لفظیات غالب کا تحقیقی و ساختیاتی مطالعہ مقصود حسنی ابوزر برقی کتب خانہ جنوری ٢٠١٧
لفظیات غالب کا تحقیقی و ساختیاتی مطالعہ مقالہ برائے پی۔ایچ۔ڈی اردو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی،اسلام آباد -پاکستان مح ْقق :مقصود صفدر علی شاہ مقصود حسنی ایم اے اردو‘ سیاسیات‘ معاشیات‘ تاریخ ایم فل اردو مقالہ بابا مجبور -شخصیت اور ادبی خدمات ڈاکٹر آف آرٹس،لسانیات‘ مقالہ phenalogy of varios languages ‘پی ایچ ڈی جاپانی زبان کا لسانیاتی اور آوازوں کا نظامs پوسٹ پی ایچ ڈی لفظیات غالب کا ساختیاتی مطالعہ ڈی آیم پی ایس ‘ڈی ٹی آئی ‘ڈی بی آئی شیر ربانی کالونی،قصور پاکستان نگران ڈاکٹر سید معین الرحمن پروفیسر ڈاکٹر نثا ر احمد قریشی
ترتیب ١۔ حر ِف آغاز ٢۔ غالب کے امرجہ سے متعلق الفاظ کی تہذیبی حیثیت ۳۔ غالب کے کرداروں کا نفسیاتی مطالعہ ۴۔ غالب کے اردو تراجم کا لسانی جائزہ ۵۔ تلمیحا ِت غالب کی شعری تفہیم ۶۔ اصطلاحا ِت غالب کے اصطلاحی مفاہیم٧۔ غالب کے ہاں مہاجر اور مہاجر نما الفاظ کے استعمال کا سلیقہ ۸۔ لفظیا ِت غالب کا ساختیاتیاتی مطالعہ ۹۔ خلاصہ ١٠۔ کتابیات
حر ِف آغاز غالب جد ِت فکر کے حوالہ سے مجھے ہمیشہ متاثر کرتا رہاہے ۔ میں نے بسات بھر اس کی غزل کا مطالعہ کیا۔ اسے جتنی بارپڑھا نیا ذائقہ نیا سواد اور نئے مضامین ہاتھ لگے ۔ یہ سب اس کے لفظوں کے باطن میں پوشیدہ مفاہیم کا کمال ہے۔ لگے بند ھے مخصوص اور بعض مستعمل مفاہیم کی مدد سے مطالعہ ء غالب میں کا م نہیں چلتا۔غالب کے لئے الگ سے لغت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ مطالعہ ء غالب کے لئے عموم سے پرے ہٹ کر فک ِر غالب تک رسائی کے امکان روشن ہوسکتے ہیں ۔ اس انکشاف کے بعد میں نے غالب کے لفظوں کو مطالعہ کی بساط پر رکھنے کا ارادہ کرلیا۔ ‘‘لفظیا ِت غالب کا تحقیقی و ساختیاتی مطالعہ’’درحقیقت فک ِر غالب تک کسی حدتک رسائی کی ناچیز سی کوشش ہے۔ اردو لفظیا ِت غالب سے متعلق معلومات کی فراہمی زیادہ سے زیادہ موجود ،مستعمل اور امکانی مفاہیم تلاشنے کی کوشش کی ہے۔اس سے غالب کے سوچ کے بہت سے نامعلوم ک ّر وں تک رسائی ممکن ہوسکے گی ۔جناب ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے ہمیشہ کی طرح میرے مطالعہ ء غالب کے شوق کو پذیرائی بخشی اور موضو ع کی منظوری کے باب میں تگ ودو فرمائی ۔ان کا کمال یہ ہے کہ ہر مشکل موقع پر میدان میں اترتے ہیں ۔ ڈاکٹر سید معین الرحمن کی موت کے بعد مقالے کینگرانی کا مسئلہ بن گیا ایسے مشکل گزار لمحات میں انہوں نے میرے پائے استقلال میں لرزش نہ آنے دی ۔سمجھ نہیں پارہا کہ ان کی محبتوں کا کن الفاظ میں شکریہ اداکروں ۔
جناب ڈاکٹر سید معین الرحمن ایسے لوگ کہاں ملتے ہیں ۔ وہ بعض معاملات میں اوروں سے قطعی مختلف تھے ۔مثلاا محبت اور شفقت کا سلیقہ انہیں آتا تھا ١۔ چیزوں کو بڑا’’ سانبھ سانبھ ‘‘ کررکھتے تھے ٢۔ ۳۔ کام اور کام کرتے چلے جاتے تھےمقالے کی نگرانی کا کام تو کل پرسوں کی بات ہے انہوں نے تو ہمیشہ مجھے کام کرنے کا حوصلہ بخشا الف۔ تحقیقی کاموں میں رہنمائی فرمائی ب۔ کمال مہربانی سے کتب عنایت کیں ج۔ اپنی تحقیقی کاوشوں میں یاد رکھا د۔ میں ان کی عنایتوں اور محبتوں کا کیا شکر یہ ادا کروں ۔ موت نےانہیں کسی کا نہ رہنے دیا۔ کاش کچھ اور جی لئے ہوتے ۔ ہاں دعا ہےاللہ تعالی انہیں اپنی رحمتوں کے سائے میں رکھے اور خل ِد خاص میں جگہ دے ۔ ڈاکٹر نجیب جمال ،ڈاکٹر صابر آفاقی ،ڈاکٹر محمد امین ،ڈاکٹر غلامشبیر رانا ،پروفیسر امجد علی شاکر ،ڈاکٹر محمد عبداللہ قاضی ،ڈاکٹر گوہر نو شاہی غالب پرکاوش وفکر کے حوالہ سے میری ہمیشہ پذیرائی فرماتے رہے ہیں۔ ان احباب کا پیار میرے لئے بڑا معتبر اور محترم ہے۔یونس حسن ایسا شاگرداور دوست اللہ ہر کسی کو عنایت فرمائے ٍ
۔وہ لائیربری کے کام میں ہمیشہ میر ے ساتھ رہے ہیں۔ اس ذیل میں انہوں نے کبھی وقت اور مصروفیات کی پرواہ نہیں کی۔ ان کی بیگم محترمہ کوثر یونس حسن خصوصی شکریے کی مستحق ہیں کہ انہوں نے یہ سب تحمل اور بردباری سے برداشت کیا۔ پروفیسر نیامت علیبڑی محبت سے پروف ریڈنگ کے معاملہ میں تعاون فرماتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالعزیز سحر کے مسلسل رابطے کو بھلا کیسے اور کیونکر بھولا جاسکتا ہے میں ان عزیزوں کا شکر گزار ہوں ۔سید کنور عباس بڑا اچھا ادبی ذوق رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی تعلیمیمصروفیات کے باوجود مجھے کبھی نظر انداز نہیں کیا اور بڑی دیانت داری سے میری معاونت کی ہے محترمہ رضیہ مقصود حسنی کی بات ہی کیا ہے۔ مقالہ کی تیاری کے دوران نہ صرف میری ضروریات کا خیال رکھا بلکہ بعض حوالوں کی تلاش میں بھی تعاون کیا ہے۔ ارحا مقصود ،میری جان کے ہاتھ میری کامیابیوں کے لئے ہمیشہ اٹھے رہے ہیں۔ میں ان صاحبان کا دلی وجان سے شکر گزار ہوں۔ اللہ میرے ان اپنوں کو سدا آباد اور سداسلامت رکھے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے اپنے اس ناچیز اور نہایت عاجزبندے کو اس تحقیقی کام کرنے کی ہمت سے نوازاور ہرقسم کی خرابی اور پریشانی سے بچائے رکھا۔ مقصود صفدر علی شاہ شیر ربانی کالونی قصور
باب نمبر1 غالب کے امرجہ سے متعلق الفاظ کی تہذیبی حیثیت افعال کے ہونے یا کرنے میں جگہوں کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ بعض جگہیں کسی مخصوص کام کے لئے وقف ہوتی ہیں لیکن بہت سی جگہیں کسی کام کے لئے مخصوص نہیں ہوتیں اور وہاں مختلف نوعیت کے کام ہوتے ہیں۔ مخصوص کاموں سے متعلق جگہوں پر دوسری نوعیت کے کاموں کے ہونے کے امکان کو رد نہیں کیاجاسکتا ۔بعض حالات میں وہاں ایسے کام وقو ع میں آجاتے ہیں کہ جن کا وہاں وقوع میں آنے سے متعلق قیاس بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ گھررہنے کے لئے ہوتے ہیں۔ گھر سیاسی ڈیرہ بن جاتا ہے ،فحاشی کا اڈہبنا لیا جاتا ہے ،چھوٹے اور محدود نوعیت کے تجارتی کام بھی ہوتے ہیں ۔خانقاہیں اور مساجد کے حجرے منفی استعمال میں بھی آنے لگتے ہیں۔کرداروں کی جملہ کارگزاری میں امرجہ کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔ ان کے حوالے سے کرداروں سے سرانجام ہونے والے کاموں کی حیثیت ،نوعیت اور اہمیت واضح ہوتی ہے۔ نفسیاتی سطح پر جگہیں ،کسیسامنے لاتی ہیں ۔ جگہوں کے حوالہ سے ) (Signifiedنشان کا مدلول کرداروں سے متعلق شخصی رویہ ترکیب پاتا ہے۔ مسجد میں بوٹوں سمیت گھس آنے والے کے خلاف مسلمانوں میں نفرت پیدا ہوتی ہے۔ اصطبل میں کوئی جوتے اتار کر نہیں جاتا ،ایسا کرنے والا ہنسی کا نشانہ بن جاتا ہے ۔میدا ِن جنگ میں سینے پر گولی کھاتا سپاہی باوقار
اور محترم ٹھہرتا ہے جبکہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جانے والا نفرت کیعلامت بن جاتا ہے کہ اسے خون پسینے کی کمائی سے کھلایا پلایا گیا ہوتا ہے۔ جگہوں کے حوالہ سے نہ صرف افعال کے سرانجام ہونے کے مختلفحوالے سامنے آتے ہیں بلکہ انسانی رویے بھی کھلتے ہیں۔ غالب نے اپنی اردو غزل میں بہت سی جگہوں کا استعمال کیا ہے۔ یہ جگہیں کرداروں کے قول وفعل کو واضح کرتی ہیں ۔ان جگہوں کا بھی ہیں کے مخصوص مدلول سے ہٹ کر ،اور )(Signifierجودال مدلول بھی سامنے آتے ہیں۔ امرجہ سے کلی واقفیت ،تشریح و تعبیر اور تفہیم میں کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔ اگلے صفحات میں غالب کے ہاں استعمال ہونے والی جگہوں سے متعلق اہم معلومات فراہم کرنے کی سعی کی گئی ہے تاکہ قاری کا ان کے کرداروں کے متعلق ایکمخصوص رویہ بن سکے۔ یہ بھی کہ کرداروں کے افعال کی تشریح کا عمل ہر بار نئے حوالوں سے متحرک رہے۔ جگہوں سے متعلق معلومات کے حوالے سے بہت سے نئے مدلول دریافت ہوسکیں گے اور تشریح کے نئے امکان روشن ہوجائیں گے۔ آتش کدہ: وہ مکان جہاں آتش پرست آگ کی پوچا کرتے ہیں اور وہاں کی آگکبھی بجھنے نہیں دیتے ۔ اسے آگ کا گھر بھی کہہ سکتے ہیں۔ مجاز اا مولف’’ نو اللغات ‘‘نے بھی یہی معنی درج کئے )بہت گرم مکان(١ ہیں جبکہ مولف ’’فرہنگ آصفیہ ‘‘نے سند میں اسیر کا یہ شعر درج کیا ہے
بسکہ آتش شرم روئے یار سے آب آب صاف ہر آتشکدہ میں اب ہے عالم آپ کا فیروز اللغات کے مطابق آتش خانہ اور آتش کانہ ہم معنی ہیں اور یہ فرہنگ ’’)آتش پرستوں کے معبد کے لئے استعمال ہوتے ہیں(١ آصفیہ‘‘ میں آتش خانہ کے دو مفاہیم سے آگ کی جگہ وہ طاق یا آلہ جومکان کے اندر جھاڑوں میں آگ جلانے کے لئے مکان گرم رکھنے کے لئے بناتے ہیں اور )٢(:آگ پرستوں کے ہاں آگ رکھنے کی جگہ آئینہ اردو‘‘ لغت میں آتش خانہ کو وہ مکان ’’)مفاہیم درج ہیں۔ (۳ جہاں پارسی لوگ آگ پوجتے ہیں جبکہ آتش کدہ وہ جگہ جہاںسردیوں میں تاپنے کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ ( )۴معنی درج کئے گئے۔۔۔۔۔۔ وہ جگہ جہاں مقدس ’’ ہیں ۔ اردو جامع انسائیکلو پیڈیاکے مطابق آگ رکھی جاتی ہے۔ عموماا ہر آتشکدہ ہشت پہلو بنایا جاتا ہے ۔ جس کے وسط میں آتش دان ہوتا ہے۔ ( )۵آتشکدے /آتش خانے کو ہمیشہ سے تہذیبی اہمیت حاصل رہی ہے۔ سردیوں میں اکثر جگہوں پر الاؤ روشن کرکے اس کے ارد گرد لوگ بیٹھ جاتے ہیں اور مختلف موضوعات پر گپ شپ کرتے ہیں۔ متوسط گھروں میں انگیٹھی جلا کر ایک کمرے کو گرم رکھا جاتا ہے ۔ وہاں گھر کے جملہ افراد بیٹھ کرآگ تاپتے ہیں ،ساتھ میں گفتگو کا سلسلہ بھی چلتا رہتاہے ۔ گویاآتش خانہ اپنے تہذیبی حوالے رکھتا ہے ساتھ میں مل بیٹھنے کی علامت بھی رہا ہے ۔ مذہب زرتشت میں آگ کو مقدس سمجھا جاتا ہے۔ اس کی پوجا کی جاتی ہے اور آتشکدہ ان کی عبادت گاہ ہے۔ ہندومذہب میں بھی آتشنمایاں مقام کی حامل ہے۔ غالب نے لفظ آتشکدہ بڑی عمدگی اور بالکل
نئے معنوں میں استعمال کیا ہے جاری تھی اسد داغ جگر سے مرے تحصیل آتشکدہ ،جاگیر سمندر ()۶نہ ہوا تھا ایک دوسرے شعر میں بھی آتشکدہ سے مراد آگ جلنے کی جگہ لی گئی ہے۔ عبادت سے متعلق کوئی حوالہ موجود نہیں آتشکدہ ہے سینہ مرارا ِزنہاں سے اے وائے ! معر ِض اظہار میں آوےسینے کا مث ِل آتشکدہ ہونا جہاں کبھی آگ ٹھنڈی نہ ہوتی ہو ،کی علت’’ راز نہاں ‘‘ موجو د ہے ۔ آدمی اپنے سینے میں بات چھپا نہیں سکتا وہ چاہتا ہے اپنی بات کسی نہ کسی سے کہہ دے۔اردو شاعری میں آتشکدہ بطور عبادت گاہ کبھی نظم نہیں ہوا ۔ اس کے ایسے بہت سے حوالے سامنے آئے ہیں جوشخصی کرب کے ساتھ ساتھ وسیب کی اقدارو روایات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اس ضمن میں چند مثالیں ملاحظہ ہوں سخ ِن عشق نہ گو ِش د ِل بے تاب میں ڈال * سودا مت یہ آتشکدہ اس قطرہ سیماب میں ڈال()٧ آگ جلنے کی جگہ ،کنایہ عشق کی متواتر جلنے والی آگ ۔ دل کو قطرہ سیماب کا نام دیا ہے۔ سیماب کو کبھی قرار نہیں اوپر سے اسےآتشکدہ بنا دیا جائے ۔ ایسے میں جو صورتحال سامنے آئے گی اس کا تصور بھی لرزہ براندام کردیتا ہے۔
نواب حسن علی خاں عبرت حضرت ابراہیم کے حوالہ سے بات کرتے ہیں ۔ نار نمرود ،گل و گلزار ہوگئی تھی۔ دل آتشکدہ تھا جونہی وصل میسر آیا گلستان کی شکل اختیار کرگیا۔ عبرت نے دلیل کے ساتھ بات کی ہے کہ آتشکدے کا گلستان میں تبدیل ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں کیونکہ پہلے ایسا ہوچکا ہے رشک خلیل وہ گ ِل خنداں نظر پڑا آتش کدے میں دل کے گلستاں نظر پڑا()۸عبرت آستان:فارسی اسم مذکر ہے چوکھٹ( )۹ڈیوڑھی،دروازہ ،بزرگوں کے مزار کا دروازہ( )١٠درگاہ بادشاہ کی بارگاہ ،بزرگ کا مقبرہ( )١١وغیرہ کےمعنوں میں استعمال کرتے ہیں ۔ یہ لفظ روحانی ،رومانی اور غلامانہ احساسات اجاگر کرتاہے ۔ ہمارے ہاں زیادہ تر شیوخ اور محبوب کیآستانہ‘‘اسی کاروپ ہے اور ’’جائے رہائش کے لئے استعمال ہوتاہے۔ یہ لفط شیوخ کی بارگاہ کے لئے صدیوں سے مستعمل چلا آتا ہے۔ آستان شیخ کا ہوکہ محبوب کا ،اپنے مخصوص تہذیبی حوالے رکھتا ہے۔ ہر دو کے لئے محبت اور احترام کے جذبے کارفرما رہتے ہیں۔ شیوخ کے آستانوں پر مختلف امرجہ سے متعلق لوگ حاضر ہوکر نذرانہء عقیدت پیش کرتے ہیں۔ تمیز و امتیاز کے سارے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ باہمی محبت کے بہت سے روپ اور تعاون و امداد کے باہمی حوالے نظر آتے ہیں۔ معاشرے میں ’’ وڈیرا‘‘ کا درجہ حاصل کرنے والوں کو آستانے کے باہر خاص و عام کے جوتے سیدھے
کرتے دیکھا جاسکتا ہے ،بغیر کسی مجبوری اور جبر کے ۔ وہ اسے اپنے لئے اعزاز خیال کرتے ہیں۔ آستان محبوب کی پوزیشن قطعی مختلف رہی ہے ۔ وہاں کسی دوسرے کا وجود کیا اس کے متلعق کوئی بات ،سایہ ،واہمہ یا احساس بھی گراں گزرتا ہے ۔ محبت اس آستان سے بھی وابستہ نظر آتی ہے ۔ اردو غزل میں یہ لفظ مختلف حوالوں سے نظم ہوتا چلا آتا ہے۔ غالب کے ہاں سن ِگ آستان بدلنے کے حوالہ سے محبوب سے وابستہ ایک :ر ّو یے کی نشاندہی کی گئی ہے نن ِگ سجدہ سے میرے ،گھستے گھستے مٹ جاتا ،آپ نے عبث بدلا سن ِگ آستاں اپنا انعام اللہ یقین کے ہاں دو آستانوں کا تقابلی حوالہ پیش کیا گیا ہے۔محبو ب کا آستان کس قدر محبوب اورمعتبر ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ یقین :کے اس شعر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے مجھے ظ ِل ہما سے سایہ ء سریر سلطنت سے آستا ِن یار بہتر تھا دیوار بہتر تھا( )١٢یقین میر صاحب کے ہاں آستان سے محبت ،عقیدت اور احترام وابستہ نظر :آتا ہے سجدہ اس آستاں کا نہیں یوں ہوا نصیب رگڑا ہے سرمیانہ ء محراب روز وشب ()١۳میر بازار: فارسی اسم مذکر ،کاروبار ،تجارت کی جگہ ،نفع ،میلہ ،رونق ،
رواج ،معاملہ ()١۴دوکانوں کا سلسلہ ،منڈی ،نرخ (بھاؤ)ساکھ ،بکری ،خریدوفروخت ( )١۵برس ِر عام ،جہاں بات پھیل جائے وغیرہ ۔ کاروباری حوالہ سے ’’بازار‘‘ شروع سے انسان کی معتبر ضرورت رہا ہے ۔ بازار دراصل دام لگنے کی جگہ ہے ۔ جہاں کوئی بھی سودا ہوگا وہ بازار کے زمرے میں آئے گا۔ مختلف امرجہ کے لوگ یہاں ملتے ہیں۔ سودابازی کے ساتھ ساتھ زبانوں کے الفاظ ،رویے ،رواج،روایات وغیرہ ،ایک دوسرے کے ہاں منتقل ہوتے ہیں۔ سماجی اقدار ، روایات اور معاشرتی نظریات کا تصادم بھی سامنے آتا ہے۔لفظ’’بازار ‘‘ سنتے ہی آنکھوں کے سامنے مختلف نسلوں ،قبیلوں اور جدازبانیں بولنے والے آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں۔ مختلف قسم کی اشیاء کی دوکانوں کا نقشہ آنکھوں کے سامنے ابھرنے لگتاہے ۔ یہاں ہر شے مہنگے سستے داموں مل جاتی ہے ،بک جاتی ہے۔ اشیا کی قدر و وقعت ان کے استعمال کی جگہوں پر ہوتی ہے۔ سستے پن اور بے وقعتی کا احساس یہاں پر ابھرتا ہے۔ بعض رویوں سے متعلق تحسین و آفرین اور بعض کے متعلق حقارت جنم لیتی ہے ۔ دھوکہ دہی ،بددیانتی ،ہیر اپھیری اور کمینگی کے بہت سے پہلو سامنے آتے ہیں۔ ( )١۶بازار میں نظریں لڑتی ہیں ،برسوں کےبچھڑے مل جاتے ہیں۔ لہجوں کا تبادلہ ہوتا ہے ،بہت کچھ بک جاتا ہے چند مثالیں ملاحظہ ہوں تا گرم ہے بازار تری بیع سلم سے جرم ناکردہ کی مرے عفو خریدار کا ( )١٧قائم جن ِس دل کے وہ خریدار ہوئے تھے کس دن یہ یوں ہی کوچہ و بازار کی افواہیں ہیں ( )١۸شیفتہ
چندے یونہی ہے عشق زلیخا کی گرکشش یوسف کو آج کل س ِر بازار دیکھنا ( )١۹مجروع تینوں شعر بازار کے کسی نہ کسی تہذیبی حوالے ،اصول اور ر ّویے کو واضح کررہے ہیں ۔اب غالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال دیکھئے ساغر جم سے مراجام سفال اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا اچھا ہے جہاں بہت ساری دوکانیں ہیں ان میں ایک برتنوں کی دوکان ،جہاں خریداری کی جاتی ہے ،جہاں اشیاء دستیاب رہتی ہیں۔ کیوں شاہد گل باغ سے بازار غار تگ ِر ناموس نہ ہو گر ہوس زر! میں آوےزرکی ہوس ’’ناموس‘‘ تک کو بازار میں لے آتی ہے ۔ بازار ایسی جگہ ہے جہاں بولی لگتی ہے ۔ زیادہ بولی دینے والا خریدار ٹھہرتا ہے ۔ باغ : فارسی اسم مذکر ،گلزار ،چمن پھلواڑی()٢٠عمومی سنس میں اس سے وہ قطعہ اراضی مرادلیا جاتا ہے جہاں پھولوں کے پودے لگائےجاتے ہیں ۔ پھل دار درختوں کے ذخیرے کو بھی باغ کا نام دیا جاتا ہے ۔ اس سے آل اولاد ،بال بچے ،دنیا ،خوب آباد ،بارونق ،معمور ، )پرفزامعنی بھی لئے جاتے ہیں (٢١باغ کے لئے گلستان ،گلزار ،گلشن ،چمن وغیرہ ایسے دوسرے الفاظ :بھی بولے جاتے ہیں ۔بہر طور باغ آبادی کالازمہ اور لوازمہ رہے ہیں ا۔
نفسیاتی تسکین کاذریعہ رہتے ہیں ب۔ ذو ِق جمال کا مظہر ہوتے ہیں ج۔ ماحول کی بقا کے ضامن ہوتے ہیں د۔ تہذیبی ضرورت رہے ہیں ھ۔غالب کے ہاں باغ اور اس کے مترادفات کا استعمال پرلطف معنویت کا :حامل ہے باغ میں مجھ کو نہ لے جاؤورنہ مرے حال پر ہر ایک گل ترایک چشم خوں فشاں ہوجائے گا ہوتے ہیں۔ ) (Sensitiveباغ سے متعلقات نہایت حساس * کوئی دنیا میں مگر باغ نہیں واعظ خلد بھی باغ ہے خیر آب وہوا ور سہی باغ تازہ آب وہوا کے لئے اپنا جواب نہیں رکھتے۔ باغ دنیا میں جنت سے کم نہیں ہوتے۔ سایہء شاخِ گل افعی نظر آتا باغ ،پاکر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے ہے غلام رسول مہر ،ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری کے حوالہ سے لکھتے :ہیں مغلیہ عہد کے باغ ویران پڑے ہیں ۔شام کے وقت شاخوں کا عکس ’’ سبزے پر بعینہ سانپ کی طرح نظر
آتا ہے ۔ یہ بھی کہ نباتات نے دست انسانی کی قطع برید سے آزادی ) ‘ ‘(٢٢پاکر ایک عجیب آوارگی اختیار کرلی ہے اردو شاعری میں باغ مختلف تہذیبی ضرورتوں کے حوالہ سے :استعمال میں آیا ہے تو ہو اور باغ ہو اور زمزمہ کرنا بلبل تیری آواز سے جیتاہوں ،نہ مرنا بلبل( )٢۳تقی پھلواڑی ،جہاں پھولوں کے پودے ہوںکچھ دل ہی باغ میں نہیں تنہا شکستہ دل ہر غنچہ دیکھتاہوں تو ہے گا شکستہ دل ( )٢۴درد دنیا معمورہ دل کو کیا باندھے ہے گلزا ِر جہاں سے بلبل حسن اس باغ کا اک روز خزاں ہووے گا ( )٢۵قائم دنیا ،جہاں ، ہر سہ شعر ا کے ہاں ’’باغ‘‘ مختلف حوالوں سے وارد ہوا ہے ۔ درد اور قائم نے بطور استعارہ نظم کیا ہے ۔ درد نے دنیا کے رویوں کوواضح کیا ہے ۔یہاں دکھ دینے والوں کی کمی نہیں جبکہ قائم نے فنا کا فلسفہ اجاگر کیا ہے ۔ گلستان:یہ لفظ ’’گل‘‘ کے ساتھ ’’ستان‘‘ کا لاحقہ بڑھانے سے تشکیل پایا ہے، یعنی پھولوں کی جگہ۔ گویا یہ لفظ ایسے باغ کے لئے مخصوص ہے
جہاں پھولدار پودے ہوں۔ اسم ظرف مکان ،باغ جہاں پھول کھلتےپھولوں سے بھرپور اور پھولدار مقامات انسانی مزاج پر ہیں۔()٢۶ خوشگوار اثر ات مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ صحت کی بہتری اور بحالی کے لئے نمایاں حیثیت واہمیت کے حامل رہے ہیں۔ یہی نہیں غمی وخوشی کے حوالہ سے ان کی ہر چند ضرورت رہی ہے۔ اردو غزل میں اس کا مختلف حوالوں سے استعمال رہاہےحالات ،موسموں ،سماوی آفات وغیرہ رنگ میں بھنگ ڈالتے رہتے ہیںگلستان جہاں کی دید کیجو چشم عبرت سے کہ ہر اک سروقد ہے اس ؔ)چمن میں نخل ماتم کا(( )٢٧دردمیرزا علاؤالدین آرزو کے نزدیک پھولوں کو ہاتھ بھی لگانا ،گلستان :کی بربادی کے مترادف ہےکہ آج لوٹے ہے گل چیں یہ لگائیں ہاتھ بھی جھوٹوں تو یوں کہے بلبل گلستاں کیسا ( )٢۸آرزوغالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ ہولے گئے خاک میں ہم دا ِغ تمنائے نشاط تو ہو اور آپ بصد گلستاں ہونا)باغ باغ ہوکر ،شادوخرم رہو(۳٠پھولو پھلو()٢۹مجھے اب دیکھ کر ابر شفق آلودہ یاد آیا کہ فرقت میں تری آتش برستی تھی گلستاں پرموسم اور ماحول انسانی موڈکی پیروی کرتے ہیں ۔ غلام رسول مہر کا
کہنا ہےمناظر کی دلآویزی بجائے خود کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی ،بلکہ ’’ سب کچھ انسان کی دل کی کیفیت پر موقوف ہے۔ اگر وہ خوش ہے تو غیر دلچسپ مناظر سے بھی شادمانی کے اسباب پیدا کرے گا۔ اگر وہ ناخوش ،رنجیدہ اور مصیبت زدہ ہے تو بہتر سے بہتر منظر بھی اس کے لئے سوزش اور جلن )(‘‘۳١کاباعث ہوگا۔ غالب کے بعد کروچے نے بھی تو یہی تھیوری پیش کی ہےچہرہ فرو ِغ مے سے ،گلستاں اک نو بہا ِر ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ کئے ہوئے سرخی ،رنگینی ()۳٢سرخ رنگین ( )۳۳خوبصورتی ،حسن ،رنگا رنگی ،حسن انسان کے اندر ہے جب بھی غیر فطری رکھ رکھاؤ سے باہر آتا ہے ،یہ ازخود واضح ہوجاتاہے ۔ گلشن: گل‘‘ کے ساتھ ’’شن‘‘ کالاحقہ بڑھانے سے ترکیب پایا ’’یہ لفظ بھی ہے ۔ اسم ظرف مکان ،باغ( )۳۴معنی مراد ہیں۔ لیکن گلزار کی طرح یہ بھی پھولوں والی جگہ کے لئے مخصوص ہے۔ لغت سے ہٹ کر کنای اۃکوئی سے معنوں میں استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ میر صاحب کے ہاں پھولوں والی جگہ کے معنوں میں نظم ہوا ہے ۔ گل شرم سے بہہ جائے گا گلشن میں ہوکر آب سا
برقع سے گرنکلا کہیں چہرا ترا مہتاب سا( )۳۵میر میر صاحب کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انسانی حسن (ونزاکت ) کے گلشن ‘‘ کے ساتھ ’’سامنے کوئی حسن (ونزاکت ) ٹھہر نہیں سکتا ۔حسن وابستہ کردیا گیا ہے ۔ گلشن حسن کا منبع ہے لیکن انسانی حسن کے سامنے صفر (پاتال) ہوجاتا ہے۔ بہا ِر داغ تھی جب دل پہ ،قائم عجب سرسبز تھا گلشن ہمار ا( )۳۶قائم قائم نے گلشن سے سبزہ اور ہریالی منسلک کی ہے ۔ یہ انسانی صحت ومزاج کے لئے نمایا ں حیثیت کی حامل رہی ہیں۔آفتاب کے خیال میں گلشن حسن اور رنگا رنگی (کسی کی) کی آماجگاہ ہے ۔ لیکن انسانی حسن پر حسد کرنا یا ششدر رہ جانا غیر فطری بات نہیںمت اس اداو ناز سے گلشن میں کرگزر ڈرتا ہوں میں ،مبادا ،کسی کی نظر لگے ( )۳٧آفتاب غالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ فرمائیں گلشن میں بندوبست برنگ دگر ہے آج قمری کا طوق حلقہء بیرون در ہے آج گلشن بمعنی گلستان ( )۳۸محفل ( )۳۹برتا گیا ہے گلشن کو تری صحبت از بسکہ خوش آئی ہے ہر غنچے کاگل ہونا آغوش کشائی ہے غالب گلستان ،باغ ( )۴٠انجمن ،بزم محفل
اشخاص کی صحبت قوموں کے مزاج ر ّویے اور روایات بدل کررکھ دیتی ہے۔تابع اذہان بلوغت اختیار کرلیتے ہیں گلزار:یہ لفظ بھی گل +زار کا مجموعہ ہے ۔ زار اسم ظرف مکان کی علامتہے ۔ گل زار جہاں پھول ہی پھول ہوں ۔( )۴١پھلیرے کی دوکان پر بہتسی قسموں کے پھول ہوتے ہیں لیکن اسے گلزار کا نام نہیں دیا جائے گا۔ وہ دوکان ہی کہلائے گی۔ گلزار سے مراد ایسی جگہ /خطہ اراضی جہاں پھولوں کے پودے اگائے گئے ہوں۔ پھول ہمیشہ سے سماجی ضرورت رہے ہیں۔ گلستان ،گلشن اور گلزار در حقیقت ایک ہی قماش کے لفظ ہیں ۔ اردو غزل میں گلزار کا استعمال مختلف سماجی اور انسانی رویوں سے پیوست نظر آتاہے ۔ مثلاا ہوا زیبا بدن گلرو تمہارا خلق جس دن سے نہ دیکھا وہ زمانے میں کسی گلزار میں صورت ( )۴٢چندا انسانی خلق رنگا رنگ پھولوں کے حسن اور خوشبو سے کہیں بہتر ہوتا ہے ۔ پھول اپنے حسن اور خوشبو کے حوالہ سے متاثر کرتے ہیں۔ لوگوں کو قریب آنے کی دعوت دیتے ہیں ۔بعینہ ہی انسانی حسن اور خلق کی صورت ہوتی ہے۔ انسان میں ان دونوں عناصر کاہونا گلزار کی مانند ہوتا ہے ۔ گلزار: پھلنا پھولنا ،پنپنا ،سکہ رہنا اس قدر افسردہ دل کیوں ان دنوں ہے آفتاب
دیکھ کر ہوتا ہے تجھ کو تنگ ،دل گلزار کا ( )۴۳آفتاب محفل ،انجمن ،دنیا ،احباب ،قدردان زمانے کا عمومی چلن ہے کہ وہ سکھ میں ساتھ دیتا ہے۔ دکھ اورافسردگی میں دل تنگ کرتا ہے ۔پھول اور پھولدار پودے خوشگوار موڈ پسند کرتے ہیں ۔ اسی میں ان کے پھلنے پھولنے کا راز مخفی ہوتا ہے۔ :غالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ ہوتواس قد دلکش سے جو سائے کی طرح ساتھ پھر یں سرو و صنوبر گلزار میں آوے سرو وصنوبر سے واضح ہورہا ہے کہ گلزار سے پھولوں کاخطہء اراضی مراد ہے۔گلزار میں (شخصی )بلند قامتی معتبر و معزز ٹھہراتی :ہے۔ غلام رسول مہر لکھتے ہیں محض بلندی قامت کوئی خوبی نہیں ،قداتنا ہی بلند ہونا چاہئے جتنا ’’ کہ موازنیت کے باعث دل کو لبھائے ، )نری بلند قامتی بعض اوقات نازیبا بن جاتی ہے ۔ (۴۴ چمن: باغ‘‘ گروپ سے متعلق ہے۔ اردو شاعری میں ’’یہ لفظ بھی اس لفظ کا بڑا عام استعمال ملتاہے اس نازنین دہن سے حرف اس ادا سے نکلا گویا کہ غنچہء گل صحن چمن میں چٹکا
خوبصورت ادائیگی صح ِن چمن میں غنچہء گل کے چٹکنے سے کسی طرح کم نہیں ۔ لہجہ اعتماد بحال کرتاہے ۔غلط لہجہ جھگڑے کا سبب بن سکتا ہے ۔ بے مزگی کی صورت نکل سکتی ہے ۔ کرخت اورکھردرا انداز تکلم بے وقار کرکے رکھ دیتا ہے ۔ غنچے کا چٹکنا اپنے دامن میں بے پناہ حسن رکھتا ہے ۔آنگن ‘‘ میں جوانی ،زندگی کے ذائقے ہی بدل کر رکھ دیتی ’’کسی ہےمرغان چمن کے چہچہے ہیں اور کبک دری کے قہقہے ہیں ()۴۵ مجروحمرغان چمن کے چہچہوں کا جواز۔١۔ہریالی ۔٢۔ پھول ۔۳۔ پھل ہیں ۔ مجروح نے چمن کو باغ کے معنوں میں اندراج کیا ہے۔اب غالب کے ہاں اس لفظ کی کارفرمائی ملاحظہ ہولطافت بے کثافت جلوہ پیدا کرنہیں سکتی چمن زنگار آئینہ باد بہاری کا چمن:گلبن و اشجار و برگ و بار( )۴۶اظہار لطافت( )۴٧با ِدبہاری کے اظہار )کا وسیلہ (۴۸اڑتے ہوئے الجھتے ہیں ہے جو ِش گل بہار میں یاں تک کہ ہر طرف مرغِ چمن کے پانوء غالب چمن ،جہاں بہت سارے درخت ہوں اوران کی بہت سی شاخیں ِادھرادھربکھری ہوئی ہوں کہ بلبل کو پرواز میں دشواری محسوس
ہوتی ہو۔ بے ترتیبی حرکت میں خلل کا سبب بنتی ہے۔ بہتات نعمت سہیلیکن اس کا ترتیب میں لانا اور ضروری قطر برید حرکت میں دشواریکا موجب نہیں بنتی ۔ پنجابی مثل معروف ہے ’’پانا سب کو آتا ہے لیکن ’’ٹمکانا‘‘ کوئی کوئی جانتا ہے۔ چمن کی خوبی تو ہر کوئی چاہتا ہے لیکن پودوں کی دیکھ بھال ،توازن ،سیمٹری قائم کرکے حظ فراہم کرنا کوئی کوئی جانتا ہے ۔می ّسر کی بہتات ،سلیقے کی محتاج ہے جبکہ سلیقہ ،توازن اور سٹمری کاضامن ہوتا ہے ۔ بت خانہ: فارسی اسم مذکر۔ بت رکھنے کی جگہ ،مندر ،شوالہ ،شیودوارہ ( )۴۹بتکدہ ،صنم کدہ ،مورتی پوجا کی جگہ ()۵٠انسان نے اپنے محافظ ،معاون ،نجات دہندہ ،پوجیور کو مجسم اور چشم بخود دیکھنے کی خواہش ہمیشہ کی ہے۔ دکھ ،تکلیف اور مصیبت میں انسے مدد چاہی ہے ۔ دیوی دیوتاؤں کے ساتھ بھلے اور انسان دوستوں کے بت بنا کر انہیں احترام دیا گیا ہے ۔ ان کی یاد میں بت گھر بنائےگئے ہیں ۔ یہاں تک کہ کعبہ کو بھی بت گھر بنا دیا گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ بت اوربت خانے انسانی تہذیبوں کا محورو مرکز رہے ہیں ۔ مذہبی اشخاص کی تصاویر اورمجسموں کااحترام عیسائیوں اور مسلمانوں )کے ہاں بھی پایا جاتا ہے ۔(۵١ جبرواستبدادسے متعلق قوتیں ،انسان اور انسانیت سے برسر پیکار رہی ہیں۔کچھ لوگ ان قوتوں کے سامنے ہمیشہ جھکے اور انہیں اپنی قسمت کامالک ووارث سمجھتے چلے آئے ہیں جبکہ کچھ لوگ ان قوتوں سے نبردآزما رہے ہیں۔ اس جنگ کے فاتحین کوبھی عزت و احترام دیا گیا ہے ۔ گویا دونوں ،منفی اور مثبت قوتیں طاقت کی
علامت ٹھہر کر پوجیور کے درجے پر فائز رہی ہیں۔ ماہرین بشریات کا کہناہے کہ فرد کی شخصیت پیدائشی قوتوں کے زیر اثر نہیں بلکہمعاشرتی حالات کے نتیجے میں تشکیل پاتی ہے۔ ()۵٢یہی وجہ ہے کہ )۵۳بہت بڑا معاشرتی حوالہ رہے ہیں۔ بعض کو ان کے عمدہ ( ‘‘’’بتکردار( )۵۴اور بعض کوجبری( )۵۵عزت دینے پر انسان مجبور ہا ہے بتکدہ ‘‘کانام دیتے ہیں’’طوائف گاہ اوربازار حسن کو بھی غالبشب ہوئی پھر انجمن رخشندہ کا منظر کھلا اس تکلف سے گویا بتکدے کا درکھلا اردوشاعری میں ’’بت خانہ‘‘ عام استعمال کا لفظ رہا ہے ۔مثلاا کہیں عش ِق حقیقی ہے کہیں عش ِق مجازی ہے کوئی مسجد بناتا ہے کہیں بنتا ہے بت خانہ( )۵۶شریں بت خانے ‘‘ کا استعمال بطور پوجا گاہ ہو اہے ’’ چشم اہل قبلہ میں آج اس نے کی جوں سرمہ جا حیف ایسا شخص جوخا ِک دربت خانہ تھا ( )۵٧سودا مجازی اور غیرحقیقی پوجاگاہ مسجد میں بتکدے میں کلیسا میں دیر میں پھرتے تری تلاش میں ہم چار سو رہے ( )۵۸شیدا بت کدہ ،بیت الصنم ،صنم خانہ ’’ ،بت خانہ ‘‘ کے مترادف الفاظ ہیں
اللہ رے کیا عشق بتاں میں ہے رسائی یہ کعبہ ء دل اپنا صنم خانہ ہوا ہے ( )۵۹ذکا کسی شخص کا باطن جودنیوی حوالوں سے لبریز رہا ہو۔ بیت الحرام تھا سو وہ کافر ہمارے دل کی نہ پوچھ اپنے عشق میں )بیت الضم ہوا (۶٠ شیخ تفضل حسین عزیز ’’آستا ِن صنم‘‘ کانام دے رہے ہیں دیر وحرم سے کام بھلا اس کو کیا رہے جس کاکہ آستا ِن صنم سجدہ گاہ ہو ( )۶١عزیز محبوب کا آستانہ عشاق کی سجدہ گاہ رہا ہے غالب کے ہاں لفظ بت خانے کا استعمال ملاحظہ ہو وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو یقین استواری کانام ہے ۔ کبھی اِدھر کبھی ادھر ایسوں کو عہد جدید ’’لوٹے‘‘ کانام دیتا ہے بت خانہ بتوں کے رکھنے کی جگہ کوکہا جاتا رہا ہے ۔ یہ لفظ مندر ،شوالہ ،دیر ،شیودوارہ کے لئے بولا جاتاہے ۔بت خانہ سے وابستہ روایات تہذیبی حوالوں سے جڑی رہی ہیں اور ان کے اثرات نادانستہ بت شکنوں کے ہاں بھی منتقل ہوئے ہیں۔ بیاباں:فارسی اسم مذکر ،ریگستان ،جنگل ،ویرانہ ،اجاڑ ،جہاں کوسوں تک )پانی اور درخت نہ ہوں(۶٢
عشق اوربیاباں لازم و ملزوم حیثیت کے حامل ہیں۔وہ اس لئے عشق میں جب بھی وحشت لاحق ہوگی تو وحشی (عاشق ) ا۔ ویرانے کی طرح دوڑے گا۔ عشق ویرانی چاہتا ہے تاکہ عاشق اور معشوق بلا خوف مل ب۔ سکیں اورباتیں کرسکیں۔ غالب کے ہاں لفظ’’بیاباں‘‘ کا استعمال ملاحظہ ہو بحر گر بحر نہ ہوتا گھر ہمارا ،جونہ روتے بھی تو ویراں ہوتا توبیاباں ہوتا جہاں پانی دستیاب نہ ہو ،ویرانہ * میر صاحب جنوں کو بیابان کا نام دے رہے ہیں ۔بیاباں ہولناک وسعت ویرانی کاحامل ہوتا ہے ۔ خوف اس سے وابستہ ہوتا ہے جنون کی حد پیمانوں سے بالا ہوتی ہے ۔ بقدر ضرورت حالات(ویرانی) اور وسعت میسر نہ آنے کا خوف اور خدشہ رہتا ہے۔ ان امور کے پیش نظر میر صاحب نے ’’بیاباں جیون ‘‘کی ترکیب جمائی ہے میں صی ِدر میدہ ہوں بیابا ِن جنون کا رہتا ہے مراموجب وحشت ، مراسایا ( )۶۳میر شکیب جلالی یاس کے ساتھ بیابان کارشتہ جوڑتے ہیں یاس بیابان سے مما ثل ہوتی ہے ۔ یاس کی حالت میں امید کے دروازے بند ہوجاتے ہیں کسی حوالہ سے بات بنتی نظر نہیں آتیبیٹھا تھا میں اداس بیابان یاس تازہ کوئی ردائے شب ابر میں نہ تھا میں ( )۶۴شکیب
کسی بھی نوعیت کا جنون سوچ کے دروازے بند کردیتا ہے ۔ یا س اداس کردیتی ہے ۔ ہر دوصورتیں معاشرتی جمود کاسبب بنتی ہیں ۔ معاشرتی جمود تخلیق و تحقیق کے لئے سم قاتل سے کم نہیں ہوتا۔جنوں ہوکہ یاس مث ِل بیابان ( بے آباد ،ویران بنجر ،تخلیق وتحقیق سے معذور) ہوتے ہیں۔ فارسی اسم مذکر :بیابان ،صحرا ،جنگل ،میدان ( )۶۵دشت: ویرانہ ،شیفتگی کاٹھکانہ ،اردو شاعری میں یہ لفظ مختلف مفاہیمکے ساتھ نظم ہوا ہے ۔ حاتم اور قاتم نے اسے ویرانہ اور بیابان کے معنوں میں باندھا ہےہم دوانوں کو ،بس ہے پوشش سے دام ِن دشت وچادرمہتاب ( )۶۶قائمہوامجنوں کے حق میں دشت گلزار کیا ہے عشق کے ٹیسونے بن حاتم سرخ ()۶٧اب غالب کے ہاں اس لفظ کے استعمال ملاحظہ ہویک قدم و حشت سے در ِس دفتر امکاں کھلا جاہ ،اجزائے دوعالم دشت کا شیراز تھاوحشت اور دشت ایک دوسرے کے لئے لازمہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔وحشت کی صورت میں دشت کی ضرورت ہوگی۔ جنون ووحشت امکان کے دروازے کھولتے ہیں۔ آبادی میں رہتے ہوئے سوچ کو یکسوئی میسر نہیں آسکے گی ۔ یہ دشت میں ہی ممکن ہے ۔ صحرا:عربی اسم مذکر۔ جنگل ،بیابان( )۶۸میدان ،جہاں درخت وغیرہ کچھ
نہ ہوں ،ویرانہ ،ریگستان ( )۶۹تنگ جگہ جہاں گھٹن ہو۔غالب نے مجنوں کے حوالہ سے صحرا سے بیابان معنی مراد لئے ہیں صحرا مگر بہ تنگی چشم جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار حسود تھاصحرا وسیع و کشادہ ویرانہ ہوتا ہے ۔ بقول غالب اسے کوئی سر نہیں عام روایات ’’کرسکتا ۔ یہ اعزاز صرف مجنوں کو حاصل ہوا ہے ۔ کے مطابق اس کی ساری عمر بیابان کی خاک چھاننے میں بسر ہوئی ۔()٧٠۔ صحرا گردی عشق کا لازمہ رہا ہے ۔ شیفتہ صحرا سے پر آشوب ویران مقام مراد لیتے ہیں گاؤں بھی ہم کو غنیمت ہے کہ آبادی تو ہے آئے ہیں ہم پر آشوب صحرا دیکھ کر ( )٧١شیفتہ بیدل حیدری ویرانی ،خشکی ،پشیمانی ،بدحالی وغیرہ کے معنوں :میں نظم کرتے ہیںباد ل یہ آنکھ کے صحرا کو کیا ہوا کیوں ڈالتے نہیں ہیں بگولے دھمال ،سوچ ( )٧٢بیدل حاتم نے صحرا سے سبزہ گاہ ،جہاں ہر یالی ہو معنی مراد لئے ہیں میاں چل سیر کر ابر و ہوا ہے ہو اہے کوہ و صحرا جابجا سبز()٧۳ حاتم جنگل: فارسی اسم مذکر۔ بیابان ،جھاڑی ،بن ،نخلستان ،صحرا ،میدان ،
ریگستان ،بنجر ،افتادہ زمین ،ویران جگہ، )چراگاہ ،بادشاہی شکار گاہ صید گاہ(٧۴حاتم نے بے آباد جگہ جبکہ چندا نے چوپایوں کی چراگاہ ،معنی مراد :لئے ہیں وے پری رویاں جنھیں ڈھونڈے تھے ہم جنگل کے بیچ بعد مدت کے یکا یک آج پائیں باغ میں ( )٧۵حاتم رہیں کیونکہ بستی میں اس عشق کے ہم جو آہو کوجنگل سے رم ؔ)دیکھتے ہیں ( ( )٧۶چندا غالب نے جنگل کوبیابان ،دشت اور صحرا کے معنوں میں استعمال کیا ہے ہر اک مکان کو ہے مکین سے شرف اسد مجنوں جو مرگیا ہے تو جنگل اداس ہے بیابان ،دشت ،صحرا،جنگل اورویرانہ وحشت پیدا کرنے والے الفاظ ہیں ۔ قدرتی یا پھر انسان کی اپنی تیار کردہ آفات انسانی تباہی کاموجب رہی ہیں۔ طاقتور طبقے ،بیماریاں یا پھر سماوی آفات ،آبادیوں کو ویرانوں میں بدلتی رہتی ہیں۔بہر طور یہ الفاظ سماعت پر ناگوارگزرتے ہیں۔ سماعت ان سے جڑی تلخی برداشت نہیں کرتی۔ ان حقائقکے باوجود عشاق ،زاہد حضرات اور تدبر وفکر سے متعلق لوگوں کو یہ جگہیں خوش آتی رہی ہیں ۔ ان مقامات پر موجود آثار ،مختلف حوالوں سے متعلق امور کی گھتیاں کھولتے ہیں ۔ عبرت یا پھر دلی ِل جہد بن جاتے ہیں۔
جنتلفظ جنت ،درحقیت بعد از مرگ ایک مستقل ٹھکانے /گھر کے جنت: لئے مستعمل ہے۔ اس کے حسن اور آسودگی کا سن کر آدمی اپنے زمینی گھر کو جنت نظیر بنانے کی سعی کرتا ہے۔ لفظ جنت ایک پرسکون ،پرراحت اور پرآسائش گھر کا تصور دیتا ہے۔ انسان اسکے حصول کے لئے زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کی کوشش کرتا ہے۔ سخاوت اور عبادت و ریاضت سے بھی کام لیتا ہے۔قرآن مجید اور دیگر مذہبی کتب میں بھی بعد از مرگ اچھے کرموں کے صلہ میں عطاء ہونے والے اس بے مثل گھر کانقشا ملتا ہے )جنت وہ باغات( )٧٧ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں (* ٧۸ )اس باغ کی وسعت سات آسمان اور زمین کے برابر ہے (* ٧۹ )یہ امن اور چین کا گھر ہے (* ۸٠ )یہ گھر مستقل ہوگا(* ۸١ )وہاں آزادی ہوگی(* ۸٢ )آسائش ہوگی(* ۸۳ )میوے سدا بہارہوں گے ۔ چھاؤں بھی میسر ہوگی(* ۸۴ )یہ نہال کردینے والا گھر ہوگا(* ۸۵ یہ گھر بڑا عمدہ اور اس میں کسی قسم کی تکلیف اوررنج نہ * )ہوگا(۸۶
یہاں جھروکے ہوں گے ،ضیافتوں کا اہتمام ہوگا۔ پھل ،عزت اور * )(ہر) نعمت میسر ہوگی(۸٧ )اونچے محل اوربالا خانے میسر ہوں گے(* ۸۸ گویا جنت ہر حوالہ سے مثالی ہوگا۔ وہاں کسی قسم کا رنج اور دکھ نہ ہوگا بلکہ ہر نوع کی سہولت میسر ہوگی۔ جنت میں انسان کو کسی :دوسرے پر انحصار نہیں کرنا پڑے گاجبکہ زمین پر بقول روجرزضروریات کی تسکین کے لئے انسان کودوسروں پر انحصار کرنا پڑتا ’’ ہے اوراسے معاشرتی رسم ورواج اور اقدار )۔( ‘‘۸۹کی پابندی کرنا پڑتی ہے غالب نے جنت کامختلف حوالوں سے ذکر کیا ہے ۔ ہر بارنئی معنویت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے ) ‘‘ (۹٠نافہموں کے لئے ایک سبز باغ ’’ آغا باقر: )‘‘(۹١نادانوں کا گھر ’’ شاداں بلگرامی : ) ‘‘ (۹٢دل خوش رکھنے کا ذریعہ ’’ غلام رسول مہر: مترادفا ِت جنت کا تذکرہ بھی کلا ِم غالب میں ملتا ہے بہشت: )فارسی اسم مونث ،جنت ،فردوس ،باغ ،عیش آرام کا مقام (۹۳
سنتے ہیں جو بہشت کی تعریف سب درست لیکن خدا کرے وہ ترا جلو ہ گاہ ہو )‘‘ (۹۴جہاں محبوب کا جلوہ نصیب ہوگا ’’ آغا باقر )وہ مقام جہاں محبو ب کا دیدار میسر آئے( ’’ ۹۵غلام رسول مہر خلد: )عربی اسم مونث ،جنت ،بہشت ،فردوس (۹۶ گھر ترا خلد میں گریاد آیا کیاہی رضوان سے لڑائی ہو گی ) ‘‘ (۹٧باغ’’ آغا باقر ) ‘‘ (۹۸دریچہ باغ ’’ غلام رسول مہر آٹھ طبقات بہشت میں سے ایک طبقہ کا ’’ شاداں بلگرامی : )‘‘(۹۹نام تصور محبوب ،پرآسائش مقام ،خوبصورت جگہ ،محبوب کے گھر سے کم تر اورجہاں محبو ب کی عدم موجودگی کے باعث بے چینی اور بیقراری ہوگی۔فردوس :عربی اسم مذکر ۔ باغ ،گلشن ،بہشت ،جنت ،بینکٹھ ،بہشت )کا اعلی طبقہ(١٠٠یہ جنت نگاہ وہ فردو ِس گوش لط ِف خرام ساقی وذوق صدائے چنگ ہے میٹھی ،پرکیف ،پرسرور
باغ رضوان: وہ بہشتی باغ جس کادربان نگران رضواں ہےوہ اک گلدستہ ہے ہم ستائش گرہے زاہد اس قدر جس باغِ رضواں کا بے خودوں کے طا ِق نیساں کا غالب باغ رضوان جنت کے کسی ایک حصے کا نام ہے ۔جنت کے دوسرے حصوں کا ذکر بھی غالب کے ہاں ملتا ہے مثلاا حوض کوثر جس کے ساقی جناب امیر ہوں گے۔ کل کے لئے کر آج نہ خست شراب میں یہ سوئے ظن ہے ساقی کوثر کے باب میںکوثر نام ایک نہر بہشت میں اس کا پانی دودھ سے سفید اور شہد سے )میٹھا (١٠١ )حوض کوثر ،خیر کثیر (١٠٢ )بے شمار خوبیاں (١٠۳ )اس پانی کو جو ایک مرتبہ پیئے گا پیاس نہیں لگے گی (١٠۴ )نام حوض ست کہ در آخرت خواہد بود (١٠۵ غالب نے بھی کوثر سے مراد حوض ہی لیا ہے غالب کے ایک شعر میں باغ ارم کا ذکر آتا ہے جہاں تیر ا نقش قدم دیکھتے ہیں خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں
ارم: عربی اسم مذکر ۔بہشت ،جنت ،شداد کی بنائی ہوئی بہشت کا نام ( )١٠۶ایک شہر کا نام جو شداد سے منسوب تھا اور وہی اس کا شہرۂ آفاق باغ بتایا جاتا تھا ۔اب یہ لفظ مطلق بہشت کے لئے مستعملہے۔ ( )١٠٧باغ جنت ( )١٠۸محبوب کا ہر نقش قدم(٠۹ا) یوں جیسے )پھولوں کی کیاری ہو (١١٠اردو شاعری میں اس خوبصورت مقام کا مختلف حوالوں سے ذکر ملتا ہےتیرا نام ہر دم کوئی لیوتا ٹھکانہ جنت بیچ اوس دیوتا ( )١١١اسماعیل امروہوی خوبصورت ٹھکانہ /گھر ،صلہ ء عبادت ،اجر ،انعامباغ بہشت آنکھوں سے اب گر گیا مرے دل میں بسا وہ سبزخط روئے یار ہے ( )١١٢چندا ہرا بھرا سبز باغ ،نہایت خوبصورت باغ ،بہشت کا سبزہ مگر خط روئے یار سے کم تر اوسی وقت بھیجا خدا پاک نے بہشتاں تے حوراں ایحال منے ()١١۳ اسماعیل امروہوی بہشتاں ،جمع بہشت ۔وہ جگہ جہاں خوبصورت عورتیں اقامت رکھتی ہیں ۔ کیا ڈھونڈتی ہے قوم ،آنکھوں میں قوم کی خلد بریں ہے طبقہ اسفل جحیم کا ( )١١۴شیفتہ
خلد ، حسین سپنا ،خوش فہمی ،مٹی سے بنے انسان کا سپناہاں طلب گا ِر جناں آؤ درحضرت پر یہ مکاں وہ ہے جسے خلد بنا کہتے ہیں ( )١١۵مجروح در حضور ،کنایتہ اسلامساکن کو کو ترے کب ہے تماشے کا دمانح آئے فردوس بھی چل کر نہ ادھرکو جھانکا ( )١١۶میر محبوب کے کوچے کو ’’فردوس ‘ ‘پر تر جیح دی جارہی ہے کہ یہ جازبیت ،حسن و جمال ،تعلق وغیرہ کے حوالہ سے بر تر ہے۔فردوس کے متعلق پڑھنے سننے میں آتا ہے جبکہ محبوب کا کوچہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔لوگ اس کوچے کے متعلق اظہار خیال کرتے ہیں ۔اس کی جازبیت اور خوبصورتی پر کہتے ہیں ۔فردوس سننے کی چیز ہے جبکہ یہ دیکھنے اور سننے سے علاقہ رکھتی ہے۔ تمہارے روضہ جنت نشاں کے جو کہ درباں ہیں رکھے ہیں حکم رضواں ،حضرت خواجہ معین الدیں ()١١٧آفتابرضوان جو جنت کے ایک باغ کا درباں ہے اس پر زمین باسی ،اللہ کے ولی کا حکم چلتا ہے اور اس کا روضہ جنت نشاں ہے ۔ روضے کو جنت نشاں قرار دے کر رضوان (موکل )کی دربانی کا جواز آفتاب نے بڑی خوبی سے نکالا ہے ۔ ہے جو چشم تر بہر ابن علی بہ از چشمہ آب کوثر ہے وہ ( )١١۸قائم چاند پوری
قائم چاند پوری نے حسین کے غم میں بہتی آنکھ کو چشمہ آب کوثر قرار دیا ہے۔یقیناوہ آنکھ جوئے کوثر کو بہت پیچھے چھوڑ جاتی ہے۔ زائر ہو جو کوئی ترے گل گشت دو عالم سے ہو کیوں کر وہ تسلی کوچے کے ارم کا ( )١١۹قائم چاند پوریقائم رسالت ﷺکے کوچہ کو ارم کا نام دیتے ہیں ۔رسالت مآب ﷺ کے کوچے کا زائر گل گشت دو عالم میں اطمینان محسوس نہیں کرتا ۔ قلبی تسلی کا جو ذائقہ وہاں ہے یہاں کب میسر آتا ہے ۔جنت کا حسن اور آسایش متاثر کر تا ہے ۔شداد اس متاثر ہوا ۔ اس نےباغ بنوایا ۔انسان اپنے زمینی گھر کے لئے ایسی ہی صورتوں کا متمنی رہا ہے ۔کبھی گھر کے اند ر اور گھر کے باہر سبزے سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کر تا ہے ۔شہروں کو باغات سے آراستہ کرتاہے۔ حسن و آرائش انسان کی نفسیاتی کمزوری ہے۔ وہ سنی سنائی جنتکے لوازمات جمع کرنے کی سعی و جہد کرتا چلا آیا ہے۔حسن و آرائشموڈ پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔موڈ پر رویے اور رویوں پر تہذیبی روایات اٹھتی ہیں ۔جنت کے حوالہ سے ان عناصر کو تہذیبوں کی رگوں میں رواں دیکھا جاسکتا ہے ۔حسن اور آرائش و آسودگی جنت ہی کا تو پر ہیں ۔ خانقاہ: عربی اسم مونث ۔خانقہ بھی لکھنے میں آتا ہے۔درویشو ں اور مشائخ کے رہنے کی جگہ صومعہ کسی درویش یا پیر کا مقبرہ ( )١١۹خان بمعنی شاہ ،قاہ تبادل گاہ بمعنی جائے شاہ بوجہ عظمت مزار فقرا کے معنی ہیں ( )١٢٠خانقاہیں ہمیشہ سے قابل احترام رہی ہیں مخصوص
مسالک سے متعلق لوگ یہاں سے ۔روحانی آسودگی پانے کی توقع رکھتے ہیں)١ ۔ باطنی تربیت کی امید رکھتے ہیں)٢ ۔حاجات روی کا منبع خیال کرتے ہیں)۳ خانقاہوں کا اسلامی معاشروں میں سیاسی کردار بھی رہا ہے ۔خانقاہی نظریات معاشروں میں کبھی بالواسطہ اور کبھی بلاواسطہ پھلے پھولے ہیں اور ان کا انسانی کر دار پر اثر مرتب ہوا ہے ۔مخصوص پہناوے دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ایسی صورت خانقاہی رسومات کی علامت رہی ہیں ۔خانقاہیں صلح و آتشی کا سرچشمہ رہی ہیں ۔اتحاد و یکجہتی کی علامت بھی قرار پاتی ہیں ۔مسجد کلچر سے ان کا تصادماور بیر رہا ہے ۔مولوی کے لئے خانقاہوں سے متعلق لوگ کبھی گوارا نہیں رہے۔ مولوی کی کوشش کے باوجود خانقاہی کلچر کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ غالب نے میکدے کو مسجد ،مدرسہ اور خانقاہ کے برابر لا کھڑا کیا ہے۔ میکدہ بطور کنایہ استعمال میں آیا ہے ۔شعر ملاحظہ ہو جب میکدہ چھٹا ،تو پھر اب کیا جگہ کی قید مسجد ہو ،مدرسہ ہو، کوئی خانقاہ ہو یہ لفظ اردو اور فارسی شاعری میں استعمال ہوتاآیا ہے ۔مثلاادیر میں کعبے گیا میں خانقہ سے اب کی بار راہ سے میخانے کی اس راہ میں کچھ پھیر تھا ( )١٢١میر گرداز رخت آں مسافری فشاند خانقہ خالی شدو صوفی بماند
( )١٢٢مولانا روم منم کہ گوشہ ء میخانہ خانقاہ منست دعائے پیر مغان()١٢۳ورد صبح گاہ منست()١٢۴حافظ شرازی حجرہ : حجرہ ،عبادت ،تعلیم و تر بیت کے علاوہ مولوی صاحب کی نشت گاہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔یہ عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے لغوی معنی کوٹھری ،مسجد کی کوٹھری ،وہ خلوت خانہ جس میں بیٹھ کر عبادت کریں ۔()١٢۵غرفہ( )١٢۶وغیرہ ہیں ۔گویا یہ لفظ اسلامیتہذیب میں بھرپور معنویت کا حامل رہا ہے۔ اس کے متعدد حوالے رہے ہیں ۔مثلاا مشائخ و عارف حضرات کے کمرۂ ریاضت کے لئے استعمال ا) ہوتا رہا ہے حجرے میں بیٹھ کر علماء سے طلباء تعلیم حاصل کرتے رہے ب) ہیں علماء تنہائی میں یہاں مطالعہ کرتے ہیں ج)دنیا بیزار حضرات اور عشاق کا تنگ و تاریک کمرہ حجرہ کہلایا د) ہےمولوی صاحبان اسے استراحت کے لئے استعمال میں لاتے ہیں ھ) بد فعلی کے لحاظ سے حجرہ بد نام بھی ہے و) بہر طور یہ مقام تقدس مآب ہے۔ مولانا روم کے ہاں اسے کمرہ کے
معنوں میں استعمال کیا گیا ہے رخت از حجرہ بروں آور داو تا بجزبندندآں ہمراہ جو ( )١٢۵مولاناروماس نے حجرے سے سامان باہر نکالاتاکہ وہ ساتھیوں کو تلاش کرنے ( )والے (صوفی) گدھے پر لادیں غالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال دیکھئے ۔ ہنوز ،اک پر تو نقش خیال یار باقی ہے دل افسردہ ،گویا حجرہ ہے یوسف کے زنداں کا غالب نے ’’حجرہ ‘‘ بطور مشبہ بہ نظم کیا ہے ۔یوسف کا پیوند تلمیح ٹھہراتاہے )شاداں بلگرامی :چھوٹا کمرہ کوٹھری (١٢۶ )آغا باقر :تنگ و تاریک کوٹھری (١٢٧ )غلام رسول مہر :قید خانے کا حجرہ (١٢۸ غالب کے ہاں چھوٹے بڑے کمرے پر زور نہیں تاہم کامن سنس کی بات ہے کہ حجرہ چھوٹا کمرہ ہوسکتا ہے۔اصل زور اس کے ماحول (افسردگی )پر ہے ۔ انسان کے موڈکا تعلق ماحول اور سچویشن سے ہے ۔بہت بڑی حویلی یا عالیشان محل ملکیت میں ہو وہ تب ہی خوش آئے گا جب وہاں ۔ چہل پہل ہوگی ۔اس رونق میں کوئی پوچھنے والا ہوگا۔ جس سے )١ کہا سناجاسکے گا ۔ خوف کا پہرہ نہیں ہوگا)٢
۔ کسی قسم کی پابندی نہیں ہوگی)۳ ہرسہ شارح حجرہ سے کمرہ /کوٹھری مراد لے رہے ہیں ۔اس حوالہ تخصیص کے لئے کسی سابقے کی ضروت محسوس ہوتی ہے ۔ مثلااعاشق کا حجرہ ،خانقاہ کا حجرہ ،جیل کا حجرہ وغیرہ سابقہپیوست نہ کرنے کی صورت میں اسے مسجد والا حجرہ سمجھنا پڑھے گا ۔ دبستان : مکتب ()١٢۹سکول ۔مدرسہ ( )١۳٠غلام رسول مہر :ادبستان کا )مخفف ،مکتب ،تعلیم پانے کی جگہ (١۳١ دبستان ،مدرسہ ،مکتب ’’درس گاہ ‘‘ کے تین نام ہیں ۔تینوں لفظ غالب نے بڑی خوبی اور نئی معنویت کے ساتھ باندھے ہیں فناتعلیم درس بے خودی ہوں ،اس زمانے سے کہ مجنوں لام ۔الف لکھتا تھا دیوار دبستاں پر دبستان کی دیوار پر ’’ لا ‘‘لکھنا ا)۔ یہاں سے کچھ حاصل ہونے کا نہیں ب)۔یہاں کے پڑھے کو زوال ہے ج)۔ کچھ باقی رہنے والا نہیں ،درسگاہ بھی نہیں د)۔ اصل تعلیم ’’ کل من علیہافان ‘‘ ہے جو یہاں کے نصاب میں نہیں لہذا دبستان کی تعلیم ادھوری ہے فنا‘‘ کو واضح کیا گیا ہے۔ اس شعر میں ’’دوسرے شعر ء میں بھی
لفظ مکتب استعمال ہواہے لیتا ہوں مکتب دل میں سبق ہنوز لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا دنیا ٹھہرنے کی جگہ نہیں ،چل چلاؤ کا مقام ہے۔ایک تیسرے شعر میں ’’مدرسہ ‘‘ نظم ہواہے ۔اس شعر میں میکدے کو مسجد ،مدرسے اور خانقاہ کے برابر لاکھڑا کرتے ہیں جب میکدہ چھٹا تو پھر اب کیا جگہ کی قید مسجد ہو،مدرسہ ہو ،کوئی خانقاہ ہو دبستان ،مکتب ،مدرسہ کو ہر معاشرے میں کلیدی حیثیت حاصلہے۔قوموں کی ترقی ،مثبت روایات کے تشکیل پانے اور ان کے پنپنےکاانحصاراسی ادارے پر ہے ۔جہاں یہ ادارہ اور اس کے متعلقات صحت مند اور باوقار ہوں گے وہاں معاشرہ صاف ستھرا ترکیب پائے گا۔ اس معاشرے کے رویے اور اطوار توازن تہی نہیں ہوں گے ۔انسان نے تحصیل علم و فن میں عمریں بتادیں ۔اس معاملہ میں اپنے بچوں کے لئے حساس رہا ہے۔ لفظ مکتب ،دبستان ،مدرسہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو دوڑتا ،بھاگتا شرارتیں کرتے اور روتے بسورتے آنکھوں کے سامنے لے آتا ہے آزاد ماحول سے پابند ماحول کی طرف مراجعت انہیں پریشان کر دیتی ہے۔اس لفظ کے حوالہ سے ایک اور نقشہ بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہایک عالم فاضل شخص علم کے خزانوں کے دروازے کھولے بیٹھا ہے ۔اس کے سامنے بیٹھے طلباء یہ مرواریدی خزانے جمع کر رہے ہیں ۔یہ ادارہ شعور ،ادراک اور آگہی سے متعلق ہے۔ اسی لئے انسان
ا) کتاب کی طرف رخ کرتا ہے ب) علم و فن سے متعلق شخص /اشخاص کی طرف رجوع کرتا ہے مالی تنگی سختی میں بھی کتاب دوستی سے منہ نہیں موڑتی ٍ)ج دامگاہ : )شکارگاہ ( )١۳٢وہ مقام جہاں شکار کے لئے جال بچھاہوا ہو (١۳۳دامگاہ،شکار گاہ کے مترادف مرکب ہے تاہم اسے جال کے ساتھ شکار کرنے تک محدود کر دیا گیا ہے ۔شکار کی ضرورت اور شوق انسان کے ہمیشہ سے ساتھی رہے ہیں ۔چڑیوں سے شیر تک اس کے حلقہشکار میں رہے ہیں ۔اپنی شکاری فطرت سے مجبور ہوکر انسانوں اور معاشی غلاموں کا شکارکرتا آیا ہے۔ ناقص ،ناکارہ اور بیکار مال کی فروخت کے لئے دام لگاتارہتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک پہلے سے بہتراور کار گزاری میں بڑھ کر مال تیار کر لینے کے بعد پہلے کی فروخت کے لئے دام بچھاتے رہتے ہیں ۔عورتوں سے پیشہ کروانے والے یاپیشہ سے متعلق عورتیں دام لگاتی رہتی ہیں ۔تاجر ،دلال ،پراپرٹی ڈیلر زوغیرہ اپنے اپنے دام کے ساتھ معاشروں میں موجود ہے ہیں ۔انامرجہ کودامگاہ کہا جائے گا ۔بادشاہی محلات شازشوں کے حوالہ سے دامگاہ رہے ہیں ۔غالب کے ہاں اس لفظ کا استعمال ملاحظہ ہوبزم قدح سے عیش تمنا نہ رکھ کہ رنگ صیدزدام جستہ ہے اس دام گاہ کادام گاہ کی حقیقت ،اصلیت اور اس کے اندر کی اذیت وہی بتا سکتا ہے جو اس میں رہ کر کسی وجہ یا سبب سے بچ نکلا ہو یا ڈنک کھاکر
واپس آیا ہو ۔ورنہ اتنی بڑی حقیقت ،بزم قدح سے عیش تمنا نہ رکھ ۔۔۔ اتنے وثوق اور اعتماد کے ساتھ کہنا ممکن نہیں ہوتی۔ در: فارسی اسم مذکر ہے۔جس کے معنی دروازہ ،دوارا ،چوکھٹ ، درمیان ،اندر ،بیچ ،بھیتر ہیں ۔تحسین کلام کے لئے بھی آجاتا ہے ۔( )١۳۴کسی دوسرے لفظ کے ساتھ جڑ کر معنویت اجاگر کر تاہے۔دوسرا لفظ نہ صرف اسے خصوص کے مرتبے پر فائز کرتا ہے۔ بلکہ پیوند ‘‘ سے واضح ہوتاکہ ’’اس کی تخصیص کا ذریعہ بن جاتا ہے ۔ ۔غالب کے ہاں اس کی کارفرمائی دیکھئے‘کون سا اور کس کا’دربزم شہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا رکھیو یا رب! یہ درگنجینہ ء گو ہر کھلا)(‘‘ ١۳۵گوہروں کے خزانے کا دروازہ ’’:غلام رسول مہربارہ گا ِہ شاہی درہائے مضامین گنجینہ یا بوجہ ’’ :شاداں بلگرامی ) ‘‘ (١۳۶فیض و عطا جواہر کانہ ہے بادشاہ کے حضور علم ودانش سے متعلق لوگ جمع رہتے ہیں ۔ اسیحوالہ سے بادشاہ کوعلم و دانش کا منبع قراردیا جاتا ہے ۔ بادشاہ کینظر عنایت کسی بھی معاشی حوالہ سے کایاہی پلٹ سکتی ہے۔ بادشاہ کے انصاف پر مبنی فیصلے معاشرے پر انتہائی مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔ درشاہی پرہنر وکمال کی پذیرائی ہوتی ہے اوریہ روایتتہذیب انسانی کا حصہ رہی ہے۔ د ِر گنجینہ گوہر کاکھلا رہنا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ قدرومنزلت حضر ِت انسان کو نفسیاتی سطح پراکساتی رہتی ہے ۔ گنجینہ گوہر ،درکو واضح کررہا ہے ۔ غالب کا ایک
شعر دیکھئے بعد یک عمر و ر ع بار تودیتا بارے کاش رضواں ہی دریار کا درباں ہوتا )(‘‘ ١۳٧محبوب کا گھر ’’ آغا باقر: )(‘‘ ١۳۸دربارحبیب ’’ شاداں بلگرامی: محبوب کی چوکھٹ یار حقیقی ہوکہ مجازی ،انسان کے لئے معتبر اور محترم رہاہے استک رسائی کے لئے ہر طرح جتن کرتا رہا ہے ۔ یہاں تک کہ جان تک کی بازی لگادیتا ہے۔ انسان نے جہاں دوسروں کو تابع کرنے کی کوشش کی ہے وہاں مطیع ہونے میں بھی اپنی مثل آپ رہا ہے ۔ اس حوالہ سے اس کا سماجی و تیرہ دریافت کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی۔ اردو شاعری کے لئے یہ لفظ نیا نہیں۔ مختلف مفاہیم اور کئی سماجی حوالوں سے اس کا استعمال ہوتا چلا آتا ہے ۔ مثلاا ذکر ہر در سے ہم کیا لیکن کچھ نہ بولا وہ دل کے باب میں رات ( )١۳۹قائم چاندپوری مختلف انداز ،جداجداحوالوں کے ساتھ جاوے درقفس سے یہ بے بال و پرکہاں صیاد ذبح کیجوپر اس کو نہ چھوڑیو ( )١۴٠درد ذریعہ و وسیلہ نہ رکھنے والا جبر و استحصال کا شکار ہوتا ہے ۔
زندگی کے دوسرے حوالوں سے دور ہتا ہے ۔ اس کی حیثیت کنویں کے مینڈک سے زیادہ نہیں ہوتی۔ دیار: عربی اسم مذکر ۔ دارکی جمع اور اس کے معنی ،گھر ،خانہ ، )ملک اور بلاد کے ہیں (١۴١ دیار کے ساتھ کسی دوسرے لفظ کی جڑت سے اس کے معنی واضح سامنے آتا Statusہوتے ہیں اور اسی حوالہ سے اس کا سماجی ہے ۔ مثلاا غالب کا یہ شعر ملاحظہ ہو رکھ لی مرے خدانے مجھ کودیار غیر میں مارا ،وطن سے دور ،مری بے کسی کی شرم دیا ِر غیر: پردیس ۔ اجنبی جگہ ،ایسی جگہ جہاں کوئی اپنا شناسانہ ہو۔دیس سے محبت ،فطری جذبہ ہے۔ دیار غیر میں اس کی حیثیت مشینسے زیادہ نہیں ہوتی۔ وہاں کے دکھ سکھ سے لاپرواہ ہوگا۔ نفع نقصان سے قلبی تعلق نہ ہوگا۔ اس کے برعکس اپنے دیس کی ہر چیز کو یاد غیر‘‘دیار کی نہ صرف معنوی حیثیت واضح ’’کرکے آنسو بہاتا ہے۔ کو بھی اجاگر کررہا ہے ۔ Statusکررہا ہے بلکہ اس کے معاشرتی کوچہ: فارسی اسم مذکر اور کو کی تصغیر ہے ۔ اس کے معنی گلی ،سکڑ راستہ ،محلہ ،ٹولہ ہیں ( )١۴٢کوچہ عام استعمال کا لفظ ہے ۔ جب تک کوئی دوسرا لفظ اس سے پیوند نہیں ہوتا اپنی پوزیشن اور
شناخت سے معذور رہتا ہے ۔کسی سابقے لاحقے کے جڑنے کے بعداس کی معاشرتی حیثیت کا تعین ممکن ہوتا ہے۔ مثلاا اٍ غالب یاکہ شعر دیکھئے علاوہ عید کے ملتی ہے اوردن بھی شرا گدائے کوچہ میخانہ نامراد نہیں جس محلے میں میخانہ ہے وہاں اور بھی گھر ہوں گے اور گھروں کے سبب یہ کوچہ کہلایا۔ جبکہ میخانے کہ وجہ سے یہ کوچہ معروف ہوا ۔ اور گھروں کی پہچان ،میخانہ ہے ۔ اور گھروں کی وجہ سے یہکوچہ کہلایا ۔ اس کوچے میں دیگر امرجہ سے متعلق میخوار آتے ہیں۔ لامحالہ اپنے علاقوں کی روایات اور زبانیں لے کرآتے ہیں۔ میخانےکی اپنی روایات ہوتی ہیں۔ ان تینوں امور کے حوالہ سے میخانے سے متعلق کوچے کی روایات ،رویے ،اطوار ،رسم ورواج ،لسانی سیٹ اپ اپنا ہوتا ہے ۔ مجازاا ’’ کوچہ میخانہ ‘‘ کوپیر خانہ ،عالم دین یا کسی مجتہد کا ٹھکانہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان تینوں امورکے حوالہ سے اطوار اور لسانی سلیقے مختلف ترکیب پائیں گے۔ کوچہ اردو غزل میں عام استعمال کا لفظ ہے ۔ چندا نے عام محلے کا ذکر کیا ہے لیکن اس محلے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہاں سے ’’ماہ‘ ‘ کا گزر ہوا ہے اے یا ِر بے خبر تجھے اب تک خبر نہیں کب کا گزار ہوگیا کوچے میں ماہ کا ( )١۴۳چندا غلام حسین بیدل نے کوچہ کے ساتھ ’’جاناں‘‘ لاحقہ جوڑ کر توجہ کا مرکز ٹھہرایا ہے
پاؤں رکتا ہے کوئی کوچا جاناں سے مرا دل کے ہاتھوں نہ گیا آج تو کل جاؤں گا ( )١۴۴بیدل گلی: محلے کوچے کی کوئی گزر گاہ جس کے دونوں طر ف مکانات تعمیر ہیں یا کم از کم ایک طرف مکان موجود ہیں۔ محلوں کوچوں میں سینکڑوں گلیاں ہوتی ہیں ۔ ان گلیوں کی وجہ سے محلہ ،محلہ کہلاتا ہے۔ گلی وہی معروف ہوگی جس کے ساتھ کوئی حوالہ منسوب ہوگا۔ یہ حوالہ اس گلی کی وجہ شناخت ہوگا۔ غالب کے ہاں استعمال میںآنے والی گلی ایسے شخص کی وجہ سے معروف ہے جو ’’ خداپرست ‘‘ نہیں جس کو ہو دین و ہاں وہ نہیں خدا پرست ،جاؤ وہ بے وفا سہی دل عزیز ،اس کی گلی میں جائے کیوں جہاں خدااور وفاسے لاتعلق رہتا ہو لیکن ہوپٹاخا ،وہاں نہ جانے کے لئے سمجھانا ے کار اوربے معنی ٹھہرتا ہے۔ شعر میں گلی کو’’ اس نے وجہء شہرت اور وجہء تخصیص بنا دیا ہے ورنہ لفظ گلی ‘‘کیاپنے اندر کوئی جازبیت نہیں رکھتا اور نہ ہی معلومات میں اضافے کا سبب بنتا ہے ۔ محلوں میں بے شمار گلیاں ہوتی ہیں۔ کسی کا پتا دریافت کرنے کے لئے بتانا پڑتا ہے کہ کون سے گلی۔ مثلاکوٹ اسلام پورہ ،گلی سیداں ،قصور یعنی شہر قصور کے محلہ اسلام پورہ کی ۔‘‘گلی سیداں والی کا استعمال ہوتا آیا ہے ۔ ‘‘اردوغزل میں مختلف حوالوں سے ’’گلی مثلاا
جنت میں مجھ کو اس کی گلی میں سے لے گئے کیا جانیے کہ مجھ سے ہوا آہ کیا گناہ ( )١۴۵احسان جنت میں یا کسی جنت نظیر گلی میں بھی کوئی دل آزار اور ناپسندیدہشخصیت کا قیام ہے جو اس گلی سے گزرنا ناگوارگزرتا ہے ۔ زندگی کا چلن دیکھئے خوبی کے ساتھ خرابی ہمرکاب رہتی ہے۔ اسی قماش کا ایک اور شعر ملاحظہ کیجئےخا ِک شفاملی تو میں بیمار اس کی گلی میں آن کے کیا کیا اٹھانے رنج ہوگیا ( )١۴۶صابر۔ غالب ،احسان اور پراستوار ہے ‘‘دونوں اشعار کی بساط ’’اس کی کے حوالہ سے محبوبوں کو کھول کر رکھ ‘‘صابر نے ؔ ’’اس کیدیا ہے کہ یہ کس انداز سے دل آزاری کا سامان کرتے ہیں۔ یہ بھی کہ اچھائی کے ساتھ برائی ،خیر کے ساتھ شرنتھی رہتی ہے ۔ جانتے ہوئے بھی آدمی شر سے پیوست رہتا ہے ۔ دوزخ: یہ بنیادی طور پر فارسی زبان کا لفظ ہے اور اسم مونث ہے جبکہ اردوبول چال میں مذکر بھی استعمال ہوتا ہے ۔ جہنم ،نرک ،یملوک ،وہ ستوں طبقے جو تحت الثرے میں گناہگاروں کی سزاکے لئے خیال کئے جاتے ہیں۔ ( )١۴٧برے ،بے سکون ،تکلیف دہ ٹھکانے ،برے حالات ،پریشان کن اور تکلیف دہ سچویش ،تنگی سختی ،بدحالی ،مفلسی ،انتطار وغیرہ کے لئے بولا جانے والا بڑاعام سا لفظ ہے ۔ غم ہائے ’’غالب کا کہنا ہے کہ آتش دوزخ میں اتنی تپش نہیں جتنی آت ِش دوزخ میں ہوتی ہے۔ غم ،دوزخ سے بڑھ کر عذاب ہے ‘‘نہانی
میں یہ گرمی کہاں سوز غم ہائے نہانی اور ہے)آتش کی نسبت سے بطور مونث ،آگ ( ١۴۸آغا باقر :)غلام رسول مہر :تکلیف ،دکھ ،غموں کی جلن ( ١۴۹وہ جگہ جہاں آگ جل رہی ہو۔ بے حد تپش ہو۔ آگ اور تپش اذیت دینے والی چیزیں ہیں۔جودکھ پر دہ میں ہوں ۔ اظہار میں نہ آئینیا نہ آسکیں یا ان کا اظہارمیں لانا مناسب نہ ہو۔ یقیناا ان کی اذیت دوزخ کی اذیت سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ اظہار کی صورت میں تلخی میں کمی آتی ہے ۔ آسودگی ملتی ہے ۔ توڑ پھوڑ( شخصی یا معاشرتی) وقوع میں نہیں غم پنہاں‘‘ معاشروں کی جڑیں ہلا کر رکھ دیتا ہے ۔ انقلاب برپا ’’آتا۔ کردیتا ہے ۔ غالب کا ایک اور شعر ملاحظہ ہوجلوہ زا ِر آتش دوزخ ہمارا دل سہی فتنہ ء شو ِر قیامت کس کے آب و گل میں ہے) ‘‘ (١۵٠آغا باقر’’ دل میں بھری ہوئی آگ)‘‘ (١۵١غلام رسول مہر ’’ عاشق کا دل) (١۵٢آتش عشق ’ ’شاداں بلگرامیاردو شاعری میں اس لفظ کا عام استعمال ملتاہےٹیک چند بہار کے ہاں حقیقی معنوں میں نظم ہوا ہےہمیں واعظ ڈراتا کیوں ہے تو دوزخ کے دھڑکوں سےمعاصی گوہمارے بیش ہیں ،کچھ مغفرت کم ہے ( )١۵۳بہارمیر عبدالحئی تاباں کے نزدیک جنت میں کسی ناپسندیدہ شخصیت کی
موجودگی دوزخ کے عذاب سے کم نہیں ۔ ایسی ہی صورتحال معاشرے میں پیدا ہوتی ہے ۔ شخص معاشرے /ملک کو بام عروج پرلے جاتا ۔ ناپسندیدہ اور بدکردار شخص /ملک کا ستیاناس مار کررکھ دیتا ہے ۔ شخص قدریں بدل دیتا ہے ۔ معاشرے کا مزاج تبدیل کردیتا ہے جو توہوواں تو بھلا اگر میں خوف سے دوزخ کے جنتی ہوں شیخ یہ عذاب کیا کم ہے ( )١۵۴تاباںشیخ اپنے کرتوے کے اعتبار سے معززو محترم اور ذی وقار خیال کیا جاتا ہے ۔ اس سے تقدس اور پوترتا کی توقع بندھی رہتی ہے لیکنزیادہ تر عملی حوالہ سے یہ سکون غارت کرتا رہا ہے ۔ وابستہ امیدیںخاک میں ملتی رہی ہیں۔ تاباں کادوسرا مصرع اس تجربے کا نچوڑ ہے۔ بالکل اسی طرح مکتب کو آگ لگنے پر بچے کو دکھ نہیں ہوتا ،جتنا’’ماسٹر ‘‘کے بچ جانے پر ہوتا ہے ۔ بکری کو لاجواب چارہ کھانے کودو جب اس کاپیٹ بھر جائے شیر کا چہرہ کروادو ،سب غرق ہوجائے ،جنت کی آسودگی شیخ کا چہرہ ہوجانے کے بعد مٹی میں مل کر خدشےکے کینسر میں مبتلا ہوجائے گی۔ آسودگی ،پریشانی کے حاویہ میں پل بھر کو بھی نہ ٹک پائے گی۔ میر صاحب نے بڑی عمدگی او رصفائی سے ایک معاشرتی رویے اور روایت کے جبر کو فوکس کیا ہے کون ا شک مرامنبع آہ میں کب کی کہ سرمایہء دوزخ نہ ہوئی طوفاں نہ ہوا ( )١۵۵میر میر صاحب کا کہنا ہے کہ فریا د کرنے والے کے لئے زندگی دوزخ کاایندھن بن جاتی ہے۔ یہاں کا وتیرہ ہے کہ ظلم سہو اور خوشی خوشی
Search
Read the Text Version
- 1
- 2
- 3
- 4
- 5
- 6
- 7
- 8
- 9
- 10
- 11
- 12
- 13
- 14
- 15
- 16
- 17
- 18
- 19
- 20
- 21
- 22
- 23
- 24
- 25
- 26
- 27
- 28
- 29
- 30
- 31
- 32
- 33
- 34
- 35
- 36
- 37
- 38
- 39
- 40
- 41
- 42
- 43
- 44
- 45
- 46
- 47
- 48
- 49
- 50
- 51
- 52
- 53
- 54
- 55
- 56
- 57
- 58
- 59
- 60
- 61
- 62
- 63
- 64
- 65
- 66
- 67
- 68
- 69
- 70
- 71
- 72
- 73
- 74
- 75
- 76
- 77
- 78
- 79
- 80
- 81
- 82
- 83
- 84
- 85
- 86
- 87
- 88
- 89
- 90
- 91
- 92
- 93
- 94
- 95
- 96
- 97
- 98
- 99
- 100
- 101
- 102
- 103
- 104
- 105
- 106
- 107
- 108
- 109
- 110
- 111
- 112
- 113
- 114
- 115
- 116
- 117
- 118
- 119
- 120
- 121
- 122
- 123
- 124
- 125
- 126
- 127
- 128
- 129
- 130
- 131
- 132
- 133
- 134
- 135
- 136
- 137
- 138
- 139
- 140
- 141
- 142
- 143
- 144
- 145
- 146
- 147
- 148
- 149
- 150
- 151
- 152
- 153
- 154
- 155
- 156
- 157
- 158
- 159
- 160
- 161
- 162
- 163
- 164
- 165
- 166
- 167
- 168
- 169
- 170
- 171
- 172
- 173
- 174
- 175
- 176
- 177
- 178
- 179
- 180
- 181
- 182
- 183
- 184
- 185
- 186
- 187
- 188
- 189
- 190
- 191
- 192
- 193
- 194
- 195
- 196
- 197
- 198
- 199
- 200
- 201
- 202
- 203
- 204
- 205
- 206
- 207
- 208
- 209
- 210
- 211
- 212
- 213
- 214
- 215
- 216
- 217
- 218
- 219
- 220
- 221
- 222
- 223
- 224
- 225
- 226
- 227
- 228
- 229
- 230
- 231
- 232
- 233
- 234
- 235
- 236
- 237
- 238
- 239
- 240
- 241
- 242
- 243
- 244
- 245
- 246
- 247
- 248
- 249
- 250
- 251
- 252
- 253
- 254
- 255
- 256
- 257
- 258
- 259
- 260
- 261
- 262
- 263
- 264
- 265
- 266
- 267
- 268
- 269
- 270
- 271
- 272
- 273
- 274
- 275
- 276
- 277
- 278
- 279
- 280
- 281
- 282
- 283
- 284
- 285
- 286
- 287
- 288
- 289
- 290
- 291
- 292
- 293
- 294
- 295
- 296
- 297
- 298
- 299
- 300
- 301
- 302
- 303
- 304
- 305
- 306
- 307
- 308
- 309
- 310
- 311
- 312
- 313
- 314
- 315
- 316
- 317
- 318
- 319
- 320
- 321
- 322
- 323
- 324
- 325
- 326
- 327
- 328
- 329
- 330
- 331
- 332
- 333
- 334
- 335
- 336
- 337
- 338
- 339
- 340
- 341
- 342
- 343
- 344
- 345
- 346
- 347
- 348
- 349
- 350
- 351
- 352
- 353
- 354
- 355
- 356
- 357
- 358
- 359
- 360
- 361
- 362
- 363
- 364
- 365
- 366
- 367
- 368
- 369
- 370
- 371
- 372
- 373
- 374
- 375
- 376
- 377
- 378
- 379
- 380
- 381
- 382
- 383
- 384
- 385
- 386
- 387
- 388
- 389
- 390
- 391
- 392
- 393
- 394
- 395
- 396
- 397
- 398
- 399
- 400
- 401
- 402
- 403
- 404
- 405
- 406
- 407
- 408
- 409
- 410
- 411
- 412
- 413
- 414
- 415
- 416
- 417
- 418
- 419
- 420
- 421
- 422
- 423
- 424
- 425
- 426
- 427
- 428
- 429
- 430
- 431
- 432
- 433
- 434
- 435
- 436
- 437
- 438
- 439
- 440
- 441
- 442
- 443
- 444
- 445
- 446
- 447
- 448
- 449
- 450
- 451
- 452
- 453
- 454
- 455
- 456
- 457
- 458
- 459
- 460
- 461
- 462
- 463
- 464
- 465
- 466
- 467
- 468
- 469
- 470
- 471
- 472
- 473
- 474
- 475
- 476
- 477
- 478
- 479
- 480
- 481
- 482
- 483
- 484
- 485
- 486
- 487
- 488
- 489
- 490
- 491
- 492
- 493
- 494
- 495
- 496
- 497
- 498
- 499
- 500
- 501
- 502
- 503
- 504
- 505
- 506
- 507
- 508
- 509
- 510
- 511
- 512
- 513
- 514
- 515
- 516
- 517
- 518
- 519
- 520
- 521
- 522
- 523
- 524
- 525
- 526
- 527
- 528
- 529
- 530
- 531
- 532
- 533
- 534
- 535
- 536
- 537
- 538
- 539
- 540
- 541
- 542
- 543
- 544
- 545
- 546
- 547
- 548
- 549
- 550
- 551
- 552
- 553
- 554
- 555
- 556
- 557
- 558
- 559
- 560
- 561
- 562
- 563
- 564
- 565
- 566
- 567
- 568
- 569
- 570
- 571
- 572
- 573
- 574
- 575
- 576
- 577
- 578
- 579
- 580
- 581
- 582
- 583
- 584
- 585
- 586
- 587
- 588
- 589
- 590
- 591
- 592
- 593
- 594
- 595
- 596
- 597
- 598
- 599
- 600
- 601
- 602
- 603
- 604
- 605
- 606
- 607
- 608
- 609
- 610
- 611
- 612
- 613
- 614
- 615
- 616
- 617
- 618
- 619
- 620
- 621
- 622
- 623
- 624
- 625
- 626
- 627
- 628
- 629
- 630
- 631
- 632
- 633
- 634
- 635
- 636
- 637
- 638
- 639
- 640
- 641
- 642
- 643
- 644
- 645
- 1 - 50
- 51 - 100
- 101 - 150
- 151 - 200
- 201 - 250
- 251 - 300
- 301 - 350
- 351 - 400
- 401 - 450
- 451 - 500
- 501 - 550
- 551 - 600
- 601 - 645
Pages: