201 سنت تھ جسے ک ب وبت خ ن میں آخر امجد میں اسے حضرت )انس ن میں دیکھ ( خواج درد ک موقف ہے ک خدا کے س ج وے حضرت انس ن :میں ملاحظ کئے ج سکتے ہیں ج وہ توہر اک طرح ک ہرش ن میں دیکھ جوکچھ ک سن تجھ میں )سو انس ن میں دیکھ ( ایک دوسری جگ پر انس ن کے خ کرنے ک مقصددردمندی :بت تے ہیںدرددلی کے واسطے پیدا کی انس ن کو ورن ط عت کے لئے کچھ )ک ن تھے کروبی ں ( میر جگنو ارزاں کے مط ب انس ن کے وجود خ کی میں ایک :ک ئن ت پنہ ں ہے ت غوروفکر کی ضرورت ہے زمین وآسم ں اور مہر وم س تجھ میں ہیں انس ں )نظر بھر دیکھ مشت خ ک میں کی کی جھمکت ہے (۷ مصط ے ع ی خ ن یکرنگ ک کہن ہے ک اس حسین پیکر والے کو محض انس ن ہی ن سمجھ ،ی اپنی ذات میں کی ہے ،کھوج :کرنے کی ضرورت ہے اس پری پیکر کو مت انس ن بوجھ شک میں کیوں پڑت ہے اے
202 )دلی ج ن بوجھ ( ح فظ عبدالواہ سچل کے نزدیک انس ن ک ئن ت ک دلداد بننے کے لئے وجود میں آی ہے۔ انس ن حضرت ب ری ک گوی تمث لی :اظہ ر ہےبرائے خواہش ال ت ہوا اظہ ر وہ بے چوں اسی دنی میں وہ دلدار )بن انس ن آی ہے(غ ل انس ن کو کوئی فو ال طرت وجود نہیں سمجھتے ۔ ان کےنزدیک ی مخت ف ح لتوں اور کی یتوں سے دوچ ر ہوت ہے۔اس پر :گھبراہٹ بھی ط ری ہوتی ہے کیوں گردش مدا سے گھبران ج ئے دلی انس ن ہوں پی ل وس غر نہیں ہوں میں انس ن کوئی شے نہیں ب ک محسوس کرنے والی مخ و ہے۔ ح لات کی گرمی سردی اس پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ت ہ پہ ایک بھی ہوج ت ہے اور پھر ) (Adjuestسے ح لات سے خوگر ح لات کے طلاط کو م مول سمجھ کر زندگی گزار دیت ہے۔ غ ل کے نزدیک آدمی سے انس ن بننے تک ،آدمی کو نہ یت کھٹن :گزار مراحل سے گزرن پڑت ہے بسک دشوار ہے ہر ک ک آس ں ہون آدمی کو بھی میسر نہیں انس ں ہون
203 انس ن بنن دشوار سہی ،امک ن سے ب ہر نہیں ۔ اردو غزل کےش ر ا نے انس ن سے مت جو نقش پیش کی ہے وہ بڑا دلکش اور پرکشش ہے۔ آدمی کے اندر انس ن بننے کی خواہش ابھرتی ہے لیکن ج ی شدت اختی ر کرتی ہے تو اعتب ر میں اض ف ہوت چلا ج ت ہے۔ اعتب ر ج م تبر ہوج ت ہے تو انس ن اپنے خ ل سے ج م ت ہے ۔ گوی اعتب ر ،انس ن کو آدمیوں میں محتر ٹھہرات ہے۔ :اک شخص ل ظ ’’شخص‘‘ کے حوال سے کوئی روی س منے نہیں آت ۔’’ اک‘‘ ک س بق اسے عمومی سے خصوصی ک درج عط کرت ہے۔ وہ شخص کو ن ہے ،ظ ہر نہیں ہوت لیکن اس کی ک رگزاری اسے محتر اور من ر د کر دیتی ہے۔’’ اک ‘‘ سے مت سی وسب اس کے کر دار کو واضح کرتے ہیں ۔غ ل ک ’’اک شخص ‘‘ کردار ی حوال سے بڑا اہ ہے۔ اس کے نہونے سے زندگی غیر متحرک ہوج تی ہے۔ وہ تھ تو خی لات میں :جولانی تھی رعن ئی تھی تھی وہ ’’ اک شخص ‘‘ کے تصور سے ا وہ رعن ئی خی ل کہ ںاردو ش عری میں شخص کی تخصیص کے لئے مخت ف نوح کے س بقے لاحقے است م ل میں آئے ہیں۔ ان س بقوں اور لاحقوں
204 :کے حوال سے ان کے کردار کی نوعیت س منے آتی ہے س حل تم اشک ندامت سے اٹ گی دری سے ’’کوئی شخص‘‘ تو پی س پ ٹ گی ( ) شکی ی ’’کوئی شخص ‘‘ دری پر آکر بھی پی س رہ ۔ دری سے کچھ میسر ن آن یقین ادری کی توہین ہے۔ دری دوہرے کر ک شک ر :ہے الف ۔ کوئی اس کے پ س آکر م یوس رہ ! ۔ پی س ہی رہے گ ؟ اس طرح دری کے ہونے ک جواز ہی ب قی نہیں رہ ۔ اس ک ہون ن ہون ایک ہی ب ت ہے۔دونوں حوالوں سے دری کے وجود پر گہری چوٹ پڑتی ہے۔ آخر کو’’وہی شخص‘‘ بن دشمن ج ں وہ شخص جو سرم ی ء ج ن تھ پہ ے( ) قمر س حری وہ شخص ‘‘اس امر کو واضح کر ت ہے ک ح لات ایک سے ’’ نہیں رہتے ۔ دوستی دشمنی میں اور دشمنی دوستی میں تبدیل ہوسکتی ہے اور ی کسی وقت بھی ہوسکت ہے ۔ اس کے لئے کسی بڑی اور م قول وج ک ہون ضروری نہیں۔ گہری دوستیکسی فری کے حوال سے استوار ہوئی۔ ی دوستی پھ ی ،پھولی
205 ،م د پور ا ہونے کے ب د د توڑ گئی ۔ ایسے میں فری ث نی ک غص ،ملال ی پھر شدید رد عمل لای نی اور غیر فطری ن ہوگ ۔ :ب م نی ،بے م نی ہو کر رہ گی جو ح ل ہے بستی ک تمہ رے ہ تھوں ہر شخص کے چہرے پ نظر آوے ہے( ) قمر س حری ہر شخص ،کسی کی درندگی اور ظ و استبداد ک گواہ ہے کیونک وہ خودظ و درندگی ک شک ر ہے ۔ اسے اپنے ب رےکچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے چہرے پر کسی فرعون کی فرعونیت ج ی حروف میں رق ہے۔ :ب غب ن ارد وغزل میں ’’ب غب ن‘‘ ک کردار ،علامتی اور غیر علامتی حوالوں سے م روف چلا آت ہے ۔ تزئین وآرائش ،ح ظت و نگہ نی اور آب د ک ری کے حوال سے ،اس کردار پر توج رہتی ہے۔ اس کردار کی دانست ی ن دانست غ ت ش ری سے ن ق بل تلافی نقص ن ک احتم ل ہوت ہے ۔ اس کردار کی محت ط روی ،توج ،محنت و ک وش اور اپنے منص سے لگن کے سب ب نح پھل پھول سکت ہے۔ اس ل ظ کے حوال سے ایک بڑاہی ذم دار کر دار ذہن کے کینوس پر ابھر ت ہے ۔ اس کی ہر حرکت توج ک مرکز رہتی ہے کیونک ا س کی ک رگزاری کے س تھ فن وبق ک م م جڑا ہوت ہے ۔ اردو غزل سے چند مث لیں ملاحظ ہوں
206 ارے ب بل کسے پر ب ندھتی ہے آشی ں اپن )ن گل اپن ،ن ب اپن ،ن لطف ب غب ں اپن ( می ں محمد سرفراز عب سی ھ) ک ی ش ر عج می ں محمد سرفراز عب سی(متوفیمخمصے ک سب بنت ہے ۔ب غب ن کی عن یت ہر ج نبداری سے ب لاہوتی ہے لیکن ش ر میں کہ گی ہے ک ب غب ن ک لطف میسر ہی نہیں ۔ اس میں مت سے انحراف آگی ہے ۔ ج ب غب ن توج کھینچ لے توخیر کی توقع حم قت کے سوا کچھ نہیں ۔ دوسری طر ف ی م م بھی س منے آت ہے ک دنی کے نمبر دار غیرہوگئے ہیں اور اپنوں ہی سے من پھیر ے بیٹھے ہیں ۔ اس لئے اپنے ہی دیس میں غربت سے دوچ ر ہوں توٹھک ن بن نے ک سوال لای نی ٹھہرت ہے۔ب غب ن تواپنے ب کی پتی پتی ،بوٹے بوٹے سے پی ر کرت ہے۔ ب غب ن سراپ لطف وعن یت ہو کر بھی ب نٹ میں ڈنڈی م رت ہے ۔ب ض کو یکسر نظر انداز کرت ہے اورکچھ کو جو ب کے لئے ب م نی ہیں جڑسے نک ل ب ہرکرت ہے۔ مرزا مظہر ج ن ج ن ں کے ہ ں بھی کچھ اسی قس ک مضمون :م ت ہےی حسرت رہ گئی کی کی مزے سے زندگی کرتے اگر ہوت چمن اپن ،گل اپن ب ب ں اپن ( )مظہر
207 اپن کوک ی ج نبداری کے م نوں میں بھی لی ج سکت ہے ۔ ک ی کی ) (Demeirtج نبداری کے سب غیر مستح ج نبداری توقع ہوتی ہے ت ہ اس کے ی م نی بھی نہیں بنتے ک وہ ج نت ہی نہیں ۔ انس ن کی خواہش ہوتی ہے ک ب نٹ بلاشراکت غیر ے اسی کے حص میں آئے ۔ وہ چ ہت ہے آق ک لطف اسی سے مخصوص رہے ۔ آتش کو بھی شکوہ ہے ک ب غب ن کی نوازشیں متوازن نہیں ہیں۔ وہ انص ف پرور نہیں ۔ ب غب ن انص ف پر ب بل سے آی چ ہیے پہنچی اس کو زرگل کی پہنچ ی چ ہیے ( )آتش غ ل کے ہ ں ب غب ن بطور تشبی است م ل میں آی ہے ۔ ب غب ن کے دامن میں کی کچھ نہیں ہوت لیکن وہ مخصوص موق وں پردامن کھولت ہے ۔ موقع گزر ج نے کے ب د اس ک دامن عن یت بند ہوج ت ہے ۔ گوی ب غب ن ہم وقت ک دی لو نہیں ہے ۔ ان حق ئ کی روشنی میں ب غب ن سے وابست توق ت ب طل ٹھہرتی ہیں ۔ لہذا اس سے توق ت وابست کرن ف ل لاح صل سے زی دہ نہیں ۔ وہ ن صر ف بخیل سے ب ک ج نبد ار اور گرہ ک پک ہے۔ ی ش کو دیکھتے تھے ک ہر گوش ء بس ط دام ن ب غب ن وکف گل فروش ہےب غب ن اپنے پھولوں کی بولی چڑھ رہ ہے اس سے زی دہ اندھیر
208 کی ہوگ ۔ :بت انس نی م شرتوں میں بت پرستی ع اور عروج پر رہی ہے ۔ بتوں سے بہت س ری شکتی ں منسو رہی ہیں ۔انس ن دوستوں کی انس ن دوستی سے مت ثر ہو کر ان کے بت بن کر پوج کی ج تی رہی ہے۔ انہیں ط قت ک سرچشم سمجھ گی ہے ۔ کھدائیوں میں مخت ف اقوا کے بن ئے گئے بت م ے ہیں ۔جس سے بتوں کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ شکتی کے ب عث ’’بت‘‘ م شروں کے حقیقی اقتدار اع ٰی سمجھے گئے ہیں۔ بت ،موحد کے لئے کراہت جبک بت پرستوں کے دلوں میں احترا کے احس س پیدا کرتے ہیں۔ اردوغزل میں ل ظ’’بت‘‘ ک زی دہ تر محبو کے م نوں میں است م ل ہواہے۔ انش نے بت کو ایس خوبصور ت محبو جو دلی میں دوئی بن کر براجم ن ہوج ئے ،کے حوال سے نظ کی :ہے ج دو ہے نگ چھ ہے غض قہر ہے مکھڑا اور قدہے قی مت غ رت گردیں ہے وہ بت ک فر ہے سراپ اللہ کی قدرت ( )انش بت کے س تھ ’’ک فر‘‘ پیوند کرکے اس کی ک رگزاری (غ رتگردیں) واضح کر دی گئی ہے۔
209 محمد ش کر ن جی کے ہ ں ،وہ جو اپنے وصف کے سب اچھ لگے ،اس کے مت ب تیں سنن خوش آت ہوگوی دلی ودم میں گھر کرے اور ی د مس سل بن ج ئے ،کے م نوں میں است م ل کی گی ہے۔ اے صب کہ بہ ر کی ب تیں اس بت گ ذار کی ب تیں () ۷ن جی جرات نے بت کو ف رٹ کرنے والا’’چ لو‘‘ اورعی ر کے طور پر :است م ل کی ہےکی ب ت کوئی اس بت عی ر کی سمجھے بولے ہے جو ہ سے تو اش رت کہیں اور( ) جرات غ ل نے ایس محبو جس سے پوج کی حدتک محبت کی :ج ئے ،کے م نوں میں لی ہے چھوڑوں گ میں ن اس بت ک فر ک پوجن چھوڑے ن خ گو مجھے ک فر کہے بغیر ایک دوسری جگ ،اس کی محبت کو ،ایم ن ک درج دے رہے :ہیں کیونکر اس ب ت سے رکھوں ج ن عزیز کی نہیں ہے مجھے ایم ن عزیز :ایک ش ر میں طنزک نش ن بن تے ہیں
210 ت بت ہو پھر تمہیں پندار خدائی کیوں ہے ت خداوند ہی کہلاؤ خدااور سہی:درج ب لا مث لوں میں بت کے س تھ ل ظ تخصیص بھی نظ ہواہے بت ک فر انش ،غ ل بت گ ذار ن جی بت عی ر جرات اس بت غ ل ت بت غ ل ان س بقوں اور لاحقوں کی مدد سے بت پہچ ن سے ب ہر نہیں رہت ۔ایسے ہی جیسے لات و من ت ،شیو ،وشنوی برہم ،شتی کیمورتی ں ۔ ی بت سونے چ ندی اور پھولوں سے لدھے رہتے ہیں ۔ محبو بھی بن ؤ سنگ ر سے غ فل نہیں ہوتے۔ :برہمن برہمن کو بتکدے (مندر) کی حرمت اور احترا ک امین سمجھ ج ت رہ ہے ۔ اس کی وج سے ہندودانش کے تم حوالےہندوسم ج میں پھ ے پھولے ہیں۔ اسے ہند ودھر ک رکھوالا اورپرچ رک سمجھ ج ت رہ ہے۔ ہندوگی ن دھی ن سے مت اس نے دوسروں سے زی دہ ع اور ویدان ح صل کی ہوت ہے۔ دوسراوہ
211 اونچی ذات سے مت ہوت ہے اس لئے ہند و سم ج میں محتر رہ ہے ۔ اسے ’’برہمن دیوت ‘‘ بھی کہ ج ت رہ ہے ۔ برہمن اپنے موقف میں ضدی ،اڑیل اور ہٹھیل سمجھ ج ت ہے ۔ ل ظ برہمن ج ذہن کے پردوں سے ٹکرات ہے تو ہندو دھر سے مت لوگوں کے رو رو میں پرن کے چشمے اب نے لگتے ہیں ۔ ل ظ برہمن اردو ش عری میں مخت ف حوالوں سے نمودار ہوا :ہے مومن نے فدا ہوج نے والا ،اڑ ج نے والا ،تل ج نے والا ، دیوان وغیرہ کے م نوں میں است م ل کی ہے۔ بن ترے اے ش روآتشکدہ تن ہوگی شمع قدپر میرے پروان برہمن ہوگی ( )مومن یقین ن ک می پر سٹپٹ نے والا کے م نوں میں است م ل کرتے ہیں۔ برہمن سر کو پیٹت تھ دیر کے آگے خداج نے تری صورت سے بتخ نے پر کی گزرا ( )یقین محمد عظی الدین عظی فن ہوکر وصل ک ط ل ،جس ک جذ و خ وص اور استقلال مت ثرکرے ،وہ جسے ہرکوئی دلی دے بیٹھے ،ایس محبو جو بہت سوؤں ک عش اپنے سینے میں مخ ی رکھنے والاوغیرہ م نوں میں است م ل کی ہے
212 برہمن جس کے دلی میں آرزو ہے مرکے درسن کی )مجھے ہے آرزو ہر وقت درسن اس برہمن کی ( عظی اس حسن عش آمیز نے مجھ دلی کوں گھیراہے )برہمن ہر ک عش ہے ،میں ع ش ہوں برہمن ک ( غ ل نے ست روں ک حس کرکے مستقبل کی پیش گوئی کرنے ولا اور دھر سے وف دار ی کرنے والا کے م نوں میں نظ :کی ہے دیکھئیے پ تے ہیں عش بتوں سے کی فیض اک برہمن نے کہ ی س ل اچھ ہے وف داری بشرط استواری اصل ایم ں ہے مرے بت خ نے میں توک بے میں گ ڑو برہمن کو :بسمل بسمل ج ن قرب ن کرنے کے حوال سے اپن جوا نہیں رکھت ۔ وف داری او ر استواری اس کردار ک خصوصی وصف سمجھ ج ت ہے۔ میدان میں اترنے والے کے ہ ں زندہ رہنے کی امید ہوتی ہے لیکن بسمل کو تڑپ تڑپ کر کشت ہونے ک یقین ہوت ہے۔ وہ اس کو ہی اپنی ک می او رمنزل سمجھت ہے۔ اسی حوال سے وہ ’’بسمل‘‘ کے لق سے م قو ہوت ہے۔ ج تے ہوئے تڑپن م شو کو تسکین دیت ہے ۔ اسے اس کے ع ش
213 ص د ہونے ک یقین ہوج ت ہے ت ہ دوسری طرف اذیت پسندی کے الزا سے بھی بری نہیں ہو پ ت ۔ اذیت پسندی پیم نے متوازن نہیں رہنے دیتی ۔ بسمل کے حوال سے تین طرح کے :رویے ابھرتے ہیں الف ۔ حیرت انگیز وف داری اور استواری۔ وف داری کے یقین کے لئے اتنی کھٹن آزم ئش ک ع ش ج ن سے ج ئے ج۔ عش کی یقین دہ نی کے لئے ج ن پر کھیل ج ن سراسر حم قت اور ن دانی ہےجوبھی سہی ’’بسمل ‘‘ کو ج ن دینے اورم شو کو آزم نے میں آسودگی ح صل ہوتی ہے اردو ش عری میں ی کردار پوری آ وت سے زندہ نظر آت ہے ۔کر دادخ ں درد ک کہن ہے ۔ محبو کے آست نے ک احترام حوظ خ طر رکھتے ہوئے بسمل کے لئے لاز ہے ک وہ تڑپے لیکن محبو کے آست نے کی خ ک پر ب ل وپر ن لگنے پ ئیں۔محبو ،ع ش ص د کی تڑپت ک نظ رہ کرے۔ س تھ میں اس کے آست نے کی خ ک کسی کے خون سے آلودہ ن ہو ی نی اس خ ک پر خون ہونے ک الزا بھی ن آنے پ ئے ۔ اد ضرورہے اس خ ک آست نے ک تڑپھ تو اس طرح بسمل ک
214 ب ل وپر ن لگے( )درد خواج درد ک موقف ہے کشتے ک کچ رہ ج ن اور کشت ک ر ک اس سے غ فل ہوج ن درست نہیں کشت ۔ میں خ می ن رہن ہی کشت ک رک کم ل ہے۔ نی بسمل کوئی کسوکو چھوڑ اس طرح بیٹھت ہے غ فل ہو( )درد م لق ب ئی چندا نے نکت نک لا ہے۔قدموں پ سر تھ کوئی روبروئے تیغ ابھی تڑپ سے رہ بسم وں ک جی ( ) چندا غ ل کے نزدیک بسمل کو اذیت لطف دیتی ہے لہذا جس قدر ممکن ہے اذیت (مش ن ز) دو ۔ متقولین ک خون میں اپنی گردن :پر لیت ہوں اسد بسمل ہے کس انداز ک ق تل سے کہت ہے ک مش ن ز کر خون دوع ل میری گردن پر ی کردار وف ش ری ،استق مت ،استواری اور م م ے سے کمٹ منٹ ک لاجوا نمون پیش کرت ہے۔ :بشر بندہ بشر‘‘ ع بولا ج نے والامح ورہ ہے۔ اس مح ورے میں ’’
215 لغزش آد ک واضح طور پر اش رہ موجود ہے۔ گوی بشر سے غ طی کوت ہی ن ممکن ت میں نہیں۔ وہ انس نیت کے کسی بھیدرجے پر ف ئز ہوج ئے اس سے چوک ہوہی ج تی ہے ۔ ل ظ بشر ایسے کردار کو س منے لات ہے جو ضدین ک مجموع ہے۔ اس کی کسی لغزش ی کسی ک رن مے پرحیرت نہیں ہونی چ ہیے ۔ اچھ ئی ،برائی دونوں عن صر اس کی فطرت ک حص ہیں۔ محت ط اور بڑے لوگوں کی ’’بشری کوت ہیوں ‘‘ ک ریک رڈ ت ریخ اور آسم نی کت بوں میں موجودہے ۔ اردو غزل میں ل ظ ’’بشر‘‘مخت ف حوالوں سے پینٹ ہواہے۔ ح فظ عبدالوہ سچل ک کہن ہے بشر کے ظ ہر کو دیکھ کر کوئی اندازہ لگ لین من س نہیں ۔ بشر کے ب طن میں جھ نک کر دیکھن چ ہیے ک وہ اپنے ب طن میں کی کم ل کے خزینے چھپ ئے بیٹھ ہے صور ت بشر کی ہے مری ،ظ ہر گد اگر ہوں بن ب طن کی پہچ نے مرے ، )س ط ن ہوں ،س ط ن ہوں ( علام ح لی کے نزدیک بشر اگر کوئی ک رن م سر انج نہیں دیت تو اس کی حیثیت ص ر زی دہ نہیں ۔ بشر سے کچھ ہوسکے ن ایسے جینے سے کی ف ئدہ ہمیش
216 بیک ر تجھ کو پ ی ،کبھی ن سرگر ک ردیکھ () ۷ح لی غ ل بشر سے ’’بندہ بشر‘‘ ہی مراد لے رہے ہیں ۔ دی ہے دلی اگر اس کو ،بشر ہے،کی کہیے ہو ا رقی توہو ،ن م برہے ،کی کہیےبشر کوئی فو ال طر ت مخ و نہیں جواس سے صرف خیر کی توقع رکھی ج ئے ۔ اس سے خی نت اور بددی نتی ،کوئی حیرت کی ب ت نہیں۔ ب بل ایران ک خوش گ و پرندہ ہے ۔ف رسی اور اردو ش را نے :ب بل اس ل ظ کو مخت ف م ہی میں است م ل کی ہے ۔ علامتی اور است راتی است م ل بھی پڑھنے کو م ت ہے ۔ اس ل ظ کے است م لات کی نوعیت کے مط ب ،مخت ف قس کے سم جی ، م شرتی اور سی سی حوالے ذہن میں ابھرآتے ہیں۔ت ہ خوش الح نی اس کردار ک بنی دی وصف رہ ہے ۔ درد سوز وگداز اور نوح گری کی مخت ف صورتیں بھی س منے آتی ہیں ۔ ارد وغزل مینی کردار مخت ف حوالوں سے بڑا متحرک رہ ہے۔مثلاا مظہر ج ن ج ن ں کے ہ ں عش میں محبو کے ہ تھوں س کچھ لٹ دینے والا کے طور پر نمودار ہواہے
217 گئی آخر جلا کر گل کے ہ تھوں آشی ں اپن ن چھوڑا ہ ئے ب بل نے چمن میں کچھ نش ں اپن ( )مظہربہ در مرزاخرد کے مط ب محبو ج آزادی چھین لینے کی تمن کرت ہے توی اس کی تمن کی تکمیل کے لئے از خود پ ب زنجیر ہوج ت ہے دلی اڑا کے پہنچ ،ج ہو ااس گل کوشو صید ب بل کو پر لگ دئیے شو شک رنے ( )خرد خواج برہ ن الدین آثمی نے ب بل کے ذری ے اپنے عہدے کے پرگھٹن ح لات اور شخص کی بے اختی ری کو واضح کی ہے۔ بے اختی ر اور آزادی سے محرو چہرے پر مسکراہٹ حرا ہوج تی ہے لیکن وہ روبھی نہیں سکت ۔ اس کی حیثیت کسی کل پرزے سے زی دہ نہیں ہوتی میں وہ ب بل ہوں ک صی د کے گھر بیچ پیدا ہوا جہ ں میں آنکھ جو کھولی ق س میں آشی ں دیکھ ( )آثمی میر ب قر حزیں کے مط ب خوبصور ت ح لات میسر ہوں تو نقل مک نی کی کو ن سوچت ہے ت ہ غ ص کے جبر کے زیر اثر س کچھ چھوڑن پڑت ہے ۔ حزیں نے ’’ب بل ‘‘ کے حوال سے ح لات کی ن خوشگواری واضح کی ہے۔ ی کہ کے ب سے رخصت ہوئی ب بل ک ی قسمت
218 لکھ تھ یوں ک فصل گل میں چھوڑیں آشی ں اپن ( )حردیں غ ل کے ہ ں ی کردار بطور نوح گر است م ل ہواہے ۔ انس نی فطرت ،مخت ف ح لات میں مخت ف رویے اختی ر کرتی ہے۔ دکھ ی ڈپریشن کی صور ت میں ح لات اور م حول کی تبدی ی اسے ری یف مہی کرتی ہے۔ج نوح گر س تھ میں ہوگ تووہ ن خوشگواری کوکیونکر بھولنے دے گ ۔ہم وقت ک رون دھون ن صر ف زندگی ک لطف چھین لیت ہے ب ک کچھ کر گزرنے کی حس کو بھی ن ق بل تلافی نقص ن پہنچت ہے۔ دیکھئیے غ ل اس ب میں کی کہتے ہیںمجھ کو ارزانی رہے تجھ کو مب رک ہوجیو ن ل ء ب بل ک درد اور خندہ گل ک نمک ب بل گوی ایس کردار ہے جو مس سل م یوسی اور پریش نی پھیلات ہے ۔ اس کے ن لے شخص کے درد کو ت زہ رکھتے ہیں۔ب بل ک متراد ف عندلی اردو غزل میں است م ل ہوت آی ہے ۔ یکر نگ اس کردار کے حوال سے نکت نک لتے ہیں ک عندلی کی ش یست اور کومل آواز اور اس کی آہ وفغ ں چ ر سو پھیل کر توج ح صل کر لیتی ہے۔ توج پھر ج نے کے سب افسردگی ک ع ل ط ری ہوج ت ہے ک نہیں کچھ بوئے گل سیتی فغ ن عندلی
219 برگ گل سے ھیگی ن زک ترزب ن عندلی ( )یکرنگ غ ل کے ہ ں اس کردار کی ک ر فرم ئی اور ہی رنگ کی ح ملہے ۔ ش دی میں نوح گری کی موجودگی بھلا کس کو خوش آتی ہے اے عندلی یک کف خس بہر آشی ں طوف ن آمدآمد فصل بہ رہے آمد فصل بہ ر میں نوح گر کو ’’آشی ں ‘‘ چھوڑنے ک مشورہ دین ہی ص ئ لگت ہے ک خواہ مخواہ رنگ میں بھنگ ڈالے گ ۔ :بیم ر ی تے (طے) سی ب ت ہے ک بیم ر کے ش و روز ن گواری ، پریش نی اور وسوسوں ک شک ررہتے ہیں ۔یہی نہیں بیم ری اس کے اعص چٹ کر ج تی ہے اور اس کے سوچ کو من ی حوالوں کے س تھ جوڑے رکھتی ہے۔ بیم ر ،تک یف ،کمزوریاور سوچ کے من ی زوایوں کے سب زندگی کے کسی میدان میں کوئی کردار اداکرنے سے ق صر رہت ہے۔ ’’ل ظ بیم ر‘‘ سنتے ہی ایک ایسے شخص ک تصور س منے آج ت ہے۔ جوہمدردی ک مستح ہوت ہے لیکن اس کی ہر وقت کی م یوسی اور ہ ئے وائے دم پر بوجھ س بن ج تی ہے۔ اردو غزل میں ی کردار نظر انداز نہیں ہوا۔ بیم ر عش کے علاوہ بیم روں ک ذکر بھی م ت ہے۔
220مرزاسودا ک کہن ہے ع رضے میں مبتلا شخص ک عج ح ل ہو ج ت ہے ۔ ہجر ک ع رض سوچ کو ج مد کرکے رکھ دیت ہے۔ ہجر کی بیم ری انس ن کو اندر سے کھ ئے چ ی ج تی ہے تیری دوری سے عج ح ل ہے ا سودا ک میں تو دیکھ نہیں ایس کوئی بیم ر ہنور ( )سودا می ں محمدی م ئل ک خی ل ہے ک بیم ری کی ’’ہوس‘‘ بڑھ ج تی ہے۔ اگرچ ہوس بھی ذہنی ع رض ہے ۔ کی کہوں میں تجھ سے دلی زار کی ہوس مشہور ہے جہ ں میں بیم رکی ہوس ( ) م ئل لال نول رائے وف کے نزدیک بیم ر کی بیم ری سے اندازہ ہوج ت ہے ک وہ زی دہ دیر ک نہیں کہنے لگ وہ من کے مرا ن ل وفغ ں ی ر جی کرئے گ ی بیم ر ک ت ک ( ) وف میر محمدی قرب ن کے نزدیک ’’نگ ک بیم ر‘‘ مسیح کی دسترس سے ب ہر ہوت ہے۔ کوئی م لج (سمجھ ن بجھ ن ) اس پر ک رگر ث بت نہیں ہوت ب ک نیتج الٹ ہی نک ت ہے ۔ نگ ہ ال ت ک نگ ہ قہر ک ڈس لاعلاج ہوت ہےکسی کی برگشت ک ہوں میں بیم ر ی ں مسیح کی ہوئی ج تی ہے تدیبر الٹی ( )قرب ن
221 جہ ں دار ک بھی یہی نظری ہے تیرے بیم ر ا کے تےءں جو دیکھ مسیح کی نہیں کرتی دوا خو ( ) ۷جہ ں دار محبت خ ں محبت کے خی ل میں بیم ر عش ک جین مرن برابر ہوت ہے ۔وہ عمرانی حوال سے بیک ر محض ہوت ہے۔ جس کو تیری آنکھوں سے سر وک ر رہے گ ب ل رض جی بھی تو وہ بیم ر رہے گ ( )محبت غ ل نے ع ش کے س تھ ’’بیم ر‘‘ک پیوند کرکے عش کو بیم ری قرار دی ہے۔ان کے نزدیک ی بیم ری ج ن لے کر د لیتی ہے مندگئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں ہے ہے خو وقت آئے ت اس ع ش بیم ر کے پ س بیم ر ک مترادف ل ظ’’ مریض‘‘ بھی اردو غزل میں اپنی الگ سے پہچ ن رکھت ہے۔ یہ ں بھی ع ش ہی مریض سے م قو نظر آت ہے میر ص ح کے نزدیک مرض عش ج ن لے کر چھوڑت ہے۔ عش گوی ایک ن سی تی ع رض ہے جس کی شدت سے ج ن بھی ج سکتی ہے۔ مت کر عج جو میر ترے غ میں مرگی جینے ک اس مریض کے کوئی بھی ڈھنگ تھ ؟ ( ) میر
222 ق ئ کے خی ل میں مریض عش ک مرج ن ہی اچھ ہے ۔ اس کہرد وب ل ہوت ہے۔ وب ل(اذیت) ک جین بھی کی جین ہے۔ اس سے مرج ن ہی بہتر ہوت ہےچھوٹ ترا مریض اگر مرگی ک شوخ جو د تھ زندگی ک سو اس پر وب ل تھ ( ) ق ئ می ں جگنو کے نزدیک ،مریض عش ،ع رض عش میں رہے تو اچھ ہے ۔ اس ک بہتر ہون دوسروں کو بیم ر کر دیت ہے۔ وہ قص ء عش سن سن کر اوروں کو ہ ک ن کردے گ ۔ ایسے مریض عش کو آزار ہی بھلا اچھ کبھی ن ہووے ی )بیم ر ہی بھلا ( غ ل کہتے ہیں مریض عش کی ح لت دیکھنے والا ،مریضکی مرض سے زی دہ واقف ہوت ہے۔ اگر کوئی م لج ،تیم دار کے کو نظر انداز کرکے دعو ٰی ب ندھے ک ی اچھ Coments ہوج ئے گ اور اگر وہ اچھ ن ہوتو مسیح کو سزا(جرم ن ) دی ج ئے ۔ ایک دوسرا پہ و ی بھی ہے ک ج تک مرض عش کو ہوا دینے والے ب قی رہیں گے کسی کی مسیح ئی ک ن آسکے گی لوہ مریض عش کے تیم دار ہیں اچھ اگرن ہوتو مسیح ک کی علاج
223 پروان :اس ل ظ ک علامتی اور است رتی است م ل ہوت آی ہے ۔ پروان ،ایث ر ،قرب نی اور مت کی علامت ہے۔ اسے ہر ح ل میں قرب ن ہون ہوت ہے۔ اردو غزل میں ی کردار بڑا م تبر ،متحرک اور ج ندار چلا آت ہے۔ ی ع ش ،دھرتی اور مذہ پر قرب نہونے والا کے طور پر پڑھنے کو م ت ہے۔ است د ذو کے نزدیک وہ جو منزل مقصود سے دور اور منزل تک رس ئی کے وس ئل ن رکھت ہو ب بل ہوں صحن ب سے دور اور شکست پر پروان ہوں چرا سے دور اور شکست پر ( ) ذو پروان کے لئے ل ظ پتنگ بھی است م ل ہواہے ۔ خسرو نے اس سے مراد عش کی آگ میں جل مرنے والا لی ہے۔ میرا جو بن ت نے لی ت نے اٹھ غ کو دی ت نے مجھے ایس )کی جیس پنتگ آگ پر ( غ ل کے ہ ں بطور حسن شن س ،محبو کے مت کسی قس کی شک یت پر وک لت کرنے والا کے م نوں میں لی گی ہے۔ ج ں در ہوائے یک نگ گر ہے اسد پروان ہے وکیل ترے داد خواہ ک :جلاد ل ظ ’’جلاد‘‘ خوف اور ن رت پیداکرت ہے۔ ظ ل ،ج برا ور اذیت
224 پسند کے لئے بولاج ت ہے۔ ی سرک ری ملاز ہوت ہے۔ اپنی مرضی سے کسی کو کوڑے نہیں لگ ت اور ن ہی کسی کی ج ن لیت ہے۔ ح ک کے حک سے جی ر ی کسی دوسرے عہدیدار کی موجودگی میں ،ح ک کے حک کی ت میل کرت ہے اوراس ضمن میں کسی رورع یت سے ک نہیں لیت ۔ ترس ی رح کی صورت میں ح ک کے حک کی ت میل نہیں ہو پ تی ۔سنگدلی اور بے حسی کے حوال سے کن یت جلاد ک ل ظ است م ل میں آت ہے۔ ان اللہ یقین نے زندگی کی کھٹورت کو س منے رکھتے ہوئے جلاد کے کردار کوواضح کی ہے ک وہ زندگی کے مص ئ وآلا سے نج ت دلات ہے۔ اس لئے خون بہ اسی کو پہنچن چ ہیےچھٹے ہ زندگی کی قید سے اور داد کو پہنچے وصیت ہے ہم را خوں بہ جلاد کو پہنچے ( )یقین ولی دکنی ف ک کو جلاد ک ن دے رہے ہیں ۔ ت ہ انس ن ک ’’غمزہ ء خون ریز‘‘ کی ت وہ بھی نہیں لا سکتزخمی ہے جلاد ف ک تجھ غمزہء خوں ریز ک ہے شور دری میں سدا تجھ زلف عنبربیزر ک ( )ولیسید عبدالولی عزلت ک کہن ہے ج زندگی سے نج ت کی خواہش ہوتی ہے جلاد زندگی سے نج ت نہیں دلات ب ک اذیت میں مبتلا کودیکھت رہت ے۔
225 نی بسمل ہوا میں تیغ نگ ت رکھ لی کس بھ ے وقت بر ا ہوگی جلاد ک بس ( ) عزلت شہید کے نزدیک جلا دبے اعتب ر ا ہے۔ آرزو ک قتل کرت ہے۔ م رنے سے زی دہ دیکھ میں دکھ کر آسودگی محسوس کرت ہے شہید آخر مقدر تھ ہمیں حسرت میں جی دیت ہم رے سر پر آکر پھر گی جلاد ی قسمت () ۷شہید غ ل جلاد کے حوال سے محبو کی اذیت پسندی اج گر کرتے ہیں۔ جلاد بڑی بے دردی سے م ررہ ہے۔ وہ توسنگدل ہے ہی، محبو کہے ج رہ ہے ’’اور م رو ،اور م رو‘‘۔ محبو کو اذیت نواز سے واسط ہے ۔ کہتے ہیں جلاد کی بے رحمی کے سب ج ن ہی کیوں ن چ ی ج ئے لیکن محبو کی آواز ’’اور م رو‘‘ ک ن میں پڑتی رہنی چ ہیے۔محبو رح سے کوسوں دور ہے جبک مضرو کو محبو کی عد تسکین لطف دے رہی ہے مرت ہوں اس آواز پ ہر چند سراڑ ج ئے جلاد کو لیکن وہ کہے ج ئیں ک ہ ں اور :حسناللہ ت ل ٰی نے انس ن کی سرشت میں ذو جم ل رکھ دی ہے ۔ اس لئے حسن شن سی کی ت ریخ انس ن کے س تھ چ تی ہے ۔ جس ک
226 ثبوت ہ بیل ک قتل ہے۔ ’’حسن‘‘ اپن الگ سے وجود ن رکھتے ہوئے انس نی زندگی میں بڑے م تبر اور متحرک کردار ک ح ملہے۔ حسن نے بلا امتح ن کسی کو اپن نہیں بن ی ۔ اردو غزل میںحسن کے کردار کو مخت ف حوالوں اور زوایوں سے اج گر کی گی ہے۔ ش ہ ولی ا للہ ولی ک کہن ہے حسن ایک م جزہ ہے ۔ شکتی دیت ہے ،روشنی پھیلات خوبی اعج ز حسن ی ر گر انش کروں بے تک ف ص ح ء ک غذید بیض کروں ( ) ولی محمد عظی الدین عظی کے مط ب حسن آگ ہے جواس کے قری ہوت ہے جل کر کب ہوج ت ہے۔ گ شن میں ج وہ گل رومست شرا ہوئے اس حسن آتشیں پر ب بل کب ہوئے ( ) عظی انس ن نیکی ،خوبصورتی اورہ آہنگی کی ج ن فطری میلان رکھت ہے( )۷اس لئے ل ظ ’’حسن ‘‘ اس کے تم حواس بیدا ر کردیت ہے اور اپنے ارد گرد اس کو تلاشنے لگت ہے۔ اشی ء کے مثبت پہ وؤں پر غور کرت ہے۔ اشی ء میں خوبی ں تلاش کر ت ہے پھر اسے بدبو دار کوڑا بھی برا نہیں لگت اور کراہت کی حیثیت لای نی ہوکر رہ ج تی ہے ۔ حسن درحقیقت تحریک ک دوسران ہے۔ ’’حسن‘‘ ظ ہر میں کچھ ہے اور ب ض اوق ت اپنی کریہ
227 ہےئت کے سب وج ء امتح ن ٹھہرت ہے ۔جونہی ظ ہری لب دہ چ ک ہوت ہے اف دے ک دروازہ کھل ج ت ہے ۔ی بھی ممکن ہے ظ ہر ج ذ نظر ہو جبک ب طن کریہ اور ق بل ن رت بھی ن ہو۔ حسن اپنی سرشت میں مقن طیست رکھت ہے اس لئے وہ مت ثرہکرت ہے ت ہ ہرکسی پر اس کے فیوض کے خزانے نہیں کھ تے ۔ :بقول غلا رسول مہرخود کوس دہ اور بے خبر ظ ہرکرت ہے لیکن اپنی اصل میں بڑا ’’ ہوشی ر اور پر ک ر ہوت ہے۔ لوگوں کے حوص ے ہمت اور صبر )واستقلا ل ک امتح ن لیت ہے‘‘۔( ۷ غ ل کی زب نی سنےئے ۔س دگی و پرک ری وبے خودی وہشی ری حسن کو تغ فل میں جرات آزم پ ی :دشمنن رت اور محبت انس نی زندگی ک حص رہے ہیں ۔ جہ ں انس ن ،انس ن کے دکھوں ک مداوا کرت چلاآرہ ہے وہ ں انس ن دشمنی بھیعروج پر رہی ہے۔ چونک تض د انس ن کی فطرت ک جزو ہے اس لئے دوستی کے س تھ دشمنی ایسی کوئی نئی اور انوکھی چیزنہیں ہے۔ ی ل ظ برصغیر کی مخت ف زب نوں میں ا سی طرح ی تھوڑی بہت تبدی ی کے س تھ رائج چلا آت ہے۔ ی ل ظ ڈر خوف اور ن رت کے س تھ س تھ تح ظ ذات ک احس س بھی پیداکرت ہے۔
228ش ہ نصیر کے نزدیک کسی سب کے ب عث دشمنی جن لیتی ہے مجنوں سے ہے جو ن ق ء لی ٰی کو دوستی دشمن ہے اس لئے وہ بی ب ں میں خ ر ک ( )۷ش ہ نصیر مرزا مظہر ج ن ج ن ں ایسے دوست جس ک کردار بدترین دشمن ک س ہو ،کے لئے دشمن ک ل ظ است م ل کرتے ہیں۔ جو تونے کی سو دشمن بھی نہیں دشمن سے کرت ہے غ ط تھ تجھ کو جوہ ج نتے تھے مہر ب ں اپن ( )۷ج ن ں رقی کے لئے بھی ’’دشمن ‘‘ ہی ل ظ است م ل میں لاتے ہیں۔وہی کیوں نہیں اٹھتی قی مت م جراکی ہے ہم رے س منے پہ و میں )وہ دشمن کے بیٹھے ہیں( ۷ غ ل ’’دشمن ‘‘ کے ایک دوسرے کردار پر روشنی ڈالتے ہیں عش میں بیدادرشک غیر نے م را مجھے کشت ء دشمن ہوں آخر گرچ تھ بیم ر دوستبلاشب رقی سے بڑ ادشمن کون ہوگ ۔ رق بت قطرہ قطرہ نچوڑتی ہے۔ :دوست
229 ل ظ دوست تہذیبی اور ثق فتی ت ریخ میں بڑا مضبوط اور توانحوال رکھت ہے ۔ انس نوں نے انس نوں کو اور قوموں نے قوموں کو م ملات حی ت کے ضمن میں ،وقت پڑنے پر ی پھر من ک بوجھ ہ ک کرنے کے لئے دوست بن ی ہے۔ ان پر اعتم د کی ہے ان سے م شی لین دین رکھ ہے۔ ان سے خونی رشتے استوار کئے ہیں۔ان کے لئے خون بہ ی ہے۔ ت ہ اعتم د جیت کر برب د کرنے والے بھی دوست ہی رہے ہیں ۔ اس من ی حقیقت کے ب وجود ل ظ ’’دوست ‘‘ اپنے دامن میں وس ت ،توان ئی ،خ وص و محبت اور پ کیزگی رکھت ہے ۔ انس ن ک اعتم دبح ل کرت ہے۔ حوص ے اور تس ی ک سب بنت ہے۔ ی ل ظ یقین ابڑاخوبصور ت اور اعص پر مثبت اثرات مرت کرنے اور ن سی تی تسکین فراہ کرنے والا ہے۔دوست ک کردار ہمیش سے متحرک رہ ہے۔ خدااور م شو کے لئے بھی ی است م ل میں آت رہ ہے۔ اردو :غزل سے چند مث لیں ملاحظ ہوں میر حیدر الدین ک مل ک کہن ہے ک دوست ،دوست کی خط ؤں سے درگذرکرت ہے اور اسے م ف کردیت ہے۔ دوست ک ی کردار سچی اور سچی دوستی کی نش ندہی کرت ہے۔ دوست بخشے گ دوست س کے س گرچ ع صی ہوں اس ک آسی ہوں ( )۷ک مل دوستی ک ی پیم ن اللہ ت ل ٰی کی ذات گرامی پر فٹ آت ہے ۔ت ہ
230 دوستی ایسے حوالوں کی متق ضی ہے ۔ دا دہ وی کہتے ہیں دوست ،دوست کے لئے مخبری ک فریض بھی سرانج دیت ہے قس دے کر انہی پوچھ لو ت رنگ ڈھنگ ان کے تمہ ری بز میں کچھ دوست بھی دشمن کے بیٹھے ہیں( )۷دا مرزامظہر ج ن ج ن ں کے مط ب دوست اپن بن کر لو ٹ لیتے ہیں ہم رے س تھ سے ی دلی بھی بھ گ لے کے ج ں اپن ہ اس کو ج نتے تھے دوست مہرب ں اپن ( )۷۷ج ن ں خواج درد کے نزدیک دوستوں کی دوستی بھی مقدرسے میسر آتی ہے۔ نصی ی وری ن کرے تو دوست دشمن بن ج تے ہیں۔ ی وری دیکھیے نصیبوں کی دوست بھی ہوگئے مرے دشمن ( )۷درد :غ ل ک انداز بی ں اور بقول ش داں ب گرامی دوست ہمیش ہمدردی اور غمخواری کرتے ہیں ت ہ دوست ’’ ک نوں کے کچے اور چغ ی سن کر بدگم ن بھی ہوج تے )ہیں۔( ۷
231 دوست غمخواری میں میری س ی فرم ئیں گے کی زخ کے بھرآنے ت ک ن خن ن بڑھ ج ئیں گے کی :ایک دوسری جگ کہتے ہیں ت کرے ن غم زی کر لی ہے دشمن کو دوست کی شک یت میں ہ نے ہ زب ں اپن :رقی کسی م م ے کی پوشیدگی کے س تھ س تھ من ک بوجھ ہ ک کرنے ،صلاح ومشورہ ،واسطوں اور رابطوں کے لئے کسی ’’اپنے ‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اکثر و بیشتر ’’ی اپنے ‘‘نقص ن ک سب بنتے ہیں۔ جوپہ ے سے رق بت رکھت ہو اس سے نبر دآزم ہون ،مشکل ک نہیں ہوت ت ہ خ ی رق بت نقص ن ک موج بنتی ہے۔ ج بھی اس قس کے کردار ک حوال س منے آت ہے ۔ ن رت اور کراہت کے جذب ت ابھرتے ہیں اس لئے ایسے کردار سے خوف کھ ن فطری سی ب ت ہے ۔ ایک ہی محبو کے دوع ش آپس میں رقی ہوتے ہیں ۔اردو غزل میں سے چند :مث لیں ملاحظ فرم ئیں ش ہ ولی اللہ اشتی نے دعو ٰی ب ندھنے اورر ائے دہندہ کے م نوں میں ی ل ظ است م ل کی ہے ن چھوڑا م ربھی کھ کر گزر گ ی ک تری رقی کو مرے دعو ٰی
232 ہے بے حی ئی ک ( ) اشتی محمد عظی الدین عظی نے گھ ت میں رہنے ولا ،نش ن ہدف بن نے والا ،جس سے خوف آت ہو کے م نوں میں است م ل کی ہے چھپ دیکھت ہوں تجھ کو رقیب ں کے خوف سے مکھ میں نین ،نین میں نظر ،میں نظر میں ہوں ( ) عظی خواج درد نے رقی کو ح سد کے م نی پہن ئے ہیں۔آنسومرے جوانہوں نے پونچھے کل دیکھ رقی جل گی ( )در د چندا نے رک وٹ ڈالنے والا ،ح ئل ہونے والا کے م نوں میں نظ کی ہے دیکھ چمن میں واسطے ب بل کے ج بج ہر گز نہیں رقی سواکوئی خ ر گل( ) چندا میر س دت ع ی س دت کے نزدیک رقی وہ ن دان کردار ہے جس کی ن دانی کے سب کسی دوسرے ک ک سنور ج ت ہے۔( ) غ ل انتہ ئی قرابت دار اورہ راز کو رقی ک ن دیتے ہیں ۔ قرابت کے سب رق بت میں مبتلا ہوکر دشمنی پر اترآت ہے ۔ خی نت ک مرتک ہوت ہے ۔ بھروس اور یقین سے ف ئدہ اٹھ کر نقص ن پہنچ ت ہے
233 ذکر اس پری وش ک پھر بی ں اپن غ ل بن گی رقی آخر تھ جوراز داں اپن :س قی ل ظ ’’س قی ‘‘ شرا پلانے والے کے لئے بولا ج ت ہے ۔ اس سے ہ دی ،پیرو مرشد ،حضور ،محبو ،م شو وغیرہ م نی بھی مراد لئے ج تے ہیں ۔ی ل ظ عوامی نہیں لیکن اردو اور برصغیر کی کئی دوسر ی زب نوں کی ش عری میں نظ ہوت آرہ ہے ۔ ی ل ظ اہل ذو پ رنش کی کی یت ط ری کر دیت ہے۔ کسیس بقے ی لاحقے کے جڑنے سے کسی مخصوص کردار کی طرف توج مبذول کرواد یت ہے۔ مرک کی صور ت میں دم پرمخت ف نوعیت کے اثرات مرت ہوتے ہیں۔ اردو ش عری میں ل ظ :س قی کے است م ل کی چند مث لیں ملاحظ ہوںبھگونت رائے راحت اس سے مہر ومحبت سے فیض ی کرنے والا مراد لیتے ہیں پلا مجھ کو س قی محبت ک ج رہوں ی د میں اوس کی سرخوش خرا ( ) راحت پیرمرادش ہ ک کہتے ہیں وہ جس کی شرا حلال اور اس کے عن یت کئے گئے ج میں نبی ک جم ل نظر آت ہو۔ س قی بم نی تقیس کنندہ ،اس کی مے شرعی جواز رکھتی ہو
234 پلامجھ کو س قی شرا حلال نبی ک نظر آوے جس میں جم ل ( )پیر مراد ش ہ محمد ص بر محمود س قی سے عن یت کرنے والا ،فیض ی کرنے والا ،پر جوش عن یت والا مراد لیتے ہیں دیت ہے ب دہ س قی مین ئے آتشی سوں رکھت ہے مست دلی کوں گ رنگ بے غشی سوں( ) ۷ص بر ذو کے نزدیک وہ جوکسی اور کے اش رے سے ب نٹ کر ت ہو کرت ہے ہلال ابروئے پرخ ہے اش رہ س قی کو ک بھردے ب دے سے کشتی طلائی ( )ذو عبدالحی ت ب ں اس کو س قی م نتے ہیں جو تق ضوں سے ب لا تر ہوکر پلائے ایم ن ودیں سے ت ب ں مط نہیں ہے ہ کو س قی ہو اور مے ہومین ہو اور ہ ہوں ( ) ت ب ں غ ل ک اپن ہی رنگ ہے ۔ ایس کردار جواپنی فی ضی پر اترات ہولیکن میخوار کی بلانوشی اس ک غرور خ ک میں ملاکر رکھ دے لے گئی س قی کی نخوت ،ق ز آش می مری موج مے کی آج رگ
235 مین کی گرد ن میں نہیں ایک دوسری جگ لکھتے ہیں ک س قی وہ ہے جوہر آنے والے کو پلائے۔ خواہ اس کی مرضی ہو ی ن ہو۔گوی ہر ح لت میں پلائے میں اور بز مے سے یوں تشن ک آؤں گرمیں نے کی تھی توب ،س قی کوکی ہوا ایک تیسری جگ ’’کوثر‘‘ ک لاحق بڑھ کر جن امیر(ع) کی ذات ع لی مراد لیتے ہیں ک ان کی ذات ایسی نہیں جوبخل سے ک لے کل کے لئے کر آج ن خست شرا میں ی سوء ظن ہے س قی کوثر کے ب میں ستمگر :اردو غزل میں ی ل ظ زی دہ تر محبو کے لئے مست مل رہ ہے ۔ی ل ظ سنتے ہی بڑا ظ ل ،ب ت ن سننے والا، ضدی ،خود پسندمحض ن زنخرے والا محبو ،آنکھوں کے س منے گھو ج ت ہے۔ امیر شہر کے لئے بھی ی ل ظ ن من س نہیں سمجھ گی ۔ رائے ٹیک چند بہ ر نے اس کردار سے کچھ :ایسی ہی خوبی ں منسو کی ہیں ۔ مکمل گرفت میں لینے والا ۔ مت ثر کرنے کی ط قت رکھنے والا
236 ۔ جوبلاوج قتل (گرویدہ ) کر ت ہے کرئے ہے ی ستمگر قتل بے تقصیر کی کہیجے جوان کے ہ ں یوں مرن ہے تقدیر کی کہیجے ( ) بہ ر عبدالحی ت ب ں نے اس سے ایس کردار مراد لی ہے جوظ ل تو ہے لیکن آہ وزاری سے مت ثر بھی ہوت ہے ا مہرب ں ہو اہے ت ب ں تراستمگر آہیں تیری کسی نے ش ید ج کر سن ئی ں ہیں ( ) ت ب ںغ ل کے نزدیک ی ایس کردار ہے جس کے ظ وست کی کوئی حدنہیں ہوتی ۔ یہ ں تک ک وہ اپنے ست کے شک ر کی موت پر بھی اکت نہیں کرت ۔ وہ اس سے بڑھ کر ست ک خواہش مند ہوت ہے۔ ن مرنے دیت ہے اور ن جینے میں نے چ ہ تھ ک اندوہ وف سے چھوٹوں وہ ستمگر مرے مرنے پ بھی راضی ن ہوا غ ل اس امر ک اعلان کرتے ہیں ک ستمگر سے اچھ ئی اور بہتری کی امید نہیں کی ج سکتی وہ دن بھی ہوک اس ستمگر سے ن ز کھینچوں بج ئے حسرت نز ان کے نزدیک ی کردار ط ن زنی کرت رہت ہے ک کچھ کھ کر
237 مرکیوں نہیں ج تے زہر م ت ہی نہیں مجھ کو ستمگر ورن کی قس ہے ترے م نے کی ک کھ بھی ن سکوں :شمع روشنی کی ضرورت واہمیت سے کبھی بھی انک ر نہیں کی گی ۔ شمع ہمیش سے بہتر ک رگزار ی ک وسی رہی ہے۔ روشنی کے کئی م نی لئے ج تے ہیں ۔ مثلاا )الف۔ چرا ۔ ہدایت ،ہدایت دینے والا ج۔ رہنم ئی (رہنمد۔ جومح ل ،م شرہ ی تہذی کو اپنی دانش اور حکمت سے چ ر چ ند لگ دے ہ ۔ خوبصورت محبو ،جس پر ایک زم ن مرت ہو و۔ ع دل ح ک وقت شمع ‘‘ روشنی ک ذری ہے روشنی براہ راست بص رت سے ’’ ت رکھتی ہے۔روشنی جتنی بہتر ،س زگ ر،ش ف اور ضرورت کے مط ب ہوگی بص رت کی ک رگزاری اتنی ہی بہتر اور واضح ہوگی۔ مش ہدے ک واضح اور ش ف ہون ادراک کے ابہ دورکرنے ک سب بنت ہے۔ل ظ شمع اردو غزل میں بطور کردار ، علامت ،است رہ ،مشب ب بکثرت است م ل ہواہے ۔ میر عبدالحی ت ب ں نے نر دلی کو موضوع گ تگو بن ی ہے
238مح ل کے بیچ سن کر مرے سوز دلی ک ح ل بے اختی ر شمع کے آنسو ڈھ ک پڑے ( ) ت ب ںگوی شمع وہ کردار ہے جوکسی دوسرے ک درد اپنے سینے میں محسوس کرکے دکھی ہوت ہے۔ بطور است رہ ہمدرد اور نر دلی شخص م نی لئے ج سکتے ہیں۔ ح فظ عبدالوہ سچل کے مط ب شمع وہ کردار ہے جس پر بلا کہے ی نی آپ ہی سے اس کے چ ہنے والے ج ن تک وار دیتےہیں۔ شمع کے ہ تھوں قتل ہوکر فخر اور خوشی محسوس کر تے ہیں۔ انہیں اپنی موت پر افسوس نہیں ہوت ۔ حسین پر قرب ن ہونے والے خوش تھے اور اسے اپنی س دت سمجھتے تھے اس شمع پر پتنگے ،آئے ہیں کی اچھل کر ترسیں گے وہ ن ہرگز جن کو م ی مم تی( ) سچل غلا مصط ٰے خ ں یکرنگ شمع ک ت کر بلا سے جوڑتے ہیں۔ اندھیر ے جہ ں میں ک ا ش میوں کے ہ تھ ہے سربریدہ شمع شبست ن کربلا ( )یکرنگ سودا نے بطور مشب ب است م ل کرکے شمع کے ہررنگ میں ج نے کو واضح کی ہے
239 نہیں م و اس سینے میں کی جوں شمع ج ت ہے دھواں نو ک زب ن سے ب ت کرنے میں نک ت ہے( ) سودا غ ل کے ہ ں شمع بطور است رہ است م ل ہوئی ہے کی شمع کے نہیں ہیں ہو اخواہ اہل بز ہو غ ہی ج ن گداز تو غمخوار کی کریں :شو شو ایک احس س اور جذبے ک ن ہے ۔ اس ک کوئی م دیوجود نہیں چونک اس ک ت انس ن او راس کی ک رگزاری سے ہے اس لئے اس ک وجود انس نی م شرت میں بڑا مستحک ہے ۔ یہی نہیں اس کے حوال سے انس ن میں تحریک پیدا ہوتی ہے اوروہ ،وہ کچھ کر ج ت جس کے مت سوچ بھی نہیں ج سکت ۔’’شو ‘‘ قوموں کو آسم ن کی ب ندیوں سے ہمکن ر کرت ۔ من ی شو پت ل میں بھی ٹکنے نہیں دیت ۔ اس لئے شوکے کرداری حوالوں کوکسی بھی صور ت میں نظر انداز نہیں کیج سکت ۔ اردو غزل میں ’’شو ‘‘بڑا توان کردار ہے ۔ چند مث لیں :ملاحظ ہوں میر حیدر الدین ابو ترا ک مل شو کو بے ک ی ،بے چینی اور ن گزیر یت ک سب قرار دیتے ہیں۔ خط ترے ک شو اکھی ں ک لکھ ہرن کو ں سبزے بن چ را نہیں
240 ( ) ک مل میر محمود ص بر ک کہن ہے ک ی آنکھ کو تجس اور جستجو فراہ کرنے ک ذری وسی ہے زحیرت دیدہء حیراں ن کھولوں غیر کے مکھ پر چو آئین بچش شو دیکھوں گر نگ ر اپن () ۷ص بر ل ل بہ گوہر کے نزدیک ’’شو ‘‘ شخص کوہم وقت مصروف رکھت ہے۔ مژدہ اے شو ہ آغوش ک ج گے ہیں نصی لے کے انگڑا وہ کہتے ہیں ک نیند آئی ہے( ) گوہر علام ح لی کے خی ل میں ’’شو ‘‘ کبھی س تھ نہیں چھوڑت ب ک اس میں اض ف ہی ہوت ہے شو بڑھت گی جوں جوں کے اس شوخ سے ہ ی سب وہ ہے ک بھولے سے سوا ی د رہے( )ح لی تلاش اور جستجو ک م دہ روز اول سے انس نی فطر ت میں رکھ دی گی ہے ۔ پ لینے اور کھوج نک لنے کی دھن اسے بڑے سے بڑے خطرے کی آگ میں جھونک دیتی ہے۔ شو من زور ع ت وقوع اور حرکت ک سب ہے۔حواس مش ہدے میں اض ف کرتے ہیں جبک مش ہد ہ ،حواس کی خوبیداہ توان ئی ں بیدار کرت ہے۔ی دونوں ترقی پذیر ہیں۔ ن ک می کی صور ت میں ک می بی کے لئے
241 جبک ک می بی کی صور ت میں مزید ک می بیوں کے لئے شو شخص کو دوڑائے رکھت ہے۔ انس ن کی جتنی عمر ہے ’’شو ‘‘کی ت ریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے۔ حرف ش کے س تھ ’’ارت ش‘‘ وابست ہے اس لئے انس نی سم ج خو سے خوتراور ہر خو کی نئی اشک ل اور نئے روپ ک متمنی رہت ہے۔اس طرح اس فی ڈ میں نکھ ر،جدت اور بہتری پیداہوتی چ ی ج تی ہے۔ دری فت کی رہیں وا ہوتی رہتی ہیں۔ غ ل کے ہ ں ی ل ظ نظر انداز نہیں ہوا۔ ان کے نزدیک شو رک وٹیں دور کر دیت ہے۔ بقول ش داں ب گرامی غ ل کے نزدیک : شو نے بند نق ( ) حسن کھول دئیے ہیں او ردید کی ’’ )راہ میں کوئی رک وٹ رہنے نہیں دی ‘‘ ( گوی شو بلاواسط کھوجنے ک موج بنت ہے ۔ انکش ت کے دروازے کھولت ہےواکر دےئے ہیں شو نے بند نق حسن غیر از نگ ہ ا کوئی ح ئل نہیں رہ ص ح :عمومی بول چ ل ک ل ظ ہے جوکسی شخص کے احترا ی پھر اپنے سے ب لا افسر کے لئے بولا ج ت ہے۔ اردو ش عریمیں ی ل ظ مخت ف حوالوں سے مست مل چلا آت ہے۔ پیر مراد ش ہ لاہور ی نے ’’جن ‘‘ کے م نوں میں است م ل ہے
242 جو پونچھ تو بولا وہ خواج سرا ک ص ح ی کل ہے )بڑامسخرہ ( روحل فقیر’’ص ح ‘‘ سے ذات ب ری ت ل ٰی مراد لیتے ہیں تیر اص ح تجھ ہی م نہیں ،ت تجو اور آس سر دئے ص ح )م ے ،اچرج اچنب ہ س( دیوان صورت سنگھ صورت نے متحرک کے ’’ح می گیر ‘‘ کے :لئے ل ظ ص ح است م ل کی ہے آپ ص ح ک کے لئے ک کی کیسی خبر ک سیں تھ ک ا )ی ر کدھر ج ؤں ہمیں ( غ ل نے ی ل ظ محبو کے لئے بولاہے آئین دیکھ اپن س من لے کے رہ گئے ص ح کو دلی ن دینے پ کتن غرور تھ :صی د صی دعمومی بول چ ل ک ل ظ نہیں ت ہ اردو غزل میں اس کاست م ل بکثرت پڑھنے کوم ت ہے۔ ش عری ک ذو رکھنے والوں کے ذہنوں میں صی د کے حوال سے ظ ل اور بے رح کردار ابھرت ہے۔ ی کردار محبو کے علاوہ علامتی بھی است م ل ہوت چلاآت ہے۔ رائے ٹیک چند بہ ر کے نزدیک ی ایس بے رح کردار ہے جو اپنے شک ر کی دلی کی یت سے لاپرواہ رہت ہے
243 تڑپت ہے پڑا نی بسمل خ ک وخوں میں دلی عقوبت ہے جو کچھ )اس صید پر ،صی د کی ج نے ( نوا امیر خ ں عمدۃ الم ک انج ک کہن ہے ایس شک ری جو بھ گ ج نے ک موقع ہی ن دے ی نی چ ک وجوبند شک ری ٹک تو فرصت دے ک ہولیں رخصت اے صی د ہ )مدتوں اس ب کے س ئے میں تھے آب د ہ ( بھگونت رائے راحت کے نزدیک جو شک ر صی د کی گرفت سے نکل ج ت ہے وہ دوب رہ ق بو میں نہیں آت گوی ایس لا پرواہ شک ری جس کی گرفت سے شک ر نکل بھی ج ت ہے۔ )ک جودا سے مر آزاد ہو کہ ں پھر وہ تسخیر صی دہو(۷ غ ل کے ہ ں اس کردار کی ک رفرم ئی ملاحظ ہو۔ ہوں گرفت ر ال ت صی د اور ن ب قی ہے ط قت پرواز صی د بم نی وہ جو اپنی محبت میں گرفت ر کرلے۔آغ ز ب قر ،نظ :طب طب ئی او ربے خودموہ نی کے حوال کہتے ہیں )ت ق ت دنی ،جو اسیر کر لیتے ہیں‘‘ ۔( ’’ :ظ ل اردو غزل میں بڑا ع است م ل ہونے والا ل ظ ہے۔ی ل ظ دل و دم پر ن خوشگوار اثرات مرت کرت ہے ۔ اس ل ظ کے ہر
244نوعیت کے م ہی اعص بی تن ؤ اور ن رت ک ب عث بنتے ہیں۔ مثلاا ۔ م ش ک ق تل ۔ جھوٹ اورجھوٹ ک س تھ دینے والا ۔ دھوک اور دغ سے ک نک لنے والا ۔ ضرورت پڑنے پر س تھ چھوڑ دینے والا ۔ م دات کو اپنی ذات تک محدود کرنے والا ۔ انس نی احس س کو مجروح کرنے والا ۷۔ وہ جو قتل وغ رت ک ب زار گر کرت رہت ہو ۔ لوگوں کی رگوں میں نش ات رنے والا ۔ غنڈہ گردی اور چھین جھپٹی کرنے والا ۔ پرواہ ن کرنے والا محبو ۔ م شو ۔ بے انص ف غرض ایسے بہت سے اف ل سے وابست افراد کے لئے ل ظ ’’ظ ل ‘‘ بولاج ت ہے۔ ج ر زٹ ی نے خ خدا پر آفت توڑنے والے کے لئے ل ظ ظ ل نظ کی ہے
245 گی اخلا ص ع ل سے عج ی دور آی ہے ڈرے س خ ظ ل سے عج ی دور آی ( ) ج ر زٹ ی مرادش ہ مراد لاہوری کے ہ ں وف داری ک ڈھونگ رچ کر ب لآخربے وف ئی کرنے والے کے لئے ی ل ظ است م ل ہواہے وہ ظ ل ی طوف ن کی کر گئی وف کرتے کرتے ج کر گئی ( ) مراد ش ہ لاہوری ش ہ مب رک آبرو نے جس کی محبت فراموش ن ہوسکے ،کے لئے ی ل ظ ب ندھ ہے جدائی کے زم نے کی می ں کی زی دتی کہیے ک اس ظ ل کی جوہ پر گھڑی گزری سو جگ بیت ( ) آبرو محمد احسن اللہ احسن نے ہمیش رلات رہنے والے کے لئے ی ل ظ نظ کی ہے تیرے تل سے مجھے نت مین ک سودا ہے اے ظ ل عج نہیں ہے اگر تو تیل نکس وے مرے سرسوں ( ) احسن سودا نے جذب ت مجروح کرنے والے ،دلی چرانے اورزی دتی کرنے والے کے لئے ی ل ظ است م ل کی ہے تونے سودا کے تئیں قتل کی ،کہتے ہیں ی اگر سچ ہے تو ظ ل
246 اسے کی کہتے ہیں ( ) سودا ح فظ عبدالوہ سچل نے گرفت کرنے والے کے لئے اس ل ظ ک انتخ کی ہے آی نظر میں اژدر مجھ کو وہ زلف پیچ ں رخ پ لٹک رہی ہے ظ ل ،ی زلف ک لی ( ) سچل غ ل کے ہ ں اس ل ظ ک است م ل ظ ہر کررہ ہے ک اس کر دار سے خیر اور بھلائی کی توقع وابست نہیں کی ج سکتی ۔ ایک جگ ایس محبو جس کی وف ک م م تذبذ ک شک ر ہو،کے لئے است م ل کرتے ہیں ظ ل مرے گم ں سے مجھے من ل ن چ ہ ہے ہے خدان کردہ تجھے بے وف کہوںغ ل اس ل ظ کو اس شخص پر بھی فٹ کرتے ہیں جس کی مہر ب نی پر بھی اعتم د کر ن حم قت سے ک ن ہو ہم ری س دگی تھی الت ت ن ز پر مرن تراآن ن تھ ظ ل مگر تمہید ج نے کی :عش عش درحقیقت سچی لگن اور مقصد سے اٹوٹ کمنٹ منٹ ک ن
247 ہے۔ ب ض لوگ اس ل ظ کو ن سی تی حوالوں تک محدود رکھتے ہیں جبک اس کے حدود ک ت ین ایس آس ن ک نہیں۔ سقراط ہوک حسین ،فرہ د ہوک ٹیپو ،ہر کسی نے اپنے مخصوص ک ز سے وف کی ۔اگر ان ک استقلا ل لغزش ک شک ر ہوت تو ک ز سے کمٹ منٹ خ ٹھہرتی ۔ عش انس نی سم ج ک حص رہ ہے۔ اسے مخت ف زاویوں اور حوالوں سے دیکھ اور پرکھ ج ت رہ ہے۔اشخ ص اور اقوا کو اس کر دار نے زندہ رکھ ہے۔ عش انس ن کون سی تی طور پر ی س کی دلد ل سے نک ل کر ایث ر اور قرب نی کی دہ یز پر لاکھڑ ا کرت ہے۔عش کوئی دیکھی ج نے والی شے نہیں لیکن بطور جذب انس نی لہو میں ش مل ہوکر اپنے حص ککردار ادا کرت ہے۔ی انس ن کو تنہ نہیں چھوڑت اس کی تنہ ئی آب د رکھت ہے۔ اردو غزل میں عش ک کردار مخت ف حوالوں سے واضح ہواہے۔ مثلاا لطف ع ی لط ی کے نزدیک عش زخمی کرت ہے میں عش کی گ ی میں گھ یل پڑا تھ ،تس پر حوبن ک م ت آکر مجھ کو کھنڈل کرگی ہے ( ) لط یش ہ ولی اللہ ولی کے مط ب عش جوش وخروش پیداکرکے دلی کی دھرکنوں کو تیز کر دیت ہے ن پوچھو عش میں جو ش وخروش دل کی م ہیت برنگ ابر دری ب ر ہے روم ل ع ش ک ( ) ولی
248 بھگونت رائے راحت ک کہن ہے عش سرم بن دیت ہے۔ فن کر دیت ہے کی عش نے توتی طور کو م ی عش سے دار منصور کو () ۷راحت غ ل کے نزدیک عش ،افراط ح ک ن جسے لاح ہوت ہے اسے نخیف ونزار کر دیت ہے جبک زندگی عش کے بغیر ایک درد ہے ۔ عش زندگی میں لطف اور مز اپیدا کرت ہے۔ بقول :ش داں ب گرامی اس کے بغیر زندگی بے کیف ہوتی ہے لیکن ی خود مرض ’’ )لاعلا ج ہے‘‘۔ ( ا عش کی حقیقت غ ل کی زب نی سنئے عش سے طب یت نے زیست ک مزا پ ی درد کی دوا پ ئی دردبے دوا پ ی :غ فل ی کردار انس نی م شرت میں ہمیش سے رہ ہے ۔ اس کر دار سے ن صرف دوسروں کو نقص ن پہنچت ہے ب ک ی خود اپنے :لئے بھی ب عث نقص ن رہ ہے۔ اس کی دو صورتیں رہی ہیں الف ۔ اس سے دانست م م پوشیدہ رکھ گی ہو
249 ۔ اپنی عد دلچسپی کے ب عث م م ج ننے کی کوشش ہی ن کرت ہو پہ ی صورت میں اس کی غ ت ش ری گوارہ کی ج سکتی ہے جبک دوسری صورت کسی بھی حوال سے نظر انداز نہیں کیج سکتی ۔ اس کردار سے مل کر خوشی نہیں ہوتی ب ک اعص بی تن ؤ بڑھ ج ت ہے۔ اردو غزل میں ی کردار مخت ف حوالوں سے وارد ہواہے۔خواج :درد نے اس کردار کے دو پہ و واضح کئے ہیں الف ۔ غ فل اپن م م خو ی د رکھت ہے۔ ۔ دوسروں کو ،یہ ں تک ک خدا کو بھی بھو ل ج ت ہے۔ گوی غ فل اپنے م م ے ک پک ہوت ہے۔ اپنے م دات کسی بھی صورت میں فراموش نہیں کرت جبک دوسروں کے م ملات بھول ج ت ہے ی ان کی انج دہی میں کوت ہی اور تس ہل سے ک لیت ہے غ فل خداکی ی د پ مت بھول زینہ ر اپنے تئیں بھلاد ے اگر تو بھلا سکے( ) درد ش کرن جی ک کہن ہے ک ’’غ فل‘‘ ایک ہی ڈگر پر چلاج نے والا ہوت ہے۔ وہ وقت اور ح لات کی ضرورت نہیں دیکھت ۔ لمحے اسے اس کی غ ت ش ری ک احس س دلا کر گزر ج تے ہیں
250 لیکن وہ اپنی روش نہیں بدلت ۔ تبدی ی کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتب ند آواز سے گھڑی ل کہت ہے ک اے غ فل گئی ہے ی بھی گھڑی تجھ عمرسے اور تو نہیں چیت ( ) ن جیق ئ چ ند پوری کے نزدیک غ فل سوچ سمجھ کر قد نہیں اٹھ ت ۔ اس ک ہر ف ل بے خبری کی چ در میں م وف ہوت ہےغ فل قد کو اپنے رکھیو سنبھ ل کری ں ہر سنگ رہ گزرک دوک ن شیش گرہے( )ق ئ غ ل نے غ فل سے وہ کردار مراد لی ہے جوغ ط فہمی ک شک ر ہوی جو م وم ت کی کمی کے ب عث م م ے کی اصل تک ن پہنچ پ ئے۔ ی بھی ک جوم م ے کو سمجھنے کے لئے غ ط ی غیر مت پیم نے اختی ر کرت ہو۔ غ فل کچھ کو کچھ سمجھنےوالا کر دار ہے ۔ اس طرح ی نتیج نک لن پڑے گ ک ایس شخص جس کی کہی ہوئی ب ت پر یقین نہیں کی ج سکتح لانک ہے ی سی ی خ را سے لال رنگ غ فل کو میرے شیشے پر مے ک گم ن ہے :غمحوار دکھ دینے والوں کے س تھ دکھ ک مداوا کرنے ی تش ی دینے والوں کی بھی کمی نہیں رہی ۔ ایسے افراد کو ہمیش عزت
Search
Read the Text Version
- 1
- 2
- 3
- 4
- 5
- 6
- 7
- 8
- 9
- 10
- 11
- 12
- 13
- 14
- 15
- 16
- 17
- 18
- 19
- 20
- 21
- 22
- 23
- 24
- 25
- 26
- 27
- 28
- 29
- 30
- 31
- 32
- 33
- 34
- 35
- 36
- 37
- 38
- 39
- 40
- 41
- 42
- 43
- 44
- 45
- 46
- 47
- 48
- 49
- 50
- 51
- 52
- 53
- 54
- 55
- 56
- 57
- 58
- 59
- 60
- 61
- 62
- 63
- 64
- 65
- 66
- 67
- 68
- 69
- 70
- 71
- 72
- 73
- 74
- 75
- 76
- 77
- 78
- 79
- 80
- 81
- 82
- 83
- 84
- 85
- 86
- 87
- 88
- 89
- 90
- 91
- 92
- 93
- 94
- 95
- 96
- 97
- 98
- 99
- 100
- 101
- 102
- 103
- 104
- 105
- 106
- 107
- 108
- 109
- 110
- 111
- 112
- 113
- 114
- 115
- 116
- 117
- 118
- 119
- 120
- 121
- 122
- 123
- 124
- 125
- 126
- 127
- 128
- 129
- 130
- 131
- 132
- 133
- 134
- 135
- 136
- 137
- 138
- 139
- 140
- 141
- 142
- 143
- 144
- 145
- 146
- 147
- 148
- 149
- 150
- 151
- 152
- 153
- 154
- 155
- 156
- 157
- 158
- 159
- 160
- 161
- 162
- 163
- 164
- 165
- 166
- 167
- 168
- 169
- 170
- 171
- 172
- 173
- 174
- 175
- 176
- 177
- 178
- 179
- 180
- 181
- 182
- 183
- 184
- 185
- 186
- 187
- 188
- 189
- 190
- 191
- 192
- 193
- 194
- 195
- 196
- 197
- 198
- 199
- 200
- 201
- 202
- 203
- 204
- 205
- 206
- 207
- 208
- 209
- 210
- 211
- 212
- 213
- 214
- 215
- 216
- 217
- 218
- 219
- 220
- 221
- 222
- 223
- 224
- 225
- 226
- 227
- 228
- 229
- 230
- 231
- 232
- 233
- 234
- 235
- 236
- 237
- 238
- 239
- 240
- 241
- 242
- 243
- 244
- 245
- 246
- 247
- 248
- 249
- 250
- 251
- 252
- 253
- 254
- 255
- 256
- 257
- 258
- 259
- 260
- 261
- 262
- 263
- 264
- 265
- 266
- 267
- 268
- 269
- 270
- 271
- 272
- 273
- 274
- 275
- 276
- 277
- 278
- 279
- 280
- 281
- 282
- 283
- 284
- 285
- 286
- 287
- 288
- 289
- 290
- 291
- 292
- 293
- 294
- 295
- 296
- 297
- 298
- 299
- 300
- 301
- 302
- 303
- 304
- 305
- 306
- 307
- 308
- 309
- 310
- 311
- 312
- 313
- 314
- 315
- 316
- 317
- 318
- 319
- 320
- 321
- 322
- 323
- 324
- 325
- 326
- 327
- 328
- 329
- 330
- 331
- 332
- 333
- 334
- 335
- 336
- 337
- 338
- 339
- 340
- 341
- 342
- 343
- 344
- 345
- 346
- 347
- 348
- 349
- 350
- 351
- 352
- 353
- 354
- 355
- 356
- 357
- 358
- 359
- 360
- 361
- 362
- 363
- 364
- 365
- 366
- 367
- 368
- 369
- 370
- 371
- 372
- 373
- 374
- 375
- 376
- 377
- 378
- 379
- 380
- 381
- 382
- 383
- 384
- 385
- 386
- 387
- 388
- 389
- 390
- 391
- 392
- 393
- 394
- 395
- 396
- 397
- 398
- 399
- 400
- 401
- 402
- 403
- 404
- 405
- 406
- 407
- 408
- 409
- 410
- 411
- 412
- 413
- 414
- 415
- 416
- 417
- 418
- 419
- 420
- 421
- 422
- 423
- 424
- 425
- 426
- 427
- 428
- 429
- 430
- 431
- 432
- 433
- 434
- 435
- 436
- 437
- 438
- 439
- 440
- 441
- 442
- 443
- 444
- 445
- 446
- 447
- 448
- 449
- 450
- 451
- 452
- 453
- 454
- 455
- 456
- 457
- 458
- 459
- 460
- 461
- 462
- 463
- 464
- 465
- 466
- 467
- 468
- 469
- 470
- 471
- 472
- 473
- 474
- 475
- 476
- 477
- 478
- 479
- 480
- 481
- 482
- 483
- 484
- 485
- 486
- 487
- 488
- 489
- 490
- 491
- 492
- 493
- 494
- 495
- 496
- 497
- 498
- 499
- 500
- 501
- 502
- 503
- 504
- 505
- 506
- 507
- 508
- 509
- 510
- 511
- 512
- 513
- 514
- 515
- 516
- 517
- 518
- 519
- 520
- 521
- 522
- 523
- 524
- 525
- 526
- 527
- 528
- 529
- 530
- 531
- 532
- 533
- 534
- 535
- 536
- 537
- 538
- 539
- 540
- 541
- 542
- 543
- 544
- 545
- 546
- 547
- 548
- 549
- 550
- 551
- 552
- 553
- 554
- 555
- 556
- 557
- 558
- 559
- 560
- 561
- 562
- 563
- 564
- 565
- 566
- 567
- 568
- 569
- 570
- 571
- 572
- 573
- 574
- 575
- 576
- 577
- 578
- 579
- 580
- 581
- 582
- 583
- 584
- 585
- 586
- 587
- 588
- 589
- 590
- 591
- 592
- 593
- 594
- 595
- 596
- 597
- 598
- 599
- 600
- 601
- 602
- 603
- 604
- 605
- 606
- 607
- 608
- 609
- 610
- 611
- 612
- 613
- 614
- 615
- 616
- 617
- 618
- 619
- 620
- 621
- 622
- 623
- 624
- 625
- 626
- 627
- 628
- 629
- 630
- 631
- 632
- 633
- 634
- 635
- 636
- 637
- 638
- 639
- 640
- 641
- 642
- 643
- 644
- 645
- 646
- 647
- 648
- 649
- 650
- 651
- 652
- 653
- 654
- 655
- 656
- 657
- 658
- 659
- 660
- 661
- 662
- 663
- 664
- 665
- 666
- 667
- 668
- 669
- 670
- 671
- 672
- 673
- 674
- 675
- 676
- 677
- 678
- 679
- 680
- 681
- 682
- 683
- 684
- 685
- 686
- 687
- 688
- 689
- 690
- 691
- 692
- 693
- 694
- 695
- 696
- 697
- 698
- 699
- 700
- 701
- 702
- 703
- 704
- 705
- 706
- 707
- 708
- 709
- 710
- 711
- 712
- 713
- 714
- 715
- 716
- 717
- 718
- 719
- 720
- 721
- 722
- 723
- 724
- 725
- 726
- 727
- 728
- 729
- 730
- 731
- 732
- 733
- 734
- 735
- 736
- 737
- 738
- 739
- 740
- 741
- 742
- 743
- 744
- 745
- 746
- 747
- 748
- 749
- 750
- 751
- 752
- 753
- 754
- 755
- 756
- 757
- 758
- 759
- 760
- 761
- 762
- 763
- 764
- 765
- 766
- 767
- 768
- 769
- 770
- 771
- 772
- 773
- 774
- 775
- 776
- 777
- 778
- 779
- 780
- 781
- 782
- 783
- 1 - 50
- 51 - 100
- 101 - 150
- 151 - 200
- 201 - 250
- 251 - 300
- 301 - 350
- 351 - 400
- 401 - 450
- 451 - 500
- 501 - 550
- 551 - 600
- 601 - 650
- 651 - 700
- 701 - 750
- 751 - 783
Pages: