سے چور تھا()١٠٢میرہار اور ناکا می کے لئے بھی یہ لفظ استعمال میں آتا ہے غالب کے ہاں :یہ احسا ِس کمتری کے معنوں میں نظم کیا ہوا ہےمیکدہ گرچش ِم مست ناز سے پاوے شکست موئے شیشہ دیدہ ساغر کی مثر گانی کرے شیشہ: شیشہ فارسی میں بوتل اور صراحی کے لئے بولتے ہیں۔ شیشہ گرا حیلہ گر مداری شیشہ بر س ِر بازار شکستی بر سر عام بھانڈا پھوڑنا ۔شیشہ رابسنگ زدن ان دونوں محاوروں میں ،شیشہ بمعنی کانچ کا استعمال ہوا ہے۔درد کے ہاں تشبیہاا استعمال میں آیا ہے۔ دل شیشے کی طرح نازک ہو تا ہے اس میں دیکھا جا تا ہے دل ِان دونوں :عناصر کا حامل ہےمحتسب آج تو میخانے میں تیرے ہاتھوں دل نہ تھا کوئی کہ شیشے کی طرح چورنہ تھا()١٠۳درد اب مفاہیم کے حوالہ سے لفظ شیشہ مہاجر نہیں ہے۔ شراب: عربی میں شراب کا تعلق (کوئی بھی سیال شے) پینے سے ہے۔مثلاا قرآن مجید کی یہ آیت دیکھئے۔ کلو و شربو من زر ِق اللہ( )١٠۳اللہ کی دی ہوئی روزی سے کھاؤ پیو۔ اردو میں زشراب سے مراد ہے :ہے۔ مثلاا میر صاحب کا یہ شعر ملا خط فرمائیںWine مقدور تک شراب سے رکھ انکھڑیوں میں رنگ یہ چشم ِک پیالہ ہے
ساقی ہوائے گل()١٠۴میر :غالب کے یہاں بھی ان ہی معنوں میں استعمال ہوا ہےپیالہ گر نہیں دیتا ،نہ پلا دے اوک سے ساقی جو ہم سے نفرت ہے دے ،شراب تو دے نفرت کے سبب ظرف دینے سے پرہیز کر نا ہندو اچھوت کی رویت کو بڑی عمدگی سے نبھایا گیا ہے۔ صاحب: لفظ صاحب کو عربی سے منسوب کیا جاتا ہے۔عربی میں اسے ساتھی دوست اور مالک ( )١٠۵کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔اردو میں ہر :نام کے ساتھ احتراماا بولا لکھا جاتا ہے )اللہ صاحب نے اپنی تعظیم کے لئے بعض مکان ٹھہرائے ہیں (١٠۵سلطان محمد عادل شاہ ملکہ خدیجہ سلطان کی بیگمات میں سب سے ’’ محترم اور با عزت تھیں انھیں احتراماا )بڑے صاحب بھی کہا جاتا ہے‘‘۔(١٠٧ )مزاج دار بہو صاحب کے جوڑے کی تیاری شروع کی۔(١٠۸ )مونث کے لئے صاحبہ داخ ِل لغت رہی ہے۔(١٠۹ برصغیر میں \"صاحباں\"خواتین کے نام رکھے جاتے ہیں۔صاحباں،قصہ’’ مرزا صاحباں ‘‘کی ہیرؤین ہے۔میری نانی کی حقیقی ہم شیر کا نام \"صاحب جان تھا ۔افسر کے لئے بھی یہ لفظ بولا
جاتا ہے۔مثلاا صاحب آج چھٹی پر ہیں ۔پنجابی میں ح کی آواز غائب ہو گئی ہے۔لہذا صاب بولا جا تا ہے۔اب کچھ اردو شاعری سے بھی ملا :خط فرمائیں جناب یا مخاطب کرنے کے لئے عزی ِز مصر کا بھی صاحب اک غلام قسم جو کھایئے تو طلعِ زلیخاکی ()١١٠میر بطور سابقہہم سبھی مہمان تھے واں مدرسہ یا دیر تھا یا کعبہ یا بت خانہ تھا تو ہی صاحب خانہ تھا ()١١١درد حضرات کے معنوں میں کھول دیوان دونوں صاحب کے اے بقا ہم نے بھی زیارت کی()١١٢ شیخ بقا اللہ بقا :جمع دیسی طریقہ سے بنائی جاتی ہے دیکھا کسی نے بھی سب صاحبوں نے اس کو جو باندھا ہے یہ کہئے سقنقور کی گردن ()١١۳مرزا سیلمان شکوہ :غالب نے محبوب کے لئے باندھا ہے آئینہ دیکھ اپنا سامنہ لے کے رہ گئے صاحب کو دل نہ دیئے پہ کتنا غرور تھا اپنی اصل میں \"صاحب \"سہی لیکن برصغیر میں آکر اسے عربی معاشرت سے نا تاتوڑنا پڑا اور برصغیر کی معاشرت اختیار کرنا
پڑی۔معنی اور استعمالات خالص دیسی ہیں۔ ضبط: عربی میں ضبط کے معنی صحیح ،مضبوطی ،گرفتاری()١١۴ٹھیک ٹھاک صحیح طور پر ہیں۔اردو میں یہ لفظ عربی سے قطعی الگ معنی رکھتا ہے۔ مثلاا کیوں کہ لکھے کوئی موجِ دریا کی طرح ضبط میں آسکتا نہیں احوال پریشاں میرا()١١۵یقین ضبط میں آنا:تحریر میں آنا ۔نالے کو ہم نے ضبط کیا نا صحا تو کیا منہ سے تو رنگ زرد چھپایا نہ جائے گا()١١۶میاں محمدی مائل برداشت ،اظہار نہ کرنا ،نہ کہنا ضبط کرنا : دل جل گیا تھا اور عاشق ہیں ہم تومیر کے بھی ضب ِط عشق کے نفس لب پہ سرد تھا()١١٧میر اظہار میں نہ لانا،خبر نہ ہونے دینا :غالب کے ہاں قریب ان ہی معنوں میں سپرد قلم ہوا ہے طعمہ ہوں ایک ہی نف ِس صرفہ سے ضب ِط آہ میں میرا و گرنہ میں جاں گداز کامفہومی اختلاف واضح کر رہا ہے کہ ضبط مہاجر لفظ نہیں۔یہ اپنی اصلمیں \"جپت\"تھا یہ تلفظ آ ج بھی بازار میں سننے میں آتاہے۔ضبط ،جپت کی تبدیل شدہ شکل ہے۔جپت واپس پنجابی کی طرف لوٹ گیا ہے
پنجابی میں ترقی ،قبضہ کرنا ،واپس نہ دینا وغیرہ کے معنوں میں مستعمل چلا آتا ہے۔اردو میں یہ لفظ اور معنوں میں بھی سننے اورپڑھنے میں آتا ہے۔لکھا ضبط جا تا ہے لیکن معنی جپت کے دے دیئے جاتے ہیں ۔ مثلاا ’’یہ مال بحق سرکار ضبط کیا جاتا ہے‘‘۔ طعنہ: طعنہ کو عربی لفظ طعن سے مشتق سمجھا جاتا ہے جس کے معنی خنجر وغیرہ ضرب ،تنقید ،تہمت ،نیزہ()١١۸ہیں ۔اردو میں یہ لفظ عربی سے ہٹ کر معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔یہ لفظ اپنی اصل میں تانا منا ہے جس میں عربی آوازیں داخل کر دی گئی ہیں یا عربیلفظ کو’’تانا مینا‘‘ کے معنی دے دیئے گئے ہیں جبکہ معناا پنجابی تک محدود رہ گیا ہے یہ معنوی اختلاف ہے معنوی تغیر نہیں۔ اس لحاظ سے یہ دو الگ لفظ ہیں۔ طعنہ پنجابی میں بھی مستعمل ہے لیکن اس سے منا معنی مراد لے جاتے ہیں۔ مثلاا اندر جھڑکاں بار طعنے نیوں لگیاں دکھ پائیو رے ()١١۹بلھے شاہ قصوری چپ کراں تاں دیون طعنے جاں بولاں تاں واری آں()١٢٠شاہ حسین لاہوری :اب اردو شاعری سے کچھ مثالیں ملا حظہ فرمائیں کہ دیگر ہوئے ہیں سب جو ھمن منافق نے طعنہ دیا تھا تمن ()١٢١شاہ اسماعیل بیٹھا مت غیر کے تئیں زنہارا ے یار پہلومیں ہزاروں طعنہ دیں گے
،ہے یہ گل کے خار پہلو میں ()١٢٢جہاں دار دونوں اشعار میں طنز کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔مثرہ وہ تیز کہ خنجر کو دھار نگہ وہ شوخ کہ طعنے کٹار پر مارے پر مارے()١٢۳عارف اللہ شاہ ملول تقابلی طنز۔ دھارپر مارنا غالب کے ہاں یہ لفظ طنزاور منا کے معنوں میں استعمال ہو ا ہے۔ ضعف میں طعنہ اغیار کا شکوہ کیا ہے بات کچھ سر تو نہیں ہوں کہ اٹھا بھی نہ سکوں درج بالا معروضات کے حوالے سے اس لفاظ کو مہاجر قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ طرح: یہ لفظ عر بی میں بنیاد کے معنوں میں آتا ہے جبکہ اردو میں طور ،انداز ،مانند ڈھب ،ڈھنگ ،اسلوب ،وضع وغیرہ کے معنوں میں استعمال ہوتاہے۔مثلااکیا بدن ہو گا جس کے کھولتے جامے کا بند بر ِگ گل کی طرح ہر ناخن معطر ہوگیا()١٢۴یقین مانند ،جیسا ،کاسا گو سو طرح کی مجھ سے تو بے دماغ عبث اے میاں ہے تیں حسرتیں اس دل کے بیچ ہیں ( )١٢۵راقم طریقے ،طور ،انداز
بہے ہیں دیدۂ گریباں سے اس طرح آنسو رواں ہو چشمے سے جس طرح آب درتہ آب()١٢۶لالہ موجی رام موجیایسے جیسے اس طور ،اس طرح ،انداز:غالب نے بھی اس لفظ کو دیسی معنوں میں استعمال کیا ہےمانند حباب آنکھ تو اے درد کھلی تھی کھینچا نہ پر اس بحر میں عرصہ کوئی دم کا()١٢۹دردمرے آگے نہ شاعر نام پاویں قیامت کو ،مگر عرصے میں )آویں(( )١۳٠میردر پہ رہنے کو کہا اورکہہ کے کیسا پھر گیا جتنے عرصے میں مرا بستر لپٹا ہوا کھلا غالبدرج بالا چاروں اشعار میں ’’عرصہ‘‘ زمانہ کے حوالے سے استعمال ہوا ۔ عرصہ کی (زمانی حوالہ سے )حقیقی شکل ارسا ہے۔ عربی کے زیراثر ص اور ع کی آوازیں داخل ہو گئی ہیں۔ اس طرح اس کی اصل املا ’’ارسا‘‘ باقی نہیں رہی۔ عید: عید مسلمانوں کا مذہبی تہوار ہے۔یہ سال میں دو مرتبہ منایا جا تاہے۔عید الفطر رمضان کے اختتام پر جبکہ عید الاضحی حضرت ابراہیمکی فرمانبرداری کی یاد میں منائی جا تی ہے۔جب انہوں نے اپنی اولاد حضرت اسماعیل کو چھری کے نیچے رکھ دیا ۔چھری اللہ کے حکم سے نہ چلی اور جنت سے دنبہ آگیا جو انھوں نے اللہ کی راہ میں
قربان کردیا اہل تشیع جناب امیر کی ولادت پر خوشی مناتے ہیں اور اسے عید کا نام دیتے ہیں ۔٢۵دسمبر کو عیسائی برادری کرسمس منانتے ہیں برصغیر میں اسے عید کا نام دیاجاتا ہے۔بہر طور یہ لفظاردو اور برصغیر کی کئی دوسری زبانوں میں اسلامی تہذیب کے حوالہ:سے داخل ہو اہے ،میر صاحب کا یہ شعر بطور نمونہ ملا خط فرمائیں دیکھا نہ اسے دورسے بھی منتظر وں نے وہ رش ِک م ِہ عید ل ِب بام نہ آیا ()١۳١میر :اب غالب کے ہاں لفظ عید کا استعمال ملا خط فرمائیں عشر ِت قت ِل گ ِہ اہل تمنامت پوچھ عید نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا عیدنظارہ ،عید کی خوشی کو ظاہر کررہاہے جبکہ میر صاحب نے عید کے چاند کو محبوب سے تشبیہ دے کر عید کی خوبصورتی کو واضح کیا ہے۔ طواف : لفظ طواف اسلامی تہذیب کا نمائندہ ہے حج یا عمرہ میں کعبہ کےگرد چکر لگانے کے عمل کو \" طواف\"کا نام دیا جا تا ہے۔اس کے بغیر حج یا عمرہ نہیں ہوتا ۔چکر کاٹنے ،گرد پھرنے ،گردش کرنے وغیرہ کو طواف کا نام دیا گیا ہے۔ اردو میں اسلامی تہذیب کے توسط سے وارد ہوا ہے۔ہاں معنوی تبدیلی ضرورہوئی ہے۔مثلاا غالب یہ شعر :پڑھیں،حج اور عمرے والے طواف سے اس کا کوئی تعلق نہیں بنتا دل پھرطوا ِف کوئے ملامت کو جائے ہے پندار کا ضم کدہ ویراں کئے ہوئے
عرصہ: عرصہ اردو میں عام بولا جانے والا لفظ ہے۔خیال کیا جا تا کہ یہعربی سے اردو میں داخل ہوا ہے۔عربی میں مکانیت کے حوالے سے استعمال ہوتا ہے۔جیسے عرصہ اکدار(صحن خانہ کھلی ہوا، جگہ)عرصہ کی جمع عرائص ہے۔اردو میں بھی مکانیت کے حوالے سے استعمال ہوا ہے۔ جیسے عرصۂ جنگ ،عرصہ حشر وغیرہ لیکن جب زمانی حوالہ سے استعمال ہوتا ہے تو اس لفظ کو عربی قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔مثلاا ظالم نپٹ ،قلیل ساقی بھڑا دے خم ہی مرے منہ سے تو آہ ! عرصہ بہار کا ( )١٢۸قائم پوری غریب: کلمہ غریب عربی میں اجنبی مسافر پردیسی کے لئے مخصوص ہے لیکن اردو میں اس کے معنی مفلس بے زار بادار حاجت مند کنگال وغیرہ کے ہیں یہ معنی کا اختلاف ہے نہ کہ غریب کو یہ معنی دے دیئے گئے ہیں۔یہ اپنی میں اصل گریب ہے جس کے معنی گرا پڑا کے ہیں۔برصغیر کے معاشرت میں جو شخص مالی لحاظ سے کمزور ہو استطاعت نہ رکھتا ہو کے لئے یہ لفظ بولتے ہیں جہان مسافرت کے معنی دیتا ہے وہاں اسے عربی کلمہ تصور کرنا چاہئے۔اس کےبرعکس معنوں میں گریب کی بگڑی ہو ئی شکل تصور کرنا چاہئے۔گ کی متبادل آواز غ ہے یہ مکتوبی تبدیلی عربی کے زیر اثر واقعہو ئی۔مکتوبی تبدیلی عربی کے اثر واقع ہو ئی ہے۔اردو غزل سے چند مثالیں ملا خط فرمائیں۔
مجھ معقعد کا منظور اب اعتقاد ہو تم پیر پیراں میں ہوں غریب خادم کیجئے آفتاب ناتواں کمزور مفلس حسرت پر اس غریب کی آوے اجل کو رحم بالیں پہ جس کے یارودم واپس نہ ہو بیاناردو میں مسافر عربی میں غریب کے لئے عام استعمال میں ہے غریب :کی دیسی طریقہ سے جمع بھی بنا لی گئی ہے فکر جمعیت آپس دل میں کئے ہیں زہاد زلف کوں کھوں غریباں کو پریشاں نہ کرو ولی :غالب کے ہاں یہ مہاجر نما لفظ دیسی معنوں میں نظم ہوا ہے مجھ کو پوچھا تو کچھ غضب نہ ہوا میں غریب اور تو غریب نواز غصہ: اہل لغت اسے عربی لفظ قرار دیتے ہیں ۔عربی میں اس کے معنی ایسا رنج جس سے گلہ گھٹ جائے ۔اردو میں اپنی اصل میں’’ گھسا ‘‘ہے جو گھس آنا سے تشکیل پایا ہے۔ جس طرح سایہ بھوت پریت کے گھس آنے سے حالت بدل جاتی ہے۔ ناراضگی یا خفگی کے گھس آنے سے مزاج اور موڈ بدل جاتا ہے۔ یہ معنوی فرق ہے نہ کہ معنویتبدیلی ۔عربی کے زیر اثر گھسا کی مکتوبی صورت بدل گئی ہے۔ غصہ کو’’ گھسا‘‘ کے معنوں میں استعمال کیا جانے لگاچند مثالیں ملا خط فرمائیں۔جس سے معنوی فرق نظر آجائے گا بعض مقامات پر محاورہ :بن گیا ہے اور عام سننے کو ملتا ہے
ڈرتا نہیں ،ایک کی سو بے رحم نہ ہو ،غصہ نہ کر ،بات مری سن بات سنا جا ( )١۳۵ولی کوئی بات بری لگنا غصہ کرنا :عرض غصے میں یہ اک اہل وفا کی نہ سنے ہٹ پہ آ جائے وہ کافر تو خدا کی نہ سنے()١۳۶منعم طیش غصہ: تو تو مجھ پر ایک دم غصہ ہو پھر سو تارہا شمع کی مانند میں ساری رات روتا رہا ( )١۳٧مائل ناراضگی خفگی کلام نہ کرنا ،گفتگو موقو ف کر دینا غصہ ہونا : لفظ فتنہ عربی میں آزمائش کے معنوں میں استعمال ہو فتنہ:اہے۔جیسے انما اموالکم واولاد کم فتنہ ( )١۳۸تمہارے مال اور تمہاری اولاد بس آزمائش ہے۔اردو میں یہ لفظ شرارتی ،سازشی رکاوٹ ڈالنے والا ،خرابی پیدا کرنے والا،لڑائی ڈلوانے والا ،لڑائی جھگڑا وغیرہ۔اردو میں نہ صرف معنوی تبدیلی ہو ئی ہے بلکہ قواعد کے حوالے سے اختلاف واضح ہے۔پنجابی میں بھی یہ مستعمل ہے لیکن\"چواتی\"لفظ بھی رائج ہے اور یہ پنجابی کے ذخیرے میں موجود ہے۔ چواتی ،شرارت ،سازش ،لڑائی جھگڑے کی وجہ وغیرہ ۔ :میر صاحب کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملا خط فرمائیں
آنکھوں سے تری ہم کو ہے چشم کہ اب ہو وے جو فتنہ کہ دنیا میں برپانہ ہوا ہو گا( )١۳۹میرفتنہ برپا ہونا مترادف قیامت برپا ہونابیٹھے ہیں آکے طال ِب فتنہ اٹھے گا ورنہ نکل گھر سے توشتاب دیدار بے طرح ( )١۴٠میرجھگڑے فساد کی راہ نکلنا ،خرابی پیدا ہونا ،آزمائش معنی فتنہ اٹھنا: بھی لئے جاسکتے ہیںغالب نے شور شرابا ،آپادھاپی ،پریشانی ،تکلیف دہ صورتحال:افراتفری ،بے چینی ،بے سکونی کے معنوں میں نظم کیاہےجلوہ زا ِر آت ِش دوزخ ہمارا دل سہی فتنہ ء شو ِر قیامت کس کے آب و گل میں ہےاردو میں معنوی تبدیلی کے سبب\"فتنہ\"مہاجر ہو کر نہیں رہا۔فقیر ،فقر کا اسم ہے اور درویش کے معنوں میں استعمال ہوتا فقیر: :ہے۔ عربی میں اس کے استعمال کے چار حوالے ہیںزندگی کی بنیادی ضروریات میسر نہ ہوں ا ّول: ضروریات کا پورا نہ ہونا دوئم: مال و منال کی ہوس سوئم: اللہ کی طرف احتیاج چہارم:درویش دنیاوی مال و منال سے بے نیاز ہوتا ہے۔ بظاہر خستہ حال ہوتاہے لیکن اس کا من بھرا ہوا ہوتاہے۔ خستہ حالی کے لیے
لفظ\"پھک\"موجود ہے۔ایر کے لاحقے سے \"پھکیر\"بن جاتا ہے۔ یہ لفظ بھیک مانگے ،دست سوال دراز کرنے والے ،نادار ،گریب ،بے نواوغیرہ کے لیے استعمال ہوتاہے۔ معنوی فرق کی وجہ سے یہ لفظ فقیر سے مختلف ہے۔ فقیر چونکہ پھکیر کے لیے رواج پاگیا ہے اس لیےدرست سمجھا جاتا ہے۔ تاہم \"پھکیر\"بھی سننے کو ملتا ہے۔ اردو غزلمیں بھی یہی حالت ہے ،لکھا فقیر جاتا ہے معنی پھکیر کے لیے جاتے :ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں لبریز ہو فقیر کا کاسہ سائل ہوں اے فلک یہ ترے انقلاب سے شراب سے۔ ( )١۴١میر وارث علی جوش سائل ،مانگنے والے کے معنوں میں استعمال ہواہے میر صاحب کے :ہاں درویش کے معنوں میں استعمال ہوا ہےہے معتقد فقیر نمد کی کلاہ اے تاجِ شہ نہ سر کو فرولاؤں تیرے پاس کا( )١۴٢میر :فقیر کی جمع دیسی طریقہ سے بنائی جاتی ہےاپنا جیسے زلفوں نے تری رہتا ہے فقیروں کی طرح نت وہ پریشاں جال دیاہے ( )١۴۳مصحفی :غالب کے ہاں بطور جمع استعمال ہو ا ہے بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں فقرا کی بجائے فقیروں۔ ایک دوسری جگہ درویش کے معنوں میں :استعمال کرتے ہیں فقیر غالب مسکیں ہے کہن ہم اور تم فل ِک پیر جس کو کہتے ہیں
تکیہبے بس ،مجبور ،لاچار ،بے نوا وغیرہ کے معنوں میں بھی لیا جا سکتاہے۔قیامت :لفظ قیامت اسلامی تہذیب کی نمائندگی کرتا ہے۔ الہامی کتاب میں :اس لفظ کے مفاہیم ملاحظہ ہوںفیصلے کا دن ( )١۴۴اعمال کے حساب کتاب کا دن ( )١۴۵یوم )اجتماع۔ ( )١۴۶اعضا کی گواہی کا دن(١۴٧قیامت کا قرآن میں بار بار ذکرآتا ہے۔ یہ بڑا دل ہلا دینے والا دن ہو گا۔ خوف و ہراس ہو گا۔ کوئی کسی کے کام نہیں آسکے گا۔ ہر کسی کو اس کے کئے کا بدلہ مل جائے گا۔اردو میں اردو کے لسانی کلچر کے تحت استعمال ہوتا چلا آرہا ہے۔دیسی مصادر کے پیوند سے بہت سارے محاورے پڑھنے سننے کوملتے ہیں۔ میر صاحب کے ہاں تشبیہا تنگی سختی اور پشیمانی کے :حوالہ سے استعمال میں ہوا ہےعرصۂ محشر( )١۴۸نمونہ شیخ مت کر ذکر ہر ساعت قیامت کا کہ ہے اس کی بازی گاہ کا ( )١۴۹میر:ایک دوسری جگہ دہائی کے معنوں میں اس لفظ کا استعمال کرتے ہیںظلم ہے ،قہر ہے ،قیامت ہے غصے میں اس کے زیر لب کی بات ( )١۵٠میر :غالب وق ِت ودع کو قیامت کا نام دیتے ہیں
پھر ترا وقت سفر یاد آیا دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز موت ،مرگ جاتے ہوئے کہتے ہوئے قیامت کو ملیں گے کیا خوب کہ گویا ہے قیامت کا دن اور کلچر کی تبدیلی کے سبب معنوں میں بھی تبدیلی آجاتی ہے اور دکھ، کرب پریشانی کا عنصر نئے مفاہیم میں بھی ملتاہے۔ کافر: تکفیر کرنے والا ،مسلماں عام طور پر غیر مسلم پر اس لفظ کا اطلاق کرتے ہیں۔ یہ لفظ مسلمانوں کے حوالہ سے اردو میں داخل ہوا ہے۔ شاعری کا چونکہ اپنا الگ سے مزاج ہوتا ہے اس لیے لفظوں کاخیام کے ہاں اس لفظ مجازی معنوں میں استعمال عام سی بات ہے۔ :کا استعمال ملاحظہ ہو آن کا فر مست را امامت ہوس زابروئے تو محراب نشیں ش ِدچشمت است ( )١۵١خیام تمہاری آنکھیں محرا ِب ابروہیں اس لیے آن بیٹھیں کہ وہ کافر مست ( )امامت کی خواہاں ہیں اب اردو غزل میں چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔ :میر صاحب نے ضدی اور ہٹ کا پکا کے معنوں میں استعمال کیا ہے سخت کا فر تھا جس نے پہلے میر مذہب عشق اختیار کیا ( )١۵٢میر
مصحفی نے ایسے محبوب کے لیے استعمال کیا ہے جو ہر پل ناز وادا :اور موڈ کے حوالے سے بدلتا ہےہرآن میں کافر کی اک آن کیا بیٹھنا ،کیا اٹھنا ،کیا بولنا ،کیا ہنسا نکلتی ہے ( )١۵۳مصحفیحافظ عبدالوہاب ،جوا یمان نہ رکھتا ہو ،کے لیے اس لفظ کا استعمال :کرتے ہیںمیں ملحدو کافر نہ قاضی نہیں ،مفتی نہیں ،ملاّنہ ہوں میں محتسب ہوں ،نے صاح ِب ایمان ہوں ( )١۵۴سچلولی اللہ محب کے نزدیک غارت گر ایمان چھین لیتا ہے ۔ ایمان سے :تہی کافر ہےکیونکہ غارت گر دیں ہے تجھ سا ہم ہوئے چھوڑ کے ایماں کافر ولی اللہ محب:غالب نے جس پر کوئی اثر نہ ہو ،پتھر ایسا معنی مراد لیے ہیںخدا کے واسطے پردہ نہ کعبے کا اٹھا واعظ کہیں ایسا نہ ہویاں بھی وہی کافر صنم نکلےیہ لفظ اپنی اصل میں عربی ہے۔ مفہومی تبدیلی کے سبب اس پر مہاجر ہونے کا گماں تک نہیں گزرتا۔ دوسرا برصغیر میں غیر مسلم برادری اکثریت سے آباد ہے۔ اس لیے اس کو اصل معنوں میں استعمال کرنافساد پھیلانے کے مترادف ہے۔ تیسرا مہاجر کو موجود وسیب کا فکری و سماجی بھیس اختیار کرنا پڑتا ہے۔ چوتھا موجود زبان کے لسانی سیٹ اپ اختیار کئے بغیر پیر جما نہیں سکتا۔ لفظ کافر کے ساتھ بھی
یہی معاملہ درپیش ہے ۔ غالب نے قبل از اسلام کے حوالے کو م ِد نظر رکھتے ہوئے اتنی بڑی بات کہہ دی ہے۔یہ لفظ اسامی کلچر کا نمائندہ ہے۔ مسلمان ہر سال حج یا عمرے کعبہ: کے لئے کعبہ کو جاتے ہیں۔ اسے قبلہ ،خانہ ء خدا بھی کہتے ہیں۔ اردو میں اصل معنوں کے سوا معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ دل :کو کعبے کا نام دیا جاتا ہےدل خانہء کعبہ ہے ،کلسیا نہ اقبال نہ ہر وقت کرو دھیان بتوں کا کرو تم ( )١۵۵اقبال الدولہ اقبالمیر صاحب کے ہاں دیر کے متضاد محبوبوں (بتوں) کو تیاگنا معنی :بھی مراد لیے جا سکتے ہیںلغزش بڑی ہوئی تھی و مستی میں چھوڑ دیر کو کعبے چلا تھا میں لیکن سنبھل گیا ( )١۵۶میرغالب کے ہاں مفہومی رنگ الک سے ہے۔ اصل اور کوئی سے مجازی :معنی مرادلیے جا سکتے ہیںخدا کے واسطے پردہ نہ کعبے کا اٹھا واعظ کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکلےمہاجرت نے اصل کے سوا بہت سے مفاہیم دے دیے ہیں۔ فعل مضارع بھی دیسی طریقہ سے بناتے چلے آتے ہیں۔ کفر: کفر کا تعلق تکفیر سے ہے یعنی ،انکار ،نہ ماننا ،تسلیم نہ کرناوغیرہ۔ اسلامی اصطلاح میں اسلام سے انکار ،اسلام کے کسی بنیادی
رکن کو تسلیم نہ کرنا کفر کے زمرے میں آتا ہے۔ جو شخص اسلام کے برعکس زندگی بسر کر رہا ہو ،اسے بھی کافر کہا جاتا ہے۔یہاصطلاح اسلام کے حوالہ سے اردو میں داخل ہوئی ہے۔ اپنی اصل میں یہ لفظ عربی ہے۔ اردو غزل میں معنوی تبدیلی کے ساتھ بکثرت :استعمال میں آتا ہے:شاہی کے نزدیک اصل ر ّب کو چھوڑ کر کوئی اور ر ّب بنا لینا کفر ہےنپایا رب ج ِب کھسا پایا بڑائی جب دیکھا یا توں گگن نے سر نوایا کفر کا تب ( )١۵٧شاہی:قائم اصل معنوں میں استعمال کرتے ہیںحر ِف کفر و دیں پہ ہی کیا منحصر ہاں دلا’’ خذ ماصفادع ماکدر‘‘ ( )١۵۸قائم:چندا اسلام کے برعکس راستے کو کفر کا نام دیتی ہیںصاحب سجہ بھی ہے ،کفر و اسلام میں ثابت رہے دل کس پر بھلا مال ِک زنار بھی ہے ( )١۵۹چندا:غیر مسلم شعراابھی یہ لفظ نظم کرتے آئے ہیں اور اصل معنوں میںدیکھے زنار کو تسبیحِ کفرو دیں کی نہیں یک رنگی کا جویاں قایل سلیمانی میں ( )١۶٠لالہ چینی لال حریف:غالب کے ہاں اپنے اصلی معنوں میں استعمال ہوا ہےکعبہ مرے ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
کلیسا: کلیسا عیسائیوں کی عبادت گاہ کو کہتے ہیں۔ یہ کلس سے ہے۔گرجوں کی تعمیر کے ساتھ ہی اردو غزل کے کلچر کا جز ٹھہرا۔ کلسکے حوالہ سے اسے مہاجر نما کہا جا سکتا ہے۔ اردو غزل میں زیادہ تراصل مفاہیم کے ساتھ نظم ہوتا آیا ہے۔ مثلااپھرتے تری تلاش میں ہم مسجد میں بتکدے میں کلیسا میں دیر میں چار سورہے ( )١۶١والا جاشیدااقبال نہ ہر وقت کرو دھیان بتوں کا دل خانہ کعبہ ہے ،کلیسا نہ کرو اقبال الدولہ اقبال ) (١۶٢تم:غالب کے ہاں بھی عیسائی مذہب کی نمائندگی کر رہا ہےکعبہ مرے ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر پیچھے ہے کلیسا مرا آگےغالب نے کعبہ کے ساتھ ایمان جبکہ کفر کے ساتھ کلیسا نتھی کر کے عیسائیت کی نہ صرف پوری آئیڈیالوجی واضح کر دی ہے بلکہ اپنے نظریات و عقائد پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ لفظ غیر مذہبی اور غیر اخلاقی قول و فعل سے تعلق رکھتا گناہ:ہے۔ بنیادی طور پر مہاجر لفظ ہے۔ معنوی تبدیلی اور دیسی طریقہ سے جمع بنانے کے حوالہ سے اسے مہاجر نہیں کہا جا سکتا ہے۔ میر :صاحب کے ہاں اس کی دیسی جمع ملاحظہ فرمائیںلگے ہو خون بہت کرتے بے رہے خیال تنک ہم بھی روسیاہوں کا گناہوں کا ( )١۶۳میر
:غالب نے برائی اور خرابی کے معنوں میں استعمال کیا ہے مجھ کو بھی پوچھتے تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو رہو تو کیا گناہ ہو مجلس: عربی میں نشت ،نشت گاہ ،بیٹھنے کی جگہ ،عدالت ،کورٹ کچہری ،سیٹ ،ٹربیونل وغیرہ کے معنوں میں استعمال ہوتاہے۔اہل تشیع کے ہاں الگ سے معنوں کا حامل ہے۔ بنیادی مفہوم جمع ہونا،اکٹھا ہونا ،اکٹھ ،بزم ،انجمن وغیرہ ہی رہتے ہیں۔ یہ معنوی تبدیلی ہے ،معنوی اختلاف نہیں ۔اردو غزل میں اردو معنوں کے ساتھ استعمال :ملاحظہ ہو ولی دکنی نے میخواروں کا مل بیٹھ کر میخواری کرنے کو مجلس کہا :ہےشیشۂ خالی نمن بے نشا ہے جس کے دل میں نیں محبت کی شراب مجلس سوں نروالا ہے ( )١۶۴ولی :حاتم محفل کے معنوں میں اس لفظ کو برتتے ہیں دے نہیں کچھ ہم کو بھاگیں دیکھ کر انبو ِہ خلق ہم کو بھی جا بیٹھنا مجلس میں جا ہو یا نہ ہو ( )١۶۵مصحفی :درد رندوں کی بیٹھک کو مجلس کا نام دیتے ہیں ہم سے کچھ خوب اٹھ چلے شیخ جی تم مجل ِس رنداں سے شتاب مدارت نہ ہونے پائی ( )١۶۶درد
:غالب کے ہاں بھی دیسی معنوں میں استعمال ہوا ہے رشتہ ء ہر شمع شب کہ وہ مجلس فرو ِز خلع ِت ناموس تھا خارکسو ِت ناموس تھا مجموعی طور پر \"اکٹھ\"مجلس کے مفاہیم میں کار فرما رہتا ہے۔ مدعا: یہ لفظ عربی میں دعوی کیا گیا کے معنی رکھتا ہے۔ اردو میںعربی معنوں سے قطعی ہٹ کر استعمال میں آتا ہے۔ اس ضمن میں چند :مثالیں ملاحظہ ہوں زا ِد رہ دل کا مدعا بس ہے ( )١۶٧حاتم سفر عاشقی میں عاشق کو خواہش ،آرزو مطلول کے معانی یو خط کا حاشیہ گرچہ ولی ہے مختصر لیکن کاتمامی مدعا دستا ( )١۶۸ولی مدعا دسنا :مفہوم لب لباب بتانا میرے نامے کو وہ نہیں پڑھتا جس جگہ مدعا کی باتیں ہیں ()١۶۹ مصحفی مقصد ،ضرورت ،حاجت زباں پر آکے مری ،عجب نہیں جو تری خو کے ڈر سے اے ظالم! حرف مدعا پھر جائے ( )١٧٠مصحفی مدعا پھرنا ،جو کہنا مقصود ہے
یاں آکے ہم اپنے مدعا کو بھولے مل مل غیروں سے آشنا کو بھولے ( )١٧١سنتوکھ رائے بیتاب مدعا بھولنا :جو کرنا تھا ،کوئی کام ،مقصد یاد نہ رہنا مدعا ہم سے منہ چھپانا تھا ( )١٧٢نظام کھولنا زلف اک بہانہ تھا مقصد ،اصل بات ،وجہ درج بالا مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ یہ معنوی تبدیلی نہیں ،معنوی فرق ہے۔ یہ لفظ عربی\"مدعا\"سے بالکل الگ ہے۔ اس کا رشتہ ہندی/ پنجابی لفظ \"مدا\"سے جڑا نظر آتا ہے۔ دونوں کے معنوی شیڈز اس لفظ میں نظر آتے ہیں۔ عربی کے زیر اثر\" ع \"کی آواز داخل ہو گئی ہے۔ لیکن معنی برقرار رہے ہیں۔ غالب کے ہاں خواہش ،حاجت ،دل :کی بات ،جو کہنا چاہتے ہوں کے معنوں میں استعمال ہوا ہے کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں ان مباحث کے تناظر میں اس لفظ کو مہاجر نہیں کہا جاسکتا البتہ یہ لفظ مہاجر نما ضرور کہلا سکتا ہے۔ ہاں کورٹ کچہری کی زبان میںعربی مفہوم ضرور ملتا ہے۔ املا بھی اصلی رہتی ہے۔ مثلاا اصل مدعے پر بحث جار ی رکھی جائے۔ مدعی اور مدعاعلیہ اصطلاحیں وہاں پڑھنے سننے کو عام ملتی ہیں۔ ہمارے ہاں مرگ ،مرگا(ککڑ) کے لئے بولا جا تا ہے مونث کے مرغ:لئے مرگی(ککڑی)لفظ مستعمل ہے گ کی تبادل آواز غ ہے۔عربی والوں کے حوالہ سے یہ تبدیلی وقوع میں آئی ہے۔فارسی میں اس کے معنی \"پرندہ \"ہیں۔ہمارے ہاں عموماا کہا جا تا ہے مرغ صبح سویرے اذانیں
دیتے ہیں۔مجازاا اسے ’’بانگاں ویلا ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔جب اسے مرغِ صبح بولا جائے تو اس سے مراد مرگا (ککڑ)ہی ہوتا ہے۔اسی طرح \"مرغ گرفتار\"مرغ بے بال وپرکے معنی پرندہ ہوں گے۔فانی کے ہاں \"مرغِ فانی \"بمعنی رو ح ،جبکہ ولی دکنی نے درمرغ دل کی ترکیب بھی استعمال ہوئی ہے( )١٧۳ولی ۔ان میں کسی کو مر غ کے معنوںمیں نہیں لیا جا سکتا۔حاتم کے ہاں مرغ کی مونث مرغی(مرگی)پڑھنے :کو ملتی ہے ورنہ مرغی(مرگی)بہت کم نظم ہوئی ہیں دشمن عاشق سے کڑ کڑ واے ہے کڑک مرغی کہاں و باز کہاں ()١٧۴حاتم جب مرغ سے مراد پرندہ ہو گا تو یہ لفظ مہاجر ہو گا تا ہم اردو کے لسانی سیٹ اپ کو اختیار کر کے ہی اپنا و جود بر قرار رکھ سکتاہے۔مرغ سے مراد اگر مرگ(ککڑ) ہو گا تو اسے مہاجرنما کہا جائے گا :۔اس ضمن میں دو مثالیں ملا خط ہوں شب ہجراں کی سحر ہی نہیں ہوتی کیا آہ آج ازاں بھی تو نہیں مرغ سحر دیتا ( ) ١٧۵نوازش خاں نوازشنالۂ مرغِ سحر تی ِغ دودم ہے ہم رش ِک ہم طرحی و در ِد اثر بانگ حزیں کو غالبیہ لفظ اسلامی تہذیب کی نمائندگی کر تا ہے۔یہ مسلمانوں کی مسجد: عبادت گاہ کے علاوہ اسمبلی کا فریضہ سر انجام دیتی رہی ہے۔اسے متعلقہ علاقے میں مسلمانوں کا نقطہ اجتماع کہا جا سکتا ہے۔اگلے وقتوں میں مسافر یہاں رات کو قیام کرتے تھے۔ اسلامی تعلیم و تربیت کا کام پہلے بھی یہاں ہو تا تھا آج بھی ہو تا ہے۔ بعض علاقوں میں
صفائی کی قسم لینے دینے کے کام آتی ہے۔ اردو میں زیادہ تر اپنےاصلی معنوں میں یہ لفظ استعمال ہوتاہے۔ یہ لفظ عربی سے اردو میں داخل ہواہے ۔ مثلااخراب رہتے تھے مسجد کے آگے میخانہ نگاہ مست نے ساقی کی انتقام لیا( )١٧۶میرمسجد میں بتکد ے میں کلسیا میں دیر میں پھرتے تری تلاش میں ہم ،چار سور ہے()١٧٧والا جاشید :غالب نے بھی اسے اس کے اصل معنوں میں استعمال کیا ہےمسجد کے زی ِر سایہ خرابات چاہئے بھوں پاس آنکھ قبلہء حاجات چاہئے مست: فارسی میں نشہ میں چور معنوں میں استعمال ہو تا ہے اور اسسے میخانے کا کلچر سامنے آتا ہے ساقی کا پلا نا ،پی کر میخواروں کا بہکنا ،الٹی سیدھی حرکتیں کرنا وغیرہ قسم کے خیا لات سامنے آتے ہیں ۔اردو میں درویش ،اللہ لوگ ،مست ملنگ کے معنوں میں استعمال ہو تا ہے۔ اس طبقے کے اس لفظ کے حوالے سے نظریات اور سر گرمیاں سامنے آتی ہیں۔ ان کی معاشرتی حیثیت و قعت کابھیاندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔یہ معنوی اختلاف ہے۔ان معنوں میں اس لفظ کو مہاجر نہیں کہا جاسکتا ہے۔ولی دکنی لفظ مست کو عشق سے وابستہ کرتے ہیں عشق کے متعلقشخص معاشرے کے لئے غیر مفید ہو جا تا ہے ۔ولی عشق میں غرق
:کے لئے مست کا لفظ استعمال کرتے ہیں نا کسی ہے نا کسی ہے نا مست ہونا عشق میں تیرے صنم کسی( )١٧۸ولی نیم خواب آنکھوں کی مستی لوگوں کو بے خود اور مفتوں بنا دیتی :ہے۔ ولی کے ہاں اس حوالہ سے بھی اس لفظ کا استعمال ہوا ہے ہر ہرنگہہ سوں اپنی بے خود کرے ولی کوں ووچش ِم مست پر خوش جب نیم خواب ہووے( )١٧۹ولی حافظ عبدا لوہاب سچل نے زندگی کی حرکت اور سر گرمی کے ماند پڑ :جانے کے حوالہ سے اس لفظ کا استعمال کیا ہے نبض کو دیکھ کر مایوس فلاطوں بھی ہوا کہہ دیا صاف یہ مست تو ، شیار نہیں( )١۸٠سچل آفتاب رائے رسوا خوشی راحت اور بے خودی کی حالت کے لئے اس :لفظ کو نظم کرتے ہیںابر رحمت برستا ہے ہر گلی میں گرے پڑے ہیں مست ہو درو دیوار یا برستی ہے شراب( )١۸١رسوا حاتم نے بطور مشبہ بہ استعمال کیا ہے \"جذب کی حالت میں\" معنی :دریافت کئے ہیںلب میگوں سے تیرے نگہ کرتے گرا بے ہوش ہو جوں مست گرتا ہے پان کھاتے پیک کا چونا ( )١۸٢حاتمایک دوسری جگہ دنیا و جہاں سے بے خبر کے لئے لفظ مست برتتے
:ہیں شکر للہ شیشہ و ساغر بکف اس ابر میں مست آتا ہے لئے عشرت کا ساماں دست میں( )١۸۳حاتم غالب اللہ لوگ درویش دنیا سے دور لوگوں کے لئے اس لفظ کو :موزوں خیال کرتے ہیں مست کب بند قبا باندھتے ہیں نشہ ء رنگ سے ہے واشد گل اردو میں اگر مخمور معنی مراد لیں گے تو یہ مستک کا اختصار سے جبکہ دیگر مفاہیم میں مست کا بگڑا روپ ہے۔ ت ،ٹ کی متبادل آوازہے۔ یہ بھی کہ فارسی مشٹ کو شٹ کے معنوں میں استعمال کیا جانے لگا ہے ۔عربی میں منت ،کرم ،مہربانی،احسان(کرنا) اور حسن سلوک کے منت: معنوں میں استعمال ہوتا ہے لیکن اردو میں اس کا مزاج اور معنوی چلوں الگ سے رہا ہے ۔مثلاابس کئی دن جوز یست ہے ،اس پر کس کی منت عبث اٹھائے گا (١۸۴ )قائم چاند پوری احسان اٹھانا وہ جس دم ہاتھ اپنا قبضۂ خنجر پہ رکھتا ہے تکلف بر طرف ،منت ہمارے سر پہ رکھتا ہے ( )١۸۵مصحفی کسی کے ) سر پہ منت رکھنا ،منت رکھنا۔( منت م ّْن یا پھر امتحان سے ترکیب پایا ہے جبکہ اردو کا لفظ منتی ،
ہندی لفظ بنتی (وینتی )بمعنی عرض ،التجا ،التماس ،عاجزی، خوشامد ،معذرت ،لجاحت ،درخواست ()١۸۶سے تعلق جوڑرہا ہے۔ ہندی والوں کے ہاں بنتی یا و نتی برقرار رہا لیکن عربی کے زیر اثر بنتی اور منتی کو ترک کرکے منت ،بنتی کے معنوں میں اختیار کر لیا گیا ہے یہ لفظ عربی ہندی تعلقات کو واضح کر رہا ہے۔ غالب کے ہاں :بھی اس کا رشتہ بنتی سے استوار ہے میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا درد،من ِت کش دوانہ ہوا (منت کش ہونا ایک دوسری جگہ سماجت اور خوشامد کے معنوں میں استعمال ہوتا :ہے پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں سر زیر بار من ِت درباں کئے ہو ئےعربی اسم مذکر ہے۔ عربی میں نقش و نگار کرنا ،مزیں کرنا کے نقشا: معنوں میں استعمال ہو تا ہے۔اردو میں بالکل الگ معنوں میں استعمال ہو تا ہے یہ اپنی اصل میں \"نکسا \" ہے برصغیر کی تہذیب میں کسیکام کے نہ ہونے کے سبب \"ناک نہیں رہتا\"بولتے ہیں۔ اس کوناک رہنا سے سج دھج ،بناوٹ ،تضع ،کسی کی نقل ،نمایاں حیثیت ،عزت ،آبرو :وغیرہ مراد لیتے ہیں۔ اردو میں نقشا کا استعمال ملاحظ ہو شب دیکھ مہ تا باں تھا مصحفی تو حیراں کیا اس میں بھی کچھ نقشہ اس سیم بدن کا ( )١۸٧مصفحی تم ماہ شب چار دہم تھے مرے گھر کے پھر کیوں نہ رہا گھر کا نقشا
کو ئی دن اور(بمعنی حالت) غالب حواشی٢۔ کلیات ولی ،مرتبہ ١۔شرح دیوان حافظ ،مترجم عبداللہ عسکری مرزا نور الحسن ،ص ٧۸ ۴۔ سندھ میں اردو شاعری،مرتبہ ۳۔ کلیات مصحفی ،ص ۵۵۶ ڈاکٹر نبی بخش خاں بلوچ ،ص ۶۴ ۶۔ دیوان درد ۵ ،۔ کلیات قائم ج،١مرتبہ اقتدارحسن ،ص ٢٢ مرتبہ خلیل الرحمن داودی ،ص١۵۹ ۸۔ شاہکار انسا ئیکلو پیڈیا ،ص ٧ ۳۸۔ پیدائش ٢٢ : ١٠ ١٠۔ فرہنگ ۹۔ سخند ا ِن فارس ،از محمد حسین آزاد ،ص ١١۳ فارسی ،مولف ڈاکٹر عبدالطیف ،ص٧ ١١۔ کلیات میر ج ا،مرتبہ کلب علی خاں فائق ،ص١٢ ١٠١۔ دیوان
زادہ ،مرتبہ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار ،ص ۸١۴۔ سخندان فارس ،ص ١۳ ۹۹۔ کلیات قائم ج ،ص ۳۸١۵۔ المنجد ،ص ۶٢٧ ١۶۔ پنجابی اردو لغت ،مولف تنویر بخاری ،ص ١١١۵١٧۔ ہندی اردو لغت ،ص ١۸ ۳۴۹۔ دیوان درد ،ص ١۴۶١۹۔ کلیات قائم ج ا ،ص ا ٢٠ ٧۔ کلیات مصحفی دیوان ا ّول ،ص ١۶٢١۔ لسا نیات غالب ،مقصود حسنی ،ص ٢٢ ١٢۔ کلیات ولی ،ص ۸۹٢۴۔ تذکرہ ٢۳۔ تذکرہ مخزن نکات ،ڈاکٹر اقتدارحسن ،ص ۴۳ حیدری ،حید ربخش حیدری ،ص ١١۴٢۶۔ کلیات قائم ج ا ،ص ٢۵ ٢۳۔ دیوان درد ،ص ١۶۳٢۸۔فرہنگ عامرہ ،عبداللہ خویشگی ٢٧۔ کلیات میر ج ا ،ص ١۹٢ ،ص ٢٧١ ٢۹۔ نوائے سروش ،ص ۳٠۔۳١۔جناب ابو حنیفہ ،جناب مالک ،جناب شافعی ،جناب احمد بن حنبل ، ۳٢۔ پیش امام۳۳۔ جناب علی ابن ابی طالب ،جناب حسن ابن علی ،جناب حسین ابن علی ،جناب زین العابدین بن حسین ،جناب امام باقر ،جناب جعفر صادق ،جناب موسی کاظم ،جناب علی رضا ،جناب محمد تقی ، جناب علی نقی ،جناب حسن عسکری ،جناب محمد مہدی
۳۵۔ دیوان زادہ ،ص ۳۴ ١٧۴۔ کلیات میرج ا ،ص ۹۹۳٧۔ ۳۶۔ سندھ میں اردو شاعری ،ڈاکٹر بنی بخش بلوچ ،ص ١۶۴ دیوان زادہ ،شیخ ظہور الدین حاتم ،ص ١۵۴۳۹۔ کلیات مصحفی ج ا ،ص ۳۸ ٢۶٧۔ تذکرہ حیدری ،ص ۵۵۴١۔ کلیات میرج ا ،ص ۴٠۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا ،ص ۶۸ ٢۸٠۴٢۔کلیات قائم ج ا ،ص ١٢٧ ۴۳۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا، ص ۴۴١۴۵۔ دیوان مح ِب ،ولی ۴۴۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا ،ص۳۴۶ اللہ محب ،ص ۵٠١۴٧۔ کلیات میرج ا ،ص ۴۶ ١١۵۔کلیات مصحفی ج ا ،ص ۵٧۵۴۹۔ لغات نظامی ،ص ۴۸۔ سندھ میں اردو میں شاعری ،ص ۸٠ ١٠١۵١۔ البیان ،ص ١۵۔۵٠ ١۶۔ جامع اللغات ج ا ،ص ۴۶۶۵۳۔ دیوان مہ لقا بائی چند ا ،ص ۵٢ ١١۴۔ اظہر اللغات ،ص ١۶۵۵۵۔ کلیا ِت مصحفی ج ا ،ص ۵۴ ۴۸۸۔ کلیات مصحفی ج ا ،ص ۳۴۵٧۔ تذکرہ خوش معرکہ ۵۶۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ص ١۳۴ زیبا ج ا ،ص ۴۸۸۵۹۔ معنویت ،ڈاکٹر ۵۸۔ روشنی اے روشنی ،شکیب جلالی ،ص ۸۸ سہیل بخاری ،ص ١٢۶
۶٠۔ کلیات ولی ،ص٧۹ ۶١۔ احوال واثار شاہ عالم ثانی آفتاب ،ڈاکٹر محمد جمیل خاور ،ص ١۹۴۶۳۔ تذکرہ مخزن نکات ،ص ۶٢ ١٢٧۔ سخندان فارس ،ص ۴۸۶۵۔ اردو کی دو قدیم ۶۴۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا ،ص ۴٠٠ مثنویاں ،ص ١٢۹۶٧۔ رحمن۶۶ ٧۶:۔ تذکرہ گلستان سخن ج ا ،ص ۴۸١ ۶۹۔ ۶۸۔ کلیات میر ج ا ،ص ۹۸٧١۔ ہندی ارو لغت ،ص ٧٠۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا ،ص ۳۵۹ ۴۵۸٧٢۔سنسکرت اردو لغت ،ص ٧۳ ٧ ۳۔کلیات میر ج ا ،ص ۳٢٠٧۴۔ شرح دیوا ِن حافظ ج ا ،ص٧۵ ۹۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا ،ص ۵۳٧٧٧۔ دیوان جہاں دار ،ص ٧۶ ١۳۵۔ تذکرہ حیدری ،ص ا ٢٧۹۔ کلیا ِت مصحفی ج ا ،ص ٧۸ ۵۵٠۔ کلیات قائم ج ا ،ص ۴۳۸١۔ فرہنگ فارسی ،ص ۸٠ ۳٢۵۔تذکرہ گلستان سخن ج ا ،ص ۳۶۹۸۳۔ دیوان زادہ ،ص ۸٢ ١١۶۔ احوال و رباعیا ِت خیام ،ص ٢٧۵۸۴۔ کلیا ِت مصحفی ج ا،ص ۵٧۳ ۸۵۔ سندھ میں اردو شاعری ، ص۳۸۸٧۔کلیات سو دا ج ا ،ص۸۶ ١۵۔ کلیا ِت مصحفی ج ا ،ص ١٢۵
۸۹۔ فرہنگ فارسی ،ص ۸۸ ۴١۵۔ دیوان زادہ،ص ١٢۸ ۹١۔ تذکرہ مخزن نکات ،ص ۹٠ ۶۔ دیوا ِن زادہ ،ص ١٢٠۹۳۔ نقوش بیاض غالب نمبر،ص ۹٢ ۶۹۔ کلیا ِت میر ج ا ،ص ١۳۸ ۹۵۔ تذکرہ مخزن نکات ،ص ۹۴ ١۸۵۔ دیوان زادہ ،ص ٧ ۹٧۔ کلیات میر ج ا ،ص ۹۶۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا،ص ١١٢ ۹۹ ۹۹۔ تذکرہ مخز ِن نکات ،ص ۹۸ ١٢٠۔ باغ و بہار ،ص ١۴۸١٠١۔ کلیا ِت میر ج ا ،ص ١٠٠ ١۳۶۔ تذکرہ مخزن نکات ،ص ١١۵ ١٠۳۔ دیوان درد ،ص ١٠٢ ١٢۳۔ کلیا ِت میر ج ا ،ص ۹۸ ١٠۵۔ القاموس الفرید ،ص ١٠۴ ۳۵۹۔ کلیا ِت میر ج ا ،ص ٢۸٠ ١٠٧۔ ١٠۶۔ تقویت الایمان ،شاہ اسماعیل شہید دہلوی ،ص ۹۹ کلیات شاہی ،ص ٧١٠۹۔ آئینہ اردولغت ١٠۸۔ مراۃ العروس ،ڈپٹی نذیر احمد ،ص ۳۵ ،علی حسن چوہان وغیرہ ،ص١٠۹۹ ١١١۔ دیوا ِن درد ،ص ١١٠ ١١۶۔ کلیات میر ج ا ،ص ١١۸ ١١۳۔ تذکرہ خوش ١١٢۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا ،ص ١١٠ معرکہ زیبا ج ا ،ص ۳۶١ ١١۵۔ ١١۴۔ القاموس الفرید ،وحید الزمان کیرانو ی ،ص ۳۸١ تذکرہ مخز ِن نکات ،ص ١۳۵
١١٧۔ کلیا ِت میر ج ا ،ص ١١۶ ١۹٧۔ تذکرہ مخزن نکات ج ،ص ١٧۹١١۹۔ کلام بابا بلھے شاہ ،ص ١١۸ ۸۔ القاموس الفرید ،ص ۳۹۵١٢١۔ اردو کی دو قدیم مثنویاں ،ص ١٢٠۔ کلام شاہ حسین ،ص ۳١ ١١۴١٢۳۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا١٢٢ ،۔ دیوان جہاں دار ،ص ١٢٠ ص ٢٠۳١٢۵۔ تذکرہ مخزن نکات ،ص ١٢۴۔ تذکرہ مخزن نکات ،ص ١۳۴ ١۵۳١٢۶۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا ،ص ۵١۴ ١٢٧۔ کلیات میر ج ا ،ص١٢۵١٢۹۔ دیوان دد ،ص١٢۸ ١١۵۔کلیات قائم ج ا ،ص ١۳۴١۳١۔ کلیات میر ج ا ،ص ١۳٠ ١٠۴۔ کلیات میر ج ا،ص ١٠۴١۳۳۔ ١۳٢۔شاہ عالم ثانی آفتاب احوال و ادبی خدمات ،ص ٢٠۸ تذکرہ مخزن نکات ،ص ١٢۸١۳۵۔ کلیات ولی ،ص ١۳۴ ٧۸۔ کلیات ولی ،ص ٢١۵۳۶ا۔ تذکرہ مخزن نکات ،ص ۴۶ ۳٧ا۔ تذکرہ مخزن نکات ،ص ١٧۹١۳۹۔ کلیات میر ج ا ،ص ١۳۸۔ ١۵ :٢۸١۴١۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ١۴٠ ،٢۔ کلیات میر ج ا ،ص ٢٢۵ ص ٢۶۹
١۴۳۔ کلیات مصحفی ج ا ،ص ١۴٢ ۵٢۸۔ کلیات میرج ا ،ص ١۳١١۴۵۔ ال عمران ١۴۴ ٢۵۔ بقرہ ١١۳١۴۶۔مائدہ ،١٠۹ :نور ،٢۴:سجدہ ١۴٧ ،۹،١۹ :۔ مائدہ١٠۹ :١۴۸۔مکانی استعمال ١۴۹۔ کلیات میر ج ا ،ص ١٢۵١۵١۔ ترجمہ میر مرتضی حسین ١۵٠۔ کلیات میر ج ا ،ص ٢١۹ فاضل لکھنوی١۵۳۔ کلیات مصحفی ج ا ،ص١۵٢ ۵۳۹۔ کلیات میر ج ا ،ص ١۴٢١۵۴۔ سندھ میں اردو شاعری ،ص ۶۸ ١۵۵۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ،ص ۴۶١١۵٧۔کلیات شاہی ،ص ١۵۶ ١٠۶۔کلیات میر ج ا ،ص ١٢۸١۵۹۔ دیوان لقا چند ا ،ص ١۵۸ ١۴۶۔ کلیات قائم ج ا ،ص ٧١۹١۶١۔ تذکرہ خوش ١۶٠۔ تذکرہ خوش معرکہ زیباج ا ،ص ۴۳۹ معرکہ زیبا ج ا ص ۳۴۸١۶۳۔کلیات میر ج ا ،ص ١۶٢ ١۳۴۔ تذکرہ خوش زیبا ج ا ،ص ۴۶١١۶۵۔ کلیا ِت مصحفی ج ا ،ص١۶۴ ۳۵٠۔ کلیات ولی ،ص ٢۵۶١۶٧۔ دیوان زادہ ،ص ١۶۶ ١۳۔ دیوان درد ،ص ٢٠۸١۶۹۔ کلیا ِت مصحفی ج ا ،ص١۶۸ ۳٢۵۔ کلیات ولی،ص ٧۶١٧١۔ تذکرہ مخزن نکات،ص ١٧٠۔ کلیات مصحفی ج ا ،ص ۵٧۵ ١۹٧
١٧۳۔ کلیا ت ولی ،ص ١٧٢ ١٢٢۔ تذکرہ مخزن نکات ،ص ١۴۹١٧۴۔ دیوان زادہ ،ص ١٢۹ ١٧۵۔ تذکرہ خوش معرکہ زیباج ا ،ص ۵۳۶١٧٧۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا١٧۶ ،۔ کلیات میر ج ا ،ص ١١۸ ص ۳۴۸١٧۹۔ کلیات ولی ،ص ١٧۸ ٢۵١۔ کلیات ولی ص ٢٢۹١۸٠۔ سندھ میں اردو شاعری ،ص ٧٧ ١۸١۔ تذکرہ مخزن نکات ،ص١۶۹١۸۳۔ دیوان زادہ ،ص ١۸٢ ۶۶۔ دیوان زادہ ،ص ۴١۸۵۔ کلیات مصحفی ج ا ،ص ١۸۴ ۵۳۶۔ کلیات قائم ج ا ،ص ١۴١۸٧۔ کلیات مصحفی ج ا،ص ١۸۶ ۶۸۔ ہندی اردو لغت،ص ١٢١
باب نمبر٧لفظیا ِت غالب کا ساختیاتی مطالعہ ساختیات ایک صحت مند فکری رویے ،ہمہ وقت ترقی پذیر سماجی ضرورت اورانتھک تحقیق و دریافت کا نام ہے جو سوچ کوکسی مخصوص ،زمانی ومکانی ک ّرے تک محدود رہنے نہیں دیتی ۔ یہ نہ صرف معلوم (ڈیکوڈ) مگر غیرا ستوار ک ّروں سے تعلق استوار کرتیہے بلکہ ان سے رشتے ناتے دریافت کرتی ہے۔ اس کا دائرہ کا ر یہاں تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ معلوم مگر غیر دریافت شدہ ک ّروں کی طرف پیش قدمی کرکے ان کے حوالوں کو اشیاء ،اشخاص اور ان سے متعلقات وغیرہ کی جذب و اخذ کی صلاحیتوں سے پیوست کردیتی ہے ۔ یہ پیوستگی مخصوص ،محدود اور پابند لمحوں کی دریافت تک محدود نہیں رہتی اور نہ ہی تغیرات کی صور ت میں جامد وساکت رہتی ہے۔ اس کارد ساخت کا حلقہ ہمیشہ لامحدود رہتا ہے۔ کچھ لوگ ساخت شکنی کو ساخت سے انحراف کانام دیتے ہیں یا
سمجھتے ہیں ۔ یہ سوچ ساخت کے ضمن میں درست مناسب اور’’وارہ کھانے‘‘ والی نہیں ہے۔ ساخت شکنی درحقیقت موجودہ تشریح کو مستردکرکے آگے بڑھنے کانام ہے۔ شاخت شکنی کے بغیر کسی نئے کی دریافت کا سوال پیدا ہی نہیں اٹھتا۔ ساخت شکنی کی صورت میںکے ساتھ بہت ) (Signifierنامعلوم کائناتیں دریافت ہوکر کسی بھی دال وابستہ ہو جاتے ہیں۔ ) (Signifiedسارے مدلولکوئی دال غیر لچکدار اور قائم بالذات نہیں ہوتا۔ لچک ،قطرے کا سمندرکی طرف مراجعت کا ذریعہ ووسیلہ ہے یااس کے حوالہ سے قطرے کا سمندر بنناہے۔ ساخت شکنی سے ہی یہ آگہی میّسر آتی ہے کہ قطرہ اپنے اندر سمندر بننے کا جوہر رکھتاہے۔ وال کوغیرلچکدار قرار دینا آگہی کے پہلے زینے پر کھڑے رہناہے۔ ہر زندہ اور لچکدار سوچ ازخود آگہی کی جانب بڑھتاہے ۔زندہ اورلچکدار سوچ کو دائرہ کاقیدی ہونا خوش نہیں آتا اور نہ ہی اسے کسی مخصوص دائرے سے منسلک کیا جاسکتاہے۔ یہ ان گنت سماجی رشتوں سے منسلک :ہوتاہے۔ اسی بنیادپر گریماکا کہنا ہے ساختیاتی نظام ممکنہ انسانی رشتوں کے گوشواروں پر مبنی ’’ )ہے‘‘(١ :ڈاکٹر وزیر آغا اس ضمن میں کہتے ہیں کو ثقافتی دھاگوں کاجال قرار دیا ) (Poeticsساختیات نے شعریات’’ہے ۔وہ تصنیف کی لسانی اکائی یا معنوی اکائی تک محدود نہ رہی بلکہاس نے تصنیف کے اندر ثقافتی تناظرہ کابھی احاطہ کیا‘‘ ( )٢کے وقت شارح کا وجود معدوم ہوجاتاہے اور فکر موجودہ تغیرات کے نتائج
سے مدلول اخذ کرتی چلی جاتی ہے جبکہ وقوع میں آنے والے مدلول پھر سے نئی تشریح وتفہیم کی ضرورت رہتے ہیں ۔ اس کے لئے تغیرات کے نتائج اور دریافت کے عوامل پھر حرکت کی زدمیں رہتے کے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔ ) (Deconstructionہیں ۔ اس سے ردّ ساخت اگران لمحوں میں شارح جو قاری بھی ہے ،کے وجود کو استحقام می ّسر رہے گایا اس کا ہونا اور رہنا قرار واقعی سمجھاجائے گاتودریافت کا عمل رک جائے گا۔ مصنف کو لکھتے اور شارع کو تشریح کرتے وقت غیر شعوری طور پر معدوم ہونا پڑے گا۔ شعوری صورت میں ایسا ہونا ممکن نہیں کیونکہ شے یا شخص اپنی موجودہ شناختسے محروم ہونا کسی قیمت پر پسند نہیں کرتے ۔ شعوری )(Indentityعمل میں نئی تشریحات ،نئے مفاہیم اور نئے واسطوں کی دریافت کے دروا نہیں ہوتے ۔ مصنف ،قاری اور شارح نہ صرف دریافت کے آلہ کارہیں بلکہ ہر دال کے ساتھ ان کے توسط سے نیا مدلول نتھی ہوتا چلا جاتاہے۔ اسضمن میں اس حقیقت کوکسی لمحے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ جب تک مصنف ،قاری اور شارح دریافت کے عمل کے درمیان معدوم نہیں ہوں گے ،نیا مدلول ہاتھ نہیں لگے گا ۔ اسی طرح کسی دال کے پہلے مدلول کی موت سے نیا مدلول سامنے آتاہے۔ پہلے کی حیثیت کوغیر لچکدار اور اس کے موجودہ وجود کے اعتراف کی صور ت میں نئی کی دریافت کا کوئی حوالہ باقی )(Signifiedتشریح یا پھر نئے مدلول نہیں رہ پاتا۔’’میں ہوں‘‘ کی ہٹ معاملے کی دیگر روشوں تک رسائی ہونے نہیں دیتی۔ رویے ،اصول ،ضابطے اور تغیرات کے وجوہ و نتائج اورعوامل کی
نیچر اس تھیوری سے مختلف نہیں ہوتی۔ تغیرات ایک سے ہوں ،ایکطرح سے ہوں ،ایک جگہ ایک وقت سے مختلف نہ ہوں یا پھر ہو بہو پہلے سے ہوں ،سے زیادہ کوئی احمقانہ بات نہیں۔ اگر تغیرات ایک سے وجوہ اور ایک سے عوامل کے ساتھ جڑے نہیں ہوتے توان کے نتائج ایک سے اور پہلے سے کیسے ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں نئی تشریح کی ضرورت کوکیونکر نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔ موہنجوداڑو کی تہذیب و ثقافت سے متعلق پہلی تشریحات ،موجودہوسائل اور فکر کی روشنی میں بے معنی ٹھہری ہیں ان کی معدومی پر نئی تشریحات کا تاج محل کھڑا کیا جا سکتاہے۔ ایسے میں معدوم تشریحات پرا نحصار اور ان سے کمٹ منٹ نئی تشریحات کی راہ کا بھاری پتھر ہوگی ۔’’ہے‘‘ اور ’’ہوں‘‘کی عدم معدومی کی صورت میں محدود حوالے ،مخصوص تشریحات یا پہلے سے موجو د مفاہیم کے وجود کوا ستحقام می ّسر رہے گا۔ دہرانے یا بار بار قرات کا مطلب یہی ہے کہ پہلے سے انحرافکیاجائے تاکہ نئے حوالے اور نئے مفاہیم دریافت ہوں ۔ پہلی یا کچھ بار کی قر ا ت سے بہت سے مفاہیم کے دروازے نہیں کھلتے ۔ ذراآگے ہی مزید کچھ ہاتھ لگ سکتاہے۔ یہ درحقیقت پہلے ) (Postاور آگے سے موجود سے انحراف نہیں بلکہ جو اسے سمجھا گیا یا جو کہا گیا ،سے انحراف اور اس کی موت کا اعلان ہے ۔ اگر وہ درست ہے اورعین وہی ہے ،جو ہے تونئی تشریحات کا عمل کوئی معنی نہیںرکھتا اور نہ ہی کثیر الامعنی کی فلاسفی کوئی حیثیت اور وقعت رکھتی :ہے۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کہتے ہیں اگر پہلے سے تحریر (ادب) کا وجود نہ ہو تو کوئی شاعر یا مصنف ’’
کچھ نہیں لکھ سکتا ۔ جوکچھ اگلوں نے لکھا ہر فن پارہ اس پرا ضافہ )(نئے مفاہیم ،نئی تشریح کانام بھی دے سکتے ہیں) ہے‘‘ (۳دہرانے کا عمل ’’جو ہے‘‘ تک رسائی کی تگ ودو ہے ۔ یعنی جو اسے سمجھا گیا وہ ،وہ نہیں ہے یاپھر اسے موجودہ ،حالات اور ضرورت کے مطابق سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسے اسی طرح سمجھنے کی تشنگی ،جس طرح کی وہ ہے ،کے حوالہ سے ساختیات کبھی کسی تشریح یا تفہیم کو درست اور آخری نہیں مانتی ۔وہ موجود کی روشنی نہیں بڑھتی کیونکہ یہ موجود کی تفہیم ہوگی اور ) (Postمیں آگے اصل پس منظر میں چلا جائے گا۔ اس سینار یو میں دیکھئے کہ اصل نئے سیٹ اپ کے بھنور میں پھنس گیا ہوتاہے۔ ساختیات متن اور قرات کو بنیا دمیں رکھتی ہے ۔ ان دونوں کے حوالہ سے تشریح وتفہیم کا کام آگے بڑھتاہے۔ کیایہ تحریر کے وجود کااقرار نہیں ہے۔ متن درحقیقت خاموش گفتگو ہے۔’’ خاموشی‘‘ بے پناہ معنویت کی حامل ہوتی ہے۔متن کا ہر لفظ کسی نہ کسی کلچر سے وابستہ ہوتاہے۔ اس کلچر کے موجود سیٹ اپ اور لسانی نظام کےمزاج سے شناسائی کے بعد ہی موجودہ (نئی ) تشریح کے لئے تانا بانا بنا جاسکتا ہے۔ اس تناظر میں متن کی باربار قرات کی ضرورت محسوس ہوتی رہے گی۔ دورا ِن قرات اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکے گا کہ لفظ اس کلچر کے موجودہ سیٹ اپ کا ہاتھ تھام کرا س سیٹ اپ کی اکائیوں سے وحدت کی طرف سفر کرتاہے اور کبھی وحدت سے اکائیوں کی طرف بھی پھر ناپڑتاہے۔ ہر دو نوعیت کے سفر ،نئی آگہی سے نوازتے ہیں ۔’’یہ نئی آگہی ‘‘ ہی اس لفظ کی موجودہ تشریح وتفہیم
ہوتی ہے۔ قرات کے لئے سال اور صدیاں درکارہوتی ہیں۔ اسی بنیاد پر :ڈاکٹر سہیل بخاری نے کہاتھا ہزاروں سال کسی زبان کی عمر میں کوئی حقیقت نہیں رکھتے ‘‘ ’’ )(۴ ساختیات موضوعیت سے انکار کرتی ہے۔ موضویت چیز ،معاملے یاپھر متن کے حلقے محدود کرتی ہے۔ اس سے صرف متعلقہ حلقے کے عناصر سے تعلق استوار ہو پاتاہے اور ان عناصر کی انگلی پکڑ کر تشریح وتفہیم کا معاملہ کرنا پڑتاہے۔ کیایہ ضروری ہے کہ لفظ یاکسی اصطلاح کو کسی مخصوص لسانی اور اصطلاحی نظام ہامیں ملاحظہ کیا جائے۔ اسے کئی دوسرے لسانی و اصطلاحی سٹمز میںملاحظہ کیا جاسکتاہے۔ اس طر ح دیگر شعبہ ہائے حیات کا میدان بھی کبھی خالی نہیں رہا ۔ ایسا بھی ہوتاہے کہ اسے ایک مخصوص اصطلاحی سٹم کے مخصوص حلقوں تک محدود رکھاجاتاہے یاپھر مخصوص حوالوں کی عینک سے ملاحظہ کیا جاتاہے۔ ساختیات اسے گمراہ کن ر ّویہ قرار دیتی ہے اور نہ ہی موجود کے درجے پر فائز کرتی ہے۔ شعر کے کسی لفظ یا اصطلاح کو محض رومانی سٹم سے کیونکر جوڑا جاسکتاہے۔ اس کے علاوہ دیگر کائناتوں ،سماجی ،معاشرتی ، معاشی ،سیاسی نفسیاتی ،بیالوجی ،تصوف وغیرہ سے اس کا رشتہ کیوں غلط اور لایعنی سمجھا جائے۔ حقیقی کے ساتھ مجازی ،علامتی ،استعارتی وغیرہ ک ّرے بھی تو موجود ہیں ۔ استعارہ ایک علامت کیوں نہیں یاکسی استعارے کے لئے ،علامتی ک ّرے کا دروازہ کیوں بندرکھا جائے ۔ یا یہ دیکھا جائے کہ مصنف نے فلاں حالات ،ضرورتوں اور
تغیرات سے متاثر ہوکرقلم اٹھایا ۔ مصنف لکھتا ہی کب ہے وہ تومحض ایک آلہ کار ہے۔ تحریر نے خود کولکھا یا تحریر خود کو لکھتی ہے۔ :اس ضمن میں چارلیس چاڈ و کا کہنا ہے ہے۔ ) (Instanceلسانی لحاظ سے مصنف صرف لکھنے کاایک ایما’’ جس طرح ’’میں‘‘ کچھ نہیں سوا ایک ایما ’’میں‘‘ کے ۔ زبان ایک )فاعل کو جانتی ہے(اس کی ) شخصیت کو نہیں‘‘ (۵ قاری جو شارح بھی ہے مصنف کے حالات اور ضرورتوں سے لاتعلق ہوتاہے۔ وہ الگ سے ک ّروں میں زندگی گزار رہاہوتاہے۔ اس کے سوچکے پنچھی مصنف کے ک ّروں سے باہربھی پرواز کرتے ہیں بالکل اسیسے باہرکی بات کر رہا ہوتا ہے۔ Livingطرح جس طرح مصنف اپنے قاری اور مصنف جن جن ک ّروں میں زندگی کر رہے ہوں ان میں ذہنی Livingطور پر ایڈجسٹ بھی ہوں ،لازمی امر تونہیں ۔ ان کی فکری کئی اور بہت سی کائناتوں میں ہوسکتی ہے۔ سوچ لیونگ ک ّرے سے باہر متحرک ہوتاہے۔ اس بات کو یوں بھی کہاجاسکتاہے کہ لیونگ ک ّرے میں اس کے سوچ کا ،لیونگ ک ّرہ قرار نہیں دیا جاتا۔’’یہاں‘‘ا سکا سوچ ہمیشہ مس فٹ رہتاہے۔ اس تناظر میں ’’یہاں ‘‘ سے آزادی مل جاتی ہے جبکہ ’’وہاں ‘‘ کے مطابق قرات عمل میں آئے گی اورتشریح کا فریضہ ’’وہاں ‘‘ کے مطابق سر انجام پائے گا۔ اس (موجود)ک ّرے میں ان کی موت کا اعلان کرنا پڑے گا ۔قرات اور تشریح کے لئے ’’اس ‘‘تک اپروچ کرنا پڑے گی۔ سوچ کوئی جامد اور ٹھوس شے نہیں ۔ اسے سیماب کی طرح قرار می ّسر نہیں آتا ۔یہ جانے کن کن ک ّروں سے گزرتے ہوئے لاتعداد تبدیلیوں سے ہمکنار ہوکر معلوم سے نامعلوم کی طرف بڑھ گیا ہو۔
ایسے میں قرات اور تشریح وتفہیم کے لئے ان سین اور ان نون کیدریافت لازم ٹھہرے گی ۔ بصورت دیگر بات یہاں (موجود) سے آگے نہ بڑھ سکے گی۔ سکوت موت ہے اورموت سے نئی صبح کا اعلان ہوتاہے۔ ساختیات ایک یاایک سے زیادہ مفاہیم کی قائل نہیں ۔یہ بہت سے اور مختلف نوعیت کے مفاہیم کو مانتی ہے۔ پھر سے ،اس کا سلیقہ اور چلن ہے ۔ کثر ِت معنی کی حصولی اس وقت ممکن ہے جب لفظ یاشے کے زیادہ سے زیادہ حوالے رشتے دریافت کئے جائیں ۔ یہ کہیں باہرکاعمل نہیں بلکہ تخلیق کے اپنے اند رچپ اختیار کئے ہوتاہے۔ دریافت ،چپ کو زبان دینا ہے۔ اس بنیاد پر لاکاں نے کہتاہے یہ دیکھنا ضروری نہیں کہ کرداروں کی تخلیق کے وقت کون سے ’’ نفسیاتی عوامل محرک گردانے جاتے ہیں بلکہ سگینفائرز یادال کو تلاش کرکے یہ دیکھا جانا چاہیے کہ ان میں سے کون سے علامتی معنی ملتے ہیں اور لاشعور کے کون سے دبے ہوئے عوامل ہیں جو )تحریر کا جامہ پہن کر ممکنہ مدلول کی نشاندہی کرتے ہیں‘‘۔ (۶ علامت ،جودکھائی پڑرہاہے یا سمجھ میں آرہاہے وہ نہیں ہے ،کی نمائندہ ہے۔ دکھائی پڑنے والے ک ّرے سے اس کا سرے سے کوئی تعلق نہیں ۔ تندوے کی طرح اس کی ٹانگیں ان ک ّروں میں بھی پھیلی ہوئی ہوتی ہیں ۔ جو ان سین اور ان نون ہیں ۔ کیاتندوے کی ٹانگوں اور ان کی پہنچ کو تندوے سے الگ رکھا جاسکتاہے۔ گویا کوئی متن محدود نہیں ہوتا جتنا کہ عموماا اسے سمجھ لیا جاتاہے۔ کسی کلچر/ ک ّرے کی سروائیول کا انحصار بھی اس بات پر ہے کہ اردگرد سے اسے منسلک رکھا جائے ۔ وہاں درآمد و برآمد کا سلسلہ تعلق اور
رشتہ کے حوالہ سے پاؤں پسارتا ہے ۔ اس حوالہ سے لفظ کے’’ کچھ معنی‘‘ کافی نہیں ہوتے ۔ کثیر معنوں پر لفظ کی حیثیت اور بقا کا انحصار ہوتاہے۔بعض حالا ت میں لفظ کا مخصوص اکائیوں سے پیو ست ہونا ضروری ہو جاتاہے۔ تاہم اکائیوں سے وحدت کی طرف اسے ہجرت کر ناپڑتی ہے۔ لفظ کی ساخت میں لچک تسلیم کرنے کی صورت میں ہر قسم کاسفر آسان اور ممکن ہوتاہے۔ اس حوالہ سے بڑی وحدت میں نتھی ہونے کے لئے کثیر معنوں کا فلسفہ لایعنی نہیں ٹھہرتا۔ لفظ تب اصطلاحی روپ اختیار کرتاہے اور انسانی بردار کا ورثہٹھہرتاہے جب اس کے استعمال کرنے والے بخیل نہیں ہوتے ۔ اس لفظ کی اصطلاحی نظام اور انسانی زبان میں ایڈجسٹمنٹ اس کی لچکپذیری کو واضح کرتی ہے اور یہ بھی کہ وہ سب کا اور سب کے لئےہے۔ لفظ نقش کو بطور مثال لے لیں یہ بے شمار ک ّروں میں کسی وقتکے بغیر متحرک ہے اور بے شمار مفاہیم میں بیک وقت مستعمل ہے ۔ مزید مفاہیم سے پرہیز نہیں رکھتا۔ ہر لفظ کے ساتھ باربار دہرائے جانے کا عمل وابستہ ہے اور یہ عمل کبھی اور کہیں ٹھہراؤ کا شکار نہیں ہوتا۔ ہاں بکھراؤ کی ہر لمحہ :صورت موجود رہتی ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے نزدیک شعریات بطور ایک ثقافتی سٹم تخلیق کے تارو پود میں ہی نہیں ’’ ہوتی بلکہ اپنی کارکردگی سے تخلیق کو صور ت پذیر بھی کرتی ہے قاری کا کام تخلیق کے پرتوں کو باری باری اتارنا اور شعریات کی )کارکردگی پر نظر ڈالنا ہے‘‘۔(٧
تخلیق کے پرتوں کو باری باری اتارنا ،دہرائے جانے کا عمل ہے جبکہ شعریت کی کارگزاری پر نظر ڈالنا دریافت کرنے اور نئی تشریح تک رسائی کی برابر اور متواتر سعی کانام ہے۔ یہ سب تب ممکن ہے جبفکر ،عملی اور فکری تغیرات کی زد میں رہے اور اسی کی آغوش میں پروان چڑھے ۔ اس صورتحال کے تناظر میں یہ کہنا بھی غلط نہیں لگتا کہ لفظ تغیرات کی زد میں خود کو منوانے او ر ظاہر کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارتارہتاہے۔ساختیات دراصل اندر کے ثقافتی نظام کی قائل ہے ۔ کروچے کے مطابق داخل ،خارج میں متشکل ہوتاہے۔ ( )۸اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتاہے کہ سب کچھ باطن میں طے پاتاہے یا جو کچھ داخل میں محسوس کرتا ہے خارج میں بھی ویسا ہی دیکھتا ہے ۔ گلاب محض ایک شے ہے۔ داخل نے اِسے اِس کے داخلی اور خارجی حوالوں کے ساتھ محسوس کیا دیکھا اور پرکھا ۔ اسے ان گنت کائناتوں سےمنسلک کرکے نام اور مفاہیم عطا کئے ۔ بیرونی تغیرات کی صورت میں جو ا ور جیسا محسوس کیا ،اسی کے مطابق تشریح و تعبیر کی ۔ تاہم :بقول ڈاکٹر گوپی چند نارنگقرات (محسوس کرنا ،دیکھنا اور پرکھنا) اور تفاعل تہذیب کے اندر ’’اور تاریخ کے محور پر ہے۔یعنی معنی بدلتے رہتے ہیں اور کوئی قرات )یا تشریح آخری وقت آخری نہیں ہے‘‘ ۔(۹آخری تشریح اس لئے آخری نہیں کہ مختلف عوامل کے تحت اندر کے موسم بدلتے رہتے ہیں ۔داخل کسی ثقافتی سٹم کو لایعنی کہہ کر نظر انداز نہیں کرتا۔لفظ جب ایک جگہ اور ایک وقت کے چنگل سے آزادی حاصل کر تاہے
توثقافتی تبدیلی کے باعث پہلے معنی ردّ ہوجاتے ہیں ۔اگرچہ ان لمحوں تک پہلے معنی پہلے ک ّرے میں گردش کر رہے ہوتے ہیں یا پھر تغیرات کے زیر اثر یاکسی نئی تشریح کے حوالہ سے پہلے مفاہیم کو ردّ کر دیا گیا ہوتاہے۔ نئی اور پرانی کائناتوں میں ر ِدّساخت کا عمل ہمیشہ جاری رہتاہے ۔ بات یہاں پر ہی ٹھہر نہیں جاتی ۔ مکتوبی تبدیلیاں بھی وقوع میں آتی رہتی ہیں۔ تڑپھ سے تڑپ ،دوانہ سےدیوانہ ،کھسم سے خصم ،بادشاہ سے شاہ اور شاہ سے شہہ مکتوبی کا عمدہ نمونہ ہیں ۔ اس الفاظ کی مفہومی Deconstructionکا عمل کبھی بھی ٹھہرا ؤ کا شکار نہیں ہوا۔ مثلاا جملہ Deconstruction بو لاجاتا ہے ۔ ’’وہ توبادشاہ ہے‘‘ لفظ بادشاہ مختلف ثقافتی سسٹمزمیں مختلف مفاہیم رکھتاہے۔ مفہومی اختلاف پہلے مفہوم کو رد کرکے وجود میں آیا ہے۔ باربار کی قرات پہلے کو یکسر رد کرتی چلی جاتی :ہے۔ اس سے نئے مفاہیم پیدا ہوتے جائیں گے۔ مثلاا بادشاہ حکمران ،سیاسی نظام میں ایک مطلق العنان قوت ،ڈاکٹیٹر ١۔ لاپرواہ ٢۔ بے نیاز ،لالچ اور طمعہ سے عاری ۳۔ جس کے فیصلے حق پر مبنی نہ ہوں ،جس کے فیصلوں میں ۴۔ توازن نہ ہو ،بے انصاف پتہ نہیں کس وقت مہربان ہوجانے کس وقت غصب ناک ۵۔ مرضی کا مالک ،کسی کا مشہور ہ نہ ماننے والا ،اپنی کرنے ۶۔ والا
حقدار کو محروم اور غیرحقدار پر نواز شوں کی بارش کرنے والا ٧۔ نہ جانے کب چھین لے ،غضب کرنے والا ۸۔ کان کا کچا ،لائی لگ ۹۔ بے انتہا اختیار ات کا مالک ١٠۔ ولی اللہ ،صوفی ،درویش ،پیر ،فقیر ،گرو ،رام ١١۔ اللہ تعالی ١٢۔ علی ،حسین ١۳۔ مالک ،آقا ١۴۔ بانٹ کرنے والا ،سخی ١۵۔ امیر کبیر ،صاحب ثروت ١۶۔ تھانیدار ،چوہدری ،نمبردار ،وڈیرا ،کلرک ،سنتری ،تیز رفتار ١٧۔ ڈرائیور ،پہلوان ،حجام ،فوجی وقت پر ادائیگی نہ کرنے والا ١۸۔ مکرجانے والا ١۹۔ وعدہ خلاف ٢٠۔ بے شرم ،ڈھیٹ ،ضدی ٢١۔ نشئی ٢٢۔ بے وقوف ،احمق ٢۳۔
غضب کرنے والا ٢۴۔ لفظ بادشاہ کی نامکمل تفہیم پیش کی گئی ہے۔ ان مفاہیم کالغت سےکو دہراتے جائیے ۔ مختلف ) (Sign/Traceکوئی تعلق نہیں ۔ اس نشان تہذیبی وفکری ک ّروں سے تعلق استوار کرتے جائیے ۔ پہلے مفاہیم رد ہوکر نئے معنی سامنے آتے جائیں گے ۔ ہر ک ّرے کا اپنا انداز ،اپنی ضرورتیں ،اپنے حالات ،اپنا ماحول وغیرہ ہوتاہے اس لئے سیاسی غلامی کی صور ت میں بھی کسی اور ک ّرے کا پابند نہیں ہوتا ۔ لہذا کہیں او رکسی لمحے ساخت شکنی کا عمل جمود کا شکار نہیں ہوتا۔ اس سارے معاملے میں صرف شعوری قوتیں متحرک نہیں ہوتیں بلکہ لاشعوری قوتیں بھی کام کررہی ہوتی ہیں ۔ تخلی ِق ادب کا معاملہ اس :سے بر عکس نہیں ہوتا ۔ اس ضمن میں لاکاں کا کہنا ہے تخلیق اد ب کی آماجگاہ لاشعور ہی کو سمجھا جاتاہے کیونکہ اس ’’ میں مقصد ،ارادہ یا ساختیاتی زبان میں تخلیقی تحریریں فعل لازم )(Intransitive Verb )میں لکھی جاتی ہیں‘‘ ۔ (١٠ ساختیات مرکزیت کی قائل نہیں ۔ مرکزیت کی موجودگی میں رد ساختکا عمل لایعنی اور سعی لا حاصل کے سواکچھ نہیں۔ ایسی صور ت میں لفظ یا شے کو پرواز کرنے یامختلف حوالوں کے ذائقے حاصل کرنے کے بعد مرکزے کی طر ف لوٹ کر اس کے اصولوں کا بندی بنناپڑتاہے۔ لوٹنے کا یہ عمل کبھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا ۔ ایسی صورت میں نئی تشریحات اور نئے مفاہیم کی کیونکر توقع کی جاسکتی ہے۔لفظ آزاد رہ کر پنپتا اور دریافت کے عمل سے گزرتا ہے۔ لفظ ’’بادشاہ‘‘
محض سیاسی ک ّرے کا پابند نہیں۔ یہاں تک کہ سیاسی ک ّرے میں رہ کر بھی کسی مرکزے کو محور نہیں بناتا۔ بڑی عجیب اور دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ساختیات مصنف کے وجوداور لفظ کے باطن میں چھپی روح ) (Poeticکو نہیں مانتی بلکہ شعریت کومانتی ہے ۔ اس کے نزدیک تخلیقی عمل کے دروان مصنف معدوم ہوجاتاہے۔ تحریر خو د کولکھ رہی ہوتی ہے نہ کہ مصنف لکھ رہاہوتاہے۔ ساختیات کے اس کہے کاثبوت خو دتحریر میں موجود ہوتاہے۔ شاعر ،شاعری میں بادہ وساغر کی کہہ رہا ہوتاہے جبکہ وہ سرے سے میخوار ہی نہیں ہوتا۔ ممکن ہے اس نے شراب کوکبھی دیکھا ہی نہ ہو۔ معاملہ بظاہر میخانے سے جڑ گیا ہوتاہے لیکن بات کامیخانے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہیں کہ تحریر کسی بڑے اجتماع میں متحرک ہوتی ہے یہ سب تحریر کے اندر :موجود ہوتاہے ۔ ڈاکٹر وزیر آغا کا کہناہےشعریات کوڈز اور کنونشنز پر مشتمل ہونے کے باعث پوری انسانی ’’ )ثقافت سے جڑی ہوتی ہے‘‘(١١ اس کہے کے تناظر میں تشریح کے لئے مصنف /شاعر کے مزاج ،لمحہ موڈ ،ماحول ،حالات وغیرہ کے حوالہ سے تشریح کا کام ہوناکو کسی مرکزیت سے ) (Sign/Traceممکن نہیں ۔ تحریر یا کسی نشان نتھی کرکے مزید اور نئے نتائج حاصل کرنا ممکن نہیں اورنہ ہی تشریح و توضیح کا عمل جاری رکھا جاسکتاہے۔ لفظ بظاہر بول رہے ہوتے ہیں۔ اس بولنے کو ماننا گمراہ کن بات ہے۔لفظ بولتے ہیں تو پھر تشریح و توضیع کیسی اور کیوں؟ لفظ اپنی اصل
میں خاموش ہوتے ہیں۔ ان کی باربار قرات سے کثر ِت معنی کا جال بناجاتاہے۔ قرات انہیں زبان دیتی ہے۔ خاموشی ،فکسڈ مفاہیم سے بالا تر ہوتی ہے۔ اس معاملے پر غور کرتے وقت اس بات کو مدنظر رکھنا پڑے گا کہ قاری قرات کے وقت معدوم ہوجاتاہے۔ وہ اجتماعی ثقافتکے روپ میں زندہ ہوتا ہے یایوں کہہ لیں کہ وہ اجتماعی ثقافت کا بہر وپ ( لاشعوری سطح پر)اختیار کر چکاہوتاہے۔ قرات کے دوران جب لفظ بولتا ہے تو اس کے مفاہیم اس کے لیونگ کلچر کے ساتھ ہی اجتمادعی کلچر کے حوالہ سے دریافت ہورہےہوتے ہیں۔ مصنف جولکھ رہاہوتا ہے اس کا اس کی زندگی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ اس طرح قاری جو تفہیم دریافت کر رہا ہوتاہے اور جن ک ّروں سے متعلق دریافت کر رہاہوتا ہے ان سے وہ کبھیمنسلک نہیں رہا ہوتا ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عملی زندگی میں وہ ان کا شدید مخالف رہا ہو ۔یا ان تجربات سے گزرنے کا اسے کبھی موقع ہی نہ ملا ہو۔ شاہد بازی یا شاہد نوازی سے قاری متعلق ہی نہ ہو لیکن اس حوالہ سے مفاہیم دریافت کر رہا ہو۔ لفظ کی معنوی خاموشی تفہیم کا جوہرنایاب ہے۔ خاموشی ،قاری کو پابندیوں سے آزادی دلاتی ہے۔ اگر مان لیا جائے کہ لفظ بولتا ہے توقاری معدوم نہیں ہوتاتاہم اس کی حیثیت کنویں کے مینڈک سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اس حوالہ سے اجتماعی ثقافت اور اجتماعی شعور کا ہر حوالہ بے معنی ہوجاتا ہے ۔ ساختیات کے بارے یہ کہنا کہ اس میں ایک ہی کو باربار دہرایا جاتاہے ،مبنی برحق بات نہیں ہے۔ بلاشبہ کسی ایک نشان کی باربارقرات عمل میں آتی ہے لیکن اس کے موجودہ تشریح کو مستر دکرکے کچھ نیا اور کچھ اور دریافت کیا جارہاہوتاہے ۔ پروفیسر جمیل آزار کا
Search
Read the Text Version
- 1
- 2
- 3
- 4
- 5
- 6
- 7
- 8
- 9
- 10
- 11
- 12
- 13
- 14
- 15
- 16
- 17
- 18
- 19
- 20
- 21
- 22
- 23
- 24
- 25
- 26
- 27
- 28
- 29
- 30
- 31
- 32
- 33
- 34
- 35
- 36
- 37
- 38
- 39
- 40
- 41
- 42
- 43
- 44
- 45
- 46
- 47
- 48
- 49
- 50
- 51
- 52
- 53
- 54
- 55
- 56
- 57
- 58
- 59
- 60
- 61
- 62
- 63
- 64
- 65
- 66
- 67
- 68
- 69
- 70
- 71
- 72
- 73
- 74
- 75
- 76
- 77
- 78
- 79
- 80
- 81
- 82
- 83
- 84
- 85
- 86
- 87
- 88
- 89
- 90
- 91
- 92
- 93
- 94
- 95
- 96
- 97
- 98
- 99
- 100
- 101
- 102
- 103
- 104
- 105
- 106
- 107
- 108
- 109
- 110
- 111
- 112
- 113
- 114
- 115
- 116
- 117
- 118
- 119
- 120
- 121
- 122
- 123
- 124
- 125
- 126
- 127
- 128
- 129
- 130
- 131
- 132
- 133
- 134
- 135
- 136
- 137
- 138
- 139
- 140
- 141
- 142
- 143
- 144
- 145
- 146
- 147
- 148
- 149
- 150
- 151
- 152
- 153
- 154
- 155
- 156
- 157
- 158
- 159
- 160
- 161
- 162
- 163
- 164
- 165
- 166
- 167
- 168
- 169
- 170
- 171
- 172
- 173
- 174
- 175
- 176
- 177
- 178
- 179
- 180
- 181
- 182
- 183
- 184
- 185
- 186
- 187
- 188
- 189
- 190
- 191
- 192
- 193
- 194
- 195
- 196
- 197
- 198
- 199
- 200
- 201
- 202
- 203
- 204
- 205
- 206
- 207
- 208
- 209
- 210
- 211
- 212
- 213
- 214
- 215
- 216
- 217
- 218
- 219
- 220
- 221
- 222
- 223
- 224
- 225
- 226
- 227
- 228
- 229
- 230
- 231
- 232
- 233
- 234
- 235
- 236
- 237
- 238
- 239
- 240
- 241
- 242
- 243
- 244
- 245
- 246
- 247
- 248
- 249
- 250
- 251
- 252
- 253
- 254
- 255
- 256
- 257
- 258
- 259
- 260
- 261
- 262
- 263
- 264
- 265
- 266
- 267
- 268
- 269
- 270
- 271
- 272
- 273
- 274
- 275
- 276
- 277
- 278
- 279
- 280
- 281
- 282
- 283
- 284
- 285
- 286
- 287
- 288
- 289
- 290
- 291
- 292
- 293
- 294
- 295
- 296
- 297
- 298
- 299
- 300
- 301
- 302
- 303
- 304
- 305
- 306
- 307
- 308
- 309
- 310
- 311
- 312
- 313
- 314
- 315
- 316
- 317
- 318
- 319
- 320
- 321
- 322
- 323
- 324
- 325
- 326
- 327
- 328
- 329
- 330
- 331
- 332
- 333
- 334
- 335
- 336
- 337
- 338
- 339
- 340
- 341
- 342
- 343
- 344
- 345
- 346
- 347
- 348
- 349
- 350
- 351
- 352
- 353
- 354
- 355
- 356
- 357
- 358
- 359
- 360
- 361
- 362
- 363
- 364
- 365
- 366
- 367
- 368
- 369
- 370
- 371
- 372
- 373
- 374
- 375
- 376
- 377
- 378
- 379
- 380
- 381
- 382
- 383
- 384
- 385
- 386
- 387
- 388
- 389
- 390
- 391
- 392
- 393
- 394
- 395
- 396
- 397
- 398
- 399
- 400
- 401
- 402
- 403
- 404
- 405
- 406
- 407
- 408
- 409
- 410
- 411
- 412
- 413
- 414
- 415
- 416
- 417
- 418
- 419
- 420
- 421
- 422
- 423
- 424
- 425
- 426
- 427
- 428
- 429
- 430
- 431
- 432
- 433
- 434
- 435
- 436
- 437
- 438
- 439
- 440
- 441
- 442
- 443
- 444
- 445
- 446
- 447
- 448
- 449
- 450
- 451
- 452
- 453
- 454
- 455
- 456
- 457
- 458
- 459
- 460
- 461
- 462
- 463
- 464
- 465
- 466
- 467
- 468
- 469
- 470
- 471
- 472
- 473
- 474
- 475
- 476
- 477
- 478
- 479
- 480
- 481
- 482
- 483
- 484
- 485
- 486
- 487
- 488
- 489
- 490
- 491
- 492
- 493
- 494
- 495
- 496
- 497
- 498
- 499
- 500
- 501
- 502
- 503
- 504
- 505
- 506
- 507
- 508
- 509
- 510
- 511
- 512
- 513
- 514
- 515
- 516
- 517
- 518
- 519
- 520
- 521
- 522
- 523
- 524
- 525
- 526
- 527
- 528
- 529
- 530
- 531
- 532
- 533
- 534
- 535
- 536
- 537
- 538
- 539
- 540
- 541
- 542
- 543
- 544
- 545
- 546
- 547
- 548
- 549
- 550
- 551
- 552
- 553
- 554
- 555
- 556
- 557
- 558
- 559
- 560
- 561
- 562
- 563
- 564
- 565
- 566
- 567
- 568
- 569
- 570
- 571
- 572
- 573
- 574
- 575
- 576
- 577
- 578
- 579
- 580
- 581
- 582
- 583
- 584
- 585
- 586
- 587
- 588
- 589
- 590
- 591
- 592
- 593
- 594
- 595
- 596
- 597
- 598
- 599
- 600
- 601
- 602
- 603
- 604
- 605
- 606
- 607
- 608
- 609
- 610
- 611
- 612
- 613
- 614
- 615
- 616
- 617
- 618
- 619
- 620
- 621
- 622
- 623
- 624
- 625
- 626
- 627
- 628
- 629
- 630
- 631
- 632
- 633
- 634
- 635
- 636
- 637
- 638
- 639
- 640
- 641
- 642
- 643
- 644
- 645
- 1 - 50
- 51 - 100
- 101 - 150
- 151 - 200
- 201 - 250
- 251 - 300
- 301 - 350
- 351 - 400
- 401 - 450
- 451 - 500
- 501 - 550
- 551 - 600
- 601 - 645
Pages: