کاکھیل وغیرہ کے لئے بو لا جاتا ہے۔ مثلاا تماشاہونا: ہنسی مذاق ،کرتب ،کھیل جمع کرتے ہوکیوں رقیبوں کو اک تماشاہ ہوا گلانہ ہوا تما شاہوجانا: ہنسی ٹھٹھا مذاق بن جانا ،معاملہ الٹا ہونا آئے تھے اس مجمع میں قصد کرے دور سے ہم تماشے کے لئے آپ ہی تماشا ہوگئے ( )٢۵دردتماشا کردن کا ترجمہ تماشا کربمعنی دیکھ ،ملاحظہ کربھی پڑھنے کو ملتا ہے لب خندان گل کا شبنم آسا تماشا کر بہ چش ِم ترچلے ہم جہاں داد تماشا دیکھئے بمعنی ملاحظہ کیجئےکیا آہ کے تیشے میں لگا تا ہوں جگر پر آؤ دیکھئے تما شا مرا ،فرہاد کہاں حاتم سیر کھنچنا : دیکھنا کسی کو گلگشت چمن کا ہے دماغ اے باغبان کھینچ کر سیر اگربیان یاں لے آتی ہے بہارسودا گویا کر دن کے لئے کئی اردومصادر تجویز ہوئے ہیں جبکہ تماشا
کودیکھنے کے علاوہ کھیل ،کرتب ،ہنسی مذاق وغیرہ کے معنوں میں بھی لیا جاتا ہے۔ غالب کے ہاں ’’تماشا کیجئے ‘‘ کاایک اور استعمال ملاحظہ فرمائیں خانہ ء ویراں ساز ِی حیرت تماشا کیجئے صورت نق ِش قدم ہوں رفتہء رفتا ِر دوست جاگرم کرنا: جاگرم کردن ،ایک جگہ پر دیر تک بیٹھے رہنا ،مراقبہ ۔بیٹھنا ،ٹھکانہ کرنا ،پڑاؤ ڈالنا ،قیام کرنا ،اقامت اختیار کرنا ،مستقل طور پر کسی جگہ بیٹھنا وغیرہ مفاہیم میں یہ محاورہ رواج نہیں رکھتا ،غالب نے کردن کو کرنا میں بدل دیاہے۔ جا ،جگہ اور کئی دوسروں معنوں میں مستعمل ہے۔ گرم بھی اردو کے لئے نیا لفظ نہیں تاہم فارسی مفاہیم میں استعمال نہیں ہوتا۔غالب کے ہاں اس محاورے کا استعمال دیکھئے کی اس نے گرم سینہء اہ ِل ہوس میں جا آوے نہ کیوں پسند کہ ٹھنڈا مکان ہے غالب نے دل میں سمانا ،محبت ہونا ،قلبی وابستگی ،عشق ،محبت وغیرہ مفاہیم میں استعمال کیاہے۔ جبیں گ ِھسنا: ماتھا رگڑنا ،کم مائیگی کا احساس غالب نے دل میں سمانا ،محبت ہونا ،قلبی وابستگی ،عشق ،محبت وغیرہ مفاہیم میں استعمال کیاہے۔
اردو میں ماتھا رگڑنا بمعنی پیشانی گ ِھسنا ،عاجزی سے سجد ہ کرنا ، جبہ سائی کرنا ،خوش آمد کرنا ،نہایت عاجزی کرنا ( )٢۶استعمال میں آتا ہے۔ خاک پر جبین گ ِھسنا اردو بو ل چال کے مطابق نہیں ہے۔یہ ترجمہ برا نہیں چونکہ اسلوب اردو سے میل نہیں رکھتا اسی لئے عوامیت کے درجے پر فائز نہیں ہوسکا۔ ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے گ ِھستا ہے جبیں خا ک پہ دریا مرے آگے حدیث کرنا: حدیث کردن ،بیان کرنا کردن ‘‘ کے لئے اردو مصدر ’’ کرنا‘‘ استعمال میں لایا گیا ہے۔ ’’ حدیث کرنا ،عر ِف عام سے معذو ررہا ہے۔ عام طور پر بیان کرنا استعمال میں آتا ہے ۔ فارسی استعمال کا اپنا ہی حسن ہےصہبا زروی تو باہر گل حدیثے کروا رقیب چوں رہ غماز دار در حرمت حافظ صبا نے تیرے رخ سے ساتھ ہر ایک پھول کے بات کی )رقیب نے جب چغل خور کوراہ دی بیچ تیر ے مکان کے (٢٧ غالب کے ہاں اس محاورے کا ترجمہ ملاحظہ ہو جبکہ میں کرتا ہوں اپنا شکوہء ضع ِف دماغ سرکرے ہے وہ حدی ِث زل ِف عنبر با ِر دوست سرکرنا ،
زلف سر کرنا ،اردو محاورے نہیں ہیں ۔ حدیث سرکرنا بھی اردو بو ل چال سے دور ہے۔ اردو محاورے میں سرانجام کرنا /ہونا مستعمل ہے۔ غالب نے اردو کو تین محاوروں سے نواز اہے۔ خوش آنا: خوش آمدن ،اچھالگنا ،اچھا محسوس ہونا خوش اطوار ( اچھی عادات کا حامل ) خوش الحان ( اچھی آواز والا) خوشامد ( چاپلوسی ) خوشبودار ( عمدہ خوشبوو الی چیز) ،خوش بخت ( اچھے نصیب والا) وغیرہ فارسی مرکبات اردو زبان کے لئے نئے اور اجنبی نہیں ہیں ۔ خوش کے ساتھ مصدر ’’ آنا ‘‘ کی بڑھوتی رواج عام سے محروم ہے۔ تاہم یہ محاورپڑھنے کو مل جاتا ہے اور فصیح بھی ہے۔ لیکن عوامیت کے درجے پر فائز نہیں ۔ استعمال کی صرف دومثالیں ملاحظہ ہوں دل نہیں کھینچتا ہے ب ِن مجنوں بیاباں کی طرف خوش نہیں آتا نظر کرنا غزالاں کی طرف( )٢۸یقین بس ہجوم گل سے اپنے کیا خوش آئی ہے بسنت باغ میں گلرو کے آگے رنگ لائی ہے بسنت ( )٢۹چندا اب غالب کے ہاں اس محاورے کا استعمال دیکھئیےہر غنچے کا گل ہونا گلشن کو تری صحبت ازبسکہ خوش آئی ہے آغوش کشائی ہے غالب خوش آمدن ‘‘ کے تراجم پڑھنے کو ملتے ’’خوش آنا کے سوا بھی
ہیں۔ مثلاا اب چھیڑیہ رکھی ہے کہ عاشق ہے توکہیں )القصہ خوش گزرتی ہے اس بدگمان سے ( )۳٠میر (خوش گزرنا تجھ سے کچھ دیکھا نہ ہم جز جفا پر وہ کیا کچھ ہے کہ جی بھا )گیا()۳١درد (بھاجاناکشاکش کو ہمارا عقدہ ء بہ فیض بیدلی نو مید ِی جاوید آساں ہے )مشکل پسند آیا غالب ( پسند آنا خوش آنا ، اردو لغت میں بمعنی اچھالگنا ،پسند آنا ،مرغوب ہونا ( )۳۴داخل ہے جبکہ خوش گزرنا ،بھا جانا ،پسند آنا اردو بول چال سے خارج نہیں ہیں ۔ خوش آنا ،راس آنا کے معنوں میں بھی بولا جاتاہے۔ یہ ترجمہ فصیح خیال کیا جاتا ہے اور اہل زبان کو خوش آتارہاہے۔ خجالب کھینچنا: خجالت کشیدن /بردن ۔ یہ محاور ہ فارسی میں شرمسار ہونا ، شرمندہ ہونا ( )۳۳کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں خجالت ہونا ،خجالت اٹھانا استعمال میں آتا ہے۔ غالب کے ہاں یہ ترجمہ :شرمندگی کے معنوں میں استعمال ہواہےڈالانہ بے کسی نے کسی سے معاملہ اپنے سے کھینچتا ہوں خجالت ہی کیوں نہ ہو الہ وردی خاں جلیس بردار سعادت یار خاں رنگین کے ہاں بھی یہ
محاورہ( خجالت کشیدن ) برتاگیا ہے تیرے دھن سے ازبسکہ کھینچے ہے اک خجالت غنچہ وہ کون سا ہے جو سرفرو نہ آیا۳۴جلیس خط کھینچنا:خط کشیدن فارسی میں چھوڑدینا ،ترک کردینا کے معنوں میں استعمال ہوتاہے۔ خط کھینچنا ،خط کشیدن ہی کا اردو ترجمہ ہے اور یہ ترجمہاردو کے لئے اجنبی نہیں ۔یہ اردو کے محاوراتی ذخیر ہ میں اپنی جگہ رکھتا ہے۔ لکیر کھینچنا ،قلمزد کرنا ،نشان کرنے کے لئے لکیرکھینچنا ( )۳۵لغوی معنی لئے ہوئے ہے۔ غالب کے ہاں اس ترجمے کا استعمال ملاحظہ ہو بے مے کسے ہے طاق ِت آشوب آگہی کھینچا ہے عج ِز حوصلہ نے خط ایاغ کاغالب نے مفہوم میں اردو کی پیروی نہیں کی ۔ مفہوم فارسی ہی رہنے دیا ہے۔ خط کھینچنا : محو کرنا ،مٹا دینا ،چھوڑ دینا ( ،کا ) پابند نہ رہنا ( ،کے) مطابق پابند ی نہ کرنا قلم کھینچنا بھی اس محاورے کاترجمہ سامنے آتاہے مثلاا بخط ہند ہے قائم گویا مرا دیواں زبس کہ لکھ کے میں ہر بیت پر قلم کھینچنا ( )۳۶قائم
خمیازہ کھینچنا:خمیازہ کشیدن کا اردو ترجمہ ہے خمیازہ کشیدن فارسی میں جمائی لینا ،رنج اٹھانا ،پشمان ہونا کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ غالب نے اس ترجمے کو انگڑائی لینا کے معنوں میں استعمال کیاہے۔ اردو میں خمیازہ بھگتنا ،خمیازہ اٹھانا استعمال مینآتا ہے خمیازہ کھنچنا ،اردو میں جمائی لینا کے معنوں میں مستعمل نہیں ۔ غالبکایہ ترجمہ ایسا نیا نہیں۔ میر صاحب کے ہاں اس کا استعمال دیکھئے اس میکدے میں ہم بھی مدت سے ہیں ولیکن خمیازہ کھینچتے ہیں ،ہر دم جماہتے ہیں ( )۳۸میر ایک دوسری جگہ’’ ،خمیازہ کش‘‘بطور مرکب (فاعل) نظم کرتے ہیں بند ِہ قباکوخوباں جس وقت واکریں گے خمیازہ کش جوہوں گے ملنے )کے ،کیا کریں گے (۳۹ دامن کھینچنا: دامن کشیدن ،یہ محار ہ فارسی میں کنی کترانا کے معنوں میںاستعمال ہوتا ہے جبکہ دامن نہاون ،دامن بچھانا کے لئے استعمال میں آتا ہے۔ اردو میں کشیدن کے لئے کھینچنا ،نہادن کے لئے بچھانا معاون افعال استعمال میں آتے ہیں ۔ غالب نے دامان چھٹنا بمعنی بس میں نہ رہنا ،بردارشت کی حد ختم ہونا ،صبر کا یارانہ رہنا ،مزید سہہ پانے کی ہمت نہ ہونا ،مقدورسے باہر ہوناوغیرہ کے مفاہیم میں استعمال کیاہے۔ ِا س محاورے کی روح میں نہ کر سکنا ،ہاتھ کھنیچ لینا ( بہ امر مجبوری سہی) موجود ہے۔
کہ داما ِن خیا ِل یار سنبھلنے دے مجھ اے ناامیدی کیا قیامت ہے چھوٹا جائے ہے مجھ سےمرزا سودا نے دامن کھینچنا کو پکڑ لینا کے معنوں میں استعمال کیاہےپیچھے سے تودامن کے تئیں خار نے کھینچنا اور سرد ہوکے لگا )روکنے آتا ( سوداقائم چاندپوری کے ہاں دامان کھینچنا نظم ہواہےمقتل کی جاہے داما ِن جاں جو کھینچے ہے گرد اس زمیں کی یوں آہ یہ کس خاکسارکی ( )۴٠قائممیر صاحب کے ہا ں مرکب ’’ دامن کشاں‘‘ پڑھنے کو ملتا ہےکیا ہوا دامن کشاں آتے ہے غبا ِر میر اس کی رہ گزر میں اک طرف بھی یاں تک یار کو ( )۴١میردامن کشیدن /نہادن کی مختلف اشکال اورتراجم اردو زبان کے ذخیر ے کا حصہ رہے ہیں ۔ دل دینا:دل دادن کا غالب نے دل دینا ترجمہ کیا ہے دل دیا جان کے کیوں ا س کووفادار اسد غلطی کی کہ جوکافر کو مسلماں سمجھا غالب نے عاشق ہونا ،فریفتہ ہونا کے معنوں میں ’’ دل دینا ‘‘ کااستعمال کیا ہے۔ فارسی میں ان ہی معنوں میں ’’دل باختن ‘‘ مستعمل
ہے۔ دل گرفتہ ،حواس باختہ ایسے مرکبات عام پڑھنے سننے کو ملتے ہیں ۔ غالب کے ترجمہ میں دل باختہ کی روح کا ر فرما نظر آتی ہے تاہم دادن کے لئے دینا مصدر استعمال میں آتاہے۔ اگر دل گرفتہ مانوس نہیں تو دل باختہ میں کیا کمی ہے ۔ بہر طور غالب کے ہاں ایک اور مثال ملاحظہ ہو دینا نہ اگردل تمہیں لیتا کوئی دم چین اور کرتا جونہ مرتا کوئی دن آہ وفغاں اور دل دینے کے سبب بے چینی ملی ۔بے چینی ،فریفتگی کے باعث ممکن ہے۔ گویاجانا ،اڑنا کی بجائے ’’ دینا‘‘ مصد ر استعمال میں لایاگیا ہے۔ ان ہی مفاہیم میں ’’ دل دینا ‘‘ کاقائم کے ہاں استعمال دیکھئےہم نے یہ سوچ پیش تر نہ کیا ( )۴٢دل نہ دینا ہی خوب تھا پر حیف ! قائم ایک دوسری جگہ ’’ دل گنوانا ‘‘ نظم کرتے ہیں ۔دال گنوانا کے مفاہیم بھی تقریباا وہی مفاہیم ہیں دل گنوانا تھا اس طرح قائم؟ کیا کیا تونے ہائے خانہ خراب ( )۴۳قائم آفتاب کے ہاں ’’ دل جانا ‘‘ برتاگیا ہے گھر غیر کے جو یار مر ارات سے گیا جی سینے سے نکل گیا ،دل سے گیا ( )۴۴آفتاب دل جھکنا ‘‘استعمال میں لائے ہیں ’’خواجہ درد جھکتا نہیں ہمارا دل تو کسی طرف یاں جی میں بھر ا ہواہے از بس غرور تیر ا ( )۴۵درد
ان محاور وں میں عشق میں مبتلا ہونا ،فریفتگی وغیرہ ایسے عناصر پائے جاتے ہیں ۔ یہ دل دادن /باختن سے جڑے ہوئے ہیں ۔ دل کردن کا ترجمہ ہے ۔ کسی چیز کی تمنایا خواہش ہونا دل کرنا: دل باندھنا:دل باندھنا ،دل بستن کا اردو ترجمہ ہے۔ غالب کے ہاں اس ترجمے کا استعمال ملاحظہ فرمائیں ہزار آئینہ دل باندھے ہے بال برن ِگ کا غ ِذآتش زدہ نیر ن ِگ بے تابی یک تپیدن پر دل باندھنا ‘‘ ترجمہ کرچکے ہیں ۔ ’’غالب سے پہلے قائم چاندپوریفرق اتنا ہے کہ غالب کے شعر میں باندھنا استعمال میں آیا ہے اور پر کے سوا تما م الفاظ فارسی کے ہیں ۔معنی ہمت اور کاہش وکاوش لئے گئے ہیں ۔ قائم نے برداشت ،صبر کے معنوں میں یہ ترجمہ نظم کیاہے۔ دل کو کیا باندھے ہے گلزا ِر جہاں سے بلبل حسن ِاس باغ کا اک روز خزاں ہووے گا( )۴۶قائمدل باندھنا ،قائم کے شعرمیں دل لگانا ،محبت میں گرفتار ہونا ،فریفتہ ہونا ،تعلق استوار ہونا /کرنا معنی لئے ہوئے ہے۔ یہ محاورہ اردو جی ’’لغت کا،بطور محاورہ بمعنی دل کو مائل کر لینا ( )۴٧حصہ ہے۔ چاہنا‘‘ بھی ان مفاہیم میں استعمال کرتے ہیں۔طبیعت آنا‘‘ بمعنی توجہ ،مائل ہونا ،رجوع کرنا بھی اسی قماش کا ’’ محاورہ موجود ہے
جانتا ہوں ثوا ِب طاعت و زہد پر طبیعت اِدھر نہیں آتیاِس محاورے کے لئے رجوع کردن ،رجعت کردن محاورے موجود ہیںلیکن یہ محاورہ مفہومی او ر استعمالی حوالہ سے دل باندھنا کے زیادہ قریب لگتاہے۔ رنج کھینچنا: یہ محاورہ ’’ رنج کشیدن ‘‘ سے ہے مشقت ،مصیبت ،دکھ ،آزار ، غم کے معنوں میں استعمال ہوتاہے۔ اردو میں ’’ رنج اٹھانا ‘‘ کے مترادف خیال کیا جاتا ہے۔ غالب کے ہاں اس محاورے کا استعمال ملاحظہ ہوں رنجِ رہ کیوں کھینچے واما ندگ ِی کوعشق ہے اٹھ نہیں سکتا ہمارا جو قدم منزل میں ہے اس فارسی محاورے کے اور تراجم بھی پڑھنے کو ملتے ہیں ۔مثلاا لاتے ہووق ِت نزع تشریف کا ہے کو اتنی بھی اب کھینچے تکلیف کا ہے کو( )۴۸بیاں تکلیف کھینچنا: زحمت اٹھانا/کرنا ،دکھ اٹھانا ،طنز اا تکلف کرنا ،کیا ضرورت زحمت کرنے کی کہاں ہے مرگ کہ جو ں شمع دے مجھے تسکیں بہت میں دا ِغ محبت سے یاں الم کھینچا ( )۴۹قائم الم کھینچنا:
صعوبت اٹھانا ،دکھ برداشت کرنا پورن سنگھ پورن خجل ہونا ،بمعنی خراب ہونا ،پریشان ہونا باندھتے ہیں۔پیچ وخم کاکل میں مت جائیوں دل شب کو اس راہ میں تو چل کر ہوئے نہ خجل شب کو ( )۵٠پورن کاتیہ میر حسین تسکین نے آزار کھینچنا نظم کیاہے ٍ برسوں گذر گئے مجھے آزاد تی ِغ نگا ِہ یار اچٹتی لگی تھی پر کھینچے ( )۵١تسکین غالب سے پہلے میر صاحب ’’ رنج کھینچنا ‘‘ نظم کر چکے ہیں رنج کھینچے تھے ،داغ کھائے تھے دل نے صد مے بڑے اٹھائے تھے ( )۵٢میر چندا کے ہاں اذیت کھینچنا استعمال میں آیا ہےکوئی کھینچے لئے جاتا ہے تن سے روح کیا کیجئے اذیت کھینچے ہیں یار کیا کیا تیری یاری میں ( )۵۳چندا مجموعی طور پر تکلیف کھینچنا ،الم کھینچنا ،خجل ہونا ،آزار کھینچنا ،اذیت کھینچناوغیرہ ’’رنج کھینچنا‘‘ کے کھاتے میں جاتے ہیں ۔ روا رکھنا: روا بودن بمعنی جائز ہونا ،شایستہ ہونا ،رواداشتن بمعنی حلا ل یا جائز سمجھنا ،دونوں محاورے فارسی میں رواج عام رکھتے ہیں ۔
اردو میں داشتن کے لئے رکھنا مصدر استعمال کیا جاتاہے۔ یہ محاورہ( روا رکھنا ) استعمال میں آتا رہتاہے۔ روادار ،رواداری ایسے مرکبات بھی عام بولے جاتے ہیں ۔ غالب کے ہاں اس محاورے کااستعمال دیکھئے روا رکھونہ رکھو تھا لفظ تکیہ کلام اب اس کو کہتے ہیں اہل سخن سخن تکیہ روا رکھنا: جائز سمجھنا ،مناسب خیال کرنا ،ضروری سمجھنا ،اہمیت سمجھنا میر صاحب اور قائم چاند پوری نے بھی یہ محاورہ استعمال کیا ہے گویا غالب کے ہاں پہلی بار ترجمہ سامنے نہیں آیا جیتے ہیں جب تلک ہم آنکھیں بھی لڑتیاں ہیں دیکھیں تو جور خوباں کب تک روا رکھیں گے ( )۵۴میر جائز سمجھتے ہیں ( ،یہ وتیرہ کب تک ) اختیار کئے رکھتے ہیں روا رکھوں نہ کہ ہووے ملک بھی پاس ترے کیا ہے بس کہ محبت نے بدگماں مجھ کو ( )۵۵قائم خاطر میں لانا ،حیثیت اور وقعت سمجھنا ،اہمیت ،قدرو قیمت ہونا رخصت دینا: فارسی محاورہ ’’ رخصت داشتن ‘‘ کا اردوترجمہ ہے۔ غالب نے رخصت دینا کو فارسی مفہوم کے ساتھ استعمال کیا ہے ۔ اردو میں
رخصت دینا ،اجازت دینا ،چھٹی دینا ( )۵۶کے معنوں میں برتا جاتاہے۔ غالب کے ہاں ’’ رخصت دینا‘‘ کا استعمال ملاحظہ ہو رخص ِت نالہ مجھے دے کہ مبادا ظالم تیرے چہرے سے ہو ظاہر غم پنہاں میر ا قائم چاند پوری کے ہاں بھی یہ ترجمہ استعمال میں آیا ہے کیا گلہ شومئی طالع سے کہ بلبل کے تئیں جن نے دی رخص ِت گلگشت ہمیں دام دیا( )۵٧قائم اب رفعت ،شاگرد حضرت صبہائی کے ہا ں اس محاورے کا استعمال دیکھئے بہ ذو ِق ناز کودے رخص ِت جفا کہ یہاں ہمیں بھی عزم ہے طاقت کے آزمانے کا ( )۵۸رفعت زندگی گذرنا: زندگانی /زندگی کردن بمعنی زندگی بسرکرنا فارسی میں عام استعمال کا محاورہ ہے۔ اردو میں زندگی کاٹنا ،زندگی بسرکرنا ،زندگانی /زندگی کردن کے معنوں میں بولے جاتے ہیں اور فصیح سمجھے جاتے ہیں ۔ زندگی ہونا ،زندگی مکمل ہونے کے لئے پڑھنے سننے میں آتا ہے۔عوامی حلقوں میں زندگی بسر کرنا کے لئے بو لاجاتا ہے۔یہ محاورہ اردو میں فارسی کے حوالہ سے ترکیب و تشکیل پائے ہیں۔ غالب کے ہاں اس کا استعمال کچھ یوں ہواہے یوں زندگی بھی گذرہی جاتی کیوں تراراہ گزر یا د آیا
کرنا اور کٹنا مصادر کے ساتھ اِ س محاورے کا غالب سے پہلے ترجمہ نظر آتاہےکر زندگی ِا س طور سے اے درد جہاں میں خاطر پہ کسو شخص کے تو بار نہ ہووے ( )۵۹درد زندگی کرنا بمعنی زندگی بسرکرنا جتنی بڑھتی ہے اتنی گھٹتی زندگی آپ ہی آپ کٹتی ہے ( )۶٠درد زندگی کٹنا بمعنی زندگی بسر ہوناخواجہ صاحب نے ایک جگہ زیست کرنا استعمال کیا ہے لیکن تفہیم ’’ہوچکا ‘‘ لی ہے۔ گئے کی جگہ ’’ ہیں ‘‘ نظم کرتے تو بات ماضی سے حال میں آجاتی ہے عامل کاحذف کلاسیکی دور میں روا رہاہے تھاعال ِم جبر کیا بتائیں کس طور سے زیست کرگئے ہم ( )۶١درد میر حسین تسکین شاگرد امام بخش صہبائی ،شاہ نصیراور مومن ، زندگی ہوونا کوزندگی بسر ہونا کے معنوں میں استعمال کیاہےزندگی ہووے گی کس طور سے یار ب اپنی دم میں سو بار اگر یوں وہ خفا ہووے گا( )۶٢تسکین قائم چاندپوری کے ہاں عمر گذرنا ،زندگی کردن کے ترجمہ کی صورت میں محاورہ استعمال میں آیا ہےگذاری اک عمر گرچہ قفس میں ہمیں ،پہ ہے جی میں وہی ہوائے گل و گلستان ھنوز ( )۶۳قائم میر صاحب نے عمر جانا کو زندگی کردن کے مترادف کے طور پر
نظم کیا ہے تما م عمر گئی ا س پہ ہاتھ رکھتے ہمیں وہ درد ناک علی ال ّر غم بے قرار رہا ( )۶۴میر غالب کے ہاں عمر کٹنا محاورہ بھی پڑھنے کوملتاہے بے عشق عمر کٹ نہیں سکتی ہے اور یاں طاق ِت بقد ِر لذت آزار بھی نہیں قائم چاند پوری نے ( بمعنی گذرنا ) عمر کٹنا کا استعمال کیاہے سرت ِہ بال کٹی عمر مری ،بلبل کو قاب ِل سیر مگریہ گل وگلزار نہ تھا ( )۶۵قائم شاہ مبارک آبرو نے زندگانی کاٹنا بمعنی زندگی کردن ،برتاہے زندگانی تو ہر طرح کاٹی مرکے پھر جیونا قیامت ہے( )۶۶آبرو زخم کھانا: زخم خوردن فارسی میں زخمی ہونا کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔اردو میں یہ محاورہ زخمی ہونا ،مجروع ہونا ،صدمہ اٹھانا ( )۶٧کےمعنوں میں استعمال ہوتا چلا آتا ہے۔ یہ محاور ہ فارسی سے اردو میں وارد ہواہے۔ خوردن کا اردو مترادف مصدر ’’کھانا ‘‘ہے۔ غالب کے ہاں اِ س محاورے کا استعمال ملاحظہ ہو عشر ِت پارہ ء دل زخم تمنا کھانا عیدنظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا خواجہ حیدر علی آتش نے صدمہ کھینچنا بمعنی زخم خوردن برتا ہے
صدمہ کھینچے نہ ر ِگ کیااثر ہومری آہوں سے بتوں کے دل میں سنگ کبھی نشتر کا ( )۶۸آتش میر صاحب کے ہاں زخم جھیلنا اور داغ کھانا بھی استعمال میں آئے ہیںزخموں پہ زخم جھیلے داغوں پہ داغ کھائے یک قطرہ خون د ِل نے کیا کیا ستم اٹھائے ( )۶۹میر ساغر کھینچنا: ساغر کشیدن ،شراب کے پیالے کو دور کردینا ،شراب پینا ۔ساغرکھینچ ،ساغر کشیدن کا اردو ترجمہ ہے ۔ شراب یعنی مقصد ، بقول غلام رسول مہرمقصود کے می ّسر ہونے پر کامل یقین رکھنا ،دام ِن آرزو کبھی نہیں ’’ )‘‘ (٧٠چھوڑنا چاہیے غالب نے ساغر کشیدن کا ترجمہ ساغر کھینچ کیاہے نفس نہ انجمن آرزو سے باہر کھینچ اگر شراب نہیں انتظا ِر ساغر کھینچ سفرہ کھینچ: سفرہ کشیدن کا ترجمہ ’’سفرہ کھینچ‘‘ کیا گیا ہے۔ دسترخوان پر کباب کھینچنا یا کباب رکھنا فصیح نہیں ہے۔ کباب رکھنا یا فلاں ڈش رکھنا پڑھنے سننے میں آتا ہے تاہم کھینچ یا رکھنا کی بجائے ’’ چننا ‘‘امداد ی فعل زیادہ جاندار اور فصیح ہے۔ غالب کا یہ ترجمہ متاثر نہیں کرتا۔ شاید اس لئے رواج نہیں پاسکا
مرے قدح میں ہے صہبائے آتش پنہاں بروئے سفرہ کباب د ِل سمند ر کھینچ سرگرم کرنا:سرگرم کردن کی اردو شکل غالب کے ہاں ’’سرگرم کرنا‘‘ ہے۔اردو میں سرگرمی معروف ہے۔ غالب کے ہاں اکسانے کے معنوں میں سرگرم کرنا استعمال میں آیا ہے۔ غلام رسول مہر آمادہ کرنا کے معنوں میں لے رہے ہیں ۔ ( )٧١سر گرم کرنا ،اردو میں رواج نہیں رکھتا ۔ تیارکرنا ،آمادہ کرنا ،جوش دلانا ،قائل کرنا وغیرہ ایسے محاورے ، ضرورت کے مطابق استعمال میں آتے رہتے ہیں غالب کے ہاں سرگرم کرنا کا استعمال ملاحظہ ہو د ِل نازک پہ اس کے رحم آتا ہے مجھے غالب نہ کر سرگرم ا س کافر کو الفت آزمانے میں شام کا صبح کرنا: شام راسحر کردن کا ترجمہ ہے یعنی انتظا رکرنا ،وقت گذار نا ،وقت کا ٹنا ،رات گزارنا ،غالب کایہ ترجمہ برا نہیں لیکن عوامیت کی سند حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ غالب کے ہاں ِا س کا استعمال دیکھئے کاوکا ِو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ صبح کرنا شام کالانا ہے جوئے شیر کاخواجہ درد کا یہ شعر دیکھیں ’’ شام راسحر کردن‘‘ کی بازگشت سنائی دیتی ہے
اے ہجر کوئی شب نہیں جس کو سحر نہیں پر صبح ہوتی ہے آج تو )آتی نظر نہیں (٧٢ آفتاب کا یہ شعر پڑھیں ِا س میں اس محاور ے کی بو بوس محسوس ہوتی ہے کون سی شام کو ترے غم میں آہ رو ر و کے میں سحر نہ کیا()٧۳ آفتاب طرف ہونا :طرف شدن کاترجمہ ہے خلاف ہونا ،منہ لگنا ،مقابل آنا ۔ کے ہاں اس کا استعمال دیکھئے میر صاحب طرف ہونا مرامشکل ہے میر ِا س شعر کے فن میں یوں ہی سوداکھبو ہوتاہے سو جاہل ہے کیا جانے ( )٧۴میر رنداں در میکدہ اب غالب کے ہاں اس ترجمے کا استعمال دیکھئے گستاخ ہیں زاہد ز نہار نہ ہونا طرف ِان بے ادبوں سے فریب کھانا: فریب خوردن کاترجمہ ہے ۔ دھوکہ کھانا ،جال میں پھنسنا ،غالب نے خوردن کاترجمہ ’’ کھائیو‘‘ کیاہے ۔ ئیو ،پنجابی لاحقہ ہے ۔ ہریانی ، دکنی ،راجھستانی ،گوجری وغیرہ میں بھی یہ لاحقہ استعمال میں آتاہے۔ کھائیو ،کھانا کی فعلی شکل نہیں ہے۔ غالب کے ہاں اس محاورے کا استعمال ملاحظہ ہو ہاں کھائیومت فری ِب ہستی ہر چند کہیں کہ ’’ ہے‘‘ نہیں ہے
نواب عباس علی خاں بیتاب نے ’’ کھا‘‘ استعمال کیاہے آخر فریب کھا کے ا س نے مجھ کو قتل کیا میں نے کہاتھا تم سے اٹھائیں گے مرکے ہاتھ ( )٧۵بتیاب گفتار میں آونا: گفتار آمدن ،فارسی میں بولنے لگے ،گفتگو کرنا کرنا شروع کر دے ،کے معنوں میں برتا جاتاہے۔ ولی ؔ دکنی نے گفتار ،کرنا (ں) بمعنی بات چیت استعمال کیا ہے سہیلیاں جب تلک مجھ سوں نہ بولیں گے ولی آکر مجھے تب لگ کسی سوں بات ہور گفتار کرنا ں کیا( )٧۶ولی غالب نے گفتار میں آوے بمعنی بولنا شروع کر دے ،نظم کیا ہے اس چشم فسوں گرکا اگر پائے اشارہ طوطی کی طرح آئینہ گفتار میں آوے پنجابی اسلوب ولہجے کے سبب یہ محاورہ اردو میں پھل نہیں سکا ۔ مرغوب آنا:مرغوب آمدن ؛ جس طرف راغب ہو ،جو اچھالگے ،جو پسند یدہ ہو ، خوش آنا ،مرغوب ہونا ،جو من کو بھا جائے ادائیں ابھائے ،پسندیدہ مرغوب آنا ،اردو میں معروف نہیں ہوسکا۔ غالب کا شعر دیکھئے ۔ آیا کے سوا پورا شعر فارسی میں ہے
شمار سجہ مرغو ِب ب ِت مشکل پسند آیا تماشائے بیک کف بردن صددل پسند آیا منت کھینچنا:منت کشیدن ؛ کسی کا زیر بار احسان ہونامنت کھینچنا ،کہلوانا ،احسان مند ہونا ،احسان اٹھانا ،درخواست کرنا ،کسی دوسرے کی سفارش کرواناغیرکی منت نہ کھینچوں گا پے توقیر داد زخم مث ِل خندہء قاتل ہے )سرتا پا نمک (غالبآفتاب نے ’’ منت اوٹھانا ‘‘ برتاہےطالع بید ار کی منت اوٹھانے بھی نہ دی اس سے شب ہم کوتمنا خواب میں لائی ملا ( )٧٧آفتابمنت کھینچ ‘‘ باند ھا ہے’’میر قاقر علی جعفری نےبے سروپا چمن ودشت میں عالم کے نہ پھر نازہر گل نہ اٹھا ،منت ہر خارنہ کھینچ ( )٧۸جعفری مے کھینچنا: مے کشیدن ،فارسی میں شراب کشید کرنے کے معنوں میں استعمالاستعمال میں آتاہے ‘‘ہوتاہے۔ جبکہ شراب پینے کے لئے ’’ مے کشی مستعمل ہے۔ شرابی کے لئے ’’مے کش ‘‘ ‘‘۔اردو میں ’’ مے کشی بولتے ہیں۔ مے کشی کے لئے ’’مے کھینچنا ‘‘ نہیں بولتے ،خمارچرس کھینچنا ‘‘ برتا ’’کھینچنا ‘‘ استعمال میں آتا ہے۔ شاہ مبارک آبرو
ہے۔ کھینچنا سے’’پینا‘‘ مرادلیتے ہیں مرے شوخِ خراباتی کی کیفیت نہ کچھ پوچھبہا ِر حسن کو دے آب جب ان نے چرس کھینچا ( )٧۹آبرو غالب کا شعر ملاحظہ کریںصحب ِت رنداں سے واجب ہے حذر جائے مے اپنے کو کھینچا چاہیےغلام رسول مہر ’’ مے کھینچنا ‘‘ کی شرح میں رقمطراز ہیںکھینچنا ‘‘ پیچھے ہٹنا ،پر ہیز کرنا ،بچنا ،مے کے ساتھ کھینچنا ’’ )‘‘ (۸٠میکشی کاترجمہ ہے ۔ جس کا مطلب شراب پینا ہے نا زکھینچنا:ناز کشیدن ،کسی کا ناز ونخرااٹھانا /برداشت کرنا ۔اردو محاورے میں ناز اٹھانا کو فصیح خیال کیا جاتاہے۔ تاہم ’’ناز کھینچنا بھی مستعمل رہاہے۔مثلاامجھ ناتواں نے کیا کیا پروانہ رات شمع سے کہتا تھا را ِز عشق اٹھایا ہے نا ِز عشق ( )۸١سودامیر صاحب کے ہاں ’’ناز کھینچنا ‘‘ نظم ہواہےکھینچے گا کون پھر یہ جینا مراتو تجھ کو غنیمت ہے ناسمجھ! ترے ناز میر ے بعد( )۸٢میریہاں کھینچنا کواٹھانا کے مترادف استعمال میں لایا گیا ہے۔ غالب کے
ہاں اس ترجمے کا کچھ اس طرح سے استعمال ہواہے وہ دن بھی ہو کہ اس ستمگر سے ناز کھینچوں بجائے حسر ِت نا ز اس ستمگر کے ناز اٹھاؤ ’’شعر کے حوالہ سے ناز اٹھا نا بنتا ہے۔ ں‘‘میں مزا اور ذائقہ ہی نہیں۔ نالہ کھینچنا: نالہ کشیدن ،رونا دھونا ،گریہ وزاری کرنا ،فغاں کرنا ۔ نالہ کھینچنا ،اردو بول چال سے لگا نہیں رکھتا جبکہ مترادف محاورے آہ بھرنا ،آہ کرنا ،فغاں کرنا ،آہ کھینچنا ،فریا د کرنا ،نالہ کرنا وغیرہ استعمال میں رہتے ہیں ۔ دوتین مثالیں ملاحظہ ہوں دوری میں کروں نالہ وفریا دکہاں تک اک بار تو اس شوخ سے یار ب ! ہو ملاقات ( )۸۳میرنہ کیانالہ ہم نے پر نہ کیا ( )۸۴قائم ٹکڑے کب غم نے یہ جگر نہ کیا دیتا نہ اگردل تمہیں لیتا کوئی دم چین اور کرتا جو نہ مرتا کوئی دن آہ )وفغاں اور (غالب نالہ کش اور نالہ کشی کا میر صاحب کے ہاں استعمال ہواہے تجھ ب ِن شکیب کب تک بے فائدہ ہوں نالاں مجھ نالہ کش کے تواے فریاد رس کدھر ہے( )۸۵میر کرنالہ کشی کب تئیں اوقات گزاریں فریاد کریں کس سے ،کہاں جاکے پکاریں ( )۸۶میر غالب کے ہاں ’’نالہ کھینچنا ‘‘ کااستعمال دیکھئے
شوق کویہ لت کہ ہر دم نالہ کھینچے جائے دل کی وہ حالت کہ دم لینے سے گھبرا جائے ہے نقش کھینچنا: نقش کشیدن ،نقش بستن ،دونوں فارسی کے معروف محاورے ہیں۔ صورت بنانا ،خیال باندھنا ،تصویر بنانا ،تصور کرنا وغیرہ کے معنوں میں استعمال ہوتے ہیں ۔ ان فارسی محاوروں کے اردو تراجم پڑھنے کو ملتے رہتے ہیں ۔مثلاا پہ تجھ سا صفحہء ہستی پہ طراز کل ِک قضا او ربھی توہیں مشہور نقش کم کھینچا( )۸٧قائمنقاش نے قاتل کی جو تصویر کو کھینچا ابرو کی جگہ پرد م شمشیر کو )کھینچا (۸۸ بنایا یار کی صورت کو وہ نقا ِش قدرت نے کچھے نقشہ نہ ایسا مانی وبہزاد سے ہرگز ( )۸۹چندا غالب نے ’’ نقش کھینچنا ‘‘ بمعنی تصویر بنانا نظم کیاہے۔نقش کو اس کے مصور پر بھی کیاکیا ناز ہیں کھینچتا ہے جس قدر اتنا ہی کھینچا جائے ہے نفس کھینچنا: نفس کشیدن ،سانس لینا ،وقت گزارنا ،زندگی بسرکرنا ،جس حالت میں ہوں اسی میں رہنا اور اس سے باہر نہیں آنا چاہیے غالب سے پہلے یہ محاورہ ارود میں ترجمہ ہوچکاہے
کھینچا نہ میں چمن میں آرام یک نفس کا صیادتیری گردن ہے خون اس ہوس کا ( )۹٠سودامبادا آت ِش دل شعلہ پھر نفس بھی کھینچتے اب جی مرا دھٹرکتا ہے بلندے کرے ( )۹١مصحفی ؔنہ موے ہم اسیری میں تو نسیم کوئی دن اور باؤ کھائیے گا( )۹٢میراب غالب کے ہاں استعمال دیکھئےنفس نہ انجم ِن آرزو سے باہر کھینچ اگر شراب نہیں انتظا ِر ساغر کھینچ نموکرنا: نمود کردن ،بالیدگی پیداکرنا ،پھلنا پھولنا ،بڑھنا ۔اردو میں نمو کےساتھ ’’کرنا ‘‘ امدادی فعل استعمال میں نہیں آتا ۔ فارسی میں بھی کوئی ایسالفظ نہیں جس کا آخیر متحرک یا مشدد کہ فارسی میں عربی کے ایسے الفاظ کو ساکن الاخرکر لیا جاتاہے۔ غالب نے فارسی کی تقلید میں نمو کردن کے لئے ’’نموکرنا ‘‘ محاورہ بنالیاہےدیکھ کر تجھ کو چمن بسکہ نمو کرتاہے خود بخود پہنچے ہے گل گوشہ ء دستار کے پاس ہوش اڑنا:ہوش از سررفتن ،ہوش اڑجانا ،ششد ررہ جانا ،مبہوت ہونا ( )۹۳ہو ش اڑنابمعنی حواس باختہ ہونا ،گھبرا جانا ،عقل ٹھکانے نہ رہنا ، حیرت میں آجانا ()۹۴غالب نے آپے میں نہ رہنا کے معنوں میں اس :ترجمے کا استعمال کیاہے
ہوش اڑتے ہیں مرے جلو ہ ء گل دیکھ اسد پھر ہوا وقت کہ ہو بال کشا موج شراببدھ سنگھ قلندر کے اس شعر میں ’’ ہوش اڑنا ‘‘ کی روح گار فرما ہےمجھ کو کیا مے جنو ں نے آکردی ساری عقل وخرد ہواکردی ()۹۵ قلندرعقل و خرد ہواکرنا /ہونا ،ہو ش اڑنا کے ہی مترادف ہے یہ محاورہ فصیح ہے لیکن رواجِ عام نہیں رکھتا۔ حواشیفیروز ٢۔ فرہنگ فارسی ،ڈاکٹر محمد عبد الطیف ،ص ١ ۳۔ اللغات ،مولوی فروز الدین ،ص۳فیروز اللغات ،ص ۴ ٢۴۔ فرہنگ فارسی ،ص ۳ ۵۔فرہنگ فارسی ۶۔ نوائے فروش ،غلام رسول مہر ،ص۵ ۴۵۹۔ ،ص ۳٠تذکرہ مخز ِن نکات ،قائم چاندپوری ،ص٧ ۳۴۔کلیات میر ج ا ،میر تقی ۹۔ تذکرہ مخز ِن نکات ،ص ۸ ١۳۴۔ میر ،ص ۳۵۵دیوان زادہ ،شیخ ١١۔ دیوان درد،خواجہ درد ،ص١٠ ٢۳۵۔ ظہور الدین حاتم ،ص ١٧۸١۳۔ فیروز اللغات ،ص ١٢ ١۶۸۔ نوائے سروش،غلام رسول مہر ،ص ۵۴۵
نوائے ١۵۔ کلیا ِت قائم ج ا ،قائم چاندپوری ،ص ١۴ ٢٠۔ سروش ،ص٧٧روح المطالب فی شرح دیوان غالب ،شاداں بلگرامی ،ص ١۶۔فیروز اللغات ،ص ١۸ ٢۹٢۔ نوائے سروش ،ص ١٧ ٢۴۳۔دیوا ِن درد،خواجہ درد ،ص ١۹ ١٧٠۔ تذکرہ مخزن ٢٠۔ نکات ،ص ١۵۸تذکرہ مخزن نکات٢٢ ،۔ تذکرہ مخزن نکات ،ص٢١ ١۵٠۔ ص۴١دیوان درد ،ص ٢۴ ١۴١۔ دیوان مہ لقابائی چندا،ص ٢۳ ۹۴۴۔فیروز اللغات ،ص ٢۶ ١١۸٠۔ دیوان درد ،ص ٢۵ ٢٢۳۔تذکرہ ٢۸۔ شرح دیوان حافظ ج ،٢عبداللہ عسکری ،ص٢٧ ۹۹۔ مخزن نکات ،ص١۳٧کلیات ۳٠۔ دیوان مہ لقابائی چندا ،مہ لقا بائی چندا،ص ٢۹ ١٠٢۔ میرج ا ،ص ۵۶١فیروز اللغات ،ص ۳٢ ۶٠٠۔ دیوان درد،ص ۳١ ١٢۹۔تذکرہ گلستا ِن ۳۴۔ فرہنگ فارسی،ڈاکٹر عبدالطیف ،ص۳۳ ۳٢۳۔ سخن ج ا ،مرزا قادر بخش صابر،ص ۳٧۶کلیا ِت قائم ج ا ،ص ۳۶ ٢۴۔ فیروز اللغات ،ص ۳۵ ۵۹٢۔کلیا ِت میر ج ا،ص۳۸ ۳٠۳۔ فیروز اللغات ،ص ۳٧ ۵۹۶۔
کلیا ِت قائم ج ا،ص ۴٠ ٢۶٧۔ کلیا ِت میر ج ا،ص ۳۹ ۴۸۵۔کلیا ِت قائم ج ا،ص ۴٢ ۹۔ کلیات میرج ا ،ص ۴١ ۳۹٠۔شاہ عالم ثانی آفتاب احوال وادبی ۴۴۔ کلیا ِت قائم ،ص ۴۳ ۵٧۔ خدمات،ڈاکٹر خاور جمیل ،ص ١۹٠کلیا ِت قائم ج ا ،ص ۴۶ ۴۳۔ دیوا ِن درد،ص ۴۵ ١١۶۔تذکرہ مخز ِن نکات ،ص ۴۸ ١٢۹۔ فیروز اللغات ،ص ۴٧ ۳۴۔کلیا ِت قائم ج ا ،ص ۴۹ ٢۴۔ تذکرہ گلستا ِن سخن ج ا از ۵٠۔ مرزا قادر بخش دہلوی ،ص ۳٢۴کلیات میر ج ا ،ص ۵٢۔ تذکرہ گلستان سخن ج ا ،ص ۵١ ۳۴٠۔ ۴۶٧۵۴۔ دیوان مہ لقابائی چندا،ص ۵۳ ١۳۴۔ کلیا ِت میر ج ،١ص ۴۶٧فیروز اللغات ،ص ۵۶ ٧٠٧۔ کلیا ِت قائم ج ا ،ص ۵۵ ١٧١۔تذکرہ گلستا ِن سخن ج ا۵۸ ،۔ کلیات قائم ج ا ،ص۵٧ ۳۸۔ ص ۵٠۵دیوان در د ،ص ۶٠ ٢۳٢۔ دیوان درد ،ص ۵۹ ٢١۵۔۶٢۔ دیوان درد ،ص ۶١ ١۵۸۔ تذکرہ گلستا ِن سخن ج ا،ص ۳۳۹کلیات میر ج ا ،ص ۵٠۶کلیات قائم ج ا ،ص ۶۴ ۸۴۔ ۶۳۔
تذکرہ مخز ِن نکات ،ص ۶۶ ۴٢۔ کلیات قائم ج ا ،ص ۶۵ ٢٢۔۶۸۔ فیروز اللغات ،ص ۶٧ ۴۴٢۔ تذکرہ گلستان سخن ج ا،ص ٢٢١نوائے سروش ،ص ٧٠ ١۹۴۔ کلیات میر ج ا،ص ۶۹ ۵٠۶۔دیوا ِن درد ،ص ٧٢ ١٧۸۔ نوائے سروش ،ص ٧١ ۳۵٢۔شاہ عالم ثانی آفتاب احوال و ادبی خدمات ،ڈاکٹر محمد جمیل ٧۳۔ خاور ،ص ١۹٠٧۵۔ کلیات میر ج ا ،ص ٧۴ ۵۴۳۔ تذکرہ گلستان ،سخن ج ا،ص ۳١١٧٧۔ کلیات ولی ،ص٧۶ ١١١۔ شاہ عالم ثانی آفتاب احوال و ادبی خدمات ،ص ١۸۶تذکرہ مخز ِن نکات٧۹ ،۔ تذکرہ گلستان سخن ج ا،ص ٧۸ ۳٧۴۔ ص ۳۵کلیات سوداج ا ،ص ۸١ ۸۶۔ نوائے سروش ،ص ۸٠ ۶١۳۔کلیات میر ج ا،ص ۸۳ ٢١۵۔ کلیا ِت میر ج ا ،ص ۸٢ ٢٢٧۔کلیا ِت میرج ا،ص ۸۵ ۴۹۸۔ کلیا ِت قائم ج ا،ص ۸۴ ۸۔کلیا ِت قائم ج ا ،ص ۸٧ ٢۴۔ کلیات میر ج ا ،ص ۸۶ ۳۴۸۔دیوان مہ لقا بائی ۸۹۔ تذکرہ گلستان سخن ج ا ،ص ۸۸ ٢۵۹۔ چندا،ص ١۹۹
کلیات مصحفی ج ا ،ص ۹١ ۵۳۵۔ کلیات سودا ،ص ۹٠ ١١۔فرہنگ فارسی ،ص ۹۳ ١٠١۳۔ کلیا ِت میرج ا ،ص ۹٢ ١٧۴۔۹۵۔ فیروز اللغات ،ص ۹۴ ١۴۵۶۔ تذکرہ مخزن نکات ،ص ١٢۵ باب نمبر۵اصطلاحات غالب کے اصطلاحی مفاہیم ہر وحدت (سماج) بے شمار چھوٹی بڑی اکائیوں کے اختلاط و اجماع سے تشکیل پاتی ہے۔ اسی طرح ہر اکائی اس وحدت میں مدغم ہونے کے باوجود بہت سے ذاتی ،جو اسی سے مخصوص ہوتے ہیں ،اصولوں اوررویوں سے ہاتھ نہیں کھینچتی۔اسی وتیرے کے سبب وہ اپنی ذاتی حیثیت کے ساتھ وحدت میں بھی زندہ رہتی ہے ۔ان مخصوص رویوں اور اصولوں پرکسی قیمت پر کسی سے کمپرومائیز کی سزا وار نہیں ہوتی۔ بہت سے لفظ اس وحدت کے میں کئی اورمفاہیم کی ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ گویا مفہومی تضاد ہی کسی اکائی کی شناخت ہوتا ہے ۔کتا چار ٹانگوں اور بھونکنے والا جانور ہے لیکن واپڈا والے ایک مخصوص پرزے کو کتا کہتے ہے۔سائیکل مرمت کی دوکان پر یہ لفظ سائیکل کے کسی پرزے سے مخصوص ہے۔الفاظ کی
ایسی ہی صورتحال سماج کی چھوٹی بڑی اکائیوں میں ہمیشہ سےموجود رہی ہے۔دراصل یہ مخصوص مفاہیم اس اکائی میں اس لفظ کےلئے مخصوص ہو چکے ہو تے ہیں اوران کو اس اکائی میں رواج پایا جانے کے سبب نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ اکائی کا کسی وحدت سے انسلاک ،اسے اس کی تمام تر خصوصیاتاصولوں اور رویوں کو تسلیم کر لینے کی صورت میں ممکن ہوتا ہے بصورت دیگر کسی وحدت کے قیام کا سوال ہی نہیں اٹھاتا۔اکائی میں مستعمل مفاہیم کو تسلیم کئے بِن وحدت کا کام نہیں چلتا۔زیادہ سے زیادہ مفاہیم وحدت کے اظہاری دائروں کو وسعت بخشتے ہیں ۔ ادب اکائیوں کا نمائندہ ہوتا ہے۔ وہ انہیں کسی حال میں نظر انداز نہیں کرسکتا۔ مخصوص صورت کو رقم کرتے وقت اس لفظ کو مرادی معنوں میں ہی لیا جائے گا۔یہ بھی ممکن ہے کہ ادب کو کسی اکائی سے متعلق فرد پڑھتا ہے تو وہ اس کے بعض الفاظ کو غیر شعوریطور پر مرادی معنی دے سکتا ہے۔ایسے میں تفہیم و تشریح کا بالکل الگ سے حوالہ سامنے آئے گا۔قاری کسی مخصوص حوالے،ضرورت ،حالات وغیرہ کا پابند نہیں ہوتا نہ ہی اسے لغوی معنوں سے کوئی دلچسپی ہو تی ہے۔ اسی طرح شاعرادیب لغت سے زیادہ وسیب کی ہر اکائی سے رشتہ استوار کئےہوتا ہے۔وہ لغت سے زیادہ و سیب کے قریب ہوتا ہے۔ یہ معاملہ بعید از قیاس نہیں کہ اس نے الفاظ کو مرا دی معنوں میں استعمال کیا ہو۔ اس طرح وہ اپنے کلام میں تہہ داری کا عنصر پیدا کر دیتاہے۔ایسے میں وسیب کی طرف پھر نا زیادہ مناسب ہو گاجبکہ لغت سے تمسک گمراہ کن ہو گا ۔فصحا نے ان مرادی معنوں سے متعلق الفاظ کو
کا نام دیا ہے۔) (Termsاصطلاحات غالب کے ہاں بہت سے ایسے الفاظ کا استعمال ہوا ہے جو اپنی ذات میں اصطلاح بھی ہیں ۔بعض جگہوں پر ان کا اصطلاحی استعمال بھیہو اہے یا ایسا محسوس کیا جا سکتا ہے۔مخصوص علاقوں کے قارئین کے علاوہ اصحا ِب دانش کے لئے یہ مرادی معنی دلچسپی سے خالی نہیں ہوں گے۔ان مفاہیم سے آگہی سے تفہیم و تشریح کا زاویہ بدلجاتا ہے اور بہت سے نئے گوشے سامنے آ سکتے ہیں جو مخصوصاکائیوں کے علاوہ بھی دلچسپی کا باعث بن سکتے ہینیا پھر ان مفاہیم کے توسط سے ان مخصوص ک ّروں تک اجتماعی نظر جا سکتی ہے۔اگلے صفحات میں غالب کی اردو غزل میں سے کچھ اصطلاحات کے اصطلاحی مفاہیم درج کئے جا رہے ہیں تاکہ شع ِرغالب کے ان کو ان مفاہیم میں دیکھا جا ئے اور ِاس ضمن میں )(Tracesٹریسز تفہی ِم شع ِرغالب کی کیا صور ت ہو گی اور کون کون سے نئے حوالے سامنے آئیں گے۔ اصطلاحا ِت تصوف آتش: )جذبہ،جو ِش ایمانی،عشق الہی (١ آدم: )جامع اسماء وصفات و مظہر خدا وندی (٢ آرزو: )تھوڑی سی آگاہی کے بعد اپنے اصل کی طرف میلان (۳
آزاد: )مرد آزاد(۴ )دوست،معشو ِق حقیقی( ۵آشنا: آشنائی: )خدا وند سے تعلق اور اپنی ذات سے بیگانگی (۶ آغوش: )اسرارو رمو ِز خدا وندی کی دریافت(٧ آفاق: )عالم فی الخارج ،دنیا (۸ آفتاب: تجل ِی روح جو سالک کے دل پر وارد ہوتی ہے ۔ذات باری )کاجلوہ(۹ آہ :آہ:عشق الہی کا درد ،کما ِل عشق کی علامت جس کے بیان سے زبان )قاصر ہو(١٠ آئینہ: )مظہ ِر علمی ،انسا ِن کامل کا ذہن ہے((II)١٢دل ،قل ِب صافی ابد:
)وہ انتہا جس کی انتہا نہ ہو(١۳ ابر: )حجابات و مشاہدات یا وصول الی اللہ میں مانع ہوں (١۴ ابرو: )الہا ِم غیبی(١۵ اثبات:احکام خداوندی کا قیام ()١۶احکام خدا وندی کا قائم کرنا جو اللہ سے ملاتی ہیں،حق کا ظہور اور خالق کا مخفی ہونا )کسی چیز کے وجود کا اقرار((١٧)١۸ احوال:وہ انعامات جو خدا کی طر ف سے بندے کو پہنچے یہ عارضی اور متنوع ہوتے ہیں اختیار: )فرد بشر جو کچھ بھی من اللہ ہو اسے کافی تصور کرنا(١۹ ارادہ: )معدوم کی تخلیق کے تجلی ذات(٢٠ ازل: )وہ جس کی ابتدا نہ ہو(٢١
اشک: )ہج ِر محبوب میں گداز قلب کا اثر ،رق ِت قلب کا نشان (٢٢ امتحان: )دنوں کا مختلف مصائب میں ابتلا(٢۳ اندوہ: )خیر وشر کے مابین حیرت (٢۴ انسان: )مرد کامل(٢۵ ایمان:نہایت عزیز اور محترم شے ،کامل عقیدت راسخہ ،حضو ِر حق )میں دانش کی حقدار(٢۶ بادہ: )نشہء عشق( )٢٧محبت الہی ،عش ِق حقیقی(٢۸ باطل: )غیر حق ماسواللہ(٢۹ بام: )مح ِل تجلیات(۳٠
بحر: )ذا ِت خدا وندی()۳١وجو ِد حق تعالی(۳٢ بزم: )خاص اہل حق کی مجلس (۳۳ بلبل:عارف جو نفس امارہ سے راستگاری پاکر ہمیشہ ذکر و فکر میں )مشغول رہے(۳۴ بندگی: )مقا ِم تکلیف(۳۵ بو: )آگاہی ،مقام جمع میں تعلق خاطر سے آگاہی(۳۶ بود: )بے رنگی ،وجود ہستی(۳٧ بوسہ: قبولیت کی استعداد ،جذبہ باطن،فیوضیات جو سالک کے دل پر )وارد ہوں(۳۸ پردہ: )وہ روک جو عاشق اور معشوق کے درمیان ہو(۳۹
پروانہ: )عاشق ،وجو ِد عاشق(۴٠ پیر: مرشد ،ہادی پیام:)امرونواہی وہ جذبا ِت محبت جو سالک کے دل پر وارد ہوتے ہیں(۴١ پیمانہ: )سالک کا دل ،قل ِب عارف()۴٢بادہء حقیقت(۴۳ تاب: در ِد عشق کی تڑپ ،معشوق حقیقی کا فراق ،بے چینی اور )اضطراب(۴۴ تاک: )دل یا جم(۴۵ تجلی: معشو ِق حقیقی کا جلوہ ،انوار غائب جو دلوں پر ظاہر ہو ()۴۶دلوں پر انوا ِر حق کا نزول تشنہ:
)آرزو مند ،طال ِب حق(۴٧ تقدیر : )فطری میلان ،بنیادی رججان ،افتاد مزاج(۴۸ تمام: )مر ِد تمام ،انسان کا مل(۴۹ توبہ: )ناقص اشیاء سے باز رکھنااور کامل کی جانب رہنمائی(۵٠ جام:بادہء معرفت سے مالا مال ،حالا ِت عالم ()۵١عشق الہی کی توفیق )،باط ِن عارف ،عاشق کاحوصلہ (۵٢ جفا : )قلب سالک سے مشاہدات ،جفا ،قبض کیفیت(۵۳ جادہ: )تجلی ،انوار ،جھلک (۵۴ جنون: )عشق الہی کی شدت ،پاگل پن ،پکی دھن ،لگن (۵۵ چہرہ: )تجلی واحدیت ،غیر مادی اشیاء کی تجلیات (۵۶
حال:سالک کی وہ عارضی کیفیت جو دل میں وارد ہو جیسے حزن و خوف و ذوق و شوق ( )۵٧ایک وار دات ہے جو دل پر نازل ہو کر اسے اس طرح مزین کر دیتی ہے جیسے روح کو جسم ۔ )یہ وقت کا محتاج ہے (۵۸ جسم: )اجزا ئے پریشان کا اجتماع (۵۹ حجاب: وہ رکاوٹ جو عاشق کو معشو ِق حقیقی سے الگ رکھے ()۶٠ )حقیقت و وصل کی راہ کی مانع (۶١ حدیث : )عاشق کی اپنے محبوب کے سامنے عرض یا درخواست (۶٢ حرم: )قلب صافی (۶۳ حسن: )حسن مطلق ،ذات باری (۶۴ حضور: مقا ِم وحدت ،قر ِب الہی ،قلب کاحاضر ہونا حق کے سامنے اور )خلق سے کنارہ کشی کرنا (۶۵
حیرت:معشو ِق حقیقی کے سامنے اپنی بے بضاعتی اور بے علمی کا )احساس (۶۶ خال: )ذا ِت مطلق کی وحدت (۶٧ خرابات: )فنا کا مقام ،دنیا (۶۸ خصم: )مالک و آقا (۶۹ )خم :جائے وقوف (٧٠ خمار: )پیر کامل (٧١ خلوت: )(دنیا)سے کنارہ کشی (٧٢ خیال: سلوک کی ابتداء اور انتہا کا نکتہ ،تعی ِن ا ّول ،حقیقت محمدی ( )٧۳ایسا خیال جو دل میں رونما ہو اور جلد ہی کسی
)دوسرے خیال کے آتے ہی ختم ہو جائے (٧۴ درد: وہ حالت جو ہجر یار میں طاری ہوتی ہے اور محب اس کو )برداشت نہیں کر سکتا (٧۵ دریا: )وجود باری ،ذا ِت بحث (٧۶ دل: )لطیفہ ء ربانی و روحانی ( )٧٧حقیق ِت انسانی (٧۸ دوست: )ذا ِت احدت ،حق تعالی (٧۹ دہن: )انسانی استعداد (۸٠ دید: )شہود ،نظارہ (۸١ دیر: )عالم انسانی ( )۸٢خرابات ،عالم معنی ،عالم حیرت (۸۳ ذات:ہست ِی حق ( )۸۴وجود مطلق اس پر کہ تمام اعتبارات ،اضافات،
نسبتیں اور وجود اس کے سامنے ساقط ہو )جاتے ہیں ( )۸۵کسی چیز کی اصلیت اور حقیقت (۸۶ ذکر: )یاد ،نسیان کی ضد (۸٧ ذوق: حق کے ساتھ حق کی دید ،عین جمع میں حق کے واسطے )شہو ِدحق ،میلان ،رجحان ،صلاحیت (۸۸ راز: افرنی ِش کا ئنات کاسبب ،تخلی ِق عالم کی وجہ ،عش ِق از ِل ،حدیث قدسی، معرف ِت الہی جو قلوب عرفا میں پوشیدہہوتی ہے ،را ِز عشق ،پوشیدہ ،خفیہ ،پنہاں ،حقیقت ،نکتہ ،باریک اور گہری بات ،دقیقہ )۸۹( ،اطمینان خاطر )کہ جو جما ِل یا رکے ساتھ ہو (۹٠ رمز: حقیقت ،اصلیت ،ڈھکی چھپی بات ،اشار ہ کنایہ ،خفیہ تعلق، )واسطہ خفی (۹١ رند: رسوم و قیود سے آزاد ،راہ حق میں بے باک اور حقائق کو کھلم کھلا بیان کرنے والا مرد( )۹٢ہوا و ہومیں
)سے آزاد،عارف جس کا دل آلائش وکدورت سے پاک ہو(۹۳ رنگین: )مست ،سر شار(۹۴ رہرو: )سالک ،عاشق(۹۵ زلف:جسمانی صورتوں میں تجلیات ربانی ،پریشا ِن کرنے والی حالت یا )پریشانی ،اِبتلا و آزمائش(۹۶ زمانہ: )آی ِت الہی ،خدا کی نشانی (۹٧ زندگی: شعو ِر خود ،خود نمائی()۹۸اظہا ِر ذات ساقی: فی ِض معنوی پہنچانے والا ،ترغیب دینے والا ( )۹۹ح ِب الہی کی )شراب پلانے والا (١٠٠ سبو: )دل،قل ِب عاشق(١٠١
سفر: بندے کا حق اللہ تعالی کی طرف توجہ کرنا ( )١٠٢حالت اقامت )کے دوران سفر (١٠۳ سوال: )طلب کرنا (کسی چیز کی حقیقت) (١٠۴ سوز: )یقین ،ایمان ،اثر ،تاثیر ،محبت (١٠۵ سیر : )خدا کی طرف متوجہ ہونا ،سیرالی اللہ (١٠۶ شان : )حالت ،کیفیت (١٠٧ شاہد:دیکھنے والا ،مشاہدہ کرنے والا ،معشوق ،تجلّی ( )١٠۸حق بہ )اعتبا ِر ظہور وحضور (١٠۹ شبنم : )قلت ،قلیل شے ،الہام (١١٠ شعلہ :
)آگ ،انگارہ ،لو ،لپٹ (١١١ شوق: )طل ِب حق ،انزل عاج ()١١٢طلب مدام (١١۳ شہود: روایت ،نظارہ ،دید( )١١۴حق تعالی کا مشاہدہ ،جس چیز پر نظر )ڈالے حق ہی کو دیکھے ،غیر حق کو نہ دیکھے (١١۵ شراب: )جذبہء حق (١١۶ شمع: )انوا ِر الہی (١١٧ شیشہ : )دل (١١۸ صبح : )احوا ِل سالک کا طلوع ،ظاہری صورتوں میں ظہوری (١١۹ ظلم : )کسی چیز کو ایسے مقام پر رکھنا جو اس کا اہل نہ ہو(١٢٠ عاشق:جو ساتھ حق کے ہروقت مستغرق اور متوجہ ہو۔ غیر حق کا جانا اور
)ناچیز کو دینا (ا)١٢طال ِب حق ،سالک ،صوفی (١٢٢ )آشفتہء جمال حق (١٢۳ عدم: )نیستی ،فنا(١٢۴ عشق: )ح ِب الہی ( )١٢۵چسپیدگی ،بہم پیوستگی ،جذب باہم ،کشش(١٢۶ عقل: )خیر و شر میں تمیز کرنے کا آلہ (١٢٧ علم : )آدا ِب شریعت اور آدا ِب علماء کونظر میں رکھنا (١٢۸ غیب : )جو چیز اللہ تعالی اپنے بندوں سے پوشیدہ رکھے (١٢۹ غیر : عالم ،کون ،اس کے دواقسام ہیں عالم لطی ِف جو روح ،عقول ونفوس کی طرح ہے ١۔عالم کثیف ۔ عرش ،کرسی ،فلک ،خاک ،آب ،باد ،آتش ،نباتات٢ ،۔ حیوان وغیرہ ۔ اس مرتبے کو ماسوائے اللہ )اور کائنات بھی کہتے ہیں (١۳٠
فریاد: )بلند آواز سے ذکر کرنا(ا١۳ باطنی احوال کا اظہار(فغاں: )١۳٢ فقیر : جس کو مرتبہ فنا حاصل ہو گیا ہو ()١۳۳جس قدر وہ تصرف کرے وہ کم نہ ہو بلکہ دنیا و آخرت میں اللہ کو بس اورماسوائے اللہ کوہوس سمجھے()١۳۴نام اللہ کے گرہ میں کچھ نہ ہو )(١۳۵ فنا: خودی کو نا بود کر دینا ،قدم اور حدوث کے درمیان کا تفرقہ و )تمیز مٹ جانا (١۳۶ فراق: )مقا ِم وحدت سے غیبت ،مشاہدہء حق سے محرومی ،جدائی(١۳٧ حق سے خلق کی طرف واپس آنا( فرق: )١۳۸ نزدیکی بدر گا ِہ الہی(قرب: )١۳۹
قضا: )حق اللہ تعالی کا کلی حکم (١۴٠ کعبہ: )مقا ِم وصال(١۴١ کثرت: )مخلوقات اور ظہو ِر اسماء جس کے مقابل وحدت ہے (١۴٢ گذاز: )ہست ِی سالک کا ٹوٹنا (١۴۳ معشوق حقیقی کے فراق میں آنسو بہانا(گریہ: )١۴۴ )گوہر/گہر :اصل ،ذات بے صفات(١۴۵ لب: )د ِل درویش ،صف ِت حیات(١۴۶ لالہ: )خیال،دل،مسلمان،مرضی (١۴٧ معلوم:ظاہر()١۴۸علم جبکہ وجود میں داخل ہو اس وقت وجود میں جہل اور شرک اور کفر اورعج ِب حجابات ظلمانی کے ساتھ
)نہ رہیں(١۴۹ مرد: )اہل کمال ،عارف(١۵٠ مست: محوو ،منہمک مستغر ق ،کسی ایک خیال میں ڈوبا )ہوا،مسرور(،)١۵١اہل شوق و جذب(١۵٢ مسجد : )مقام خود بینی،مانع مشاہدہء محبوب(١۵۳ مستی:)عشق میں مکمل گرفتاری سے حسرت و طمانیت ،سک ِراول(١۵۴ مطرب: )فیض بخش،عال ِم معنی(١۵۵ معشوق: )حق تعالی،تجلیا ِت ربانی جن پر ادراک کا پردہ پڑا ہوا ہے(١۵۶ مقام: طالب کا حقو ِق مطلوب کو سخت اور صحیح نیت سے ادا کرنا )(١۵٧ ممکن:
)عال ِم مثال ماسوائے اللہ ،عالم(١۵۸ موجود: اللہ تعالی کی موجود حقیقت ہے اور کائنات موجود اضافی ہے جو حق تعالی سے موجود ہے()١۵۹جو اپنے وجود کا )تقاضا کرتا ہے۔اپنی ذات کو ظاہر کرنے والا(١۶٠ منزل: )سالک کی جائے قیام(١۶١ میخانہ: )قل ِب و اصلان(١۶٢ میکدہ: مقا ِم عشق ومستی ()١۶۳عار ِف کامل کا باطن ،عال ِم لاہوت ،مقا ِم )محویت جس میں سالک کو مرتبہ فنا حاصل ہو (١۶۴ موج: )ذات باری کا ایک حصہ ،وجود حق کا ایک جز ،انسان(١۶۵ مینا: )قل ِب عاشق(١۶۶عش ِق الہی ،وہ ذوق جو عالم باطن سے سالک کے دل پر وارد ہو مے:
Search
Read the Text Version
- 1
- 2
- 3
- 4
- 5
- 6
- 7
- 8
- 9
- 10
- 11
- 12
- 13
- 14
- 15
- 16
- 17
- 18
- 19
- 20
- 21
- 22
- 23
- 24
- 25
- 26
- 27
- 28
- 29
- 30
- 31
- 32
- 33
- 34
- 35
- 36
- 37
- 38
- 39
- 40
- 41
- 42
- 43
- 44
- 45
- 46
- 47
- 48
- 49
- 50
- 51
- 52
- 53
- 54
- 55
- 56
- 57
- 58
- 59
- 60
- 61
- 62
- 63
- 64
- 65
- 66
- 67
- 68
- 69
- 70
- 71
- 72
- 73
- 74
- 75
- 76
- 77
- 78
- 79
- 80
- 81
- 82
- 83
- 84
- 85
- 86
- 87
- 88
- 89
- 90
- 91
- 92
- 93
- 94
- 95
- 96
- 97
- 98
- 99
- 100
- 101
- 102
- 103
- 104
- 105
- 106
- 107
- 108
- 109
- 110
- 111
- 112
- 113
- 114
- 115
- 116
- 117
- 118
- 119
- 120
- 121
- 122
- 123
- 124
- 125
- 126
- 127
- 128
- 129
- 130
- 131
- 132
- 133
- 134
- 135
- 136
- 137
- 138
- 139
- 140
- 141
- 142
- 143
- 144
- 145
- 146
- 147
- 148
- 149
- 150
- 151
- 152
- 153
- 154
- 155
- 156
- 157
- 158
- 159
- 160
- 161
- 162
- 163
- 164
- 165
- 166
- 167
- 168
- 169
- 170
- 171
- 172
- 173
- 174
- 175
- 176
- 177
- 178
- 179
- 180
- 181
- 182
- 183
- 184
- 185
- 186
- 187
- 188
- 189
- 190
- 191
- 192
- 193
- 194
- 195
- 196
- 197
- 198
- 199
- 200
- 201
- 202
- 203
- 204
- 205
- 206
- 207
- 208
- 209
- 210
- 211
- 212
- 213
- 214
- 215
- 216
- 217
- 218
- 219
- 220
- 221
- 222
- 223
- 224
- 225
- 226
- 227
- 228
- 229
- 230
- 231
- 232
- 233
- 234
- 235
- 236
- 237
- 238
- 239
- 240
- 241
- 242
- 243
- 244
- 245
- 246
- 247
- 248
- 249
- 250
- 251
- 252
- 253
- 254
- 255
- 256
- 257
- 258
- 259
- 260
- 261
- 262
- 263
- 264
- 265
- 266
- 267
- 268
- 269
- 270
- 271
- 272
- 273
- 274
- 275
- 276
- 277
- 278
- 279
- 280
- 281
- 282
- 283
- 284
- 285
- 286
- 287
- 288
- 289
- 290
- 291
- 292
- 293
- 294
- 295
- 296
- 297
- 298
- 299
- 300
- 301
- 302
- 303
- 304
- 305
- 306
- 307
- 308
- 309
- 310
- 311
- 312
- 313
- 314
- 315
- 316
- 317
- 318
- 319
- 320
- 321
- 322
- 323
- 324
- 325
- 326
- 327
- 328
- 329
- 330
- 331
- 332
- 333
- 334
- 335
- 336
- 337
- 338
- 339
- 340
- 341
- 342
- 343
- 344
- 345
- 346
- 347
- 348
- 349
- 350
- 351
- 352
- 353
- 354
- 355
- 356
- 357
- 358
- 359
- 360
- 361
- 362
- 363
- 364
- 365
- 366
- 367
- 368
- 369
- 370
- 371
- 372
- 373
- 374
- 375
- 376
- 377
- 378
- 379
- 380
- 381
- 382
- 383
- 384
- 385
- 386
- 387
- 388
- 389
- 390
- 391
- 392
- 393
- 394
- 395
- 396
- 397
- 398
- 399
- 400
- 401
- 402
- 403
- 404
- 405
- 406
- 407
- 408
- 409
- 410
- 411
- 412
- 413
- 414
- 415
- 416
- 417
- 418
- 419
- 420
- 421
- 422
- 423
- 424
- 425
- 426
- 427
- 428
- 429
- 430
- 431
- 432
- 433
- 434
- 435
- 436
- 437
- 438
- 439
- 440
- 441
- 442
- 443
- 444
- 445
- 446
- 447
- 448
- 449
- 450
- 451
- 452
- 453
- 454
- 455
- 456
- 457
- 458
- 459
- 460
- 461
- 462
- 463
- 464
- 465
- 466
- 467
- 468
- 469
- 470
- 471
- 472
- 473
- 474
- 475
- 476
- 477
- 478
- 479
- 480
- 481
- 482
- 483
- 484
- 485
- 486
- 487
- 488
- 489
- 490
- 491
- 492
- 493
- 494
- 495
- 496
- 497
- 498
- 499
- 500
- 501
- 502
- 503
- 504
- 505
- 506
- 507
- 508
- 509
- 510
- 511
- 512
- 513
- 514
- 515
- 516
- 517
- 518
- 519
- 520
- 521
- 522
- 523
- 524
- 525
- 526
- 527
- 528
- 529
- 530
- 531
- 532
- 533
- 534
- 535
- 536
- 537
- 538
- 539
- 540
- 541
- 542
- 543
- 544
- 545
- 546
- 547
- 548
- 549
- 550
- 551
- 552
- 553
- 554
- 555
- 556
- 557
- 558
- 559
- 560
- 561
- 562
- 563
- 564
- 565
- 566
- 567
- 568
- 569
- 570
- 571
- 572
- 573
- 574
- 575
- 576
- 577
- 578
- 579
- 580
- 581
- 582
- 583
- 584
- 585
- 586
- 587
- 588
- 589
- 590
- 591
- 592
- 593
- 594
- 595
- 596
- 597
- 598
- 599
- 600
- 601
- 602
- 603
- 604
- 605
- 606
- 607
- 608
- 609
- 610
- 611
- 612
- 613
- 614
- 615
- 616
- 617
- 618
- 619
- 620
- 621
- 622
- 623
- 624
- 625
- 626
- 627
- 628
- 629
- 630
- 631
- 632
- 633
- 634
- 635
- 636
- 637
- 638
- 639
- 640
- 641
- 642
- 643
- 644
- 645
- 1 - 50
- 51 - 100
- 101 - 150
- 151 - 200
- 201 - 250
- 251 - 300
- 301 - 350
- 351 - 400
- 401 - 450
- 451 - 500
- 501 - 550
- 551 - 600
- 601 - 645
Pages: