Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore لفظیات غالب کا تحقیقی و ساختیاتی مطالعہ

لفظیات غالب کا تحقیقی و ساختیاتی مطالعہ

Published by maqsood5, 2017-02-02 03:15:54

Description: abk_ksr_mh.946/2016

لفظیات غالب کا تحقیقی و ساختیاتی مطالعہ
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
جنوری ٢٠١٧

Search

Read the Text Version

‫کاکھیل وغیرہ کے لئے بو لا جاتا ہے۔ مثلاا‬ ‫تماشاہونا‪:‬‬ ‫ہنسی مذاق ‪ ،‬کرتب ‪،‬کھیل‬ ‫جمع کرتے ہوکیوں رقیبوں کو اک تماشاہ ہوا گلانہ ہوا‬ ‫تما شاہوجانا‪:‬‬ ‫ہنسی ٹھٹھا مذاق بن جانا ‪ ،‬معاملہ الٹا ہونا‬ ‫آئے تھے اس مجمع میں قصد کرے دور سے ہم تماشے کے لئے آپ‬ ‫ہی تماشا ہوگئے (‪ )٢۵‬درد‬‫تماشا کردن کا ترجمہ تماشا کربمعنی دیکھ ‪ ،‬ملاحظہ کربھی پڑھنے کو‬ ‫ملتا ہے‬ ‫لب خندان گل کا شبنم آسا تماشا کر بہ چش ِم ترچلے ہم جہاں داد‬ ‫تماشا دیکھئے بمعنی ملاحظہ کیجئے‬‫کیا آہ کے تیشے میں لگا تا ہوں جگر پر آؤ دیکھئے تما شا مرا‪ ،‬فرہاد‬ ‫کہاں حاتم‬ ‫سیر کھنچنا ‪:‬‬ ‫دیکھنا‬ ‫کسی کو گلگشت چمن کا ہے دماغ اے باغبان کھینچ کر سیر اگربیان‬ ‫یاں لے آتی ہے بہارسودا‬ ‫گویا کر دن کے لئے کئی اردومصادر تجویز ہوئے ہیں جبکہ تماشا‬

‫کودیکھنے کے علاوہ کھیل ‪،‬کرتب ‪ ،‬ہنسی مذاق وغیرہ کے معنوں میں‬ ‫بھی لیا جاتا ہے۔ غالب کے ہاں ’’تماشا کیجئے ‘‘ کاایک اور استعمال‬ ‫ملاحظہ فرمائیں‬ ‫خانہ ء ویراں ساز ِی حیرت تماشا کیجئے صورت نق ِش قدم ہوں رفتہء‬ ‫رفتا ِر دوست‬ ‫جاگرم کرنا‪:‬‬ ‫جاگرم کردن ‪ ،‬ایک جگہ پر دیر تک بیٹھے رہنا ‪ ،‬مراقبہ ۔بیٹھنا ‪،‬‬‫ٹھکانہ کرنا ‪ ،‬پڑاؤ ڈالنا ‪ ،‬قیام کرنا ‪ ،‬اقامت اختیار کرنا ‪ ،‬مستقل طور پر‬ ‫کسی جگہ بیٹھنا وغیرہ مفاہیم میں یہ محاورہ رواج نہیں رکھتا‪ ،‬غالب‬ ‫نے کردن کو کرنا میں بدل دیاہے۔ جا‪ ،‬جگہ اور کئی دوسروں معنوں‬ ‫میں مستعمل ہے۔ گرم بھی اردو کے لئے نیا لفظ نہیں تاہم فارسی‬ ‫مفاہیم میں استعمال نہیں ہوتا۔غالب کے ہاں اس محاورے کا استعمال‬ ‫دیکھئے‬ ‫کی اس نے گرم سینہء اہ ِل ہوس میں جا آوے نہ کیوں پسند کہ ٹھنڈا‬ ‫مکان ہے‬ ‫غالب نے دل میں سمانا ‪ ،‬محبت ہونا ‪ ،‬قلبی وابستگی ‪ ،‬عشق ‪ ،‬محبت‬ ‫وغیرہ مفاہیم میں استعمال کیاہے۔‬ ‫جبیں گ ِھسنا‪:‬‬ ‫ماتھا رگڑنا ‪ ،‬کم مائیگی کا احساس‬ ‫غالب نے دل میں سمانا‪ ،‬محبت ہونا ‪ ،‬قلبی وابستگی ‪ ،‬عشق ‪ ،‬محبت‬ ‫وغیرہ مفاہیم میں استعمال کیاہے۔‬

‫اردو میں ماتھا رگڑنا بمعنی پیشانی گ ِھسنا ‪ ،‬عاجزی سے سجد ہ کرنا ‪،‬‬ ‫جبہ سائی کرنا ‪ ،‬خوش آمد کرنا ‪ ،‬نہایت عاجزی کرنا (‪ )٢۶‬استعمال‬ ‫میں آتا ہے۔ خاک پر جبین گ ِھسنا اردو بو ل چال کے مطابق نہیں ہے۔‬‫یہ ترجمہ برا نہیں چونکہ اسلوب اردو سے میل نہیں رکھتا اسی لئے‬ ‫عوامیت کے درجے پر فائز نہیں ہوسکا۔‬ ‫ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے گ ِھستا ہے جبیں خا ک پہ‬ ‫دریا مرے آگے‬ ‫حدیث کرنا‪:‬‬ ‫حدیث کردن ‪ ،‬بیان کرنا‬ ‫کردن ‘‘ کے لئے اردو مصدر ’’ کرنا‘‘ استعمال میں لایا گیا ہے۔ ’’‬ ‫حدیث کرنا ‪ ،‬عر ِف عام سے معذو ررہا ہے۔ عام طور پر بیان کرنا‬ ‫استعمال میں آتا ہے ۔ فارسی استعمال کا اپنا ہی حسن ہے‬‫صہبا زروی تو باہر گل حدیثے کروا رقیب چوں رہ غماز دار در حرمت‬ ‫حافظ‬ ‫صبا نے تیرے رخ سے ساتھ ہر ایک پھول کے بات کی‬ ‫)رقیب نے جب چغل خور کوراہ دی بیچ تیر ے مکان کے (‪٢٧‬‬ ‫غالب کے ہاں اس محاورے کا ترجمہ ملاحظہ ہو‬ ‫جبکہ میں کرتا ہوں اپنا شکوہء ضع ِف دماغ‬ ‫سرکرے ہے وہ حدی ِث زل ِف عنبر با ِر دوست‬ ‫سرکرنا ‪،‬‬

‫زلف سر کرنا ‪ ،‬اردو محاورے نہیں ہیں ۔ حدیث سرکرنا بھی اردو بو‬ ‫ل چال سے دور ہے۔ اردو محاورے میں سرانجام کرنا ‪ /‬ہونا مستعمل‬ ‫ہے۔ غالب نے اردو کو تین محاوروں سے نواز اہے۔‬ ‫خوش آنا‪:‬‬ ‫خوش آمدن ‪ ،‬اچھالگنا ‪ ،‬اچھا محسوس ہونا‬ ‫خوش اطوار ( اچھی عادات کا حامل ) خوش الحان ( اچھی آواز والا)‬ ‫خوشامد ( چاپلوسی ) خوشبودار ( عمدہ خوشبوو الی چیز) ‪ ،‬خوش‬ ‫بخت ( اچھے نصیب والا) وغیرہ فارسی مرکبات اردو زبان کے لئے‬ ‫نئے اور اجنبی نہیں ہیں ۔ خوش کے ساتھ مصدر ’’ آنا ‘‘ کی بڑھوتی‬ ‫رواج عام سے محروم ہے۔ تاہم یہ محاورپڑھنے کو مل جاتا ہے اور‬ ‫فصیح بھی ہے۔ لیکن عوامیت کے درجے پر فائز نہیں ۔ استعمال کی‬ ‫صرف دومثالیں ملاحظہ ہوں‬ ‫دل نہیں کھینچتا ہے ب ِن مجنوں بیاباں کی طرف‬ ‫خوش نہیں آتا نظر کرنا غزالاں کی طرف(‪ )٢۸‬یقین‬ ‫بس ہجوم گل سے اپنے کیا خوش آئی ہے بسنت‬ ‫باغ میں گلرو کے آگے رنگ لائی ہے بسنت ( ‪)٢۹‬چندا‬ ‫اب غالب کے ہاں اس محاورے کا استعمال دیکھئیے‬‫ہر غنچے کا گل ہونا گلشن کو تری صحبت ازبسکہ خوش آئی ہے‬ ‫آغوش کشائی ہے غالب‬ ‫خوش آمدن ‘‘ کے تراجم پڑھنے کو ملتے ’’خوش آنا کے سوا بھی‬

‫ہیں۔ مثلاا‬ ‫اب چھیڑیہ رکھی ہے کہ عاشق ہے توکہیں‬ ‫)القصہ خوش گزرتی ہے اس بدگمان سے (‪ )۳٠‬میر (خوش گزرنا‬ ‫تجھ سے کچھ دیکھا نہ ہم جز جفا پر وہ کیا کچھ ہے کہ جی بھا‬ ‫)گیا(‪)۳١‬درد (بھاجانا‬‫کشاکش کو ہمارا عقدہ ء بہ فیض بیدلی نو مید ِی جاوید آساں ہے‬ ‫)مشکل پسند آیا غالب ( پسند آنا‬ ‫خوش آنا ‪،‬‬ ‫اردو لغت میں بمعنی اچھالگنا ‪ ،‬پسند آنا ‪ ،‬مرغوب ہونا (‪ )۳۴‬داخل‬ ‫ہے جبکہ خوش گزرنا ‪ ،‬بھا جانا ‪ ،‬پسند آنا اردو بول چال سے خارج‬ ‫نہیں ہیں ۔ خوش آنا ‪ ،‬راس آنا کے معنوں میں بھی بولا جاتاہے۔ یہ‬ ‫ترجمہ فصیح خیال کیا جاتا ہے اور اہل زبان کو خوش آتارہاہے۔‬ ‫خجالب کھینچنا‪:‬‬ ‫خجالت کشیدن ‪ /‬بردن ۔ یہ محاور ہ فارسی میں شرمسار ہونا ‪،‬‬ ‫شرمندہ ہونا (‪ )۳۳‬کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں خجالت‬ ‫ہونا ‪ ،‬خجالت اٹھانا استعمال میں آتا ہے۔ غالب کے ہاں یہ ترجمہ‬ ‫‪:‬شرمندگی کے معنوں میں استعمال ہواہے‬‫ڈالانہ بے کسی نے کسی سے معاملہ اپنے سے کھینچتا ہوں خجالت ہی‬ ‫کیوں نہ ہو‬ ‫الہ وردی خاں جلیس بردار سعادت یار خاں رنگین کے ہاں بھی یہ‬

‫محاورہ( خجالت کشیدن ) برتاگیا ہے‬ ‫تیرے دھن سے ازبسکہ کھینچے ہے اک خجالت‬ ‫غنچہ وہ کون سا ہے جو سرفرو نہ آیا‪۳۴‬جلیس‬ ‫خط کھینچنا‪:‬‬‫خط کشیدن فارسی میں چھوڑدینا ‪ ،‬ترک کردینا کے معنوں میں استعمال‬ ‫ہوتاہے۔ خط کھینچنا ‪ ،‬خط کشیدن ہی کا اردو ترجمہ ہے اور یہ ترجمہ‬‫اردو کے لئے اجنبی نہیں ۔یہ اردو کے محاوراتی ذخیر ہ میں اپنی جگہ‬ ‫رکھتا ہے۔ لکیر کھینچنا ‪ ،‬قلمزد کرنا ‪،‬نشان کرنے کے لئے لکیر‬‫کھینچنا (‪ )۳۵‬لغوی معنی لئے ہوئے ہے۔ غالب کے ہاں اس ترجمے کا‬ ‫استعمال ملاحظہ ہو‬ ‫بے مے کسے ہے طاق ِت آشوب آگہی کھینچا ہے عج ِز حوصلہ نے خط‬ ‫ایاغ کا‬‫غالب نے مفہوم میں اردو کی پیروی نہیں کی ۔ مفہوم فارسی ہی رہنے‬ ‫دیا ہے۔‬ ‫خط کھینچنا ‪:‬‬ ‫محو کرنا ‪ ،‬مٹا دینا ‪ ،‬چھوڑ دینا ‪( ،‬کا ) پابند نہ رہنا ‪( ،‬کے) مطابق‬ ‫پابند ی نہ کرنا‬ ‫قلم کھینچنا بھی اس محاورے کاترجمہ سامنے آتاہے مثلاا‬ ‫بخط ہند ہے قائم گویا مرا دیواں زبس کہ لکھ کے میں ہر بیت پر قلم‬ ‫کھینچنا (‪ )۳۶‬قائم‬

‫خمیازہ کھینچنا‪:‬‬‫خمیازہ کشیدن کا اردو ترجمہ ہے خمیازہ کشیدن فارسی میں جمائی لینا‬‫‪ ،‬رنج اٹھانا ‪ ،‬پشمان ہونا کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ غالب نے‬ ‫اس ترجمے کو انگڑائی لینا کے معنوں میں استعمال کیاہے۔‬ ‫اردو میں خمیازہ بھگتنا ‪ ،‬خمیازہ اٹھانا استعمال مینآتا ہے خمیازہ‬ ‫کھنچنا ‪ ،‬اردو میں جمائی لینا کے معنوں میں مستعمل نہیں ۔ غالب‬‫کایہ ترجمہ ایسا نیا نہیں۔ میر صاحب کے ہاں اس کا استعمال دیکھئے‬ ‫اس میکدے میں ہم بھی مدت سے ہیں ولیکن‬ ‫خمیازہ کھینچتے ہیں ‪ ،‬ہر دم جماہتے ہیں (‪ )۳۸‬میر‬ ‫ایک دوسری جگہ’’‪ ،‬خمیازہ کش‘‘بطور مرکب (فاعل) نظم کرتے ہیں‬ ‫بند ِہ قباکوخوباں جس وقت واکریں گے خمیازہ کش جوہوں گے ملنے‬ ‫)کے ‪ ،‬کیا کریں گے (‪۳۹‬‬ ‫دامن کھینچنا‪:‬‬ ‫دامن کشیدن ‪ ،‬یہ محار ہ فارسی میں کنی کترانا کے معنوں میں‬‫استعمال ہوتا ہے جبکہ دامن نہاون ‪ ،‬دامن بچھانا کے لئے استعمال میں‬ ‫آتا ہے۔ اردو میں کشیدن کے لئے کھینچنا ‪ ،‬نہادن کے لئے بچھانا‬ ‫معاون افعال استعمال میں آتے ہیں ۔ غالب نے دامان چھٹنا بمعنی بس‬ ‫میں نہ رہنا ‪ ،‬بردارشت کی حد ختم ہونا ‪ ،‬صبر کا یارانہ رہنا ‪ ،‬مزید‬ ‫سہہ پانے کی ہمت نہ ہونا‪ ،‬مقدورسے باہر ہوناوغیرہ کے مفاہیم میں‬ ‫استعمال کیاہے۔ ِا س محاورے کی روح میں نہ کر سکنا ‪ ،‬ہاتھ کھنیچ‬ ‫لینا ( بہ امر مجبوری سہی) موجود ہے۔‬

‫کہ داما ِن خیا ِل یار سنبھلنے دے مجھ اے ناامیدی کیا قیامت ہے‬ ‫چھوٹا جائے ہے مجھ سے‬‫مرزا سودا نے دامن کھینچنا کو پکڑ لینا کے معنوں میں استعمال‬ ‫کیاہے‬‫پیچھے سے تودامن کے تئیں خار نے کھینچنا‬ ‫اور سرد ہوکے لگا‬ ‫)روکنے آتا ( سودا‬‫قائم چاندپوری کے ہاں دامان کھینچنا نظم ہواہے‬‫مقتل کی جاہے داما ِن جاں جو کھینچے ہے گرد اس زمیں کی یوں‬ ‫آہ یہ کس خاکسارکی (‪ )۴٠‬قائم‬‫میر صاحب کے ہا ں مرکب ’’ دامن کشاں‘‘ پڑھنے کو ملتا ہے‬‫کیا ہوا دامن کشاں آتے ہے غبا ِر میر اس کی رہ گزر میں اک طرف‬ ‫بھی یاں تک یار کو (‪ )۴١‬میر‬‫دامن کشیدن ‪ /‬نہادن کی مختلف اشکال اورتراجم اردو زبان کے ذخیر‬ ‫ے کا حصہ رہے ہیں ۔‬ ‫دل دینا‪:‬‬‫دل دادن کا غالب نے دل دینا ترجمہ کیا ہے‬‫؂ دل دیا جان کے کیوں ا س کووفادار اسد غلطی کی کہ جوکافر کو‬ ‫مسلماں سمجھا‬ ‫غالب نے عاشق ہونا ‪ ،‬فریفتہ ہونا کے معنوں میں ’’ دل دینا ‘‘ کا‬‫استعمال کیا ہے۔ فارسی میں ان ہی معنوں میں ’’دل باختن ‘‘ مستعمل‬

‫ہے۔ دل گرفتہ ‪ ،‬حواس باختہ ایسے مرکبات عام پڑھنے سننے کو‬ ‫ملتے ہیں ۔ غالب کے ترجمہ میں دل باختہ کی روح کا ر فرما نظر آتی‬ ‫ہے تاہم دادن کے لئے دینا مصدر استعمال میں آتاہے۔ اگر دل گرفتہ‬ ‫مانوس نہیں تو دل باختہ میں کیا کمی ہے ۔ بہر طور غالب کے ہاں‬ ‫ایک اور مثال ملاحظہ ہو‬ ‫دینا نہ اگردل تمہیں لیتا کوئی دم چین اور کرتا جونہ مرتا کوئی دن آہ‬ ‫وفغاں اور‬ ‫دل دینے کے سبب بے چینی ملی ۔بے چینی ‪ ،‬فریفتگی کے باعث‬ ‫ممکن ہے۔ گویاجانا ‪ ،‬اڑنا کی بجائے ’’ دینا‘‘ مصد ر استعمال میں لایا‬‫گیا ہے۔ ان ہی مفاہیم میں ’’ دل دینا ‘‘ کاقائم کے ہاں استعمال دیکھئے‬‫ہم نے یہ سوچ پیش تر نہ کیا (‪ )۴٢‬دل نہ دینا ہی خوب تھا پر حیف !‬ ‫قائم‬ ‫ایک دوسری جگہ ’’ دل گنوانا ‘‘ نظم کرتے ہیں ۔دال گنوانا کے مفاہیم‬ ‫بھی تقریباا وہی مفاہیم ہیں‬ ‫دل گنوانا تھا اس طرح قائم؟ کیا کیا تونے ہائے خانہ خراب (‪ )۴۳‬قائم‬ ‫آفتاب کے ہاں ’’ دل جانا ‘‘ برتاگیا ہے‬ ‫گھر غیر کے جو یار مر ارات سے گیا جی سینے سے نکل گیا ‪ ،‬دل‬ ‫سے گیا (‪ )۴۴‬آفتاب‬ ‫دل جھکنا ‘‘استعمال میں لائے ہیں ’’خواجہ درد‬ ‫جھکتا نہیں ہمارا دل تو کسی طرف یاں جی میں بھر ا ہواہے از بس‬ ‫غرور تیر ا (‪ )۴۵‬درد‬

‫ان محاور وں میں عشق میں مبتلا ہونا ‪ ،‬فریفتگی وغیرہ ایسے عناصر‬ ‫پائے جاتے ہیں ۔ یہ دل دادن ‪ /‬باختن سے جڑے ہوئے ہیں ۔‬ ‫دل کردن کا ترجمہ ہے ۔ کسی چیز کی تمنایا خواہش ہونا دل کرنا‪:‬‬ ‫دل باندھنا‪:‬‬‫دل باندھنا ‪ ،‬دل بستن کا اردو ترجمہ ہے۔ غالب کے ہاں اس ترجمے کا‬ ‫استعمال ملاحظہ فرمائیں‬ ‫ہزار آئینہ دل باندھے ہے بال برن ِگ کا غ ِذآتش زدہ نیر ن ِگ بے تابی‬ ‫یک تپیدن پر‬ ‫دل باندھنا ‘‘ ترجمہ کرچکے ہیں ۔ ’’غالب سے پہلے قائم چاندپوری‬‫فرق اتنا ہے کہ غالب کے شعر میں باندھنا استعمال میں آیا ہے اور پر‬ ‫کے سوا تما م الفاظ فارسی کے ہیں ۔معنی ہمت اور کاہش وکاوش لئے‬ ‫گئے ہیں ۔ قائم نے برداشت ‪ ،‬صبر کے معنوں میں یہ ترجمہ نظم‬ ‫کیاہے۔‬ ‫دل کو کیا باندھے ہے گلزا ِر جہاں سے بلبل حسن ِاس باغ کا اک روز‬ ‫خزاں ہووے گا( ‪)۴۶‬قائم‬‫دل باندھنا ‪ ،‬قائم کے شعرمیں دل لگانا‪ ،‬محبت میں گرفتار ہونا ‪ ،‬فریفتہ‬ ‫ہونا ‪ ،‬تعلق استوار ہونا ‪ /‬کرنا معنی لئے ہوئے ہے۔ یہ محاورہ اردو‬ ‫جی ’’لغت کا‪،‬بطور محاورہ بمعنی دل کو مائل کر لینا (‪ )۴٧‬حصہ ہے۔‬ ‫چاہنا‘‘ بھی ان مفاہیم میں استعمال کرتے ہیں۔‬‫طبیعت آنا‘‘ بمعنی توجہ ‪ ،‬مائل ہونا ‪ ،‬رجوع کرنا بھی اسی قماش کا ’’‬ ‫محاورہ موجود ہے‬

‫جانتا ہوں ثوا ِب طاعت و زہد پر طبیعت اِدھر نہیں آتی‬‫اِس محاورے کے لئے رجوع کردن ‪ ،‬رجعت کردن محاورے موجود ہیں‬‫لیکن یہ محاورہ مفہومی او ر استعمالی حوالہ سے دل باندھنا کے زیادہ‬ ‫قریب لگتاہے۔‬ ‫رنج کھینچنا‪:‬‬ ‫یہ محاورہ ’’ رنج کشیدن ‘‘ سے ہے مشقت ‪ ،‬مصیبت ‪ ،‬دکھ ‪ ،‬آزار ‪،‬‬ ‫غم کے معنوں میں استعمال ہوتاہے۔ اردو میں ’’ رنج اٹھانا ‘‘ کے‬ ‫مترادف خیال کیا جاتا ہے۔ غالب کے ہاں اس محاورے کا استعمال‬ ‫ملاحظہ ہوں‬ ‫رنجِ رہ کیوں کھینچے واما ندگ ِی کوعشق ہے اٹھ نہیں سکتا ہمارا جو‬ ‫قدم منزل میں ہے‬ ‫اس فارسی محاورے کے اور تراجم بھی پڑھنے کو ملتے ہیں ۔مثلاا‬ ‫لاتے ہووق ِت نزع تشریف کا ہے کو‬ ‫اتنی بھی اب کھینچے تکلیف کا ہے کو(‪ )۴۸‬بیاں‬ ‫تکلیف کھینچنا‪:‬‬ ‫زحمت اٹھانا‪/‬کرنا ‪ ،‬دکھ اٹھانا ‪ ،‬طنز اا تکلف کرنا ‪ ،‬کیا ضرورت زحمت‬ ‫کرنے کی‬ ‫کہاں ہے مرگ کہ جو ں شمع دے مجھے تسکیں‬ ‫بہت میں دا ِغ محبت سے یاں الم کھینچا (‪ )۴۹‬قائم‬ ‫الم کھینچنا‪:‬‬

‫صعوبت اٹھانا ‪ ،‬دکھ برداشت کرنا‬ ‫پورن سنگھ پورن خجل ہونا ‪ ،‬بمعنی خراب ہونا ‪ ،‬پریشان ہونا‬ ‫باندھتے ہیں۔‬‫پیچ وخم کاکل میں مت جائیوں دل شب کو اس راہ میں تو چل کر ہوئے‬ ‫نہ خجل شب کو (‪ )۵٠‬پورن کاتیہ‬ ‫میر حسین تسکین نے آزار کھینچنا نظم کیاہے ٍ‬ ‫برسوں گذر گئے مجھے آزاد تی ِغ نگا ِہ یار اچٹتی لگی تھی پر‬ ‫کھینچے (‪ )۵١‬تسکین‬ ‫غالب سے پہلے میر صاحب ’’ رنج کھینچنا ‘‘ نظم کر چکے ہیں‬ ‫رنج کھینچے تھے ‪ ،‬داغ کھائے تھے دل نے صد مے بڑے اٹھائے‬ ‫تھے (‪ )۵٢‬میر‬ ‫چندا کے ہاں اذیت کھینچنا استعمال میں آیا ہے‬‫کوئی کھینچے لئے جاتا ہے تن سے روح کیا کیجئے اذیت کھینچے ہیں‬ ‫یار کیا کیا تیری یاری میں (‪ )۵۳‬چندا‬ ‫مجموعی طور پر تکلیف کھینچنا ‪ ،‬الم کھینچنا ‪ ،‬خجل ہونا ‪ ،‬آزار‬ ‫کھینچنا ‪ ،‬اذیت کھینچناوغیرہ ’’رنج کھینچنا‘‘ کے کھاتے میں جاتے‬ ‫ہیں ۔‬ ‫روا رکھنا‪:‬‬ ‫روا بودن بمعنی جائز ہونا ‪ ،‬شایستہ ہونا ‪ ،‬رواداشتن بمعنی حلا ل یا‬ ‫جائز سمجھنا ‪ ،‬دونوں محاورے فارسی میں رواج عام رکھتے ہیں ۔‬

‫اردو میں داشتن کے لئے رکھنا مصدر استعمال کیا جاتاہے۔ یہ محاورہ‬‫( روا رکھنا ) استعمال میں آتا رہتاہے۔ روادار ‪ ،‬رواداری ایسے مرکبات‬ ‫بھی عام بولے جاتے ہیں ۔ غالب کے ہاں اس محاورے کااستعمال‬ ‫دیکھئے‬ ‫روا رکھونہ رکھو تھا لفظ تکیہ کلام اب اس کو کہتے ہیں اہل سخن‬ ‫سخن تکیہ‬ ‫روا رکھنا‪:‬‬ ‫جائز سمجھنا ‪ ،‬مناسب خیال کرنا ‪ ،‬ضروری سمجھنا ‪ ،‬اہمیت سمجھنا‬ ‫میر صاحب اور قائم چاند پوری نے بھی یہ محاورہ استعمال کیا ہے‬ ‫گویا غالب کے ہاں پہلی بار ترجمہ سامنے نہیں آیا‬ ‫جیتے ہیں جب تلک ہم آنکھیں بھی لڑتیاں ہیں‬ ‫دیکھیں تو جور خوباں کب تک روا رکھیں گے (‪ )۵۴‬میر‬ ‫جائز سمجھتے ہیں ‪( ،‬یہ وتیرہ کب تک ) اختیار کئے رکھتے ہیں‬ ‫روا رکھوں نہ کہ ہووے ملک بھی پاس ترے‬ ‫کیا ہے بس کہ محبت نے بدگماں مجھ کو ( ‪ )۵۵‬قائم‬ ‫خاطر میں لانا ‪ ،‬حیثیت اور وقعت سمجھنا ‪ ،‬اہمیت ‪ ،‬قدرو قیمت ہونا‬ ‫رخصت دینا‪:‬‬ ‫فارسی محاورہ ’’ رخصت داشتن ‘‘ کا اردوترجمہ ہے۔ غالب نے‬ ‫رخصت دینا کو فارسی مفہوم کے ساتھ استعمال کیا ہے ۔ اردو میں‬

‫رخصت دینا ‪ ،‬اجازت دینا ‪ ،‬چھٹی دینا (‪ )۵۶‬کے معنوں میں برتا‬ ‫جاتاہے۔ غالب کے ہاں ’’ رخصت دینا‘‘ کا استعمال ملاحظہ ہو‬ ‫رخص ِت نالہ مجھے دے کہ مبادا ظالم تیرے چہرے سے ہو ظاہر غم‬ ‫پنہاں میر ا‬ ‫قائم چاند پوری کے ہاں بھی یہ ترجمہ استعمال میں آیا ہے‬ ‫کیا گلہ شومئی طالع سے کہ بلبل کے تئیں جن نے دی رخص ِت گلگشت‬ ‫ہمیں دام دیا(‪ )۵٧‬قائم‬ ‫اب رفعت ‪ ،‬شاگرد حضرت صبہائی کے ہا ں اس محاورے کا استعمال‬ ‫دیکھئے‬ ‫بہ ذو ِق ناز کودے رخص ِت جفا کہ یہاں‬ ‫ہمیں بھی عزم ہے طاقت کے آزمانے کا (‪ )۵۸‬رفعت‬ ‫زندگی گذرنا‪:‬‬ ‫زندگانی ‪/‬زندگی کردن بمعنی زندگی بسرکرنا فارسی میں عام استعمال‬ ‫کا محاورہ ہے۔ اردو میں زندگی کاٹنا ‪ ،‬زندگی بسرکرنا ‪ ،‬زندگانی‬ ‫‪/‬زندگی کردن کے معنوں میں بولے جاتے ہیں اور فصیح سمجھے‬ ‫جاتے ہیں ۔ زندگی ہونا ‪ ،‬زندگی مکمل ہونے کے لئے پڑھنے سننے‬ ‫میں آتا ہے۔عوامی حلقوں میں زندگی بسر کرنا کے لئے بو لاجاتا ہے۔‬‫یہ محاورہ اردو میں فارسی کے حوالہ سے ترکیب و تشکیل پائے ہیں۔‬ ‫غالب کے ہاں اس کا استعمال کچھ یوں ہواہے‬ ‫یوں زندگی بھی گذرہی جاتی کیوں تراراہ گزر یا د آیا‬

‫کرنا اور کٹنا مصادر کے ساتھ اِ س محاورے کا غالب سے پہلے‬ ‫ترجمہ نظر آتاہے‬‫کر زندگی ِا س طور سے اے درد جہاں میں خاطر پہ کسو شخص کے‬ ‫تو بار نہ ہووے (‪ )۵۹‬درد‬ ‫زندگی کرنا بمعنی زندگی بسرکرنا‬ ‫جتنی بڑھتی ہے اتنی گھٹتی زندگی آپ ہی آپ کٹتی ہے (‪ )۶٠‬درد‬ ‫زندگی کٹنا بمعنی زندگی بسر ہونا‬‫خواجہ صاحب نے ایک جگہ زیست کرنا استعمال کیا ہے لیکن تفہیم ’’‬‫ہوچکا ‘‘ لی ہے۔ گئے کی جگہ ’’ ہیں ‘‘ نظم کرتے تو بات ماضی سے‬ ‫حال میں آجاتی ہے عامل کاحذف کلاسیکی دور میں روا رہاہے‬ ‫تھاعال ِم جبر کیا بتائیں کس طور سے زیست کرگئے ہم (‪ )۶١‬درد‬ ‫میر حسین تسکین شاگرد امام بخش صہبائی ‪ ،‬شاہ نصیراور مومن ‪،‬‬ ‫زندگی ہوونا کوزندگی بسر ہونا کے معنوں میں استعمال کیاہے‬‫زندگی ہووے گی کس طور سے یار ب اپنی دم میں سو بار اگر یوں وہ‬ ‫خفا ہووے گا(‪ )۶٢‬تسکین‬ ‫قائم چاندپوری کے ہاں عمر گذرنا ‪ ،‬زندگی کردن کے ترجمہ کی‬ ‫صورت میں محاورہ استعمال میں آیا ہے‬‫گذاری اک عمر گرچہ قفس میں ہمیں ‪،‬پہ ہے جی میں وہی ہوائے گل و‬ ‫گلستان ھنوز (‪ )۶۳‬قائم‬ ‫میر صاحب نے عمر جانا کو زندگی کردن کے مترادف کے طور پر‬

‫نظم کیا ہے‬ ‫تما م عمر گئی ا س پہ ہاتھ رکھتے ہمیں وہ درد ناک علی ال ّر غم بے‬ ‫قرار رہا (‪ )۶۴‬میر‬ ‫غالب کے ہاں عمر کٹنا محاورہ بھی پڑھنے کوملتاہے‬ ‫بے عشق عمر کٹ نہیں سکتی ہے اور یاں طاق ِت بقد ِر لذت آزار بھی‬ ‫نہیں‬ ‫قائم چاند پوری نے ( بمعنی گذرنا ) عمر کٹنا کا استعمال کیاہے‬ ‫سرت ِہ بال کٹی عمر مری ‪ ،‬بلبل کو قاب ِل سیر مگریہ گل وگلزار نہ تھا‬ ‫(‪ )۶۵‬قائم‬ ‫شاہ مبارک آبرو نے زندگانی کاٹنا بمعنی زندگی کردن ‪ ،‬برتاہے‬ ‫زندگانی تو ہر طرح کاٹی مرکے پھر جیونا قیامت ہے(‪ )۶۶‬آبرو‬ ‫زخم کھانا‪:‬‬ ‫زخم خوردن فارسی میں زخمی ہونا کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔‬‫اردو میں یہ محاورہ زخمی ہونا ‪ ،‬مجروع ہونا ‪ ،‬صدمہ اٹھانا (‪ )۶٧‬کے‬‫معنوں میں استعمال ہوتا چلا آتا ہے۔ یہ محاور ہ فارسی سے اردو میں‬ ‫وارد ہواہے۔ خوردن کا اردو مترادف مصدر ’’کھانا ‘‘ہے۔ غالب کے‬ ‫ہاں اِ س محاورے کا استعمال ملاحظہ ہو‬ ‫عشر ِت پارہ ء دل زخم تمنا کھانا عیدنظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا‬ ‫خواجہ حیدر علی آتش نے صدمہ کھینچنا بمعنی زخم خوردن برتا ہے‬

‫صدمہ کھینچے نہ ر ِگ کیااثر ہومری آہوں سے بتوں کے دل میں‬ ‫سنگ کبھی نشتر کا (‪ )۶۸‬آتش‬ ‫میر صاحب کے ہاں زخم جھیلنا اور داغ کھانا بھی استعمال میں آئے‬ ‫ہیں‬‫زخموں پہ زخم جھیلے داغوں پہ داغ کھائے یک قطرہ خون د ِل نے کیا‬ ‫کیا ستم اٹھائے (‪ )۶۹‬میر‬ ‫ساغر کھینچنا‪:‬‬ ‫ساغر کشیدن ‪ ،‬شراب کے پیالے کو دور کردینا ‪ ،‬شراب پینا‬ ‫۔ساغرکھینچ ‪ ،‬ساغر کشیدن کا اردو ترجمہ ہے ۔ شراب یعنی مقصد ‪،‬‬ ‫بقول غلام رسول مہر‬‫مقصود کے می ّسر ہونے پر کامل یقین رکھنا ‪ ،‬دام ِن آرزو کبھی نہیں ’’‬ ‫)‪‘‘ (٧٠‬چھوڑنا چاہیے‬ ‫غالب نے ساغر کشیدن کا ترجمہ ساغر کھینچ کیاہے‬ ‫نفس نہ انجمن آرزو سے باہر کھینچ اگر شراب نہیں انتظا ِر ساغر‬ ‫کھینچ‬ ‫سفرہ کھینچ‪:‬‬ ‫سفرہ کشیدن کا ترجمہ ’’سفرہ کھینچ‘‘ کیا گیا ہے۔ دسترخوان پر کباب‬ ‫کھینچنا یا کباب رکھنا فصیح نہیں ہے۔ کباب رکھنا یا فلاں ڈش رکھنا‬ ‫پڑھنے سننے میں آتا ہے تاہم کھینچ یا رکھنا کی بجائے ’’ چننا ‘‘‬‫امداد ی فعل زیادہ جاندار اور فصیح ہے۔ غالب کا یہ ترجمہ متاثر نہیں‬ ‫کرتا۔ شاید اس لئے رواج نہیں پاسکا‬

‫مرے قدح میں ہے صہبائے آتش پنہاں بروئے سفرہ کباب د ِل سمند ر‬ ‫کھینچ‬ ‫سرگرم کرنا‪:‬‬‫سرگرم کردن کی اردو شکل غالب کے ہاں ’’سرگرم کرنا‘‘ ہے۔اردو میں‬ ‫سرگرمی معروف ہے۔ غالب کے ہاں اکسانے کے معنوں میں سرگرم‬ ‫کرنا استعمال میں آیا ہے۔ غلام رسول مہر آمادہ کرنا کے معنوں میں‬ ‫لے رہے ہیں ۔ (‪ )٧١‬سر گرم کرنا ‪ ،‬اردو میں رواج نہیں رکھتا ۔‬ ‫تیارکرنا‪ ،‬آمادہ کرنا ‪ ،‬جوش دلانا ‪ ،‬قائل کرنا وغیرہ ایسے محاورے ‪،‬‬ ‫ضرورت کے مطابق استعمال میں آتے رہتے ہیں‬ ‫غالب کے ہاں سرگرم کرنا کا استعمال ملاحظہ ہو‬ ‫د ِل نازک پہ اس کے رحم آتا ہے مجھے غالب نہ کر سرگرم ا س کافر‬ ‫کو الفت آزمانے میں‬ ‫شام کا صبح کرنا‪:‬‬ ‫شام راسحر کردن کا ترجمہ ہے یعنی انتظا رکرنا ‪ ،‬وقت گذار نا ‪ ،‬وقت‬ ‫کا ٹنا ‪ ،‬رات گزارنا ‪ ،‬غالب کایہ ترجمہ برا نہیں لیکن عوامیت کی سند‬ ‫حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ غالب کے ہاں ِا س کا استعمال‬ ‫دیکھئے‬ ‫کاوکا ِو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ صبح کرنا شام کالانا ہے‬ ‫جوئے شیر کا‬‫خواجہ درد کا یہ شعر دیکھیں ’’ شام راسحر کردن‘‘ کی بازگشت سنائی‬ ‫دیتی ہے‬

‫اے ہجر کوئی شب نہیں جس کو سحر نہیں پر صبح ہوتی ہے آج تو‬ ‫)آتی نظر نہیں (‪٧٢‬‬ ‫آفتاب کا یہ شعر پڑھیں ِا س میں اس محاور ے کی بو بوس محسوس‬ ‫ہوتی ہے‬ ‫کون سی شام کو ترے غم میں آہ رو ر و کے میں سحر نہ کیا(‪)٧۳‬‬ ‫آفتاب‬ ‫طرف ہونا‪ :‬طرف شدن کاترجمہ ہے خلاف ہونا ‪ ،‬منہ لگنا ‪ ،‬مقابل آنا ۔‬ ‫کے ہاں اس کا استعمال دیکھئے میر صاحب‬ ‫طرف ہونا مرامشکل ہے میر ِا س شعر کے فن میں‬ ‫یوں ہی سوداکھبو ہوتاہے سو جاہل ہے کیا جانے (‪ )٧۴‬میر‬ ‫رنداں در میکدہ اب غالب کے ہاں اس ترجمے کا استعمال دیکھئے‬ ‫گستاخ ہیں زاہد ز نہار نہ ہونا طرف ِان بے ادبوں سے‬ ‫فریب کھانا‪:‬‬ ‫فریب خوردن کاترجمہ ہے ۔ دھوکہ کھانا ‪،‬جال میں پھنسنا ‪ ،‬غالب نے‬ ‫خوردن کاترجمہ ’’ کھائیو‘‘ کیاہے ۔ ئیو ‪ ،‬پنجابی لاحقہ ہے ۔ ہریانی ‪،‬‬ ‫دکنی ‪،‬راجھستانی ‪ ،‬گوجری وغیرہ میں بھی یہ لاحقہ استعمال میں آتا‬‫ہے۔ کھائیو ‪ ،‬کھانا کی فعلی شکل نہیں ہے۔ غالب کے ہاں اس محاورے‬ ‫کا استعمال ملاحظہ ہو‬ ‫ہاں کھائیومت فری ِب ہستی ہر چند کہیں کہ ’’ ہے‘‘ نہیں ہے‬

‫نواب عباس علی خاں بیتاب نے ’’ کھا‘‘ استعمال کیاہے‬ ‫آخر فریب کھا کے ا س نے مجھ کو قتل کیا‬ ‫میں نے کہاتھا تم سے اٹھائیں گے مرکے ہاتھ (‪ )٧۵‬بتیاب‬ ‫گفتار میں آونا‪:‬‬ ‫گفتار آمدن ‪ ،‬فارسی میں بولنے لگے ‪ ،‬گفتگو کرنا کرنا شروع کر‬ ‫دے ‪ ،‬کے معنوں میں برتا جاتاہے۔ ولی ؔ دکنی نے گفتار ‪ ،‬کرنا (ں)‬ ‫بمعنی بات چیت استعمال کیا ہے‬ ‫سہیلیاں جب تلک مجھ سوں نہ بولیں گے ولی آکر‬ ‫مجھے تب لگ کسی سوں بات ہور گفتار کرنا ں کیا(‪ )٧۶‬ولی‬ ‫غالب نے گفتار میں آوے بمعنی بولنا شروع کر دے ‪،‬نظم کیا ہے‬ ‫اس چشم فسوں گرکا اگر پائے اشارہ طوطی کی طرح آئینہ گفتار میں‬ ‫آوے‬ ‫پنجابی اسلوب ولہجے کے سبب یہ محاورہ اردو میں پھل نہیں سکا ۔‬ ‫مرغوب آنا‪:‬‬‫مرغوب آمدن ؛ جس طرف راغب ہو‪ ،‬جو اچھالگے ‪ ،‬جو پسند یدہ ہو ‪،‬‬ ‫خوش آنا ‪ ،‬مرغوب ہونا ‪ ،‬جو من کو بھا جائے‬ ‫ادائیں ابھائے ‪ ،‬پسندیدہ‬ ‫مرغوب آنا ‪ ،‬اردو میں معروف نہیں ہوسکا۔ غالب کا شعر دیکھئے ۔‬ ‫آیا کے سوا پورا شعر فارسی میں ہے‬

‫شمار سجہ مرغو ِب ب ِت مشکل پسند آیا تماشائے بیک کف بردن صددل‬ ‫پسند آیا‬ ‫منت کھینچنا‪:‬‬‫منت کشیدن ؛ کسی کا زیر بار احسان ہونا‬‫منت کھینچنا‪ ،‬کہلوانا ‪ ،‬احسان مند ہونا‪ ،‬احسان اٹھانا ‪ ،‬درخواست کرنا‬ ‫‪،‬کسی دوسرے کی سفارش کروانا‬‫غیرکی منت نہ کھینچوں گا پے توقیر داد‬ ‫زخم مث ِل خندہء قاتل ہے‬ ‫)سرتا پا نمک (غالب‬‫آفتاب نے ’’ منت اوٹھانا ‘‘ برتاہے‬‫طالع بید ار کی منت اوٹھانے بھی نہ دی اس سے شب ہم کوتمنا خواب‬ ‫میں لائی ملا (‪ )٧٧‬آفتاب‬‫منت کھینچ ‘‘ باند ھا ہے’’میر قاقر علی جعفری نے‬‫بے سروپا چمن ودشت میں عالم کے نہ پھر نازہر گل نہ اٹھا ‪ ،‬منت ہر‬ ‫خارنہ کھینچ (‪ )٧۸‬جعفری‬ ‫مے کھینچنا‪:‬‬ ‫مے کشیدن‪ ،‬فارسی میں شراب کشید کرنے کے معنوں میں استعمال‬‫استعمال میں آتاہے ‘‘ہوتاہے۔ جبکہ شراب پینے کے لئے ’’ مے کشی‬ ‫مستعمل ہے۔ شرابی کے لئے ’’مے کش ‘‘ ‘‘۔اردو میں ’’ مے کشی‬ ‫بولتے ہیں۔ مے کشی کے لئے ’’مے کھینچنا ‘‘ نہیں بولتے ‪،‬خمار‬‫چرس کھینچنا ‘‘ برتا ’’کھینچنا ‘‘ استعمال میں آتا ہے۔ شاہ مبارک آبرو‬

‫ہے۔ کھینچنا سے’’پینا‘‘ مرادلیتے ہیں‬ ‫مرے شوخِ خراباتی کی کیفیت نہ کچھ پوچھ‬‫بہا ِر حسن کو دے آب جب ان نے چرس کھینچا (‪ )٧۹‬آبرو‬ ‫غالب کا شعر ملاحظہ کریں‬‫صحب ِت رنداں سے واجب ہے حذر‬ ‫جائے مے اپنے کو کھینچا‬ ‫چاہیے‬‫غلام رسول مہر ’’ مے کھینچنا ‘‘ کی شرح میں رقمطراز ہیں‬‫کھینچنا ‘‘ پیچھے ہٹنا‪ ،‬پر ہیز کرنا ‪ ،‬بچنا ‪ ،‬مے کے ساتھ کھینچنا ’’‬ ‫)‪‘‘ (۸٠‬میکشی کاترجمہ ہے ۔ جس کا مطلب شراب پینا ہے‬ ‫نا زکھینچنا‪:‬‬‫ناز کشیدن ‪،‬کسی کا ناز ونخرااٹھانا ‪ /‬برداشت کرنا ۔اردو محاورے میں‬ ‫ناز اٹھانا کو فصیح خیال کیا جاتاہے۔ تاہم ’’ناز کھینچنا بھی مستعمل‬ ‫رہاہے۔مثلاا‬‫مجھ ناتواں نے کیا کیا پروانہ رات شمع سے کہتا تھا را ِز عشق‬ ‫اٹھایا ہے نا ِز عشق (‪ )۸١‬سودا‬‫میر صاحب کے ہاں ’’ناز کھینچنا ‘‘ نظم ہواہے‬‫کھینچے گا کون پھر یہ جینا مراتو تجھ کو غنیمت ہے ناسمجھ!‬ ‫ترے ناز میر ے بعد(‪ )۸٢‬میر‬‫یہاں کھینچنا کواٹھانا کے مترادف استعمال میں لایا گیا ہے۔ غالب کے‬

‫ہاں اس ترجمے کا کچھ اس طرح سے استعمال ہواہے‬ ‫وہ دن بھی ہو کہ اس ستمگر سے ناز کھینچوں بجائے حسر ِت نا ز‬ ‫اس ستمگر کے ناز اٹھاؤ ’’شعر کے حوالہ سے ناز اٹھا نا بنتا ہے۔‬ ‫ں‘‘میں مزا اور ذائقہ ہی نہیں۔‬ ‫نالہ کھینچنا‪:‬‬ ‫نالہ کشیدن ‪ ،‬رونا دھونا ‪ ،‬گریہ وزاری کرنا ‪ ،‬فغاں کرنا ۔ نالہ کھینچنا‬ ‫‪ ،‬اردو بول چال سے لگا نہیں رکھتا جبکہ مترادف محاورے آہ بھرنا ‪،‬‬‫آہ کرنا ‪ ،‬فغاں کرنا ‪ ،‬آہ کھینچنا ‪ ،‬فریا د کرنا ‪ ،‬نالہ کرنا وغیرہ استعمال‬ ‫میں رہتے ہیں ۔ دوتین مثالیں ملاحظہ ہوں‬ ‫دوری میں کروں نالہ وفریا دکہاں تک اک بار تو اس شوخ سے یار ب‬ ‫! ہو ملاقات (‪ )۸۳‬میر‬‫نہ کیانالہ ہم نے پر نہ کیا (‪ )۸۴‬قائم ٹکڑے کب غم نے یہ جگر نہ کیا‬ ‫دیتا نہ اگردل تمہیں لیتا کوئی دم چین اور کرتا جو نہ مرتا کوئی دن آہ‬ ‫)وفغاں اور (غالب‬ ‫نالہ کش اور نالہ کشی کا میر صاحب کے ہاں استعمال ہواہے‬ ‫تجھ ب ِن شکیب کب تک بے فائدہ ہوں نالاں مجھ نالہ کش کے تواے‬ ‫فریاد رس کدھر ہے(‪ )۸۵‬میر‬ ‫کرنالہ کشی کب تئیں اوقات گزاریں فریاد کریں کس سے ‪ ،‬کہاں جاکے‬ ‫پکاریں (‪ )۸۶‬میر‬ ‫غالب کے ہاں ’’نالہ کھینچنا ‘‘ کااستعمال دیکھئے‬

‫شوق کویہ لت کہ ہر دم نالہ کھینچے جائے دل کی وہ حالت کہ دم لینے‬ ‫سے گھبرا جائے ہے‬ ‫نقش کھینچنا‪:‬‬ ‫نقش کشیدن ‪ ،‬نقش بستن ‪ ،‬دونوں فارسی کے معروف محاورے ہیں۔‬ ‫صورت بنانا ‪ ،‬خیال باندھنا ‪ ،‬تصویر بنانا ‪ ،‬تصور کرنا وغیرہ کے‬ ‫معنوں میں استعمال ہوتے ہیں ۔ ان فارسی محاوروں کے اردو تراجم‬ ‫پڑھنے کو ملتے رہتے ہیں ۔مثلاا‬ ‫پہ تجھ سا صفحہء ہستی پہ طراز کل ِک قضا او ربھی توہیں مشہور‬ ‫نقش کم کھینچا(‪ )۸٧‬قائم‬‫نقاش نے قاتل کی جو تصویر کو کھینچا ابرو کی جگہ پرد م شمشیر کو‬ ‫)کھینچا (‪۸۸‬‬ ‫بنایا یار کی صورت کو وہ نقا ِش قدرت نے کچھے نقشہ نہ ایسا مانی‬ ‫وبہزاد سے ہرگز (‪ )۸۹‬چندا‬ ‫غالب نے ’’ نقش کھینچنا ‘‘ بمعنی تصویر بنانا نظم کیاہے۔‬‫نقش کو اس کے مصور پر بھی کیاکیا ناز ہیں کھینچتا ہے جس قدر اتنا‬ ‫ہی کھینچا جائے ہے‬ ‫نفس کھینچنا‪:‬‬ ‫نفس کشیدن ‪ ،‬سانس لینا ‪ ،‬وقت گزارنا ‪ ،‬زندگی بسرکرنا ‪ ،‬جس حالت‬ ‫میں ہوں اسی میں رہنا اور اس سے باہر نہیں آنا چاہیے غالب سے‬ ‫پہلے یہ محاورہ ارود میں ترجمہ ہوچکاہے‬

‫کھینچا نہ میں چمن میں آرام یک نفس کا صیادتیری گردن ہے خون‬ ‫اس ہوس کا ( ‪ )۹٠‬سودا‬‫مبادا آت ِش دل شعلہ پھر نفس بھی کھینچتے اب جی مرا دھٹرکتا ہے‬ ‫بلندے کرے (‪ )۹١‬مصحفی ؔ‬‫نہ موے ہم اسیری میں تو نسیم کوئی دن اور باؤ کھائیے گا(‪ )۹٢‬میر‬‫اب غالب کے ہاں استعمال دیکھئے‬‫نفس نہ انجم ِن آرزو سے باہر کھینچ اگر شراب نہیں انتظا ِر ساغر‬ ‫کھینچ‬ ‫نموکرنا‪:‬‬ ‫نمود کردن ‪ ،‬بالیدگی پیداکرنا ‪ ،‬پھلنا پھولنا ‪ ،‬بڑھنا ۔اردو میں نمو کے‬‫ساتھ ’’کرنا ‘‘ امدادی فعل استعمال میں نہیں آتا ۔ فارسی میں بھی کوئی‬ ‫ایسالفظ نہیں جس کا آخیر متحرک یا مشدد کہ فارسی میں عربی کے‬ ‫ایسے الفاظ کو ساکن الاخرکر لیا جاتاہے۔ غالب نے فارسی کی تقلید‬ ‫میں نمو کردن کے لئے ’’نموکرنا ‘‘ محاورہ بنالیاہے‬‫دیکھ کر تجھ کو چمن بسکہ نمو کرتاہے‬ ‫خود بخود پہنچے ہے گل‬ ‫گوشہ ء دستار کے پاس‬ ‫ہوش اڑنا‪:‬‬‫ہوش از سررفتن ‪ ،‬ہوش اڑجانا ‪ ،‬ششد ررہ جانا ‪ ،‬مبہوت ہونا (‪ )۹۳‬ہو‬ ‫ش اڑنابمعنی حواس باختہ ہونا ‪ ،‬گھبرا جانا ‪ ،‬عقل ٹھکانے نہ رہنا ‪،‬‬ ‫حیرت میں آجانا (‪)۹۴‬غالب نے آپے میں نہ رہنا کے معنوں میں اس‬ ‫‪:‬ترجمے کا استعمال کیاہے‬

‫ہوش اڑتے ہیں مرے جلو ہ ء گل دیکھ اسد پھر ہوا وقت کہ ہو بال کشا‬ ‫موج شراب‬‫بدھ سنگھ قلندر کے اس شعر میں ’’ ہوش اڑنا ‘‘ کی روح گار فرما ہے‬‫مجھ کو کیا مے جنو ں نے آکردی ساری عقل وخرد ہواکردی (‪)۹۵‬‬ ‫قلندر‬‫عقل و خرد ہواکرنا‪ /‬ہونا ‪ ،‬ہو ش اڑنا کے ہی مترادف ہے یہ محاورہ‬ ‫فصیح ہے لیکن رواجِ عام نہیں رکھتا۔‬ ‫حواشی‬‫فیروز ‪٢‬۔ فرہنگ فارسی ‪ ،‬ڈاکٹر محمد عبد الطیف‪ ،‬ص ‪١ ۳‬۔‬ ‫اللغات ‪ ،‬مولوی فروز الدین‪ ،‬ص‪۳‬‬‫فیروز اللغات ‪،‬ص ‪۴ ٢۴‬۔ فرہنگ فارسی‪ ،‬ص ‪۳ ۵‬۔‬‫فرہنگ فارسی ‪۶‬۔ نوائے فروش ‪ ،‬غلام رسول مہر‪ ،‬ص‪۵ ۴۵۹‬۔‬ ‫‪،‬ص ‪۳٠‬‬‫تذکرہ مخز ِن نکات ‪ ،‬قائم چاندپوری‪ ،‬ص‪٧ ۳۴‬۔‬‫کلیات میر ج ا‪ ،‬میر تقی ‪۹‬۔ تذکرہ مخز ِن نکات‪ ،‬ص ‪۸ ١۳۴‬۔‬ ‫میر‪ ،‬ص ‪۳۵۵‬‬‫دیوان زادہ ‪،‬شیخ ‪١١‬۔ دیوان درد‪،‬خواجہ درد ‪ ،‬ص‪١٠ ٢۳۵‬۔‬ ‫ظہور الدین حاتم ‪،‬ص ‪١٧۸‬‬‫‪١۳‬۔ فیروز اللغات ‪،‬ص ‪١٢ ١۶۸‬۔‬ ‫نوائے سروش‪،‬غلام رسول‬ ‫مہر ‪ ،‬ص ‪۵۴۵‬‬

‫نوائے ‪١۵‬۔ کلیا ِت قائم ج ا‪ ،‬قائم چاندپوری ‪ ،‬ص ‪١۴ ٢٠‬۔‬ ‫سروش ‪،‬ص‪٧٧‬‬‫روح المطالب فی شرح دیوان غالب‪ ،‬شاداں بلگرامی ‪ ،‬ص ‪١۶‬۔‬‫فیروز اللغات ‪،‬ص ‪١۸ ٢۹٢‬۔ نوائے سروش‪ ،‬ص ‪١٧ ٢۴۳‬۔‬‫دیوا ِن درد‪،‬خواجہ درد ‪ ،‬ص ‪١۹ ١٧٠‬۔‬ ‫تذکرہ مخزن ‪٢٠‬۔‬ ‫نکات‪ ،‬ص ‪١۵۸‬‬‫تذکرہ مخزن نکات‪٢٢ ،‬۔ تذکرہ مخزن نکات‪ ،‬ص‪٢١ ١۵٠‬۔‬ ‫ص‪۴١‬‬‫دیوان درد‪ ،‬ص ‪٢۴ ١۴١‬۔ دیوان مہ لقابائی چندا‪،‬ص ‪٢۳ ۹۴۴‬۔‬‫فیروز اللغات‪ ،‬ص ‪٢۶ ١١۸٠‬۔ دیوان درد ‪،‬ص ‪٢۵ ٢٢۳‬۔‬‫تذکرہ ‪٢۸‬۔ شرح دیوان حافظ ج ‪،٢‬عبداللہ عسکری ‪ ،‬ص‪٢٧ ۹۹‬۔‬ ‫مخزن نکات‪ ،‬ص‪١۳٧‬‬‫کلیات ‪۳٠‬۔ دیوان مہ لقابائی چندا ‪،‬مہ لقا بائی چندا‪،‬ص ‪٢۹ ١٠٢‬۔‬ ‫میرج ا‪ ،‬ص ‪۵۶١‬‬‫فیروز اللغات‪ ،‬ص ‪۳٢ ۶٠٠‬۔ دیوان درد‪،‬ص ‪۳١ ١٢۹‬۔‬‫تذکرہ گلستا ِن ‪۳۴‬۔ فرہنگ فارسی‪،‬ڈاکٹر عبدالطیف ‪،‬ص‪۳۳ ۳٢۳‬۔‬ ‫سخن ج ا‪ ،‬مرزا قادر بخش صابر‪،‬ص ‪۳٧۶‬‬‫کلیا ِت قائم ج ا‪ ،‬ص ‪۳۶ ٢۴‬۔ فیروز اللغات ‪،‬ص ‪۳۵ ۵۹٢‬۔‬‫کلیا ِت میر ج ا‪،‬ص‪۳۸ ۳٠۳‬۔ فیروز اللغات‪ ،‬ص ‪۳٧ ۵۹۶‬۔‬

‫کلیا ِت قائم ج ا‪،‬ص ‪۴٠ ٢۶٧‬۔ کلیا ِت میر ج ا‪،‬ص ‪۳۹ ۴۸۵‬۔‬‫کلیا ِت قائم ج ا‪،‬ص ‪۴٢ ۹‬۔ کلیات میرج ا ‪،‬ص ‪۴١ ۳۹٠‬۔‬‫شاہ عالم ثانی آفتاب احوال وادبی ‪۴۴‬۔ کلیا ِت قائم ‪،‬ص ‪۴۳ ۵٧‬۔‬ ‫خدمات‪،‬ڈاکٹر خاور جمیل‪ ،‬ص ‪١۹٠‬‬‫کلیا ِت قائم ج ا‪ ،‬ص ‪۴۶ ۴۳‬۔ دیوا ِن درد‪،‬ص ‪۴۵ ١١۶‬۔‬‫تذکرہ مخز ِن نکات‪ ،‬ص ‪۴۸ ١٢۹‬۔ فیروز اللغات ‪،‬ص ‪۴٧ ۳۴‬۔‬‫کلیا ِت قائم ج ا‪ ،‬ص ‪۴۹ ٢۴‬۔‬ ‫تذکرہ گلستا ِن سخن ج ا از ‪۵٠‬۔‬ ‫مرزا قادر بخش دہلوی ‪،‬ص ‪۳٢۴‬‬‫کلیات میر ج ا ‪،‬ص ‪۵٢‬۔ تذکرہ گلستان سخن ج ا‪ ،‬ص ‪۵١ ۳۴٠‬۔‬ ‫‪۴۶٧‬‬‫‪۵۴‬۔ دیوان مہ لقابائی چندا‪،‬ص ‪۵۳ ١۳۴‬۔‬ ‫کلیا ِت میر ج ‪،١‬ص‬ ‫‪۴۶٧‬‬‫فیروز اللغات ‪،‬ص ‪۵۶ ٧٠٧‬۔ کلیا ِت قائم ج ا ‪،‬ص ‪۵۵ ١٧١‬۔‬‫تذکرہ گلستا ِن سخن ج ا‪۵۸ ،‬۔ کلیات قائم ج ا‪ ،‬ص‪۵٧ ۳۸‬۔‬ ‫ص ‪۵٠۵‬‬‫دیوان در د‪ ،‬ص ‪۶٠ ٢۳٢‬۔ دیوان درد ‪،‬ص ‪۵۹ ٢١۵‬۔‬‫‪۶٢‬۔ دیوان درد‪ ،‬ص ‪۶١ ١۵۸‬۔‬ ‫تذکرہ گلستا ِن سخن ج ا‪،‬ص‬ ‫‪۳۳۹‬‬‫کلیات میر ج ا ‪،‬ص ‪ ۵٠۶‬کلیات قائم ج ا ‪،‬ص ‪۶۴ ۸۴‬۔ ‪۶۳‬۔‬

‫تذکرہ مخز ِن نکات ‪،‬ص ‪۶۶ ۴٢‬۔ کلیات قائم ج ا‪ ،‬ص ‪۶۵ ٢٢‬۔‬‫‪۶۸‬۔ فیروز اللغات‪ ،‬ص ‪۶٧ ۴۴٢‬۔‬ ‫تذکرہ گلستان سخن ج ا‪،‬ص‬ ‫‪٢٢١‬‬‫نوائے سروش‪ ،‬ص ‪٧٠ ١۹۴‬۔ کلیات میر ج ا‪،‬ص ‪۶۹ ۵٠۶‬۔‬‫دیوا ِن درد‪ ،‬ص ‪٧٢ ١٧۸‬۔ نوائے سروش ‪،‬ص ‪٧١ ۳۵٢‬۔‬‫شاہ عالم ثانی آفتاب احوال و ادبی خدمات ‪ ،‬ڈاکٹر محمد جمیل ‪٧۳‬۔‬ ‫خاور ‪،‬ص ‪١۹٠‬‬‫‪٧۵‬۔ کلیات میر ج ا‪ ،‬ص ‪٧۴ ۵۴۳‬۔‬ ‫تذکرہ گلستان ‪،‬سخن ج‬ ‫ا‪،‬ص ‪۳١١‬‬‫‪٧٧‬۔ کلیات ولی ‪،‬ص‪٧۶ ١١١‬۔‬ ‫شاہ عالم ثانی آفتاب احوال و‬ ‫ادبی خدمات‪ ،‬ص ‪١۸۶‬‬‫تذکرہ مخز ِن نکات‪٧۹ ،‬۔ تذکرہ گلستان سخن ج ا‪،‬ص ‪٧۸ ۳٧۴‬۔‬ ‫ص ‪۳۵‬‬‫کلیات سوداج ا‪ ،‬ص ‪۸١ ۸۶‬۔ نوائے سروش‪ ،‬ص ‪۸٠ ۶١۳‬۔‬‫کلیات میر ج ا‪،‬ص ‪۸۳ ٢١۵‬۔ کلیا ِت میر ج ا‪ ،‬ص ‪۸٢ ٢٢٧‬۔‬‫کلیا ِت میرج ا‪،‬ص ‪۸۵ ۴۹۸‬۔ کلیا ِت قائم ج ا‪،‬ص ‪۸۴ ۸‬۔‬‫کلیا ِت قائم ج ا‪ ،‬ص ‪۸٧ ٢۴‬۔ کلیات میر ج ا ‪،‬ص ‪۸۶ ۳۴۸‬۔‬‫دیوان مہ لقا بائی ‪۸۹‬۔ تذکرہ گلستان سخن ج ا ‪،‬ص ‪۸۸ ٢۵۹‬۔‬ ‫چندا‪،‬ص ‪١۹۹‬‬

‫کلیات مصحفی ج ا‪ ،‬ص ‪۹١ ۵۳۵‬۔ کلیات سودا‪ ،‬ص ‪۹٠ ١١‬۔‬‫فرہنگ فارسی ‪،‬ص ‪۹۳ ١٠١۳‬۔ کلیا ِت میرج ا ‪،‬ص ‪۹٢ ١٧۴‬۔‬‫‪۹۵‬۔ فیروز اللغات‪ ،‬ص ‪۹۴ ١۴۵۶‬۔‬ ‫تذکرہ مخزن نکات‪ ،‬ص‬ ‫‪١٢۵‬‬ ‫باب نمبر‪۵‬‬‫اصطلاحات غالب کے اصطلاحی مفاہیم‬ ‫ہر وحدت (سماج) بے شمار چھوٹی بڑی اکائیوں کے اختلاط و اجماع‬ ‫سے تشکیل پاتی ہے۔ اسی طرح ہر اکائی اس وحدت میں مدغم ہونے‬ ‫کے باوجود بہت سے ذاتی ‪،‬جو اسی سے مخصوص ہوتے ہیں‬ ‫‪،‬اصولوں اوررویوں سے ہاتھ نہیں کھینچتی۔اسی وتیرے کے سبب وہ‬ ‫اپنی ذاتی حیثیت کے ساتھ وحدت میں بھی زندہ رہتی ہے ۔ان‬ ‫مخصوص رویوں اور اصولوں پرکسی قیمت پر کسی سے کمپرومائیز‬ ‫کی سزا وار نہیں ہوتی۔ بہت سے لفظ اس وحدت کے میں کئی اور‬‫مفاہیم کی ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ گویا مفہومی تضاد ہی کسی اکائی کی‬ ‫شناخت ہوتا ہے ۔کتا چار ٹانگوں اور بھونکنے والا جانور ہے لیکن‬ ‫واپڈا والے ایک مخصوص پرزے کو کتا کہتے ہے۔سائیکل مرمت کی‬ ‫دوکان پر یہ لفظ سائیکل کے کسی پرزے سے مخصوص ہے۔الفاظ کی‬

‫ایسی ہی صورتحال سماج کی چھوٹی بڑی اکائیوں میں ہمیشہ سے‬‫موجود رہی ہے۔دراصل یہ مخصوص مفاہیم اس اکائی میں اس لفظ کے‬‫لئے مخصوص ہو چکے ہو تے ہیں اوران کو اس اکائی میں رواج پایا‬ ‫جانے کے سبب نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔‬ ‫اکائی کا کسی وحدت سے انسلاک ‪،‬اسے اس کی تمام تر خصوصیات‬‫اصولوں اور رویوں کو تسلیم کر لینے کی صورت میں ممکن ہوتا ہے‬ ‫بصورت دیگر کسی وحدت کے قیام کا سوال ہی نہیں اٹھاتا۔اکائی میں‬ ‫مستعمل مفاہیم کو تسلیم کئے بِن وحدت کا کام نہیں چلتا۔زیادہ سے‬ ‫زیادہ مفاہیم وحدت کے اظہاری دائروں کو وسعت بخشتے ہیں ۔ ادب‬ ‫اکائیوں کا نمائندہ ہوتا ہے۔ وہ انہیں کسی حال میں نظر انداز نہیں‬ ‫کرسکتا۔ مخصوص صورت کو رقم کرتے وقت اس لفظ کو مرادی‬ ‫معنوں میں ہی لیا جائے گا۔یہ بھی ممکن ہے کہ ادب کو کسی اکائی‬ ‫سے متعلق فرد پڑھتا ہے تو وہ اس کے بعض الفاظ کو غیر شعوری‬‫طور پر مرادی معنی دے سکتا ہے۔ایسے میں تفہیم و تشریح کا بالکل‬ ‫الگ سے حوالہ سامنے آئے گا۔‬‫قاری کسی مخصوص حوالے‪،‬ضرورت ‪،‬حالات وغیرہ کا پابند نہیں ہوتا‬ ‫نہ ہی اسے لغوی معنوں سے کوئی دلچسپی ہو تی ہے۔ اسی طرح‬ ‫شاعرادیب لغت سے زیادہ وسیب کی ہر اکائی سے رشتہ استوار کئے‬‫ہوتا ہے۔وہ لغت سے زیادہ و سیب کے قریب ہوتا ہے۔ یہ معاملہ بعید‬ ‫از قیاس نہیں کہ اس نے الفاظ کو مرا دی معنوں میں استعمال کیا ہو۔‬ ‫اس طرح وہ اپنے کلام میں تہہ داری کا عنصر پیدا کر دیتاہے۔ایسے‬ ‫میں وسیب کی طرف پھر نا زیادہ مناسب ہو گاجبکہ لغت سے تمسک‬ ‫گمراہ کن ہو گا ۔فصحا نے ان مرادی معنوں سے متعلق الفاظ کو‬

‫کا نام دیا ہے۔)‪ (Terms‬اصطلاحات‬ ‫غالب کے ہاں بہت سے ایسے الفاظ کا استعمال ہوا ہے جو اپنی ذات‬ ‫میں اصطلاح بھی ہیں ۔بعض جگہوں پر ان کا اصطلاحی استعمال بھی‬‫ہو اہے یا ایسا محسوس کیا جا سکتا ہے۔مخصوص علاقوں کے قارئین‬ ‫کے علاوہ اصحا ِب دانش کے لئے یہ مرادی معنی دلچسپی سے خالی‬ ‫نہیں ہوں گے۔ان مفاہیم سے آگہی سے تفہیم و تشریح کا زاویہ بدل‬‫جاتا ہے اور بہت سے نئے گوشے سامنے آ سکتے ہیں جو مخصوص‬‫اکائیوں کے علاوہ بھی دلچسپی کا باعث بن سکتے ہینیا پھر ان مفاہیم‬ ‫کے توسط سے ان مخصوص ک ّروں تک اجتماعی نظر جا سکتی ہے‬‫۔اگلے صفحات میں غالب کی اردو غزل میں سے کچھ اصطلاحات کے‬ ‫اصطلاحی مفاہیم درج کئے جا رہے ہیں تاکہ شع ِرغالب کے ان‬ ‫کو ان مفاہیم میں دیکھا جا ئے اور ِاس ضمن میں )‪(Traces‬ٹریسز‬ ‫تفہی ِم شع ِرغالب کی کیا صور ت ہو گی اور کون کون سے نئے حوالے‬ ‫سامنے آئیں گے۔‬ ‫اصطلاحا ِت تصوف‬ ‫آتش‪:‬‬ ‫)جذبہ‪،‬جو ِش ایمانی‪،‬عشق الہی (‪١‬‬ ‫آدم‪:‬‬ ‫)جامع اسماء وصفات و مظہر خدا وندی (‪٢‬‬ ‫آرزو‪:‬‬ ‫)تھوڑی سی آگاہی کے بعد اپنے اصل کی طرف میلان (‪۳‬‬

‫آزاد‪:‬‬ ‫)مرد آزاد(‪۴‬‬ ‫)دوست‪،‬معشو ِق حقیقی(‪ ۵‬آشنا‪:‬‬ ‫آشنائی‪:‬‬ ‫)خدا وند سے تعلق اور اپنی ذات سے بیگانگی (‪۶‬‬ ‫آغوش‪:‬‬ ‫)اسرارو رمو ِز خدا وندی کی دریافت(‪٧‬‬ ‫آفاق‪:‬‬ ‫)عالم فی الخارج‪ ،‬دنیا (‪۸‬‬ ‫آفتاب‪:‬‬ ‫تجل ِی روح جو سالک کے دل پر وارد ہوتی ہے ۔ذات باری‬ ‫)کاجلوہ(‪۹‬‬ ‫آہ‪ :‬آہ‪:‬‬‫عشق الہی کا درد ‪،‬کما ِل عشق کی علامت جس کے بیان سے زبان‬ ‫)قاصر ہو(‪١٠‬‬ ‫آئینہ‪:‬‬ ‫)مظہ ِر علمی ‪،‬انسا ِن کامل کا ذہن ہے(‪(II)١٢‬دل ‪،‬قل ِب صافی‬ ‫ابد‪:‬‬

‫)وہ انتہا جس کی انتہا نہ ہو(‪١۳‬‬ ‫ابر‪:‬‬ ‫)حجابات و مشاہدات یا وصول الی اللہ میں مانع ہوں (‪١۴‬‬ ‫ابرو‪:‬‬ ‫)الہا ِم غیبی(‪١۵‬‬ ‫اثبات‪:‬‬‫احکام خداوندی کا قیام (‪)١۶‬احکام خدا وندی کا قائم کرنا جو اللہ‬ ‫سے ملاتی ہیں‪،‬حق کا ظہور اور خالق کا مخفی ہونا‬ ‫)کسی چیز کے وجود کا اقرار(‪(١٧)١۸‬‬ ‫احوال‪:‬‬‫وہ انعامات جو خدا کی طر ف سے بندے کو پہنچے یہ عارضی‬ ‫اور متنوع ہوتے ہیں‬ ‫اختیار‪:‬‬ ‫)فرد بشر جو کچھ بھی من اللہ ہو اسے کافی تصور کرنا(‪١۹‬‬ ‫ارادہ‪:‬‬ ‫)معدوم کی تخلیق کے تجلی ذات(‪٢٠‬‬ ‫ازل‪:‬‬ ‫)وہ جس کی ابتدا نہ ہو(‪٢١‬‬

‫اشک‪:‬‬ ‫)ہج ِر محبوب میں گداز قلب کا اثر ‪،‬رق ِت قلب کا نشان (‪٢٢‬‬ ‫امتحان‪:‬‬ ‫)دنوں کا مختلف مصائب میں ابتلا(‪٢۳‬‬ ‫اندوہ‪:‬‬ ‫)خیر وشر کے مابین حیرت (‪٢۴‬‬ ‫انسان‪:‬‬ ‫)مرد کامل(‪٢۵‬‬ ‫ایمان‪:‬‬‫نہایت عزیز اور محترم شے ‪ ،‬کامل عقیدت راسخہ ‪،‬حضو ِر حق‬ ‫)میں دانش کی حقدار(‪٢۶‬‬ ‫بادہ‪:‬‬ ‫)نشہء عشق(‪ )٢٧‬محبت الہی‪ ،‬عش ِق حقیقی(‪٢۸‬‬ ‫باطل‪:‬‬ ‫)غیر حق ماسواللہ(‪٢۹‬‬ ‫بام‪:‬‬ ‫)مح ِل تجلیات(‪۳٠‬‬

‫بحر‪:‬‬ ‫)ذا ِت خدا وندی(‪)۳١‬وجو ِد حق تعالی(‪۳٢‬‬ ‫بزم‪:‬‬ ‫)خاص اہل حق کی مجلس (‪۳۳‬‬ ‫بلبل‪:‬‬‫عارف جو نفس امارہ سے راستگاری پاکر ہمیشہ ذکر و فکر میں‬ ‫)مشغول رہے(‪۳۴‬‬ ‫بندگی‪:‬‬ ‫)مقا ِم تکلیف(‪۳۵‬‬ ‫بو‪:‬‬ ‫)آگاہی ‪،‬مقام جمع میں تعلق خاطر سے آگاہی(‪۳۶‬‬ ‫بود‪:‬‬ ‫)بے رنگی ‪،‬وجود ہستی(‪۳٧‬‬ ‫بوسہ‪:‬‬ ‫قبولیت کی استعداد ‪،‬جذبہ باطن‪،‬فیوضیات جو سالک کے دل پر‬ ‫)وارد ہوں(‪۳۸‬‬ ‫پردہ‪:‬‬ ‫)وہ روک جو عاشق اور معشوق کے درمیان ہو(‪۳۹‬‬

‫پروانہ‪:‬‬ ‫)عاشق ‪،‬وجو ِد عاشق(‪۴٠‬‬ ‫پیر‪:‬‬ ‫مرشد ‪،‬ہادی‬ ‫پیام‪:‬‬‫)امرونواہی وہ جذبا ِت محبت جو سالک کے دل پر وارد ہوتے ہیں(‪۴١‬‬ ‫پیمانہ‪:‬‬ ‫)سالک کا دل ‪،‬قل ِب عارف(‪)۴٢‬بادہء حقیقت(‪۴۳‬‬ ‫تاب‪:‬‬ ‫در ِد عشق کی تڑپ ‪،‬معشوق حقیقی کا فراق ‪،‬بے چینی اور‬ ‫)اضطراب(‪۴۴‬‬ ‫تاک‪:‬‬ ‫)دل یا جم(‪۴۵‬‬ ‫تجلی‪:‬‬ ‫معشو ِق حقیقی کا جلوہ ‪،‬انوار غائب جو دلوں پر ظاہر ہو‬ ‫(‪)۴۶‬دلوں پر انوا ِر حق کا نزول‬ ‫تشنہ‪:‬‬

‫)آرزو مند ‪،‬طال ِب حق(‪۴٧‬‬ ‫تقدیر ‪:‬‬ ‫)فطری میلان‪ ،‬بنیادی رججان‪ ،‬افتاد مزاج(‪۴۸‬‬ ‫تمام‪:‬‬ ‫)مر ِد تمام ‪،‬انسان کا مل(‪۴۹‬‬ ‫توبہ‪:‬‬ ‫)ناقص اشیاء سے باز رکھنااور کامل کی جانب رہنمائی(‪۵٠‬‬ ‫جام‪:‬‬‫بادہء معرفت سے مالا مال‪ ،‬حالا ِت عالم (‪)۵١‬عشق الہی کی توفیق‬ ‫)‪،‬باط ِن عارف ‪،‬عاشق کاحوصلہ (‪۵٢‬‬ ‫جفا ‪:‬‬ ‫)قلب سالک سے مشاہدات ‪ ،‬جفا ‪،‬قبض کیفیت(‪۵۳‬‬ ‫جادہ‪:‬‬ ‫)تجلی‪ ،‬انوار‪ ،‬جھلک (‪۵۴‬‬ ‫جنون‪:‬‬ ‫)عشق الہی کی شدت ‪ ،‬پاگل پن‪ ،‬پکی دھن‪ ،‬لگن (‪۵۵‬‬ ‫چہرہ‪:‬‬ ‫)تجلی واحدیت‪ ،‬غیر مادی اشیاء کی تجلیات (‪۵۶‬‬

‫حال‪:‬‬‫سالک کی وہ عارضی کیفیت جو دل میں وارد ہو جیسے حزن و خوف‬ ‫و ذوق و شوق (‪ )۵٧‬ایک وار دات ہے جو دل پر‬ ‫نازل ہو کر اسے اس طرح مزین کر دیتی ہے جیسے روح کو جسم ۔‬ ‫)یہ وقت کا محتاج ہے (‪۵۸‬‬ ‫جسم‪:‬‬ ‫)اجزا ئے پریشان کا اجتماع (‪۵۹‬‬ ‫حجاب‪:‬‬ ‫وہ رکاوٹ جو عاشق کو معشو ِق حقیقی سے الگ رکھے (‪)۶٠‬‬ ‫)حقیقت و وصل کی راہ کی مانع (‪۶١‬‬ ‫حدیث ‪:‬‬ ‫)عاشق کی اپنے محبوب کے سامنے عرض یا درخواست (‪۶٢‬‬ ‫حرم‪:‬‬ ‫)قلب صافی (‪۶۳‬‬ ‫حسن‪:‬‬ ‫)حسن مطلق ‪ ،‬ذات باری (‪۶۴‬‬ ‫حضور‪:‬‬ ‫مقا ِم وحدت ‪،‬قر ِب الہی‪ ،‬قلب کاحاضر ہونا حق کے سامنے اور‬ ‫)خلق سے کنارہ کشی کرنا (‪۶۵‬‬

‫حیرت‪:‬‬‫معشو ِق حقیقی کے سامنے اپنی بے بضاعتی اور بے علمی کا‬ ‫)احساس (‪۶۶‬‬ ‫خال‪:‬‬ ‫)ذا ِت مطلق کی وحدت (‪۶٧‬‬ ‫خرابات‪:‬‬ ‫)فنا کا مقام ‪ ،‬دنیا (‪۶۸‬‬ ‫خصم‪:‬‬ ‫)مالک و آقا (‪۶۹‬‬ ‫)خم‪ :‬جائے وقوف (‪٧٠‬‬ ‫خمار‪:‬‬ ‫)پیر کامل (‪٧١‬‬ ‫خلوت‪:‬‬ ‫)(دنیا)سے کنارہ کشی (‪٧٢‬‬ ‫خیال‪:‬‬ ‫سلوک کی ابتداء اور انتہا کا نکتہ ‪ ،‬تعی ِن ا ّول‪ ،‬حقیقت محمدی‬ ‫(‪ )٧۳‬ایسا خیال جو دل میں رونما ہو اور جلد ہی کسی‬

‫)دوسرے خیال کے آتے ہی ختم ہو جائے (‪٧۴‬‬ ‫درد‪:‬‬ ‫وہ حالت جو ہجر یار میں طاری ہوتی ہے اور محب اس کو‬ ‫)برداشت نہیں کر سکتا (‪٧۵‬‬ ‫دریا‪:‬‬ ‫)وجود باری‪ ،‬ذا ِت بحث (‪٧۶‬‬ ‫دل‪:‬‬ ‫)لطیفہ ء ربانی و روحانی (‪ )٧٧‬حقیق ِت انسانی (‪٧۸‬‬ ‫دوست‪:‬‬ ‫)ذا ِت احدت‪ ،‬حق تعالی (‪٧۹‬‬ ‫دہن‪:‬‬ ‫)انسانی استعداد (‪۸٠‬‬ ‫دید‪:‬‬ ‫)شہود‪ ،‬نظارہ (‪۸١‬‬ ‫دیر‪:‬‬ ‫)عالم انسانی (‪ )۸٢‬خرابات‪ ،‬عالم معنی‪ ،‬عالم حیرت (‪۸۳‬‬ ‫ذات‪:‬‬‫ہست ِی حق (‪ )۸۴‬وجود مطلق اس پر کہ تمام اعتبارات‪ ،‬اضافات‪،‬‬

‫نسبتیں اور وجود اس کے سامنے ساقط ہو‬ ‫)جاتے ہیں (‪ )۸۵‬کسی چیز کی اصلیت اور حقیقت (‪۸۶‬‬ ‫ذکر‪:‬‬ ‫)یاد‪ ،‬نسیان کی ضد (‪۸٧‬‬ ‫ذوق‪:‬‬ ‫حق کے ساتھ حق کی دید‪ ،‬عین جمع میں حق کے واسطے‬ ‫)شہو ِدحق‪ ،‬میلان ‪ ،‬رجحان‪ ،‬صلاحیت (‪۸۸‬‬ ‫راز‪:‬‬ ‫افرنی ِش کا ئنات کاسبب‪ ،‬تخلی ِق عالم کی وجہ‪ ،‬عش ِق از ِل ‪،‬حدیث قدسی‪،‬‬ ‫معرف ِت الہی جو قلوب عرفا میں پوشیدہ‬‫ہوتی ہے ‪،‬را ِز عشق‪ ،‬پوشیدہ ‪ ،‬خفیہ ‪ ،‬پنہاں‪ ،‬حقیقت‪ ،‬نکتہ‪ ،‬باریک اور‬ ‫گہری بات‪ ،‬دقیقہ‪ )۸۹( ،‬اطمینان خاطر‬ ‫)کہ جو جما ِل یا رکے ساتھ ہو (‪۹٠‬‬ ‫رمز‪:‬‬ ‫حقیقت ‪،‬اصلیت ‪،‬ڈھکی چھپی بات ‪ ،‬اشار ہ کنایہ ‪،‬خفیہ تعلق‪،‬‬ ‫)واسطہ خفی (‪۹١‬‬ ‫رند‪:‬‬ ‫رسوم و قیود سے آزاد ‪،‬راہ حق میں بے باک اور حقائق کو کھلم‬ ‫کھلا بیان کرنے والا مرد(‪ )۹٢‬ہوا و ہومیں‬

‫)سے آزاد‪،‬عارف جس کا دل آلائش وکدورت سے پاک ہو(‪۹۳‬‬ ‫رنگین‪:‬‬ ‫)مست‪ ،‬سر شار(‪۹۴‬‬ ‫رہرو‪:‬‬ ‫)سالک ‪،‬عاشق(‪۹۵‬‬ ‫زلف‪:‬‬‫جسمانی صورتوں میں تجلیات ربانی ‪،‬پریشا ِن کرنے والی حالت یا‬ ‫)پریشانی‪ ،‬اِبتلا و آزمائش(‪۹۶‬‬ ‫زمانہ‪:‬‬ ‫)آی ِت الہی ‪،‬خدا کی نشانی (‪۹٧‬‬ ‫زندگی‪:‬‬ ‫شعو ِر خود ‪،‬خود نمائی(‪)۹۸‬اظہا ِر ذات‬ ‫ساقی‪:‬‬ ‫فی ِض معنوی پہنچانے والا ‪،‬ترغیب دینے والا (‪ )۹۹‬ح ِب الہی کی‬ ‫)شراب پلانے والا (‪١٠٠‬‬ ‫سبو‪:‬‬ ‫)دل‪،‬قل ِب عاشق(‪١٠١‬‬

‫سفر‪:‬‬ ‫بندے کا حق اللہ تعالی کی طرف توجہ کرنا (‪ )١٠٢‬حالت اقامت‬ ‫)کے دوران سفر (‪١٠۳‬‬ ‫سوال‪:‬‬ ‫)طلب کرنا (کسی چیز کی حقیقت) (‪١٠۴‬‬ ‫سوز‪:‬‬ ‫)یقین ‪ ،‬ایمان ‪ ،‬اثر ‪ ،‬تاثیر‪ ،‬محبت (‪١٠۵‬‬ ‫سیر ‪:‬‬ ‫)خدا کی طرف متوجہ ہونا‪ ،‬سیرالی اللہ (‪١٠۶‬‬ ‫شان ‪:‬‬ ‫)حالت ‪ ،‬کیفیت (‪١٠٧‬‬ ‫شاہد‪:‬‬‫دیکھنے والا ‪ ،‬مشاہدہ کرنے والا ‪ ،‬معشوق ‪ ،‬تجلّی (‪ )١٠۸‬حق بہ‬ ‫)اعتبا ِر ظہور وحضور (‪١٠۹‬‬ ‫شبنم ‪:‬‬ ‫)قلت ‪ ،‬قلیل شے‪ ،‬الہام (‪١١٠‬‬ ‫شعلہ ‪:‬‬

‫)آگ ‪ ،‬انگارہ ‪،‬لو ‪ ،‬لپٹ (‪١١١‬‬ ‫شوق‪:‬‬ ‫)طل ِب حق‪ ،‬انزل عاج (‪)١١٢‬طلب مدام (‪١١۳‬‬ ‫شہود‪:‬‬ ‫روایت ‪ ،‬نظارہ ‪ ،‬دید(‪ )١١۴‬حق تعالی کا مشاہدہ ‪ ،‬جس چیز پر نظر‬ ‫)ڈالے حق ہی کو دیکھے ‪ ،‬غیر حق کو نہ دیکھے (‪١١۵‬‬ ‫شراب‪:‬‬ ‫)جذبہء حق (‪١١۶‬‬ ‫شمع‪:‬‬ ‫)انوا ِر الہی (‪١١٧‬‬ ‫شیشہ ‪:‬‬ ‫)دل (‪١١۸‬‬ ‫صبح ‪:‬‬ ‫)احوا ِل سالک کا طلوع‪ ،‬ظاہری صورتوں میں ظہوری (‪١١۹‬‬ ‫ظلم ‪:‬‬ ‫)کسی چیز کو ایسے مقام پر رکھنا جو اس کا اہل نہ ہو(‪١٢٠‬‬ ‫عاشق‪:‬‬‫جو ساتھ حق کے ہروقت مستغرق اور متوجہ ہو۔ غیر حق کا جانا اور‬

‫)ناچیز کو دینا (ا‪)١٢‬طال ِب حق ‪ ،‬سالک ‪ ،‬صوفی (‪١٢٢‬‬ ‫)آشفتہء جمال حق (‪١٢۳‬‬ ‫عدم‪:‬‬ ‫)نیستی ‪ ،‬فنا(‪١٢۴‬‬ ‫عشق‪:‬‬ ‫)ح ِب الہی (‪ )١٢۵‬چسپیدگی ‪ ،‬بہم پیوستگی ‪ ،‬جذب باہم ‪ ،‬کشش(‪١٢۶‬‬ ‫عقل‪:‬‬ ‫)خیر و شر میں تمیز کرنے کا آلہ (‪١٢٧‬‬ ‫علم ‪:‬‬ ‫)آدا ِب شریعت اور آدا ِب علماء کونظر میں رکھنا (‪١٢۸‬‬ ‫غیب ‪:‬‬ ‫)جو چیز اللہ تعالی اپنے بندوں سے پوشیدہ رکھے (‪١٢۹‬‬ ‫غیر ‪:‬‬ ‫عالم ‪،‬کون ‪ ،‬اس کے دواقسام ہیں‬ ‫عالم لطی ِف جو روح ‪ ،‬عقول ونفوس کی طرح ہے ‪١‬۔‬‫عالم کثیف ۔ عرش ‪ ،‬کرسی ‪ ،‬فلک ‪ ،‬خاک‪ ،‬آب ‪ ،‬باد‪ ،‬آتش‪ ،‬نباتات‪٢ ،‬۔‬ ‫حیوان وغیرہ ۔ اس مرتبے کو ماسوائے اللہ‬ ‫)اور کائنات بھی کہتے ہیں (‪١۳٠‬‬

‫فریاد‪:‬‬ ‫)بلند آواز سے ذکر کرنا(ا‪١۳‬‬ ‫باطنی احوال کا اظہار(فغاں‪:‬‬ ‫)‪١۳٢‬‬ ‫فقیر ‪:‬‬ ‫جس کو مرتبہ فنا حاصل ہو گیا ہو (‪)١۳۳‬جس قدر وہ تصرف‬ ‫کرے وہ کم نہ ہو بلکہ دنیا و آخرت میں اللہ کو بس اور‬‫ماسوائے اللہ کوہوس سمجھے(‪)١۳۴‬نام اللہ کے گرہ میں کچھ نہ ہو‬ ‫)(‪١۳۵‬‬ ‫فنا‪:‬‬ ‫خودی کو نا بود کر دینا ‪،‬قدم اور حدوث کے درمیان کا تفرقہ و‬ ‫)تمیز مٹ جانا (‪١۳۶‬‬ ‫فراق‪:‬‬ ‫)مقا ِم وحدت سے غیبت ‪،‬مشاہدہء حق سے محرومی ‪،‬جدائی(‪١۳٧‬‬ ‫حق سے خلق کی طرف واپس آنا( فرق‪:‬‬ ‫)‪١۳۸‬‬ ‫نزدیکی بدر گا ِہ الہی(قرب‪:‬‬ ‫)‪١۳۹‬‬

‫قضا‪:‬‬ ‫)حق اللہ تعالی کا کلی حکم (‪١۴٠‬‬ ‫کعبہ‪:‬‬ ‫)مقا ِم وصال(‪١۴١‬‬ ‫کثرت‪:‬‬ ‫)مخلوقات اور ظہو ِر اسماء جس کے مقابل وحدت ہے (‪١۴٢‬‬ ‫گذاز‪:‬‬ ‫)ہست ِی سالک کا ٹوٹنا (‪١۴۳‬‬ ‫معشوق حقیقی کے فراق میں آنسو بہانا(گریہ‪:‬‬ ‫)‪١۴۴‬‬ ‫)گوہر‪/‬گہر‪ :‬اصل ‪ ،‬ذات بے صفات(‪١۴۵‬‬ ‫لب‪:‬‬ ‫)د ِل درویش‪ ،‬صف ِت حیات(‪١۴۶‬‬ ‫لالہ‪:‬‬ ‫)خیال‪،‬دل‪،‬مسلمان‪،‬مرضی (‪١۴٧‬‬ ‫معلوم‪:‬‬‫ظاہر(‪)١۴۸‬علم جبکہ وجود میں داخل ہو اس وقت وجود میں جہل‬ ‫اور شرک اور کفر اورعج ِب حجابات ظلمانی کے ساتھ‬

‫)نہ رہیں(‪١۴۹‬‬ ‫مرد‪:‬‬ ‫)اہل کمال ‪،‬عارف(‪١۵٠‬‬ ‫مست‪:‬‬ ‫محوو‪ ،‬منہمک مستغر ق‪ ،‬کسی ایک خیال میں ڈوبا‬ ‫)ہوا‪،‬مسرور(‪،)١۵١‬اہل شوق و جذب(‪١۵٢‬‬ ‫مسجد ‪:‬‬ ‫)مقام خود بینی‪،‬مانع مشاہدہء محبوب(‪١۵۳‬‬ ‫مستی‪:‬‬‫)عشق میں مکمل گرفتاری سے حسرت و طمانیت ‪،‬سک ِراول(‪١۵۴‬‬ ‫مطرب‪:‬‬ ‫)فیض بخش‪،‬عال ِم معنی(‪١۵۵‬‬ ‫معشوق‪:‬‬ ‫)حق تعالی‪،‬تجلیا ِت ربانی جن پر ادراک کا پردہ پڑا ہوا ہے(‪١۵۶‬‬ ‫مقام‪:‬‬ ‫طالب کا حقو ِق مطلوب کو سخت اور صحیح نیت سے ادا کرنا‬ ‫)(‪١۵٧‬‬ ‫ممکن‪:‬‬

‫)عال ِم مثال ماسوائے اللہ‪ ،‬عالم(‪١۵۸‬‬ ‫موجود‪:‬‬ ‫اللہ تعالی کی موجود حقیقت ہے اور کائنات موجود اضافی ہے جو‬ ‫حق تعالی سے موجود ہے(‪)١۵۹‬جو اپنے وجود کا‬ ‫)تقاضا کرتا ہے۔اپنی ذات کو ظاہر کرنے والا(‪١۶٠‬‬ ‫منزل‪:‬‬ ‫)سالک کی جائے قیام(‪١۶١‬‬ ‫میخانہ‪:‬‬ ‫)قل ِب و اصلان(‪١۶٢‬‬ ‫میکدہ‪:‬‬ ‫مقا ِم عشق ومستی (‪)١۶۳‬عار ِف کامل کا باطن ‪،‬عال ِم لاہوت‪ ،‬مقا ِم‬ ‫)محویت جس میں سالک کو مرتبہ فنا حاصل ہو (‪١۶۴‬‬ ‫موج‪:‬‬ ‫)ذات باری کا ایک حصہ ‪،‬وجود حق کا ایک جز ‪،‬انسان(‪١۶۵‬‬ ‫مینا‪:‬‬ ‫)قل ِب عاشق(‪١۶۶‬‬‫عش ِق الہی‪ ،‬وہ ذوق جو عالم باطن سے سالک کے دل پر وارد ہو مے‪:‬‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook