Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore لفظیات غالب کا تحقیقی و ساختیاتی مطالعہ

لفظیات غالب کا تحقیقی و ساختیاتی مطالعہ

Published by maqsood5, 2017-02-02 03:15:54

Description: abk_ksr_mh.946/2016

لفظیات غالب کا تحقیقی و ساختیاتی مطالعہ
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
جنوری ٢٠١٧

Search

Read the Text Version

‫گم راہ سنا (‪ )۶۴‬میر‬ ‫غالب کا اپنا ہی انداز ہے ۔ خضر نے سکندرکے ساتھ چھل کیا ۔ آ ِب‬ ‫حیات خود پی گئے اور سکندر محروم رہا ۔ ایسے میں جب رہنما ہی‬ ‫چھل کرے تو کسی اور پر کیا بھروسا کیا جاسکتا ہے‬ ‫کیا کیا خضر نے سکندر سے اب کسے رہنما کرے کوئی‬ ‫دار ا*‬‫دارا فارس کاصاح ِب جلال بادشاہ تھا لیکن سکندر سے پٹ گیا ۔ دارا کی‬‫بیٹی سکندر سے بیاہی گئی ۔ ہندوستان سے واپسی پر سکندر کی موت‬ ‫قصر دارا میں ہوئی ارود غزل میں دارا کو مختلف حوالوں سے یاد‬ ‫رکھا گیاہے‬‫قائم چاندپوری نے سکندر ودارا کو جو جاہ وجلال کی علامت سمجھے‬ ‫جاتے ہیں ۔ فنا کے آئینے میں ملاحظہ کیا ہے‬ ‫ہے جو کچھ ہوش تو کردیدۂ عبرت سے نگاہ سن کے تو قصہ ء‬ ‫اسکندر ودارا کے تیءں (‪ )۶۵‬قائم‬ ‫غالب کے ہاں جاہ وحشمت کے حوالہ سے دارا فوکس ہوا ہے‬ ‫مرے شاہ سلیماں جاہ سے نسبت نہیں غالب فریدون وجم وکیخسرو‬ ‫وداراب وبہمن کو‬ ‫روح القدس*‬ ‫حضرت جبرائیل کا ایک نام ہے ۔ انبیاء تک وحی پہنچانے کا فریضہ‬‫سرانجام دیتے رہے ہیں ۔ شب برات حضور کے ہمراہ تھے ۔ ایک مقام‬

‫پر پہنچ کر آگے جانے سے انکار کردیا کہ آگے پر جلتے ہیں۔( ‪)۶۶‬اس‬ ‫حوالہ سے انھیں عقل سے منسلک پاتے ہیں ۔ یہ کردار صدیوں سے‬ ‫تہذیبوں اور معاشرتوں سے نتھی چلاآتا ہے ۔ یہ کردار جس نام کے‬‫ساتھ آیا ہے ۔ معتبرا ور محترم ٹھہرا ہے ۔ جبرائیل جو بڑا اطاقتور اور‬ ‫بڑا زبردست ہے ‪ ،‬نے حضور ﷺکو تعلیم دی ہے۔ جب وہ آسمان‬ ‫کے (شرقی) اونچے کنارے پرتھا تووہ اپنی اصلی صورت میں سیدھا‬ ‫کھڑا ہوا آگے بڑھا پھر جبرائیل اور محمدﷺمیں دوکمان کا فاصلہ‬ ‫رہ گیا بلکہ اس سے بھی قریب تھا۔( ‪)۶٧‬ہندہ مذہب سے منسلک‬‫دیورشی (منی ور) بھی غالباا اسی کردار کانام ہے ۔ میر صاحب نے اس‬ ‫کردار کو روح الامین کے نام سے یادرکھا ہے‬ ‫سنیو ‪،‬جب وہ کھبو سوار ہوا تابہ روح الامین شکار ہوا(‪ )۶۸‬میر‬ ‫روح القدس کلام شناس ہے ۔ریختہ سے آگاہ نہ سہی ‪،‬آہنگ ‪،‬ٹیون‬ ‫‪،‬موسیقت‪ ،‬لہجے اور لفظوں کے اتار چڑھا سے تو واقف ہے ۔ اسی‬ ‫بنیاد پر کلام غالب پر سرد ھنتا ہے‬ ‫پاتا ہوں اس سے داد ‪،‬کچھ اپنے کلام کی روح القدس اگر چہ مراہم‬ ‫زباں نہیں‬ ‫زمزم*‬ ‫حضرت ابراہیم جب اپنی بیوی اور بیٹے کو اکیلا چھوڑ کرچلے گئے‬ ‫تو حضرت ہاجرہ صفا مروہ کی پہاڑیوں میں دوڑیں پانی نہ مل سکا ۔‬ ‫حضرت اسماعیل جو ابھی شیر خوار بچے تھے کی ایڑیاں رگڑنے‬‫سے ایک چشمہ پھوٹ نکلا(‪)۶۹‬جو آج زمزم کے نام سے معروف ہے‬ ‫۔ حضرت ایوب کے لئے بھی چشمہ جاری ہوا ۔ (‪ )٧٠‬حضرت موسی‬

‫نے زمین پر اپنا عصا مارا تو بارہ قبیلوں کے لئے بارہ چشمے جاری‬ ‫حج سے ‘ہوگئے (‪ )٧١‬زم زم آج بھی مکہ میں موجودہ ہے۔ حاجی‬ ‫واپسی پر بطور تبرک اس چشمے کا پانی لاتے ہیں ۔ اور اپنے‬ ‫عزیزوں میں تقسیم کرتے ہیں ۔‬ ‫داغ دہلوی کے ہاں اس تلیمح کا استعمال ملاخطہ ہو‬ ‫خداکے گھر میں کیا ہے کام زاہد بادہ خواروں کا‬ ‫جنھیں ملتی نہیں وہ تشنہ زمزم بھی ہوتے ہیں داغ‬ ‫یہ چشمہ کعبے سے صرف چند گز کے فاصلہ پر مسجد الحرام کے ’’‬‫اندر واقع ہے اس کا پانی پینا مسنون ہے ۔ علاوہ بریں صحت کے لئے‬ ‫)۔ (‪ ‘‘٧٢‬بھی مفید ہے‬ ‫غالب نے بالکل نئے انداز سے اس تلمیح کا استعمال کیاہے ۔ رات‬‫زمزم کے کنارے پر بیٹھ کرپیتے رہے ۔ صبح زمزم کے پانی سے جامہ‬‫احرام کے دھبے دھو کر پچھلے گناہوں سے خلاصی حاصل کرلی ہے ۔‬ ‫رات پی زمزم پہ ہے اور صبحدم دھوئے دھبے جامہء احرام کے‬ ‫ز نا ِن مصر*‬‫مصر کی عورتیں عزیز مصر کی زلیخا کو ایک غلام سے محبت کرنے‬‫پر لعن طعن کرتی تھیں ۔ اس پر اس نے ’’ ان عورتیں کو بلا بھیجا اور‬ ‫ان کے لئے مجلس آراستہ کی اور اس میں سے ہر ایک عورت کے‬‫ہاتھ میں چھری (اور ایک نارنجی ) دی اورکہہ دیا جب تمہارے سامنے‬‫آئے تو کاٹ کر ایک کاش اس کو دے دینااور یوسف سے کہا کہ اب ان‬ ‫کے سامنے سے نکل تو جاؤ۔ جب ان عورتوں نے اسے دیکھا تو اس‬

‫کو بڑا حسین پایا تو سب کی سب نے بے خودی میں اپنے اپنے ہاتھ‬ ‫کاٹ ڈالے اور کہنے لگیں ماشاء اللہ یہ آدمی نہیں ہے ۔ یہ ہونہ ہو‬‫بس ایک مغرز فرشتہ ہے ۔ (تب زلیخاان عورتوں سے ) بولی کہ بس‬ ‫یہ وہی تو ہے جس کی بدولت تم سب مجھے ملامت کرتی تھیں‬‫‪ )٧۳‬ایک حدیث میں ہے ‪،‬کہ یہ چالیس عورتیں تھیں ان میں سے (‘‘‬‫نو عورتیں حضرت یوسف کو دیکھ کر بے ہوش ہوکر مرگئیں ۔(‪)٧۴‬‬ ‫اس قرآنی واقعے کو غالب نے بڑی عمدگی سے پیش کیا ہے‬‫سب رقیبوں سے ہوں ناخوش ‘پرزنا ِن مصر سے ہے زلیخا خوش کہ‬ ‫مح ِو ماہ کنعاں ہوگئیں‬ ‫غالب نے انسان کی فطرت کے تین گوشوں کو واکیاہے‬ ‫رقیبوں سے آدمی (عاشق) ہمیشہ ناخوش رہتاہے الف۔‬ ‫کسی کے انتخاب کی کوئی تعریف کرئے تو خوشی ہوتی ہے ب ۔‬ ‫ج ۔ رقیب دکھ میں مبتلا ہویا اسے نقصان پہنچے توخوشی ہوتی ہے‬ ‫زلیخا اس بات پر بھی خوش ہے کہ محبوب آزاد نہیں‪ ،‬اس پر گرفت‬‫کوئی مشکل کام نہیں ۔ یہ کہ زنان مصر نے جب انگلیاں کاٹ لیں تو‬‫زلیخا کھل پر گیا کہ اس نے جو مارماری ہے‪ ،‬واقعی اچھی اور کمال‬ ‫کے درجے پر فائز ہے ۔‬ ‫ساقی کوثر*‬ ‫ساقی بمعنی شراب پلانے والہ ‘ڈالنے والا‘پانی یا خون کا(‪)٧۵‬کوثر‬‫بہشت میں ایک نہر کا نام ‪،‬اس کا پانی دودھ سے سفید اور شہد سے‬ ‫میٹھا ہوگا۔ جو ایک بار پئے ساری عمر پیاس نہ لگے ۔اس کا پانی‬

‫ایک حوض میں پڑتا ہے ۔نام حوضے ست کہ درآخرت خوابدبودا مت‬‫آنحضرت ازاں خواہند آشامید (‪)٧۶‬رسول اللہ نے فرمایا کہ میں تم سے‬‫پہلے حوض کوثر پر موجود ہوں گا۔ تم لوگوں میں سے جو میرے پاس‬ ‫آئے گا۔اس کا پانی پئے گا۔(‪)٧٧‬احمد رضا خاں بریلوی نے کوثر کو‬ ‫‪ )٧۸‬کے معنوں میں لیا ہے ۔ ( ‘‘‘‘خوبیاں‬ ‫ساق ِی کوثر ‪ ،‬کوثرسے پلانے والا۔ دینا میں حضور سے کی پیروی‬ ‫خیرکثیر‪ ،‬جبکہ آخرت میں پینے کے حوالہ سے ۔اہل تشیع ‪ ،‬جناب‬ ‫امیر کو ساق ِی کوثر مانتے ہیں ۔ ہردوصورتوں میں بنیادی نقط تو‬‫پیروی ہے ۔ پیروی کی صورت میں فلاح دنیا وآخردستیاب ہوسکتی ہے‬ ‫۔ فلاح کی حاجت دنیا وآخرت میں رہتی ہے ۔‬ ‫ارود غزل میں اس تلمیح کا استعمال مختلف حوالوں سے پڑھتے‬ ‫سننے کو ملتا ہے ۔ ولی ؔ دکنی کے ہاں یہ تلمیح محبوب کے حوالہ‬ ‫‪:‬سے نظم ہوئی ہے ۔ مشترک عنصرلذت ہے‬ ‫جنت حسن میں کیا حق نے حو ِض کوثر مقام مجھ اب کا (‪ )٧۹‬ولی‬ ‫دکنی‬ ‫جناب حسین کے غم میں بہنے والے آنسوؤں کو قائم چشمہء آ ِب‬ ‫کوثرکا نا م دیتے ہیں‬ ‫ہے جو چش ِم تر بہر اب ِن علی ؔ بہ از چشمہ ء آ کوثر ہے وہ (‪)۸٠‬‬ ‫قائم‬‫مصحفی ؔ کے خیال میں ساقی کی موجودگی اور اس پر اعتماد رکھنے‬ ‫کی صورت میں تشنگی کا سوال ہی نہیں اٹھتا وہ اس لئے کہ‬

‫نہ ہوگی جان کئی کے وقت ہرگز تشنگی غالب کہ تواے مصحفی ؔ‬ ‫مداح ہے ساق ِی کوثر کا( ‪ )۸١‬مصحفی ؔ‬ ‫چندا نے اس تلیح کا دعائیہ استعمال کیا ہے‬ ‫یاساق ِی کوثر یہی چندا کی دعا ہے یہ دور ہے ان سے جو ملے تنگ‬ ‫خرابات (‪ )۸٢‬چندا‬ ‫غالب کا کہنا ہے پلانے والا کل پلائے یا کل پیا جائے گا۔ کیا عجیب‬‫بات ہے پینے کی ضرورت آج ہے تو (معاذاللہ ) ساقی کی توہین ہے ۔‬ ‫کل کے لئے کر آج نہ خست شراب میں یہ سوئے ظن ہے ساقی کوثر‬ ‫کے باب میں‬ ‫ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں دنیا کے غم بہت سہی لیکن غم غلط‬ ‫کرنے کے لئے شراب موجود ہے ۔ آخرت میں اگر کوئی غم ہوا تو‬ ‫کیسی چنتا ’’غلام ساق ِی کوثر ہوں‬ ‫بہت سہی غم گیتی شراب کم کیا ہے غلام ساق ِی کوثر ہوں مجھ کو کیا‬ ‫غم ہے‬ ‫سکندر‬ ‫‪۳٢۳‬تا‪۳۵۶‬ق م فلپ دوم کا بیٹا‪ ،‬مقدونیہ کا بادشاہ تھا ۔ ‪۳۳‬برس کی‬‫عمر میں بخت نصر کے محل میں ٹائی فائڈ میں مبتلا ہو کر فوت ہوگیا‬ ‫۔ اس کا شمار دنیا کے عظیم جرنیلوں میں ہوتا ہے۔ اس کی فتوحات‬ ‫کادائرہ دریائے بیاس تک پھیلا ۔ اس نے ایرانی بادشاہ دارا سوم اور‬ ‫راجہ پورس جسے عظیم یدھاؤں کو شکست سے ہمکنار کیا۔ سکندر‬ ‫عہد قدیم کی انتہائی رومانی شخصیت خیال کیا جاتا ہے ۔ ادبی روایت‬

‫کے مطابق سکندر آئینہ کاموجد ہے یا اس کے عہد میں آئینہ دریافت‬ ‫ہوا ۔ اس نے شہرا سکندریہ تعمیر کرایا وہاں ایک آئینہ نصب کرایا‬‫جس مینار پر آئینہ نصب کیاگیا اس کی بلندی ‪۳٠٠‬گز اور قطر سات گز‬ ‫تھا۔ اس آئینے میں قسطنطنیہ کے سارے شہر کا عکس نظر آتا تھا۔‬ ‫سکندر ذوالقرنین نے کاکیشیا کے نیچے بسنے والوں کو یاجوج‬ ‫ماجوج سے بچانے کے لئے ایک لوہے اور تانبے کی دیوار بنوائی ۔‬ ‫کہا جاتا ہے کہ یاجوج ماجوج قوم کے لوگ اس دیوار کو چاٹتے ہیں ۔‬‫یہ کاغذ کے برابر رہ جاتی ہے تو چاٹناچھوڑ دیتے ہیں ۔ اگلے دن پھر‬‫اسی طرح مضبوط ہوجاتی ہے ۔قرب قیامت میں وہ اس دیوار کو چاٹنے‬ ‫میں کامیاب ہوجائیں گے ۔ یاجوج ماجوج روئے زمین پر پھیل جائیں‬ ‫گے ۔ ہر چیز کو نیست ونابو د کر دیں گے۔‬ ‫سکندر ہندوستان میں وارد ہوا ۔ اس نے اور اس کی قوم نے یہاں قیام‬ ‫کیا۔ کچھ لوگ یہاں آباد ہوگئے باقی واپس چلے گئے ۔ یونانی قوم کی‬ ‫نسل آج بھی موجود ہے اور اپنی الگ سے روایات رکھتی ہے‬ ‫۔سکندربہادری اور ایجاد کے حوالہ سے اپنا مقام رکھتا ہے ۔لفظ آئینہ‬ ‫بہت سے مجازی اور علامتی مفاہیم میں مستعمل چلاآتا ہے ۔ سکندر‬ ‫کے متعلق بہت سے حوالے ارود غزل میں برصغیر کی اپنی روایات‬‫سے ہم آہنگ ہو کر وارد ہوئے ہیں ۔ ولی دکنی نے محبوب کے رخ کو‬ ‫آئینہء سکندری سے زیادہ صاف وشفاف بتایا ہے‬ ‫شرمندہ ہو تجھ مکھ کے دکھے بعد سکندر بالفرض بنادے اگر آئینہ‬ ‫قمر سوں (‪ )۸۳‬ولی‬ ‫آب حیات ‘‘پینے کی خواہش کو ارود غزل کے ’’حاتم نے سکندر کی‬ ‫مزاج کے مطابق پینٹ کیاہے۔‬

‫جوں سکندر کے تھی دل میں حسرت آ ِب حیات‬ ‫اس طرح تجھ لب کے بوسے کا مجھے اشتیاق (‪ )۸۴‬حاتم‬‫واعظ اس کا ’’رولا ‘‘ تو بہت ڈالتا ہے لیکن اس کے ذائقے اور سرور‬ ‫سے خود بھی محروم ہے اوروں کو محض کہانیاں سنا رہے۔ جبکہ‬ ‫بقول غلام رسول مہر‬ ‫ہے جو کچھ ہوش تو کردیدۂ عبرت سے نگاہ سن کے تو قصہء‬ ‫اسکندرودارا کے تیءں (‪)۸۵‬قائم‬ ‫کے تناظر میں فوکس کیا ‘‘میرانیس نے سکندر کو ’’دیوار سکندری‬ ‫ہے ۔‬‫بنے یوں تیں دردریا کے اندر کہ ششدرہوگئی س ِدسکندری (‪ )۸۶‬انیس‬ ‫شیخ قادر علی مصنف نے بلند بختی کے حوالہ سے سکندر کا ذکر‬ ‫چھیڑا ہے ۔ ان کا کہناہے سکندر نے تو محض ایک آئینہ دریافت کیا‬ ‫تھا لیکن ہماری ملاقات ہر روز کئی آئینہ چہرروں سے ہوتی ہے‬‫آئینہ زورں سے رہتی ہے مجھے صحبت روز اے فلک تو نے دیابخ ِت‬ ‫سکندر مجھ کو (‪)۸٧‬مصنف‬ ‫غالب کا کہنا ہے سکندر نے خضر پر انحصار کیا ‪،‬مارکھا گیاکیا کیا‬ ‫خضر نے سکندر سے اب کسے رہنماکرے کوئی‬ ‫جب تک اپنے فیصلے خود کرتا رہا کامیاب رہا جونہی اس نے اپنی‬ ‫ذہانت اور کوشش سے منہ پھیرا خالی ہاتھ واپس لوٹا۔ بقول غلام‬ ‫رسول مہر‬

‫یہ مثال سب کے سامنے ہے اب کوئی کسی کو کس بھرو سے پر ’’‬ ‫)‪‘‘(۸۸‬رہنما کرے‬ ‫ہماری شراب کی یہ خوبی تو ہے ناکہ خود بھی پیتے ہیں اور ’’‬ ‫)۔(‪ ‘‘۸۹‬دوسروں کو بھی پلاسکتے ہیں‬ ‫شعر ملاخط فرمائیں ۔‬‫واعظ نہ تم پیونہ کسی کو پلا سکو کیا بات ہے تمہاری شراب طہور کی‬ ‫حج یا عمرہ کے موقع پر حاجی لوگ خانہ کعبہ کے گرد طواف‪:‬‬ ‫چکر کاٹتے ہیں ۔ اس فعل کے بغیر حج یا عمرہ نہیں ہوتا ۔ یہ حج یا‬ ‫عمرہ کے لوازمات اور فرائض میں داخل ہے ۔ یہ لفظ ِان ہی معنوں‬ ‫کے لئے مخصوص سمجھاجاتاہے۔ اس کے لغوی معنوی چکر کاٹنا‬ ‫کے ہی ہیں ۔ غالب کے ہاں ان ہی معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔‬ ‫؂ دل پھر طوائ ِف کوئے ملامت کو جائے ہے‬ ‫پندارکا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے‬‫علی ‪ :‬جناب ابوطالب کے بیٹے ‪،‬جناب عبدلمطلب کے پوتے اور جناب *‬‫رسالت مآب کے چچازاد بھائی اور داماد ہیں ۔ امامیہ مسلک سے متعلق‬‫لوگ آپ کو پہلا امام قراد دیتے ہیں ۔ اور آپ کو وحی رسول کہتے ہیں۔‬ ‫جناب رسالت پناہ کے دوقول آپ کے متعلق کہے جاتے ہیں‪١‬۔‬ ‫جس کا میں مولا اس کا علی مولا‬ ‫‪٢‬۔ میں علم کا شہر ہوں علی اس کا دروازہ ہے‬ ‫آپ شجاعت ‪،‬انصاف ‪،‬علم وفضل ‪،‬تقوی ‪،‬قناعت وغیرہ کے حوالہ سے‬ ‫یاد رکھے جاتے ہیں ۔ آپ کی کتاب ’’نہج البلالغہ ‘‘جو آپ کے خط بات‬

‫‪،‬خطوط اور اقوال پر مشتمل ہے ۔ آپ کے علم ودانش ‪،‬نکتہ ‪،‬بینی‬‫اورفصاحت وبلاغت کے حوالہ سے تسلیم کی جاتی ہے ۔ جنگ بدر اور‬ ‫جنگ احد میں جوآپ نے شجاعت کا نمونہ پیش کیا اس کی مثال نہیں‬ ‫ملتی ۔ آپ کو فاتح خیبر کے حوالہ سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ آپ‬‫مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ راشد ہیں۔ غالب کے ایک شعر میں پانچ‬ ‫حوالوں سے آپ کا ذکر ہواہے‬ ‫‪۵‬۔ ‪١‬۔امام (ظاہروباطن )‪٢‬۔امیر(صورت حفی )‪۳‬۔ ولی ‪۴‬۔ اسد اللہ‬ ‫جانشی ِن نبی‬ ‫قائم نے سکندر ودارا کے ‪ ،‬جوبڑے جاہ وجلال کے مالک تھے‪ ،‬کے‬ ‫فنا ہونے کے حوالے سے دنیا کی بے ثباتی کاتذکرہ کیاہے۔‬ ‫شراب طہور*‬ ‫نیکوکاروں کو قیامت کے روز ان کے نیک کاموں کے صلہ میں پاک‬ ‫شراب مہیا کئے جانے کا اللہ نے وعدہ کیا ہے ۔ اس کا متعدد بار قرآن‬ ‫مجید میں ذکر آیا ہے ۔ اس میں نشہ نہیں ہوگا۔ اس کے پینے سے‬ ‫سرور اور سکون میسر آئے گا۔ اس کی اہمیت پر کئی حوالوں سے‬ ‫روشنی ڈالی گئی ہے ۔ دنیا کی شراب میں نشہ ہے اور شر اور فساد‬ ‫پھیلانے کاموجب بھی بنتی ہے ۔ حواس پر اثرانداز ہوتی ہے ۔ انسان‬‫اپنے آپے میں نہیں رہتا ۔شراب طہو ِر ان دونوں منفی عناصر سے مبرا‬ ‫ہے ۔ غالب عمومی ڈگر سے ہٹ کر بات کررہے ہیں۔ شراب طہور فرد‬ ‫کے لئے ہے ۔ آج می ّسر نہیں ۔ یہ کسی شراب ہے۔ قبلہ معین الدین‬ ‫چشتی ؔ کا ایک شعر شہرت عام رکھتاہے۔‬ ‫شا ِہ مرداں شیر یز داں قوت پرور دگار لافتح اِلاعلی لاسیف الاذوالفقار‬

‫ابو تراب ‪ ،‬حیدر ‪ ،‬صفدر ‪،‬جنا ِب امیر وغیرہ کے ناموں سے بھی آپ کو‬ ‫یاد کیاجاتاہے۔‬‫قائم چاند پوری نے ابو تراب اور امام کے لقب سے نظم کیاہے۔ ہر لفظ‬ ‫احترام اور محبت کے جذبے سے سر شار نظر آتاہے‬ ‫جوں سرمہ کیوں نہ چشم میں قائم کی ہوجگہ آخروہ خا ِک پا ہے ش ِہ‬ ‫بوتراب کا (‪ )۹٠‬قائم‬ ‫سوچے تھا میں قافیے کو قائم جزنام امام کچھ نہ نکلا(‪ )۹١‬قائم‬‫چندا کا ہر مقطع مدحِ علی ؔ پر استوار ہے۔غالب کے ہاں اس تلمیح کا‬ ‫استعمال ملاحظہ ہو‬‫امام ظاہر و باطن امی ِر صورت ومعنی علی ولی اسد اللہ جانشی ِن نبی ہے‬ ‫طور *‬ ‫طور دوحوالوں سے معروف ہے‬ ‫طور پر حضرت موسی ؔ اللہ تعالی سے ہم کلا م ہوتے تھے ۔ الف۔‬ ‫اسی حوالہ سے انہیں کلیم اللہ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے‬ ‫بر ِق تجلی ب۔‬‫طور ‘‘ کے متعلق یہ دونوں حوالے اردو غزل کا حصہ ہیں ۔ تمثیلی ’’‬‫طور ‘‘ کا استعمال ملتاہے۔ اس ’’‪ ،‬نسبتی اور علامتی مفاہیم میں بھی‬ ‫ضمن میں دو ایک مثالیں ملاحظہ ہوں ۔ میر صاحب کے اس شعر کی‬ ‫کی کارفرمائی موجو دہے ‘‘رگوں میں ’’ برق تجلی‬ ‫کیا آگ دے کے طور کو کی تر ِک سرکشی اس شعلے کی وہی ہیں‬

‫شرارت کی بانیاں (‪ )۹٢‬میر‬ ‫قائم چاند پوری نے اپنے اس شعر میں بر ِق تجلی کے حوالہ سے ’’‬ ‫طور ‘‘ کی بات کی ہے‬ ‫جلایا کو ہ تیں موسی ؔ ‪ ،‬عبث بر ِق تجلی سے اس آتش میں توجل‬ ‫بجھنے کو دل کا طوربہتر تھا (‪ )۹۳‬قائم‬ ‫طور ‘‘ کا بر ِق تجلی کے حوالہ سے ذکر کیاہے ’’غالب نے بھی‬‫گرنی تھی ہم پہ بر ِق تجلی ‪ ،‬نہ طور پر دیتے ہیں بادہ‪ ،‬ظر ِف قدح خوار‬ ‫دیکھ کر‬ ‫شیفتہ کے خیال میں نگا ِہ التفات کی طرح تجلی بھی خصوص کا مقدر‬ ‫بنتی ہے‬‫جزطور اور پر ہو تجلی ‪ ،‬محال ممکن نہیں وہ بر ِق نگہ غیر پر پڑے‬ ‫ہے(‪ )۹۴‬شیفتہ‬ ‫فتنہء قیامت*‬ ‫فتنہ عربی لفظ ہے جس کے معنی آزمائش کے ہیں جبکہ اردو میں‬ ‫شرارت ‪ ،‬چالاکی ‪ ،‬ہنگامہ ‪ ،‬جھگڑ ا (‪ )۹۵‬کے معنوں میں استعمال‬ ‫ہوتاہے۔ قیامت آزمائش کا دن ہوگا۔ کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا۔‬‫افراتفری ‪ ،‬بے چینی ‪ ،‬گھبراہٹ ‪ ،‬بے چارگی اور بے بسی کا عالم ہوگا۔‬‫بے ہنگم شور ہوگا ۔ ہر کسی سے اس کے کئے کا حساب لیا جائے گا۔‬‫اس حساب کے مطابق جزا وسزاملے گی ۔ اس کے لئے ’’ حشر‘‘ کالفظ‬ ‫بھی استعمال میں آتا ہے۔ حشر یعنی ایک مقام پر اجتماع (‪ )۹۶‬کبھی‬ ‫اکیلا اور کبھی مرکب کی صور ت میں ‪،‬یہ دونوں الفاظ استعمال میں‬

‫آتے ہیں ۔ اردو غزل کے شعرا نے ِا س حوالہ سے مستعمل الفاظ کو‬ ‫سماجی ‪ ،‬سیاسی اور معاشی حالات کے تناظر میں استعمال کیاہے۔ ان‬ ‫استعمالات میں قیامت سے متعلق عناصر‪ ،‬مجازی ‪ ،‬کنا یتہ یا علامتی‬ ‫حوالہ سے موجو د رہتے ہیں۔‬ ‫غالب نے سرو قامت کے پیش نظر قیامت کے فتنے کا ذکر کیا‬ ‫ہےترے سروقامت سے اک ق ِد آدم قیامت کے فتنے کا کم دیکھتے ہیں‬ ‫خواجہ حالی کا کہنا ہے‬‫سروقامت سے فتنہء قیامت کمتر ہے ۔ دوسرے یہ معنی بھی ہیں کہ ’’‬ ‫تیر اقداسی میں سے بنا ہے‪،‬‬ ‫)اس لئے وہ ایک ق ِد آدم کم ہو گیا(‪۹٧‬‬ ‫شیفتہ نے ’’ فتنہء حشر‘‘ استعمال کیاہے‬ ‫گور میں یا ِد ق ِد یار نے سونے نہ دیا فتنہ ء حشر کو رفتار نے سونے‬ ‫نہ دیا(‪ )۹۸‬شیفتہ‬‫ایک دوسری جگہ غالب قدہی کے حوالہ سے ’’ فتنہء حشر ‘‘ استعمال‬ ‫میں لاتے ہیں‬‫میں متعق ِد فتنہ ء محشر نہ ہوا جب تک کہ نہ دیکھا تھا ق ِد یارکا عالم‬ ‫تھا‬ ‫قدما کی معنوی تفہیم کے بعد فتنہء محشر واضح ہوتاہے‬ ‫شیفتہ نے ’’ ہنگامہ ء محشر ‘‘ بھی استعمال کیاہے‬ ‫بے پردہ وہ آئیں گے تو کیسے مجھے ہوگی اے شیفتہ ہنگامہ ء‬

‫محشر کی شکایت (‪ )۹۹‬شیفتہ‬ ‫‘‘اپوانپی’’غالب نے زندگی کی افراتفری ‪،‬بے چینی ‪ ،‬بے سکونی ‪،‬‬ ‫یہی تلمیح ’’ شو ِر محشر‘‘ مرکب اور شور شرابے کے حوالہ سے‬ ‫اضافی کی صورت میں استعمال کی ہے‬‫لے گیا تھا گور میں وائے واں بھی شو ِرمحشر نے نہ دم لینے دیا‬ ‫ذو ِق تن آسانی مجھے‬ ‫قائم چاند پوری نے بڑ ا عمدہ خیال پیش کیاہے۔ دل کے مقاب ِل شور‬ ‫محشر کی بھلا کیا حیثیت ہے‬ ‫شو ِر محشر سے ہے پروامجھے کیا !اے واعظ! جب کہ ہمراہ لئے دل‬ ‫ساخلل جاؤں گا (‪)١٠٠‬قائم‬ ‫خواجہ درد کے ہاں ’’ شور قیامت ‘‘ استعمال میں آیاہے؛‬ ‫اے شو ِر قیامت رہ اودھر ہی میں کہتا ہوں چونکے نہ ابھی یاں سے‬ ‫کوئی د ِل شوریدہ (‪ )١٠١‬درد‬ ‫غالب نے ’’ رو ِزمحشر ‘‘کو یوم الحساب کے معنوں میں ‪،‬انسانی‬ ‫رویوں کی مذمت اور تذلیل و تضحیک کے حوالہ سے استعمال کیاہے‬ ‫بچتے نہیں مواخذہ ء روز حشر سے قاتل اگر رقیب ہے تو تم گواہ ہو‬ ‫میر محمدیارخاکسار کے ہاں بھی یہ تلمیح انسان کے منفی رویے پر‬ ‫روشنی ڈالتی ہے‬‫تیغِ قاتل سے ہوئے محروم بے تقصیرہم روز محشر کو اٹھیں گے گور‬ ‫سے دل گیر ہم (‪ )١٠٢‬خاکسار‬

‫یوم الحساب ‘‘ مرکب نظم کیاہے’’ میر صاحب نے‬‫اگتے تھے دس ِت بلبل و داما ِن گل بہم صح ِن چمن نمونہ ء یو م الحساب‬ ‫تھا (‪ )١٠۳‬میر‬ ‫اس تلمیح کا ایک اور بہروپ ’’ حشر ونشر‘‘ غالب نے استعمال کیا‬ ‫ہے‬ ‫نہ حشرونشر کا قائل نہ کیش وملت کا خدا کے واسطے ایسے کہ پھر‬ ‫ستم کیا ہے‬ ‫فریدون ‪:‬‬ ‫فریدون حضرت خضر کے زمانے میں صاح ِب جلال وجاہ بادشاہ گزرا‬ ‫ہے۔ قائم کا کہنا ہے اشیاء آدمی کے حوالہ سے حیثیت رکھتی ہیں ۔‬ ‫آدمی نہیں تو اشیاء کس کام کی ۔ قائم کے اس شعر سے فنا کے‬ ‫فلسفے پر بھی روشنی پڑتی ہے‬ ‫غالب نے فریدوں کو جاہ وحشمت کے حوالہ سے فوکس کیا‬ ‫مرے شاہ سلیماں جاہ سے نسبت نہیں غالب فرید ون وجم وکیخسرو‬ ‫دراب ولبمن کو‬ ‫کاغذی پیرہن ‪:‬‬ ‫زمانہ ء قدیم میں ایران میں مظلوم کاغذی لباس پہن کر بادشاہ کے‬ ‫حضور پیش ہوتا۔ یہ لباس اس کے فریادی ہونے کی علامت تھا۔‬ ‫بادشاہ فوراا اس کی طرف متوجہ ہوتا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ ہر‬ ‫شخص کا غذی لباس پہن کر بادشاہ کے سامنے جاتا۔ اگرایسا نہ کیا‬ ‫جاتا تواسے اچھا نہیں سمجھا جاتاتھا ۔ بلکہ گستاخی خیال کیا‬

‫جاتا(‪ )١٠۴‬شعرائے ایران کے کلام سے اس رسم کی تصدیق ہوتی‬ ‫ہے۔ (‪)١٠۵‬تاریخ میں ایسی کسی رسم کا ذکر پڑھنے کونہیں ملا اگر‬ ‫شعرا کی ایجاز ہے تو بھی کمال کے درجے پرفائز ہے۔ غالب نے‬ ‫انسانی وجود کے حوالہ سے اس تلمیح کو نظم کیاہے۔ غلا م رسول‬ ‫مہر اس ضمن میں کہتے ہیں‬ ‫ہر نقش کسی کی شوخ ِی تحریر کا فریادی ہے ‪ ،‬جس کے باعث ہر ’’‬ ‫تصویر نے کاغذی لباس پہن لیا ہے۔ ہستی کو تصویر اس لئے کہا کہ‬‫اس کاوجود حقیقی نہیں ‪ ،‬غیر حقیقی وبے اعتباری اور عارضی ہونے‬ ‫کے باوجود اتنے رنج وملال کا باعث ہوئی کہ‬ ‫)‪(١٠۶‬۔ ‘‘ہستی سراپا فریاد بن گئی‬ ‫بقول علی حسن چوہان‬‫کاغذی یپراہن سے عام طورپر کنایتہ عاجزی اور بے چارگی مراد ’’‬ ‫)‪‘‘(١٠٧‬ہے‬ ‫اب غالب کا شعر ملاحظہ فرمائیے‬ ‫نقش فریادی ہے کس کی شوخ ِی تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر‬ ‫تصویر کا‬ ‫گستاخ ِی فرشتہ ‪:‬‬ ‫تخلیق آدم کے بعداللہ تعالی نے فرشتوں کوحکم دیا کہ وہ آدم‬‫کوسجدہ بجا لائیں ۔ ابلیس کے سوا تمام فرشتے حکم خداوندی بجالائے‬‫(‪ )١٠۸‬اللہ تعالی نے ابلیس کے انکار کو نا پسند فرمایا اور اسے اپنی‬ ‫بارگاہ سے نکال دیا (‪ )١٠۹‬غالب نے عص ِر حاضر میں انسان کی‬

‫ناقدری ‪ ،‬ذلت اور پریشان حالی کے سیناریو میں ِا س تلمیح کا استعمال‬ ‫کیا ہے‬ ‫ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند گستاخ ِی فرشتہ ہماری جناب‬ ‫میں‬‫لیلی مجنوں ‪ :‬لیلی مجنوں کی داستان عربی سے فارسی میں وارد ہوئی‬ ‫۔اس کے بعد برصغیر کی زبانوں میں داخل ہوئی ۔ یہ عشقیہ داستان‬ ‫‪۶۸۸‬ء کی ہے۔ مجنوں کا اصل نام قیس تھا ۔ اردو میں اسے اس نام‬ ‫سے بھی یاد رکھاگیا ہے۔ عشق میں دیوانگی کے حوالہ سے ‪،‬‬ ‫مجنوں نام پڑگیا ۔ اس کا باپ مولح‪ ،‬بنی عامر کا سردار تھا۔ قیس نے‬ ‫بچپن میں لیلی کو دیکھااور عاشق ہوگیا۔ جب اس کے والدین کو‬ ‫معاملے کا علم ہوا توان کی بھی خواہش ہوئی کہ قیس کی لیلی سے‬ ‫شادی کردی جائے مگر کوشش کے باوجود ناکام رہے ۔ ادھر قیس پر‬ ‫لیلی کے عشق کا غلبہ پکڑ گیا ۔ اس نے تمام نعمتوں کو ٹھکرا کر‬ ‫صحرا کی راہ لی اور لیلی لیلی پکارتے جان دے دی۔‬ ‫لیلی نجد کے ایک باشندے عامر کی بیٹی تھی ۔ یہ نہایت شریف‬ ‫گھرانے کی چشم وچراغ تھی‪ ،‬اسے بھی قیس سے محبت تھی لیکن‬‫خاموش تھی یا پھر اس کاعشق جنوں کو نہ پہنچا تھا ۔ اس کی شادی‬ ‫کہیں اور کر دی گئی اور کسی ڈولی میں بیٹھ کر سسرال سدھاری تاہم‬‫کسی وجہ سے گھر نہ بسا سکی ۔ لیلی سیاہ فام تھی لیکن قیس اس پر‬ ‫فریفتہ تھا ۔ اس عشقیہ داستان میں تین عنا صر کا سراغ ملتاہے‬ ‫اول ‪ :‬قیس کے حوالہ سے‬ ‫عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب کہ لگائے نہ لگے اور‬

‫بجھائے نہ بنے‬ ‫لڑکیاں خواہش کے باوجود حر ِف مدعازبان پر نہیں لاتیں دوم‪:‬‬ ‫کسی اور کی ڈولی میں بیٹھنے میں عار نہیں سمجھتیںسوم‪:‬‬‫اردو غزل میں یہ داستانی کردار مختلف حوالوں سے نمودار ہوتے ہیں‬ ‫ولی نے اپنے عشق کا پیمانہ مجنوں سے تقابلی انداز اختیار کرکے‬ ‫‪:‬مرتب کیاہے‬ ‫ہوئی دیوانگی مجنوں کی یوں میرے جنوں آگے‬ ‫کہ جیوں ہے حسن لیلی بے تکلف پائے نا م اس کا (‪ )١١٠‬ولی‬ ‫حاتم کا خیال ہے کہ فطر ِت انسانی ضرورت اور رجحان کی راہ چلتی‬ ‫ہے‬ ‫ہوامجنوں کے حق میں دشت گلزار کیا ہے عشق کے ٹیسو نے بن‬ ‫سرخ (‪ )١١١‬حاتم‬‫وقت بہترین مرہم ہے سب کچھ بھلا دیتا ہے یا ایک ساتھ پڑی چیز وں‬ ‫کو بکھیر دیتاہے۔ یہاں تک کہ اصل معاملہ ہی آنکھوں سے اوجھل‬ ‫ہوجاتاہے۔احسن اللہ بیان کا کہنا ہے کہ لیلی مجنوں کی کہانی آج بھی‬ ‫موجود ہے اور کردار آج بھی چلتے پھرتے نظر آتے ہیں‬ ‫چرغ کی برہم زنی سے یہ تعجب ہے مجھے لیلی اور مجنوں کی ایک‬ ‫جااب تلک تصویر ہے (‪ )١١٢‬بیان‬ ‫میر صاحب کا کہنا ہے ہم عشق میں اس لئے دیوانے نہیں ہوئے کہ‬ ‫قیس کی آبرو باقی رہے اور اس میدان میں اس کا کوئی ثانی نہ‬

‫کہلائے‬ ‫عشق میں ہم ہوئے نہ دیوانے قیس کی آبرو کا پاس کیا(‪ )١١۳‬میر‬‫خواجہ درد کا موقف ہے کمٹ منٹ سے وابستگی بہت کم دیکھنے کو‬ ‫ملتی ہے‬‫مجنو ں ‪ ،‬فرہاد ‪ ،‬درد ‪ ،‬وامق ایسے یہ دوہی چارہوئے ہیں ہم (‪)١١۴‬‬ ‫درد‬ ‫بقول قائم چاند پوری مجنوں کی نامرادی کاغم بڑی شدت رکھتاہے‬ ‫داغِ فرہاد تواتنا نہیں قائم لیکن غم نے مجنوں کے کیا مار کے بس‬ ‫چور ہمیں (‪ )١١۵‬قائم‬ ‫چندا نے لیلی کو حسن کے حوالہ سے پینٹ کیا ہے‬ ‫تجھ کو حورا ِن بہشتی بھی پہنچ سکتے نہیں لیلی وشریں کا اس کے‬ ‫آگے کیا مذکورہ ہے (‪ )١١۶‬چندا‬ ‫پیر بخش خاطر کا کہنا ہے کہ وہ والہانہ پن ‪ ،‬وہ دیوانگی ‪ ،‬وہ‬ ‫فریفتگی اور وہ جوش وجنوں آج کے دور میں کہاں ملتاہے‬‫زنجیر کی صدا ہے نہ آواز زنگ ہے مجنوں کے ساتھ ناقہء لیلی بھی‬ ‫تھک گیا (‪ )١١٧‬ناطر‬ ‫صفدر علی بلند کے نزدیک جو عشق اختیار کرتاہے۔ خرابی سے‬ ‫دوچار ہوتاہے‬‫قیس و فرہاد و وامق اور بلند عشق میں جو رہا خراب رہا (‪ )١١۸‬بلند‬

‫قبلہ بلھے شاہ صاحب قصوری کا خیال ہے لیلی میں قدرت کا اپنا جمال‬ ‫وچ لیلی بن جھاکی دا ہن آیا آپ نظارے نوں جاگزین تھا‬ ‫یہ یکطرفہ محبت تھی اگر لیلی کو بھی عشق ہوتا تو وہ کسی دوسرے‬‫کی ڈولی میں بیٹھنے کی بجائے موت کو گلے لگا لیتی بالکل شریں کی‬ ‫طرح ۔ اسی طرح مجنوں احمق تھا جو سراب کا پیچھا کر تارہا۔ فرہاد‬ ‫اس کے برعکس احمق نہ تھا ۔ غالب کے ہاں یہ دونوں کردار مختلف‬‫حوالوں سے موضوعِ کلام بنے ہیں ۔ غالب کا کہنا ہے بقول غلام رسول‬ ‫مہر‬‫قیس کے سوا کوئی اور فرد عشق کی سر گشتگی میں صحرا کے ’’‬‫اندر نہ پہنچ سکا تو معلوم ہوا کہ صحرا چشم حاسد کی طرح تنگ ہے‬ ‫‘‘یعنی وہاں کسی دوسرے کو قدم رکھنے کے لئے جگہ نہ مل سکی‬ ‫)‪(١١۹‬‬‫صحرا‪ ،‬مگر بہ تنگ ِی چش ِم جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار‬ ‫حسود تھا‬‫عشق دیوانگی تک لے جاتاہے لیلی اگر سچی عاشق تھی تو اسے کس‬ ‫امر نے صحرا گردی سے مانع رکھا‬‫مانع وحشت خرامی ہائے لیلی کون ہے‬ ‫خانہ مجنو ِں صحرا‬ ‫گردبے دروازہ تھا‬‫عشق صر ف مجنوں ہی کو تھا ۔ عشق میں لیلی کی ہمسری ثابت کر نا‬ ‫درست نہیں۔ غالب نے مجنوں کے حوالہ سے فنا کے فلسفے کو بھی‬ ‫واضح کیاہے‬

‫فناکی تعلیم درس بے خودی ہوں اس زمانے سے کہ مجنوں لام الف‬ ‫لکھتا تھا دیوا ِر دبستاں پر‬ ‫مجنوں کا سن کر لیلی بھی دشت میں آگئی لیکن محبوب کب اس قدر‬ ‫باوفا اور سنجیدہ ہوتے ہیں ۔غالب کو اس پر تعجب ہورہا ہے‬‫یو ’’قیامت ہے کہ سن لیلی کا دش ِت قیس میں آنا ’’ تعجب ہے‘‘ وہ بولا‬ ‫‘‘ں بھی ہوتا ہے زمانے میں ؟‬ ‫غالب کے نزدیک محبت میں زحمت ہی راحت و سکون کا سبب بنتی‬ ‫ہے‬ ‫ر ِگ لیلی کو خا ِک دش ِت مجنوں ریشگی بخشے اگر بودے بجائے دانہ‬ ‫دہقاں نوک نشتر کی‬ ‫غالب آج کی اور کل کی لیلی کا موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔ آج کی‬ ‫لیلی کل کے مجنوں کو ‪ ،‬آج کے مجنوں کے روبر و برا بھلا کہتی ہے‬ ‫عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام مجنوں کو بر ابھلا کہتی ہے‬ ‫لیلا مرے آگے‬ ‫زمانہ مجنوں کی وحشت کی کثافتوں سے بھر اپڑا ہے۔ لیلی کے عزت‬ ‫‪:‬ووقار کا کب تک پاس کیا جاسکتاہے‬ ‫عالم غبا ِر وحش ِت مجنوں سے سر بسر کب تک خیال ط ّرہء لیلا کرے‬ ‫کوئی‬ ‫موسی ؔ ‪:‬‬ ‫بنی اسرائیل کے صاحب کتاب نبی تھے۔ فرعون کے محل میں پرورش‬

‫پائی ۔ فرعون خدائی کا دعویدار تھا ۔ موسی ؔ کے حوالہ سے موت‬ ‫کے منہ میں گیا ۔ اللہ نے آپ کو معجزے عطا فرما رکھے تھے ۔ آپ‬ ‫اپنے ہاتھ بغل میں رکھ کر نکالتے تو اس میں سے روشنی نکلتی کہ‬ ‫ی ِد بیضا ‘‘ تلمیح ’’ آنکھیں خیرہ ہوجاتیں۔ اِ س معجزے کے لئے‬ ‫مستعمل چلی آتی ہے۔ کو ِہ طور پر آپ اللہ سے ہمکلام ہوتے ۔ کو ِہ‬ ‫تلمیح معروف ہے۔ ‘‘طور پر تجلّی ہوئی اس کے لئے ’’ برق تجلّی‬ ‫تعلیم کے لئے آپ حضرت خضر کے ہمراہ رہے۔ صبر نہ کرنے کے‬ ‫سبب ان کے ساتھ چل نہ سکے۔ تلمیح ’’ طور‘‘ بھی استعمال میں آتی‬ ‫۔‘‘ رہتی ہے۔ تفصیلات ’’ برق تجلی میں آچکی ہیں‬ ‫نکرین ‪:‬کہا جاتاہے انسان کے کئے کا ریکارڈ رکھنے کے لئے دو‬‫فرشتے منکر اور نکیر مقرر ہیں ۔ قیامت کے روز اعمالنامہ پیش کریں‬ ‫گے۔ غالب کے ہاں دوجگہ ان کے حوالہ سے مباحث ملتے ہیں ۔ ایک‬ ‫جگہ ان کو چلتا کرنے کی فکر میں تدبیر کرتے ہیں کہ رات کو پی‬ ‫ہوئی شراب کی بو کی کراہت سے بھاگ نکلیں گے۔ اس ضمن میں‬ ‫غلا م رسول کہتے ہیں‬ ‫اگر شراب پی کر مرے تو سانس کی آمد ورفت ختم ہوجانے کے ’’‬ ‫باوجود منہ سے ضرور بو آئے گی اور فرشتے سراپا روح ہونے کے‬‫باعث اس کی بو کی تاب نہ لاسکیں گے یوں سوال وجواب کی منزل بہ‬ ‫)‪‘‘ (١٢٠‬خیر وعافیت گزر جائے گی‬ ‫اب شعرپڑھئیے‬ ‫ظاہر ہے کہ گھبرا کے نہ بھاگیں کے نکرین ہاں منہ سے مگر بادہ ء‬ ‫دوشینہ کی بو آئے‬

‫ایک دوسری جگہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ غیر جنس کے لکھے‬ ‫اور کہے پر پکڑے جانا مناسب اور درست نہیں ۔ شہادت کے لئے ہم‬ ‫جنس ہونا ہی انصاف کے تقاضے پورے کرتاہے‬ ‫پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق آدمی کوئی ہمارا دم‬ ‫تحریر بھی تھا‬ ‫نمرود *‬‫نمرود ایک ظالم اور کافر حکمران تھا ۔ اس نے ایک خواب دیکھا جس‬ ‫کی تعبیر یہ بتائی گئی کہ اس سال ایک ایسا بچہ پیدا ہوگا جو اس کی‬ ‫بادشاہی تباہ کر دے گا مگر ابھی تک حمل قرار نہیں پایاہے۔ اس کے‬‫حکم سے عورتیں مردوں سے جدا کر دی گئیں ۔ دس دس عورتوں کی‬ ‫نگرانی پر ایک مرد نگران مقرر کردیا گیا اور حکم ہوا جولڑکا پیدا ہو‬ ‫مار دیا جائے ۔ حکم خدا سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی والدہ‬ ‫حاملہ ہوئیں ۔ حضرت ابراہیم شہر سے باہر ایک غار میں پروان‬‫چڑھے۔ (‪ )١٢١‬توحید کی دعوت دینے کے جرم میں نمرود نے حضرت‬‫ابراہیم کو دہکتی آگ میں ڈال دیا جوبحکم خدا گلزار میں بدل گئی۔ ایک‬ ‫معمولی مچھر نمرود کی موت کا سبب بنا۔ نمرود کراہت ‪ ،‬بے زاری ‪،‬‬‫نفرت اورغصہ پیدا کرنے والا کردارہے۔ یہ تلمیح اردوغزل میں ایسے‬ ‫ہی حوالوں سے پڑھنے کوملتی ہے۔ غالب کے ہاں اس تلمیح کا‬ ‫استعمال ملاحظہ ہو‬ ‫بند گی میں مرابھلانہ ہوا کیا وہ نمرود کی خدائی تھی‬ ‫نمرود ‪ ،‬ظلم کی علامت ہے اور اس سے بھلائی اورخیر کی توقع بے‬ ‫معنی اور لایعنی سی بات ٹھہرتی ہے۔ علامہ حالی تشریح میں کہتے‬

‫ہیں‬‫میری بندگی نمرود کی خدائی کی تھی کہ ِاس سے مجھے کوئی ’’‬ ‫)۔(‪‘‘١٢٢‬فائدہ نہ پہنچا ‪ ،‬صرف نقصان ہوا‬ ‫ہل من مزید*‬‫یہ ایک قرآنی تلمیح ہے قرآنی آیت کا ترجمہ یہ ہے‬‫اس دن ہم دوزخ سے پوچھیں گے تو بھر گئی ؟ تو وہ کہے گی کچھ ’’‬ ‫) (‪‘‘١٢۳‬اور بھی‬‫غالب کے ہاں اس تلمیح کا استعمال ملاحظہ ہو‬‫جاں مطر ِب ترانہ ء ہل من مزید ہے‬ ‫لب پردہ سنجِ زمزمہء الاماں‬ ‫نہیں‬‫علامہ حالی ہل من مزید کو لا تقنطومن الرحمۃ اللہ کے تناظر میں‬ ‫ملاحظہ فرماتے ہیں‬‫دوزخ ہے گر وسیع تو رحمت وسیع تر لاتقنطو اجواب ہے ہل من مزید‬ ‫کا (‪ )١٢۴‬حالی‬‫قدر کے نزدیک زاہد کا دوزخ کی طرح پیٹ نہیں بھر تا‬‫بھر وجو صور ِت دوزخ بھی پیٹ زاہد کا ڈکار نعرہ ہل من مزید ہے (قدر‬ ‫محسن نے منظوم ترجمہ کر دیاہے؛‬‫جہنم کے چہرے پر غیظ شدید ہر ایک داخلے پر ہے ہل من مزید‬ ‫(محسن‬

‫یعقوب*‬ ‫بنی اسرائیل کے نبی تھے ۔ آپ کے بارہ بیٹے تھے ۔ گیارویں حضرت‬ ‫یوسف تھے جو خوبصورتی میں اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے ۔‬ ‫حضرت یعقوب ‪ ،‬حضرت یوسف سے بے پنا ہ محبت کرتے تھے۔ ان‬ ‫کے بیٹوں نے حضرت یوسف کو جنگل میں لے جاکر کنویں میں ڈال‬ ‫دیا اور حضرت یعقوب سے واپسی پر غلط بیانی کی کہ یوسف کو‬ ‫بھیڑیا کھا گیا ہے۔ حضرت یعقوب کو سخت صدمہ ہوا ۔ وہ بیٹے کی‬ ‫محبت میں اس قدر روئے کہ بینائی سے محروم ہوگئے ۔‬ ‫پی ِر کنعان ‪ ،‬دیدہ ء یعقوب اور نسی ِم مصر تلمیحات اردو غزل میں‬‫مستعمل چلی آتی ہیں ۔ مثلاا قائم چاندپوری نے زاری کے حوالہ سے ’’‬ ‫‪:‬پی ِر کنعان ‘‘ تلمیح کا استعمال کیاہے‬‫رویا تو تھا غ ِم یوسف میں پیر کنعاں بھی پہ کی جو زاری میں تجھ بن‬ ‫‪،‬کسونے وہ کب کی (‪ )١٢۵‬قائم‬ ‫میر صاحب ’’ بوئے پیرہن ‘‘ سے جو پی ِر کنعان کی حالت ( بے چینی‬ ‫‪ ،‬بیقراری ) رہی ہوگی کو حوالہ بناتے ہوئے گفتگو کرتے ہیں‬‫خبر لے پی ِر کنعاں کی کہ کچھ آج نپٹ آوارہ بوئے پرہن ہے(‪ )١٢۶‬میر‬ ‫حضر ت یوسف اپنے باپ سے سال ہاسال جد ار ہے ۔ حضرت‬ ‫یعقوب روتے رہے اور گریہ زاری کرتے رہے ۔ روتے روتے ان کی‬ ‫آنکھیں سفید ہوگئیں ۔ اس واقع کے لئے ’’ دیدۂ یعقوب ‘‘ تلمیح‬ ‫استعمال میں آتی ہے۔‬ ‫جبکہ نسی ِم مصر ‪/‬با ِد مصر اس واقع کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ جب‬

‫حضرت یوسف کا ان کے بھائیوں کو معلوم ہوگیا کہ مصر کا فرمانروا‬ ‫اصل مینیوسف ہے تو وہ نادم ہوئے ۔ حضرت یوسف نے اپنا پیرہن‬‫دے کر روانہ کیا ۔ توحضرت یعقوب کو یوسف کی خوشبو آنے لگی ۔‬‫یہ خبر بادنسیم نے حضرت یعقوب تک پہنچائی ۔ میر صاحب نے ’’باد‬ ‫مصر‘‘ نظم کی ہے‬ ‫آئی کنعاں سے بادمصر‪ ،‬وے نہ گئی تابہ کلبہء یعقوب (‪ )١٢٧‬میر‬ ‫اب غالب کے ہاں ان تلمیحات کا استعمال ملاحظہ ہو‬‫سفیدی دیدہء یعقوب نہ چھوڑی حضر ِت یوسف نے یاں خانہ آرائی‬ ‫کی پھرتی ہے زنداں پر‬ ‫آغاباقر لکھے ہیں‬ ‫حضرت یعقوب کی آنکھوں کا نور ان کی آنکھوں سے نکل کر ’’‬ ‫)‪‘‘ (١٢۸‬حضرت یوسف کو تلاش کر تے دیوا ِر زندان پرآگیا‬ ‫یوسف زلیخا *‬ ‫حضرت یوسف ‪ ،‬حضرت یعقوب کے بیٹے اور کنعان کے باشندے‬ ‫تھے ۔ آپ نبی تھے ۔ آپ کے گیارہ بھائی تھے ۔ بنیامین سب سے‬ ‫چھوٹے اور یہ بنیامین سے بڑے تھے ۔آپ کے بھائیوں نے سوائے‬‫بنیامین ‪ ،‬آپ کو جنگل میں لے جاکر کنویں میں ڈال دیا۔ وہاں ایک قافلہ‬ ‫آیا جو آپ کومصر لے آیا اور بطور غلام فروخت کردیا۔ فوطیفار ‪ ،‬جو‬ ‫فرعو ِن مصر کا ایک حاکم تھا ‪ ،‬نے آپ کو خریدا۔ فرعون کے ہاں‬ ‫یوسف کا اقبال بلند ہوا۔ حاکم کی بیوی آپ پر بری نظر رکھتی تھی ۔‬ ‫ایک دن اکیلے میں اس نے یوسف سے ہم بستر ہونا چاہا۔ آپ وہاں‬

‫سے بھاگ آئے لیکن ان کے پیراہن کا ایک ٹکٹرا فرعون کی بیوی کے‬ ‫ہاتھ رہ گیا ۔ اس نے فرعون کو بھڑکایا۔ فرعون نے اپنے اس عبری‬ ‫غلام کو قید کر دیا۔ وہاں یوسف قید خانہ کے درواغہ کی نظر میں‬‫مقبول ہوگیا۔ فرعون کے دوحاکم بھی یوسف کے ساتھ قید میں تھے ۔‬ ‫ان کے خوابوں کی تعبیر آپ نے بتائی۔ فرعون نے بھی ایک خواب‬‫دیکھا جس کی آپ نے تعبیر بتائی۔ فرعون نے آپ کو مصر کا حاکم بنا‬ ‫دیا ۔ عزیر مصر ( فرعون ) کے انتقال کے بعد اس کی بیوی زلیخا‬ ‫فرارہوگئی ۔ خوبصورتی بھی ختم ہوگئی ۔ ایک دن اسے یوسف کے‬ ‫دربار میں لایا گیا ۔ اس کی خواہش کے مطابق آپ نے اس سے نکاح‬ ‫کیا۔ یوسف کی دعا سے سولہ سالہ دوشیز ہ بن گئی‬‫اردوغزل میں یہ دونوں کردار بہت سے حوالے لے کروارد ہوئے ہیں ۔‬ ‫میر سجاد نے یا ر کے جامے اور یوسف کے پیرہن کا تقابلی مطالعہ‬ ‫‪:‬پیش کیاہے‬ ‫یار کا جامہ ہمیں ہے گا عزیز یوسف اپنا پیرہن تہہ کررکھے (‪)١٢۹‬‬ ‫سجاد‬‫حضر ت یوسف نے خواب میں ستاروں کو سجد ہ کرتے دیکھا۔ اس پر‬ ‫ان کے بھائی حاسد ہوئے ۔ سعادت خاں ناصر نے خال روئے یار کو‬ ‫‪:‬یوسف کے خواب میں آنے والے ستاروں سے مماثل قرار دیاہے‬ ‫خا ِل روئے یارآتے ہیں ہمارے خواب میں مث ِل یوسف دیکھتے ہیں ہم‬ ‫ستار ے خواب میں (‪ )١۳٠‬ناصر‬ ‫سعادت یار خاں رنگین نے زلیخا کے حوالہ سے اپنے محبوب کا‬‫حسن اجاگرکیاہے۔ ان کا کہنا ہے ‪ ،‬تووہی ہے جو جوان ہوگئی اور اس‬

‫‪:‬پر یوسف مفتون ہوگئے‬‫تووہ ہے ‪ ،‬جواں جس نے پھر کرکے زلیخاکو یوسف کاکیا مفتوں اس‬ ‫چاند سی صورت پر (ا‪)١۳‬رنگین‬ ‫‪:‬جہاں داد کا کہنا ہے’’ چاہ ‘‘ کے مارے چاہ میں گرتے ہیں‬ ‫عزیزودل نہ دو یوسف کی کرکے چاہ [کبھی] کہ جاکے چاہ میں گرتے‬ ‫ہیں چاہ کے مارے (‪ )١۳٢‬جہاں داد‬‫ایک عورت یوسف کی خریدار بنی ۔ اس کی کل پونجی سوت ایک انٹی‬‫تھی ۔ مصحفی ؔ طنزکرتے ہوئے کہتے ہیں مادی حوالوں سے چاہ کب‬ ‫‪:‬میسرآتی ہے‬ ‫یوسف کی بہا میں بھی کوئی اے پیرزن ایسی تری کیا عقل گئی ہے‬ ‫دیوے ہے انٹی (‪ )١۳۳‬مصحفی ؔ‬ ‫قائم نے بھی یوسف کو خریداری کے حوالہ سے موضوعِ کلام بنایا‬ ‫ہے‬ ‫مو ِل یوسف سے سب خراج مصر دے کر تھا زلیخا کو یہ سوچ‬ ‫پسر کا ‪ ،‬کارواں نے کیا کہا (‪ )١۳۴‬قائم‬ ‫خواجہ درد کے مطابق دیدہء بینا کی ضرورت ہے کیونکہ آن (غیرت )‬ ‫‪:‬کے ہر پیرہن کے اندر یوسف پوشیدہ ہے‬ ‫تجھ کو نہیں ہے دیدء بینان وگرنہ یاں یوسف چھپا ہے آن کے ہرپیر‬ ‫ہن کے بیچ (‪ )١۳۵‬درد‬‫مشتری ؔ (لکھنوی )نے کنعاں کے چاند ( یوسف ) کی خود فروشی کو‬

‫حوالہ بنایا ہے۔ خود فروشی کی وجہ سے وہ بازار میں بکنے آئے ۔‬ ‫وہ عز یز عالم تھے ۔ انمول تھے ۔ آخر ان کی بھی قیمت لگ ہی گئی‬ ‫نرخِ حس ِن م ِہ کنعاں س ِر بازار خود فروشی کو جونکلا وہ عزیز عالم‬ ‫گھٹا (‪ )١۳۶‬مشتری‬‫میر صاحب کا کہنا ہے کہ زلیخا کی محبت بلا جواز نہ تھی ۔ کنعان کے‬ ‫چاند نے اسے گرویدہ بنا دیاتھا‬ ‫چاہ بے جانہ تھی زلیخا کی ما ِہ کنعاں عزیز کوئی تھا(‪ )١۳٧‬میر‬ ‫غالب کا کہنا ہے کہ زلیخا کی طرح محبوب کو خواب میں دیکھنا اور‬ ‫اس کے دیدار سے لذت افروز ہونا ہمارے بستر کے لئے باع ِث ندامت‬ ‫ہے۔لیٹیں سوئیں کہ کب محبوب آئے جبکہ ہمارا محبوب آتاہی رہتا ہے‬‫اور اس کی آمد کے آثار باقی رہتے ہیں ۔ تکیہ سونگھ کر دیکھئے اس‬ ‫کی مشکبار زلفوں کی خوشبوباقی رہے‬ ‫ابھی آتی ہے بوبالش سے اس کے زل ِف مشکیں کی ہماری دید کو‬ ‫خوب زلیخاعا ِر بستر ہے‬ ‫اس شعر میں غالب نے ’’ خواب زلیخا‘‘ تلمیح نظم کی ہے۔ایک‬ ‫تلمیحات ‘‘دوسرے شعر میں ’’ زنا ِن مصر‘‘ اور’’ماہ کنعان‬ ‫باندھتے ہیں‬ ‫سب رقیبوں سے ہوں نا خوش پر زنا ِن مصر سے ہے زلیخا خوش کہ‬ ‫مح ِو ما ِہ کنعاں ہوگئیں‬ ‫غالب نے جس کمرے میں حضر ت یوسف قید تھے کا بھی ذکر کیا‬ ‫ہے۔ قید کا کمرہ تنگ و تاریک ہوتاہے۔ بقول غلام رسول مہر‬





























‫رہی سہی بھی گئی عمر تیر ے پیچھے یار یہ کہہ کہ آہ تراکب تک‬ ‫انتظار کریں (‪)۹‬میر‬ ‫خواجہ درد نے’’ انتظار گذرنا ‘‘ باندھاہے‬ ‫وہ زمانے سے باہر اور مجھے رات دن انتظار گذرے ہے(‪ )١٠‬درد‬ ‫حاتم نے انتظار بیٹھنا استعمال کیا ہے‬ ‫زندگی ہوچکی میاں حاتم وقت کے انتظار بیٹھے ہیں (‪)١١‬حاتم‬ ‫درج بالا تراجم کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ’’ انتظار کشیدن‬ ‫‘‘داشتن کا ’’انتظار کھینچنا‘‘ غالب کے ہاں ایسا نہیں ہے‬ ‫نفس نہ انجم ِن آرزو سے باہر کھینچ اگر شراب نہیں انتظا ِر ساغر‬ ‫کھینچے‬‫اس ترجمے اور اس کے استعمال میں ایک نئی بات ضرور سامنے آتی‬ ‫ہے۔ اس استعمال کے ساتھ امید کا پہلو وابستہ ہے۔ امیدنفسیاتی سطح‬ ‫پر تسکین کا ذریعہ بنی رہتی ہے۔ امید نہ ہونے کی صورت میں‬ ‫مایوسی کا عنصر غالب رہتا ہے۔ باور رہے اشکالی تبدیلی تبدیلیاں یا‬ ‫تراجم ‪ ،‬بعض نامانوس کو دلچسپ بنا دیتی ہیں ۔ غالب انتظار کھینچ‬ ‫سے انتظار کی کیفیت مراد لے رہے ہیں ۔ جس میں استقلال کو‬ ‫استحکام می ّسر آتا ہو جبکہ انتظار کشیدن ‪ /‬داشتن کے ساتھ یہ پہلو‬‫وابستہ نہیں ہے۔ اس حوالہ سے غالب کا استعمال دوسروں سے ہٹ کر‬ ‫اور منفر د ہے۔‬ ‫انگشت رکھنا‪:‬‬ ‫انگشت برحرف نہادن ‪ ،‬فارسی میں یہ محاورہ کسی تحریر پر‬

‫اعتراض کرنا کے معنوں میں استعمال ہوتاہے۔ اردو میں ’’ انگشت‬ ‫رکھنا ‘‘ نہیں بولا جاتا ’’ انگلی رکھنا ‘‘ بولتے ہیں ۔‬ ‫فارسی میں اہل دانش کی تحریروں پر اعتراض کے لئے انگشت‬ ‫برحرف نہادن بولتے ہیں جبکہ ’’ انگلی رکھنا ‘‘ ہر چیز پر اعتراض‬‫کرنے کے لئے بولا جاتاہے۔ غالب نے فارسی کی پیروی میں ’’ انگشت‬ ‫رکھنا‘‘ کو تحریرہی سے مخصوص رکھا ہے‬‫لکھتا ہوں اسد سوز ِش دل سے سخن گرم تانہ رکھ سکے میرے حرف‬ ‫پرانگشت‬ ‫بازار گرم ہونا‪:‬‬ ‫بازار گرم بودن ‪ ،‬خوب بِکری ہونا‪ ،‬مانگ ہونا‪/‬بڑھنا ‪ ،‬مال کی ڈیمانڈ‬ ‫بڑھ جانے کے حوالہ سے بولا جانے والا محاورہ ہے ۔ اردو میں بھی‬ ‫قریباا ان ہی معنوں میں استعمال میں آتا ہے۔(‪ )١٢‬غالب نے محاورے‬ ‫کو اور ہی رنگ دے دیاہے وسیب میں صورتحال کچھ یوں ملتی ہے‬‫عدالتوں میں مقدمے بازی کے حوالہ سے سائلوں اور اہل کاروں الف۔‬ ‫کے درمیان ایسی ہی صورت دیکھنے کوملتی ہے۔‬‫‪١‬۔بازا ِر حسن میں کلالوں اور گاہکوں کے درمیان سودے بازی کا ب۔‬ ‫منظر مختلف نہیں ہوتا۔‬‫حسن میں اجارہ رکھنے والے حسین کے حصول کے لئے اہ ِل ‪٢‬۔ ٍ‬ ‫ذوق اپنی حیثیت سے بڑھ کر ادا کرنے یا شرائط‬ ‫ماننے کے لئے تیار ہوتے ہیں ۔‬ ‫غالب نے محاورے کے نئے مفاہیم میں استعمال کی راہ کھول دی ہے‬

‫پھر کھلا ہے د ِر عدال ِت ناز گرم بازا ِر فوجداری ہے‬ ‫غلام رسول مہر تشریح میں لکھتے ہیں‬ ‫پھر ناز کی عدالت کا دروازہ کھل گیا اور فوجداری کے مقدمے بہ ’’‬ ‫)۔(‪‘‘١۳‬کثرت ہونے لگے‬‫محبو ب کے حوالہ سے لڑنے بھڑنے اور ایک دوسرے کے خلاف زہر‬ ‫اگلنے کا وتیرہ نیا نہیں ۔ غالب نے اس حقیقت کو بڑی عمدگی سے‬ ‫پیش کیا ہے۔‬ ‫بباد دینا ‪:‬‬ ‫بیاددادن ‪ ،‬فارسی کا بڑا معروف محاورہ ہے جوتباہ کرنا ‪ ،‬منتشر کر‬ ‫دینا ‪ ،‬بکھیر دینا وغیرہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔‬ ‫بباد ہندی اسم مذکربھی ہے اور اس سے بباد اٹھنا محاورہ بمعنی‬ ‫فساداٹھنا ‪ ،‬فساد کرنا موجود ہے ۔ تاہم یہ بباددادن سے قطعی الگ‬ ‫چیز ہے ۔ اس میں بغاوت شرار ت اور شرینتر کے عناصر موجود‬ ‫رہتے ہیں ۔ بباد دادن توڑ پھوڑ اور لخت لخت کردینے کے حوالوں‬ ‫سے منسلک رہتاہے۔‬‫بیاد ’’بباد دینا ‘‘ فصیح ترجمہ ہے اس کے باوجود رواج نہیں پا سکا۔‬ ‫اٹھنا ‘‘ بھی اردو میں رواج نہیں رکھتا ۔‬ ‫قائم چاندی پوری کے ہاں ’’ بیا دجانا‘‘ نظم ہواہے‬ ‫گئے بباد نہ اب کے تو بخت میں اپنے کوئی دن اور بھی دنیا کی باؤ‬ ‫کھانا تھا (‪)١۴‬قائم‬

‫بباد جانا ‪ ،‬بباد دادن کا ترجمہ ہے۔ غالب نے دادن کے لئے اردو‬ ‫معاون فعل ’’ دینا ‘‘ برتاہے‬ ‫نالہ ء دل نے دئیے اور اق لخ ِت دل بباد یاد گا ِر نالہ ایک دیوا ِن بے‬ ‫شیرازہ تھا‬‫غالب نے ’’ بیاد دینا ‘‘ کو منتشر کر دینا کے معنوں میں برتا ہے۔ غلام‬ ‫رسول مہر نے اڑنا ہواکے حوالے کردینا ‪ ،‬پریشان و برباد کردینا ‪،‬‬ ‫)معنی مراد لئے ہیں (‪١۵‬‬ ‫بروئے کارآنا‪:‬‬‫بروئے کار آمدن ‪ ،‬شاداں بلگرامی کے نزدیک بروئے کار آمدن ’’ ظاہر‬‫شدن ‘‘ سے کنا یہ ہے (‪ )١۶‬بروئے کار آنا ‪ ،‬قدم رکھنا ‪ ،‬کی طرف آنا‬ ‫‪ ،‬وارد ہونا‪ ،‬برس ِرکار آنا ‪ ،‬کام آنا تفہیم رکھتا ہے۔ غالب نے جن‬ ‫معنوں میں استعمال کیاہے ار دو بول چال سے مطابقت نہیں رکھتے ۔‬ ‫آمدن کا ’’ آنا ‘‘ ترجمہ کرنے کے باوجود محارے کے اسلوب و معنی‬ ‫فارسی ہیں ۔‬ ‫صحر ا مگر بہ تنگ ِی چشم جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار‬ ‫حسود تھا‬ ‫پروازدینا‪:‬‬ ‫پرواز دادن داشتن کا اردوترجمہ پرواز دینا کیا گیا ہے ۔ ایک دوسر‬ ‫امحاورہ ’’ پر وبال داشتن ‘‘ بمعنی طاقت و قوت کا ہونا فارسی میں‬ ‫عام استعمال کا محاورہ ہے۔ پرواز دینا ‪ ،‬قوت فراہم کرنا ‪ ،‬مزید بہتری‬ ‫پیدا کرنا‪ ،‬صلاحیت میں اضافہ کرنا ‪ ،‬شکتی بڑھانا وغیرہ معنوں میں‬

‫استعمال نہیں ہوتا۔ شعر میں مطلب یہ بنتا ہے جب تک جلو ے کے‬ ‫تماشا(دیکھنے ) کی صلاحیت پیدا نہیں ہوتی ‪ ،‬انتظار کی اذیت سے‬ ‫گذرنا ہوگا۔ غلا م رسول مہر کے مطابق‬ ‫ہماری طبعیت کب برداشت کرسکتی ہے کہ انتظار کے آئینے کو ’’‬ ‫)‪ ‘‘ (١٧‬صیقل اور جلا دیتے رہیں‬‫مہر صاحب کے حوالہ سے انتظار کی اذیت واضح ہوتی ہے کہ کب تک‬ ‫آخر انتظار کیا جائے ۔ اس طرح عجلت پسندی سامنے آتی ہے ۔عجلت‬ ‫بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔ غالب یقیناااس فلسفے سے آگاہ تھے ۔ دیر آید‬ ‫درست آید مقولہ ان سے پوشید ہ نہیں رہا ہوگا۔‬‫پروازدینا ‪ ،‬صلاحیت بڑھانا ‪ ،‬صیقل کرنا ‪ ،‬جلا دینا وغیرہ ایسے معنوں‬ ‫میں استعمال ہواہے ۔محاورہ فصیح سہی مانوس نہیں ‪ ،‬اس لئے چل‬ ‫نہیں سکا۔‬ ‫وصال جلوہ تماشا ہے پر دماغ کہاں کہ دیجے آئینہ انتظار کو پرواز‬ ‫مطلب صر ف اتنا ہے جلوے کے لئے انتظار کی اذیت سے گذرنا پڑتا‬ ‫ہے مگر انتظار کی اذیت سے گذرے کون؟‬ ‫پرورش دینا‪:‬‬ ‫پرورش داشتن کاترجمہ ہے ۔نشوونما پرورش ‪ ،‬پالن پوسن ‪،‬تعلیم و‬ ‫تربیت ‪ ،‬مہربانی‪ ،‬عنایت کرنا کے معنوں میں استعمال ہوتاہے(‪)١۸‬‬ ‫پرورش کے ساتھ کرنا اور ہونا مصادر کا استعمال ہوتا ہے۔ دینا اردو‬ ‫مصدر سہی لیکن اس سے فارسی اسلوب ترکیب پاگیا ہے ۔ اردو‬ ‫اسلوب کچھ یوں بنتا‬

‫غم آغو ِش بلا میں پرورش کر تاہے عاشق کی‬ ‫اب غالب کا مصرع ملاحظہ ہو‬ ‫غم آغو ِش بلا میں پرورش دیتاہے عاشق کو‬‫مصرع اول الذکر اردو اسلو ب کا نمائندہ سہی لیکن منفرد ‪ ،‬خوبصورت‬ ‫اور فصیح نہیں جبکہ مصرع ثانی الذکر فارسی اسلوب کا حامل ہے‬ ‫لیکن ہر سہ عناصر اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ اب غالب کا‬ ‫پور ا شعر پڑھیں شعر کے لسانی سیٹ اپ میں مصدر دینا ہی مناسب‬ ‫اور خوبصور ت لگتاہے‬‫چراغِ روشن اپنا قلزم غم آغو ِش بلا میں پرورش دیتاہے عاشق کو‬ ‫صرصر کا مرجاں ہے‬ ‫تشنہ آنا‪:‬‬ ‫تشنہ آمدن ‪ ،‬تشنہ ہونا‬ ‫مشتاق ہونا ‪ ،‬طالب ہونا‪ ،‬آرزو مند ہونا‪ ،‬خواہش مندہونا‬ ‫لفظ تشنہ اردو کے لئے نیا نہیں ۔ اس کا مختلف حوالوں سے استعمال‬ ‫ہوتا آیا ہے۔ مختلف نوع کے مرکبات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں ۔ مثلاا‬ ‫تشنہ کا می ‪ /‬تشنہ کام‬‫تس پر بھی تشنہ کا ِم دیدار تیرا ہی حسن جگ میں ہر چند موج زن ہے‬ ‫ہیں تو ہم ہیں (‪ )١۹‬درد‬ ‫تشنہء خوں‬

‫دشم ِن جاں ہے تشنہ ء خوں ہے شوخ بانکہ ہے ‪،‬نکبت بھوں ہے‬ ‫(‪ )٢٠‬آبرو‬ ‫تشنہ لب‬ ‫جوکہ مائل ہے تیغ ابرو کا تشنہ لب ہے وہ اپنے لوہو کا (‪ )٢١‬راقم‬ ‫مختلف نوعیت کے محاورات بھی اردو زبان کے ذخیر ے میں داخل‬ ‫ہیں ۔ مثلاا‬ ‫کچھ مدارات بھی اے خو ِن جگر پیکاں کی تشنہ مرتا ہے کئی دن سے‬ ‫)یہ مہماں تیرا (‪ )٢٢‬فغاں ( تشنہ مرنا‬ ‫بہت مخمور ہوں ساقی شراب ارغوانی دے‬ ‫نہ رکھ تشنہ مجھے ‪ ،‬ساغر براہ مہربانی دے (‪ )٢۳‬چندا (تشنہ رکھنا‬‫تشنگی اور بھی بھڑکتی گئی جوں جوں میں اپنے آنسوؤں کوپیا (‪)٢۴‬‬ ‫)درد ( تشنگی بھڑکنا‬ ‫تشنہ آنا بمعنی مشتا ق ہونا ‪ ،‬اردو میں مستعمل نہیں رہا ‪،‬۔ ترجمہ کی‬ ‫صورت میں غالب نے ایک نیا محاورہ اردو زبان کو دیا ہے لیکن یہ‬ ‫محاور رواج نہیں پاسکا‬ ‫پھر مجھے دیدہ ء تریاد آیا دل جگر تشنہ ء فریاد آیا‬ ‫تماشا کیجئے ‪ :‬تماشا کردن کا ترجمہ ہے بمعنی شوق وحیرت سے‬‫دیکھنا ‪ ،‬سیر کرنا ‪ ،‬نمائش ا ور کھیلوں کو دیکھنا ‪ ،‬سبزہ پھلواری کو‬ ‫دیکھنا وغیرہ کے لئے فارسی میں بولا جاتا ہے۔‬‫تماشا کا بنیادی تعلق دیکھنے سے ہے جبکہ اردو میں کرتب ‪ ،‬مداری‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook