گم راہ سنا ( )۶۴میر غالب کا اپنا ہی انداز ہے ۔ خضر نے سکندرکے ساتھ چھل کیا ۔ آ ِب حیات خود پی گئے اور سکندر محروم رہا ۔ ایسے میں جب رہنما ہی چھل کرے تو کسی اور پر کیا بھروسا کیا جاسکتا ہے کیا کیا خضر نے سکندر سے اب کسے رہنما کرے کوئی دار ا*دارا فارس کاصاح ِب جلال بادشاہ تھا لیکن سکندر سے پٹ گیا ۔ دارا کیبیٹی سکندر سے بیاہی گئی ۔ ہندوستان سے واپسی پر سکندر کی موت قصر دارا میں ہوئی ارود غزل میں دارا کو مختلف حوالوں سے یاد رکھا گیاہےقائم چاندپوری نے سکندر ودارا کو جو جاہ وجلال کی علامت سمجھے جاتے ہیں ۔ فنا کے آئینے میں ملاحظہ کیا ہے ہے جو کچھ ہوش تو کردیدۂ عبرت سے نگاہ سن کے تو قصہ ء اسکندر ودارا کے تیءں ( )۶۵قائم غالب کے ہاں جاہ وحشمت کے حوالہ سے دارا فوکس ہوا ہے مرے شاہ سلیماں جاہ سے نسبت نہیں غالب فریدون وجم وکیخسرو وداراب وبہمن کو روح القدس* حضرت جبرائیل کا ایک نام ہے ۔ انبیاء تک وحی پہنچانے کا فریضہسرانجام دیتے رہے ہیں ۔ شب برات حضور کے ہمراہ تھے ۔ ایک مقام
پر پہنچ کر آگے جانے سے انکار کردیا کہ آگے پر جلتے ہیں۔( )۶۶اس حوالہ سے انھیں عقل سے منسلک پاتے ہیں ۔ یہ کردار صدیوں سے تہذیبوں اور معاشرتوں سے نتھی چلاآتا ہے ۔ یہ کردار جس نام کےساتھ آیا ہے ۔ معتبرا ور محترم ٹھہرا ہے ۔ جبرائیل جو بڑا اطاقتور اور بڑا زبردست ہے ،نے حضور ﷺکو تعلیم دی ہے۔ جب وہ آسمان کے (شرقی) اونچے کنارے پرتھا تووہ اپنی اصلی صورت میں سیدھا کھڑا ہوا آگے بڑھا پھر جبرائیل اور محمدﷺمیں دوکمان کا فاصلہ رہ گیا بلکہ اس سے بھی قریب تھا۔( )۶٧ہندہ مذہب سے منسلکدیورشی (منی ور) بھی غالباا اسی کردار کانام ہے ۔ میر صاحب نے اس کردار کو روح الامین کے نام سے یادرکھا ہے سنیو ،جب وہ کھبو سوار ہوا تابہ روح الامین شکار ہوا( )۶۸میر روح القدس کلام شناس ہے ۔ریختہ سے آگاہ نہ سہی ،آہنگ ،ٹیون ،موسیقت ،لہجے اور لفظوں کے اتار چڑھا سے تو واقف ہے ۔ اسی بنیاد پر کلام غالب پر سرد ھنتا ہے پاتا ہوں اس سے داد ،کچھ اپنے کلام کی روح القدس اگر چہ مراہم زباں نہیں زمزم* حضرت ابراہیم جب اپنی بیوی اور بیٹے کو اکیلا چھوڑ کرچلے گئے تو حضرت ہاجرہ صفا مروہ کی پہاڑیوں میں دوڑیں پانی نہ مل سکا ۔ حضرت اسماعیل جو ابھی شیر خوار بچے تھے کی ایڑیاں رگڑنےسے ایک چشمہ پھوٹ نکلا()۶۹جو آج زمزم کے نام سے معروف ہے ۔ حضرت ایوب کے لئے بھی چشمہ جاری ہوا ۔ ( )٧٠حضرت موسی
نے زمین پر اپنا عصا مارا تو بارہ قبیلوں کے لئے بارہ چشمے جاری حج سے ‘ہوگئے ( )٧١زم زم آج بھی مکہ میں موجودہ ہے۔ حاجی واپسی پر بطور تبرک اس چشمے کا پانی لاتے ہیں ۔ اور اپنے عزیزوں میں تقسیم کرتے ہیں ۔ داغ دہلوی کے ہاں اس تلیمح کا استعمال ملاخطہ ہو خداکے گھر میں کیا ہے کام زاہد بادہ خواروں کا جنھیں ملتی نہیں وہ تشنہ زمزم بھی ہوتے ہیں داغ یہ چشمہ کعبے سے صرف چند گز کے فاصلہ پر مسجد الحرام کے ’’اندر واقع ہے اس کا پانی پینا مسنون ہے ۔ علاوہ بریں صحت کے لئے )۔ ( ‘‘٧٢بھی مفید ہے غالب نے بالکل نئے انداز سے اس تلمیح کا استعمال کیاہے ۔ راتزمزم کے کنارے پر بیٹھ کرپیتے رہے ۔ صبح زمزم کے پانی سے جامہاحرام کے دھبے دھو کر پچھلے گناہوں سے خلاصی حاصل کرلی ہے ۔ رات پی زمزم پہ ہے اور صبحدم دھوئے دھبے جامہء احرام کے ز نا ِن مصر*مصر کی عورتیں عزیز مصر کی زلیخا کو ایک غلام سے محبت کرنےپر لعن طعن کرتی تھیں ۔ اس پر اس نے ’’ ان عورتیں کو بلا بھیجا اور ان کے لئے مجلس آراستہ کی اور اس میں سے ہر ایک عورت کےہاتھ میں چھری (اور ایک نارنجی ) دی اورکہہ دیا جب تمہارے سامنےآئے تو کاٹ کر ایک کاش اس کو دے دینااور یوسف سے کہا کہ اب ان کے سامنے سے نکل تو جاؤ۔ جب ان عورتوں نے اسے دیکھا تو اس
کو بڑا حسین پایا تو سب کی سب نے بے خودی میں اپنے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے اور کہنے لگیں ماشاء اللہ یہ آدمی نہیں ہے ۔ یہ ہونہ ہوبس ایک مغرز فرشتہ ہے ۔ (تب زلیخاان عورتوں سے ) بولی کہ بس یہ وہی تو ہے جس کی بدولت تم سب مجھے ملامت کرتی تھیں )٧۳ایک حدیث میں ہے ،کہ یہ چالیس عورتیں تھیں ان میں سے (‘‘نو عورتیں حضرت یوسف کو دیکھ کر بے ہوش ہوکر مرگئیں ۔()٧۴ اس قرآنی واقعے کو غالب نے بڑی عمدگی سے پیش کیا ہےسب رقیبوں سے ہوں ناخوش ‘پرزنا ِن مصر سے ہے زلیخا خوش کہ مح ِو ماہ کنعاں ہوگئیں غالب نے انسان کی فطرت کے تین گوشوں کو واکیاہے رقیبوں سے آدمی (عاشق) ہمیشہ ناخوش رہتاہے الف۔ کسی کے انتخاب کی کوئی تعریف کرئے تو خوشی ہوتی ہے ب ۔ ج ۔ رقیب دکھ میں مبتلا ہویا اسے نقصان پہنچے توخوشی ہوتی ہے زلیخا اس بات پر بھی خوش ہے کہ محبوب آزاد نہیں ،اس پر گرفتکوئی مشکل کام نہیں ۔ یہ کہ زنان مصر نے جب انگلیاں کاٹ لیں توزلیخا کھل پر گیا کہ اس نے جو مارماری ہے ،واقعی اچھی اور کمال کے درجے پر فائز ہے ۔ ساقی کوثر* ساقی بمعنی شراب پلانے والہ ‘ڈالنے والا‘پانی یا خون کا()٧۵کوثربہشت میں ایک نہر کا نام ،اس کا پانی دودھ سے سفید اور شہد سے میٹھا ہوگا۔ جو ایک بار پئے ساری عمر پیاس نہ لگے ۔اس کا پانی
ایک حوض میں پڑتا ہے ۔نام حوضے ست کہ درآخرت خوابدبودا متآنحضرت ازاں خواہند آشامید ()٧۶رسول اللہ نے فرمایا کہ میں تم سےپہلے حوض کوثر پر موجود ہوں گا۔ تم لوگوں میں سے جو میرے پاس آئے گا۔اس کا پانی پئے گا۔()٧٧احمد رضا خاں بریلوی نے کوثر کو )٧۸کے معنوں میں لیا ہے ۔ ( ‘‘‘‘خوبیاں ساق ِی کوثر ،کوثرسے پلانے والا۔ دینا میں حضور سے کی پیروی خیرکثیر ،جبکہ آخرت میں پینے کے حوالہ سے ۔اہل تشیع ،جناب امیر کو ساق ِی کوثر مانتے ہیں ۔ ہردوصورتوں میں بنیادی نقط توپیروی ہے ۔ پیروی کی صورت میں فلاح دنیا وآخردستیاب ہوسکتی ہے ۔ فلاح کی حاجت دنیا وآخرت میں رہتی ہے ۔ ارود غزل میں اس تلمیح کا استعمال مختلف حوالوں سے پڑھتے سننے کو ملتا ہے ۔ ولی ؔ دکنی کے ہاں یہ تلمیح محبوب کے حوالہ :سے نظم ہوئی ہے ۔ مشترک عنصرلذت ہے جنت حسن میں کیا حق نے حو ِض کوثر مقام مجھ اب کا ( )٧۹ولی دکنی جناب حسین کے غم میں بہنے والے آنسوؤں کو قائم چشمہء آ ِب کوثرکا نا م دیتے ہیں ہے جو چش ِم تر بہر اب ِن علی ؔ بہ از چشمہ ء آ کوثر ہے وہ ()۸٠ قائممصحفی ؔ کے خیال میں ساقی کی موجودگی اور اس پر اعتماد رکھنے کی صورت میں تشنگی کا سوال ہی نہیں اٹھتا وہ اس لئے کہ
نہ ہوگی جان کئی کے وقت ہرگز تشنگی غالب کہ تواے مصحفی ؔ مداح ہے ساق ِی کوثر کا( )۸١مصحفی ؔ چندا نے اس تلیح کا دعائیہ استعمال کیا ہے یاساق ِی کوثر یہی چندا کی دعا ہے یہ دور ہے ان سے جو ملے تنگ خرابات ( )۸٢چندا غالب کا کہنا ہے پلانے والا کل پلائے یا کل پیا جائے گا۔ کیا عجیببات ہے پینے کی ضرورت آج ہے تو (معاذاللہ ) ساقی کی توہین ہے ۔ کل کے لئے کر آج نہ خست شراب میں یہ سوئے ظن ہے ساقی کوثر کے باب میں ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں دنیا کے غم بہت سہی لیکن غم غلط کرنے کے لئے شراب موجود ہے ۔ آخرت میں اگر کوئی غم ہوا تو کیسی چنتا ’’غلام ساق ِی کوثر ہوں بہت سہی غم گیتی شراب کم کیا ہے غلام ساق ِی کوثر ہوں مجھ کو کیا غم ہے سکندر ۳٢۳تا۳۵۶ق م فلپ دوم کا بیٹا ،مقدونیہ کا بادشاہ تھا ۔ ۳۳برس کیعمر میں بخت نصر کے محل میں ٹائی فائڈ میں مبتلا ہو کر فوت ہوگیا ۔ اس کا شمار دنیا کے عظیم جرنیلوں میں ہوتا ہے۔ اس کی فتوحات کادائرہ دریائے بیاس تک پھیلا ۔ اس نے ایرانی بادشاہ دارا سوم اور راجہ پورس جسے عظیم یدھاؤں کو شکست سے ہمکنار کیا۔ سکندر عہد قدیم کی انتہائی رومانی شخصیت خیال کیا جاتا ہے ۔ ادبی روایت
کے مطابق سکندر آئینہ کاموجد ہے یا اس کے عہد میں آئینہ دریافت ہوا ۔ اس نے شہرا سکندریہ تعمیر کرایا وہاں ایک آئینہ نصب کرایاجس مینار پر آئینہ نصب کیاگیا اس کی بلندی ۳٠٠گز اور قطر سات گز تھا۔ اس آئینے میں قسطنطنیہ کے سارے شہر کا عکس نظر آتا تھا۔ سکندر ذوالقرنین نے کاکیشیا کے نیچے بسنے والوں کو یاجوج ماجوج سے بچانے کے لئے ایک لوہے اور تانبے کی دیوار بنوائی ۔ کہا جاتا ہے کہ یاجوج ماجوج قوم کے لوگ اس دیوار کو چاٹتے ہیں ۔یہ کاغذ کے برابر رہ جاتی ہے تو چاٹناچھوڑ دیتے ہیں ۔ اگلے دن پھراسی طرح مضبوط ہوجاتی ہے ۔قرب قیامت میں وہ اس دیوار کو چاٹنے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔ یاجوج ماجوج روئے زمین پر پھیل جائیں گے ۔ ہر چیز کو نیست ونابو د کر دیں گے۔ سکندر ہندوستان میں وارد ہوا ۔ اس نے اور اس کی قوم نے یہاں قیام کیا۔ کچھ لوگ یہاں آباد ہوگئے باقی واپس چلے گئے ۔ یونانی قوم کی نسل آج بھی موجود ہے اور اپنی الگ سے روایات رکھتی ہے ۔سکندربہادری اور ایجاد کے حوالہ سے اپنا مقام رکھتا ہے ۔لفظ آئینہ بہت سے مجازی اور علامتی مفاہیم میں مستعمل چلاآتا ہے ۔ سکندر کے متعلق بہت سے حوالے ارود غزل میں برصغیر کی اپنی روایاتسے ہم آہنگ ہو کر وارد ہوئے ہیں ۔ ولی دکنی نے محبوب کے رخ کو آئینہء سکندری سے زیادہ صاف وشفاف بتایا ہے شرمندہ ہو تجھ مکھ کے دکھے بعد سکندر بالفرض بنادے اگر آئینہ قمر سوں ( )۸۳ولی آب حیات ‘‘پینے کی خواہش کو ارود غزل کے ’’حاتم نے سکندر کی مزاج کے مطابق پینٹ کیاہے۔
جوں سکندر کے تھی دل میں حسرت آ ِب حیات اس طرح تجھ لب کے بوسے کا مجھے اشتیاق ( )۸۴حاتمواعظ اس کا ’’رولا ‘‘ تو بہت ڈالتا ہے لیکن اس کے ذائقے اور سرور سے خود بھی محروم ہے اوروں کو محض کہانیاں سنا رہے۔ جبکہ بقول غلام رسول مہر ہے جو کچھ ہوش تو کردیدۂ عبرت سے نگاہ سن کے تو قصہء اسکندرودارا کے تیءں ()۸۵قائم کے تناظر میں فوکس کیا ‘‘میرانیس نے سکندر کو ’’دیوار سکندری ہے ۔بنے یوں تیں دردریا کے اندر کہ ششدرہوگئی س ِدسکندری ( )۸۶انیس شیخ قادر علی مصنف نے بلند بختی کے حوالہ سے سکندر کا ذکر چھیڑا ہے ۔ ان کا کہناہے سکندر نے تو محض ایک آئینہ دریافت کیا تھا لیکن ہماری ملاقات ہر روز کئی آئینہ چہرروں سے ہوتی ہےآئینہ زورں سے رہتی ہے مجھے صحبت روز اے فلک تو نے دیابخ ِت سکندر مجھ کو ()۸٧مصنف غالب کا کہنا ہے سکندر نے خضر پر انحصار کیا ،مارکھا گیاکیا کیا خضر نے سکندر سے اب کسے رہنماکرے کوئی جب تک اپنے فیصلے خود کرتا رہا کامیاب رہا جونہی اس نے اپنی ذہانت اور کوشش سے منہ پھیرا خالی ہاتھ واپس لوٹا۔ بقول غلام رسول مہر
یہ مثال سب کے سامنے ہے اب کوئی کسی کو کس بھرو سے پر ’’ )‘‘(۸۸رہنما کرے ہماری شراب کی یہ خوبی تو ہے ناکہ خود بھی پیتے ہیں اور ’’ )۔( ‘‘۸۹دوسروں کو بھی پلاسکتے ہیں شعر ملاخط فرمائیں ۔واعظ نہ تم پیونہ کسی کو پلا سکو کیا بات ہے تمہاری شراب طہور کی حج یا عمرہ کے موقع پر حاجی لوگ خانہ کعبہ کے گرد طواف: چکر کاٹتے ہیں ۔ اس فعل کے بغیر حج یا عمرہ نہیں ہوتا ۔ یہ حج یا عمرہ کے لوازمات اور فرائض میں داخل ہے ۔ یہ لفظ ِان ہی معنوں کے لئے مخصوص سمجھاجاتاہے۔ اس کے لغوی معنوی چکر کاٹنا کے ہی ہیں ۔ غالب کے ہاں ان ہی معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ دل پھر طوائ ِف کوئے ملامت کو جائے ہے پندارکا صنم کدہ ویراں کئے ہوئےعلی :جناب ابوطالب کے بیٹے ،جناب عبدلمطلب کے پوتے اور جناب *رسالت مآب کے چچازاد بھائی اور داماد ہیں ۔ امامیہ مسلک سے متعلقلوگ آپ کو پہلا امام قراد دیتے ہیں ۔ اور آپ کو وحی رسول کہتے ہیں۔ جناب رسالت پناہ کے دوقول آپ کے متعلق کہے جاتے ہیں١۔ جس کا میں مولا اس کا علی مولا ٢۔ میں علم کا شہر ہوں علی اس کا دروازہ ہے آپ شجاعت ،انصاف ،علم وفضل ،تقوی ،قناعت وغیرہ کے حوالہ سے یاد رکھے جاتے ہیں ۔ آپ کی کتاب ’’نہج البلالغہ ‘‘جو آپ کے خط بات
،خطوط اور اقوال پر مشتمل ہے ۔ آپ کے علم ودانش ،نکتہ ،بینیاورفصاحت وبلاغت کے حوالہ سے تسلیم کی جاتی ہے ۔ جنگ بدر اور جنگ احد میں جوآپ نے شجاعت کا نمونہ پیش کیا اس کی مثال نہیں ملتی ۔ آپ کو فاتح خیبر کے حوالہ سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ آپمسلمانوں کے چوتھے خلیفہ راشد ہیں۔ غالب کے ایک شعر میں پانچ حوالوں سے آپ کا ذکر ہواہے ۵۔ ١۔امام (ظاہروباطن )٢۔امیر(صورت حفی )۳۔ ولی ۴۔ اسد اللہ جانشی ِن نبی قائم نے سکندر ودارا کے ،جوبڑے جاہ وجلال کے مالک تھے ،کے فنا ہونے کے حوالے سے دنیا کی بے ثباتی کاتذکرہ کیاہے۔ شراب طہور* نیکوکاروں کو قیامت کے روز ان کے نیک کاموں کے صلہ میں پاک شراب مہیا کئے جانے کا اللہ نے وعدہ کیا ہے ۔ اس کا متعدد بار قرآن مجید میں ذکر آیا ہے ۔ اس میں نشہ نہیں ہوگا۔ اس کے پینے سے سرور اور سکون میسر آئے گا۔ اس کی اہمیت پر کئی حوالوں سے روشنی ڈالی گئی ہے ۔ دنیا کی شراب میں نشہ ہے اور شر اور فساد پھیلانے کاموجب بھی بنتی ہے ۔ حواس پر اثرانداز ہوتی ہے ۔ انساناپنے آپے میں نہیں رہتا ۔شراب طہو ِر ان دونوں منفی عناصر سے مبرا ہے ۔ غالب عمومی ڈگر سے ہٹ کر بات کررہے ہیں۔ شراب طہور فرد کے لئے ہے ۔ آج می ّسر نہیں ۔ یہ کسی شراب ہے۔ قبلہ معین الدین چشتی ؔ کا ایک شعر شہرت عام رکھتاہے۔ شا ِہ مرداں شیر یز داں قوت پرور دگار لافتح اِلاعلی لاسیف الاذوالفقار
ابو تراب ،حیدر ،صفدر ،جنا ِب امیر وغیرہ کے ناموں سے بھی آپ کو یاد کیاجاتاہے۔قائم چاند پوری نے ابو تراب اور امام کے لقب سے نظم کیاہے۔ ہر لفظ احترام اور محبت کے جذبے سے سر شار نظر آتاہے جوں سرمہ کیوں نہ چشم میں قائم کی ہوجگہ آخروہ خا ِک پا ہے ش ِہ بوتراب کا ( )۹٠قائم سوچے تھا میں قافیے کو قائم جزنام امام کچھ نہ نکلا( )۹١قائمچندا کا ہر مقطع مدحِ علی ؔ پر استوار ہے۔غالب کے ہاں اس تلمیح کا استعمال ملاحظہ ہوامام ظاہر و باطن امی ِر صورت ومعنی علی ولی اسد اللہ جانشی ِن نبی ہے طور * طور دوحوالوں سے معروف ہے طور پر حضرت موسی ؔ اللہ تعالی سے ہم کلا م ہوتے تھے ۔ الف۔ اسی حوالہ سے انہیں کلیم اللہ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے بر ِق تجلی ب۔طور ‘‘ کے متعلق یہ دونوں حوالے اردو غزل کا حصہ ہیں ۔ تمثیلی ’’طور ‘‘ کا استعمال ملتاہے۔ اس ’’ ،نسبتی اور علامتی مفاہیم میں بھی ضمن میں دو ایک مثالیں ملاحظہ ہوں ۔ میر صاحب کے اس شعر کی کی کارفرمائی موجو دہے ‘‘رگوں میں ’’ برق تجلی کیا آگ دے کے طور کو کی تر ِک سرکشی اس شعلے کی وہی ہیں
شرارت کی بانیاں ( )۹٢میر قائم چاند پوری نے اپنے اس شعر میں بر ِق تجلی کے حوالہ سے ’’ طور ‘‘ کی بات کی ہے جلایا کو ہ تیں موسی ؔ ،عبث بر ِق تجلی سے اس آتش میں توجل بجھنے کو دل کا طوربہتر تھا ( )۹۳قائم طور ‘‘ کا بر ِق تجلی کے حوالہ سے ذکر کیاہے ’’غالب نے بھیگرنی تھی ہم پہ بر ِق تجلی ،نہ طور پر دیتے ہیں بادہ ،ظر ِف قدح خوار دیکھ کر شیفتہ کے خیال میں نگا ِہ التفات کی طرح تجلی بھی خصوص کا مقدر بنتی ہےجزطور اور پر ہو تجلی ،محال ممکن نہیں وہ بر ِق نگہ غیر پر پڑے ہے( )۹۴شیفتہ فتنہء قیامت* فتنہ عربی لفظ ہے جس کے معنی آزمائش کے ہیں جبکہ اردو میں شرارت ،چالاکی ،ہنگامہ ،جھگڑ ا ( )۹۵کے معنوں میں استعمال ہوتاہے۔ قیامت آزمائش کا دن ہوگا۔ کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا۔افراتفری ،بے چینی ،گھبراہٹ ،بے چارگی اور بے بسی کا عالم ہوگا۔بے ہنگم شور ہوگا ۔ ہر کسی سے اس کے کئے کا حساب لیا جائے گا۔اس حساب کے مطابق جزا وسزاملے گی ۔ اس کے لئے ’’ حشر‘‘ کالفظ بھی استعمال میں آتا ہے۔ حشر یعنی ایک مقام پر اجتماع ( )۹۶کبھی اکیلا اور کبھی مرکب کی صور ت میں ،یہ دونوں الفاظ استعمال میں
آتے ہیں ۔ اردو غزل کے شعرا نے ِا س حوالہ سے مستعمل الفاظ کو سماجی ،سیاسی اور معاشی حالات کے تناظر میں استعمال کیاہے۔ ان استعمالات میں قیامت سے متعلق عناصر ،مجازی ،کنا یتہ یا علامتی حوالہ سے موجو د رہتے ہیں۔ غالب نے سرو قامت کے پیش نظر قیامت کے فتنے کا ذکر کیا ہےترے سروقامت سے اک ق ِد آدم قیامت کے فتنے کا کم دیکھتے ہیں خواجہ حالی کا کہنا ہےسروقامت سے فتنہء قیامت کمتر ہے ۔ دوسرے یہ معنی بھی ہیں کہ ’’ تیر اقداسی میں سے بنا ہے، )اس لئے وہ ایک ق ِد آدم کم ہو گیا(۹٧ شیفتہ نے ’’ فتنہء حشر‘‘ استعمال کیاہے گور میں یا ِد ق ِد یار نے سونے نہ دیا فتنہ ء حشر کو رفتار نے سونے نہ دیا( )۹۸شیفتہایک دوسری جگہ غالب قدہی کے حوالہ سے ’’ فتنہء حشر ‘‘ استعمال میں لاتے ہیںمیں متعق ِد فتنہ ء محشر نہ ہوا جب تک کہ نہ دیکھا تھا ق ِد یارکا عالم تھا قدما کی معنوی تفہیم کے بعد فتنہء محشر واضح ہوتاہے شیفتہ نے ’’ ہنگامہ ء محشر ‘‘ بھی استعمال کیاہے بے پردہ وہ آئیں گے تو کیسے مجھے ہوگی اے شیفتہ ہنگامہ ء
محشر کی شکایت ( )۹۹شیفتہ ‘‘اپوانپی’’غالب نے زندگی کی افراتفری ،بے چینی ،بے سکونی ، یہی تلمیح ’’ شو ِر محشر‘‘ مرکب اور شور شرابے کے حوالہ سے اضافی کی صورت میں استعمال کی ہےلے گیا تھا گور میں وائے واں بھی شو ِرمحشر نے نہ دم لینے دیا ذو ِق تن آسانی مجھے قائم چاند پوری نے بڑ ا عمدہ خیال پیش کیاہے۔ دل کے مقاب ِل شور محشر کی بھلا کیا حیثیت ہے شو ِر محشر سے ہے پروامجھے کیا !اے واعظ! جب کہ ہمراہ لئے دل ساخلل جاؤں گا ()١٠٠قائم خواجہ درد کے ہاں ’’ شور قیامت ‘‘ استعمال میں آیاہے؛ اے شو ِر قیامت رہ اودھر ہی میں کہتا ہوں چونکے نہ ابھی یاں سے کوئی د ِل شوریدہ ( )١٠١درد غالب نے ’’ رو ِزمحشر ‘‘کو یوم الحساب کے معنوں میں ،انسانی رویوں کی مذمت اور تذلیل و تضحیک کے حوالہ سے استعمال کیاہے بچتے نہیں مواخذہ ء روز حشر سے قاتل اگر رقیب ہے تو تم گواہ ہو میر محمدیارخاکسار کے ہاں بھی یہ تلمیح انسان کے منفی رویے پر روشنی ڈالتی ہےتیغِ قاتل سے ہوئے محروم بے تقصیرہم روز محشر کو اٹھیں گے گور سے دل گیر ہم ( )١٠٢خاکسار
یوم الحساب ‘‘ مرکب نظم کیاہے’’ میر صاحب نےاگتے تھے دس ِت بلبل و داما ِن گل بہم صح ِن چمن نمونہ ء یو م الحساب تھا ( )١٠۳میر اس تلمیح کا ایک اور بہروپ ’’ حشر ونشر‘‘ غالب نے استعمال کیا ہے نہ حشرونشر کا قائل نہ کیش وملت کا خدا کے واسطے ایسے کہ پھر ستم کیا ہے فریدون : فریدون حضرت خضر کے زمانے میں صاح ِب جلال وجاہ بادشاہ گزرا ہے۔ قائم کا کہنا ہے اشیاء آدمی کے حوالہ سے حیثیت رکھتی ہیں ۔ آدمی نہیں تو اشیاء کس کام کی ۔ قائم کے اس شعر سے فنا کے فلسفے پر بھی روشنی پڑتی ہے غالب نے فریدوں کو جاہ وحشمت کے حوالہ سے فوکس کیا مرے شاہ سلیماں جاہ سے نسبت نہیں غالب فرید ون وجم وکیخسرو دراب ولبمن کو کاغذی پیرہن : زمانہ ء قدیم میں ایران میں مظلوم کاغذی لباس پہن کر بادشاہ کے حضور پیش ہوتا۔ یہ لباس اس کے فریادی ہونے کی علامت تھا۔ بادشاہ فوراا اس کی طرف متوجہ ہوتا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ ہر شخص کا غذی لباس پہن کر بادشاہ کے سامنے جاتا۔ اگرایسا نہ کیا جاتا تواسے اچھا نہیں سمجھا جاتاتھا ۔ بلکہ گستاخی خیال کیا
جاتا( )١٠۴شعرائے ایران کے کلام سے اس رسم کی تصدیق ہوتی ہے۔ ()١٠۵تاریخ میں ایسی کسی رسم کا ذکر پڑھنے کونہیں ملا اگر شعرا کی ایجاز ہے تو بھی کمال کے درجے پرفائز ہے۔ غالب نے انسانی وجود کے حوالہ سے اس تلمیح کو نظم کیاہے۔ غلا م رسول مہر اس ضمن میں کہتے ہیں ہر نقش کسی کی شوخ ِی تحریر کا فریادی ہے ،جس کے باعث ہر ’’ تصویر نے کاغذی لباس پہن لیا ہے۔ ہستی کو تصویر اس لئے کہا کہاس کاوجود حقیقی نہیں ،غیر حقیقی وبے اعتباری اور عارضی ہونے کے باوجود اتنے رنج وملال کا باعث ہوئی کہ )(١٠۶۔ ‘‘ہستی سراپا فریاد بن گئی بقول علی حسن چوہانکاغذی یپراہن سے عام طورپر کنایتہ عاجزی اور بے چارگی مراد ’’ )‘‘(١٠٧ہے اب غالب کا شعر ملاحظہ فرمائیے نقش فریادی ہے کس کی شوخ ِی تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا گستاخ ِی فرشتہ : تخلیق آدم کے بعداللہ تعالی نے فرشتوں کوحکم دیا کہ وہ آدمکوسجدہ بجا لائیں ۔ ابلیس کے سوا تمام فرشتے حکم خداوندی بجالائے( )١٠۸اللہ تعالی نے ابلیس کے انکار کو نا پسند فرمایا اور اسے اپنی بارگاہ سے نکال دیا ( )١٠۹غالب نے عص ِر حاضر میں انسان کی
ناقدری ،ذلت اور پریشان حالی کے سیناریو میں ِا س تلمیح کا استعمال کیا ہے ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند گستاخ ِی فرشتہ ہماری جناب میںلیلی مجنوں :لیلی مجنوں کی داستان عربی سے فارسی میں وارد ہوئی ۔اس کے بعد برصغیر کی زبانوں میں داخل ہوئی ۔ یہ عشقیہ داستان ۶۸۸ء کی ہے۔ مجنوں کا اصل نام قیس تھا ۔ اردو میں اسے اس نام سے بھی یاد رکھاگیا ہے۔ عشق میں دیوانگی کے حوالہ سے ، مجنوں نام پڑگیا ۔ اس کا باپ مولح ،بنی عامر کا سردار تھا۔ قیس نے بچپن میں لیلی کو دیکھااور عاشق ہوگیا۔ جب اس کے والدین کو معاملے کا علم ہوا توان کی بھی خواہش ہوئی کہ قیس کی لیلی سے شادی کردی جائے مگر کوشش کے باوجود ناکام رہے ۔ ادھر قیس پر لیلی کے عشق کا غلبہ پکڑ گیا ۔ اس نے تمام نعمتوں کو ٹھکرا کر صحرا کی راہ لی اور لیلی لیلی پکارتے جان دے دی۔ لیلی نجد کے ایک باشندے عامر کی بیٹی تھی ۔ یہ نہایت شریف گھرانے کی چشم وچراغ تھی ،اسے بھی قیس سے محبت تھی لیکنخاموش تھی یا پھر اس کاعشق جنوں کو نہ پہنچا تھا ۔ اس کی شادی کہیں اور کر دی گئی اور کسی ڈولی میں بیٹھ کر سسرال سدھاری تاہمکسی وجہ سے گھر نہ بسا سکی ۔ لیلی سیاہ فام تھی لیکن قیس اس پر فریفتہ تھا ۔ اس عشقیہ داستان میں تین عنا صر کا سراغ ملتاہے اول :قیس کے حوالہ سے عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب کہ لگائے نہ لگے اور
بجھائے نہ بنے لڑکیاں خواہش کے باوجود حر ِف مدعازبان پر نہیں لاتیں دوم: کسی اور کی ڈولی میں بیٹھنے میں عار نہیں سمجھتیںسوم:اردو غزل میں یہ داستانی کردار مختلف حوالوں سے نمودار ہوتے ہیں ولی نے اپنے عشق کا پیمانہ مجنوں سے تقابلی انداز اختیار کرکے :مرتب کیاہے ہوئی دیوانگی مجنوں کی یوں میرے جنوں آگے کہ جیوں ہے حسن لیلی بے تکلف پائے نا م اس کا ( )١١٠ولی حاتم کا خیال ہے کہ فطر ِت انسانی ضرورت اور رجحان کی راہ چلتی ہے ہوامجنوں کے حق میں دشت گلزار کیا ہے عشق کے ٹیسو نے بن سرخ ( )١١١حاتموقت بہترین مرہم ہے سب کچھ بھلا دیتا ہے یا ایک ساتھ پڑی چیز وں کو بکھیر دیتاہے۔ یہاں تک کہ اصل معاملہ ہی آنکھوں سے اوجھل ہوجاتاہے۔احسن اللہ بیان کا کہنا ہے کہ لیلی مجنوں کی کہانی آج بھی موجود ہے اور کردار آج بھی چلتے پھرتے نظر آتے ہیں چرغ کی برہم زنی سے یہ تعجب ہے مجھے لیلی اور مجنوں کی ایک جااب تلک تصویر ہے ( )١١٢بیان میر صاحب کا کہنا ہے ہم عشق میں اس لئے دیوانے نہیں ہوئے کہ قیس کی آبرو باقی رہے اور اس میدان میں اس کا کوئی ثانی نہ
کہلائے عشق میں ہم ہوئے نہ دیوانے قیس کی آبرو کا پاس کیا( )١١۳میرخواجہ درد کا موقف ہے کمٹ منٹ سے وابستگی بہت کم دیکھنے کو ملتی ہےمجنو ں ،فرہاد ،درد ،وامق ایسے یہ دوہی چارہوئے ہیں ہم ()١١۴ درد بقول قائم چاند پوری مجنوں کی نامرادی کاغم بڑی شدت رکھتاہے داغِ فرہاد تواتنا نہیں قائم لیکن غم نے مجنوں کے کیا مار کے بس چور ہمیں ( )١١۵قائم چندا نے لیلی کو حسن کے حوالہ سے پینٹ کیا ہے تجھ کو حورا ِن بہشتی بھی پہنچ سکتے نہیں لیلی وشریں کا اس کے آگے کیا مذکورہ ہے ( )١١۶چندا پیر بخش خاطر کا کہنا ہے کہ وہ والہانہ پن ،وہ دیوانگی ،وہ فریفتگی اور وہ جوش وجنوں آج کے دور میں کہاں ملتاہےزنجیر کی صدا ہے نہ آواز زنگ ہے مجنوں کے ساتھ ناقہء لیلی بھی تھک گیا ( )١١٧ناطر صفدر علی بلند کے نزدیک جو عشق اختیار کرتاہے۔ خرابی سے دوچار ہوتاہےقیس و فرہاد و وامق اور بلند عشق میں جو رہا خراب رہا ( )١١۸بلند
قبلہ بلھے شاہ صاحب قصوری کا خیال ہے لیلی میں قدرت کا اپنا جمال وچ لیلی بن جھاکی دا ہن آیا آپ نظارے نوں جاگزین تھا یہ یکطرفہ محبت تھی اگر لیلی کو بھی عشق ہوتا تو وہ کسی دوسرےکی ڈولی میں بیٹھنے کی بجائے موت کو گلے لگا لیتی بالکل شریں کی طرح ۔ اسی طرح مجنوں احمق تھا جو سراب کا پیچھا کر تارہا۔ فرہاد اس کے برعکس احمق نہ تھا ۔ غالب کے ہاں یہ دونوں کردار مختلفحوالوں سے موضوعِ کلام بنے ہیں ۔ غالب کا کہنا ہے بقول غلام رسول مہرقیس کے سوا کوئی اور فرد عشق کی سر گشتگی میں صحرا کے ’’اندر نہ پہنچ سکا تو معلوم ہوا کہ صحرا چشم حاسد کی طرح تنگ ہے ‘‘یعنی وہاں کسی دوسرے کو قدم رکھنے کے لئے جگہ نہ مل سکی )(١١۹صحرا ،مگر بہ تنگ ِی چش ِم جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار حسود تھاعشق دیوانگی تک لے جاتاہے لیلی اگر سچی عاشق تھی تو اسے کس امر نے صحرا گردی سے مانع رکھامانع وحشت خرامی ہائے لیلی کون ہے خانہ مجنو ِں صحرا گردبے دروازہ تھاعشق صر ف مجنوں ہی کو تھا ۔ عشق میں لیلی کی ہمسری ثابت کر نا درست نہیں۔ غالب نے مجنوں کے حوالہ سے فنا کے فلسفے کو بھی واضح کیاہے
فناکی تعلیم درس بے خودی ہوں اس زمانے سے کہ مجنوں لام الف لکھتا تھا دیوا ِر دبستاں پر مجنوں کا سن کر لیلی بھی دشت میں آگئی لیکن محبوب کب اس قدر باوفا اور سنجیدہ ہوتے ہیں ۔غالب کو اس پر تعجب ہورہا ہےیو ’’قیامت ہے کہ سن لیلی کا دش ِت قیس میں آنا ’’ تعجب ہے‘‘ وہ بولا ‘‘ں بھی ہوتا ہے زمانے میں ؟ غالب کے نزدیک محبت میں زحمت ہی راحت و سکون کا سبب بنتی ہے ر ِگ لیلی کو خا ِک دش ِت مجنوں ریشگی بخشے اگر بودے بجائے دانہ دہقاں نوک نشتر کی غالب آج کی اور کل کی لیلی کا موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔ آج کی لیلی کل کے مجنوں کو ،آج کے مجنوں کے روبر و برا بھلا کہتی ہے عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام مجنوں کو بر ابھلا کہتی ہے لیلا مرے آگے زمانہ مجنوں کی وحشت کی کثافتوں سے بھر اپڑا ہے۔ لیلی کے عزت :ووقار کا کب تک پاس کیا جاسکتاہے عالم غبا ِر وحش ِت مجنوں سے سر بسر کب تک خیال ط ّرہء لیلا کرے کوئی موسی ؔ : بنی اسرائیل کے صاحب کتاب نبی تھے۔ فرعون کے محل میں پرورش
پائی ۔ فرعون خدائی کا دعویدار تھا ۔ موسی ؔ کے حوالہ سے موت کے منہ میں گیا ۔ اللہ نے آپ کو معجزے عطا فرما رکھے تھے ۔ آپ اپنے ہاتھ بغل میں رکھ کر نکالتے تو اس میں سے روشنی نکلتی کہ ی ِد بیضا ‘‘ تلمیح ’’ آنکھیں خیرہ ہوجاتیں۔ اِ س معجزے کے لئے مستعمل چلی آتی ہے۔ کو ِہ طور پر آپ اللہ سے ہمکلام ہوتے ۔ کو ِہ تلمیح معروف ہے۔ ‘‘طور پر تجلّی ہوئی اس کے لئے ’’ برق تجلّی تعلیم کے لئے آپ حضرت خضر کے ہمراہ رہے۔ صبر نہ کرنے کے سبب ان کے ساتھ چل نہ سکے۔ تلمیح ’’ طور‘‘ بھی استعمال میں آتی ۔‘‘ رہتی ہے۔ تفصیلات ’’ برق تجلی میں آچکی ہیں نکرین :کہا جاتاہے انسان کے کئے کا ریکارڈ رکھنے کے لئے دوفرشتے منکر اور نکیر مقرر ہیں ۔ قیامت کے روز اعمالنامہ پیش کریں گے۔ غالب کے ہاں دوجگہ ان کے حوالہ سے مباحث ملتے ہیں ۔ ایک جگہ ان کو چلتا کرنے کی فکر میں تدبیر کرتے ہیں کہ رات کو پی ہوئی شراب کی بو کی کراہت سے بھاگ نکلیں گے۔ اس ضمن میں غلا م رسول کہتے ہیں اگر شراب پی کر مرے تو سانس کی آمد ورفت ختم ہوجانے کے ’’ باوجود منہ سے ضرور بو آئے گی اور فرشتے سراپا روح ہونے کےباعث اس کی بو کی تاب نہ لاسکیں گے یوں سوال وجواب کی منزل بہ )‘‘ (١٢٠خیر وعافیت گزر جائے گی اب شعرپڑھئیے ظاہر ہے کہ گھبرا کے نہ بھاگیں کے نکرین ہاں منہ سے مگر بادہ ء دوشینہ کی بو آئے
ایک دوسری جگہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ غیر جنس کے لکھے اور کہے پر پکڑے جانا مناسب اور درست نہیں ۔ شہادت کے لئے ہم جنس ہونا ہی انصاف کے تقاضے پورے کرتاہے پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا نمرود *نمرود ایک ظالم اور کافر حکمران تھا ۔ اس نے ایک خواب دیکھا جس کی تعبیر یہ بتائی گئی کہ اس سال ایک ایسا بچہ پیدا ہوگا جو اس کی بادشاہی تباہ کر دے گا مگر ابھی تک حمل قرار نہیں پایاہے۔ اس کےحکم سے عورتیں مردوں سے جدا کر دی گئیں ۔ دس دس عورتوں کی نگرانی پر ایک مرد نگران مقرر کردیا گیا اور حکم ہوا جولڑکا پیدا ہو مار دیا جائے ۔ حکم خدا سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی والدہ حاملہ ہوئیں ۔ حضرت ابراہیم شہر سے باہر ایک غار میں پروانچڑھے۔ ( )١٢١توحید کی دعوت دینے کے جرم میں نمرود نے حضرتابراہیم کو دہکتی آگ میں ڈال دیا جوبحکم خدا گلزار میں بدل گئی۔ ایک معمولی مچھر نمرود کی موت کا سبب بنا۔ نمرود کراہت ،بے زاری ،نفرت اورغصہ پیدا کرنے والا کردارہے۔ یہ تلمیح اردوغزل میں ایسے ہی حوالوں سے پڑھنے کوملتی ہے۔ غالب کے ہاں اس تلمیح کا استعمال ملاحظہ ہو بند گی میں مرابھلانہ ہوا کیا وہ نمرود کی خدائی تھی نمرود ،ظلم کی علامت ہے اور اس سے بھلائی اورخیر کی توقع بے معنی اور لایعنی سی بات ٹھہرتی ہے۔ علامہ حالی تشریح میں کہتے
ہیںمیری بندگی نمرود کی خدائی کی تھی کہ ِاس سے مجھے کوئی ’’ )۔(‘‘١٢٢فائدہ نہ پہنچا ،صرف نقصان ہوا ہل من مزید*یہ ایک قرآنی تلمیح ہے قرآنی آیت کا ترجمہ یہ ہےاس دن ہم دوزخ سے پوچھیں گے تو بھر گئی ؟ تو وہ کہے گی کچھ ’’ ) (‘‘١٢۳اور بھیغالب کے ہاں اس تلمیح کا استعمال ملاحظہ ہوجاں مطر ِب ترانہ ء ہل من مزید ہے لب پردہ سنجِ زمزمہء الاماں نہیںعلامہ حالی ہل من مزید کو لا تقنطومن الرحمۃ اللہ کے تناظر میں ملاحظہ فرماتے ہیںدوزخ ہے گر وسیع تو رحمت وسیع تر لاتقنطو اجواب ہے ہل من مزید کا ( )١٢۴حالیقدر کے نزدیک زاہد کا دوزخ کی طرح پیٹ نہیں بھر تابھر وجو صور ِت دوزخ بھی پیٹ زاہد کا ڈکار نعرہ ہل من مزید ہے (قدر محسن نے منظوم ترجمہ کر دیاہے؛جہنم کے چہرے پر غیظ شدید ہر ایک داخلے پر ہے ہل من مزید (محسن
یعقوب* بنی اسرائیل کے نبی تھے ۔ آپ کے بارہ بیٹے تھے ۔ گیارویں حضرت یوسف تھے جو خوبصورتی میں اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے ۔ حضرت یعقوب ،حضرت یوسف سے بے پنا ہ محبت کرتے تھے۔ ان کے بیٹوں نے حضرت یوسف کو جنگل میں لے جاکر کنویں میں ڈال دیا اور حضرت یعقوب سے واپسی پر غلط بیانی کی کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا ہے۔ حضرت یعقوب کو سخت صدمہ ہوا ۔ وہ بیٹے کی محبت میں اس قدر روئے کہ بینائی سے محروم ہوگئے ۔ پی ِر کنعان ،دیدہ ء یعقوب اور نسی ِم مصر تلمیحات اردو غزل میںمستعمل چلی آتی ہیں ۔ مثلاا قائم چاندپوری نے زاری کے حوالہ سے ’’ :پی ِر کنعان ‘‘ تلمیح کا استعمال کیاہےرویا تو تھا غ ِم یوسف میں پیر کنعاں بھی پہ کی جو زاری میں تجھ بن ،کسونے وہ کب کی ( )١٢۵قائم میر صاحب ’’ بوئے پیرہن ‘‘ سے جو پی ِر کنعان کی حالت ( بے چینی ،بیقراری ) رہی ہوگی کو حوالہ بناتے ہوئے گفتگو کرتے ہیںخبر لے پی ِر کنعاں کی کہ کچھ آج نپٹ آوارہ بوئے پرہن ہے( )١٢۶میر حضر ت یوسف اپنے باپ سے سال ہاسال جد ار ہے ۔ حضرت یعقوب روتے رہے اور گریہ زاری کرتے رہے ۔ روتے روتے ان کی آنکھیں سفید ہوگئیں ۔ اس واقع کے لئے ’’ دیدۂ یعقوب ‘‘ تلمیح استعمال میں آتی ہے۔ جبکہ نسی ِم مصر /با ِد مصر اس واقع کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ جب
حضرت یوسف کا ان کے بھائیوں کو معلوم ہوگیا کہ مصر کا فرمانروا اصل مینیوسف ہے تو وہ نادم ہوئے ۔ حضرت یوسف نے اپنا پیرہندے کر روانہ کیا ۔ توحضرت یعقوب کو یوسف کی خوشبو آنے لگی ۔یہ خبر بادنسیم نے حضرت یعقوب تک پہنچائی ۔ میر صاحب نے ’’باد مصر‘‘ نظم کی ہے آئی کنعاں سے بادمصر ،وے نہ گئی تابہ کلبہء یعقوب ( )١٢٧میر اب غالب کے ہاں ان تلمیحات کا استعمال ملاحظہ ہوسفیدی دیدہء یعقوب نہ چھوڑی حضر ِت یوسف نے یاں خانہ آرائی کی پھرتی ہے زنداں پر آغاباقر لکھے ہیں حضرت یعقوب کی آنکھوں کا نور ان کی آنکھوں سے نکل کر ’’ )‘‘ (١٢۸حضرت یوسف کو تلاش کر تے دیوا ِر زندان پرآگیا یوسف زلیخا * حضرت یوسف ،حضرت یعقوب کے بیٹے اور کنعان کے باشندے تھے ۔ آپ نبی تھے ۔ آپ کے گیارہ بھائی تھے ۔ بنیامین سب سے چھوٹے اور یہ بنیامین سے بڑے تھے ۔آپ کے بھائیوں نے سوائےبنیامین ،آپ کو جنگل میں لے جاکر کنویں میں ڈال دیا۔ وہاں ایک قافلہ آیا جو آپ کومصر لے آیا اور بطور غلام فروخت کردیا۔ فوطیفار ،جو فرعو ِن مصر کا ایک حاکم تھا ،نے آپ کو خریدا۔ فرعون کے ہاں یوسف کا اقبال بلند ہوا۔ حاکم کی بیوی آپ پر بری نظر رکھتی تھی ۔ ایک دن اکیلے میں اس نے یوسف سے ہم بستر ہونا چاہا۔ آپ وہاں
سے بھاگ آئے لیکن ان کے پیراہن کا ایک ٹکٹرا فرعون کی بیوی کے ہاتھ رہ گیا ۔ اس نے فرعون کو بھڑکایا۔ فرعون نے اپنے اس عبری غلام کو قید کر دیا۔ وہاں یوسف قید خانہ کے درواغہ کی نظر میںمقبول ہوگیا۔ فرعون کے دوحاکم بھی یوسف کے ساتھ قید میں تھے ۔ ان کے خوابوں کی تعبیر آپ نے بتائی۔ فرعون نے بھی ایک خوابدیکھا جس کی آپ نے تعبیر بتائی۔ فرعون نے آپ کو مصر کا حاکم بنا دیا ۔ عزیر مصر ( فرعون ) کے انتقال کے بعد اس کی بیوی زلیخا فرارہوگئی ۔ خوبصورتی بھی ختم ہوگئی ۔ ایک دن اسے یوسف کے دربار میں لایا گیا ۔ اس کی خواہش کے مطابق آپ نے اس سے نکاح کیا۔ یوسف کی دعا سے سولہ سالہ دوشیز ہ بن گئیاردوغزل میں یہ دونوں کردار بہت سے حوالے لے کروارد ہوئے ہیں ۔ میر سجاد نے یا ر کے جامے اور یوسف کے پیرہن کا تقابلی مطالعہ :پیش کیاہے یار کا جامہ ہمیں ہے گا عزیز یوسف اپنا پیرہن تہہ کررکھے ()١٢۹ سجادحضر ت یوسف نے خواب میں ستاروں کو سجد ہ کرتے دیکھا۔ اس پر ان کے بھائی حاسد ہوئے ۔ سعادت خاں ناصر نے خال روئے یار کو :یوسف کے خواب میں آنے والے ستاروں سے مماثل قرار دیاہے خا ِل روئے یارآتے ہیں ہمارے خواب میں مث ِل یوسف دیکھتے ہیں ہم ستار ے خواب میں ( )١۳٠ناصر سعادت یار خاں رنگین نے زلیخا کے حوالہ سے اپنے محبوب کاحسن اجاگرکیاہے۔ ان کا کہنا ہے ،تووہی ہے جو جوان ہوگئی اور اس
:پر یوسف مفتون ہوگئےتووہ ہے ،جواں جس نے پھر کرکے زلیخاکو یوسف کاکیا مفتوں اس چاند سی صورت پر (ا)١۳رنگین :جہاں داد کا کہنا ہے’’ چاہ ‘‘ کے مارے چاہ میں گرتے ہیں عزیزودل نہ دو یوسف کی کرکے چاہ [کبھی] کہ جاکے چاہ میں گرتے ہیں چاہ کے مارے ( )١۳٢جہاں دادایک عورت یوسف کی خریدار بنی ۔ اس کی کل پونجی سوت ایک انٹیتھی ۔ مصحفی ؔ طنزکرتے ہوئے کہتے ہیں مادی حوالوں سے چاہ کب :میسرآتی ہے یوسف کی بہا میں بھی کوئی اے پیرزن ایسی تری کیا عقل گئی ہے دیوے ہے انٹی ( )١۳۳مصحفی ؔ قائم نے بھی یوسف کو خریداری کے حوالہ سے موضوعِ کلام بنایا ہے مو ِل یوسف سے سب خراج مصر دے کر تھا زلیخا کو یہ سوچ پسر کا ،کارواں نے کیا کہا ( )١۳۴قائم خواجہ درد کے مطابق دیدہء بینا کی ضرورت ہے کیونکہ آن (غیرت ) :کے ہر پیرہن کے اندر یوسف پوشیدہ ہے تجھ کو نہیں ہے دیدء بینان وگرنہ یاں یوسف چھپا ہے آن کے ہرپیر ہن کے بیچ ( )١۳۵دردمشتری ؔ (لکھنوی )نے کنعاں کے چاند ( یوسف ) کی خود فروشی کو
حوالہ بنایا ہے۔ خود فروشی کی وجہ سے وہ بازار میں بکنے آئے ۔ وہ عز یز عالم تھے ۔ انمول تھے ۔ آخر ان کی بھی قیمت لگ ہی گئی نرخِ حس ِن م ِہ کنعاں س ِر بازار خود فروشی کو جونکلا وہ عزیز عالم گھٹا ( )١۳۶مشتریمیر صاحب کا کہنا ہے کہ زلیخا کی محبت بلا جواز نہ تھی ۔ کنعان کے چاند نے اسے گرویدہ بنا دیاتھا چاہ بے جانہ تھی زلیخا کی ما ِہ کنعاں عزیز کوئی تھا( )١۳٧میر غالب کا کہنا ہے کہ زلیخا کی طرح محبوب کو خواب میں دیکھنا اور اس کے دیدار سے لذت افروز ہونا ہمارے بستر کے لئے باع ِث ندامت ہے۔لیٹیں سوئیں کہ کب محبوب آئے جبکہ ہمارا محبوب آتاہی رہتا ہےاور اس کی آمد کے آثار باقی رہتے ہیں ۔ تکیہ سونگھ کر دیکھئے اس کی مشکبار زلفوں کی خوشبوباقی رہے ابھی آتی ہے بوبالش سے اس کے زل ِف مشکیں کی ہماری دید کو خوب زلیخاعا ِر بستر ہے اس شعر میں غالب نے ’’ خواب زلیخا‘‘ تلمیح نظم کی ہے۔ایک تلمیحات ‘‘دوسرے شعر میں ’’ زنا ِن مصر‘‘ اور’’ماہ کنعان باندھتے ہیں سب رقیبوں سے ہوں نا خوش پر زنا ِن مصر سے ہے زلیخا خوش کہ مح ِو ما ِہ کنعاں ہوگئیں غالب نے جس کمرے میں حضر ت یوسف قید تھے کا بھی ذکر کیا ہے۔ قید کا کمرہ تنگ و تاریک ہوتاہے۔ بقول غلام رسول مہر
رہی سہی بھی گئی عمر تیر ے پیچھے یار یہ کہہ کہ آہ تراکب تک انتظار کریں ()۹میر خواجہ درد نے’’ انتظار گذرنا ‘‘ باندھاہے وہ زمانے سے باہر اور مجھے رات دن انتظار گذرے ہے( )١٠درد حاتم نے انتظار بیٹھنا استعمال کیا ہے زندگی ہوچکی میاں حاتم وقت کے انتظار بیٹھے ہیں ()١١حاتم درج بالا تراجم کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ’’ انتظار کشیدن ‘‘داشتن کا ’’انتظار کھینچنا‘‘ غالب کے ہاں ایسا نہیں ہے نفس نہ انجم ِن آرزو سے باہر کھینچ اگر شراب نہیں انتظا ِر ساغر کھینچےاس ترجمے اور اس کے استعمال میں ایک نئی بات ضرور سامنے آتی ہے۔ اس استعمال کے ساتھ امید کا پہلو وابستہ ہے۔ امیدنفسیاتی سطح پر تسکین کا ذریعہ بنی رہتی ہے۔ امید نہ ہونے کی صورت میں مایوسی کا عنصر غالب رہتا ہے۔ باور رہے اشکالی تبدیلی تبدیلیاں یا تراجم ،بعض نامانوس کو دلچسپ بنا دیتی ہیں ۔ غالب انتظار کھینچ سے انتظار کی کیفیت مراد لے رہے ہیں ۔ جس میں استقلال کو استحکام می ّسر آتا ہو جبکہ انتظار کشیدن /داشتن کے ساتھ یہ پہلووابستہ نہیں ہے۔ اس حوالہ سے غالب کا استعمال دوسروں سے ہٹ کر اور منفر د ہے۔ انگشت رکھنا: انگشت برحرف نہادن ،فارسی میں یہ محاورہ کسی تحریر پر
اعتراض کرنا کے معنوں میں استعمال ہوتاہے۔ اردو میں ’’ انگشت رکھنا ‘‘ نہیں بولا جاتا ’’ انگلی رکھنا ‘‘ بولتے ہیں ۔ فارسی میں اہل دانش کی تحریروں پر اعتراض کے لئے انگشت برحرف نہادن بولتے ہیں جبکہ ’’ انگلی رکھنا ‘‘ ہر چیز پر اعتراضکرنے کے لئے بولا جاتاہے۔ غالب نے فارسی کی پیروی میں ’’ انگشت رکھنا‘‘ کو تحریرہی سے مخصوص رکھا ہےلکھتا ہوں اسد سوز ِش دل سے سخن گرم تانہ رکھ سکے میرے حرف پرانگشت بازار گرم ہونا: بازار گرم بودن ،خوب بِکری ہونا ،مانگ ہونا/بڑھنا ،مال کی ڈیمانڈ بڑھ جانے کے حوالہ سے بولا جانے والا محاورہ ہے ۔ اردو میں بھی قریباا ان ہی معنوں میں استعمال میں آتا ہے۔( )١٢غالب نے محاورے کو اور ہی رنگ دے دیاہے وسیب میں صورتحال کچھ یوں ملتی ہےعدالتوں میں مقدمے بازی کے حوالہ سے سائلوں اور اہل کاروں الف۔ کے درمیان ایسی ہی صورت دیکھنے کوملتی ہے۔١۔بازا ِر حسن میں کلالوں اور گاہکوں کے درمیان سودے بازی کا ب۔ منظر مختلف نہیں ہوتا۔حسن میں اجارہ رکھنے والے حسین کے حصول کے لئے اہ ِل ٢۔ ٍ ذوق اپنی حیثیت سے بڑھ کر ادا کرنے یا شرائط ماننے کے لئے تیار ہوتے ہیں ۔ غالب نے محاورے کے نئے مفاہیم میں استعمال کی راہ کھول دی ہے
پھر کھلا ہے د ِر عدال ِت ناز گرم بازا ِر فوجداری ہے غلام رسول مہر تشریح میں لکھتے ہیں پھر ناز کی عدالت کا دروازہ کھل گیا اور فوجداری کے مقدمے بہ ’’ )۔(‘‘١۳کثرت ہونے لگےمحبو ب کے حوالہ سے لڑنے بھڑنے اور ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلنے کا وتیرہ نیا نہیں ۔ غالب نے اس حقیقت کو بڑی عمدگی سے پیش کیا ہے۔ بباد دینا : بیاددادن ،فارسی کا بڑا معروف محاورہ ہے جوتباہ کرنا ،منتشر کر دینا ،بکھیر دینا وغیرہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ بباد ہندی اسم مذکربھی ہے اور اس سے بباد اٹھنا محاورہ بمعنی فساداٹھنا ،فساد کرنا موجود ہے ۔ تاہم یہ بباددادن سے قطعی الگ چیز ہے ۔ اس میں بغاوت شرار ت اور شرینتر کے عناصر موجود رہتے ہیں ۔ بباد دادن توڑ پھوڑ اور لخت لخت کردینے کے حوالوں سے منسلک رہتاہے۔بیاد ’’بباد دینا ‘‘ فصیح ترجمہ ہے اس کے باوجود رواج نہیں پا سکا۔ اٹھنا ‘‘ بھی اردو میں رواج نہیں رکھتا ۔ قائم چاندی پوری کے ہاں ’’ بیا دجانا‘‘ نظم ہواہے گئے بباد نہ اب کے تو بخت میں اپنے کوئی دن اور بھی دنیا کی باؤ کھانا تھا ()١۴قائم
بباد جانا ،بباد دادن کا ترجمہ ہے۔ غالب نے دادن کے لئے اردو معاون فعل ’’ دینا ‘‘ برتاہے نالہ ء دل نے دئیے اور اق لخ ِت دل بباد یاد گا ِر نالہ ایک دیوا ِن بے شیرازہ تھاغالب نے ’’ بیاد دینا ‘‘ کو منتشر کر دینا کے معنوں میں برتا ہے۔ غلام رسول مہر نے اڑنا ہواکے حوالے کردینا ،پریشان و برباد کردینا ، )معنی مراد لئے ہیں (١۵ بروئے کارآنا:بروئے کار آمدن ،شاداں بلگرامی کے نزدیک بروئے کار آمدن ’’ ظاہرشدن ‘‘ سے کنا یہ ہے ( )١۶بروئے کار آنا ،قدم رکھنا ،کی طرف آنا ،وارد ہونا ،برس ِرکار آنا ،کام آنا تفہیم رکھتا ہے۔ غالب نے جن معنوں میں استعمال کیاہے ار دو بول چال سے مطابقت نہیں رکھتے ۔ آمدن کا ’’ آنا ‘‘ ترجمہ کرنے کے باوجود محارے کے اسلوب و معنی فارسی ہیں ۔ صحر ا مگر بہ تنگ ِی چشم جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار حسود تھا پروازدینا: پرواز دادن داشتن کا اردوترجمہ پرواز دینا کیا گیا ہے ۔ ایک دوسر امحاورہ ’’ پر وبال داشتن ‘‘ بمعنی طاقت و قوت کا ہونا فارسی میں عام استعمال کا محاورہ ہے۔ پرواز دینا ،قوت فراہم کرنا ،مزید بہتری پیدا کرنا ،صلاحیت میں اضافہ کرنا ،شکتی بڑھانا وغیرہ معنوں میں
استعمال نہیں ہوتا۔ شعر میں مطلب یہ بنتا ہے جب تک جلو ے کے تماشا(دیکھنے ) کی صلاحیت پیدا نہیں ہوتی ،انتظار کی اذیت سے گذرنا ہوگا۔ غلا م رسول مہر کے مطابق ہماری طبعیت کب برداشت کرسکتی ہے کہ انتظار کے آئینے کو ’’ ) ‘‘ (١٧صیقل اور جلا دیتے رہیںمہر صاحب کے حوالہ سے انتظار کی اذیت واضح ہوتی ہے کہ کب تک آخر انتظار کیا جائے ۔ اس طرح عجلت پسندی سامنے آتی ہے ۔عجلت بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔ غالب یقیناااس فلسفے سے آگاہ تھے ۔ دیر آید درست آید مقولہ ان سے پوشید ہ نہیں رہا ہوگا۔پروازدینا ،صلاحیت بڑھانا ،صیقل کرنا ،جلا دینا وغیرہ ایسے معنوں میں استعمال ہواہے ۔محاورہ فصیح سہی مانوس نہیں ،اس لئے چل نہیں سکا۔ وصال جلوہ تماشا ہے پر دماغ کہاں کہ دیجے آئینہ انتظار کو پرواز مطلب صر ف اتنا ہے جلوے کے لئے انتظار کی اذیت سے گذرنا پڑتا ہے مگر انتظار کی اذیت سے گذرے کون؟ پرورش دینا: پرورش داشتن کاترجمہ ہے ۔نشوونما پرورش ،پالن پوسن ،تعلیم و تربیت ،مہربانی ،عنایت کرنا کے معنوں میں استعمال ہوتاہے()١۸ پرورش کے ساتھ کرنا اور ہونا مصادر کا استعمال ہوتا ہے۔ دینا اردو مصدر سہی لیکن اس سے فارسی اسلوب ترکیب پاگیا ہے ۔ اردو اسلوب کچھ یوں بنتا
غم آغو ِش بلا میں پرورش کر تاہے عاشق کی اب غالب کا مصرع ملاحظہ ہو غم آغو ِش بلا میں پرورش دیتاہے عاشق کومصرع اول الذکر اردو اسلو ب کا نمائندہ سہی لیکن منفرد ،خوبصورت اور فصیح نہیں جبکہ مصرع ثانی الذکر فارسی اسلوب کا حامل ہے لیکن ہر سہ عناصر اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ اب غالب کا پور ا شعر پڑھیں شعر کے لسانی سیٹ اپ میں مصدر دینا ہی مناسب اور خوبصور ت لگتاہےچراغِ روشن اپنا قلزم غم آغو ِش بلا میں پرورش دیتاہے عاشق کو صرصر کا مرجاں ہے تشنہ آنا: تشنہ آمدن ،تشنہ ہونا مشتاق ہونا ،طالب ہونا ،آرزو مند ہونا ،خواہش مندہونا لفظ تشنہ اردو کے لئے نیا نہیں ۔ اس کا مختلف حوالوں سے استعمال ہوتا آیا ہے۔ مختلف نوع کے مرکبات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں ۔ مثلاا تشنہ کا می /تشنہ کامتس پر بھی تشنہ کا ِم دیدار تیرا ہی حسن جگ میں ہر چند موج زن ہے ہیں تو ہم ہیں ( )١۹درد تشنہء خوں
دشم ِن جاں ہے تشنہ ء خوں ہے شوخ بانکہ ہے ،نکبت بھوں ہے ( )٢٠آبرو تشنہ لب جوکہ مائل ہے تیغ ابرو کا تشنہ لب ہے وہ اپنے لوہو کا ( )٢١راقم مختلف نوعیت کے محاورات بھی اردو زبان کے ذخیر ے میں داخل ہیں ۔ مثلاا کچھ مدارات بھی اے خو ِن جگر پیکاں کی تشنہ مرتا ہے کئی دن سے )یہ مہماں تیرا ( )٢٢فغاں ( تشنہ مرنا بہت مخمور ہوں ساقی شراب ارغوانی دے نہ رکھ تشنہ مجھے ،ساغر براہ مہربانی دے ( )٢۳چندا (تشنہ رکھناتشنگی اور بھی بھڑکتی گئی جوں جوں میں اپنے آنسوؤں کوپیا ()٢۴ )درد ( تشنگی بھڑکنا تشنہ آنا بمعنی مشتا ق ہونا ،اردو میں مستعمل نہیں رہا ،۔ ترجمہ کی صورت میں غالب نے ایک نیا محاورہ اردو زبان کو دیا ہے لیکن یہ محاور رواج نہیں پاسکا پھر مجھے دیدہ ء تریاد آیا دل جگر تشنہ ء فریاد آیا تماشا کیجئے :تماشا کردن کا ترجمہ ہے بمعنی شوق وحیرت سےدیکھنا ،سیر کرنا ،نمائش ا ور کھیلوں کو دیکھنا ،سبزہ پھلواری کو دیکھنا وغیرہ کے لئے فارسی میں بولا جاتا ہے۔تماشا کا بنیادی تعلق دیکھنے سے ہے جبکہ اردو میں کرتب ،مداری
Search
Read the Text Version
- 1
- 2
- 3
- 4
- 5
- 6
- 7
- 8
- 9
- 10
- 11
- 12
- 13
- 14
- 15
- 16
- 17
- 18
- 19
- 20
- 21
- 22
- 23
- 24
- 25
- 26
- 27
- 28
- 29
- 30
- 31
- 32
- 33
- 34
- 35
- 36
- 37
- 38
- 39
- 40
- 41
- 42
- 43
- 44
- 45
- 46
- 47
- 48
- 49
- 50
- 51
- 52
- 53
- 54
- 55
- 56
- 57
- 58
- 59
- 60
- 61
- 62
- 63
- 64
- 65
- 66
- 67
- 68
- 69
- 70
- 71
- 72
- 73
- 74
- 75
- 76
- 77
- 78
- 79
- 80
- 81
- 82
- 83
- 84
- 85
- 86
- 87
- 88
- 89
- 90
- 91
- 92
- 93
- 94
- 95
- 96
- 97
- 98
- 99
- 100
- 101
- 102
- 103
- 104
- 105
- 106
- 107
- 108
- 109
- 110
- 111
- 112
- 113
- 114
- 115
- 116
- 117
- 118
- 119
- 120
- 121
- 122
- 123
- 124
- 125
- 126
- 127
- 128
- 129
- 130
- 131
- 132
- 133
- 134
- 135
- 136
- 137
- 138
- 139
- 140
- 141
- 142
- 143
- 144
- 145
- 146
- 147
- 148
- 149
- 150
- 151
- 152
- 153
- 154
- 155
- 156
- 157
- 158
- 159
- 160
- 161
- 162
- 163
- 164
- 165
- 166
- 167
- 168
- 169
- 170
- 171
- 172
- 173
- 174
- 175
- 176
- 177
- 178
- 179
- 180
- 181
- 182
- 183
- 184
- 185
- 186
- 187
- 188
- 189
- 190
- 191
- 192
- 193
- 194
- 195
- 196
- 197
- 198
- 199
- 200
- 201
- 202
- 203
- 204
- 205
- 206
- 207
- 208
- 209
- 210
- 211
- 212
- 213
- 214
- 215
- 216
- 217
- 218
- 219
- 220
- 221
- 222
- 223
- 224
- 225
- 226
- 227
- 228
- 229
- 230
- 231
- 232
- 233
- 234
- 235
- 236
- 237
- 238
- 239
- 240
- 241
- 242
- 243
- 244
- 245
- 246
- 247
- 248
- 249
- 250
- 251
- 252
- 253
- 254
- 255
- 256
- 257
- 258
- 259
- 260
- 261
- 262
- 263
- 264
- 265
- 266
- 267
- 268
- 269
- 270
- 271
- 272
- 273
- 274
- 275
- 276
- 277
- 278
- 279
- 280
- 281
- 282
- 283
- 284
- 285
- 286
- 287
- 288
- 289
- 290
- 291
- 292
- 293
- 294
- 295
- 296
- 297
- 298
- 299
- 300
- 301
- 302
- 303
- 304
- 305
- 306
- 307
- 308
- 309
- 310
- 311
- 312
- 313
- 314
- 315
- 316
- 317
- 318
- 319
- 320
- 321
- 322
- 323
- 324
- 325
- 326
- 327
- 328
- 329
- 330
- 331
- 332
- 333
- 334
- 335
- 336
- 337
- 338
- 339
- 340
- 341
- 342
- 343
- 344
- 345
- 346
- 347
- 348
- 349
- 350
- 351
- 352
- 353
- 354
- 355
- 356
- 357
- 358
- 359
- 360
- 361
- 362
- 363
- 364
- 365
- 366
- 367
- 368
- 369
- 370
- 371
- 372
- 373
- 374
- 375
- 376
- 377
- 378
- 379
- 380
- 381
- 382
- 383
- 384
- 385
- 386
- 387
- 388
- 389
- 390
- 391
- 392
- 393
- 394
- 395
- 396
- 397
- 398
- 399
- 400
- 401
- 402
- 403
- 404
- 405
- 406
- 407
- 408
- 409
- 410
- 411
- 412
- 413
- 414
- 415
- 416
- 417
- 418
- 419
- 420
- 421
- 422
- 423
- 424
- 425
- 426
- 427
- 428
- 429
- 430
- 431
- 432
- 433
- 434
- 435
- 436
- 437
- 438
- 439
- 440
- 441
- 442
- 443
- 444
- 445
- 446
- 447
- 448
- 449
- 450
- 451
- 452
- 453
- 454
- 455
- 456
- 457
- 458
- 459
- 460
- 461
- 462
- 463
- 464
- 465
- 466
- 467
- 468
- 469
- 470
- 471
- 472
- 473
- 474
- 475
- 476
- 477
- 478
- 479
- 480
- 481
- 482
- 483
- 484
- 485
- 486
- 487
- 488
- 489
- 490
- 491
- 492
- 493
- 494
- 495
- 496
- 497
- 498
- 499
- 500
- 501
- 502
- 503
- 504
- 505
- 506
- 507
- 508
- 509
- 510
- 511
- 512
- 513
- 514
- 515
- 516
- 517
- 518
- 519
- 520
- 521
- 522
- 523
- 524
- 525
- 526
- 527
- 528
- 529
- 530
- 531
- 532
- 533
- 534
- 535
- 536
- 537
- 538
- 539
- 540
- 541
- 542
- 543
- 544
- 545
- 546
- 547
- 548
- 549
- 550
- 551
- 552
- 553
- 554
- 555
- 556
- 557
- 558
- 559
- 560
- 561
- 562
- 563
- 564
- 565
- 566
- 567
- 568
- 569
- 570
- 571
- 572
- 573
- 574
- 575
- 576
- 577
- 578
- 579
- 580
- 581
- 582
- 583
- 584
- 585
- 586
- 587
- 588
- 589
- 590
- 591
- 592
- 593
- 594
- 595
- 596
- 597
- 598
- 599
- 600
- 601
- 602
- 603
- 604
- 605
- 606
- 607
- 608
- 609
- 610
- 611
- 612
- 613
- 614
- 615
- 616
- 617
- 618
- 619
- 620
- 621
- 622
- 623
- 624
- 625
- 626
- 627
- 628
- 629
- 630
- 631
- 632
- 633
- 634
- 635
- 636
- 637
- 638
- 639
- 640
- 641
- 642
- 643
- 644
- 645
- 1 - 50
- 51 - 100
- 101 - 150
- 151 - 200
- 201 - 250
- 251 - 300
- 301 - 350
- 351 - 400
- 401 - 450
- 451 - 500
- 501 - 550
- 551 - 600
- 601 - 645
Pages: