Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore لفظیات غالب کا تحقیقی و ساختیاتی مطالعہ

لفظیات غالب کا تحقیقی و ساختیاتی مطالعہ

Published by maqsood5, 2017-02-02 03:15:54

Description: abk_ksr_mh.946/2016

لفظیات غالب کا تحقیقی و ساختیاتی مطالعہ
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
جنوری ٢٠١٧

Search

Read the Text Version

‫سے چور تھا(‪)١٠٢‬میر‬‫ہار اور ناکا می کے لئے بھی یہ لفظ استعمال میں آتا ہے غالب کے ہاں‬ ‫‪:‬یہ احسا ِس کمتری کے معنوں میں نظم کیا ہوا ہے‬‫میکدہ گرچش ِم مست ناز سے پاوے شکست موئے شیشہ دیدہ ساغر کی‬ ‫مثر گانی کرے‬ ‫شیشہ‪:‬‬ ‫شیشہ فارسی میں بوتل اور صراحی کے لئے بولتے ہیں۔ شیشہ‬ ‫گرا حیلہ گر مداری شیشہ بر س ِر بازار شکستی بر سر عام بھانڈا‬ ‫پھوڑنا ۔شیشہ رابسنگ زدن ان دونوں محاوروں میں‪ ،‬شیشہ بمعنی‬ ‫کانچ کا استعمال ہوا ہے۔درد کے ہاں تشبیہاا استعمال میں آیا ہے۔ دل‬ ‫شیشے کی طرح نازک ہو تا ہے اس میں دیکھا جا تا ہے دل ِان دونوں‬ ‫‪:‬عناصر کا حامل ہے‬‫محتسب آج تو میخانے میں تیرے ہاتھوں دل نہ تھا کوئی کہ شیشے کی‬ ‫طرح چورنہ تھا(‪)١٠۳‬درد‬ ‫اب مفاہیم کے حوالہ سے لفظ شیشہ مہاجر نہیں ہے۔‬ ‫شراب‪:‬‬ ‫عربی میں شراب کا تعلق (کوئی بھی سیال شے) پینے سے ہے۔‬‫مثلاا قرآن مجید کی یہ آیت دیکھئے۔ کلو و شربو من زر ِق اللہ(‪ )١٠۳‬اللہ‬ ‫کی دی ہوئی روزی سے کھاؤ پیو۔ اردو میں زشراب سے مراد ہے‬ ‫‪:‬ہے۔ مثلاا میر صاحب کا یہ شعر ملا خط فرمائیں‪Wine‬‬ ‫مقدور تک شراب سے رکھ انکھڑیوں میں رنگ یہ چشم ِک پیالہ ہے‬

‫ساقی ہوائے گل(‪)١٠۴‬میر‬ ‫‪:‬غالب کے یہاں بھی ان ہی معنوں میں استعمال ہوا ہے‬‫پیالہ گر نہیں دیتا ‪،‬نہ پلا دے اوک سے ساقی جو ہم سے نفرت ہے‬ ‫دے‪ ،‬شراب تو دے‬ ‫نفرت کے سبب ظرف دینے سے پرہیز کر نا ہندو اچھوت کی رویت کو‬ ‫بڑی عمدگی سے نبھایا گیا ہے۔‬ ‫صاحب‪:‬‬ ‫لفظ صاحب کو عربی سے منسوب کیا جاتا ہے۔عربی میں اسے ساتھی‬ ‫دوست اور مالک (‪ )١٠۵‬کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔اردو میں ہر‬ ‫‪:‬نام کے ساتھ احتراماا بولا لکھا جاتا ہے‬ ‫)اللہ صاحب نے اپنی تعظیم کے لئے بعض مکان ٹھہرائے ہیں (‪١٠۵‬‬‫سلطان محمد عادل شاہ ملکہ خدیجہ سلطان کی بیگمات میں سب سے ’’‬ ‫محترم اور با عزت تھیں انھیں احتراماا‬ ‫)بڑے صاحب بھی کہا جاتا ہے‘‘۔(‪١٠٧‬‬ ‫)مزاج دار بہو صاحب کے جوڑے کی تیاری شروع کی۔(‪١٠۸‬‬ ‫)مونث کے لئے صاحبہ داخ ِل لغت رہی ہے۔(‪١٠۹‬‬ ‫برصغیر میں \"صاحباں\"خواتین کے نام رکھے جاتے‬ ‫ہیں۔صاحباں‪،‬قصہ’’ مرزا صاحباں ‘‘کی ہیرؤین ہے۔میری نانی کی‬ ‫حقیقی ہم شیر کا نام \"صاحب جان تھا ۔افسر کے لئے بھی یہ لفظ بولا‬

‫جاتا ہے۔مثلاا صاحب آج چھٹی پر ہیں ۔پنجابی میں ح کی آواز غائب ہو‬ ‫گئی ہے۔لہذا صاب بولا جا تا ہے۔اب کچھ اردو شاعری سے بھی ملا‬ ‫‪:‬خط فرمائیں‬ ‫جناب یا مخاطب کرنے کے لئے‬ ‫عزی ِز مصر کا بھی صاحب اک غلام قسم جو کھایئے تو طلعِ زلیخاکی‬ ‫(‪)١١٠‬میر‬ ‫بطور سابقہ‬‫ہم سبھی مہمان تھے واں مدرسہ یا دیر تھا یا کعبہ یا بت خانہ تھا‬ ‫تو ہی صاحب خانہ تھا (‪)١١١‬درد‬ ‫حضرات کے معنوں میں‬ ‫کھول دیوان دونوں صاحب کے اے بقا ہم نے بھی زیارت کی(‪)١١٢‬‬ ‫شیخ بقا اللہ بقا‬ ‫‪:‬جمع دیسی طریقہ سے بنائی جاتی ہے‬ ‫دیکھا کسی نے بھی سب صاحبوں نے اس کو جو باندھا ہے یہ کہئے‬ ‫سقنقور کی گردن (‪)١١۳‬مرزا سیلمان شکوہ‬ ‫‪ :‬غالب نے محبوب کے لئے باندھا ہے‬ ‫آئینہ دیکھ اپنا سامنہ لے کے رہ گئے صاحب کو دل نہ دیئے پہ کتنا‬ ‫غرور تھا‬ ‫اپنی اصل میں \"صاحب \"سہی لیکن برصغیر میں آکر اسے عربی‬ ‫معاشرت سے نا تاتوڑنا پڑا اور برصغیر کی معاشرت اختیار کرنا‬

‫پڑی۔معنی اور استعمالات خالص دیسی ہیں۔‬ ‫ضبط‪:‬‬ ‫عربی میں ضبط کے معنی صحیح ‪،‬مضبوطی ‪،‬گرفتاری(‪)١١۴‬‬‫ٹھیک ٹھاک صحیح طور پر ہیں۔اردو میں یہ لفظ عربی سے قطعی الگ‬ ‫معنی رکھتا ہے۔ مثلاا‬ ‫کیوں کہ لکھے کوئی موجِ دریا کی طرح ضبط میں آسکتا نہیں‬ ‫احوال پریشاں میرا(‪)١١۵‬یقین‬ ‫ضبط میں آنا‪:‬تحریر میں آنا ۔‬‫نالے کو ہم نے ضبط کیا نا صحا تو کیا منہ سے تو رنگ زرد چھپایا نہ‬ ‫جائے گا(‪)١١۶‬میاں محمدی مائل‬ ‫برداشت ‪،‬اظہار نہ کرنا ‪،‬نہ کہنا ضبط کرنا ‪:‬‬ ‫دل جل گیا تھا اور عاشق ہیں ہم تومیر کے بھی ضب ِط عشق کے‬ ‫نفس لب پہ سرد تھا(‪)١١٧‬میر‬ ‫اظہار میں نہ لانا‪،‬خبر نہ ہونے دینا‬ ‫‪:‬غالب کے ہاں قریب ان ہی معنوں میں سپرد قلم ہوا ہے‬ ‫طعمہ ہوں ایک ہی نف ِس صرفہ سے ضب ِط آہ میں میرا و گرنہ میں‬ ‫جاں گداز کا‬‫مفہومی اختلاف واضح کر رہا ہے کہ ضبط مہاجر لفظ نہیں۔یہ اپنی اصل‬‫میں \"جپت\"تھا یہ تلفظ آ ج بھی بازار میں سننے میں آتاہے۔ضبط ‪،‬جپت‬ ‫کی تبدیل شدہ شکل ہے۔جپت واپس پنجابی کی طرف لوٹ گیا ہے‬

‫پنجابی میں ترقی ‪،‬قبضہ کرنا ‪،‬واپس نہ دینا وغیرہ کے معنوں میں‬ ‫مستعمل چلا آتا ہے۔اردو میں یہ لفظ اور معنوں میں بھی سننے اور‬‫پڑھنے میں آتا ہے۔لکھا ضبط جا تا ہے لیکن معنی جپت کے دے دیئے‬ ‫جاتے ہیں ۔ مثلاا ’’یہ مال بحق سرکار ضبط کیا جاتا ہے‘‘۔‬ ‫طعنہ‪:‬‬ ‫طعنہ کو عربی لفظ طعن سے مشتق سمجھا جاتا ہے جس کے‬ ‫معنی خنجر وغیرہ ضرب‪ ،‬تنقید‪ ،‬تہمت‪ ،‬نیزہ(‪)١١۸‬ہیں ۔اردو میں یہ‬ ‫لفظ عربی سے ہٹ کر معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔یہ لفظ اپنی اصل‬ ‫میں تانا منا ہے جس میں عربی آوازیں داخل کر دی گئی ہیں یا عربی‬‫لفظ کو’’تانا مینا‘‘ کے معنی دے دیئے گئے ہیں جبکہ معناا پنجابی تک‬ ‫محدود رہ گیا ہے یہ معنوی اختلاف ہے معنوی تغیر نہیں۔ اس لحاظ‬ ‫سے یہ دو الگ لفظ ہیں۔ طعنہ پنجابی میں بھی مستعمل ہے لیکن اس‬ ‫سے منا معنی مراد لے جاتے ہیں۔ مثلاا‬ ‫اندر جھڑکاں بار طعنے نیوں لگیاں دکھ پائیو رے (‪)١١۹‬بلھے شاہ‬ ‫قصوری‬ ‫چپ کراں تاں دیون طعنے جاں بولاں تاں واری آں(‪)١٢٠‬شاہ حسین‬ ‫لاہوری‬ ‫‪:‬اب اردو شاعری سے کچھ مثالیں ملا حظہ فرمائیں‬ ‫کہ دیگر ہوئے ہیں سب جو ھمن منافق نے طعنہ دیا تھا تمن‬ ‫(‪)١٢١‬شاہ اسماعیل‬ ‫بیٹھا مت غیر کے تئیں زنہارا ے یار پہلومیں ہزاروں طعنہ دیں گے‬

‫‪،‬ہے یہ گل کے خار پہلو میں (‪)١٢٢‬جہاں دار‬ ‫دونوں اشعار میں طنز کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔‬‫مثرہ وہ تیز کہ خنجر کو دھار نگہ وہ شوخ کہ طعنے کٹار پر مارے‬ ‫پر مارے(‪)١٢۳‬عارف اللہ شاہ ملول‬ ‫تقابلی طنز۔ دھارپر مارنا‬ ‫غالب کے ہاں یہ لفظ طنزاور منا کے معنوں میں استعمال ہو ا ہے۔‬ ‫ضعف میں طعنہ اغیار کا شکوہ کیا ہے بات کچھ سر تو نہیں ہوں کہ‬ ‫اٹھا بھی نہ سکوں‬ ‫درج بالا معروضات کے حوالے سے اس لفاظ کو مہاجر قرار نہیں دیا‬ ‫جا سکتا ۔‬ ‫طرح‪:‬‬ ‫یہ لفظ عر بی میں بنیاد کے معنوں میں آتا ہے جبکہ اردو میں‬ ‫طور ‪،‬انداز ‪،‬مانند ڈھب‪ ،‬ڈھنگ‪ ،‬اسلوب ‪،‬وضع وغیرہ کے معنوں میں‬ ‫استعمال ہوتاہے۔مثلاا‬‫کیا بدن ہو گا جس کے کھولتے جامے کا بند بر ِگ گل کی طرح ہر ناخن‬ ‫معطر ہوگیا(‪)١٢۴‬یقین‬ ‫مانند‪ ،‬جیسا ‪،‬کاسا‬ ‫گو سو طرح کی مجھ سے تو بے دماغ عبث اے میاں ہے تیں‬ ‫حسرتیں اس دل کے بیچ ہیں (‪ )١٢۵‬راقم‬ ‫طریقے ‪،‬طور‪ ،‬انداز‬

‫بہے ہیں دیدۂ گریباں سے اس طرح آنسو رواں ہو چشمے سے جس‬ ‫طرح آب درتہ آب(‪)١٢۶‬لالہ موجی رام موجی‬‫ایسے جیسے اس طور ‪،‬اس طرح‪ ،‬انداز‬‫‪:‬غالب نے بھی اس لفظ کو دیسی معنوں میں استعمال کیا ہے‬‫مانند حباب آنکھ تو اے درد کھلی تھی کھینچا نہ پر اس بحر میں‬ ‫عرصہ کوئی دم کا(‪)١٢۹‬درد‬‫مرے آگے نہ شاعر نام پاویں‬ ‫قیامت کو ‪،‬مگر عرصے میں‬ ‫)آویں(‪( )١۳٠‬میر‬‫در پہ رہنے کو کہا اورکہہ کے کیسا پھر گیا جتنے عرصے میں مرا‬ ‫بستر لپٹا ہوا کھلا غالب‬‫درج بالا چاروں اشعار میں ’’عرصہ‘‘ زمانہ کے حوالے سے استعمال‬ ‫ہوا ۔‬ ‫عرصہ کی (زمانی حوالہ سے )حقیقی شکل ارسا ہے۔ عربی کے زیر‬‫اثر ص اور ع کی آوازیں داخل ہو گئی ہیں۔ اس طرح اس کی اصل املا‬ ‫’’ارسا‘‘ باقی نہیں رہی۔‬ ‫عید‪:‬‬ ‫عید مسلمانوں کا مذہبی تہوار ہے۔یہ سال میں دو مرتبہ منایا جا تا‬‫ہے۔عید الفطر رمضان کے اختتام پر جبکہ عید الاضحی حضرت ابراہیم‬‫کی فرمانبرداری کی یاد میں منائی جا تی ہے۔جب انہوں نے اپنی اولاد‬ ‫حضرت اسماعیل کو چھری کے نیچے رکھ دیا ۔چھری اللہ کے حکم‬ ‫سے نہ چلی اور جنت سے دنبہ آگیا جو انھوں نے اللہ کی راہ میں‬

‫قربان کردیا اہل تشیع جناب امیر کی ولادت پر خوشی مناتے ہیں اور‬ ‫اسے عید کا نام دیتے ہیں ۔‪٢۵‬دسمبر کو عیسائی برادری کرسمس‬ ‫منانتے ہیں برصغیر میں اسے عید کا نام دیاجاتا ہے۔بہر طور یہ لفظ‬‫اردو اور برصغیر کی کئی دوسری زبانوں میں اسلامی تہذیب کے حوالہ‬‫‪:‬سے داخل ہو اہے‪ ،‬میر صاحب کا یہ شعر بطور نمونہ ملا خط فرمائیں‬ ‫دیکھا نہ اسے دورسے بھی منتظر وں نے وہ رش ِک م ِہ عید ل ِب بام نہ‬ ‫آیا (‪)١۳١‬میر‬ ‫‪:‬اب غالب کے ہاں لفظ عید کا استعمال ملا خط فرمائیں‬ ‫عشر ِت قت ِل گ ِہ اہل تمنامت پوچھ عید نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا‬ ‫عیدنظارہ ‪ ،‬عید کی خوشی کو ظاہر کررہاہے جبکہ میر صاحب نے‬ ‫عید کے چاند کو محبوب سے تشبیہ دے کر عید کی خوبصورتی کو‬ ‫واضح کیا ہے۔‬ ‫طواف ‪:‬‬ ‫لفظ طواف اسلامی تہذیب کا نمائندہ ہے حج یا عمرہ میں کعبہ کے‬‫گرد چکر لگانے کے عمل کو \" طواف\"کا نام دیا جا تا ہے۔اس کے بغیر‬ ‫حج یا عمرہ نہیں ہوتا ۔چکر کاٹنے‪ ،‬گرد پھرنے‪ ،‬گردش کرنے وغیرہ‬ ‫کو طواف کا نام دیا گیا ہے۔ اردو میں اسلامی تہذیب کے توسط سے‬ ‫وارد ہوا ہے۔ہاں معنوی تبدیلی ضرورہوئی ہے۔مثلاا غالب یہ شعر‬ ‫‪ :‬پڑھیں‪،‬حج اور عمرے والے طواف سے اس کا کوئی تعلق نہیں بنتا‬ ‫دل پھرطوا ِف کوئے ملامت کو جائے ہے پندار کا ضم کدہ ویراں کئے‬ ‫ہوئے‬

‫عرصہ‪:‬‬ ‫عرصہ اردو میں عام بولا جانے والا لفظ ہے۔خیال کیا جا تا کہ یہ‬‫عربی سے اردو میں داخل ہوا ہے۔عربی میں مکانیت کے حوالے سے‬ ‫استعمال ہوتا ہے۔جیسے عرصہ اکدار(صحن خانہ کھلی ہوا‪،‬‬ ‫جگہ)عرصہ کی جمع عرائص ہے۔اردو میں بھی مکانیت کے حوالے‬ ‫سے استعمال ہوا ہے۔‬ ‫جیسے عرصۂ جنگ‪ ،‬عرصہ حشر وغیرہ لیکن جب زمانی حوالہ سے‬ ‫استعمال ہوتا ہے تو اس لفظ کو عربی قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔مثلاا‬ ‫ظالم نپٹ ‪ ،‬قلیل ساقی بھڑا دے خم ہی مرے منہ سے تو آہ !‬ ‫عرصہ بہار کا (‪ )١٢۸‬قائم پوری‬ ‫غریب‪:‬‬ ‫کلمہ غریب عربی میں اجنبی مسافر پردیسی کے لئے مخصوص ہے‬ ‫لیکن اردو میں اس کے معنی مفلس بے زار بادار حاجت مند کنگال‬ ‫وغیرہ کے ہیں یہ معنی کا اختلاف ہے نہ کہ غریب کو یہ معنی دے‬ ‫دیئے گئے ہیں۔یہ اپنی میں اصل گریب ہے جس کے معنی گرا پڑا کے‬ ‫ہیں۔برصغیر کے معاشرت میں جو شخص مالی لحاظ سے کمزور ہو‬ ‫استطاعت نہ رکھتا ہو کے لئے یہ لفظ بولتے ہیں جہان مسافرت کے‬ ‫معنی دیتا ہے وہاں اسے عربی کلمہ تصور کرنا چاہئے۔اس کے‬‫برعکس معنوں میں گریب کی بگڑی ہو ئی شکل تصور کرنا چاہئے۔گ‬ ‫کی متبادل آواز غ ہے یہ مکتوبی تبدیلی عربی کے زیر اثر واقع‬‫ہو ئی۔مکتوبی تبدیلی عربی کے اثر واقع ہو ئی ہے۔اردو غزل سے چند‬ ‫مثالیں ملا خط فرمائیں۔‬

‫مجھ معقعد کا منظور اب اعتقاد ہو تم پیر پیراں میں ہوں غریب خادم‬ ‫کیجئے آفتاب‬ ‫ناتواں کمزور مفلس‬ ‫حسرت پر اس غریب کی آوے اجل کو رحم بالیں پہ جس کے یارودم‬ ‫واپس نہ ہو بیان‬‫اردو میں مسافر عربی میں غریب کے لئے عام استعمال میں ہے غریب‬ ‫‪:‬کی دیسی طریقہ سے جمع بھی بنا لی گئی ہے‬ ‫فکر جمعیت آپس دل میں کئے ہیں زہاد زلف کوں کھوں غریباں کو‬ ‫پریشاں نہ کرو ولی‬ ‫‪:‬غالب کے ہاں یہ مہاجر نما لفظ دیسی معنوں میں نظم ہوا ہے‬ ‫مجھ کو پوچھا تو کچھ غضب نہ ہوا میں غریب اور تو غریب نواز‬ ‫غصہ‪:‬‬ ‫اہل لغت اسے عربی لفظ قرار دیتے ہیں ۔عربی میں اس کے معنی‬ ‫ایسا رنج جس سے گلہ گھٹ جائے ۔اردو میں اپنی اصل میں’’ گھسا‬ ‫‘‘ہے جو گھس آنا سے تشکیل پایا ہے۔ جس طرح سایہ بھوت پریت‬ ‫کے گھس آنے سے حالت بدل جاتی ہے۔ ناراضگی یا خفگی کے گھس‬ ‫آنے سے مزاج اور موڈ بدل جاتا ہے۔ یہ معنوی فرق ہے نہ کہ معنوی‬‫تبدیلی ۔عربی کے زیر اثر گھسا کی مکتوبی صورت بدل گئی ہے۔ غصہ‬ ‫کو’’ گھسا‘‘ کے معنوں میں استعمال کیا جانے لگاچند مثالیں ملا خط‬ ‫فرمائیں۔جس سے معنوی فرق نظر آجائے گا بعض مقامات پر محاورہ‬ ‫‪:‬بن گیا ہے اور عام سننے کو ملتا ہے‬

‫ڈرتا نہیں ‪،‬ایک کی سو بے رحم نہ ہو‪ ،‬غصہ نہ کر ‪،‬بات مری سن‬ ‫بات سنا جا (‪ )١۳۵‬ولی‬ ‫کوئی بات بری لگنا غصہ کرنا ‪:‬‬‫عرض غصے میں یہ اک اہل وفا کی نہ سنے ہٹ پہ آ جائے وہ کافر تو‬ ‫خدا کی نہ سنے(‪)١۳۶‬منعم‬ ‫طیش غصہ‪:‬‬ ‫تو تو مجھ پر ایک دم غصہ ہو پھر سو تارہا شمع کی مانند میں ساری‬ ‫رات روتا رہا (‪ )١۳٧‬مائل‬ ‫ناراضگی خفگی کلام نہ کرنا‪ ،‬گفتگو موقو ف کر دینا غصہ ہونا ‪:‬‬ ‫لفظ فتنہ عربی میں آزمائش کے معنوں میں استعمال ہو فتنہ‪:‬‬‫اہے۔جیسے انما اموالکم واولاد کم فتنہ (‪ )١۳۸‬تمہارے مال اور تمہاری‬ ‫اولاد بس آزمائش ہے۔اردو میں یہ لفظ شرارتی ‪،‬سازشی رکاوٹ ڈالنے‬ ‫والا‪ ،‬خرابی پیدا کرنے والا‪،‬لڑائی ڈلوانے والا ‪،‬لڑائی جھگڑا‬ ‫وغیرہ۔اردو میں نہ صرف معنوی تبدیلی ہو ئی ہے بلکہ قواعد کے‬ ‫حوالے سے اختلاف واضح ہے۔‬‫پنجابی میں بھی یہ مستعمل ہے لیکن\"چواتی\"لفظ بھی رائج ہے اور یہ‬ ‫پنجابی کے ذخیرے میں موجود ہے۔ چواتی ‪،‬شرارت ‪ ،‬سازش ‪،‬لڑائی‬ ‫جھگڑے کی وجہ وغیرہ ۔‬ ‫‪:‬میر صاحب کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملا خط فرمائیں‬

‫آنکھوں سے تری ہم کو ہے چشم کہ اب ہو وے جو فتنہ کہ دنیا میں‬ ‫برپانہ ہوا ہو گا(‪ )١۳۹‬میر‬‫فتنہ برپا ہونا مترادف قیامت برپا ہونا‬‫بیٹھے ہیں آکے طال ِب فتنہ اٹھے گا ورنہ نکل گھر سے توشتاب‬ ‫دیدار بے طرح (‪ )١۴٠‬میر‬‫جھگڑے فساد کی راہ نکلنا‪ ،‬خرابی پیدا ہونا‪ ،‬آزمائش معنی فتنہ اٹھنا‪:‬‬ ‫بھی لئے جاسکتے ہیں‬‫غالب نے شور شرابا‪ ،‬آپادھاپی‪ ،‬پریشانی‪ ،‬تکلیف دہ صورتحال‬‫‪:‬افراتفری‪ ،‬بے چینی‪ ،‬بے سکونی کے معنوں میں نظم کیاہے‬‫جلوہ زا ِر آت ِش دوزخ ہمارا دل سہی‬ ‫فتنہ ء شو ِر قیامت کس کے آب‬ ‫و گل میں ہے‬‫اردو میں معنوی تبدیلی کے سبب\"فتنہ\"مہاجر ہو کر نہیں رہا۔‬‫فقیر‪ ،‬فقر کا اسم ہے اور درویش کے معنوں میں استعمال ہوتا فقیر‪:‬‬ ‫‪:‬ہے۔ عربی میں اس کے استعمال کے چار حوالے ہیں‬‫زندگی کی بنیادی ضروریات میسر نہ ہوں ا ّول‪:‬‬ ‫ضروریات کا پورا نہ ہونا دوئم‪:‬‬ ‫مال و منال کی ہوس سوئم‪:‬‬ ‫اللہ کی طرف احتیاج چہارم‪:‬‬‫درویش دنیاوی مال و منال سے بے نیاز ہوتا ہے۔ بظاہر خستہ حال‬ ‫ہوتاہے لیکن اس کا من بھرا ہوا ہوتاہے۔ خستہ حالی کے لیے‬

‫لفظ\"پھک\"موجود ہے۔ایر کے لاحقے سے \"پھکیر\"بن جاتا ہے۔ یہ لفظ‬ ‫بھیک مانگے ‪ ،‬دست سوال دراز کرنے والے‪ ،‬نادار‪ ،‬گریب‪ ،‬بے نوا‬‫وغیرہ کے لیے استعمال ہوتاہے۔ معنوی فرق کی وجہ سے یہ لفظ فقیر‬ ‫سے مختلف ہے۔ فقیر چونکہ پھکیر کے لیے رواج پاگیا ہے اس لیے‬‫درست سمجھا جاتا ہے۔ تاہم \"پھکیر\"بھی سننے کو ملتا ہے۔ اردو غزل‬‫میں بھی یہی حالت ہے‪ ،‬لکھا فقیر جاتا ہے معنی پھکیر کے لیے جاتے‬ ‫‪:‬ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں‬ ‫لبریز ہو فقیر کا کاسہ سائل ہوں اے فلک یہ ترے انقلاب سے‬ ‫شراب سے۔ (‪ )١۴١‬میر وارث علی جوش‬ ‫سائل‪ ،‬مانگنے والے کے معنوں میں استعمال ہواہے میر صاحب کے‬ ‫‪:‬ہاں درویش کے معنوں میں استعمال ہوا ہے‬‫ہے معتقد فقیر نمد کی کلاہ اے تاجِ شہ نہ سر کو فرولاؤں تیرے پاس‬ ‫کا(‪ )١۴٢‬میر‬ ‫‪:‬فقیر کی جمع دیسی طریقہ سے بنائی جاتی ہے‬‫اپنا جیسے زلفوں نے تری رہتا ہے فقیروں کی طرح نت وہ پریشاں‬ ‫جال دیاہے (‪ )١۴۳‬مصحفی‬ ‫‪:‬غالب کے ہاں بطور جمع استعمال ہو ا ہے‬ ‫بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں‬ ‫فقرا کی بجائے فقیروں۔ ایک دوسری جگہ درویش کے معنوں میں‬ ‫‪:‬استعمال کرتے ہیں‬ ‫فقیر غالب مسکیں ہے کہن ہم اور تم فل ِک پیر جس کو کہتے ہیں‬

‫تکیہ‬‫بے بس‪ ،‬مجبور‪ ،‬لاچار‪ ،‬بے نوا وغیرہ کے معنوں میں بھی لیا جا‬ ‫سکتاہے۔‬‫قیامت‪ :‬لفظ قیامت اسلامی تہذیب کی نمائندگی کرتا ہے۔ الہامی کتاب میں‬ ‫‪:‬اس لفظ کے مفاہیم ملاحظہ ہوں‬‫فیصلے کا دن (‪ )١۴۴‬اعمال کے حساب کتاب کا دن (‪ )١۴۵‬یوم‬ ‫)اجتماع۔ (‪ )١۴۶‬اعضا کی گواہی کا دن(‪١۴٧‬‬‫قیامت کا قرآن میں بار بار ذکرآتا ہے۔ یہ بڑا دل ہلا دینے والا دن ہو گا۔‬ ‫خوف و ہراس ہو گا۔ کوئی کسی کے کام نہیں آسکے گا۔ ہر کسی کو‬ ‫اس کے کئے کا بدلہ مل جائے گا۔‬‫اردو میں اردو کے لسانی کلچر کے تحت استعمال ہوتا چلا آرہا ہے۔‬‫دیسی مصادر کے پیوند سے بہت سارے محاورے پڑھنے سننے کو‬‫ملتے ہیں۔ میر صاحب کے ہاں تشبیہا تنگی سختی اور پشیمانی کے‬ ‫‪:‬حوالہ سے استعمال میں ہوا ہے‬‫عرصۂ محشر(‪ )١۴۸‬نمونہ شیخ مت کر ذکر ہر ساعت قیامت کا کہ ہے‬ ‫اس کی بازی گاہ کا (‪ )١۴۹‬میر‬‫‪:‬ایک دوسری جگہ دہائی کے معنوں میں اس لفظ کا استعمال کرتے ہیں‬‫ظلم ہے‪ ،‬قہر ہے‪ ،‬قیامت ہے‬ ‫غصے میں اس کے زیر لب کی بات‬ ‫(‪ )١۵٠‬میر‬ ‫‪:‬غالب وق ِت ودع کو قیامت کا نام دیتے ہیں‬

‫پھر ترا وقت سفر یاد آیا دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز‬ ‫موت ‪ ،‬مرگ‬ ‫جاتے ہوئے کہتے ہوئے قیامت کو ملیں گے کیا خوب کہ گویا ہے‬ ‫قیامت کا دن اور‬ ‫کلچر کی تبدیلی کے سبب معنوں میں بھی تبدیلی آجاتی ہے اور دکھ‪،‬‬ ‫کرب پریشانی کا عنصر نئے مفاہیم میں بھی ملتاہے۔‬ ‫کافر‪:‬‬ ‫تکفیر کرنے والا‪ ،‬مسلماں عام طور پر غیر مسلم پر اس لفظ کا‬ ‫اطلاق کرتے ہیں۔ یہ لفظ مسلمانوں کے حوالہ سے اردو میں داخل ہوا‬ ‫ہے۔ شاعری کا چونکہ اپنا الگ سے مزاج ہوتا ہے اس لیے لفظوں کا‬‫خیام کے ہاں اس لفظ مجازی معنوں میں استعمال عام سی بات ہے۔‬ ‫‪:‬کا استعمال ملاحظہ ہو‬ ‫آن کا فر مست را امامت ہوس زابروئے تو محراب نشیں ش ِدچشمت‬ ‫است (‪ )١۵١‬خیام‬ ‫تمہاری آنکھیں محرا ِب ابروہیں اس لیے آن بیٹھیں کہ وہ کافر مست (‬ ‫)امامت کی خواہاں ہیں‬ ‫اب اردو غزل میں چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔‬ ‫‪:‬میر صاحب نے ضدی اور ہٹ کا پکا کے معنوں میں استعمال کیا ہے‬ ‫سخت کا فر تھا جس نے پہلے میر مذہب عشق اختیار کیا (‪ )١۵٢‬میر‬

‫مصحفی نے ایسے محبوب کے لیے استعمال کیا ہے جو ہر پل ناز وادا‬ ‫‪:‬اور موڈ کے حوالے سے بدلتا ہے‬‫ہرآن میں کافر کی اک آن کیا بیٹھنا ‪ ،‬کیا اٹھنا‪ ،‬کیا بولنا ‪ ،‬کیا ہنسا‬ ‫نکلتی ہے (‪ )١۵۳‬مصحفی‬‫حافظ عبدالوہاب ‪ ،‬جوا یمان نہ رکھتا ہو‪ ،‬کے لیے اس لفظ کا استعمال‬ ‫‪:‬کرتے ہیں‬‫میں ملحدو کافر نہ قاضی نہیں‪ ،‬مفتی نہیں‪ ،‬ملاّنہ ہوں میں محتسب‬ ‫ہوں‪ ،‬نے صاح ِب ایمان ہوں (‪ )١۵۴‬سچل‬‫ولی اللہ محب کے نزدیک غارت گر ایمان چھین لیتا ہے ۔ ایمان سے‬ ‫‪:‬تہی کافر ہے‬‫کیونکہ غارت گر دیں ہے تجھ سا ہم ہوئے چھوڑ کے ایماں کافر‬ ‫ولی اللہ محب‬‫‪:‬غالب نے جس پر کوئی اثر نہ ہو‪ ،‬پتھر ایسا معنی مراد لیے ہیں‬‫خدا کے واسطے پردہ نہ کعبے کا اٹھا واعظ‬ ‫کہیں ایسا نہ ہویاں‬ ‫بھی وہی کافر صنم نکلے‬‫یہ لفظ اپنی اصل میں عربی ہے۔ مفہومی تبدیلی کے سبب اس پر مہاجر‬ ‫ہونے کا گماں تک نہیں گزرتا۔ دوسرا برصغیر میں غیر مسلم برادری‬ ‫اکثریت سے آباد ہے۔ اس لیے اس کو اصل معنوں میں استعمال کرنا‬‫فساد پھیلانے کے مترادف ہے۔ تیسرا مہاجر کو موجود وسیب کا فکری‬ ‫و سماجی بھیس اختیار کرنا پڑتا ہے۔ چوتھا موجود زبان کے لسانی‬ ‫سیٹ اپ اختیار کئے بغیر پیر جما نہیں سکتا۔ لفظ کافر کے ساتھ بھی‬

‫یہی معاملہ درپیش ہے ۔ غالب نے قبل از اسلام کے حوالے کو م ِد نظر‬ ‫رکھتے ہوئے اتنی بڑی بات کہہ دی ہے۔‬‫یہ لفظ اسامی کلچر کا نمائندہ ہے۔ مسلمان ہر سال حج یا عمرے کعبہ‪:‬‬ ‫کے لئے کعبہ کو جاتے ہیں۔ اسے قبلہ‪ ،‬خانہ ء خدا بھی کہتے ہیں۔‬ ‫اردو میں اصل معنوں کے سوا معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ دل‬ ‫‪:‬کو کعبے کا نام دیا جاتا ہے‬‫دل خانہء کعبہ ہے‪ ،‬کلسیا نہ اقبال نہ ہر وقت کرو دھیان بتوں کا‬ ‫کرو تم (‪ )١۵۵‬اقبال الدولہ اقبال‬‫میر صاحب کے ہاں دیر کے متضاد محبوبوں (بتوں) کو تیاگنا معنی‬ ‫‪:‬بھی مراد لیے جا سکتے ہیں‬‫لغزش بڑی ہوئی تھی و مستی میں چھوڑ دیر کو کعبے چلا تھا میں‬ ‫لیکن سنبھل گیا (‪ )١۵۶‬میر‬‫غالب کے ہاں مفہومی رنگ الک سے ہے۔ اصل اور کوئی سے مجازی‬ ‫‪:‬معنی مرادلیے جا سکتے ہیں‬‫خدا کے واسطے پردہ نہ کعبے کا اٹھا واعظ‬ ‫کہیں ایسا نہ ہو یاں‬ ‫بھی وہی کافر صنم نکلے‬‫مہاجرت نے اصل کے سوا بہت سے مفاہیم دے دیے ہیں۔ فعل مضارع‬ ‫بھی دیسی طریقہ سے بناتے چلے آتے ہیں۔‬ ‫کفر‪:‬‬ ‫کفر کا تعلق تکفیر سے ہے یعنی‪ ،‬انکار‪ ،‬نہ ماننا ‪ ،‬تسلیم نہ کرنا‬‫وغیرہ۔ اسلامی اصطلاح میں اسلام سے انکار‪ ،‬اسلام کے کسی بنیادی‬

‫رکن کو تسلیم نہ کرنا کفر کے زمرے میں آتا ہے۔ جو شخص اسلام‬ ‫کے برعکس زندگی بسر کر رہا ہو‪ ،‬اسے بھی کافر کہا جاتا ہے۔یہ‬‫اصطلاح اسلام کے حوالہ سے اردو میں داخل ہوئی ہے۔ اپنی اصل میں‬ ‫یہ لفظ عربی ہے۔ اردو غزل میں معنوی تبدیلی کے ساتھ بکثرت‬ ‫‪:‬استعمال میں آتا ہے‬‫‪:‬شاہی کے نزدیک اصل ر ّب کو چھوڑ کر کوئی اور ر ّب بنا لینا کفر ہے‬‫نپایا رب ج ِب کھسا پایا بڑائی جب دیکھا یا توں گگن نے سر نوایا‬ ‫کفر کا تب (‪ )١۵٧‬شاہی‬‫‪:‬قائم اصل معنوں میں استعمال کرتے ہیں‬‫حر ِف کفر و دیں پہ ہی کیا منحصر‬ ‫ہاں دلا’’ خذ ماصفادع ماکدر‘‘‬ ‫(‪ )١۵۸‬قائم‬‫‪:‬چندا اسلام کے برعکس راستے کو کفر کا نام دیتی ہیں‬‫صاحب سجہ بھی ہے‪ ،‬کفر و اسلام میں ثابت رہے دل کس پر بھلا‬ ‫مال ِک زنار بھی ہے (‪ )١۵۹‬چندا‬‫‪:‬غیر مسلم شعراابھی یہ لفظ نظم کرتے آئے ہیں اور اصل معنوں میں‬‫دیکھے زنار کو تسبیحِ کفرو دیں کی نہیں یک رنگی کا جویاں قایل‬ ‫سلیمانی میں (‪ )١۶٠‬لالہ چینی لال حریف‬‫‪:‬غالب کے ہاں اپنے اصلی معنوں میں استعمال ہوا ہے‬‫کعبہ مرے ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر‬ ‫پیچھے ہے کلیسا مرے آگے‬

‫کلیسا‪:‬‬ ‫کلیسا عیسائیوں کی عبادت گاہ کو کہتے ہیں۔ یہ کلس سے ہے۔‬‫گرجوں کی تعمیر کے ساتھ ہی اردو غزل کے کلچر کا جز ٹھہرا۔ کلس‬‫کے حوالہ سے اسے مہاجر نما کہا جا سکتا ہے۔ اردو غزل میں زیادہ‬ ‫تراصل مفاہیم کے ساتھ نظم ہوتا آیا ہے۔ مثلاا‬‫پھرتے تری تلاش میں ہم مسجد میں بتکدے میں کلیسا میں دیر میں‬ ‫چار سورہے (‪ )١۶١‬والا جاشیدا‬‫اقبال نہ ہر وقت کرو دھیان بتوں کا‬ ‫دل خانہ کعبہ ہے‪ ،‬کلیسا نہ کرو‬ ‫اقبال الدولہ اقبال )‪ (١۶٢‬تم‬‫‪:‬غالب کے ہاں بھی عیسائی مذہب کی نمائندگی کر رہا ہے‬‫کعبہ مرے ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر‬ ‫پیچھے ہے کلیسا مرا آگے‬‫غالب نے کعبہ کے ساتھ ایمان جبکہ کفر کے ساتھ کلیسا نتھی کر کے‬ ‫عیسائیت کی نہ صرف پوری آئیڈیالوجی واضح کر دی ہے بلکہ اپنے‬ ‫نظریات و عقائد پر روشنی ڈالی ہے۔‬ ‫یہ لفظ غیر مذہبی اور غیر اخلاقی قول و فعل سے تعلق رکھتا گناہ‪:‬‬‫ہے۔ بنیادی طور پر مہاجر لفظ ہے۔ معنوی تبدیلی اور دیسی طریقہ سے‬ ‫جمع بنانے کے حوالہ سے اسے مہاجر نہیں کہا جا سکتا ہے۔ میر‬ ‫‪:‬صاحب کے ہاں اس کی دیسی جمع ملاحظہ فرمائیں‬‫لگے ہو خون بہت کرتے بے رہے خیال تنک ہم بھی روسیاہوں کا‬ ‫گناہوں کا (‪ )١۶۳‬میر‬

‫‪:‬غالب نے برائی اور خرابی کے معنوں میں استعمال کیا ہے‬ ‫مجھ کو بھی پوچھتے تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو‬ ‫رہو تو کیا گناہ ہو‬ ‫مجلس‪:‬‬ ‫عربی میں نشت‪ ،‬نشت گاہ‪ ،‬بیٹھنے کی جگہ‪ ،‬عدالت‪ ،‬کورٹ‬ ‫کچہری‪ ،‬سیٹ‪ ،‬ٹربیونل وغیرہ کے معنوں میں استعمال ہوتاہے۔اہل‬ ‫تشیع کے ہاں الگ سے معنوں کا حامل ہے۔ بنیادی مفہوم جمع ہونا‪،‬‬‫اکٹھا ہونا‪ ،‬اکٹھ‪ ،‬بزم‪ ،‬انجمن وغیرہ ہی رہتے ہیں۔ یہ معنوی تبدیلی ہے‬ ‫‪ ،‬معنوی اختلاف نہیں ۔اردو غزل میں اردو معنوں کے ساتھ استعمال‬ ‫‪:‬ملاحظہ ہو‬ ‫ولی دکنی نے میخواروں کا مل بیٹھ کر میخواری کرنے کو مجلس کہا‬ ‫‪:‬ہے‬‫شیشۂ خالی نمن بے نشا ہے جس کے دل میں نیں محبت کی شراب‬ ‫مجلس سوں نروالا ہے (‪ )١۶۴‬ولی‬ ‫‪:‬حاتم محفل کے معنوں میں اس لفظ کو برتتے ہیں‬ ‫دے نہیں کچھ ہم کو بھاگیں دیکھ کر انبو ِہ خلق ہم کو بھی جا بیٹھنا‬ ‫مجلس میں جا ہو یا نہ ہو (‪ )١۶۵‬مصحفی‬ ‫‪:‬درد رندوں کی بیٹھک کو مجلس کا نام دیتے ہیں‬ ‫ہم سے کچھ خوب اٹھ چلے شیخ جی تم مجل ِس رنداں سے شتاب‬ ‫مدارت نہ ہونے پائی (‪ )١۶۶‬درد‬

‫‪:‬غالب کے ہاں بھی دیسی معنوں میں استعمال ہوا ہے‬ ‫رشتہ ء ہر شمع شب کہ وہ مجلس فرو ِز خلع ِت ناموس تھا‬ ‫خارکسو ِت ناموس تھا‬ ‫مجموعی طور پر \"اکٹھ\"مجلس کے مفاہیم میں کار فرما رہتا ہے۔‬ ‫مدعا‪:‬‬ ‫یہ لفظ عربی میں دعوی کیا گیا کے معنی رکھتا ہے۔ اردو میں‬‫عربی معنوں سے قطعی ہٹ کر استعمال میں آتا ہے۔ اس ضمن میں چند‬ ‫‪:‬مثالیں ملاحظہ ہوں‬ ‫زا ِد رہ دل کا مدعا بس ہے (‪ )١۶٧‬حاتم سفر عاشقی میں عاشق کو‬ ‫خواہش‪ ،‬آرزو‬ ‫مطلول کے معانی یو خط کا حاشیہ گرچہ ولی ہے مختصر لیکن‬ ‫کاتمامی مدعا دستا (‪ )١۶۸‬ولی‬ ‫مدعا دسنا‪ :‬مفہوم لب لباب بتانا‬ ‫میرے نامے کو وہ نہیں پڑھتا جس جگہ مدعا کی باتیں ہیں (‪)١۶۹‬‬ ‫مصحفی‬ ‫مقصد ‪ ،‬ضرورت‪ ،‬حاجت‬ ‫زباں پر آکے مری‪ ،‬عجب نہیں جو تری خو کے ڈر سے اے ظالم!‬ ‫حرف مدعا پھر جائے (‪ )١٧٠‬مصحفی‬ ‫مدعا پھرنا ‪ ،‬جو کہنا مقصود ہے‬

‫یاں آکے ہم اپنے مدعا کو بھولے مل مل غیروں سے آشنا کو بھولے‬ ‫(‪ )١٧١‬سنتوکھ رائے بیتاب‬ ‫مدعا بھولنا‪ :‬جو کرنا تھا ‪ ،‬کوئی کام ‪ ،‬مقصد یاد نہ رہنا‬ ‫مدعا ہم سے منہ چھپانا تھا (‪ )١٧٢‬نظام کھولنا زلف اک بہانہ تھا‬ ‫مقصد ‪ ،‬اصل بات‪ ،‬وجہ‬ ‫درج بالا مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ یہ معنوی تبدیلی نہیں‪ ،‬معنوی‬ ‫فرق ہے۔ یہ لفظ عربی\"مدعا\"سے بالکل الگ ہے۔ اس کا رشتہ ہندی‪/‬‬ ‫پنجابی لفظ \"مدا\"سے جڑا نظر آتا ہے۔ دونوں کے معنوی شیڈز اس‬ ‫لفظ میں نظر آتے ہیں۔ عربی کے زیر اثر\" ع \"کی آواز داخل ہو گئی‬ ‫ہے۔ لیکن معنی برقرار رہے ہیں۔ غالب کے ہاں خواہش ‪ ،‬حاجت‪ ،‬دل‬ ‫‪:‬کی بات‪ ،‬جو کہنا چاہتے ہوں کے معنوں میں استعمال ہوا ہے‬ ‫کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں‬ ‫ان مباحث کے تناظر میں اس لفظ کو مہاجر نہیں کہا جاسکتا البتہ یہ‬ ‫لفظ مہاجر نما ضرور کہلا سکتا ہے۔ ہاں کورٹ کچہری کی زبان میں‬‫عربی مفہوم ضرور ملتا ہے۔ املا بھی اصلی رہتی ہے۔ مثلاا اصل مدعے‬ ‫پر بحث جار ی رکھی جائے۔ مدعی اور مدعاعلیہ اصطلاحیں وہاں‬ ‫پڑھنے سننے کو عام ملتی ہیں۔‬ ‫ہمارے ہاں مرگ ‪،‬مرگا(ککڑ) کے لئے بولا جا تا ہے مونث کے مرغ‪:‬‬‫لئے مرگی(ککڑی)لفظ مستعمل ہے گ کی تبادل آواز غ ہے۔عربی والوں‬ ‫کے حوالہ سے یہ تبدیلی وقوع میں آئی ہے۔فارسی میں اس کے معنی‬ ‫\"پرندہ \"ہیں۔ہمارے ہاں عموماا کہا جا تا ہے مرغ صبح سویرے اذانیں‬

‫دیتے ہیں۔مجازاا اسے ’’بانگاں ویلا ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔جب اسے مرغِ‬ ‫صبح بولا جائے تو اس سے مراد مرگا (ککڑ)ہی ہوتا ہے۔اسی طرح‬ ‫\"مرغ گرفتار\"مرغ بے بال وپرکے معنی پرندہ ہوں گے۔فانی کے ہاں‬ ‫\"مرغِ فانی \"بمعنی رو ح ‪ ،‬جبکہ ولی دکنی نے درمرغ دل کی ترکیب‬ ‫بھی استعمال ہوئی ہے(‪ )١٧۳‬ولی ۔ان میں کسی کو مر غ کے معنوں‬‫میں نہیں لیا جا سکتا۔حاتم کے ہاں مرغ کی مونث مرغی(مرگی)پڑھنے‬ ‫‪ :‬کو ملتی ہے ورنہ مرغی(مرگی)بہت کم نظم ہوئی ہیں‬ ‫دشمن عاشق سے کڑ کڑ واے ہے کڑک مرغی کہاں و باز کہاں‬ ‫(‪)١٧۴‬حاتم‬ ‫جب مرغ سے مراد پرندہ ہو گا تو یہ لفظ مہاجر ہو گا تا ہم اردو کے‬ ‫لسانی سیٹ اپ کو اختیار کر کے ہی اپنا و جود بر قرار رکھ سکتا‬‫ہے۔مرغ سے مراد اگر مرگ(ککڑ) ہو گا تو اسے مہاجرنما کہا جائے گا‬ ‫‪:‬۔اس ضمن میں دو مثالیں ملا خط ہوں‬ ‫شب ہجراں کی سحر ہی نہیں ہوتی کیا آہ آج ازاں بھی تو نہیں مرغ‬ ‫سحر دیتا (‪ ) ١٧۵‬نوازش خاں نوازش‬‫نالۂ مرغِ سحر تی ِغ دودم ہے ہم رش ِک ہم طرحی و در ِد اثر بانگ حزیں‬ ‫کو غالب‬‫یہ لفظ اسلامی تہذیب کی نمائندگی کر تا ہے۔یہ مسلمانوں کی مسجد‪:‬‬ ‫عبادت گاہ کے علاوہ اسمبلی کا فریضہ سر انجام دیتی رہی ہے۔اسے‬ ‫متعلقہ علاقے میں مسلمانوں کا نقطہ اجتماع کہا جا سکتا ہے۔اگلے‬ ‫وقتوں میں مسافر یہاں رات کو قیام کرتے تھے۔ اسلامی تعلیم و تربیت‬ ‫کا کام پہلے بھی یہاں ہو تا تھا آج بھی ہو تا ہے۔ بعض علاقوں میں‬

‫صفائی کی قسم لینے دینے کے کام آتی ہے۔ اردو میں زیادہ تر اپنے‬‫اصلی معنوں میں یہ لفظ استعمال ہوتاہے۔ یہ لفظ عربی سے اردو میں‬ ‫داخل ہواہے ۔ مثلاا‬‫خراب رہتے تھے مسجد کے آگے میخانہ نگاہ مست نے ساقی کی‬ ‫انتقام لیا( ‪ )١٧۶‬میر‬‫مسجد میں بتکد ے میں کلسیا میں دیر میں پھرتے تری تلاش میں ہم‬ ‫‪،‬چار سور ہے(‪)١٧٧‬والا جاشید‬‫‪ :‬غالب نے بھی اسے اس کے اصل معنوں میں استعمال کیا ہے‬‫مسجد کے زی ِر سایہ خرابات چاہئے‬ ‫بھوں پاس آنکھ قبلہء حاجات‬ ‫چاہئے‬ ‫مست‪:‬‬ ‫فارسی میں نشہ میں چور معنوں میں استعمال ہو تا ہے اور اس‬‫سے میخانے کا کلچر سامنے آتا ہے ساقی کا پلا نا ‪،‬پی کر میخواروں‬ ‫کا بہکنا ‪،‬الٹی سیدھی حرکتیں کرنا وغیرہ قسم کے خیا لات سامنے‬ ‫آتے ہیں ۔اردو میں درویش‪ ،‬اللہ لوگ ‪،‬مست ملنگ کے معنوں میں‬ ‫استعمال ہو تا ہے۔ اس طبقے کے اس لفظ کے حوالے سے نظریات‬ ‫اور سر گرمیاں سامنے آتی ہیں۔ ان کی معاشرتی حیثیت و قعت کابھی‬‫اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔یہ معنوی اختلاف ہے۔ان معنوں میں اس لفظ‬ ‫کو مہاجر نہیں کہا جاسکتا ہے۔‬‫ولی دکنی لفظ مست کو عشق سے وابستہ کرتے ہیں عشق کے متعلق‬‫شخص معاشرے کے لئے غیر مفید ہو جا تا ہے ۔ولی عشق میں غرق‬

‫‪:‬کے لئے مست کا لفظ استعمال کرتے ہیں‬ ‫نا کسی ہے نا کسی ہے نا مست ہونا عشق میں تیرے صنم‬ ‫کسی(‪ )١٧۸‬ولی‬ ‫نیم خواب آنکھوں کی مستی لوگوں کو بے خود اور مفتوں بنا دیتی‬ ‫‪:‬ہے۔ ولی کے ہاں اس حوالہ سے بھی اس لفظ کا استعمال ہوا ہے‬ ‫ہر ہرنگہہ سوں اپنی بے خود کرے ولی کوں ووچش ِم مست پر خوش‬ ‫جب نیم خواب ہووے(‪ )١٧۹‬ولی‬ ‫حافظ عبدا لوہاب سچل نے زندگی کی حرکت اور سر گرمی کے ماند پڑ‬ ‫‪:‬جانے کے حوالہ سے اس لفظ کا استعمال کیا ہے‬ ‫نبض کو دیکھ کر مایوس فلاطوں بھی ہوا کہہ دیا صاف یہ مست تو ‪،‬‬ ‫شیار نہیں(‪ )١۸٠‬سچل‬ ‫آفتاب رائے رسوا خوشی راحت اور بے خودی کی حالت کے لئے اس‬ ‫‪ :‬لفظ کو نظم کرتے ہیں‬‫ابر رحمت برستا ہے ہر گلی میں گرے پڑے ہیں مست ہو درو دیوار‬ ‫یا برستی ہے شراب(‪ )١۸١‬رسوا‬ ‫حاتم نے بطور مشبہ بہ استعمال کیا ہے \"جذب کی حالت میں\" معنی‬ ‫‪:‬دریافت کئے ہیں‬‫لب میگوں سے تیرے نگہ کرتے گرا بے ہوش ہو جوں مست گرتا ہے‬ ‫پان کھاتے پیک کا چونا ( ‪ )١۸٢‬حاتم‬‫ایک دوسری جگہ دنیا و جہاں سے بے خبر کے لئے لفظ مست برتتے‬

‫‪:‬ہیں‬ ‫شکر للہ شیشہ و ساغر بکف اس ابر میں مست آتا ہے لئے عشرت کا‬ ‫ساماں دست میں(‪ )١۸۳‬حاتم‬ ‫غالب اللہ لوگ درویش دنیا سے دور لوگوں کے لئے اس لفظ کو‬ ‫‪:‬موزوں خیال کرتے ہیں‬ ‫مست کب بند قبا باندھتے ہیں نشہ ء رنگ سے ہے واشد گل‬ ‫اردو میں اگر مخمور معنی مراد لیں گے تو یہ مستک کا اختصار سے‬ ‫جبکہ دیگر مفاہیم میں مست کا بگڑا روپ ہے۔ ت‪ ،‬ٹ کی متبادل آواز‬‫ہے۔ یہ بھی کہ فارسی مشٹ کو شٹ کے معنوں میں استعمال کیا جانے‬ ‫لگا ہے ۔‬‫عربی میں منت ‪،‬کرم ‪،‬مہربانی‪،‬احسان(کرنا) اور حسن سلوک کے منت‪:‬‬ ‫معنوں میں استعمال ہوتا ہے لیکن اردو میں اس کا مزاج اور معنوی‬ ‫چلوں الگ سے رہا ہے ۔مثلاا‬‫بس کئی دن جوز یست ہے‪ ،‬اس پر کس کی منت عبث اٹھائے گا (‪١۸۴‬‬ ‫)قائم چاند پوری‬ ‫احسان اٹھانا‬ ‫وہ جس دم ہاتھ اپنا قبضۂ خنجر پہ رکھتا ہے تکلف بر طرف‪ ،‬منت‬ ‫ہمارے سر پہ رکھتا ہے (‪ )١۸۵‬مصحفی‬ ‫کسی کے ) سر پہ منت رکھنا ‪،‬منت رکھنا۔(‬ ‫منت م ّْن یا پھر امتحان سے ترکیب پایا ہے جبکہ اردو کا لفظ منتی ‪،‬‬

‫ہندی لفظ بنتی (وینتی )بمعنی عرض ‪،‬التجا ‪،‬التماس ‪ ،‬عاجزی‪،‬‬ ‫خوشامد‪ ،‬معذرت‪ ،‬لجاحت‪ ،‬درخواست (‪)١۸۶‬سے تعلق جوڑرہا ہے۔‬ ‫ہندی والوں کے ہاں بنتی یا و نتی برقرار رہا لیکن عربی کے زیر اثر‬ ‫بنتی اور منتی کو ترک کرکے منت‪ ،‬بنتی کے معنوں میں اختیار کر لیا‬ ‫گیا ہے یہ لفظ عربی ہندی تعلقات کو واضح کر رہا ہے۔ غالب کے ہاں‬ ‫‪:‬بھی اس کا رشتہ بنتی سے استوار ہے‬ ‫میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا درد‪،‬من ِت کش دوانہ ہوا‬ ‫(منت کش ہونا‬ ‫ایک دوسری جگہ سماجت اور خوشامد کے معنوں میں استعمال ہوتا‬ ‫‪ :‬ہے‬ ‫پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں سر زیر بار من ِت درباں‬ ‫کئے ہو ئے‬‫عربی اسم مذکر ہے۔ عربی میں نقش و نگار کرنا‪ ،‬مزیں کرنا کے نقشا‪:‬‬ ‫معنوں میں استعمال ہو تا ہے۔اردو میں بالکل الگ معنوں میں استعمال‬ ‫ہو تا ہے یہ اپنی اصل میں \"نکسا \" ہے برصغیر کی تہذیب میں کسی‬‫کام کے نہ ہونے کے سبب \"ناک نہیں رہتا\"بولتے ہیں۔ اس کوناک رہنا‬ ‫سے سج دھج‪ ،‬بناوٹ‪ ،‬تضع‪ ،‬کسی کی نقل ‪،‬نمایاں حیثیت ‪،‬عزت‪ ،‬آبرو‬ ‫‪:‬وغیرہ مراد لیتے ہیں۔ اردو میں نقشا کا استعمال ملاحظ ہو‬ ‫شب دیکھ مہ تا باں تھا مصحفی تو حیراں کیا اس میں بھی کچھ نقشہ‬ ‫اس سیم بدن کا (‪ )١۸٧‬مصفحی‬ ‫تم ماہ شب چار دہم تھے مرے گھر کے پھر کیوں نہ رہا گھر کا نقشا‬

‫کو ئی دن اور(بمعنی حالت) غالب‬ ‫حواشی‬‫‪٢‬۔ کلیات ولی‪ ،‬مرتبہ ‪١‬۔شرح دیوان حافظ‪ ،‬مترجم عبداللہ عسکری مرزا‬ ‫نور الحسن ‪ ،‬ص ‪٧۸‬‬ ‫‪۴‬۔ سندھ میں اردو شاعری‪،‬مرتبہ ‪۳‬۔ کلیات مصحفی ‪ ،‬ص ‪۵۵۶‬‬ ‫ڈاکٹر نبی بخش خاں بلوچ ‪ ،‬ص ‪۶۴‬‬ ‫‪۶‬۔ دیوان درد ‪۵ ،‬۔ کلیات قائم ج‪،١‬مرتبہ اقتدارحسن ‪ ،‬ص ‪٢٢‬‬ ‫مرتبہ خلیل الرحمن داودی ‪،‬ص‪١۵۹‬‬ ‫‪۸‬۔ شاہکار انسا ئیکلو پیڈیا ‪،‬ص ‪٧ ۳۸‬۔ پیدائش ‪٢٢ : ١٠‬‬ ‫‪١٠‬۔ فرہنگ ‪۹‬۔ سخند ا ِن فارس ‪،‬از محمد حسین آزاد ‪ ،‬ص ‪١١۳‬‬ ‫فارسی ‪ ،‬مولف ڈاکٹر عبدالطیف ‪ ،‬ص‪٧‬‬ ‫‪١١‬۔ کلیات میر ج ا‪،‬مرتبہ کلب علی خاں فائق ‪ ،‬ص‪١٢ ١٠١‬۔ دیوان‬

‫زادہ ‪ ،‬مرتبہ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار‪ ،‬ص ‪۸‬‬‫‪١۴‬۔ سخندان فارس‪ ،‬ص ‪١۳ ۹۹‬۔ کلیات قائم ج‪ ،‬ص ‪۳۸‬‬‫‪١۵‬۔ المنجد ‪،‬ص ‪۶٢٧‬‬ ‫‪١۶‬۔ پنجابی اردو لغت‪ ،‬مولف تنویر بخاری‬ ‫‪ ،‬ص ‪١١١۵‬‬‫‪١٧‬۔ ہندی اردو لغت ‪،‬ص ‪١۸ ۳۴۹‬۔ دیوان درد‪ ،‬ص ‪١۴۶‬‬‫‪١۹‬۔ کلیات قائم ج ا‪ ،‬ص ا ‪٢٠ ٧‬۔ کلیات مصحفی دیوان ا ّول‪ ،‬ص ‪١۶‬‬‫‪٢١‬۔ لسا نیات غالب‪ ،‬مقصود حسنی ‪ ،‬ص ‪٢٢ ١٢‬۔ کلیات ولی‪ ،‬ص ‪۸۹‬‬‫‪٢۴‬۔ تذکرہ ‪٢۳‬۔ تذکرہ مخزن نکات‪ ،‬ڈاکٹر اقتدارحسن ‪ ،‬ص ‪۴۳‬‬ ‫حیدری‪ ،‬حید ربخش حیدری ‪ ،‬ص ‪١١۴‬‬‫‪٢۶‬۔ کلیات قائم ج ا‪ ،‬ص ‪٢۵ ٢۳‬۔ دیوان درد‪ ،‬ص ‪١۶۳‬‬‫‪٢۸‬۔فرہنگ عامرہ ‪ ،‬عبداللہ خویشگی ‪٢٧‬۔ کلیات میر ج ا ‪ ،‬ص ‪١۹٢‬‬ ‫‪ ،‬ص ‪٢٧١‬‬ ‫‪٢۹‬۔ نوائے سروش ‪ ،‬ص ‪۳٠‬۔‬‫‪۳١‬۔جناب ابو حنیفہ ‪ ،‬جناب مالک ‪ ،‬جناب شافعی ‪ ،‬جناب احمد بن حنبل‬ ‫‪،‬‬ ‫‪۳٢‬۔ پیش امام‬‫‪۳۳‬۔ جناب علی ابن ابی طالب ‪،‬جناب حسن ابن علی‪ ،‬جناب حسین ابن‬ ‫علی‪ ،‬جناب زین العابدین بن حسین ‪ ،‬جناب امام باقر ‪ ،‬جناب جعفر‬ ‫صادق ‪ ،‬جناب موسی کاظم ‪ ،‬جناب علی رضا ‪ ،‬جناب محمد تقی ‪،‬‬ ‫جناب علی نقی ‪ ،‬جناب حسن عسکری ‪ ،‬جناب محمد مہدی‬

‫‪۳۵‬۔ دیوان زادہ‪ ،‬ص ‪۳۴ ١٧۴‬۔ کلیات میرج ا‪ ،‬ص ‪۹۹‬‬‫‪۳٧‬۔ ‪۳۶‬۔ سندھ میں اردو شاعری ‪ ،‬ڈاکٹر بنی بخش بلوچ ‪،‬ص ‪١۶۴‬‬ ‫دیوان زادہ‪ ،‬شیخ ظہور الدین حاتم ‪ ،‬ص ‪١۵۴‬‬‫‪۳۹‬۔ کلیات مصحفی ج ا ‪ ،‬ص ‪۳۸ ٢۶٧‬۔ تذکرہ حیدری‪ ،‬ص ‪۵۵‬‬‫‪۴١‬۔ کلیات میرج ا‪ ،‬ص ‪۴٠‬۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا‪ ،‬ص ‪۶۸‬‬ ‫‪٢۸٠‬‬‫‪۴٢‬۔کلیات قائم ج ا‪ ،‬ص ‪١٢٧‬‬ ‫‪۴۳‬۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا‪،‬‬ ‫ص ‪۴۴١‬‬‫‪۴۵‬۔ دیوان مح ِب ‪ ،‬ولی ‪۴۴‬۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا‪ ،‬ص‪۳۴۶‬‬ ‫اللہ محب‪ ،‬ص ‪۵٠١‬‬‫‪۴٧‬۔ کلیات میرج ا‪ ،‬ص ‪۴۶ ١١۵‬۔کلیات مصحفی ج ا‪ ،‬ص ‪۵٧۵‬‬‫‪۴۹‬۔ لغات نظامی ‪،‬ص ‪۴۸‬۔ سندھ میں اردو میں شاعری ‪،‬ص ‪۸٠‬‬ ‫‪١٠١‬‬‫‪۵١‬۔ البیان‪ ،‬ص ‪١۵‬۔‪۵٠ ١۶‬۔ جامع اللغات ج ا ‪،‬ص ‪۴۶۶‬‬‫‪۵۳‬۔ دیوان مہ لقا بائی چند ا‪ ،‬ص ‪۵٢ ١١۴‬۔ اظہر اللغات‪ ،‬ص ‪١۶۵‬‬‫‪۵۵‬۔ کلیا ِت مصحفی ج ا‪ ،‬ص ‪۵۴ ۴۸۸‬۔ کلیات مصحفی ج ا‪ ،‬ص ‪۳۴‬‬‫‪۵٧‬۔ تذکرہ خوش معرکہ ‪۵۶‬۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ص ‪١۳۴‬‬ ‫زیبا ج ا‪ ،‬ص ‪۴۸۸‬‬‫‪۵۹‬۔ معنویت ‪ ،‬ڈاکٹر ‪۵۸‬۔ روشنی اے روشنی ‪،‬شکیب جلالی ‪ ،‬ص ‪۸۸‬‬ ‫سہیل بخاری ‪،‬ص ‪١٢۶‬‬

‫‪۶٠‬۔ کلیات ولی ‪،‬ص‪٧۹‬‬ ‫‪۶١‬۔ احوال واثار شاہ عالم ثانی آفتاب‬ ‫‪،‬ڈاکٹر محمد جمیل خاور‪ ،‬ص ‪١۹۴‬‬‫‪۶۳‬۔ تذکرہ مخزن نکات‪ ،‬ص ‪۶٢ ١٢٧‬۔ سخندان فارس‪ ،‬ص ‪۴۸‬‬‫‪۶۵‬۔ اردو کی دو قدیم ‪۶۴‬۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا‪ ،‬ص ‪۴٠٠‬‬ ‫مثنویاں ‪،‬ص ‪١٢۹‬‬‫‪۶٧‬۔ رحمن‪۶۶ ٧۶:‬۔ تذکرہ گلستان سخن ج ا‪ ،‬ص ‪۴۸١‬‬ ‫‪۶۹‬۔ ‪۶۸‬۔ کلیات میر ج ا‪ ،‬ص ‪۹۸‬‬‫‪٧١‬۔ ہندی ارو لغت‪ ،‬ص ‪٧٠‬۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا‪ ،‬ص ‪۳۵۹‬‬ ‫‪۴۵۸‬‬‫‪٧٢‬۔سنسکرت اردو لغت ‪،‬ص ‪٧۳ ٧ ۳‬۔کلیات میر ج ا‪ ،‬ص ‪۳٢٠‬‬‫‪٧۴‬۔ شرح دیوا ِن حافظ ج ا‪ ،‬ص‪٧۵ ۹‬۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا‪ ،‬ص‬ ‫‪۵۳٧‬‬‫‪٧٧‬۔ دیوان جہاں دار‪ ،‬ص ‪٧۶ ١۳۵‬۔ تذکرہ حیدری‪ ،‬ص ا ‪٢‬‬‫‪٧۹‬۔ کلیا ِت مصحفی ج ا‪ ،‬ص ‪٧۸ ۵۵٠‬۔ کلیات قائم ج ا‪ ،‬ص ‪۴۳‬‬‫‪۸١‬۔ فرہنگ فارسی‪ ،‬ص ‪۸٠ ۳٢۵‬۔تذکرہ گلستان سخن ج ا‪ ،‬ص ‪۳۶۹‬‬‫‪۸۳‬۔ دیوان زادہ ‪،‬ص ‪۸٢ ١١۶‬۔ احوال و رباعیا ِت خیام ‪،‬ص ‪٢٧۵‬‬‫‪۸۴‬۔ کلیا ِت مصحفی ج ا‪،‬ص ‪۵٧۳‬‬ ‫‪۸۵‬۔ سندھ میں اردو شاعری ‪،‬‬ ‫ص‪۳۸‬‬‫‪۸٧‬۔کلیات سو دا ج ا‪ ،‬ص‪۸۶ ١۵‬۔ کلیا ِت مصحفی ج ا‪ ،‬ص ‪١٢۵‬‬

‫‪۸۹‬۔ فرہنگ فارسی ‪،‬ص ‪۸۸ ۴١۵‬۔ دیوان زادہ‪،‬ص ‪١٢۸‬‬ ‫‪۹١‬۔ تذکرہ مخزن نکات ‪،‬ص ‪۹٠ ۶‬۔ دیوا ِن زادہ‪ ،‬ص ‪١٢٠‬‬‫‪۹۳‬۔ نقوش بیاض غالب نمبر‪،‬ص ‪۹٢ ۶۹‬۔ کلیا ِت میر ج ا‪ ،‬ص ‪١۳۸‬‬ ‫‪۹۵‬۔ تذکرہ مخزن نکات‪ ،‬ص ‪۹۴ ١۸۵‬۔ دیوان زادہ‪ ،‬ص ‪٧‬‬ ‫‪۹٧‬۔ کلیات میر ج ا‪ ،‬ص ‪۹۶‬۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا‪،‬ص ‪١١٢‬‬ ‫‪۹۹‬‬ ‫‪۹۹‬۔ تذکرہ مخز ِن نکات ‪،‬ص ‪۹۸ ١٢٠‬۔ باغ و بہار ‪،‬ص ‪١۴۸‬‬‫‪١٠١‬۔ کلیا ِت میر ج ا‪ ،‬ص ‪١٠٠ ١۳۶‬۔ تذکرہ مخزن نکات‪ ،‬ص ‪١١۵‬‬ ‫‪١٠۳‬۔ دیوان درد‪ ،‬ص ‪١٠٢ ١٢۳‬۔ کلیا ِت میر ج ا‪ ،‬ص ‪۹۸‬‬ ‫‪١٠۵‬۔ القاموس الفرید ‪،‬ص ‪١٠۴ ۳۵۹‬۔ کلیا ِت میر ج ا‪ ،‬ص ‪٢۸٠‬‬ ‫‪١٠٧‬۔ ‪١٠۶‬۔ تقویت الایمان ‪ ،‬شاہ اسماعیل شہید دہلوی ‪،‬ص ‪۹۹‬‬ ‫کلیات شاہی‪ ،‬ص ‪٧‬‬‫‪١٠۹‬۔ آئینہ اردولغت ‪١٠۸‬۔ مراۃ العروس‪ ،‬ڈپٹی نذیر احمد ‪ ،‬ص ‪۳۵‬‬ ‫‪ ،‬علی حسن چوہان وغیرہ ‪،‬ص‪١٠۹۹‬‬ ‫‪١١١‬۔ دیوا ِن درد‪ ،‬ص ‪١١٠ ١١۶‬۔ کلیات میر ج ا‪ ،‬ص ‪١١۸‬‬ ‫‪١١۳‬۔ تذکرہ خوش ‪١١٢‬۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا‪ ،‬ص ‪١١٠‬‬ ‫معرکہ زیبا ج ا‪ ،‬ص ‪۳۶١‬‬ ‫‪١١۵‬۔ ‪١١۴‬۔ القاموس الفرید‪ ،‬وحید الزمان کیرانو ی‪ ،‬ص ‪۳۸١‬‬ ‫تذکرہ مخز ِن نکات ‪،‬ص ‪١۳۵‬‬

‫‪١١٧‬۔ کلیا ِت میر ج ا‪ ،‬ص ‪١١۶ ١۹٧‬۔ تذکرہ مخزن نکات ج‪ ،‬ص ‪١٧۹‬‬‫‪١١۹‬۔ کلام بابا بلھے شاہ‪ ،‬ص ‪١١۸ ۸‬۔ القاموس الفرید ‪،‬ص ‪۳۹۵‬‬‫‪١٢١‬۔ اردو کی دو قدیم مثنویاں‪ ،‬ص ‪١٢٠‬۔ کلام شاہ حسین ‪،‬ص ‪۳١‬‬ ‫‪١١۴‬‬‫‪١٢۳‬۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا‪١٢٢ ،‬۔ دیوان جہاں دار‪ ،‬ص ‪١٢٠‬‬ ‫ص ‪٢٠۳‬‬‫‪١٢۵‬۔ تذکرہ مخزن نکات‪ ،‬ص ‪١٢۴‬۔ تذکرہ مخزن نکات ‪،‬ص ‪١۳۴‬‬ ‫‪١۵۳‬‬‫‪١٢۶‬۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا‪ ،‬ص ‪۵١۴‬‬ ‫‪١٢٧‬۔ کلیات میر ج‬ ‫ا‪ ،‬ص‪١٢۵‬‬‫‪١٢۹‬۔ دیوان دد ‪ ،‬ص‪١٢۸ ١١۵‬۔کلیات قائم ج ا‪ ،‬ص ‪١۳۴‬‬‫‪١۳١‬۔ کلیات میر ج ا‪ ،‬ص ‪١۳٠ ١٠۴‬۔ کلیات میر ج ا‪،‬ص ‪١٠۴‬‬‫‪١۳۳‬۔ ‪١۳٢‬۔شاہ عالم ثانی آفتاب احوال و ادبی خدمات‪ ،‬ص ‪٢٠۸‬‬ ‫تذکرہ مخزن نکات ‪ ،‬ص ‪١٢۸‬‬‫‪١۳۵‬۔ کلیات ولی‪ ،‬ص ‪١۳۴ ٧۸‬۔ کلیات ولی‪ ،‬ص ‪٢١۵‬‬‫‪۳۶‬ا۔ تذکرہ مخزن نکات ‪،‬ص ‪۴۶‬‬ ‫‪۳٧‬ا۔ تذکرہ مخزن نکات‪ ،‬ص‬ ‫‪١٧۹‬‬‫‪١۳۹‬۔ کلیات میر ج ا‪ ،‬ص ‪١۳۸‬۔ ‪١۵ :٢۸‬‬‫‪١۴١‬۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ‪١۴٠ ،٢‬۔ کلیات میر ج ا‪ ،‬ص ‪٢٢۵‬‬ ‫ص ‪٢۶۹‬‬

‫‪١۴۳‬۔ کلیات مصحفی ج ا‪ ،‬ص ‪١۴٢ ۵٢۸‬۔ کلیات میرج ا‪ ،‬ص ‪١۳١‬‬‫‪١۴۵‬۔ ال عمران ‪١۴۴ ٢۵‬۔ بقرہ ‪١١۳‬‬‫‪١۴۶‬۔مائدہ ‪ ،١٠۹ :‬نور ‪ ،٢۴:‬سجدہ ‪١۴٧ ،۹،١۹ :‬۔ مائدہ‪١٠۹ :‬‬‫‪١۴۸‬۔مکانی استعمال ‪١۴۹‬۔ کلیات میر ج ا‪ ،‬ص ‪١٢۵‬‬‫‪١۵١‬۔ ترجمہ میر مرتضی حسین ‪١۵٠‬۔ کلیات میر ج ا‪ ،‬ص ‪٢١۹‬‬ ‫فاضل لکھنوی‬‫‪١۵۳‬۔ کلیات مصحفی ج ا‪ ،‬ص‪١۵٢ ۵۳۹‬۔ کلیات میر ج ا ‪،‬ص ‪١۴٢‬‬‫‪١۵۴‬۔ سندھ میں اردو شاعری‪ ،‬ص ‪۶۸‬‬ ‫‪١۵۵‬۔ تذکرہ خوش معرکہ‬ ‫زیبا ج ‪ ،‬ص ‪۴۶١‬‬‫‪١۵٧‬۔کلیات شاہی ‪ ،‬ص ‪١۵۶ ١٠۶‬۔کلیات میر ج ا‪ ،‬ص ‪١٢۸‬‬‫‪١۵۹‬۔ دیوان لقا چند ا ‪،‬ص ‪١۵۸ ١۴۶‬۔ کلیات قائم ج ا‪ ،‬ص ‪٧١۹‬‬‫‪١۶١‬۔ تذکرہ خوش ‪١۶٠‬۔ تذکرہ خوش معرکہ زیباج ا ‪،‬ص ‪۴۳۹‬‬ ‫معرکہ زیبا ج ا ص ‪۳۴۸‬‬‫‪١۶۳‬۔کلیات میر ج ا‪ ،‬ص ‪١۶٢ ١۳۴‬۔ تذکرہ خوش زیبا ج ا‪ ،‬ص ‪۴۶١‬‬‫‪١۶۵‬۔ کلیا ِت مصحفی ج ا‪ ،‬ص‪١۶۴ ۳۵٠‬۔ کلیات ولی‪ ،‬ص ‪٢۵۶‬‬‫‪١۶٧‬۔ دیوان زادہ ‪ ،‬ص ‪١۶۶ ١۳‬۔ دیوان درد‪ ،‬ص ‪٢٠۸‬‬‫‪١۶۹‬۔ کلیا ِت مصحفی ج ا‪ ،‬ص‪١۶۸ ۳٢۵‬۔ کلیات ولی‪،‬ص ‪٧۶‬‬‫‪١٧١‬۔ تذکرہ مخزن نکات‪،‬ص ‪١٧٠‬۔ کلیات مصحفی ج ا‪ ،‬ص ‪۵٧۵‬‬ ‫‪١۹٧‬‬

‫‪١٧۳‬۔ کلیا ت ولی ‪،‬ص ‪١٧٢ ١٢٢‬۔ تذکرہ مخزن نکات‪ ،‬ص ‪١۴۹‬‬‫‪١٧۴‬۔ دیوان زادہ‪ ،‬ص ‪١٢۹‬‬ ‫‪١٧۵‬۔ تذکرہ خوش معرکہ زیباج ا‬ ‫‪،‬ص ‪۵۳۶‬‬‫‪١٧٧‬۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا‪١٧۶ ،‬۔ کلیات میر ج ا ‪،‬ص ‪١١۸‬‬ ‫ص ‪۳۴۸‬‬‫‪١٧۹‬۔ کلیات ولی‪ ،‬ص ‪١٧۸ ٢۵١‬۔ کلیات ولی ص ‪٢٢۹‬‬‫‪١۸٠‬۔ سندھ میں اردو شاعری ‪،‬ص ‪٧٧‬‬ ‫‪١۸١‬۔ تذکرہ مخزن نکات‬ ‫‪،‬ص‪١۶۹‬‬‫‪١۸۳‬۔ دیوان زادہ ‪،‬ص ‪١۸٢ ۶۶‬۔ دیوان زادہ‪ ،‬ص ‪۴‬‬‫‪١۸۵‬۔ کلیات مصحفی ج ا‪ ،‬ص ‪١۸۴ ۵۳۶‬۔ کلیات قائم ج ا‪ ،‬ص ‪١۴‬‬‫‪١۸٧‬۔ کلیات مصحفی ج ا‪،‬ص ‪١۸۶ ۶۸‬۔ ہندی اردو لغت‪،‬ص ‪١٢١‬‬

‫باب نمبر‪٧‬‬‫لفظیا ِت غالب کا ساختیاتی مطالعہ‬ ‫ساختیات ایک صحت مند فکری رویے‪ ،‬ہمہ وقت ترقی پذیر سماجی‬ ‫ضرورت اورانتھک تحقیق و دریافت کا نام ہے جو سوچ کوکسی‬ ‫مخصوص ‪ ،‬زمانی ومکانی ک ّرے تک محدود رہنے نہیں دیتی ۔ یہ نہ‬ ‫صرف معلوم (ڈیکوڈ) مگر غیرا ستوار ک ّروں سے تعلق استوار کرتی‬‫ہے بلکہ ان سے رشتے ناتے دریافت کرتی ہے۔ اس کا دائرہ کا ر یہاں‬ ‫تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ معلوم مگر غیر دریافت شدہ ک ّروں کی‬ ‫طرف پیش قدمی کرکے ان کے حوالوں کو اشیاء ‪ ،‬اشخاص اور ان‬ ‫سے متعلقات وغیرہ کی جذب و اخذ کی صلاحیتوں سے پیوست کر‬‫دیتی ہے ۔ یہ پیوستگی مخصوص ‪ ،‬محدود اور پابند لمحوں کی دریافت‬ ‫تک محدود نہیں رہتی اور نہ ہی تغیرات کی صور ت میں جامد وساکت‬ ‫رہتی ہے۔ اس کارد ساخت کا حلقہ ہمیشہ لامحدود رہتا ہے۔‬ ‫کچھ لوگ ساخت شکنی کو ساخت سے انحراف کانام دیتے ہیں یا‬

‫سمجھتے ہیں ۔ یہ سوچ ساخت کے ضمن میں درست مناسب اور’’‬‫وارہ کھانے‘‘ والی نہیں ہے۔ ساخت شکنی درحقیقت موجودہ تشریح کو‬ ‫مستردکرکے آگے بڑھنے کانام ہے۔ شاخت شکنی کے بغیر کسی نئے‬ ‫کی دریافت کا سوال پیدا ہی نہیں اٹھتا۔ ساخت شکنی کی صورت میں‬‫کے ساتھ بہت )‪ (Signifier‬نامعلوم کائناتیں دریافت ہوکر کسی بھی دال‬ ‫وابستہ ہو جاتے ہیں۔ )‪ (Signified‬سارے مدلول‬‫کوئی دال غیر لچکدار اور قائم بالذات نہیں ہوتا۔ لچک‪ ،‬قطرے کا سمندر‬‫کی طرف مراجعت کا ذریعہ ووسیلہ ہے یااس کے حوالہ سے قطرے کا‬ ‫سمندر بنناہے۔ ساخت شکنی سے ہی یہ آگہی میّسر آتی ہے کہ قطرہ‬ ‫اپنے اندر سمندر بننے کا جوہر رکھتاہے۔ وال کوغیرلچکدار قرار دینا‬ ‫آگہی کے پہلے زینے پر کھڑے رہناہے۔ ہر زندہ اور لچکدار سوچ‬ ‫ازخود آگہی کی جانب بڑھتاہے ۔زندہ اورلچکدار سوچ کو دائرہ کاقیدی‬ ‫ہونا خوش نہیں آتا اور نہ ہی اسے کسی مخصوص دائرے سے‬ ‫منسلک کیا جاسکتاہے۔ یہ ان گنت سماجی رشتوں سے منسلک‬ ‫‪:‬ہوتاہے۔ اسی بنیادپر گریماکا کہنا ہے‬ ‫ساختیاتی نظام ممکنہ انسانی رشتوں کے گوشواروں پر مبنی ’’‬ ‫)ہے‘‘(‪١‬‬ ‫‪ :‬ڈاکٹر وزیر آغا اس ضمن میں کہتے ہیں‬ ‫کو ثقافتی دھاگوں کاجال قرار دیا )‪ (Poetics‬ساختیات نے شعریات’’‬‫ہے ۔وہ تصنیف کی لسانی اکائی یا معنوی اکائی تک محدود نہ رہی بلکہ‬‫اس نے تصنیف کے اندر ثقافتی تناظرہ کابھی احاطہ کیا‘‘ (‪ )٢‬کے وقت‬ ‫شارح کا وجود معدوم ہوجاتاہے اور فکر موجودہ تغیرات کے نتائج‬

‫سے مدلول اخذ کرتی چلی جاتی ہے جبکہ وقوع میں آنے والے مدلول‬ ‫پھر سے نئی تشریح وتفہیم کی ضرورت رہتے ہیں ۔ اس کے لئے‬ ‫تغیرات کے نتائج اور دریافت کے عوامل پھر حرکت کی زدمیں رہتے‬ ‫کے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔ )‪ (Deconstruction‬ہیں ۔ اس سے ردّ ساخت‬ ‫اگران لمحوں میں شارح جو قاری بھی ہے‪ ،‬کے وجود کو استحقام‬ ‫می ّسر رہے گایا اس کا ہونا اور رہنا قرار واقعی سمجھاجائے گا‬‫تودریافت کا عمل رک جائے گا۔ مصنف کو لکھتے اور شارع کو تشریح‬ ‫کرتے وقت غیر شعوری طور پر معدوم ہونا پڑے گا۔ شعوری صورت‬ ‫میں ایسا ہونا ممکن نہیں کیونکہ شے یا شخص اپنی موجودہ شناخت‬‫سے محروم ہونا کسی قیمت پر پسند نہیں کرتے ۔ شعوری )‪(Indentity‬‬‫عمل میں نئی تشریحات ‪ ،‬نئے مفاہیم اور نئے واسطوں کی دریافت کے‬ ‫دروا نہیں ہوتے ۔‬ ‫مصنف‪ ،‬قاری اور شارح نہ صرف دریافت کے آلہ کارہیں بلکہ ہر دال‬ ‫کے ساتھ ان کے توسط سے نیا مدلول نتھی ہوتا چلا جاتاہے۔ اس‬‫ضمن میں اس حقیقت کوکسی لمحے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ جب‬ ‫تک مصنف ‪،‬قاری اور شارح دریافت کے عمل کے درمیان معدوم نہیں‬ ‫ہوں گے ‪،‬نیا مدلول ہاتھ نہیں لگے گا ۔ اسی طرح کسی دال کے پہلے‬ ‫مدلول کی موت سے نیا مدلول سامنے آتاہے۔ پہلے کی حیثیت کوغیر‬ ‫لچکدار اور اس کے موجودہ وجود کے اعتراف کی صور ت میں نئی‬ ‫کی دریافت کا کوئی حوالہ باقی )‪(Signified‬تشریح یا پھر نئے مدلول‬ ‫نہیں رہ پاتا۔’’میں ہوں‘‘ کی ہٹ معاملے کی دیگر روشوں تک رسائی‬ ‫ہونے نہیں دیتی۔‬ ‫رویے ‪ ،‬اصول ‪ ،‬ضابطے اور تغیرات کے وجوہ و نتائج اورعوامل کی‬

‫نیچر اس تھیوری سے مختلف نہیں ہوتی۔ تغیرات ایک سے ہوں ‪ ،‬ایک‬‫طرح سے ہوں ‪ ،‬ایک جگہ ایک وقت سے مختلف نہ ہوں یا پھر ہو بہو‬ ‫پہلے سے ہوں ‪ ،‬سے زیادہ کوئی احمقانہ بات نہیں۔ اگر تغیرات ایک‬ ‫سے وجوہ اور ایک سے عوامل کے ساتھ جڑے نہیں ہوتے توان کے‬ ‫نتائج ایک سے اور پہلے سے کیسے ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں نئی‬ ‫تشریح کی ضرورت کوکیونکر نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔‬ ‫موہنجوداڑو کی تہذیب و ثقافت سے متعلق پہلی تشریحات‪ ،‬موجودہ‬‫وسائل اور فکر کی روشنی میں بے معنی ٹھہری ہیں ان کی معدومی پر‬ ‫نئی تشریحات کا تاج محل کھڑا کیا جا سکتاہے۔ ایسے میں معدوم‬ ‫تشریحات پرا نحصار اور ان سے کمٹ منٹ نئی تشریحات کی راہ کا‬ ‫بھاری پتھر ہوگی ۔’’ہے‘‘ اور ’’ہوں‘‘کی عدم معدومی کی صورت میں‬ ‫محدود حوالے ‪ ،‬مخصوص تشریحات یا پہلے سے موجو د مفاہیم کے‬ ‫وجود کوا ستحقام می ّسر رہے گا۔‬ ‫دہرانے یا بار بار قرات کا مطلب یہی ہے کہ پہلے سے انحراف‬‫کیاجائے تاکہ نئے حوالے اور نئے مفاہیم دریافت ہوں ۔ پہلی یا کچھ بار‬ ‫کی قر ا ت سے بہت سے مفاہیم کے دروازے نہیں کھلتے ۔ ذراآگے‬ ‫ہی مزید کچھ ہاتھ لگ سکتاہے۔ یہ درحقیقت پہلے )‪ (Post‬اور آگے‬ ‫سے موجود سے انحراف نہیں بلکہ جو اسے سمجھا گیا یا جو کہا گیا‬ ‫‪،‬سے انحراف اور اس کی موت کا اعلان ہے ۔ اگر وہ درست ہے‬ ‫اورعین وہی ہے‪ ،‬جو ہے تونئی تشریحات کا عمل کوئی معنی نہیں‬‫رکھتا اور نہ ہی کثیر الامعنی کی فلاسفی کوئی حیثیت اور وقعت رکھتی‬ ‫‪:‬ہے۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کہتے ہیں‬ ‫اگر پہلے سے تحریر (ادب) کا وجود نہ ہو تو کوئی شاعر یا مصنف ’’‬

‫کچھ نہیں لکھ سکتا ۔ جوکچھ اگلوں نے لکھا ہر فن پارہ اس پرا ضافہ‬ ‫)(نئے مفاہیم ‪ ،‬نئی تشریح کانام بھی دے سکتے ہیں) ہے‘‘ (‪۳‬‬‫دہرانے کا عمل ’’جو ہے‘‘ تک رسائی کی تگ ودو ہے ۔ یعنی جو اسے‬ ‫سمجھا گیا وہ ‪ ،‬وہ نہیں ہے یاپھر اسے موجودہ ‪ ،‬حالات اور ضرورت‬ ‫کے مطابق سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسے اسی طرح سمجھنے کی‬ ‫تشنگی ‪ ،‬جس طرح کی وہ ہے‪ ،‬کے حوالہ سے ساختیات کبھی کسی‬ ‫تشریح یا تفہیم کو درست اور آخری نہیں مانتی ۔وہ موجود کی روشنی‬ ‫نہیں بڑھتی کیونکہ یہ موجود کی تفہیم ہوگی اور )‪ (Post‬میں آگے‬ ‫اصل پس منظر میں چلا جائے گا۔ اس سینار یو میں دیکھئے کہ اصل‬ ‫نئے سیٹ اپ کے بھنور میں پھنس گیا ہوتاہے۔‬ ‫ساختیات متن اور قرات کو بنیا دمیں رکھتی ہے ۔ ان دونوں کے حوالہ‬ ‫سے تشریح وتفہیم کا کام آگے بڑھتاہے۔ کیایہ تحریر کے وجود کا‬‫اقرار نہیں ہے۔ متن درحقیقت خاموش گفتگو ہے۔’’ خاموشی‘‘ بے پناہ‬ ‫معنویت کی حامل ہوتی ہے۔متن کا ہر لفظ کسی نہ کسی کلچر سے‬ ‫وابستہ ہوتاہے۔ اس کلچر کے موجود سیٹ اپ اور لسانی نظام کے‬‫مزاج سے شناسائی کے بعد ہی موجودہ (نئی ) تشریح کے لئے تانا بانا‬ ‫بنا جاسکتا ہے۔ اس تناظر میں متن کی باربار قرات کی ضرورت‬ ‫محسوس ہوتی رہے گی۔‬ ‫دورا ِن قرات اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکے گا کہ لفظ اس‬ ‫کلچر کے موجودہ سیٹ اپ کا ہاتھ تھام کرا س سیٹ اپ کی اکائیوں‬ ‫سے وحدت کی طرف سفر کرتاہے اور کبھی وحدت سے اکائیوں کی‬ ‫طرف بھی پھر ناپڑتاہے۔ ہر دو نوعیت کے سفر ‪ ،‬نئی آگہی سے‬ ‫نوازتے ہیں ۔’’یہ نئی آگہی ‘‘ ہی اس لفظ کی موجودہ تشریح وتفہیم‬

‫ہوتی ہے۔ قرات کے لئے سال اور صدیاں درکارہوتی ہیں۔ اسی بنیاد پر‬ ‫‪:‬ڈاکٹر سہیل بخاری نے کہاتھا‬ ‫ہزاروں سال کسی زبان کی عمر میں کوئی حقیقت نہیں رکھتے ‘‘ ’’‬ ‫)(‪۴‬‬ ‫ساختیات موضوعیت سے انکار کرتی ہے۔ موضویت چیز ‪،‬معاملے‬ ‫یاپھر متن کے حلقے محدود کرتی ہے۔ اس سے صرف متعلقہ حلقے‬ ‫کے عناصر سے تعلق استوار ہو پاتاہے اور ان عناصر کی انگلی پکڑ‬ ‫کر تشریح وتفہیم کا معاملہ کرنا پڑتاہے۔ کیایہ ضروری ہے کہ لفظ‬ ‫یاکسی اصطلاح کو کسی مخصوص لسانی اور اصطلاحی نظام ہامیں‬ ‫ملاحظہ کیا جائے۔ اسے کئی دوسرے لسانی و اصطلاحی سٹمز میں‬‫ملاحظہ کیا جاسکتاہے۔ اس طر ح دیگر شعبہ ہائے حیات کا میدان بھی‬ ‫کبھی خالی نہیں رہا ۔ ایسا بھی ہوتاہے کہ اسے ایک مخصوص‬ ‫اصطلاحی سٹم کے مخصوص حلقوں تک محدود رکھاجاتاہے یاپھر‬ ‫مخصوص حوالوں کی عینک سے ملاحظہ کیا جاتاہے۔ ساختیات اسے‬ ‫گمراہ کن ر ّویہ قرار دیتی ہے اور نہ ہی موجود کے درجے پر فائز‬ ‫کرتی ہے۔‬ ‫شعر کے کسی لفظ یا اصطلاح کو محض رومانی سٹم سے کیونکر‬ ‫جوڑا جاسکتاہے۔ اس کے علاوہ دیگر کائناتوں ‪ ،‬سماجی ‪ ،‬معاشرتی ‪،‬‬ ‫معاشی ‪ ،‬سیاسی نفسیاتی ‪ ،‬بیالوجی‪ ،‬تصوف وغیرہ سے اس کا رشتہ‬ ‫کیوں غلط اور لایعنی سمجھا جائے۔ حقیقی کے ساتھ مجازی ‪ ،‬علامتی‬‫‪ ،‬استعارتی وغیرہ ک ّرے بھی تو موجود ہیں ۔ استعارہ ایک علامت کیوں‬ ‫نہیں یاکسی استعارے کے لئے ‪ ،‬علامتی ک ّرے کا دروازہ کیوں بندرکھا‬ ‫جائے ۔ یا یہ دیکھا جائے کہ مصنف نے فلاں حالات ‪ ،‬ضرورتوں اور‬

‫تغیرات سے متاثر ہوکرقلم اٹھایا ۔ مصنف لکھتا ہی کب ہے وہ تومحض‬ ‫ایک آلہ کار ہے۔ تحریر نے خود کولکھا یا تحریر خود کو لکھتی ہے۔‬ ‫‪:‬اس ضمن میں چارلیس چاڈ و کا کہنا ہے‬ ‫ہے۔ )‪ (Instance‬لسانی لحاظ سے مصنف صرف لکھنے کاایک ایما’’‬ ‫جس طرح ’’میں‘‘ کچھ نہیں سوا ایک ایما ’’میں‘‘ کے ۔ زبان ایک‬ ‫)فاعل کو جانتی ہے(اس کی ) شخصیت کو نہیں‘‘ (‪۵‬‬ ‫قاری جو شارح بھی ہے مصنف کے حالات اور ضرورتوں سے لاتعلق‬ ‫ہوتاہے۔ وہ الگ سے ک ّروں میں زندگی گزار رہاہوتاہے۔ اس کے سوچ‬‫کے پنچھی مصنف کے ک ّروں سے باہربھی پرواز کرتے ہیں بالکل اسی‬‫سے باہرکی بات کر رہا ہوتا ہے۔ ‪ Living‬طرح جس طرح مصنف اپنے‬ ‫قاری اور مصنف جن جن ک ّروں میں زندگی کر رہے ہوں ان میں ذہنی‬ ‫‪ Living‬طور پر ایڈجسٹ بھی ہوں ‪ ،‬لازمی امر تونہیں ۔ ان کی فکری‬ ‫کئی اور بہت سی کائناتوں میں ہوسکتی ہے۔ سوچ لیونگ ک ّرے سے‬ ‫باہر متحرک ہوتاہے۔ اس بات کو یوں بھی کہاجاسکتاہے کہ لیونگ‬ ‫ک ّرے میں اس کے سوچ کا‪ ،‬لیونگ ک ّرہ قرار نہیں دیا جاتا۔’’یہاں‘‘ا س‬‫کا سوچ ہمیشہ مس فٹ رہتاہے۔ اس تناظر میں ’’یہاں ‘‘ سے آزادی مل‬ ‫جاتی ہے جبکہ ’’وہاں ‘‘ کے مطابق قرات عمل میں آئے گی اور‬‫تشریح کا فریضہ ’’وہاں ‘‘ کے مطابق سر انجام پائے گا۔ اس (موجود)‬‫ک ّرے میں ان کی موت کا اعلان کرنا پڑے گا ۔قرات اور تشریح کے لئے‬ ‫’’اس ‘‘تک اپروچ کرنا پڑے گی۔‬ ‫سوچ کوئی جامد اور ٹھوس شے نہیں ۔ اسے سیماب کی طرح قرار‬ ‫می ّسر نہیں آتا ۔یہ جانے کن کن ک ّروں سے گزرتے ہوئے لاتعداد‬ ‫تبدیلیوں سے ہمکنار ہوکر معلوم سے نامعلوم کی طرف بڑھ گیا ہو۔‬

‫ایسے میں قرات اور تشریح وتفہیم کے لئے ان سین اور ان نون کی‬‫دریافت لازم ٹھہرے گی ۔ بصورت دیگر بات یہاں (موجود) سے آگے نہ‬ ‫بڑھ سکے گی۔ سکوت موت ہے اورموت سے نئی صبح کا اعلان‬ ‫ہوتاہے۔‬ ‫ساختیات ایک یاایک سے زیادہ مفاہیم کی قائل نہیں ۔یہ بہت سے اور‬ ‫مختلف نوعیت کے مفاہیم کو مانتی ہے۔ پھر سے ‪ ،‬اس کا سلیقہ اور‬ ‫چلن ہے ۔ کثر ِت معنی کی حصولی اس وقت ممکن ہے جب لفظ یاشے‬ ‫کے زیادہ سے زیادہ حوالے رشتے دریافت کئے جائیں ۔ یہ کہیں باہر‬‫کاعمل نہیں بلکہ تخلیق کے اپنے اند رچپ اختیار کئے ہوتاہے۔ دریافت‬ ‫‪ ،‬چپ کو زبان دینا ہے۔ اس بنیاد پر لاکاں نے کہتاہے‬ ‫یہ دیکھنا ضروری نہیں کہ کرداروں کی تخلیق کے وقت کون سے ’’‬ ‫نفسیاتی عوامل محرک گردانے جاتے ہیں بلکہ سگینفائرز یادال کو‬ ‫تلاش کرکے یہ دیکھا جانا چاہیے کہ ان میں سے کون سے علامتی‬ ‫معنی ملتے ہیں اور لاشعور کے کون سے دبے ہوئے عوامل ہیں جو‬ ‫)تحریر کا جامہ پہن کر ممکنہ مدلول کی نشاندہی کرتے ہیں‘‘۔ (‪۶‬‬ ‫علامت ‪ ،‬جودکھائی پڑرہاہے یا سمجھ میں آرہاہے وہ نہیں ہے‪ ،‬کی‬ ‫نمائندہ ہے۔ دکھائی پڑنے والے ک ّرے سے اس کا سرے سے کوئی‬ ‫تعلق نہیں ۔ تندوے کی طرح اس کی ٹانگیں ان ک ّروں میں بھی پھیلی‬ ‫ہوئی ہوتی ہیں ۔ جو ان سین اور ان نون ہیں ۔ کیاتندوے کی ٹانگوں‬ ‫اور ان کی پہنچ کو تندوے سے الگ رکھا جاسکتاہے۔ گویا کوئی متن‬ ‫محدود نہیں ہوتا جتنا کہ عموماا اسے سمجھ لیا جاتاہے۔ کسی کلچر‪/‬‬ ‫ک ّرے کی سروائیول کا انحصار بھی اس بات پر ہے کہ اردگرد سے‬ ‫اسے منسلک رکھا جائے ۔ وہاں درآمد و برآمد کا سلسلہ تعلق اور‬

‫رشتہ کے حوالہ سے پاؤں پسارتا ہے ۔ اس حوالہ سے لفظ کے’’ کچھ‬ ‫معنی‘‘ کافی نہیں ہوتے ۔ کثیر معنوں پر لفظ کی حیثیت اور بقا کا‬ ‫انحصار ہوتاہے۔‬‫بعض حالا ت میں لفظ کا مخصوص اکائیوں سے پیو ست ہونا ضروری‬ ‫ہو جاتاہے۔ تاہم اکائیوں سے وحدت کی طرف اسے ہجرت کر ناپڑتی‬ ‫ہے۔ لفظ کی ساخت میں لچک تسلیم کرنے کی صورت میں ہر قسم‬ ‫کاسفر آسان اور ممکن ہوتاہے۔ اس حوالہ سے بڑی وحدت میں نتھی‬ ‫ہونے کے لئے کثیر معنوں کا فلسفہ لایعنی نہیں ٹھہرتا۔‬ ‫لفظ تب اصطلاحی روپ اختیار کرتاہے اور انسانی بردار کا ورثہ‬‫ٹھہرتاہے جب اس کے استعمال کرنے والے بخیل نہیں ہوتے ۔ اس لفظ‬ ‫کی اصطلاحی نظام اور انسانی زبان میں ایڈجسٹمنٹ اس کی لچک‬‫پذیری کو واضح کرتی ہے اور یہ بھی کہ وہ سب کا اور سب کے لئے‬‫ہے۔ لفظ نقش کو بطور مثال لے لیں یہ بے شمار ک ّروں میں کسی وقت‬‫کے بغیر متحرک ہے اور بے شمار مفاہیم میں بیک وقت مستعمل ہے ۔‬ ‫مزید مفاہیم سے پرہیز نہیں رکھتا۔‬ ‫ہر لفظ کے ساتھ باربار دہرائے جانے کا عمل وابستہ ہے اور یہ عمل‬ ‫کبھی اور کہیں ٹھہراؤ کا شکار نہیں ہوتا۔ ہاں بکھراؤ کی ہر لمحہ‬ ‫‪ :‬صورت موجود رہتی ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے نزدیک‬ ‫شعریات بطور ایک ثقافتی سٹم تخلیق کے تارو پود میں ہی نہیں ’’‬ ‫ہوتی بلکہ اپنی کارکردگی سے تخلیق کو صور ت پذیر بھی کرتی ہے‬ ‫قاری کا کام تخلیق کے پرتوں کو باری باری اتارنا اور شعریات کی‬ ‫)کارکردگی پر نظر ڈالنا ہے‘‘۔(‪٧‬‬

‫تخلیق کے پرتوں کو باری باری اتارنا ‪،‬دہرائے جانے کا عمل ہے جبکہ‬ ‫شعریت کی کارگزاری پر نظر ڈالنا دریافت کرنے اور نئی تشریح تک‬ ‫رسائی کی برابر اور متواتر سعی کانام ہے۔ یہ سب تب ممکن ہے جب‬‫فکر ‪،‬عملی اور فکری تغیرات کی زد میں رہے اور اسی کی آغوش میں‬ ‫پروان چڑھے ۔ اس صورتحال کے تناظر میں یہ کہنا بھی غلط نہیں‬ ‫لگتا کہ لفظ تغیرات کی زد میں خود کو منوانے او ر ظاہر کرنے کے‬ ‫لئے ہاتھ پاؤں مارتارہتاہے۔‬‫ساختیات دراصل اندر کے ثقافتی نظام کی قائل ہے ۔ کروچے کے مطابق‬ ‫داخل ‪ ،‬خارج میں متشکل ہوتاہے۔ (‪ )۸‬اس بات کو یوں بھی کہا‬ ‫جاسکتاہے کہ سب کچھ باطن میں طے پاتاہے یا جو کچھ داخل میں‬ ‫محسوس کرتا ہے خارج میں بھی ویسا ہی دیکھتا ہے ۔ گلاب محض‬ ‫ایک شے ہے۔ داخل نے اِسے اِس کے داخلی اور خارجی حوالوں کے‬ ‫ساتھ محسوس کیا دیکھا اور پرکھا ۔ اسے ان گنت کائناتوں سے‬‫منسلک کرکے نام اور مفاہیم عطا کئے ۔ بیرونی تغیرات کی صورت میں‬ ‫جو ا ور جیسا محسوس کیا‪ ،‬اسی کے مطابق تشریح و تعبیر کی ۔ تاہم‬ ‫‪:‬بقول ڈاکٹر گوپی چند نارنگ‬‫قرات (محسوس کرنا ‪ ،‬دیکھنا اور پرکھنا) اور تفاعل تہذیب کے اندر ’’‬‫اور تاریخ کے محور پر ہے۔یعنی معنی بدلتے رہتے ہیں اور کوئی قرات‬ ‫)یا تشریح آخری وقت آخری نہیں ہے‘‘ ۔(‪۹‬‬‫آخری تشریح اس لئے آخری نہیں کہ مختلف عوامل کے تحت اندر کے‬ ‫موسم بدلتے رہتے ہیں ۔داخل کسی ثقافتی سٹم کو لایعنی کہہ کر نظر‬ ‫انداز نہیں کرتا۔‬‫لفظ جب ایک جگہ اور ایک وقت کے چنگل سے آزادی حاصل کر تاہے‬

‫توثقافتی تبدیلی کے باعث پہلے معنی ردّ ہوجاتے ہیں ۔اگرچہ ان لمحوں‬ ‫تک پہلے معنی پہلے ک ّرے میں گردش کر رہے ہوتے ہیں یا پھر‬ ‫تغیرات کے زیر اثر یاکسی نئی تشریح کے حوالہ سے پہلے مفاہیم کو‬ ‫ردّ کر دیا گیا ہوتاہے۔ نئی اور پرانی کائناتوں میں ر ِدّساخت کا عمل‬ ‫ہمیشہ جاری رہتاہے ۔ بات یہاں پر ہی ٹھہر نہیں جاتی ۔ مکتوبی‬ ‫تبدیلیاں بھی وقوع میں آتی رہتی ہیں۔ تڑپھ سے تڑپ ‪ ،‬دوانہ سے‬‫دیوانہ ‪ ،‬کھسم سے خصم ‪ ،‬بادشاہ سے شاہ اور شاہ سے شہہ مکتوبی‬ ‫کا عمدہ نمونہ ہیں ۔ اس الفاظ کی مفہومی ‪Deconstruction‬‬‫کا عمل کبھی بھی ٹھہرا ؤ کا شکار نہیں ہوا۔ مثلاا جملہ ‪Deconstruction‬‬ ‫بو لاجاتا ہے ۔ ’’وہ توبادشاہ ہے‘‘ لفظ بادشاہ مختلف ثقافتی سسٹمز‬‫میں مختلف مفاہیم رکھتاہے۔ مفہومی اختلاف پہلے مفہوم کو رد کرکے‬ ‫وجود میں آیا ہے۔ باربار کی قرات پہلے کو یکسر رد کرتی چلی جاتی‬ ‫‪ :‬ہے۔ اس سے نئے مفاہیم پیدا ہوتے جائیں گے۔ مثلاا بادشاہ‬ ‫حکمران ‪ ،‬سیاسی نظام میں ایک مطلق العنان قوت ‪ ،‬ڈاکٹیٹر ‪١‬۔‬ ‫لاپرواہ ‪٢‬۔‬ ‫بے نیاز ‪ ،‬لالچ اور طمعہ سے عاری ‪۳‬۔‬ ‫جس کے فیصلے حق پر مبنی نہ ہوں‪ ،‬جس کے فیصلوں میں ‪۴‬۔‬ ‫توازن نہ ہو‪ ،‬بے انصاف‬ ‫پتہ نہیں کس وقت مہربان ہوجانے کس وقت غصب ناک ‪۵‬۔‬ ‫مرضی کا مالک ‪ ،‬کسی کا مشہور ہ نہ ماننے والا ‪ ،‬اپنی کرنے ‪۶‬۔‬ ‫والا‬

‫حقدار کو محروم اور غیرحقدار پر نواز شوں کی بارش کرنے والا ‪٧‬۔‬ ‫نہ جانے کب چھین لے ‪ ،‬غضب کرنے والا ‪۸‬۔‬ ‫کان کا کچا ‪ ،‬لائی لگ ‪۹‬۔‬ ‫بے انتہا اختیار ات کا مالک ‪١٠‬۔‬ ‫ولی اللہ ‪ ،‬صوفی ‪ ،‬درویش ‪ ،‬پیر ‪ ،‬فقیر ‪ ،‬گرو‪ ،‬رام ‪١١‬۔‬ ‫اللہ تعالی ‪١٢‬۔‬ ‫علی ‪،‬حسین ‪١۳‬۔‬ ‫مالک ‪ ،‬آقا ‪١۴‬۔‬ ‫بانٹ کرنے والا ‪ ،‬سخی ‪١۵‬۔‬ ‫امیر کبیر‪ ،‬صاحب ثروت ‪١۶‬۔‬ ‫تھانیدار ‪ ،‬چوہدری ‪ ،‬نمبردار ‪ ،‬وڈیرا‪ ،‬کلرک ‪ ،‬سنتری‪ ،‬تیز رفتار ‪١٧‬۔‬ ‫ڈرائیور‪ ،‬پہلوان ‪،‬حجام ‪ ،‬فوجی‬ ‫وقت پر ادائیگی نہ کرنے والا ‪١۸‬۔‬ ‫مکرجانے والا ‪١۹‬۔‬ ‫وعدہ خلاف ‪٢٠‬۔‬ ‫بے شرم ‪ ،‬ڈھیٹ ‪ ،‬ضدی ‪٢١‬۔‬ ‫نشئی ‪٢٢‬۔‬ ‫بے وقوف ‪ ،‬احمق ‪٢۳‬۔‬

‫غضب کرنے والا ‪٢۴‬۔‬ ‫لفظ بادشاہ کی نامکمل تفہیم پیش کی گئی ہے۔ ان مفاہیم کالغت سے‬‫کو دہراتے جائیے ۔ مختلف )‪ (Sign/Trace‬کوئی تعلق نہیں ۔ اس نشان‬ ‫تہذیبی وفکری ک ّروں سے تعلق استوار کرتے جائیے ۔ پہلے مفاہیم رد‬ ‫ہوکر نئے معنی سامنے آتے جائیں گے ۔ ہر ک ّرے کا اپنا انداز ‪ ،‬اپنی‬ ‫ضرورتیں ‪ ،‬اپنے حالات ‪ ،‬اپنا ماحول وغیرہ ہوتاہے اس لئے سیاسی‬ ‫غلامی کی صور ت میں بھی کسی اور ک ّرے کا پابند نہیں ہوتا ۔ لہذا‬ ‫کہیں او رکسی لمحے ساخت شکنی کا عمل جمود کا شکار نہیں ہوتا۔‬ ‫اس سارے معاملے میں صرف شعوری قوتیں متحرک نہیں ہوتیں بلکہ‬ ‫لاشعوری قوتیں بھی کام کررہی ہوتی ہیں ۔ تخلی ِق ادب کا معاملہ اس‬ ‫‪:‬سے بر عکس نہیں ہوتا ۔ اس ضمن میں لاکاں کا کہنا ہے‬ ‫تخلیق اد ب کی آماجگاہ لاشعور ہی کو سمجھا جاتاہے کیونکہ اس ’’‬ ‫میں مقصد ‪ ،‬ارادہ یا ساختیاتی زبان میں تخلیقی تحریریں فعل لازم‬ ‫)‪(Intransitive Verb‬‬ ‫)میں لکھی جاتی ہیں‘‘ ۔ (‪١٠‬‬ ‫ساختیات مرکزیت کی قائل نہیں ۔ مرکزیت کی موجودگی میں رد ساخت‬‫کا عمل لایعنی اور سعی لا حاصل کے سواکچھ نہیں۔ ایسی صور ت میں‬ ‫لفظ یا شے کو پرواز کرنے یامختلف حوالوں کے ذائقے حاصل کرنے‬ ‫کے بعد مرکزے کی طر ف لوٹ کر اس کے اصولوں کا بندی بننا‬‫پڑتاہے۔ لوٹنے کا یہ عمل کبھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا ۔ ایسی صور‬‫ت میں نئی تشریحات اور نئے مفاہیم کی کیونکر توقع کی جاسکتی ہے۔‬‫لفظ آزاد رہ کر پنپتا اور دریافت کے عمل سے گزرتا ہے۔ لفظ ’’بادشاہ‘‘‬

‫محض سیاسی ک ّرے کا پابند نہیں۔ یہاں تک کہ سیاسی ک ّرے میں رہ کر‬ ‫بھی کسی مرکزے کو محور نہیں بناتا۔‬ ‫بڑی عجیب اور دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ساختیات مصنف کے وجود‬‫اور لفظ کے باطن میں چھپی روح )‪ (Poetic‬کو نہیں مانتی بلکہ شعریت‬ ‫کومانتی ہے ۔ اس کے نزدیک تخلیقی عمل کے دروان مصنف معدوم‬ ‫ہوجاتاہے۔ تحریر خو د کولکھ رہی ہوتی ہے نہ کہ مصنف لکھ رہا‬‫ہوتاہے۔ ساختیات کے اس کہے کاثبوت خو دتحریر میں موجود ہوتاہے۔‬ ‫شاعر‪ ،‬شاعری میں بادہ وساغر کی کہہ رہا ہوتاہے جبکہ وہ سرے‬ ‫سے میخوار ہی نہیں ہوتا۔ ممکن ہے اس نے شراب کوکبھی دیکھا ہی‬ ‫نہ ہو۔ معاملہ بظاہر میخانے سے جڑ گیا ہوتاہے لیکن بات کامیخانے‬ ‫سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہیں کہ‬ ‫تحریر کسی بڑے اجتماع میں متحرک ہوتی ہے یہ سب تحریر کے اندر‬ ‫‪:‬موجود ہوتاہے ۔ ڈاکٹر وزیر آغا کا کہناہے‬‫شعریات کوڈز اور کنونشنز پر مشتمل ہونے کے باعث پوری انسانی ’’‬ ‫)ثقافت سے جڑی ہوتی ہے‘‘(‪١١‬‬ ‫اس کہے کے تناظر میں تشریح کے لئے مصنف ‪ /‬شاعر کے مزاج‬ ‫‪،‬لمحہ موڈ‪ ،‬ماحول ‪ ،‬حالات وغیرہ کے حوالہ سے تشریح کا کام ہونا‬‫کو کسی مرکزیت سے )‪ (Sign/Trace‬ممکن نہیں ۔ تحریر یا کسی نشان‬ ‫نتھی کرکے مزید اور نئے نتائج حاصل کرنا ممکن نہیں اورنہ ہی‬ ‫تشریح و توضیح کا عمل جاری رکھا جاسکتاہے۔‬ ‫لفظ بظاہر بول رہے ہوتے ہیں۔ اس بولنے کو ماننا گمراہ کن بات ہے۔‬‫لفظ بولتے ہیں تو پھر تشریح و توضیع کیسی اور کیوں؟ لفظ اپنی اصل‬

‫میں خاموش ہوتے ہیں۔ ان کی باربار قرات سے کثر ِت معنی کا جال بنا‬‫جاتاہے۔ قرات انہیں زبان دیتی ہے۔ خاموشی ‪ ،‬فکسڈ مفاہیم سے بالا تر‬ ‫ہوتی ہے۔ اس معاملے پر غور کرتے وقت اس بات کو مدنظر رکھنا‬ ‫پڑے گا کہ قاری قرات کے وقت معدوم ہوجاتاہے۔ وہ اجتماعی ثقافت‬‫کے روپ میں زندہ ہوتا ہے یایوں کہہ لیں کہ وہ اجتماعی ثقافت کا بہر‬ ‫وپ ( لاشعوری سطح پر)اختیار کر چکاہوتاہے۔‬ ‫قرات کے دوران جب لفظ بولتا ہے تو اس کے مفاہیم اس کے لیونگ‬ ‫کلچر کے ساتھ ہی اجتمادعی کلچر کے حوالہ سے دریافت ہورہے‬‫ہوتے ہیں۔ مصنف جولکھ رہاہوتا ہے اس کا اس کی زندگی سے دور کا‬ ‫بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ اس طرح قاری جو تفہیم دریافت کر رہا ہوتاہے‬ ‫اور جن ک ّروں سے متعلق دریافت کر رہاہوتا ہے ان سے وہ کبھی‬‫منسلک نہیں رہا ہوتا ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عملی زندگی میں وہ ان کا‬ ‫شدید مخالف رہا ہو ۔یا ان تجربات سے گزرنے کا اسے کبھی موقع ہی‬ ‫نہ ملا ہو۔ شاہد بازی یا شاہد نوازی سے قاری متعلق ہی نہ ہو لیکن‬ ‫اس حوالہ سے مفاہیم دریافت کر رہا ہو۔ لفظ کی معنوی خاموشی تفہیم‬ ‫کا جوہرنایاب ہے۔ خاموشی ‪ ،‬قاری کو پابندیوں سے آزادی دلاتی ہے۔‬ ‫اگر مان لیا جائے کہ لفظ بولتا ہے توقاری معدوم نہیں ہوتاتاہم اس کی‬ ‫حیثیت کنویں کے مینڈک سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اس حوالہ سے‬ ‫اجتماعی ثقافت اور اجتماعی شعور کا ہر حوالہ بے معنی ہوجاتا ہے ۔‬ ‫ساختیات کے بارے یہ کہنا کہ اس میں ایک ہی کو باربار دہرایا‬ ‫جاتاہے‪ ،‬مبنی برحق بات نہیں ہے۔ بلاشبہ کسی ایک نشان کی باربار‬‫قرات عمل میں آتی ہے لیکن اس کے موجودہ تشریح کو مستر دکرکے‬ ‫کچھ نیا اور کچھ اور دریافت کیا جارہاہوتاہے ۔ پروفیسر جمیل آزار کا‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook