Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore لفظیات غالب کا تحقیقی و ساختیاتی مطالعہ

لفظیات غالب کا تحقیقی و ساختیاتی مطالعہ

Published by maqsood5, 2017-02-02 03:15:54

Description: abk_ksr_mh.946/2016

لفظیات غالب کا تحقیقی و ساختیاتی مطالعہ
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
جنوری ٢٠١٧

Search

Read the Text Version

‫‪١۸۴‬۔پشتو اردو بول چال‪،‬ص ‪١۵٢‬‬ ‫‪١۸۵‬۔پشتو اردو بول چال ‪ ،‬ص‬ ‫‪١۵٢‬‬‫‪١۸٧‬۔مثنوی رمز العشق‪ ،‬ص ‪١۸۶‬۔پشتو اردو بو ل چال ‪،‬ص ‪١۵٢‬‬ ‫‪۶۴‬‬‫‪١۸۸‬۔محک الفقرا‪،‬ص ‪۱۸۹ ۴۶‬۔لغات القرآن ج ا‪ ،‬ص ‪۳۴‬‬‫‪١۹١‬۔انوا ِر اولیا (کامل)‪،‬ص ‪١۹٠ ۳۸٢‬۔فیروز اللغات‪ ،‬ص ‪١۵٠‬‬‫‪١۹۳‬۔ہندی اردو لغت‪،‬ص ‪١۹٢ ١۸۹‬۔ لغات القرآن ج ‪ ،٢‬ص ‪١۸۹‬‬‫‪١۹۵‬۔انورا اولیا (کامل) ‪،‬ص ‪١۹۴ ۴۶‬۔لغات القرآن‪ ،‬ج ‪١٢۶‬‬‫‪١۹٧‬۔مصباح اللغات‪ ،‬ص ‪١۹۶ ١۴۹‬۔ مصباح اللغات ج ا‪ ،‬ص ‪٢٧۴‬‬‫‪١۹۹‬۔لغات القرآن ج ‪ ،٢‬ص ‪١۹۸ ٢۶۴‬۔المنجد‪،‬ص ‪٢٠٢‬‬‫‪٢٠١‬۔رحمن‪٢٠٠ ٧٢:‬۔لغات القرآن ج ‪ ،٢‬ص ‪٢٧٧‬‬‫‪٢٠۳‬۔ انوار اولیا (کامل)‪ ،‬ص ‪٢٠٢ ۵۴‬۔انوار اولیا(کامل ) ‪،‬ص ‪۵۴‬‬‫‪٢٠۵‬۔فرہنگ فارسی ‪ ،‬ڈاکٹر ‪٢٠۴‬۔فیروز اللغات ‪ ،‬ص ‪۵۸۵‬‬ ‫عبدالطیف ‪ ،‬ص ‪۳٢۴‬‬‫‪٢٠۶‬۔مفردات القرآن ج ا‪ ،‬راغب اصفہانی ‪،‬مترجم مولوی محمد عبداللہ‬ ‫فیروز پوری‪ ،‬ص ‪ ۴۳۵‬۔‪۴۳۴‬‬‫‪٢٠۸‬۔فیروز ‪٢٠٧‬۔ فیروز اللغات ‪،‬مولوی فیروز الدین‪ ،‬ص ‪٧۵١‬‬ ‫اللغات‪ ،‬ص‪٧۸٢‬‬‫‪٢١٠‬۔لغات القرآن‪،‬ص ‪٢٠۹ ١٠١‬۔لغات القرآن ج‪ ،۴‬ص ‪١۵‬‬

‫‪٢١٢‬۔لغات القرآن‪ ،‬ص ‪ ٧١‬ا‪٢١‬۔فیرو ز اللغات‪ ،‬ص ‪۸۹٠‬‬‫‪٢١۳‬۔لغات القرآن ج‪ ،۴‬ص ‪٢١۴،٢١۵‬‬ ‫‪٢١۴‬۔لغات القرآن ج‪،۴‬‬ ‫ص‪۵٢۶١‬‬‫‪٢١۶‬۔رحمن‪٢١۵ ٢۶:‬۔لغات القرآن ج ‪،۴‬ص ‪٢٧٧،٢٧۶‬‬‫‪٢١۸‬۔فیروز اللغات‪ ،‬ص ‪٢١٧ ١١٠٧‬۔فیروز اللغات‪ ،‬ص ‪١٠١٧‬‬‫‪٢٢٠‬۔فیروز اللغات‪ ،‬ص‪٢١۹ ١٢۸۹‬۔فیروز للغات ‪،‬ص ‪١٠١٧‬‬‫‪٢٢٢‬۔فیروز للغات‪ ،‬ص ‪٢٢١ ١۴١١‬۔ فیروز اللغات ‪،‬ص ‪١۳١۳‬‬‫‪٢٢۵‬۔فرہنگ فارسی‪،‬ص ‪٢٢۳ ١٠٢۴‬۔فیروز اللغات‪ ،‬ص ‪١۴۶۸‬‬‫‪٢٢٧‬۔لغات نظامی‪ ،‬ص ‪٢٢۶ ۶١‬۔فیروز للغات‪ ،‬ص ‪١۴٧۸‬‬‫‪٢٢۹‬۔فرہنگ عامرہ‪ ،‬ص ‪٢٢۸ ١٢۹‬۔ لغات نظامی ‪،‬ص‪١٢۴‬‬‫‪٢۳١‬۔ اظہر لغا ت ‪ ،‬ص ‪٢۳٠ ٢۸٠‬۔فرہنگ عامرہ ‪،‬ص ‪١٧۸‬‬‫‪٢۳۳‬۔فرہنگ عامرہ ‪،‬ص ‪٢۳٢ ٢١۶‬۔اظہر لغات ‪ ،‬ص ‪٢۸۴‬‬‫‪٢۳۵‬۔ آئینہ اردو لغت ‪،‬ص ‪٢۳۴ ۹۹۶‬۔فرہنگ فارسی‪ ،‬ص ‪۵۶۴‬‬‫‪٢۳٧‬۔ لغات نظامی‪ ،‬ص‪٢۳۶ ۵۴۵‬۔ اظہر اللغات‪ ،‬ص ‪۴۶۹‬‬‫‪٢۳۹‬۔ لغات نظامی ‪،‬ص ‪٢۳۸ ٧۴۴‬۔لغات نظامی‪ ،‬ص ‪۵۴۹‬‬‫‪٢۴١‬۔ لغت نظامی‪ ،‬ص ‪٢۴٠ ٧۹۵‬۔ لغات نظامی‪ ،‬ص ‪٧۴۴‬‬‫‪٢۴۳‬۔ آئینہ اردو‪ ،‬ص ‪٢۴٢ ١۶١‬۔ آئینہ اردو نعت‪ ،‬ص ‪۳۵‬‬‫‪٢۴۵‬۔ فرہنگ عامرہ‪ ،‬ص ‪٢۴۴ ۹۵‬۔ آئینہ اردو لغت ‪،‬ص ‪۳۶١‬‬

‫‪٢۴٧‬۔ آئینہ اردو لغت ‪،‬ص ‪٢۴۶ ٢۹۳‬۔ لغا ِت نظامی ‪،‬ص ‪١۳٠‬‬ ‫‪٢۴۹‬۔ فرہنگ فارسی‪ ،‬ص ‪٢۴۸ ۳۴۴‬۔ آئینہ اردو لغت ‪،‬ص ‪۵۸۶‬‬ ‫‪٢۵١‬۔ لغا ِت نظامی‪ ،‬ص ‪٢۵٠ ۴۸١‬۔ فرہنگ نظامی ‪،‬ص ‪۵٢۵‬‬ ‫‪٢۵۳‬۔ آئینہ اردو لغت‪ ،‬ص ‪٢۵٢ ١١۸٢‬۔ لغا ِت نظامی‪ ،‬ص ‪۵٠١‬‬ ‫‪٢۵۵‬۔ اظہراللغات ‪،‬ص ‪٢۵۴ ٧٧۳‬۔ اظہراللغات ‪،‬ص ‪۶۸۸‬‬ ‫‪٢۵٧‬۔ اظہر اللغات‪ ،‬ص ‪٢۵۶ ۳۵‬۔ لغا ِت نظامی ‪،‬ص ‪۸۳۴‬‬ ‫‪٢۵۹‬۔ لغا ِت نظامی‪،‬ص ‪٢۵۸ ٢۴‬۔ فرہنگ عامر ‪،‬ص ‪٢٢‬‬ ‫‪٢۶١‬۔ لغا ِت نظامی‪ ،‬ص ‪٢۶٠ ۸٠‬۔ آئینہ اردو لغات ‪،‬ص ‪۳۴‬‬ ‫‪٢۶۳‬۔ اظہر اللغات‪ ،‬ص ‪٢۶٢ ٢۵٧‬۔ لغا ِت نظامی ‪،‬ص ‪١۸۶‬‬ ‫‪٢۶۵‬۔ اظہر اللغات‪ ،‬ص ‪٢۶۴ ٢٧٠‬۔ لغا ِت نظامی ‪،‬ص ‪٢۴۹‬‬ ‫‪٢۶٧‬۔ آئینہ اردو لغت‪ ،‬ص ‪٢۶۶ ٧۳۵‬۔ لغا ِت نظامی‪ ،‬ص ‪۳٢١‬‬ ‫‪٢۶۹‬۔ آئینہ اردو لغت‪ ،‬ص ‪٢۶۸ ٧۹۵‬۔ آئینہ اردو لغت‪ ،‬ص ‪٧۶٢‬‬ ‫‪٢٧١‬۔ آئینہ اردو لغت ‪،‬ص ‪٢٧٠ ١٠۳۹‬۔ آئینہ اردو لغت ‪،‬ص ‪۸١١‬‬ ‫‪٢٧۳‬۔ فرہنگ عامرہ‪ ،‬ص ‪٢٧٢ ۴٧۳‬۔ فرہنگ عامرہ‪ ،‬ص ‪۴٠٠‬‬ ‫‪٢٧۵‬۔ لغا ِت نظامی ‪،‬ص ‪٢٧۴ ٧۵۵‬۔ لغات نظامی‪ ،‬ص ‪٧۵۵‬‬ ‫‪٢٧٧‬۔ اظہر اللغات ‪،‬ص ‪٢٧۶ ٧۸۹‬۔ لغا ِت نظامی ‪،‬ص ‪٧٧۶‬‬‫‪٢٧۹‬۔ نفسیات ‪،‬ص ‪٢٧۸‬۔ نفسیات‪ ،‬حمیر ہاشمی وغیرہ ‪ ،‬ص ‪٢٢١‬‬ ‫‪١۴۴‬۔ ‪١۴۳‬‬

‫‪٢۸١‬۔ نفسیات ‪،‬ص ‪٢۸٠ ۸١۴‬۔ نفسیات‪ ،‬ص ‪۸٢١‬‬‫‪٢۸۳‬۔ فیروز اللغات ‪،‬ص ‪٢۸٢ ١۶۹‬۔نفسیات ‪،‬ص ‪٧٧١‬‬‫‪٢۸۵‬۔ نفسیات ‪،‬ص ‪۸۴۸‬۔‪٢۸۴ ۴۴٧‬۔ نفسیات ‪،‬ص ‪۸١۴‬‬‫‪٢۸٧‬۔ فیروز اللغات ‪،‬ص ‪٢۸۶ ١۶۹‬۔ فیروز اللغات‪ ،‬ص ‪١٧٠‬‬‫‪٢۸۹‬۔ فیروز اللغات‪،‬ص ‪٢۸۸ ۹۵۶‬۔ فیروز اللغات‪،‬ص ‪۹۵۶‬‬‫‪٢۹١‬۔ فرہنگ فارسی ‪،‬ص ‪٢۹٠ ۴۹۶‬۔فیروز اللغات‪ ،‬ص ‪١۳۵٢‬‬‫‪٢۹۳‬۔ فیروز اللغات‪ ،‬ص ‪٢۹٢ ٧۹۳‬۔ فیروز اللغات‪ ،‬ص ‪٧٠١‬‬‫‪٢۹۵‬۔ فرہنگ فارسی‪ ،‬ص ‪٢۹۴ ٢۸‬۔ فیروزاللغات‪ ،‬ص ‪٢٧‬‬‫‪٢۹٧‬۔فیروز اللغات ‪ ،‬ص ‪٢۹۶ ٢٢۹‬۔فیروز اللغات‪ ،‬ص ‪۴۸۶‬‬‫‪٢۹۹‬۔فیروز اللغات ‪ ،‬ص‪٢۹۸ ١٢۵۵‬۔فرہنگ فارسی‪ ،‬ص ‪٢۸۸‬‬‫‪۳٠١‬۔فیروز اللغات ‪ ،‬ص‪۳٠٠ ۳۳۴‬۔فیروز اللغات ‪ ،‬ص‪٢۵۵‬‬‫‪۳٠٢‬۔فیروز اللغات ‪ ،‬ص‪۳۳۴‬‬ ‫‪۳٠۳‬۔اقلید س ج ا‪ ،‬مکتبہ کو ِہ نور‬ ‫لاہور ‪ ،١۸۵۸ ،‬ص ا‬‫‪۳٠۵‬۔فیروز اللغات ‪ ،‬ص‪۳٠۴ ۹٠١‬۔فیروز اللغات ‪ ،‬ص‪۵۶۸‬‬‫‪۳٠٧‬۔فیروز اللغات ‪ ،‬ص‪۳٠۶ ۸۴١‬۔فیروز اللغات ‪ ،‬ص‪۴٠۴‬‬ ‫‪۳٠۸‬۔فیروز اللغات ‪ ،‬ص‪۸۴۵‬‬

‫باب نمبر‪۶‬‬ ‫غالب کے ہاں مہاجر اور مہاجر نما الفاظ کے استعمال کا سلیقہ‬‫اردو ہر قسم کی آواز ‪،‬قوائد کی لچک پذیری اور جذب کرنے کی شکتی‬‫سے مالا مال ہے۔ اس کی اِس خاصیت کے سبب مقامی اور غیر مقامی‬‫زبانوں کے بے شمار الفاظ ِاس کے ذخیرۂ الفاظ میں داخل ہو تے رہتے‬ ‫ہیں۔جس سے اردو کے اظہاری دائرے میں وسعت آئی ہے ۔برصغیر‬ ‫میں مختلف امرجہ سے متعلق لوگ مختلف حوالوں سے آتے رہتے‬ ‫ہیں ۔اسی طرح برصغیر کے لوگ بھی باہر کی ولائتوں کا سفر اختیار‬ ‫‪ :‬کرتے رہتے ہیں ۔مہاجرت کے حوالہ سے‬ ‫بدیسی معاشرت ‪،‬سماجی اقدار‪،‬سیاسی و معاشی اصولوں *‬

‫اورلفظوں نے بھی مہاجرت اختیار کی ہے‬ ‫مہاجر الفاظ کو دیسی (برصغیرکے ) اصولوں کو اپنانا پڑا ہے *‬‫مہاجر کسی ایک مقام پر وارد ہوتا ہے‪،‬ایڈجسٹمنٹ کی مجبوری *‬ ‫اور ضرورت کے تحت اسے وہاں کا لہجہ اختیار کرنا پڑتا ہے‬‫مہاجرنادانستگی میں اپنی زبان‪ ،‬مقامی زبان کی طرز پر بولنے *‬ ‫لگتا ہے۔اس اختیاری لہجے کے ساتھ اس کی زبان کے‬ ‫بہت سے الفاظ مقامیت اختیار کرتے چلے جاتے ہیں‬ ‫مقامی باشندے بدیسی الفاظ اپنے لہجے میں اختیار کرتے ہیں *‬ ‫اختیاری الفاظ دیگر مقامات پر مقامی باشندوں کے حوالہ سے *‬ ‫ٹرانسفر ہوتے رہتے ہیں ۔وہاں کے لہجوں کے تحت‬‫پھر سے اشکالی اورمعنوی تبدیلیوں کا عمل شروع ہو جاتا ۔اس طرح‬ ‫ایک ہی لفظ سو طرح سے اور سوطرح کے‬ ‫معنوں میں مقامی زبانوں کا حصہ بن جاتے ہیں‬ ‫وقت اور ضرورت کے تحت نئے الفاظ کا تبادل ہوتا رہتا ہے *‬‫اردو ان عوامل سے کبھی دور نہیں رہی۔ اس نے دیگر مقامی زبانوں‬ ‫اور بولیوں سے کہیں زیادہ فراخدلی سے کام لیا‬ ‫ہے۔ اس میں اصل اور تبدیل شدہ ‪،‬مقامی اور غیر مقامی الفاظ نے‬ ‫مختلف طور و انداز سے مہاجرت اختیار کی ہے۔‬ ‫اس کی عموماا سات صورتیں رہی ہیں‬

‫‪١‬۔ اپنی اصل شکل اور اصل معنوں میں وارد ہوتے آئے ہیں‬ ‫‪٢‬۔ اپنی اصل شکل میں وارد ہوئے ہیں لیکن معنی بدل گئے ہیں۔اصل‬ ‫اور تبدیل شدہ معنوں میں مستعمل چلے آتے ہیں‬ ‫‪۳‬۔ الفاظ کی ہیئت وساخت میں اردو کے لسانی سیٹ اپ کے تحت‬ ‫تبدیلی واقع ہوئی ہے لیکن معنوں میں‬ ‫تبدیلی نہیں آئی ہے‬ ‫‪۴‬۔ ہیئتی اور ساختیاتی تبدیلی کے ساتھ مفاہیم بھی بدل گئے ہیں‬‫اردوا لفاظ میں بدیسی آوازیں داخل ہو گئی ہیں لیکن معنی دیسی ‪۵‬۔‬ ‫ہی رہے ہیں‬ ‫بدیسی الفاظ کو مقامی معنوں میں استعمال کیا جاتا رہا ہے ‪۶‬۔‬ ‫بدیسی الفاظ کے ساتھ اردو مصادر پیوند کر دیئے گئے ہیں ‪٧‬۔‬ ‫دیسی و بدیسی آمیزے کو مختصر کر لیا گیا ہے ب۔‬ ‫اگلے صفحات میں غالب کی اردو کی غزل سے مہاجر اور مہاجر نما‬‫الفاظ منتخب کر کے ان پرشعری اسنادکے ساتھ گفتگو کی گئی ہے۔ اس‬ ‫سے نہ صرف تفہیم غالب میں مدد ملے گی بلکہ غالب کا قاری ان‬ ‫الفاظ کی ادبی اورتہذیبی تاریخ سے بھی آگاہ ہو سکے گا ۔تشریح و‬ ‫تفہیم کاکام لفظ کی ادبی اور تہذیبی آگاہی کے بغیر ادھورا اور بعض‬ ‫اوقات لایعنی قرار پاتا ہے‬ ‫آتش‪:‬‬ ‫فارسی اسم مونث کہا جاتا ہے ۔یہ لفظ چار تہذبوں سے جڑا ہوا‬

‫ہے‬ ‫اسرائیلی تہذیب ‪،‬حضرت ابراہیم کو بت پرستی کی مذمت کی ا۔‬ ‫پاداش میں نمرود نے دہکتی آگ میں پھینک دیا ۔‬ ‫حضرت موسی آگ کی تلاش میں نکلے ۔ کوہ طور پر آگ نظر آئی۔وہ‬ ‫اپنی حقیقت میں اللہ کے نور کی تجلی تھی ۔ان دونوں‬ ‫کے حوالہ سے اردو ادب میں\"آت ِش نمروداور\" بر ِق تجلی \" ایسے‬ ‫مرکبات پڑھنے کو ملتے ہیں ۔‬ ‫جناب زرتشت کے پیرو آگ کی پوجا کرتے ہیں۔ ان کی عبادت ب۔‬‫گاہیں آتش کدہ کہلاتی ہیں۔ مغلوں کے ساتھ یہ برصغیر میں داخل ہوئے‬ ‫اور یہاں مجوسی کہلائے۔‬ ‫ہندوتہذیب میں آتش تقدس مآب رہی ہے ۔اس کا ایک دیو\" اگنی ج۔‬ ‫دیو\" بھی ہے۔ ہندو اپنے مردے آگ میں جلاتے‬ ‫ہیں اور اس فعل کو\"کر یا کرم \"کا نام دیتے ہیں۔اس کے گرد سات‬ ‫پھیروں کے حوالہ سے ازدواجی رشتہ استوار ہوتا ہے۔‬‫آتش ہمیشہ سے روشنی کا ذریعہ رہی ہے۔اس سے پکوان پکانے د۔‬ ‫کا کام لیا جاتا ہے۔انسانی تہذیبوں میں خوشی کے‬‫موقع پر چراغاں کیاجاتا ہے۔آتش بازی ہوتی آئی ہے۔ آج سالانہ کھیلوں‬ ‫کا آغاز مشعل بازی سے ہوتا ہے ۔‬ ‫آتش اردو غزل میں کبھی بھی تقدس مآب نہیں رہی ۔اس سے ہمیشہ‬ ‫نمرودی عناصر منسوب رہے ہیں۔ فارسی شاعری میں بھی اس کا‬ ‫احترام نظر نہیں آتا ۔مثلاا حافظ شرازی کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں۔‬

‫برشمع نرفت ازگذرآت ِش جان سوز آن دود کہ از سو زجگر برس ِر مارفت‬ ‫(‪)١‬حافظ شیرازی‬‫حافظ کے ہاں اس کی جلانے والی خصلت اجاگر ہوئی ہے۔ اب اردو‬ ‫غزل سے چند مثالیں ملاحظہ ہوں‬‫مشتاق درس کا ہوں ٹک مت آت ِش غفلت سوں مرے دل کوں جلا جا‬ ‫یک درس دکھا جا (‪ )٢‬ولی‬ ‫آت ِش غفلت‪:‬‬‫آتش‪ ،‬غفلت کو واضح کر رہی ہے۔ غفلت‪ ،‬مث ِل آتش ہے جوشدید دکھ‬ ‫اور کرب کا سبب بنتی ہے۔‬‫دل سے آتش ہے دبی سینۂ یار پہلو پہ مرے ہاتھ سمجھ کر رکھیو‬ ‫سوزاں کے لیے (‪ )۳‬مصحفی‬‫مصحفی کے ہاں آتش جذبات کی شدت کو واضح کر رہی ہے۔‬‫بجھاکر عشق کی آتش کیا ہے برہہ نے تیرے مرے دل کو پتنگ مانند‬ ‫‪ ،‬جلاؤ گے تو کیا ہو گا (‪ )۴‬میر ضیاء‬‫میر ضیاء الدین نے عشق کو‪ ،‬مث ِل آتش قرار دیا ہے۔ عشق کی کیفیت‬ ‫کو واضح کرنے کے لئے آتش سے زیادہ مناسب کوئی لفظ نہیں۔‬‫سیل آتش میں غرق ہوں دو جہاں‬ ‫جا ئے گر پھوٹ آبلا دل کا (‪)۵‬‬ ‫قائم‬‫سیل آتش‪ ،‬دل میں موجود دکھ اور کرب کو واضح کر رہا ہے۔ ایک بات‬ ‫ضرور ہے جو آتش کی بلاخیزی سے گزر جاتا ہے وہ کندن کے لقب‬

‫سے ملقوب ہوتا ہے۔ گویا آتش کثافتوں کو ختم کر دینے کا ذریعہ بنتی‬ ‫ہے ۔خواجہ درد کے ہاں کچھ اسی قسم کی بات ہوئی ہے‬ ‫کرے ہے کچھ سے کچھ تاثیر صحبت صاف طبعوں کی‬ ‫ہوئی آتش سے گل کے بیٹھتے رش ِک شرر شبنم (‪)۶‬درد‬‫معنوی اختلافات تو موجود ہیں لیکن اردو کے لسانی سیٹ اپ میں لفظ‬ ‫\"آتش\"اجنبی پن کا شکار نہیں ہے۔ ولی اور قائم کے ہاں بطور مرکب‬‫استعمال میں آیا ہے جبکہ مصحفی ‪ ،‬میر ضیاء اور خواجہ درد کے ہاں‬ ‫غیر اردو اور اردو کے الفاظ گھل مل گئے ہیں‬ ‫) آت ِش غفلت (ولی‬ ‫) سی ِل آتش (قائم‬ ‫) مصحفی( دل سے آتش سے‬ ‫) میر ضیاء( عشق کی آتش جلاؤ‬ ‫) درد( آتش سے گل کے‬ ‫اب غالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ فرمائیں‬ ‫بروئے سفر ہ کبا ِب د ِل سمندر مرے قدح میں ہے صہبائے آتش پنہاں‬ ‫کھینچ‬ ‫آتش کے حوالہ سے صہبا کی تیزی ظاہر کی گئی ہے۔ ؂‬ ‫عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب کہ لگائے نہ لگے اور‬ ‫بجھائے نہ بنے‬

‫آتش ‪ ،‬عشق کو واضح کر رہی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے مماثل‬ ‫ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے‪ ،‬عشق خود اختیاری عمل نہیں ۔ جب یہ لاحق‬ ‫ہوتا ہے تو اسے ختم کرنے کی کوئی کوشش ثمر بار نہیں ہوتی جبکہ‬ ‫آتش خود اختیاری عمل ہے اور اسے بجھایا بھی جا سکتا ہے۔ مماثل‬‫عنصر تپش ہے ۔ پہلے شعر میں آتش‪ ،‬بطور مرکب جبکہ دوسرے شعر‬ ‫میں آتش سے پہلے اردو لفظ \"وہ \"کا استعمال ہوا ہے۔ فارسی شعرا‬‫کے ہاں بھی \"آتش\"اردو ایسے حوالوں کے ساتھ استعمال ہوتا آیا ہے۔‬ ‫آتش پریشان کرنے والی یا پھر جلا کر بھسم کر دینے والی خصلت‬ ‫اپنے باطن میں رکھتی ہے۔ یہ خصوصیات فارسی اور اردو شاعری‬ ‫میں داخل ہیں۔ زر تشت تہذیب میں اس کا جو بھی حوالہ رہا ہو یا‬‫روشنی کی اہمیت کتنی بھی رہی ہو‪ ،‬آتش اردو اور فارسی شاعری میں‬ ‫تقدس مآب نہیں رہی بلکہ نمرودی خصائل اجاگر کرتی ہے۔‬ ‫آتش کے مترادف الفاظ آگ اور اگنی بھی اردو میں استعمال ہوتے آئے‬ ‫ہیں لیکن \"آتش\"فارسی کے زی ِر اثر مستحکم روایت کی حامل ہے۔‬ ‫لسانی حوالہ سے اِسے فارسی کی دین قرار دیا جا سکتا ہے۔‬ ‫اس لفظ کو اہ ِل لغت فارسی مذکر قرار دیتے ہیں اور اسے اردو آرام‪:‬‬ ‫میں فارسی کی دین خیال کرتے ہیں۔ یہ لفظ چار تہذیبوں سے منسلک‬ ‫ہے‬ ‫آرامی تہذیب سے سہولت کے حوالہ سے ‪١‬۔‬‫شدادی تہذیب (قوم عاد) میں دکھ اور تکلیف زیادہ رہی ہو گی اس ‪٢‬۔‬ ‫سے نجات کی کوشش کے حوالہ سے‬ ‫ایرانی تہذیب میں ‪ ،‬شوروغل سے خلاصی کے لیے‪ ،‬اس لفظ کا ‪۳‬۔‬

‫وجود لا یعنی نہیں لگتا‬ ‫ہندو تہذیب میں سیاسی و معاشرتی بے چینی ‪ ،‬تفریق اور عدم ‪۴‬۔‬ ‫مساوات سے نجات کے لیے \"رام راج\"کی‬ ‫ضرورت محسوس کی گئی ہو گی یا دکھ تکلیف میں \"رام\"کو پکارنے‬ ‫کے لیے یہ لفظ مستعمل ہو گیا ہو گا‬‫حضرت نوح کے پوتے‪ ،‬سام کے بیٹے کا نام \"آرام\" تھا۔ (‪ )٧‬جس کے‬ ‫معنی راحت اور خوشی کے ہیں۔ عربی فارسی وغیرہ آرامی زبان کی‬‫ترقی یافتہ اشکال ہیں۔ (‪ )۸‬آرامی زبان انسانی احساسات کے اظہار اور‬ ‫رابطے کے لیے وجود میں آئی۔ انشراح رک جائے توبے چینی کی‬ ‫صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ غالب کا کہنا ہے۔ ؂‬ ‫رکتی ہے مری طبع تو ہوتی پاتے نہیں راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے‬ ‫ہے رواں اور‬ ‫اس حوالہ سے کلمہ\"آرام\"احساسات کے اظہار اور انسانی سہولیات‬ ‫سے وابستہ ہے۔ آرام‪ ،‬شداد کے با ِغ ارم سے بھی رشتہ رکھتا ہے۔‬ ‫باغِ ارم سے چار عناصر جڑے نظرآتے ہیں‬ ‫‪۴‬۔ ضروریات کی فراہمی ‪۳‬۔ سکون ‪٢‬۔ نشاط ‪١‬۔ حسن و جمال‬ ‫شداد نے باغِ اِرم ‪ ،‬جنت کے مقابل تعمیر کیا تھا۔ جنت میں جہاں اور‬‫بہت ساری سہولتیں می ّسر ہوں گی وہاں دکھ ‪ ،‬درد اور رنج کا سایہ تک‬ ‫نہ ہو گا۔ انسان اس دنیا میں بھی دکھ‪ ،‬درد اور رنج سے نجات کا‬ ‫متمنی ہے۔ باغِ ارم کی تعمیر میں جہاں مقابلے کا جذبہ نظر آتا ہے تو‬ ‫وہاں نفسیاتی سطح پر دکھ ‪ ،‬درد اور رنج سے فرار کی کوشش کو‬

‫صر ِف نظر نہیں کیا جا سکتا ۔ ِارم‪ ،‬شاہ سے وفاداریوں کا انعام ٹھہرتی‬‫ہے۔ گویا اِرم اپنا ایک تہذیبی اور نفسیاتی حوالہ لیے ہوئے ہے۔یہ امر‬ ‫بعید ازامکان نہیں کہ اِرم نے ہی لفظ آرام کا روپ اختیار کر لیا ہو۔‬ ‫سنسکریت میں آرام کے معنی باغ کے ہیں (‪ )۹‬جبکہ فارسی میں پر‬‫سکون جگہ جہاں کسی قسم کا شور نہ ہو (‪ )١٠‬معنی لیے جاتے ہیں۔‬ ‫ظہوری اور خیام نے آرام کو سکون کے معنوں میں استعمال کیا ہے‬‫نگیر دطائرش بر صفحہ آرام‬ ‫نساز دگرن بپایش نہیں ہے مہر خود‬ ‫) ظہوری( دام‬‫آرام و قرار و خوردو خوابش عاشق بایدکہ سال و ماہ و شب و روز‬ ‫) خیام( نہ بود‬ ‫آرام کا ہندی تہذیب سے ناتا جوڑتے ہیں تو آ‪،‬رام کے طور پرلے‬‫سکتے ہیں۔ دکھ تکلیف میں پکارنے کے لیے آ‪ ،‬رام بولا جاتا رہا ہے۔‬‫رام راج کی مانگ کے حوالہ سے بھی اس کلمے کو نظر انداز نہیں کیا‬ ‫جا سکتا ہے۔‬ ‫درج بالا معروضات سے یہ بات بڑی حد تک صاف ہو جاتی ہے کہ‬ ‫\"آرام\"فارسی سے اردو میں وارد ہوا‪ ،‬قطعی بات نہیں ہے۔ آرامی‬‫تہذیب کے کسی شخص کے برصغیر میں داخل ہونے سے اس لفظ کے‬‫رواج کو ردّنہیں کیا جاسکتا ہے۔ اردو شاعری میں آسائش کی فراہمی ‪،‬‬ ‫ٹھہرنے یا توقف کرنے کے معنی میں اس لفظ کا استعمال عام ہے۔‬ ‫اردو شاعری میں سے چند مثالیں ملاحظہ ہوں‬‫یعنی رات بہت تھے عہ ِد جوانی رو رو کاٹا‪ ،‬پیری میں لیں آنکھ موند‬ ‫جاگے‪ ،‬صبح ہوئے آرام کیا(‪ )١١‬میر‬

‫آرام کرنا‪ :‬دنیا کے معاملات سے دستبردار ہونا‪ ،‬لاتعلقی ‪ ،‬موت‬‫کھبو پایانہ ایک دم آرام‬ ‫جب سے تم ساتھ ہم کیا اخلاص (‪)١٢‬‬ ‫حاتم‬‫آرام پانا‪ :‬سکون ملنا‪ ،‬چین میسر آنا‪ ،‬قرار پانا‬‫وائے قسمت کہ ہمیں یہ د ِل مرتے مرتے بھی نہ جن نے کھبو آرام دیا‬ ‫خود کام دیا(‪)١۳‬قائم‬ ‫آرام دینا‪ :‬سکھ‪ ،‬چین‪ ،‬سکون میسر کرنا‬ ‫غالب کے ہاں آرام کا استعمال ملاحظہ ہو‬‫نے تیرکماں میں ہے نہ صیاد کمیں میں‬ ‫گوشے میں قفس کے‬ ‫مجھے آرام بہت ہے‬ ‫ڈر‪ ،‬فکر اور چنتا سے نجات‬‫یہ نفسیاتی حقیقت ہے کہ جس چیز کا ڈر ‪ ،‬خوف ‪ ،‬خدشہ یا اندیشہ ہو‬‫‪ ،‬اگر وقوع میں آجائے تو وقوع سے پہلے کی حالت نہیں رہتی۔ ایک‬ ‫طرح سے سکون آجاتا ہے۔ وقوع سے پہلے‪ ،‬پتہ نہیں کیا ہو گا‪ ،‬کی‬ ‫صورتحال ہوتی ہے۔ یہ سوچ ‪،‬سکو ن سے دور رکھتا ہے۔‬‫بارے آرام سے ہیں حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد‬ ‫اہ ِل جفا میرے بعد‬‫ہلچل ‪ ،‬اتھل پتھل ختم ہونا‪ ،‬امن ‪ ،‬چین‪ ،‬سکون ‪ ،‬منفی نقل و حرکت ختم‬ ‫ہونا‬‫اس در پہ نہیں بار تو کعبے ہی اپنا نہیں یہ شیوہ کہ آرام سے بیٹھیں‬

‫کو ہو آئیں‬ ‫حال ِت سکون‪ ،‬غیر متحرک‪ ،‬نچلا بیٹھنا‪ ،‬کسی بپتا میں نہ ڈالنا‪ ،‬خرابی‬ ‫پیدا نہ کرنا‬‫اہل لغت کے نزدیک یہ لفظ عربی زبان کا ہے۔ یہ لفظ عربی نہیں آفت‪:‬‬ ‫‪،‬فارسی قدیم یا پہلوی میں \"آکفت\"تھا۔ عرب میں جا کر آفت اور عاتہ‬ ‫ہو گیا۔ (‪ )١۴‬عربی میں\"عاتہ\"کے معنی جھگڑا کرنا ‪ ،‬بار بار بات کو‬ ‫دہرانا کے ہیں۔ (‪ )١۵‬عرب کسی بات پر اڑ جائیں تو اس کو بار بار‬‫غصے کی حالت میں دہراتے ہیں اور اس پر ان کا تکرار ختم نہیں ہوتا‬ ‫جس سے ان کا معاشرتی شعور سامنے آتا ہے کہ معاملے کے بنیادی‬ ‫پہلو پر سے ان کی توجہ نہیں ہٹتی۔ وہ اسے منوانے پر بضد رہتے‬ ‫ہیں۔عرب میں جا کر آکفت کے \"ک\"کی آواز ختم ہو گئی۔ یہ رویہ ایسا‬‫نیا نہیں۔ دیگر زبانوں میں بھی ایسا ہوتا آیا ہے۔ آکفت کے معنی بحث و‬‫تکرار اور فساد برپا کرنے کے ہی ہیں۔ اردو میں یہ لفظ اپھل‪ ،‬کپت اور‬ ‫کپٹ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا آیا ہے۔ اس لیے اس لفظ کا ان‬ ‫کلموں کے حوالہ سے اشتقاق کیا جانا زیادہ مناسب اور درست معلوم‬ ‫ہوتا ہے۔ بازار میں \"اپھت\"بھی سننے کو ملتا ہے۔‬ ‫اپھل‪ ،‬دکھ تکلیف‪ ،‬فساد جھگڑا کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے *‬ ‫کپت خاص پنجابی لفظ ہے۔ پنجاب میں استعمال عام ہے۔ شور *‬ ‫)شرابا ‪ ،‬دنگا فساد‪ ،‬لڑائی جھگڑا ‪ ،‬شرارت برائی‪ ،‬بے عزت (‪١۶‬‬‫وغیرہ معنی دیتا ہے۔ جھگڑا لو یا یوں ہی اور خواہ مخواہ جھگڑا مول‬ ‫لینے والی عورت کے لئے \"کپتی\"لفظ بولتے ہیں‬ ‫کپٹ‪ ،‬دھوکہ ‪ ،‬دغا‪ ،‬فریب‪ ،‬کینہ‪ ،‬مکر‪ ،‬بغض‪،‬چھل (‪ )١٧‬معنی *‬

‫رکھتا ہے۔‬ ‫اردومیں آفت‪ ،‬عاتہ ‪ ،‬آکفت‪ ،‬اپھل‪ ،‬کپٹ اور کپت سے متوازی رشتہ‬ ‫استوار کئے ہوئے ہے۔ آفت کے معنی اخذ کرتے وقت اس کے جملہ‬ ‫سماجی حوالے م ِدّنظر رکھنا پڑیں گے بصورت دیگر اس امر کا کھوج‬ ‫لگانا مشکل ہو جائے گا کہ یہ لفظ کس تہذیب سے متعلق ہے۔ بعید‬ ‫نہیں بولی میں یہ \"اپھت\"ہی رہا ہو جو اپھل ہی کی بگڑی ہوئی شکل‬ ‫ہو۔‬ ‫عربی میں پھ‪ ،‬ف میں بدل جاتا ہے۔ اگر اس لفظ کو عاتہ تصور کرتے‬ ‫ہیں تو اردو میں بہت سے استعمالات اور مفاہیم کا عاتہ سے کوئی‬‫تعلق نہیں نکلتا۔ تا ہم بعض پر اطلاق کیا جا سکتا ہے۔ اردو میں معنوی‬ ‫اعتبار سے اپھل (اپھت)کپت اور کپٹ کے زیادہ قریب ہے۔ خواجہ درد‬ ‫اور قائم چاند پوری نے اپھل (اپھت) کے معنوں میں استعمال کیاہے‬ ‫مذکور جانے بھی دو ہم دل تپ ِدگاں کا‬ ‫احوال کچھ نہ پوچھو آفت رسیدگاں کا (‪( )١۸‬آفت رسیدہ ) درد‬ ‫!گل سے کیا مختلط ہوں اے بلبل‬ ‫مجھ کو وہ آف ِت خزاں ہے یاد (‪( )١۹‬آفت ہونا) قائم‬ ‫مصحفی نے مصیبت ‪ ،‬وبال اور بلا کے معنوں میں استعمال کیا ہےیاں‬ ‫حسن کو ہے عشق سے آفت لگی ہوئی‬ ‫ظالم کوئی نہ ہو جو طرح دار دیکھنا (‪( )٢٠‬آفت لگنا) مصحفی‬ ‫غالب نے \"اپھل\"(اپھت) کے معنوں میں لیا ہے‬

‫پڑا ہے کام تجھ کو کس کہا میں نے کہا اونا کام آخر ماجرا کیا ہے‬ ‫ستمگر آف ِت جاں سے‬ ‫غالب کے ایک دوسرے شعر میں \"سیمابی مزاج\"کے معنی دیتا ہے‬ ‫عافیت کا دشمن اور میں اور اک آفت کا ٹکڑا وہ د ِل وحشی کہ ہے‬ ‫آوارگی کا آشنا‬ ‫آفت کا ٹکڑا‪ ،‬آفت کا پرکالہ کا مترادف محاورہ ہے۔ اس شعر میں‬ ‫\"آفت\"کسی نئی تہذیب سے جڑا نظر آتا ہے۔ غالب کے عہد کی مغربی‬ ‫تہذیب کا (برصغیر کے حوالہ سے(مطالعہ کیا جائے تو بیدار مغزوں‬ ‫کے بدلتے ر ّویوں کویہ لفظ کھول دیتا ہے ۔ ان معروضات کے مطالعہ‬‫سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ \"آفت\"کا معنوی اعتبار سے برصغیر‬ ‫کی مٹی سے بھی تعلق نکلتا ہے۔‬ ‫ا ْحوال‪:‬‬ ‫اس لفظ کے عربی اسم مذکر اور حال کی جمع ہونے پر اردو کے‬ ‫اہل لغت اتفاق رکھتے ہیں جبکہ یہ دیسی لفظ\"آوال\"بمعنی خبر ہے۔‬‫\"ح\"کی آواز عربی کے زیر اثر داخل ہوئی ہے۔ دخیل آواز کے سبب یہ‬‫کلمہ عربی لگتا ہے۔ عربی میں حال (حالت) کے لیے چار الفاظ مستعمل‬ ‫‪):‬ہیں (‪٢١‬‬ ‫بال‪ :‬سوال کرتے موجودہ حالت کے لیے ‪١‬۔‬ ‫بال‪ :‬سوال کرتے موجودہ حالت کے لیے ‪١‬۔‬ ‫خطب‪ :‬کسی ناپسندیدہ معاملہ دریافت کرتے وقت کی حالت کے ‪٢‬۔‬ ‫لئے‬

‫دأب‪ :‬عادت اور چال چلن کے لئے ‪۳‬۔‬ ‫ایک حالت سے دوسری حالت کے لئےطور‪۴ :‬۔‬ ‫اردو غزل میں یہ لفظ زیادہ تر واحد اسم مذکر استعمال ہوا ہے۔ عربی‬ ‫مفاہیم سے بھی متعلق نہیں رہا ہے۔ لہذا اس لفظ کی سماجی حیثیت کا‬ ‫تعین کرتے وقت اس کے استعمالات کو مدنظر رکھنا پڑے گا ورنہ اس‬‫کے عربی ہونے کی غلط فہمی باقی رہے گی۔ اس ضمن میں چند مثالیں‬ ‫‪:‬ملاحظہ ہوں‬ ‫عیاں ہے اشک کے نہیں درکار تابولے بیاں اپنی زباں سیتی‬ ‫طومار سوں احوال عاشق کا (‪)٢٢‬ولی‬ ‫واحد استعمال ہوا ہے۔ احوال عیاں ہونا بمعنی باطنی کیفیت ظاہر ہونا‪،‬‬ ‫باطنی حالت‬ ‫شایدکبھویہ جاکے لگے دلربا کے برگ حنا اپر لکھواحوا ِل دل مرا‬ ‫ہاتھ (‪)٢۳‬یکرنگ‬ ‫احوال لکھنا‪:‬بے چینی ‪ ،‬بے قراری اور بے سکونی کے معنوں میں‬ ‫استعمال ہوا ہے‬ ‫کچھ بات جو سمجھا تو احوال مرا دھیان سے سنتا تھا وہ لیکن‬ ‫کہا میں نہیں سنتا(‪)٢۴‬محبت‬ ‫احوال سننا‪:‬واحد استعمال ہوا ہے کسی کا دکھ درد سننا‪ ،‬گفتگو‪ ،‬کسی‬ ‫کی بات پر توجہ‬ ‫سمجھا نہیں تا حال پر اپنے احوا ِل دو عالم ہے مرے دل پہ ہویدا‬ ‫تئیں کیا ہوں (‪ )٢۵‬درد‬

‫احوال ہویدا ہونا‪:‬حالات معلوم ہونا‪ ،‬معرفت‪ ،‬حقیقت سے آگاہ ہونا‪ ،‬خبر‪،‬‬ ‫معلومات‬‫تیں بھی احوال کچھ سنا دل کا اے نسیم ! اس گلی سے آئے ہے تو‬ ‫(‪ )٢۶‬قائم‬ ‫احوال سنا‪ :‬سنا کو کہنا کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ خیر خبر‬ ‫دینا‪ ،‬حال چال بتانے کے لیے کہنا‬ ‫احوال تھا کسی کا کچھ میں کہنے لگا کہ جانے میری بلا عزیزاں‬ ‫بھی سن لیاتھا (‪ )٢٧‬میر‬ ‫احوال سن لینا‪:‬قصہ‪ ،‬ماجرا‪ ،‬معاملہ کان پڑنا‬ ‫غالب کے ہاں بھی\"احوال\"واحد نظم ہوا ہے‬‫غالب تیرا احوال سنا دیں گے ہم ان کو وہ سن کے بلالیں ‪ ،‬اجارہ نہیں‬ ‫کرتے‬ ‫احوال سنا دینا‪ ،‬احوال کہہ دینا کے مترادف استعمال ہوا ہے بمعنی‬ ‫پوزیشن واضح کر دینا۔ (خستہ حالی) بیان کر دینا‪ ،‬دکھ‪ ،‬درد‪ ،‬پریشانی‬ ‫وغیرہ سے آگاہ کرنا‬ ‫اسامی‪:‬‬ ‫عربی اسم مونث۔ اسم کی جمع الجمع ۔ لین دین رکھنے والا‪،‬‬ ‫گاہک ‪ ،‬خریدار‪ ،‬امیر‪ ،‬مالدار‪ ،‬روپے والا (‪ )٢۸‬جس کے ساتھ فراڈ‬ ‫کرنا ہو۔ جس کے ہاتھ ناقص مال فروخت کرنے کا ارادہ ہو۔ جس کے‬‫ساتھ کاروبارکرنا ہو‪ ،‬رقم اس کی ہو لیبر فریق ثانی کی‪ ،‬منافع کی بانٹ‬ ‫ففٹی ففٹی۔ ادائیگی کسی بھی حوالہ سے کرنے والا۔ ملازمت جمع‬

‫اسامیاں۔ ادھار لینے والا۔قرض خواہ۔ جائیداد خریدنے والا وغیرہ۔یہ‬ ‫‪:‬لفظ تین حوالوں سے عربی قرار نہیں دیا سکتا‬ ‫اردو میں واحد استعمال ہوتا ہے ‪١‬۔‬ ‫عربی میں اردو معنوں میں استعمال نہیں ہوتا ‪٢‬۔‬ ‫استعمالی ر ّویہ عربی سے ہٹ کر ہے ‪۳‬۔‬ ‫غالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ ہو‬ ‫دل جو ِش گریہ میں ہے حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی‬ ‫ڈوبی ہوئی اسامی‬ ‫واحد استعمال کیا گیا ہے۔ استعمال کا ر ّویہ خالص دیسی ہے۔ غلام‬ ‫رسول مہر کا کہنا ہے‬ ‫)جس کے پاس کوئی ایسی چیز باقی نہیں جو ہاتھ آسکے\"(‪\"٢۹‬‬‫یعنی مفلس ‪ ،‬کنگال جس کا دیوالیہ نکل چکا ہو۔ برصغیر میں کاروبارہ‬ ‫میں لگائی ہوئی رقم برباد ہو جائے‪ ،‬قرض واپس ملنے کی امید نہ‬ ‫رہے‪،‬کے لئے \"اسامی ڈوب گئی\"بولتے ہیں۔ جس کسی سے لین دین‬ ‫رہا ہو لیکن اب ختم ہو گیا ہو۔ اچانک اس کی طرف سے پیشرفت ہو‬ ‫اور کچھ ملنے کی توقع ہو یا مل جائے تو \" ڈوبی اسامی ترنا\"بولتے‬ ‫ہیں۔یہ لفظ برسوں سے کاروبار سے وابستہ چلا آتا ہے۔ غالب کے‬ ‫دوسرے مصرعے میں \"جوش گریہ\"نے معاملہ صاف کر دیا ہے۔ دل‬ ‫آنسوؤں کے بحر بیکراں میں گم ہو گیا ہے۔ جوش میں پوزیشن اور‬ ‫رویہ بدل جاتا ہے۔بدلتی صورت اور بدلتے حالات میں پہلی کی سی‬ ‫توقع لا یعنی ٹھہرتی ہے۔‬

‫سامی\"قبر کے اندر دائیں ‪ ،‬قبر کے برابر جس میں میت سما سکے \"‬ ‫کھو‪ ،‬کھودتے ہیں۔ اس کو \"سامی \"کہا جاتا ہے۔سامی ہندی اسم مذکر‬‫ہے۔ بلند‪ ،‬اونچا(‪)۳٠‬پتی‪ ،‬خاوند‪ ،‬میاں‪ ،‬شوہر کے معنی بھی لیے ہوئے‬ ‫ہے۔ \"ا\"نہی کا سابقہ ہے۔ اس کے بڑھانے سے معنی منفی ہو جاتے‬‫ہیں۔ وہ جو بلند نہیں یا جو اب شوہر‪ ،‬پتی کے مرتبے پر فائز نہیں رہا۔‬‫اسامی کی دیسی طریقہ سے جمع\"اسامیوں\"بنائی جاتی ہے۔ اس حوالہ‬ ‫سے بھی اس کا عربی سے رشتہ نہیں بنتا۔ شوہر‪ ،‬آقا‪ ،‬مالک کے‬ ‫معنوں میں سوامی‪ ،‬اسامی کا بگڑا ہوا روپ بھی ہو سکتا ہے۔‬ ‫امام‪ :‬یہ لفظ اسلامی تہذیب سے متعلق ہے۔ احناف کے چار فقہی امام‬ ‫ہیں۔(‪ )۳١‬مسجد میں نماز کی قیادت کرنے والے کے لئے بھی یہ لفظ‬ ‫بولا جاتا ہے۔ (‪ )۳٢‬اس سے مراد \"امیر\"سربراہ ‪ ،‬قیادت کرنے والا‬ ‫وغیرہ بھی لیتے ہیں۔ مسلمانوں میں ہر فقیہہ یا بڑے مولوی صاحب‬‫کے لیے یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ اہل تشیع کے بارہ امام ہیں۔ (‪ )۳۳‬جنہیں‬ ‫مامور من اللہ بتایا جاتا ہے۔ خاندا ِن سادات کے اور لوگوں کے لیے‬‫بھی بولا جاتا رہا ہے۔ اردو شاعری میں مختلف مفاہیم کے ساتھ یہ لفظ‬ ‫استعمال میں آتا رہا ہے۔ مثلاا‬‫مسجد میں امام آج ہوا آ کے کہاں سے‬‫کل تک تو یہی میر خرابات نشیں تھا۔ (‪ )۳۴‬میر‬‫مسجد میں جماعت کی قیادت کے لئے مقرر ہونے والا‪ ،‬پیش امام ہونا‪:‬‬ ‫امام‬‫شیخ دو چار پیر کا ہے مرید‬ ‫ہم بھی بارہ امام رکھتے ہیں (‪)۳۵‬‬ ‫حاتم‬

‫اہل تشیع کے بارہ امام ‪ ،‬مقلد‪ ،‬جس کی فقہ اور معرفت میں امام رکھنا‪:‬‬ ‫تقلید کی جاتی ہو۔ سربراہ ‪ ،‬قائد‪ ،‬روحانی سربراہ ‪ ،‬راہ دکھانے‬ ‫والا ‪ ،‬جس کی پیروی کی جائے‬‫دو جگ یار نظارہ ہے(‪ )۳۶‬محمد یوسف فقیر ا عشق امام ہمارا ہے‬ ‫گڑہ‬ ‫امام‪:‬‬ ‫مدد گار‪ ،‬معاون ‪ ،‬امتیاز اور تمیز دینے والا‪ ،‬آگاہ کرنے والا ‪،‬‬ ‫امیر حیات ‪ ،‬امن ‪ ،‬شانتی اور محبت کا درس دینے والا‪،‬رہبر‬ ‫غالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ ہو‬‫علی ولی اسد اللہ جانشیں نبی امام ظاہر و باطن امی ِر صورت و معنی‬ ‫ہے‬ ‫غالب نے شعرمیں امام کے مفاہیم بھی واضح کر دیئے ہیں۔‬ ‫اوقات‪ :‬عربی اسم مذکر‪ ،‬وقت کی جمع۔ اردو میں بازاری مفاہیم میں‬ ‫بھی استعمال ہوتا ہے۔ عربی مفاہیم سے ان کا کسی بھی حوالہ سے‬ ‫تعلق نہیں بنتا۔ اردو میں اسے حیثیت ‪ ،‬مالی و سماجی حالت‪ ،‬بسات ‪،‬‬ ‫سمان ‪ ،‬وقعت وغیرہ کے معنوں میں استعمال کیا جاتاہے۔ ان مفاہیم‬ ‫کے حوالہ سے یہ خالص دیسی لفظ ہے۔ دوسرا یہ اردو میں واحد‬ ‫استعمال ہوتا ہے۔ اردو شاعری میں سے چند مثالیں درجِ خدمت ہیں‬ ‫شعرا ستادانہ و حاتم ہے بے باکانہ وضع‬ ‫طبع آزادانہ و اوقات درویشانہ ہے(‪ )۳٧‬حاتم‬

‫واحد استعمال ہوا ہے۔ اوقات درویشانہ‪ ،‬درویشوں کی سی حالت‪ ،‬حیثیت‬ ‫اور بسات ۔‬ ‫ہم رہیں دیکھتے اور تری یہ اوقات کئے‬ ‫اور تو کیا کہیں اے شانہ ترا بات کئے (‪)۳۸‬خواجہ امین الدین امین‬ ‫بطو ِر واحد اسم مونث استعمال ہوا ہے۔ اوقات کئے‪ :‬حالت کرنا‬ ‫مصحفی کے ہاں بھی اس کی یہی صورت ہے‬‫اوقات بسر خو ِن جگر کھا کے کروں ہوں عالم سے جدا ہے مری اوقات‬ ‫کا عالم (‪ )۳۹‬مصحفی‬ ‫عمر گزرنا‪:‬‬ ‫وقت گزرنا‪ ،‬وقت پاس ہونا۔ لفظ اوقات ‪ ،‬حالت اور حیثیت کے‬ ‫معنوں میں استعمال کیاہے۔‬ ‫کس لطف سے ہوتی تھی اوقا ِت بسر میری‬ ‫جب ہاتھ میں ساقی کے پیمانہ تھا اور میں تھا(‪ )۳۹‬شیخ کاشف علی‬ ‫کاشف‬ ‫اوقات بسر ہونا‪:‬گزارہ ہونا‪ ،‬جیسی تیسی گزرنا‬ ‫اب غالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ ہو‬‫غیر کیا‪،‬خود مجھے‪ ،‬اور میں وہ ہوں کہ گرجی میں کبھی غور کروں‬ ‫نفرت مری اوقات سے ہے‬ ‫اوقات سے نفرت ہونا‪:‬واحد اسم مونث استعمال ہواہے ‪،‬یعنی حالت‪،‬‬

‫حیثیت ‪ ،‬وقعت ‪،‬وقار‪ ،‬آبرو‪ ،‬عزت ‪،‬معاشرتی پوزیشن وغیرہ ۔ غالب کے‬ ‫ہاں خالص دیسی حوالہ سے نظم ہوا ہے معنی‪ ،‬استعمال اور گرامری‬‫پوزیشن عربی سے دور کا بھی علاقہ نہیں رکھتی۔ اس لفظ کا زیادہ تر‬ ‫کم مائیگی اور کم حیثیت کا احساس دلانے کے لیے کیا جاتا ہے۔‬ ‫بنیادی طور پر عربی لفظ ہے۔ عموماا اسلامی اصولوں کے باطل‪:‬‬‫خلاف ہر بات کے لیے بولا جاتا ہے۔ جھوٹا‪ ،‬لغو اور بے بنیاد کے لیے‬‫استعمال میں آتا ہے۔ اردو میں عربی سے داخل ہوا ہے۔ اردو غزل اس‬ ‫لفظ کے استفادے سے محروم نہیں رہی۔ مثلاا‬‫ورنہ جاتے یہ دوڑ ہم بھی پھلانگ (‪ )۴١‬نقرہ باطل تھا طور پر اپنے‬ ‫میر‬ ‫غلط ‪ ،‬برے ‪ ،‬نامناسب ‪ ،‬اوچھے‬ ‫ہم ہیں تو اسے مٹار ہے ہیں (‪ )۴٢‬اے ہستی تو کھینچ نق ِش باطل‬ ‫قائم‬ ‫غلط ‪ ،‬بے بنیاد‪ ،‬جس سے نقصان کا احتمال ہو‪ ،‬غلط طرح‪ ،‬غلط روش‬ ‫حق کے آگے ہو فروغ دار پر کھینچا گیا منصور اپنے ہاتھ سے‬ ‫دعو ِی باطل کہاں(‪)۴۳‬میر شجاع الدین روح‬ ‫حق کا متضاد ‪ ،‬جھوٹ‬‫فرد باطل ہے وہ جس پر کہ ترا دفت ِر عشق میں اے بادشہ کشور حسن‬ ‫صاد نہ ہو(‪)۴۴‬شاہ مظہر حق عشاق‬ ‫جعلی‪ ،‬فراڈ ‪ ،‬خود ساختہ‪ ،‬جو مستند نہ ہو‪ ،‬ناقاب ِل اعتماد‪ ،‬بے حیثیت ‪،‬‬ ‫بے وقعت‬

‫اب غالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ ہو‬ ‫حس ِن آشفتگ ِی جلوہ ہے عر ِض اعجاز دس ِت موسی بہ س ِر دعو ِی باطل‬ ‫باندھا‬ ‫بت‪:‬‬ ‫انسانی تہذیب میں مجسمے بنانے کا بہت پہلے سے رواج چلا آتا‬ ‫ہے۔ انسان نے اپنے پیاروں کی معدومی کی کمی کو اس انداز سے‬ ‫پورا کرنے کی کوشش کی۔ ان مجسموں سے پیار کیا اور انہیں احترام‬ ‫دیا۔ آتے وقتوں میں پیار‪ ،‬احترام اور عقیدت نے پوجا کی شکل اختیار‬ ‫کرلی۔ ماورائی قوتوں کے مجسمے بھی بنائے گئے۔ انہیں طاقت اور‬ ‫اختیار کا مظہر خیال کیا جاتا رہا ہے۔ یہ سلسلہ صدیوں سے چلا آتا‬ ‫ہے۔ کہیں دانستہ اور کہیں نادانستہ انہیں پوجیور تسلیم کیا گیا ہے۔‬ ‫کعبہ ایسے محترم مقام پر انہیں سجایا گیا۔ بت شکنی کے جرم میں‬ ‫حضرت ابراہیم کو دہکتی آگ میں پھینکا گیا۔ حضرت محمدﷺ کو‬ ‫ناقاب ِل برداشت حد تک ستایا گیا۔بت سے انسان کے تعلق‪ ،‬محبت اور‬ ‫عقیدت کا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے۔‬ ‫ہندو تہذیب میں آج بھی بت پرستی کا رجحان موجود ہے۔ ہیروز کے‬‫فوٹو غیر ہندوؤں کے ہاں بھی آویزاں ملتے ہیں۔ ان کی تصاویر کرنسی‬ ‫نوٹوں اور ڈاک ٹکٹوں پر دیکھنے کو ملتی ہیں۔جوان کی محبت اور‬ ‫احترام کا واضح اعتراف ہے۔‬ ‫برصغیر میں بت پرستی مہاجر نہیں ہے لیکن بہت سے بت مہاجر‬ ‫ضرور ہیں۔ اسی طرح بت پرستی کے کچھ عناصر و اطوار بھی درآمد‬ ‫ہوئے ہیں یا کسی اور حوالہ سے رواج پا گئے ہیں۔ ان مہاجر عناصر‬

‫کی نشوونما کی یہاں بہت گنجائش تھی۔ بت پرستی کی نفی کرنے والے‬‫عناصر بھی نفسیاتی سطح پر کسی نہ کسی حوالہ سے بت پرستی میں‬ ‫مبتلا نظر آتے ہیں۔‬‫لفظ بت کا خیام کے ہاں استعمال ملاحظہ ہو‬‫بیزار شدم زبت پرستان کنشت تاچند زنم بروئے دریا ہا حشت‬‫سطح دریا پر کب تک ڈھیلے مار کر چھینٹیں اڑاتا رہوں گا۔کنشت کے (‬ ‫)ان بت پرستوں سے عاجز ہوں‬‫لفظ \"بت\"فارسی سے اردو میں وارد ہوا ہے۔ اردو غزل نے اسے بہت‬ ‫سے غیر لغوی مفاہیم عطا کئے ہیں۔ اس کی جمع بھی دیسی طریقہ‬ ‫سے بنائی گئی ہے۔ مثلاا مرزا جعفر علی حسرت کے ہاں \"بت\"کا‬ ‫استعمال ملاحظہ ہو‬‫ہوں چراغ صبح میں تیغ سے مت قتل کر تو اے بت پر فن مجھے‬ ‫ہے جنب ِش دامن مجھے حسرت‬‫بت‪ ،‬محبوب کے معنوں میں استعمال ہواہے جو اداؤں میں کمال رکھتا‬ ‫ہے‬‫مردم چشم میں رم خوردہ بتوں کی شاید‬ ‫شیر طفلی میں پلایا ہے‬ ‫انہیں آہوکا۔ (‪ )۴۵‬محب‬‫بتوں جمع بت‪ ،‬محب نے بھی محبوب مراد لیا ہے‬‫مصحفی کا کہنا ہے کہ ان کی شاعری میں تاثیران بتوں سے محبت کی‬ ‫وجہ سے ہے‬

‫توووں ہی شعرو سخن کا اگر بتوں کی تمنا سے دل مرا پھر جاے‬ ‫مرے مزا پھر جاے (‪ )۴۶‬مصحفی‬ ‫حسین لوگ‪ ،‬خوباں‪ ،‬ناز وادا والے خوبصورت محبوب جو شعرو سخن‬ ‫میں تاثیر کا سبب بنتے ہیں‬ ‫بت کے مترادف لفظ صنم بھی بدیسی ہے۔ اردو غزل میں اس کا‬ ‫استعمال عام ہے‬ ‫اب کس طرح اطاعت ان پوجے سے اور پتھر ہوتے ہیں یہ صنم تو‬ ‫کی کروں خدایا (‪ )۴٧‬میر‬ ‫سنگدل محبوب‪ ،‬ان سے جتنی محبت کرو جتنے ناز اٹھاؤ اتنے صنم‪:‬‬ ‫اتراتے اور سخت دل ہوجاتے ہیں‬ ‫ہاتھوں سے اس صنم کے چھوٹے خدنگ خونی جس سے ہوا ہے دل‬ ‫پر عاشق کے زخم کاری (‪ )۴۸‬سچل‬ ‫صنم‪:‬‬ ‫گھائل کرنے والا محبوب‬ ‫غالب کے ہاں لفظ بت کا استعمال ملاحظہ ہو‬‫کس قدر خانہ ء آئینہ ہے ویراں غم عشاق نہ ہو سادگی آمو ِز بتاں!‬ ‫مجھ سے‬ ‫ایک دوسری جگہ دونوں لفظوں کا ایک ساتھ استعمال کرتے ہیں‬‫بتوں کی ہوا گر ایسی ہی خو تو تمہیں کہو کہ گزارہ صنم پرستوں کا‬ ‫کیونکر ہو‬

‫بت اور بت پرستی کے خلاف نظریاتی فضا کیسی ہی کیوں نہ رہی ہو‪،‬‬ ‫بتوں کی محبوبیت کسی نہ کسی حوالہ سے انسانی تہذیبوں میں‬ ‫محبوب و مرغوب رہی ہے۔‬ ‫بساط‪:‬‬‫)عربی اسم مونث‪ ،‬چادر‪ ،‬بستر‪ ،‬بچھونا‪ ،‬شطرنج کا کپڑا (‪۴۹‬‬‫بسات‪ :‬ہندی مونث ‪ ،‬سرمایہ پونجی ‪ ،‬دھن‪ ،‬اسباب ‪ ،‬قوت‪ ،‬طاقت‪،‬بل‪،‬‬ ‫)قابلیت‪ ،‬استعداد‪ ،‬حیثیت ‪ ،‬قدرو منزلت‪ ،‬وقعت(‪۵٠‬‬ ‫عربی کے \"ط\"سے اندارج ہونے والے بساط سے \"ت\"سے لکھے‬ ‫جانے والے ہندی بسات کا کوئی تعلق واسطہ نہیں اور نہ ہی عربی‬ ‫ہندی کے اختلاط کی کوئی صورت ہے۔ معاملہ صرف اتنا ہے کہ اردو‬‫میں مکتوبی صورت عربی لفظ کی ہے جبکہ معنوی حوالہ ہندی لفظ کا‬ ‫ہے‬ ‫غالب نے دونوں لفظوں کے معنوں کو نظر انداز کر کے تہذیبی‬‫ضرورت کو م ِد نظر رکھتے ہوئے الگ سے معنوں میں استعمال کیا‬ ‫‪:‬ہے۔ تا ہم مکتوبی روپ عربی ہے‬‫ہیں بسکہ جو ِش بادہ سے شیشے اچھل رہے‬ ‫ہر گوشۂ بساط ہے‬ ‫سر شیشہ باز کا‬‫یاں نفس کرتا تھا روشن شمع بز ِم بے خودی‬ ‫جلوۂ گل واں بسا ِط‬ ‫صحب ِت احباب تھا‬‫بزم‪،‬نشت گاہ‪ ،‬بیٹھنے کی جگہ سے بساط کو مخصوص کر دیا گیا ہے۔‬ ‫اس طرح یہ لفظ نہ دیسی رہا نہ عربی‪ ،‬ایسی ہی صورت پہلے شعر‬

‫میں نظر آتی ہے۔‬ ‫تحریر‪:‬‬ ‫تحریر‪ ،‬غلام کو آزاد کرنا یعنی اسے حر کا مرتبہ عطا کرنا۔‬ ‫بھاگے ہوئے غلام پکڑے جاتے تھے اور کوئی پروانہ پیش نہ کر‬ ‫سکتے تھے تو سزا پاتے تھے لیکن بتدریج تحریر کا کلمہ غلاموں‬‫کے پروانہ آزادی کی بجائے صرف لکھنے کے معنوں میں مستعمل ہو‬ ‫گیا۔ (‪ )۵١‬لکھنے کے حوالہ سے عربی میں چار الفاظ رائج ہیں‬ ‫محض لمبائی کے رخ کچھ لکھنا خط‪:‬‬ ‫سطر‪:‬‬ ‫سطور بنا کر لکھنا‬ ‫رقم‪:‬‬ ‫ایسے لکھنا کہ لکھا ہوا واضح اور موٹا ہو‬ ‫کتب‪:‬‬ ‫ایسی لکھائی جو اپنا مفہوم ادا کرنے میں مکمل اور واضح ہو‬ ‫اردو کے لغت نگاریہ معنی درج کرتے ہیں‪ :‬لکھنا‪ ،‬لونڈی آزاد کرنا‪،‬‬‫نقاشی کرنا‪ ،‬عبار ِت مضمون‪ ،‬لکھنے کا طریقہ ‪ ،‬رقعہ ‪ ،‬باریک خط جو‬ ‫تحریرپر بنائے جاتے ہیں (‪)۵٢‬دستاویز‪ ،‬رسید اور راہداری کے لیے‬ ‫بھی لفظ تحریر ہی بولا جاتا ہے۔‬‫اردو غزل میں اور معنوں میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا آیاہے۔ اس لئے‬ ‫اب اسے عربی لفظ کہنا درست نہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں‬

‫سیل میں اشک کے ہو درد دل کو کبھی تحریر کروں حرف بہ حرف‬ ‫کشتی طوفان کاغذ (‪ )۵۳‬چندا‬ ‫تحریر کرنا‪:‬‬ ‫(کسی جذبے کی ) کو لکھائی میں لانا‬ ‫اے مصحفی کرتا تھا رقم جب یہ غزل جنبش میں قلم تھا د ِم تحریر اثر‬ ‫کا (‪ )۵۴‬مصحفی‬ ‫دم تحریر‪:‬‬ ‫لکھائی کے دوران‪ ،‬لکھتے وقت‬ ‫غالب نے اسے مصوری کے معنوں میں استعمال کیا ہے‬‫کاغذی ہے پیرہن ہر پیک ِر نقش فریادی ہے کس کی شوخ ِی تحریر کا‬ ‫تصویر کا ہے‬ ‫جنازہ‪:‬‬ ‫مسلمانوں میں مردے کا غسل اور کفنا نے وغیرہ کے بعد اور‬ ‫دفنانے سے پہلے جنازہ پڑھاتے ہیں۔ یہ چار تکبیروں پر مشتمل ہوتا‬ ‫ہے اور فرض کفایہ ہے۔ اس میں حاضر میت کے لئے دعا کی جاتی‬ ‫ہے۔ یہ لفظ مسلمان تہذیب کا نمائندہ ہے اور مسلمانوں کے ساتھ‬ ‫برصغیر میں داخل ہوا۔ اردو شاعری میں اس اسلامی اصطلاح کا‬‫مختلف مفاہیم میں استعمال ملتا ہے۔ مصحفی نے میت کو لے کر چلنے‬ ‫‪:‬کو جنازہ کہا ہے‬

‫نہ چلے جنازے کے ساتھ وے مرے دو قدم بھی تو ناز سے‬‫یوں ہی کہنے سننے سے خلق کے ‪ ،‬ذرا ہاتھ آکے لگا گئے‬ ‫(‪)۵۵‬مصحفی‬‫میر محمد حسن فدوی نے میت اور میت کو اٹھا کر چلنے کو جنازہ کہا‬ ‫‪:‬ہے‬‫عاشق کا جنازہ ہے ذرا ہو ساتھ کہ حسر ِت دل مرحوم سے نکلے‬ ‫دھوم سے نکلے (‪)۵۶‬فددی‬‫‪:‬شیخ محمد بخش رسا نے جنازہ سے میت معنی مراد لیے ہیں‬‫اتنا تو کرم کر کہ ذرا ہاتھ لگا دے‬ ‫بن تیرے صنم میرا جنازہ نہیں‬ ‫اٹھتا (‪)۵٧‬رسا‬‫‪:‬غالب نے بھی میت کے معنوں میں نظم کیا ہے‬‫نہ کبھی جنازہ ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غر ِق دریا‬ ‫اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا‬‫کچھ بھی سہی یہ لفظ اردو شاعری میں اپنے مفاہیم اور استعمالات کے‬ ‫حوالہ سے اسلامی تہذیب کی نمائندگی کرتا ہے۔ میت اور میت سے‬ ‫متعلقات کو واضح کرتا ہے۔‬ ‫جنت‪:‬‬ ‫خالص عربی لفظ ہے اور اسلامی تہذیب و نظریات کا حامل کہا‬‫جاتاہے۔ نیک اور اچھے اعمال کے حامل اشخاص کو جنت اور جنت کا‬ ‫سودامیسر آ سکے گا۔یہ ہر قسم کے سامان عیش سے مزین ہو‬

‫گی۔وہاں ہر قسم کا ساما ِن سکون دستیاب ہو گا۔کوئی دکھ غم اور‬ ‫پریشانی نہ ہو گی نیک لوگوں کو جنت میں ستر حوریں (جنت کی‬ ‫عورتیں)ملیں گی۔اس لالچ میں انسان برائی اور بدی سے دور رہتا‬‫ہے۔یہ لفظ عربی تہذیب کی نمائندگی کرتا ہے اور ان کے فکری زاویوں‬ ‫کو نمایاں کرتا ہے۔یہ لفظ انسانی رویے اورفطرت کو بھی کھولتا ہے‬ ‫کہ وہ کتنا لالچی ہے کہ بغیر مفاد کے نیکی اور اچھائی کی طرف مائل‬ ‫نہیں ہوتا ۔اس کے مترادف الفاظ بہشت ‪،‬خلد‪ ،‬ارم اور فردوس بھی‬ ‫اردوشاعری میں استعمال ہوتے آئے ہیں۔یہ چاروں الفاظ مہاجر ہیں‬ ‫لیکن بعض مفاہیم اور استعمالات کے حوالے سے مہاجر نہیں‬ ‫‪:‬رہے۔اردو غزل میں اس کااستعمال ملا خطہ ہو‬‫دیرو کعبہ سے ‪،‬کلسا ؤں سے دور (‪)۵۸‬شکیب جن ِت فکر بلاتی ہے‬ ‫جلالی‬ ‫رعنائی فکر‪،‬سوچ کے خوبصورت زاویے‪،‬سوچ کی رنگارنگی ‪،‬حس ِن‬ ‫تخلیل‬ ‫‪:‬اب غالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال دیکھئے‬‫دل کے خوش رکھنے کو غالب ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن‬ ‫یہ خیال اچھا ہے‬ ‫غالب نے مرنے کے بعد اچھے اعمال کے صلہ میں ملنے والی جنت‬ ‫(اجر)کو باندھا ہے‬ ‫چالاک‪:‬‬‫ا س لفظ کو فارسی خیال کیا جاتا ہے۔ فارسی میں اس کے معنی چست‬

‫اور مستعد کے ہیں۔یہ لفظ اردو میں فارسی کے حوالے سے داخل نہیں‬ ‫ہو ا اور نہ ہی فارسی مفاہیم کے ساتھ اردو میں استعمال ہوتا ہے‬‫۔ڈاکٹر سہیل بخاری اسے چال اور اک کا مرکب بتاتے ہیں(‪)۵۹‬چال چلن‬ ‫‪،‬معروف اردو محاورہ ہے۔ چال فریب دغا داؤ پیچ‪ ،‬شطرنج کے مہرے‬ ‫کو حرکت دینا‪ ،‬تاش کا پتہ کھیلنا‪ ،‬شرینتر وغیرہ معنوں میں استعمال‬ ‫ہوتا ہے۔مثلاا‬‫اے مان بھری چنچل تجھ چال کی قیمت سوں دل نئیں ہے مرا واقف‬ ‫ٹک بھاؤ بتاتی جا(‪)۶٠‬ولی‬ ‫چال ‪:‬‬ ‫انداز‪ ،‬طور ‪،‬ناز نخرا‪ ،‬چلنے کا انداز‬ ‫شہہ پا کے غیر ہم سے اڑ کر چال چلتے دیتا نہیں جوہم کو تو‪ ،‬شوخ‬ ‫بے وفا ‪،‬رخ(‪)۶١‬آفتاب‬ ‫چال چلنا معروف اردومحاورہ ہے۔ شعر میں فریب دھوکہ‪،‬سازش جس‬‫سے اذیت دکھ یا نقصان ہوکے معنی میں استعمال ہواہے۔حال چال ۔چال‬ ‫باز چال بازی‪ ،‬چال مستانی ‪،‬غضب کی چال وغیرہ ایسے مرکبات عام‬ ‫پڑھنے سننے کو ملتے ہیں۔ ان کے باطن میں چال کی فارسی روایت‬ ‫موجودنہیں ۔ چالاک استعمال اور مفہومی حوالہ سے دیسی لفظ‬ ‫ہے۔اسے اس کی مکتوبی صورت کے حوالہ سے بدیسی سمجھ لیا‬ ‫گیاہے۔فارسی میں چالاک کسی جانور یا آدمی کے چاک و چوبند سے‬‫علاقہ رکھتا ہے۔اسی حوالہ سے اس کا بدیسی تہذیبی حوالہ سامنے آتا‬ ‫ہے۔دیسی لفظ چالاک میں عیاری ومکاری وغیرہ کے عناصر موجود‬

‫رہتے ہیں۔پنجابی میں اس کا مترادف’’ کچھرا‘‘ ہے۔‬ ‫غالب کے ہاں یہ لفظ مزاج آشنا ہوشیار جسے آگہی حاصل ہو گئی ہو‬ ‫‪:‬کے معنوں میں استعمال ہوا ہے‬ ‫رسوا گوہوئے آوارگی سے ہم بارے طبعیتوں کے تو چالاک ہوگئے‬‫چرخ کو فارسی لفظ کہا جاتا ہے فارسی میں اس کے معنی چرخ‪:‬‬ ‫آسمان‪،‬پہیا‪،‬سائیکل‪،‬گاڑی‪،‬دور‪ ،‬قسمت‪ ،‬گریبان ‪،‬کمان ‪،‬چرخ کا اصل‬ ‫دیسی روپ \"چرکھ\" ہے۔ \" چرکھا\"اسی سے ترکیب پایا ہے لیکن اس‬ ‫کا تعلق فارسی لفظ چرخ سے نہیں۔اردو غزل میں زیادہ تر بلا‪ ،‬دکھ‪،‬‬ ‫مصیبت ‪،‬ایذا پہنچانے والا وغیرہ معنوں میں استعمال کیا جا تا‬ ‫ہے۔(‪)۶٢‬گویا اس لفظ کا دیسی کلچر‪،‬فارسی کلچر سے قطعی مختلف‬‫ہے۔خواجہ حسن اللہ بیان نے دکھ دینے والا ساتھی کے معنوں میں نظم‬ ‫‪:‬کیا ہے‬ ‫ہو چرخ تو بھی اس ستم ایجاد کی طرف کافی ہے یا س اس دل ناشاد‬ ‫کی طرف(‪)۶۳‬بیان‬ ‫چرخ بمعنی آسمان جو اس ستم ایجاد کا دکھ دینے میں ساتھ دیتا ہے۔‬ ‫‪:‬انیس نے نکال باہر کرنے والا کے معنوں میں برتا ہے‬ ‫سیاہ بختوں کو یوں باغ سے نکال اے چرخ کہ چارپھول تو دامن میں‬ ‫ہوں سیر کی طرح(‪ )۶۴‬انیس‬ ‫غالب کے ہاں فتنہ پردازاور مصیبت والی بلا کے معنوں میں استعمال‬ ‫‪:‬کیا ہوا ہے‬‫وہ آئیں گے مرے گھر وعدہ کیسا دیکھنا نئے فتنوں میں اب چرخ کہن‬

‫کی آزمائش ہے‬ ‫حور‪:‬‬ ‫عربی اسم مونث حواء کی جمع ۔اردو میں واحد استعمال ہوتا ہے‬ ‫اور اس کی جمع حوریں‪،‬حوروں اور حوراں مستعمل ہیں مثلاا‬ ‫اڑاتے مکھی ہیں انوکے اوپر(‪ )۶۵‬حوراں فاطمہ گرد بیٹھی ہو کر‬ ‫اسماعیل لاہور ی‬‫حوروں پہ مر رہا ہے یہ شہوت کب حق پرست ‪،‬زاہد جنت پرست ہے‬ ‫پرست ہے(‪ )۶۶‬ذوق‬ ‫‪:‬اس لفظ کے عربی نہ ہونے کی چار وجوہ موجود ہیں‬ ‫اول‪:‬‬ ‫ذوق کے ہاں جنت والی حوریں مراد لی گئی ہیں تا ہم دیسی‬‫طریقہ سے جمع الجمع بنا کر استعمال میں لائے ہیں۔عربی میں زمینی‬ ‫عورت کے لئے لفظ\"حور\"مستعمل نہیں۔بطورتشبیہ یا مجازاا استعمال‬ ‫ہوتا ہو تواس کے لئے قرآنی نظریہ واضح طور پر موجود‬ ‫ہے۔حورمقصورت فی الخیام(‪ )۶٧‬جنت کی عورتیں جو خیموں میں‬ ‫پوشیدہ ہیں! سورگ کی عورتوں کے لئے افسر ا‪/‬اپسرا لفظ استعمال‬ ‫ہوتے ہیں۔‬ ‫دوم‪:‬‬ ‫اردو میں خوبصورتی کے اظہار کے لئے اس لفظ کا بطور‬ ‫‪:‬مذکربھی استعمال ہوتا ہے‬

‫تھا وہ تو رش ِک حو ِر بہشتی ہمیں میں میر سمجھے نہ ہم تو فہم کا‬ ‫اپنی قصور تھا(‪)۶۸‬میر‬ ‫سوئم‪:‬‬ ‫زمینی حور مستور نہیں‪ ،‬دیکھی بھالی ہے۔ اس کا وجود پوشیدہ‬ ‫‪:‬نہیں‬‫نے موئے پری ہے ایسے ٍ ؂سر مشک کا تیرا ہے تو کافور کی گردن‬ ‫نہ یہ حور کی گردن (‪ )۶۹‬مصحفی‬ ‫چہارم‪:‬‬ ‫اردو میں حور نہایت ہی خوبصورت عورت کے لیے استعمال ہوتا‬ ‫‪:‬ہے‬ ‫حور و پری کا جائے دم منہ سے نقاب دے جو مرا مہ جبیں الٹ‬ ‫اے ہم نشیں الٹ (‪ )٧٠‬لالہ چنی لال حریف‬ ‫ہندی میں ور بمعنی بڑا ‪ ،‬اعلی ‪ ،‬سب سے اچھا‪ ،‬دلہا‪ )٧١( :‬سنسکرت‬ ‫میں ور‪ ،‬بر بمعنی سب سے اچھا‪ ،‬منتخب‪ ،‬بہتر ‪ ،‬خواہش کے‬ ‫مطابق(‪ )٧٢‬بولتے ہیں۔عربی کے زی ِر اثر \"ح\"کی آواز داخل ہو گئی‬ ‫ہے اور اسے عربی سمجھ لیا گیا ہے۔ قرآن حواء کو مستور قرار دیتا‬ ‫ہے۔ عربی کلچر‪ /‬تعلق کے سبب برصغیر کی عورتیں بھی پردہ میں‬ ‫رہتی ہیں۔ اس عنصر کے زیر اثر عورت کے لیے حور کا لفظ استعمال‬ ‫میں آگیااور اس پر بہشتی حوروں کی خوبیاں کا اطلاق کر دیا گیا۔‬ ‫گویاو ْر‪ ،‬ور اورب ْر اس لفظ کی ترکیب و تشکیل کا موجب بنے۔ ور‪ ،‬و ْر‬

‫پر \"ح\"بڑھا دیں یہ لفظ حور بن جائے گا۔ان حقائق کے حوالہ سے کہا‬‫جا سکتا ہے \"حور\"ہندی عربی کلچر کے اختلاط کا بہترین نمونہ ہے۔‬ ‫اب اس لفظ کو اردو سمجھنا چاہیے۔‬‫‪:‬غالب کے ہاں حور زمینی معشوق کے لیے (واحد) استعمال ہوا ہے‬‫کس رعونت سے وہ میں جو کہتا ہوں کہ ہم لیں گے قیامت میں تمہیں‬ ‫کہتے ہیں کہ ہم حور نہیں‬‫‪:‬اس شعر میں دو نظریے دیے ہیں‬‫قیامت مینیہی عورتیں بطور حور ملیں گی ا)(‬‫زمینی عورتوں کے مقابل جنت کی حوریں کم تر ہوں گی ب)(‬ ‫خانقاہ‪:‬‬ ‫خان ‪ ،‬بادشاہ‪ ،‬ملک ۔ قاہ‪ ،‬متبادل لاحقہ گاہ۔ بادشاہ‪/‬ملک کی اقامت‬ ‫گاہ۔ لفظ اور لاحقہ بدیسی ہیں۔ خانقہ بھی لکھنے میں آتا ہے۔ لفظ‬ ‫خانقاہ اسلامی تصوف سے وابستہ ہے۔ مشائخ کی اقامت گاہوں کے‬ ‫لئے یہ لفظ مستعمل چلا آتا ہے۔ خانقاہوں میں مشائخ نے بہت پہلے‬‫سے رشدوہدایت کا سلسلہ جاری رکھا ہواہے۔ خانقاہوں کی اپنی روایات‬ ‫اور اصول چلے آتے ہیں۔ اردو غزل میں اس لفظ کا استعمال ہوتا رہا‬ ‫ہے۔ مثلاا میر صاحب کے ہاں اس کا استعمال دیکھیں۔‬‫نکلا تھا آستین سے کل مبغچے کا ہاتھ‬ ‫بہتوں کے خرقے چاک‬ ‫ہوئے خانقاہ میں (‪ )٧۳‬میر‬‫یہاں اپنے حقیقی معنوں میں نظم ہوا ہے۔ غالب کے ہاں بھی اصل‬ ‫‪:‬معنوں میں استعمال ہوا ہے‬

‫مسجد ہو‪ ،‬مدرسہ ہو ‪ ،‬جب میکدہ چھٹا تو پھر اب کیا جگہ کی قید‬ ‫کوئی خانقاہ ہو‬ ‫خدا‪:‬‬ ‫یہ لفظ فارسی سے اردو میں داخل ہوا ہے اور اللہ کا مترادف‬ ‫سمجھا جاتا ہے۔ حضرت عیسی اب ِن مریم کے نام سے پہلے عیسائی‬ ‫لوگ \"خداوند\"کا سابقہ جوڑ دیتے ہیں۔\" خدا حافظ\" باقاعدہ اردو‬‫محاورہ ہے۔ اس محاورہ سے متعلق ادھر پانچ سات سال پہلے راقم کی‬‫اہل علم کے ساتھ گفتگو چلی۔ لفظ خدا جناب عیسی کی طرف توجہ لے‬ ‫جاتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ کچھ حلقوں میں اب \"اللہ حافظ\"بولا جانے‬ ‫لگا ہے۔ اللہ حافظ ‪ ،‬ہر حوالہ سے فصیح و بلیغ ہے۔‬ ‫‪:‬حافظ کے ہاں لفظ \"خدا\"کااستعمال ملاحظہ ہو‬ ‫تا ببوسم ‪ ،‬ہمچو گردون خا ِک ایوان ای شہنشاہ بلند اختر خدارا ہمتی‬ ‫شما حافظ‬‫اے بادشاہوں کے بادشاہ بلند پایہ خدا کے لیے توجہ کرتا کہ چوم لیں \"‬ ‫)مانند آسمان کے خاک تمہارے ایوان کی\" (‪٧۴‬‬ ‫‪:‬اردوشاعری میں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ ہو‬‫نہ دیتا جلوہ ہستی کا خدا قدم گر درمیاں ہوتا نہ اس محبو ِب عالم کا‬ ‫اپنی خدائی کو (‪ )٧۵‬میر نواب موزوں‬ ‫‪:‬خدا‪ ،‬اللہ کے معنوں مترادف استعمال ہو ا ہے‬‫خدا پناہ دے جس طر ف کو یہ چلے ہی ہیں کئی محبوب بن بنا کر آج‬ ‫دھاڑا جائے (‪ )٧۶‬حید ر شاہ حیدر‬

‫‪:‬خدا پناہ دے ‪ ،‬خدا کی پناہ‪ ،‬عام بولا جانے والا محاورہ ہے‬‫خدا کرے کہ مرا جلد نامہ جوا ِب نامہ تو کب بھیجتا ہے وہ ب ِت شوخ‬ ‫برآوئے (‪ )٧٧‬جہاں دار‬ ‫پرخداجانے کہ وہ ہرزہ دل وہیں ہووے گا میرا وہ جہاں ہووے گا‬ ‫کہاں ہووے گا(‪ )٧۸‬قائم‬ ‫‪ :‬خداجانے اورخداکرے عام بولے جانے والا اردو محاورے ہیں‬ ‫درج بالا تمام اشعار میں لفظ خدا‪ ،‬اللہ کے مترادف نظم ہوا ہے۔غالب‬ ‫کے ہاں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور مختلف نوعیت کے محاورے‬ ‫تشکیل پائے ہیں۔ مثلاا‬ ‫زندگی اپنی اس شکل سے گزری غالب ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا‬ ‫)رکھتے تھے (خدا رکھنا‬‫کبھی ہم ان کو کبھی اپنے وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے‬ ‫)گھر کو دیکھتے ہیں (خدا کی قدرت‬ ‫تم خداوند کہلاؤ خدا اور تم ہو بت پھر تمہیں پندار خدائی کیوں ہے‬ ‫)سہی(خداوند کہلانا‬ ‫‪:‬اس شعر میں اللہ کے سوا لفظ خدا کااستعمال ہوا ہے‬ ‫خرچ‪:‬‬ ‫لفظ \"خرچ\"کو عموماا عربی \"خرج\"خیال کیا جاتا ہے۔ اردو‬ ‫میں\"ج\"کا تبادل \"چ\"نہیں رہا۔ دوسرا خرچ ہر قسم کے نکلنے اور‬ ‫نکالنے سے متعلق رہا ہے۔ خرچ اردو میں رقم تصرف کرنے سے‬

‫متعلق ہے۔ خرچ ‪ ،‬قتل ہو جانے سے بھی جڑ گیا ہے۔ عموماا سننے‬‫میں آتا ہے \"وہ میرے ہاتھوں ضرور خرچ ہو جائے گا\"یہاں\"خرچ\"کو‬ ‫قتل کرنے کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ خرچ کا \"کھرچ \"تلفظ‬ ‫سننے میں آتا ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ عربی کے زیر اثر کھ کی‬ ‫جگہ خ رکھ دیا گیا ہے۔ خرچ ‪ ،‬خرج کی بگڑی ہوئی شکل نہیں ہے۔‬ ‫اسی سے خرچہ ترکیب پایا ہے۔ اردو غزل میں خرچ کو خرج کے‬ ‫مفہوم میں کبھی استعمال نہیں کیا گیا۔ مثلاا‬‫خرچ اپنا کہاں سے اٹھتا ہے (‪ )٧۹‬جمع رکھتے نہیں‪ ،‬نہیں معلوم‬ ‫مصحفی‬‫خرچ اٹھنا‪ :‬مصارف‪ ،‬ضروریات پر صرف ہونے والی رقم‬‫رنڈی سے تمہیں حیلہ حوالہ اے جان مرا خرچ ہے تنخواہ پہ رکھا‬ ‫نہیں رہتا (‪ )۸٠‬جان‬‫‪:‬غالب نے حاجت ‪ ،‬ضرورت وغیرہ کے معنوں میں نظم کیا ہے‬‫نہ کہہ کہ گریہ بہ مقدو ِر حسرت دل ہے‬ ‫مری نگاہ میں ہے جمع و‬ ‫خرچ دریاکا‬ ‫خستہ‪:‬‬‫یہ لفظ فارسی میں زخمی ‪ ،‬گھائل ‪ ،‬بیمار (وغیرہ) کے لیے‬ ‫استعمال ہوتا ہے۔ (‪ )۸١‬مثلاا‬ ‫‪:‬خیام کا یہ شعر ملاحظہ ہو‬‫دل خستہء روز گار و آشفتہ مدام مائیم دراو فتادہ چو مرغ بہ دام‬ ‫خیام‬

‫ہم یہاں ایسے پھنسے ہیں جیسے جال میں شکار پھنس جائے۔ دنیا (‬ ‫)سے دل زخمی اور ہمیشہ پریشان) (‪۸٢‬‬‫اردو میں \"خستہ\"کے لئے مفاہیم کے حوالہ سے یہ رویہ نہیں ملتا۔‬ ‫‪:‬اس ضمن میں چند مثالیں ملاحظہ ہوں‬‫خراب و خستہ و حیران و میں ایک روز چلا جاے تھا بیابان کو‬ ‫ناتواں تنہا (‪ )۸۳‬حاتم‬‫حالت ظاہری کے لیے استعمال میں آیا ہے پھٹے کپڑے‪ ،‬بال بکھرے ‪،‬‬ ‫برہنہ پا وغیرہ‬‫خبرتو لیجو کوئی خستہ مر گیا تو نہ ہو‬ ‫کہ آج آتی ہے آواز نوحہ‬ ‫زنداں سے (‪ )۸۴‬مصحفی‬‫براحال‪ ،‬پریشانی کی حالت‪ ،‬دکھ اور تکلیف کے سبب جو ٹوٹ گیا ہو‬‫کوئی صابر کوئی عشق کا مجنوں کہے‪ ،‬کوئی خستہ محزوں کہے‬ ‫ہاموں کہے‪ ،‬کوئی کچھ کہے کوئی کچھ کہے(‪ )۸۵‬صابر‬‫عشق کی وجہ سے پریشان حالی‬‫‪:‬اب غالب کا بھی معنوی چلن ملاحظہ فرمالیں‬‫اگرچہ پھینک دیا تم نے دور سے لیکن‬ ‫اٹھائے کیونکہ یہ رنجو ِر‬ ‫خستہ تن تکیہ‬‫خستہ درحقیقت کھستہ کا روپ ہے۔ کھ کی جگہ خ کی آواز رکھ دی‬ ‫گئی ہے۔معنی وہی رہنے دیے ہیں۔ کھستہ کے معنی بھر بھرا پن ‪،‬‬‫جیسے کھستہ بسکٹ۔ خستہ بری اور نازک حالت کو بھی ظاہر کرتا‬

‫ہے۔ جس میں مفلسی‪ ،‬زمانے کی تلخی ‪ ،‬پریشانی‪ ،‬ضروریات کی عدم‬ ‫فراہمی‪ ،‬مقدمہ بازی میں حالت‪ ،‬معاشی تنگی وغیرہ شامل ہیں۔‬ ‫خط‪:‬‬ ‫عربی میں خط سے مراد لائین‪ ،‬لکیر‪ ،‬سطر‪ ،‬لکھائی‪ ،‬کتابت‪،‬‬‫خوش نویسی لیتے ہیں جبکہ فارسی میں ابروا ورلبوں پر سبزہ معنی‬ ‫لئے جاتے ہیں۔ان دونوں زبانوں کے برعکس اردو میں نامہ‪ ،‬چھٹی‬ ‫۔داڑھی کا ٹھپ کے لیے تلفظ \"کھت\"سننے کو ملتا ہے۔ عربی کے‬‫زی ِراثر مکتوبی تبدیلی کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ دوسرا کھ کی‬‫تبادل آواز\"خ\" چلی آتی ہے۔ صرف مکتوبی تبدیلی ہوئی ہے معنی وہی‬ ‫رہے ہیں۔ داڑھی کے خط (کھت) کے حوالہ سے چار سماجی امور‬ ‫‪:‬سامنے آتے ہیں‬ ‫‪١‬۔ چہرے کی خاص وضع قطع‬ ‫مسجد کلچرا جاگر ہوتا ہے ‪٢‬۔‬ ‫انسانی جمالیات اور مخصوص فکر ی حوالے واضح ہوتے ہیں ‪۳‬۔‬ ‫حمام کلچر\"کھلتا ہے\" ‪۴‬۔‬ ‫عربی مفاہیم لکھنے پڑھنے جبکہ فارسی شاہد پرستی کی طرف لے‬ ‫‪:‬جاتے ہیں۔ اردو غزل سے چند مثالیں ملاحظہ ہوں‬ ‫پردوں میں جسم کے تھی مرے ہےئ ِت فلک یاں تک کہ تا ِراشک خ ِط‬ ‫مستقیم تھا (‪ )۸۶‬مصحفی‬ ‫کیا جانے لکھ دیا اسے خط پڑھ کے اور بھی وہ ہوا پیچ و تاب میں‬ ‫کیا اضطراب میں ذوق‬

‫دیکھتے ہی خط چلایوں شاہ حسن جس طرح معذور ہو عامل پھرا‬ ‫(‪ )۸٧‬سودا‬‫تینوں اشعار میں خط مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ استعمالات کا‬‫ڈھنگ بھی قطعی الگ سے ہے۔ اب غالب کے ہاں لفظ\" خط\"کا استعمال‬ ‫‪:‬ملاحظہ ہو‬ ‫میں جانتا ہوں جو وہ قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں‬ ‫لکھیں گے جواب میں‬ ‫معنوی بعد تو ہے ہی خط کے استعمال کا محاورہ بھی دیسی ہے۔ خط‬‫پڑھنا ‪ ،‬خط نکلنا‪ ،‬خط آنا ‪ ،‬اردو کا اپنا انداز تکلم ہے۔ لہذا خط کو کھت‬ ‫اور پتر کا مترادف سمجھنا زیادہ مناسب لگتا ہے۔‬ ‫خندہ‪:‬‬ ‫فارسی میں\"خندہ\"ہنسی کے لیے مخصوص ہے۔ یہ لفظ اپنی اصل‬ ‫میں\"کھندہ\"ہے۔ کھند کا مادہ \"کھنڈ\" ہے۔ ڈ کو د میں بدل کر کھنڈ بنا‬ ‫دیاگیا ۔ اگرچہ کھند بھی مٹھاس سے متعلق ہے۔ معنوی اختلاف تو ہے‬ ‫ہی استعمال بھی بدیسی نہیں مثلاا حاتم کا یہ شعر دیکھئے‬‫اس انجمن میں میں لب حسرت کو خندہ‪ ،‬کو تبسم وکو فرص ِت سخن‬ ‫گزیدہ ہوں (‪ )۸۸‬حاتم‬‫پہلے مصرعے میں خندہ اورتبسم الگ سے آئے ہیں۔ اس کا مطلب ہوا‬ ‫خندہ اور ہنسی کا باہمی کوئی تعلق نہیں۔ اگرچہ خندہ‪ ،‬تبسم اور سخن‬ ‫لب سے متعلق ہیں۔ گویا یہ تینوں لب کے الگ سے شیڈز ہیں۔ اب‬ ‫غالب کو دیکھئے۔‬

‫ہر خندہ کہ نکلے ہے وہاں سے جوں غنچہ و با ِل دل ہے غافل‬ ‫خندہ‪ ،‬لب سے متعلق ضرور ہے لیکن لب تک محدود نہیں \"کہ نکلے‬ ‫ہے\"ظاہر کر رہاہے خندہ کا لب کی دنیا سے باہر بھی کوئی تعلق ہے۔‬ ‫دلال‪:‬‬ ‫فارسی میں دلال کے معنی میانچی‪ ،‬رہنما‪ ،‬خریدوفروخت میں‬ ‫کمیشن لے کر کام کرنے والا جبکہ ِدلال کے معنی کرشمہ نازواداہیں۔‬‫(‪ )۸۹‬اس لفظ کو بدیسی شمار کیا جاتا ہے۔ اس لفظ کا ماخذ دل ہے۔ دلا‬‫ِاسی کا روپ ہے۔ برصغیر میں عورتیں پیش کر کے کمائی کرنے والے‬‫کو دلا کہا جاتا ہے۔اس کمائی میں سے اس کے حصہ کو \"دلالی\"کا نام‬ ‫دیا جاتا ہے۔‬ ‫دلال سے مراد دلا لانے والا یعنی دلانے والا۔ پنجابی میں ایک لفط \"و‬ ‫چولا \"بولا جاتاہے بمعنی وچ کا رلا‪ ،‬درمیان والا‪ ،‬فریقین میں رابطے‬ ‫کا ذریعہ ۔ وچولے کو رشتے کرانے والے تک محدود کر دیا گیا ہے۔‬‫دلال کو کمشن ایجنٹ کہہ کر پکارا جانے لگا ہے۔ اس کے معاوضے کو‬ ‫کمشن کا نام دے دیا گیا ہے۔ دلال کو سودا کرانے بھی والا کہا جاسکتا‬ ‫ہے۔ دلال عام بول چال کا لفظ رہا ہے۔ اس میں اب بدیسی ہونے کی‬ ‫بوخو نہیں رہی ہے۔یہاں زیر اور زبر ‪ ،‬دونوں سے سننے میں آتا ہے۔‬ ‫‪:‬خیام کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ ہو‬‫دلال قضا‪ ،‬برایگائش بہ فروخت مقراض اجل‪ ،‬طناب عمرش بہ برید‬‫موت کی قینچی نے زندگی کی طنابیں کاٹ دیں۔ موت کے دلال نے بلا (‬ ‫)قیمت فروخت کر دیا۔ ترجمہ میر مرتضی حسین فاضل‬

‫غالب کے ہاں اس کا استعمال دیکھیں۔ فارسی لفظ دلال کی بو تک نہیں‬ ‫‪:‬آتی‬‫چش ِم دلال جن ِس رسوائی‬ ‫د ِل خریدار ذو ِق رسوائی‬ ‫دوزخ‪:‬‬ ‫یہ لفظ اسلامی تعلیمات کے حوالہ سے اردو میں داخل ہوا ہے۔ کہا‬‫جاتا ہے ‪ ،‬بدکار اور اعما ِل بد کے حامل اشخاص کو اس میں ڈالا جائے‬ ‫گا۔ عربی میں جہنم استعمال میں آتاہے۔ دوزخ بدترین جگہ ہے جہاں‬ ‫دہکتی ہوئی آگ اور کھولتا ہوا پانی ہو گا۔انسان پتھر وغیرہ اس کا‬ ‫ایندھن ہوں گے۔ جب بھی اس سے پوچھا جائے گا بس یا اور تو یہ’’‬ ‫ھل من مزید‘‘ کہتی سنائی دے گی۔‬ ‫انسانی معاشرے میں سکون ‪ ،‬امن‪ ،‬توازن اورخیر کی فضا پیدا کرنے‬‫کے لیے اور بے انصافی کو روکنے کے لیے اس بدترین جگہ کا خوف‬ ‫دلایا جاتاہے۔ اس لفظ کا اردو میں حقیقی اور غیر حقیقی معنوں میں‬ ‫استعمال پڑھنے کو ملتا ہے۔ غیر حقیقی معنوں میں تنگی‪ ،‬سختی‪،‬‬‫پریشانی‪ ،‬دکھ ‪ ،‬درد‪ ،‬مصیبت وغیرہ کا اظہار ملتا ہے۔غیر حقیقی معنوں‬ ‫کے حوالہ سے اسے مہاجر کہنا درست نہیں۔ میر صاحب کے ہاں‬ ‫‪:‬دیکھئے‬‫آہ میں کب کی کہ سرمایہ دوزخ نہ ہوئی‬ ‫کون سا اشک منبع طوفاں‬ ‫نہ ہوا‬‫آہ کی شدت تلخی اور گرمی کو لفظ \"دوزخ \"کے حوالہ سے ظاہر کیا‬ ‫‪:‬گیا ہے۔ اب غالب کے ہاں استعمال دیکھئے‬

‫طاعت میں تار ہے نہ مے وانگیں کی لاگ دوزخ میں ڈال دو کوئی لے‬ ‫کر بہشت کو‬ ‫حقیقی معنوں میں نظم ہوا ہے اور انداز خالص ناصحانہ ہو گیا ہے۔‬ ‫ملاحظہ فرمائیں۔‬ ‫سیر کے واسطے تھوڑی کیوں نہ فردوس کو دوزخ میں ملالیں یارب‬ ‫فضا اور سہی‬ ‫انداز بدل گیا ہے۔ اس میں انسان کے ظرف‪ ،‬استعداد‪ ،‬تنوع پسندی‬‫وغیرہ کو واضح کیا گیا ہے۔ دوسرااس آمیزے سے اعتدال پیدا ہوجائے‬ ‫۔ اسی طرح حد سے بڑی تکلیف یا حد سے بڑھا سکھ اعتدال پر آکر‬ ‫انسان کو جامد نہیں ہونے دے گا۔فطرتاا انسان متحرک رہ کر ہی‬ ‫آسودگی محسوس کرتا ہے۔‬ ‫رخصت‪:‬‬ ‫یہ لفظ فارسی میں آسانی ‪ ،‬ارزانی‪ ،‬استواری اور لچکدار کے معنوں‬ ‫میں لیا جاتا ہے۔ اردو میں چھٹی ‪ ،‬اجازت‪ ،‬ودع کرنا روانگی وغیرہ‬ ‫کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ فارسی مفاہیم ایک خوبصورت‬‫معاشرے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اردو مفاہیم کے حوالہ سے یہ لفظ اب‬ ‫مہاجر نہیں رہا۔ حاتم کے ہاں اس کا استعمال ملاحظہ ہو‬ ‫تم سے اب اے دوستاں رخصت ہوے جاتے ہیں ہم‬ ‫اس کے کوچے میں گئے پھر گھر کو کب آتے ہیں ہم (‪ )۹٠‬حاتم‬ ‫رخصت ہونا ‪ ،‬ودع ہونا‪ ،‬چل دینا‬ ‫‪:‬غالب دیکھئے کس کروٹ بیٹھتے ہیں‬

‫تیرے چہرے سے ہو ظاہر غم رخص ِت نالہ مجھے دے کہ مبادا ظالم‬ ‫پنہاں میرا‬ ‫فارسی میں گری ہوئی ‪ ،‬بکھری ہوئی چیز کے معنوں میں ریختہ‪:‬‬ ‫استعمال ہوتاہے۔ اردو میں زبان‪ ،‬اردو شاعری ‪ ،‬اردو غزل کے اشعار‪،‬‬ ‫ریختی صن ِف شعر کے لیے استعمال ہوتاہے۔ اردو میں اس کے لغوی‬ ‫معنی کچ اور مسالہ کے ہیں۔ اس کا اصل روپ \"ریکھتا\"ہے۔ ریکھ‬ ‫فاصلہ اور دراڑکے معنی بھی رکھتا ہے۔ فارسی لفظ ریختہ کو دیسی‬‫مفاہیم کے ساتھ استعمال کیا جانے لگاہے۔ اردو استعمال کی چند مثالیں‬ ‫‪:‬ملاحظہ ہوں‬ ‫درریختہ در دیختہ ‪،‬ہم سعدی طرح انگیحتہ‪ ،‬شہدوشکر آمیختہ‬ ‫شعر ہے ہم گیت ہے (‪ )۹١‬سعدی‬ ‫سعدی کے ہاں شعرو گیت کے معنوں میں استعمال ہوا ہے‬ ‫عمر گذری ریختہ چھوٹاگیا (‪ )۹٢‬میر میر کس کو اب دماغِ گفتگو‬ ‫میر صاحب نے ریختہ کو اردو غزل کے معنوں میں استعمال کیا ہے‬ ‫غالب نے بھی اسے اردو غزل کے معنوں میں لیا ہے‬‫گفتہء غالب ایک بار یہ جو کہے کہ ریختہ کیونکہ ہو رش ِک فارسی‬ ‫پڑھ کے اسے سنا کہ یوں‬ ‫زکوۃ‪:‬‬ ‫اسلام کی شرعی کٹوتی کو زکوۃ کہا جاتا ہے۔ اسلام میں حلال مال‬ ‫میں سے ڈھائی فیصد سالانہ غریبوں اور حقداروں میں تقسیم کیا جاتا‬ ‫ہے اور یہ ایمان کا باقاعدہ رکن ہے۔ یہ لفظ عربی سے اسلام کے‬

‫حوالہ سے‪ ،‬اردو میں داخل ہوا۔ اردو والوں نے اس کے معنی بھی‬ ‫‪:‬تبدیل کر دیئے ہیں۔ تا ہم واجب ہونے کا لازمہ برقرار نظر آتاہے‬‫بے نوا ہوں زکوۃ حسن کی دے اومیاں مالدار کی صورت بے نوا‬‫چراغِ خانہء درویش ہر کا زکوا ِت حسن دے اے جلوۂ بینش کہ مہرآسا‬ ‫سرگدائی کا (‪ )۹۳‬غالب‬‫ان اشعار میں زکوات بمعنی بوسہ نظم ہوا ہے۔‬ ‫سیر‪ :‬سیر‪:‬‬ ‫لفظ سیر عربی سے اردو میں داخل ہوا ہے لیکن معنوی اختلاف‬ ‫اور استعمالی سلیقے نے اسے عربی نہیں رہنے دیا۔ عربی میں اس‬‫کے معنی حال‪ ،‬روش‪ ،‬طر ِز عمل‪ ،‬چلن ‪ ،‬روانگی‪ ،‬رفتار‪ ،‬ترقی وغیرہ‬‫ہیں۔ اردو میں جو تشنہ نہ ہو‪ ،‬پر ‪ ،‬قدر دان‪ ،‬صاح ِب حیثیت‪ ،‬مطالعہ‪،‬‬ ‫تفریح وغیرہ معنوں میں استعمال ہوتاہے۔ اس ضمن میں چند مثالیں‬ ‫‪:‬ملاحظہ ہوں‬‫میاں چل سیر کرابرو ہوا ہے‬ ‫ہوا ہے کوہ و صحرا جا بجا سبز‬ ‫(‪ )۹۴‬حاتم‬‫تفریح ‪ ،‬تفریح کی غرض سے چلنا پھرنا‬‫یہ شیشہ بیچنا ہے کسی مظہر چھپا کے رکھ د ِل نازک سیر کے تئیں‬ ‫میرزا کے ہاتھ (‪ )۹۵‬مظہر‬‫دیدار‪ ،‬زیارت ‪ ،‬محبوب کے کوچے میں آنا جانا‬‫بدگماں بھائی سے اپنے‪ ،‬وہ لگی کہنے کہ ایسا ہے یہ بھڑوانیم سیر‬

‫ہو لگے گرمجھ کو دیر (‪ )۹۶‬نوا‬ ‫شکی مزاج‪ ،‬ناشکرا‪ ،‬اعتماد نہ کرنے والا ‪،‬وہمی‬ ‫سیر کر تو بھی یہ درہمی حال کی ہے سارے مرے دیواں میں‬ ‫مجموعہ پریشانی کا ( ‪)۹٧‬میر‬ ‫‪:‬مطالعہ ‪،‬لطف اندوزی‪،‬حظ اٹھانا ‪،‬مختلف ذریعہ سے مطالعہ لطف لینا‬‫غالب نے تفریح کر کے سیر سپاٹے سے لطف اندوزی کے معنوں میں‬ ‫‪:‬نظم کیا ہے‬ ‫کیوں نہ فردوس کو دوزخ میں ملالیں یا رب سیر کے واسطے تھوڑی‬ ‫سی فضا اور سہی‬ ‫پنجابی میں سیر کے سیل بولتے ہیں ۔گھومنے پھرنے والے اور موڈ‬ ‫موج والے کے لئے سیلانی بولتے ہیں‬‫باغ و بہار\"کا یہ جملہ ملا خطہ ہوں‪\":‬قدم قدم سیر کرتے ہوئے چلے \"‬ ‫)جاتے تھے\"(‪۹۸‬‬ ‫درج بالا معر وضات کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ سیر اردو میں‬ ‫مہاجر نہیں رہا اس نے اردو کا معنوی سلیقہ اختیار کرلیا ہے۔دوسرا‬‫سیل کی ل‪،‬س میں بدل گئی ہو بعید از قیاس نہیں ۔اگر یہ لفظ پہلے سے‬ ‫سیر ہے تو عر بی لفظ سیر سے اس کا کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے ۔‬ ‫شادی‪:‬‬ ‫شادی شاد پر ’’ی‘‘ کی بڑھوتی سے ترکیب پایا ہے جس کے‬‫معانی خوش و خرم کے ہیں۔اس حوالہ سے خوشی کی تخصیص ممکن‬

‫نہیں ۔خوشی کسی قسم کی بھی ہو سکتی ہے۔اردو میں یہ لفظ شادی‬ ‫بیاہ کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ ان معنوں میں یہ لفظ مہاجر نہیں‬ ‫‪:‬ہے ۔ مثلاا ہدایت کا یہ شعر ملا خط ہو‬ ‫دیدہ عالم کا کوئی دم کیجئے کس کی شادی و کس کا غم کیجیے(‪)۹۹‬‬ ‫ہدایت اللہ ہدایت‬ ‫‪:‬غالب کے ہاں بھی قریباا اِن ہی معنوں میں استعمال ہوا ہے‬ ‫ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق نوحہ غم ہی سہی نغمہء‬ ‫شادی نہ سہی‬ ‫شکست‪:‬‬‫شکست فارسی مصدر شکستن سے ہے۔ ٹوٹا ہوا عموماا بولا جا تا ہے۔‬ ‫شکست و بست یعنی توڑ ‪ ،‬ٹوٹ پھوٹ۔اردو غزل میں فارسی مفاہیم‬ ‫سے ہٹ کر بھی استعمال میں آتا ہے مثلاا‬ ‫وہ دن گئے کلیم کہ یہ آتی ہے دل پہ قلقل مینا سے اب شکست‬ ‫شیشہ سنگ تھا (‪ )١٠٠‬محمد حسین کلیم‬ ‫دراڑ‪،‬تیرڑ‪،‬چوٹ‪،‬اذیت ‪،‬دکھ‪،‬پیشمانی‪،‬تکلیف‪،‬جس سے خرابی کی‬ ‫صورت نکلتی ہو‬ ‫‪:‬میر صاحب نے خلل پیشمانی دراڑ دکھ ملال کے معنوں میں برتاہے‬ ‫آئی جو شکست آئنے پر روئے د ِل یارا دھر نہ ہو گا (‪)١٠١‬میر‬ ‫‪:‬اس کی جمع بھی دیسی طریقہ سے بنائی جاتی ہے‬ ‫یکسر وہ استخوان شکستوں کل پاؤں ایک کا سۂ سر پر جو آگیا‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook