١۸۴۔پشتو اردو بول چال،ص ١۵٢ ١۸۵۔پشتو اردو بول چال ،ص ١۵٢١۸٧۔مثنوی رمز العشق ،ص ١۸۶۔پشتو اردو بو ل چال ،ص ١۵٢ ۶۴١۸۸۔محک الفقرا،ص ۱۸۹ ۴۶۔لغات القرآن ج ا ،ص ۳۴١۹١۔انوا ِر اولیا (کامل)،ص ١۹٠ ۳۸٢۔فیروز اللغات ،ص ١۵٠١۹۳۔ہندی اردو لغت،ص ١۹٢ ١۸۹۔ لغات القرآن ج ،٢ص ١۸۹١۹۵۔انورا اولیا (کامل) ،ص ١۹۴ ۴۶۔لغات القرآن ،ج ١٢۶١۹٧۔مصباح اللغات ،ص ١۹۶ ١۴۹۔ مصباح اللغات ج ا ،ص ٢٧۴١۹۹۔لغات القرآن ج ،٢ص ١۹۸ ٢۶۴۔المنجد،ص ٢٠٢٢٠١۔رحمن٢٠٠ ٧٢:۔لغات القرآن ج ،٢ص ٢٧٧٢٠۳۔ انوار اولیا (کامل) ،ص ٢٠٢ ۵۴۔انوار اولیا(کامل ) ،ص ۵۴٢٠۵۔فرہنگ فارسی ،ڈاکٹر ٢٠۴۔فیروز اللغات ،ص ۵۸۵ عبدالطیف ،ص ۳٢۴٢٠۶۔مفردات القرآن ج ا ،راغب اصفہانی ،مترجم مولوی محمد عبداللہ فیروز پوری ،ص ۴۳۵۔۴۳۴٢٠۸۔فیروز ٢٠٧۔ فیروز اللغات ،مولوی فیروز الدین ،ص ٧۵١ اللغات ،ص٧۸٢٢١٠۔لغات القرآن،ص ٢٠۹ ١٠١۔لغات القرآن ج ،۴ص ١۵
٢١٢۔لغات القرآن ،ص ٧١ا٢١۔فیرو ز اللغات ،ص ۸۹٠٢١۳۔لغات القرآن ج ،۴ص ٢١۴،٢١۵ ٢١۴۔لغات القرآن ج،۴ ص۵٢۶١٢١۶۔رحمن٢١۵ ٢۶:۔لغات القرآن ج ،۴ص ٢٧٧،٢٧۶٢١۸۔فیروز اللغات ،ص ٢١٧ ١١٠٧۔فیروز اللغات ،ص ١٠١٧٢٢٠۔فیروز اللغات ،ص٢١۹ ١٢۸۹۔فیروز للغات ،ص ١٠١٧٢٢٢۔فیروز للغات ،ص ٢٢١ ١۴١١۔ فیروز اللغات ،ص ١۳١۳٢٢۵۔فرہنگ فارسی،ص ٢٢۳ ١٠٢۴۔فیروز اللغات ،ص ١۴۶۸٢٢٧۔لغات نظامی ،ص ٢٢۶ ۶١۔فیروز للغات ،ص ١۴٧۸٢٢۹۔فرہنگ عامرہ ،ص ٢٢۸ ١٢۹۔ لغات نظامی ،ص١٢۴٢۳١۔ اظہر لغا ت ،ص ٢۳٠ ٢۸٠۔فرہنگ عامرہ ،ص ١٧۸٢۳۳۔فرہنگ عامرہ ،ص ٢۳٢ ٢١۶۔اظہر لغات ،ص ٢۸۴٢۳۵۔ آئینہ اردو لغت ،ص ٢۳۴ ۹۹۶۔فرہنگ فارسی ،ص ۵۶۴٢۳٧۔ لغات نظامی ،ص٢۳۶ ۵۴۵۔ اظہر اللغات ،ص ۴۶۹٢۳۹۔ لغات نظامی ،ص ٢۳۸ ٧۴۴۔لغات نظامی ،ص ۵۴۹٢۴١۔ لغت نظامی ،ص ٢۴٠ ٧۹۵۔ لغات نظامی ،ص ٧۴۴٢۴۳۔ آئینہ اردو ،ص ٢۴٢ ١۶١۔ آئینہ اردو نعت ،ص ۳۵٢۴۵۔ فرہنگ عامرہ ،ص ٢۴۴ ۹۵۔ آئینہ اردو لغت ،ص ۳۶١
٢۴٧۔ آئینہ اردو لغت ،ص ٢۴۶ ٢۹۳۔ لغا ِت نظامی ،ص ١۳٠ ٢۴۹۔ فرہنگ فارسی ،ص ٢۴۸ ۳۴۴۔ آئینہ اردو لغت ،ص ۵۸۶ ٢۵١۔ لغا ِت نظامی ،ص ٢۵٠ ۴۸١۔ فرہنگ نظامی ،ص ۵٢۵ ٢۵۳۔ آئینہ اردو لغت ،ص ٢۵٢ ١١۸٢۔ لغا ِت نظامی ،ص ۵٠١ ٢۵۵۔ اظہراللغات ،ص ٢۵۴ ٧٧۳۔ اظہراللغات ،ص ۶۸۸ ٢۵٧۔ اظہر اللغات ،ص ٢۵۶ ۳۵۔ لغا ِت نظامی ،ص ۸۳۴ ٢۵۹۔ لغا ِت نظامی،ص ٢۵۸ ٢۴۔ فرہنگ عامر ،ص ٢٢ ٢۶١۔ لغا ِت نظامی ،ص ٢۶٠ ۸٠۔ آئینہ اردو لغات ،ص ۳۴ ٢۶۳۔ اظہر اللغات ،ص ٢۶٢ ٢۵٧۔ لغا ِت نظامی ،ص ١۸۶ ٢۶۵۔ اظہر اللغات ،ص ٢۶۴ ٢٧٠۔ لغا ِت نظامی ،ص ٢۴۹ ٢۶٧۔ آئینہ اردو لغت ،ص ٢۶۶ ٧۳۵۔ لغا ِت نظامی ،ص ۳٢١ ٢۶۹۔ آئینہ اردو لغت ،ص ٢۶۸ ٧۹۵۔ آئینہ اردو لغت ،ص ٧۶٢ ٢٧١۔ آئینہ اردو لغت ،ص ٢٧٠ ١٠۳۹۔ آئینہ اردو لغت ،ص ۸١١ ٢٧۳۔ فرہنگ عامرہ ،ص ٢٧٢ ۴٧۳۔ فرہنگ عامرہ ،ص ۴٠٠ ٢٧۵۔ لغا ِت نظامی ،ص ٢٧۴ ٧۵۵۔ لغات نظامی ،ص ٧۵۵ ٢٧٧۔ اظہر اللغات ،ص ٢٧۶ ٧۸۹۔ لغا ِت نظامی ،ص ٧٧۶٢٧۹۔ نفسیات ،ص ٢٧۸۔ نفسیات ،حمیر ہاشمی وغیرہ ،ص ٢٢١ ١۴۴۔ ١۴۳
٢۸١۔ نفسیات ،ص ٢۸٠ ۸١۴۔ نفسیات ،ص ۸٢١٢۸۳۔ فیروز اللغات ،ص ٢۸٢ ١۶۹۔نفسیات ،ص ٧٧١٢۸۵۔ نفسیات ،ص ۸۴۸۔٢۸۴ ۴۴٧۔ نفسیات ،ص ۸١۴٢۸٧۔ فیروز اللغات ،ص ٢۸۶ ١۶۹۔ فیروز اللغات ،ص ١٧٠٢۸۹۔ فیروز اللغات،ص ٢۸۸ ۹۵۶۔ فیروز اللغات،ص ۹۵۶٢۹١۔ فرہنگ فارسی ،ص ٢۹٠ ۴۹۶۔فیروز اللغات ،ص ١۳۵٢٢۹۳۔ فیروز اللغات ،ص ٢۹٢ ٧۹۳۔ فیروز اللغات ،ص ٧٠١٢۹۵۔ فرہنگ فارسی ،ص ٢۹۴ ٢۸۔ فیروزاللغات ،ص ٢٧٢۹٧۔فیروز اللغات ،ص ٢۹۶ ٢٢۹۔فیروز اللغات ،ص ۴۸۶٢۹۹۔فیروز اللغات ،ص٢۹۸ ١٢۵۵۔فرہنگ فارسی ،ص ٢۸۸۳٠١۔فیروز اللغات ،ص۳٠٠ ۳۳۴۔فیروز اللغات ،ص٢۵۵۳٠٢۔فیروز اللغات ،ص۳۳۴ ۳٠۳۔اقلید س ج ا ،مکتبہ کو ِہ نور لاہور ،١۸۵۸ ،ص ا۳٠۵۔فیروز اللغات ،ص۳٠۴ ۹٠١۔فیروز اللغات ،ص۵۶۸۳٠٧۔فیروز اللغات ،ص۳٠۶ ۸۴١۔فیروز اللغات ،ص۴٠۴ ۳٠۸۔فیروز اللغات ،ص۸۴۵
باب نمبر۶ غالب کے ہاں مہاجر اور مہاجر نما الفاظ کے استعمال کا سلیقہاردو ہر قسم کی آواز ،قوائد کی لچک پذیری اور جذب کرنے کی شکتیسے مالا مال ہے۔ اس کی اِس خاصیت کے سبب مقامی اور غیر مقامیزبانوں کے بے شمار الفاظ ِاس کے ذخیرۂ الفاظ میں داخل ہو تے رہتے ہیں۔جس سے اردو کے اظہاری دائرے میں وسعت آئی ہے ۔برصغیر میں مختلف امرجہ سے متعلق لوگ مختلف حوالوں سے آتے رہتے ہیں ۔اسی طرح برصغیر کے لوگ بھی باہر کی ولائتوں کا سفر اختیار :کرتے رہتے ہیں ۔مہاجرت کے حوالہ سے بدیسی معاشرت ،سماجی اقدار،سیاسی و معاشی اصولوں *
اورلفظوں نے بھی مہاجرت اختیار کی ہے مہاجر الفاظ کو دیسی (برصغیرکے ) اصولوں کو اپنانا پڑا ہے *مہاجر کسی ایک مقام پر وارد ہوتا ہے،ایڈجسٹمنٹ کی مجبوری * اور ضرورت کے تحت اسے وہاں کا لہجہ اختیار کرنا پڑتا ہےمہاجرنادانستگی میں اپنی زبان ،مقامی زبان کی طرز پر بولنے * لگتا ہے۔اس اختیاری لہجے کے ساتھ اس کی زبان کے بہت سے الفاظ مقامیت اختیار کرتے چلے جاتے ہیں مقامی باشندے بدیسی الفاظ اپنے لہجے میں اختیار کرتے ہیں * اختیاری الفاظ دیگر مقامات پر مقامی باشندوں کے حوالہ سے * ٹرانسفر ہوتے رہتے ہیں ۔وہاں کے لہجوں کے تحتپھر سے اشکالی اورمعنوی تبدیلیوں کا عمل شروع ہو جاتا ۔اس طرح ایک ہی لفظ سو طرح سے اور سوطرح کے معنوں میں مقامی زبانوں کا حصہ بن جاتے ہیں وقت اور ضرورت کے تحت نئے الفاظ کا تبادل ہوتا رہتا ہے *اردو ان عوامل سے کبھی دور نہیں رہی۔ اس نے دیگر مقامی زبانوں اور بولیوں سے کہیں زیادہ فراخدلی سے کام لیا ہے۔ اس میں اصل اور تبدیل شدہ ،مقامی اور غیر مقامی الفاظ نے مختلف طور و انداز سے مہاجرت اختیار کی ہے۔ اس کی عموماا سات صورتیں رہی ہیں
١۔ اپنی اصل شکل اور اصل معنوں میں وارد ہوتے آئے ہیں ٢۔ اپنی اصل شکل میں وارد ہوئے ہیں لیکن معنی بدل گئے ہیں۔اصل اور تبدیل شدہ معنوں میں مستعمل چلے آتے ہیں ۳۔ الفاظ کی ہیئت وساخت میں اردو کے لسانی سیٹ اپ کے تحت تبدیلی واقع ہوئی ہے لیکن معنوں میں تبدیلی نہیں آئی ہے ۴۔ ہیئتی اور ساختیاتی تبدیلی کے ساتھ مفاہیم بھی بدل گئے ہیںاردوا لفاظ میں بدیسی آوازیں داخل ہو گئی ہیں لیکن معنی دیسی ۵۔ ہی رہے ہیں بدیسی الفاظ کو مقامی معنوں میں استعمال کیا جاتا رہا ہے ۶۔ بدیسی الفاظ کے ساتھ اردو مصادر پیوند کر دیئے گئے ہیں ٧۔ دیسی و بدیسی آمیزے کو مختصر کر لیا گیا ہے ب۔ اگلے صفحات میں غالب کی اردو کی غزل سے مہاجر اور مہاجر نماالفاظ منتخب کر کے ان پرشعری اسنادکے ساتھ گفتگو کی گئی ہے۔ اس سے نہ صرف تفہیم غالب میں مدد ملے گی بلکہ غالب کا قاری ان الفاظ کی ادبی اورتہذیبی تاریخ سے بھی آگاہ ہو سکے گا ۔تشریح و تفہیم کاکام لفظ کی ادبی اور تہذیبی آگاہی کے بغیر ادھورا اور بعض اوقات لایعنی قرار پاتا ہے آتش: فارسی اسم مونث کہا جاتا ہے ۔یہ لفظ چار تہذبوں سے جڑا ہوا
ہے اسرائیلی تہذیب ،حضرت ابراہیم کو بت پرستی کی مذمت کی ا۔ پاداش میں نمرود نے دہکتی آگ میں پھینک دیا ۔ حضرت موسی آگ کی تلاش میں نکلے ۔ کوہ طور پر آگ نظر آئی۔وہ اپنی حقیقت میں اللہ کے نور کی تجلی تھی ۔ان دونوں کے حوالہ سے اردو ادب میں\"آت ِش نمروداور\" بر ِق تجلی \" ایسے مرکبات پڑھنے کو ملتے ہیں ۔ جناب زرتشت کے پیرو آگ کی پوجا کرتے ہیں۔ ان کی عبادت ب۔گاہیں آتش کدہ کہلاتی ہیں۔ مغلوں کے ساتھ یہ برصغیر میں داخل ہوئے اور یہاں مجوسی کہلائے۔ ہندوتہذیب میں آتش تقدس مآب رہی ہے ۔اس کا ایک دیو\" اگنی ج۔ دیو\" بھی ہے۔ ہندو اپنے مردے آگ میں جلاتے ہیں اور اس فعل کو\"کر یا کرم \"کا نام دیتے ہیں۔اس کے گرد سات پھیروں کے حوالہ سے ازدواجی رشتہ استوار ہوتا ہے۔آتش ہمیشہ سے روشنی کا ذریعہ رہی ہے۔اس سے پکوان پکانے د۔ کا کام لیا جاتا ہے۔انسانی تہذیبوں میں خوشی کےموقع پر چراغاں کیاجاتا ہے۔آتش بازی ہوتی آئی ہے۔ آج سالانہ کھیلوں کا آغاز مشعل بازی سے ہوتا ہے ۔ آتش اردو غزل میں کبھی بھی تقدس مآب نہیں رہی ۔اس سے ہمیشہ نمرودی عناصر منسوب رہے ہیں۔ فارسی شاعری میں بھی اس کا احترام نظر نہیں آتا ۔مثلاا حافظ شرازی کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں۔
برشمع نرفت ازگذرآت ِش جان سوز آن دود کہ از سو زجگر برس ِر مارفت ()١حافظ شیرازیحافظ کے ہاں اس کی جلانے والی خصلت اجاگر ہوئی ہے۔ اب اردو غزل سے چند مثالیں ملاحظہ ہوںمشتاق درس کا ہوں ٹک مت آت ِش غفلت سوں مرے دل کوں جلا جا یک درس دکھا جا ( )٢ولی آت ِش غفلت:آتش ،غفلت کو واضح کر رہی ہے۔ غفلت ،مث ِل آتش ہے جوشدید دکھ اور کرب کا سبب بنتی ہے۔دل سے آتش ہے دبی سینۂ یار پہلو پہ مرے ہاتھ سمجھ کر رکھیو سوزاں کے لیے ( )۳مصحفیمصحفی کے ہاں آتش جذبات کی شدت کو واضح کر رہی ہے۔بجھاکر عشق کی آتش کیا ہے برہہ نے تیرے مرے دل کو پتنگ مانند ،جلاؤ گے تو کیا ہو گا ( )۴میر ضیاءمیر ضیاء الدین نے عشق کو ،مث ِل آتش قرار دیا ہے۔ عشق کی کیفیت کو واضح کرنے کے لئے آتش سے زیادہ مناسب کوئی لفظ نہیں۔سیل آتش میں غرق ہوں دو جہاں جا ئے گر پھوٹ آبلا دل کا ()۵ قائمسیل آتش ،دل میں موجود دکھ اور کرب کو واضح کر رہا ہے۔ ایک بات ضرور ہے جو آتش کی بلاخیزی سے گزر جاتا ہے وہ کندن کے لقب
سے ملقوب ہوتا ہے۔ گویا آتش کثافتوں کو ختم کر دینے کا ذریعہ بنتی ہے ۔خواجہ درد کے ہاں کچھ اسی قسم کی بات ہوئی ہے کرے ہے کچھ سے کچھ تاثیر صحبت صاف طبعوں کی ہوئی آتش سے گل کے بیٹھتے رش ِک شرر شبنم ()۶دردمعنوی اختلافات تو موجود ہیں لیکن اردو کے لسانی سیٹ اپ میں لفظ \"آتش\"اجنبی پن کا شکار نہیں ہے۔ ولی اور قائم کے ہاں بطور مرکباستعمال میں آیا ہے جبکہ مصحفی ،میر ضیاء اور خواجہ درد کے ہاں غیر اردو اور اردو کے الفاظ گھل مل گئے ہیں ) آت ِش غفلت (ولی ) سی ِل آتش (قائم ) مصحفی( دل سے آتش سے ) میر ضیاء( عشق کی آتش جلاؤ ) درد( آتش سے گل کے اب غالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ فرمائیں بروئے سفر ہ کبا ِب د ِل سمندر مرے قدح میں ہے صہبائے آتش پنہاں کھینچ آتش کے حوالہ سے صہبا کی تیزی ظاہر کی گئی ہے۔ عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے
آتش ،عشق کو واضح کر رہی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے مماثل ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے ،عشق خود اختیاری عمل نہیں ۔ جب یہ لاحق ہوتا ہے تو اسے ختم کرنے کی کوئی کوشش ثمر بار نہیں ہوتی جبکہ آتش خود اختیاری عمل ہے اور اسے بجھایا بھی جا سکتا ہے۔ مماثلعنصر تپش ہے ۔ پہلے شعر میں آتش ،بطور مرکب جبکہ دوسرے شعر میں آتش سے پہلے اردو لفظ \"وہ \"کا استعمال ہوا ہے۔ فارسی شعراکے ہاں بھی \"آتش\"اردو ایسے حوالوں کے ساتھ استعمال ہوتا آیا ہے۔ آتش پریشان کرنے والی یا پھر جلا کر بھسم کر دینے والی خصلت اپنے باطن میں رکھتی ہے۔ یہ خصوصیات فارسی اور اردو شاعری میں داخل ہیں۔ زر تشت تہذیب میں اس کا جو بھی حوالہ رہا ہو یاروشنی کی اہمیت کتنی بھی رہی ہو ،آتش اردو اور فارسی شاعری میں تقدس مآب نہیں رہی بلکہ نمرودی خصائل اجاگر کرتی ہے۔ آتش کے مترادف الفاظ آگ اور اگنی بھی اردو میں استعمال ہوتے آئے ہیں لیکن \"آتش\"فارسی کے زی ِر اثر مستحکم روایت کی حامل ہے۔ لسانی حوالہ سے اِسے فارسی کی دین قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس لفظ کو اہ ِل لغت فارسی مذکر قرار دیتے ہیں اور اسے اردو آرام: میں فارسی کی دین خیال کرتے ہیں۔ یہ لفظ چار تہذیبوں سے منسلک ہے آرامی تہذیب سے سہولت کے حوالہ سے ١۔شدادی تہذیب (قوم عاد) میں دکھ اور تکلیف زیادہ رہی ہو گی اس ٢۔ سے نجات کی کوشش کے حوالہ سے ایرانی تہذیب میں ،شوروغل سے خلاصی کے لیے ،اس لفظ کا ۳۔
وجود لا یعنی نہیں لگتا ہندو تہذیب میں سیاسی و معاشرتی بے چینی ،تفریق اور عدم ۴۔ مساوات سے نجات کے لیے \"رام راج\"کی ضرورت محسوس کی گئی ہو گی یا دکھ تکلیف میں \"رام\"کو پکارنے کے لیے یہ لفظ مستعمل ہو گیا ہو گاحضرت نوح کے پوتے ،سام کے بیٹے کا نام \"آرام\" تھا۔ ( )٧جس کے معنی راحت اور خوشی کے ہیں۔ عربی فارسی وغیرہ آرامی زبان کیترقی یافتہ اشکال ہیں۔ ( )۸آرامی زبان انسانی احساسات کے اظہار اور رابطے کے لیے وجود میں آئی۔ انشراح رک جائے توبے چینی کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ غالب کا کہنا ہے۔ رکتی ہے مری طبع تو ہوتی پاتے نہیں راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے ہے رواں اور اس حوالہ سے کلمہ\"آرام\"احساسات کے اظہار اور انسانی سہولیات سے وابستہ ہے۔ آرام ،شداد کے با ِغ ارم سے بھی رشتہ رکھتا ہے۔ باغِ ارم سے چار عناصر جڑے نظرآتے ہیں ۴۔ ضروریات کی فراہمی ۳۔ سکون ٢۔ نشاط ١۔ حسن و جمال شداد نے باغِ اِرم ،جنت کے مقابل تعمیر کیا تھا۔ جنت میں جہاں اوربہت ساری سہولتیں می ّسر ہوں گی وہاں دکھ ،درد اور رنج کا سایہ تک نہ ہو گا۔ انسان اس دنیا میں بھی دکھ ،درد اور رنج سے نجات کا متمنی ہے۔ باغِ ارم کی تعمیر میں جہاں مقابلے کا جذبہ نظر آتا ہے تو وہاں نفسیاتی سطح پر دکھ ،درد اور رنج سے فرار کی کوشش کو
صر ِف نظر نہیں کیا جا سکتا ۔ ِارم ،شاہ سے وفاداریوں کا انعام ٹھہرتیہے۔ گویا اِرم اپنا ایک تہذیبی اور نفسیاتی حوالہ لیے ہوئے ہے۔یہ امر بعید ازامکان نہیں کہ اِرم نے ہی لفظ آرام کا روپ اختیار کر لیا ہو۔ سنسکریت میں آرام کے معنی باغ کے ہیں ( )۹جبکہ فارسی میں پرسکون جگہ جہاں کسی قسم کا شور نہ ہو ( )١٠معنی لیے جاتے ہیں۔ ظہوری اور خیام نے آرام کو سکون کے معنوں میں استعمال کیا ہےنگیر دطائرش بر صفحہ آرام نساز دگرن بپایش نہیں ہے مہر خود ) ظہوری( دامآرام و قرار و خوردو خوابش عاشق بایدکہ سال و ماہ و شب و روز ) خیام( نہ بود آرام کا ہندی تہذیب سے ناتا جوڑتے ہیں تو آ،رام کے طور پرلےسکتے ہیں۔ دکھ تکلیف میں پکارنے کے لیے آ ،رام بولا جاتا رہا ہے۔رام راج کی مانگ کے حوالہ سے بھی اس کلمے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ درج بالا معروضات سے یہ بات بڑی حد تک صاف ہو جاتی ہے کہ \"آرام\"فارسی سے اردو میں وارد ہوا ،قطعی بات نہیں ہے۔ آرامیتہذیب کے کسی شخص کے برصغیر میں داخل ہونے سے اس لفظ کےرواج کو ردّنہیں کیا جاسکتا ہے۔ اردو شاعری میں آسائش کی فراہمی ، ٹھہرنے یا توقف کرنے کے معنی میں اس لفظ کا استعمال عام ہے۔ اردو شاعری میں سے چند مثالیں ملاحظہ ہوںیعنی رات بہت تھے عہ ِد جوانی رو رو کاٹا ،پیری میں لیں آنکھ موند جاگے ،صبح ہوئے آرام کیا( )١١میر
آرام کرنا :دنیا کے معاملات سے دستبردار ہونا ،لاتعلقی ،موتکھبو پایانہ ایک دم آرام جب سے تم ساتھ ہم کیا اخلاص ()١٢ حاتمآرام پانا :سکون ملنا ،چین میسر آنا ،قرار پاناوائے قسمت کہ ہمیں یہ د ِل مرتے مرتے بھی نہ جن نے کھبو آرام دیا خود کام دیا()١۳قائم آرام دینا :سکھ ،چین ،سکون میسر کرنا غالب کے ہاں آرام کا استعمال ملاحظہ ہونے تیرکماں میں ہے نہ صیاد کمیں میں گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے ڈر ،فکر اور چنتا سے نجاتیہ نفسیاتی حقیقت ہے کہ جس چیز کا ڈر ،خوف ،خدشہ یا اندیشہ ہو ،اگر وقوع میں آجائے تو وقوع سے پہلے کی حالت نہیں رہتی۔ ایک طرح سے سکون آجاتا ہے۔ وقوع سے پہلے ،پتہ نہیں کیا ہو گا ،کی صورتحال ہوتی ہے۔ یہ سوچ ،سکو ن سے دور رکھتا ہے۔بارے آرام سے ہیں حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد اہ ِل جفا میرے بعدہلچل ،اتھل پتھل ختم ہونا ،امن ،چین ،سکون ،منفی نقل و حرکت ختم ہونااس در پہ نہیں بار تو کعبے ہی اپنا نہیں یہ شیوہ کہ آرام سے بیٹھیں
کو ہو آئیں حال ِت سکون ،غیر متحرک ،نچلا بیٹھنا ،کسی بپتا میں نہ ڈالنا ،خرابی پیدا نہ کرنااہل لغت کے نزدیک یہ لفظ عربی زبان کا ہے۔ یہ لفظ عربی نہیں آفت: ،فارسی قدیم یا پہلوی میں \"آکفت\"تھا۔ عرب میں جا کر آفت اور عاتہ ہو گیا۔ ( )١۴عربی میں\"عاتہ\"کے معنی جھگڑا کرنا ،بار بار بات کو دہرانا کے ہیں۔ ( )١۵عرب کسی بات پر اڑ جائیں تو اس کو بار بارغصے کی حالت میں دہراتے ہیں اور اس پر ان کا تکرار ختم نہیں ہوتا جس سے ان کا معاشرتی شعور سامنے آتا ہے کہ معاملے کے بنیادی پہلو پر سے ان کی توجہ نہیں ہٹتی۔ وہ اسے منوانے پر بضد رہتے ہیں۔عرب میں جا کر آکفت کے \"ک\"کی آواز ختم ہو گئی۔ یہ رویہ ایسانیا نہیں۔ دیگر زبانوں میں بھی ایسا ہوتا آیا ہے۔ آکفت کے معنی بحث وتکرار اور فساد برپا کرنے کے ہی ہیں۔ اردو میں یہ لفظ اپھل ،کپت اور کپٹ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا آیا ہے۔ اس لیے اس لفظ کا ان کلموں کے حوالہ سے اشتقاق کیا جانا زیادہ مناسب اور درست معلوم ہوتا ہے۔ بازار میں \"اپھت\"بھی سننے کو ملتا ہے۔ اپھل ،دکھ تکلیف ،فساد جھگڑا کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے * کپت خاص پنجابی لفظ ہے۔ پنجاب میں استعمال عام ہے۔ شور * )شرابا ،دنگا فساد ،لڑائی جھگڑا ،شرارت برائی ،بے عزت (١۶وغیرہ معنی دیتا ہے۔ جھگڑا لو یا یوں ہی اور خواہ مخواہ جھگڑا مول لینے والی عورت کے لئے \"کپتی\"لفظ بولتے ہیں کپٹ ،دھوکہ ،دغا ،فریب ،کینہ ،مکر ،بغض،چھل ( )١٧معنی *
رکھتا ہے۔ اردومیں آفت ،عاتہ ،آکفت ،اپھل ،کپٹ اور کپت سے متوازی رشتہ استوار کئے ہوئے ہے۔ آفت کے معنی اخذ کرتے وقت اس کے جملہ سماجی حوالے م ِدّنظر رکھنا پڑیں گے بصورت دیگر اس امر کا کھوج لگانا مشکل ہو جائے گا کہ یہ لفظ کس تہذیب سے متعلق ہے۔ بعید نہیں بولی میں یہ \"اپھت\"ہی رہا ہو جو اپھل ہی کی بگڑی ہوئی شکل ہو۔ عربی میں پھ ،ف میں بدل جاتا ہے۔ اگر اس لفظ کو عاتہ تصور کرتے ہیں تو اردو میں بہت سے استعمالات اور مفاہیم کا عاتہ سے کوئیتعلق نہیں نکلتا۔ تا ہم بعض پر اطلاق کیا جا سکتا ہے۔ اردو میں معنوی اعتبار سے اپھل (اپھت)کپت اور کپٹ کے زیادہ قریب ہے۔ خواجہ درد اور قائم چاند پوری نے اپھل (اپھت) کے معنوں میں استعمال کیاہے مذکور جانے بھی دو ہم دل تپ ِدگاں کا احوال کچھ نہ پوچھو آفت رسیدگاں کا (( )١۸آفت رسیدہ ) درد !گل سے کیا مختلط ہوں اے بلبل مجھ کو وہ آف ِت خزاں ہے یاد (( )١۹آفت ہونا) قائم مصحفی نے مصیبت ،وبال اور بلا کے معنوں میں استعمال کیا ہےیاں حسن کو ہے عشق سے آفت لگی ہوئی ظالم کوئی نہ ہو جو طرح دار دیکھنا (( )٢٠آفت لگنا) مصحفی غالب نے \"اپھل\"(اپھت) کے معنوں میں لیا ہے
پڑا ہے کام تجھ کو کس کہا میں نے کہا اونا کام آخر ماجرا کیا ہے ستمگر آف ِت جاں سے غالب کے ایک دوسرے شعر میں \"سیمابی مزاج\"کے معنی دیتا ہے عافیت کا دشمن اور میں اور اک آفت کا ٹکڑا وہ د ِل وحشی کہ ہے آوارگی کا آشنا آفت کا ٹکڑا ،آفت کا پرکالہ کا مترادف محاورہ ہے۔ اس شعر میں \"آفت\"کسی نئی تہذیب سے جڑا نظر آتا ہے۔ غالب کے عہد کی مغربی تہذیب کا (برصغیر کے حوالہ سے(مطالعہ کیا جائے تو بیدار مغزوں کے بدلتے ر ّویوں کویہ لفظ کھول دیتا ہے ۔ ان معروضات کے مطالعہسے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ \"آفت\"کا معنوی اعتبار سے برصغیر کی مٹی سے بھی تعلق نکلتا ہے۔ ا ْحوال: اس لفظ کے عربی اسم مذکر اور حال کی جمع ہونے پر اردو کے اہل لغت اتفاق رکھتے ہیں جبکہ یہ دیسی لفظ\"آوال\"بمعنی خبر ہے۔\"ح\"کی آواز عربی کے زیر اثر داخل ہوئی ہے۔ دخیل آواز کے سبب یہکلمہ عربی لگتا ہے۔ عربی میں حال (حالت) کے لیے چار الفاظ مستعمل ):ہیں (٢١ بال :سوال کرتے موجودہ حالت کے لیے ١۔ بال :سوال کرتے موجودہ حالت کے لیے ١۔ خطب :کسی ناپسندیدہ معاملہ دریافت کرتے وقت کی حالت کے ٢۔ لئے
دأب :عادت اور چال چلن کے لئے ۳۔ ایک حالت سے دوسری حالت کے لئےطور۴ :۔ اردو غزل میں یہ لفظ زیادہ تر واحد اسم مذکر استعمال ہوا ہے۔ عربی مفاہیم سے بھی متعلق نہیں رہا ہے۔ لہذا اس لفظ کی سماجی حیثیت کا تعین کرتے وقت اس کے استعمالات کو مدنظر رکھنا پڑے گا ورنہ اسکے عربی ہونے کی غلط فہمی باقی رہے گی۔ اس ضمن میں چند مثالیں :ملاحظہ ہوں عیاں ہے اشک کے نہیں درکار تابولے بیاں اپنی زباں سیتی طومار سوں احوال عاشق کا ()٢٢ولی واحد استعمال ہوا ہے۔ احوال عیاں ہونا بمعنی باطنی کیفیت ظاہر ہونا، باطنی حالت شایدکبھویہ جاکے لگے دلربا کے برگ حنا اپر لکھواحوا ِل دل مرا ہاتھ ()٢۳یکرنگ احوال لکھنا:بے چینی ،بے قراری اور بے سکونی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے کچھ بات جو سمجھا تو احوال مرا دھیان سے سنتا تھا وہ لیکن کہا میں نہیں سنتا()٢۴محبت احوال سننا:واحد استعمال ہوا ہے کسی کا دکھ درد سننا ،گفتگو ،کسی کی بات پر توجہ سمجھا نہیں تا حال پر اپنے احوا ِل دو عالم ہے مرے دل پہ ہویدا تئیں کیا ہوں ( )٢۵درد
احوال ہویدا ہونا:حالات معلوم ہونا ،معرفت ،حقیقت سے آگاہ ہونا ،خبر، معلوماتتیں بھی احوال کچھ سنا دل کا اے نسیم ! اس گلی سے آئے ہے تو ( )٢۶قائم احوال سنا :سنا کو کہنا کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ خیر خبر دینا ،حال چال بتانے کے لیے کہنا احوال تھا کسی کا کچھ میں کہنے لگا کہ جانے میری بلا عزیزاں بھی سن لیاتھا ( )٢٧میر احوال سن لینا:قصہ ،ماجرا ،معاملہ کان پڑنا غالب کے ہاں بھی\"احوال\"واحد نظم ہوا ہےغالب تیرا احوال سنا دیں گے ہم ان کو وہ سن کے بلالیں ،اجارہ نہیں کرتے احوال سنا دینا ،احوال کہہ دینا کے مترادف استعمال ہوا ہے بمعنی پوزیشن واضح کر دینا۔ (خستہ حالی) بیان کر دینا ،دکھ ،درد ،پریشانی وغیرہ سے آگاہ کرنا اسامی: عربی اسم مونث۔ اسم کی جمع الجمع ۔ لین دین رکھنے والا، گاہک ،خریدار ،امیر ،مالدار ،روپے والا ( )٢۸جس کے ساتھ فراڈ کرنا ہو۔ جس کے ہاتھ ناقص مال فروخت کرنے کا ارادہ ہو۔ جس کےساتھ کاروبارکرنا ہو ،رقم اس کی ہو لیبر فریق ثانی کی ،منافع کی بانٹ ففٹی ففٹی۔ ادائیگی کسی بھی حوالہ سے کرنے والا۔ ملازمت جمع
اسامیاں۔ ادھار لینے والا۔قرض خواہ۔ جائیداد خریدنے والا وغیرہ۔یہ :لفظ تین حوالوں سے عربی قرار نہیں دیا سکتا اردو میں واحد استعمال ہوتا ہے ١۔ عربی میں اردو معنوں میں استعمال نہیں ہوتا ٢۔ استعمالی ر ّویہ عربی سے ہٹ کر ہے ۳۔ غالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ ہو دل جو ِش گریہ میں ہے حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی ڈوبی ہوئی اسامی واحد استعمال کیا گیا ہے۔ استعمال کا ر ّویہ خالص دیسی ہے۔ غلام رسول مہر کا کہنا ہے )جس کے پاس کوئی ایسی چیز باقی نہیں جو ہاتھ آسکے\"(\"٢۹یعنی مفلس ،کنگال جس کا دیوالیہ نکل چکا ہو۔ برصغیر میں کاروبارہ میں لگائی ہوئی رقم برباد ہو جائے ،قرض واپس ملنے کی امید نہ رہے،کے لئے \"اسامی ڈوب گئی\"بولتے ہیں۔ جس کسی سے لین دین رہا ہو لیکن اب ختم ہو گیا ہو۔ اچانک اس کی طرف سے پیشرفت ہو اور کچھ ملنے کی توقع ہو یا مل جائے تو \" ڈوبی اسامی ترنا\"بولتے ہیں۔یہ لفظ برسوں سے کاروبار سے وابستہ چلا آتا ہے۔ غالب کے دوسرے مصرعے میں \"جوش گریہ\"نے معاملہ صاف کر دیا ہے۔ دل آنسوؤں کے بحر بیکراں میں گم ہو گیا ہے۔ جوش میں پوزیشن اور رویہ بدل جاتا ہے۔بدلتی صورت اور بدلتے حالات میں پہلی کی سی توقع لا یعنی ٹھہرتی ہے۔
سامی\"قبر کے اندر دائیں ،قبر کے برابر جس میں میت سما سکے \" کھو ،کھودتے ہیں۔ اس کو \"سامی \"کہا جاتا ہے۔سامی ہندی اسم مذکرہے۔ بلند ،اونچا()۳٠پتی ،خاوند ،میاں ،شوہر کے معنی بھی لیے ہوئے ہے۔ \"ا\"نہی کا سابقہ ہے۔ اس کے بڑھانے سے معنی منفی ہو جاتےہیں۔ وہ جو بلند نہیں یا جو اب شوہر ،پتی کے مرتبے پر فائز نہیں رہا۔اسامی کی دیسی طریقہ سے جمع\"اسامیوں\"بنائی جاتی ہے۔ اس حوالہ سے بھی اس کا عربی سے رشتہ نہیں بنتا۔ شوہر ،آقا ،مالک کے معنوں میں سوامی ،اسامی کا بگڑا ہوا روپ بھی ہو سکتا ہے۔ امام :یہ لفظ اسلامی تہذیب سے متعلق ہے۔ احناف کے چار فقہی امام ہیں۔( )۳١مسجد میں نماز کی قیادت کرنے والے کے لئے بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ ( )۳٢اس سے مراد \"امیر\"سربراہ ،قیادت کرنے والا وغیرہ بھی لیتے ہیں۔ مسلمانوں میں ہر فقیہہ یا بڑے مولوی صاحبکے لیے یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ اہل تشیع کے بارہ امام ہیں۔ ( )۳۳جنہیں مامور من اللہ بتایا جاتا ہے۔ خاندا ِن سادات کے اور لوگوں کے لیےبھی بولا جاتا رہا ہے۔ اردو شاعری میں مختلف مفاہیم کے ساتھ یہ لفظ استعمال میں آتا رہا ہے۔ مثلاامسجد میں امام آج ہوا آ کے کہاں سےکل تک تو یہی میر خرابات نشیں تھا۔ ( )۳۴میرمسجد میں جماعت کی قیادت کے لئے مقرر ہونے والا ،پیش امام ہونا: امامشیخ دو چار پیر کا ہے مرید ہم بھی بارہ امام رکھتے ہیں ()۳۵ حاتم
اہل تشیع کے بارہ امام ،مقلد ،جس کی فقہ اور معرفت میں امام رکھنا: تقلید کی جاتی ہو۔ سربراہ ،قائد ،روحانی سربراہ ،راہ دکھانے والا ،جس کی پیروی کی جائےدو جگ یار نظارہ ہے( )۳۶محمد یوسف فقیر ا عشق امام ہمارا ہے گڑہ امام: مدد گار ،معاون ،امتیاز اور تمیز دینے والا ،آگاہ کرنے والا ، امیر حیات ،امن ،شانتی اور محبت کا درس دینے والا،رہبر غالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ ہوعلی ولی اسد اللہ جانشیں نبی امام ظاہر و باطن امی ِر صورت و معنی ہے غالب نے شعرمیں امام کے مفاہیم بھی واضح کر دیئے ہیں۔ اوقات :عربی اسم مذکر ،وقت کی جمع۔ اردو میں بازاری مفاہیم میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ عربی مفاہیم سے ان کا کسی بھی حوالہ سے تعلق نہیں بنتا۔ اردو میں اسے حیثیت ،مالی و سماجی حالت ،بسات ، سمان ،وقعت وغیرہ کے معنوں میں استعمال کیا جاتاہے۔ ان مفاہیم کے حوالہ سے یہ خالص دیسی لفظ ہے۔ دوسرا یہ اردو میں واحد استعمال ہوتا ہے۔ اردو شاعری میں سے چند مثالیں درجِ خدمت ہیں شعرا ستادانہ و حاتم ہے بے باکانہ وضع طبع آزادانہ و اوقات درویشانہ ہے( )۳٧حاتم
واحد استعمال ہوا ہے۔ اوقات درویشانہ ،درویشوں کی سی حالت ،حیثیت اور بسات ۔ ہم رہیں دیکھتے اور تری یہ اوقات کئے اور تو کیا کہیں اے شانہ ترا بات کئے ()۳۸خواجہ امین الدین امین بطو ِر واحد اسم مونث استعمال ہوا ہے۔ اوقات کئے :حالت کرنا مصحفی کے ہاں بھی اس کی یہی صورت ہےاوقات بسر خو ِن جگر کھا کے کروں ہوں عالم سے جدا ہے مری اوقات کا عالم ( )۳۹مصحفی عمر گزرنا: وقت گزرنا ،وقت پاس ہونا۔ لفظ اوقات ،حالت اور حیثیت کے معنوں میں استعمال کیاہے۔ کس لطف سے ہوتی تھی اوقا ِت بسر میری جب ہاتھ میں ساقی کے پیمانہ تھا اور میں تھا( )۳۹شیخ کاشف علی کاشف اوقات بسر ہونا:گزارہ ہونا ،جیسی تیسی گزرنا اب غالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ ہوغیر کیا،خود مجھے ،اور میں وہ ہوں کہ گرجی میں کبھی غور کروں نفرت مری اوقات سے ہے اوقات سے نفرت ہونا:واحد اسم مونث استعمال ہواہے ،یعنی حالت،
حیثیت ،وقعت ،وقار ،آبرو ،عزت ،معاشرتی پوزیشن وغیرہ ۔ غالب کے ہاں خالص دیسی حوالہ سے نظم ہوا ہے معنی ،استعمال اور گرامریپوزیشن عربی سے دور کا بھی علاقہ نہیں رکھتی۔ اس لفظ کا زیادہ تر کم مائیگی اور کم حیثیت کا احساس دلانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر عربی لفظ ہے۔ عموماا اسلامی اصولوں کے باطل:خلاف ہر بات کے لیے بولا جاتا ہے۔ جھوٹا ،لغو اور بے بنیاد کے لیےاستعمال میں آتا ہے۔ اردو میں عربی سے داخل ہوا ہے۔ اردو غزل اس لفظ کے استفادے سے محروم نہیں رہی۔ مثلااورنہ جاتے یہ دوڑ ہم بھی پھلانگ ( )۴١نقرہ باطل تھا طور پر اپنے میر غلط ،برے ،نامناسب ،اوچھے ہم ہیں تو اسے مٹار ہے ہیں ( )۴٢اے ہستی تو کھینچ نق ِش باطل قائم غلط ،بے بنیاد ،جس سے نقصان کا احتمال ہو ،غلط طرح ،غلط روش حق کے آگے ہو فروغ دار پر کھینچا گیا منصور اپنے ہاتھ سے دعو ِی باطل کہاں()۴۳میر شجاع الدین روح حق کا متضاد ،جھوٹفرد باطل ہے وہ جس پر کہ ترا دفت ِر عشق میں اے بادشہ کشور حسن صاد نہ ہو()۴۴شاہ مظہر حق عشاق جعلی ،فراڈ ،خود ساختہ ،جو مستند نہ ہو ،ناقاب ِل اعتماد ،بے حیثیت ، بے وقعت
اب غالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ ہو حس ِن آشفتگ ِی جلوہ ہے عر ِض اعجاز دس ِت موسی بہ س ِر دعو ِی باطل باندھا بت: انسانی تہذیب میں مجسمے بنانے کا بہت پہلے سے رواج چلا آتا ہے۔ انسان نے اپنے پیاروں کی معدومی کی کمی کو اس انداز سے پورا کرنے کی کوشش کی۔ ان مجسموں سے پیار کیا اور انہیں احترام دیا۔ آتے وقتوں میں پیار ،احترام اور عقیدت نے پوجا کی شکل اختیار کرلی۔ ماورائی قوتوں کے مجسمے بھی بنائے گئے۔ انہیں طاقت اور اختیار کا مظہر خیال کیا جاتا رہا ہے۔ یہ سلسلہ صدیوں سے چلا آتا ہے۔ کہیں دانستہ اور کہیں نادانستہ انہیں پوجیور تسلیم کیا گیا ہے۔ کعبہ ایسے محترم مقام پر انہیں سجایا گیا۔ بت شکنی کے جرم میں حضرت ابراہیم کو دہکتی آگ میں پھینکا گیا۔ حضرت محمدﷺ کو ناقاب ِل برداشت حد تک ستایا گیا۔بت سے انسان کے تعلق ،محبت اور عقیدت کا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے۔ ہندو تہذیب میں آج بھی بت پرستی کا رجحان موجود ہے۔ ہیروز کےفوٹو غیر ہندوؤں کے ہاں بھی آویزاں ملتے ہیں۔ ان کی تصاویر کرنسی نوٹوں اور ڈاک ٹکٹوں پر دیکھنے کو ملتی ہیں۔جوان کی محبت اور احترام کا واضح اعتراف ہے۔ برصغیر میں بت پرستی مہاجر نہیں ہے لیکن بہت سے بت مہاجر ضرور ہیں۔ اسی طرح بت پرستی کے کچھ عناصر و اطوار بھی درآمد ہوئے ہیں یا کسی اور حوالہ سے رواج پا گئے ہیں۔ ان مہاجر عناصر
کی نشوونما کی یہاں بہت گنجائش تھی۔ بت پرستی کی نفی کرنے والےعناصر بھی نفسیاتی سطح پر کسی نہ کسی حوالہ سے بت پرستی میں مبتلا نظر آتے ہیں۔لفظ بت کا خیام کے ہاں استعمال ملاحظہ ہوبیزار شدم زبت پرستان کنشت تاچند زنم بروئے دریا ہا حشتسطح دریا پر کب تک ڈھیلے مار کر چھینٹیں اڑاتا رہوں گا۔کنشت کے ( )ان بت پرستوں سے عاجز ہوںلفظ \"بت\"فارسی سے اردو میں وارد ہوا ہے۔ اردو غزل نے اسے بہت سے غیر لغوی مفاہیم عطا کئے ہیں۔ اس کی جمع بھی دیسی طریقہ سے بنائی گئی ہے۔ مثلاا مرزا جعفر علی حسرت کے ہاں \"بت\"کا استعمال ملاحظہ ہوہوں چراغ صبح میں تیغ سے مت قتل کر تو اے بت پر فن مجھے ہے جنب ِش دامن مجھے حسرتبت ،محبوب کے معنوں میں استعمال ہواہے جو اداؤں میں کمال رکھتا ہےمردم چشم میں رم خوردہ بتوں کی شاید شیر طفلی میں پلایا ہے انہیں آہوکا۔ ( )۴۵محببتوں جمع بت ،محب نے بھی محبوب مراد لیا ہےمصحفی کا کہنا ہے کہ ان کی شاعری میں تاثیران بتوں سے محبت کی وجہ سے ہے
توووں ہی شعرو سخن کا اگر بتوں کی تمنا سے دل مرا پھر جاے مرے مزا پھر جاے ( )۴۶مصحفی حسین لوگ ،خوباں ،ناز وادا والے خوبصورت محبوب جو شعرو سخن میں تاثیر کا سبب بنتے ہیں بت کے مترادف لفظ صنم بھی بدیسی ہے۔ اردو غزل میں اس کا استعمال عام ہے اب کس طرح اطاعت ان پوجے سے اور پتھر ہوتے ہیں یہ صنم تو کی کروں خدایا ( )۴٧میر سنگدل محبوب ،ان سے جتنی محبت کرو جتنے ناز اٹھاؤ اتنے صنم: اتراتے اور سخت دل ہوجاتے ہیں ہاتھوں سے اس صنم کے چھوٹے خدنگ خونی جس سے ہوا ہے دل پر عاشق کے زخم کاری ( )۴۸سچل صنم: گھائل کرنے والا محبوب غالب کے ہاں لفظ بت کا استعمال ملاحظہ ہوکس قدر خانہ ء آئینہ ہے ویراں غم عشاق نہ ہو سادگی آمو ِز بتاں! مجھ سے ایک دوسری جگہ دونوں لفظوں کا ایک ساتھ استعمال کرتے ہیںبتوں کی ہوا گر ایسی ہی خو تو تمہیں کہو کہ گزارہ صنم پرستوں کا کیونکر ہو
بت اور بت پرستی کے خلاف نظریاتی فضا کیسی ہی کیوں نہ رہی ہو، بتوں کی محبوبیت کسی نہ کسی حوالہ سے انسانی تہذیبوں میں محبوب و مرغوب رہی ہے۔ بساط:)عربی اسم مونث ،چادر ،بستر ،بچھونا ،شطرنج کا کپڑا (۴۹بسات :ہندی مونث ،سرمایہ پونجی ،دھن ،اسباب ،قوت ،طاقت،بل، )قابلیت ،استعداد ،حیثیت ،قدرو منزلت ،وقعت(۵٠ عربی کے \"ط\"سے اندارج ہونے والے بساط سے \"ت\"سے لکھے جانے والے ہندی بسات کا کوئی تعلق واسطہ نہیں اور نہ ہی عربی ہندی کے اختلاط کی کوئی صورت ہے۔ معاملہ صرف اتنا ہے کہ اردومیں مکتوبی صورت عربی لفظ کی ہے جبکہ معنوی حوالہ ہندی لفظ کا ہے غالب نے دونوں لفظوں کے معنوں کو نظر انداز کر کے تہذیبیضرورت کو م ِد نظر رکھتے ہوئے الگ سے معنوں میں استعمال کیا :ہے۔ تا ہم مکتوبی روپ عربی ہےہیں بسکہ جو ِش بادہ سے شیشے اچھل رہے ہر گوشۂ بساط ہے سر شیشہ باز کایاں نفس کرتا تھا روشن شمع بز ِم بے خودی جلوۂ گل واں بسا ِط صحب ِت احباب تھابزم،نشت گاہ ،بیٹھنے کی جگہ سے بساط کو مخصوص کر دیا گیا ہے۔ اس طرح یہ لفظ نہ دیسی رہا نہ عربی ،ایسی ہی صورت پہلے شعر
میں نظر آتی ہے۔ تحریر: تحریر ،غلام کو آزاد کرنا یعنی اسے حر کا مرتبہ عطا کرنا۔ بھاگے ہوئے غلام پکڑے جاتے تھے اور کوئی پروانہ پیش نہ کر سکتے تھے تو سزا پاتے تھے لیکن بتدریج تحریر کا کلمہ غلاموںکے پروانہ آزادی کی بجائے صرف لکھنے کے معنوں میں مستعمل ہو گیا۔ ( )۵١لکھنے کے حوالہ سے عربی میں چار الفاظ رائج ہیں محض لمبائی کے رخ کچھ لکھنا خط: سطر: سطور بنا کر لکھنا رقم: ایسے لکھنا کہ لکھا ہوا واضح اور موٹا ہو کتب: ایسی لکھائی جو اپنا مفہوم ادا کرنے میں مکمل اور واضح ہو اردو کے لغت نگاریہ معنی درج کرتے ہیں :لکھنا ،لونڈی آزاد کرنا،نقاشی کرنا ،عبار ِت مضمون ،لکھنے کا طریقہ ،رقعہ ،باریک خط جو تحریرپر بنائے جاتے ہیں ()۵٢دستاویز ،رسید اور راہداری کے لیے بھی لفظ تحریر ہی بولا جاتا ہے۔اردو غزل میں اور معنوں میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا آیاہے۔ اس لئے اب اسے عربی لفظ کہنا درست نہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں
سیل میں اشک کے ہو درد دل کو کبھی تحریر کروں حرف بہ حرف کشتی طوفان کاغذ ( )۵۳چندا تحریر کرنا: (کسی جذبے کی ) کو لکھائی میں لانا اے مصحفی کرتا تھا رقم جب یہ غزل جنبش میں قلم تھا د ِم تحریر اثر کا ( )۵۴مصحفی دم تحریر: لکھائی کے دوران ،لکھتے وقت غالب نے اسے مصوری کے معنوں میں استعمال کیا ہےکاغذی ہے پیرہن ہر پیک ِر نقش فریادی ہے کس کی شوخ ِی تحریر کا تصویر کا ہے جنازہ: مسلمانوں میں مردے کا غسل اور کفنا نے وغیرہ کے بعد اور دفنانے سے پہلے جنازہ پڑھاتے ہیں۔ یہ چار تکبیروں پر مشتمل ہوتا ہے اور فرض کفایہ ہے۔ اس میں حاضر میت کے لئے دعا کی جاتی ہے۔ یہ لفظ مسلمان تہذیب کا نمائندہ ہے اور مسلمانوں کے ساتھ برصغیر میں داخل ہوا۔ اردو شاعری میں اس اسلامی اصطلاح کامختلف مفاہیم میں استعمال ملتا ہے۔ مصحفی نے میت کو لے کر چلنے :کو جنازہ کہا ہے
نہ چلے جنازے کے ساتھ وے مرے دو قدم بھی تو ناز سےیوں ہی کہنے سننے سے خلق کے ،ذرا ہاتھ آکے لگا گئے ()۵۵مصحفیمیر محمد حسن فدوی نے میت اور میت کو اٹھا کر چلنے کو جنازہ کہا :ہےعاشق کا جنازہ ہے ذرا ہو ساتھ کہ حسر ِت دل مرحوم سے نکلے دھوم سے نکلے ()۵۶فددی:شیخ محمد بخش رسا نے جنازہ سے میت معنی مراد لیے ہیںاتنا تو کرم کر کہ ذرا ہاتھ لگا دے بن تیرے صنم میرا جنازہ نہیں اٹھتا ()۵٧رسا:غالب نے بھی میت کے معنوں میں نظم کیا ہےنہ کبھی جنازہ ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غر ِق دریا اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتاکچھ بھی سہی یہ لفظ اردو شاعری میں اپنے مفاہیم اور استعمالات کے حوالہ سے اسلامی تہذیب کی نمائندگی کرتا ہے۔ میت اور میت سے متعلقات کو واضح کرتا ہے۔ جنت: خالص عربی لفظ ہے اور اسلامی تہذیب و نظریات کا حامل کہاجاتاہے۔ نیک اور اچھے اعمال کے حامل اشخاص کو جنت اور جنت کا سودامیسر آ سکے گا۔یہ ہر قسم کے سامان عیش سے مزین ہو
گی۔وہاں ہر قسم کا ساما ِن سکون دستیاب ہو گا۔کوئی دکھ غم اور پریشانی نہ ہو گی نیک لوگوں کو جنت میں ستر حوریں (جنت کی عورتیں)ملیں گی۔اس لالچ میں انسان برائی اور بدی سے دور رہتاہے۔یہ لفظ عربی تہذیب کی نمائندگی کرتا ہے اور ان کے فکری زاویوں کو نمایاں کرتا ہے۔یہ لفظ انسانی رویے اورفطرت کو بھی کھولتا ہے کہ وہ کتنا لالچی ہے کہ بغیر مفاد کے نیکی اور اچھائی کی طرف مائل نہیں ہوتا ۔اس کے مترادف الفاظ بہشت ،خلد ،ارم اور فردوس بھی اردوشاعری میں استعمال ہوتے آئے ہیں۔یہ چاروں الفاظ مہاجر ہیں لیکن بعض مفاہیم اور استعمالات کے حوالے سے مہاجر نہیں :رہے۔اردو غزل میں اس کااستعمال ملا خطہ ہودیرو کعبہ سے ،کلسا ؤں سے دور ()۵۸شکیب جن ِت فکر بلاتی ہے جلالی رعنائی فکر،سوچ کے خوبصورت زاویے،سوچ کی رنگارنگی ،حس ِن تخلیل :اب غالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال دیکھئےدل کے خوش رکھنے کو غالب ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن یہ خیال اچھا ہے غالب نے مرنے کے بعد اچھے اعمال کے صلہ میں ملنے والی جنت (اجر)کو باندھا ہے چالاک:ا س لفظ کو فارسی خیال کیا جاتا ہے۔ فارسی میں اس کے معنی چست
اور مستعد کے ہیں۔یہ لفظ اردو میں فارسی کے حوالے سے داخل نہیں ہو ا اور نہ ہی فارسی مفاہیم کے ساتھ اردو میں استعمال ہوتا ہے۔ڈاکٹر سہیل بخاری اسے چال اور اک کا مرکب بتاتے ہیں()۵۹چال چلن ،معروف اردو محاورہ ہے۔ چال فریب دغا داؤ پیچ ،شطرنج کے مہرے کو حرکت دینا ،تاش کا پتہ کھیلنا ،شرینتر وغیرہ معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔مثلاااے مان بھری چنچل تجھ چال کی قیمت سوں دل نئیں ہے مرا واقف ٹک بھاؤ بتاتی جا()۶٠ولی چال : انداز ،طور ،ناز نخرا ،چلنے کا انداز شہہ پا کے غیر ہم سے اڑ کر چال چلتے دیتا نہیں جوہم کو تو ،شوخ بے وفا ،رخ()۶١آفتاب چال چلنا معروف اردومحاورہ ہے۔ شعر میں فریب دھوکہ،سازش جسسے اذیت دکھ یا نقصان ہوکے معنی میں استعمال ہواہے۔حال چال ۔چال باز چال بازی ،چال مستانی ،غضب کی چال وغیرہ ایسے مرکبات عام پڑھنے سننے کو ملتے ہیں۔ ان کے باطن میں چال کی فارسی روایت موجودنہیں ۔ چالاک استعمال اور مفہومی حوالہ سے دیسی لفظ ہے۔اسے اس کی مکتوبی صورت کے حوالہ سے بدیسی سمجھ لیا گیاہے۔فارسی میں چالاک کسی جانور یا آدمی کے چاک و چوبند سےعلاقہ رکھتا ہے۔اسی حوالہ سے اس کا بدیسی تہذیبی حوالہ سامنے آتا ہے۔دیسی لفظ چالاک میں عیاری ومکاری وغیرہ کے عناصر موجود
رہتے ہیں۔پنجابی میں اس کا مترادف’’ کچھرا‘‘ ہے۔ غالب کے ہاں یہ لفظ مزاج آشنا ہوشیار جسے آگہی حاصل ہو گئی ہو :کے معنوں میں استعمال ہوا ہے رسوا گوہوئے آوارگی سے ہم بارے طبعیتوں کے تو چالاک ہوگئےچرخ کو فارسی لفظ کہا جاتا ہے فارسی میں اس کے معنی چرخ: آسمان،پہیا،سائیکل،گاڑی،دور ،قسمت ،گریبان ،کمان ،چرخ کا اصل دیسی روپ \"چرکھ\" ہے۔ \" چرکھا\"اسی سے ترکیب پایا ہے لیکن اس کا تعلق فارسی لفظ چرخ سے نہیں۔اردو غزل میں زیادہ تر بلا ،دکھ، مصیبت ،ایذا پہنچانے والا وغیرہ معنوں میں استعمال کیا جا تا ہے۔()۶٢گویا اس لفظ کا دیسی کلچر،فارسی کلچر سے قطعی مختلفہے۔خواجہ حسن اللہ بیان نے دکھ دینے والا ساتھی کے معنوں میں نظم :کیا ہے ہو چرخ تو بھی اس ستم ایجاد کی طرف کافی ہے یا س اس دل ناشاد کی طرف()۶۳بیان چرخ بمعنی آسمان جو اس ستم ایجاد کا دکھ دینے میں ساتھ دیتا ہے۔ :انیس نے نکال باہر کرنے والا کے معنوں میں برتا ہے سیاہ بختوں کو یوں باغ سے نکال اے چرخ کہ چارپھول تو دامن میں ہوں سیر کی طرح( )۶۴انیس غالب کے ہاں فتنہ پردازاور مصیبت والی بلا کے معنوں میں استعمال :کیا ہوا ہےوہ آئیں گے مرے گھر وعدہ کیسا دیکھنا نئے فتنوں میں اب چرخ کہن
کی آزمائش ہے حور: عربی اسم مونث حواء کی جمع ۔اردو میں واحد استعمال ہوتا ہے اور اس کی جمع حوریں،حوروں اور حوراں مستعمل ہیں مثلاا اڑاتے مکھی ہیں انوکے اوپر( )۶۵حوراں فاطمہ گرد بیٹھی ہو کر اسماعیل لاہور یحوروں پہ مر رہا ہے یہ شہوت کب حق پرست ،زاہد جنت پرست ہے پرست ہے( )۶۶ذوق :اس لفظ کے عربی نہ ہونے کی چار وجوہ موجود ہیں اول: ذوق کے ہاں جنت والی حوریں مراد لی گئی ہیں تا ہم دیسیطریقہ سے جمع الجمع بنا کر استعمال میں لائے ہیں۔عربی میں زمینی عورت کے لئے لفظ\"حور\"مستعمل نہیں۔بطورتشبیہ یا مجازاا استعمال ہوتا ہو تواس کے لئے قرآنی نظریہ واضح طور پر موجود ہے۔حورمقصورت فی الخیام( )۶٧جنت کی عورتیں جو خیموں میں پوشیدہ ہیں! سورگ کی عورتوں کے لئے افسر ا/اپسرا لفظ استعمال ہوتے ہیں۔ دوم: اردو میں خوبصورتی کے اظہار کے لئے اس لفظ کا بطور :مذکربھی استعمال ہوتا ہے
تھا وہ تو رش ِک حو ِر بہشتی ہمیں میں میر سمجھے نہ ہم تو فہم کا اپنی قصور تھا()۶۸میر سوئم: زمینی حور مستور نہیں ،دیکھی بھالی ہے۔ اس کا وجود پوشیدہ :نہیںنے موئے پری ہے ایسے ٍ سر مشک کا تیرا ہے تو کافور کی گردن نہ یہ حور کی گردن ( )۶۹مصحفی چہارم: اردو میں حور نہایت ہی خوبصورت عورت کے لیے استعمال ہوتا :ہے حور و پری کا جائے دم منہ سے نقاب دے جو مرا مہ جبیں الٹ اے ہم نشیں الٹ ( )٧٠لالہ چنی لال حریف ہندی میں ور بمعنی بڑا ،اعلی ،سب سے اچھا ،دلہا )٧١( :سنسکرت میں ور ،بر بمعنی سب سے اچھا ،منتخب ،بہتر ،خواہش کے مطابق( )٧٢بولتے ہیں۔عربی کے زی ِر اثر \"ح\"کی آواز داخل ہو گئی ہے اور اسے عربی سمجھ لیا گیا ہے۔ قرآن حواء کو مستور قرار دیتا ہے۔ عربی کلچر /تعلق کے سبب برصغیر کی عورتیں بھی پردہ میں رہتی ہیں۔ اس عنصر کے زیر اثر عورت کے لیے حور کا لفظ استعمال میں آگیااور اس پر بہشتی حوروں کی خوبیاں کا اطلاق کر دیا گیا۔ گویاو ْر ،ور اورب ْر اس لفظ کی ترکیب و تشکیل کا موجب بنے۔ ور ،و ْر
پر \"ح\"بڑھا دیں یہ لفظ حور بن جائے گا۔ان حقائق کے حوالہ سے کہاجا سکتا ہے \"حور\"ہندی عربی کلچر کے اختلاط کا بہترین نمونہ ہے۔ اب اس لفظ کو اردو سمجھنا چاہیے۔:غالب کے ہاں حور زمینی معشوق کے لیے (واحد) استعمال ہوا ہےکس رعونت سے وہ میں جو کہتا ہوں کہ ہم لیں گے قیامت میں تمہیں کہتے ہیں کہ ہم حور نہیں:اس شعر میں دو نظریے دیے ہیںقیامت مینیہی عورتیں بطور حور ملیں گی ا)(زمینی عورتوں کے مقابل جنت کی حوریں کم تر ہوں گی ب)( خانقاہ: خان ،بادشاہ ،ملک ۔ قاہ ،متبادل لاحقہ گاہ۔ بادشاہ/ملک کی اقامت گاہ۔ لفظ اور لاحقہ بدیسی ہیں۔ خانقہ بھی لکھنے میں آتا ہے۔ لفظ خانقاہ اسلامی تصوف سے وابستہ ہے۔ مشائخ کی اقامت گاہوں کے لئے یہ لفظ مستعمل چلا آتا ہے۔ خانقاہوں میں مشائخ نے بہت پہلےسے رشدوہدایت کا سلسلہ جاری رکھا ہواہے۔ خانقاہوں کی اپنی روایات اور اصول چلے آتے ہیں۔ اردو غزل میں اس لفظ کا استعمال ہوتا رہا ہے۔ مثلاا میر صاحب کے ہاں اس کا استعمال دیکھیں۔نکلا تھا آستین سے کل مبغچے کا ہاتھ بہتوں کے خرقے چاک ہوئے خانقاہ میں ( )٧۳میریہاں اپنے حقیقی معنوں میں نظم ہوا ہے۔ غالب کے ہاں بھی اصل :معنوں میں استعمال ہوا ہے
مسجد ہو ،مدرسہ ہو ،جب میکدہ چھٹا تو پھر اب کیا جگہ کی قید کوئی خانقاہ ہو خدا: یہ لفظ فارسی سے اردو میں داخل ہوا ہے اور اللہ کا مترادف سمجھا جاتا ہے۔ حضرت عیسی اب ِن مریم کے نام سے پہلے عیسائی لوگ \"خداوند\"کا سابقہ جوڑ دیتے ہیں۔\" خدا حافظ\" باقاعدہ اردومحاورہ ہے۔ اس محاورہ سے متعلق ادھر پانچ سات سال پہلے راقم کیاہل علم کے ساتھ گفتگو چلی۔ لفظ خدا جناب عیسی کی طرف توجہ لے جاتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ کچھ حلقوں میں اب \"اللہ حافظ\"بولا جانے لگا ہے۔ اللہ حافظ ،ہر حوالہ سے فصیح و بلیغ ہے۔ :حافظ کے ہاں لفظ \"خدا\"کااستعمال ملاحظہ ہو تا ببوسم ،ہمچو گردون خا ِک ایوان ای شہنشاہ بلند اختر خدارا ہمتی شما حافظاے بادشاہوں کے بادشاہ بلند پایہ خدا کے لیے توجہ کرتا کہ چوم لیں \" )مانند آسمان کے خاک تمہارے ایوان کی\" (٧۴ :اردوشاعری میں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ ہونہ دیتا جلوہ ہستی کا خدا قدم گر درمیاں ہوتا نہ اس محبو ِب عالم کا اپنی خدائی کو ( )٧۵میر نواب موزوں :خدا ،اللہ کے معنوں مترادف استعمال ہو ا ہےخدا پناہ دے جس طر ف کو یہ چلے ہی ہیں کئی محبوب بن بنا کر آج دھاڑا جائے ( )٧۶حید ر شاہ حیدر
:خدا پناہ دے ،خدا کی پناہ ،عام بولا جانے والا محاورہ ہےخدا کرے کہ مرا جلد نامہ جوا ِب نامہ تو کب بھیجتا ہے وہ ب ِت شوخ برآوئے ( )٧٧جہاں دار پرخداجانے کہ وہ ہرزہ دل وہیں ہووے گا میرا وہ جہاں ہووے گا کہاں ہووے گا( )٧۸قائم :خداجانے اورخداکرے عام بولے جانے والا اردو محاورے ہیں درج بالا تمام اشعار میں لفظ خدا ،اللہ کے مترادف نظم ہوا ہے۔غالب کے ہاں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور مختلف نوعیت کے محاورے تشکیل پائے ہیں۔ مثلاا زندگی اپنی اس شکل سے گزری غالب ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا )رکھتے تھے (خدا رکھناکبھی ہم ان کو کبھی اپنے وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے )گھر کو دیکھتے ہیں (خدا کی قدرت تم خداوند کہلاؤ خدا اور تم ہو بت پھر تمہیں پندار خدائی کیوں ہے )سہی(خداوند کہلانا :اس شعر میں اللہ کے سوا لفظ خدا کااستعمال ہوا ہے خرچ: لفظ \"خرچ\"کو عموماا عربی \"خرج\"خیال کیا جاتا ہے۔ اردو میں\"ج\"کا تبادل \"چ\"نہیں رہا۔ دوسرا خرچ ہر قسم کے نکلنے اور نکالنے سے متعلق رہا ہے۔ خرچ اردو میں رقم تصرف کرنے سے
متعلق ہے۔ خرچ ،قتل ہو جانے سے بھی جڑ گیا ہے۔ عموماا سننےمیں آتا ہے \"وہ میرے ہاتھوں ضرور خرچ ہو جائے گا\"یہاں\"خرچ\"کو قتل کرنے کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ خرچ کا \"کھرچ \"تلفظ سننے میں آتا ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ عربی کے زیر اثر کھ کی جگہ خ رکھ دیا گیا ہے۔ خرچ ،خرج کی بگڑی ہوئی شکل نہیں ہے۔ اسی سے خرچہ ترکیب پایا ہے۔ اردو غزل میں خرچ کو خرج کے مفہوم میں کبھی استعمال نہیں کیا گیا۔ مثلااخرچ اپنا کہاں سے اٹھتا ہے ( )٧۹جمع رکھتے نہیں ،نہیں معلوم مصحفیخرچ اٹھنا :مصارف ،ضروریات پر صرف ہونے والی رقمرنڈی سے تمہیں حیلہ حوالہ اے جان مرا خرچ ہے تنخواہ پہ رکھا نہیں رہتا ( )۸٠جان:غالب نے حاجت ،ضرورت وغیرہ کے معنوں میں نظم کیا ہےنہ کہہ کہ گریہ بہ مقدو ِر حسرت دل ہے مری نگاہ میں ہے جمع و خرچ دریاکا خستہ:یہ لفظ فارسی میں زخمی ،گھائل ،بیمار (وغیرہ) کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ( )۸١مثلاا :خیام کا یہ شعر ملاحظہ ہودل خستہء روز گار و آشفتہ مدام مائیم دراو فتادہ چو مرغ بہ دام خیام
ہم یہاں ایسے پھنسے ہیں جیسے جال میں شکار پھنس جائے۔ دنیا ( )سے دل زخمی اور ہمیشہ پریشان) (۸٢اردو میں \"خستہ\"کے لئے مفاہیم کے حوالہ سے یہ رویہ نہیں ملتا۔ :اس ضمن میں چند مثالیں ملاحظہ ہوںخراب و خستہ و حیران و میں ایک روز چلا جاے تھا بیابان کو ناتواں تنہا ( )۸۳حاتمحالت ظاہری کے لیے استعمال میں آیا ہے پھٹے کپڑے ،بال بکھرے ، برہنہ پا وغیرہخبرتو لیجو کوئی خستہ مر گیا تو نہ ہو کہ آج آتی ہے آواز نوحہ زنداں سے ( )۸۴مصحفیبراحال ،پریشانی کی حالت ،دکھ اور تکلیف کے سبب جو ٹوٹ گیا ہوکوئی صابر کوئی عشق کا مجنوں کہے ،کوئی خستہ محزوں کہے ہاموں کہے ،کوئی کچھ کہے کوئی کچھ کہے( )۸۵صابرعشق کی وجہ سے پریشان حالی:اب غالب کا بھی معنوی چلن ملاحظہ فرمالیںاگرچہ پھینک دیا تم نے دور سے لیکن اٹھائے کیونکہ یہ رنجو ِر خستہ تن تکیہخستہ درحقیقت کھستہ کا روپ ہے۔ کھ کی جگہ خ کی آواز رکھ دی گئی ہے۔معنی وہی رہنے دیے ہیں۔ کھستہ کے معنی بھر بھرا پن ،جیسے کھستہ بسکٹ۔ خستہ بری اور نازک حالت کو بھی ظاہر کرتا
ہے۔ جس میں مفلسی ،زمانے کی تلخی ،پریشانی ،ضروریات کی عدم فراہمی ،مقدمہ بازی میں حالت ،معاشی تنگی وغیرہ شامل ہیں۔ خط: عربی میں خط سے مراد لائین ،لکیر ،سطر ،لکھائی ،کتابت،خوش نویسی لیتے ہیں جبکہ فارسی میں ابروا ورلبوں پر سبزہ معنی لئے جاتے ہیں۔ان دونوں زبانوں کے برعکس اردو میں نامہ ،چھٹی ۔داڑھی کا ٹھپ کے لیے تلفظ \"کھت\"سننے کو ملتا ہے۔ عربی کےزی ِراثر مکتوبی تبدیلی کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ دوسرا کھ کیتبادل آواز\"خ\" چلی آتی ہے۔ صرف مکتوبی تبدیلی ہوئی ہے معنی وہی رہے ہیں۔ داڑھی کے خط (کھت) کے حوالہ سے چار سماجی امور :سامنے آتے ہیں ١۔ چہرے کی خاص وضع قطع مسجد کلچرا جاگر ہوتا ہے ٢۔ انسانی جمالیات اور مخصوص فکر ی حوالے واضح ہوتے ہیں ۳۔ حمام کلچر\"کھلتا ہے\" ۴۔ عربی مفاہیم لکھنے پڑھنے جبکہ فارسی شاہد پرستی کی طرف لے :جاتے ہیں۔ اردو غزل سے چند مثالیں ملاحظہ ہوں پردوں میں جسم کے تھی مرے ہےئ ِت فلک یاں تک کہ تا ِراشک خ ِط مستقیم تھا ( )۸۶مصحفی کیا جانے لکھ دیا اسے خط پڑھ کے اور بھی وہ ہوا پیچ و تاب میں کیا اضطراب میں ذوق
دیکھتے ہی خط چلایوں شاہ حسن جس طرح معذور ہو عامل پھرا ( )۸٧سوداتینوں اشعار میں خط مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ استعمالات کاڈھنگ بھی قطعی الگ سے ہے۔ اب غالب کے ہاں لفظ\" خط\"کا استعمال :ملاحظہ ہو میں جانتا ہوں جو وہ قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں لکھیں گے جواب میں معنوی بعد تو ہے ہی خط کے استعمال کا محاورہ بھی دیسی ہے۔ خطپڑھنا ،خط نکلنا ،خط آنا ،اردو کا اپنا انداز تکلم ہے۔ لہذا خط کو کھت اور پتر کا مترادف سمجھنا زیادہ مناسب لگتا ہے۔ خندہ: فارسی میں\"خندہ\"ہنسی کے لیے مخصوص ہے۔ یہ لفظ اپنی اصل میں\"کھندہ\"ہے۔ کھند کا مادہ \"کھنڈ\" ہے۔ ڈ کو د میں بدل کر کھنڈ بنا دیاگیا ۔ اگرچہ کھند بھی مٹھاس سے متعلق ہے۔ معنوی اختلاف تو ہے ہی استعمال بھی بدیسی نہیں مثلاا حاتم کا یہ شعر دیکھئےاس انجمن میں میں لب حسرت کو خندہ ،کو تبسم وکو فرص ِت سخن گزیدہ ہوں ( )۸۸حاتمپہلے مصرعے میں خندہ اورتبسم الگ سے آئے ہیں۔ اس کا مطلب ہوا خندہ اور ہنسی کا باہمی کوئی تعلق نہیں۔ اگرچہ خندہ ،تبسم اور سخن لب سے متعلق ہیں۔ گویا یہ تینوں لب کے الگ سے شیڈز ہیں۔ اب غالب کو دیکھئے۔
ہر خندہ کہ نکلے ہے وہاں سے جوں غنچہ و با ِل دل ہے غافل خندہ ،لب سے متعلق ضرور ہے لیکن لب تک محدود نہیں \"کہ نکلے ہے\"ظاہر کر رہاہے خندہ کا لب کی دنیا سے باہر بھی کوئی تعلق ہے۔ دلال: فارسی میں دلال کے معنی میانچی ،رہنما ،خریدوفروخت میں کمیشن لے کر کام کرنے والا جبکہ ِدلال کے معنی کرشمہ نازواداہیں۔( )۸۹اس لفظ کو بدیسی شمار کیا جاتا ہے۔ اس لفظ کا ماخذ دل ہے۔ دلاِاسی کا روپ ہے۔ برصغیر میں عورتیں پیش کر کے کمائی کرنے والےکو دلا کہا جاتا ہے۔اس کمائی میں سے اس کے حصہ کو \"دلالی\"کا نام دیا جاتا ہے۔ دلال سے مراد دلا لانے والا یعنی دلانے والا۔ پنجابی میں ایک لفط \"و چولا \"بولا جاتاہے بمعنی وچ کا رلا ،درمیان والا ،فریقین میں رابطے کا ذریعہ ۔ وچولے کو رشتے کرانے والے تک محدود کر دیا گیا ہے۔دلال کو کمشن ایجنٹ کہہ کر پکارا جانے لگا ہے۔ اس کے معاوضے کو کمشن کا نام دے دیا گیا ہے۔ دلال کو سودا کرانے بھی والا کہا جاسکتا ہے۔ دلال عام بول چال کا لفظ رہا ہے۔ اس میں اب بدیسی ہونے کی بوخو نہیں رہی ہے۔یہاں زیر اور زبر ،دونوں سے سننے میں آتا ہے۔ :خیام کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ ہودلال قضا ،برایگائش بہ فروخت مقراض اجل ،طناب عمرش بہ بریدموت کی قینچی نے زندگی کی طنابیں کاٹ دیں۔ موت کے دلال نے بلا ( )قیمت فروخت کر دیا۔ ترجمہ میر مرتضی حسین فاضل
غالب کے ہاں اس کا استعمال دیکھیں۔ فارسی لفظ دلال کی بو تک نہیں :آتیچش ِم دلال جن ِس رسوائی د ِل خریدار ذو ِق رسوائی دوزخ: یہ لفظ اسلامی تعلیمات کے حوالہ سے اردو میں داخل ہوا ہے۔ کہاجاتا ہے ،بدکار اور اعما ِل بد کے حامل اشخاص کو اس میں ڈالا جائے گا۔ عربی میں جہنم استعمال میں آتاہے۔ دوزخ بدترین جگہ ہے جہاں دہکتی ہوئی آگ اور کھولتا ہوا پانی ہو گا۔انسان پتھر وغیرہ اس کا ایندھن ہوں گے۔ جب بھی اس سے پوچھا جائے گا بس یا اور تو یہ’’ ھل من مزید‘‘ کہتی سنائی دے گی۔ انسانی معاشرے میں سکون ،امن ،توازن اورخیر کی فضا پیدا کرنےکے لیے اور بے انصافی کو روکنے کے لیے اس بدترین جگہ کا خوف دلایا جاتاہے۔ اس لفظ کا اردو میں حقیقی اور غیر حقیقی معنوں میں استعمال پڑھنے کو ملتا ہے۔ غیر حقیقی معنوں میں تنگی ،سختی،پریشانی ،دکھ ،درد ،مصیبت وغیرہ کا اظہار ملتا ہے۔غیر حقیقی معنوں کے حوالہ سے اسے مہاجر کہنا درست نہیں۔ میر صاحب کے ہاں :دیکھئےآہ میں کب کی کہ سرمایہ دوزخ نہ ہوئی کون سا اشک منبع طوفاں نہ ہواآہ کی شدت تلخی اور گرمی کو لفظ \"دوزخ \"کے حوالہ سے ظاہر کیا :گیا ہے۔ اب غالب کے ہاں استعمال دیکھئے
طاعت میں تار ہے نہ مے وانگیں کی لاگ دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو حقیقی معنوں میں نظم ہوا ہے اور انداز خالص ناصحانہ ہو گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔ سیر کے واسطے تھوڑی کیوں نہ فردوس کو دوزخ میں ملالیں یارب فضا اور سہی انداز بدل گیا ہے۔ اس میں انسان کے ظرف ،استعداد ،تنوع پسندیوغیرہ کو واضح کیا گیا ہے۔ دوسرااس آمیزے سے اعتدال پیدا ہوجائے ۔ اسی طرح حد سے بڑی تکلیف یا حد سے بڑھا سکھ اعتدال پر آکر انسان کو جامد نہیں ہونے دے گا۔فطرتاا انسان متحرک رہ کر ہی آسودگی محسوس کرتا ہے۔ رخصت: یہ لفظ فارسی میں آسانی ،ارزانی ،استواری اور لچکدار کے معنوں میں لیا جاتا ہے۔ اردو میں چھٹی ،اجازت ،ودع کرنا روانگی وغیرہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ فارسی مفاہیم ایک خوبصورتمعاشرے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اردو مفاہیم کے حوالہ سے یہ لفظ اب مہاجر نہیں رہا۔ حاتم کے ہاں اس کا استعمال ملاحظہ ہو تم سے اب اے دوستاں رخصت ہوے جاتے ہیں ہم اس کے کوچے میں گئے پھر گھر کو کب آتے ہیں ہم ( )۹٠حاتم رخصت ہونا ،ودع ہونا ،چل دینا :غالب دیکھئے کس کروٹ بیٹھتے ہیں
تیرے چہرے سے ہو ظاہر غم رخص ِت نالہ مجھے دے کہ مبادا ظالم پنہاں میرا فارسی میں گری ہوئی ،بکھری ہوئی چیز کے معنوں میں ریختہ: استعمال ہوتاہے۔ اردو میں زبان ،اردو شاعری ،اردو غزل کے اشعار، ریختی صن ِف شعر کے لیے استعمال ہوتاہے۔ اردو میں اس کے لغوی معنی کچ اور مسالہ کے ہیں۔ اس کا اصل روپ \"ریکھتا\"ہے۔ ریکھ فاصلہ اور دراڑکے معنی بھی رکھتا ہے۔ فارسی لفظ ریختہ کو دیسیمفاہیم کے ساتھ استعمال کیا جانے لگاہے۔ اردو استعمال کی چند مثالیں :ملاحظہ ہوں درریختہ در دیختہ ،ہم سعدی طرح انگیحتہ ،شہدوشکر آمیختہ شعر ہے ہم گیت ہے ( )۹١سعدی سعدی کے ہاں شعرو گیت کے معنوں میں استعمال ہوا ہے عمر گذری ریختہ چھوٹاگیا ( )۹٢میر میر کس کو اب دماغِ گفتگو میر صاحب نے ریختہ کو اردو غزل کے معنوں میں استعمال کیا ہے غالب نے بھی اسے اردو غزل کے معنوں میں لیا ہےگفتہء غالب ایک بار یہ جو کہے کہ ریختہ کیونکہ ہو رش ِک فارسی پڑھ کے اسے سنا کہ یوں زکوۃ: اسلام کی شرعی کٹوتی کو زکوۃ کہا جاتا ہے۔ اسلام میں حلال مال میں سے ڈھائی فیصد سالانہ غریبوں اور حقداروں میں تقسیم کیا جاتا ہے اور یہ ایمان کا باقاعدہ رکن ہے۔ یہ لفظ عربی سے اسلام کے
حوالہ سے ،اردو میں داخل ہوا۔ اردو والوں نے اس کے معنی بھی :تبدیل کر دیئے ہیں۔ تا ہم واجب ہونے کا لازمہ برقرار نظر آتاہےبے نوا ہوں زکوۃ حسن کی دے اومیاں مالدار کی صورت بے نواچراغِ خانہء درویش ہر کا زکوا ِت حسن دے اے جلوۂ بینش کہ مہرآسا سرگدائی کا ( )۹۳غالبان اشعار میں زکوات بمعنی بوسہ نظم ہوا ہے۔ سیر :سیر: لفظ سیر عربی سے اردو میں داخل ہوا ہے لیکن معنوی اختلاف اور استعمالی سلیقے نے اسے عربی نہیں رہنے دیا۔ عربی میں اسکے معنی حال ،روش ،طر ِز عمل ،چلن ،روانگی ،رفتار ،ترقی وغیرہہیں۔ اردو میں جو تشنہ نہ ہو ،پر ،قدر دان ،صاح ِب حیثیت ،مطالعہ، تفریح وغیرہ معنوں میں استعمال ہوتاہے۔ اس ضمن میں چند مثالیں :ملاحظہ ہوںمیاں چل سیر کرابرو ہوا ہے ہوا ہے کوہ و صحرا جا بجا سبز ( )۹۴حاتمتفریح ،تفریح کی غرض سے چلنا پھرنایہ شیشہ بیچنا ہے کسی مظہر چھپا کے رکھ د ِل نازک سیر کے تئیں میرزا کے ہاتھ ( )۹۵مظہردیدار ،زیارت ،محبوب کے کوچے میں آنا جانابدگماں بھائی سے اپنے ،وہ لگی کہنے کہ ایسا ہے یہ بھڑوانیم سیر
ہو لگے گرمجھ کو دیر ( )۹۶نوا شکی مزاج ،ناشکرا ،اعتماد نہ کرنے والا ،وہمی سیر کر تو بھی یہ درہمی حال کی ہے سارے مرے دیواں میں مجموعہ پریشانی کا ( )۹٧میر :مطالعہ ،لطف اندوزی،حظ اٹھانا ،مختلف ذریعہ سے مطالعہ لطف لیناغالب نے تفریح کر کے سیر سپاٹے سے لطف اندوزی کے معنوں میں :نظم کیا ہے کیوں نہ فردوس کو دوزخ میں ملالیں یا رب سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی پنجابی میں سیر کے سیل بولتے ہیں ۔گھومنے پھرنے والے اور موڈ موج والے کے لئے سیلانی بولتے ہیںباغ و بہار\"کا یہ جملہ ملا خطہ ہوں\":قدم قدم سیر کرتے ہوئے چلے \" )جاتے تھے\"(۹۸ درج بالا معر وضات کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ سیر اردو میں مہاجر نہیں رہا اس نے اردو کا معنوی سلیقہ اختیار کرلیا ہے۔دوسراسیل کی ل،س میں بدل گئی ہو بعید از قیاس نہیں ۔اگر یہ لفظ پہلے سے سیر ہے تو عر بی لفظ سیر سے اس کا کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے ۔ شادی: شادی شاد پر ’’ی‘‘ کی بڑھوتی سے ترکیب پایا ہے جس کےمعانی خوش و خرم کے ہیں۔اس حوالہ سے خوشی کی تخصیص ممکن
نہیں ۔خوشی کسی قسم کی بھی ہو سکتی ہے۔اردو میں یہ لفظ شادی بیاہ کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ ان معنوں میں یہ لفظ مہاجر نہیں :ہے ۔ مثلاا ہدایت کا یہ شعر ملا خط ہو دیدہ عالم کا کوئی دم کیجئے کس کی شادی و کس کا غم کیجیے()۹۹ ہدایت اللہ ہدایت :غالب کے ہاں بھی قریباا اِن ہی معنوں میں استعمال ہوا ہے ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق نوحہ غم ہی سہی نغمہء شادی نہ سہی شکست:شکست فارسی مصدر شکستن سے ہے۔ ٹوٹا ہوا عموماا بولا جا تا ہے۔ شکست و بست یعنی توڑ ،ٹوٹ پھوٹ۔اردو غزل میں فارسی مفاہیم سے ہٹ کر بھی استعمال میں آتا ہے مثلاا وہ دن گئے کلیم کہ یہ آتی ہے دل پہ قلقل مینا سے اب شکست شیشہ سنگ تھا ( )١٠٠محمد حسین کلیم دراڑ،تیرڑ،چوٹ،اذیت ،دکھ،پیشمانی،تکلیف،جس سے خرابی کی صورت نکلتی ہو :میر صاحب نے خلل پیشمانی دراڑ دکھ ملال کے معنوں میں برتاہے آئی جو شکست آئنے پر روئے د ِل یارا دھر نہ ہو گا ()١٠١میر :اس کی جمع بھی دیسی طریقہ سے بنائی جاتی ہے یکسر وہ استخوان شکستوں کل پاؤں ایک کا سۂ سر پر جو آگیا
Search
Read the Text Version
- 1
- 2
- 3
- 4
- 5
- 6
- 7
- 8
- 9
- 10
- 11
- 12
- 13
- 14
- 15
- 16
- 17
- 18
- 19
- 20
- 21
- 22
- 23
- 24
- 25
- 26
- 27
- 28
- 29
- 30
- 31
- 32
- 33
- 34
- 35
- 36
- 37
- 38
- 39
- 40
- 41
- 42
- 43
- 44
- 45
- 46
- 47
- 48
- 49
- 50
- 51
- 52
- 53
- 54
- 55
- 56
- 57
- 58
- 59
- 60
- 61
- 62
- 63
- 64
- 65
- 66
- 67
- 68
- 69
- 70
- 71
- 72
- 73
- 74
- 75
- 76
- 77
- 78
- 79
- 80
- 81
- 82
- 83
- 84
- 85
- 86
- 87
- 88
- 89
- 90
- 91
- 92
- 93
- 94
- 95
- 96
- 97
- 98
- 99
- 100
- 101
- 102
- 103
- 104
- 105
- 106
- 107
- 108
- 109
- 110
- 111
- 112
- 113
- 114
- 115
- 116
- 117
- 118
- 119
- 120
- 121
- 122
- 123
- 124
- 125
- 126
- 127
- 128
- 129
- 130
- 131
- 132
- 133
- 134
- 135
- 136
- 137
- 138
- 139
- 140
- 141
- 142
- 143
- 144
- 145
- 146
- 147
- 148
- 149
- 150
- 151
- 152
- 153
- 154
- 155
- 156
- 157
- 158
- 159
- 160
- 161
- 162
- 163
- 164
- 165
- 166
- 167
- 168
- 169
- 170
- 171
- 172
- 173
- 174
- 175
- 176
- 177
- 178
- 179
- 180
- 181
- 182
- 183
- 184
- 185
- 186
- 187
- 188
- 189
- 190
- 191
- 192
- 193
- 194
- 195
- 196
- 197
- 198
- 199
- 200
- 201
- 202
- 203
- 204
- 205
- 206
- 207
- 208
- 209
- 210
- 211
- 212
- 213
- 214
- 215
- 216
- 217
- 218
- 219
- 220
- 221
- 222
- 223
- 224
- 225
- 226
- 227
- 228
- 229
- 230
- 231
- 232
- 233
- 234
- 235
- 236
- 237
- 238
- 239
- 240
- 241
- 242
- 243
- 244
- 245
- 246
- 247
- 248
- 249
- 250
- 251
- 252
- 253
- 254
- 255
- 256
- 257
- 258
- 259
- 260
- 261
- 262
- 263
- 264
- 265
- 266
- 267
- 268
- 269
- 270
- 271
- 272
- 273
- 274
- 275
- 276
- 277
- 278
- 279
- 280
- 281
- 282
- 283
- 284
- 285
- 286
- 287
- 288
- 289
- 290
- 291
- 292
- 293
- 294
- 295
- 296
- 297
- 298
- 299
- 300
- 301
- 302
- 303
- 304
- 305
- 306
- 307
- 308
- 309
- 310
- 311
- 312
- 313
- 314
- 315
- 316
- 317
- 318
- 319
- 320
- 321
- 322
- 323
- 324
- 325
- 326
- 327
- 328
- 329
- 330
- 331
- 332
- 333
- 334
- 335
- 336
- 337
- 338
- 339
- 340
- 341
- 342
- 343
- 344
- 345
- 346
- 347
- 348
- 349
- 350
- 351
- 352
- 353
- 354
- 355
- 356
- 357
- 358
- 359
- 360
- 361
- 362
- 363
- 364
- 365
- 366
- 367
- 368
- 369
- 370
- 371
- 372
- 373
- 374
- 375
- 376
- 377
- 378
- 379
- 380
- 381
- 382
- 383
- 384
- 385
- 386
- 387
- 388
- 389
- 390
- 391
- 392
- 393
- 394
- 395
- 396
- 397
- 398
- 399
- 400
- 401
- 402
- 403
- 404
- 405
- 406
- 407
- 408
- 409
- 410
- 411
- 412
- 413
- 414
- 415
- 416
- 417
- 418
- 419
- 420
- 421
- 422
- 423
- 424
- 425
- 426
- 427
- 428
- 429
- 430
- 431
- 432
- 433
- 434
- 435
- 436
- 437
- 438
- 439
- 440
- 441
- 442
- 443
- 444
- 445
- 446
- 447
- 448
- 449
- 450
- 451
- 452
- 453
- 454
- 455
- 456
- 457
- 458
- 459
- 460
- 461
- 462
- 463
- 464
- 465
- 466
- 467
- 468
- 469
- 470
- 471
- 472
- 473
- 474
- 475
- 476
- 477
- 478
- 479
- 480
- 481
- 482
- 483
- 484
- 485
- 486
- 487
- 488
- 489
- 490
- 491
- 492
- 493
- 494
- 495
- 496
- 497
- 498
- 499
- 500
- 501
- 502
- 503
- 504
- 505
- 506
- 507
- 508
- 509
- 510
- 511
- 512
- 513
- 514
- 515
- 516
- 517
- 518
- 519
- 520
- 521
- 522
- 523
- 524
- 525
- 526
- 527
- 528
- 529
- 530
- 531
- 532
- 533
- 534
- 535
- 536
- 537
- 538
- 539
- 540
- 541
- 542
- 543
- 544
- 545
- 546
- 547
- 548
- 549
- 550
- 551
- 552
- 553
- 554
- 555
- 556
- 557
- 558
- 559
- 560
- 561
- 562
- 563
- 564
- 565
- 566
- 567
- 568
- 569
- 570
- 571
- 572
- 573
- 574
- 575
- 576
- 577
- 578
- 579
- 580
- 581
- 582
- 583
- 584
- 585
- 586
- 587
- 588
- 589
- 590
- 591
- 592
- 593
- 594
- 595
- 596
- 597
- 598
- 599
- 600
- 601
- 602
- 603
- 604
- 605
- 606
- 607
- 608
- 609
- 610
- 611
- 612
- 613
- 614
- 615
- 616
- 617
- 618
- 619
- 620
- 621
- 622
- 623
- 624
- 625
- 626
- 627
- 628
- 629
- 630
- 631
- 632
- 633
- 634
- 635
- 636
- 637
- 638
- 639
- 640
- 641
- 642
- 643
- 644
- 645
- 1 - 50
- 51 - 100
- 101 - 150
- 151 - 200
- 201 - 250
- 251 - 300
- 301 - 350
- 351 - 400
- 401 - 450
- 451 - 500
- 501 - 550
- 551 - 600
- 601 - 645
Pages: