میر محمود صابر کے ہاں بھی دوسرے عاشق کے معنوں میں ہواہے مجلس میں دیکھ غیر کے گلروکوں صابر ہے چشم ودل میں ہر مژہ خارآرسی کے تئیں ( )١٢۶صابر اشر ف علی فغاں نامحرم کے لئے ’’غیر ‘‘ کالفظ استعمال میں لاتے ہیں ملے ہے غیر سے ،ہر گز اسے حجاب نہیں کہوں تو کہہ نہیں سکتا ہوں تو تاب نہیں ( )١٢٧فغاں چندا نے بھی رقیب کے معنوں میں نظم کیاہے گر چھوڑ بز ِم غیر کو آجائے یاں تلک دکھلاؤں تجھ کو ایساہی جس کاہے نام رقص ( )١٢۸چندا خواجہ درد غیر سے مراد حاسد لیتے ہیں بے وفائی نہیں محتاج غیر بکتے ہیں عبث ،میرے پیار ے تیری بدآموزی کی ( )۱۲۹درد ہر عاشق دوسرے عاشق کو اپنے محبوب کے لئے ’’غیر ‘‘ سمجھتا ہے اوریہ فطری سی بات ہے ۔یہ صور ت دونوں عاشقوں کی طر فسے ہوتی ہے۔ غالب قدما سے مختلف نہیں ہیں ۔ ہاں خفیف سافرق اور کھلی شوخی اسے دوسروں سے ممتاز بنادیتی ہے۔ غیر ،جو عاشقہے محبوب کے لئے آہ وزاری کرتاہے اور اپنی آہ وزاری کے ثمر بارہونے کی توقع بھی رکھتاہے۔ دوسرا عاشق جو خو دکو حقیقی اورکسی دوسرے کو جھوٹا سمجھتا ہے اس کی حالت زار دیکھ کر خوش ہوتاہے۔ یہ صورتحال خطرناک بھی سکتی ہے۔ اس کی آہ وزاری پر
دور دراز کے علاقوں میں پیغام پہنچانے کے لئے تیسرے شخص ٢۔ کی خدمات حاصل کی جائیں اردو غزل میں اس فریضے کو سرانجام دینے والے کو نامہ بر کہا گیاہے۔ لفظ نامہ بر سنتے ہی کسی اچھی یا بری خبر کے لئے ذہنی طور پر تیار ہونا پڑتا ہے۔ وزیر نے پیغام لانے والے کو نامہ بر کا نام دیاہے بوے ان مرغوں کا ڈربا کھل خط پہ خط لائے جومرغ نامہ بر گیا( )١۵۳وزیر غالب نے نامہ بر کو مختلف زوایوں سے ملاحظہ کیاہے کیا رہوں غربت میں خوش جب ہو حوادث کایہ حال نامہ بر لاتا ہے وطن سے نامہ بر اکثر کھلا وہ جو پیغام ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جائے لیکن پیغام کوپڑھ کر بددیانتی کا ارتکاب کرے ہولئے کیو ں نامہ بر کے ساتھ ساتھ یارب اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا پیغام لے کر جانے والے پرراز داری کا بھروسہ نہیں وعظ: انسانی سماج کا بڑا مضبوط اوراہم کردار رہاہے ۔ لوگوں کو نیکی پر لگانے اور بدی سے ہٹانے کے لئے اپنی سی کوشش کرتارہاہے ۔ ایسی بھی باتیں کرتارہاہے جن کا عملی زندگی میں کوئی حوالہ موجو د نہیں رہاہوتا۔ فرداکے حسین سپنے دکھاتاآیاہے ۔ لفظ
واعظ ایک ایسے شخص کا تصور سامنے لاتاہے جوخوف وہراس پھیلانے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور اسے نیکی کی اشاعت کانام دیتاہے۔ وہ اپنی پسند کی نیکی ()۱۵۴پھیلانے کی ٹھانے ہوتاہے ۔ دھواں دھار تقریریں کرتاہے ۔ ایسی باتیں بھی کہہ جاتاہے جن پر وہ خودعمل نہیں کر رہاہوتا یا ان پر انجام دہی کے حوالہ سے معذور ہوتاہے۔ یہ لفظ خشک ،سٹریل ،بدمزاج او رضدی قسم کا شخص سامنے لا کھڑا کرتاہے ۔ اس کردار سے ملنے کا شوق پید انہیں ہوتا بلکہ اسکی بے عمل ،خشک اور خلائی گفتگو سے بچ کر نکلنے کی سوجھتی ہے۔ اس کردار سے متعلق اردو شاعر ی میں بہت سے زاویے اور حوالے موجو دہیں۔مثلاا ہمیں واعظ ڈراتا کیوں ہے دوزخ کے عذابوں سے معاصی گوہمارے بیش ہوں کچھ مغفرت کم ہے( )١۵۵بہار ڈر ،خوف اور ہرا س پھیلانے والا جب اصل مذاہب کو واعظ سیتی ہم پوچھا تب ہم سے کہنے لگا قصہ وحکا یاتیں ()١۵۶میر محمد حسن کلیم غلط سلط اور غیر متعلق باتیں کرنے والا ۔ دوسرے لفظوں میں علم و دانش سے پیدل۔ الٹے سیدھے قصے سنا کر لوگوں کومخمصے میںڈالنے والا اور پنے بہترین نالج کاسکہ بٹھانے کی کو شش کرنے والا واعظو ،آت ِش دوزخ سے جہاں کو تم نے یہ ڈرایا کہ خود بن گئے ڈر کی صور ت ()١۵٧الطاف حسین حالی
لوگوں میں آخرت کے عذاب کے حوالہ سے اس قدر خوف ہراس پیدا کرنے والا کہ لوگ اس سے ملنے سے بھی خوف کھانے لگیں ۔ ویسے تومیری راہوں میں پڑتے تھے میکدے واعظ تری نگاہوں سے ڈرنا پڑا مجھے ()١۵۸آشا پر بھات غالب کا اپنا ڈھنگ ہے۔ واعظ کے کہے پر حیران نہیں ہوتے بلکہ بڑا عام لیتے ہیں خلد بھی باغ ہے خیر آب وہوا کوئی دنیا میں مگر باغ نہیں ہے واعظ اورسہی یار: یار بڑا عام سا لفظ ہے اور ہمارے ہاں بہت سے معنوں میں استعمال ہوتاہے مثلاا گہر ادوست ،لنگوٹیا ،مددگار،تعاون کرنے والا ،برے وقتمیں کام آنے والا ،دوستوں کا دوست ،نبھا کرنے والا ،بازاری معنوں میں کسی عورت کا عاشق وغیرہ ۔ یہ لفظ تسکین کا سبب بنتا ہے۔ ہمت بند ھ جاتی ہے اور امداد ملنے کا احساس جاگ اٹھتا ہے ۔ اعصابی تناؤ کم ہو جاتا ہے۔ غالب کے ہاں یار ،ہمددر کے معنوں میں استعمال ہواہے مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غالب یا ر لائے مری بالیں پہ اسے ،پر کس وقتہمددر اور جگر ی دوست جو یار کو خوش رکھنے کو بگڑے ،ناراض ، ضدی اوراڑیل کو بھی مناکر دوست کے در پر لے آئیں ۔
مولاناعبدی نے حضور ﷺ کے لئے یار کا لفظ استعمال کیاہے جن دیا یا رصد ق سوں سوے اللہ مولا پاک ہے جو جگ سرجن ہار اترے پار()١۵۹مولانا عبدیقزلباش خاں امید ؔ نے گھر کے محبوب ترین فرد کے لئے اس لفظ کا انتخاب کیا ہے یار بن گھر میں عجب صحبت ہے درودیوار سے اب صحبت ہے ()١۶٠ امید شاہ مبارک آبرو نے محبوب کے لئے استعمال کیا ہے جو پیار ،محبت اور شوق کو فراموش کر دیتاہے۔ اس طرح انہوں نے محبوب پیشہ لوگوں کا وتیر ا اورعمومی رویہ اورچلن کھول کر رکھ دیا ہے وہ شوق وہ محبت افسو س ہے کی مجھ کو وہ یا ربھول جائے وہ پیار بھول جائے( )١۶١شاہ مبارک آبرو عبدالحی تاباں کے نزدیک جس کے بنا دلی بے چین وبے کل رہےنہ یار آیا نہ صبر آیا بہت چاہا کہ آوے یار یا اس دلی کو صبر آوے دیا جی میں نداں اپنا ( )١۶٢تاباںمیر علی اوسط رشک کے نزدیک ایسا دوست جس کی محبت ،چاؤ اور گرمجوشی سے تہی ہو یار کو ہم سے لگاؤ نہیں وہ محبت نہیں وہ چاؤنہیں ( )١۶۳رشک قدیم اردو شاعری میں یہ لفظ زیادہ تر محبوب /معشوق کے لئے استعمال ہواہے۔
لوگ: لوگ ،عام استعمال کالفظ ہے ۔فردواحد کے لئے نہیں بولا جاتا ۔ اسلفظ کے ساتھ کوئی کردار مخصوص نہیں ۔ کوئی ساکر دار اس لفظ کے ساتھ منسلک ہوسکتاہے۔ اس لفظ کے حوالہ سے سر زد ہونے والے افعال سابقوں اور لاحقوں سے وابسطہ ہوتے ہیں ۔ غالب ؔ کے ہاں اس کر دار کی کار فرمائی ملاحظہ ہو جومے و نغمہ کو اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو اندوہ ربا کہتے ہیں سید ھے سادھے ،بھولے ،بیووقوف جن کانالج در ست نہیں لفظ لوگ پہلے ہی جمع کے لئے استعمال ہوتاہے۔غالب ا س کی جمع بھی استعمال میں لائے ہیں ہر روز دکھاتاہوں میں اک لوگوں کو ہے خورشی ِد جہاں تاب کا دھوکہ داغ نہاں اور ناظرین جوغلط فہمی یا دھوکے میں ہوں ۔ کسی کا م یا تماشے کےلئے ناظر ین کلیدی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ ورنہ کارکر دگی کے متعلق منفی یا مثبت رائے کون دے گا۔ شیخ جنید آخر کو واپس پھرنے والا ،اس لفظ کا کردار متعین کرتے ہیں نہ کس مونس بوددیگر نہ بھائی باپ مہتاری تراگھر گوربسیار ند پھر کر لوگ گھر آوے ( )١۶۴شیخ جنید میر ؔ صاحب کے ہاں بطور جمع استعمال ہواہے
آگے جواب سے ان لوگوں کے بارے معافی اپنی ہوئی ہم بھی فقیر ہوئے تھے لیکن ہم نے تر ِک سوال کیا ( )١۶۵میر ؔکے سابقے کی بڑھوتی سے کچھ جمع کردار ‘‘اہل ’’غالب ؔ کے ہاں تشکیل پائے ہیں ۔ان کرداروں کے حوالہ سے کچھ نہ کچھ ضرور وقوع میں آتاہے ۔ نمونہ کے تین کردار ملاحظہ ہوں۔ اہل بینش :دانشور حضرات کا زوایہء نظر دوسروں سے ہمیشہ مختلف رہاہے اور یہ طبقہ معاشروں کے وجود کے لئے دلیل وحجت رہاہے ۔ غالب کے ہاں اس طبقے کا کردار بڑی عمدگی سے واضح کیا گیاہے۔ یہ طبقہ حوادث سے سبق سیکھتا ہے اور ان حوادث کے حوالہ سے تنگ حالات میں بھی راہیں تلاشتا رہتاہے اہل بینش کو ہے طوفان حوادث مکتب لطمہء موج کم ازسیلی استاد نہیںکسی بھی قسم کی تمنا کرنے /رکھنے والا طبقہ ،ہمیشہ اہل تمنا: سے انسانی معاشروں میں موجود رہاہے ۔ غالب نے اس طبقے کے کردار کو کمال عمدگی سے پینٹ کیاہے ۔ محبوب کا جلو ہ جو اہل تمنا کو فنا کردے۔ یہ اہل تمنا کی انتہائی درجے کی عیاشی میں شمار ہوتاہے عشر ِت قتل گ ِہ اہل تمنامت پوچھ عید نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا اہل ہمت : اہل ہمت کا ہونا کسی معاشرے کے ہونے کی گرانٹی ہے ۔غالب بڑے
پائے کی بات کہہ رہے ہیں۔کائنات کی ان گنت چیزیں آزاد ہیں اور انسانی تصرف میں نہیں ہیں۔ اگر اہل ہمت موجو د ہوتے تو یہ آزادنہ ہوتیں۔انسان انہیں کھا پی گیا ہوتا۔ اہل ہمت کے ظرف کا بھلاکوناندازاہ کر سکتا ہے۔ مثال یہ دیتے ہیں مے خانے میں شراب باقی ہے تویہ اس امر کی دلیل ہے کہ میخوا ر موجود نہیں ہیں۔ شعر دیکھئے رہا آبادعالم اہل ہمت کے نہ ہونے سے بھر ے ہیں جس قدر جام و سیو میخانہ خالی ہے اہل ‘‘ سے ترکیب پانے والے الفاظ /کردار اپنی ذات میں حد درجہ ’’ جامعیت رکھتے ہیں ۔انسانی فکر کو حرکت اوربالیدگی سے سرفراز کرتے ہیں۔ غالب نے کچھ مرکب الفاظ سے کردار تخلیق کئے ہیں ۔ مثلاا پری وش ،پری پیکر ،بہشت شمائل وغیرہ ۔ یہ کردار محبوب سے متعلق ہیں ۔یہ محبوب کی شوخی ،نازو نخرا ،حسن وجمال اداؤں وغیرہ کو اجاگر کرتے ہیں۔ یہ کردار غالب کے ذو ِق جمال کا بڑاعمدہ نمونہ ہیں ۔مثلاا نہ سمجھوں اس کی باتیں گو نہ پاؤں اس کا بھید پر یہ کیا کم ہے کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا ضمائر: میں ،مجھ ،مجھے ،میرا ،میری ،میرے ایسی ضمائر ہیں جو شخص کی اپنی ذات سے متعلق ہوتی ہیں ۔ یہ بھی کہنے والے کے ماضی الضمیر سے جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔ ان کی نقل وحرکت اور کارگزاری انسانی نفسیات پر اثر انداز ہوتی ہے۔جب کوئی شخص اپنی کہنے لگتاہے توان ضمائر کا استعمال کرتاہے۔ اس ضمن میں دوتین
:مثالیں بطو رنمونہ ملاحظہ ہوں میں نے روکا رات غالب ؔ کو وگرنہ دیکھتے اس کے سی ِل گریہ میں گردوں کف سیلاب تھامیں ‘‘ کا کردار بڑا توانا ہے اس کے حوالہ سے خطرناک صورتحال ’’ کا خطرہ ٹل جاتا ہے نہ سمجھوں اس کی باتیں گونہ پاؤں اس کا بھید پر یہ کیا کم ہے کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا مجھے کیا بر کہوں کس سے میں کہ کیا ہے ش ِب غم بری بلا ہے اتھا مرنا اگر ایک بار ہوتاتو ،تجھ ،تم ،تیرا ،تیرے اس ،آپ ،وہ وغیرہ کے حوالے سے بعض افعال کی وقوع پذیری سامنے لاتے ہیں۔مثلاا تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم جب اٹھیں گے لے آئیں گے بازار سے جاکر دلی وجاں اور وہ آرہا مرے ہمسایہ میں تو سائے سے ہوئے فدا درودیوار پر دردیوار
حواشیالبقر٢ ۳۶:۔ البقر١ ۳۴:۔دیوان ۴۔ دیوان درد ،مرتب خلیل الرحمن داؤ دی ،ص۳ ٢١۸۔ درد،ص ١٧۵کلیات قائم،مرتب اقتدار حسن ،ص ۵ ۸١۔ دیوان درد ،ص ۶۔ ٢٠٧سندھ ۸۔ کلیات سودا ج ا ،مرزا محمد رفیع سودا ،ص٧ ٢٠۸۔ میں ارد وشاعری ،مولف ڈاکٹر نبی بخش خاں بلوچ ،ص١٠۸دیوان درد ،ص١٠ ١۵١۔ دیوان درد،ص ۹ ٢٠۶۔١٢۔ کلیات میر ج ا ،مرتب کلب علی خاں فائق ص١١ ١٠١۔ نفسیات ،حمیر اہاشمی وغیرہ ،ص ١۴۹تذکرہ ١۴۔ کلیات ولی ،نو ر الحسن ہاشمی،ص١۳ ١٢۵۔ مخزن نکات ،قائم چاند پوری ،ص ٢١شاہ عالم ثانی آفتا ب احوال و ادبی خدمات ،ڈاکٹر محمد خاور ١۵۔
جمیل ،ص ٢٠۶سندھ میں ارد وشاعری١٧ ،۔ کلیات میرج ا ،ص ١۶ ١٢٧۔ ڈاکٹر نبی بخش خاں بلوچ ،ص ۳۵کلیات ١۹۔ تذکرہ بہار ستان ناز ،کلیم فصیح الدین ،ص ١۸ ۴۔ میرج ا،ص ١٢۸ کلیات قائم ج ا ،ص ٢٠ ٢٠۔تذکرہ حیدری ،مولف حیدر بخش حیدری ،مرتبہ ڈاکٹر عبادت ٢١۔ بریلوی ،ص ٧٢٢۳۔ تذکرہ خو ش معرکہ زبیا ج ا ،سعادت ناصر خاں ،ص ٢٢ ۴۴٢۔ تذکرہ مخز ِن نکات ،قائم چاند پوری ،مرتب ڈاکٹر اقتدار حسن ،ص ١۸١دیوان درد ،ص ٢۵ ١۴٢۔ تذکرہ حیدری ،ص ٢۴ ۴۶۔تذکرہ حیدری ،ص ٢٧ ۴٧۔ دیوان درد ،ص ٢۶ ١٧٧۔٢۹۔ تذکرہ حیدری ،ص ٢۸ ١٢۳۔ سندھ میں ارد وشاعری، ص ۸۵موح رواں ۳١۔ روشنی اے روشنی ،شکیب جلالی ،ص ۳٠ ۴۸۔ ،قمرساحری ،ص ١۶۹۳۳۔ موج رواں ،ص ۳٢ ١٧١۔ سند ھ میں ارد وشاعری ،ص ۸۹دلی ۳۵۔ دلی کا دبستان شاعری ،نور الحسن ہاشمی ،ص ۳۴ ١۶۵۔
کا دبستان شاعری ،ص ۳۸١دلی کا دبستان شاعری ،ص ۳۶ ۳۵۹۔ دلی کا دبستان ۳٧۔ شاعری ،ص ١۴۳دلی کا دبستان شاعری ،ص ۳۸ ٢۴۴۔ دلی کا دبستان ۳۹۔ شاعری ،ص ١٠۵دلی کا دبستان شاعری ،ص ۴٠ ١۹۴۔ سند ھ میں اردو ۴١۔ شاعری ،ص ۶۹سند ھ میں اردو شاعری ،ص ۴٢ ٧٠۔ تذکرہ مخز ِن ۴۳۔ نکات ،ص ١١٧۴۵۔ دیوان درد ،ص ۴۴ ١۸۹۔ دیوان مہ لقا بائی چندا ،مرتب شفقت رضوی ،ص ١٢٧دیوان حالی۴٧ ،۔ سندھ میں ار دو شاعری ،ص ۴۶ ٧۹۔ خواجہ الطاف حسین حالی ،ص ۳۶تذکرہ خو ش ۴۹۔ دلی کا دبستان شاعری ،ص ۴۸ ١۶۵۔ معرکہ زیباج ،٢ص ۳۴٢تذکرہ حیدری ،ص ۵١ ۵١۔ تذکرہ حیدری ،ص ۵٠ ۶٧۔دلی کا دبستان شاعری ،ص ۵٢ ١۶۴۔ کلیات سودا ج ا۵۳ ،۔ ص ٧٠تذکرہ حیدری ،ص۵۵ ١١۸۔ تذکرہ حیدری ،ص ۵۴ ١٠۹۔دیوان جہاں دار۵٧ ،۔ تذکرہ خو ش معرکہ زیباج ا ،ص ۵۶ ١۹۸۔
مرتب ڈاکٹر وحید قریشی ،ص ۸٧۵۹۔ تذکرہ خوش معرکہ زیباج ،١ص۵۸ ٢۸۶۔ کلیا ِت میر ج ا،ص ١٢٠تذکرہ حیدری ،ص ۶١ ۶۸۔ کلیا ت قائم جلد ،١ص۶٠ ٢۸۔پنجاب میں ۶۳۔ دلی کا دبستان شاعری ،ص ۶٢ ۳۵۳۔ اردو ،حافظ محمود شیرانی ،ص ١۳۹۶۵۔ تذکرہ مخز ِن نکات ،ص ۶۴ ١۳۹۔ کلیات ولی ،ولی دکنی ،ص ۵٧تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ۶٧۔ تذکرہ حیدری ،ص ۶۶ ۹۵۔ جلد ،١ص ٢١۶۹۔ تذکرہ مخز ِن نکات ،ص ۶۸ ۶٢۔ سند ھ میں اردو شاعری، ص ٧٠٧١۔ نفسیات ،ص ٧٠ ۵۵١۔ نوائے سروش ،غلام رسول مہر ،ص ٢٧دلی کا دبستان شاعری ،ص ٧٢ ١٠۴۔ دلی کا دبستان ٧۳۔ شاعری ،ص ١۶۵دلی کا دبستان شاعری ،ص ٧۴ ٢۹٧۔ سندھ میں اردو ٧۵۔ شاعری ،ص ١۸دلی کا دبستان شاعری ،ص ٧۶ ٢۹۸۔ دلی کا دبستان ٧٧۔ شاعری ،ص ١۶۵
دیوان درد ،ص ٧۸ ١۶۹۔ روح المطالب فی شرح دیوا ِن غالب ،شاداں بلگرامی ،ص ٧۹۔سندھ میں ۸١۔ دلی کا دبستان شاعری ،ص ١۸٧۸٠ ١۵٢۔ اردو شاعری ،ص ۹٢دیوان مہ لقابائی چندا،ص ۸۳ ١۳٢۔ دیوان درد ،ص ۸٢ ١۳٢۔اردو ئے قدیم ،ص ۸۵ ١٢۹۔ تذکرہ مخزن نکات ،ص ۸۴ ۴۵۔۸٧۔ اردوئے قدیم ،ص ۸۶ ٢٧۹۔ سندھ میں اردو شاعری، ص ۳٢دلی کا دبستان شاعری ،ص ۸۸ ١٠١۔ دلی کا دبستان ۸۹۔ شاعری ،ص ١۹۳دلی کا دبستان ۹١۔ دلی کادبستان شاعری ،ص ۹٠ ١۵١۔ شاعری ،ص ١۹۳دلی کا دبستان شاعری ،ص ۹٢ ١۹۳۔ سند ھ میں ارد ۹۳۔ وشاعری ،ص ۸١دلی کا دبستان شاعری ،ص ۹۴ ١۴٧۔ کلیات سودا ج ا۹۵ ،۔ ص١٧۹سندھ میں ارد ۹٧۔ سندھ میں اردو شاعری ،ص ۹۶ ١۹۔ وشاعری ،ص ٢۵۹۹۔ تذکرہ بہار ستان ناز،ص ۹۸ ١۹٢۔ دیوا ِن حالی ،ص ١٠۳
پوشیدگی ،راز ،مخفی معاملات ١٠٠۔روح المطالب فی شرح دایو ِن غالب ،شاداں بلگرامی ،ص ١٠١۔ ١۸٢ سند ھ میں اردو ١٠۳۔ اردوئے قدیم ،ص ١٠٢ ۳۴۶۔ شاعری ،ص ۴۸ دلی کا ١٠۵۔ سندھ میں اردو شاعری ،ص ١٠۴ ١٢۳۔ دبستان شاعری ،ص ١۵٢اردوئے ١٠٧۔ دلی کا دبستان شاعری ،ص ١٠۶ ١٢۳۔ قدیم ،ڈاکٹر محمد باقر،ص ١۵۳ پنجاب میں ١٠۹۔ بیان غالب ،آغا باقر ،ص ١٠۸ ١۶۵۔ اردو ،حافظ محمو د شیرانی ،ص ٢١٠ دلی کا دبستان ١١١۔ اردوئے قدیم ،ص ١١٠ ۳۳٧۔ شاعری ،ص ١٢۸ کلیات ١١۳۔ دلی کا دبستان شاعری ،ص ١١٢ ١۴۵۔ سودا ج ا ،ص ١١۹ تذکرہ مخز ِن ١١۵۔ سندھ میں اردو شاعری ،ص ١١۴ ۸١۔ نکات ،ص ١۶ اردوئے قدیم ،ص ١١٧۔ تذکرہ مخز ِن نکات ،ص ١١۶ ٢۴۔ ١٢۸ ١١۹۔ روح المطالب فی شرح دیوان غالب ،ص ١١۸ ١٠۵۔
دیوان درد،ص ٢٠١دلی کا دبستان شاعری ،ص ١٢٠ ١۴١۔ کلیا ِت قائم ١٢١۔ ج ،١ص ٢۳٠سندھ میں اردو ١٢۳۔ تذکرہ حیدری ،ص ١٢٢ ١٠١۔ شاعری ،ص ۹۵تذکرہ حیدری ،ص ١٢۵۔ پنجاب میں اردو ،ص ١٢۴ ٢۳۸۔ ۸۸دلی کا دبستان ١٢٧۔ سندھ میں اردو شاعری ،ص ١٢۶ ۳۴۔ شاعری ،ص ٢٠۸دیوان درد ،ص ١٢۹۔ دیوان مہ لقابائی چندا ،ص١٢۸ ١٢٢۔ ٢٠۵اردوئے قدیم ،ص ١۳١۔ پنجاب میں اردو ،ص ١۳٠ ٢٠٠۔ ١۶۵دلی کا دبستان شاعری ،ص ١۳٢ ١۵١۔ دیوان ١۳۳۔ حالی ،ص ۸۴تذکرہ مخزن نکا ت ،ص ١۳۴ ۸۴۔ دلی کا دبستان ١۳۵۔ شاعری ،ص ۳۸۸پنجاب میں اردو ١۳٧۔ سندھ میں اردو شاعری ،ص ١۳۶ ۸۶۔ ،ص ۳١۵اردوئے قدیم١۳۹ ،۔ اردوئے قدیم ج ،٢ص ١۳۸ ١۳۹۔
ص ۳٠۶ دلی کا ١۴١۔ دلی کا دبستان شاعری ،ص ١۴٠ ١۵۴۔ دبستان شاعری ،ص ۳۳٧ دلی کا دبستان ١۴۳۔ پنجاب میں اردو ،ص ١۴٢ ١۶۴۔ شاعری ،ص ١۴۶سندھ میں اردو ١۴۵۔ سندھ میں اردو شاعری ،ص ١۴۴ ۶۸۔ شاعری ،ص ١۵۹ دیوان مہ لقابائی چندا ،ص ١۴۶ ۹٧۔ ١۴۸۔ ١۴٧۔ ١۵٠۔ ١۴۹۔ ١۵٢۔ ١۵١۔ ١۵۴۔ ١۵۳۔ ١۵۶۔ ١۵۵۔ ١۵۸۔ ١۵٧۔ ١۶٠۔ ١۵۹۔ ١۶٢۔ ١۶١۔ ١۶۴۔ ١۶۳۔ ١۶۶۔ ١۶۵۔
١۶۸۔ ١۶٧۔ ١٧٠۔ ١۶۹۔ -باب نمبر3تلمیحات غالب کی شعری تفہیمتلمیح کے لغوی معنی رمز اوراشارہ کے ہیں لیکن شعری اصطلاح میں کسی تاریخی واقعہ ،مذہبی حکم ،لوک داستانی کردار وغیرہ کو اسانداز سے نظم کیاجائے کہ شعر کا مضمون پرلطف اورزوردار ہوجائے۔ اس میں دو ایک الفاظ کو استعمال میں لایا جاتاہے۔ ان کو پڑھتے ہی پورا واقعہ ،قصہ ،معاملہ یاحکم وغیرہ قاری کے ذہنی گوشوں میں متحرک ہوکر قاری کے سوچ کو شعر میں موجود مضمون میں گم کردیتا ہے ۔ تلمیح کو حس ِن شعر کادرجہ حاصل ہے۔ شعر میں تلمیحسے متعلقہ لفظ یا الفاظ کو جونئے اور مخصوص مفاہیم ملتے ہیں اس سے ہی انہیں اصطلاح کا درجہ حاصل ہوتاہے۔ عربی ،فارسی اور برصغیر کی زبانوں میں تلمیح کا استعمال بڑا عامہے اور اسے شعری زبان کا جز سمجھا جاتا ہے۔ اردو غزل نے تلمیح
کی شعری افادیت سے کبھی منہ نہیں موڑا ۔ اردو کے چھوٹے بڑے شاعر کے ہاں ا س کے استعمال کا رواج ملتا ہے۔غالب سیاسی و سماجی زوال اور فکری جدّت کے کناروں کے بیچ زندگی بسرکررہےتھے۔ انہوں نے اپنی فکری پرواز کے اظہار کے لئے تلمیح کی شعری افادیت سے بڑھ چڑھ کر فائدہ اٹھایا ۔ ان کے ہاں اس کے استعمال کی متعدد صورتیں ملتی ہیں روایت سے ہٹ کر مفاہیم میں استعمال کرتے ہیں * عام بات ،واقعے یا معاملے کوخاص کا درجہ حاصل ہوجاتاہے * تقابلی صورت پیدا کرکے قاری کے سوچ میں ہلچل مچانے کے * لئے بطور ہتھیار کام میں لاتے ہیں تشبیہاا استعمال کرتے ہیں *جس پر حیرت کی جاتی رہی تھی ،کو عام اورمعمولی قراردے کر * اس سے بڑھ کر کسی طرف راغب کرتے ہیں بطورطنز استعمال کرتے ہیں * تلمیح کے حوالہ سے استحقاق کا مسئلہ اٹھاتے ہیں * مسترد کی اہمیت وضرورت کو اجاگر کرتے ہیں * کمز ورکو اس کی بعض خصوصیات کے تناظر میں برتر ثابت * کرنے کے لئے تلمیح کا استعمال کرتے ہیں پیروی کے روائتی پیمانے اور چال کو تلمیح کے تیشے سے * کاٹتے ہیں
اظہار برتری کے لئے تلمیح کو کام میں لاتے ہیں * کسی سماجی معاملے کی وضاحت کے ضمن میں استعمال کرتے * ہیں کسی کردار کے مقام ومرتبہ کی وضاحت کے باب میں تلمیح ان * کے کام آتی ہے اگلے صفحات میں غالب کی غزل میں استعمال ہونے والی بعض تلمیحات کی شعری تفہیم کی گئی ہے۔ جن میں درج بالا عناصر کی کسی نہ کسی حوالہ سے (تلمیح کی) بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ان معروضات کے حوالہ سے غالب کے قاری پر نہ صرف غالب کی فکر کے نئے گوشے وا ہوں گے بلکہ معلومات کی فراہمی کے باعثمطالعہء غالب کا پہلے سے زیادہ حظ اٹھایا جاسکے گا۔ اس ضمن میںاساتذۂ شعر کے کلام سے متعلقہ شعری اسناد بھی درج کر دی گئی ہیں آب بقا * ایسا پانی جس کے پینے سے دائمی زندگی می ّسر آتی ہو۔ فارسی روایات کے مطابق ظلمات میں ایک چشمہ بہتا ہے جس کے پانی میں یہ تاثیر ہے جو اسے پیتا ہے ہمیشہ کی زندگی حاصل کرتا ہے ۔مشہور ہے اس کا پانی حضرت خضر نے پی رکھا ہے اور عمر جاوداں رکھتے ہیں۔ وہ تمام دریاؤں اور چشموں کے نگران ہیں۔ بھولے بھٹکے مسافروں کی راہنمائی بھی کرتے ہیں( )١ہندوروایات کےمطابق دیوتاؤں اور رکھشسوں نے مل کر سمندر کی تہوں میں سے آب حیات حاصل کیا ۔ دیوتاؤں نے چھل سے یہ پانی پی لیا جبکہ رکھشس محروم رہے ۔یہی وجہ ہے کہ دیوتا حیات جاوداں رکھتے ہیں ۔ اسے
آ ِب حیات اور آ ِب حیواں کا نام بھی دیا جاتا ہے ۔ اردو غزل کے شعراء نے اس تلمیح کو مختلف انداز اور حوالوں سے نظم کیا ہے ۔ مثلااذوق اس کے وجود سے انکار کرتے ہیں اور آ ِب بقاسے متعلق روائتوں کومحض قصہ کہانیاں قراردیتے ہیںکہانیاں ہیں حکایا ِت خضر وآب بقا بقاکاذکر ہی کیا اس جہان فانی میں( )٢ذوقذوق کا دعوی قرآن کی اس آیت قل من علیھا فان ( )۳سے استوار ہے۔ ایک دوسرے شعر میں ان کاانداز بڑاجارحانہ اور تضحیک آمیز ہوگیا ہےجولذت آشنائے مرگ ہوتا خضر تو وہ بھی نہ پیتا آب حیواں ،ڈوب جاتا مرتا آب حیواں میں ( )۴ذوقظفر چشمہ خضر کو محض خوش بیانی کا نام دیتے ہیںاے سکندر نہ ڈھونڈ آ ِب حیات چشمہء خضر خوش بیانی ہے ()۵ ظفر میر صاحب ’’آ ِب حیوان‘‘ کو ایک دوسرے زاویہ سے دیکھ رہے ہیں۔ آب انسان ( )۶اپنی حیثیت میں بڑی اعلی اورکام کی چیز ہے ۔ نس ِلآدمی کا اسی پرانحصار ہے ۔ اگر یہ ختم ہوگیا یا اس میں کسی قسم کیکمزوری یاکجی پیدا ہوگئی تو آدمی باقی نہ رہے گا ۔ اپنی حقیقت میں آ ِب حیات‘‘ہے اسی کے سبب انسان زمانے میں باقی ہے۔ شعر ’’یہی کہیں نسل آدمی کی اٹھ نہ جاوے اس زمانے میں ملاحظہ فرمائیے کہ موتی آب حیواں جانتے ہیں اب انساں کو ( )٧میر
غالب کے ہاں اس تلمیح کا استعمال بالکل الگ سے انداز کاحامل ہے مجھ کو وہ دوکہ جسے کھا کے نہ پانی مانگوں زہر کچھ اورسہی آ ِب بقا اور سہیہمیشگی تو موت کے بعد کی زندگی کو حاصل ہے ۔ محبوب کے لئے یا محبوب کے ہاتھوں مرنا لایعنی اور معمولی عمل نہیں۔اس حوالہ سےمرنے والے کب مرتے ہیں۔ اس طرح محبوب کادیا ہوازہر ’’ آب بقا‘‘ کا درجہ رکھا ہے۔ دوسراتِل ِتل مرنے سے ایک بار مرنا کہیں بہتر ہے ۔اس زاویہ نظر سے زہر’’ آ ِب بقا‘‘ ٹھہرتا ہے ۔ آدم کا خلد سے نکلنا * تخلیق آدم کے بعد جنت کو حضرت آدم اور ان کی زوجہ حضرت حوا کا ٹھکانہ قراردیا گیا ساتھ میں یہ کہہ دیا گیا کہ ’’شج ِرممنوعہ‘‘ کے قریب تک نہ جانا ورنہ ظالموں میں ٹھہروگے ۔ حضرت آدم کی بیوی حوا نے شیطان کے بہکاوے میں آکر شجر ممنوعہ کا پھل کھالیا اور آدم صفی اللہ علیہ السلام کو بھی کھلا دیا۔ اس بشری بھول کے نتیجہمیں انہیں جنت سے نکال کر زمین پر بھیج دیا گیا ( )۸قرآن کے علاوہاس معاملے کا بائیبل کے عہد نامہ جدید کے پہلے صحیفے’’ پیدائش‘‘ )میں ذکر ملتا ہے (۹ چھوٹوں کی غلطیوں پر عموماا بڑوں کو شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے ۔ چھوٹے بھی اس کیفیت سے گزرتے ہیں ۔ ولی ؔ لغز ِش آدم کولغز ِش بنی نوع انسان پر محمول کر رہے ہیں اور اس پرنادم ہیں ہم کووو شفی ِع محشر دیں پناہ بس ہے شرمندگی ہماری عذ ِر گناہ بس ہے ( )١٠ولی
خوجہ درد کے نزدیک عباد ت ریاضت ’’گنا ِہ آدم‘‘ کا ثمرہ ہے ۔ اس’’ گناہ ‘‘ کو دھونے کے لئے آدمی متواتر عبادت کی راہ اختیار کئے ہوئے ہے سب طفی ِل گنا ِہ آدم ہے ( )١١درد مت عبادت پہ پھولیو زاہد غالب کے نزدیک کوچہء محبوب سے بے آبرو ہو کر نکلنا ،آدم کے خلد سے نکلنے سے مماثل ہے نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن بہت بے آبروہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے ابن مریم * حضرت عیسی ؔ کو اللہ تعالی نے بن باپ کے پیدا فرمایا ۔ انہیں ،ان کی والدہ کے حوالہ سے ابن مریم کہا ہے۔ جب لوگوں نے حضرت مریم کی گود میں بچہ دیکھا تو کہا کہ تمہارے باپ توایسے نہ تھے،تم نے یہ کیا کیا۔ اس وقت حضرت عیسی ؔ نے اپنی ماں کی بے گناہی کی گواہی دی اوراپنے صاحب کتاب نبی ہونے کا اعلان فرمایا()١٢ حضرت عیسی ؔ کو اللہ تعالی نے بیماروں کو ٹھیک کرنے کی طاقت عطا فرمائی ۔ اسی حوالہ سے ڈاکٹر کو ’’مسیحا‘‘ کانام دیا جاتا ہے ۔ غالب نے بھی اپنے اس شعر میں اسی بات کو حوالہ بنایاہے ابن مریم ہوا کرے کوئی میرے درد کی دوا کرے کوئی اعجاز مسیحا * حضرت عیسی ؔ کو اللہ تعالی کی طرف سے یہ معجزہ بھی می ّسر تھا کہ آپ قم باذن اللہ کہتے تومردے زندہ ہوجاتے ( )١۳مٹی کے پرندے
بنا کر پھونک مارتے تو وہ اللہ کے حکم سے فضا میں اڑنے لگتے ( )١۴قائم چاند پوری کے ہاں اس تلمیح کا استعمال ملاحظہ ہو کرے گوکہ اعجاز عیسی ؔ کے شیخ میں پہنچانتا ہوں اسے ،خر ہے وہ ( )١۵قائم اعجاز مسیحا‘‘ کومحض ایک بات قرار دیتے ہیں’’غالباک بات ہے اعجاز مسیحا اک کھیل ہے اور ن ِگ سلیمان مرے نزدیک مرے آگے د ِم عیسی بھی اس تناظر میں استعمال میں لائے ہیں مرگیا صدمہء یک جنب ِش لب سے غالب ناتوانی سے حری ِف دم عیسی ؔ نہ ہوا جنب ِش لب زندگی سے ہمکنار کرتی ہو ۔ بلاشبہ بہت بڑا کمال ہے ۔ جنب ِش لب موت سے ہمکنار کرتی ہو اوروہاں دم عیسی ؔ لایعنی اور بیکار ٹھہرے تویہ اس سے بڑا کمال ٹھہرتا ہے ۔ یہ تلمیح اردو غزل میں استعمال ہوتی آئی ہے ۔ مثلاا بے فائدہ انفاس کو ضائع نہ کر اے درد ہردم ،د ِم عیسی ہے تجھے پاس نہیں ہے ( )١۶درد رشتہ تا ِر د ِم مسیحا ہو ہومبارک تجھے یہ فرخ فال ( )١٧چندا بیماروں کی صحت کے حوالہ سے دوایک مثالیں ملاحظہ ہوں ترے بیمار لب کے تئیں جودیکھا مسیحا کی نہیں کرتی دواخوب ()١۸ جہاں دار
بیمار یہ ایسا نہیں کہ آوے بھی مسیحا مرے بالیں پہ تو کیا ہو محشر جس کو شفا ہو ()١۹ قائم چاند پوری ایسی زندگی پر حیف کرتے ہیں جوعیسی ؔ کی منت وائے اس زیست پر کہ جس کے لئے ہوجئے منت پذیر پذیر ہو عیسی ؔ کا ( )٢٠قائم اورنگ سلیمان * حضرت سلیمان بنی اسرائیل کے نبی تھے ۔ اللہ نے انہیں سلطنت اور حکومت عطا کی ۔ ان کے پاس مال و منال ،جاہ وجلال ،محلات یہاں تک کہ ان کے پینے کے برتن بھی خالص سونے کے تھے ()٢١ جانور اورعسکری سامان بھی موجودرہتا تھا۔ ان کے پاس ایک تخت تھا جو ہوا میں اڑتا تھا ۔ ہوا ان کے تخت کو لے کر اڑتی اور ایک دنمیں دوماہ کا سفر طے کرتی ( )٢٢حضرت سلیمان کے تخت کا مختلف قائم چاند پوری نے تخت حوالوں سے اردو شاعری میں ذکر آتا ہے سلیمان کے حوالہ سے قل من علیھا فان کے فلسفے کو اجاگر کیا ہےوہ تخت جو چلتا تھا پوچھیں گے سلیمان سے کہ کیدھر کیا برباد بہ توقیر ہو اپر ( )٢۳قائم ولی ؔ دکنی نے عشق میں بوریا نشینوں کے بوریا کو تخ ِت سلیمان کاسا قراردیا ہے کنج میں تجھ عشق کے جن نے کیا ہے مقام
اس کوں ٹوٹا بوریاتخت سلیماں ہوا ( )٢۴ولی ؔ غالب اورنگ سلیمان کو محض کھیل تماشا قراردیتے ہیں۔ انسانیفراست کی سربلندی کے حوالہ سے دیکھا جائے تو ان کا کہا غلط نہیں لگتا ۔ آج روشنی سے تیز رفتار طیارے ایجاد ہوگئے ہیں ۔اورنگ سلیمان عنای ِت خداوندی تھی۔ حضرت سلیمان نے یہ تخت خود ایجادنہیں کیا تھا جبکہ روشنی سے تیز رفتا ر طیارے اللہ کی عطا کی ہوئی فراست کا زندہ جاوید ثبوت ہیں اک کھیل ہے اورنگ سلیماں مرے نزدیک اک بات ہے اعجاز مسیحا مرے آگے ارم * حضرت نوح کی ۵ویں پشت سے ایک شخص کا نام عاد تھا ۔ شدیداورشداد اس کے دوبیٹے تھے اوردونوں بادشاہ تھے۔ جب شدید مرگیا تو سب ملکوں کا بادشاہ شداد قرار پایا ۔ اس نے اتنی ترقی کی کہ دنیاکا بادشاہ بن گیا ۔ وہ خدائی کا دعوی کرتا تھا۔ اس وقت کے پیغمبر جب اس کی ہدایت کو آئے اورجنت کی بشارت دی۔ اس نے بہشت کی تفصیلات ان سے پوچھیں ۔ پیغمبر خدا نے بتادیں۔ اس نے ایک معتدل جگہ منتخب کی اوربہشت بنوانا شروع کردیا ۔ اس کام پر ایک لاکھ مزدور کام کرتے تھے ۔ جب یہ بہشت تیار ہوا تو اس نے اس کا نام اپنے دادا کے نام پر باغِ ارم رکھا۔ قرآن مجید میں عا ِد ارم کا ذکرموجود ہے ۔ معاویہ بن ابوسفیان کے زمانے میں عبداللہ بن ثلاثہ اپنے اونٹ کی تلاش کرتا ہوا اس باغ میں پہنچ گیا چنانچہ واپس آکر جو کیفیت بیان کی اس کی تصدیق کعب احبار نے کی ( )٢۵باغِ ارم تعمیراتی ذوق اور حسن و جمال کی علامت ہے ۔ اردو غزل میں یہ
اپنے حسن کا حوالہ رکھتی ہے۔ میر ظفر علی اسیر کا کہنا ہے۔ جسطرح باغ ارم کا نشان نہیں ملتا اسی طرح نشان کوئے دوست غائب ہیںہے بجا باغ ارم سے ہم اگر تشبیہ دیں نام سنتے ہیں ،نہیں پاتے نشان کوئے دوست()٢۶اسیر خواجہ درد سینہ و دل کے داغوں کو رش ِک ارم کرنے کی صلاح دیتے ہیں سینہ و دل کے تئیں داغوں سے رش ِک گلزا ِر ارم کیجئے گا( )٢٧درد قائم چاند پوری نے کوچہء محبوب کو ارم کا مظہر قرار دیا ہے گلگشت دو عالم سے ہو کیوں کر وہ تسلی زائرہو جو کوئی ترے کوچے کے ِارم کا ( )٢۸قائم غالب ارم کو محبوب کے جوتے کے تلوں کے نقوش کے برابر قرار دیتے ہیں ۔ ارم تعداد میں ایک ہے جبکہ جوتوں کے تلوں کے نشان بہت سے اور ہر نشان ارم سے مماثل ۔ لطف لینے والوں کو ایسے جوتاگرکی تعریف کرنی چاہیئے۔ اصل کمال تو اس جوتاگر کا ہے جہاں تیرا نق ِش قدم دیکھتے ہیں خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں ایوب * حضرت ایوب بنی اسرائیل کے نبی تھے ۔ اپنے صبر کی وجہ سے شہرہ رکھتے ہیں ۔ آپ کا عوض کی سر زمین سے تعلق تھا ۔ ()٢۹اللہزمین پر آپ ایسا کامل راست باز ’’ ،نے آپ کو بہت کچھ دے رکھا تھا ۔‘‘ ( )۳٠خداسے ڈرنے والا اور بدی سے دور رہنے والا کوئی نہیں تھا پھر آپ پر آزمائش آئی سب مال و منال چھن گیا۔ آپ پر بیماری طاری
ہوئی ۔ سوائے ایک بیوی کے آپ کو سب چھوڑ گئے۔ اس کے باوجود آپ اللہ کے شکر گزار رہے۔ جب آزمائش ختم ہوگئی آ پ پر اللہ تعالی آخرایام میں ابتداکی نسبت زیادہ برکت ’’نے اسی طرح نوازشیں کیں ۔ بخشی ۔ اس کے پاس چودہ ہزار بھیڑ بکریاں اور چھ ہزار اونٹ اورایک ہزار جوتری بیل اور ہزار گدھیاں ہوگئیں ۔ اس کے سات بیٹے اور تین بیٹیاں ہوئیں ۔ اس سی عورتیں سرزمین میں نہ تھیں جو ایوب کی بیٹیوں کی طرح خوبصورت ہوں اور ان کے باپ نے ان کو ان کے )(‘‘۳١بھائیوں کے درمیان میراث دی حضرت ایوب ،حضرت یوسف کے داماد تھے ۔ آپ کی بیوی کا نام رحیمہ تھا۔ جو زلیخا کے بطن سے تھیں۔ بعضوں نے آپ کی بی بی کا نام زبا بنت یعقوب لکھا ہے۔ ( )۳٢احمد رضا خاں بریلوی کا کہنااللہ نے آپ کی تمام اولادیں زندہ فرمادیں اور اتنی ہی اور اولادیں ’’ہے۔ )۳۳آپ نے ایڑھی (‘‘عطاکیں ۔ آپ کی بی بی کو دوبارہ جوانی عطاکی ماری چشمہ جاری ہوگیا۔ اس میں آپ نے غسل فرمایا اور صحت یابہوئے۔ دوسری بار ایڑھی مارنے کا حکم ہوا اس سے چشمہ جاری ہوا ۔ جس میں سرد پانی ظاہر ہوا ۔آپ نے پیا،باطنی بیماریاںدورہوگئیں( )۳۴اس حادثہ کے بعد آپ ایک سو چالیس برس زندہ رہے )(۳۵ تکالیف برداشت کرنا اپنی جگہ ،بیماری پراف تک نہ کرنا بھی اپنی جگہ لیکن آپ نے مسی الضر( میرے پیچھے بیماری لگ گئی ہے ۔) ( )۳۶کہا ہے ۔ غالب کے نزدیک ایسا کلمہ منہ سے نکالنا گلے میں آتا ہے ۔ اللہ سب دیکھ رہا تھا پھر مسی الضر کہنے کی کیا ضرورت تھی۔ آپ کے منہ سے کچھ نکلنا صبر کی نفی کرتا ہے
آپ نے مسی الضر کہا ہے تو سہی یہ بھی یا حضرت ایوب گلا ہے تو سہی بر ِق تجلی *حضر ت موسی ؔ بنی اسرائیل کے صاحب کتاب نبی تھے۔ فرعون کے محل میں آپ کا پالن پوسن ہوا۔ فرعون خدائی کا دعوی کرتا تھا۔ آپ نے اس تک اللہ کا پیغام پہنچایا۔ وہ آپ کا دشمن ہوگیا۔ اس کا دعویغلط ثابت ہوا اور وہ دریا میں ڈوب کر مر گیا۔ حضرت موسی ؔ کو اللہ نے کچھ معجزے عطا کررکھے تھے ۔ آپ اپنا ہاتھ بغل میں دبا کر نکالتے تو وہ اس طرح چمکتا کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں چندھیا ید بیضا‘‘ کے نام سے اردو شاعری میں ’’ جاتیں۔ آپ کا یہ معجزہمختلف حوالوں سے یا د رکھا گیا ہے ۔ آپ اپنا عصا زمین پر ڈالتے تووہ اژدھا بن جاتا۔ آپ کی قوم نے آپ کومجبور کیا کہ وہ اللہ کو دیکھےبغیر ایمان نہیں لائیں گے ۔ آپ انہیں کوہ طور پر لے گئے۔کوہ طور پر جلوہ ہوا ۔ ان میں سے کوئی یہ جلوہ سہن نہ کرپایا۔ اس حوالہ سے اردو شاعری میں نظم ہوتی چلی آتی ہے۔ اسی ‘‘تلمیح ’’بر ِق تجلی ضمن میں ’’طور ‘‘ بھی بطور تلمیح استعمال ہوتا چلا آتا ہے۔سعادت خاں ناصر کا خیا ل ہے ’’طور‘‘ پر ہونے والی تجلی کسی کے رخِ روشن کا مضمون ہے۔ کہانیوں میں پڑھتے آرہے ہیں۔ حسینشہزادی کے حسن سے مہم جو شہزادہ غش کھا کر گرپڑا یا پھر اپنے آپے میں نہ رہا۔ حسن بہر طور متاثر تو کرتا ہے۔ بعض اوقات انساناس کی تاب نہیں لا پاتا اور حواس باختہ ہوجاتا ہے ۔ موسی ؔ کی قوم جلوۂ طور کو سہن نہ کرپائی تو یہ غیر فطری بات نہیں۔ ناصر نے جلوۂ حسن کو بڑے خوبصورت پیرائے میں نظم کیا ہے
سمجھتا ہوں تجلّی طور کی موسی کہیں اس کو ،میں شاعر ہوں اسے مضمون کسی کے روئے روشن کا ( )۳٧ناصر قائم کے خیال میں دل کے جلانے کا انداز برق تجلی سے بہتر ہے ۔انہوں نے آت ِش دل کی شدت کو اس تلمیح کے توسط سے اجاگر کیا ہے جلایا کو ِہ طور تیں موسی ؔ ،عبث بر ِق تجلّی سے اس آتش میں تو جل بجھنے کو دل کا طور بہتر تھا( )۳۸قائم میر صاحب بھی آتش دل کے حوالہ سے موسی ؔ سے مخاطب ہوتےہیں۔ ان کا کہنا ہے آت ِش دل نے شدت اختیار نہ کی تھی ورنہ اس آگ کا ایک شعلہ کو ِہ طور پرہونے والی صدتجلّیوں کے برابر تھا یک شعلہ بر ِق خرم ِن صد کو ِہ آتش بلند دل کی نہ تھی ورنہ اے کلیم طورتھا ( )۳۹میر غالب مدلل بات کرتے ہیں ۔ انہوں نے جذبات سے اٹھ کرحقائق سےمیل کھاتی بات کی ہے ۔ عطاظرف کے مطابق ہوتی ہے۔ ظرف سے ہٹ کر فیض خرابی کا سبب بنتا ہے گرنی تھی ہم پہ بر ِق تجلی نہ طور پر دیتے ہیں بادہ ،ظر ِف قدح خوار دیکھ کر غلام رسول مہر کہتے ہیںطورتجلّی کا مستحق نہ تھا ِاس لئے پھٹ گیا یعنی جوشراب اسے ملی ’’ ،وہ اس کے ظرف سے زیادہ تھی۔ البتہ ہم پر وہ بجلی گرتی تو اسے برداشت کر سکتے تھے ۔ اس شعر سے مرزا نے تمام مخلوقات پر نوع انسانی کے اشرف و اعلی ہونے کا
) ‘‘ (۴٠روشن ثبوت بہم پہنچایا ہے بتوں کی کعبے سے نسبت * بتوں کی پوجا کا رواج بہت پہلے سے چلا آتا ہے۔ مشرکوں نے کعبےتک کو نہ بخشا ،اسے بتوں سے بھر دیا ۔ حضرت ابراہیم کوبت شکنی کے جرم کی پاداش میں آگ میں پھینکا گیا ۔ نبی آخرالزماں کے عہد میں بھی کعبہ کو بتوں سے بھر دیا گیا تھا ۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ نے بتوں کی غلاظت سے کعبہ کو پاک کیا۔ غالب نے اس معاملے کوبالکل الگ انداز میں ملاحظہ کیا گیا ہے کعبے سے ان بتوں کو گوواں نہیں پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں بھی نسبت ہے دور کی بظار اس شعر سے بتوں کے احترام اور توقیر کا پہلو نکلتا ہے۔ اس ضمن میں غلام رسول مہر کا کہنا ہے مرزاغالب نے کعبے سے بتوں کی نسبت کے متعلق جو استدلال کیا ’’ )ہے ۔ وہ منطقی نہیں ،شاعرانہ ہے (۴١ محبوب کے لئے بھی لفظ ’’بت‘‘ مستعمل چلا آتا ہے ۔ بوئے پیرہن *یہ میرا کرتا لے جاؤاور اس کو ابا جان کے چہرے پر ڈال دینا کہ وہ ’’ پھر بینا ہوجائیں گے۔ جوں ہی قافلہ مصر چلا کہ ان لوگوں کے والد (یعقوب ) نے کہہ دیا کہ اگر مجھے سٹھیایا ہوا نہ کہو۔ (ایک بات )۔ (‘‘۴٢کہوں) کہ مجھے یوسف کی بو محسوس ہورہی ہے غالب کے ہاں اس تلمیح کا استعمال دیکھئے
اسے یوسف کی بوئے نسی ِم مصر کو کیا پی ِر کنعاں کی ہوا خواہی پیرہن کی آزمائش ہے جام جم * جام جم حکمائے فارس نے بنایا ۔ اس کے ذریعے اسے ہفت آسمان کا حال معلوم ہو جاتا تھا ۔ اس پیالے میں سات قسم کے خط کندہ تھے: ١۔خط جور ٢۔خط بغداد۳۔خط بصرہ۴۔خط ارزق۵۔ خط درشک۶۔خط کا سہ گر٧۔ خط فروینہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ پیالہ کیخسرو نے بنایا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کیخسرو نے اس میں اضافہ کیا تھا ۔ تاہم یہ طے ہے ،جمشیدکو شراب کے لئے جوپیالہ پیش کیا گیا اس کا نام جام جم تجویز کیا گیا۔ )(۴۳ اس تلمیح کا مختلف انداز سے اردو غزل میں ذکر ملتا ہے ۔میرصاحب نے جام جمشید کو فناکے فلسفے کو واضح کرنے کے لئے نظم کیا ہےوے صحبتیں کہاں گئیں ،جمشید جس نے وضع کیا جام ،کیا ہوا کیدھر وے ناونوش ( )۴۴میر میر صاحب کے اس شعر سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اس جام کا موجد جمشید تھا ۔کے حوالہ سے اجاگر ‘‘الطاف معاشرتی عدم توازن کو ’’جام جمشیدی کرتے ہیں کسی کو جام جمشیدی کسی کو راح ِت دنیا عدم سے چرخ لایا ہے ہمیں
اندوہ کھانے کو ( )۴۵الطاف خواجہ درد جس میں لاٹھی کے رویے کو نمایاں کررہے ہیں۔ اسے تقدیر کا معاملہ بھی کہہ سکتے ہیں سلطنت پر نہیں ہے کچھ موقوف جس کے ہاتھ آوے جام ،سوجم ہے ( )۴۶دردغالب کے نزدیک جس چیز کا میسر آنا ناممکنات میں ہو ،بھلا کس کام کی۔ چیز وہی اچھی ہے جوموقع بہ موقع می ّسر آجائے ۔ یہ بھی کہ ضائع ہوجانے کی صورت میں فوراا اور پھرسے فراہم ہوجائے ساغر جم سے مراجام سفال اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا اچھا ہے قصہء حمزہ * حمزہ کا ایک قصہ ہے ،جسے داستا ِن امیر حمزہ کہتے ہیں۔ اس کا حضور ﷺ کے چچا حضرت امیر حمزہ جو جن ِگ احد میں شہیدہوئے ،سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ داستان فوق الفطرت واقعات پر استوار ہے ۔ لوگ اسے اس کے واقعات کے حوالہ سے بڑے شوق سےسنتے ہیں۔ اس میں حمزہ ،عمر وعیار ،مہ لقا وغیرہ کردار کہانی کیدلچسپی ختم نہیں ہونے دیتے ۔ عمر وعیار کی احمقانہ حرکات توجہ کا مرکز رہتی ہیں۔ غالب نے اس تلمیح کوبڑے خوبصورت انداز میں قصہء عشق کے حوالہ سے نظم کیا ہے۔ اس ضمن میں غلام رسول مہر کا کہنا ہے کہیں یہ ممکن ہے کہ عشق کی کیفیت بیان کرنے پر ہر بال کی جڑ ’’
سے خالص خون نہ ٹپکنے لگے؟ اگرایسا ہوتو سمجھ لینا چاہئے وہ عشق کی داستان نہیں بلکہ حمزہ کا قصہ ہے ۔ جسے لوگ تفریحاا )سنتے اور ایک ایک واقع پر سردھنتے ہیں۔(۴٧ہرب ِن موسے د ِم ذکر نہ ٹپکے خوں ناب حمزہ کاقصہ ہوا عشق کا چرچا نہ ہوا خسرو ،شریں ،فرہاد * خسرو ایران کا بادشاہ تھا ۔ شیریں اس کی کنیز تھی جونہایت خوبصورت تھی۔ فرہاد (کوہکن) اس پر عاشق ہوگیا۔ خسرو نے فرہاد سے پیچھا چھڑانے کے لئے فارس کی مشہور پہاڑی سے دودھ کینہر نکالنے کی فرمائش کی ۔ فرہاد انجینئر تھا اس نے یہ کام کردکھا یا۔ خسرونے ایک کٹنی کے ذریعے فرہاد تک یہ خبر پہنچا دی کہ شیریںانتقال کر گئی ہے ۔ فرہاد نے اپنے تیشے سے خودکشی کرلی ۔یہ بھیکہا جاتا کہ خسرہ خود شریں سے محبت کرتا تھا ۔ اس نے دھوکہ سے فرہاد کی جان لے لی۔اس دن سے شیریں خسرو سے نفرت کرنے لگی ۔ خسرہ کا بیٹا بھی سے شریں سے محبت کرتا تھا اس نے شریں کی محبت میں باپ کو موت کے گھاٹ اتاردیا اور شیریں کو شادی کے لئے کہا۔ شیریں نے خسرو پرویز کے پیٹ میں خنجر گھونپ دیا ۔ خودروتی ہوئی فرہاد کی قبر پر گئی۔ قبر شق ہوئی اور وہ اس میں )سماگئی (۴۸ فرہاد کے دودھ کی نہر نکالنے کے حوالہ سے ایک ضرب المثل ’’جوئے شیر لانا‘‘عام سننے کوملتی ہے۔ غالب کے ہاں اس ضربالمثل کا استعمال پڑھنے کوملتا ہےکاوکا ِو سخت جانی ہائے تنہائی نہ صبح کرنا شام کا لاناہے جوئ ِے شیر کا پوچھ
ان کرداروں کے ساتھ کچھ امور وابستہ نظر آتے ہیں خسرو ،وہ بادشاہ ہے جودغا اور خیانت کرتا ہے * خسرو پرویز ،ناہنجار بیٹا جو ایک عورت کے لئے باپ کا قتل * جائز سمجھتا ہے فرہاد ،محنت اور جدوجہد سے عبارت ہے * شیریں خوبصورت اور وفا شعار ہے *اردو غزل کے شعرا نے ان تلمیحات کو مختلف حقائق کی وضاحت کے لئے استعمال کیا ہےمصحفی نے ان کرداروں کے حوالہ سے اپنے عہد کی تصویر کشی کی ہے ہوچکا دور خسر و و فرہاد اب نہ شیریں نہ جوئے شیر ہی ہے ()۴۹ مصحفی انعام اللہ یقین کا کہنا ہے کہ اگر میں فرہاد ہوتا تو خسرو کو عشرت کا موقع ہی نہ دیتا ،دودھ کی جگہ خون کہ نہر بہادیتا ۔ گویا فرہاد کاطرز عمل اور رد عمل درست نہ تھا نہ دیتا عیش کی خسرو کو فرصت قص ِر شیریں میں جومیں ہوتا تو جائے شیر ،جوئے خوں رواں کرتا ( )۵٠یقین میر فرخ علی فرخ کے نزدیک خسرو کا جاہ ومال اپنی جگہ لیکن فرہاد سے لوگ کہاں ملتے ہیں گوہوا شیریں تجھے خسروکی دولت جاہ ومال پر کہیں ہوتا ہے پیدا
کوہکن سا آشنا فرخ قائم چاند پوری نے کیا عمدہ مضمون نکالا ہے ۔ موت کی اذیت تو دم بھر کی ہے ،خواب شیریں تاقیامت ۔ قبر کے شق ہونے کے سیناریو میں ان کا کہا ملاحظہ فرمائیں اذیت ایک دم اور تاقیامت خواب شیریں ہے ہمارا سر تیری سی طرح کاش اے کوہ کن پھٹتا ( )۵١قائم جہاں دار نے شیریں لبوں کے خط کے حوالہ سے پیشہء فرہاد کی تمنا کی ہے شیریں لبوں کے عشق میں چاہے ہے جہاں دار اپنے تئیں ہم پیشہ ء فرہاد کریں ہم ( )۵٢جہاں دار حاتم فرہاد کو ’’ سر چڑھا‘‘ کے القاب سے نواز تے ہیں سو طرح ہے عاشقی کے فن میں فرہاد بھی ایک سرچڑھا تھا ()۵۳ حاتمچندا کا کہنا ہے کہ ناقص اور کامل کا کیا مقابلہ۔ پرویز کی حوس ناکی کو شیریں فرہاد کے عشق سے نسبت نہیں دی جاسکتیپرویز کو نسبت نہیں فرہاد سے شیریں ناقص نہیں ہوتا کبھی کامل کے برابر ( )۵۴چنداغالب کے ہاں یہ تینوں داستانی کردار موضوع گفتگوبنے ہیں ۔ شیریں کی موت کی خبر سن کر فرہاد کومرنے کے لئے تیشے کی کیوں
ضرورت پڑی ۔ اسے ہارٹ اٹیک ہوجانا چاہئیے تھا یا پھر صدمے سے مر گیا ہوتا۔ غالب نے معاملے کو انسانی فطرت اورنفسیات سے جوڑ دیا ہےتیشے بغیر مر نہ سکا کوہ کن اسد سرگزشتہء خمار رسوم وقیود تھاپھر کہتے ہیں یہ تیشے کا کمال ہے کہ اس نے فرہاد کو شیریں سے ہمکنار کیا ۔ ان کا موقف یہ ہے کہ جب بھی کسی پر انحصار کروگے،مارے جاؤگےہم سخن تیشے نے فرہاد کو شیریں سے کیا جس طرح کا کہ کسی میں ہو کمال ،اچھا ہےبضر ِب تیشہ وہ اس واسطے ہلا ک ہوا کہ ضر ِب تیشہ پہ رکھتا تھا کوہ کن تکیہ پیرزن : غالب نے شیریں کی موت کی من گھڑت خبر لے کر جانے والی بڑھیا ( پیرزن) کو بھی بطور تلمیح نظم کیا ہے ۔ ایک طرف بڑھیا کوبرا بھلا کہا ہے تو دوسری طرف کوہ کن کی سادگی پر افسوس کااظہار کیا ہے کہ اس نے خبر کی تصدیق کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کیدی سادگی سے جان ،پڑوں کوہ کن کے پانوہیہات کیوں نہ ٹوٹ گئے ،پیرزن کے پانو خضر
اللہ کے نبی اور برگزیدہ بندے تھے /ہیں ۔ آپ کی حیات و موت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ آپ فریدون بادشاہ کے زمانے میں ایک بادشاہ کے بیٹے تھے۔ آپ کا سلسلہ نسب کچھ یوں ہے )‘‘ (۵۵بلیا بن ملکا بن عامر بن ارفث بن سام بن نوح ’’ بقول احمد رضا خاں بریلویآپ کی کنیت ابو العباس ہے آپ بنی اسرائیل میں سے ہیں ۔ آپ نے ’’دنیا ترک کر کے زہد اختیار کیا ۔ ۔۔۔۔ آپ کا اصل نام بلیا ہے ۔لقب خضر کی وجہ یہ ہے کہ جہاں بیٹھتے یا نماز پڑھتے ہیں وہاں اگر گھاس ) ‘‘ (۵۶خشک ہوتو سرسبز ہوجاتی ہے امام بخاری کی روایت کے مطابق حضرت موسی ؔ کی حضرت خضرسے اللہ کے حکم کے مطابق مجمع الجرین میں ملاقات ہوئی ۔حضرت موسی ؔ نے ساتھ جانے کی اجازت طلب کی تاکہ وہ ان کے علو ِمباطن سے بہرہ ور ہوسکیں۔ انہوں نے اس شرط پراجازت دے دی کہ وہ صبر سے کام لیں گے اورکوئی سوال نہیں کریں گے۔ خضر نے کچھ ایسے کام کئے کہ حضرت موسی ؔ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ حضرت خضر نے کہا کہ میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ آپصبر نہیں کرسکیں گے اورحضرت موسی ؔ کاساتھ چھوڑ دیا۔ چلتے وقت ہر فعل کی تشریح کردی۔ ( )۵٧حضرت خضر کو دوامی زندگی میسر ہے ۔ نظر نہیں آتے صرف اولیا اللہ سے ملتے ہیں۔ اور سخت مصیبت میں بحکم الہی لوگوں کی مدد ،خصوصاا رہنمائی کرتے ہیں )(۵۸اردو غزل میں حضرت خضر بطور رہنما ،موت وحیات ،عمر دراز یا
پھر حضرت موسی ؔ کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں۔ شیخ حیدر علی نگاہ نے خوبصورت بیانی کو اعجاز خضر سے تعبیر کیا ہے۔ کلیم ، خضر کے سامنے زبان کھولنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے اعجاز خضر ہے سخن اپنا تو اے نگاہ آگے مرے ،کلیم کے منہ میں زباں نہ ہو ( )۵۹نگاہوارد ہوئے ہیں ) ( Guideعبدالرؤف شعور کے ہاں خضر بطور رہنمانا سور زخم عشق کرے کام خضر کا سبزے کا تاکہ تیرے لئے شاہ راہ ہو ( )۶٠شعور چندا نے عمردراز کے حوالے سے خضر کو فوکس کیا ہےہوتری عمر خضر ماہ جمال یوں ہی تری گرہ ہو سال بہ سال ( )۶١چندا قائم چاند پوری نے فرا ق کے حوالے سے خضر کی تلمیح کو پینٹہے طو ِل عم ِر خضر سے زیادتی تجھ بن اگرچہ نیم نفس سے کیا ہے بھی ہووے کم جینا ( )۶٢قائم خواجہ درد صوفی ہیں ۔ دراز ِی عمر کو فلسفہء فنا کے تناظر میں ملاحظہ کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اہل جذب و سلوک کے سامنے خضر اپنی طویل عمری سے بیزار ہوجائیں گے بیٹھا تھا خضر آکے مرے پاس ایک دم گھبر اکے اپنی زیست سے بیزار ہوگیا ( )۶۳درد میر صاحب خضر کو عشق سے ناواقف قرار دیتے ہیںنابلد ہوکے رہ عشق میں پہنچوں تو کہیں ہم ر ِہ خضر کو یاں کہتے ہیں
Search
Read the Text Version
- 1
- 2
- 3
- 4
- 5
- 6
- 7
- 8
- 9
- 10
- 11
- 12
- 13
- 14
- 15
- 16
- 17
- 18
- 19
- 20
- 21
- 22
- 23
- 24
- 25
- 26
- 27
- 28
- 29
- 30
- 31
- 32
- 33
- 34
- 35
- 36
- 37
- 38
- 39
- 40
- 41
- 42
- 43
- 44
- 45
- 46
- 47
- 48
- 49
- 50
- 51
- 52
- 53
- 54
- 55
- 56
- 57
- 58
- 59
- 60
- 61
- 62
- 63
- 64
- 65
- 66
- 67
- 68
- 69
- 70
- 71
- 72
- 73
- 74
- 75
- 76
- 77
- 78
- 79
- 80
- 81
- 82
- 83
- 84
- 85
- 86
- 87
- 88
- 89
- 90
- 91
- 92
- 93
- 94
- 95
- 96
- 97
- 98
- 99
- 100
- 101
- 102
- 103
- 104
- 105
- 106
- 107
- 108
- 109
- 110
- 111
- 112
- 113
- 114
- 115
- 116
- 117
- 118
- 119
- 120
- 121
- 122
- 123
- 124
- 125
- 126
- 127
- 128
- 129
- 130
- 131
- 132
- 133
- 134
- 135
- 136
- 137
- 138
- 139
- 140
- 141
- 142
- 143
- 144
- 145
- 146
- 147
- 148
- 149
- 150
- 151
- 152
- 153
- 154
- 155
- 156
- 157
- 158
- 159
- 160
- 161
- 162
- 163
- 164
- 165
- 166
- 167
- 168
- 169
- 170
- 171
- 172
- 173
- 174
- 175
- 176
- 177
- 178
- 179
- 180
- 181
- 182
- 183
- 184
- 185
- 186
- 187
- 188
- 189
- 190
- 191
- 192
- 193
- 194
- 195
- 196
- 197
- 198
- 199
- 200
- 201
- 202
- 203
- 204
- 205
- 206
- 207
- 208
- 209
- 210
- 211
- 212
- 213
- 214
- 215
- 216
- 217
- 218
- 219
- 220
- 221
- 222
- 223
- 224
- 225
- 226
- 227
- 228
- 229
- 230
- 231
- 232
- 233
- 234
- 235
- 236
- 237
- 238
- 239
- 240
- 241
- 242
- 243
- 244
- 245
- 246
- 247
- 248
- 249
- 250
- 251
- 252
- 253
- 254
- 255
- 256
- 257
- 258
- 259
- 260
- 261
- 262
- 263
- 264
- 265
- 266
- 267
- 268
- 269
- 270
- 271
- 272
- 273
- 274
- 275
- 276
- 277
- 278
- 279
- 280
- 281
- 282
- 283
- 284
- 285
- 286
- 287
- 288
- 289
- 290
- 291
- 292
- 293
- 294
- 295
- 296
- 297
- 298
- 299
- 300
- 301
- 302
- 303
- 304
- 305
- 306
- 307
- 308
- 309
- 310
- 311
- 312
- 313
- 314
- 315
- 316
- 317
- 318
- 319
- 320
- 321
- 322
- 323
- 324
- 325
- 326
- 327
- 328
- 329
- 330
- 331
- 332
- 333
- 334
- 335
- 336
- 337
- 338
- 339
- 340
- 341
- 342
- 343
- 344
- 345
- 346
- 347
- 348
- 349
- 350
- 351
- 352
- 353
- 354
- 355
- 356
- 357
- 358
- 359
- 360
- 361
- 362
- 363
- 364
- 365
- 366
- 367
- 368
- 369
- 370
- 371
- 372
- 373
- 374
- 375
- 376
- 377
- 378
- 379
- 380
- 381
- 382
- 383
- 384
- 385
- 386
- 387
- 388
- 389
- 390
- 391
- 392
- 393
- 394
- 395
- 396
- 397
- 398
- 399
- 400
- 401
- 402
- 403
- 404
- 405
- 406
- 407
- 408
- 409
- 410
- 411
- 412
- 413
- 414
- 415
- 416
- 417
- 418
- 419
- 420
- 421
- 422
- 423
- 424
- 425
- 426
- 427
- 428
- 429
- 430
- 431
- 432
- 433
- 434
- 435
- 436
- 437
- 438
- 439
- 440
- 441
- 442
- 443
- 444
- 445
- 446
- 447
- 448
- 449
- 450
- 451
- 452
- 453
- 454
- 455
- 456
- 457
- 458
- 459
- 460
- 461
- 462
- 463
- 464
- 465
- 466
- 467
- 468
- 469
- 470
- 471
- 472
- 473
- 474
- 475
- 476
- 477
- 478
- 479
- 480
- 481
- 482
- 483
- 484
- 485
- 486
- 487
- 488
- 489
- 490
- 491
- 492
- 493
- 494
- 495
- 496
- 497
- 498
- 499
- 500
- 501
- 502
- 503
- 504
- 505
- 506
- 507
- 508
- 509
- 510
- 511
- 512
- 513
- 514
- 515
- 516
- 517
- 518
- 519
- 520
- 521
- 522
- 523
- 524
- 525
- 526
- 527
- 528
- 529
- 530
- 531
- 532
- 533
- 534
- 535
- 536
- 537
- 538
- 539
- 540
- 541
- 542
- 543
- 544
- 545
- 546
- 547
- 548
- 549
- 550
- 551
- 552
- 553
- 554
- 555
- 556
- 557
- 558
- 559
- 560
- 561
- 562
- 563
- 564
- 565
- 566
- 567
- 568
- 569
- 570
- 571
- 572
- 573
- 574
- 575
- 576
- 577
- 578
- 579
- 580
- 581
- 582
- 583
- 584
- 585
- 586
- 587
- 588
- 589
- 590
- 591
- 592
- 593
- 594
- 595
- 596
- 597
- 598
- 599
- 600
- 601
- 602
- 603
- 604
- 605
- 606
- 607
- 608
- 609
- 610
- 611
- 612
- 613
- 614
- 615
- 616
- 617
- 618
- 619
- 620
- 621
- 622
- 623
- 624
- 625
- 626
- 627
- 628
- 629
- 630
- 631
- 632
- 633
- 634
- 635
- 636
- 637
- 638
- 639
- 640
- 641
- 642
- 643
- 644
- 645
- 1 - 50
- 51 - 100
- 101 - 150
- 151 - 200
- 201 - 250
- 251 - 300
- 301 - 350
- 351 - 400
- 401 - 450
- 451 - 500
- 501 - 550
- 551 - 600
- 601 - 645
Pages: