Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore زبان غالب کا فکری‘ لسانیاتی و انضباتی مطالعہ

زبان غالب کا فکری‘ لسانیاتی و انضباتی مطالعہ

Published by maqsood5, 2017-06-28 06:26:02

Description: زبان غالب کا فکری‘ لسانیاتی و انضباتی مطالعہ
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
جون ٢٠١٧

Search

Read the Text Version

‫‪151‬‬ ‫ست روں سے س دہ اور محدود جہ ت م نتے ہیں ۔ اس لیے چرخ‬ ‫اط س کہتے ہیں ۔ ( عرش ب ند مق ہے اور غ ل کے نزدیک )‬ ‫)ہم را مک ن تو عرش سے بھی اونچ ہے۔ (‬ ‫‪:‬عرش دو طرح سے م روف چلا آت ہے‬ ‫ب ندی کے م نوں میں‪ ،‬کہ ج ت ہے ۔ ح لات نے اسے عرش‬ ‫‘‘ سے فرش تک پہنچ دی ہے‬ ‫مظ و کی آہ سے بچو ک وہ عرش تک پہنچتی ہے ۔‬ ‫ی ل ظ مذہبی حوال سے تہذی میں س ر کرت دکھ ئی دیت ہے۔‬ ‫‪ :‬غ ل کے ہ ں اس ل ظ ک است م ل ملاحظ ہو‬‫منظر اک ب ندی پر اور ہ بن سکتے ہیں ادھر ہوت ک شکے مک ں‬ ‫اپن‬ ‫فرش‪ :‬عربی اس مذکر۔ بچھون ‪ ،‬بستر ‪ ،‬زمین ‪ ،‬چونے وغیرہ‬ ‫سے پخت کی ہوئی زمین ( )ع ل انتظ ر جس کی ع ل مک ں‬ ‫کی طرح چھ طرفین ہیں ( پور ‪ ،‬پچھ ‪ ،‬اتر ‪ ،‬دکھن ‪ ،‬اوپر ‪،‬‬ ‫)نیچے)(‪۷‬‬ ‫انس ن بہتر سے بہتر اور نئی سے نئی اشی ‪ ،‬صورتوں اور‬‫موق وں اور ح لات کی تلاش میں رہت ہے۔ تخ ی کے س تھ س تھ‬ ‫تزین و آرائش ک فریض بھی سرانج دیت چلا آت ہے۔ وہ کسی‬ ‫نئی اطلاع ک منتظر رہت ہے ۔ غ ل نے فرش کے س تھ شش‬

‫‪152‬‬ ‫جہت کو منس ک کرکے اسے دوسری ک ئن توں سے منس ک‬ ‫کردی ہے جس کی وج سے ل ظ فرش ق بل توج بن گی ہے۔‬ ‫‪ :‬ش ر ملاحظ ہو‬ ‫کس ک سرا ج وہ ہے ‪ ،‬حیرت کو‪ ،‬اے خدا آئین فرش شش‬ ‫جہت انتظ ر ہے‬ ‫‪:‬قتل گ ہ ‪ /‬گ‬ ‫مقتل ک مترادف ہے ۔ وہ جگ جہ ں محبو اپنے عش کو قتل‬ ‫کرنے کے لیے مکمل تی ری( ) کے س تھ کھڑا ہوت‬ ‫ہے۔( ) ی ل ظ کسی طرح کے نقشے آنکھوں میں ب ندھ‬ ‫‪:‬دیت ہے‬ ‫۔ میدان جنگ ۔ ڈاکووں کی غ رت گری ۔ بوچڑ خ ن‬ ‫۔ حقو ط کرنے والوں پر تنگی سختی ‪ ،‬بے دردی اور‬ ‫غ رت گری‬ ‫۔ کسی بٹوارے کے وقت کی سنگینی ‪ ،‬چھین جھپٹی ‪ ،‬قتل و‬ ‫غ رت۔‬ ‫۔ وہ کرسی جو عوا پر ٹیکس ع ئد کرنے کی ’ ’ ترکیبیں ‘‘‬ ‫سوچتی ہے۔‬ ‫‪۷‬۔ انص ف کے ایسے ادارے جہ ں انص ف بے دردی سے قتل‬ ‫ہوت ہے۔‬

‫‪153‬‬ ‫۔ وہ امرج جہ ں ن قص م ل فروخت کرکے عوا ک م شی قتل‬ ‫کی ج ت ہے۔‬ ‫۔ م رک ح و ب طل‬ ‫۔ میدان کربلا‬‫ل ظ قتل گ خوف ہراس اور موت ک ت ثر رکھت ہے۔ اس ل ظ سے‬ ‫اعص بی کچھ ؤ پیدا ہوت ہے ۔ غ ل نے’’ عشرت ‘‘کو اس ل ظ‬ ‫ک ہ نشست بن کر اس جگ سے محبت کو ابھ را ہے۔ محبو‬ ‫سے (مج زاا) قتل ہونے کی تمن ہر قس کی ن خوشگواری خت‬ ‫‪ :‬کردیتی ہے۔ ش ر ملاحظ ہو‬ ‫عشرت قتل گ اہل تمن ‪ ،‬مت پوچھ عید نظ رہ ہے شمشیر ک‬ ‫عری ں ہون‬ ‫‪:‬ک ب‬ ‫عربی اس مذکر ‪ ،‬چ ر گوشوں والی چیز ‪ ،‬مربع‪ ،‬مک مکرم ‪،‬‬ ‫اہل اسلا کے مقدس اور متبرک مق ک ن جہ ں ہر س ل حج‬ ‫ہوت ہے ی عم رت چ ر گوشوں والی ہے( )نرو کے کھیل ک‬ ‫بڑا مہرا ‪ ،‬ہر مربع گھر‪ ،‬جھروک ‪ ،‬خ ن ک ب ‪ ،‬بیت اللہ ‪ ،‬الحر‬ ‫جو مک میں ہے ( ) احترام اکسی محتر شخص اوروالدین‬ ‫کے لیے بھی است م ل کرتے ہیں ۔ دل کو بھی ک ب کہ ج ت ہے۔‬‫ک ب کے لیے حر اور قب کے ال ظ بھی است م ل میں آتے ہیں‬

‫‪154‬‬ ‫۔‬ ‫اہل اسلا کے لیے ی مق بڑا محتر ہے ۔ اسلا سے قبل بھی‬ ‫اسے خصوصی اہمیت ح صل تھی ۔ مذہبی حیثیت کے علاوہ‬‫تہذیبی ‪ ،‬سم جی اور سی سی حوال سے اسے بڑا اہ مق ح صل‬ ‫تھ ۔ آج کل ی محض مذہبی رسوم ت اور عب دات کے لیئے‬ ‫مخصوص ہے۔ حج کی فکری و فطری روح ی ک ہر س ل دنی‬ ‫کے مس م ن یہ ں جمع ہوں مذہبی فرائض کے س تھ س تھ ایک‬ ‫دوسرے سے م یں ‪ ،‬اپنے م ملات اور مس ئل پر گ تگو کریں ‪،‬‬ ‫خت ہوگئی ہے۔‬ ‫‪:‬غ ل کے ہ ں اس ل ظ ک بڑی خوبی سے است م ل ہوا ہے‬ ‫بندگی میں وہ آزادہ و خود بیں ہیں ک ہ الٹے پھر آئے ‪ ،‬در‬ ‫ک ب اگر وان ہوا‬ ‫اس ش ر میں شخص کی ان ہی کو واضح نہیں کی گی ب ک‬ ‫برصغیر کی ان اور خود داری کو بھی فوکس کی گی ہے۔ قدرت‬ ‫نے شخص میں ی عنصر رکھ دی ہے ک اسے نظر انداز‬ ‫ہون خوش نہیں آت ب لمق بل چ ہے کوئی بھی ہو۔ اودو غزل میں ی‬ ‫ل ظ نظ ہوت چلا آت ہے۔ ‪،‬مثلااخواج درد نے حر ‪ ،‬دل کے‬ ‫‪:‬م نوں میں است م ل کی ہے‬ ‫دل کو سی ہ مت کر کچھ بھی تجھے جو ہوش ہے کہتے ہیں ک ب‬ ‫اس کو اور ک ب سی ہ پوش ہے )درد‬

‫‪155‬‬ ‫‪:‬چندا نے بھی ک ب سے مراد دل لی ہے‬ ‫ک ب ء دل توڑ کر کرتے ن ہ بت خ ن آب د ا ہوتی اگر ہ کو‬ ‫صن کی بے وف ئی کی خبر ( )چندا‬ ‫‪ :‬آفت نے حر ‪ ،‬قب کے م نوں میں نظ کی ہے‬ ‫صرف ک ب میں ن کر اوق ت کو ض ئع توشیخ ڈھونڈ ج کر ہر‬ ‫طرف نقش قد دلدار آفت‬ ‫ک ب بہر طور تقدس م رہ ہے ۔ اگر دل م نی مراد لیئے ہیں‬ ‫تو یہ ں محبتیں پروان چڑھتی ہیں ۔پروفیسر محمد اشرف کہتے‬ ‫‪:‬ہیں‬ ‫ک ب کو پہ ی ب ر فرشتوں‪ ،‬دوسری مرتب حضرت آد ‪’’ ،‬‬ ‫تیسری مرتب حضرت شیت جبک چوتھی مرتب حضرت ابراہی‬‫نے ت میر کی ۔ ابراہیمی ت میر کی شکل ی تھی زمین سے نو ہ تھ‬ ‫ب ند ‪ ،‬دروازہ بغیر کواڑ کے ‪ ،‬سطح زمین کے برابر دیواریں ‪،‬‬ ‫چھت نہیں ڈالی گئی تھی ۔ حضرت ابراہی کے ب د بنو جرہ نے‬ ‫ت میر ک نقش وہی رہنے دی ۔ اس کے ب د قبی عم لی نے بن ی‬ ‫اور تبدی ی ن کی ۔ حضورﷺ کی پیدائش سے دو سو س ل‬‫پہ ے قص ٰی بن کلا نے ت میر کی ۔ چھت پ ٹ دی اور عرض میں‬‫کچھ حص ک کردی ۔ ب د میں قریش نے اٹھ رہ ہ تھ ب ند کردی اور‬ ‫بھی تبدی ی ں کیں پھر عبداللہ ابن زبیر نے اس کے ب د حج ج بن‬ ‫)یوسف نے ت میر کی ‘‘(‬

‫‪156‬‬ ‫ک ب کی ت میر کی کہ نی کے مط ل کے ب د واضح ہوج ت ہے‬ ‫ک انس ن ک ب سے کس قدر مت رہ ہے اوراس کے م م‬‫میں کس قدر حس س رہ ہے۔ اچھی خ صی آمدنی ک ذری بھی بن‬ ‫رہ ہے۔ اس سے انس ن کے تہذیبی اور سم جی حوالے بھی‬ ‫منس ک رہے ہیں ۔‬ ‫‪:‬ک یس‬ ‫ک س سے ترکی پ ی ہے۔‬ ‫یون نی اس مذکر ‪ ،‬قو نص ر ٰی ک مب د ‪ ،‬گرج ‪ ،‬بت خ ن ء‬ ‫ک ر( ) دنی کی تم تہذیبوں میں ک یس ک اپن کردار رہ ہے۔‬ ‫چرچ کے پ س سی سی ب لادستی بھی رہی ہے۔ ہندو اور مس‬ ‫راجوں میں پنڈتوں اور مولویوں ک سک چلا ہے۔پنڈت اور‬ ‫مولوی راج اور ب دش ہ کی بولی بولتے آئے ہیں۔ جبک چرچ‬ ‫آزاد اور خود مخت ر رہ ہے۔ م کی اقتدار بھی اس کے ہ تھ میں‬ ‫تھ ۔‬ ‫ی ل ظ سنتے ہی توج حضرت عیس ٰی ابن مری کی طرف چ ی‬ ‫ج تی ہے۔ ک نوں میں گرجے کی گھنٹی ں بجنے لگتی ہیں ۔ غ ل‬ ‫کے ہ ں ک یس کے سی سی کردار کے حوال سے گ تگو کی گئی‬ ‫‪:‬ہے‬ ‫ایم ں مجھے روکے ہے جو کھینچے مجھے ک ر ک ب مرے ے‬ ‫پیچھے ہے ‪ ،‬ک یس مرے آگے‬

‫‪157‬‬ ‫شکی جلالی کے ہ ں بھی بطور سکول آف تھ ٹ است م ل میں‬ ‫آی ہے۔‬ ‫جنت فکر بلاتی ہے چ و دیر و ک ب سے ک یس ؤں سے دور‬ ‫( ) شکی‬ ‫)کنشت‪:‬ف رسی اس مذکر ‪ ،‬آتشکدہ ‪ ،‬یہودیوں ک مب د(‪۷‬‬ ‫‪:‬غ ل کے ہ ں اس ل ظ ک است م ل ملاحظ ہو‬ ‫ک بے میں ج رہ ہوں ‪ ،‬تو ن دو ط ن ‪ ،‬کی کہیں بھو لا ہو ح‬ ‫)!صحبت اہل کنشت کو (؟‬ ‫بت خ ن ( ) آتشکدہ ‪ ،‬م بد آتش پرست ں و یہوداں ( )‬ ‫غ ل نے آتشکدہ ( عش دی ر محبو ) ہی مراد لی ہے( )‬ ‫عش ک انس نی تہذیبوں میں بڑا مضبوط کردار رہ ہے۔ عش‬‫آگ ہی ک دوسرا ن ہے۔ خواج درد کے ہ ں اس ل ظ ک است م ل‬ ‫‪:‬دیکھیئے‬ ‫شیخ ک بے ہوکے پہنچ ‪ ،‬ہ کنشت دل میں ہو درد منزل ایک‬ ‫)تھی ٹک راہ ہی ک پھیر تھ ( ) (درد‬ ‫‪:‬دیر‬‫ی ل ظ بھی عب دت گ ہ سے مت ہے۔ ف رسی اس مذکر ہے۔ بت‬ ‫کدہ ‪ ،‬بت خ ن ‪ ،‬کن یت دنی ( ) ک فروں کی عب دت گ ہ‬ ‫( )م نوں میں است م ل ہوت ہے۔ بتکدہ انس نی تہذیبوں میں‬

‫‪158‬‬ ‫اہ کردار ک ح مل رہ ہے۔ غ ل کے ہ ں عب دت گ ہ کے م نوں‬ ‫‪ :‬میں است م ل ہوا ہے‬ ‫دیر نہیں ‪ ،‬حر نہیں ‪ ،‬درنہیں ‪ ،‬آست ں نہیں بیٹھے ہیں رہ گذر پ‬ ‫ہ ‪،‬غیر ہمیں اٹھ ئے کیوں‬ ‫‪:‬خواج درد کے ہ ں بھی بطور عب دت گ ہ است م ل میں آی ہے‬ ‫مدرس ی ویر تھ ی ک ب ی بت خ ن تھ ہ سبھی مہم ں تھے‬ ‫‪،‬واں تو ہی ص ح خ ن تھ ) درد‬ ‫مسجد ‪ :‬ی ل ظ مس م نوں کی عب دت گ ہ کے لئے است م ل مین ت‬ ‫ہے بم نی سجدہ کرنے کی جگ ‪ ،‬نم ز پڑ ھنے کی جگ ‪،‬‬ ‫‪:‬مس م نوں ک عب دت خ ن ( ) پیش نی( ) مسجد‬‫مس م نوں کی عب دت گ ہ کے علاوہ مق اجتم ع( اسمب ی ہ ل ) *‬ ‫رہی ہے‬ ‫مش ورت کے طور پر است م ل ہوتی رہی ہے *‬ ‫درس و تدریس ک ک بھی یہ ں ہوت آی ہے *‬ ‫مہم ن گ ہ کے طور پر بھی است م ل ہوت رہ ہے *‬ ‫ص ح ص ئی کے لئے اس کی حیثیت م تبر اور محتر رہی *‬ ‫ہے‬ ‫مح وظ پن ہ گ ہ رہی ہے *‬

‫‪159‬‬ ‫غرض بہت سے تہذیبی ‪ ،‬سم جی اور عمرانی امور مسجد سے‬‫نتھی رہے ہیں ۔ ی ل ظ وق ر‪ ،‬عظمت ‪،‬رہنم ئی ‪ ،‬آگہی وغیرہ کے‬ ‫احس س ت لے کر ذہن کے کواڑوں پر دستک دیت ہے۔‬ ‫‪:‬غ ل کے ہ ں کم ل عمدگی سے اس ل ظ ک است م ل ہوا ہے‬ ‫ج میکدہ چھوٹ ‪ ،‬تو پھر ا کی جگ کی قید مسجد ہو‪ ،‬مدرس‬ ‫ہو‪،‬کوئی خ نق ہ ہو‬ ‫‪ :‬ایک اور ش ر دیکھئے‬ ‫مسجد کے زیر س ی خراب ت چ ہیے بھوں پ س آنکھ قب ء‬ ‫ح ج ت چ ہیئے‬ ‫‪:‬میر ص ح نے بطور عب دت گ ہ است م ل کی ہے‬ ‫شیخ جو ہے مسجد میں ننگ ‪ ،‬رات کو تھ میخ نے میں‬ ‫جب ‪ ،‬خرق ‪ ،‬کرت ‪ ،‬ٹوپی مستی میں ان کی (‪ ) ۷‬میر‬ ‫‪:‬ق ئ کے ہ ں کچھ یوں نظ ہوا ہے‬‫مسجد میں خدا کو کبھی بھی کیجئے سجدہ محرا ن ہو خ ‪ ،‬جو‬ ‫برائے سجدہ ( ) ق ئ‬ ‫‪:‬گھر‬ ‫گھر ہندی اس مذکر ‪ ،‬مک ن ‪ ،‬خ ن ‪ ،‬رہنے کی جگ ‪ ،‬ٹھک ن ‪،‬‬

‫‪160‬‬ ‫خول ‪ ،‬بھٹ ‪ ،‬کھوہ ‪ ،‬بل ‪ ،‬گھونس ‪ ،‬آشی ن ‪ ،‬وطن ‪،‬‬ ‫)دیس ‪ ،‬ج ئے پیدائش‪ ،‬خ ندان ‪ ،‬گھر ان (‬ ‫گھر روز اول سے شخص کی سم جی و م شرتی ضرورت اور‬ ‫حوال رہ ہے۔ آج کھدائی کے دوران م نے والی عم رات اپنے‬ ‫عہد کے فنی و فکری حوالوں اور شخصی ضرورتوں کو اج گر‬ ‫کرتی ہیں ۔ ان عم رتوں ک ت میری میٹریل ک بھی تجزی کی ج ت‬ ‫ہے۔ گھر سے مت ان عم رات کے حوال سے سم ج میں‬ ‫موجود نظ ہ ئے حی ت زیر غور آتے ہیں ۔ بن وٹ کے نقش و‬ ‫س یق کے توسط سے فرد ک سوچ احس س ت ‪ ،‬سم جی م ی رات‬‫اور ان کے تض دات ک اندازہ لگ ی ج ت ہے۔ ی بھی ک وہ کن کن‬ ‫الجھنوں ک شک ر رہ ۔ کن م ملات میں دوسروں پر انحص ر کرت‬ ‫رہ ہے۔ گھر انس ن کی ہمیش سے ن سی تی کمزوری رہ ہے۔‬ ‫گھر کے مت مخت ف نوع کے سپنے بنت رہ ہے۔ مثلاا‬ ‫اس ک اپن ایک گھر ہو ۔ اس میں کسی دوسرے کی مداخ ت‬ ‫ن ہو‬ ‫وہ کھلا ‪ ،‬کش دہ اور آرا دہ ہو‬ ‫ہر طرح سے مح وظ ہو‬ ‫گردوپیش میں ہ خی ل لوگوں ک بسیرا ہو‬ ‫زندگی سے مت ضرورتیں اس گھر میں میسر ہوں‬

‫‪161‬‬ ‫علاق میں ت ریحی مق م ت موجود ہوں‬ ‫ہری لی اور پ نی کی کمی ن ہو ‪۷‬‬ ‫سکول ہسپت ل وغیرہ قری ہوں‬ ‫جس کے پ س پہ ے گھر موجود ہوں وہ خواہش کرت ہے ک وہ‬ ‫گھر ‪:‬۔‬ ‫ہر حوال سے ان رادیت ک ح مل ہو‬ ‫کسی آس ئش کی کمی ن ہو‬ ‫مزید بہتری کے لئے کی کی تبدی ی ں کی ج ئیں‬ ‫موسمی تغیرات سے کیونکر بچ ی ج ئے‬ ‫گھر ہمیش سے عزت ‪،‬تح ظ اور وق ر کی علامت رہ ہے۔ی‬ ‫درحقیقت خ ندانی ایکت ک ذری ہوت ہے۔ اس کے حصول اور‬‫ح ظت لے لئے خون بہ ئے ج نے سے بھی دریغ نہیں کی ج ت ۔‬ ‫گھر ایک شخص ‪ ،‬ایک کنبے ‪ ،‬اور ایک قو ک ہوسکت ہے۔‬ ‫غ ل کے ہ ں اس ل ظ ک مخت ف حوالوں سے است م ل ہواہے۔‬ ‫وہ جگ جہ ں پڑاؤ کرلی ج ئے اسے گھر کہ ج ئے گ ی نی‬ ‫‪ :‬ٹھک ن‬‫ج گھر بن لی ترے در پر کہے بغیر ج ئے گ ا بھی تو ن مرا‬ ‫گھر کہے بغیر‬

‫‪162‬‬ ‫کنبے اور خ ندان کے افراد کی قی گ ہ‬ ‫ت م ہ ش چ ر دہ تھے مرے گھرکے پھر کیوں ن رہ گھر ک‬ ‫وہ نقش کوئی دن اور‬ ‫ایک دوسرے ش ر میں مک ن ( ) ج ئے رہ ئش( ) کے‬ ‫م نوں میں است م ل کرتے ہیں‬ ‫چھوڑان رشک نے ک ترے گھر ک ن لوں ہراک سے پوچھت‬ ‫ہوں ک ج ؤں کدھر کو میں‬ ‫‪ :‬ا قدم کے ہ ں اس ل ظ ک است م ل ملاحظ ہو‬ ‫بولے دونوں بھ ئی اے ب ب کہ ں؟ ہم ری ن م ں ہے گی گھر‬ ‫کے مہ ں ( ) اسم عیل مروہوی‬ ‫)مک ن ‪،‬گھر کے (اند ر ‪ ،‬میں ‪ ،‬بیچ‬ ‫کیتے دن کو سوداگر آاپنے گھر پوچھ اپنی عورت سوں تکرار‬ ‫کر ( )فقیر دکنی‬ ‫اق مت گ ہ ‪ ،‬گھر آن ‪ ،‬واپسی‬ ‫عہد غ ل میں بھی قری ان ہی م نوں میں است م ل ہوت رہ ۔‬ ‫مثلاا‬ ‫غ کہت ہے دل میں رہوں میں ‪ ،‬ج وۂ ج ن ں کہت ہے‬ ‫کس کو نک لوں کس کو رکھوں‪ ،‬ی جھگڑے گھر کے ہیں‬

‫‪163‬‬ ‫( ) ذو‬ ‫گھر ک جھگڑا ‪ :‬ذاتی ‪ ،‬نجی‪ ،‬اندرون خ ن ‪ ،‬پرائیویٹ‬ ‫‪ :‬میخ ن‬ ‫ف رسی اس مذکر ‪ ،‬شرا پینے اور شرا بکنے کی جگ‬ ‫۔( )شرا اور شرا خ ن ہونے ک انس نی ثق فت ک حص‬ ‫رہے ہیں ۔ انس ن کی اس سے وابستگی ک اندازہ لگ ی‬‫ج سکت ہے ک قرآن مجید میں جنت میں اس کے عط ہونے ک ب ر‬ ‫ب ر وعدہ کی گی ہے۔ اہل عرف ن نے مے اور میکدہ کے قط ی‬ ‫الگ م نی لیے ہیں ۔ ’’مے‘‘ وہ ذو جس کی وس طت سے‬ ‫س لک پر مق حقیقی ظ ہر ہوت ہے۔ میخ ن سے مراد ق و‬ ‫اصلان ہیں ( ) میخ ن ع رف ک مل ک ب طن ‪ ،‬لاہوت ‪ ،‬ع ل‬ ‫)محویت(‪۷‬‬ ‫‪ :‬خواج ء شیراز فرم تے ہیں‬ ‫صبحد بکش د خم ری درمیخ ن را ق قل آواز صراحی ج ن دہد‬ ‫مست ن را‬ ‫صبحد حضور رسولﷺنے شرا محبت الہی ک مشغ ’’‬ ‫شروع کردی ۔ع شق ن ا ٰلہی نے اس ذکر ص ت ب ری ت ل ٰی سے‬ ‫‘‘ج ن ڈال دی‬

‫‪164‬‬ ‫عیش کوشوں کے لئے شرا عیش ک ذری ہے۔ اس طرح وہ‬ ‫ب ض اپنی ن سی تی کمزوریوں ک مداوا کرتے ہیں۔ م یوس لوگ‬ ‫غ غ ط کرتے ہیں ۔ غ ل کے ہ ں ’’میخ ن ‘‘ کچھ ک حیثیت ک‬ ‫‪ :‬نہیں‬ ‫علاوہ عید کے م تی ہے اور دن بھی شرا گدائے کوچ ء‬ ‫میخ ن ن مراد نہیں‬ ‫‪ :‬میخ نے ک مترادف میکدہ بھی است م ل میں لائے ہیں‬ ‫ج میکدہ چھٹ ‪ ،‬تو پھر ا کی جگ کی قید مسجد ہو‪ ،‬مدرس‬ ‫ہو‪ ،‬خ نق ہ ہو‬ ‫ان اللہ یقین کے ہ ں اس ل ظ کی ک رفرم ئی دیکھئے‬ ‫نہیں م و ا کے س ل میخ نے پ کی گذرا‬ ‫ہم رے توب کے کرنے سے پیم نے پ کی گذرا ( ) یقین‬ ‫غ ل کے ہ ں شہروں اور م کوں کے حوال سے بھی گ تگو‬ ‫م تی ہے۔ ان میں سے ہر شہر تہذیبی ثق فتی اور فکری پس‬ ‫منظر ک ح مل ہے۔ کوئی ن کوئی ت ریخی واق اس سے ضرور‬ ‫منسو ہوت ہے۔ غ ل ان کی ان حیثیتوں سے اپنے اش ر میں‬ ‫ف ئدہ اٹھ تے ہیں۔‬ ‫‪:‬دلی‬

‫‪165‬‬ ‫ء سے دارالحکومت چلا آرہ ہے ۔ ع می ‪ ،‬ادبی ‪،‬‬ ‫ی‬‫عسکری ‪ ،‬فکری اور سم جی روائتوں ک منبع و امین رہ ہے ۔‬ ‫بہت سی ی دگ ر عم رتیں اس کی ثق فتی پہچ ن ہیں ۔ غ ل اس‬‫کے مح ب ی م راں اق مت رکھتے تھے ۔ آگرہ سے آئے پھر دلی‬ ‫نے انہیں واپس ج نے ن دی ۔ دلی سے اپنے ق بی ت اور‬‫انگریز کے ہ تھوں اس کی برب دی ک ذکر اپنے خطوط میں کرتے‬ ‫‪:‬ہیں ۔ ان ک ی ش ر بھی کر سے بریز ہے‬ ‫ہے ا اس م مورہ میں قحط غ ال ت اسد ہ نے م ن ک دلی‬ ‫میں رہیں ‪ ،‬کھ ئیں گے کی‬ ‫‪ :‬کن ن‬ ‫حضرت نوح کے ن فرم ن بیٹے ک ن ( )کن ن حضرت‬ ‫یوسف کے حسن ‪ ،‬فرا پدر ‪ ،‬بھ ئیوں کی دغ ب زی ‪ ،‬حضرت‬ ‫ی قو کے دور میں پڑنے والے قحط کی وج سے شہرت ع‬ ‫رکھت ہے ۔ غ ل کے ہ ں بھی یہی حوال م ت ہے ۔ پیش‬‫نظرش ر میں یوسف زلیخ کے حوال سے ایک روی بھی اج گر‬ ‫‪:‬کی گی ہے‬ ‫س رقیبوں سے ہوں ن خوش پر زن ن مصر سے ہے زلیخ‬ ‫خوش ک محو م ہ کن ں ہوگئیں‬‫اردو ش عری میں بطور ت میح اس ک است م ل ہوت آی ہے ۔ مثلاا‬

‫‪166‬‬ ‫صب میں بوی تھی کس کی ک سوئے مصر حسر ت کے‬‫روان ق ف ے کے ق ف ے ہیں شہرکن ں سے ( ) ( مرزا ح جی‬ ‫) شہرت‬ ‫پستی چ ہ ترے ح ہ و حش کی ہے دلیل تیرا انج بخیر اے م‬ ‫کن ن ہوگ ( ) نوا مہدی ع ی خ ں حسن‬ ‫چ ہ بے ج ن تھی زلیخ کی م ہ کن ں عزیز کوئی تھ ( )‬ ‫میر‬ ‫‪:‬مصر‬ ‫عر مم لک ک س سے بڑا م ک‪ ،‬آب دی فیصد مس م ن ‪،‬‬ ‫میں ب لائی وزیریں‬ ‫عربی م ک کی سرک ری زب ن ۔‬‫م ک کو متحد کر کے حکومت ق ئ کی گئی۔ ب دش ہوں کے اہرا ‪،‬‬‫کے درمی نی حص میں ت میر ہوئے ۔‬ ‫اور‬‫ف سسی کے قبض میں تھ ۔ اس کے ب د یون نیوں اور‬ ‫رومیوں کی حکومت رہی ۔ ء میں حضرت عمر ( خ ی‬ ‫ث نی) کے عہد میں س طنت اسلامی ک حص بن ( ) حسن‬ ‫یوسف ‪،‬عش زلیخ ‪ ،‬حضرت موسی اور فرعون مصر کے‬ ‫حوال سے م روف ہے۔‬ ‫غ ل نے اس ک زلیخ کے حوالے سے ذکر کی ہے ۔ ک شرف‬‫کی عورتیں خوبصورت مرد رکھتی تھیں اور اس پر اتراتی تھیں‬

‫‪167‬‬ ‫س رقیبوں سے ہوں ن خوش ‪ ،‬پر زن ن مصرسے ہے زلیخ‬ ‫خوش ک محو م ہ کن ں ہوگئیں‬ ‫اردو ش عری میں مصر ک مخت ف حوالوں سے ذکر آی ہے‬ ‫مثلاامیر ص ح نے حضرت یوسف کے حوال سے نظ کی ہے‬ ‫‪:‬‬ ‫ف ئدہ مصر میں یوسف رہے زنداں کے بیچ بھیج دے کیوں ن‬ ‫زلیخ اسے کن ں کے بیچ ( ) میر‬ ‫ق ئ چ ند پوری کے ہ ں بھی حضرت یوسف کے حوال سے نظ‬ ‫‪ :‬ہو اہے‬ ‫س خراج مصر دے کر تھ زلیخ کو ی سوچ‬ ‫مول یوسف سے پسر ک ‪ ،‬ک رواں نے کی کہ ؟( ) ق ئ‬ ‫‪:‬ہندوست ن‬ ‫ہند استھ ن ی ہند سنت ن‬ ‫ہند حضرت نوح ع کے پوتے تھے ی نی ہند بن ح بن نوح‬ ‫برصغیر پ ک و ہند تہذیبی ادبی ‪ ،‬جغرافی ئی ‪ ،‬سی سی و ثق فتی‬ ‫لح ظ سے دنی ک حس س ترین خط ء ارض رہ ہے۔ جنگوں ‪،‬‬ ‫جنگوں میں غداری‪ ،‬دیوم لائی قصوں کہ نیوں کے حوال سے‬ ‫پوری دین میں شہرت رکھت ہے ۔ ا تین ( بھ رت‪ ،‬پ کست ن ‪،‬‬

‫‪168‬‬‫بنگ دیش ) حصوں میں منقس ہے ۔غ ل کے ہ ں ’’ ہندوست ن‬ ‫‪ ‘‘ :‬ک است م ل ملاحظ ہو‬ ‫بیٹھ ہے جو ک س ی ء دیواری ر میں فرم ں روائے کشور‬ ‫ہندوست ن ہے‬

‫‪169‬‬ ‫حواشی‬‫۔ لغ ت نظ می ن ظر حسین زیدی‪،‬ص ۔ فیروز ال غ ت‪ ،‬مولوی‬ ‫فیروزالدین‪ ،‬ص‬ ‫۔ فرہنگ آص ی ‪ ،‬مولوی س ید احمد ‪،‬ج ‪ ،‬ص ۔ آئین‬ ‫اردولغت ع ی حسن چوہ ن وغیرہ ‪،‬ص‬ ‫۔ ج مع انس ئیک وپیڈی ‪ ،‬ح مد ع ی خ ن (مدیر اع ٰی)‬ ‫‪،‬ج ‪،‬ص‬‫۔ سمندر وہ ں پیدا ہو گ جہ ں آگ کبھی ٹھنڈی ن ہوتی ہو اور‬ ‫ی آتش پرستوں کے ہ ں ہی ممکن ہے۔ غ ل نے ب لکل نی‬ ‫مضمون نک لاہے اور سمندرک بڑاعمدہ است م ل کی ہے ۔‬ ‫‪۷‬۔ ک ی ت سوداج اے مراز محمد رفیع سودا‪،‬ص‬ ‫۔ تذکرہ خوش م رک زیب ۔س دت خ ں ن صر ‪ ،‬مرتب مش‬ ‫خواج ج ‪،‬ص‬ ‫۔ فیروز ال غ ت ‪،‬‬ ‫۔ فرہنگ ع مرہ ‪ ،‬عبداللہ خویشگی‪ ،‬ص‬ ‫مولوی فیروزالدین ‪،‬ص‬ ‫۔ تذکرہ‬ ‫۔ آئین اردو لغت ‪ ،‬ع ی حسن چوہ ن‪ ،‬ص‬ ‫خوش م رک زیب ج س دت خ ں ن صر‪ ،‬ص‪۷‬‬ ‫۔ ک ی ت میر ج ‪ ،‬مرت ک ع ی خ ں ف ئ ‪،‬ص ۔‬

‫‪170‬‬ ‫فرہنگ ع مرہ ‪،‬ص‬‫۔ ن رت اور سستے پن کے لئے‬ ‫۔ فیروزال غ ت‪ ،‬ص‬ ‫ل ظ’’ ب زاری ‘‘بولنے میں آت ہے‬ ‫۔ دیوان شی ت ‪ ،‬نوا مصط ی‬ ‫‪ ۷‬۔ ک ی ت ق ئ ج ا‪ ،‬ص‬ ‫خ ں شی ت ‪،‬ص‬ ‫۔ دیوان میر مہدی مجروح‪ ،‬میر مہدی مجروح‪ ،‬ص‪ ۷۷‬۔‬ ‫فیروزال غ ت ‪ ،‬ص‬ ‫۔ نوائے سروش‪ ،‬ص‬ ‫۔ فرہنگ آص ی ج ا‪ ،‬ص‬‫۔ (میر محمد تقی الم روف ب میر گھ سی )تذکرہ مخزن نک ت‬ ‫‪ ،‬ق ئ چ ند پوری‪،‬ص‪۷‬‬ ‫۔کیتقئ ج ‪،‬‬ ‫۔ دیوان درد‪ ،‬خواج درد‪ ،‬ص‬ ‫ص‬‫۔ فرہنگ ف رسی ‪،‬مولف ڈاکٹر عبدالطیف ‪،‬ص ‪ ۷ ۷۷‬۔ دیوان‬ ‫درد‪،‬ص‬‫۔ بی ن غ ل ‪ ،‬آغ ب قر‬ ‫۔ تذکرہ گ ست ن سخن ج ‪،‬ص‪۷‬‬ ‫ص‪۷‬‬ ‫۔ نوائے سروش‪ ،‬غلا رسول مہر‪،‬ص ‪ ۷‬۔ نوائے‬ ‫سروش‪ ،‬ص‬

‫‪171‬‬ ‫۔ نوائے سروش‪ ،‬ص ‪۷‬‬ ‫۔ بی ن غ ل ‪ ،‬ص‬ ‫۔ فرہنگ ف رسی‪،‬ص ‪ ۷۷‬۔ ک ی ت میر ج ‪ ،‬ص‬ ‫۔ ک ی ت ق ئ ج ‪ ،‬ص ‪ ۷‬۔ ش ہ ع ل ث نی آفت احوال و‬ ‫ادبی خدم ت ‪،‬محمد خ ور جمیل‪ ،‬ص‬ ‫۔ روح المط ل فی شرح دیوان غ ل ‪،‬ش داں ب گرامی‪ ،‬ص‬ ‫بی ن غ ل ‪ ،‬ص‬ ‫۔ نوائے سروش‪ ،‬ص‬ ‫دیوان م لق م ئی چندا‪،‬‬ ‫۔ فرہنگ ف رسی ‪،‬ص‬ ‫ص‬ ‫۔ ش ہ ع ل ث نی آفت ‪ ،‬احوال و ادبی خدم ت ‪،‬ص‬ ‫۔ دیوان میر مہدی‬ ‫۔ نوائے سروش ‪،‬ص ‪،‬‬ ‫مجروح‪ ،‬ص‬ ‫‪ ۷‬۔ بی ن غ ل ‪،‬‬ ‫۔ افک ر غ ل ‪ ،‬خ ی عبدالحکی ‪،‬ص‬ ‫ص‬ ‫۔ نوائے سروش‪ ،‬ص ‪ ۷‬۔ لغ ت نظ می‪ ،‬ص‬ ‫۔ فیروزال غ ت‪ ،‬ص ‪۷‬‬ ‫۔ مزید ت صیلات کے لئے دیکھیے اردو ج مع انس ئیک وپیڈی‬ ‫ج ‪،‬ح مد ع ی خ ں (مدیر اع ٰی)‪ ،‬ص‬

‫‪172‬‬ ‫۔ وہ ئٹ ہ ؤس‬ ‫۔ ن سی ت ‪ ،‬حمیر ہ شمی‪،‬ص‪۷‬‬ ‫۔ روح نی پیشواؤں کی درگ ہیں ۔ زمینی فرعون‬‫۔ تذکرہ بہ رست ن ن ز‪ ،‬ص ‪ ۷‬۔ ک ی ت سودا ‪ ،‬ج ا ‪ ،‬ص‬ ‫۔ تذکرہ خوش‬ ‫۔ تذکرہ خوش م رک زیب ج ا‪ ،‬ص‬ ‫م رک زیب ج ا‪،‬ص‬ ‫۔ تذکرہ خوش م رک زیب ج ا‪،‬‬ ‫۔ ک ی ت میرج ‪،‬ص‬ ‫ص‬ ‫۔ ک ی ت میر ج ا‪،‬ص‬ ‫۔ فیروز ال غ ت‪ ،‬ص‬‫۔ نورال غ ت ج ا ‪ ،‬نوالحسن‬ ‫۔ روشنی اے روشنی‪ ،‬ص‬ ‫ہ شمی ‪ ،‬ص‬ ‫۔ ک ی ت ق ئ ج ا‪ ،‬ص‪ ۷ ۷‬۔ دیوان زادہ ‪،‬شیخ ظہور الدین‬ ‫حت ‪،‬ص‬ ‫۔ فیروزال غ ت ‪،‬ص‬ ‫۔ نورال غ ت ج ا‪ ،‬ص‬ ‫‪۷‬۔ نوائے سروش‪ ،‬ص ‪۷‬۔ دیوان شی ت ‪ ،‬ص‬ ‫‪۷‬۔ دیوان زادہ‪ ،‬ص‪۷ ۷‬۔ پشت پ گھربیدل حیدری ‪ ،‬ص‬ ‫‪۷‬۔ دیوان زادہ ‪ ،‬ص‪۷‬‬ ‫‪۷‬۔ نورال غ ت ج ا‪ ،‬ص‬

‫‪173‬‬‫‪۷‬۔ دیوان م لق ب ئی چندا‪ ،‬ص ‪۷۷‬۔ ب غ ت سے مراد ایس‬ ‫خط جس میں پھولدار درخت ہوں ‪۷‬۔ ‪۷ :‬۔ ‪:‬‬ ‫۔ ‪ ۷:‬۔ ‪:‬‬ ‫۔ ‪ :‬۔‪:‬‬ ‫۔ ‪۷:‬‬ ‫۔‪:‬‬ ‫۔ ‪۷ :‬۔ ‪: ، : ، :‬‬ ‫۔ ن سی ت ‪،‬ص ‪۷‬‬ ‫۔‪:‬‬ ‫۔ روح المط ل فی شرح دیوان‬ ‫۔ بی ن غ ل ‪،‬ص‬ ‫غل ‪،‬ص‬ ‫۔ نوائے سروش‪،‬ص ‪ ۷‬۔ فیروزال غ ت ‪،‬ص‪۷‬‬ ‫۔ نوائے سروش‪ ،‬ص‬ ‫۔ بی ن غ ل ‪ ،‬ص‬ ‫۔ فرہنگ آص ی ج ا‪ ،‬ص ‪ ۷‬۔ بی ن غ ل ‪ ،‬ص‬ ‫۔ روح المط ل فی شرح دیوان‬ ‫۔ نوائے سروش‪ ،‬ص‬ ‫غل ‪،‬ص‬ ‫۔ لغ ت نظ می‪ ،‬ص‬ ‫۔ قرآن مجید ‪ ،‬ش رح عبدالق در محدث دہ وی ‪ ،‬ت ج کمپنی‬ ‫۔ قرآن مجید ‪ ،‬ش رح مولان سید‬ ‫لاہور ‪ ،‬س ن‪ ،‬ص‬

‫‪174‬‬ ‫فرم ن ع ی ‪ ،‬شیخ ع ی اینڈ سنز ‪ ،‬کراچی ‪،‬ص‬ ‫۔ قرآن مجید ‪ ،‬ش رح احمد رض خ ں بری وی ‪ ،‬ت ج کمپنی‬ ‫لمیٹڈ ‪ ،‬ص‬‫۔ قرآن مجید ‪ ،‬ش رح عبدال زیز ‪ ،‬م ک دین محمد اینڈ سنز ‪،‬‬ ‫لاہور ‪، ،‬ص‬ ‫۔ قرآن مجید ‪ ،‬ش ہ ولی اللہ دہ وی ‪ ،‬مک ‪ ،‬ھ ‪،‬‬ ‫ص‬ ‫۔ فیروز ال غ ت‪ ،‬ص ‪ ۷‬۔ نوائے سروش‪ ،‬ص‬ ‫۔ بی ن غ ل ‪ ،‬ص‬‫۔ جوتے کی پشت پر بنے نقوش چ تے میں زمیں پر ثبت ہو‬ ‫ج تے ہیں ۔ غ ل نے ان نقوش کو خی ب ن ار ک ن دی ہے ۔‬‫۔ روح المط ل فی شرح دیوان غ ل ‪،‬ص‪ ۷‬۔ اردو‬ ‫کی دو قدی مثنوی ں مولف اسم عیل امرہوی ‪،‬ص‬ ‫۔ اردو کی دو قدی‬ ‫۔ دیوان م لق ب ئی چندا‪ ،‬ص‬ ‫مثنوی ں‪ ،‬ص‬ ‫۔ دیوان میر مہدی مجروح‬ ‫۔ دیوان شی ت ‪ ،‬ص‬ ‫‪،‬ص‬ ‫۔ ک ی ت میرج‪،‬مرتب ک ع ی خ ں ف ئ ج ‪،‬ص‬

‫‪175‬‬ ‫‪ ۷‬۔ ش ہ ع ل ث نی آفت ‪ ،‬احوال و ادبی خدم ت‪ ،‬ص‬ ‫۔ فیروزال غ ت ‪،‬ص‬ ‫ٍ ۔ ک ی ت ق ئ ج ا‪ ،‬ص‬ ‫۔ ک ی ت میر ج ا‪،‬‬ ‫۔ نوائے سروش‪ ،‬ص ‪،‬‬ ‫ص‬ ‫۔ مثنوی مولان رو ج ‪ ،‬ص‬ ‫۔ آتش ک پیر ‪ ،‬کن ی مرشد ک مل عبداللہ عسکری ‪ ،‬شرح‬ ‫دیوان ح فظ ج ا‪ ،‬ص‬ ‫۔ مثنوی مولان رو‬ ‫۔ شرح دیوان ح فظ ج ا‪ ،‬ص‬ ‫دفتر دو ‪ ،‬مترج ق ضی سج د حسین‬ ‫۔ مثنوی مولان رو ج ‪،‬ص ‪ ۷‬۔ روح المط ل فی‬ ‫شرح دیوان غ ل ‪،‬ص‬ ‫۔ نوائے سروش‪،‬ص‬ ‫۔ بی ن غ ل ‪،‬ص‬ ‫۔ فیروز ال غ ت‪ ،‬ص‬ ‫۔ فرہنگ ع مرہ ‪،‬ص‬ ‫۔ بی ن غ ل ‪،‬ص‬ ‫۔ نوائے سروش ‪،‬ص‬ ‫۔ لغ ت نظ می ‪،‬ص‬ ‫۔ نوائے سروش‪،‬ص‪۷‬‬‫۔ روح المط ل فی شرح دیوان‬ ‫۔ نوائے سروش‪،‬ص‬ ‫غ ل ‪،‬ص‬

‫‪176‬‬ ‫۔ روح المط ل فی شرح دیوان‬ ‫‪ ۷‬۔ بی ن غ ل ‪،‬ص‬ ‫غ ل ‪،‬ص‬ ‫۔ دیوان درد‪ ،‬ص‬ ‫۔ ک ی ت ق ئ ‪،‬ج ا ص‬ ‫۔ لغ ت نظ می‪ ،‬ص‬ ‫۔ لغ ت نظ می‪،‬ص ‪۷‬‬‫۔ تذکرہ گ ست ن سخن‬ ‫۔ دیوان م ہ لق ب ئی چندا‪ ،‬ص‬ ‫ج ا‪ ،‬ص‬ ‫۔ تذکرہ‬ ‫۔ تذکرہ خوش م رک زیب ج ‪ ،‬ص‬ ‫گ ست ن سخن ج ا‪ ،‬ص‬ ‫۔ بی ن غ ل ‪ ،‬ص‬ ‫‪ ۷‬۔ فرہنگ آص ی ج ا‪ ،‬ص‬ ‫۔ بی ن غ ل ‪ ،‬ص‬ ‫۔ نوائے سروش‪،‬ص‬ ‫۔ روح المط ل فی شرح‬ ‫۔ نوائے سروش‪،‬ص‬ ‫دیوان غ ل ‪ ،‬ص‬ ‫۔ تذکرہ‬ ‫۔ تذکرہ مخزن نک ت‪ ،‬ق ئ چ ندپوری‪ ،‬ص‬ ‫مخزن نک ت‪،‬ص‬ ‫۔ فیروزال غ ت‪،‬ص ‪۷‬‬ ‫۔ ک ی ت میر ج ا‪ ،‬ص‬ ‫‪ ۷‬۔ ’’دکھ اور رنج میں چہرا اتر ج ت ہے‘‘ ن سی ت ‪ ،‬ص‬ ‫۔ ’’غصے اور رنج کی ح لت میں انس ن بطور رد عمل‬ ‫مخت ف قس کی حرکتیں کرت ہے اور اس کی ی حرک ت ب ہ‬









































‫‪197‬‬ ‫)کر بھی خریدار ہوگی (‬ ‫آنکھوں کو ی شرف ح صل ہے ک وہ محبو کی راہ دیکھتی‬ ‫ہیں ۔ محبو کی آمد سے ‪ ،‬جس کے ہر اعض سے پہ ے آگ ہی‬ ‫پ تی ہیں ۔ہجر کی صور ت میں پورے جس کی نم ئندگی کرتی‬ ‫‪:‬ہیں ۔ میر محمود ص بر کی زب نی ملاحظ فرم ئیں‬ ‫رہیں کل رات کی ا تک جو تجھ رہ میں کھ ی اکھی ں انجھوں‬ ‫)کے جوش سوں گنگ ہو جمن بہ چ ی اکھی ں(‪۷‬‬‫جہ ں ی فرارکی راہ اختی ر کرتی ہیں وہ ں غ ط اور گنہگ ر ہونے‬ ‫‪ :‬ک ثبوت بھی بن ج تی ہیں ۔حمیدہ ب ئی نق کہتی ہیں‬ ‫وہ کی من دکھ ئیں گے محشر میں مجھ کو جو آنکھیں ابھی‬ ‫)سے چرائے ہوئے ہیں(‬ ‫کسی م م ے ی واقع ک اثر س سے پہ ے آنکھوں پر ہوت ہے۔‬ ‫‪:‬اس ضمن میں غ ل ک کہن ہے‬‫بج ی اک کوند گئی آنکھوں کے آگے تو کی ب ت کرتے ک میں‬ ‫ل تشن ء تقریر بھی تھ‬ ‫‪:‬زندگی کے خ تمے ک اعلان ‪ ،‬آنکھیں کرتی ہیں۔ کہتے ہیں‬ ‫مندگئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غ ل‬ ‫!ی ر لائے مری ب لیں پ اسے‪ ،‬پر کسی وقت؟‬

‫‪198‬‬ ‫جوبھی سہی ’’آنکھیں ‘‘ اپنی ضرورت اور اہمیت کے حوال‬ ‫سے مخت ف انداز میں توج ک ب عث بنتی ہیں۔‬ ‫‪ :‬اسیر‬ ‫ل ظ اسیر گھٹن ‪ ،‬پ بندی ‪ ،‬بے چینی اور بے بسی کے دروازے‬ ‫کھولت ہے ۔ اس کے ہر است م ل میں پ بندی اور گھٹن کے‬ ‫عن صر یکس ں طور پرم تے ہیں ۔ اردو غزل میں بھی یہی‬ ‫حوالے س منے آئے ہیں ۔ میر ص ح ’’جہ ن‘‘ کو تنگ قیدخ ن‬ ‫اور انس ن کواس قید خ نے ک اسیر قرار دیتے ہیں ۔ اس حوال‬ ‫سے انہوں نے زندگی کی گھٹن ‪ ،‬بے چینی ‪ ،‬پ بندی اور لاچ ری‬ ‫‪:‬کو واضح کی ہے اور انس ن جیتے جی ایک ہیج ن میں مبتلاہے‬ ‫) مرگی جو اسیر قیدحی ت تنگ ن ئے جہ ن سے نکلا(‬ ‫ق ئ چ ندپوری کے نزدیک عشرت ک نتیج اس م حول کی‬ ‫‪:‬اسیری کے سوا کچھ نہیں‬ ‫ی رنگ ط ئربو‪ ،‬ہ اسیر ‪ ،‬اے صی د وہ ہیں ک جن ک گ وں‬ ‫)بیچ آشی ن تھ (‬ ‫اسیری زلف گرہ گیری ہی کی کیوں ن ہو آدمی دوسرے مش غل‬ ‫سے کٹ ج ت ہے ۔ زلف کی اسیری کچھ اور سوچنے نہیں دیتی‬ ‫‪:‬۔اس ضمن میں غلا ع ی حیدر ی ک کہن ہے‬ ‫ی دلی اسیر زلف گرہ گیرہی رہ مجنوں ہم را بست زنجیر ہی‬

‫‪199‬‬ ‫)رہ (‬ ‫مرز الطیف ع ی بیگ سپند غ کی گرفت میں آنے والے کو بھی‬ ‫’’اسیر ‘‘ ہی ک ن دیتے ہیں۔ اسیری سے چ ر عن صر وابست‬ ‫ہیں ۔‬ ‫۔ پ بندی‬ ‫۔ دیگر فی ڈز کے دروازے بندہوج تے ہیں‬ ‫۔ ایک م م ے کے سوا کچھ نہیں سوجھت‬ ‫۔ بے چینی اور اضطرار کی کی یت ط ری ہوج تی ہے‬ ‫غ پر ی چ ر وں عن صر پورے اترتے ہیں۔ گوی غ بھی اسیری‬ ‫‪:‬کے مترادف چیز ہے۔ سپند ک ش ر ملاحظ ہو‬ ‫ہے اسیر غ کہ ں اور کوچ ء ق تل کہ ں ی م و نہیں دلی‬ ‫)ج کر ہوا گھ ئل کہ ں (‬ ‫اسیری بلاشب بڑی خوفن ک بلا ہے۔ ی ن صرف محدود کرتی‬ ‫ہے ب ک غلامی مس ط کر دیتی ہے۔ شخصیت کے لئے گھن بن‬ ‫ج تی ہے۔ شخصیت ک تنزل ی جمود ‪ ،‬فکری حوالوں کو کمزور‬ ‫کر دیت ہے۔ فکری م ذوری ترقی اور انس نی اقدار کی موت بن‬ ‫ج تی ہے۔ اسیری ‪،‬راہزن کے ’’ پ نوء دابنے ‘‘ پر مجبور کر‬ ‫‪:‬دیتی ہے۔ غ ل ک کہن ہے‬

‫‪200‬‬‫بھ گے تھے ہ بہت سواسی کی سزا ہے ی ہوکر اسیر دابتے ہیں‬ ‫راہزن کے پ نوء‬ ‫‪:‬انس ن‬ ‫آد کی نسل سے مت ہر آدمی کوانس ن کہ ج ت ہے ۔انس ن اور‬ ‫آدمی میں بنی دی فر ی ک آدمی ک شریف الن س ہون ‪ ،‬مرتب ء‬ ‫کم ل انس نیت پر پہنچ ت ہے اور اسی حوال سے وہ ’’انس ن‬ ‫‘‘کہلانے ک مستح ٹھہرت ہے ۔ انس ن ‪ ،‬نسی ن ی انس سے‬ ‫مشت ہے جبک ی دونوں م دے اس کے خمیر میں پ ئے ج تے‬‫ہیں۔ ج وہ انس ک نمون بن کرس منے آت ہے توا سے انس ن کے‬ ‫ن سے پک ر اج ت ہے۔ بصور ت دیگر اسے آدمی کہن ہی من س‬ ‫ہوت ہے۔ انس ن کے مرتبے پر ف ئز ہون بلا شب بڑاکٹھن گزار‬ ‫ہوت ہے۔ اردو غزل کے ش را کے ہ ں ل ظ ’’انس ن ‘‘ بکثرت اور‬ ‫‪:‬بہت سے حوالوں کے س تھ است م ل میں آی ہے‬‫می ں محمدی م ئل نے ’’انس ن‘‘ کے ف نی ہونے کے حوال سے‬ ‫کہ ہے ک انس ن کی زندگی کی م ی دہی کہ ہے ۔ د آی آی ن آی ن‬ ‫‪:‬آی‬ ‫کچھ ت ج نہیں گر مرگی م ئل تیر ا ب ر کی لگت ہے انس ن کے‬ ‫)مرج نے کو (‬ ‫‪:‬امجد کے نزدیک خدا کی ذات انس ن میں م تی ہے‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook