقل مکانیکی کو ن سوچتا ہے تاہم غاصب کے جبر کے زیر اثر سب کچھ چھوڑنا پڑتاہے ۔ حزیں نے ’’بلبل ‘‘ کے حوالہ سے حالات کی ناخوشگواری واضح کی ہے۔ یہ کہہ کے باغ سے رخصت ہوئی بلبل کہ یاقسمت
لکھا تھا یوں کہ فص ِل گل میں چھوڑیں آشیاں اپنا()۵١حردیںغالب کے ہاں یہ کردار بطور نوحہ گر استعمال ہواہے ۔ انسانی فطرت ، مختلف حالات میں مختلف رویے اختیار کرتی ہے۔ دکھ یا ڈپریشن کی صور ت میں حالات اور ماحول کی تبدیلی اسے ریلیف مہیا کرتیہے۔جب نوحہ گر ساتھ میں ہوگا تووہ ناخوشگواری کوکیونکر بھولنے دے گا ۔ہمہ وقت کا رونا دھونا نہ صر ف زندگی کا لطف چھین لیتاہے بلکہ کچھ کر گزرنے کی حس کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچتاہے۔ دیکھئیے غالب اس باب میں کیا کہتے ہیں مجھ کو ارزانی رہے تجھ کو مبارک ہوجیو نالہ ء بلبل کا درد اور خندہ گل کا نمکبلبل گویا ایسا کردار ہے جو مسلسل مایوسی اور پریشانی پھیلاتا ہے ۔ اس کے نالے شخص کے درد کو تازہ رکھتے ہیں۔ بلبل کا متراد ف عندلیب اردو غزل میں استعما ل ہوتاآیاہے ۔ یکر نگاس کردار کے حوالہ سے نکتہ نکالتے ہیں کہ عندلیب کی شایستہ اور کومل آواز اور اس کی آہ وفغاں چار سو پھیل کر توجہ حاصل کر لیتی ہے۔ توجہ پھر جانے کے سبب افسردگی کا عالم طاری ہوجاتاہے کم نہیں کچھ بوئے گل سیتی فغان عندلیب بر ِگ گل سے ھیگی نازک ترزبا ِن عندلیب ()۵٢یکرنگ غالب کے ہاں اس کردار کی کار فرمائی اور ہی رنگ کی حامل ہے ۔ شادی میں نوحہ گری کی موجودگی بھلا کس کو خوش آتی ہے اے عندلیب یک کف خس بہر آشیاں طوفان آمدآمد فصل بہارہے
آم ِد فصل بہار میں نوحہ گر کو ’’آشیاں ‘‘ چھوڑنے کا مشورہ دینا ہی صائب لگتاہے کہ خواہ مخواہ رنگ میں بھنگ ڈالے گا۔ بیمار: یہ تے (طے) سی بات ہے کہ بیمار کے شب و روز ناگواری ، پریشانی اور وسوسوں کا شکاررہتے ہیں ۔یہی نہیں بیماری اس کےاعصاب چٹ کر جاتی ہے اور اس کے سوچ کو منفی حوالوں کے ساتھ جوڑے رکھتی ہے۔ بیمار ،تکلیف ،کمزوری اور سوچ کے منفیزوایوں کے سبب زندگی کے کسی میدان میں کوئی کردار اداکرنے سے لفظ بیمار‘‘ سنتے ہی ایک ایسے شخص کا تصور ’’قاصر رہتاہے۔ سامنے آجاتاہے۔ جوہمدردی کا مستحق ہوتاہے لیکن اس کی ہر وقت کی مایوسی اور ہائے وائے دماغ پر بوجھ سابن جاتی ہے۔ اردو غزلمیں یہ کردار نظر انداز نہیں ہوا۔ بیما ِر عشق کے علاوہ بیماروں کا ذکر بھی ملتاہے۔ مرزاسودا کا کہنا ہے عارضے میں مبتلا شخص کا عجب حال ہو جاتاہے ۔ ہجر کا عارضہ سوچ کو جامد کرکے رکھ دیتاہے۔ ہجر کی بیماری انسان کو اندر سے کھائے چلی جاتی ہے میں تو دیکھا نہیں ایسا تیری دوری سے عجب حال ہے اب سودا کا کوئی بیمار ہنور ()۵۳سودا ہوس‘‘ بڑھ جاتی ہے۔ ’’میاں محمدی مائل کا خیال ہے کہ بیماری کی اگرچہ ہوس بھی ذہنی عارضہ ہے ۔ مشہور ہے جہاں میں کیا کہوں میں تجھ سے دلی زار کی ہوس بیمارکی ہوس ( )۵۴مائل
لالہ نول رائے وفا کے نزدیک بیمار کی بیماری سے اندازہ ہوجاتاہے کہ وہ زیادہ دیر کا نہیں کہنے لگا وہ من کے مرا نالہ وفغاں یا ر ب جیا کرئے گا یہ بیمار کب تلک ( )۵۵وفامیر محمدی قربان کے نزدیک ’’نگہ کا بیمار‘‘ مسیحا کی دسترس سےباہر ہوتاہے۔ کوئی معالجہ (سمجھانابجھانا) اس پر کارگر ثابت نہیں ہوتا بلکہ نیتجہ الٹ ہی نکلتاہے ۔ نگا ِہ الفت کہ نگا ِہ قہر کا ڈسالاعلاج ہوتاہے کسی کی برگشتہ کا ہوں میں بیمار یاں مسیحا کی ہوئی جاتی ہے تدیبر الٹی ()۵۶قربان جہاں دار کا بھی یہی نظریہ ہے تیرے بیمار اب کے تےءں جو دیکھا مسیحا کی نہیں کرتی دوا خوب ( )۵٧جہاں دار محبت خاں محبت کے خیال میں بیما ِر عشق کا جینا مرنا برابر ہوتاہے ۔وہ عمرانی حوالہ سے بیکا ِر محض ہوتاہے۔ بالفرض جیا بھی تو جس کو تیری آنکھوں سے سر وکار رہے گا وہ بیمار رہے گا ()۵۸محبت غالب نے عاشق کے ساتھ ’’بیمار‘‘کا پیوند کرکے عشق کو بیماری قرار دیا ہے۔ان کے نزدیک یہ بیماری جان لے کر دم لیتی ہے مندگئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں ہے ہے خو ب وقت آئے تم اس عاشق بیمار کے پاس
بیمار کا مترادف لفظ’’ مریض‘‘ بھی اردو غزل میں اپنی الگ سے پہچان رکھتاہے۔ یہاں بھی عاشق ہی مریض سے ملقوب نظر آتاہے میر صاحب کے نزدیک مر ِض عشق جان لے کر چھوڑتا ہے۔ عشق گویا ایک نفسیاتی عارضہ ہے جس کی شدت سے جان بھی جاسکتی ہے۔ جینے کا اس مریض کے مت کر عجب جو میر ترے غم میں مرگیا کوئی بھی ڈھنگ تھا؟ ( )۵۹میر قائم کے خیال میں مری ِض عشق کا مرجاناہی اچھا ہے ۔ اس کا ہردم وبال ہوتاہے۔ وبال(اذیت) کا جینا بھی کیا جینا ہے۔ اس سے مرجان ہی بہتر ہوتاہے جو دم تھا زندگی کا سو اس پر چھوٹا ترا مریض اگر مرگیا کہ شوخ وبال تھا( )۶٠قائم میاں جگنو کے نزدیک ،مریض عشق ،عارضہ عشق میں رہے تو اچھا ہے ۔ اس کا بہتر ہونا دوسروں کو بیمار کر دیتاہے۔ وہ قصہء عشق سنا سنا کر اوروں کو ہلکان کردے گا۔ ایسے مریض عشق کو آزار ہی بھلا اچھا کبھی نہ ہووے یہ بیمار ہی )بھلا (۶١ غالب کہتے ہیں مری ِض عشق کی حالت دیکھنے والا ،مریض کی مرض سے زیادہ واقف ہوتاہے۔ اگر کوئی معالج ،تیمادار کے کو نظر انداز کرکے دعوی باندھے کہ یہ اچھا ہوجائے Coments گا اور اگر وہ اچھا نہ ہوتو مسیحا کو سزا(جرمانہ) دی جائے ۔ ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ جب تک مر ِض عشق کو ہوا دینے والے
باقی رہیں گے کسی کی مسیحائی کا م نہ آسکے گی لوہم مری ِض عشق کے تیمادار ہیں اچھااگرنہ ہوتو مسیحا کاکیا علاج اس لفظ کا علامتی اور استعارتی استعمال ہوتاآیا ہے ۔ پروانہ: پروانہ ،ایثار ،قربانی اور متا کی علامت ہے۔ اسے ہر حال میں قربان ہونا ہوتاہے۔ اردو غزل میں یہ کردار بڑا معتبر ،متحرک اور جاندارچلا آتاہے۔ یہ عاشق ،دھرتی اور مذہب پر قربان ہونے والا کے طورپر پڑھنے کو ملتاہے۔ استاد ذوق کے نزدیک وہ جو منزل مقصود سے دور اور منزل تک رسائی کے وسائل نہ رکھتاہو بلبل ہوں صحن باغ سے دور اور شکستہ پر پروانہ ہوں چراغ سے دور اور شکستہ پر ( )۶٢ذوق پروانہ کے لئے لفظ پتنگا بھی استعمال ہواہے ۔ خسرو نے اس سے مراد عشق کی آگ میں جل مرنے والا لیاہے۔ میرا جو بن تم نے لیا تم نے اٹھا غم کو دیا تم نے مجھے ایسا کیا )جیسا پنتگا آگ پر (۶۳ غالب کے ہاں بطور حسن شناس ،محبوب کے متعلق کسی قسم کی شکایت پر وکالت کرنے والا کے معنوں میں لیاگیا ہے۔ جاں در ہوائے یک نگ ِہ گرم ہے اسد پروانہ ہے وکیل ترے داد خواہ کا جلاد: لفظ ’’جلاد‘‘ خوف اور نفرت پیداکرتاہے۔ ظالم ،جابرا ور اذیت پسند کے لئے بولاجاتاہے۔ یہ سرکاری ملازم ہوتاہے۔ اپنی مرضی سے
کسی کو کوڑے نہیں لگاتا اور نہ ہی کسی کی جان لیتا ہے۔ حاکم کے حکم سے جیلر یاکسی دوسرے عہدیدار کی موجودگی میں ،حاکم کےحکم کی تعمیل کرتاہے اوراِس ضمن میں کسی رورعایت سے کام نہیں لیتا۔ ترس یارحم کی صورت میں حاکم کے حکم کی تعمیل نہیں ہو پاتی۔سنگدلی اور بے حسی کے حوالہ سے کنایتہ جلاد کا لفظ استعمال میں آتاہے۔انعام اللہ یقین نے زندگی کی کھٹورتاکو سامنے رکھتے ہوئے جلاد کے کردار کوواضح کیاہے کہ وہ زندگی کے مصائب وآلام سے نجات دلاتاہے۔ اس لئے خون بہااسی کو پہنچنا چاہیے چھٹے ہم زندگی کی قید سے اور داد کو پہنچے وصیت ہے ہمارا خوں بہا جلاد کو پہنچے ()۶۴یقین ولی دکنی فلک کو جلاد کا نام دے رہے ہیں ۔ تاہم انسان کا ’’غمزہ ء خون ریز‘‘ کی تاب وہ بھی نہیں لا سکتا ہے شور دریا میں زخمی ہے جلا ِد فلک تجھ غمزہء خوں ریز کا سدا تجھ زلف عنبربیزر کا ()۶۵ولی سید عبدالولی عزلت کا کہناہے جب زندگی سے نجات کی خواہش ہوتی ہے جلاد زندگی سے نجات نہیں دلاتا بلکہ اذیت میں مبتلا کودیکھتا رہتاے۔ نیم بسمل ہوا میں تیغ نگہ تب رکھ لی کس بھلے وقت بر ا ہوگیا جلاد کہ بس ( )۶۶عزلت شہید کے نزدیک جلا دبے اعتبار ا ہے۔ آرزو کا قتل کرتاہے۔ مارنے
سے زیادہ دیکھ میں دکھ کر آسودگی محسوس کرتاہے ہمارے سر پر آکر شہید آخر مقدر تھا ہمیں حسرت میں جی دیتا پھر گیا جلاد یاقسمت ()۶٧شہید غالب جلاد کے حوالہ سے محبوب کی اذیت پسندی اجاگر کرتے ہیں۔جلاد بڑی بے دردی سے ماررہاہے۔ وہ توسنگدل ہے ہی ،محبوب کہے محبوب کو اذیت نواز سے واسطہ ۔‘‘جارہاہے ’’اور مارو ،اور مارو ہے ۔ کہتے ہیں جلاد کی بے رحمی کے سبب جان ہی کیوں نہ چلی جائے لیکن محبوب کی آواز ’’اور مارو‘‘ کا ن میں پڑتی رہنیچاہیے۔محبوب رحم سے کوسوں دور ہے جبکہ مضروب کو محبوب کی عدم تسکین لطف دے رہی ہے مرتا ہوں اس آواز پہ ہر چند سراڑ جائے جلاد کو لیکن وہ کہے جائیں کہ ہاں اور حسن : اللہ تعالی نے انسان کی سرشت میں ذو ِق جمال رکھ دیا ہے ۔ اس لئے حسن شناسی کی تاریخ انسان کے ساتھ چلتی ہے ۔ جس کا ثبوت ہابیل حسن‘‘ اپنا الگ سے وجود نہ رکھتے ہوئے انسانی ’’کا قتل ہے۔ زندگی میں بڑے معتبر اور متحرک کردار کا حامل ہے۔ حسن نے بلا امتحان کسی کو اپنا نہیں بنایا ۔ اردو غزل میں حسن کے کردار کو مختلف حوالوں اور زوایوں سے اجاگر کیاگیا ہے۔ شاہ ولی ا للہ ولی کا کہنا ہے حسن ایک معجزہ ہے ۔ شکتی دیتا ہے ، روشنی پھیلاتا
خوبی اعجاز حس ِن یار گر انشاکروں بے تکلف صفحہء کاغذید بیضاکروں ( )۶۸ولی ؔ محمد عظیم الدین عظیم کے مطابق حسن آگ ہے جواس کے قریب ہوتاہے جل کر کباب ہوجاتاہے۔ گلشن میں جب وہ گل رومس ِت شراب ہوئے اس حس ِن آتشیں پر بلبل کباب ہوئے ( )۶۹عظیم انسان نیکی ،خوبصورتی اورہم آہنگی کی جانب فطری میلاناس لئے لفظ ’’حسن ‘‘ اس کے تمام حواس بیدا ر کردیتا )رکھتاہے(٧٠ہے اور اپنے ارد گرد اس کو تلاشنے لگتاہے۔ اشیاء کے مثبت پہلوؤں پر غور کرتاہے۔ اشیاء میں خوبیاں تلاش کر تاہے پھر اسے بدبو دارکوڑا بھی برا نہیں لگتا اور کراہت کی حیثیت لایعنی ہوکر رہ جاتی ہے ۔ حسن‘‘ ظاہر میں کچھ ہے ’’حسن درحقیقت تحریک کا دوسرانام ہے۔ اور بعض اوقات اپنی کریہہ ہےئت کے سبب وجہ ء امتحان ٹھہرتاہے۔جونہی ظاہری لبادہ چاک ہوتاہے افادے کا دروازہ کھل جاتاہے ۔یہ بھی ممکن ہے ظاہر جاذ ِب نظر ہو جبکہ باطن کریہہ اور قابل نفرت بھی نہ ہو۔ حسن اپنی سرشت میں مقناطیست رکھتاہے اس لئے وہ متاثرہ کرتاہے تاہم ہرکسی پر اس کے فیوض کے خزانے نہیں کھلتے ۔ بقول غلام رسول مہر خود کوسادہ اور بے خبر ظاہرکرتاہے لیکن اپنی اصل میں بڑا ’’ ہوشیار اور پر کار ہوتاہے۔ لوگوں کے حوصلے ہمت اور صبر واستقلا )۔(‘‘۷۱ل کا امتحان لیتاہے غالب کی زبانی سنےئے ۔
سادگی و پرکاری وبے خودی وہشیاری حسن کو تغافل میں جرات آزماپایا دشمن : نفرت اور محبت انسانی زندگی کا حصہ رہے ہیں ۔ جہاں انسان ،انسان کے دکھوں کامداوا کرتاچلاآرہاہے وہاں انسان دشمنی بھی عروج پر رہی ہے۔ چونکہ تضاد انسان کی فطرت کاجزو ہے اس لئے دوستی کے ساتھ دشمنی ایسی کوئی نئی اور انوکھی چیزنہیں ہے۔ یہ لفظ برصغیر کی مختلف زبانوں میں ا سی طرح یاتھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ رائج چلا آتاہے۔ یہ لفظ ڈر خوف اور نفرت کے ساتھ ساتھ تحفظ ذات کااحسا س بھی پیداکرتاہے۔ شاہ نصیر کے نزدیک کسی سبب کے باعث دشمنی جنم لیتی ہے مجنوں سے ہے جو ناقہ ء لیلی کو دوستی دشمن ہے اس لئے وہ بیاباں میں خار کا ( )٧٢شاہ نصیر مرزا مظہر جا ِن جاناں ایسے دوست جس کا کردار بدترین دشمن کا ساہو ،کے لئے دشمن کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ غلط تھا تجھ کو جو تونے کی سو دشمن بھی نہیں دشمن سے کرتاہے جوہم جانتے تھے مہر باں اپنا()٧۳جاناں دشمن ‘‘ ہی لفظ استعمال میں لاتے ہیں۔ ’’رقیب کے لئے بھی ہمارے سامنے پہلو میں وہی کیوں نہیں اٹھتی قیامت ماجراکیاہے )وہ دشمن کے بیٹھے ہیں(٧۴ دشمن ‘‘ کے ایک دوسرے کردار پر روشنی ڈالتے ہیں ’’غالب
عشق میں بیدادرش ِک غیر نے مارا مجھے کشتہ ء دشمن ہوں آخر گرچہ تھا بیمار دوست بلاشبہ رقیب سے بڑ ادشمن کون ہوگا۔ رقابت قطرہ قطرہ نچوڑتی ہے۔ دوست : لفظ دوست تہذیبی اور ثقافتی تاریخ میں بڑا مضبوط اور توانا حوالہرکھتاہے ۔ انسانوں نے انسانوں کو اور قوموں نے قوموں کو معاملا ِت حیات کے ضمن میں ،وقت پڑنے پر یا پھر من کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے دوست بنایاہے۔ ان پر اعتماد کیا ہے ان سے معاشی لین دین رکھاہے۔ ان سے خونی رشتے استوار کئے ہیں۔ان کے لئے خون بہایا ہے۔ تاہم اعتماد جیت کر برباد کرنے والے بھی دوست ہی رہے ہیں ۔ اس منفی حقیقت کے باوجود لفظ ’’دوست ‘‘ اپنے دامن میں وسعت،توانائی ،خلوص و محبت اور پاکیزگی رکھتا ہے ۔ انسان کا اعتمادبحالکرتاہے۔ حوصلے اور تسلی کا سبب بنتاہے۔ یہ لفظ یقیناابڑاخوبصور ت اور اعصاب پر مثبت اثرات مرتب کرنے اور نفسیاتی تسکین فراہم کرنے والا ہے۔دوست کا کردار ہمیشہ سے متحرک رہاہے۔ خدااور معشوق کے لئے بھی یہ استعمال میں آتا رہاہے۔ اردو غزل سے چند :مثالیں ملاحظہ ہوں میر حیدر الدین کامل کا کہنا ہے کہ دوست ،دوست کی خطاؤں سے درگذرکرتاہے اور اسے معاف کردیتاہے۔ دوست کایہ کردار سچی اور سچی دوستی کی نشاندہی کرتاہے۔ دوست بخشے گا دوست سب کے سب گرچہ عاصی ہوں اس کا آسی ہوں ()٧۵کامل
دوستی کایہ پیمانہ اللہ تعالی کی ذا ِت گرامی پر فٹ آتاہے ۔تاہم دوستی ایسے حوالوں کی متقاضی ہے ۔ داغ دہلوی کہتے ہیں دوست ،دوست کے لئے مخبری کافریضہ بھی سرانجام دیتاہے قسم دے کر انہی پوچھ لو تم رنگ ڈھنگ ان کے تمہاری بزم میں کچھ دوست بھی دشمن کے بیٹھے ہیں()٧۶داغ مرزامظہر جا ِن جاناں کے مطابق دوست اپنابناکر لو ٹ لیتے ہیں ہمارے ساتھ سے یہ دلی بھی بھاگالے کے جاں اپنا ہم اس کو جانتے تھے دوست مہرباں اپنا( )٧٧جاناں خواجہ درد کے نزدیک دوستوں کی دوستی بھی مقدرسے میسر آتی ہے۔ نصیب یاوری نہ کرے تو دوست دشمن بن جاتے ہیں۔ یاوری دیکھیے نصیبوں کی دوست بھی ہوگئے مرے دشمن ( )٧۸درد غالب کا انداز بیاں اور بقول شاداں بلگرامیدوست ہمیشہ ہمدردی اور غمخواری کرتے ہیں تاہم دوست کانوں کے ’’ )کچے اور چغلی سن کر بدگمان بھی ہوجاتے ہیں۔(۷۹ دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا زخم کے بھرآنے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا :ایک دوسری جگہ کہتے ہیں تاکرے نہ غمازی کر لیاہے دشمن کو دوست کی شکایت میں ہم نے
ہم زباں اپنا رقیب: کسی معاملے کی پوشیدگی کے ساتھ ساتھ من کا بوجھ ہلکا کرنے ، اپنے ‘‘ کی ’’صلاح ومشورہ ،واسطوں اور رابطوں کے لئے کسی یہ اپنے ‘‘ نقصان کا سبب بنتے ’’ ضرورت ہوتی ہے۔ اکثر و بیشترہیں۔ جوپہلے سے رقابت رکھتا ہو اس سے نبر دآزما ہونا ،مشکل کا منہیں ہوتا تاہم خفیہ رقابت نقصان کا موجب بنتی ہے۔ جب بھی اس قسمکے کردار کاحوالہ سامنے آتاہے ۔ نفرت اور کراہت کے جذبات ابھرتےہیں اس لئے ایسے کردار سے خوف کھانافطری سی بات ہے ۔ ایک ہی محبوب کے دوعاشق آپس میں رقیب ہوتے ہیں ۔اردو غزل میں سے چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں شاہ ولی اللہ اشتیاق نے دعوی باندھنے اورر ائے دہندہ کے معنوں میں یہ لفظ استعمال کیاہے نہ چھوڑا ماربھی کھاکر گزر گلی کاتری رقیب کو مرے دعوی ہے بے حیائی کا ( )۸٠اشتیاق محمد عظیم الدین عظیم نے گھات میں رہنے ولا ،نشانہ ہدف بنانے والا ،جس سے خوف آتاہو کے معنوں میں استعمال کیاہے چھپ دیکھتا ہوں تجھ کو رقیباں کے خوف سے مکھ میں نین ،نین میں نظر ،میں نظر میں ہوں ( )۸١عظیم خواجہ درد نے رقیب کو حاسد کے معنی پہنائے ہیں۔ آنسومرے جوانہوں نے پونچھے کل دیکھ رقیب جل گیا()۸٢در د
چندا نے رکاوٹ ڈالنے والا ،حائل ہونے والا کے معنوں میں نظم کیاہے ہر گز نہیں رقیب دیکھا چمن میں واسطے بلبل کے جابجا سواکوئی خار گل( )۸۳چندا میر سعادت علی سعادت کے نزدیک رقیب وہ نادان کردار ہے جس کی نادانی کے سبب کسی دوسرے کا کام سنور جاتاہے۔( )۸۴غالب انتہائی قرابت دار اورہم راز کو رقیب کا نام دیتے ہیں ۔ قرابت کے سبب رقابتمیں مبتلا ہوکر دشمنی پر اترآتاہے ۔ خیانت کا مرتکب ہوتاہے ۔ بھروسہ اور یقین سے فائدہ اٹھاکر نقصان پہنچاتاہے ذکر اس پری وش کا پھر بیاں اپنا غالب بن گیا رقیب آخر تھا جوراز داں اپنا ساقی: شراب پلانے والے کے لئے بولا جاتاہے ۔ اس سے ‘‘لفظ ’’ساقی ہادی ،پیرو مرشد ،حضور ،محبوب ،معشوق وغیرہ معنی بھی مراد لئے جاتے ہیں ۔یہ لفظ عوامی نہیں لیکن اردو اور برصغیر کی کئیدوسر ی زبانوں کی شاعری میں نظم ہوتا آرہا ہے ۔ یہ لفظ اہل ذوق پہ رنشہ کی کیفیت طاری کر دیتاہے۔ کسی سابقے یالاحقے کے جڑنے سے کسی مخصوص کردار کی طرف توجہ مبذول کرواد یتا ہے۔ مرکب کی صور ت میں دماغ پر مختلف نوعیت کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اردو شاعری میں لفظ ساقی کے استعمال کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں بھگونت رائے راحت اس سے مہر ومحبت سے فیض یاب کرنے والا مراد لیتے ہیں
پلا مجھ کو ساقی محبت کا جام رہوں یاد میں اوس کی سرخوش خرام ( )۸۵راحت پیرمرادشاہ کا کہتے ہیں وہ جس کی شراب حلال اور اس کے عنایتکئے گئے جام میں نبی ؔ کا جمال نظر آتاہو۔ ساقی بمعنی تقیسم کنندہ ، اس کی مے شرعی جواز رکھتی ہو پلامجھ کو ساقی شرا ِب حلال نبی کا نظر آوے جس میں جمال ( )۸۶پیر مراد شاہمحمد صابر محمود ساقی سے عنایت کرنے والا ،فیض یاب کرنے والا ،پر جوش عنایت والا مراد لیتے ہیں دیتا ہے بادہ ساقی مینائے آتشی سوں رکھتاہے مست دلی کوں گلرنگ بے غشی سوں( )۸٧صابرذوق کے نزدیک وہ جوکسی اور کے اشارے سے بانٹ کر تاہو کرتاہے ہلال ابروئے پرخم ہے اشارہ ساقی کو کہ بھردے بادے سے کشتی طلائی ()۸۸ذوقعبدالحی تاباں اس کو ساقی مانتے ہیں جو تقاضوں سے بالا تر ہوکر پلائے ایمان ودیں سے تاباں مطلب نہیں ہے ہم کوساقی ہو اور مے ہومینا ہو اور ہم ہوں ( )۸۹تاباںغالب کا اپنا ہی رنگ ہے ۔ ایسا کردار جواپنی فیاضی پر اِتراتاہولیکن میخوار کی بلانوشی اس کا غرور خاک میں ملاکر رکھ دے
لے گئی ساقی کی نخوت ،قلزم آشامی مری موج مے کی آج ر ِگ مینا کی گرد ن میں نہیں ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ ساقی وہ ہے جوہر آنے والے کو پلائے۔ خواہ اس کی مرضی ہو یانہ ہو۔گویاہر حالت میں پلائے میں اور بزم مے سے یوں تشنہ کام آؤں گرمیں نے کی تھی توبہ،ساقی کوکیاہواایک تیسری جگہ ’’کوثر‘‘ کا لاحقہ بڑھاکر جناب امیر(ع) کی ذا ِت عالیہ مراد لیتے ہیں کہ ان کی ذات ایسی نہیں جوبخل سے کام لے کل کے لئے کر آج نہ خست شراب میں یہ سوء ظن ہے ساق ِی کوثر کے باب میں اردو غزل میں یہ لفظ زیادہ تر محبوب کے لئے مستعمل ستمگر : رہاہے ۔یہ لفظ سنتے ہی بڑا ظالم ،بات نہ سننے والا ،ضدی ،خود پسندمحض نازنخرے والا محبوب ،آنکھوں کے سامنے گھوم جاتاہے۔ امیر شہر کے لئے بھی یہ لفظ نامناسب نہیں سمجھا گیا ۔ رائے ٹیک :چند بہار نے اس کردار سے کچھ ایسی ہی خوبیاں منسوب کی ہیں مکمل گرفت میں لینے والا ١۔ متاثر کرنے کی طاقت رکھنے والا ٢۔ جوبلاوجہ قتل (گرویدہ ) کر تاہے ۳۔ کرئے ہے یہ ستمگر قتل بے تقصیر کیا کہیجے جوان کے ہاں یوں مرنا ہے تقدیر کیاکہیجے ( )۹٠بہار
عبدالحی تاباں نے اس سے ایساکردار مراد لیا ہے جوظالم تو ہے لیکن آہ وزاری سے متاثر بھی ہوتاہے اب مہرباں ہو اہے تاباں تراستمگر آہیں تیری کسی نے شاید جاکر سنائیاں ہیں ( )۹١تاباں غالب کے نزدیک یہ ایسا کردار ہے جس کے ظلم وستم کی کوئی حدنہیں ہوتی ۔ یہاں تک کہ وہ اپنے ستم کے شکار کی موت پر بھی اکتفا نہیں کرتا۔ وہ اس سے بڑھ کر ستم کاخواہش مند ہوتاہے۔ نہ مرنے دیتاہے اور نہ جینے میں نے چاہا تھا کہ اندو ِہ وفا سے چھوٹوں وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا غالب اس امر کا اعلان کرتے ہیں کہ ستمگر سے اچھائی اور بہتری کی امید نہیں کی جاسکتی وہ دن بھی ہوکہ اس ستمگر سے ناز کھینچوں بجائے حسرت ناز ان کے نزدیک یہ کردار طعنہ زنی کرتارہتاہے کہ کچھ کھا کر مرکیوں نہیں جاتے زہر ملتا ہی نہیں مجھ کو ستمگر ورنہ کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں شمع: روشنی کی ضرورت واہمیت سے کبھی بھی انکار نہیں کیاگیا ۔ شمع ہمیشہ سے بہتر کارگزار ی کا وسیلہ رہی ہے۔ روشنی کے کئی معنی لئے جاتے ہیں ۔ مثلاا
)ب ۔ ہدایت ،ہدایت دینے والا ج۔ رہنمائی (رہنما الف۔ چراغ د۔ جومحفل ،معاشرہ یا تہذیب کو اپنی دانش اور حکمت سے چار چاند لگا دے ہ ۔ خوبصورت محبوب ،جس پر ایک زمانہ مرتاہو و۔ عادل حاک ِم وقت شمع ‘‘ روشنی کا ذریعہ ہے روشنی براہ راست بصارت سے تعلق ’’ رکھتی ہے۔روشنی جتنی بہتر ،سازگار،شفاف اور ضرورت کے مطابق ہوگی بصارت کی کارگزاری اتنی ہی بہتر اور واضح ہوگی۔ مشاہدے کا واضح اور شفاف ہونا ادراک کے ابہام دورکرنے کا سبب بنتاہے۔لفظ شمع اردو غزل میں بطور کردار ،علامت ،استعارہ ،مشبہ بہ بکثرت استعمال ہواہے ۔ میر عبدالحی تاباں نے نرم دلی کو موضوع گفتگو بنایاہے بے اختیار شمع کے آنسو محفل کے بیچ سن کر مرے سوز دلی کاحال ڈھلک پڑے ( )۹٢تاباں گویا شمع وہ کردار ہے جوکسی دوسرے کا درد اپنے سینے میںمحسوس کرکے دکھی ہوتاہے۔ بطور استعارہ ہمدرد اور نرم دلی شخص معنی لئے جاسکتے ہیں۔ حافظ عبدالوہاب سچل کے مطابق شمع وہ کردار ہے جس پر بلا کہے یعنی آپ ہی سے اس کے چاہنے والے جان تک وار دیتے ہیں۔ شمع کے ہاتھوں قتل ہوکر فخر اور خوشی محسوس کر تے ہیں۔ انہیں اپنی موت پر افسوس نہیں ہوتا۔ حسین پر قربان ہونے والے خوش تھے
اور اسے اپنی سعادت سمجھتے تھے اس شمع پر پتنگے ،آئے ہیں کیا اچھل کر ترسیں گے وہ نہ ہرگز جن کو ملی مماتی( )۹۳سچلغلام مصطفے خاں یکرنگ شمع کا تعلق کر بلا سے جوڑتے ہیں۔ہے سربریدہ شم ِع اندھیر ے جہاں میں کہ اب شامیوں کے ہاتھ شبستا ِن کربلا ()۹۴یکرنگسودا نے بطور مشبہ بہ استعمال کرکے شمع کے ہررنگ میں جلنے کو واضح کیا ہے نہیں معلوم اس سینے میں کیاجوں شمع جلتاہےدھواں نو ک زبان سے بات کرنے میں نکلتاہے( )۹۵سوداغالب کے ہاں شمع بطور استعارہ استعمال ہوئی ہے کیا شمع کے نہیں ہیں ہو اخواہ اہ ِل بزم ہو غم ہی جان گداز تو غمخوار کیا کریں شوق: شوق ایک احساس اور جذبے کا نام ہے ۔ اس کا کوئی مادی وجود نہیں چونکہ اس کا تعلق انسان او راس کی کارگزاری سے ہے اس لئے اس کا وجود انسانی معاشرت میں بڑا مستحکم ہے ۔ یہی نہیںاس کے حوالہ سے انسان میں تحریک پیدا ہوتی ہے اوروہ ،وہ کچھشوق ‘‘ قوموں کو ’’کر جاتاجس کے متعلق سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ آسمان کی بلندیوں سے ہمکنار کرتا۔ منفی شوق پتال میں بھی ٹکنے
نہیں دیتا ۔ اس لئے شوق کے کرداری حوالوں کوکسی بھی صور تمیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اردو غزل میں ’’شوق ‘‘بڑا توانا کردار ہے ۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوںمیر حیدر الدین ابو تراب کامل شوق کو بے کلی ،بے چینی اور ناگزیر یت کا سبب قرار دیتے ہیں۔ خط ترے کا شوق اکھیاں کا لکھا ہرن کو ں سبزے بنا چارا نہیں ()۹۶ کامل میر محمود صابر کا کہنا ہے کہ یہ آنکھ کو تجس اور جستجو فراہم کرنے کا ذریعہ وسیلہ ہے زحیرت دیدہء حیراں نہ کھولوں غیر کے مکھ پر چو آئینہ بچش ِم شوق دیکھوں گر نگار اپنا()۹٧صابر لعل بہا گوہر کے نزدیک ’’شوق‘‘ شخص کوہمہ وقت مصروف رکھتاہے۔ مژدہ اے شوق ہم آغوش کہ جاگے ہیں نصیب لے کے انگڑا وہ کہتے ہیں کہ نیند آئی ہے( )۹۸گوہر علامہ حالی کے خیال میں ’’شوق‘‘ کبھی ساتھ نہیں چھوڑتا بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوتاہے شوق بڑھتا گیا جوں جوں کے اس شوخ سے ہم یہ سبق وہ ہے کہ بھولے سے سوا یاد رہے()۹۹حالی ؔ تلاش اور جستجو کا مادہ رو ِز اول سے انسانی فطر ت میں رکھ دیاگیا
ہے ۔ پالینے اور کھوج نکالنے کی دھن اسے بڑے سے بڑے خطرے کی آگ میں جھونک دیتی ہے۔ شوق منہ زور عل ِت وقوع اور حرکت کاسبب ہے۔حواس مشاہدے میں اضافہ کرتے ہیں جبکہ مشاہد ہ ، حواس کی خوبیداہ توانائیاں بیدار کرتاہے۔یہ دونوں ترقی پذیر ہیں۔ ناکامی کی صور ت میں کامیابی کے لئے جبکہ کامیابی کی صور تمیں مزید کامیابیوں کے لئے شوق شخص کو دوڑائے رکھتاہے۔ انسان کی جتنی عمر ہے ’’شوق‘‘کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے۔ حرف ش کے ساتھ ’’ارتعاش‘‘ وابستہ ہے اس لئے انسانی سماج خوب سےخوب تراور ہر خوب کی نئی اشکال اور نئے روپ کامتمنی رہتاہے۔اس طرح اس فیلڈ میں نکھار،جدت اور بہتری پیداہوتی چلی جاتی ہے۔ دریافت کی رہیں وا ہوتی رہتی ہیں۔ غالب کے ہاں یہ لفظ نظر انداز نہیں ہوا۔ ان کے نزدیک شوق رکاوٹیں دور کر دیتاہے۔ بقول شاداں بلگرامی غالب کے نزدیکشوق نے بند نقا ِب ( )١٠٠حسن کھول دئیے ہیں او ردید کی راہ میں ’’ )(‘‘ ۱۰۱کوئی رکاوٹ رہنے نہیں دیگویا شوق بلاواسطہ کھوجنے کا موجب بنتا ہے ۔ انکشات کے دروازے کھولتاہے واکر دےئے ہیں شوق نے بند نقا ِب حسن غیر از نگا ہ اب کوئی حائل نہیں رہاصاحب :عمومی بول چال کا لفظ ہے جوکسی شخص کے احترام یا پھر اپنے سے بالا افسر کے لئے بولا جاتاہے۔ اردو شاعری میں یہ لفظ مختلف حوالوں سے مستعمل چلا آتاہے۔ پیر مراد شاہ لاہور ی نے
’’جناب ‘‘ کے معنوں میں استعمال ہے جو پونچھا تو بولا وہ خواجہ سرا کہ صاحب یہ کل ہے بڑامسخرہ )(١٠٢روحل فقیر’’صاحب ‘‘ سے ذات باری تعالی مراد لیتے ہیں سر دئے صاحب ملے تیر اصاحب تجھ ہی مانہیں ،تم تجو اور آس )،اچرج اچنبا ہاس(١٠۳دیوان صورت سنگھ صورت نے متحرک کے ’’حامی گیر ‘‘ کے لئے :لفظ صاحب استعمال کیاہےکام سیں تھاکام اب یارب آپ صاحب کام کے لئے کام کی کیسی خبر )کدھر جاؤں ہمیں (١٠۴غالب نے یہ لفظ محبو ب کے لئے بولاہے آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے صاحب کو دلی نہ دینے پہ کتنا غرور تھا صیاد: صیادعمومی بول چال کالفظ نہیں تاہم اردو غزل میں اس کا استعمال بکثرت پڑھنے کوملتاہے۔ شاعری کا ذوق رکھنے والوں کےذہنوں میں صیاد کے حوالہ سے ظالم اور بے رحم کردار ابھرتاہے۔ یہ کردار محبوب کے علاوہ علامتی بھی استعمال ہوتا چلاآتاہے۔ رائے ٹیک چند بہار کے نزدیک یہ ایسا بے رحم کردار ہے جو اپنے شکار کی دلی کیفیت سے لاپرواہ رہتاہے
تڑپتا ہے پڑا نیم بسمل خاک وخوں میں دلی عقوبت ہے جو کچھ اس )صید پر ،صیاد کیا جانے (١٠۵ نواب امیر خاں عمدۃ الملک انجام کاکہنا ہے ایسا شکاری جو بھا گ جانے کا موقع ہی نہ دے یعنی چاک وجوبند شکاری ٹک تو فرصت دے کہ ہولیں رخصت اے صیاد ہم )مدتوں اس باغ کے سائے میں تھے آباد ہم (١٠۶ بھگونت رائے راحت کے نزدیک جو شکار صیاد کی گرفت سے نکلجاتاہے وہ دوبارہ قابو میں نہیں آتاگویا ایسا لا پرواہ شکاری جس کی گرفت سے شکار نکل بھی جاتاہے۔ )کہ جودام سے مرغ آزاد ہو کہاں پھر وہ تسخیر صیادہو(١٠٧ غالب کے ہاں اس کردار کی کارفرمائی ملاحظہ ہو۔ ہوں گرفتا ِر الف ِت صیاد اور نہ باقی ہے طاق ِت پرواز صیاد بمعنی وہ جو اپنی محبت میں گرفتا ر کرلے۔آغاز باقر ،نظم طبا :طبائی او ربے خودموہانی کے حوالہ کہتے ہیں )۔(‘‘ ۱۰۸تعلقا ِت دنیا ،جو اسیر کر لیتے ہیں ’’ ظالم: اردو غزل میں بڑا عام استعمال ہونے والا لفظ ہے۔یہ لفظ دل ودماغ پر ناخوشگوار اثرات مرتب کرتاہے ۔ اس لفظ کے ہر نوعیت کے مفاہیم اعصابی تناؤ اور نفرت کاباعث بنتے ہیں۔ مثلاا معاش کا قاتل ١۔
جھوٹااورجھوٹ کا ساتھ دینے والا ٢۔ دھوکہ اور دغا سے کام نکالنے والا ۳۔ ضرورت پڑنے پر ساتھ چھوڑ دینے والا ۴۔ مفادات کو اپنی ذات تک محدود کرنے والا ۵۔ انسانی احساس کو مجروح کرنے والا ۶۔ وہ جو قتل وغارت کا بازار گرم کرتارہتاہو ٧۔ لوگوں کی رگوں میں نشہ اتارنے والا ۸۔ غنڈہ گردی اور چھینا جھپٹی کرنے والا ۹۔ پرواہ نہ کرنے والا محبو ب ١٠۔ معشوق ١١۔ بے انصاف ١٢۔غرض ایسے بہت سے افعال سے وابستہ افراد کے لئے لفظ ’’ظالم‘‘ بولاجاتاہے۔جعفر زٹلی نے خل ِق خدا پر آفت توڑنے والے کے لئے لفظ ظالم نظم کیاہے گیا اخلا ص عالم سے عجب یہ دور آیاہے ڈرے سب خلق ظالم سے عجب یہ دور آیا( )١٠۹جعفر زٹلی مرادشاہ مراد لاہوری کے ہاں وفاداری کا ڈھونگ رچاکر بالآخربے
وفائی کرنے والے کے لئے یہ لفظ استعمال ہواہے وہ ظالم یہ طوفان کیا کر گئی وفاکرتے کرتے جفاکر گئی ( )۱۱۰مراد شا ہ لاہوریشاہ مبارک آبرو نے جس کی محبت فراموش نہ ہوسکے ،کے لئے یہ لفظ باندھا ہے جدائی کے زمانے کی میاں کیا زیادتی کہیے کہ اس ظالم کی جوہم پر گھڑی گزری سو جگ بیتا( )١١١آبرومحمد احسن اللہ احسن نے ہمیشہ رلاتارہنے والے کے لئے یہ لفظ نظم کیاہے تیرے تل سے مجھے نت مینہ کا سودا ہے اے ظالم عجب نہیں ہے اگر تو تیل نکساوے مرے سرسوں ( )١١٢احسن سودا نے جذبات مجروح کرنے والے ،دلی چرانے اورزیادتی کرنے والے کے لئے یہ لفظ استعمال کیا ہے یہ اگر سچ ہے تو ظالم تونے سودا کے تئیں قتل کیا ،کہتے ہیں اسے کیاکہتے ہیں ( )١١۳سودا حافظ عبدالوہاب سچل نے گرفت کرنے والے کے لئے اس لفظ کا انتخاب کیاہے آیانظر میں اژدر مجھ کو وہ زلف پیچاں رخ پہ لٹک رہی ہے ظالم ،یہ زلف کالی ( )۱۱۴سچل
غالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال ظاہر کررہاہے کہ اس کر دار سے خیر اور بھلائی کی توقع وابستہ نہیں کی جاسکتی ۔ ایک جگہ ایسا محبوب جس کی وفا کا معاملہ تذبذب کا شکار ہو،کے لئے استعمال کرتے ہیں ظالم مرے گماں سے مجھے منفعل نہ چاہ ہے ہے خدانہ کردہ تجھے بے وفا کہوں غالب اس لفظ کو اس شخص پر بھی فٹ کرتے ہیں جس کی مہر بانی پر بھی اعتماد کر نا حماقت سے کم نہ ہو ہماری سادگی تھی التفا ِت ناز پر مرنا تراآنا نہ تھا ظالم مگر تمہید جانے کی عشق: عشق درحقیقت سچی لگن اور مقصد سے اٹوٹ کمنٹ منٹ کا نام ہے۔ بعض لوگ اس لفظ کو نفسیاتی حوالوں تک محدود رکھتے ہیں جبکہ اس کے حدود کاتعین ایساآسان کام نہیں۔ سقراط ہوکہ حسین ،فرہاد ہوکہ ٹیپو ،ہر کسی نے اپنے مخصوص کاز سے وفا کی ۔اگر ان کااستقلا ل لغزش کا شکار ہوتا تو کاز سے کمٹ منٹ خام ٹھہرتی ۔ عشق انسانی سماج کا حصہ رہاہے۔ اسے مختلف زاویوں اور حوالوں سے دیکھا اور پرکھا جاتارہاہے۔ اشخاص اور اقوام کو اس کر دار نے زندہ رکھا ہے۔ عشق انسان کونفسیاتی طور پر یاس کی دلد ل سے نکال کر ایثار اور قربانی کی دہلیز پر لاکھڑ ا کرتاہے۔عشق کوئی دیکھی جانےوالی شے نہیں لیکن بطور جذبہ انسانی لہو میں شامل ہوکر اپنے حصہ کا کردار ادا کرتاہے۔یہ انسان کو تنہانہیں چھوڑتا اس کی تنہائی آباد
رکھتاہے۔ اردو غزل میں عشق کا کردار مختلف حوالوں سے واضح ہواہے۔ مثلاا لطف علی لطفی کے نزدیک عشق زخمی کرتاہے میں عشق کی گلی میں گھایل پڑا تھا ،تس پر حوبن کا ماتا آکر مجھ کو کھنڈل کرگیاہے ( )١١۵لطفی ؔ شاہ ولی اللہ ولی کے مطابق عشق جوش وخروش پیداکرکے دلی کی دھرکنوں کو تیز کر دیتاہے نہ پوچھو عشق میں جو ش وخرو ِش دل کی ماہیت برن ِگ ابر دریابار ہے رومال عاشق کا ( )١١۶ولی ؔ بھگونت رائے راحت کا کہنا ہے عشق سرمہ بنا دیتاہے۔ فناکر دیتاہے کیا عشق نے توتیا طور کو ملی عشق سے دار منصور کو ()١١٧راحت غالب کے نزدیک عشق ،افرا ِط حب کا نام جسے لاحق ہوتاہے اسے نخیف ونزار کر دیتاہے جبکہ زندگی عشق کے بغیر ایک درد ہے ۔ :عشق زندگی میں لطف اور مز اپیدا کرتاہے۔ بقول شاداں بلگرامیاس کے بغیر زندگی بے کیف ہوتی ہے لیکن یہ خود مرض لاعلا ج ’’ )( ۱۱۸۔‘‘ہے اب عشق کی حقیقت غالب کی زبانی سنئے عشق سے طبعیت نے زیست کا مزا پایا درد کی دوا پائی در ِدبے دوا
پایا غافل: یہ کردار انسانی معاشرت میں ہمیشہ سے رہاہے ۔ اس کر دار سے نہ صرف دوسروں کو نقصان پہنچتاہے بلکہ یہ خود اپنے لئے :بھی باع ِث نقصان رہاہے۔ اس کی دو صورتیں رہی ہیں اس سے دانستہ معاملہ پوشیدہ رکھا گیاہو الف ۔ب۔ اپنی عدم دلچسپی کے باعث معاملہ جاننے کی کوشش ہی نہ کرتاہو پہلی صورت میں اس کی غفلت شعاری گوارہ کی جا سکتی ہے جبکہ دوسری صورت کسی بھی حوالہ سے نظر انداز نہیں کی جاسکتی ۔ اس کردار سے مل کر خوشی نہیں ہوتی بلکہ اعصابی تناؤ بڑھ جاتاہے۔ اردو غزل میں یہ کردار مختلف حوالوں سے وارد ہواہے۔خواجہ درد :نے اس کردار کے دو پہلو واضح کئے ہیں الف ۔ غافل اپنا معاملہ خوب یاد رکھتاہے۔ ب۔ دوسروں کو ،یہاں تک کہ خدا کو بھی بھو ل جاتاہے۔ گویاغافل اپنے معاملے کا پکاہوتاہے۔ اپنے مفادات کسی بھی صورتمیں فراموش نہیں کرتا جبکہ دوسروں کے معاملات بھول جاتاہے یا ان کی انجام دہی میں کوتاہی اور تساہل سے کام لیتاہے غافل خداکی یاد پہ مت بھول زینہار اپنے تئیں بھلاد ے اگر تو بھلا سکے( )١١۹درد
شاکرناجی کاکہنا ہے کہ ’’غافل‘‘ ایک ہی ڈگر پر چلاجانے والا ہوتاہے۔ وہ وقت اور حالات کی ضرورت نہیں دیکھتا ۔ لمحے اسے اس کیغفلت شعاری کا احساس دلا کر گزر جاتے ہیں لیکن وہ اپنی روش نہیں بدلتا۔ تبدیلی کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا گئی ہے یہ بھی گھڑی تجھ بلند آواز سے گھڑیال کہتاہے کہ اے غافل عمرسے اور تو نہیں چیتا( )١٢٠ناجیقائم چاند پوری کے نزدیک غافل سوچ سمجھ کر قدم نہیں اٹھاتا۔ اس کا ہر فعل بے خبری کی چادر میں ملفوف ہوتاہے غافل قدم کو اپنے رکھیو سنبھال کریاں ہر سن ِگ رہ گزرکا دوکا ِن شیشہ گرہے()١٢١قائم غالب نے غافل سے وہ کردار مراد لیا ہے جوغلط فہمی کا شکا رہویاجو معلومات کی کمی کے باعث معاملے کی اصل تک نہ پہنچ پائے۔یہ بھی کہ جومعاملے کو سمجھنے کے لئے غلط یا غیر متعلق پیمانے اختیار کرتاہو۔ غافل کچھ کو کچھ سمجھنے والا کر دار ہے ۔ اس طرح یہ نتیجہ نکالنا پڑے گاکہ ایسا شخص جس کی کہی ہوئی بات پر یقین نہیں کیا جاسکتا حالانکہ ہے یہ سیل ِی خارا سے لالہ رنگ غافل کو میرے شیشے پر مے کا گمان ہے غمحوار: دکھ دینے والوں کے ساتھ دکھ کا مداوا کرنے یاتشفی دینے والوں کیبھی کمی نہیں رہی ۔ ایسے افراد کو ہمیشہ عزت واحترام کی نگا ہ سے
دیکھا جاتارہاہے۔ یہ لفظ ایک ہمدرد اور تعاون کرنے والا کر دار سامنے لاتاہے ۔ اس سے ملاقات کرتے وقت اچھا لگتاہے۔بسااوقات یہکردار در پردہ یا پھراپنی کسی نادانی کے سبب معاملہ بگاؤ بھی دیتاہے اور اس سے دشمن سے زیادہ نقصان پہنچ جاتاہے ۔ غمخوار کے حوالہ سے معاملے کی تشہیر بھی ہوجاتی ہے ۔ غمخوا ر خودہی ، غمخواری کی آڑ میں گھائل کر دیتاہے اور گھائل کو معلوم بھی نہیں ہوپاتا کہ اس کے ساتھ کیا ہوگیاہے۔ اردو غزل میں یہ کردار مختلف حوالوں سے پینٹ ہواہے۔ اس سےملتے وقت کسی قسم کی اجنبیت کااحساس نہیں ہوتا۔ غمخوار کا متبادل /مترادف غمگسار بھی اردو غزل میں پڑھنے کوملتاہے ۔ غمگسار کا کردار بھی ہمدرد اور مونس و شفیق کے طور پر نمودار ہوتاہے۔ صاحب رام فریاد غمگسار کو غم بانٹنے والا کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں غم جسے ہواہے یا ردل کا کوئی نہیں غمگسار دل کا( )١٢٢فریاد آخوند قاسم ساؤئی ہالائی نے غم غلط کرنے والے کو غمگسار کا نام دیاہے مدام پل پل دو بھر بھر دلاارے ساقی کہ ہے عجیب مرایا ِرغمگسار قدح( )١٢۳ہالائی ؔ شیخ عثمان بے کسوں اور بے بسوں کے کام آنے والے کو غمخوار کے لقب سے نواز تے ہیں غمخوا ِر آوارگاں آؤ پیار سے اے تو ک ِس بیکساں مون ِس بے چارگاں
حبیب ( )١٢۴شیخ عثمان غالب نے’’ غمخوار ‘‘کو بڑے الگ سے معنی دے دئیے ہیں ۔وہ جودوست کا غم برداشت نہ کرسکے اور سارا معاملہ بازار میں لے آئے کیا غمخوار نے رسوا ،لگے آگ اس محبت کو نہ لاوے تاب جو غم کی ،وہ میر اراز داں کیوں ہو غیر : لفظ غیر کو اہل لغت صفت قراردیتے ہیں تاہم یہ لفظ بطور سابقہ ،مفرد لفظ سے مرکب ہوکر بطور کردار بھی استعمال ہوتاہے۔ لفظ اجنبیت کی فضا پیدا کرتاہے اور کسی غیر متعلق ،نامحرم اور ناواقف شخص کا تصور سامنے لاتاہے۔ نفسیاتی سطح پر ’’غیر‘‘معاملہ کی پوشیدگی پر راغب کرتاہے۔ اس کا تعلق محدود یا عدم تعاون سے وابستہ رہتاہے ۔ اس لئے اس سے کوئی خاص گفتگو کرناممکن نہیں ہوتا۔ اردوغزل میں ’’غیر‘‘ بطور کردار مختلف حوالوں سے استعمال ہوتاآیاہے جو انسیت اور الفت سے کوسوں دور نظر آتاہے۔بعض اوقات رقیب ،حاسد اور حریف کے طور پر سامنے آتاہے۔ عاشق ،کسی دوسرے عاشق کو ایک ہی محبوب کے لئے غیر خیال کرتاہے۔ شاہ قلی خاں شاہی ؔ نے دوسرے عاشق کے معنوں میں اس لفظ کا استعمال کیاہے ملنا تمہن کا غیر سے کوئی جھوٹ کوئی سچ مچ کہے کس کس کا منہ موندوں سجن کوئی کچھ کہے کوئی کچھ کہے()١٢۵شاہی
Search
Read the Text Version
- 1
- 2
- 3
- 4
- 5
- 6
- 7
- 8
- 9
- 10
- 11
- 12
- 13
- 14
- 15
- 16
- 17
- 18
- 19
- 20
- 21
- 22
- 23
- 24
- 25
- 26
- 27
- 28
- 29
- 30
- 31
- 32
- 33
- 34
- 35
- 36
- 37
- 38
- 39
- 40
- 41
- 42
- 43
- 44
- 45
- 46
- 47
- 48
- 49
- 50
- 51
- 52
- 53
- 54
- 55
- 56
- 57
- 58
- 59
- 60
- 61
- 62
- 63
- 64
- 65
- 66
- 67
- 68
- 69
- 70
- 71
- 72
- 73
- 74
- 75
- 76
- 77
- 78
- 79
- 80
- 81
- 82
- 83
- 84
- 85
- 86
- 87
- 88
- 89
- 90
- 91
- 92
- 93
- 94
- 95
- 96
- 97
- 98
- 99
- 100
- 101
- 102
- 103
- 104
- 105
- 106
- 107
- 108
- 109
- 110
- 111
- 112
- 113
- 114
- 115
- 116
- 117
- 118
- 119
- 120
- 121
- 122
- 123
- 124
- 125
- 126
- 127
- 128
- 129
- 130
- 131
- 132
- 133
- 134
- 135
- 136
- 137
- 138
- 139
- 140
- 141
- 142
- 143
- 144
- 145
- 146
- 147
- 148
- 149
- 150
- 151
- 152
- 153
- 154
- 155
- 156
- 157
- 158
- 159
- 160
- 161
- 162
- 163
- 164
- 165
- 166
- 167
- 168
- 169
- 170
- 171
- 172
- 173
- 174
- 175
- 176
- 177
- 178
- 179
- 180
- 181
- 182
- 183
- 184
- 185
- 186
- 187
- 188
- 189
- 190
- 191
- 192
- 193
- 194
- 195
- 196
- 197
- 198
- 199
- 200
- 201
- 202
- 203
- 204
- 205
- 206
- 207
- 208
- 209
- 210
- 211
- 212
- 213
- 214
- 215
- 216
- 217
- 218
- 219
- 220
- 221
- 222
- 223
- 224
- 225
- 226
- 227
- 228
- 229
- 230
- 231
- 232
- 233
- 234
- 235
- 236
- 237
- 238
- 239
- 240
- 241
- 242
- 243
- 244
- 245
- 246
- 247
- 248
- 249
- 250
- 251
- 252
- 253
- 254
- 255
- 256
- 257
- 258
- 259
- 260
- 261
- 262
- 263
- 264
- 265
- 266
- 267
- 268
- 269
- 270
- 271
- 272
- 273
- 274
- 275
- 276
- 277
- 278
- 279
- 280
- 281
- 282
- 283
- 284
- 285
- 286
- 287
- 288
- 289
- 290
- 291
- 292
- 293
- 294
- 295
- 296
- 297
- 298
- 299
- 300
- 301
- 302
- 303
- 304
- 305
- 306
- 307
- 308
- 309
- 310
- 311
- 312
- 313
- 314
- 315
- 316
- 317
- 318
- 319
- 320
- 321
- 322
- 323
- 324
- 325
- 326
- 327
- 328
- 329
- 330
- 331
- 332
- 333
- 334
- 335
- 336
- 337
- 338
- 339
- 340
- 341
- 342
- 343
- 344
- 345
- 346
- 347
- 348
- 349
- 350
- 351
- 352
- 353
- 354
- 355
- 356
- 357
- 358
- 359
- 360
- 361
- 362
- 363
- 364
- 365
- 366
- 367
- 368
- 369
- 370
- 371
- 372
- 373
- 374
- 375
- 376
- 377
- 378
- 379
- 380
- 381
- 382
- 383
- 384
- 385
- 386
- 387
- 388
- 389
- 390
- 391
- 392
- 393
- 394
- 395
- 396
- 397
- 398
- 399
- 400
- 401
- 402
- 403
- 404
- 405
- 406
- 407
- 408
- 409
- 410
- 411
- 412
- 413
- 414
- 415
- 416
- 417
- 418
- 419
- 420
- 421
- 422
- 423
- 424
- 425
- 426
- 427
- 428
- 429
- 430
- 431
- 432
- 433
- 434
- 435
- 436
- 437
- 438
- 439
- 440
- 441
- 442
- 443
- 444
- 445
- 446
- 447
- 448
- 449
- 450
- 451
- 452
- 453
- 454
- 455
- 456
- 457
- 458
- 459
- 460
- 461
- 462
- 463
- 464
- 465
- 466
- 467
- 468
- 469
- 470
- 471
- 472
- 473
- 474
- 475
- 476
- 477
- 478
- 479
- 480
- 481
- 482
- 483
- 484
- 485
- 486
- 487
- 488
- 489
- 490
- 491
- 492
- 493
- 494
- 495
- 496
- 497
- 498
- 499
- 500
- 501
- 502
- 503
- 504
- 505
- 506
- 507
- 508
- 509
- 510
- 511
- 512
- 513
- 514
- 515
- 516
- 517
- 518
- 519
- 520
- 521
- 522
- 523
- 524
- 525
- 526
- 527
- 528
- 529
- 530
- 531
- 532
- 533
- 534
- 535
- 536
- 537
- 538
- 539
- 540
- 541
- 542
- 543
- 544
- 545
- 546
- 547
- 548
- 549
- 550
- 551
- 552
- 553
- 554
- 555
- 556
- 557
- 558
- 559
- 560
- 561
- 562
- 563
- 564
- 565
- 566
- 567
- 568
- 569
- 570
- 571
- 572
- 573
- 574
- 575
- 576
- 577
- 578
- 579
- 580
- 581
- 582
- 583
- 584
- 585
- 586
- 587
- 588
- 589
- 590
- 591
- 592
- 593
- 594
- 595
- 596
- 597
- 598
- 599
- 600
- 601
- 602
- 603
- 604
- 605
- 606
- 607
- 608
- 609
- 610
- 611
- 612
- 613
- 614
- 615
- 616
- 617
- 618
- 619
- 620
- 621
- 622
- 623
- 624
- 625
- 626
- 627
- 628
- 629
- 630
- 631
- 632
- 633
- 634
- 635
- 636
- 637
- 638
- 639
- 640
- 641
- 642
- 643
- 644
- 645
- 1 - 50
- 51 - 100
- 101 - 150
- 151 - 200
- 201 - 250
- 251 - 300
- 301 - 350
- 351 - 400
- 401 - 450
- 451 - 500
- 501 - 550
- 551 - 600
- 601 - 645
Pages: