Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore لفظیات غالب کا تحقیقی و ساختیاتی مطالعہ

لفظیات غالب کا تحقیقی و ساختیاتی مطالعہ

Published by maqsood5, 2017-02-02 03:15:54

Description: abk_ksr_mh.946/2016

لفظیات غالب کا تحقیقی و ساختیاتی مطالعہ
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
جنوری ٢٠١٧

Search

Read the Text Version

‫سہو‪ ،‬حرف شکایت ہونٹوں تک نہ لاؤ۔ بالکل اسی طرح ’’حاکم نے‬ ‫نہایت مہربانی فرماتے ہوئے آپ کو ملازمت سے نکال دیا ہے ‘‘ حاکم‬ ‫کا ہر اچھا برا حکم اس کی عنایت اور مہربانی پر محمول ہوتا ہے ۔‬ ‫اس کے خلاف بولنا جرم اور کفرا ِن نعمت کے زمرے میں آتا ہے۔‬ ‫زنداں‪:‬‬ ‫)زنداں فارسی اسم مذکر۔ قید خانہ ‪ ،‬جیل (‪١۵۶‬‬ ‫زنداں کا ریاستی نظام میں بڑا عمل دخل رہا ہے ۔ اس کی ہر جگہ‬ ‫مختلف صورتیں رہی ہیں‬ ‫حوالات ‪:‬‬ ‫یہ منی جیلیں ابتدائی تحقیق وتفتیش کے لئے قائم رہی ہیں۔ یہاں‬ ‫ملزموں پر ذہنی اور جسمانی تشدد اور انسانیت سوز سلوک روا رکھا‬ ‫جاتارہا ہے ۔ یہاں چارقسموں کے ملزموں کو رکھا جاتاہے‬ ‫نامزد ملزم (‪ )٢‬مشتبہ افراد (‪ )۳‬حکومت وقت کے مخالفین (‪(١) )۴‬‬ ‫مہنگائی کے توڑ اور ذاتی‬‫عیش وتعیش کے لئے رشوت یا تہواری وصول کے لئے کسی کو بھی‬ ‫پکڑ کر بندکردیا جاتا ہے‬ ‫ضروری نہیں ہوتا کہ پکڑے گئے افراد کاروزنامچہ میں اندراج کیا‬‫جائے یاپھر تفتیش کے لئے بالا اتھارٹی سے پروانے حاصل کیا جائے۔‬ ‫یہ زیادہ ترتھانیدار صاحبان کی اپنی صوابدید پر انحصار کرتاہے ۔‬

‫جیل‪:‬‬‫تفتیش اورچالان مکمل کرکے ملزموں کو جیل بھیج دیا جاتاہے ۔ عدالت‬ ‫کے سزا یافتہ یہاں اپنی سزا مکمل کرتے ہیں۔‬ ‫نظربندی‪:‬‬ ‫سیاسی قیدیوں کو ان کے گھر میں یا کسی بھی عمارت میں نظر بند‬ ‫کردیاجا تا ہے ۔ ان کے معاشرتی رابطے منقطع‬ ‫کردئیے جاتے ہیں۔‬ ‫جنگی قیدیوں ‪ ،‬غیر ملکی جاسوسوں ‪ ،‬حکومتی مخالفوں ‪* ،‬‬ ‫غداروں کے لئے الگ سے عقوبت خانے بنائے جاتے ہیں۔‬ ‫جاگیرداروں ‪ ،‬وڈیروں ‪ ،‬حکمرانوں حکومتی عہدے دارو ں *‬ ‫وغیرہ نے اپنے جیل بنائے ہوتے ہیں جہاں وہ اپنے‬ ‫مخالفین کو ٹارچر کرتے ہیں۔‬‫پیشہ ور بدمعاشوں نے تاوان یا مخصوص مقاصد کی تکمیل کے *‬ ‫لئے ’’ زنداں‘‘ بنا رکھے ہوئے ہیں۔‬ ‫ذہنی معذوروں کو گھر کے کسی کمرے ‪ /‬پاگل خانے میں بند *‬ ‫کرکے ان کے معاشرتی تعلقات پر قدغن لگادیا جاتاہے ۔‬‫لفظ ’’زنداں‘‘ ہیجانی کیفیت پیداکرنے والا لفظ ہے۔ بے گناہ اور گنہگار‬ ‫قیدیوں کی حالت اور ان پر تشدد کاتصور احساس کی کرچیاں بکھیر‬ ‫دیتاہے ۔ زنداں سے کچھ اس قسم کی کیفیات منسلک نظرآتی ہیں‬ ‫)اترا ہوا چہرا (‪١ ١۵٧‬‬

‫)گالیاں اور بددعائیں (‪٢ ١۵۸‬‬ ‫)بے چینی ‪ ،‬بے چارگی ‪ ،‬بے بسی ‪،‬بے ہمتی (‪۳ ١۵۹‬‬ ‫)اعصابی تناؤ کے باعث لرزہ (‪۴ ١۶٠‬‬ ‫خوف ڈر اور طرح طرح کے خدشات ‪۵‬‬ ‫منتشر اور غیر مربوط سوچوں کا لامتناہی سلسلہ ‪۶‬‬ ‫آزادی کی خواہش اور اس کے سہانے سپنے ‪٧‬‬ ‫کسی معجزے کی توقع ‪۸‬‬ ‫مذہب سے رغبت ‪۹‬‬ ‫آنسوؤں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ‪١٠‬‬ ‫انتقامی جذبے ‪١١‬‬ ‫تشنہ تکمیل ضد ‪١٢‬‬ ‫جرم کی طرف رغبت ‪١۳‬‬ ‫ذہنی پسماندگی ‪١۴‬‬ ‫جسمانی فرار‪ ،‬تنگی ‪ ،‬تاریکی اور کڑی پابندیاں ‪١۵‬‬ ‫غالب کے ہاں یہ لفظ مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ ہر استعمال‬ ‫کے ساتھ دکھ اورکرب وابستہ نظر آتا ہے‬‫احباب چارہ سازی وحشت نہ کرسکے زنداں میں بھی خیال بیاباں نورد‬ ‫تھا‬

‫وحشت کم کرنے یا وحشت کا علاج کرنے کی غرض سے قید خانے‬ ‫)میں ڈالا جانا ( ‪١۶١‬‬‫ہنوز اک پرتو نق ِش خیال یارباقی ہے دل افسردہ گویا حجرہ ہے یوسف‬ ‫کے زنداں کا‬ ‫تنگ وتاریک قید خانہ (‪ )١۶٢‬؂‬ ‫کیاکہوں تاریکی زندا ِں غم اندھیرہے پنبہ نو ر صبح سے کم جس کے‬ ‫روزن میں نہیں‬ ‫دکھ ‪ ،‬پریشانی ‪ ،‬رنج وغیرہ بھی مثل زنداں ہیں۔ ان کی گرفت مینآنے‬ ‫والا بے سکون ہوتا ہے ۔ بے چارگی اور بے بسی کی زندگی‬ ‫بسرکرتاہے ۔‬‫چندا نے زنداں کو ’’ اسیر گاہ ‘‘ کے معنوں میں لیا ہے ۔ غم کا حصار‬ ‫ہوتاہے اور انسان اسی حصارمیں مقید رہتا ہے ۔ اسی حوالہ سے غم‬ ‫کو زنداں کا نام دیا گیا ہے‬ ‫اسیرغم کوزنداں سے نکالا بے سبب پھر کیوں‬ ‫سناہے غل بھی تونے نالہ زنجیر سے اپنے ( ‪ )١۶۳‬چندا‬ ‫میر مہدی مجروح عشق کو بھی زنداں کا نام دیتے ہیں ۔ جواس میں‬ ‫گرفتا ر ہوتاہے۔ ایک طرف عشق کی کافرمائیاں ہوتی ہیں تو دوسری‬ ‫طرف اس کی عمرانی سرگرمیاں ختم ہوجاتی ہیں۔ معاشرتی واسطے‬ ‫اور حوالے ختم ہوجاتے ہیں‬ ‫‪ .‬حضر ِت عشق میں کچھ پوچھ بزرگی کی نہیں‬

‫اس میں یوسف بھی رہے قیدی زنداں ہوکر (‪ )١۶۴‬مجروح‬ ‫شکیب جلالی نے بھی زنداں سے مراد قیدخانہ لیا ہے‬ ‫دیوار گلستان د ِر زنداں یوں بھی بڑھی ہے وسع ِت ایوا ِن رنگ وبو‬ ‫سے جاملی (‪ )١۶۵‬شکیب‬ ‫مختلف جانوروں اورپرندوں کی انسانی معاشرت میں بڑی اہمیت رہی‬‫ہے ۔انسان اپنے شوق کی تکمیل کے لئے جنون میں پرندوں کو ان کی‬ ‫خوبصورتی اور دلربااداؤں کی پاداش میں بندی بناتا چلا آیا ہے ۔‬‫قفس‘‘ پرندوں کے قید خانے کے لئے بولا جاتاہے ۔ لفظ قفس سنتے ’’‬ ‫ہی کسی معصوم پرندے کی بے بسی اور تڑپنا پھڑکنا آزادی کے لئے‬ ‫قفس کی دیواروں سے سرٹکرانا آنکھوں کے سامنے گھوم جاتاہے ۔‬‫قفس فارسی اسم مذکر ہے ۔ اہل لغت اس کے پنجرا ‪ ،‬جال ‪ ،‬پھندا‪ ،‬قالب‬‫خاکی ‪ ،‬جسم (‪ )١۶۶‬معنی مراد لیتے ہیں ۔ اس لفظ کو زنداں کامترادف‬‫بھی سمجھا جاتاہے ۔ مولانا روم نے زنداں کو قید خانہ کے معنوں میں‬ ‫استعمال کیا ہے ۔آقا کے ملازم کا رویہ زنجیر زنداں سے کم نہیں ہوتا‬ ‫آں عرض ‪ ،‬زنجیر و زنداں می شود چاکرت شاہا خیانت می کرد‬ ‫)(‪١۶٧‬‬‫غالب کے ہاں قفس‪ ،‬پنجرے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اور اسے‬ ‫اسیر کے لئے بطور مشبہ بہ نظم کیاہے‬‫کرے قفس میں فراہم خس مثال یہ میری کوشش کی ہے کہ مرغ اسیر‬ ‫آشیاں کے لئے‬ ‫قیدی ‪ ،‬قید میں اپنی ایڈجسٹمنٹ کے لئے آزاد ماحول ایسا سامان پیدا‬

‫کرنے کی سعی لاحاصل کرتا ہے ۔‬ ‫چندا نے قفس کو ’’جائے اسیر عاشق‘‘ کے معنوں میں استعمال کیا‬ ‫ہے ؂‬ ‫گردام سے اپنے ہمیں آزاد کروگے پھر کس سے یہ کنج قفس آباد‬ ‫کروگے (‪ )١۶۸‬چندا‬ ‫ذوق نے بھی پنجرہ معنی مراد لیئے ہیں‬‫یاد آیا جع اسیران قفس کو گلزار مضطرب ہوکے یہ تڑپے کہ قفس ٹوٹ‬ ‫گئے (‪ )١۶۹‬ذوق‬ ‫میرمہدی مجروح کے ہاں قربت ‪ ،‬تعلق ‪ ،‬اپنا لینا کے معنوں میں‬ ‫استعمال ہوا ہے‬ ‫قفس میں دام سے ڈالا ہے ایک عمر بعد ہزار شکر‪،‬ہوا کچھ تو مہرباں‬ ‫صیاد (‪ )١٧٠‬مجروح‬‫شعرا نے عشاق کو مثل پرندہ قرار دے کرقفس میں بند کئے رکھا ہے ۔‬‫چڑی مار‘‘ قسم کی چیز ہوتاہے جوعشاق کو پکڑ ’’گویا محبوب کوئی‬ ‫پکڑ کر قفس میں بند کئے جاتاہے ۔عشاق قفس کی دیواروں سے‬ ‫سرٹکرا ٹکرا کر عمر گزار دیتے ہیں ۔ غزل کے شعرا کا یہ نظریہ‬ ‫عملی دنیا میں ایسا غلط بھی نہیں لگتا۔‬ ‫زیارت گاہ‪:‬‬ ‫زیارت گاہ زیارت عربی زبان کا لفظ ہے جب کہ گاہ فارسی لاحقہ ہے‬ ‫اور مونث استعمال ہوتا ہے ۔ لغوی معنی کسی متبرک جگہ کا دیکھنا ‪،‬‬ ‫یاترا ‪ ،‬حج ‪ ،‬مقدس جگہ کا نظارہ‪ ،‬مقبرہ ‪ ،‬مزار ‪ ،‬آستانہ ‪ ،‬درگاہ‬

‫‪،‬پرستش گاہ (‪ )١٧١‬پیروں ‪ ،‬عاشقوں ‪ ،‬قومی ہیروز اور بڑے کام‬‫کرنے والوں کی قبریں توجہ کامرکز رہی ہیں۔ یہ بھی روایت رہی ہے‬ ‫کہ بادشاہ جھروکے میں بیٹھ جاتاتھا ۔رعایا اس کی زیارت کے لئے‬ ‫گزرتی تھی خیال کیا جاتا تھا کہ بادشاہ کی زیارت کے بعد دن اچھا‬ ‫گزرے گا۔ زیادہ روزی میسر آئے گی۔ آج بھی سننے میں آتاہے کہ‬ ‫یااللہ کسے نیک دے ’’ لوگ کام سے باہر نکلتے ہیں توکہتے ہیں‬‫پتہ نہیں کس ’’متھے لاویں‘‘ اچھا برا ہونے کی صورت میں کہتے ہیں۔‬‫۔ گویا زیارت گاہ کا اس حوالہ سے معاشرے ‘‘ کے متھے لگے تھے‬ ‫میں بڑا اہم رول ہے ۔ ہمارے ہاں تو عشاق کی قبریں عشاق حضرات‬ ‫کے لئے بڑی بامعنی ہیں۔‬ ‫شاہ حسین نے لفظ ’’درگاہ‘‘ خدا کے ہاں حاضری کے معنوں میں لیا‬ ‫ہے‬ ‫بھٹھ پئی تیری چٹی چادر چنگی فقیراں دی لوئی‬ ‫درگاہ وچ سہاگن سوامی ‪ ،‬جوکھل کھل نچ کھلوئی (‪ )١٧٢‬شاہ حسین‬ ‫غالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ ہو‬‫پ ِس مردن بھی ‪ ،‬دیوانہ زیارت گاہ طفلاں ہے شرار سنگ نے تربت پہ‬ ‫مری گلفشانی کی‬ ‫ساحل ‪:‬‬ ‫عربی اسم مذکر ‪ ،‬سمندر یا دریا کا کنارہ (‪ )١٧۳‬بے رونقی ‪،‬‬ ‫ویرانی (‪ )١٧۴‬ہجر کی افسردگی (‪ )١٧۵‬خمیازہ ‪،‬‬ ‫میں لینے والا (‪ )١٧۶‬دریا کاہم وسعت ‪ ،‬تشنہ کام ‪ ،‬ناقابل تسکین تمنا‬

‫)(‪١٧٧‬‬ ‫ساحل انسانی تہذیبوں کے جنم داتا رہے ہیں ۔ ابتدا میں آبادیاں کناروں‬ ‫کا رخ کرتی تھیں ۔ دریا آبادیوں کو نگلتے رہے اس کے باوجود‬ ‫’’ساحل ‘‘ انسان کے لیے کبھی بے معنی نہیں ہوئے۔ ساحلوں کا‬ ‫مزاج‪ ،‬انسانی مزاج پراثر انداز ہوتا رہاہے۔ یہ مزاجی تبدیلوں کا عمل‬ ‫محتلف تغیرات سے گزر کر مختلف حالات سے نبردآزما ہو کر روایت‬ ‫کی شکل اختیار کرتا رہا ہے۔ غالب کے ہاں ساحل کا استعمال ‪ ،‬اس‬ ‫کے جدت طراز ذہن کا عکاس ہے‬ ‫دل تا جگر کہ ساحل دریائے خوں ہے اب اس رہگزر میں جلوہء گل ‪،‬‬ ‫آگے گرد تھا‬ ‫ایک اور انداز ملاحظہ فرمائیں‬‫بقدر ظرف ہے ساقی خمار تشنہ کامی کا جو تو دریائے مے ہے تو میں‬ ‫خمیازہ ہوں ساحل کا‬ ‫غالب ساحل کا مترادف ’’ کنارہ ‘‘ بھی استعمال میں لائے ہیں‬ ‫سفینہ جب کہ کنارے پر آکر لگا غالب خدا سے کیا جوروستم ناخدا‬ ‫کہیے‬ ‫کنارے کو کونہ ‪ ،‬ایک طرف ‪ ،‬کامیابی اور فتح کے معنوں میں بھی‬ ‫استعمال کیا جاتا ہے۔ کنار ہ حوصلہ اور عبرت کے پہلو بھی واضح‬ ‫کرتاہے۔ نزع کا عالم ‪ ،‬موت کا وقت ‪ ،‬صبر کا پیمانہ لبریز ہونا اور‬‫صبر کی آخری حد کے لیے کسی نہ کسی واسطے سے یہ لفظ بول چال‬ ‫میں آتا رہتا ہے ۔‬

‫اردو شاعری کے لیے یہ لفظ نیا نہیں ۔ چنداستعمالات ملاحظہ ہوں‬‫کرم اللہ خاں درد کاکہنا ہے دریا کے دوکنارے آپس میں باہم ہوسکتے‬ ‫۔ دو ایک سی متضاد سمت میں چلنے والی چیز آپس میں مل نہیں‬ ‫سکتیں‬ ‫کنارے سے کنارہ کب ملا ہے بحر کا یارو‬ ‫پلک لگنے کی لذت دیدہ ء پر ٓاب کیاجانے(‪ )١٧۸‬کرم اللہ ورد‬ ‫قائم چاند پوری نے عمر کو دریا ‪،‬جسم کو کنارہ کہاہے‬‫عمر ہے آب رواں اور تن ترا غافل کنار دم بدم خالی کرے ہے موج اس‬ ‫ساحل کی تہ(‪١٧۹‬قائم‬ ‫شکیب جلالی نے لفظ ساحل کا کیا عمدگی اور نئی معنویت کے ساتھ‬ ‫استعمال کیا ہے‬‫ساحل سے دور جب بھی کوئی خواب دیکھے جلتے ہوئے چراغ تہ آب‬ ‫دیکھے(‪١۸٠‬شکیب‬ ‫شبستان ‪:‬‬ ‫فارسی اسم مذکر ‪ ،‬پلنگ ‪ ،‬سونے کا ‪ ،‬شب خوابی کا کمرہ ‪ ،‬آرام گاہ ‪،‬‬ ‫عشرت گاہ ‪ ،‬بادشاہوں کے سونے کا کمرہ ‪ ،‬حرم سرا ‪ ،‬خلوت گاہ ‪،‬‬‫مسجد کی وہ جگہ جہاں رات کو عبادت کرتے ہیں ‪ ،‬خانہ کعبہ کا احاطہ‬ ‫(‪)١۸١‬خواب گاہ ‪ ،‬رات کو آرام کرنے کی جگہ‪ )١۸۳( ،‬قیام گاہ‬‫شب(‪ )١۸۴‬یہ لفظ شب کے ساتھ ستان کی بڑھوتی سے ترکیب پایا ہے‬ ‫مقا ِم شب بسری کو انسانی زندگی میں بڑی اہمیت حاصل ہے دن بھر‬

‫کی بھاگ دوڑ کے بعد اس کی اہمیت و ضرورت واضح ہوجاتی ہے ۔ ان‬ ‫حقائق کے حوالہ سے دیکھنے میں آتا ہے لوگ مقام شب بسری کی‬ ‫تعمیر اور آشائش و تزئین پر لاکھوں روپیہ صرف کرتے ہیں اور یہ‬ ‫سب لایعنی معلوم نہیں ہوتا ۔ انسان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایسی‬‫جگہ شب بسر کرے جہاں اسے کوئی ڈسٹرب نہ کرے ۔ یہ لفظ تھکے‬‫ماندے اعصاب اور دماغ کے لیے نعمت کا درجہ رکھتا ہے ۔ جسم ڈھیلا‬ ‫پڑنے لگتا ہے اور وہ آرام کی سوچنے لگتاہے۔ ان معروضات کے‬ ‫تناظرمیں غالب کے اس شعر کا مطالعہ کریں‬ ‫سفر عشق میں کی ضعف نے راحت طلبی ہر قدم سائے کو میں‬ ‫شبستاں سمجھا‬‫خوابگاہوں کو پر سکون ‪ ،‬آرام دہ ‪ ،‬شب بسری کے جملہ لوازمات سے‬‫آراستہ اور محفوظ ترین بنانے کی انسانی کوشش لایعنی اور بے معنی‬ ‫نہیں ۔سویا مویا ایک برابر ہوتاہے۔ سوتے میں کوئی جانور ‪ ،‬سانپ‬ ‫وغیرہ یا دشمن نقصان پہنچا سکتا ہے ۔ مشقت اور محنت کے بعد‬‫سکون کی نیند لازم ہوجاتی ہے ۔ اس لیے خواب گاہ کا عمدہ اور حسب‬ ‫ضرورت ہونا لازم سی بات ہے۔‬ ‫شبنمستان‪:‬‬‫فارسی کا اسم مذکر ‪،‬وہ مقام جہاں شبنم بکثرت پڑتی ہو (‪)١۸۵‬وہ مقام‬‫جہاں سبزے اور پودوں پر بکثرت شبنم پڑتی ہے(‪)١۸۶‬شبنم‪ ،‬را ت کی‬ ‫تری۔ ستان کثرت کے لیے(‪ )١۸٧‬وہ مقام جہا ں اوس پڑی ہو(‪)١۸۸‬‬‫ستان کے لاحقے سے جگہ ‪ ،‬مقام واضح ہو رہا ہے ۔ ایسی جگہ جہاں‬‫شبنم ہی شبنم ہو ۔ اردو میں جگہ کے لئے’’ ستان ‘‘کا لاحقہ بڑھادیتے‬ ‫ہیں ۔ یہی رویہ فارسی میں ملتا ہے۔‬

‫جہاں سبزے پر کثرت سے شبنم پڑتی ہو ‪ ،‬کیا رومان پر ور منظر ہوتا‬ ‫ہے لوگ ننگے پا سبزے پر چلتے ہیں ۔یہ صحت کے لیے مفید ہوتا‬‫ہے ۔ آنکھوں کو ٹھنڈک میسر آتی ہے ۔ آسودگی اور سکون سا ملتاہے‬ ‫۔ معاملہ مشاہدے سے علاقہ رکھتاہے۔ اس لفظ کی نزاکت لطافت‬ ‫مماثلت سے اقبال ایسے شاعر جدید نے بھی فائدہ اٹھایا ہے‬‫ابھی مجھ دل جلے کو ہم صیفرو اور رونے دو کہ میں سارے چمن کو‬ ‫شبنمستان کرکے چھوڑوں گا‬ ‫غالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال واضح کررہا ہے کہ اسے اس جگہ‬ ‫کی نزاکت اور اس کے حسن سے کس قدر دلچسپی ہے‬‫کیا آئینہ خانے کا وہ نقشہ ‪ ،‬ترے جلوے نے کرے جو پر تو خورشید ‪،‬‬ ‫عالم شبنمستان کا‬‫شہر عموماا’’ بازار ‘‘ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے تاہم اس شہر‪:‬‬ ‫کے لغوی معنی بڑی آبادی ‪ ،‬بلدہ ‪ ،‬نگر(‪ )١۸۹‬بستی ‪ ،‬کھیڑہ (‪)١۹٠‬‬ ‫وہ جگہ جہاں بہت سے آدمی مکانات میں رہتے ہوں اور میونسپلٹی‪/‬‬ ‫)کارپوریشن کے ذریعے انتظام ہوتا ہو (‪ )١۹١‬آرزوں کا شہر (‪١۹٢‬‬ ‫شہر بہت سے آدمیوں کی مکانات میں اقامت کے سبب وجود حاصل‬ ‫کرتے ہیں ۔ ان کا ایک سماجی ‪ ،‬عمرانی ‪ ،‬سیاسی ‪ ،‬معاشی سیٹ اپ‬ ‫تشکیل پاتا ہے ۔ نظریات اور روایات مرتب ہوتی ہیں ۔ ایک مجموعی‬‫مزاج اور رویہ بنتاہے۔ لفظ شہر سننے اور پڑھنے کے بعد کوئی خاص‬ ‫تاثر نہیں بنتا۔ تاثر اور توجہ کے لیے کسی سابقے اور لاحقے کی‬ ‫ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔ مثلاا شہر محمد ﷺ ۔ شہر قائد ‪ ،‬شہر‬ ‫اقبال وغیرہ ۔ غالب کے ہا ں شہر آرزو کا ذکر ہوا ہے ۔ اس شہر کا‬

‫مادی وجود تو نہیں لیکن یہ اپنی حثییت میں بے وجود بھی نہیں ۔ دل‬‫میں ہزاروں مختلف قسم کی آرزوئیں پلتی ہیں۔ اپنی رنگا رنگی اورہما‬ ‫ہمی میں شاید ہی اس کی کوئی مثل ہو‬ ‫ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے بہت نکلے مرے‬ ‫ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے‬ ‫گویا دل کسی بڑے شہر کی طرح گنجان آباد ہوتا ہے ۔ آرزو ں کے‬ ‫ساتھ شہر کا لاحقہ کثرت کو واضح کرتا ہے۔‬ ‫شاکر ناجی نے جگہ جگہ جبکہ میر صاحب نے دل کو شہر کا نام دیا‬ ‫ہے۔‬ ‫لے جاہے شہر شہر پھراتا ہے دشت دشت کرتا ہے آدمی کو نہایت‬ ‫خراب دل (‪)١۹۳‬ناجی‬ ‫شہر دل آہ عجیب جائے تھی پر اس کے گئے ایسا اجڑا کہ کسی طرح‬ ‫بسایا نہ گیا(‪)١۹۴‬میر‬ ‫ظلمت کدہ‪:‬‬‫ظلمت عربی اسم مونث ‪،‬تاریکی ‪ ،‬اندھیرا سیاہی (‪ )١۹۵‬کد ہ ‪ ،‬علامت‬ ‫اسم ‪ ،‬ظرف مکان۔ عربی اسم ظلمت پر فارسی لاحقہ کدہ کی بڑھوتی‬ ‫سے یہ مرکب تشکیل پایا ہے ‪ ،‬بمعنی تاریک مقام ‪ ،‬دنیا(‪)١۹۶‬تاریک‬ ‫)گھر (‪١۹٧‬‬‫جب جبروستم ‪ ،‬بے انصافی ‪ ،‬سیاسی و معاشی استحصال اور نفرت حد‬ ‫بولا جاتا ہے۔ یہ لفظ ’’ ‘‘سے بڑھ جائے تو لفظ ’’ اندھیر نگری‬‫کے لغوی معنی جہاں ‘‘اندھیر نگری’’ظلمت کدہ‘‘ کا ہی مترادف ہے ۔‬

‫ناانصافی ‪ ،‬لاقانونیت اور اندھا دھند لوٹ مچی ہو(‪ )١۹۸‬کے ہیں۔‬ ‫یہ لفظ انسانی نفسیات پر دو طرح کے اثرات مرتب کرتا ہے‬ ‫اول ۔ اندھیرے( ظلم زیادتی اور ناہمواری ) کو قبول کرکے‬ ‫موجودہ حوالوں کے ساتھ ایڈجسمنٹ کرلی جائے ا‬ ‫خود فراموشی اختیار کرلی جائے ب‬ ‫ج ایک چپ سو سکھ پر عمل کیا جائے‬ ‫دوم ‪ :‬اندھیرے ( ظلم زیادتی اور ناہمواری ) کے ساتھ جنگ کرئے‬ ‫ا روشنی تلاش کی جائے‬ ‫لڑتے لڑتے موت کو گلے لگا لیا جائے ب‬‫مختلف لوگ ایک ہی ہیجان کا مختلف طریقوں سے اظہارکرتے ہیں ’’‬‫‪ )١۹۹‬کیونکہ جو جیسا محسوس کرئے گا یا جس ماحول یا حالات ( ‘‘‬‫میں پرورش پا رہا ہوگا اس کا ردعمل بھی اس کے مطابق سامنے آئے‬ ‫گا۔ اس لیے ظلمت کدے کا تصور مختلف قسم کے خیالات ‪ ،‬رحجانات‬ ‫اور کیفیات سامنے لاتا ہے۔‬ ‫اندھیرے کی گھمبرتا ا‬ ‫ب ظلم و زیادتی وغیرہ کا راج‬ ‫غالب کے شعر کے تناظر میں مفہوم سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں‬ ‫ظلمت کدے میں میرے ش ِب غم کا جوش ہے‬ ‫اک شمع ہے دلیل سحر ‪ ،‬سو خموش ہے‬

‫عہد غالب پر نظر ڈالیے برصغیر’’ ظلمت کدہ ‘‘ دکھائی دے گا۔ یہ غزل‬‫بعد ‪١۸٢۶‬کی ہے۔ (‪١۸٢۶ )٢٠٠‬کے بعد حالات پر نظر ڈالئے‪،‬برصغیر‬ ‫سے کچھ زیادہ ہی تھا ۔ ‪١٧۵۴‬کے بعد دن بدن ‘‘’’ اندھیر نگری‬ ‫سیاسی ‪ ،‬معاشی اور انتظامی حالات خراب ہی ہوئے۔شمع ( بادشاہ )‬ ‫سیاسی قوت کی علامت تو تھی ۔ لوگوں کی اس سے توقعات وابستہ‬ ‫تھیں ۔ یہ توقعات لایعنی اور بے معنی تو نہ تھیں ۔ لوگ امید کر رہے‬ ‫تھے کہ شمع روشن ہوگی ۔ اندھیرے چھٹ جائیں گے۔ روشنی ہوتے‬ ‫ہی لوٹ کھسوٹ کا خاتمہ ہوگا۔‬ ‫اندھیرے کی گھمبیرتا کے حوالے سے غلام رسول مہر لکھتے ہیں‬‫میرے اندھیرے گھر میں شب غم کے جوش و شدت کا یہ عالم ہے ’’‬ ‫کہ صبح کی علامتیں ناپید ہیں ۔ صرف ایک نشان‬ ‫رہ گیا ہے اور وہ بجھی ہوئی شمع ہے ۔ اندھیرے کی شدت کو واضح‬ ‫کرنے کے لئے جس شے کو صبح کی دلیل ٹھہرایا‬‫ہے) _______ وہ خود بجھی ہوئی ہے ‪ ،‬یعنی اندھیرے کے تصور (‬ ‫) (‪‘‘٢٠١‬میں اضافہ کررہی ہے ۔‬‫غالب بہت بڑے ذہن کا مالک تھا۔ بات کرنے کے ڈھنگ سے خوب آگاہ‬‫تھا۔ اندھیرے کی شدت ( شب غم کا جوش) والا مضمون برا نہیں ۔ بڑ ا‬ ‫آدمی ذات سے بالاتر کہتاہے۔ اس کا کرب و سیب کا کرب ہوتاہے۔ لہذا‬ ‫’’ظلمت کدے‘‘سے اس کا گھر مراد لینا درست نہیں۔ سیاسی و معاشی‬ ‫ناانصافی ناہمواری وغیرہ کا ماتم تو گھر گھر تھااس لیے’’ ظلمت‬‫کدہ‘‘سے مراد پورا برصغیر لینا ہوگا۔ تاہم اندھیرے کی شدت کے حوالہ‬ ‫سے بھی مضمون برانہیں ۔‬

‫عرش‪:‬‬ ‫عربی اسم مذکر ‪ ،‬چھت ‪ ،‬تخت ‪ ،‬آسمان ‪ ،‬جہاز کی چھتری‬ ‫(‪ )٢٠٢‬وہ جگہ جو نویں آسمان کے اوپر ہے جہاں خدا کا تخت ہے‬ ‫(‪)٢٠۳‬تخت شاہی ‪)٢٠۴( ،‬تخت‪ ،‬نظام بطلیموس میں اسے ستاروں‬ ‫سے سادہ اور محدود جہات مانتے ہیں ۔ اس لیے چرخ اطلس کہتے‬ ‫ہیں ۔ ( عرش بلند مقام ہے اور غالب کے نزدیک ) ہمارا مکان تو‬ ‫)عرش سے بھی اونچا ہے۔ (‪٢٠۵‬‬ ‫عرش دو طرح سے معروف چلا آتاہے‬‫بلندی کے معنوں میں‪ ،‬کہا جاتا ہے ۔ حالات نے اسے عرش سے ‪١‬‬ ‫‘‘ فرش تک پہنچا دیا ہے‬ ‫مظلوم کی آہ سے بچو کہ وہ عرش تک پہنچتی ہے ۔ ‪٢‬‬‫یہ لفظ مذہبی حوالہ سے تہذیب میں سفر کرتا دکھائی دیتاہے۔ غالب کے‬ ‫ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ ہو‬ ‫منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے ہیں ادھر ہوتا کاشکے مکاں اپنا‬‫عربی اسم مذکر۔ بچھونا ‪ ،‬بستر ‪ ،‬زمین ‪ ،‬چونے وغیرہ سے فرش‪:‬‬ ‫پختہ کی ہوئی زمین (‪)٢٠۶‬عالم انتظار جس کی عالم مکاں کی طرح‬ ‫)چھ طرفین ہیں ( پورب‪ ،‬پچھم ‪ ،‬اتر ‪ ،‬دکھن ‪ ،‬اوپر ‪ ،‬نیچے)(‪٢٠٧‬‬ ‫انسان بہتر سے بہتر اور نئی سے نئی اشیا ‪ ،‬صورتوں اور موقعوں‬‫اور حالات کی تلاش میں رہتا ہے۔ تخلیق کے ساتھ ساتھ تزین و آرائش‬ ‫کا فریضہ بھی سرانجام دیتا چلا آتا ہے۔ وہ کسی نئی اطلاع کا منتظر‬‫رہتا ہے ۔ غالب نے فرش کے ساتھ شش جہت کو منسلک کرکے اسے‬

‫دوسری کائناتوں سے منسلک کردیا ہے جس کی وجہ سے لفظ فرش‬ ‫قابل توجہ بن گیا ہے۔ شعر ملاحظہ ہو‬ ‫آئینہ فرش شش جہت کس کا سراغ جلوہ ہے ‪ ،‬حیرت کو‪ ،‬اے خدا‬ ‫انتظار ہے‬ ‫قتل گاہ ‪ /‬گہ‪:‬‬ ‫مقتل کا مترادف ہے ۔ وہ جگہ جہاں محبوب اپنے عشاق کو قتل کرنے‬ ‫کے لیے مکمل تیاری(‪ )٢٠۸‬کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔(‪ )٢٠۹‬یہ لفظ‬ ‫کسی طرح کے نقشے آنکھوں میں باندھ دیتاہے‬ ‫بوچڑ خانہ ڈاکووں کی غارت گری ‪۳‬۔ ‪٢‬۔ ‪١‬۔ میدان جنگ‬ ‫حقوق طلب کرنے والوں پر تنگی سختی ‪ ،‬بے دردی اور غارت ‪ ۴‬۔‬ ‫گری‬‫کسی بٹوارے کے وقت کی سنگینی ‪ ،‬چھینا جھپٹی ‪ ،‬قتل و غارت۔ ‪۵‬۔‬ ‫ترکیبیں ‘‘ ’ ’وہ کرسی جو عوام پر ٹیکس عائد کرنے کی ‪۶‬۔‬ ‫سوچتی ہے۔‬ ‫انصاف کے ایسے ادارے جہاں انصاف بے دردی سے قتل ہوتا ‪٧‬۔‬ ‫ہے۔‬ ‫وہ امرجہ جہاں ناقص مال فروخت کرکے عوام کا معاشی قتل کیا ‪۸‬۔‬ ‫جاتاہے۔‬ ‫معرکہ حق و باطل ‪۹‬۔‬ ‫میدان کربلا ‪١٠‬۔‬

‫لفظ قتل گہ خوف ہراس اور موت کا تاثر رکھتا ہے۔ اس لفظ سے‬ ‫اعصابی کچھاؤ پیدا ہوتا ہے ۔ غالب نے’’ عشرت ‘‘کو اس لفظ کا ہم‬‫نشست بنا کر اس جگہ سے محبت کو ابھارا ہے۔ محبوب سے (مجازاا)‬ ‫قتل ہونے کی تمنا ہر قسم کی ناخوشگواری ختم کردیتی ہے۔ شعر‬ ‫ملاحظہ ہو‬‫عشرت قتل گہ اہل تمنا‪ ،‬مت پوچھ‬ ‫عید نظارہ ہے شمشیر کا عریاں‬ ‫ہونا‬ ‫کعبہ‪:‬‬ ‫عربی اسم مذکر ‪ ،‬چار گوشوں والی چیز ‪ ،‬مربع‪ ،‬مکہ مکرمہ‪ ،‬اہل‬‫اسلام کے مقدس اور متبرک مقام کا نام جہاں ہر سال حج ہوتا ہے یہ‬ ‫عمارت چار گوشوں والی ہے(‪)٢١٠‬نرو کے کھیل کا بڑا مہرا ‪ ،‬ہر‬ ‫مربع گھر‪ ،‬جھروکہ ‪ ،‬خانہ کعبہ‪ ،‬بیت اللہ ‪ ،‬الحرم جو مکہ میں ہے‬ ‫(‪ )٢١١‬احترامااکسی محترم شخص اوروالدین کے لیے بھی استعمال‬‫کرتے ہیں ۔ دل کو بھی کعبہ کہا جاتاہے۔ کعبہ کے لیے حرم اور قبلہ‬ ‫کے الفاظ بھی استعمال میں آتے ہیں ۔‬ ‫اہل اسلام کے لیے یہ مقام بڑا محترم ہے ۔ اسلام سے قبل بھی اسے‬‫خصوصی اہمیت حاصل تھی ۔ مذہبی حیثیت کے علاوہ تہذیبی ‪ ،‬سماجی‬ ‫اور سیاسی حوالہ سے اسے بڑا اہم مقام حاصل تھا۔ آج کل یہ محض‬ ‫مذہبی رسومات اور عبادات کے لیئے مخصوص ہے۔ حج کی فکری و‬‫فطری روح یہ کہ ہر سال دنیا کے مسلمان یہاں جمع ہوں مذہبی فرائض‬ ‫کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے ملیں ‪ ،‬اپنے معاملات اور مسائل پر‬ ‫گفتگو کریں ‪ ،‬ختم ہوگئی ہے۔‬

‫غالب کے ہاں اس لفظ کا بڑی خوبی سے استعمال ہوا ہے‬ ‫بندگی میں وہ آزادہ و خود بیں ہیں کہ ہم الٹے پھر آئے ‪ ،‬در کعبہ اگر‬ ‫وانہ ہوا‬‫اس شعر میں شخص کی انا ہی کو واضح نہیں کیا گیا بلکہ برصغیر کی‬ ‫انا اور خود داری کو بھی فوکس کیا گیا ہے۔ قدرت نے شخص میں یہ‬‫عنصر رکھ دیا ہے کہ اسے نظر انداز ہوناخوش نہیں آتا بالمقابل چاہے‬ ‫کوئی بھی ہو۔ اودو غزل میں یہ لفظ نظم ہوتا چلا آتا ہے۔ ‪،‬مثلااخواجہ‬ ‫‪:‬درد نے حرم‪ ،‬دل کے معنوں میں استعمال کیاہے‬ ‫کہتے ہیں کعبہ اس دل کو سیاہ مت کر کچھ بھی تجھے جو ہوش ہے‬ ‫کو اور کعبہ سیاہ پوش ہے‪)٢١٢‬درد‬ ‫چندا نے بھی کعبہ سے مراد دل لیا ہے‬‫کعبہء دل توڑ کر کرتے نہ ہم بت خانہ آباد اب ہوتی اگر ہم کو صنم کی‬ ‫بے وفائی کی خبر (‪)٢١۳‬چندا‬ ‫آفتاب نے حرم ‪ ،‬قبلہ کے معنوں میں نظم کیا ہے‬ ‫صرف کعبہ میں نہ کر اوقات کو ضائع توشیخ ڈھونڈ جا کر ہر طرف‬ ‫نقش قدم دلدار آفتاب‬‫کعبہ بہر طور تقدس مآب رہا ہے ۔ اگر دل معنی مراد لیئے ہیں تو یہاں‬ ‫محبتیں پروان چڑھتی ہیں ۔پروفیسر محمد اشرف کہتے ہیں‬ ‫کعبہ کو پہلی بار فرشتوں‪ ،‬دوسری مرتبہ حضرت آدم ‪ ،‬تیسری ’’‬‫مرتبہ حضرت شیت جبکہ چوتھی مرتبہ حضرت ابراہیم نے تعمیر کیا۔‬ ‫ابراہیمی تعمیر کی شکل یہ تھی زمین سے نو ہاتھ بلند ‪ ،‬دروازہ بغیر‬

‫کواڑ کے ‪ ،‬سطح زمین کے برابر دیواریں ‪ ،‬چھت نہیں ڈالی گئی تھی ۔‬‫حضرت ابراہیم کے بعد بنو جرہم نے تعمیر کا نقشہ وہی رہنے دیا۔ اس‬ ‫کے بعد قبیلہ عمالیق نے بنایا اور تبدیلی نہ کی ۔ حضورﷺ کی‬ ‫پیدائش سے دو سو سال پہلے قصی بن کلاب نے تعمیر کیا۔ چھت پاٹ‬‫دی اور عرض میں کچھ حصہ کم کردیا۔ بعد میں قریش نے اٹھارہ ہاتھ‬ ‫بلند کردیا اور بھی تبدیلیاں کیں پھر عبداللہ ابن زبیر نے اس کے بعد‬ ‫)‪‘‘(٢١۴‬حجاج بن یوسف نے تعمیر کیا‬ ‫کعبہ کی تعمیر کی کہانی کے مطالعہ کے بعد واضح ہوجاتا ہے کہ‬ ‫انسان کعبہ سے کس قدر متعلق رہا ہے اوراس کے معاملہ میں کس‬ ‫قدر حساس رہاہے۔ اچھی خاصی آمدنی کا ذریعہ بھی بنا رہاہے۔ اس‬ ‫سے انسان کے تہذیبی اور سماجی حوالے بھی منسلک رہے ہیں ۔‬ ‫کلیسا‬ ‫کلس سے ترکیب پایا ہے۔‬ ‫یونانی اسم مذکر ‪ ،‬قوم نصاری کا مبعد ‪ ،‬گرجا‪ ،‬بت خانہء‬ ‫کفار(‪ )٢١۵‬دنیاکی تمام تہذیبوں میں کلیسا کا اپنا کردار رہا ہے۔ چرچ‬ ‫کے پاس سیاسی بالادستی بھی رہی ہے۔ ہندو اور مسلم راجوں میں‬‫پنڈتوں اور مولویوں کا سکہ چلا ہے۔پنڈت اور مولوی راجہ اور بادشاہ‬ ‫کی بولی بولتے آئے ہیں۔ جبکہ چرچ آزاد اور خود مختار رہا ہے۔‬ ‫ملکی اقتدار بھی اس کے ہاتھ میں تھا ۔‬ ‫یہ لفظ سنتے ہی توجہ حضرت عیسی ابن مریم کی طرف چلی جاتی‬ ‫ہے۔ کانوں میں گرجے کی گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں ۔ غالب کے ہاں‬ ‫‪:‬کلیسا کے سیاسی کردار کے حوالہ سے گفتگو کی گئی ہے‬

‫کعبہ مرے ے ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے مجھے کفر‬ ‫پیچھے ہے ‪ ،‬کلیسامرے آگے‬‫شکیب جلالی کے ہاں بھی بطور سکول آف تھاٹ استعمال میں آیاہے۔‬ ‫؂‬‫جنت فکر بلاتی ہے چلو‬ ‫دیر و کعبہ سے کلیساؤں سے دور‬ ‫(‪ )٢١۶‬شکیب‬‫)کنشت‪:‬فارسی اسم مذکر ‪ ،‬آتشکدہ ‪ ،‬یہودیوں کا مبعد(‪٢١٧‬‬‫غالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ ہو‬‫کعبے میں جارہا ہوں ‪ ،‬تو نہ دو طعنہ ‪ ،‬کیا کہیں بھو لا ہو حق صحبت‬ ‫)!اہل کنشت کو (؟‬ ‫بت خانہ (‪ )٢١۸‬آتشکدہ ‪ ،‬معبد آتش پرستاں و یہوداں (‪ )٢١۹‬غالب‬ ‫نے آتشکدہ ( عشق دیار محبوب) ہی مراد لیا ہے(‪ )٢٢٠‬عشق کا‬‫انسانی تہذیبوں میں بڑا مضبوط کردار رہا ہے۔ عشق آگ ہی کا دوسرا‬ ‫‪:‬نام ہے۔ خواجہ درد کے ہاں اس لفظ کا استعمال دیکھیئے‬‫شیخ کعبے ہوکے پہنچا ‪ ،‬ہم کنشت دل میں ہو درد منزل ایک تھی ٹک‬ ‫)راہ ہی کا پھیر تھا(‪( )٢٢١‬درد‬ ‫دیر‪:‬‬‫یہ لفظ بھی عبادت گاہ سے متعلق ہے۔ فارسی اسم مذکر ہے۔ بت کدہ ‪،‬‬‫بت خانہ ‪ ،‬کنایتہ دنیا (‪ )٢۳٢‬کافروں کی عبادت گاہ (‪)٢٢۳‬معنوں میں‬

‫استعمال ہوتا ہے۔ بتکدہ انسانی تہذیبوں میں اہم کردار کا حامل رہا ہے۔‬ ‫غالب کے ہاں عبادت گاہ کے معنوں میں استعمال ہوا ہے‬ ‫دیر نہیں ‪ ،‬حرم نہیں ‪ ،‬درنہیں ‪ ،‬آستاں نہیں بیٹھے ہیں رہ گذر پہ ہم‬ ‫‪،‬غیر ہمیں اٹھائے کیوں‬ ‫خواجہ درد کے ہاں بھی بطور عبادت گاہ استعمال میں آیا ہے‬ ‫مدرسہ یاویر تھا یا کعبہ یا بت خانہ تھا ہم سبھی مہماں تھے ‪،‬واں تو‬ ‫ہی صاحب خانہ تھا ‪ )٢٢۴‬درد‬‫یہ لفظ مسلمانوں کی عبادت گاہ کے لئے استعمال مینآتا ہے مسجد ‪:‬‬ ‫بمعنی سجدہ کرنے کی جگہ ‪ ،‬نماز پڑ ھنے کی جگہ ‪ ،‬مسلمانوں کا‬ ‫عبادت خانہ(‪ )٢٢۵‬پیشانی(‪ )٢٢۶‬مسجد‬ ‫مسلمانوں کی عبادت گاہ کے علاوہ مقام اجتماع( اسمبلی ہال ) *‬ ‫رہی ہے‬ ‫مشاورت کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے *‬ ‫درس و تدریس کا کام بھی یہاں ہوتا آیا ہے *‬ ‫مہمان گاہ کے طور پر بھی استعمال ہوتا رہاہے *‬ ‫صلح صفائی کے لئے اس کی حیثیت معتبر اور محترم رہی ہے *‬ ‫محفوظ پناہ گاہ رہی ہے *‬ ‫غرض بہت سے تہذیبی ‪ ،‬سماجی اور عمرانی امور مسجد سے نتھی‬ ‫رہے ہیں ۔ یہ لفظ وقار‪ ،‬عظمت ‪،‬رہنمائی ‪ ،‬آگہی وغیرہ کے احساسات‬ ‫لے کر ذہن کے کواڑوں پر دستک دیتاہے۔‬

‫غالب کے ہاں کمال عمدگی سے اس لفظ کا استعمال ہوا ہےجب میکدہ‬ ‫چھوٹا ‪ ،‬تو پھر اب کیا جگہ کی قید مسجد ہو‪ ،‬مدرسہ ہو‪،‬کوئی خانقاہ‬ ‫ہو‬ ‫ایک اور شعر دیکھئے‬‫مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہیے‬ ‫بھوں پاس آنکھ قبلہء حاجات‬ ‫چاہیئے‬‫میر صاحب نے بطور عبادت گاہ استعمال کیا ہے‬‫شیخ جو ہے مسجد میں ننگا‪ ،‬رات کو تھا میخانے میں‬‫جبہ ‪ ،‬خرقہ ‪ ،‬کرتا‪ ،‬ٹوپی مستی میں انعام کیا (‪ )٢٢٧‬میر‬ ‫قائم کے ہاں کچھ یوں نظم ہوا ہے‬‫مسجد میں خدا کو کبھی بھی کیجئے سجدہ محراب نہ ہو خم‪ ،‬جو برائے‬ ‫سجدہ (‪ )٢٢۸‬قائم‬ ‫گھر‪:‬‬‫گھر ہندی اسم مذکر ‪ ،‬مکان ‪ ،‬خانہ ‪ ،‬رہنے کی جگہ ‪ ،‬ٹھکانہ ‪،‬‬‫خول ‪ ،‬بھٹ ‪ ،‬کھوہ ‪ ،‬بل ‪ ،‬گھونسلہ ‪ ،‬آشیانہ ‪ ،‬وطن ‪،‬‬‫)دیس ‪ ،‬جائے پیدائش‪ ،‬خاندان ‪ ،‬گھر انہ(‪٢٢۹‬‬ ‫گھر روز اول سے شخص کی سماجی و معاشرتی ضرورت اور حوالہ‬‫رہا ہے۔ آج کھدائی کے دوران ملنے والی عمارات اپنے عہد کے فنی و‬ ‫فکری حوالوں اور شخصی ضرورتوں کو اجاگر کرتی ہیں ۔ ان‬‫عمارتوں کا تعمیری میٹریل کا بھی تجزیہ کیا جاتا ہے۔ گھر سے متعلق‬

‫ان عمارات کے حوالہ سے سماج میں موجود نظام ہائے حیات زیر‬ ‫غور آتے ہیں ۔ بناوٹ کے نقشہ و سلیقہ کے توسط سے فرد کا سوچ‬ ‫احساسات ‪ ،‬سماجی معیارات اور ان کے تضادات کا اندازہ لگایا جاتا‬ ‫ہے۔ یہ بھی کہ وہ کن کن الجھنوں کا شکار رہا۔ کن معاملات میں‬ ‫دوسروں پر انحصار کرتا رہا ہے۔ گھر انسان کی ہمیشہ سے نفسیاتی‬ ‫کمزوری رہا ہے۔ گھر کے متعلق مختلف نوع کے سپنے بنتا رہاہے۔‬ ‫مثلاا‬‫اس کا اپنا ایک گھر ہو ۔ اس میں کسی دوسرے کی مداخلت نہ ہو ‪١‬‬ ‫وہ کھلا ‪ ،‬کشادہ اور آرام دہ ہو ‪٢‬‬ ‫‪ ۳‬ہر طرح سے محفوظ ہو‬ ‫گردوپیش میں ہم خیال لوگوں کا بسیرا ہو ‪۴‬‬ ‫‪ ۵‬زندگی سے متعلق ضرورتیں اس گھر میں میسر ہوں‬ ‫علاقہ میں تفریحی مقامات موجود ہوں ‪۶‬‬ ‫ہریالی اور پانی کی کمی نہ ہو ‪٧‬‬ ‫سکول ہسپتال وغیرہ قریب ہوں ‪۸‬‬‫جس کے پاس پہلے گھر موجود ہوں وہ خواہش کرتا ہے کہ وہ گھر ‪:‬۔‬ ‫ہر حوالہ سے انفرادیت کا حامل ہو ‪١‬‬ ‫کسی آسائش کی کمی نہ ہو ‪٢‬‬ ‫مزید بہتری کے لئے کیا کیا تبدیلیاں کی جائیں ‪۳‬‬

‫موسمی تغیرات سے کیونکر بچا یاجائے ‪۴‬‬ ‫گھر ہمیشہ سے عزت ‪،‬تحفظ اور وقار کی علامت رہا ہے۔یہ درحقیقت‬ ‫خاندانی ایکتا کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اس کے حصول اور حفاظت لے لئے‬ ‫خون بہائے جانے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا ۔ گھر ایک شخص ‪،‬‬ ‫ایک کنبے ‪ ،‬اور ایک قوم کا ہوسکتا ہے۔‬‫غالب کے ہاں اس لفظ کا مختلف حوالوں سے استعمال ہواہے۔ وہ جگہ‬ ‫جہاں پڑاؤ کرلیا جائے اسے گھر کہا جائے گا یعنی ٹھکانا‬ ‫جب گھر بنا لیا ترے در پر کہے بغیر جائے گا اب بھی تو نہ مرا گھر‬ ‫کہے بغیر‬ ‫کنبے اور خاندان کے افراد کی قیام گاہ‬‫تم ماہ شب چار دہم تھے مرے گھرکے پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشا‬ ‫کوئی دن اور‬ ‫ایک دوسرے شعر میں مکان (‪ )٢۳٠‬جائے رہائش(‪ )٢۳١‬کے معنوں‬ ‫میں استعمال کرتے ہیں‬ ‫چھوڑانہ رشک نے کہ ترے گھر کا نام لوں ہراک سے پوچھتا ہوں کہ‬ ‫جاؤں کدھر کو میں‬ ‫اب قدما کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ ہو‬‫بولے دونوں بھا ئی اے بابا کہاں؟ ہماری نہ ماں ہے گی گھر کے مہاں‬ ‫(‪ )٢۳٢‬اسماعیل مروہوی‬ ‫)مکان ‪،‬گھر کے (اند ر ‪ ،‬میں ‪ ،‬بیچ‬

‫کیتے دن کو سوداگر آاپنے گھر پوچھا اپنی عورت سوں تکرار کر‬ ‫(‪)٢۳۳‬فقیر دکنی‬ ‫اقامت گاہ ‪ ،‬گھر آنا ‪ ،‬واپسی‬ ‫عہد غالب میں بھی قریب ان ہی معنوں میں استعمال ہوتا رہا۔ مثلاا‬ ‫غم کہتا ہے دل میں رہوں میں ‪ ،‬جلوۂ جاناں کہتا ہے‬ ‫کس کو نکالوں کس کو رکھوں‪ ،‬یہ جھگڑے گھر کے ہیں (‪ )٢۳۴‬ذوق‬ ‫گھر کا جھگڑا ‪ :‬ذاتی ‪ ،‬نجی‪ ،‬اندرون خانہ ‪ ،‬پرائیویٹ‬ ‫میخانہ ‪:‬‬ ‫فارسی اسم مذکر ‪ ،‬شراب پینے اور شراب بکنے کی جگہ‬‫۔(‪)٢۳۵‬شراب اور شراب خانہ ہونے کاانسانی ثقافت کا حصہ رہے ہیں ۔‬ ‫انسان کی اس سے وابستگی کا اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ قرآن مجید‬‫میں جنت میں اس کے عطاہونے کا بار بار وعدہ کیا گیا ہے۔ اہل عرفان‬ ‫مے‘‘ وہ ذوق ’’نے مے اور میکدہ کے قطعی الگ معنی لیے ہیں ۔‬‫جس کی وساطت سے سالک پر مقام حقیقی ظاہر ہوتا ہے۔ میخانہ سے‬ ‫مراد قلب و اصلان ہیں (‪ )٢۳۶‬میخانہ عارف کامل کا باطن ‪ ،‬لاہوت ‪،‬‬ ‫)عالم محویت(‪٢۳٧‬‬ ‫خواجہء شیراز فرماتے ہیں‬‫صبحدم بکشاد خماری درمیخانہ را قلقل آواز صراحی جان دہد مستانہ را‬ ‫صبحدم حضور رسولﷺنے شراب محبت الہی کا مشغلہ شروع ’’‬ ‫‘‘کردیا ۔عاشقان الہی نے اس ذکر صفات باری تعالی سے جان ڈال دی‬

‫عیش کوشوں کے لئے شراب عیش کا ذریعہ ہے۔ اس طرح وہ بعض‬ ‫اپنی نفسیاتی کمزوریوں کا مداوا کرتے ہیں۔ مایوس لوگ غم غلط‬ ‫کرتے ہیں ۔ غالب کے ہاں ’’میخانہ ‘‘ کچھ کم حیثیت کا نہیں‬‫گدائے کوچہء میخانہ علاوہ عید کے ملتی ہے اور دن بھی شراب‬ ‫نامراد نہیں‬‫میخانے کا مترادف میکدہ بھی استعمال میں لائے ہیں‬‫جب میکدہ چھٹا ‪ ،‬تو پھر اب کیا جگہ کی قید‬ ‫مسجد ہو‪ ،‬مدرسہ‬ ‫ہو‪ ،‬خانقاہ ہو‬‫انعام اللہ یقین کے ہاں اس لفظ کی کارفرمائی دیکھئے‬‫نہیں معلوم ا ب کے سال میخانے پہ کیا گذرا‬‫ہمارے توبہ کے کرنے سے پیمانے پہ کیا گذرا (‪ )٢٢۸‬یقین‬‫غالب کے ہاں شہروں اور ملکوں کے حوالہ سے بھی گفتگو ملتی ہے۔‬ ‫ان میں سے ہر شہر تہذیبی ثقافتی اور فکری پس منظر کا حامل ہے۔‬‫کوئی نہ کوئی تاریخی واقعہ اس سے ضرور منسوب ہوتا ہے۔ غالب ان‬ ‫کی ان حیثیتوں سے اپنے اشعار میں فائدہ اٹھاتے ہیں۔‬ ‫دلّی‪:‬‬ ‫یہ ‪١٢٠۶‬ء سے دارالحکومت چلا آرہا ہے ۔ علمی ‪ ،‬ادبی ‪،‬‬ ‫عسکری ‪ ،‬فکری اور سماجی روائتوں کا منبع و امین رہا ہے ۔ بہت‬ ‫سی یادگار عمارتیں اس کی ثقافتی پہچان ہیں ۔ غالب اس کے محلہ‬‫بلی ماراں اقامت رکھتے تھے ۔ آگرہ سے آئے پھر دلی نے انہیں واپس‬‫جانے نہ دیا ۔ دلی سے اپنے قلبی تعلق اور انگریز کے ہاتھوں اس کی‬

‫بربادی کا ذکر اپنے خطوط میں کرتے ہیں ۔ ان کا یہ شعر بھی کرب‬ ‫‪:‬سے بریز ہے‬‫ہے اب اس معمورہ میں قحط غم الفت اسد ہم نے مانا کہ دلّی میں رہیں‬ ‫‪ ،‬کھائیں گے کیا‬ ‫کنعان ‪:‬‬ ‫حضرت نوح کے نافرمان بیٹے کا نام (‪)٢۳۹‬کنعان حضرت یوسف کے‬‫حسن ‪ ،‬فراق پدر ‪ ،‬بھائیوں کی دغا بازی ‪ ،‬حضرت یعقوب کے دور میں‬ ‫پڑنے والے قحط کی وجہ سے شہرت عام رکھتا ہے ۔ غالب کے ہاں‬ ‫بھی یہی حوالہ ملتا ہے ۔ پیش نظرشعر میں یوسف زلیخا کے حوالہ‬ ‫سے ایک رویہ بھی اجاگر کیاگیا ہے‬‫زلیخا خوش کہ سب رقیبوں سے ہوں ناخوش پر زنان مصر سے ہے‬ ‫محو ماہ کنعاں ہوگئیں‬ ‫اردو شاعری میں بطور تلمیح اس کا استعمال ہوتا آیا ہے ۔ مثلاا‬ ‫صبا میں بویہ تھی کس کی کہ سوئے مصر حسر ت کے‬‫روانہ قافلے کے قافلے ہیں شہرکنعاں سے (‪ ( )٢۴١‬مرزا حاجی شہرت‬ ‫پستی چاہ ترے حاہ و حشم کی ہے دلیل تیرا انجام بخیر اے مہ کنعان‬ ‫ہوگا(‪ )٢۴٢‬نواب مہدی علی خاں حسن‬ ‫چاہ بے جا نہ تھی زلیخا کی ما ِہ کنعاں عزیز کوئی تھا(‪ )٢۴٢‬میر‬ ‫مصر‪:‬‬ ‫عرب ممالک کا سب سے بڑا ملک‪ ،‬آبادی ‪۹٢‬فیصد مسلمان ‪،‬‬









‫وہائٹ ہاؤس ‪۵۳‬۔ نفسیات ‪ ،‬حمیر ہاشمی‪،‬ص‪۵٢ ۵٢٧‬۔‬‫زمینی فرعون روحانی پیشواؤں کی درگاہیں ‪۵۵‬۔ ‪۵۴‬۔‬‫تذکرہ بہارستان ناز‪ ،‬ص‪۵۶ ١۶٠‬۔‬ ‫‪۵٧‬۔ کلیات سودا ‪ ،‬ج ا ‪ ،‬ص‬ ‫‪۳۴‬‬‫تذکرہ خوش ‪۵۹‬۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا‪ ،‬ص‪۵۸ ۳۴۸‬۔‬ ‫معرکہ زیبا ج ا‪،‬ص‪٢۳۸‬‬‫تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ‪۶١‬۔ کلیات میرج ‪،١‬ص‪۶٠ ١۴۵‬۔‬ ‫ا‪ ،‬ص‪۵۵۴‬‬‫کلیات میر ج ا‪،‬ص‪۶۳ ١۸١‬۔ فیروز اللغات‪ ،‬ص‪۶٢ ٢۵٠‬۔‬‫روشنی اے روشنی‪ ،‬ص‪۶۴ ۳١‬۔‬ ‫نوراللغات ج ا ‪۶۵ ،‬۔‬ ‫نوالحسن ہاشمی ‪ ،‬ص‪۳۹‬‬‫دیوان زادہ ‪،‬شیخ ظہور ‪۶٧‬۔ کلیات قائم ج ا‪ ،‬ص‪۶۶ ۵٧‬۔‬ ‫الدین حاتم‪ ،‬ص‪١۵‬‬‫فیروزاللغات ‪،‬ص‪۶۹ ۸۶٠‬۔ نوراللغات ج ا‪ ،‬ص‪۶۸ ۴۸١‬۔‬‫دیوان شیفتہ ‪ ،‬ص‪٧١ ۴۴‬۔ نوائے سروش‪ ،‬ص‪٧٠ ٢٠‬۔‬‫دیوان زادہ‪ ،‬ص‪۷۳ ٧‬۔ پشت پہ گھربیدل حیدری ‪ ،‬ص‪٧٢ ۶۹‬۔‬‫دیوان زادہ ‪ ،‬ص‪٧۵ ١٧‬۔ نوراللغات ج ا‪ ،‬ص‪٧۴ ١٠۹٢‬۔‬‫باغات سے مراد ایسا ‪٧٧‬۔ دیوان مہ لقا بائی چندا‪ ،‬ص‪٧۶ ١۳۶‬۔‬ ‫‪٧۹ ۴:‬۔ ‪ ٢:۲۵‬خطہ جس میں پھولدار درخت ہوں ‪٧۸‬۔‬ ‫‪١۳۳‬‬

‫‪۸١ ١٠:۲۱‬۔ ‪۸٠ ۸:١٢٧‬۔‬‫‪۸۳ ١١:۱۰‬۔ ‪۸٢ ۸:۴۶۱‬۔‬‫‪۸۵ ١٧:۵۹‬۔ ‪۸۴ ١۳:۳۵‬۔‬‫‪۸٧ ٢١:۵۸،٢١:۱۹،٢۳:۴۲‬۔ ‪۸۶ ١۴:۳۱‬۔‬‫نفسیات ‪،‬ص ‪۸۹ ۵۴٧‬۔ ‪۸۸ ٢۳:۲۰‬۔‬‫‪۹١‬۔ بیان غالب ‪،‬ص‪۹٠ ۳۳۵‬۔‬ ‫روح المطالب فی شرح دیوان‬ ‫غالب‪ ،‬ص‪۳۹۴‬‬‫فیروزاللغات ‪،‬ص‪۹۳ ٢٢٧‬۔ نوائے سروش‪،‬ص‪۹٢ ۵٧۸‬۔‬‫نوائے سروش‪ ،‬ص‪۹۵ ۴۳١‬۔ بیان غالب ‪ ،‬ص‪۹۴ ٢۵۶‬۔‬‫بیان غالب ‪ ،‬ص‪۹٧ ۶٢‬۔ فرہنگ آصفیہ ج ا‪ ،‬ص‪۹۶ ٢٠٢‬۔‬‫روح المطالب فی شرح ‪۹۹‬۔ نوائے سروش‪ ،‬ص‪۹۸ ۵۹‬۔‬ ‫دیوان غالب ‪ ،‬ص‪١٢۹‬‬ ‫لغات نظامی‪ ،‬ص‪١٠٠ ۵۴٢‬۔‬‫قرآن مجید ‪ ،‬شارح عبدالقادر محدث دہلوی ‪ ،‬تاج کمپنی لاہور ‪١٠١‬۔‬ ‫قرآن مجید ‪ ،‬شارح مولانا سید فرمان ‪١٠٢‬۔ ‪ ،‬س ن‪ ،‬ص‪١٠١٠‬‬ ‫علی ‪ ،‬شیخ علی اینڈ سنز ‪ ،‬کراچی‪، ١۹۸۳‬ص‪۸۳۳‬‬‫قرآن مجید ‪ ،‬شارح احمد رضا خاں بریلوی ‪ ،‬تاج کمپنی لمیٹڈ ‪١٠۳‬۔‬ ‫‪ ،١۹۸۹‬ص‪۹۶٢‬‬‫قرآن مجید ‪ ،‬شارح عبدالعزیز ‪ ،‬ملک دین محمد اینڈ سنز ‪١٠۴ ،‬۔‬

‫لاہور ‪،١۹۵٢ ،‬ص‪۵۶٠‬‬‫قرآن مجید ‪ ،‬شاہ ولی اللہ دہلوی ‪ ،‬مکہ ‪١۴١۶ ،‬ھ ‪ ،‬ص‪١٠۵ ١۶۴‬۔‬ ‫نوائے سروش‪ ،‬ص ‪١٠٧ ۳١٢‬۔ فیروز اللغات‪ ،‬ص‪١٠۶ ۸۳‬۔‬ ‫بیان غالب ‪ ،‬ص‪١٠۸ ١۹۹‬۔‬ ‫جوتے کی پشت پر بنے نقوش چلتے میں زمیں پر ثبت ہو ‪١٠۹‬۔‬ ‫جاتے ہیں ۔ غالب نے ان نقوش کو خیابان ارم کا نام دیا ہے ۔‬ ‫‪١١٠‬۔ روح المطالب فی شرح دیوان غالب ‪،‬ص‪۱۱۱ ٢۶٧‬۔ اردو کی دو‬ ‫قدیم مثنویاں مولف اسماعیل امرہوی ‪،‬ص‪١۶٠‬‬‫اردو کی دو قدیم ‪١١۳‬۔ دیوان مہ لقا بائی چندا‪ ،‬ص‪١١٢ ١۴۳‬۔‬ ‫مثنویاں‪ ،‬ص‪١٠۹‬‬ ‫دیوان میر مہدی مجروح ‪١١۵‬۔ ‪١١۴‬۔ دیوان شیفتہ ‪ ،‬ص‪٢‬‬ ‫‪،‬ص‪١۶۶‬‬ ‫کلیات میرج‪،‬مرتبہ کلب علی خاں فائق ج‪،١‬ص‪١١۶ ١۶۳‬۔‬ ‫شاہ عالم ثانی آفتاب ‪ ،‬احوال و ادبی خدمات‪ ،‬ص‪١١٧ ١۹۹‬۔‬‫فیروزاللغات ‪،‬ص‪١١۹ ۵۸۳‬۔ کلیات قائم ج ا‪ ،‬ص‪١١۸ٍ ١۸٢‬۔‬‫کلیات میر ج ا‪١٢١ ،‬۔ نوائے سروش‪ ،‬ص‪١٢٠ ۴۳٠،۴۳١‬۔‬ ‫ص‪١٠٠‬‬ ‫مثنوی مولانا روم ج ‪ ، ٢‬ص ‪١٢٢ ۶۳‬۔‬‫آتش کا پیر ‪ ،‬کنایہ مرشد کامل عبداللہ عسکری ‪ ،‬شرح دیوان ‪١٢۳‬۔‬

‫حافظ ج ا‪ ،‬ص‪١١١‬‬ ‫مثنوی مولانا ‪١٢۵‬۔ شرح دیوان حافظ ج ا‪ ،‬ص‪١٢۴ ١١١‬۔‬ ‫روم دفتر دوم ‪ ،‬مترجم قاضی سجاد حسین‬‫روح المطالب فی ‪١٢٧‬۔ مثنوی مولانا روم ج ‪،٢‬ص‪١٢۶ ۶۳‬۔‬ ‫شرح دیوان غالب‪،‬ص‪١٢٢‬‬ ‫نوائے سروش‪،‬ص‪١٢۹ ۴۹‬۔ بیان غالب ‪،‬ص‪١٢۸ ۵۴‬۔‬ ‫فیروز اللغات‪١۳١ ،‬۔ فرہنگ عامرہ ‪،‬ص‪١۳٠ ٢١۹‬۔‬ ‫ص‪۳٢۹‬‬ ‫بیان غالب ‪،‬ص‪١۳۳ ١١٢‬۔ نوائے سروش ‪،‬ص‪١۳٢ ٢١۸‬۔‬‫لغات نظامی ‪،‬ص‪١۳۴ ۳۴٢‬۔ نوائے سروش‪،‬ص‪١۳۳ ١۶٧‬۔‬ ‫روح المطالب فی شرح ‪١۳۶‬۔ نوائے سروش‪،‬ص‪١۳۵ ۵۳‬۔‬ ‫دیوان غالب‪،‬ص‪١٢۸‬‬ ‫روح المطالب فی شرح ‪١۳۸‬۔ بیان غالب‪،‬ص‪١۳٧ ١٠١‬۔‬ ‫دیوان غالب‪،‬ص‪١۶۵‬‬ ‫دیوان درد‪ ،‬ص‪١۴٠ ١۸۸‬۔ کلیات قائم‪،‬ج ا ص‪١۳۹ ۵۹‬۔‬ ‫لغات نظامی‪ ،‬ص‪١۴٢ ۶١۶‬۔ لغات نظامی‪،‬ص‪١۴١ ۳٧١‬۔‬ ‫تذکرہ گلستان ‪١۴۴‬۔ دیوان ماہ لقا بائی چندا‪ ،‬ص‪١۴۳ ۹۵‬۔‬ ‫سخن ج ا‪ ،‬ص ‪۳١۳‬‬‫تذکرہ ‪١۴۶‬۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج‪ ،١‬ص ‪١۴۵ ١۳۶‬۔‬ ‫گلستان سخن ج ا‪ ،‬ص‪١١١‬‬

‫فرہنگ آصفیہ ج ا‪ ،‬ص‪١۴٧ ٢۸۴‬۔‬ ‫بیان غالب‪١۴۸ ،‬۔‬ ‫ص‪۳٠۹‬‬‫بیان غالب‪ ،‬ص‪١۵٠ ۳٠۳‬۔ نوائے سروش‪،‬ص‪١۴۹ ۵٢۸‬۔‬‫روح المطالب فی ‪١۵٢‬۔ نوائے سروش‪،‬ص‪١۵١ ۵١۸‬۔‬ ‫شرح دیوان غالب‪ ،‬ص‪۳۶٢‬‬‫تذکرہ ‪١۵۴‬۔ تذکرہ مخزن نکات‪ ،‬قائم چاندپوری‪ ،‬ص‪١۵۳ ۶۴‬۔‬ ‫مخزن نکات‪،‬ص‪١۴۸‬‬‫فیروزاللغات‪،‬ص‪١۵۶ ٧۵٢‬۔ کلیات میر ج ا‪ ،‬ص‪١۵۵ ١۸۸‬۔‬‫دکھ اور رنج میں چہرا اتر جاتا ہے‘‘ نفسیات ‪ ،‬ص‪١۵٧ ’’۴۵۶‬۔‬‫غصے اور رنج کی حالت میں انسان بطور رد عمل مختلف ’’ ‪١۵۸‬۔‬‫قسم کی حرکتیں کرتا ہے اور اس کی یہ حرکات باہم مربوط نہیں ہوئیں‬ ‫نفسیات ‪،‬ص‪١۵١‬‬‫نفسیات‪،‬ص‪١۶٠ ۴۵۴‬۔ نفسیات ‪،‬ص‪١۵۹ ١۵١‬۔‬‫بیان غالب ‪،‬ص‪ ، ۴٧‬روح المطالب فی شرح دیوان غالب‪١۶١ ،‬۔‬ ‫ص‪١٢٢‬‬‫دیوان ماہ لقا بائی ‪١۶۳‬۔ نوائے سروش‪،‬ص‪١۶٢ ١۴۹‬۔‬ ‫چندا‪،‬ص‪١۴۵‬‬‫روشنی ‪١۶۵‬۔ دیوان میر مہدی مجروح ‪،‬ص‪١۶۴ ١۳٢‬۔‬ ‫اے روشنی ‪،‬ص‪۸۸‬‬‫مثنوی مولانا روم دفتر ‪١۶٧‬۔ فیروزاللغات ‪،‬ص‪١۶۶ ۹۶٠‬۔‬

‫دوم‪،‬ص‪١٠٢‬‬ ‫انتخاب ذوق ‪١۶۹‬۔ دیوان مہ لقا بائی چندا‪ ،‬ص‪١۶۸ ١۴۶‬۔‬ ‫ابراہیم‪ ،‬ص‪۴۶‬‬ ‫لغات ‪١٧١‬۔ دیوان میر مہدی مجروح‪ ،‬ص‪١٧٠ ١٢١‬۔‬ ‫نظامی‪،‬ص‪٧٢۳‬‬ ‫کلام شاہ حسین ‪ ،‬شاہ حسین‪ ،‬ص‪١٧٢ ۸۴‬۔‬ ‫مترادفات القران مولوی عبدالرحمن ‪،‬ص‪ ،٧١١‬المنجد کے ‪١٧۳‬۔‬ ‫مطابق سمندر کے کنارے کو ساحل بولا جاتا ہے۔‬ ‫روح المطالب کی ‪١٧۵‬۔ نوائے سروش‪ ،‬ص‪١٧۴ ۳۶‬۔‬ ‫شرح دیوان غالب‪ ،‬ص‪١١۳‬‬ ‫افکار غالب‪ ،‬ص‪١٧٧ ١٠۶‬۔ روح غالب ص‪١٧۶ ۹۵‬۔‬‫کلیات قائم ج ‪١٧۹ ،١‬۔ ص‪ ١١٧‬تذکرہ مخزن نکات ‪١٧۸‬۔‬ ‫ص‪١٧۸‬‬ ‫آئینہ ‪١۸١‬۔ روشنی اے روشنی ‪،‬ص ‪١۸٠ ۹۳‬۔‬ ‫اردولغت‪،‬ص‪١۶٧‬‬ ‫‪١۸۳‬۔ بیان غالب ‪ ،‬ص‪ ١٠۶‬نوائے سروش‪ ،‬ص‪١۸٢ ١۳۳‬۔‬ ‫‪١۸۵‬۔ روح المطالب فی شرح دیوان غالب‪ ،‬ص‪١۸۴ ١٧١‬۔‬ ‫آئینہ اردو لغت‪ ،‬ص‪١٠۶۶‬‬ ‫‪١۸٧‬۔ روح المطالب فی شرح نوائے سروش‪ ،‬ص‪١۸۶ ١١٧‬۔‬ ‫دیوان غالب‪ ،‬ص ‪١٢٠‬‬

‫فیروز اللغات‪ ،‬ص‪١۸۹ ۴۵۵‬۔ بیان غالب ‪،‬ص ‪١۸۸ ۵۳‬۔‬‫‪١۹١‬۔ فرہنگ عامرہ ‪ ،‬ص‪١۹٠ ۳١۹‬۔‬ ‫آئینہ اردو لغت‪،‬‬ ‫ص‪١٠۹٠‬‬‫تذکرہ مخزن نکات‪،‬ص‪١۹۳ ۴۹‬۔ روح غالب‪ ،‬ص‪١۹٢ ١١٢‬۔‬‫‪١۹۵‬۔ فیروزاللغات ‪ ،‬ص‪ ۸۸۵‬کلیات میر ج ‪ ،١‬ص ‪١۹۴ ١۴۹‬۔‬‫فیروز اللغات ‪ ،‬ص‪١۹۶ ۸۸۵‬۔‬ ‫‪١۹٧‬۔ روح المطالب فی شرح‬ ‫دیوان غالب‪،‬ص‪۳۸۴‬‬‫نفسیات‪،‬ص‪١۹۹ ۴۶۵‬۔ ‪١۹۸‬۔ فیروز اللغات‪ ،‬ص‪١٢۹‬‬‫دیوان غالب(کامل ) مرتبہ کالی داس گپتا رضا‪،‬ص ‪٢٠٠ ٢٧٢‬۔‬‫‪٢٠٢‬۔ فرہنگ عامرہ ‪ ،‬ص‪ ۳۵٠‬نوائے سروش‪ ،‬ص‪٢٠١ ۵۵۸‬۔‬‫مصباح اللغات ‪ ٢٠۴‬آئینہ اردو لغت ‪،‬ص‪٢٠۳ ١١۴۹‬۔‬ ‫‪،‬ص‪ ،۶۴۳‬المنجد ‪،‬ص‪۶۴٢‬‬‫‪٢٠۶‬۔ روح المطالب فی شرح دیوان غالب‪،‬ص‪٢٠۵ ١١۸۶‬۔‬ ‫فیروز اللغات ‪ ،‬ص‪۵٠٠‬‬‫بن سنورکر ‪٢٠۸‬۔ نوائے سروش‪ ،‬ص‪٢٠٧ ٧٠٧‬۔‬‫فیروزاللغات‪ ،‬ص ‪٢١٠‬۔ نوائے سروش‪ ،‬ص‪٢٠۹ ۳۳‬۔‬‫دیوان درد‪ ،‬ص‪٢١٢ ١۹۵‬۔ المنجد ‪،‬ص‪٢١١ ۸۸٢‬۔‬‫الحاج ‪٢١۴‬۔ دیوان مہ لقا بائی چندا ‪ ،‬ص‪٢١۳ ١١۸‬۔‬ ‫پروفیسر سید محمد اشرف ‪ ،‬سید اکادمی ‪،‬لاہور ‪ ،١۹۸۶‬ص‪٢‬‬

‫روح المطالب فی شرح دیوان غالب ‪،‬ص‪٢١۵ ۴۶٧‬۔‬ ‫نور اللغات ج‪، ٢‬ص ‪٢١٧‬۔ روشنی اے روشنی‪،‬ص‪٢١۶ ۹۵‬۔‬ ‫‪۳۸٢‬‬ ‫روح المطالب فی شرح ‪٢١۹‬۔ ‪٢١۸‬۔ نوائے سروش‪،‬ص‪۴٠۴‬‬ ‫دیوان غالب‪ ،‬ص‪۳٠۵‬‬ ‫حقیقی ہو کہ عشق مجازی ‪٢٢١‬۔ دیوان درد‪ ،‬ص‪٢٢٠ ١٢٠‬۔‬ ‫نوائے سروش ‪ ،‬ص‪٢٢۳ ۳۹٧‬۔ ‪٢٢٢‬۔ نور اللغات ج‪ ،٢‬ص ‪١۳٠‬‬ ‫فیروزاللغات‪ ،‬ص‪٢٢۵ ۶۳۳‬۔ دیوان درد‪ ،‬ص‪٢٢۴ ١١۶‬۔‬‫کلیات میر ‪٢٢٧‬۔ ‪٢٢۶‬۔ فرہنگ عامرہ ‪ ،‬عبداللہ خویشگی‪،‬ص‪۴٧۸‬‬ ‫ج‪ ، ١‬ص‪١٠٢‬‬ ‫فیروز اللغات‪ ،‬ص‪٢٢۹ ١١٢٢‬۔ کلیات قائم ج‪ ،٢‬ص‪٢٢۸ ۴‬۔‬ ‫نوائے سروش ‪ ،‬ص‪٢۳١ ٢٢۸‬۔ بیان غالب‪،‬ص‪٢۳٠ ١۸٧‬۔‬‫سنگاسن پچسی ‪٢۳۳‬۔ ‪٢۳٢‬۔ اردو کی دو قدیم مثنویاں‪،‬ص‪١۳٧‬‬ ‫‪ ،‬فقیر دکنی‪ ،‬ص‪۴‬‬ ‫‪٢۳۵‬۔ انتخاب ابراہیم ذوق‪،‬محمدابراہیم ذوق ‪ ،‬ص‪٢۳۴ ۵۵‬۔‬ ‫آئینہ اردو لغت‪ ،‬ص‪١۶٧۳‬‬ ‫پشتو اردو بول چال ‪ ،‬پروفیسر محمد اشرف ‪ ،‬ص ‪٢۳۶ ١۵٢‬۔‬ ‫اقبال ایک صوفی شاعر ‪ ،‬ڈاکٹر سہیل بخاری ‪ ،‬ص ‪٢۳٧‬۔‬ ‫‪۳٧١‬‬ ‫تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا‪ ،‬سعادت خاں ناصر‪ ،‬ص ‪٢۳۸ ١١۶‬۔‬

‫تذکرہ ‪٢۴٠‬۔ شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا‪ ،‬ص ‪٢۳۹ ١۳۶۸‬۔‬ ‫گلستان سخن ج ‪ ، ٢‬ص ‪٧٧‬‬‫کلیا ِت میر ‪٢۴٢‬۔ تذکرہ خوش معرکہ زبیاج ا ‪ ،‬ص ‪٢۴١ ۸٠‬۔‬ ‫ج ا ‪ ،‬ص ‪١۴۳‬‬ ‫‪٢۴۴‬۔ اردو جامع انسائیکلو پیڈیا ج ‪٢۴۳ ١۵۳٠ ،١۵٧٢ ،٢‬۔‬ ‫کلیات میر ج ا ‪ ،‬ص ‪٢٢٢‬‬ ‫کلیات قائم ج ا‪ ،‬قائم چاندپوری ‪ ،‬ص ‪٢۴۵‬۔‬ ‫باب دوئم‬‫غالب کے کرداروں کا نفسیاتی مطالعہ‬ ‫ہر کردار کا اپنا ذاتی طور طریقہ‪ ،‬سلیقہ ‪،‬چلن اور سبھاؤ ہوتاہے ۔ وہ‬‫ان ہی کے حوالہ سے کوئی کام سرانجام دیتاہے یا اس سے کچھ وقوع‬

‫میں آتا ہے۔ جس طرح کوئی قصہ کہانی ‪ ،‬واقعہ یا معاملہ بلا کردار‬ ‫وجود میں نہیں آتا اس طرح غزل کا ہر شعر کسی کردار کا مرہو ِن‬ ‫احسان ہوتاہے ۔ ضروری نہیں کردار کوئی شخص ہی ہو۔ جذبہ‪،‬‬ ‫احساس ‪ ،‬اصطلاح ‪ ،‬استعارہ ‪ ،‬علامت یا اس کے سوا کوئی اور چیز‬ ‫غزل کا کردار ہوسکتی ہے ۔ کچھ وقوع میں آنے سے پہلے کردار کا‬ ‫اس میں ‪،‬اس معاملہ کی حیثیت ‪،‬نوعیت اور اہمیت مادی مفادات‬ ‫اوراخلاقی میلانات و رجحانات کے مطابق ایک نفسیاتی رویہ ترکیب‬‫پاتاہے ۔ اس رویے کی پختگی اور توانائی (فورس) کے نتیجہ میں کچھ‬ ‫رونما ہوتاہے ۔ گویا وہ وقوعہ اس کے نفسیاتی عمل یا رد عمل کا‬ ‫عملی اظہار ہوتاہے۔‬ ‫غزل ‪ ،‬اردو شعر کی مقبول ترین صنف شعر رہی ہے ۔ اردو غزل نے‬ ‫ان گنت کردار تخلیق کئے ہیں ۔ ان کرداروں کے حوالہ سے بہت سے‬ ‫واقعات اور فکری عجوبے سامنے آئے ہیں۔ ان فکری عجوبوں کے‬‫اکثر شیڈز ‪ ،‬زندگی کے نہایت حسا س گوشوں سے پیوست ہوتے ہیں ۔‬ ‫انہیں کہیں نہ کہیں کسی اکائی میں تلاشا جاسکتاہے ۔ یہ بھی کہ ان‬ ‫شیڈز اور زاویوں کے تحت اس عہد کی جزوی یا کلی نفسیات کا‬ ‫کھوج کرنامشکل نہیں رہتا ۔ بات یہاں تک محدود نہیں‪ ،‬ان شیڈز اور‬ ‫زاویوں کی تاثیر حال پر اثر انداز ہوکر مختلف نوع کے رویو ں کی‬ ‫خالق بنتی ہے۔ پہلے سے موجود رویوں میں تغیرات کا سبب ٹھہرتی‬ ‫ہے۔‬ ‫رویوں کی پیمائش کا کام ‪۱۹۲۰ -۳٠‬کے درمیانی عرصہ میں شروع‬ ‫ہوا۔ رویے تین طرح کے ہوسکتے ہیں‬ ‫الف۔ وہ رویے جنھیں عرصہ دراز تک استحقام رہتاہے تاوقتکہ کوئی‬

‫بہت بڑ احادثہ وقوع میں نہیں آجاتا یاکوئی ہنگامی‬ ‫صورتحال پیدانہیں ہوجاتی ۔‬‫وہ رویے جوحالات ‪ ،‬وقت اور ضرورتوں کے تحت تبدیل ہوتے ب۔‬ ‫رہتے ہیں۔‬ ‫وہ رویے جو جلد اور فوراا تبدیل ہوجاتے ہیں انہیں سیمابی ج۔‬ ‫ر ّویے بھی کہا جاسکتاہے۔‬ ‫کسی قوم کے اجتماعی رویے کی پیمائش ناممکن نہیں تو مشکل کام‬‫ضرورہے کیونکہ قومیں لاتعداد اکائیوں کا مجموعہ ہوتی ہیں ۔ ہر اکائی‬ ‫تک اپروچ کٹھن گزار کام ہے ۔ سطحی جائزے دریافت کے عمل میں‬ ‫حقیقی کردار ادا نہیں کرتے ۔ اس موڑ پر اکائیوں کے لڑیچر کے‬ ‫کرداروں کامطالعہ کسی حدتک سودمند رہتاہے ۔اس کے توسط سے‬ ‫کرداروں کے کام ‪ ،‬طرز عمل ‪ ،‬مزاج ‪ ،‬چلن ‪ ،‬سلوک خاطر ‪ ،‬سلیقہ ‪،‬‬ ‫باہمی سبھاؤ ‪ ،‬اوروں سے تعلق ‪ ،‬طور‪ ،‬انداز وغیرہ کے حوالہ سے‬‫اس اکائی کا کردار متعین کیا جاسکتاہے ۔ اسی حوالہ سے انہیں اچھے‬ ‫یا برے نام دئیے جاتے ہیں ۔ شیطان کا اصل نام عزازئیل ہے۔ اس کی‬ ‫کارگزاری ‪ ،‬سبھاؤ ‪ ،‬چلن وغیرہ کے تحت شیطان یا رکھشش کہا جاتا‬ ‫ہے ۔‬ ‫موثرکردار وہی کہلاتا ہے جو ویسا ہی کرے جیسا وہ کرتا ہے یا جیسا‬ ‫کرنے کی توقع وابستہ ہوتی ہے ۔ تاہم دریا میں بہتے تختے پر شیر‬ ‫خوار بچے کی ماں کی اور شداد کی ارم میں داخل ہوتے سمے جان‬‫قبض کرنے پر عزرائیل کو رحم آسکتاہے ۔ کردار ویساہی کرتاہے جیسا‬ ‫وہ بن گیا ہوتا ہے یا جیسا اس نے خود کو بنایا ہوتاہے۔‬

‫غزل کے ہر شعر کو ایک فن پارے کا درجہ حاصل ہوتاہے ۔ اس کی‬ ‫تشریح وتفہیم اس کے اپنے حوالہ سے کرنا ہوتی ہے ۔ اس شعر کا‬ ‫کردار کارگزاری (پرفورمنس ) کے حوالہ سے جتنا جاندار‪ ،‬حقیقی ‪،‬‬ ‫متحرک اور سیمابی خصائل کا حامل ہوگا‪ ،‬شعر بھی اتنا اور اسی‬ ‫تناسب سے متاثر کرے گا۔ شعر کے اچھا برا ہونے کا انحصار شعر‬ ‫سے جڑے کردار پر ہے۔‬ ‫اگلے صفحات میں غالب کی اردو غزل کے چند کرداروں کانفسیاتی‬ ‫مطالعہ پیش کرنے کی جسارت کی گئی ہے۔ اس سے اشعار غالب کو‬ ‫سمجھنے اور تشریح وتعبیر میں مدد مل سکے گی اور مطالعہ اشعا ِر‬ ‫غالب کا حظ بڑھ جائے گا۔‬ ‫آدمی ‪:‬‬ ‫لفظ آدمی سننے کے بعد ذہن میں یہ تصور ابھرتا ہے کہ نسل‬ ‫آدم میں سے کسی کی بات ہورہی تاہم اس لفظ کے حوالہ سے کسی‬ ‫قسم کا ر ّویہ سامنے نہیں آتا۔ آدمی چونکہ خیر وشر کا مجموعہ ہے‬‫اس سے دونوں طرح کے افعال کی توقع کی جاسکتی ہے ۔ کسی اچھے‬ ‫فعل کے سرزد ہونے کی صورت میں آدم کو فرشتوں کے سجدہ کرنے‬ ‫والا واقعہ یا د آجاتاہے۔ (‪ )۱‬اور اس طر ح آدمی کی عظمت کا تسلسل‬‫برقرار رہتاہے کسی برائی کی صورت میں شیطان سے بہکائے جاننے‬‫والا کے طور پر سامنے آتاہے۔(‪ )۲‬گویا کسی فعل کے سرزد ہونے کے‬ ‫بعد ہی اس کے متعلق منفی یا مثبت رویہ ترکیب پاتاہے۔‬ ‫اردو غزل میں مختلف حوالوں سے اس لفظ کاا ستعمال ہوتاآیا ہے۔‬ ‫منفی اور مثبت دونوں طرح کے معاملات اور واقعات اس سے منسوب‬ ‫رہے ہیں ۔ کہیں عظمتوں اور رفعتوں کا مینار اور کہیں حیوان ‪ ،‬درندہ‬

‫‪ ،‬وحشی ‪ ،‬رکھشش اور شیطان سے بھی بد تر نظر آتا ہے۔ اردوغزل‬ ‫میں اس کی شخصیت کے دونوں پہلونظر آتے ہیں ۔ خواجہ درد نے‬ ‫آدمی کی شخصیت کے دوپہلو نمایاں کئے ہیں‬ ‫ہم نے کہا بہت اسے پرنہ ہوایہ آدمی زاہ ِد خشک بھی کوئی سخت ہی‬ ‫)خردماغ ہے(‪۳‬‬ ‫آدمی زہد اختیار کرنے کے بعد حددرجے کا ضدی ہوجاتاہے۔آدمی ‪،‬‬‫آدمی نہیں رہتا بلکہ فرشتوں کی صف میں کھڑا ہونے کی سع ِی لا یعنی‬ ‫کرتاہے۔ بشریت کا تقاضا ہے کہ آدمی سے کوتاہی ہو ‪ ،‬کوئی غلطی‬ ‫کرے تاکہ دوسرے آدمی کو اس سے اجنبیت کا احساس نہ ہو۔ زاہد‬ ‫سے ملاقات کے بعد خوف سا طاری ہوجاتا ہے کہ ملاقاتی کے لباس‬ ‫اور طرز تکلم کو کس زوایہ سے لے ۔ نتیجہ کار مسئلے کے حل کی‬‫بجائے کوئی لیکچر نہ سننا پڑے یا مسئلہ مسترد ہی نہ ہوجائے ۔ آدمی‬ ‫کا یہ روپ خوف اور ضدی پنے کو سامنے لاتاہے۔‬ ‫گھر تودونوں پاس لیکن ملاقاتیں کہاں آمدورفت آدمی کی ہے پہ وہ‬ ‫)باتیں کہاں (‪۴‬‬ ‫خواجہ درد کا یہ شعر آدمی سے متعلق چار چیزوں کی وضاحت‬ ‫کررہاہے‬ ‫مل بیٹھنے کو جگہ موجود ہونے کے باوجود آدمی ‪ ،‬آدمی سے الف ۔‬ ‫دورہے‬ ‫ب۔ اس کا آناجانا تو رہتاہے لیکن دکھ سکھ کی سانجھ ختم ہوگئی ہے‬ ‫ج۔‬

‫آدمی‪ ،‬آدمی کے قریب تو نظر آتاہے لیکن منافقت ‪ ،‬محبتیں چٹ‬ ‫کرگئی ہے‬ ‫د۔ ایک دوسرے کے کام آنے کا جذبہ دم توڑ گیاہے‬ ‫کے جوخصائص بیان ہوئے ہیں ان کے ‘‘خواجہ درد کے ہاں ’’آدمی‬ ‫حوالہ سے آدمی کے متعلق مثبت رویہ نہیں بنتا ۔ آدمی معاشرتی‬ ‫حیوان ہے تنہا زندگی کرنا اس کے لئے ممکن نہیں ۔ تنہائی سو طرح‬ ‫کے عوارض کا سبب بنتی ہے۔‬ ‫غالب نے آدمی کو تین حوالوں سے موضع کلام بنایا ہے‬ ‫گستاخ ِی فرشتہ ہماری ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند‬ ‫جناب میں‬ ‫کی ‘‘آدمی گزرے کل میں معزز اورمحترم تھا۔ عزازئیل نے ’’آدمی‬ ‫شان میں گستاخی کی ۔ اسے اس کے اس جرم کی پاداش میں قیامت‬ ‫تک کے لئے لعنتی قرار دے دیا گیا اور درگاہ سے نکال باہر کیاگیا ۔‬‫ذلت کی پستیوں میں دھکیل دیا گیاہے۔ اس طرح سے ‘‘آدمی’’آج وہی‬ ‫آدمی کے لئے دوہرا معیار سامنے آتاہے۔‬‫کوئی ہمارا دم ‘‘؂پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق ’’آدمی‬ ‫)!تحریر بھی تھا(؟‬ ‫شعر کو چار زوایوں سے دیکھا جاسکتاہے‬ ‫الف ۔ کل تک سجدہ کرنے والے (فرشتے) غیر آدمی ‪ ،‬آدمی کے قول‬ ‫وفعل کو نوٹ کرنے کے لئے مقرر کر دئیے گئے ہیں‬ ‫کے حق میں یاخلاف شہادت دینے کا ‘‘کسی معاملے میں ’’آدمی ب۔‬

‫کے ‘‘کی شہادت ‪’’،‬آدمی ‘‘غیر آدمی’’ہی رکھتا ہے ۔ کسی ‘‘حق ’’آدمی‬ ‫لئے کیونکر معتبر یا اصول شہادت کے مطابق قرار دی جاسکتی ہے‬ ‫کی حیثیت کیسی بھی رہی ہو ‪ ،‬کہے یا لکھے پر ‘‘غیر آدمی’’ ج۔‬ ‫مواخذہ یکطرفہ ڈگر ی کے مترادف ہوگی‬ ‫د۔ کیا بعید کہ وہ رو ِزاول کا بدلہ لینے پر اتر آئے‬ ‫کی حیثیت معتبر رہتی ہے۔ اس شعر ‘‘شہادت کے حوالہ سے ’’آدمی‬ ‫میں اس امر کی طرف بھی اشارہ ملتاہے کہ آدمی کی خلوت بھی ‪،‬‬ ‫خلوت نہیں رہی ۔ اس کی خلوت (پرائیویسی) پر بھی پہرے بیٹھا دئیے‬ ‫گئے ہیں۔ اس کی آزادی محض رسمی اور دکھاوے کی ہے۔ وہ کھل‬ ‫کرخواہش اور استعداد کے مطابق اچھائی یا برائی کرنے پرقادر نہیں‬ ‫کیونکہ اس سے کمتر مخلوق اس پر کیمرے فٹ کئے ہوئے ہے۔‬ ‫نگرانی ‪ ،‬صحت مند کو بھی نفسیاتی مریض بنا دیتی ہے۔ آزادی سلب‬ ‫ہونے کا احساس اورمواخذے کاخوف ‪ ،‬ادھورے پن کاشکار رکھے گا۔‬‫کی زمین پر حیثیت کایہ حوالہ پیش کرکے آدمی کے ‘‘غالب نے ’’آدمی‬ ‫معتبر اور خود مختار ہونے کے فلسفے کو ردّ کر دیاہے۔ قیدی ‪/‬پابند‬‫کے قول وفعل پر انگشت رکھنا کسی طرح واجب نہیں ۔ا گر پہر ے اٹھا‬ ‫کے قول وفعل کی وسعتوں کا اندازہ لگایا ‘‘آدمی’’لئے جائیں تو ہی‬ ‫جاسکتاہے۔ بصور ت دیگر ثواب وگناہ کے پیمانے اپنی حدود پر شر‬ ‫مندہ رہیں گے۔‬ ‫کے معتبر ہونے کا پیمانہ ‘‘ایک تیسر ے شعر میں غالب نے ’’آدمی‬ ‫بھی پیش کیا ہے‬ ‫؂بسکہ دشوار ہے ہرکام کا آساں ہونا‬

‫آدمی کو بھی میّسر نہیں انساں ہونا‬ ‫انسان ‪ ،‬نسیان یا انس سے مشتق ہے۔ یہ دونوں ماد ے اس میں‬ ‫موجود ہوتے ہیں گویا انسان کا شریف النفس ہونا‪ ،‬مرتبہ ء کمال‬ ‫انسانیت پر فائز ہوناہے اور اسی حوالہ سے وہ انسان کہلانے کا‬‫مستحق ٹھہرتا ہے ۔ اس شعر کے حوالہ سے انسان اور آدمی میں فرق‬ ‫ہے۔ گویا‬ ‫‪١‬۔ آدمی سے انسان تک کا سفر بڑا مشکل اور دشوار گزار ہے‬‫‪٢‬۔سز ا وجزا کے لئے آدمی کے لئے آدمی کی شہادت امر لازم کا درجہ‬ ‫رکھتی ہے‬ ‫‪۳‬۔گواہی ‪ ،‬اس آدمی کی قبول کی جائے جوآدمی کے درجے پر فائز ہو‬ ‫‪۴‬۔آدمی کے لئے غیر آدمی کی شہادت ‪ ،‬اصو ِل شہادت کے منافی ہے‬ ‫بصورت دیگر شہادتی (گواہ) پر انگلی اٹھے گی‬ ‫‪۵‬۔غیر معتبر (غیر آدمی) کی گواہی فسخ ہوجائے گی‬‫‪۶‬۔ غیر آدمی کی گواہی پر فیصلہ (معاذاللہ) منصف کے انصاف پر دھبہ‬ ‫ہوگا‬ ‫آسمان‪:‬‬ ‫یہ لفظ کائنات کی تخلیق کی طرح بہت پرانا ہے یہ لفظ سنتے‬ ‫‪:‬ہی پانچ طرح کے خیالات ذہن کے پردوں پر تھرانے لگتے ہیں‬ ‫ان حدوسعتیں اول ۔‬

‫دوم۔ ہلکے نیلے رنگ کی چھت‬ ‫سوم ۔ حیرت انگیز توازن کامظہر‬ ‫بادل چہارم ۔‬ ‫پنجم ۔ کہاجاتاہے ‪ ،‬آسمان پر موجود ستاروں کی گردش کے باعث‬ ‫خوشی یا پریشانی لاحق ہوتی ہے ۔ سماوی آفتیں بھی‬ ‫اہل زمین کا مقدر رہی ہے‬‫آسمان کی وسعتوں میں جانے کتنے سورج ‪ ،‬چاند اور ستارے سمائے‬ ‫ہوئے ہیں۔ سورج نہ صرف دن لاتاہے بلکہ دھرتی باسیوں کو حدت‬ ‫بھی فراہم کرتاہے۔ چاند ستارے حسن اور ترتیب کا مظہر ہیں ۔ سورج‬ ‫چاند اور ستاروں سے متعلق بھی اردوغزل میں کافی مواد ملتاہے۔‬ ‫آسمان بطور چھت‪ ،‬ہر قسم کی تمیز وامتیاز سے بالا رہاہے۔ بادلی‬‫جہاں بھی آئے ہیں گرج چمک کے ساتھ آئے ہیں اور بارش لائے ہیں ۔‬ ‫گرج چمک سے خوف پھیلتا ہے جبکہ بارش فضا کو نکھارنے‬ ‫اورزمین کو سیراب کرکے ہر یالی کا ذریعہ بنی ہے۔ آسمان کے جملہ‬ ‫حوالے (توازن‪ ،‬ترتیب و تنظیم ‪ ،‬وسعتیں ‪ ،‬سیرابی ‪ ،‬حسن ‪ ،‬تمیز و‬‫امتیاز ‪ ،‬خوف وغیرہ ) انسانی ذہن پر اثرات مرتب کرتے ہیں۔ آسمان کا‬ ‫کردار انسانی ذہن میں ہلچل مچانے کے ساتھ ساتھ اسے وسیع ‪ ،‬فراخ‬ ‫اور متوازن کرتاہے۔ اردو غزل نے آسمان کے کردار کو ہمیشہ بائیں‬ ‫آنکھ پر رکھاہے۔‬ ‫قائم چاند پوری کا زیر آسمان جی گھبراتا ہے۔ آسمان کا کیا بھروسہ‬ ‫‪:‬کب ٹھکانہ ہی چھین لے‬

‫؂کیوں نہ جی گھبرائے زیر آسماں گھر تو ہے مطبوع پر بس‬ ‫)مختصر(‪۵‬‬‫‪:‬خواجہ درد آسمان کو کمینہ اورکینہ پرور قرار دیتے ہیں‬‫؂نہ ہاتھ اٹھائے فلک گوہمارے کینے سے کسے دماغ کہ ہو دوبدکمینے‬ ‫)سے (‪۶‬‬‫مرزاسودا کے نزدیک آسمان ‪ ،‬درد دینے والا اور کنج قفس کو سونپ‬ ‫‪:‬دینے والا ہے‬‫؂سو مجہ کو آسمان نے کنج قفس کو سونپا اب چہچے چمن میں کیجے‬ ‫)فراغتوں سے (‪٧‬‬‫‪:‬میاں محمدی مائل آسمان کو دکھ کے موسم کا ساتھی سمجھتے ہیں‬‫)؂ہے جہاں پرخروش اس غم سوں آسمان سبز پوش اس غم سوں(‪۸‬‬‫خواجہ درد آسمان سے متعلق دواور حوالوں کا ذکر کر تے ہیں‬‫آسماں کے زیر سایہ حرص کا بندہ خرم نہیں رہ سکتا کیونکہ اول۔‬ ‫آسمان حرص کے حوالہ سے میّسر خوشی کے دنوں کو پھیر‬ ‫دیتا ہے‬‫)حرص ہو جس دلی میں وہ خرم رہے(‪ ۹‬؂ہے محا ِل عقل‪ ،‬زی ِرآسماں‬‫آسمان خود گردش میں ہے جانے کیا تلا ش رہاہے دوم ۔‬‫؂لیتانہیں کبود کی اپنے عناں ہنوز‬ ‫پھر تا ہے کس تلاش میں یہ‬ ‫)آسماں ہنوز(‪١٠‬‬

‫آسماں کا درج بالا کردار انسانی ذہن پر مثبت اثرات مرتب نہیں کرتا ۔‬ ‫دوسری طرف یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ جوخود ’’چکروں‘‘‬ ‫میں ہے اور وں کو کیونکر پر سکون رہنے دے گا ۔‬ ‫غالب آسمان کو قاب ِل پیمائش و فہمائش سمجھتے ہیں ۔ ان کے نزدیک‬ ‫آسمان ‪ ،‬انسان سے کہیں کمتر ہے‬ ‫؂ کرتے ہومجھ کو منع قد مبوس کس لئے کیا آسمان کے بھی برابر‬ ‫)!نہیں ہوں میں (؟‬ ‫؂ فرش سے تا عرش واں طوفاں تھا موج رنگ کا یا ں زمیں سے‬ ‫آسماں تک سوختن کا باب تھا‬ ‫غالب کو پڑھ کر تسکین ہوتی ہے کہ آسماں لامحدود نہیں۔ دوسرا وہ‬‫انسان کے بالمقابل کمتر ‪ ،‬ادنی اور حقیرہے ۔ غالب کا یہ مصرع آسمان‬ ‫کی عظمتوں ‪ ،‬وسعتوں ‪ ،‬بلندیوں اور رفعتوں کا بھانڈ اپھوڑ دیتاہے‬ ‫!کیاآسمان کے بھی برابر نہیں ہوں میں ؟‬ ‫غالب نے ایک نظر یہ یہ بھی دیا ہے کہ آسمان دن ر ات گردش میں‬‫ہے۔ اس کی گردش زمین باسیوں کومتاثرکرتی ہے ۔ اس کی گردش کے‬ ‫حوالہ سے ’’کچھ نہ کچھ‘‘ وقوع پذیر ہوتا ہی رہے گااور یہ مسلسل‬ ‫جبر کا عمل ہے۔ اس پر انسان کی دسترس ہی نہیں۔ جب کچھ نہ کچھ‬ ‫‪:‬ہونا طے ہے تو گھبرانا محض نادانی ہے‬ ‫رات دن گردش میں ہیں سات آسماں ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں‬ ‫کیا‬ ‫ہو رہے گا‘‘ جبر مشیت کو واضح کر رہاہے ۔ جب کسی کام میں ’’‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook