Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore لفظیات غالب کا تحقیقی و ساختیاتی مطالعہ

لفظیات غالب کا تحقیقی و ساختیاتی مطالعہ

Published by maqsood5, 2017-02-02 03:15:54

Description: abk_ksr_mh.946/2016

لفظیات غالب کا تحقیقی و ساختیاتی مطالعہ
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
جنوری ٢٠١٧

Search

Read the Text Version

‫میر محمود صابر کے ہاں بھی دوسرے عاشق کے معنوں میں ہواہے‬ ‫مجلس میں دیکھ غیر کے گلروکوں صابر ہے چشم ودل میں ہر مژہ‬ ‫خارآرسی کے تئیں (‪ )١٢۶‬صابر‬ ‫اشر ف علی فغاں نامحرم کے لئے ’’غیر ‘‘ کالفظ استعمال میں لاتے‬ ‫ہیں ؂‬ ‫ملے ہے غیر سے ‪ ،‬ہر گز اسے حجاب نہیں کہوں تو کہہ نہیں سکتا‬ ‫ہوں تو تاب نہیں (‪ )١٢٧‬فغاں‬ ‫چندا نے بھی رقیب کے معنوں میں نظم کیاہے ؂‬ ‫گر چھوڑ بز ِم غیر کو آجائے یاں تلک دکھلاؤں تجھ کو ایساہی جس‬ ‫کاہے نام رقص (‪ )١٢۸‬چندا‬ ‫خواجہ درد غیر سے مراد حاسد لیتے ہیں ؂‬ ‫بے وفائی نہیں محتاج غیر بکتے ہیں عبث ‪،‬میرے پیار ے تیری‬ ‫بدآموزی کی (‪ )۱۲۹‬درد‬ ‫ہر عاشق دوسرے عاشق کو اپنے محبوب کے لئے ’’غیر ‘‘ سمجھتا‬ ‫ہے اوریہ فطری سی بات ہے ۔یہ صور ت دونوں عاشقوں کی طر ف‬‫سے ہوتی ہے۔ غالب قدما سے مختلف نہیں ہیں ۔ ہاں خفیف سافرق اور‬ ‫کھلی شوخی اسے دوسروں سے ممتاز بنادیتی ہے۔ غیر ‪ ،‬جو عاشق‬‫ہے محبوب کے لئے آہ وزاری کرتاہے اور اپنی آہ وزاری کے ثمر بار‬‫ہونے کی توقع بھی رکھتاہے۔ دوسرا عاشق جو خو دکو حقیقی اورکسی‬ ‫دوسرے کو جھوٹا سمجھتا ہے اس کی حالت زار دیکھ کر خوش‬ ‫ہوتاہے۔ یہ صورتحال خطرناک بھی سکتی ہے۔ اس کی آہ وزاری پر‬























‫دور دراز کے علاقوں میں پیغام پہنچانے کے لئے تیسرے شخص ‪٢‬۔‬ ‫کی خدمات حاصل کی جائیں‬ ‫اردو غزل میں اس فریضے کو سرانجام دینے والے کو نامہ بر کہا‬ ‫گیاہے۔ لفظ نامہ بر سنتے ہی کسی اچھی یا بری خبر کے لئے ذہنی‬ ‫طور پر تیار ہونا پڑتا ہے۔ وزیر نے پیغام لانے والے کو نامہ بر کا نام‬ ‫دیاہے ؂‬ ‫بوے ان مرغوں کا ڈربا کھل خط پہ خط لائے جومرغ نامہ بر‬ ‫گیا(‪ )١۵۳‬وزیر‬ ‫غالب نے نامہ بر کو مختلف زوایوں سے ملاحظہ کیاہے ؂‬ ‫کیا رہوں غربت میں خوش جب ہو حوادث کایہ حال‬ ‫نامہ بر لاتا ہے وطن سے نامہ بر اکثر کھلا‬ ‫وہ جو پیغام ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جائے لیکن پیغام‬ ‫کوپڑھ کر بددیانتی کا ارتکاب کرے ؂‬‫ہولئے کیو ں نامہ بر کے ساتھ ساتھ یارب اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا‬ ‫پیغام لے کر جانے والے پرراز داری کا بھروسہ نہیں‬ ‫وعظ‪:‬‬ ‫انسانی سماج کا بڑا مضبوط اوراہم کردار رہاہے ۔ لوگوں کو‬ ‫نیکی پر لگانے اور بدی سے ہٹانے کے لئے اپنی سی کوشش‬ ‫کرتارہاہے ۔ ایسی بھی باتیں کرتارہاہے جن کا عملی زندگی میں کوئی‬ ‫حوالہ موجو د نہیں رہاہوتا۔ فرداکے حسین سپنے دکھاتاآیاہے ۔ لفظ‬

‫واعظ ایک ایسے شخص کا تصور سامنے لاتاہے جوخوف وہراس‬ ‫پھیلانے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور اسے نیکی کی اشاعت کانام دیتا‬‫ہے۔ وہ اپنی پسند کی نیکی (‪)۱۵۴‬پھیلانے کی ٹھانے ہوتاہے ۔ دھواں‬ ‫دھار تقریریں کرتاہے ۔ ایسی باتیں بھی کہہ جاتاہے جن پر وہ خود‬‫عمل نہیں کر رہاہوتا یا ان پر انجام دہی کے حوالہ سے معذور ہوتاہے۔‬ ‫یہ لفظ خشک ‪ ،‬سٹریل ‪ ،‬بدمزاج او رضدی قسم کا شخص سامنے لا‬ ‫کھڑا کرتاہے ۔ اس کردار سے ملنے کا شوق پید انہیں ہوتا بلکہ اس‬‫کی بے عمل ‪ ،‬خشک اور خلائی گفتگو سے بچ کر نکلنے کی سوجھتی‬ ‫ہے۔ اس کردار سے متعلق اردو شاعر ی میں بہت سے زاویے اور‬ ‫حوالے موجو دہیں۔مثلاا‬ ‫؂ ہمیں واعظ ڈراتا کیوں ہے دوزخ کے عذابوں سے‬ ‫معاصی گوہمارے بیش ہوں کچھ مغفرت کم ہے(‪ )١۵۵‬بہار‬ ‫ڈر ‪،‬خوف اور ہرا س پھیلانے والا‬ ‫؂ جب اصل مذاہب کو واعظ سیتی ہم پوچھا‬ ‫تب ہم سے کہنے لگا قصہ وحکا یاتیں (‪)١۵۶‬میر محمد حسن کلیم‬ ‫غلط سلط اور غیر متعلق باتیں کرنے والا ۔ دوسرے لفظوں میں علم و‬ ‫دانش سے پیدل۔ الٹے سیدھے قصے سنا کر لوگوں کومخمصے میں‬‫ڈالنے والا اور پنے بہترین نالج کاسکہ بٹھانے کی کو شش کرنے والا‬ ‫؂ واعظو‪ ،‬آت ِش دوزخ سے جہاں کو تم نے‬ ‫یہ ڈرایا کہ خود بن گئے ڈر کی صور ت (‪)١۵٧‬الطاف حسین حالی‬

‫لوگوں میں آخرت کے عذاب کے حوالہ سے اس قدر خوف ہراس پیدا‬ ‫کرنے والا کہ لوگ اس سے ملنے سے بھی خوف کھانے لگیں ۔‬ ‫؂ ویسے تومیری راہوں میں پڑتے تھے میکدے‬ ‫واعظ تری نگاہوں سے ڈرنا پڑا مجھے (‪)١۵۸‬آشا پر بھات‬ ‫غالب کا اپنا ڈھنگ ہے۔ واعظ کے کہے پر حیران نہیں ہوتے بلکہ بڑا‬ ‫عام لیتے ہیں ؂‬‫خلد بھی باغ ہے خیر آب وہوا کوئی دنیا میں مگر باغ نہیں ہے واعظ‬ ‫اورسہی‬ ‫یار‪:‬‬ ‫یار بڑا عام سا لفظ ہے اور ہمارے ہاں بہت سے معنوں میں استعمال‬ ‫ہوتاہے مثلاا گہر ادوست ‪،‬لنگوٹیا‪ ،‬مددگار‪،‬تعاون کرنے والا‪ ،‬برے وقت‬‫میں کام آنے والا ‪ ،‬دوستوں کا دوست ‪ ،‬نبھا کرنے والا ‪ ،‬بازاری معنوں‬ ‫میں کسی عورت کا عاشق وغیرہ ۔ یہ لفظ تسکین کا سبب بنتا ہے۔‬ ‫ہمت بند ھ جاتی ہے اور امداد ملنے کا احساس جاگ اٹھتا ہے ۔‬ ‫اعصابی تناؤ کم ہو جاتا ہے۔‬ ‫غالب کے ہاں یار ‪ ،‬ہمددر کے معنوں میں استعمال ہواہے ؂‬ ‫مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غالب یا ر لائے مری بالیں پہ‬ ‫اسے ‪ ،‬پر کس وقت‬‫ہمددر اور جگر ی دوست جو یار کو خوش رکھنے کو بگڑے ‪،‬ناراض ‪،‬‬ ‫ضدی اوراڑیل کو بھی مناکر دوست کے در پر لے آئیں ۔‬

‫مولاناعبدی نے حضور ﷺ کے لئے یار کا لفظ استعمال کیاہے ؂‬‫جن دیا یا رصد ق سوں سوے اللہ مولا پاک ہے جو جگ سرجن ہار‬ ‫اترے پار(‪)١۵۹‬مولانا عبدی‬‫قزلباش خاں امید ؔ نے گھر کے محبوب ترین فرد کے لئے اس لفظ کا‬ ‫انتخاب کیا ہے ؂‬‫یار بن گھر میں عجب صحبت ہے درودیوار سے اب صحبت ہے (‪)١۶٠‬‬ ‫امید‬ ‫شاہ مبارک آبرو نے محبوب کے لئے استعمال کیا ہے جو پیار‪ ،‬محبت‬ ‫اور شوق کو فراموش کر دیتاہے۔ اس طرح انہوں نے محبوب پیشہ‬ ‫لوگوں کا وتیر ا اورعمومی رویہ اورچلن کھول کر رکھ دیا ہے ؂‬ ‫وہ شوق وہ محبت افسو س ہے کی مجھ کو وہ یا ربھول جائے‬ ‫وہ پیار بھول جائے(‪ )١۶١‬شاہ مبارک آبرو‬ ‫عبدالحی تاباں کے نزدیک جس کے بنا دلی بے چین وبے کل رہے‬‫نہ یار آیا نہ صبر آیا بہت چاہا کہ آوے یار یا اس دلی کو صبر آوے‬ ‫دیا جی میں نداں اپنا (‪ )١۶٢‬تاباں‬‫میر علی اوسط رشک کے نزدیک ایسا دوست جس کی محبت ‪ ،‬چاؤ اور‬ ‫گرمجوشی سے تہی ہو ؂‬ ‫یار کو ہم سے لگاؤ نہیں وہ محبت نہیں وہ چاؤنہیں (‪ )١۶۳‬رشک‬ ‫قدیم اردو شاعری میں یہ لفظ زیادہ تر محبوب ‪ /‬معشوق کے لئے‬ ‫استعمال ہواہے۔‬

‫لوگ‪:‬‬ ‫لوگ ‪،‬عام استعمال کالفظ ہے ۔فردواحد کے لئے نہیں بولا جاتا ۔ اس‬‫لفظ کے ساتھ کوئی کردار مخصوص نہیں ۔ کوئی ساکر دار اس لفظ کے‬ ‫ساتھ منسلک ہوسکتاہے۔ اس لفظ کے حوالہ سے سر زد ہونے والے‬ ‫افعال سابقوں اور لاحقوں سے وابسطہ ہوتے ہیں ۔ غالب ؔ کے ہاں‬ ‫اس کر دار کی کار فرمائی ملاحظہ ہو‬ ‫جومے و نغمہ کو ؂ اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو‬ ‫اندوہ ربا کہتے ہیں‬ ‫سید ھے سادھے ‪ ،‬بھولے ‪ ،‬بیووقوف جن کانالج در ست نہیں‬ ‫لفظ لوگ پہلے ہی جمع کے لئے استعمال ہوتاہے۔غالب ا س کی جمع‬ ‫بھی استعمال میں لائے ہیں ؂‬‫ہر روز دکھاتاہوں میں اک لوگوں کو ہے خورشی ِد جہاں تاب کا دھوکہ‬ ‫داغ نہاں اور‬ ‫ناظرین جوغلط فہمی یا دھوکے میں ہوں ۔ کسی کا م یا تماشے کے‬‫لئے ناظر ین کلیدی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ ورنہ کارکر دگی کے‬ ‫متعلق منفی یا مثبت رائے کون دے گا۔‬ ‫شیخ جنید آخر کو واپس پھرنے والا ‪ ،‬اس لفظ کا کردار متعین کرتے‬ ‫ہیں ؂‬ ‫نہ کس مونس بوددیگر نہ بھائی باپ مہتاری تراگھر گوربسیار ند پھر‬ ‫کر لوگ گھر آوے (‪ )١۶۴‬شیخ جنید‬ ‫میر ؔ صاحب کے ہاں بطور جمع استعمال ہواہے ؂‬

‫آگے جواب سے ان لوگوں کے بارے معافی اپنی ہوئی‬ ‫ہم بھی فقیر ہوئے تھے لیکن ہم نے تر ِک سوال کیا (‪ )١۶۵‬میر ؔ‬‫کے سابقے کی بڑھوتی سے کچھ جمع کردار ‘‘اہل ’’غالب ؔ کے ہاں‬ ‫تشکیل پائے ہیں ۔ان کرداروں کے حوالہ سے کچھ نہ کچھ ضرور‬ ‫وقوع میں آتاہے ۔ نمونہ کے تین کردار ملاحظہ ہوں۔‬ ‫اہل بینش ‪:‬‬‫دانشور حضرات کا زوایہء نظر دوسروں سے ہمیشہ مختلف رہاہے اور‬ ‫یہ طبقہ معاشروں کے وجود کے لئے دلیل وحجت رہاہے ۔ غالب کے‬ ‫ہاں اس طبقے کا کردار بڑی عمدگی سے واضح کیا گیاہے۔ یہ طبقہ‬ ‫حوادث سے سبق سیکھتا ہے اور ان حوادث کے حوالہ سے تنگ‬ ‫حالات میں بھی راہیں تلاشتا رہتاہے ؂‬ ‫اہل بینش کو ہے طوفان حوادث مکتب لطمہء موج کم ازسیلی استاد‬ ‫نہیں‬‫کسی بھی قسم کی تمنا کرنے ‪ /‬رکھنے والا طبقہ ‪ ،‬ہمیشہ اہل تمنا‪:‬‬ ‫سے انسانی معاشروں میں موجود رہاہے ۔ غالب نے اس طبقے کے‬ ‫کردار کو کمال عمدگی سے پینٹ کیاہے ۔ محبوب کا جلو ہ جو اہل تمنا‬ ‫کو فنا کردے۔ یہ اہل تمنا کی انتہائی درجے کی عیاشی میں شمار‬ ‫ہوتاہے ؂‬ ‫عشر ِت قتل گ ِہ اہل تمنامت پوچھ عید نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا‬ ‫اہل ہمت ‪:‬‬ ‫اہل ہمت کا ہونا کسی معاشرے کے ہونے کی گرانٹی ہے ۔غالب بڑے‬

‫پائے کی بات کہہ رہے ہیں۔کائنات کی ان گنت چیزیں آزاد ہیں اور‬ ‫انسانی تصرف میں نہیں ہیں۔ اگر اہل ہمت موجو د ہوتے تو یہ آزادنہ‬ ‫ہوتیں۔انسان انہیں کھا پی گیا ہوتا۔ اہل ہمت کے ظرف کا بھلاکون‬‫اندازاہ کر سکتا ہے۔ مثال یہ دیتے ہیں مے خانے میں شراب باقی ہے‬ ‫تویہ اس امر کی دلیل ہے کہ میخوا ر موجود نہیں ہیں۔ شعر دیکھئے‬ ‫؂ رہا آبادعالم اہل ہمت کے نہ ہونے سے بھر ے ہیں جس قدر جام و‬ ‫سیو میخانہ خالی ہے‬ ‫اہل ‘‘ سے ترکیب پانے والے الفاظ ‪ /‬کردار اپنی ذات میں حد درجہ ’’‬ ‫جامعیت رکھتے ہیں ۔انسانی فکر کو حرکت اوربالیدگی سے سرفراز‬ ‫کرتے ہیں۔‬ ‫غالب نے کچھ مرکب الفاظ سے کردار تخلیق کئے ہیں ۔ مثلاا پری وش‬‫‪ ،‬پری پیکر ‪ ،‬بہشت شمائل وغیرہ ۔ یہ کردار محبوب سے متعلق ہیں ۔‬‫یہ محبوب کی شوخی ‪ ،‬نازو نخرا‪ ،‬حسن وجمال اداؤں وغیرہ کو اجاگر‬ ‫کرتے ہیں۔ یہ کردار غالب کے ذو ِق جمال کا بڑاعمدہ نمونہ ہیں ۔مثلاا‬ ‫؂ نہ سمجھوں اس کی باتیں گو نہ پاؤں اس کا بھید پر یہ کیا کم ہے‬ ‫کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا‬ ‫ضمائر‪:‬‬ ‫میں ‪ ،‬مجھ ‪ ،‬مجھے ‪ ،‬میرا ‪ ،‬میری ‪ ،‬میرے ایسی ضمائر ہیں‬ ‫جو شخص کی اپنی ذات سے متعلق ہوتی ہیں ۔ یہ بھی کہنے والے‬ ‫کے ماضی الضمیر سے جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔ ان کی نقل وحرکت اور‬ ‫کارگزاری انسانی نفسیات پر اثر انداز ہوتی ہے۔جب کوئی شخص اپنی‬ ‫کہنے لگتاہے توان ضمائر کا استعمال کرتاہے۔ اس ضمن میں دوتین‬

‫‪:‬مثالیں بطو رنمونہ ملاحظہ ہوں‬ ‫میں نے روکا رات غالب ؔ کو وگرنہ دیکھتے اس کے سی ِل گریہ میں‬ ‫گردوں کف سیلاب تھا‬‫میں ‘‘ کا کردار بڑا توانا ہے اس کے حوالہ سے خطرناک صورتحال ’’‬ ‫کا خطرہ ٹل جاتا ہے ؂‬ ‫نہ سمجھوں اس کی باتیں گونہ پاؤں اس کا بھید پر یہ کیا کم ہے کہ‬ ‫مجھ سے وہ پری پیکر کھلا‬ ‫مجھے کیا بر کہوں کس سے میں کہ کیا ہے ش ِب غم بری بلا ہے‬ ‫اتھا مرنا اگر ایک بار ہوتا‬‫تو‪ ،‬تجھ ‪،‬تم ‪ ،‬تیرا‪ ،‬تیرے اس ‪ ،‬آپ ‪ ،‬وہ وغیرہ کے حوالے سے بعض‬ ‫افعال کی وقوع پذیری سامنے لاتے ہیں۔مثلاا‬‫؂ تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم جب اٹھیں گے لے آئیں گے بازار سے‬ ‫جاکر دلی وجاں اور‬ ‫؂ وہ آرہا مرے ہمسایہ میں تو سائے سے ہوئے فدا درودیوار پر‬ ‫دردیوار‬

‫حواشی‬‫البقر‪٢ ۳۶:‬۔ البقر‪١ ۳۴:‬۔‬‫دیوان ‪۴‬۔ دیوان درد‪ ،‬مرتب خلیل الرحمن داؤ دی ‪،‬ص‪۳ ٢١۸‬۔‬ ‫درد‪،‬ص ‪١٧۵‬‬‫کلیات قائم‪،‬مرتب اقتدار حسن ‪ ،‬ص ‪۵ ۸١‬۔‬ ‫دیوان درد‪ ،‬ص ‪۶‬۔‬ ‫‪٢٠٧‬‬‫سندھ ‪۸‬۔ کلیات سودا ج ا ‪ ،‬مرزا محمد رفیع سودا ‪ ،‬ص‪٧ ٢٠۸‬۔‬ ‫میں ارد وشاعری‪ ،‬مولف ڈاکٹر نبی بخش خاں بلوچ‪ ،‬ص‪١٠۸‬‬‫دیوان درد ‪،‬ص‪١٠ ١۵١‬۔ دیوان درد‪،‬ص ‪۹ ٢٠۶‬۔‬‫‪١٢‬۔ کلیات میر ج ا‪ ،‬مرتب کلب علی خاں فائق ص‪١١ ١٠١‬۔‬ ‫نفسیات ‪،‬حمیر اہاشمی وغیرہ ‪،‬ص ‪١۴۹‬‬‫تذکرہ ‪١۴‬۔ کلیات ولی ‪ ،‬نو ر الحسن ہاشمی‪،‬ص‪١۳ ١٢۵‬۔‬ ‫مخزن نکات ‪ ،‬قائم چاند پوری ‪ ،‬ص ‪٢١‬‬‫شاہ عالم ثانی آفتا ب احوال و ادبی خدمات‪ ،‬ڈاکٹر محمد خاور ‪١۵‬۔‬

‫جمیل ‪ ،‬ص ‪٢٠۶‬‬‫سندھ میں ارد وشاعری‪١٧ ،‬۔ کلیات میرج ا‪ ،‬ص ‪١۶ ١٢٧‬۔‬ ‫ڈاکٹر نبی بخش خاں بلوچ‪ ،‬ص ‪۳۵‬‬‫کلیات ‪١۹‬۔ تذکرہ بہار ستان ناز ‪ ،‬کلیم فصیح الدین ‪،‬ص ‪١۸ ۴‬۔‬ ‫میرج ا‪،‬ص ‪١٢۸‬‬ ‫کلیات قائم ج ا‪ ،‬ص ‪٢٠ ٢٠‬۔‬‫تذکرہ حیدری‪ ،‬مولف حیدر بخش حیدری ‪ ،‬مرتبہ ڈاکٹر عبادت ‪٢١‬۔‬ ‫بریلوی ‪ ،‬ص ‪٧٢‬‬‫‪٢۳‬۔ تذکرہ خو ش معرکہ زبیا ج ا‪ ،‬سعادت ناصر خاں‪ ،‬ص ‪٢٢ ۴۴٢‬۔‬ ‫تذکرہ مخز ِن نکات‪ ،‬قائم چاند پوری ‪ ،‬مرتب ڈاکٹر اقتدار حسن‬ ‫‪،‬ص ‪١۸١‬‬‫دیوان درد ‪،‬ص ‪٢۵ ١۴٢‬۔ تذکرہ حیدری‪ ،‬ص ‪٢۴ ۴۶‬۔‬‫تذکرہ حیدری‪ ،‬ص ‪٢٧ ۴٧‬۔ دیوان درد‪ ،‬ص ‪٢۶ ١٧٧‬۔‬‫‪٢۹‬۔ تذکرہ حیدری‪ ،‬ص ‪٢۸ ١٢۳‬۔‬ ‫سندھ میں ارد وشاعری‪،‬‬ ‫ص ‪۸۵‬‬‫موح رواں ‪۳١‬۔ روشنی اے روشنی‪ ،‬شکیب جلالی‪ ،‬ص ‪۳٠ ۴۸‬۔‬ ‫‪ ،‬قمرساحری‪ ،‬ص ‪١۶۹‬‬‫‪۳۳‬۔ موج رواں‪ ،‬ص ‪۳٢ ١٧١‬۔‬ ‫سند ھ میں ارد وشاعری‪ ،‬ص‬ ‫‪۸۹‬‬‫دلی ‪۳۵‬۔ دلی کا دبستان شاعری‪ ،‬نور الحسن ہاشمی ‪ ،‬ص ‪۳۴ ١۶۵‬۔‬

‫کا دبستان شاعری ‪،‬ص ‪۳۸١‬‬‫دلی کا دبستان شاعری ‪،‬ص ‪۳۶ ۳۵۹‬۔‬ ‫دلی کا دبستان ‪۳٧‬۔‬ ‫شاعری‪ ،‬ص ‪١۴۳‬‬‫دلی کا دبستان شاعری ‪،‬ص ‪۳۸ ٢۴۴‬۔‬ ‫دلی کا دبستان ‪۳۹‬۔‬ ‫شاعری ‪،‬ص ‪١٠۵‬‬‫دلی کا دبستان شاعری‪ ،‬ص ‪۴٠ ١۹۴‬۔‬ ‫سند ھ میں اردو ‪۴١‬۔‬ ‫شاعری‪ ،‬ص ‪۶۹‬‬‫سند ھ میں اردو شاعری‪ ،‬ص ‪۴٢ ٧٠‬۔‬ ‫تذکرہ مخز ِن ‪۴۳‬۔‬ ‫نکات‪ ،‬ص ‪١١٧‬‬‫‪۴۵‬۔ دیوان درد‪ ،‬ص ‪۴۴ ١۸۹‬۔‬ ‫دیوان مہ لقا بائی چندا ‪ ،‬مرتب‬ ‫شفقت رضوی ‪،‬ص ‪١٢٧‬‬‫دیوان حالی‪۴٧ ،‬۔ سندھ میں ار دو شاعری ‪،‬ص ‪۴۶ ٧۹‬۔‬ ‫خواجہ الطاف حسین حالی ‪،‬ص ‪۳۶‬‬‫تذکرہ خو ش ‪۴۹‬۔ دلی کا دبستان شاعری ‪،‬ص ‪۴۸ ١۶۵‬۔‬ ‫معرکہ زیباج ‪،٢‬ص ‪۳۴٢‬‬‫تذکرہ حیدری‪ ،‬ص ‪۵١ ۵١‬۔ تذکرہ حیدری‪ ،‬ص ‪۵٠ ۶٧‬۔‬‫دلی کا دبستان شاعری ‪،‬ص ‪۵٢ ١۶۴‬۔‬ ‫کلیات سودا ج ا‪۵۳ ،‬۔‬ ‫ص ‪٧٠‬‬‫تذکرہ حیدری‪ ،‬ص‪۵۵ ١١۸‬۔ تذکرہ حیدری ‪،‬ص ‪۵۴ ١٠۹‬۔‬‫دیوان جہاں دار‪۵٧ ،‬۔ تذکرہ خو ش معرکہ زیباج ا‪ ،‬ص ‪۵۶ ١۹۸‬۔‬

‫مرتب ڈاکٹر وحید قریشی ‪،‬ص ‪۸٧‬‬‫‪۵۹‬۔ تذکرہ خوش معرکہ زیباج ‪،١‬ص‪۵۸ ٢۸۶‬۔‬ ‫کلیا ِت میر ج‬ ‫ا‪،‬ص ‪١٢٠‬‬‫تذکرہ حیدری‪ ،‬ص ‪۶١ ۶۸‬۔ کلیا ت قائم جلد ‪،١‬ص‪۶٠ ٢۸‬۔‬‫پنجاب میں ‪۶۳‬۔ دلی کا دبستان شاعری ‪،‬ص ‪۶٢ ۳۵۳‬۔‬ ‫اردو‪ ،‬حافظ محمود شیرانی ‪ ،‬ص ‪١۳۹‬‬‫‪۶۵‬۔ تذکرہ مخز ِن نکات‪ ،‬ص ‪۶۴ ١۳۹‬۔‬ ‫کلیات ولی ‪ ،‬ولی‬ ‫دکنی‪ ،‬ص ‪۵٧‬‬‫تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ‪۶٧‬۔ تذکرہ حیدری ‪،‬ص ‪۶۶ ۹۵‬۔‬ ‫جلد ‪،١‬ص ‪٢١‬‬‫‪۶۹‬۔ تذکرہ مخز ِن نکات‪ ،‬ص ‪۶۸ ۶٢‬۔‬ ‫سند ھ میں اردو شاعری‪،‬‬ ‫ص ‪٧٠‬‬‫‪٧١‬۔ نفسیات‪ ،‬ص ‪٧٠ ۵۵١‬۔‬ ‫نوائے سروش ‪ ،‬غلام رسول مہر‬ ‫‪،‬ص ‪٢٧‬‬‫دلی کا دبستان شاعری ‪،‬ص ‪٧٢ ١٠۴‬۔‬ ‫دلی کا دبستان ‪٧۳‬۔‬ ‫شاعری ‪،‬ص ‪١۶۵‬‬‫دلی کا دبستان شاعری ‪،‬ص ‪٧۴ ٢۹٧‬۔‬ ‫سندھ میں اردو ‪٧۵‬۔‬ ‫شاعری‪ ،‬ص ‪١۸‬‬‫دلی کا دبستان شاعری‪ ،‬ص ‪٧۶ ٢۹۸‬۔‬ ‫دلی کا دبستان ‪٧٧‬۔‬ ‫شاعری ‪،‬ص ‪١۶۵‬‬

‫دیوان درد‪ ،‬ص ‪٧۸ ١۶۹‬۔‬ ‫روح المطالب فی شرح دیوا ِن غالب‪ ،‬شاداں بلگرامی ‪ ،‬ص ‪٧۹‬۔‬‫سندھ میں ‪۸١‬۔ دلی کا دبستان شاعری ‪،‬ص ‪١۸٧۸٠ ١۵٢‬۔‬ ‫اردو شاعری‪ ،‬ص ‪۹٢‬‬‫دیوان مہ لقابائی چندا‪،‬ص ‪۸۳ ١۳٢‬۔ دیوان درد‪ ،‬ص ‪۸٢ ١۳٢‬۔‬‫اردو ئے قدیم‪ ،‬ص ‪۸۵ ١٢۹‬۔ تذکرہ مخزن نکات ‪،‬ص ‪۸۴ ۴۵‬۔‬‫‪۸٧‬۔ اردوئے قدیم ‪،‬ص ‪۸۶ ٢٧۹‬۔‬ ‫سندھ میں اردو شاعری‪،‬‬ ‫ص ‪۳٢‬‬‫دلی کا دبستان شاعری ‪،‬ص ‪۸۸ ١٠١‬۔‬ ‫دلی کا دبستان ‪۸۹‬۔‬ ‫شاعری ‪،‬ص ‪١۹۳‬‬‫دلی کا دبستان ‪۹١‬۔ دلی کادبستان شاعری ‪،‬ص ‪۹٠ ١۵١‬۔‬ ‫شاعری‪ ،‬ص ‪١۹۳‬‬‫دلی کا دبستان شاعری ‪،‬ص ‪۹٢ ١۹۳‬۔‬ ‫سند ھ میں ارد ‪۹۳‬۔‬ ‫وشاعری‪ ،‬ص ‪۸١‬‬‫دلی کا دبستان شاعری ‪،‬ص ‪۹۴ ١۴٧‬۔‬ ‫کلیات سودا ج ا‪۹۵ ،‬۔‬ ‫ص‪١٧۹‬‬‫سندھ میں ارد ‪۹٧‬۔ سندھ میں اردو شاعری‪ ،‬ص ‪۹۶ ١۹‬۔‬ ‫وشاعری‪ ،‬ص ‪٢۵‬‬‫‪۹۹‬۔ تذکرہ بہار ستان ناز‪،‬ص ‪۹۸ ١۹٢‬۔‬ ‫دیوا ِن حالی ‪،‬ص‬ ‫‪١٠۳‬‬

‫پوشیدگی ‪ ،‬راز‪ ،‬مخفی معاملات ‪١٠٠‬۔‬‫روح المطالب فی شرح دایو ِن غالب‪ ،‬شاداں بلگرامی‪ ،‬ص ‪١٠١‬۔‬ ‫‪١۸٢‬‬ ‫سند ھ میں اردو ‪١٠۳‬۔ اردوئے قدیم‪ ،‬ص ‪١٠٢ ۳۴۶‬۔‬ ‫شاعری‪ ،‬ص ‪۴۸‬‬ ‫دلی کا ‪١٠۵‬۔ سندھ میں اردو شاعری ‪،‬ص ‪١٠۴ ١٢۳‬۔‬ ‫دبستان شاعری‪ ،‬ص ‪١۵٢‬‬‫اردوئے ‪١٠٧‬۔ دلی کا دبستان شاعری‪ ،‬ص ‪١٠۶ ١٢۳‬۔‬ ‫قدیم‪ ،‬ڈاکٹر محمد باقر‪،‬ص ‪١۵۳‬‬ ‫پنجاب میں ‪١٠۹‬۔ بیان غالب ‪ ،‬آغا باقر ‪،‬ص ‪١٠۸ ١۶۵‬۔‬ ‫اردو‪ ،‬حافظ محمو د شیرانی ‪،‬ص ‪٢١٠‬‬ ‫دلی کا دبستان ‪١١١‬۔ اردوئے قدیم ‪،‬ص ‪١١٠ ۳۳٧‬۔‬ ‫شاعری‪ ،‬ص ‪١٢۸‬‬ ‫کلیات ‪١١۳‬۔ دلی کا دبستان شاعری ‪،‬ص ‪١١٢ ١۴۵‬۔‬ ‫سودا ج ا‪ ،‬ص ‪١١۹‬‬ ‫تذکرہ مخز ِن ‪١١۵‬۔ سندھ میں اردو شاعری‪ ،‬ص ‪١١۴ ۸١‬۔‬ ‫نکات‪ ،‬ص ‪١۶‬‬ ‫اردوئے قدیم‪ ،‬ص ‪١١٧‬۔ تذکرہ مخز ِن نکات‪ ،‬ص ‪١١۶ ٢۴‬۔‬ ‫‪١٢۸‬‬ ‫‪١١۹‬۔ روح المطالب فی شرح دیوان غالب‪ ،‬ص ‪١١۸ ١٠۵‬۔‬

‫دیوان درد‪،‬ص ‪٢٠١‬‬‫دلی کا دبستان شاعری ‪،‬ص ‪١٢٠ ١۴١‬۔‬ ‫کلیا ِت قائم ‪١٢١‬۔‬ ‫ج ‪ ،١‬ص ‪٢۳٠‬‬‫سندھ میں اردو ‪١٢۳‬۔ تذکرہ حیدری ‪،‬ص ‪١٢٢ ١٠١‬۔‬ ‫شاعری‪ ،‬ص ‪۹۵‬‬‫تذکرہ حیدری ‪،‬ص ‪١٢۵‬۔ پنجاب میں اردو ‪،‬ص ‪١٢۴ ٢۳۸‬۔‬ ‫‪۸۸‬‬‫دلی کا دبستان ‪١٢٧‬۔ سندھ میں اردو شاعری ‪،‬ص ‪١٢۶ ۳۴‬۔‬ ‫شاعری‪ ،‬ص ‪٢٠۸‬‬‫دیوان درد‪ ،‬ص ‪١٢۹‬۔ دیوان مہ لقابائی چندا ‪،‬ص‪١٢۸ ١٢٢‬۔‬ ‫‪٢٠۵‬‬‫اردوئے قدیم‪ ،‬ص ‪١۳١‬۔ پنجاب میں اردو ‪،‬ص ‪١۳٠ ٢٠٠‬۔‬ ‫‪١۶۵‬‬‫دلی کا دبستان شاعری ‪،‬ص ‪١۳٢ ١۵١‬۔‬ ‫دیوان ‪١۳۳‬۔‬ ‫حالی‪ ،‬ص ‪۸۴‬‬‫تذکرہ مخزن نکا ت‪ ،‬ص ‪١۳۴ ۸۴‬۔‬ ‫دلی کا دبستان ‪١۳۵‬۔‬ ‫شاعری ‪،‬ص ‪۳۸۸‬‬‫پنجاب میں اردو ‪١۳٧‬۔ سندھ میں اردو شاعری‪ ،‬ص ‪١۳۶ ۸۶‬۔‬ ‫‪،‬ص ‪۳١۵‬‬‫اردوئے قدیم‪١۳۹ ،‬۔ اردوئے قدیم ج ‪،٢‬ص ‪١۳۸ ١۳۹‬۔‬

‫ص ‪۳٠۶‬‬ ‫دلی کا ‪١۴١‬۔ دلی کا دبستان شاعری‪ ،‬ص ‪١۴٠ ١۵۴‬۔‬ ‫دبستان شاعری ‪،‬ص ‪۳۳٧‬‬ ‫دلی کا دبستان ‪١۴۳‬۔ پنجاب میں اردو‪ ،‬ص ‪١۴٢ ١۶۴‬۔‬ ‫شاعری ‪،‬ص ‪١۴۶‬‬‫سندھ میں اردو ‪١۴۵‬۔ سندھ میں اردو شاعری ‪،‬ص ‪١۴۴ ۶۸‬۔‬ ‫شاعری ‪،‬ص ‪١۵۹‬‬ ‫دیوان مہ لقابائی چندا‪ ،‬ص ‪١۴۶ ۹٧‬۔‬ ‫‪١۴۸‬۔ ‪١۴٧‬۔‬ ‫‪١۵٠‬۔ ‪١۴۹‬۔‬ ‫‪١۵٢‬۔ ‪١۵١‬۔‬ ‫‪١۵۴‬۔ ‪١۵۳‬۔‬ ‫‪١۵۶‬۔ ‪١۵۵‬۔‬ ‫‪١۵۸‬۔ ‪١۵٧‬۔‬ ‫‪١۶٠‬۔ ‪١۵۹‬۔‬ ‫‪١۶٢‬۔ ‪١۶١‬۔‬ ‫‪١۶۴‬۔ ‪١۶۳‬۔‬ ‫‪١۶۶‬۔ ‪١۶۵‬۔‬

‫‪١۶۸‬۔ ‪١۶٧‬۔‬ ‫‪١٧٠‬۔ ‪١۶۹‬۔‬ ‫‪-‬باب نمبر‪3‬‬‫تلمیحات غالب کی شعری تفہیم‬‫تلمیح کے لغوی معنی رمز اوراشارہ کے ہیں لیکن شعری اصطلاح میں‬ ‫کسی تاریخی واقعہ‪ ،‬مذہبی حکم‪ ،‬لوک داستانی کردار وغیرہ کو اس‬‫انداز سے نظم کیاجائے کہ شعر کا مضمون پرلطف اورزوردار ہوجائے۔‬ ‫اس میں دو ایک الفاظ کو استعمال میں لایا جاتاہے۔ ان کو پڑھتے ہی‬ ‫پورا واقعہ ‪،‬قصہ ‪ ،‬معاملہ یاحکم وغیرہ قاری کے ذہنی گوشوں میں‬ ‫متحرک ہوکر قاری کے سوچ کو شعر میں موجود مضمون میں گم‬ ‫کردیتا ہے ۔ تلمیح کو حس ِن شعر کادرجہ حاصل ہے۔ شعر میں تلمیح‬‫سے متعلقہ لفظ یا الفاظ کو جونئے اور مخصوص مفاہیم ملتے ہیں اس‬ ‫سے ہی انہیں اصطلاح کا درجہ حاصل ہوتاہے۔‬ ‫عربی‪ ،‬فارسی اور برصغیر کی زبانوں میں تلمیح کا استعمال بڑا عام‬‫ہے اور اسے شعری زبان کا جز سمجھا جاتا ہے۔ اردو غزل نے تلمیح‬

‫کی شعری افادیت سے کبھی منہ نہیں موڑا ۔ اردو کے چھوٹے بڑے‬ ‫شاعر کے ہاں ا س کے استعمال کا رواج ملتا ہے۔غالب سیاسی و‬ ‫سماجی زوال اور فکری جدّت کے کناروں کے بیچ زندگی بسرکررہے‬‫تھے۔ انہوں نے اپنی فکری پرواز کے اظہار کے لئے تلمیح کی شعری‬ ‫افادیت سے بڑھ چڑھ کر فائدہ اٹھایا ۔ ان کے ہاں اس کے استعمال کی‬ ‫متعدد صورتیں ملتی ہیں‬ ‫روایت سے ہٹ کر مفاہیم میں استعمال کرتے ہیں *‬ ‫عام بات‪ ،‬واقعے یا معاملے کوخاص کا درجہ حاصل ہوجاتاہے *‬ ‫تقابلی صورت پیدا کرکے قاری کے سوچ میں ہلچل مچانے کے *‬ ‫لئے بطور ہتھیار کام میں لاتے ہیں‬ ‫تشبیہاا استعمال کرتے ہیں *‬‫جس پر حیرت کی جاتی رہی تھی ‪ ،‬کو عام اورمعمولی قراردے کر *‬ ‫اس سے بڑھ کر کسی طرف راغب کرتے ہیں‬ ‫بطورطنز استعمال کرتے ہیں *‬ ‫تلمیح کے حوالہ سے استحقاق کا مسئلہ اٹھاتے ہیں *‬ ‫مسترد کی اہمیت وضرورت کو اجاگر کرتے ہیں *‬ ‫کمز ورکو اس کی بعض خصوصیات کے تناظر میں برتر ثابت *‬ ‫کرنے کے لئے تلمیح کا استعمال کرتے ہیں‬ ‫پیروی کے روائتی پیمانے اور چال کو تلمیح کے تیشے سے *‬ ‫کاٹتے ہیں‬

‫اظہار برتری کے لئے تلمیح کو کام میں لاتے ہیں *‬ ‫کسی سماجی معاملے کی وضاحت کے ضمن میں استعمال کرتے *‬ ‫ہیں‬ ‫کسی کردار کے مقام ومرتبہ کی وضاحت کے باب میں تلمیح ان *‬ ‫کے کام آتی ہے‬ ‫اگلے صفحات میں غالب کی غزل میں استعمال ہونے والی بعض‬ ‫تلمیحات کی شعری تفہیم کی گئی ہے۔ جن میں درج بالا عناصر کی‬ ‫کسی نہ کسی حوالہ سے (تلمیح کی) بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ان‬ ‫معروضات کے حوالہ سے غالب کے قاری پر نہ صرف غالب کی فکر‬ ‫کے نئے گوشے وا ہوں گے بلکہ معلومات کی فراہمی کے باعث‬‫مطالعہء غالب کا پہلے سے زیادہ حظ اٹھایا جاسکے گا۔ اس ضمن میں‬‫اساتذۂ شعر کے کلام سے متعلقہ شعری اسناد بھی درج کر دی گئی ہیں‬ ‫آب بقا *‬ ‫ایسا پانی جس کے پینے سے دائمی زندگی می ّسر آتی ہو۔ فارسی‬ ‫روایات کے مطابق ظلمات میں ایک چشمہ بہتا ہے جس کے پانی میں‬ ‫یہ تاثیر ہے جو اسے پیتا ہے ہمیشہ کی زندگی حاصل کرتا ہے ۔‬‫مشہور ہے اس کا پانی حضرت خضر نے پی رکھا ہے اور عمر جاوداں‬ ‫رکھتے ہیں۔ وہ تمام دریاؤں اور چشموں کے نگران ہیں۔ بھولے‬ ‫بھٹکے مسافروں کی راہنمائی بھی کرتے ہیں(‪ )١‬ہندوروایات کے‬‫مطابق دیوتاؤں اور رکھشسوں نے مل کر سمندر کی تہوں میں سے آب‬ ‫حیات حاصل کیا ۔ دیوتاؤں نے چھل سے یہ پانی پی لیا جبکہ رکھشس‬ ‫محروم رہے ۔یہی وجہ ہے کہ دیوتا حیات جاوداں رکھتے ہیں ۔ اسے‬

‫آ ِب حیات اور آ ِب حیواں کا نام بھی دیا جاتا ہے ۔ اردو غزل کے شعراء‬ ‫نے اس تلمیح کو مختلف انداز اور حوالوں سے نظم کیا ہے ۔ مثلاا‬‫ذوق اس کے وجود سے انکار کرتے ہیں اور آ ِب بقاسے متعلق‬ ‫روائتوں کومحض قصہ کہانیاں قراردیتے ہیں‬‫کہانیاں ہیں حکایا ِت خضر وآب بقا‬ ‫بقاکاذکر ہی کیا اس جہان فانی‬ ‫میں(‪ )٢‬ذوق‬‫ذوق کا دعوی قرآن کی اس آیت قل من علیھا فان (‪ )۳‬سے استوار ہے۔‬ ‫ایک دوسرے شعر میں ان کاانداز بڑاجارحانہ اور تضحیک آمیز ہوگیا‬ ‫ہے‬‫جولذت آشنائے مرگ ہوتا خضر تو وہ بھی نہ پیتا آب حیواں ‪ ،‬ڈوب‬ ‫جاتا مرتا آب حیواں میں (‪ )۴‬ذوق‬‫ظفر چشمہ خضر کو محض خوش بیانی کا نام دیتے ہیں‬‫اے سکندر نہ ڈھونڈ آ ِب حیات‬ ‫چشمہء خضر خوش بیانی ہے (‪)۵‬‬ ‫ظفر‬ ‫میر صاحب ’’آ ِب حیوان‘‘ کو ایک دوسرے زاویہ سے دیکھ رہے ہیں۔‬ ‫آب انسان (‪ )۶‬اپنی حیثیت میں بڑی اعلی اورکام کی چیز ہے ۔ نس ِل‬‫آدمی کا اسی پرانحصار ہے ۔ اگر یہ ختم ہوگیا یا اس میں کسی قسم کی‬‫کمزوری یاکجی پیدا ہوگئی تو آدمی باقی نہ رہے گا ۔ اپنی حقیقت میں‬ ‫آ ِب حیات‘‘ہے اسی کے سبب انسان زمانے میں باقی ہے۔ شعر ’’یہی‬ ‫کہیں نسل آدمی کی اٹھ نہ جاوے اس زمانے میں ملاحظہ فرمائیے‬ ‫کہ موتی آب حیواں جانتے ہیں اب انساں کو (‪ )٧‬میر‬

‫غالب کے ہاں اس تلمیح کا استعمال بالکل الگ سے انداز کاحامل ہے‬ ‫مجھ کو وہ دوکہ جسے کھا کے نہ پانی مانگوں‬ ‫زہر کچھ اورسہی آ ِب بقا اور سہی‬‫ہمیشگی تو موت کے بعد کی زندگی کو حاصل ہے ۔ محبوب کے لئے یا‬ ‫محبوب کے ہاتھوں مرنا لایعنی اور معمولی عمل نہیں۔اس حوالہ سے‬‫مرنے والے کب مرتے ہیں۔ اس طرح محبوب کادیا ہوازہر ’’ آب بقا‘‘ کا‬ ‫درجہ رکھا ہے۔ دوسراتِل ِتل مرنے سے ایک بار مرنا کہیں بہتر ہے‬ ‫۔اس زاویہ نظر سے زہر’’ آ ِب بقا‘‘ ٹھہرتا ہے ۔‬ ‫آدم کا خلد سے نکلنا *‬ ‫تخلیق آدم کے بعد جنت کو حضرت آدم اور ان کی زوجہ حضرت حوا‬ ‫کا ٹھکانہ قراردیا گیا ساتھ میں یہ کہہ دیا گیا کہ ’’شج ِرممنوعہ‘‘ کے‬ ‫قریب تک نہ جانا ورنہ ظالموں میں ٹھہروگے ۔ حضرت آدم کی بیوی‬ ‫حوا نے شیطان کے بہکاوے میں آکر شجر ممنوعہ کا پھل کھالیا اور‬ ‫آدم صفی اللہ علیہ السلام کو بھی کھلا دیا۔ اس بشری بھول کے نتیجہ‬‫میں انہیں جنت سے نکال کر زمین پر بھیج دیا گیا (‪ )۸‬قرآن کے علاوہ‬‫اس معاملے کا بائیبل کے عہد نامہ جدید کے پہلے صحیفے’’ پیدائش‘‘‬ ‫)میں ذکر ملتا ہے (‪۹‬‬ ‫چھوٹوں کی غلطیوں پر عموماا بڑوں کو شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے ۔‬ ‫چھوٹے بھی اس کیفیت سے گزرتے ہیں ۔ ولی ؔ لغز ِش آدم کولغز ِش‬ ‫بنی نوع انسان پر محمول کر رہے ہیں اور اس پرنادم ہیں‬ ‫ہم کووو شفی ِع محشر دیں پناہ بس ہے شرمندگی ہماری عذ ِر گناہ بس‬ ‫ہے (‪ )١٠‬ولی‬

‫خوجہ درد کے نزدیک عباد ت ریاضت ’’گنا ِہ آدم‘‘ کا ثمرہ ہے ۔ اس’’‬ ‫گناہ ‘‘ کو دھونے کے لئے آدمی متواتر عبادت کی راہ اختیار کئے‬ ‫ہوئے ہے‬ ‫سب طفی ِل گنا ِہ آدم ہے (‪ )١١‬درد مت عبادت پہ پھولیو زاہد‬ ‫غالب کے نزدیک کوچہء محبوب سے بے آبرو ہو کر نکلنا‪ ،‬آدم کے‬ ‫خلد سے نکلنے سے مماثل ہے‬ ‫نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن بہت بے آبروہوکر ترے‬ ‫کوچے سے ہم نکلے‬ ‫ابن مریم *‬ ‫حضرت عیسی ؔ کو اللہ تعالی نے بن باپ کے پیدا فرمایا ۔ انہیں ‪ ،‬ان‬ ‫کی والدہ کے حوالہ سے ابن مریم کہا ہے۔ جب لوگوں نے حضرت‬ ‫مریم کی گود میں بچہ دیکھا تو کہا کہ تمہارے باپ توایسے نہ تھے‪،‬‬‫تم نے یہ کیا کیا۔ اس وقت حضرت عیسی ؔ نے اپنی ماں کی بے گناہی‬ ‫کی گواہی دی اوراپنے صاحب کتاب نبی ہونے کا اعلان فرمایا(‪)١٢‬‬ ‫حضرت عیسی ؔ کو اللہ تعالی نے بیماروں کو ٹھیک کرنے کی طاقت‬ ‫عطا فرمائی ۔ اسی حوالہ سے ڈاکٹر کو ’’مسیحا‘‘ کانام دیا جاتا ہے ۔‬ ‫غالب نے بھی اپنے اس شعر میں اسی بات کو حوالہ بنایاہے‬ ‫ابن مریم ہوا کرے کوئی میرے درد کی دوا کرے کوئی‬ ‫اعجاز مسیحا *‬ ‫حضرت عیسی ؔ کو اللہ تعالی کی طرف سے یہ معجزہ بھی می ّسر تھا‬ ‫کہ آپ قم باذن اللہ کہتے تومردے زندہ ہوجاتے (‪ )١۳‬مٹی کے پرندے‬

‫بنا کر پھونک مارتے تو وہ اللہ کے حکم سے فضا میں اڑنے لگتے‬ ‫(‪ )١۴‬قائم چاند پوری کے ہاں اس تلمیح کا استعمال ملاحظہ ہو‬ ‫کرے گوکہ اعجاز عیسی ؔ کے شیخ میں پہنچانتا ہوں اسے‪ ،‬خر ہے‬ ‫وہ (‪ )١۵‬قائم‬ ‫اعجاز مسیحا‘‘ کومحض ایک بات قرار دیتے ہیں’’غالب‬‫اک بات ہے اعجاز مسیحا اک کھیل ہے اور ن ِگ سلیمان مرے نزدیک‬ ‫مرے آگے‬ ‫د ِم عیسی بھی اس تناظر میں استعمال میں لائے ہیں‬ ‫مرگیا صدمہء یک جنب ِش لب سے غالب ناتوانی سے حری ِف دم‬ ‫عیسی ؔ نہ ہوا‬ ‫جنب ِش لب زندگی سے ہمکنار کرتی ہو ۔ بلاشبہ بہت بڑا کمال ہے ۔‬ ‫جنب ِش لب موت سے ہمکنار کرتی ہو اوروہاں دم عیسی ؔ لایعنی اور‬ ‫بیکار ٹھہرے تویہ اس سے بڑا کمال ٹھہرتا ہے ۔ یہ تلمیح اردو غزل‬ ‫میں استعمال ہوتی آئی ہے ۔ مثلاا‬ ‫بے فائدہ انفاس کو ضائع نہ کر اے درد ہردم ‪ ،‬د ِم عیسی ہے تجھے‬ ‫پاس نہیں ہے (‪ )١۶‬درد‬ ‫رشتہ تا ِر د ِم مسیحا ہو ہومبارک تجھے یہ فرخ فال (‪ )١٧‬چندا‬ ‫بیماروں کی صحت کے حوالہ سے دوایک مثالیں ملاحظہ ہوں‬ ‫ترے بیمار لب کے تئیں جودیکھا مسیحا کی نہیں کرتی دواخوب (‪)١۸‬‬ ‫جہاں دار‬

‫بیمار یہ ایسا نہیں کہ آوے بھی مسیحا مرے بالیں پہ تو کیا ہو‬ ‫محشر جس کو شفا ہو (‪)١۹‬‬ ‫قائم چاند پوری ایسی زندگی پر حیف کرتے ہیں جوعیسی ؔ کی منت‬ ‫وائے اس زیست پر کہ جس کے لئے ہوجئے منت پذیر پذیر ہو‬ ‫عیسی ؔ کا (‪ )٢٠‬قائم‬ ‫اورنگ سلیمان *‬ ‫حضرت سلیمان بنی اسرائیل کے نبی تھے ۔ اللہ نے انہیں سلطنت اور‬ ‫حکومت عطا کی ۔ ان کے پاس مال و منال ‪ ،‬جاہ وجلال ‪،‬محلات یہاں‬ ‫تک کہ ان کے پینے کے برتن بھی خالص سونے کے تھے (‪)٢١‬‬ ‫جانور اورعسکری سامان بھی موجودرہتا تھا۔ ان کے پاس ایک تخت‬ ‫تھا جو ہوا میں اڑتا تھا ۔ ہوا ان کے تخت کو لے کر اڑتی اور ایک دن‬‫میں دوماہ کا سفر طے کرتی (‪ )٢٢‬حضرت سلیمان کے تخت کا مختلف‬ ‫قائم چاند پوری نے تخت حوالوں سے اردو شاعری میں ذکر آتا ہے‬ ‫سلیمان کے حوالہ سے قل من علیھا فان کے فلسفے کو اجاگر کیا ہے‬‫وہ تخت جو چلتا تھا پوچھیں گے سلیمان سے کہ کیدھر کیا برباد‬ ‫بہ توقیر ہو اپر (‪ )٢۳‬قائم‬ ‫ولی ؔ دکنی نے عشق میں بوریا نشینوں کے بوریا کو تخ ِت سلیمان‬ ‫کاسا قراردیا ہے‬ ‫کنج میں تجھ عشق کے جن نے کیا ہے مقام‬

‫اس کوں ٹوٹا بوریاتخت سلیماں ہوا (‪ )٢۴‬ولی ؔ‬ ‫غالب اورنگ سلیمان کو محض کھیل تماشا قراردیتے ہیں۔ انسانی‬‫فراست کی سربلندی کے حوالہ سے دیکھا جائے تو ان کا کہا غلط نہیں‬ ‫لگتا ۔ آج روشنی سے تیز رفتار طیارے ایجاد ہوگئے ہیں ۔اورنگ‬ ‫سلیمان عنای ِت خداوندی تھی۔ حضرت سلیمان نے یہ تخت خود ایجاد‬‫نہیں کیا تھا جبکہ روشنی سے تیز رفتا ر طیارے اللہ کی عطا کی ہوئی‬ ‫فراست کا زندہ جاوید ثبوت ہیں‬ ‫اک کھیل ہے اورنگ سلیماں مرے نزدیک اک بات ہے اعجاز مسیحا‬ ‫مرے آگے‬ ‫ارم *‬ ‫حضرت نوح کی ‪ ۵‬ویں پشت سے ایک شخص کا نام عاد تھا ۔ شدید‬‫اورشداد اس کے دوبیٹے تھے اوردونوں بادشاہ تھے۔ جب شدید مرگیا‬ ‫تو سب ملکوں کا بادشاہ شداد قرار پایا ۔ اس نے اتنی ترقی کی کہ دنیا‬‫کا بادشاہ بن گیا ۔ وہ خدائی کا دعوی کرتا تھا۔ اس وقت کے پیغمبر جب‬ ‫اس کی ہدایت کو آئے اورجنت کی بشارت دی۔ اس نے بہشت کی‬ ‫تفصیلات ان سے پوچھیں ۔ پیغمبر خدا نے بتادیں۔ اس نے ایک معتدل‬ ‫جگہ منتخب کی اوربہشت بنوانا شروع کردیا ۔ اس کام پر ایک لاکھ‬ ‫مزدور کام کرتے تھے ۔ جب یہ بہشت تیار ہوا تو اس نے اس کا نام‬ ‫اپنے دادا کے نام پر باغِ ارم رکھا۔ قرآن مجید میں عا ِد ارم کا ذکر‬‫موجود ہے ۔ معاویہ بن ابوسفیان کے زمانے میں عبداللہ بن ثلاثہ اپنے‬ ‫اونٹ کی تلاش کرتا ہوا اس باغ میں پہنچ گیا چنانچہ واپس آکر جو‬ ‫کیفیت بیان کی اس کی تصدیق کعب احبار نے کی (‪ )٢۵‬باغِ ارم‬ ‫تعمیراتی ذوق اور حسن و جمال کی علامت ہے ۔ اردو غزل میں یہ‬

‫اپنے حسن کا حوالہ رکھتی ہے۔ میر ظفر علی اسیر کا کہنا ہے۔ جس‬‫طرح باغ ارم کا نشان نہیں ملتا اسی طرح نشان کوئے دوست غائب ہیں‬‫ہے بجا باغ ارم سے ہم اگر تشبیہ دیں نام سنتے ہیں ‪ ،‬نہیں پاتے نشان‬ ‫کوئے دوست(‪)٢۶‬اسیر‬ ‫خواجہ درد سینہ و دل کے داغوں کو رش ِک ارم کرنے کی صلاح دیتے‬ ‫ہیں‬ ‫سینہ و دل کے تئیں داغوں سے رش ِک گلزا ِر ارم کیجئے گا(‪ )٢٧‬درد‬ ‫قائم چاند پوری نے کوچہء محبوب کو ارم کا مظہر قرار دیا ہے‬ ‫گلگشت دو عالم سے ہو کیوں کر وہ تسلی زائرہو جو کوئی ترے‬ ‫کوچے کے ِارم کا (‪ )٢۸‬قائم‬ ‫غالب ارم کو محبوب کے جوتے کے تلوں کے نقوش کے برابر قرار‬ ‫دیتے ہیں ۔ ارم تعداد میں ایک ہے جبکہ جوتوں کے تلوں کے نشان‬ ‫بہت سے اور ہر نشان ارم سے مماثل ۔ لطف لینے والوں کو ایسے‬ ‫جوتاگرکی تعریف کرنی چاہیئے۔ اصل کمال تو اس جوتاگر کا ہے‬ ‫جہاں تیرا نق ِش قدم دیکھتے ہیں خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں‬ ‫ایوب *‬ ‫حضرت ایوب بنی اسرائیل کے نبی تھے ۔ اپنے صبر کی وجہ سے‬ ‫شہرہ رکھتے ہیں ۔ آپ کا عوض کی سر زمین سے تعلق تھا ۔ (‪)٢۹‬اللہ‬‫زمین پر آپ ایسا کامل راست باز ‪’’ ،‬نے آپ کو بہت کچھ دے رکھا تھا ۔‬‫‪‘‘ ( )۳٠‬خداسے ڈرنے والا اور بدی سے دور رہنے والا کوئی نہیں تھا‬ ‫پھر آپ پر آزمائش آئی سب مال و منال چھن گیا۔ آپ پر بیماری طاری‬

‫ہوئی ۔ سوائے ایک بیوی کے آپ کو سب چھوڑ گئے۔ اس کے باوجود‬ ‫آپ اللہ کے شکر گزار رہے۔ جب آزمائش ختم ہوگئی آ پ پر اللہ تعالی‬ ‫آخرایام میں ابتداکی نسبت زیادہ برکت ’’نے اسی طرح نوازشیں کیں ۔‬ ‫بخشی ۔ اس کے پاس چودہ ہزار بھیڑ بکریاں اور چھ ہزار اونٹ اور‬‫ایک ہزار جوتری بیل اور ہزار گدھیاں ہوگئیں ۔ اس کے سات بیٹے اور‬ ‫تین بیٹیاں ہوئیں ۔ اس سی عورتیں سرزمین میں نہ تھیں جو ایوب کی‬ ‫بیٹیوں کی طرح خوبصورت ہوں اور ان کے باپ نے ان کو ان کے‬ ‫)(‪‘‘۳١‬بھائیوں کے درمیان میراث دی‬ ‫حضرت ایوب‪ ،‬حضرت یوسف کے داماد تھے ۔ آپ کی بیوی کا نام‬ ‫رحیمہ تھا۔ جو زلیخا کے بطن سے تھیں۔ بعضوں نے آپ کی بی بی کا‬ ‫نام زبا بنت یعقوب لکھا ہے۔ (‪ )۳٢‬احمد رضا خاں بریلوی کا کہنا‬‫اللہ نے آپ کی تمام اولادیں زندہ فرمادیں اور اتنی ہی اور اولادیں ’’ہے۔‬‫‪ )۳۳‬آپ نے ایڑھی (‘‘عطاکیں ۔ آپ کی بی بی کو دوبارہ جوانی عطاکی‬ ‫ماری چشمہ جاری ہوگیا۔ اس میں آپ نے غسل فرمایا اور صحت یاب‬‫ہوئے۔ دوسری بار ایڑھی مارنے کا حکم ہوا اس سے چشمہ جاری ہوا‬ ‫۔ جس میں سرد پانی ظاہر ہوا ۔آپ نے پیا‪،‬باطنی بیماریاں‬‫دورہوگئیں(‪ )۳۴‬اس حادثہ کے بعد آپ ایک سو چالیس برس زندہ رہے‬ ‫)(‪۳۵‬‬ ‫تکالیف برداشت کرنا اپنی جگہ ‪،‬بیماری پراف تک نہ کرنا بھی اپنی‬ ‫جگہ لیکن آپ نے مسی الضر( میرے پیچھے بیماری لگ گئی ہے ۔)‬ ‫(‪ )۳۶‬کہا ہے ۔ غالب کے نزدیک ایسا کلمہ منہ سے نکالنا گلے میں‬ ‫آتا ہے ۔ اللہ سب دیکھ رہا تھا پھر مسی الضر کہنے کی کیا ضرورت‬ ‫تھی۔ آپ کے منہ سے کچھ نکلنا صبر کی نفی کرتا ہے‬

‫آپ نے مسی الضر کہا ہے تو سہی‬ ‫یہ بھی یا حضرت ایوب گلا‬ ‫ہے تو سہی‬ ‫بر ِق تجلی *‬‫حضر ت موسی ؔ بنی اسرائیل کے صاحب کتاب نبی تھے۔ فرعون کے‬ ‫محل میں آپ کا پالن پوسن ہوا۔ فرعون خدائی کا دعوی کرتا تھا۔ آپ‬ ‫نے اس تک اللہ کا پیغام پہنچایا۔ وہ آپ کا دشمن ہوگیا۔ اس کا دعوی‬‫غلط ثابت ہوا اور وہ دریا میں ڈوب کر مر گیا۔ حضرت موسی ؔ کو اللہ‬ ‫نے کچھ معجزے عطا کررکھے تھے ۔ آپ اپنا ہاتھ بغل میں دبا کر‬ ‫نکالتے تو وہ اس طرح چمکتا کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں چندھیا‬ ‫ید بیضا‘‘ کے نام سے اردو شاعری میں ’’ جاتیں۔ آپ کا یہ معجزہ‬‫مختلف حوالوں سے یا د رکھا گیا ہے ۔ آپ اپنا عصا زمین پر ڈالتے تو‬‫وہ اژدھا بن جاتا۔ آپ کی قوم نے آپ کومجبور کیا کہ وہ اللہ کو دیکھے‬‫بغیر ایمان نہیں لائیں گے ۔ آپ انہیں کوہ طور پر لے گئے۔کوہ طور پر‬ ‫جلوہ ہوا ۔ ان میں سے کوئی یہ جلوہ سہن نہ کرپایا۔ اس حوالہ سے‬ ‫اردو شاعری میں نظم ہوتی چلی آتی ہے۔ اسی ‘‘تلمیح ’’بر ِق تجلی‬ ‫ضمن میں ’’طور ‘‘ بھی بطور تلمیح استعمال ہوتا چلا آتا ہے۔‬‫سعادت خاں ناصر کا خیا ل ہے ’’طور‘‘ پر ہونے والی تجلی کسی کے‬ ‫رخِ روشن کا مضمون ہے۔ کہانیوں میں پڑھتے آرہے ہیں۔ حسین‬‫شہزادی کے حسن سے مہم جو شہزادہ غش کھا کر گرپڑا یا پھر اپنے‬ ‫آپے میں نہ رہا۔ حسن بہر طور متاثر تو کرتا ہے۔ بعض اوقات انسان‬‫اس کی تاب نہیں لا پاتا اور حواس باختہ ہوجاتا ہے ۔ موسی ؔ کی قوم‬ ‫جلوۂ طور کو سہن نہ کرپائی تو یہ غیر فطری بات نہیں۔ ناصر نے‬ ‫جلوۂ حسن کو بڑے خوبصورت پیرائے میں نظم کیا ہے‬

‫سمجھتا ہوں تجلّی طور کی موسی کہیں اس کو‪ ،‬میں شاعر ہوں‬ ‫اسے مضمون کسی کے روئے روشن کا (‪ )۳٧‬ناصر‬ ‫قائم کے خیال میں دل کے جلانے کا انداز برق تجلی سے بہتر ہے ۔‬‫انہوں نے آت ِش دل کی شدت کو اس تلمیح کے توسط سے اجاگر کیا ہے‬ ‫جلایا کو ِہ طور تیں موسی ؔ ‪ ،‬عبث بر ِق تجلّی سے اس آتش میں تو‬ ‫جل بجھنے کو دل کا طور بہتر تھا(‪ )۳۸‬قائم‬ ‫میر صاحب بھی آتش دل کے حوالہ سے موسی ؔ سے مخاطب ہوتے‬‫ہیں۔ ان کا کہنا ہے آت ِش دل نے شدت اختیار نہ کی تھی ورنہ اس آگ کا‬ ‫ایک شعلہ کو ِہ طور پرہونے والی صدتجلّیوں کے برابر تھا‬ ‫یک شعلہ بر ِق خرم ِن صد کو ِہ آتش بلند دل کی نہ تھی ورنہ اے کلیم‬ ‫طورتھا (‪ )۳۹‬میر‬ ‫غالب مدلل بات کرتے ہیں ۔ انہوں نے جذبات سے اٹھ کرحقائق سے‬‫میل کھاتی بات کی ہے ۔ عطاظرف کے مطابق ہوتی ہے۔ ظرف سے ہٹ‬ ‫کر فیض خرابی کا سبب بنتا ہے‬ ‫گرنی تھی ہم پہ بر ِق تجلی نہ طور پر‬ ‫دیتے ہیں بادہ‪ ،‬ظر ِف قدح خوار دیکھ کر‬ ‫غلام رسول مہر کہتے ہیں‬‫طورتجلّی کا مستحق نہ تھا ِاس لئے پھٹ گیا یعنی جوشراب اسے ملی ’’‬ ‫‪ ،‬وہ اس کے ظرف سے زیادہ تھی۔ البتہ ہم پر وہ بجلی گرتی تو اسے‬ ‫برداشت کر سکتے تھے ۔ اس شعر سے مرزا نے تمام مخلوقات پر‬ ‫نوع انسانی کے اشرف و اعلی ہونے کا‬

‫)‪ ‘‘ (۴٠‬روشن ثبوت بہم پہنچایا ہے‬ ‫بتوں کی کعبے سے نسبت *‬ ‫بتوں کی پوجا کا رواج بہت پہلے سے چلا آتا ہے۔ مشرکوں نے کعبے‬‫تک کو نہ بخشا‪ ،‬اسے بتوں سے بھر دیا ۔ حضرت ابراہیم کوبت شکنی‬ ‫کے جرم کی پاداش میں آگ میں پھینکا گیا ۔ نبی آخرالزماں کے عہد‬ ‫میں بھی کعبہ کو بتوں سے بھر دیا گیا تھا ۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ‬ ‫نے بتوں کی غلاظت سے کعبہ کو پاک کیا۔ غالب نے اس معاملے‬ ‫کوبالکل الگ انداز میں ملاحظہ کیا گیا ہے‬ ‫کعبے سے ان بتوں کو گوواں نہیں پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں‬ ‫بھی نسبت ہے دور کی‬ ‫بظار اس شعر سے بتوں کے احترام اور توقیر کا پہلو نکلتا ہے۔ اس‬ ‫ضمن میں غلام رسول مہر کا کہنا ہے‬ ‫مرزاغالب نے کعبے سے بتوں کی نسبت کے متعلق جو استدلال کیا ’’‬ ‫)ہے ۔ وہ منطقی نہیں‪ ،‬شاعرانہ ہے (‪۴١‬‬ ‫محبوب کے لئے بھی لفظ ’’بت‘‘ مستعمل چلا آتا ہے ۔‬ ‫بوئے پیرہن *‬‫یہ میرا کرتا لے جاؤاور اس کو ابا جان کے چہرے پر ڈال دینا کہ وہ ’’‬ ‫پھر بینا ہوجائیں گے۔ جوں ہی قافلہ مصر چلا کہ ان لوگوں کے والد‬ ‫(یعقوب ) نے کہہ دیا کہ اگر مجھے سٹھیایا ہوا نہ کہو۔ (ایک بات‬ ‫)۔ (‪‘‘۴٢‬کہوں) کہ مجھے یوسف کی بو محسوس ہورہی ہے‬ ‫غالب کے ہاں اس تلمیح کا استعمال دیکھئے‬

‫اسے یوسف کی بوئے نسی ِم مصر کو کیا پی ِر کنعاں کی ہوا خواہی‬ ‫پیرہن کی آزمائش ہے‬ ‫جام جم *‬ ‫جام جم حکمائے فارس نے بنایا ۔ اس کے ذریعے اسے ہفت آسمان کا‬ ‫حال معلوم ہو جاتا تھا ۔ اس پیالے میں سات قسم کے خط کندہ تھے‪:‬‬ ‫‪١‬۔خط جور ‪٢‬۔خط بغداد‪۳‬۔خط بصرہ‪۴‬۔خط ارزق‪۵‬۔ خط درشک‪۶‬۔خط کا‬ ‫سہ گر‪٧‬۔ خط فروینہ‬ ‫یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ پیالہ کیخسرو نے بنایا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا‬ ‫ہے کہ کیخسرو نے اس میں اضافہ کیا تھا ۔ تاہم یہ طے ہے ‪ ،‬جمشید‬‫کو شراب کے لئے جوپیالہ پیش کیا گیا اس کا نام جام جم تجویز کیا گیا۔‬ ‫)(‪۴۳‬‬ ‫اس تلمیح کا مختلف انداز سے اردو غزل میں ذکر ملتا ہے ۔میر‬‫صاحب نے جام جمشید کو فناکے فلسفے کو واضح کرنے کے لئے نظم‬ ‫کیا ہے‬‫وے صحبتیں کہاں گئیں ‪ ،‬جمشید جس نے وضع کیا جام ‪ ،‬کیا ہوا‬ ‫کیدھر وے ناونوش (‪ )۴۴‬میر‬ ‫میر صاحب کے اس شعر سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اس جام‬ ‫کا موجد جمشید تھا ۔‬‫کے حوالہ سے اجاگر ‘‘الطاف معاشرتی عدم توازن کو ’’جام جمشیدی‬ ‫کرتے ہیں‬ ‫کسی کو جام جمشیدی کسی کو راح ِت دنیا عدم سے چرخ لایا ہے ہمیں‬

‫اندوہ کھانے کو (‪ )۴۵‬الطاف‬ ‫خواجہ درد جس میں لاٹھی کے رویے کو نمایاں کررہے ہیں۔ اسے‬ ‫تقدیر کا معاملہ بھی کہہ سکتے ہیں‬ ‫سلطنت پر نہیں ہے کچھ موقوف جس کے ہاتھ آوے جام ‪ ،‬سوجم ہے‬ ‫(‪ )۴۶‬درد‬‫غالب کے نزدیک جس چیز کا میسر آنا ناممکنات میں ہو‪ ،‬بھلا کس کام‬ ‫کی۔ چیز وہی اچھی ہے جوموقع بہ موقع می ّسر آجائے ۔ یہ بھی کہ‬ ‫ضائع ہوجانے کی صورت میں فوراا اور پھرسے فراہم ہوجائے‬ ‫ساغر جم سے مراجام سفال اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا‬ ‫اچھا ہے‬ ‫قصہء حمزہ *‬ ‫حمزہ کا ایک قصہ ہے ‪ ،‬جسے داستا ِن امیر حمزہ کہتے ہیں۔ اس کا‬ ‫حضور ﷺ کے چچا حضرت امیر حمزہ جو جن ِگ احد میں شہید‬‫ہوئے ‪،‬سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ داستان فوق الفطرت واقعات پر استوار‬ ‫ہے ۔ لوگ اسے اس کے واقعات کے حوالہ سے بڑے شوق سے‬‫سنتے ہیں۔ اس میں حمزہ ‪ ،‬عمر وعیار ‪ ،‬مہ لقا وغیرہ کردار کہانی کی‬‫دلچسپی ختم نہیں ہونے دیتے ۔ عمر وعیار کی احمقانہ حرکات توجہ کا‬ ‫مرکز رہتی ہیں۔ غالب نے اس تلمیح کوبڑے خوبصورت انداز میں‬ ‫قصہء عشق کے حوالہ سے نظم کیا ہے۔ اس ضمن میں غلام رسول‬ ‫مہر کا کہنا ہے‬ ‫کہیں یہ ممکن ہے کہ عشق کی کیفیت بیان کرنے پر ہر بال کی جڑ ’’‬

‫سے خالص خون نہ ٹپکنے لگے؟ اگرایسا ہوتو سمجھ لینا چاہئے وہ‬ ‫عشق کی داستان نہیں بلکہ حمزہ کا قصہ ہے ۔ جسے لوگ تفریحاا‬ ‫)سنتے اور ایک ایک واقع پر سردھنتے ہیں۔(‪۴٧‬‬‫ہرب ِن موسے د ِم ذکر نہ ٹپکے خوں ناب‬ ‫حمزہ کاقصہ ہوا عشق کا‬ ‫چرچا نہ ہوا‬ ‫خسرو‪ ،‬شریں ‪ ،‬فرہاد *‬ ‫خسرو ایران کا بادشاہ تھا ۔ شیریں اس کی کنیز تھی جونہایت‬ ‫خوبصورت تھی۔ فرہاد (کوہکن) اس پر عاشق ہوگیا۔ خسرو نے فرہاد‬ ‫سے پیچھا چھڑانے کے لئے فارس کی مشہور پہاڑی سے دودھ کی‬‫نہر نکالنے کی فرمائش کی ۔ فرہاد انجینئر تھا اس نے یہ کام کردکھا یا۔‬ ‫خسرونے ایک کٹنی کے ذریعے فرہاد تک یہ خبر پہنچا دی کہ شیریں‬‫انتقال کر گئی ہے ۔ فرہاد نے اپنے تیشے سے خودکشی کرلی ۔یہ بھی‬‫کہا جاتا کہ خسرہ خود شریں سے محبت کرتا تھا ۔ اس نے دھوکہ سے‬ ‫فرہاد کی جان لے لی۔اس دن سے شیریں خسرو سے نفرت کرنے لگی‬ ‫۔ خسرہ کا بیٹا بھی سے شریں سے محبت کرتا تھا اس نے شریں کی‬ ‫محبت میں باپ کو موت کے گھاٹ اتاردیا اور شیریں کو شادی کے‬ ‫لئے کہا۔ شیریں نے خسرو پرویز کے پیٹ میں خنجر گھونپ دیا ۔‬ ‫خودروتی ہوئی فرہاد کی قبر پر گئی۔ قبر شق ہوئی اور وہ اس میں‬ ‫)سماگئی (‪۴۸‬‬ ‫فرہاد کے دودھ کی نہر نکالنے کے حوالہ سے ایک ضرب المثل‬ ‫’’جوئے شیر لانا‘‘عام سننے کوملتی ہے۔ غالب کے ہاں اس ضرب‬‫المثل کا استعمال پڑھنے کوملتا ہےکاوکا ِو سخت جانی ہائے تنہائی نہ‬ ‫صبح کرنا شام کا لاناہے جوئ ِے شیر کا پوچھ‬

‫ان کرداروں کے ساتھ کچھ امور وابستہ نظر آتے ہیں‬ ‫خسرو ‪ ،‬وہ بادشاہ ہے جودغا اور خیانت کرتا ہے *‬ ‫خسرو پرویز ‪ ،‬ناہنجار بیٹا جو ایک عورت کے لئے باپ کا قتل *‬ ‫جائز سمجھتا ہے‬ ‫فرہاد ‪ ،‬محنت اور جدوجہد سے عبارت ہے *‬ ‫شیریں خوبصورت اور وفا شعار ہے *‬‫اردو غزل کے شعرا نے ان تلمیحات کو مختلف حقائق کی وضاحت کے‬ ‫لئے استعمال کیا ہے‬‫مصحفی نے ان کرداروں کے حوالہ سے اپنے عہد کی تصویر کشی کی‬ ‫ہے‬ ‫ہوچکا دور خسر و و فرہاد اب نہ شیریں نہ جوئے شیر ہی ہے (‪)۴۹‬‬ ‫مصحفی‬ ‫انعام اللہ یقین کا کہنا ہے کہ اگر میں فرہاد ہوتا تو خسرو کو عشرت کا‬ ‫موقع ہی نہ دیتا‪ ،‬دودھ کی جگہ خون کہ نہر بہادیتا ۔ گویا فرہاد کاطرز‬ ‫عمل اور رد عمل درست نہ تھا‬ ‫نہ دیتا عیش کی خسرو کو فرصت قص ِر شیریں میں جومیں ہوتا تو‬ ‫جائے شیر ‪ ،‬جوئے خوں رواں کرتا (‪ )۵٠‬یقین‬ ‫میر فرخ علی فرخ کے نزدیک خسرو کا جاہ ومال اپنی جگہ لیکن‬ ‫فرہاد سے لوگ کہاں ملتے ہیں‬ ‫گوہوا شیریں تجھے خسروکی دولت جاہ ومال پر کہیں ہوتا ہے پیدا‬

‫کوہکن سا آشنا فرخ‬ ‫قائم چاند پوری نے کیا عمدہ مضمون نکالا ہے ۔ موت کی اذیت تو دم‬ ‫بھر کی ہے ‪،‬خواب شیریں تاقیامت ۔‬ ‫قبر کے شق ہونے کے سیناریو میں ان کا کہا ملاحظہ فرمائیں‬ ‫اذیت ایک دم اور تاقیامت خواب شیریں ہے‬ ‫ہمارا سر تیری سی طرح کاش اے کوہ کن پھٹتا (‪ )۵١‬قائم‬ ‫جہاں دار نے شیریں لبوں کے خط کے حوالہ سے پیشہء فرہاد کی‬ ‫تمنا کی ہے‬ ‫شیریں لبوں کے عشق میں چاہے ہے جہاں دار‬ ‫اپنے تئیں ہم پیشہ ء فرہاد کریں ہم (‪ )۵٢‬جہاں دار‬ ‫حاتم فرہاد کو ’’ سر چڑھا‘‘ کے القاب سے نواز تے ہیں‬ ‫سو طرح ہے عاشقی کے فن میں فرہاد بھی ایک سرچڑھا تھا (‪)۵۳‬‬ ‫حاتم‬‫چندا کا کہنا ہے کہ ناقص اور کامل کا کیا مقابلہ۔ پرویز کی حوس ناکی‬ ‫کو شیریں فرہاد کے عشق سے نسبت نہیں دی جاسکتی‬‫پرویز کو نسبت نہیں فرہاد سے شیریں ناقص نہیں ہوتا کبھی کامل کے‬ ‫برابر (‪ )۵۴‬چندا‬‫غالب کے ہاں یہ تینوں داستانی کردار موضوع گفتگوبنے ہیں ۔ شیریں‬ ‫کی موت کی خبر سن کر فرہاد کومرنے کے لئے تیشے کی کیوں‬

‫ضرورت پڑی ۔ اسے ہارٹ اٹیک ہوجانا چاہئیے تھا یا پھر صدمے سے‬ ‫مر گیا ہوتا۔ غالب نے معاملے کو انسانی فطرت اورنفسیات سے جوڑ‬ ‫دیا ہے‬‫تیشے بغیر مر نہ سکا کوہ کن اسد سرگزشتہء خمار رسوم وقیود تھا‬‫پھر کہتے ہیں یہ تیشے کا کمال ہے کہ اس نے فرہاد کو شیریں سے‬ ‫ہمکنار کیا ۔ ان کا موقف یہ ہے کہ جب بھی کسی پر انحصار‬ ‫کروگے‪،‬مارے جاؤگے‬‫ہم سخن تیشے نے فرہاد کو شیریں سے کیا جس طرح کا کہ کسی میں‬ ‫ہو کمال ‪ ،‬اچھا ہے‬‫بضر ِب تیشہ وہ اس واسطے ہلا ک ہوا‬ ‫کہ ضر ِب تیشہ پہ رکھتا‬ ‫تھا کوہ کن تکیہ‬ ‫پیرزن ‪:‬‬ ‫غالب نے شیریں کی موت کی من گھڑت خبر لے کر جانے والی‬ ‫بڑھیا ( پیرزن) کو بھی بطور تلمیح نظم کیا ہے ۔ ایک طرف بڑھیا کو‬‫برا بھلا کہا ہے تو دوسری طرف کوہ کن کی سادگی پر افسوس کااظہار‬ ‫کیا ہے کہ اس نے خبر کی تصدیق کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ‬ ‫کی‬‫دی سادگی سے جان‪ ،‬پڑوں کوہ کن کے پانو‬‫ہیہات کیوں نہ ٹوٹ گئے ‪ ،‬پیرزن کے پانو‬ ‫خضر‬

‫اللہ کے نبی اور برگزیدہ بندے تھے ‪ /‬ہیں ۔ آپ کی حیات و موت کے‬ ‫بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ آپ فریدون بادشاہ کے زمانے میں‬ ‫ایک بادشاہ کے بیٹے تھے۔ آپ کا سلسلہ نسب کچھ یوں ہے‬ ‫)‪‘‘ (۵۵‬بلیا بن ملکا بن عامر بن ارفث بن سام بن نوح ’’‬ ‫بقول احمد رضا خاں بریلوی‬‫آپ کی کنیت ابو العباس ہے آپ بنی اسرائیل میں سے ہیں ۔ آپ نے ’’‬‫دنیا ترک کر کے زہد اختیار کیا ۔ ۔۔۔۔ آپ کا اصل نام بلیا ہے ۔لقب خضر‬ ‫کی وجہ یہ ہے کہ جہاں بیٹھتے یا نماز پڑھتے ہیں وہاں اگر گھاس‬ ‫)‪ ‘‘ (۵۶‬خشک ہوتو سرسبز ہوجاتی ہے‬ ‫امام بخاری کی روایت کے مطابق حضرت موسی ؔ کی حضرت خضر‬‫سے اللہ کے حکم کے مطابق مجمع الجرین میں ملاقات ہوئی ۔حضرت‬ ‫موسی ؔ نے ساتھ جانے کی اجازت طلب کی تاکہ وہ ان کے علو ِم‬‫باطن سے بہرہ ور ہوسکیں۔ انہوں نے اس شرط پراجازت دے دی کہ‬ ‫وہ صبر سے کام لیں گے اورکوئی سوال نہیں کریں گے۔ خضر نے‬ ‫کچھ ایسے کام کئے کہ حضرت موسی ؔ کے صبر کا پیمانہ لبریز‬ ‫ہوگیا۔ حضرت خضر نے کہا کہ میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ آپ‬‫صبر نہیں کرسکیں گے اورحضرت موسی ؔ کاساتھ چھوڑ دیا۔ چلتے‬ ‫وقت ہر فعل کی تشریح کردی۔ (‪ )۵٧‬حضرت خضر کو دوامی زندگی‬ ‫میسر ہے ۔ نظر نہیں آتے صرف اولیا اللہ سے ملتے ہیں۔ اور سخت‬ ‫مصیبت میں بحکم الہی لوگوں کی مدد‪ ،‬خصوصاا رہنمائی کرتے ہیں‬ ‫)(‪۵۸‬‬‫اردو غزل میں حضرت خضر بطور رہنما‪ ،‬موت وحیات ‪ ،‬عمر دراز یا‬

‫پھر حضرت موسی ؔ کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں۔ شیخ حیدر علی‬ ‫نگاہ نے خوبصورت بیانی کو اعجاز خضر سے تعبیر کیا ہے۔ کلیم ‪،‬‬ ‫خضر کے سامنے زبان کھولنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے‬ ‫اعجاز خضر ہے سخن اپنا تو اے نگاہ آگے مرے ‪ ،‬کلیم کے منہ میں‬ ‫زباں نہ ہو (‪ )۵۹‬نگاہ‬‫وارد ہوئے ہیں )‪ ( Guide‬عبدالرؤف شعور کے ہاں خضر بطور رہنما‬‫نا سور زخم عشق کرے کام خضر کا سبزے کا تاکہ تیرے لئے شاہ راہ‬ ‫ہو (‪ )۶٠‬شعور‬ ‫چندا نے عمردراز کے حوالے سے خضر کو فوکس کیا ہے‬‫ہوتری عمر خضر ماہ جمال یوں ہی تری گرہ ہو سال بہ سال (‪ )۶١‬چندا‬ ‫قائم چاند پوری نے فرا ق کے حوالے سے خضر کی تلمیح کو پینٹ‬‫ہے طو ِل عم ِر خضر سے زیادتی تجھ بن اگرچہ نیم نفس سے کیا ہے‬ ‫بھی ہووے کم جینا (‪ )۶٢‬قائم‬ ‫خواجہ درد صوفی ہیں ۔ دراز ِی عمر کو فلسفہء فنا کے تناظر میں‬ ‫ملاحظہ کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اہل جذب و سلوک کے سامنے‬ ‫خضر اپنی طویل عمری سے بیزار ہوجائیں گے‬ ‫بیٹھا تھا خضر آکے مرے پاس ایک دم گھبر اکے اپنی زیست سے‬ ‫بیزار ہوگیا (‪ )۶۳‬درد‬ ‫میر صاحب خضر کو عشق سے ناواقف قرار دیتے ہیں‬‫نابلد ہوکے رہ عشق میں پہنچوں تو کہیں ہم ر ِہ خضر کو یاں کہتے ہیں‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook