Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore لفظیات غالب کا تحقیقی و ساختیاتی مطالعہ

لفظیات غالب کا تحقیقی و ساختیاتی مطالعہ

Published by maqsood5, 2017-02-02 03:15:54

Description: abk_ksr_mh.946/2016

لفظیات غالب کا تحقیقی و ساختیاتی مطالعہ
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
جنوری ٢٠١٧

Search

Read the Text Version

‫انسانی مرضی کا عمل دخل ہی نہیں تواس پر اپنی صلاحیتوں کا‬ ‫استعمال‪ ،‬نادانی نہیں ؟ حوادث کاڈٹ کر کیوں مقابلہ کیا جائے۔ اس‬ ‫حوالہ سے ‪ ،‬حساب کتاب اور جوابدہی کا عمل لا یعنی ٹھہرتاہے۔ میر‬ ‫صاحب تو مختاری کی خبر کو ’’ناحق تہمت ‘‘ کا نام دیتے ہیں‬ ‫چاہتے ہیں سو آپ ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختار ی کی‬ ‫)کریں ‪ ،‬ہم کو عبث بدنام کیا(‪١١‬‬ ‫آنکھیں ‪:‬‬ ‫آدمی اشیا ء کو آنکھوں سے دیکھتا ہے ۔ دیکھنے کے حوالہ سے‬ ‫اس کی رائے اور رویہ بنتاہے۔ ہر قسم کا عمل اور ردعمل دیکھنے‬ ‫سے تعلق رکھتاہے۔ آنکھوں کو بہت بڑی نعمت کا درجہ دیا جاتاہے۔‬ ‫دیکھنا ‪ ،‬روشنی کے تابع ہے ۔ روشنی ‪ ،‬اشیاء کو واضح اور نمایا ں‬ ‫کرتی ہے ۔ انسان کے دماغ میں اعصابی سلسلے آنکھوں کے لئے‬‫زیادہ کام کرتے ہیں اور دماغ کے اعلی ترین دماغی رابطے اسے زیادہ‬ ‫ذہین بناتے ہیں۔ (‪)۱۲‬آنکھ کی معمولی کجی دماغ کے اعلی ترین‬ ‫رابطوں کی راہ کا پتھر بن جاتی ہے۔ جو عضو بدن اتنا اہم اورحساس‬ ‫ہو اس کی اہمیت وضرورت سے کیونکر انکار کیا جاسکتاہے۔‬ ‫انسان اشیاء کو مکمل صاف اور واضح دیکھنے کا ہمیشہ سے متمنی‬ ‫رہا ہے اور یہ سب اس کے دماغ کی بنیادی ضرورت ہے۔ بصری کار‬ ‫گزاری کی بہتری کے لئے اس نے خوردبین اور دوربین ایجادکیں۔‬‫فیصلوں میں چشم دید شہادت کو لازمہ اورلوازمہ کی حیثیت حاصل رہی‬‫ہے جسم کے کسی عضو کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ۔ وہ آسودگی‬‫اور حظ کے تمنائی رہتے ہیں لیکن ہر عضو دوسرے عضو پر انحصار‬ ‫کرتاہے۔ آسودگی اور حظ کے ضمن میں جسم کے تمام عضو’’آنکھوں‬

‫‘‘پر انحصار کرتے ہیں ۔ ان کے بغیر وہ اپنی کارگزاری میں (بڑی‬ ‫حدتک ) معذور رہتے ہیں۔ آنکھوں کی سیرابی ‪ ،‬آسودگی ‪ ،‬حظ اور‬ ‫استفادہ کسی دوسرے عضو پر منحصر نہیں ہوتا ۔ دوسرے اعضاء‬ ‫مفلوج ہوجائیں تو بھی ح ِس تمنا زوال کا شکار نہیں ہوتی ؂‬‫رہنے دو ابھی ساغر گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تودم ہے‬ ‫)و مینا مرے آگے (غالب‬‫غالب کے اس شعر سے انداز ہ ہوتاہے کہ اشیاء کاتصرف ہی حظ فراہم‬ ‫نہیں کرتا بلکہ انہیں دیکھنے سے بھی تسکین اور آسودگی میسر آتی‬ ‫ہے۔‬ ‫اردو غزل میں آنکھوں کا کردار نظر انداز نہیں ہوا کیونکہ یہ ہرہونے‬ ‫کا بنیادی محرک ہوتی ہیں ۔ ولی وکنی نے آنکھ کے لئے ’’نین ‘‘ کا‬ ‫لفظ بھی استعمال کیا ہے۔ اس کاکہنا ہے آنکھ کا حسن ‪ ،‬کائنات کے‬ ‫حسن کو متاثر کر تاہے‬ ‫؂ تیری نین کوں دیکھ کے گلشن میں گل بدن نرگس ہو اہے شو ق‬ ‫)سوں بیمار الغیاث (‪١۳‬‬ ‫ہاتف کے نزدیک آنکھوں کا حسن ‪ ،‬بناوٹ کے حوالہ سے گرویدہ بنا‬ ‫لیتا ہے‬ ‫؂ انکھیاں تری اور زلف سے کافر ہوا ساراجہاں اسلام اور تقوی کہاں‬ ‫)‪ ،‬زہد اور مسلمانی کدھر(‪١۴‬‬ ‫آفتاب کے نزدیک آنکھیں ‪ ،‬غصے یا پھر مہر نظر کے حوالہ سے تن‬ ‫من جلا کر رکھ دیتی ہیں‬

‫اس شمع روصنم سے ہے میری لگن لگائی تن من مرا جلایا ‪ ،‬ان‬ ‫)آنکھوں کا بر ا ہو(‪١۵‬‬ ‫میر صاحب کے نزد یک آنکھوں کی پسند پر جسم کا کوئی‬‫عضواعتراض نہیں کرتا بلکہ آنکھوں کی پسند‪ ،‬سر آنکھوں پر بیٹھاتا‬ ‫ہے‬‫؂ تو وہ متاع ہے کہ پڑی جس کی تجھ پہ آنکھ وہ جی کو بیچ کر بھی‬ ‫)خریدار ہوگیا(‪١۶‬‬ ‫آنکھوں کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ محبوب کی راہ دیکھتی ہیں ۔‬ ‫محبوب کی آمد سے ‪ ،‬جسم کے ہر اعضا سے پہلے آگاہی پاتی ہیں‬‫۔ہجر کی صور ت میں پورے جسم کی نمائندگی کرتی ہیں ۔ میر محمود‬ ‫صابر کی زبانی ملاحظہ فرمائیں‬ ‫رہیں کل رات کی اب تک جو تجھ رہ میں کھلی اکھیاں انجھوں کے‬ ‫)جوش سوں گنگا ہو جمنا بہہ چلی اکھیاں(‪١٧‬‬ ‫جہاں یہ فرارکی راہ اختیار کرتی ہیں وہاں غلط اور گنہگار ہونے کا‬ ‫ثبوت بھی بن جاتی ہیں ۔حمیدہ بائی نقاب کہتی ہیں‬ ‫؂ وہ کیا منہ دکھائیں گے محشر میں مجھ کو جو آنکھیں ابھی سے‬ ‫)چرائے ہوئے ہیں(‪١۸‬‬ ‫کسی معاملے یا واقع کا اثر سب سے پہلے آنکھوں پر ہوتاہے۔ اس‬ ‫ضمن میں غالب کا کہناہے‬‫بات کرتے کہ میں ؂ بجلی اک کوند گئی آنکھوں کے آگے تو کیا‬ ‫لب تشنہء تقریر بھی تھا‬

‫زندگی کے خاتمے کا اعلان ‪ ،‬آنکھیں کرتی ہیں۔ کہتے ہیں‬ ‫؂ مندگئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غالب‬ ‫!یار لائے مری بالیں پہ اسے‪ ،‬پر کسی وقت؟‬ ‫آنکھیں ‘‘ اپنی ضرورت اور اہمیت کے حوالہ سے ’’جوبھی سہی‬ ‫مختلف انداز میں توجہ کا باعث بنتی ہیں۔‬ ‫اسیر ‪:‬‬ ‫لفظ اسیر گھٹن ‪ ،‬پابندی ‪ ،‬بے چینی اور بے بسی کے دروازے‬ ‫کھولتا ہے ۔ اس کے ہر استعمال میں پابندی اور گھٹن کے عناصر‬ ‫یکساں طور پرملتے ہیں ۔ اردو غزل میں بھی یہی حوالے سامنے‬ ‫آئے ہیں ۔ میر صاحب ’’جہان‘‘ کو تنگ قیدخانہ اور انسان کواس قید‬ ‫خانے کا اسیر قرار دیتے ہیں ۔ اس حوالہ سے انہوں نے زندگی کی‬ ‫گھٹن ‪ ،‬بے چینی ‪ ،‬پابندی اور لاچاری کو واضح کیاہے اور انسان‬ ‫جیتے جی ایک ہیجان میں مبتلاہے‬ ‫)؂ مرگیا جو اسی ِر قی ِدحیات تنگ نائے جہان سے نکلا(‪١۹‬‬‫قائم چاندپوری کے نزدیک عشرت کا نتیجہ اس ماحول کی اسیری کے‬ ‫‪:‬سوا کچھ نہیں‬ ‫؂ یہ رن ِگ طائربو‪ ،‬ہم اسیر ‪ ،‬اے صیاد وہ ہیں کہ جن کاگلوں بیچ‬ ‫)آشیانا تھا(‪٢٠‬‬ ‫اسیری زلف گرہ گیری ہی کی کیوں نہ ہو آدمی دوسرے مشاغل سے‬ ‫کٹ جاتاہے ۔ زلف کی اسیری کچھ اور سوچنے نہیں دیتی ۔اس ضمن‬ ‫‪:‬میں غلام علی حیدر ی کا کہناہے‬

‫؂ یہ دلی اسیر زلف گرہ گیرہی رہا مجنوں ہمارا بستہ زنجیر ہی‬ ‫)رہا(‪٢١‬‬‫اسیر ’’مرز الطیف علی بیگ سپند غم کی گرفت میں آنے والے کو بھی‬ ‫‘‘ ہی کا نام دیتے ہیں۔ اسیری سے چار عناصر وابستہ ہیں ۔‬ ‫‪١‬۔ پابندی‬ ‫دیگر فیلڈز کے دروازے بندہوجاتے ہیں ‪٢‬۔‬ ‫ایک معاملے کے سوا کچھ نہیں سوجھتا ‪۳‬۔‬ ‫بے چینی اور اضطرار کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ‪۴‬۔‬ ‫غم پر یہ چار وں عناصر پورے اترتے ہیں۔ گویاغم بھی اسیری کے‬ ‫‪:‬مترادف چیز ہے۔ سپند کاشعر ملاحظہ ہو‬ ‫؂ ہے اسیر غم کہاں اور کوچہ ء قاتل کہاں یہ معلوم نہیں دلی جاکر ہوا‬ ‫)گھائل کہاں (‪٢٢‬‬‫اسیری بلاشبہ بڑی خوفناک بلا ہے۔ یہ نہ صرف محدود کرتی ہے بلکہ‬ ‫غلامی مسلط کر دیتی ہے۔ شخصیت کے لئے گھن بن جاتی ہے۔‬ ‫شخصیت کاتنزل یا جمود ‪ ،‬فکری حوالوں کو کمزور کر دیتاہے۔ فکری‬ ‫معذوری ترقی اور انسانی اقدار کی موت بن جاتی ہے۔ اسیری ‪،‬راہزن‬ ‫‪:‬کے ’’ پانوء دابنے ‘‘ پر مجبور کر دیتی ہے۔ غالب کا کہنا ہے‬ ‫بھاگے تھے ہم بہت سواسی کی سزا ہے یہ ہوکر اسیر دابتے ہیں‬ ‫راہزن کے پانوء‬ ‫انسان‪:‬‬

‫آدم کی نسل سے متعلق ہر آدمی کوانسان کہاجاتاہے ۔انسان اور آدمی‬‫میں بنیادی فرق یہ کہ آدمی کا شریف النفس ہونا‪ ،‬مرتبہء کما ِل انسانیت‬ ‫پر پہنچاتاہے اور ِاسی حوالہ سے وہ ’’انسان ‘‘کہلانے کا مستحق‬ ‫ٹھہرتاہے ۔ انسان ‪ ،‬نسیان یا انس سے مشتق ہے جبکہ یہ دونوں‬ ‫مادے اس کے خمیر میں پائے جاتے ہیں۔ جب وہ انس کانمونہ بن‬ ‫کرسامنے آتاہے توا سے انسان کے نام سے پکار اجاتاہے۔ بصور ت‬ ‫دیگر اسے آدمی کہنا ہی مناسب ہوتاہے۔ انسا ن کے مرتبے پر فائز‬ ‫ہونا بلا شبہ بڑاکٹھن گزار ہوتاہے۔ اردو غزل کے شعرا کے ہاں لفظ‬‫‪’’:‬انسان ‘‘ بکثرت اور بہت سے حوالوں کے ساتھ استعمال میں آیاہے‬‫میاں محمدی مائل نے ’’انسان‘‘ کے فانی ہونے کے حوالہ سے کہاہے‬ ‫‪:‬کہ انسان کی زندگی کی معیادہی کہاہے ۔ دم آیا آیا نہ آیا نہ آیا‬ ‫بار کیالگتا ہے انسان کے کچھ تعجب نہیں گر مرگیا مائل تیر ا‬ ‫)مرجانے کو (‪٢۳‬‬ ‫‪:‬امجد کے نزدیک خدا کی ذات انسان میں ملتی ہے‬ ‫سنتاتھا جسے کعبہ وبت خانہ میں آخر امجد میں اسے حضر ِت انسان‬ ‫)میں دیکھا(‪٢۴‬‬ ‫خواجہ درد کا موقف ہے کہ خدا کے سب جلوے حضرت انسان میں‬ ‫‪:‬ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں‬ ‫جلوہ توہر اک طرح کاہرشان میں دیکھا جوکچھ کہ سنا تجھ میں سو‬ ‫)انسان میں دیکھا(‪٢۵‬‬ ‫ایک دوسری جگہ پر انسان کے خلق کرنے کا مقصددردمندی بتاتے‬

‫ہیں‬‫در ِددلی کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ‬ ‫)تھے ک ّروبیاں (‪٢۶‬‬ ‫میر جگنو ارزاں کے مطابق انسان کے وجود خاکی میں ایک کائنات‬ ‫پنہاں ہے تام غوروفکر کی ضرورت ہے‬ ‫زمین وآسماں اور مہر ومہ سب تجھ میں ہیں انساں‬ ‫)نظر بھر دیکھ مش ِت خاک میں کیاکیا جھمکتا ہے (‪٢٧‬‬ ‫مصطفے علی خان یکرنگ کا کہنا ہے کہ اس حسین پیکر والے کو‬‫محض انسان ہی نہ سمجھ ‪ ،‬یہ اپنی ذات میں کیا ہے ‪ ،‬کھوج کرنے کی‬ ‫ضرورت ہے‬ ‫اس پری پیکر کو مت انسان بوجھ شک میں کیوں پڑتا ہے اے دلی‬ ‫)جان بوجھ (‪٢۸‬‬‫حافظ عبدالواہاب سچل کے نزدیک انسان کائنات کا دلداد بننے کے لئے‬ ‫وجود میں آیا ہے۔ انسان حضرت باری کا گویا تمثالی اظہار ہے‬ ‫برائے خواہ ِش الفت ہوا اظہار وہ بے چوں اسی دنیا میں وہ دلدار بن‬ ‫)انسان آیاہے(‪٢۹‬‬ ‫غالب انسان کو کوئی فوق الفطرت وجود نہیں سمجھتے ۔ ان کے‬ ‫نزدیک یہ مختلف حالتوں اور کیفیتوں سے دوچار ہوتاہے۔اس پر‬ ‫گھبراہٹ بھی طاری ہوتی ہے‬ ‫؂ کیوں گرد ِش مدام سے گھبرانہ جائے دلی انسان ہوں پیالہ وساغر‬

‫نہیں ہوں میں‬‫انسان کوئی شے نہیں بلکہ محسوس کرنے والی مخلوق ہے۔ حالات کی‬ ‫گرمی سردی اس پر اثر انداز ہوتی ہے۔ تاہم پہم ایک سے حالات سے‬ ‫بھی ہوجاتاہے اور پھر حالات کے طلاطم کو معمول )‪ (Adjuest‬خوگر‬‫سمجھ کر زندگی گزار دیتاہے۔ غالب کے نزدیک آدمی سے انسان بننے‬ ‫تک‪ ،‬آدمی کو نہایت کھٹن گزار مراحل سے گزرنا پڑتاہے‬ ‫؂ بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا‬ ‫آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا‬ ‫انسان بننا دشوار سہی ‪ ،‬امکان سے باہر نہیں ۔ اردو غزل کے شعر ا‬‫نے انسان سے متعلق جو نقشہ پیش کیا ہے وہ بڑا دلکش اور پرکشش‬ ‫ہے۔ آدمی کے اندر انسان بننے کی خواہش ابھرتی ہے لیکن جب یہ‬‫شدت اختیار کرتی ہے تو اعتبار میں اضافہ ہوتاچلا جاتاہے۔ اعتبار جب‬ ‫معتبر ہوجاتاہے تو انسان اپنے خالق سے جاملتاہے ۔ گویا اعتبار‪،‬‬ ‫انسان کو آدمیوں میں محترم ٹھہراتاہے۔‬ ‫اک شخص‪:‬‬‫اک‘‘ کا ’’لفظ ’’شخص‘‘ کے حوالہ سے کوئی رویہ سامنے نہیں آتا ۔‬‫سابقہ اسے عمومی سے خصوصی کا درجہ عطا کرتاہے۔ وہ شخص کو‬‫ن ہے ‪ ،‬ظاہر نہیں ہوتا لیکن اس کی کارگزاری اسے محترم اور منفر د‬ ‫اک ‘‘ سے متعلق سیا ق وسباق اس کے کر دار کو ’’کر دیتی ہے۔‬ ‫واضح کرتے ہیں ۔غالب کا ’’اک شخص ‘‘ کردار ی حوالہ سے بڑا اہم‬ ‫ہے۔ اس کے نہ ہونے سے زندگی غیر متحرک ہوجاتی ہے۔ وہ تھاتو‬ ‫خیالات میں جولانی تھی رعنائی تھی‬

‫؂ تھی وہ ’’ اک شخص ‘‘ کے تصور سے‬ ‫اب وہ رعنائ ِی خیال کہاں‬ ‫اردو شاعری میں شخص کی تخصیص کے لئے مختلف نوح کے‬ ‫سابقے لاحقے استعمال میں آئے ہیں۔ ان سابقوں اور لاحقوں کے‬ ‫حوالہ سے ان کے کردار کی نوعیت سامنے آتی ہے‬ ‫؂ ساحل تمام اش ِک ندامت سے اٹ گیا‬ ‫دریاسے ’’کوئی شخص‘‘ تو پیاسا پلٹ گیا(‪ )۳٠‬شکیب‬‫یہ ’’کوئی شخص ‘‘ دریا پر آکر بھی پیاسا رہا ۔ دریا سے کچھ میسر نہ‬ ‫آنا یقیناادریاکی توہین ہے۔ دریا دوہرے کر ب کا شکار ہے‬ ‫الف ۔ کوئی اس کے پاس آکر مایوس رہا‬ ‫!ب ۔ پیاسا ہی رہے گا؟‬ ‫اس طرح دریا کے ہونے کا جواز ہی باقی نہیں رہا۔ اس کا ہونا نہ ہونا‬ ‫ایک ہی بات ہے۔دونوں حوالوں سے دریا کے وجود پر گہری چوٹ‬ ‫پڑتی ہے۔؂‬ ‫آخر کو’’وہی شخص‘‘ بنادشم ِن جاں‬ ‫وہ شخص جو سرمایہ ء جان تھا پہلے(‪ )۳١‬قمر ساحری‬ ‫وہ شخص ‘‘اس امر کو واضح کر تاہے کہ حالات ایک سے نہیں ’’‬ ‫رہتے ۔ دوستی دشمنی میں اور دشمنی دوستی میں تبدیل ہوسکتی ہے‬‫اور یہ کسی وقت بھی ہوسکتا ہے ۔ اس کے لئے کسی بڑی اور معقول‬ ‫وجہ کا ہونا ضروری نہیں۔ گہری دوستی کسی فریق کے حوالہ سے‬

‫استوار ہوئی۔ یہ دوستی پھلی ‪ ،‬پھولی ‪ ،‬مفاد پور ا ہونے کے بعد دم‬ ‫توڑ گئی ۔ ایسے میں فری ِق ثانی کا غصہ ‪ ،‬ملال یا پھر شدید رد عمل‬ ‫لایعنی اور غیر فطری نہ ہوگا۔ بامعنی ‪ ،‬بے معنی ہو کر رہ گیا‬ ‫جو حال ہے بستی کا تمہارے ہاتھوں‬ ‫ہر شخص کے چہرے پہ نظر آوے ہے(‪ )۳٢‬قمر ساحری‬‫ہر شخص ‪ ،‬کسی کی درندگی اور ظلم و استبداد کا گواہ ہے کیونکہ وہ‬ ‫خودظلم و درندگی کا شکار ہے ۔ اسے اپنے بارے کچھ کہنے کی‬ ‫ضرورت نہیں۔ اس کے چہرے پر کسی فرعون کی فرعونیت جلی‬ ‫حروف میں رقم ہے۔‬ ‫باغبان‪:‬‬ ‫ارد وغزل میں ’’باغبان‘‘ کا کردار ‪،‬علامتی اور غیر علامتی حوالوں‬ ‫سے معروف چلا آتاہے ۔ تزئین وآرائش ‪ ،‬حفاظت و نگہانی اور آباد‬ ‫کاری کے حوالہ سے ‪ ،‬اس کردار پر توجہ رہتی ہے۔ اس کردار کی‬ ‫دانستہ یا نادانستہ غفلت شعاری سے ناقاب ِل تلافی نقصان کا احتمال‬‫ہوتاہے ۔ اس کردار کی محتاط روی ‪ ،‬توجہ ‪ ،‬محنت و کاوش اور اپنے‬‫منصب سے لگن کے سبب بانح پھل پھول سکتاہے۔ اس لفظ کے حوالہ‬‫سے ایک بڑاہی ذمہ دار کر دار ذہن کے کینوس پر ابھر تاہے ۔ اس کی‬‫ہر حرکت توجہ کا مرکز رہتی ہے کیونکہ ا س کی کارگزاری کے ساتھ‬‫فناوبقا کا معاملہ جڑا ہوتاہے ۔ اردو غزل سے چند مثالیں ملاحظہ ہوں‬ ‫ارے بلبل کسے پر باندھتی ہے آشیاں اپنا‬ ‫نہ گل اپنا‪ ،‬نہ باغ اپنا‪ ،‬نہ لط ِف باغباں اپنا (‪)۳۳‬‬

‫میاں محمد سرفراز عباسی‬‫میاں محمد سرفراز عباسی(متوفی ‪۱۱۹۱‬ھ) کا یہ شعر عجب مخمصے‬‫کا سبب بنتاہے ۔باغبان کی عنایت ہر جانبداری سے بالا ہوتی ہے لیکن‬‫شعر میں کہا گیا ہے کہ باغبان کا لطف میسر ہی نہیں ۔ اس میں متعلق‬ ‫سے انحراف آگیا ہے ۔ جب باغبان توجہ کھینچ لے توخیر کی توقع‬ ‫حماقت کے سوا کچھ نہیں ۔ دوسری طر ف یہ معاملہ بھی سامنے‬‫آتاہے کہ دنیا کے نمبر دار غیر ہوگئے ہیں اور اپنوں ہی سے منہ پھیر‬ ‫ے بیٹھے ہیں ۔ اس لئے اپنے ہی دیس میں غربت سے دوچار ہوں‬ ‫توٹھکانہ بنانے کا سوال لایعنی ٹھہرتاہے۔باغبان تواپنے باغ کی پتی‬ ‫پتی ‪ ،‬بوٹے بوٹے سے پیار کرتاہے۔ باغبان سراپا لطف وعنایت ہو کر‬ ‫بھی بانٹ میں ڈنڈی مارتاہے ۔بعض کو یکسر نظر انداز کرتاہے اور‬ ‫کچھ کو جو باغ کے لئے با معنی ہیں جڑسے نکال باہرکرتاہے۔‬‫مرزا مظہر جا ِن جاناں کے ہاں بھی کچھ اسی قسم کا مضمون ملتا ہے‬‫یہ حسرت رہ گئی کیا کیا مزے سے زندگی کرتے اگر ہوتا چمن اپنا‪ ،‬گل‬ ‫اپنا باغ باں اپنا(‪)۳۴‬مظہر‬ ‫اپنا‬ ‫کوکلی جانبداری کے معنوں میں بھی لیا جاسکتا ہے ۔ کلی جانبداری‬‫کی توقع ہوتی ہے تاہم اس )‪(Demeirt‬کے سبب غیر مستحق جانبداری‬ ‫کے یہ معنی بھی نہیں بنتے کہ وہ جانتا ہی نہیں ۔ انسان کی خواہش‬‫ہوتی ہے کہ بانٹ بلاشراکت غیر ے اسی کے حصہ میں آئے ۔ وہ چاہتا‬‫ہے آقا کا لطف اسی سے مخصوص رہے ۔ آتش کو بھی شکوہ ہے کہ‬ ‫باغبان کی نوازشیں متوازن نہیں ہیں۔ وہ انصاف پرور نہیں ۔ ؂‬

‫باغبان انصاف پر بلبل سے آیا چاہیے پہنچی اس کو زرگل کی پہنچایا‬ ‫چاہیے (‪)۳۵‬آتش‬ ‫غالب کے ہاں باغبان بطور تشبیہ استعمال میں آیا ہے ۔ باغبان کے‬ ‫دامن میں کیا کچھ نہیں ہوتا لیکن وہ مخصوص موقعوں پر دامن‬‫کھولتاہے ۔ موقع گزر جانے کے بعد اس کا دام ِن عنایت بند ہوجاتاہے ۔‬ ‫گویا باغبان ہمہ وقت کا دیا لو نہیں ہے ۔ ان حقائق کی روشنی میں‬ ‫باغبان سے وابستہ توقعات باطل ٹھہرتی ہیں ۔ لہذا اس سے توقعات‬ ‫وابستہ کرنا فع ِل لاحاصل سے زیادہ نہیں ۔ وہ نہ صر ف بخیل سے‬ ‫بلکہ جانبد ار اور گرہ کا پکا ہے۔ ؂‬ ‫یا شب کو دیکھتے تھے کہ ہر گوشہء بساط داما ِن باغبان وک ِف گل‬ ‫فروش ہے‬ ‫باغبان اپنے پھولوں کی بولی چڑھا رہاہے اس سے زیادہ اندھیر کیا‬ ‫ہوگا۔‬ ‫بت‪:‬‬ ‫انسانی معاشرتوں میں بت پرستی عام اور عروج پر رہی ہے ۔‬ ‫بتوں سے بہت ساری شکتیاں منسوب رہی ہیں ۔انسان دوستوں کی‬ ‫انسان دوستی سے متاثر ہو کر ان کے بت بنا کر پوجا کی جاتی رہی‬ ‫ہے۔ انہیں طاقت کا سرچشمہ سمجھا گیا ہے ۔ کھدائیوں میں مختلف‬ ‫اقوام کے بنائے گئے بت ملے ہیں ۔جس سے بتوں کی اہمیت واضح‬ ‫ہوتی ہے۔ شکتی کے باعث ’’بت‘‘ معاشروں کے حقیقی اقتدار اعلی‬ ‫سمجھے گئے ہیں۔ بت‪ ،‬موحد کے لئے کراہت جبکہ بت پرستوں کے‬

‫دلوں میں احترام کے احساس پیدا کرتے ہیں۔‬ ‫اردوغزل میں لفظ’’بت‘‘ کا زیادہ تر محبوب کے معنوں میں استعمال‬ ‫ہواہے۔ انشا نے بت کو ایسا خوبصور ت محبوب جو دلی میں دوئی بن‬ ‫کر براجمان ہوجائے ‪ ،‬کے حوالہ سے نظم کیا ہے‬ ‫جادو ہے نگہ چھب ہے غضب قہر ہے مکھڑا اور قدہے قیامت‬ ‫اللہ کی قدرت (‪)۳۶‬انشا غارت گردیں ہے وہ بت کافر ہے سراپا‬ ‫بت کے ساتھ ’’کافر‘‘ پیوند کرکے اس کی کارگزاری (غارتگردیں)‬ ‫واضح کر دی گئی ہے۔‬ ‫محمد شاکر ناجی ؔ کے ہاں ‪ ،‬وہ جو اپنے وصف کے سبب اچھا لگے‬ ‫‪ ،‬اس کے متعلق باتیں سننا خوش آتا ہوگویا دلی ودماغ میں گھر کرے‬ ‫اور یاد مسلسل بن جائے ‪ ،‬کے معنوں میں استعمال کیا گیاہے۔‬ ‫اے صبا کہہ بہار کی باتیں اس بت گلعذار کی باتیں (‪)۳٧‬ناجی‬‫جرات نے بت کو فلرٹ کرنے والا’’چالو‘‘ اورعیار کے طور پر استعمال‬ ‫کیا ہے‬ ‫کیا بات کوئی اس بت عیار کی سمجھے بولے ہے جو ہم سے تو‬ ‫اشارت کہیں اور(‪ )۳۸‬جرات‬‫غالب نے ایسا محبوب جس سے پوجا کی حدتک محبت کی جائے ‪ ،‬کے‬ ‫معنوں میں لیاہے‬ ‫چھوڑوں گا میں نہ اس ب ِت کافر کا پوجنا چھوڑے نہ خلق گو مجھے‬ ‫کافر کہے بغیر‬

‫ایک دوسری جگہ ‪ ،‬اس کی محبت کو ‪ ،‬ایمان کا درجہ دے رہے ہیں‬ ‫کیونکر اس بات سے رکھوں جان عزیز کیا نہیں ہے مجھے ایمان‬ ‫عزیز‬ ‫ایک شعر میں طنزکا نشانہ بناتے ہیں‬ ‫تم بت ہو پھر تمہیں پندا ِر خدائی کیوں ہے تم خداوند ہی کہلاؤ خدااور‬ ‫سہی‬ ‫درج بالا مثالوں میں بت کے ساتھ لف ِظ تخصیص بھی نظم ہواہے‬ ‫انشا ‪ ،‬غالب ب ِت کافر‬ ‫ب ِت گلعذار ناجی‬ ‫ب ِت عیار جرات‬ ‫اس بت غالب‬ ‫تم بت غالب‬ ‫ان سابقوں اور لاحقوں کی مدد سے بت پہچان سے باہر نہیں‬ ‫رہتا۔ایسے ہی جیسے لات و منات‪ ،‬شیو‪ ،‬وشنویا برہما‪ ،‬شتی کی‬ ‫مورتیاں ۔ یہ بت سونے چاندی اور پھولوں سے لدھے رہتے ہیں ۔‬ ‫محبوب بھی بناؤ سنگار سے غافل نہیں ہوتے۔‬ ‫برہمن ‪:‬‬ ‫برہمن کو بتکدے (مندر) کی حرمت اور احترام کا امین سمجھا‬ ‫جاتارہاہے ۔ اس کی وجہ سے ہندودانش کے تمام حوالے ہندوسماج‬‫میں پھلے پھولے ہیں۔ اسے ہند ودھرم کا رکھوالا اور پرچا رک سمجھا‬

‫جاتا رہاہے۔ ہندوگیان دھیان سے متعلق اس نے دوسروں سے زیادہ‬ ‫علم اور ویدان حاصل کیا ہوتاہے۔ دوسراوہ اونچی ذات سے متعلق‬ ‫ہوتاہے اس لئے ہند و سماج میں محترم رہاہے ۔ اسے ’’برہمن دیوتا‘‘‬ ‫بھی کہا جاتارہاہے ۔ برہمن اپنے موقف میں ضدی‪ ،‬اڑیل اور ہٹھیل‬‫سمجھا جاتاہے ۔ لفظ برہمن جب ذہن کے پردوں سے ٹکراتاہے تو ہندو‬ ‫دھرم سے متعلق لوگوں کے روم روم میں پرنام کے چشمے ابلنے‬ ‫لگتے ہیں ۔ لفظ برہمن اردو شاعری میں مختلف حوالوں سے نمودار‬ ‫ہوا ہے‬ ‫مومن نے فدا ہوجانے والا‪ ،‬اڑ جانے والا ‪ ،‬تل جانے والا ‪ ،‬دیوانہ‬ ‫وغیرہ کے معنوں میں استعمال کیاہے۔ ؂‬ ‫بن ترے اے شعلہ روآتشکدہ تن ہوگیا‬ ‫شمع قدپر میرے پروانہ برہمن ہوگیا(‪)۳۹‬مومن‬ ‫یقین ناکامی پر سٹپٹانے والا کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ ؂‬ ‫برہمن سر کو پیٹتا تھا دیر کے آگے‬ ‫خداجانے تری صورت سے بتخانے پر کیا گزرا (‪)۴٠‬یقین‬‫محمد عظیم الدین عظیم فنا ہوکر وصل کا طالب ‪ ،‬جس کا جذب و خلوص‬ ‫اور استقلال متاثرکرے‪ ،‬وہ جسے ہرکوئی دلی دے بیٹھے ‪ ،‬ایسا‬ ‫محبوب جو بہت سوؤں کا عشق اپنے سینے میں مخفی رکھنے‬ ‫والاوغیرہ معنوں میں استعمال کیاہے ؂‬ ‫برہمن جس کے دلی میں آرزو ہے مرکے درسن کی‬ ‫)مجھے ہے آرزو ہر وقت درسن اس برہمن کی (‪۴۱‬‬

‫عظیم اس حس ِن عشق آمیز نے مجھ دلی کوں گھیراہے‬ ‫)برہمن ہر کاعشق ہے ‪،‬میں عاشق ہوں برہمن کا (‪۴٢‬‬ ‫غالب نے ستاروں کا حساب کرکے مستقبل کی پیش گوئی کرنے ولا‬ ‫اور دھرم سے وفادار ی کرنے والا کے معنوں میں نظم کیاہے‬‫اک برہمن نے کہا یہ ؂ دیکھئیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض‬ ‫سال اچھا ہے‬‫؂ وفاداری بشر ِط استواری اصل ایماں ہے مرے بت خانے میں توکعبے‬ ‫میں گاڑو برہمن کو‬ ‫بسمل‪:‬‬ ‫بسمل جان قربان کرنے کے حوالہ سے اپنا جواب نہیں رکھتا ۔‬ ‫وفاداری او ر استواری اس کردار کاخصوصی وصف سمجھا جاتاہے۔‬ ‫میدان میں اترنے والے کے ہاں زندہ رہنے کی امید ہوتی ہے لیکن‬ ‫بسمل کو تڑپ تڑپ کر کشتہ ہونے کا یقین ہوتاہے۔ وہ اس کو ہی اپنی‬ ‫کامیاب او رمنزل سمجھتا ہے۔ اِسی حوالہ سے وہ ’’بسمل‘‘ کے لقب‬ ‫سے ملقوب ہوتاہے۔ جلتے ہوئے تڑپنا معشوق کو تسکین دیتاہے ۔‬‫اسے اس کے عاش ِق صادق ہونے کا یقین ہوجاتاہے تاہم دوسری طرف‬‫اذیت پسندی کے الزام سے بھی بری نہیں ہو پاتا ۔ اذیت پسندی پیمانے‬ ‫متوازن نہیں رہنے دیتی ۔ بسمل کے حوالہ سے تین طرح کے رویے‬ ‫ابھرتے ہیں‬ ‫الف ۔ حیرت انگیز وفاداری اور استواری‬ ‫ب۔ وفاداری کے یقین کے لئے اتنی کھٹن آزمائش کہ عاشق جان سے‬

‫جائے‬ ‫عشق کی یقین دہانی کے لئے جان پر کھیل جانا سراسر حماقت ج۔‬ ‫اور نادانی ہے‬ ‫بسمل ‘‘ کو جان دینے اورمعشوق کو آزمانے میں ’’جوبھی سہی‬ ‫آسودگی حاصل ہوتی ہے‬ ‫اردو شاعری میں یہ کردار پوری آب وتاب سے زندہ نظر آتاہے ۔کرم‬ ‫دادخاں درد کاکہنا ہے ۔ محبوب کے آستانے کا احترام ملحوظ خاطر‬ ‫رکھتے ہوئے بسمل کے لئے لازم ہے کہ وہ تڑپے لیکن محبوب کے‬‫آستانے کی خا ک پر با ل وپر نہ لگنے پائیں۔محبوب ‪ ،‬عاشق صادق کی‬‫تڑپت کانظارہ کرے۔ ساتھ میں اس کے آستانے کی خاک کسی کے خون‬ ‫سے آلودہ نہ ہو یعنی اس خاک پر خون ہونے کا الزام بھی نہ آنے‬ ‫پائے ۔ ؂‬‫ادب ضرورہے اس خاک آستانے کا تڑپھ تو اس طرح بسمل کہ بال وپر‬ ‫نہ لگے(‪)۴۳‬درد‬ ‫خواجہ درد کا موقف ہے کشتے کا کچارہ جانا اور کشتہ کا ر کااس‬ ‫سے غافل ہوجانا درست نہیں کشتہ۔ میں خامی نہ رہناہی کشتہ‬ ‫کارکاکمال ہے۔ ؂‬ ‫نیم بسمل کوئی کسوکو چھوڑ اس طرح بیٹھتا ہے غافل ہو(‪)۴۴‬درد‬ ‫مہ لقابائی چندا نے نکتہ نکالا ہے۔ ؂‬ ‫قدموں پہ سر تھا کوئی روبروئے تیغ ابھی تڑپ سے رہا بسملوں کا‬ ‫جی (‪ )۴۵‬چندا‬

‫غالب کے نزدیک بسمل کو اذیت لطف دیتی ہے لہذا جس قدر ممکن ہے‬ ‫اسد اذیت (مشق ناز) دو ۔ متقولین کاخون میں اپنی گردن پر لیتا ہوں‬ ‫کہ مش ِق ناز کر خو ِن بسمل ہے کس انداز کا قاتل سے کہتاہے‬ ‫دوعالم میری گردن پر‬‫یہ کردار وفا شعاری ‪ ،‬استقامت ‪ ،‬استواری اور معاملے سے کمٹ منٹ‬ ‫کا لاجواب نمونہ پیش کرتاہے۔‬ ‫بشر‪:‬‬ ‫بندہ بشر‘‘ عام بولا جانے والامحاورہ ہے۔ اس محاورے میں لغزش ’’‬ ‫آدم کا واضح طور پر اشارہ موجود ہے۔ گویا بشر سے غلطی کوتاہی‬ ‫ناممکنات میں نہیں۔ وہ انسانیت کے کسی بھی درجے پر فائز ہوجائے‬ ‫اس سے چوک ہوہی جاتی ہے ۔ لفظ بشر ایسے کردار کو سامنے‬ ‫لاتاہے جو ضدین کا مجموعہ ہے۔ اس کی کسی لغزش یاکسی کارنامے‬ ‫پرحیرت نہیں ہونی چاہیے ۔ اچھائی ‪ ،‬برائی دونوں عناصر اس کی‬ ‫فطرت کاحصہ ہیں۔‬ ‫بشری کوتاہیوں ‘‘ کا ریکارڈ تاریخ اور ’’محتاط اور بڑے لوگوں کی‬ ‫آسمانی کتابوں میں موجودہے ۔ اردو غزل میں لفظ ’’بشر‘‘مختلف‬ ‫حوالوں سے پینٹ ہواہے۔‬ ‫حافظ عبدالوہاب سچل کاکہناہے بشر کے ظاہر کو دیکھ کر کوئی اندازہ‬ ‫لگا لینا مناسب نہیں ۔ بشر کے باطن میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ‬ ‫وہ اپنے باطن میں کیا کمال کے خزینے چھپائے بیٹھا ہے ؂‬ ‫صور ت بشر کی ہے مری‪ ،‬ظاہر گد اگر ہوں بنا‬

‫باطن کی پہچانے مرے ‪،‬‬ ‫)سلطان ہوں‪ ،‬سلطان ہوں (‪۴۶‬‬ ‫علامہ حالی کے نزدیک بشر اگر کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دیتا تو‬ ‫اس کی حیثیت صفر زیادہ نہیں ۔ ؂‬‫بشر سے کچھ ہوسکے نہ ایسے جینے سے کیا فائدہ ہمیشہ بیکار تجھ‬ ‫کو پایا ‪ ،‬کبھی نہ سرگرم کاردیکھا (‪)۴٧‬حالی‬ ‫غالب بشر سے ’’بندہ بشر‘‘ ہی مراد لے رہے ہیں ۔ ؂‬ ‫دیا ہے دلی اگر اس کو‪ ،‬بشر ہے‪،‬کیا کہیے‬ ‫ہو ا رقیب توہو‪ ،‬نامہ برہے‪ ،‬کیاکہیے‬ ‫بشر کوئی فوق الفطر ت مخلوق نہیں جواس سے صرف خیر کی توقع‬‫رکھی جائے ۔ اس سے خیانت اور بددیانتی ‪ ،‬کوئی حیرت کی بات نہیں۔‬ ‫بلبل ایران کا خوش گلو پرندہ ہے ۔فارسی اور اردو شعرا نے‬ ‫بلبل‪:‬‬‫اس لفظ کو مختلف مفاہیم میں استعمال کیا ہے ۔ علامتی اور استعاراتی‬ ‫استعمال بھی پڑھنے کو ملتا ہے ۔ اس لفظ کے استعمالات کی نوعیت‬ ‫کے مطابق‪ ،‬مختلف قسم کے سماجی ‪ ،‬معاشرتی اور سیاسی حوالے‬ ‫ذہن میں ابھرآتے ہیں۔تاہم خوش الحانی اس کردار کا بنیادی وصف‬ ‫رہاہے ۔ درد سوز وگداز اور نوحہ گری کی مختلف صورتیں بھی‬ ‫سامنے آتی ہیں ۔ ارد وغزل مینیہ کردار مختلف حوالوں سے بڑا‬ ‫متحرک رہاہے۔مثلاا‬

‫مظہر جان جاناں کے ہاں عشق میں محبوب کے ہاتھوں سب کچھ لٹا‬ ‫دینے والا کے طور پر نمودار ہواہے ؂‬ ‫گئی آخر جلا کر گل کے ہاتھوں آشیاں اپنا‬ ‫نہ چھوڑا ہائے بلبل نے چمن میں کچھ نشاں اپنا(‪)۴۸‬مظہر‬ ‫بہادر مرزاخرد کے مطابق محبوب جب آزادی چھین لینے کی تمنا‬ ‫کرتاہے تویہ اس کی تمناکی تکمیل کے لئے از خود پابہ زنجیر‬ ‫ہوجاتاہے ؂‬ ‫بلبل کو پر لگادئیے دلی اڑا کے پہنچا ‪ ،‬جب ہو ااس گل کوشو ِق صید‬ ‫شو ِق شکارنے (‪)۴۹‬خرد‬ ‫خواجہ برہان الدین آثمی ؔ نے بلبل کے ذریعے اپنے عہدے کے‬‫پرگھٹن حالات اور شخص کی بے اختیاری کو واضح کیاہے۔ بے اختیار‬ ‫اور آزادی سے محروم چہرے پر مسکراہٹ حرام ہوجاتی ہے لیکن وہ‬‫روبھی نہیں سکتا ۔ اس کی حیثیت کسی کل پرزے سے زیادہ نہیں ہوتی‬ ‫؂‬ ‫جہاں میں آنکھ جو میں وہ بلبل ہوں کہ صیاد کے گھر بیچ پیدا ہوا‬ ‫کھولی قفس میں آشیاں دیکھا(‪)۵٠‬آثمی‬‫میر باقر حزیں کے مطابق خوبصور ت حالات میسر ہوں تو نقل مکانی‬‫کی کو ن سوچتا ہے تاہم غاصب کے جبر کے زیر اثر سب کچھ چھوڑنا‬ ‫پڑتاہے ۔ حزیں نے ’’بلبل ‘‘ کے حوالہ سے حالات کی ناخوشگواری‬ ‫واضح کی ہے۔ ؂‬ ‫یہ کہہ کے باغ سے رخصت ہوئی بلبل کہ یاقسمت‬

‫لکھا تھا یوں کہ فص ِل گل میں چھوڑیں آشیاں اپنا(‪)۵١‬حردیں‬‫غالب کے ہاں یہ کردار بطور نوحہ گر استعمال ہواہے ۔ انسانی فطرت ‪،‬‬ ‫مختلف حالات میں مختلف رویے اختیار کرتی ہے۔ دکھ یا ڈپریشن کی‬ ‫صور ت میں حالات اور ماحول کی تبدیلی اسے ریلیف مہیا کرتی‬‫ہے۔جب نوحہ گر ساتھ میں ہوگا تووہ ناخوشگواری کوکیونکر بھولنے‬ ‫دے گا ۔ہمہ وقت کا رونا دھونا نہ صر ف زندگی کا لطف چھین لیتاہے‬ ‫بلکہ کچھ کر گزرنے کی حس کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچتاہے۔‬ ‫دیکھئیے غالب اس باب میں کیا کہتے ہیں ؂‬‫مجھ کو ارزانی رہے تجھ کو مبارک ہوجیو نالہ ء بلبل کا درد اور خندہ‬ ‫گل کا نمک‬‫بلبل گویا ایسا کردار ہے جو مسلسل مایوسی اور پریشانی پھیلاتا ہے ۔‬ ‫اس کے نالے شخص کے درد کو تازہ رکھتے ہیں۔‬ ‫بلبل کا متراد ف عندلیب اردو غزل میں استعما ل ہوتاآیاہے ۔ یکر نگ‬‫اس کردار کے حوالہ سے نکتہ نکالتے ہیں کہ عندلیب کی شایستہ اور‬ ‫کومل آواز اور اس کی آہ وفغاں چار سو پھیل کر توجہ حاصل کر لیتی‬ ‫ہے۔ توجہ پھر جانے کے سبب افسردگی کا عالم طاری ہوجاتاہے ؂‬ ‫کم نہیں کچھ بوئے گل سیتی فغان عندلیب‬ ‫بر ِگ گل سے ھیگی نازک ترزبا ِن عندلیب (‪)۵٢‬یکرنگ‬ ‫غالب کے ہاں اس کردار کی کار فرمائی اور ہی رنگ کی حامل ہے ۔‬ ‫شادی میں نوحہ گری کی موجودگی بھلا کس کو خوش آتی ہے ؂‬ ‫اے عندلیب یک کف خس بہر آشیاں طوفان آمدآمد فصل بہارہے‬

‫آم ِد فصل بہار میں نوحہ گر کو ’’آشیاں ‘‘ چھوڑنے کا مشورہ دینا ہی‬ ‫صائب لگتاہے کہ خواہ مخواہ رنگ میں بھنگ ڈالے گا۔‬ ‫بیمار‪:‬‬ ‫یہ تے (طے) سی بات ہے کہ بیمار کے شب و روز ناگواری ‪،‬‬ ‫پریشانی اور وسوسوں کا شکاررہتے ہیں ۔یہی نہیں بیماری اس کے‬‫اعصاب چٹ کر جاتی ہے اور اس کے سوچ کو منفی حوالوں کے ساتھ‬ ‫جوڑے رکھتی ہے۔ بیمار‪ ،‬تکلیف ‪ ،‬کمزوری اور سوچ کے منفی‬‫زوایوں کے سبب زندگی کے کسی میدان میں کوئی کردار اداکرنے سے‬ ‫لفظ بیمار‘‘ سنتے ہی ایک ایسے شخص کا تصور ’’قاصر رہتاہے۔‬ ‫سامنے آجاتاہے۔ جوہمدردی کا مستحق ہوتاہے لیکن اس کی ہر وقت‬ ‫کی مایوسی اور ہائے وائے دماغ پر بوجھ سابن جاتی ہے۔ اردو غزل‬‫میں یہ کردار نظر انداز نہیں ہوا۔ بیما ِر عشق کے علاوہ بیماروں کا ذکر‬ ‫بھی ملتاہے۔‬ ‫مرزاسودا کا کہنا ہے عارضے میں مبتلا شخص کا عجب حال ہو‬ ‫جاتاہے ۔ ہجر کا عارضہ سوچ کو جامد کرکے رکھ دیتاہے۔ ہجر کی‬ ‫بیماری انسان کو اندر سے کھائے چلی جاتی ہے ؂‬ ‫میں تو دیکھا نہیں ایسا تیری دوری سے عجب حال ہے اب سودا کا‬ ‫کوئی بیمار ہنور (‪)۵۳‬سودا‬ ‫ہوس‘‘ بڑھ جاتی ہے۔ ’’میاں محمدی مائل کا خیال ہے کہ بیماری کی‬ ‫اگرچہ ہوس بھی ذہنی عارضہ ہے ۔ ؂‬ ‫مشہور ہے جہاں میں کیا کہوں میں تجھ سے دلی زار کی ہوس‬ ‫بیمارکی ہوس (‪ )۵۴‬مائل‬

‫لالہ نول رائے وفا کے نزدیک بیمار کی بیماری سے اندازہ ہوجاتاہے‬ ‫کہ وہ زیادہ دیر کا نہیں ؂‬ ‫کہنے لگا وہ من کے مرا نالہ وفغاں یا ر ب جیا کرئے گا یہ بیمار کب‬ ‫تلک (‪ )۵۵‬وفا‬‫میر محمدی قربان کے نزدیک ’’نگہ کا بیمار‘‘ مسیحا کی دسترس سے‬‫باہر ہوتاہے۔ کوئی معالجہ (سمجھانابجھانا) اس پر کارگر ثابت نہیں ہوتا‬ ‫بلکہ نیتجہ الٹ ہی نکلتاہے ۔ نگا ِہ الفت کہ نگا ِہ قہر کا ڈسالاعلاج‬ ‫ہوتاہے ؂‬ ‫کسی کی برگشتہ کا ہوں میں بیمار یاں مسیحا کی ہوئی جاتی ہے تدیبر‬ ‫الٹی (‪)۵۶‬قربان‬ ‫جہاں دار کا بھی یہی نظریہ ہے ؂‬ ‫تیرے بیمار اب کے تےءں جو دیکھا مسیحا کی نہیں کرتی دوا خوب‬ ‫(‪ )۵٧‬جہاں دار‬ ‫محبت خاں محبت کے خیال میں بیما ِر عشق کا جینا مرنا برابر ہوتاہے‬ ‫۔وہ عمرانی حوالہ سے بیکا ِر محض ہوتاہے۔ ؂‬‫بالفرض جیا بھی تو جس کو تیری آنکھوں سے سر وکار رہے گا‬ ‫وہ بیمار رہے گا (‪)۵۸‬محبت‬ ‫غالب نے عاشق کے ساتھ ’’بیمار‘‘کا پیوند کرکے عشق کو بیماری‬ ‫قرار دیا ہے۔ان کے نزدیک یہ بیماری جان لے کر دم لیتی ہے ؂‬ ‫مندگئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں ہے ہے خو ب وقت آئے تم اس‬ ‫عاشق بیمار کے پاس‬

‫بیمار کا مترادف لفظ’’ مریض‘‘ بھی اردو غزل میں اپنی الگ سے‬ ‫پہچان رکھتاہے۔ یہاں بھی عاشق ہی مریض سے ملقوب نظر آتاہے‬ ‫میر صاحب کے نزدیک مر ِض عشق جان لے کر چھوڑتا ہے۔ عشق‬ ‫گویا ایک نفسیاتی عارضہ ہے جس کی شدت سے جان بھی جاسکتی‬ ‫ہے۔ ؂‬‫جینے کا اس مریض کے مت کر عجب جو میر ترے غم میں مرگیا‬ ‫کوئی بھی ڈھنگ تھا؟ (‪ )۵۹‬میر‬ ‫قائم کے خیال میں مری ِض عشق کا مرجاناہی اچھا ہے ۔ اس کا ہردم‬ ‫وبال ہوتاہے۔ وبال(اذیت) کا جینا بھی کیا جینا ہے۔ اس سے مرجان ہی‬ ‫بہتر ہوتاہے ؂‬‫جو دم تھا زندگی کا سو اس پر چھوٹا ترا مریض اگر مرگیا کہ شوخ‬ ‫وبال تھا(‪ )۶٠‬قائم‬ ‫میاں جگنو کے نزدیک ‪ ،‬مریض عشق‪ ،‬عارضہ عشق میں رہے تو‬ ‫اچھا ہے ۔ اس کا بہتر ہونا دوسروں کو بیمار کر دیتاہے۔ وہ قصہء‬ ‫عشق سنا سنا کر اوروں کو ہلکان کردے گا۔ ؂‬ ‫ایسے مریض عشق کو آزار ہی بھلا اچھا کبھی نہ ہووے یہ بیمار ہی‬ ‫)بھلا (‪۶١‬‬ ‫غالب کہتے ہیں مری ِض عشق کی حالت دیکھنے والا ‪ ،‬مریض کی‬ ‫مرض سے زیادہ واقف ہوتاہے۔ اگر کوئی معالج‪ ،‬تیمادار کے‬ ‫کو نظر انداز کرکے دعوی باندھے کہ یہ اچھا ہوجائے ‪Coments‬‬ ‫گا اور اگر وہ اچھا نہ ہوتو مسیحا کو سزا(جرمانہ) دی جائے ۔ ایک‬ ‫دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ جب تک مر ِض عشق کو ہوا دینے والے‬

‫باقی رہیں گے کسی کی مسیحائی کا م نہ آسکے گی ؂‬ ‫لوہم مری ِض عشق کے تیمادار ہیں اچھااگرنہ ہوتو مسیحا کاکیا علاج‬ ‫اس لفظ کا علامتی اور استعارتی استعمال ہوتاآیا ہے ۔ پروانہ‪:‬‬ ‫پروانہ ‪ ،‬ایثار‪ ،‬قربانی اور متا کی علامت ہے۔ اسے ہر حال میں قربان‬ ‫ہونا ہوتاہے۔ اردو غزل میں یہ کردار بڑا معتبر ‪ ،‬متحرک اور جاندار‬‫چلا آتاہے۔ یہ عاشق ‪ ،‬دھرتی اور مذہب پر قربان ہونے والا کے طور‬‫پر پڑھنے کو ملتاہے۔ استاد ذوق کے نزدیک وہ جو منزل مقصود سے‬ ‫دور اور منزل تک رسائی کے وسائل نہ رکھتاہو ؂‬ ‫بلبل ہوں صحن باغ سے دور اور شکستہ پر پروانہ ہوں چراغ سے‬ ‫دور اور شکستہ پر (‪ )۶٢‬ذوق‬ ‫پروانہ کے لئے لفظ پتنگا بھی استعمال ہواہے ۔ خسرو نے اس سے‬ ‫مراد عشق کی آگ میں جل مرنے والا لیاہے۔ ؂‬ ‫میرا جو بن تم نے لیا تم نے اٹھا غم کو دیا تم نے مجھے ایسا کیا‬ ‫)جیسا پنتگا آگ پر (‪۶۳‬‬ ‫غالب کے ہاں بطور حسن شناس ‪ ،‬محبوب کے متعلق کسی قسم کی‬ ‫شکایت پر وکالت کرنے والا کے معنوں میں لیاگیا ہے۔‬ ‫؂ جاں در ہوائے یک نگ ِہ گرم ہے اسد پروانہ ہے وکیل ترے داد خواہ‬ ‫کا‬ ‫جلاد‪:‬‬ ‫لفظ ’’جلاد‘‘ خوف اور نفرت پیداکرتاہے۔ ظالم ‪ ،‬جابرا ور اذیت پسند‬ ‫کے لئے بولاجاتاہے۔ یہ سرکاری ملازم ہوتاہے۔ اپنی مرضی سے‬

‫کسی کو کوڑے نہیں لگاتا اور نہ ہی کسی کی جان لیتا ہے۔ حاکم کے‬ ‫حکم سے جیلر یاکسی دوسرے عہدیدار کی موجودگی میں‪ ،‬حاکم کے‬‫حکم کی تعمیل کرتاہے اوراِس ضمن میں کسی رورعایت سے کام نہیں‬ ‫لیتا۔ ترس یارحم کی صورت میں حاکم کے حکم کی تعمیل نہیں ہو پاتی‬‫۔سنگدلی اور بے حسی کے حوالہ سے کنایتہ جلاد کا لفظ استعمال میں‬ ‫آتاہے۔‬‫انعام اللہ یقین نے زندگی کی کھٹورتاکو سامنے رکھتے ہوئے جلاد کے‬ ‫کردار کوواضح کیاہے کہ وہ زندگی کے مصائب وآلام سے نجات‬ ‫دلاتاہے۔ اس لئے خون بہااسی کو پہنچنا چاہیے ؂‬ ‫چھٹے ہم زندگی کی قید سے اور داد کو پہنچے وصیت ہے ہمارا خوں‬ ‫بہا جلاد کو پہنچے (‪)۶۴‬یقین‬ ‫ولی دکنی فلک کو جلاد کا نام دے رہے ہیں ۔ تاہم انسان کا ’’غمزہ ء‬ ‫خون ریز‘‘ کی تاب وہ بھی نہیں لا سکتا ؂‬ ‫ہے شور دریا میں زخمی ہے جلا ِد فلک تجھ غمزہء خوں ریز کا‬ ‫سدا تجھ زلف عنبربیزر کا (‪)۶۵‬ولی‬ ‫سید عبدالولی عزلت کا کہناہے جب زندگی سے نجات کی خواہش ہوتی‬ ‫ہے جلاد زندگی سے نجات نہیں دلاتا بلکہ اذیت میں مبتلا کودیکھتا‬ ‫رہتاے۔ ؂‬ ‫نیم بسمل ہوا میں تیغ نگہ تب رکھ لی کس بھلے وقت بر ا ہوگیا جلاد‬ ‫کہ بس (‪ )۶۶‬عزلت‬ ‫شہید کے نزدیک جلا دبے اعتبار ا ہے۔ آرزو کا قتل کرتاہے۔ مارنے‬

‫سے زیادہ دیکھ میں دکھ کر آسودگی محسوس کرتاہے ؂‬ ‫ہمارے سر پر آکر شہید آخر مقدر تھا ہمیں حسرت میں جی دیتا‬ ‫پھر گیا جلاد یاقسمت (‪)۶٧‬شہید‬ ‫غالب جلاد کے حوالہ سے محبوب کی اذیت پسندی اجاگر کرتے ہیں۔‬‫جلاد بڑی بے دردی سے ماررہاہے۔ وہ توسنگدل ہے ہی‪ ،‬محبوب کہے‬ ‫محبوب کو اذیت نواز سے واسطہ ۔‘‘جارہاہے ’’اور مارو‪ ،‬اور مارو‬ ‫ہے ۔ کہتے ہیں جلاد کی بے رحمی کے سبب جان ہی کیوں نہ چلی‬ ‫جائے لیکن محبوب کی آواز ’’اور مارو‘‘ کا ن میں پڑتی رہنی‬‫چاہیے۔محبوب رحم سے کوسوں دور ہے جبکہ مضروب کو محبوب کی‬ ‫عدم تسکین لطف دے رہی ہے ؂‬ ‫مرتا ہوں اس آواز پہ ہر چند سراڑ جائے جلاد کو لیکن وہ کہے جائیں‬ ‫کہ ہاں اور‬ ‫حسن ‪:‬‬ ‫اللہ تعالی نے انسان کی سرشت میں ذو ِق جمال رکھ دیا ہے ۔ اس لئے‬ ‫حسن شناسی کی تاریخ انسان کے ساتھ چلتی ہے ۔ جس کا ثبوت ہابیل‬ ‫حسن‘‘ اپنا الگ سے وجود نہ رکھتے ہوئے انسانی ’’کا قتل ہے۔‬ ‫زندگی میں بڑے معتبر اور متحرک کردار کا حامل ہے۔ حسن نے بلا‬ ‫امتحان کسی کو اپنا نہیں بنایا ۔ اردو غزل میں حسن کے کردار کو‬ ‫مختلف حوالوں اور زوایوں سے اجاگر کیاگیا ہے۔‬ ‫شاہ ولی ا للہ ولی کا کہنا ہے حسن ایک معجزہ ہے ۔ شکتی دیتا ہے ‪،‬‬ ‫روشنی پھیلاتا ؂‬

‫خوبی اعجاز حس ِن یار گر انشاکروں بے تکلف صفحہء کاغذید‬ ‫بیضاکروں (‪ )۶۸‬ولی ؔ‬ ‫محمد عظیم الدین عظیم کے مطابق حسن آگ ہے جواس کے قریب‬ ‫ہوتاہے جل کر کباب ہوجاتاہے۔ ؂‬ ‫گلشن میں جب وہ گل رومس ِت شراب ہوئے اس حس ِن آتشیں پر بلبل‬ ‫کباب ہوئے (‪ )۶۹‬عظیم‬ ‫انسان نیکی ‪ ،‬خوبصورتی اورہم آہنگی کی جانب فطری میلان‬‫اس لئے لفظ ’’حسن ‘‘ اس کے تمام حواس بیدا ر کردیتا )رکھتاہے(‪٧٠‬‬‫ہے اور اپنے ارد گرد اس کو تلاشنے لگتاہے۔ اشیاء کے مثبت پہلوؤں‬ ‫پر غور کرتاہے۔ اشیاء میں خوبیاں تلاش کر تاہے پھر اسے بدبو دار‬‫کوڑا بھی برا نہیں لگتا اور کراہت کی حیثیت لایعنی ہوکر رہ جاتی ہے ۔‬ ‫حسن‘‘ ظاہر میں کچھ ہے ’’حسن درحقیقت تحریک کا دوسرانام ہے۔‬ ‫اور بعض اوقات اپنی کریہہ ہےئت کے سبب وجہ ء امتحان ٹھہرتاہے‬‫۔جونہی ظاہری لبادہ چاک ہوتاہے افادے کا دروازہ کھل جاتاہے ۔یہ بھی‬ ‫ممکن ہے ظاہر جاذ ِب نظر ہو جبکہ باطن کریہہ اور قابل نفرت بھی نہ‬ ‫ہو۔ حسن اپنی سرشت میں مقناطیست رکھتاہے اس لئے وہ متاثرہ‬ ‫کرتاہے تاہم ہرکسی پر اس کے فیوض کے خزانے نہیں کھلتے ۔ بقول‬ ‫غلام رسول مہر‬ ‫خود کوسادہ اور بے خبر ظاہرکرتاہے لیکن اپنی اصل میں بڑا ’’‬ ‫ہوشیار اور پر کار ہوتاہے۔ لوگوں کے حوصلے ہمت اور صبر واستقلا‬ ‫)۔(‪‘‘۷۱‬ل کا امتحان لیتاہے‬ ‫غالب کی زبانی سنےئے ۔ ؂‬

‫سادگی و پرکاری وبے خودی وہشیاری حسن کو تغافل میں جرات‬ ‫آزماپایا‬ ‫دشمن ‪:‬‬ ‫نفرت اور محبت انسانی زندگی کا حصہ رہے ہیں ۔ جہاں انسان ‪،‬‬‫انسان کے دکھوں کامداوا کرتاچلاآرہاہے وہاں انسان دشمنی بھی عروج‬ ‫پر رہی ہے۔ چونکہ تضاد انسان کی فطرت کاجزو ہے اس لئے دوستی‬ ‫کے ساتھ دشمنی ایسی کوئی نئی اور انوکھی چیزنہیں ہے۔ یہ لفظ‬ ‫برصغیر کی مختلف زبانوں میں ا سی طرح یاتھوڑی بہت تبدیلی کے‬ ‫ساتھ رائج چلا آتاہے۔ یہ لفظ ڈر خوف اور نفرت کے ساتھ ساتھ تحفظ‬ ‫ذات کااحسا س بھی پیداکرتاہے۔‬ ‫شاہ نصیر کے نزدیک کسی سبب کے باعث دشمنی جنم لیتی ہے ؂‬ ‫مجنوں سے ہے جو ناقہ ء لیلی کو دوستی دشمن ہے اس لئے وہ‬ ‫بیاباں میں خار کا (‪ )٧٢‬شاہ نصیر‬ ‫مرزا مظہر جا ِن جاناں ایسے دوست جس کا کردار بدترین دشمن کا‬ ‫ساہو ‪ ،‬کے لئے دشمن کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ ؂‬‫غلط تھا تجھ کو جو تونے کی سو دشمن بھی نہیں دشمن سے کرتاہے‬ ‫جوہم جانتے تھے مہر باں اپنا(‪)٧۳‬جاناں‬ ‫دشمن ‘‘ ہی لفظ استعمال میں لاتے ہیں۔ ؂’’رقیب کے لئے بھی‬ ‫ہمارے سامنے پہلو میں وہی کیوں نہیں اٹھتی قیامت ماجراکیاہے‬ ‫)وہ دشمن کے بیٹھے ہیں(‪٧۴‬‬ ‫دشمن ‘‘ کے ایک دوسرے کردار پر روشنی ڈالتے ہیں ؂’’غالب‬

‫عشق میں بیدادرش ِک غیر نے مارا مجھے کشتہ ء دشمن ہوں آخر‬ ‫گرچہ تھا بیمار دوست‬ ‫بلاشبہ رقیب سے بڑ ادشمن کون ہوگا۔ رقابت قطرہ قطرہ نچوڑتی ہے۔‬ ‫دوست ‪:‬‬ ‫لفظ دوست تہذیبی اور ثقافتی تاریخ میں بڑا مضبوط اور توانا حوالہ‬‫رکھتاہے ۔ انسانوں نے انسانوں کو اور قوموں نے قوموں کو معاملا ِت‬ ‫حیات کے ضمن میں ‪ ،‬وقت پڑنے پر یا پھر من کا بوجھ ہلکا کرنے‬ ‫کے لئے دوست بنایاہے۔ ان پر اعتماد کیا ہے ان سے معاشی لین دین‬ ‫رکھاہے۔ ان سے خونی رشتے استوار کئے ہیں۔ان کے لئے خون بہایا‬ ‫ہے۔ تاہم اعتماد جیت کر برباد کرنے والے بھی دوست ہی رہے ہیں ۔‬ ‫اس منفی حقیقت کے باوجود لفظ ’’دوست ‘‘ اپنے دامن میں وسعت‪،‬‬‫توانائی ‪ ،‬خلوص و محبت اور پاکیزگی رکھتا ہے ۔ انسان کا اعتمادبحال‬‫کرتاہے۔ حوصلے اور تسلی کا سبب بنتاہے۔ یہ لفظ یقیناابڑاخوبصور ت‬ ‫اور اعصاب پر مثبت اثرات مرتب کرنے اور نفسیاتی تسکین فراہم‬ ‫کرنے والا ہے۔دوست کا کردار ہمیشہ سے متحرک رہاہے۔ خدااور‬ ‫معشوق کے لئے بھی یہ استعمال میں آتا رہاہے۔ اردو غزل سے چند‬ ‫‪:‬مثالیں ملاحظہ ہوں‬ ‫میر حیدر الدین کامل کا کہنا ہے کہ دوست ‪ ،‬دوست کی خطاؤں سے‬ ‫درگذرکرتاہے اور اسے معاف کردیتاہے۔ دوست کایہ کردار سچی اور‬ ‫سچی دوستی کی نشاندہی کرتاہے۔ ؂‬ ‫دوست بخشے گا دوست سب کے سب گرچہ عاصی ہوں اس کا آسی‬ ‫ہوں (‪)٧۵‬کامل‬

‫دوستی کایہ پیمانہ اللہ تعالی کی ذا ِت گرامی پر فٹ آتاہے ۔تاہم دوستی‬ ‫ایسے حوالوں کی متقاضی ہے ۔‬ ‫داغ دہلوی کہتے ہیں دوست ‪،‬دوست کے لئے مخبری کافریضہ بھی‬ ‫سرانجام دیتاہے ؂‬ ‫قسم دے کر انہی پوچھ لو تم رنگ ڈھنگ ان کے‬ ‫تمہاری بزم میں کچھ دوست بھی دشمن کے بیٹھے ہیں(‪)٧۶‬داغ‬ ‫مرزامظہر جا ِن جاناں کے مطابق دوست اپنابناکر لو ٹ لیتے ہیں ؂‬ ‫ہمارے ساتھ سے یہ دلی بھی بھاگالے کے جاں اپنا‬ ‫ہم اس کو جانتے تھے دوست مہرباں اپنا(‪ )٧٧‬جاناں‬ ‫خواجہ درد کے نزدیک دوستوں کی دوستی بھی مقدرسے میسر آتی‬ ‫ہے۔ نصیب یاوری نہ کرے تو دوست دشمن بن جاتے ہیں۔ ؂‬ ‫یاوری دیکھیے نصیبوں کی دوست بھی ہوگئے مرے دشمن (‪ )٧۸‬درد‬ ‫غالب کا انداز بیاں اور بقول شاداں بلگرامی‬‫دوست ہمیشہ ہمدردی اور غمخواری کرتے ہیں تاہم دوست کانوں کے ’’‬ ‫)کچے اور چغلی سن کر بدگمان بھی ہوجاتے ہیں۔(‪۷۹‬‬ ‫؂ دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا‬ ‫زخم کے بھرآنے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا‬ ‫‪:‬ایک دوسری جگہ کہتے ہیں‬ ‫؂ تاکرے نہ غمازی کر لیاہے دشمن کو دوست کی شکایت میں ہم نے‬

‫ہم زباں اپنا‬ ‫رقیب‪:‬‬ ‫کسی معاملے کی پوشیدگی کے ساتھ ساتھ من کا بوجھ ہلکا کرنے ‪،‬‬ ‫اپنے ‘‘ کی ’’صلاح ومشورہ ‪ ،‬واسطوں اور رابطوں کے لئے کسی‬ ‫یہ اپنے ‘‘ نقصان کا سبب بنتے ’’ ضرورت ہوتی ہے۔ اکثر و بیشتر‬‫ہیں۔ جوپہلے سے رقابت رکھتا ہو اس سے نبر دآزما ہونا‪ ،‬مشکل کا م‬‫نہیں ہوتا تاہم خفیہ رقابت نقصان کا موجب بنتی ہے۔ جب بھی اس قسم‬‫کے کردار کاحوالہ سامنے آتاہے ۔ نفرت اور کراہت کے جذبات ابھرتے‬‫ہیں اس لئے ایسے کردار سے خوف کھانافطری سی بات ہے ۔ ایک ہی‬ ‫محبوب کے دوعاشق آپس میں رقیب ہوتے ہیں ۔اردو غزل میں سے‬ ‫چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں‬ ‫شاہ ولی اللہ اشتیاق نے دعوی باندھنے اورر ائے دہندہ کے معنوں‬ ‫میں یہ لفظ استعمال کیاہے ؂‬ ‫نہ چھوڑا ماربھی کھاکر گزر گلی کاتری رقیب کو مرے دعوی ہے بے‬ ‫حیائی کا (‪ )۸٠‬اشتیاق‬ ‫محمد عظیم الدین عظیم نے گھات میں رہنے ولا ‪ ،‬نشانہ ہدف بنانے‬ ‫والا ‪ ،‬جس سے خوف آتاہو کے معنوں میں استعمال کیاہے ؂‬ ‫چھپ دیکھتا ہوں تجھ کو رقیباں کے خوف سے‬ ‫مکھ میں نین ‪،‬نین میں نظر‪ ،‬میں نظر میں ہوں (‪ )۸١‬عظیم‬ ‫خواجہ درد نے رقیب کو حاسد کے معنی پہنائے ہیں۔ ؂‬ ‫آنسومرے جوانہوں نے پونچھے کل دیکھ رقیب جل گیا(‪)۸٢‬در د‬

‫چندا نے رکاوٹ ڈالنے والا ‪ ،‬حائل ہونے والا کے معنوں میں نظم‬ ‫کیاہے ؂‬ ‫ہر گز نہیں رقیب دیکھا چمن میں واسطے بلبل کے جابجا‬ ‫سواکوئی خار گل(‪ )۸۳‬چندا‬ ‫میر سعادت علی سعادت کے نزدیک رقیب وہ نادان کردار ہے جس کی‬ ‫نادانی کے سبب کسی دوسرے کا کام سنور جاتاہے۔(‪ )۸۴‬غالب انتہائی‬ ‫قرابت دار اورہم راز کو رقیب کا نام دیتے ہیں ۔ قرابت کے سبب رقابت‬‫میں مبتلا ہوکر دشمنی پر اترآتاہے ۔ خیانت کا مرتکب ہوتاہے ۔ بھروسہ‬ ‫اور یقین سے فائدہ اٹھاکر نقصان پہنچاتاہے ؂‬ ‫ذکر اس پری وش کا پھر بیاں اپنا غالب بن گیا رقیب آخر تھا جوراز‬ ‫داں اپنا‬ ‫ساقی‪:‬‬ ‫شراب پلانے والے کے لئے بولا جاتاہے ۔ اس سے ‘‘لفظ ’’ساقی‬ ‫ہادی‪ ،‬پیرو مرشد ‪ ،‬حضور‪ ،‬محبوب ‪ ،‬معشوق وغیرہ معنی بھی مراد‬ ‫لئے جاتے ہیں ۔یہ لفظ عوامی نہیں لیکن اردو اور برصغیر کی کئی‬‫دوسر ی زبانوں کی شاعری میں نظم ہوتا آرہا ہے ۔ یہ لفظ اہل ذوق پہ‬ ‫رنشہ کی کیفیت طاری کر دیتاہے۔ کسی سابقے یالاحقے کے جڑنے‬ ‫سے کسی مخصوص کردار کی طرف توجہ مبذول کرواد یتا ہے۔ مرکب‬ ‫کی صور ت میں دماغ پر مختلف نوعیت کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‬ ‫اردو شاعری میں لفظ ساقی کے استعمال کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں‬ ‫بھگونت رائے راحت اس سے مہر ومحبت سے فیض یاب کرنے والا‬ ‫مراد لیتے ہیں ؂‬

‫پلا مجھ کو ساقی محبت کا جام رہوں یاد میں اوس کی سرخوش خرام‬ ‫(‪ )۸۵‬راحت‬ ‫پیرمرادشاہ کا کہتے ہیں وہ جس کی شراب حلال اور اس کے عنایت‬‫کئے گئے جام میں نبی ؔ کا جمال نظر آتاہو۔ ساقی بمعنی تقیسم کنندہ ‪،‬‬ ‫اس کی مے شرعی جواز رکھتی ہو ؂‬‫پلامجھ کو ساقی شرا ِب حلال‬ ‫نبی کا نظر آوے جس میں جمال (‬ ‫‪)۸۶‬پیر مراد شاہ‬‫محمد صابر محمود ساقی سے عنایت کرنے والا‪ ،‬فیض یاب کرنے والا‬ ‫‪،‬پر جوش عنایت والا مراد لیتے ہیں ؂‬‫دیتا ہے بادہ ساقی مینائے آتشی سوں رکھتاہے مست دلی کوں گلرنگ‬ ‫بے غشی سوں(‪ )۸٧‬صابر‬‫ذوق کے نزدیک وہ جوکسی اور کے اشارے سے بانٹ کر تاہو ؂‬‫کرتاہے ہلال ابروئے پرخم ہے اشارہ ساقی کو کہ بھردے بادے سے‬ ‫کشتی طلائی (‪)۸۸‬ذوق‬‫عبدالحی تاباں اس کو ساقی مانتے ہیں جو تقاضوں سے بالا تر ہوکر‬ ‫پلائے ؂‬‫ایمان ودیں سے تاباں مطلب نہیں ہے ہم کو‬‫ساقی ہو اور مے ہومینا ہو اور ہم ہوں (‪ )۸۹‬تاباں‬‫غالب کا اپنا ہی رنگ ہے ۔ ایسا کردار جواپنی فیاضی پر اِتراتاہولیکن‬ ‫میخوار کی بلانوشی اس کا غرور خاک میں ملاکر رکھ دے ؂‬

‫لے گئی ساقی کی نخوت‪ ،‬قلزم آشامی مری موج مے کی آج ر ِگ مینا‬ ‫کی گرد ن میں نہیں‬ ‫ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ ساقی وہ ہے جوہر آنے والے کو‬ ‫پلائے۔ خواہ اس کی مرضی ہو یانہ ہو۔گویاہر حالت میں پلائے ؂‬‫میں اور بزم مے سے یوں تشنہ کام آؤں گرمیں نے کی تھی توبہ‪،‬ساقی‬ ‫کوکیاہوا‬‫ایک تیسری جگہ ’’کوثر‘‘ کا لاحقہ بڑھاکر جناب امیر(ع) کی ذا ِت عالیہ‬ ‫مراد لیتے ہیں کہ ان کی ذات ایسی نہیں جوبخل سے کام لے ؂‬‫کل کے لئے کر آج نہ خست شراب میں یہ سوء ظن ہے ساق ِی کوثر کے‬ ‫باب میں‬ ‫اردو غزل میں یہ لفظ زیادہ تر محبوب کے لئے مستعمل ستمگر ‪:‬‬ ‫رہاہے ۔یہ لفظ سنتے ہی بڑا ظالم ‪ ،‬بات نہ سننے والا‪ ،‬ضدی ‪ ،‬خود‬ ‫پسندمحض نازنخرے والا محبوب‪ ،‬آنکھوں کے سامنے گھوم جاتاہے۔‬ ‫امیر شہر کے لئے بھی یہ لفظ نامناسب نہیں سمجھا گیا ۔ رائے ٹیک‬ ‫‪:‬چند بہار نے اس کردار سے کچھ ایسی ہی خوبیاں منسوب کی ہیں‬ ‫مکمل گرفت میں لینے والا ‪١‬۔‬ ‫متاثر کرنے کی طاقت رکھنے والا ‪٢‬۔‬ ‫جوبلاوجہ قتل (گرویدہ ) کر تاہے ‪۳‬۔‬ ‫؂ کرئے ہے یہ ستمگر قتل بے تقصیر کیا کہیجے‬ ‫جوان کے ہاں یوں مرنا ہے تقدیر کیاکہیجے (‪ )۹٠‬بہار‬

‫عبدالحی تاباں نے اس سے ایساکردار مراد لیا ہے جوظالم تو ہے لیکن‬ ‫آہ وزاری سے متاثر بھی ہوتاہے ؂‬ ‫اب مہرباں ہو اہے تاباں تراستمگر آہیں تیری کسی نے شاید جاکر‬ ‫سنائیاں ہیں (‪ )۹١‬تاباں‬ ‫غالب کے نزدیک یہ ایسا کردار ہے جس کے ظلم وستم کی کوئی‬ ‫حدنہیں ہوتی ۔ یہاں تک کہ وہ اپنے ستم کے شکار کی موت پر بھی‬ ‫اکتفا نہیں کرتا۔ وہ اس سے بڑھ کر ستم کاخواہش مند ہوتاہے۔ نہ‬ ‫مرنے دیتاہے اور نہ جینے ؂‬ ‫؂ میں نے چاہا تھا کہ اندو ِہ وفا سے چھوٹوں وہ ستمگر مرے مرنے‬ ‫پہ بھی راضی نہ ہوا‬ ‫غالب اس امر کا اعلان کرتے ہیں کہ ستمگر سے اچھائی اور بہتری‬ ‫کی امید نہیں کی جاسکتی ؂‬ ‫وہ دن بھی ہوکہ اس ستمگر سے ناز کھینچوں بجائے حسرت ناز‬ ‫ان کے نزدیک یہ کردار طعنہ زنی کرتارہتاہے کہ کچھ کھا کر مرکیوں‬ ‫نہیں جاتے ؂‬ ‫زہر ملتا ہی نہیں مجھ کو ستمگر ورنہ کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ‬ ‫کھا بھی نہ سکوں‬ ‫شمع‪:‬‬ ‫روشنی کی ضرورت واہمیت سے کبھی بھی انکار نہیں کیاگیا ۔ شمع‬ ‫ہمیشہ سے بہتر کارگزار ی کا وسیلہ رہی ہے۔ روشنی کے کئی معنی‬ ‫لئے جاتے ہیں ۔ مثلاا‬

‫)ب ۔ ہدایت ‪ ،‬ہدایت دینے والا ج۔ رہنمائی (رہنما الف۔ چراغ‬ ‫د۔ جومحفل ‪،‬معاشرہ یا تہذیب کو اپنی دانش اور حکمت سے چار چاند‬ ‫لگا دے‬ ‫ہ ۔ خوبصورت محبوب ‪ ،‬جس پر ایک زمانہ مرتاہو‬ ‫و۔ عادل حاک ِم وقت‬ ‫شمع ‘‘ روشنی کا ذریعہ ہے روشنی براہ راست بصارت سے تعلق ’’‬ ‫رکھتی ہے۔روشنی جتنی بہتر‪ ،‬سازگار‪،‬شفاف اور ضرورت کے مطابق‬ ‫ہوگی بصارت کی کارگزاری اتنی ہی بہتر اور واضح ہوگی۔ مشاہدے کا‬ ‫واضح اور شفاف ہونا ادراک کے ابہام دورکرنے کا سبب بنتاہے۔لفظ‬ ‫شمع اردو غزل میں بطور کردار ‪ ،‬علامت ‪ ،‬استعارہ ‪ ،‬مشبہ بہ بکثرت‬ ‫استعمال ہواہے ۔ میر عبدالحی تاباں نے نرم دلی کو موضوع گفتگو‬ ‫بنایاہے ؂‬‫بے اختیار شمع کے آنسو محفل کے بیچ سن کر مرے سوز دلی کاحال‬ ‫ڈھلک پڑے (‪ )۹٢‬تاباں‬ ‫گویا شمع وہ کردار ہے جوکسی دوسرے کا درد اپنے سینے میں‬‫محسوس کرکے دکھی ہوتاہے۔ بطور استعارہ ہمدرد اور نرم دلی شخص‬ ‫معنی لئے جاسکتے ہیں۔‬ ‫حافظ عبدالوہاب سچل کے مطابق شمع وہ کردار ہے جس پر بلا کہے‬ ‫یعنی آپ ہی سے اس کے چاہنے والے جان تک وار دیتے ہیں۔ شمع‬ ‫کے ہاتھوں قتل ہوکر فخر اور خوشی محسوس کر تے ہیں۔ انہیں اپنی‬ ‫موت پر افسوس نہیں ہوتا۔ حسین پر قربان ہونے والے خوش تھے‬

‫اور اسے اپنی سعادت سمجھتے تھے ؂‬‫اس شمع پر پتنگے‪ ،‬آئے ہیں کیا اچھل کر ترسیں گے وہ نہ ہرگز جن‬ ‫کو ملی مماتی(‪ )۹۳‬سچل‬‫غلام مصطفے خاں یکرنگ شمع کا تعلق کر بلا سے جوڑتے ہیں۔؂‬‫ہے سربریدہ شم ِع اندھیر ے جہاں میں کہ اب شامیوں کے ہاتھ‬ ‫شبستا ِن کربلا (‪)۹۴‬یکرنگ‬‫سودا نے بطور مشبہ بہ استعمال کرکے شمع کے ہررنگ میں جلنے‬ ‫کو واضح کیا ہے ؂‬‫نہیں معلوم اس سینے میں کیاجوں شمع جلتاہے‬‫دھواں نو ک زبان سے بات کرنے میں نکلتاہے(‪ )۹۵‬سودا‬‫غالب کے ہاں شمع بطور استعارہ استعمال ہوئی ہے ؂‬‫کیا شمع کے نہیں ہیں ہو اخواہ اہ ِل بزم‬ ‫ہو غم ہی جان گداز تو‬ ‫غمخوار کیا کریں‬ ‫شوق‪:‬‬ ‫شوق ایک احساس اور جذبے کا نام ہے ۔ اس کا کوئی مادی وجود‬ ‫نہیں چونکہ اس کا تعلق انسان او راس کی کارگزاری سے ہے اس‬ ‫لئے اس کا وجود انسانی معاشرت میں بڑا مستحکم ہے ۔ یہی نہیں‬‫اس کے حوالہ سے انسان میں تحریک پیدا ہوتی ہے اوروہ ‪ ،‬وہ کچھ‬‫شوق ‘‘ قوموں کو ’’کر جاتاجس کے متعلق سوچا بھی نہیں جاسکتا۔‬ ‫آسمان کی بلندیوں سے ہمکنار کرتا۔ منفی شوق پتال میں بھی ٹکنے‬

‫نہیں دیتا ۔ اس لئے شوق کے کرداری حوالوں کوکسی بھی صور ت‬‫میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اردو غزل میں ’’شوق ‘‘بڑا توانا کردار‬ ‫ہے ۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں‬‫میر حیدر الدین ابو تراب کامل شوق کو بے کلی ‪ ،‬بے چینی اور ناگزیر‬ ‫یت کا سبب قرار دیتے ہیں۔ ؂‬‫خط ترے کا شوق اکھیاں کا لکھا ہرن کو ں سبزے بنا چارا نہیں (‪)۹۶‬‬ ‫کامل‬ ‫میر محمود صابر کا کہنا ہے کہ یہ آنکھ کو تجس اور جستجو فراہم‬ ‫کرنے کا ذریعہ وسیلہ ہے ؂‬‫زحیرت دیدہء حیراں نہ کھولوں غیر کے مکھ پر چو آئینہ بچش ِم شوق‬ ‫دیکھوں گر نگار اپنا(‪)۹٧‬صابر‬ ‫لعل بہا گوہر کے نزدیک ’’شوق‘‘ شخص کوہمہ وقت مصروف‬ ‫رکھتاہے۔ ؂‬ ‫مژدہ اے شوق ہم آغوش کہ جاگے ہیں نصیب لے کے انگڑا وہ کہتے‬ ‫ہیں کہ نیند آئی ہے(‪ )۹۸‬گوہر‬ ‫علامہ حالی کے خیال میں ’’شوق‘‘ کبھی ساتھ نہیں چھوڑتا بلکہ اس‬ ‫میں اضافہ ہی ہوتاہے ؂‬ ‫شوق بڑھتا گیا جوں جوں کے اس شوخ سے ہم‬ ‫یہ سبق وہ ہے کہ بھولے سے سوا یاد رہے(‪)۹۹‬حالی ؔ‬ ‫تلاش اور جستجو کا مادہ رو ِز اول سے انسانی فطر ت میں رکھ دیاگیا‬

‫ہے ۔ پالینے اور کھوج نکالنے کی دھن اسے بڑے سے بڑے خطرے‬ ‫کی آگ میں جھونک دیتی ہے۔ شوق منہ زور عل ِت وقوع اور حرکت‬ ‫کاسبب ہے۔حواس مشاہدے میں اضافہ کرتے ہیں جبکہ مشاہد ہ ‪،‬‬ ‫حواس کی خوبیداہ توانائیاں بیدار کرتاہے۔یہ دونوں ترقی پذیر ہیں۔‬ ‫ناکامی کی صور ت میں کامیابی کے لئے جبکہ کامیابی کی صور ت‬‫میں مزید کامیابیوں کے لئے شوق شخص کو دوڑائے رکھتاہے۔ انسان‬ ‫کی جتنی عمر ہے ’’شوق‘‘کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے۔ حرف ش‬ ‫کے ساتھ ’’ارتعاش‘‘ وابستہ ہے اس لئے انسانی سماج خوب سے‬‫خوب تراور ہر خوب کی نئی اشکال اور نئے روپ کامتمنی رہتاہے۔اس‬ ‫طرح اس فیلڈ میں نکھار‪،‬جدت اور بہتری پیداہوتی چلی جاتی ہے۔‬ ‫دریافت کی رہیں وا ہوتی رہتی ہیں۔‬ ‫غالب کے ہاں یہ لفظ نظر انداز نہیں ہوا۔ ان کے نزدیک شوق رکاوٹیں‬ ‫دور کر دیتاہے۔ بقول شاداں بلگرامی غالب کے نزدیک‬‫شوق نے بند نقا ِب (‪ )١٠٠‬حسن کھول دئیے ہیں او ردید کی راہ میں ’’‬ ‫)(‪‘‘ ۱۰۱‬کوئی رکاوٹ رہنے نہیں دی‬‫گویا شوق بلاواسطہ کھوجنے کا موجب بنتا ہے ۔ انکشات کے دروازے‬ ‫کھولتاہے ؂‬ ‫واکر دےئے ہیں شوق نے بند نقا ِب حسن غیر از نگا ہ اب کوئی حائل‬ ‫نہیں رہا‬‫صاحب ‪ :‬عمومی بول چال کا لفظ ہے جوکسی شخص کے احترام یا پھر‬ ‫اپنے سے بالا افسر کے لئے بولا جاتاہے۔ اردو شاعری میں یہ لفظ‬ ‫مختلف حوالوں سے مستعمل چلا آتاہے۔ پیر مراد شاہ لاہور ی نے‬

‫’’جناب ‘‘ کے معنوں میں استعمال ہے ؂‬‫جو پونچھا تو بولا وہ خواجہ سرا‬ ‫کہ صاحب یہ کل ہے بڑامسخرہ‬ ‫)(‪١٠٢‬‬‫روحل فقیر’’صاحب ‘‘ سے ذات باری تعالی مراد لیتے ہیں ؂‬‫سر دئے صاحب ملے تیر اصاحب تجھ ہی مانہیں ‪ ،‬تم تجو اور آس‬ ‫)‪،‬اچرج اچنبا ہاس(‪١٠۳‬‬‫دیوان صورت سنگھ صورت نے متحرک کے ’’حامی گیر ‘‘ کے لئے‬ ‫‪:‬لفظ صاحب استعمال کیاہے‬‫کام سیں تھاکام اب یارب آپ صاحب کام کے لئے کام کی کیسی خبر‬ ‫)کدھر جاؤں ہمیں (‪١٠۴‬‬‫غالب نے یہ لفظ محبو ب کے لئے بولاہے ؂‬‫آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے صاحب کو دلی نہ دینے پہ کتنا‬ ‫غرور تھا‬ ‫صیاد‪:‬‬ ‫صیادعمومی بول چال کالفظ نہیں تاہم اردو غزل میں اس کا‬ ‫استعمال بکثرت پڑھنے کوملتاہے۔ شاعری کا ذوق رکھنے والوں کے‬‫ذہنوں میں صیاد کے حوالہ سے ظالم اور بے رحم کردار ابھرتاہے۔ یہ‬ ‫کردار محبوب کے علاوہ علامتی بھی استعمال ہوتا چلاآتاہے۔ رائے‬ ‫ٹیک چند بہار کے نزدیک یہ ایسا بے رحم کردار ہے جو اپنے شکار‬ ‫کی دلی کیفیت سے لاپرواہ رہتاہے ؂‬

‫تڑپتا ہے پڑا نیم بسمل خاک وخوں میں دلی عقوبت ہے جو کچھ اس‬ ‫)صید پر ‪ ،‬صیاد کیا جانے (‪١٠۵‬‬ ‫نواب امیر خاں عمدۃ الملک انجام کاکہنا ہے ایسا شکاری جو بھا گ‬ ‫جانے کا موقع ہی نہ دے یعنی چاک وجوبند شکاری‬ ‫ٹک تو فرصت دے کہ ہولیں رخصت اے صیاد ہم‬ ‫)مدتوں اس باغ کے سائے میں تھے آباد ہم (‪١٠۶‬‬ ‫بھگونت رائے راحت کے نزدیک جو شکار صیاد کی گرفت سے نکل‬‫جاتاہے وہ دوبارہ قابو میں نہیں آتاگویا ایسا لا پرواہ شکاری جس کی‬ ‫گرفت سے شکار نکل بھی جاتاہے۔ ؂‬ ‫)کہ جودام سے مرغ آزاد ہو کہاں پھر وہ تسخیر صیادہو(‪١٠٧‬‬ ‫غالب کے ہاں اس کردار کی کارفرمائی ملاحظہ ہو۔ ؂‬ ‫ہوں گرفتا ِر الف ِت صیاد اور نہ باقی ہے طاق ِت پرواز‬ ‫صیاد بمعنی وہ جو اپنی محبت میں گرفتا ر کرلے۔آغاز باقر‪ ،‬نظم طبا‬ ‫‪:‬طبائی او ربے خودموہانی کے حوالہ کہتے ہیں‬ ‫)۔(‪‘‘ ۱۰۸‬تعلقا ِت دنیا ‪ ،‬جو اسیر کر لیتے ہیں ’’‬ ‫ظالم‪:‬‬ ‫اردو غزل میں بڑا عام استعمال ہونے والا لفظ ہے۔یہ لفظ دل و‬‫دماغ پر ناخوشگوار اثرات مرتب کرتاہے ۔ اس لفظ کے ہر نوعیت کے‬ ‫مفاہیم اعصابی تناؤ اور نفرت کاباعث بنتے ہیں۔ مثلاا‬ ‫معاش کا قاتل ‪١‬۔‬

‫جھوٹااورجھوٹ کا ساتھ دینے والا ‪٢‬۔‬ ‫دھوکہ اور دغا سے کام نکالنے والا ‪۳‬۔‬ ‫ضرورت پڑنے پر ساتھ چھوڑ دینے والا ‪۴‬۔‬ ‫مفادات کو اپنی ذات تک محدود کرنے والا ‪۵‬۔‬ ‫انسانی احساس کو مجروح کرنے والا ‪۶‬۔‬ ‫وہ جو قتل وغارت کا بازار گرم کرتارہتاہو ‪٧‬۔‬ ‫لوگوں کی رگوں میں نشہ اتارنے والا ‪۸‬۔‬ ‫غنڈہ گردی اور چھینا جھپٹی کرنے والا ‪۹‬۔‬ ‫پرواہ نہ کرنے والا محبو ب ‪١٠‬۔‬ ‫معشوق ‪١١‬۔‬ ‫بے انصاف ‪١٢‬۔‬‫غرض ایسے بہت سے افعال سے وابستہ افراد کے لئے لفظ ’’ظالم‘‘‬ ‫بولاجاتاہے۔‬‫جعفر زٹلی نے خل ِق خدا پر آفت توڑنے والے کے لئے لفظ ظالم نظم‬ ‫کیاہے ؂‬ ‫گیا اخلا ص عالم سے عجب یہ دور آیاہے‬ ‫ڈرے سب خلق ظالم سے عجب یہ دور آیا(‪ )١٠۹‬جعفر زٹلی‬ ‫مرادشاہ مراد لاہوری کے ہاں وفاداری کا ڈھونگ رچاکر بالآخربے‬

‫وفائی کرنے والے کے لئے یہ لفظ استعمال ہواہے ؂‬ ‫وہ ظالم یہ طوفان کیا کر گئی وفاکرتے کرتے جفاکر گئی (‪ )۱۱۰‬مراد‬ ‫شا ہ لاہوری‬‫شاہ مبارک آبرو نے جس کی محبت فراموش نہ ہوسکے ‪ ،‬کے لئے یہ‬ ‫لفظ باندھا ہے ؂‬ ‫جدائی کے زمانے کی میاں کیا زیادتی کہیے‬ ‫کہ اس ظالم کی جوہم پر گھڑی گزری سو جگ بیتا(‪ )١١١‬آبرو‬‫محمد احسن اللہ احسن نے ہمیشہ رلاتارہنے والے کے لئے یہ لفظ نظم‬ ‫کیاہے ؂‬ ‫تیرے تل سے مجھے نت مینہ کا سودا ہے اے ظالم‬ ‫عجب نہیں ہے اگر تو تیل نکساوے مرے سرسوں (‪ )١١٢‬احسن‬ ‫سودا نے جذبات مجروح کرنے والے‪ ،‬دلی چرانے اورزیادتی کرنے‬ ‫والے کے لئے یہ لفظ استعمال کیا ہے ؂‬ ‫یہ اگر سچ ہے تو ظالم تونے سودا کے تئیں قتل کیا ‪ ،‬کہتے ہیں‬ ‫اسے کیاکہتے ہیں (‪ )١١۳‬سودا‬ ‫حافظ عبدالوہاب سچل نے گرفت کرنے والے کے لئے اس لفظ کا‬ ‫انتخاب کیاہے ؂‬ ‫آیانظر میں اژدر مجھ کو وہ زلف پیچاں رخ پہ لٹک رہی ہے ظالم ‪ ،‬یہ‬ ‫زلف کالی (‪ )۱۱۴‬سچل‬

‫غالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال ظاہر کررہاہے کہ اس کر دار سے‬ ‫خیر اور بھلائی کی توقع وابستہ نہیں کی جاسکتی ۔ ایک جگہ ایسا‬ ‫محبوب جس کی وفا کا معاملہ تذبذب کا شکار ہو‪،‬کے لئے استعمال‬ ‫کرتے ہیں ؂‬ ‫ظالم مرے گماں سے مجھے منفعل نہ چاہ ہے ہے خدانہ کردہ تجھے‬ ‫بے وفا کہوں‬ ‫غالب اس لفظ کو اس شخص پر بھی فٹ کرتے ہیں جس کی مہر بانی‬ ‫پر بھی اعتماد کر نا حماقت سے کم نہ ہو ؂‬‫ہماری سادگی تھی التفا ِت ناز پر مرنا تراآنا نہ تھا ظالم مگر تمہید جانے‬ ‫کی‬ ‫عشق‪:‬‬ ‫عشق درحقیقت سچی لگن اور مقصد سے اٹوٹ کمنٹ منٹ کا نام ہے۔‬ ‫بعض لوگ اس لفظ کو نفسیاتی حوالوں تک محدود رکھتے ہیں جبکہ‬ ‫اس کے حدود کاتعین ایساآسان کام نہیں۔ سقراط ہوکہ حسین ‪ ،‬فرہاد‬ ‫ہوکہ ٹیپو ‪ ،‬ہر کسی نے اپنے مخصوص کاز سے وفا کی ۔اگر ان کا‬‫استقلا ل لغزش کا شکار ہوتا تو کاز سے کمٹ منٹ خام ٹھہرتی ۔ عشق‬ ‫انسانی سماج کا حصہ رہاہے۔ اسے مختلف زاویوں اور حوالوں سے‬ ‫دیکھا اور پرکھا جاتارہاہے۔ اشخاص اور اقوام کو اس کر دار نے زندہ‬ ‫رکھا ہے۔ عشق انسان کونفسیاتی طور پر یاس کی دلد ل سے نکال کر‬ ‫ایثار اور قربانی کی دہلیز پر لاکھڑ ا کرتاہے۔عشق کوئی دیکھی جانے‬‫والی شے نہیں لیکن بطور جذبہ انسانی لہو میں شامل ہوکر اپنے حصہ‬ ‫کا کردار ادا کرتاہے۔یہ انسان کو تنہانہیں چھوڑتا اس کی تنہائی آباد‬

‫رکھتاہے۔ اردو غزل میں عشق کا کردار مختلف حوالوں سے واضح‬ ‫ہواہے۔ مثلاا‬ ‫لطف علی لطفی کے نزدیک عشق زخمی کرتاہے ؂‬‫میں عشق کی گلی میں گھایل پڑا تھا ‪ ،‬تس پر حوبن کا ماتا آکر مجھ کو‬ ‫کھنڈل کرگیاہے (‪ )١١۵‬لطفی ؔ‬ ‫شاہ ولی اللہ ولی کے مطابق عشق جوش وخروش پیداکرکے دلی کی‬ ‫دھرکنوں کو تیز کر دیتاہے ؂‬ ‫نہ پوچھو عشق میں جو ش وخرو ِش دل کی ماہیت برن ِگ ابر دریابار‬ ‫ہے رومال عاشق کا (‪ )١١۶‬ولی ؔ‬ ‫بھگونت رائے راحت کا کہنا ہے عشق سرمہ بنا دیتاہے۔ فناکر دیتاہے‬ ‫؂‬ ‫کیا عشق نے توتیا طور کو ملی عشق سے دار منصور کو‬ ‫(‪)١١٧‬راحت‬ ‫غالب کے نزدیک عشق ‪ ،‬افرا ِط حب کا نام جسے لاحق ہوتاہے اسے‬ ‫نخیف ونزار کر دیتاہے جبکہ زندگی عشق کے بغیر ایک درد ہے ۔‬ ‫‪:‬عشق زندگی میں لطف اور مز اپیدا کرتاہے۔ بقول شاداں بلگرامی‬‫اس کے بغیر زندگی بے کیف ہوتی ہے لیکن یہ خود مرض لاعلا ج ’’‬ ‫)(‪ ۱۱۸‬۔‘‘ہے‬ ‫اب عشق کی حقیقت غالب کی زبانی سنئے ؂‬ ‫عشق سے طبعیت نے زیست کا مزا پایا درد کی دوا پائی در ِدبے دوا‬

‫پایا‬ ‫غافل‪:‬‬ ‫یہ کردار انسانی معاشرت میں ہمیشہ سے رہاہے ۔ اس کر دار‬ ‫سے نہ صرف دوسروں کو نقصان پہنچتاہے بلکہ یہ خود اپنے لئے‬ ‫‪:‬بھی باع ِث نقصان رہاہے۔ اس کی دو صورتیں رہی ہیں‬ ‫اس سے دانستہ معاملہ پوشیدہ رکھا گیاہو الف ۔‬‫ب۔ اپنی عدم دلچسپی کے باعث معاملہ جاننے کی کوشش ہی نہ کرتاہو‬ ‫پہلی صورت میں اس کی غفلت شعاری گوارہ کی جا سکتی ہے جبکہ‬ ‫دوسری صورت کسی بھی حوالہ سے نظر انداز نہیں کی‬ ‫جاسکتی ۔ اس کردار سے مل کر خوشی نہیں ہوتی بلکہ اعصابی تناؤ‬ ‫بڑھ جاتاہے۔‬ ‫اردو غزل میں یہ کردار مختلف حوالوں سے وارد ہواہے۔خواجہ درد‬ ‫‪:‬نے اس کردار کے دو پہلو واضح کئے ہیں‬ ‫الف ۔ غافل اپنا معاملہ خوب یاد رکھتاہے۔‬ ‫ب۔ دوسروں کو‪ ،‬یہاں تک کہ خدا کو بھی بھو ل جاتاہے۔‬ ‫گویاغافل اپنے معاملے کا پکاہوتاہے۔ اپنے مفادات کسی بھی صورت‬‫میں فراموش نہیں کرتا جبکہ دوسروں کے معاملات بھول جاتاہے یا ان‬ ‫کی انجام دہی میں کوتاہی اور تساہل سے کام لیتاہے ؂‬ ‫غافل خداکی یاد پہ مت بھول زینہار اپنے تئیں بھلاد ے اگر تو بھلا‬ ‫سکے(‪ )١١۹‬درد‬

‫شاکرناجی کاکہنا ہے کہ ’’غافل‘‘ ایک ہی ڈگر پر چلاجانے والا ہوتاہے۔‬ ‫وہ وقت اور حالات کی ضرورت نہیں دیکھتا ۔ لمحے اسے اس کی‬‫غفلت شعاری کا احساس دلا کر گزر جاتے ہیں لیکن وہ اپنی روش نہیں‬ ‫بدلتا۔ تبدیلی کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا ؂‬‫گئی ہے یہ بھی گھڑی تجھ بلند آواز سے گھڑیال کہتاہے کہ اے غافل‬ ‫عمرسے اور تو نہیں چیتا(‪ )١٢٠‬ناجی‬‫قائم چاند پوری کے نزدیک غافل سوچ سمجھ کر قدم نہیں اٹھاتا۔ اس کا‬ ‫ہر فعل بے خبری کی چادر میں ملفوف ہوتاہے ؂‬‫غافل قدم کو اپنے رکھیو سنبھال کریاں ہر سن ِگ رہ گزرکا دوکا ِن شیشہ‬ ‫گرہے(‪)١٢١‬قائم‬ ‫غالب نے غافل سے وہ کردار مراد لیا ہے جوغلط فہمی کا شکا ر‬‫ہویاجو معلومات کی کمی کے باعث معاملے کی اصل تک نہ پہنچ پائے۔‬‫یہ بھی کہ جومعاملے کو سمجھنے کے لئے غلط یا غیر متعلق پیمانے‬ ‫اختیار کرتاہو۔ غافل کچھ کو کچھ سمجھنے والا کر دار ہے ۔ اس طرح‬ ‫یہ نتیجہ نکالنا پڑے گاکہ ایسا شخص جس کی کہی ہوئی بات پر یقین‬ ‫نہیں کیا جاسکتا ؂‬ ‫حالانکہ ہے یہ سیل ِی خارا سے لالہ رنگ غافل کو میرے شیشے پر‬ ‫مے کا گمان ہے‬ ‫غمحوار‪:‬‬ ‫دکھ دینے والوں کے ساتھ دکھ کا مداوا کرنے یاتشفی دینے والوں کی‬‫بھی کمی نہیں رہی ۔ ایسے افراد کو ہمیشہ عزت واحترام کی نگا ہ سے‬

‫دیکھا جاتارہاہے۔ یہ لفظ ایک ہمدرد اور تعاون کرنے والا کر دار‬ ‫سامنے لاتاہے ۔ اس سے ملاقات کرتے وقت اچھا لگتاہے۔بسااوقات یہ‬‫کردار در پردہ یا پھراپنی کسی نادانی کے سبب معاملہ بگاؤ بھی دیتاہے‬ ‫اور اس سے دشمن سے زیادہ نقصان پہنچ جاتاہے ۔ غمخوار کے‬ ‫حوالہ سے معاملے کی تشہیر بھی ہوجاتی ہے ۔ غمخوا ر خودہی ‪،‬‬ ‫غمخواری کی آڑ میں گھائل کر دیتاہے اور گھائل کو معلوم بھی نہیں‬ ‫ہوپاتا کہ اس کے ساتھ کیا ہوگیاہے۔‬ ‫اردو غزل میں یہ کردار مختلف حوالوں سے پینٹ ہواہے۔ اس سے‬‫ملتے وقت کسی قسم کی اجنبیت کااحساس نہیں ہوتا۔ غمخوار کا متبادل‬ ‫‪ /‬مترادف غمگسار بھی اردو غزل میں پڑھنے کوملتاہے ۔ غمگسار کا‬ ‫کردار بھی ہمدرد اور مونس و شفیق کے طور پر نمودار ہوتاہے۔‬ ‫صاحب رام فریاد غمگسار کو غم بانٹنے والا کے معنوں میں استعمال‬ ‫کرتے ہیں ؂‬ ‫غم جسے ہواہے یا ردل کا کوئی نہیں غمگسار دل کا(‪ )١٢٢‬فریاد‬ ‫آخوند قاسم ساؤئی ہالائی نے غم غلط کرنے والے کو غمگسار کا نام‬ ‫دیاہے ؂‬ ‫مدام پل پل دو بھر بھر دلاارے ساقی کہ ہے عجیب مرایا ِرغمگسار‬ ‫قدح(‪ )١٢۳‬ہالائی ؔ‬ ‫شیخ عثمان بے کسوں اور بے بسوں کے کام آنے والے کو غمخوار‬ ‫کے لقب سے نواز تے ہیں ؂‬ ‫غمخوا ِر آوارگاں آؤ پیار سے اے تو ک ِس بیکساں مون ِس بے چارگاں‬

‫حبیب (‪ )١٢۴‬شیخ عثمان‬ ‫غالب نے’’ غمخوار ‘‘کو بڑے الگ سے معنی دے دئیے ہیں ۔وہ جو‬‫دوست کا غم برداشت نہ کرسکے اور سارا معاملہ بازار میں لے آئے ؂‬ ‫کیا غمخوار نے رسوا ‪ ،‬لگے آگ اس محبت کو نہ لاوے تاب جو غم‬ ‫کی‪ ،‬وہ میر اراز داں کیوں ہو‬ ‫غیر ‪:‬‬ ‫لفظ غیر کو اہل لغت صفت قراردیتے ہیں تاہم یہ لفظ بطور‬ ‫سابقہ‪ ،‬مفرد لفظ سے مرکب ہوکر بطور کردار بھی استعمال ہوتاہے۔‬ ‫لفظ اجنبیت کی فضا پیدا کرتاہے اور کسی غیر متعلق ‪ ،‬نامحرم اور‬ ‫ناواقف شخص کا تصور سامنے لاتاہے۔ نفسیاتی سطح پر ’’غیر‘‘‬‫معاملہ کی پوشیدگی پر راغب کرتاہے۔ اس کا تعلق محدود یا عدم تعاون‬ ‫سے وابستہ رہتاہے ۔ اس لئے اس سے کوئی خاص گفتگو کرناممکن‬ ‫نہیں ہوتا۔ اردوغزل میں ’’غیر‘‘ بطور کردار مختلف حوالوں سے‬ ‫استعمال ہوتاآیاہے جو انسیت اور الفت سے کوسوں دور نظر آتاہے۔‬‫بعض اوقات رقیب ‪ ،‬حاسد اور حریف کے طور پر سامنے آتاہے۔ عاشق‬ ‫‪،‬کسی دوسرے عاشق کو ایک ہی محبوب کے لئے غیر خیال کرتاہے۔‬ ‫شاہ قلی خاں شاہی ؔ نے دوسرے عاشق کے معنوں میں اس لفظ کا‬ ‫استعمال کیاہے ؂‬ ‫ملنا تمہن کا غیر سے کوئی جھوٹ کوئی سچ مچ کہے‬ ‫کس کس کا منہ موندوں سجن کوئی کچھ کہے کوئی کچھ‬ ‫کہے(‪)١٢۵‬شاہی‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook