سہو ،حرف شکایت ہونٹوں تک نہ لاؤ۔ بالکل اسی طرح ’’حاکم نے نہایت مہربانی فرماتے ہوئے آپ کو ملازمت سے نکال دیا ہے ‘‘ حاکم کا ہر اچھا برا حکم اس کی عنایت اور مہربانی پر محمول ہوتا ہے ۔ اس کے خلاف بولنا جرم اور کفرا ِن نعمت کے زمرے میں آتا ہے۔ زنداں: )زنداں فارسی اسم مذکر۔ قید خانہ ،جیل (١۵۶ زنداں کا ریاستی نظام میں بڑا عمل دخل رہا ہے ۔ اس کی ہر جگہ مختلف صورتیں رہی ہیں حوالات : یہ منی جیلیں ابتدائی تحقیق وتفتیش کے لئے قائم رہی ہیں۔ یہاں ملزموں پر ذہنی اور جسمانی تشدد اور انسانیت سوز سلوک روا رکھا جاتارہا ہے ۔ یہاں چارقسموں کے ملزموں کو رکھا جاتاہے نامزد ملزم ( )٢مشتبہ افراد ( )۳حکومت وقت کے مخالفین ((١) )۴ مہنگائی کے توڑ اور ذاتیعیش وتعیش کے لئے رشوت یا تہواری وصول کے لئے کسی کو بھی پکڑ کر بندکردیا جاتا ہے ضروری نہیں ہوتا کہ پکڑے گئے افراد کاروزنامچہ میں اندراج کیاجائے یاپھر تفتیش کے لئے بالا اتھارٹی سے پروانے حاصل کیا جائے۔ یہ زیادہ ترتھانیدار صاحبان کی اپنی صوابدید پر انحصار کرتاہے ۔
جیل:تفتیش اورچالان مکمل کرکے ملزموں کو جیل بھیج دیا جاتاہے ۔ عدالت کے سزا یافتہ یہاں اپنی سزا مکمل کرتے ہیں۔ نظربندی: سیاسی قیدیوں کو ان کے گھر میں یا کسی بھی عمارت میں نظر بند کردیاجا تا ہے ۔ ان کے معاشرتی رابطے منقطع کردئیے جاتے ہیں۔ جنگی قیدیوں ،غیر ملکی جاسوسوں ،حکومتی مخالفوں * ، غداروں کے لئے الگ سے عقوبت خانے بنائے جاتے ہیں۔ جاگیرداروں ،وڈیروں ،حکمرانوں حکومتی عہدے دارو ں * وغیرہ نے اپنے جیل بنائے ہوتے ہیں جہاں وہ اپنے مخالفین کو ٹارچر کرتے ہیں۔پیشہ ور بدمعاشوں نے تاوان یا مخصوص مقاصد کی تکمیل کے * لئے ’’ زنداں‘‘ بنا رکھے ہوئے ہیں۔ ذہنی معذوروں کو گھر کے کسی کمرے /پاگل خانے میں بند * کرکے ان کے معاشرتی تعلقات پر قدغن لگادیا جاتاہے ۔لفظ ’’زنداں‘‘ ہیجانی کیفیت پیداکرنے والا لفظ ہے۔ بے گناہ اور گنہگار قیدیوں کی حالت اور ان پر تشدد کاتصور احساس کی کرچیاں بکھیر دیتاہے ۔ زنداں سے کچھ اس قسم کی کیفیات منسلک نظرآتی ہیں )اترا ہوا چہرا (١ ١۵٧
)گالیاں اور بددعائیں (٢ ١۵۸ )بے چینی ،بے چارگی ،بے بسی ،بے ہمتی (۳ ١۵۹ )اعصابی تناؤ کے باعث لرزہ (۴ ١۶٠ خوف ڈر اور طرح طرح کے خدشات ۵ منتشر اور غیر مربوط سوچوں کا لامتناہی سلسلہ ۶ آزادی کی خواہش اور اس کے سہانے سپنے ٧ کسی معجزے کی توقع ۸ مذہب سے رغبت ۹ آنسوؤں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ١٠ انتقامی جذبے ١١ تشنہ تکمیل ضد ١٢ جرم کی طرف رغبت ١۳ ذہنی پسماندگی ١۴ جسمانی فرار ،تنگی ،تاریکی اور کڑی پابندیاں ١۵ غالب کے ہاں یہ لفظ مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ ہر استعمال کے ساتھ دکھ اورکرب وابستہ نظر آتا ہےاحباب چارہ سازی وحشت نہ کرسکے زنداں میں بھی خیال بیاباں نورد تھا
وحشت کم کرنے یا وحشت کا علاج کرنے کی غرض سے قید خانے )میں ڈالا جانا ( ١۶١ہنوز اک پرتو نق ِش خیال یارباقی ہے دل افسردہ گویا حجرہ ہے یوسف کے زنداں کا تنگ وتاریک قید خانہ ( )١۶٢ کیاکہوں تاریکی زندا ِں غم اندھیرہے پنبہ نو ر صبح سے کم جس کے روزن میں نہیں دکھ ،پریشانی ،رنج وغیرہ بھی مثل زنداں ہیں۔ ان کی گرفت مینآنے والا بے سکون ہوتا ہے ۔ بے چارگی اور بے بسی کی زندگی بسرکرتاہے ۔چندا نے زنداں کو ’’ اسیر گاہ ‘‘ کے معنوں میں لیا ہے ۔ غم کا حصار ہوتاہے اور انسان اسی حصارمیں مقید رہتا ہے ۔ اسی حوالہ سے غم کو زنداں کا نام دیا گیا ہے اسیرغم کوزنداں سے نکالا بے سبب پھر کیوں سناہے غل بھی تونے نالہ زنجیر سے اپنے ( )١۶۳چندا میر مہدی مجروح عشق کو بھی زنداں کا نام دیتے ہیں ۔ جواس میں گرفتا ر ہوتاہے۔ ایک طرف عشق کی کافرمائیاں ہوتی ہیں تو دوسری طرف اس کی عمرانی سرگرمیاں ختم ہوجاتی ہیں۔ معاشرتی واسطے اور حوالے ختم ہوجاتے ہیں .حضر ِت عشق میں کچھ پوچھ بزرگی کی نہیں
اس میں یوسف بھی رہے قیدی زنداں ہوکر ( )١۶۴مجروح شکیب جلالی نے بھی زنداں سے مراد قیدخانہ لیا ہے دیوار گلستان د ِر زنداں یوں بھی بڑھی ہے وسع ِت ایوا ِن رنگ وبو سے جاملی ( )١۶۵شکیب مختلف جانوروں اورپرندوں کی انسانی معاشرت میں بڑی اہمیت رہیہے ۔انسان اپنے شوق کی تکمیل کے لئے جنون میں پرندوں کو ان کی خوبصورتی اور دلربااداؤں کی پاداش میں بندی بناتا چلا آیا ہے ۔قفس‘‘ پرندوں کے قید خانے کے لئے بولا جاتاہے ۔ لفظ قفس سنتے ’’ ہی کسی معصوم پرندے کی بے بسی اور تڑپنا پھڑکنا آزادی کے لئے قفس کی دیواروں سے سرٹکرانا آنکھوں کے سامنے گھوم جاتاہے ۔قفس فارسی اسم مذکر ہے ۔ اہل لغت اس کے پنجرا ،جال ،پھندا ،قالبخاکی ،جسم ( )١۶۶معنی مراد لیتے ہیں ۔ اس لفظ کو زنداں کامترادفبھی سمجھا جاتاہے ۔ مولانا روم نے زنداں کو قید خانہ کے معنوں میں استعمال کیا ہے ۔آقا کے ملازم کا رویہ زنجیر زنداں سے کم نہیں ہوتا آں عرض ،زنجیر و زنداں می شود چاکرت شاہا خیانت می کرد )(١۶٧غالب کے ہاں قفس ،پنجرے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اور اسے اسیر کے لئے بطور مشبہ بہ نظم کیاہےکرے قفس میں فراہم خس مثال یہ میری کوشش کی ہے کہ مرغ اسیر آشیاں کے لئے قیدی ،قید میں اپنی ایڈجسٹمنٹ کے لئے آزاد ماحول ایسا سامان پیدا
کرنے کی سعی لاحاصل کرتا ہے ۔ چندا نے قفس کو ’’جائے اسیر عاشق‘‘ کے معنوں میں استعمال کیا ہے گردام سے اپنے ہمیں آزاد کروگے پھر کس سے یہ کنج قفس آباد کروگے ( )١۶۸چندا ذوق نے بھی پنجرہ معنی مراد لیئے ہیںیاد آیا جع اسیران قفس کو گلزار مضطرب ہوکے یہ تڑپے کہ قفس ٹوٹ گئے ( )١۶۹ذوق میرمہدی مجروح کے ہاں قربت ،تعلق ،اپنا لینا کے معنوں میں استعمال ہوا ہے قفس میں دام سے ڈالا ہے ایک عمر بعد ہزار شکر،ہوا کچھ تو مہرباں صیاد ( )١٧٠مجروحشعرا نے عشاق کو مثل پرندہ قرار دے کرقفس میں بند کئے رکھا ہے ۔چڑی مار‘‘ قسم کی چیز ہوتاہے جوعشاق کو پکڑ ’’گویا محبوب کوئی پکڑ کر قفس میں بند کئے جاتاہے ۔عشاق قفس کی دیواروں سے سرٹکرا ٹکرا کر عمر گزار دیتے ہیں ۔ غزل کے شعرا کا یہ نظریہ عملی دنیا میں ایسا غلط بھی نہیں لگتا۔ زیارت گاہ: زیارت گاہ زیارت عربی زبان کا لفظ ہے جب کہ گاہ فارسی لاحقہ ہے اور مونث استعمال ہوتا ہے ۔ لغوی معنی کسی متبرک جگہ کا دیکھنا ، یاترا ،حج ،مقدس جگہ کا نظارہ ،مقبرہ ،مزار ،آستانہ ،درگاہ
،پرستش گاہ ( )١٧١پیروں ،عاشقوں ،قومی ہیروز اور بڑے کامکرنے والوں کی قبریں توجہ کامرکز رہی ہیں۔ یہ بھی روایت رہی ہے کہ بادشاہ جھروکے میں بیٹھ جاتاتھا ۔رعایا اس کی زیارت کے لئے گزرتی تھی خیال کیا جاتا تھا کہ بادشاہ کی زیارت کے بعد دن اچھا گزرے گا۔ زیادہ روزی میسر آئے گی۔ آج بھی سننے میں آتاہے کہ یااللہ کسے نیک دے ’’ لوگ کام سے باہر نکلتے ہیں توکہتے ہیںپتہ نہیں کس ’’متھے لاویں‘‘ اچھا برا ہونے کی صورت میں کہتے ہیں۔۔ گویا زیارت گاہ کا اس حوالہ سے معاشرے ‘‘ کے متھے لگے تھے میں بڑا اہم رول ہے ۔ ہمارے ہاں تو عشاق کی قبریں عشاق حضرات کے لئے بڑی بامعنی ہیں۔ شاہ حسین نے لفظ ’’درگاہ‘‘ خدا کے ہاں حاضری کے معنوں میں لیا ہے بھٹھ پئی تیری چٹی چادر چنگی فقیراں دی لوئی درگاہ وچ سہاگن سوامی ،جوکھل کھل نچ کھلوئی ( )١٧٢شاہ حسین غالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ ہوپ ِس مردن بھی ،دیوانہ زیارت گاہ طفلاں ہے شرار سنگ نے تربت پہ مری گلفشانی کی ساحل : عربی اسم مذکر ،سمندر یا دریا کا کنارہ ( )١٧۳بے رونقی ، ویرانی ( )١٧۴ہجر کی افسردگی ( )١٧۵خمیازہ ، میں لینے والا ( )١٧۶دریا کاہم وسعت ،تشنہ کام ،ناقابل تسکین تمنا
)(١٧٧ ساحل انسانی تہذیبوں کے جنم داتا رہے ہیں ۔ ابتدا میں آبادیاں کناروں کا رخ کرتی تھیں ۔ دریا آبادیوں کو نگلتے رہے اس کے باوجود ’’ساحل ‘‘ انسان کے لیے کبھی بے معنی نہیں ہوئے۔ ساحلوں کا مزاج ،انسانی مزاج پراثر انداز ہوتا رہاہے۔ یہ مزاجی تبدیلوں کا عمل محتلف تغیرات سے گزر کر مختلف حالات سے نبردآزما ہو کر روایت کی شکل اختیار کرتا رہا ہے۔ غالب کے ہاں ساحل کا استعمال ،اس کے جدت طراز ذہن کا عکاس ہے دل تا جگر کہ ساحل دریائے خوں ہے اب اس رہگزر میں جلوہء گل ، آگے گرد تھا ایک اور انداز ملاحظہ فرمائیںبقدر ظرف ہے ساقی خمار تشنہ کامی کا جو تو دریائے مے ہے تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا غالب ساحل کا مترادف ’’ کنارہ ‘‘ بھی استعمال میں لائے ہیں سفینہ جب کہ کنارے پر آکر لگا غالب خدا سے کیا جوروستم ناخدا کہیے کنارے کو کونہ ،ایک طرف ،کامیابی اور فتح کے معنوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کنار ہ حوصلہ اور عبرت کے پہلو بھی واضح کرتاہے۔ نزع کا عالم ،موت کا وقت ،صبر کا پیمانہ لبریز ہونا اورصبر کی آخری حد کے لیے کسی نہ کسی واسطے سے یہ لفظ بول چال میں آتا رہتا ہے ۔
اردو شاعری کے لیے یہ لفظ نیا نہیں ۔ چنداستعمالات ملاحظہ ہوںکرم اللہ خاں درد کاکہنا ہے دریا کے دوکنارے آپس میں باہم ہوسکتے ۔ دو ایک سی متضاد سمت میں چلنے والی چیز آپس میں مل نہیں سکتیں کنارے سے کنارہ کب ملا ہے بحر کا یارو پلک لگنے کی لذت دیدہ ء پر ٓاب کیاجانے( )١٧۸کرم اللہ ورد قائم چاند پوری نے عمر کو دریا ،جسم کو کنارہ کہاہےعمر ہے آب رواں اور تن ترا غافل کنار دم بدم خالی کرے ہے موج اس ساحل کی تہ(١٧۹قائم شکیب جلالی نے لفظ ساحل کا کیا عمدگی اور نئی معنویت کے ساتھ استعمال کیا ہےساحل سے دور جب بھی کوئی خواب دیکھے جلتے ہوئے چراغ تہ آب دیکھے(١۸٠شکیب شبستان : فارسی اسم مذکر ،پلنگ ،سونے کا ،شب خوابی کا کمرہ ،آرام گاہ ، عشرت گاہ ،بادشاہوں کے سونے کا کمرہ ،حرم سرا ،خلوت گاہ ،مسجد کی وہ جگہ جہاں رات کو عبادت کرتے ہیں ،خانہ کعبہ کا احاطہ ()١۸١خواب گاہ ،رات کو آرام کرنے کی جگہ )١۸۳( ،قیام گاہشب( )١۸۴یہ لفظ شب کے ساتھ ستان کی بڑھوتی سے ترکیب پایا ہے مقا ِم شب بسری کو انسانی زندگی میں بڑی اہمیت حاصل ہے دن بھر
کی بھاگ دوڑ کے بعد اس کی اہمیت و ضرورت واضح ہوجاتی ہے ۔ ان حقائق کے حوالہ سے دیکھنے میں آتا ہے لوگ مقام شب بسری کی تعمیر اور آشائش و تزئین پر لاکھوں روپیہ صرف کرتے ہیں اور یہ سب لایعنی معلوم نہیں ہوتا ۔ انسان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایسیجگہ شب بسر کرے جہاں اسے کوئی ڈسٹرب نہ کرے ۔ یہ لفظ تھکےماندے اعصاب اور دماغ کے لیے نعمت کا درجہ رکھتا ہے ۔ جسم ڈھیلا پڑنے لگتا ہے اور وہ آرام کی سوچنے لگتاہے۔ ان معروضات کے تناظرمیں غالب کے اس شعر کا مطالعہ کریں سفر عشق میں کی ضعف نے راحت طلبی ہر قدم سائے کو میں شبستاں سمجھاخوابگاہوں کو پر سکون ،آرام دہ ،شب بسری کے جملہ لوازمات سےآراستہ اور محفوظ ترین بنانے کی انسانی کوشش لایعنی اور بے معنی نہیں ۔سویا مویا ایک برابر ہوتاہے۔ سوتے میں کوئی جانور ،سانپ وغیرہ یا دشمن نقصان پہنچا سکتا ہے ۔ مشقت اور محنت کے بعدسکون کی نیند لازم ہوجاتی ہے ۔ اس لیے خواب گاہ کا عمدہ اور حسب ضرورت ہونا لازم سی بات ہے۔ شبنمستان:فارسی کا اسم مذکر ،وہ مقام جہاں شبنم بکثرت پڑتی ہو ()١۸۵وہ مقامجہاں سبزے اور پودوں پر بکثرت شبنم پڑتی ہے()١۸۶شبنم ،را ت کی تری۔ ستان کثرت کے لیے( )١۸٧وہ مقام جہا ں اوس پڑی ہو()١۸۸ستان کے لاحقے سے جگہ ،مقام واضح ہو رہا ہے ۔ ایسی جگہ جہاںشبنم ہی شبنم ہو ۔ اردو میں جگہ کے لئے’’ ستان ‘‘کا لاحقہ بڑھادیتے ہیں ۔ یہی رویہ فارسی میں ملتا ہے۔
جہاں سبزے پر کثرت سے شبنم پڑتی ہو ،کیا رومان پر ور منظر ہوتا ہے لوگ ننگے پا سبزے پر چلتے ہیں ۔یہ صحت کے لیے مفید ہوتاہے ۔ آنکھوں کو ٹھنڈک میسر آتی ہے ۔ آسودگی اور سکون سا ملتاہے ۔ معاملہ مشاہدے سے علاقہ رکھتاہے۔ اس لفظ کی نزاکت لطافت مماثلت سے اقبال ایسے شاعر جدید نے بھی فائدہ اٹھایا ہےابھی مجھ دل جلے کو ہم صیفرو اور رونے دو کہ میں سارے چمن کو شبنمستان کرکے چھوڑوں گا غالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال واضح کررہا ہے کہ اسے اس جگہ کی نزاکت اور اس کے حسن سے کس قدر دلچسپی ہےکیا آئینہ خانے کا وہ نقشہ ،ترے جلوے نے کرے جو پر تو خورشید ، عالم شبنمستان کاشہر عموماا’’ بازار ‘‘ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے تاہم اس شہر: کے لغوی معنی بڑی آبادی ،بلدہ ،نگر( )١۸۹بستی ،کھیڑہ ()١۹٠ وہ جگہ جہاں بہت سے آدمی مکانات میں رہتے ہوں اور میونسپلٹی/ )کارپوریشن کے ذریعے انتظام ہوتا ہو ( )١۹١آرزوں کا شہر (١۹٢ شہر بہت سے آدمیوں کی مکانات میں اقامت کے سبب وجود حاصل کرتے ہیں ۔ ان کا ایک سماجی ،عمرانی ،سیاسی ،معاشی سیٹ اپ تشکیل پاتا ہے ۔ نظریات اور روایات مرتب ہوتی ہیں ۔ ایک مجموعیمزاج اور رویہ بنتاہے۔ لفظ شہر سننے اور پڑھنے کے بعد کوئی خاص تاثر نہیں بنتا۔ تاثر اور توجہ کے لیے کسی سابقے اور لاحقے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔ مثلاا شہر محمد ﷺ ۔ شہر قائد ،شہر اقبال وغیرہ ۔ غالب کے ہا ں شہر آرزو کا ذکر ہوا ہے ۔ اس شہر کا
مادی وجود تو نہیں لیکن یہ اپنی حثییت میں بے وجود بھی نہیں ۔ دلمیں ہزاروں مختلف قسم کی آرزوئیں پلتی ہیں۔ اپنی رنگا رنگی اورہما ہمی میں شاید ہی اس کی کوئی مثل ہو ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے بہت نکلے مرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے گویا دل کسی بڑے شہر کی طرح گنجان آباد ہوتا ہے ۔ آرزو ں کے ساتھ شہر کا لاحقہ کثرت کو واضح کرتا ہے۔ شاکر ناجی نے جگہ جگہ جبکہ میر صاحب نے دل کو شہر کا نام دیا ہے۔ لے جاہے شہر شہر پھراتا ہے دشت دشت کرتا ہے آدمی کو نہایت خراب دل ()١۹۳ناجی شہر دل آہ عجیب جائے تھی پر اس کے گئے ایسا اجڑا کہ کسی طرح بسایا نہ گیا()١۹۴میر ظلمت کدہ:ظلمت عربی اسم مونث ،تاریکی ،اندھیرا سیاہی ( )١۹۵کد ہ ،علامت اسم ،ظرف مکان۔ عربی اسم ظلمت پر فارسی لاحقہ کدہ کی بڑھوتی سے یہ مرکب تشکیل پایا ہے ،بمعنی تاریک مقام ،دنیا()١۹۶تاریک )گھر (١۹٧جب جبروستم ،بے انصافی ،سیاسی و معاشی استحصال اور نفرت حد بولا جاتا ہے۔ یہ لفظ ’’ ‘‘سے بڑھ جائے تو لفظ ’’ اندھیر نگریکے لغوی معنی جہاں ‘‘اندھیر نگری’’ظلمت کدہ‘‘ کا ہی مترادف ہے ۔
ناانصافی ،لاقانونیت اور اندھا دھند لوٹ مچی ہو( )١۹۸کے ہیں۔ یہ لفظ انسانی نفسیات پر دو طرح کے اثرات مرتب کرتا ہے اول ۔ اندھیرے( ظلم زیادتی اور ناہمواری ) کو قبول کرکے موجودہ حوالوں کے ساتھ ایڈجسمنٹ کرلی جائے ا خود فراموشی اختیار کرلی جائے ب ج ایک چپ سو سکھ پر عمل کیا جائے دوم :اندھیرے ( ظلم زیادتی اور ناہمواری ) کے ساتھ جنگ کرئے ا روشنی تلاش کی جائے لڑتے لڑتے موت کو گلے لگا لیا جائے بمختلف لوگ ایک ہی ہیجان کا مختلف طریقوں سے اظہارکرتے ہیں ’’ )١۹۹کیونکہ جو جیسا محسوس کرئے گا یا جس ماحول یا حالات ( ‘‘میں پرورش پا رہا ہوگا اس کا ردعمل بھی اس کے مطابق سامنے آئے گا۔ اس لیے ظلمت کدے کا تصور مختلف قسم کے خیالات ،رحجانات اور کیفیات سامنے لاتا ہے۔ اندھیرے کی گھمبرتا ا ب ظلم و زیادتی وغیرہ کا راج غالب کے شعر کے تناظر میں مفہوم سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ظلمت کدے میں میرے ش ِب غم کا جوش ہے اک شمع ہے دلیل سحر ،سو خموش ہے
عہد غالب پر نظر ڈالیے برصغیر’’ ظلمت کدہ ‘‘ دکھائی دے گا۔ یہ غزلبعد ١۸٢۶کی ہے۔ (١۸٢۶ )٢٠٠کے بعد حالات پر نظر ڈالئے،برصغیر سے کچھ زیادہ ہی تھا ۔ ١٧۵۴کے بعد دن بدن ‘‘’’ اندھیر نگری سیاسی ،معاشی اور انتظامی حالات خراب ہی ہوئے۔شمع ( بادشاہ ) سیاسی قوت کی علامت تو تھی ۔ لوگوں کی اس سے توقعات وابستہ تھیں ۔ یہ توقعات لایعنی اور بے معنی تو نہ تھیں ۔ لوگ امید کر رہے تھے کہ شمع روشن ہوگی ۔ اندھیرے چھٹ جائیں گے۔ روشنی ہوتے ہی لوٹ کھسوٹ کا خاتمہ ہوگا۔ اندھیرے کی گھمبیرتا کے حوالے سے غلام رسول مہر لکھتے ہیںمیرے اندھیرے گھر میں شب غم کے جوش و شدت کا یہ عالم ہے ’’ کہ صبح کی علامتیں ناپید ہیں ۔ صرف ایک نشان رہ گیا ہے اور وہ بجھی ہوئی شمع ہے ۔ اندھیرے کی شدت کو واضح کرنے کے لئے جس شے کو صبح کی دلیل ٹھہرایاہے) _______ وہ خود بجھی ہوئی ہے ،یعنی اندھیرے کے تصور ( ) (‘‘٢٠١میں اضافہ کررہی ہے ۔غالب بہت بڑے ذہن کا مالک تھا۔ بات کرنے کے ڈھنگ سے خوب آگاہتھا۔ اندھیرے کی شدت ( شب غم کا جوش) والا مضمون برا نہیں ۔ بڑ ا آدمی ذات سے بالاتر کہتاہے۔ اس کا کرب و سیب کا کرب ہوتاہے۔ لہذا ’’ظلمت کدے‘‘سے اس کا گھر مراد لینا درست نہیں۔ سیاسی و معاشی ناانصافی ناہمواری وغیرہ کا ماتم تو گھر گھر تھااس لیے’’ ظلمتکدہ‘‘سے مراد پورا برصغیر لینا ہوگا۔ تاہم اندھیرے کی شدت کے حوالہ سے بھی مضمون برانہیں ۔
عرش: عربی اسم مذکر ،چھت ،تخت ،آسمان ،جہاز کی چھتری ( )٢٠٢وہ جگہ جو نویں آسمان کے اوپر ہے جہاں خدا کا تخت ہے ()٢٠۳تخت شاہی )٢٠۴( ،تخت ،نظام بطلیموس میں اسے ستاروں سے سادہ اور محدود جہات مانتے ہیں ۔ اس لیے چرخ اطلس کہتے ہیں ۔ ( عرش بلند مقام ہے اور غالب کے نزدیک ) ہمارا مکان تو )عرش سے بھی اونچا ہے۔ (٢٠۵ عرش دو طرح سے معروف چلا آتاہےبلندی کے معنوں میں ،کہا جاتا ہے ۔ حالات نے اسے عرش سے ١ ‘‘ فرش تک پہنچا دیا ہے مظلوم کی آہ سے بچو کہ وہ عرش تک پہنچتی ہے ۔ ٢یہ لفظ مذہبی حوالہ سے تہذیب میں سفر کرتا دکھائی دیتاہے۔ غالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ ہو منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے ہیں ادھر ہوتا کاشکے مکاں اپناعربی اسم مذکر۔ بچھونا ،بستر ،زمین ،چونے وغیرہ سے فرش: پختہ کی ہوئی زمین ()٢٠۶عالم انتظار جس کی عالم مکاں کی طرح )چھ طرفین ہیں ( پورب ،پچھم ،اتر ،دکھن ،اوپر ،نیچے)(٢٠٧ انسان بہتر سے بہتر اور نئی سے نئی اشیا ،صورتوں اور موقعوںاور حالات کی تلاش میں رہتا ہے۔ تخلیق کے ساتھ ساتھ تزین و آرائش کا فریضہ بھی سرانجام دیتا چلا آتا ہے۔ وہ کسی نئی اطلاع کا منتظررہتا ہے ۔ غالب نے فرش کے ساتھ شش جہت کو منسلک کرکے اسے
دوسری کائناتوں سے منسلک کردیا ہے جس کی وجہ سے لفظ فرش قابل توجہ بن گیا ہے۔ شعر ملاحظہ ہو آئینہ فرش شش جہت کس کا سراغ جلوہ ہے ،حیرت کو ،اے خدا انتظار ہے قتل گاہ /گہ: مقتل کا مترادف ہے ۔ وہ جگہ جہاں محبوب اپنے عشاق کو قتل کرنے کے لیے مکمل تیاری( )٢٠۸کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔( )٢٠۹یہ لفظ کسی طرح کے نقشے آنکھوں میں باندھ دیتاہے بوچڑ خانہ ڈاکووں کی غارت گری ۳۔ ٢۔ ١۔ میدان جنگ حقوق طلب کرنے والوں پر تنگی سختی ،بے دردی اور غارت ۴۔ گریکسی بٹوارے کے وقت کی سنگینی ،چھینا جھپٹی ،قتل و غارت۔ ۵۔ ترکیبیں ‘‘ ’ ’وہ کرسی جو عوام پر ٹیکس عائد کرنے کی ۶۔ سوچتی ہے۔ انصاف کے ایسے ادارے جہاں انصاف بے دردی سے قتل ہوتا ٧۔ ہے۔ وہ امرجہ جہاں ناقص مال فروخت کرکے عوام کا معاشی قتل کیا ۸۔ جاتاہے۔ معرکہ حق و باطل ۹۔ میدان کربلا ١٠۔
لفظ قتل گہ خوف ہراس اور موت کا تاثر رکھتا ہے۔ اس لفظ سے اعصابی کچھاؤ پیدا ہوتا ہے ۔ غالب نے’’ عشرت ‘‘کو اس لفظ کا ہمنشست بنا کر اس جگہ سے محبت کو ابھارا ہے۔ محبوب سے (مجازاا) قتل ہونے کی تمنا ہر قسم کی ناخوشگواری ختم کردیتی ہے۔ شعر ملاحظہ ہوعشرت قتل گہ اہل تمنا ،مت پوچھ عید نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا کعبہ: عربی اسم مذکر ،چار گوشوں والی چیز ،مربع ،مکہ مکرمہ ،اہلاسلام کے مقدس اور متبرک مقام کا نام جہاں ہر سال حج ہوتا ہے یہ عمارت چار گوشوں والی ہے()٢١٠نرو کے کھیل کا بڑا مہرا ،ہر مربع گھر ،جھروکہ ،خانہ کعبہ ،بیت اللہ ،الحرم جو مکہ میں ہے ( )٢١١احترامااکسی محترم شخص اوروالدین کے لیے بھی استعمالکرتے ہیں ۔ دل کو بھی کعبہ کہا جاتاہے۔ کعبہ کے لیے حرم اور قبلہ کے الفاظ بھی استعمال میں آتے ہیں ۔ اہل اسلام کے لیے یہ مقام بڑا محترم ہے ۔ اسلام سے قبل بھی اسےخصوصی اہمیت حاصل تھی ۔ مذہبی حیثیت کے علاوہ تہذیبی ،سماجی اور سیاسی حوالہ سے اسے بڑا اہم مقام حاصل تھا۔ آج کل یہ محض مذہبی رسومات اور عبادات کے لیئے مخصوص ہے۔ حج کی فکری وفطری روح یہ کہ ہر سال دنیا کے مسلمان یہاں جمع ہوں مذہبی فرائض کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے ملیں ،اپنے معاملات اور مسائل پر گفتگو کریں ،ختم ہوگئی ہے۔
غالب کے ہاں اس لفظ کا بڑی خوبی سے استعمال ہوا ہے بندگی میں وہ آزادہ و خود بیں ہیں کہ ہم الٹے پھر آئے ،در کعبہ اگر وانہ ہوااس شعر میں شخص کی انا ہی کو واضح نہیں کیا گیا بلکہ برصغیر کی انا اور خود داری کو بھی فوکس کیا گیا ہے۔ قدرت نے شخص میں یہعنصر رکھ دیا ہے کہ اسے نظر انداز ہوناخوش نہیں آتا بالمقابل چاہے کوئی بھی ہو۔ اودو غزل میں یہ لفظ نظم ہوتا چلا آتا ہے۔ ،مثلااخواجہ :درد نے حرم ،دل کے معنوں میں استعمال کیاہے کہتے ہیں کعبہ اس دل کو سیاہ مت کر کچھ بھی تجھے جو ہوش ہے کو اور کعبہ سیاہ پوش ہے)٢١٢درد چندا نے بھی کعبہ سے مراد دل لیا ہےکعبہء دل توڑ کر کرتے نہ ہم بت خانہ آباد اب ہوتی اگر ہم کو صنم کی بے وفائی کی خبر ()٢١۳چندا آفتاب نے حرم ،قبلہ کے معنوں میں نظم کیا ہے صرف کعبہ میں نہ کر اوقات کو ضائع توشیخ ڈھونڈ جا کر ہر طرف نقش قدم دلدار آفتابکعبہ بہر طور تقدس مآب رہا ہے ۔ اگر دل معنی مراد لیئے ہیں تو یہاں محبتیں پروان چڑھتی ہیں ۔پروفیسر محمد اشرف کہتے ہیں کعبہ کو پہلی بار فرشتوں ،دوسری مرتبہ حضرت آدم ،تیسری ’’مرتبہ حضرت شیت جبکہ چوتھی مرتبہ حضرت ابراہیم نے تعمیر کیا۔ ابراہیمی تعمیر کی شکل یہ تھی زمین سے نو ہاتھ بلند ،دروازہ بغیر
کواڑ کے ،سطح زمین کے برابر دیواریں ،چھت نہیں ڈالی گئی تھی ۔حضرت ابراہیم کے بعد بنو جرہم نے تعمیر کا نقشہ وہی رہنے دیا۔ اس کے بعد قبیلہ عمالیق نے بنایا اور تبدیلی نہ کی ۔ حضورﷺ کی پیدائش سے دو سو سال پہلے قصی بن کلاب نے تعمیر کیا۔ چھت پاٹدی اور عرض میں کچھ حصہ کم کردیا۔ بعد میں قریش نے اٹھارہ ہاتھ بلند کردیا اور بھی تبدیلیاں کیں پھر عبداللہ ابن زبیر نے اس کے بعد )‘‘(٢١۴حجاج بن یوسف نے تعمیر کیا کعبہ کی تعمیر کی کہانی کے مطالعہ کے بعد واضح ہوجاتا ہے کہ انسان کعبہ سے کس قدر متعلق رہا ہے اوراس کے معاملہ میں کس قدر حساس رہاہے۔ اچھی خاصی آمدنی کا ذریعہ بھی بنا رہاہے۔ اس سے انسان کے تہذیبی اور سماجی حوالے بھی منسلک رہے ہیں ۔ کلیسا کلس سے ترکیب پایا ہے۔ یونانی اسم مذکر ،قوم نصاری کا مبعد ،گرجا ،بت خانہء کفار( )٢١۵دنیاکی تمام تہذیبوں میں کلیسا کا اپنا کردار رہا ہے۔ چرچ کے پاس سیاسی بالادستی بھی رہی ہے۔ ہندو اور مسلم راجوں میںپنڈتوں اور مولویوں کا سکہ چلا ہے۔پنڈت اور مولوی راجہ اور بادشاہ کی بولی بولتے آئے ہیں۔ جبکہ چرچ آزاد اور خود مختار رہا ہے۔ ملکی اقتدار بھی اس کے ہاتھ میں تھا ۔ یہ لفظ سنتے ہی توجہ حضرت عیسی ابن مریم کی طرف چلی جاتی ہے۔ کانوں میں گرجے کی گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں ۔ غالب کے ہاں :کلیسا کے سیاسی کردار کے حوالہ سے گفتگو کی گئی ہے
کعبہ مرے ے ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے مجھے کفر پیچھے ہے ،کلیسامرے آگےشکیب جلالی کے ہاں بھی بطور سکول آف تھاٹ استعمال میں آیاہے۔ جنت فکر بلاتی ہے چلو دیر و کعبہ سے کلیساؤں سے دور ( )٢١۶شکیب)کنشت:فارسی اسم مذکر ،آتشکدہ ،یہودیوں کا مبعد(٢١٧غالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ ہوکعبے میں جارہا ہوں ،تو نہ دو طعنہ ،کیا کہیں بھو لا ہو حق صحبت )!اہل کنشت کو (؟ بت خانہ ( )٢١۸آتشکدہ ،معبد آتش پرستاں و یہوداں ( )٢١۹غالب نے آتشکدہ ( عشق دیار محبوب) ہی مراد لیا ہے( )٢٢٠عشق کاانسانی تہذیبوں میں بڑا مضبوط کردار رہا ہے۔ عشق آگ ہی کا دوسرا :نام ہے۔ خواجہ درد کے ہاں اس لفظ کا استعمال دیکھیئےشیخ کعبے ہوکے پہنچا ،ہم کنشت دل میں ہو درد منزل ایک تھی ٹک )راہ ہی کا پھیر تھا(( )٢٢١درد دیر:یہ لفظ بھی عبادت گاہ سے متعلق ہے۔ فارسی اسم مذکر ہے۔ بت کدہ ،بت خانہ ،کنایتہ دنیا ( )٢۳٢کافروں کی عبادت گاہ ()٢٢۳معنوں میں
استعمال ہوتا ہے۔ بتکدہ انسانی تہذیبوں میں اہم کردار کا حامل رہا ہے۔ غالب کے ہاں عبادت گاہ کے معنوں میں استعمال ہوا ہے دیر نہیں ،حرم نہیں ،درنہیں ،آستاں نہیں بیٹھے ہیں رہ گذر پہ ہم ،غیر ہمیں اٹھائے کیوں خواجہ درد کے ہاں بھی بطور عبادت گاہ استعمال میں آیا ہے مدرسہ یاویر تھا یا کعبہ یا بت خانہ تھا ہم سبھی مہماں تھے ،واں تو ہی صاحب خانہ تھا )٢٢۴دردیہ لفظ مسلمانوں کی عبادت گاہ کے لئے استعمال مینآتا ہے مسجد : بمعنی سجدہ کرنے کی جگہ ،نماز پڑ ھنے کی جگہ ،مسلمانوں کا عبادت خانہ( )٢٢۵پیشانی( )٢٢۶مسجد مسلمانوں کی عبادت گاہ کے علاوہ مقام اجتماع( اسمبلی ہال ) * رہی ہے مشاورت کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے * درس و تدریس کا کام بھی یہاں ہوتا آیا ہے * مہمان گاہ کے طور پر بھی استعمال ہوتا رہاہے * صلح صفائی کے لئے اس کی حیثیت معتبر اور محترم رہی ہے * محفوظ پناہ گاہ رہی ہے * غرض بہت سے تہذیبی ،سماجی اور عمرانی امور مسجد سے نتھی رہے ہیں ۔ یہ لفظ وقار ،عظمت ،رہنمائی ،آگہی وغیرہ کے احساسات لے کر ذہن کے کواڑوں پر دستک دیتاہے۔
غالب کے ہاں کمال عمدگی سے اس لفظ کا استعمال ہوا ہےجب میکدہ چھوٹا ،تو پھر اب کیا جگہ کی قید مسجد ہو ،مدرسہ ہو،کوئی خانقاہ ہو ایک اور شعر دیکھئےمسجد کے زیر سایہ خرابات چاہیے بھوں پاس آنکھ قبلہء حاجات چاہیئےمیر صاحب نے بطور عبادت گاہ استعمال کیا ہےشیخ جو ہے مسجد میں ننگا ،رات کو تھا میخانے میںجبہ ،خرقہ ،کرتا ،ٹوپی مستی میں انعام کیا ( )٢٢٧میر قائم کے ہاں کچھ یوں نظم ہوا ہےمسجد میں خدا کو کبھی بھی کیجئے سجدہ محراب نہ ہو خم ،جو برائے سجدہ ( )٢٢۸قائم گھر:گھر ہندی اسم مذکر ،مکان ،خانہ ،رہنے کی جگہ ،ٹھکانہ ،خول ،بھٹ ،کھوہ ،بل ،گھونسلہ ،آشیانہ ،وطن ،)دیس ،جائے پیدائش ،خاندان ،گھر انہ(٢٢۹ گھر روز اول سے شخص کی سماجی و معاشرتی ضرورت اور حوالہرہا ہے۔ آج کھدائی کے دوران ملنے والی عمارات اپنے عہد کے فنی و فکری حوالوں اور شخصی ضرورتوں کو اجاگر کرتی ہیں ۔ انعمارتوں کا تعمیری میٹریل کا بھی تجزیہ کیا جاتا ہے۔ گھر سے متعلق
ان عمارات کے حوالہ سے سماج میں موجود نظام ہائے حیات زیر غور آتے ہیں ۔ بناوٹ کے نقشہ و سلیقہ کے توسط سے فرد کا سوچ احساسات ،سماجی معیارات اور ان کے تضادات کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ یہ بھی کہ وہ کن کن الجھنوں کا شکار رہا۔ کن معاملات میں دوسروں پر انحصار کرتا رہا ہے۔ گھر انسان کی ہمیشہ سے نفسیاتی کمزوری رہا ہے۔ گھر کے متعلق مختلف نوع کے سپنے بنتا رہاہے۔ مثلاااس کا اپنا ایک گھر ہو ۔ اس میں کسی دوسرے کی مداخلت نہ ہو ١ وہ کھلا ،کشادہ اور آرام دہ ہو ٢ ۳ہر طرح سے محفوظ ہو گردوپیش میں ہم خیال لوگوں کا بسیرا ہو ۴ ۵زندگی سے متعلق ضرورتیں اس گھر میں میسر ہوں علاقہ میں تفریحی مقامات موجود ہوں ۶ ہریالی اور پانی کی کمی نہ ہو ٧ سکول ہسپتال وغیرہ قریب ہوں ۸جس کے پاس پہلے گھر موجود ہوں وہ خواہش کرتا ہے کہ وہ گھر :۔ ہر حوالہ سے انفرادیت کا حامل ہو ١ کسی آسائش کی کمی نہ ہو ٢ مزید بہتری کے لئے کیا کیا تبدیلیاں کی جائیں ۳
موسمی تغیرات سے کیونکر بچا یاجائے ۴ گھر ہمیشہ سے عزت ،تحفظ اور وقار کی علامت رہا ہے۔یہ درحقیقت خاندانی ایکتا کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اس کے حصول اور حفاظت لے لئے خون بہائے جانے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا ۔ گھر ایک شخص ، ایک کنبے ،اور ایک قوم کا ہوسکتا ہے۔غالب کے ہاں اس لفظ کا مختلف حوالوں سے استعمال ہواہے۔ وہ جگہ جہاں پڑاؤ کرلیا جائے اسے گھر کہا جائے گا یعنی ٹھکانا جب گھر بنا لیا ترے در پر کہے بغیر جائے گا اب بھی تو نہ مرا گھر کہے بغیر کنبے اور خاندان کے افراد کی قیام گاہتم ماہ شب چار دہم تھے مرے گھرکے پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشا کوئی دن اور ایک دوسرے شعر میں مکان ( )٢۳٠جائے رہائش( )٢۳١کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں چھوڑانہ رشک نے کہ ترے گھر کا نام لوں ہراک سے پوچھتا ہوں کہ جاؤں کدھر کو میں اب قدما کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ ہوبولے دونوں بھا ئی اے بابا کہاں؟ ہماری نہ ماں ہے گی گھر کے مہاں ( )٢۳٢اسماعیل مروہوی )مکان ،گھر کے (اند ر ،میں ،بیچ
کیتے دن کو سوداگر آاپنے گھر پوچھا اپنی عورت سوں تکرار کر ()٢۳۳فقیر دکنی اقامت گاہ ،گھر آنا ،واپسی عہد غالب میں بھی قریب ان ہی معنوں میں استعمال ہوتا رہا۔ مثلاا غم کہتا ہے دل میں رہوں میں ،جلوۂ جاناں کہتا ہے کس کو نکالوں کس کو رکھوں ،یہ جھگڑے گھر کے ہیں ( )٢۳۴ذوق گھر کا جھگڑا :ذاتی ،نجی ،اندرون خانہ ،پرائیویٹ میخانہ : فارسی اسم مذکر ،شراب پینے اور شراب بکنے کی جگہ۔()٢۳۵شراب اور شراب خانہ ہونے کاانسانی ثقافت کا حصہ رہے ہیں ۔ انسان کی اس سے وابستگی کا اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ قرآن مجیدمیں جنت میں اس کے عطاہونے کا بار بار وعدہ کیا گیا ہے۔ اہل عرفان مے‘‘ وہ ذوق ’’نے مے اور میکدہ کے قطعی الگ معنی لیے ہیں ۔جس کی وساطت سے سالک پر مقام حقیقی ظاہر ہوتا ہے۔ میخانہ سے مراد قلب و اصلان ہیں ( )٢۳۶میخانہ عارف کامل کا باطن ،لاہوت ، )عالم محویت(٢۳٧ خواجہء شیراز فرماتے ہیںصبحدم بکشاد خماری درمیخانہ را قلقل آواز صراحی جان دہد مستانہ را صبحدم حضور رسولﷺنے شراب محبت الہی کا مشغلہ شروع ’’ ‘‘کردیا ۔عاشقان الہی نے اس ذکر صفات باری تعالی سے جان ڈال دی
عیش کوشوں کے لئے شراب عیش کا ذریعہ ہے۔ اس طرح وہ بعض اپنی نفسیاتی کمزوریوں کا مداوا کرتے ہیں۔ مایوس لوگ غم غلط کرتے ہیں ۔ غالب کے ہاں ’’میخانہ ‘‘ کچھ کم حیثیت کا نہیںگدائے کوچہء میخانہ علاوہ عید کے ملتی ہے اور دن بھی شراب نامراد نہیںمیخانے کا مترادف میکدہ بھی استعمال میں لائے ہیںجب میکدہ چھٹا ،تو پھر اب کیا جگہ کی قید مسجد ہو ،مدرسہ ہو ،خانقاہ ہوانعام اللہ یقین کے ہاں اس لفظ کی کارفرمائی دیکھئےنہیں معلوم ا ب کے سال میخانے پہ کیا گذراہمارے توبہ کے کرنے سے پیمانے پہ کیا گذرا ( )٢٢۸یقینغالب کے ہاں شہروں اور ملکوں کے حوالہ سے بھی گفتگو ملتی ہے۔ ان میں سے ہر شہر تہذیبی ثقافتی اور فکری پس منظر کا حامل ہے۔کوئی نہ کوئی تاریخی واقعہ اس سے ضرور منسوب ہوتا ہے۔ غالب ان کی ان حیثیتوں سے اپنے اشعار میں فائدہ اٹھاتے ہیں۔ دلّی: یہ ١٢٠۶ء سے دارالحکومت چلا آرہا ہے ۔ علمی ،ادبی ، عسکری ،فکری اور سماجی روائتوں کا منبع و امین رہا ہے ۔ بہت سی یادگار عمارتیں اس کی ثقافتی پہچان ہیں ۔ غالب اس کے محلہبلی ماراں اقامت رکھتے تھے ۔ آگرہ سے آئے پھر دلی نے انہیں واپسجانے نہ دیا ۔ دلی سے اپنے قلبی تعلق اور انگریز کے ہاتھوں اس کی
بربادی کا ذکر اپنے خطوط میں کرتے ہیں ۔ ان کا یہ شعر بھی کرب :سے بریز ہےہے اب اس معمورہ میں قحط غم الفت اسد ہم نے مانا کہ دلّی میں رہیں ،کھائیں گے کیا کنعان : حضرت نوح کے نافرمان بیٹے کا نام ()٢۳۹کنعان حضرت یوسف کےحسن ،فراق پدر ،بھائیوں کی دغا بازی ،حضرت یعقوب کے دور میں پڑنے والے قحط کی وجہ سے شہرت عام رکھتا ہے ۔ غالب کے ہاں بھی یہی حوالہ ملتا ہے ۔ پیش نظرشعر میں یوسف زلیخا کے حوالہ سے ایک رویہ بھی اجاگر کیاگیا ہےزلیخا خوش کہ سب رقیبوں سے ہوں ناخوش پر زنان مصر سے ہے محو ماہ کنعاں ہوگئیں اردو شاعری میں بطور تلمیح اس کا استعمال ہوتا آیا ہے ۔ مثلاا صبا میں بویہ تھی کس کی کہ سوئے مصر حسر ت کےروانہ قافلے کے قافلے ہیں شہرکنعاں سے ( ( )٢۴١مرزا حاجی شہرت پستی چاہ ترے حاہ و حشم کی ہے دلیل تیرا انجام بخیر اے مہ کنعان ہوگا( )٢۴٢نواب مہدی علی خاں حسن چاہ بے جا نہ تھی زلیخا کی ما ِہ کنعاں عزیز کوئی تھا( )٢۴٢میر مصر: عرب ممالک کا سب سے بڑا ملک ،آبادی ۹٢فیصد مسلمان ،
وہائٹ ہاؤس ۵۳۔ نفسیات ،حمیر ہاشمی،ص۵٢ ۵٢٧۔زمینی فرعون روحانی پیشواؤں کی درگاہیں ۵۵۔ ۵۴۔تذکرہ بہارستان ناز ،ص۵۶ ١۶٠۔ ۵٧۔ کلیات سودا ،ج ا ،ص ۳۴تذکرہ خوش ۵۹۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا ،ص۵۸ ۳۴۸۔ معرکہ زیبا ج ا،ص٢۳۸تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ۶١۔ کلیات میرج ،١ص۶٠ ١۴۵۔ ا ،ص۵۵۴کلیات میر ج ا،ص۶۳ ١۸١۔ فیروز اللغات ،ص۶٢ ٢۵٠۔روشنی اے روشنی ،ص۶۴ ۳١۔ نوراللغات ج ا ۶۵ ،۔ نوالحسن ہاشمی ،ص۳۹دیوان زادہ ،شیخ ظہور ۶٧۔ کلیات قائم ج ا ،ص۶۶ ۵٧۔ الدین حاتم ،ص١۵فیروزاللغات ،ص۶۹ ۸۶٠۔ نوراللغات ج ا ،ص۶۸ ۴۸١۔دیوان شیفتہ ،ص٧١ ۴۴۔ نوائے سروش ،ص٧٠ ٢٠۔دیوان زادہ ،ص۷۳ ٧۔ پشت پہ گھربیدل حیدری ،ص٧٢ ۶۹۔دیوان زادہ ،ص٧۵ ١٧۔ نوراللغات ج ا ،ص٧۴ ١٠۹٢۔باغات سے مراد ایسا ٧٧۔ دیوان مہ لقا بائی چندا ،ص٧۶ ١۳۶۔ ٧۹ ۴:۔ ٢:۲۵خطہ جس میں پھولدار درخت ہوں ٧۸۔ ١۳۳
۸١ ١٠:۲۱۔ ۸٠ ۸:١٢٧۔۸۳ ١١:۱۰۔ ۸٢ ۸:۴۶۱۔۸۵ ١٧:۵۹۔ ۸۴ ١۳:۳۵۔۸٧ ٢١:۵۸،٢١:۱۹،٢۳:۴۲۔ ۸۶ ١۴:۳۱۔نفسیات ،ص ۸۹ ۵۴٧۔ ۸۸ ٢۳:۲۰۔۹١۔ بیان غالب ،ص۹٠ ۳۳۵۔ روح المطالب فی شرح دیوان غالب ،ص۳۹۴فیروزاللغات ،ص۹۳ ٢٢٧۔ نوائے سروش،ص۹٢ ۵٧۸۔نوائے سروش ،ص۹۵ ۴۳١۔ بیان غالب ،ص۹۴ ٢۵۶۔بیان غالب ،ص۹٧ ۶٢۔ فرہنگ آصفیہ ج ا ،ص۹۶ ٢٠٢۔روح المطالب فی شرح ۹۹۔ نوائے سروش ،ص۹۸ ۵۹۔ دیوان غالب ،ص١٢۹ لغات نظامی ،ص١٠٠ ۵۴٢۔قرآن مجید ،شارح عبدالقادر محدث دہلوی ،تاج کمپنی لاہور ١٠١۔ قرآن مجید ،شارح مولانا سید فرمان ١٠٢۔ ،س ن ،ص١٠١٠ علی ،شیخ علی اینڈ سنز ،کراچی، ١۹۸۳ص۸۳۳قرآن مجید ،شارح احمد رضا خاں بریلوی ،تاج کمپنی لمیٹڈ ١٠۳۔ ،١۹۸۹ص۹۶٢قرآن مجید ،شارح عبدالعزیز ،ملک دین محمد اینڈ سنز ١٠۴ ،۔
لاہور ،١۹۵٢ ،ص۵۶٠قرآن مجید ،شاہ ولی اللہ دہلوی ،مکہ ١۴١۶ ،ھ ،ص١٠۵ ١۶۴۔ نوائے سروش ،ص ١٠٧ ۳١٢۔ فیروز اللغات ،ص١٠۶ ۸۳۔ بیان غالب ،ص١٠۸ ١۹۹۔ جوتے کی پشت پر بنے نقوش چلتے میں زمیں پر ثبت ہو ١٠۹۔ جاتے ہیں ۔ غالب نے ان نقوش کو خیابان ارم کا نام دیا ہے ۔ ١١٠۔ روح المطالب فی شرح دیوان غالب ،ص۱۱۱ ٢۶٧۔ اردو کی دو قدیم مثنویاں مولف اسماعیل امرہوی ،ص١۶٠اردو کی دو قدیم ١١۳۔ دیوان مہ لقا بائی چندا ،ص١١٢ ١۴۳۔ مثنویاں ،ص١٠۹ دیوان میر مہدی مجروح ١١۵۔ ١١۴۔ دیوان شیفتہ ،ص٢ ،ص١۶۶ کلیات میرج،مرتبہ کلب علی خاں فائق ج،١ص١١۶ ١۶۳۔ شاہ عالم ثانی آفتاب ،احوال و ادبی خدمات ،ص١١٧ ١۹۹۔فیروزاللغات ،ص١١۹ ۵۸۳۔ کلیات قائم ج ا ،ص١١۸ٍ ١۸٢۔کلیات میر ج ا١٢١ ،۔ نوائے سروش ،ص١٢٠ ۴۳٠،۴۳١۔ ص١٠٠ مثنوی مولانا روم ج ، ٢ص ١٢٢ ۶۳۔آتش کا پیر ،کنایہ مرشد کامل عبداللہ عسکری ،شرح دیوان ١٢۳۔
حافظ ج ا ،ص١١١ مثنوی مولانا ١٢۵۔ شرح دیوان حافظ ج ا ،ص١٢۴ ١١١۔ روم دفتر دوم ،مترجم قاضی سجاد حسینروح المطالب فی ١٢٧۔ مثنوی مولانا روم ج ،٢ص١٢۶ ۶۳۔ شرح دیوان غالب،ص١٢٢ نوائے سروش،ص١٢۹ ۴۹۔ بیان غالب ،ص١٢۸ ۵۴۔ فیروز اللغات١۳١ ،۔ فرہنگ عامرہ ،ص١۳٠ ٢١۹۔ ص۳٢۹ بیان غالب ،ص١۳۳ ١١٢۔ نوائے سروش ،ص١۳٢ ٢١۸۔لغات نظامی ،ص١۳۴ ۳۴٢۔ نوائے سروش،ص١۳۳ ١۶٧۔ روح المطالب فی شرح ١۳۶۔ نوائے سروش،ص١۳۵ ۵۳۔ دیوان غالب،ص١٢۸ روح المطالب فی شرح ١۳۸۔ بیان غالب،ص١۳٧ ١٠١۔ دیوان غالب،ص١۶۵ دیوان درد ،ص١۴٠ ١۸۸۔ کلیات قائم،ج ا ص١۳۹ ۵۹۔ لغات نظامی ،ص١۴٢ ۶١۶۔ لغات نظامی،ص١۴١ ۳٧١۔ تذکرہ گلستان ١۴۴۔ دیوان ماہ لقا بائی چندا ،ص١۴۳ ۹۵۔ سخن ج ا ،ص ۳١۳تذکرہ ١۴۶۔ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ،١ص ١۴۵ ١۳۶۔ گلستان سخن ج ا ،ص١١١
فرہنگ آصفیہ ج ا ،ص١۴٧ ٢۸۴۔ بیان غالب١۴۸ ،۔ ص۳٠۹بیان غالب ،ص١۵٠ ۳٠۳۔ نوائے سروش،ص١۴۹ ۵٢۸۔روح المطالب فی ١۵٢۔ نوائے سروش،ص١۵١ ۵١۸۔ شرح دیوان غالب ،ص۳۶٢تذکرہ ١۵۴۔ تذکرہ مخزن نکات ،قائم چاندپوری ،ص١۵۳ ۶۴۔ مخزن نکات،ص١۴۸فیروزاللغات،ص١۵۶ ٧۵٢۔ کلیات میر ج ا ،ص١۵۵ ١۸۸۔دکھ اور رنج میں چہرا اتر جاتا ہے‘‘ نفسیات ،ص١۵٧ ’’۴۵۶۔غصے اور رنج کی حالت میں انسان بطور رد عمل مختلف ’’ ١۵۸۔قسم کی حرکتیں کرتا ہے اور اس کی یہ حرکات باہم مربوط نہیں ہوئیں نفسیات ،ص١۵١نفسیات،ص١۶٠ ۴۵۴۔ نفسیات ،ص١۵۹ ١۵١۔بیان غالب ،ص ، ۴٧روح المطالب فی شرح دیوان غالب١۶١ ،۔ ص١٢٢دیوان ماہ لقا بائی ١۶۳۔ نوائے سروش،ص١۶٢ ١۴۹۔ چندا،ص١۴۵روشنی ١۶۵۔ دیوان میر مہدی مجروح ،ص١۶۴ ١۳٢۔ اے روشنی ،ص۸۸مثنوی مولانا روم دفتر ١۶٧۔ فیروزاللغات ،ص١۶۶ ۹۶٠۔
دوم،ص١٠٢ انتخاب ذوق ١۶۹۔ دیوان مہ لقا بائی چندا ،ص١۶۸ ١۴۶۔ ابراہیم ،ص۴۶ لغات ١٧١۔ دیوان میر مہدی مجروح ،ص١٧٠ ١٢١۔ نظامی،ص٧٢۳ کلام شاہ حسین ،شاہ حسین ،ص١٧٢ ۸۴۔ مترادفات القران مولوی عبدالرحمن ،ص ،٧١١المنجد کے ١٧۳۔ مطابق سمندر کے کنارے کو ساحل بولا جاتا ہے۔ روح المطالب کی ١٧۵۔ نوائے سروش ،ص١٧۴ ۳۶۔ شرح دیوان غالب ،ص١١۳ افکار غالب ،ص١٧٧ ١٠۶۔ روح غالب ص١٧۶ ۹۵۔کلیات قائم ج ١٧۹ ،١۔ ص ١١٧تذکرہ مخزن نکات ١٧۸۔ ص١٧۸ آئینہ ١۸١۔ روشنی اے روشنی ،ص ١۸٠ ۹۳۔ اردولغت،ص١۶٧ ١۸۳۔ بیان غالب ،ص ١٠۶نوائے سروش ،ص١۸٢ ١۳۳۔ ١۸۵۔ روح المطالب فی شرح دیوان غالب ،ص١۸۴ ١٧١۔ آئینہ اردو لغت ،ص١٠۶۶ ١۸٧۔ روح المطالب فی شرح نوائے سروش ،ص١۸۶ ١١٧۔ دیوان غالب ،ص ١٢٠
فیروز اللغات ،ص١۸۹ ۴۵۵۔ بیان غالب ،ص ١۸۸ ۵۳۔١۹١۔ فرہنگ عامرہ ،ص١۹٠ ۳١۹۔ آئینہ اردو لغت، ص١٠۹٠تذکرہ مخزن نکات،ص١۹۳ ۴۹۔ روح غالب ،ص١۹٢ ١١٢۔١۹۵۔ فیروزاللغات ،ص ۸۸۵کلیات میر ج ،١ص ١۹۴ ١۴۹۔فیروز اللغات ،ص١۹۶ ۸۸۵۔ ١۹٧۔ روح المطالب فی شرح دیوان غالب،ص۳۸۴نفسیات،ص١۹۹ ۴۶۵۔ ١۹۸۔ فیروز اللغات ،ص١٢۹دیوان غالب(کامل ) مرتبہ کالی داس گپتا رضا،ص ٢٠٠ ٢٧٢۔٢٠٢۔ فرہنگ عامرہ ،ص ۳۵٠نوائے سروش ،ص٢٠١ ۵۵۸۔مصباح اللغات ٢٠۴آئینہ اردو لغت ،ص٢٠۳ ١١۴۹۔ ،ص ،۶۴۳المنجد ،ص۶۴٢٢٠۶۔ روح المطالب فی شرح دیوان غالب،ص٢٠۵ ١١۸۶۔ فیروز اللغات ،ص۵٠٠بن سنورکر ٢٠۸۔ نوائے سروش ،ص٢٠٧ ٧٠٧۔فیروزاللغات ،ص ٢١٠۔ نوائے سروش ،ص٢٠۹ ۳۳۔دیوان درد ،ص٢١٢ ١۹۵۔ المنجد ،ص٢١١ ۸۸٢۔الحاج ٢١۴۔ دیوان مہ لقا بائی چندا ،ص٢١۳ ١١۸۔ پروفیسر سید محمد اشرف ،سید اکادمی ،لاہور ،١۹۸۶ص٢
روح المطالب فی شرح دیوان غالب ،ص٢١۵ ۴۶٧۔ نور اللغات ج، ٢ص ٢١٧۔ روشنی اے روشنی،ص٢١۶ ۹۵۔ ۳۸٢ روح المطالب فی شرح ٢١۹۔ ٢١۸۔ نوائے سروش،ص۴٠۴ دیوان غالب ،ص۳٠۵ حقیقی ہو کہ عشق مجازی ٢٢١۔ دیوان درد ،ص٢٢٠ ١٢٠۔ نوائے سروش ،ص٢٢۳ ۳۹٧۔ ٢٢٢۔ نور اللغات ج ،٢ص ١۳٠ فیروزاللغات ،ص٢٢۵ ۶۳۳۔ دیوان درد ،ص٢٢۴ ١١۶۔کلیات میر ٢٢٧۔ ٢٢۶۔ فرہنگ عامرہ ،عبداللہ خویشگی،ص۴٧۸ ج ، ١ص١٠٢ فیروز اللغات ،ص٢٢۹ ١١٢٢۔ کلیات قائم ج ،٢ص٢٢۸ ۴۔ نوائے سروش ،ص٢۳١ ٢٢۸۔ بیان غالب،ص٢۳٠ ١۸٧۔سنگاسن پچسی ٢۳۳۔ ٢۳٢۔ اردو کی دو قدیم مثنویاں،ص١۳٧ ،فقیر دکنی ،ص۴ ٢۳۵۔ انتخاب ابراہیم ذوق،محمدابراہیم ذوق ،ص٢۳۴ ۵۵۔ آئینہ اردو لغت ،ص١۶٧۳ پشتو اردو بول چال ،پروفیسر محمد اشرف ،ص ٢۳۶ ١۵٢۔ اقبال ایک صوفی شاعر ،ڈاکٹر سہیل بخاری ،ص ٢۳٧۔ ۳٧١ تذکرہ خوش معرکہ زیبا ج ا ،سعادت خاں ناصر ،ص ٢۳۸ ١١۶۔
تذکرہ ٢۴٠۔ شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا ،ص ٢۳۹ ١۳۶۸۔ گلستان سخن ج ، ٢ص ٧٧کلیا ِت میر ٢۴٢۔ تذکرہ خوش معرکہ زبیاج ا ،ص ٢۴١ ۸٠۔ ج ا ،ص ١۴۳ ٢۴۴۔ اردو جامع انسائیکلو پیڈیا ج ٢۴۳ ١۵۳٠ ،١۵٧٢ ،٢۔ کلیات میر ج ا ،ص ٢٢٢ کلیات قائم ج ا ،قائم چاندپوری ،ص ٢۴۵۔ باب دوئمغالب کے کرداروں کا نفسیاتی مطالعہ ہر کردار کا اپنا ذاتی طور طریقہ ،سلیقہ ،چلن اور سبھاؤ ہوتاہے ۔ وہان ہی کے حوالہ سے کوئی کام سرانجام دیتاہے یا اس سے کچھ وقوع
میں آتا ہے۔ جس طرح کوئی قصہ کہانی ،واقعہ یا معاملہ بلا کردار وجود میں نہیں آتا اس طرح غزل کا ہر شعر کسی کردار کا مرہو ِن احسان ہوتاہے ۔ ضروری نہیں کردار کوئی شخص ہی ہو۔ جذبہ، احساس ،اصطلاح ،استعارہ ،علامت یا اس کے سوا کوئی اور چیز غزل کا کردار ہوسکتی ہے ۔ کچھ وقوع میں آنے سے پہلے کردار کا اس میں ،اس معاملہ کی حیثیت ،نوعیت اور اہمیت مادی مفادات اوراخلاقی میلانات و رجحانات کے مطابق ایک نفسیاتی رویہ ترکیبپاتاہے ۔ اس رویے کی پختگی اور توانائی (فورس) کے نتیجہ میں کچھ رونما ہوتاہے ۔ گویا وہ وقوعہ اس کے نفسیاتی عمل یا رد عمل کا عملی اظہار ہوتاہے۔ غزل ،اردو شعر کی مقبول ترین صنف شعر رہی ہے ۔ اردو غزل نے ان گنت کردار تخلیق کئے ہیں ۔ ان کرداروں کے حوالہ سے بہت سے واقعات اور فکری عجوبے سامنے آئے ہیں۔ ان فکری عجوبوں کےاکثر شیڈز ،زندگی کے نہایت حسا س گوشوں سے پیوست ہوتے ہیں ۔ انہیں کہیں نہ کہیں کسی اکائی میں تلاشا جاسکتاہے ۔ یہ بھی کہ ان شیڈز اور زاویوں کے تحت اس عہد کی جزوی یا کلی نفسیات کا کھوج کرنامشکل نہیں رہتا ۔ بات یہاں تک محدود نہیں ،ان شیڈز اور زاویوں کی تاثیر حال پر اثر انداز ہوکر مختلف نوع کے رویو ں کی خالق بنتی ہے۔ پہلے سے موجود رویوں میں تغیرات کا سبب ٹھہرتی ہے۔ رویوں کی پیمائش کا کام ۱۹۲۰ -۳٠کے درمیانی عرصہ میں شروع ہوا۔ رویے تین طرح کے ہوسکتے ہیں الف۔ وہ رویے جنھیں عرصہ دراز تک استحقام رہتاہے تاوقتکہ کوئی
بہت بڑ احادثہ وقوع میں نہیں آجاتا یاکوئی ہنگامی صورتحال پیدانہیں ہوجاتی ۔وہ رویے جوحالات ،وقت اور ضرورتوں کے تحت تبدیل ہوتے ب۔ رہتے ہیں۔ وہ رویے جو جلد اور فوراا تبدیل ہوجاتے ہیں انہیں سیمابی ج۔ ر ّویے بھی کہا جاسکتاہے۔ کسی قوم کے اجتماعی رویے کی پیمائش ناممکن نہیں تو مشکل کامضرورہے کیونکہ قومیں لاتعداد اکائیوں کا مجموعہ ہوتی ہیں ۔ ہر اکائی تک اپروچ کٹھن گزار کام ہے ۔ سطحی جائزے دریافت کے عمل میں حقیقی کردار ادا نہیں کرتے ۔ اس موڑ پر اکائیوں کے لڑیچر کے کرداروں کامطالعہ کسی حدتک سودمند رہتاہے ۔اس کے توسط سے کرداروں کے کام ،طرز عمل ،مزاج ،چلن ،سلوک خاطر ،سلیقہ ، باہمی سبھاؤ ،اوروں سے تعلق ،طور ،انداز وغیرہ کے حوالہ سےاس اکائی کا کردار متعین کیا جاسکتاہے ۔ اسی حوالہ سے انہیں اچھے یا برے نام دئیے جاتے ہیں ۔ شیطان کا اصل نام عزازئیل ہے۔ اس کی کارگزاری ،سبھاؤ ،چلن وغیرہ کے تحت شیطان یا رکھشش کہا جاتا ہے ۔ موثرکردار وہی کہلاتا ہے جو ویسا ہی کرے جیسا وہ کرتا ہے یا جیسا کرنے کی توقع وابستہ ہوتی ہے ۔ تاہم دریا میں بہتے تختے پر شیر خوار بچے کی ماں کی اور شداد کی ارم میں داخل ہوتے سمے جانقبض کرنے پر عزرائیل کو رحم آسکتاہے ۔ کردار ویساہی کرتاہے جیسا وہ بن گیا ہوتا ہے یا جیسا اس نے خود کو بنایا ہوتاہے۔
غزل کے ہر شعر کو ایک فن پارے کا درجہ حاصل ہوتاہے ۔ اس کی تشریح وتفہیم اس کے اپنے حوالہ سے کرنا ہوتی ہے ۔ اس شعر کا کردار کارگزاری (پرفورمنس ) کے حوالہ سے جتنا جاندار ،حقیقی ، متحرک اور سیمابی خصائل کا حامل ہوگا ،شعر بھی اتنا اور اسی تناسب سے متاثر کرے گا۔ شعر کے اچھا برا ہونے کا انحصار شعر سے جڑے کردار پر ہے۔ اگلے صفحات میں غالب کی اردو غزل کے چند کرداروں کانفسیاتی مطالعہ پیش کرنے کی جسارت کی گئی ہے۔ اس سے اشعار غالب کو سمجھنے اور تشریح وتعبیر میں مدد مل سکے گی اور مطالعہ اشعا ِر غالب کا حظ بڑھ جائے گا۔ آدمی : لفظ آدمی سننے کے بعد ذہن میں یہ تصور ابھرتا ہے کہ نسل آدم میں سے کسی کی بات ہورہی تاہم اس لفظ کے حوالہ سے کسی قسم کا ر ّویہ سامنے نہیں آتا۔ آدمی چونکہ خیر وشر کا مجموعہ ہےاس سے دونوں طرح کے افعال کی توقع کی جاسکتی ہے ۔ کسی اچھے فعل کے سرزد ہونے کی صورت میں آدم کو فرشتوں کے سجدہ کرنے والا واقعہ یا د آجاتاہے۔ ( )۱اور اس طر ح آدمی کی عظمت کا تسلسلبرقرار رہتاہے کسی برائی کی صورت میں شیطان سے بہکائے جاننےوالا کے طور پر سامنے آتاہے۔( )۲گویا کسی فعل کے سرزد ہونے کے بعد ہی اس کے متعلق منفی یا مثبت رویہ ترکیب پاتاہے۔ اردو غزل میں مختلف حوالوں سے اس لفظ کاا ستعمال ہوتاآیا ہے۔ منفی اور مثبت دونوں طرح کے معاملات اور واقعات اس سے منسوب رہے ہیں ۔ کہیں عظمتوں اور رفعتوں کا مینار اور کہیں حیوان ،درندہ
،وحشی ،رکھشش اور شیطان سے بھی بد تر نظر آتا ہے۔ اردوغزل میں اس کی شخصیت کے دونوں پہلونظر آتے ہیں ۔ خواجہ درد نے آدمی کی شخصیت کے دوپہلو نمایاں کئے ہیں ہم نے کہا بہت اسے پرنہ ہوایہ آدمی زاہ ِد خشک بھی کوئی سخت ہی )خردماغ ہے(۳ آدمی زہد اختیار کرنے کے بعد حددرجے کا ضدی ہوجاتاہے۔آدمی ،آدمی نہیں رہتا بلکہ فرشتوں کی صف میں کھڑا ہونے کی سع ِی لا یعنی کرتاہے۔ بشریت کا تقاضا ہے کہ آدمی سے کوتاہی ہو ،کوئی غلطی کرے تاکہ دوسرے آدمی کو اس سے اجنبیت کا احساس نہ ہو۔ زاہد سے ملاقات کے بعد خوف سا طاری ہوجاتا ہے کہ ملاقاتی کے لباس اور طرز تکلم کو کس زوایہ سے لے ۔ نتیجہ کار مسئلے کے حل کیبجائے کوئی لیکچر نہ سننا پڑے یا مسئلہ مسترد ہی نہ ہوجائے ۔ آدمی کا یہ روپ خوف اور ضدی پنے کو سامنے لاتاہے۔ گھر تودونوں پاس لیکن ملاقاتیں کہاں آمدورفت آدمی کی ہے پہ وہ )باتیں کہاں (۴ خواجہ درد کا یہ شعر آدمی سے متعلق چار چیزوں کی وضاحت کررہاہے مل بیٹھنے کو جگہ موجود ہونے کے باوجود آدمی ،آدمی سے الف ۔ دورہے ب۔ اس کا آناجانا تو رہتاہے لیکن دکھ سکھ کی سانجھ ختم ہوگئی ہے ج۔
آدمی ،آدمی کے قریب تو نظر آتاہے لیکن منافقت ،محبتیں چٹ کرگئی ہے د۔ ایک دوسرے کے کام آنے کا جذبہ دم توڑ گیاہے کے جوخصائص بیان ہوئے ہیں ان کے ‘‘خواجہ درد کے ہاں ’’آدمی حوالہ سے آدمی کے متعلق مثبت رویہ نہیں بنتا ۔ آدمی معاشرتی حیوان ہے تنہا زندگی کرنا اس کے لئے ممکن نہیں ۔ تنہائی سو طرح کے عوارض کا سبب بنتی ہے۔ غالب نے آدمی کو تین حوالوں سے موضع کلام بنایا ہے گستاخ ِی فرشتہ ہماری ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند جناب میں کی ‘‘آدمی گزرے کل میں معزز اورمحترم تھا۔ عزازئیل نے ’’آدمی شان میں گستاخی کی ۔ اسے اس کے اس جرم کی پاداش میں قیامت تک کے لئے لعنتی قرار دے دیا گیا اور درگاہ سے نکال باہر کیاگیا ۔ذلت کی پستیوں میں دھکیل دیا گیاہے۔ اس طرح سے ‘‘آدمی’’آج وہی آدمی کے لئے دوہرا معیار سامنے آتاہے۔کوئی ہمارا دم ‘‘پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق ’’آدمی )!تحریر بھی تھا(؟ شعر کو چار زوایوں سے دیکھا جاسکتاہے الف ۔ کل تک سجدہ کرنے والے (فرشتے) غیر آدمی ،آدمی کے قول وفعل کو نوٹ کرنے کے لئے مقرر کر دئیے گئے ہیں کے حق میں یاخلاف شہادت دینے کا ‘‘کسی معاملے میں ’’آدمی ب۔
کے ‘‘کی شہادت ’’،آدمی ‘‘غیر آدمی’’ہی رکھتا ہے ۔ کسی ‘‘حق ’’آدمی لئے کیونکر معتبر یا اصول شہادت کے مطابق قرار دی جاسکتی ہے کی حیثیت کیسی بھی رہی ہو ،کہے یا لکھے پر ‘‘غیر آدمی’’ ج۔ مواخذہ یکطرفہ ڈگر ی کے مترادف ہوگی د۔ کیا بعید کہ وہ رو ِزاول کا بدلہ لینے پر اتر آئے کی حیثیت معتبر رہتی ہے۔ اس شعر ‘‘شہادت کے حوالہ سے ’’آدمی میں اس امر کی طرف بھی اشارہ ملتاہے کہ آدمی کی خلوت بھی ، خلوت نہیں رہی ۔ اس کی خلوت (پرائیویسی) پر بھی پہرے بیٹھا دئیے گئے ہیں۔ اس کی آزادی محض رسمی اور دکھاوے کی ہے۔ وہ کھل کرخواہش اور استعداد کے مطابق اچھائی یا برائی کرنے پرقادر نہیں کیونکہ اس سے کمتر مخلوق اس پر کیمرے فٹ کئے ہوئے ہے۔ نگرانی ،صحت مند کو بھی نفسیاتی مریض بنا دیتی ہے۔ آزادی سلب ہونے کا احساس اورمواخذے کاخوف ،ادھورے پن کاشکار رکھے گا۔کی زمین پر حیثیت کایہ حوالہ پیش کرکے آدمی کے ‘‘غالب نے ’’آدمی معتبر اور خود مختار ہونے کے فلسفے کو ردّ کر دیاہے۔ قیدی /پابندکے قول وفعل پر انگشت رکھنا کسی طرح واجب نہیں ۔ا گر پہر ے اٹھا کے قول وفعل کی وسعتوں کا اندازہ لگایا ‘‘آدمی’’لئے جائیں تو ہی جاسکتاہے۔ بصور ت دیگر ثواب وگناہ کے پیمانے اپنی حدود پر شر مندہ رہیں گے۔ کے معتبر ہونے کا پیمانہ ‘‘ایک تیسر ے شعر میں غالب نے ’’آدمی بھی پیش کیا ہے بسکہ دشوار ہے ہرکام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میّسر نہیں انساں ہونا انسان ،نسیان یا انس سے مشتق ہے۔ یہ دونوں ماد ے اس میں موجود ہوتے ہیں گویا انسان کا شریف النفس ہونا ،مرتبہ ء کمال انسانیت پر فائز ہوناہے اور اسی حوالہ سے وہ انسان کہلانے کامستحق ٹھہرتا ہے ۔ اس شعر کے حوالہ سے انسان اور آدمی میں فرق ہے۔ گویا ١۔ آدمی سے انسان تک کا سفر بڑا مشکل اور دشوار گزار ہے٢۔سز ا وجزا کے لئے آدمی کے لئے آدمی کی شہادت امر لازم کا درجہ رکھتی ہے ۳۔گواہی ،اس آدمی کی قبول کی جائے جوآدمی کے درجے پر فائز ہو ۴۔آدمی کے لئے غیر آدمی کی شہادت ،اصو ِل شہادت کے منافی ہے بصورت دیگر شہادتی (گواہ) پر انگلی اٹھے گی ۵۔غیر معتبر (غیر آدمی) کی گواہی فسخ ہوجائے گی۶۔ غیر آدمی کی گواہی پر فیصلہ (معاذاللہ) منصف کے انصاف پر دھبہ ہوگا آسمان: یہ لفظ کائنات کی تخلیق کی طرح بہت پرانا ہے یہ لفظ سنتے :ہی پانچ طرح کے خیالات ذہن کے پردوں پر تھرانے لگتے ہیں ان حدوسعتیں اول ۔
دوم۔ ہلکے نیلے رنگ کی چھت سوم ۔ حیرت انگیز توازن کامظہر بادل چہارم ۔ پنجم ۔ کہاجاتاہے ،آسمان پر موجود ستاروں کی گردش کے باعث خوشی یا پریشانی لاحق ہوتی ہے ۔ سماوی آفتیں بھی اہل زمین کا مقدر رہی ہےآسمان کی وسعتوں میں جانے کتنے سورج ،چاند اور ستارے سمائے ہوئے ہیں۔ سورج نہ صرف دن لاتاہے بلکہ دھرتی باسیوں کو حدت بھی فراہم کرتاہے۔ چاند ستارے حسن اور ترتیب کا مظہر ہیں ۔ سورج چاند اور ستاروں سے متعلق بھی اردوغزل میں کافی مواد ملتاہے۔ آسمان بطور چھت ،ہر قسم کی تمیز وامتیاز سے بالا رہاہے۔ بادلیجہاں بھی آئے ہیں گرج چمک کے ساتھ آئے ہیں اور بارش لائے ہیں ۔ گرج چمک سے خوف پھیلتا ہے جبکہ بارش فضا کو نکھارنے اورزمین کو سیراب کرکے ہر یالی کا ذریعہ بنی ہے۔ آسمان کے جملہ حوالے (توازن ،ترتیب و تنظیم ،وسعتیں ،سیرابی ،حسن ،تمیز وامتیاز ،خوف وغیرہ ) انسانی ذہن پر اثرات مرتب کرتے ہیں۔ آسمان کا کردار انسانی ذہن میں ہلچل مچانے کے ساتھ ساتھ اسے وسیع ،فراخ اور متوازن کرتاہے۔ اردو غزل نے آسمان کے کردار کو ہمیشہ بائیں آنکھ پر رکھاہے۔ قائم چاند پوری کا زیر آسمان جی گھبراتا ہے۔ آسمان کا کیا بھروسہ :کب ٹھکانہ ہی چھین لے
کیوں نہ جی گھبرائے زیر آسماں گھر تو ہے مطبوع پر بس )مختصر(۵:خواجہ درد آسمان کو کمینہ اورکینہ پرور قرار دیتے ہیںنہ ہاتھ اٹھائے فلک گوہمارے کینے سے کسے دماغ کہ ہو دوبدکمینے )سے (۶مرزاسودا کے نزدیک آسمان ،درد دینے والا اور کنج قفس کو سونپ :دینے والا ہےسو مجہ کو آسمان نے کنج قفس کو سونپا اب چہچے چمن میں کیجے )فراغتوں سے (٧:میاں محمدی مائل آسمان کو دکھ کے موسم کا ساتھی سمجھتے ہیں)ہے جہاں پرخروش اس غم سوں آسمان سبز پوش اس غم سوں(۸خواجہ درد آسمان سے متعلق دواور حوالوں کا ذکر کر تے ہیںآسماں کے زیر سایہ حرص کا بندہ خرم نہیں رہ سکتا کیونکہ اول۔ آسمان حرص کے حوالہ سے میّسر خوشی کے دنوں کو پھیر دیتا ہے)حرص ہو جس دلی میں وہ خرم رہے( ۹ہے محا ِل عقل ،زی ِرآسماںآسمان خود گردش میں ہے جانے کیا تلا ش رہاہے دوم ۔لیتانہیں کبود کی اپنے عناں ہنوز پھر تا ہے کس تلاش میں یہ )آسماں ہنوز(١٠
آسماں کا درج بالا کردار انسانی ذہن پر مثبت اثرات مرتب نہیں کرتا ۔ دوسری طرف یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ جوخود ’’چکروں‘‘ میں ہے اور وں کو کیونکر پر سکون رہنے دے گا ۔ غالب آسمان کو قاب ِل پیمائش و فہمائش سمجھتے ہیں ۔ ان کے نزدیک آسمان ،انسان سے کہیں کمتر ہے کرتے ہومجھ کو منع قد مبوس کس لئے کیا آسمان کے بھی برابر )!نہیں ہوں میں (؟ فرش سے تا عرش واں طوفاں تھا موج رنگ کا یا ں زمیں سے آسماں تک سوختن کا باب تھا غالب کو پڑھ کر تسکین ہوتی ہے کہ آسماں لامحدود نہیں۔ دوسرا وہانسان کے بالمقابل کمتر ،ادنی اور حقیرہے ۔ غالب کا یہ مصرع آسمان کی عظمتوں ،وسعتوں ،بلندیوں اور رفعتوں کا بھانڈ اپھوڑ دیتاہے !کیاآسمان کے بھی برابر نہیں ہوں میں ؟ غالب نے ایک نظر یہ یہ بھی دیا ہے کہ آسمان دن ر ات گردش میںہے۔ اس کی گردش زمین باسیوں کومتاثرکرتی ہے ۔ اس کی گردش کے حوالہ سے ’’کچھ نہ کچھ‘‘ وقوع پذیر ہوتا ہی رہے گااور یہ مسلسل جبر کا عمل ہے۔ اس پر انسان کی دسترس ہی نہیں۔ جب کچھ نہ کچھ :ہونا طے ہے تو گھبرانا محض نادانی ہے رات دن گردش میں ہیں سات آسماں ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا ہو رہے گا‘‘ جبر مشیت کو واضح کر رہاہے ۔ جب کسی کام میں ’’
Search
Read the Text Version
- 1
- 2
- 3
- 4
- 5
- 6
- 7
- 8
- 9
- 10
- 11
- 12
- 13
- 14
- 15
- 16
- 17
- 18
- 19
- 20
- 21
- 22
- 23
- 24
- 25
- 26
- 27
- 28
- 29
- 30
- 31
- 32
- 33
- 34
- 35
- 36
- 37
- 38
- 39
- 40
- 41
- 42
- 43
- 44
- 45
- 46
- 47
- 48
- 49
- 50
- 51
- 52
- 53
- 54
- 55
- 56
- 57
- 58
- 59
- 60
- 61
- 62
- 63
- 64
- 65
- 66
- 67
- 68
- 69
- 70
- 71
- 72
- 73
- 74
- 75
- 76
- 77
- 78
- 79
- 80
- 81
- 82
- 83
- 84
- 85
- 86
- 87
- 88
- 89
- 90
- 91
- 92
- 93
- 94
- 95
- 96
- 97
- 98
- 99
- 100
- 101
- 102
- 103
- 104
- 105
- 106
- 107
- 108
- 109
- 110
- 111
- 112
- 113
- 114
- 115
- 116
- 117
- 118
- 119
- 120
- 121
- 122
- 123
- 124
- 125
- 126
- 127
- 128
- 129
- 130
- 131
- 132
- 133
- 134
- 135
- 136
- 137
- 138
- 139
- 140
- 141
- 142
- 143
- 144
- 145
- 146
- 147
- 148
- 149
- 150
- 151
- 152
- 153
- 154
- 155
- 156
- 157
- 158
- 159
- 160
- 161
- 162
- 163
- 164
- 165
- 166
- 167
- 168
- 169
- 170
- 171
- 172
- 173
- 174
- 175
- 176
- 177
- 178
- 179
- 180
- 181
- 182
- 183
- 184
- 185
- 186
- 187
- 188
- 189
- 190
- 191
- 192
- 193
- 194
- 195
- 196
- 197
- 198
- 199
- 200
- 201
- 202
- 203
- 204
- 205
- 206
- 207
- 208
- 209
- 210
- 211
- 212
- 213
- 214
- 215
- 216
- 217
- 218
- 219
- 220
- 221
- 222
- 223
- 224
- 225
- 226
- 227
- 228
- 229
- 230
- 231
- 232
- 233
- 234
- 235
- 236
- 237
- 238
- 239
- 240
- 241
- 242
- 243
- 244
- 245
- 246
- 247
- 248
- 249
- 250
- 251
- 252
- 253
- 254
- 255
- 256
- 257
- 258
- 259
- 260
- 261
- 262
- 263
- 264
- 265
- 266
- 267
- 268
- 269
- 270
- 271
- 272
- 273
- 274
- 275
- 276
- 277
- 278
- 279
- 280
- 281
- 282
- 283
- 284
- 285
- 286
- 287
- 288
- 289
- 290
- 291
- 292
- 293
- 294
- 295
- 296
- 297
- 298
- 299
- 300
- 301
- 302
- 303
- 304
- 305
- 306
- 307
- 308
- 309
- 310
- 311
- 312
- 313
- 314
- 315
- 316
- 317
- 318
- 319
- 320
- 321
- 322
- 323
- 324
- 325
- 326
- 327
- 328
- 329
- 330
- 331
- 332
- 333
- 334
- 335
- 336
- 337
- 338
- 339
- 340
- 341
- 342
- 343
- 344
- 345
- 346
- 347
- 348
- 349
- 350
- 351
- 352
- 353
- 354
- 355
- 356
- 357
- 358
- 359
- 360
- 361
- 362
- 363
- 364
- 365
- 366
- 367
- 368
- 369
- 370
- 371
- 372
- 373
- 374
- 375
- 376
- 377
- 378
- 379
- 380
- 381
- 382
- 383
- 384
- 385
- 386
- 387
- 388
- 389
- 390
- 391
- 392
- 393
- 394
- 395
- 396
- 397
- 398
- 399
- 400
- 401
- 402
- 403
- 404
- 405
- 406
- 407
- 408
- 409
- 410
- 411
- 412
- 413
- 414
- 415
- 416
- 417
- 418
- 419
- 420
- 421
- 422
- 423
- 424
- 425
- 426
- 427
- 428
- 429
- 430
- 431
- 432
- 433
- 434
- 435
- 436
- 437
- 438
- 439
- 440
- 441
- 442
- 443
- 444
- 445
- 446
- 447
- 448
- 449
- 450
- 451
- 452
- 453
- 454
- 455
- 456
- 457
- 458
- 459
- 460
- 461
- 462
- 463
- 464
- 465
- 466
- 467
- 468
- 469
- 470
- 471
- 472
- 473
- 474
- 475
- 476
- 477
- 478
- 479
- 480
- 481
- 482
- 483
- 484
- 485
- 486
- 487
- 488
- 489
- 490
- 491
- 492
- 493
- 494
- 495
- 496
- 497
- 498
- 499
- 500
- 501
- 502
- 503
- 504
- 505
- 506
- 507
- 508
- 509
- 510
- 511
- 512
- 513
- 514
- 515
- 516
- 517
- 518
- 519
- 520
- 521
- 522
- 523
- 524
- 525
- 526
- 527
- 528
- 529
- 530
- 531
- 532
- 533
- 534
- 535
- 536
- 537
- 538
- 539
- 540
- 541
- 542
- 543
- 544
- 545
- 546
- 547
- 548
- 549
- 550
- 551
- 552
- 553
- 554
- 555
- 556
- 557
- 558
- 559
- 560
- 561
- 562
- 563
- 564
- 565
- 566
- 567
- 568
- 569
- 570
- 571
- 572
- 573
- 574
- 575
- 576
- 577
- 578
- 579
- 580
- 581
- 582
- 583
- 584
- 585
- 586
- 587
- 588
- 589
- 590
- 591
- 592
- 593
- 594
- 595
- 596
- 597
- 598
- 599
- 600
- 601
- 602
- 603
- 604
- 605
- 606
- 607
- 608
- 609
- 610
- 611
- 612
- 613
- 614
- 615
- 616
- 617
- 618
- 619
- 620
- 621
- 622
- 623
- 624
- 625
- 626
- 627
- 628
- 629
- 630
- 631
- 632
- 633
- 634
- 635
- 636
- 637
- 638
- 639
- 640
- 641
- 642
- 643
- 644
- 645
- 1 - 50
- 51 - 100
- 101 - 150
- 151 - 200
- 201 - 250
- 251 - 300
- 301 - 350
- 351 - 400
- 401 - 450
- 451 - 500
- 501 - 550
- 551 - 600
- 601 - 645
Pages: