Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore زبان غالب کا فکری‘ لسانیاتی و انضباتی مطالعہ

زبان غالب کا فکری‘ لسانیاتی و انضباتی مطالعہ

Published by maqsood5, 2017-06-28 06:26:02

Description: زبان غالب کا فکری‘ لسانیاتی و انضباتی مطالعہ
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
جون ٢٠١٧

Search

Read the Text Version

‫‪201‬‬ ‫سنت تھ جسے ک ب وبت خ ن میں آخر امجد میں اسے حضرت‬ ‫)انس ن میں دیکھ (‬ ‫خواج درد ک موقف ہے ک خدا کے س ج وے حضرت انس ن‬ ‫‪:‬میں ملاحظ کئے ج سکتے ہیں‬ ‫ج وہ توہر اک طرح ک ہرش ن میں دیکھ جوکچھ ک سن تجھ میں‬ ‫)سو انس ن میں دیکھ (‬ ‫ایک دوسری جگ پر انس ن کے خ کرنے ک مقصددردمندی‬ ‫‪:‬بت تے ہیں‬‫درددلی کے واسطے پیدا کی انس ن کو ورن ط عت کے لئے کچھ‬ ‫)ک ن تھے کروبی ں (‬ ‫میر جگنو ارزاں کے مط ب انس ن کے وجود خ کی میں ایک‬ ‫‪:‬ک ئن ت پنہ ں ہے ت غوروفکر کی ضرورت ہے‬ ‫زمین وآسم ں اور مہر وم س تجھ میں ہیں انس ں‬ ‫)نظر بھر دیکھ مشت خ ک میں کی کی جھمکت ہے (‪۷‬‬ ‫مصط ے ع ی خ ن یکرنگ ک کہن ہے ک اس حسین پیکر والے‬ ‫کو محض انس ن ہی ن سمجھ ‪ ،‬ی اپنی ذات میں کی ہے ‪ ،‬کھوج‬ ‫‪:‬کرنے کی ضرورت ہے‬ ‫اس پری پیکر کو مت انس ن بوجھ شک میں کیوں پڑت ہے اے‬

‫‪202‬‬ ‫)دلی ج ن بوجھ (‬ ‫ح فظ عبدالواہ سچل کے نزدیک انس ن ک ئن ت ک دلداد بننے‬ ‫کے لئے وجود میں آی ہے۔ انس ن حضرت ب ری ک گوی تمث لی‬ ‫‪:‬اظہ ر ہے‬‫برائے خواہش ال ت ہوا اظہ ر وہ بے چوں اسی دنی میں وہ دلدار‬ ‫)بن انس ن آی ہے(‬‫غ ل انس ن کو کوئی فو ال طرت وجود نہیں سمجھتے ۔ ان کے‬‫نزدیک ی مخت ف ح لتوں اور کی یتوں سے دوچ ر ہوت ہے۔اس پر‬ ‫‪:‬گھبراہٹ بھی ط ری ہوتی ہے‬ ‫کیوں گردش مدا سے گھبران ج ئے دلی انس ن ہوں پی ل‬ ‫وس غر نہیں ہوں میں‬ ‫انس ن کوئی شے نہیں ب ک محسوس کرنے والی مخ و ہے۔‬ ‫ح لات کی گرمی سردی اس پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ت ہ پہ ایک‬ ‫بھی ہوج ت ہے اور پھر )‪ (Adjuest‬سے ح لات سے خوگر‬ ‫ح لات کے طلاط کو م مول سمجھ کر زندگی گزار دیت ہے۔ غ ل‬ ‫کے نزدیک آدمی سے انس ن بننے تک‪ ،‬آدمی کو نہ یت کھٹن‬ ‫‪:‬گزار مراحل سے گزرن پڑت ہے‬ ‫بسک دشوار ہے ہر ک ک آس ں ہون‬ ‫آدمی کو بھی میسر نہیں انس ں ہون‬

‫‪203‬‬ ‫انس ن بنن دشوار سہی ‪ ،‬امک ن سے ب ہر نہیں ۔ اردو غزل کے‬‫ش ر ا نے انس ن سے مت جو نقش پیش کی ہے وہ بڑا دلکش‬ ‫اور پرکشش ہے۔ آدمی کے اندر انس ن بننے کی خواہش ابھرتی‬ ‫ہے لیکن ج ی شدت اختی ر کرتی ہے تو اعتب ر میں اض ف‬ ‫ہوت چلا ج ت ہے۔ اعتب ر ج م تبر ہوج ت ہے تو انس ن اپنے خ ل‬ ‫سے ج م ت ہے ۔ گوی اعتب ر‪ ،‬انس ن کو آدمیوں میں محتر‬ ‫ٹھہرات ہے۔‬ ‫‪:‬اک شخص‬ ‫ل ظ ’’شخص‘‘ کے حوال سے کوئی روی س منے نہیں آت ۔’’‬ ‫اک‘‘ ک س بق اسے عمومی سے خصوصی ک درج عط‬ ‫کرت ہے۔ وہ شخص کو ن ہے ‪ ،‬ظ ہر نہیں ہوت لیکن اس کی‬ ‫ک رگزاری اسے محتر اور من ر د کر دیتی ہے۔’’ اک ‘‘ سے‬ ‫مت سی وسب اس کے کر دار کو واضح کرتے ہیں ۔غ ل‬ ‫ک ’’اک شخص ‘‘ کردار ی حوال سے بڑا اہ ہے۔ اس کے ن‬‫ہونے سے زندگی غیر متحرک ہوج تی ہے۔ وہ تھ تو خی لات میں‬ ‫‪:‬جولانی تھی رعن ئی تھی‬ ‫تھی وہ ’’ اک شخص ‘‘ کے تصور سے‬ ‫ا وہ رعن ئی خی ل کہ ں‬‫اردو ش عری میں شخص کی تخصیص کے لئے مخت ف نوح کے‬ ‫س بقے لاحقے است م ل میں آئے ہیں۔ ان س بقوں اور لاحقوں‬

‫‪204‬‬ ‫‪:‬کے حوال سے ان کے کردار کی نوعیت س منے آتی ہے‬ ‫س حل تم اشک ندامت سے اٹ گی‬ ‫دری سے ’’کوئی شخص‘‘ تو پی س پ ٹ گی ( ) شکی‬ ‫ی ’’کوئی شخص ‘‘ دری پر آکر بھی پی س رہ ۔ دری سے کچھ‬ ‫میسر ن آن یقین ادری کی توہین ہے۔ دری دوہرے کر ک شک ر‬ ‫‪:‬ہے‬ ‫الف ۔ کوئی اس کے پ س آکر م یوس رہ‬ ‫! ۔ پی س ہی رہے گ ؟‬ ‫اس طرح دری کے ہونے ک جواز ہی ب قی نہیں رہ ۔ اس ک ہون‬ ‫ن ہون ایک ہی ب ت ہے۔دونوں حوالوں سے دری کے وجود پر‬ ‫گہری چوٹ پڑتی ہے۔‬ ‫آخر کو’’وہی شخص‘‘ بن دشمن ج ں‬ ‫وہ شخص جو سرم ی ء ج ن تھ پہ ے( ) قمر س حری‬ ‫وہ شخص ‘‘اس امر کو واضح کر ت ہے ک ح لات ایک سے ’’‬ ‫نہیں رہتے ۔ دوستی دشمنی میں اور دشمنی دوستی میں تبدیل‬ ‫ہوسکتی ہے اور ی کسی وقت بھی ہوسکت ہے ۔ اس کے لئے‬ ‫کسی بڑی اور م قول وج ک ہون ضروری نہیں۔ گہری دوستی‬‫کسی فری کے حوال سے استوار ہوئی۔ ی دوستی پھ ی ‪ ،‬پھولی‬

‫‪205‬‬ ‫‪ ،‬م د پور ا ہونے کے ب د د توڑ گئی ۔ ایسے میں فری ث نی ک‬ ‫غص ‪ ،‬ملال ی پھر شدید رد عمل لای نی اور غیر فطری ن ہوگ ۔‬ ‫‪:‬ب م نی ‪ ،‬بے م نی ہو کر رہ گی‬ ‫جو ح ل ہے بستی ک تمہ رے ہ تھوں‬ ‫ہر شخص کے چہرے پ نظر آوے ہے( ) قمر س حری‬ ‫ہر شخص ‪ ،‬کسی کی درندگی اور ظ و استبداد ک گواہ ہے‬ ‫کیونک وہ خودظ و درندگی ک شک ر ہے ۔ اسے اپنے ب رے‬‫کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے چہرے پر کسی فرعون کی‬ ‫فرعونیت ج ی حروف میں رق ہے۔‬ ‫‪:‬ب غب ن‬ ‫ارد وغزل میں ’’ب غب ن‘‘ ک کردار ‪،‬علامتی اور غیر علامتی‬ ‫حوالوں سے م روف چلا آت ہے ۔ تزئین وآرائش ‪ ،‬ح ظت و‬ ‫نگہ نی اور آب د ک ری کے حوال سے ‪ ،‬اس کردار پر توج رہتی‬ ‫ہے۔ اس کردار کی دانست ی ن دانست غ ت ش ری سے ن ق بل‬ ‫تلافی نقص ن ک احتم ل ہوت ہے ۔ اس کردار کی محت ط روی ‪،‬‬‫توج ‪ ،‬محنت و ک وش اور اپنے منص سے لگن کے سب ب نح‬ ‫پھل پھول سکت ہے۔ اس ل ظ کے حوال سے ایک بڑاہی ذم دار‬ ‫کر دار ذہن کے کینوس پر ابھر ت ہے ۔ اس کی ہر حرکت توج ک‬ ‫مرکز رہتی ہے کیونک ا س کی ک رگزاری کے س تھ فن وبق ک‬ ‫م م جڑا ہوت ہے ۔ اردو غزل سے چند مث لیں ملاحظ ہوں‬

‫‪206‬‬ ‫ارے ب بل کسے پر ب ندھتی ہے آشی ں اپن‬ ‫)ن گل اپن ‪ ،‬ن ب اپن ‪ ،‬ن لطف ب غب ں اپن (‬ ‫می ں محمد سرفراز عب سی‬ ‫ھ) ک ی ش ر عج‬ ‫می ں محمد سرفراز عب سی(متوفی‬‫مخمصے ک سب بنت ہے ۔ب غب ن کی عن یت ہر ج نبداری سے ب لا‬‫ہوتی ہے لیکن ش ر میں کہ گی ہے ک ب غب ن ک لطف میسر ہی‬ ‫نہیں ۔ اس میں مت سے انحراف آگی ہے ۔ ج ب غب ن توج‬ ‫کھینچ لے توخیر کی توقع حم قت کے سوا کچھ نہیں ۔ دوسری‬ ‫طر ف ی م م بھی س منے آت ہے ک دنی کے نمبر دار غیر‬‫ہوگئے ہیں اور اپنوں ہی سے من پھیر ے بیٹھے ہیں ۔ اس لئے‬ ‫اپنے ہی دیس میں غربت سے دوچ ر ہوں توٹھک ن بن نے ک‬ ‫سوال لای نی ٹھہرت ہے۔ب غب ن تواپنے ب کی پتی پتی ‪ ،‬بوٹے‬ ‫بوٹے سے پی ر کرت ہے۔ ب غب ن سراپ لطف وعن یت ہو کر بھی‬ ‫ب نٹ میں ڈنڈی م رت ہے ۔ب ض کو یکسر نظر انداز کرت ہے اور‬‫کچھ کو جو ب کے لئے ب م نی ہیں جڑسے نک ل ب ہرکرت ہے۔‬ ‫مرزا مظہر ج ن ج ن ں کے ہ ں بھی کچھ اسی قس ک مضمون‬ ‫‪:‬م ت ہے‬‫ی حسرت رہ گئی کی کی مزے سے زندگی کرتے اگر ہوت چمن‬ ‫اپن ‪ ،‬گل اپن ب ب ں اپن ( )مظہر‬

‫‪207‬‬ ‫اپن‬ ‫کوک ی ج نبداری کے م نوں میں بھی لی ج سکت ہے ۔ ک ی‬ ‫کی )‪ (Demeirt‬ج نبداری کے سب غیر مستح ج نبداری‬ ‫توقع ہوتی ہے ت ہ اس کے ی م نی بھی نہیں بنتے ک وہ ج نت‬ ‫ہی نہیں ۔ انس ن کی خواہش ہوتی ہے ک ب نٹ بلاشراکت غیر ے‬ ‫اسی کے حص میں آئے ۔ وہ چ ہت ہے آق ک لطف اسی سے‬ ‫مخصوص رہے ۔ آتش کو بھی شکوہ ہے ک ب غب ن کی‬ ‫نوازشیں متوازن نہیں ہیں۔ وہ انص ف پرور نہیں ۔‬ ‫ب غب ن انص ف پر ب بل سے آی چ ہیے پہنچی اس کو زرگل کی‬ ‫پہنچ ی چ ہیے ( )آتش‬ ‫غ ل کے ہ ں ب غب ن بطور تشبی است م ل میں آی ہے ۔ ب غب ن‬ ‫کے دامن میں کی کچھ نہیں ہوت لیکن وہ مخصوص موق وں پر‬‫دامن کھولت ہے ۔ موقع گزر ج نے کے ب د اس ک دامن عن یت بند‬ ‫ہوج ت ہے ۔ گوی ب غب ن ہم وقت ک دی لو نہیں ہے ۔ ان حق ئ‬ ‫کی روشنی میں ب غب ن سے وابست توق ت ب طل ٹھہرتی ہیں ۔‬ ‫لہذا اس سے توق ت وابست کرن ف ل لاح صل سے زی دہ نہیں ۔‬ ‫وہ ن صر ف بخیل سے ب ک ج نبد ار اور گرہ ک پک ہے۔‬ ‫ی ش کو دیکھتے تھے ک ہر گوش ء بس ط دام ن ب غب ن وکف‬ ‫گل فروش ہے‬‫ب غب ن اپنے پھولوں کی بولی چڑھ رہ ہے اس سے زی دہ اندھیر‬

‫‪208‬‬ ‫کی ہوگ ۔‬ ‫‪:‬بت‬ ‫انس نی م شرتوں میں بت پرستی ع اور عروج پر رہی ہے ۔‬ ‫بتوں سے بہت س ری شکتی ں منسو رہی ہیں ۔انس ن دوستوں‬ ‫کی انس ن دوستی سے مت ثر ہو کر ان کے بت بن کر پوج کی‬ ‫ج تی رہی ہے۔ انہیں ط قت ک سرچشم سمجھ گی ہے ۔‬ ‫کھدائیوں میں مخت ف اقوا کے بن ئے گئے بت م ے ہیں ۔جس‬ ‫سے بتوں کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ شکتی کے ب عث ’’بت‘‘‬ ‫م شروں کے حقیقی اقتدار اع ٰی سمجھے گئے ہیں۔ بت‪ ،‬موحد‬ ‫کے لئے کراہت جبک بت پرستوں کے دلوں میں احترا کے‬ ‫احس س پیدا کرتے ہیں۔‬ ‫اردوغزل میں ل ظ’’بت‘‘ ک زی دہ تر محبو کے م نوں میں‬ ‫است م ل ہواہے۔ انش نے بت کو ایس خوبصور ت محبو جو‬ ‫دلی میں دوئی بن کر براجم ن ہوج ئے ‪ ،‬کے حوال سے نظ کی‬ ‫‪:‬ہے‬ ‫ج دو ہے نگ چھ ہے غض قہر ہے مکھڑا اور قدہے قی مت‬ ‫غ رت گردیں ہے وہ بت ک فر ہے سراپ اللہ کی قدرت ( )انش‬ ‫بت کے س تھ ’’ک فر‘‘ پیوند کرکے اس کی ک رگزاری‬ ‫(غ رتگردیں) واضح کر دی گئی ہے۔‬

‫‪209‬‬ ‫محمد ش کر ن جی کے ہ ں ‪ ،‬وہ جو اپنے وصف کے سب اچھ‬ ‫لگے ‪ ،‬اس کے مت ب تیں سنن خوش آت ہوگوی دلی ودم‬ ‫میں گھر کرے اور ی د مس سل بن ج ئے ‪ ،‬کے م نوں میں‬ ‫است م ل کی گی ہے۔‬ ‫اے صب کہ بہ ر کی ب تیں اس بت گ ذار کی ب تیں (‪) ۷‬ن جی‬ ‫جرات نے بت کو ف رٹ کرنے والا’’چ لو‘‘ اورعی ر کے طور پر‬ ‫‪:‬است م ل کی ہے‬‫کی ب ت کوئی اس بت عی ر کی سمجھے بولے ہے جو ہ سے تو‬ ‫اش رت کہیں اور( ) جرات‬ ‫غ ل نے ایس محبو جس سے پوج کی حدتک محبت کی‬ ‫‪:‬ج ئے ‪ ،‬کے م نوں میں لی ہے‬ ‫چھوڑوں گ میں ن اس بت ک فر ک پوجن چھوڑے ن خ گو‬ ‫مجھے ک فر کہے بغیر‬ ‫ایک دوسری جگ ‪ ،‬اس کی محبت کو ‪ ،‬ایم ن ک درج دے رہے‬ ‫‪:‬ہیں‬ ‫کیونکر اس ب ت سے رکھوں ج ن عزیز کی نہیں ہے مجھے‬ ‫ایم ن عزیز‬ ‫‪:‬ایک ش ر میں طنزک نش ن بن تے ہیں‬

‫‪210‬‬ ‫ت بت ہو پھر تمہیں پندار خدائی کیوں ہے ت خداوند ہی کہلاؤ‬ ‫خدااور سہی‬‫‪:‬درج ب لا مث لوں میں بت کے س تھ ل ظ تخصیص بھی نظ ہواہے‬ ‫بت ک فر انش ‪ ،‬غ ل‬ ‫بت گ ذار ن جی‬ ‫بت عی ر جرات‬ ‫اس بت غ ل‬ ‫ت بت غ ل‬ ‫ان س بقوں اور لاحقوں کی مدد سے بت پہچ ن سے ب ہر نہیں‬ ‫رہت ۔ایسے ہی جیسے لات و من ت‪ ،‬شیو‪ ،‬وشنوی برہم ‪ ،‬شتی کی‬‫مورتی ں ۔ ی بت سونے چ ندی اور پھولوں سے لدھے رہتے ہیں‬ ‫۔ محبو بھی بن ؤ سنگ ر سے غ فل نہیں ہوتے۔‬ ‫‪ :‬برہمن‬ ‫برہمن کو بتکدے (مندر) کی حرمت اور احترا ک امین سمجھ‬ ‫ج ت رہ ہے ۔ اس کی وج سے ہندودانش کے تم حوالے‬‫ہندوسم ج میں پھ ے پھولے ہیں۔ اسے ہند ودھر ک رکھوالا اور‬‫پرچ رک سمجھ ج ت رہ ہے۔ ہندوگی ن دھی ن سے مت اس نے‬ ‫دوسروں سے زی دہ ع اور ویدان ح صل کی ہوت ہے۔ دوسراوہ‬

‫‪211‬‬ ‫اونچی ذات سے مت ہوت ہے اس لئے ہند و سم ج میں محتر‬ ‫رہ ہے ۔ اسے ’’برہمن دیوت ‘‘ بھی کہ ج ت رہ ہے ۔ برہمن اپنے‬ ‫موقف میں ضدی‪ ،‬اڑیل اور ہٹھیل سمجھ ج ت ہے ۔ ل ظ برہمن‬ ‫ج ذہن کے پردوں سے ٹکرات ہے تو ہندو دھر سے مت‬ ‫لوگوں کے رو رو میں پرن کے چشمے اب نے لگتے ہیں ۔‬ ‫ل ظ برہمن اردو ش عری میں مخت ف حوالوں سے نمودار ہوا‬ ‫‪:‬ہے‬ ‫مومن نے فدا ہوج نے والا‪ ،‬اڑ ج نے والا ‪ ،‬تل ج نے والا ‪،‬‬ ‫دیوان وغیرہ کے م نوں میں است م ل کی ہے۔‬ ‫بن ترے اے ش روآتشکدہ تن ہوگی‬ ‫شمع قدپر میرے پروان برہمن ہوگی ( )مومن‬ ‫یقین ن ک می پر سٹپٹ نے والا کے م نوں میں است م ل کرتے‬ ‫ہیں۔‬ ‫برہمن سر کو پیٹت تھ دیر کے آگے‬ ‫خداج نے تری صورت سے بتخ نے پر کی گزرا ( )یقین‬ ‫محمد عظی الدین عظی فن ہوکر وصل ک ط ل ‪ ،‬جس ک جذ و‬ ‫خ وص اور استقلال مت ثرکرے‪ ،‬وہ جسے ہرکوئی دلی دے‬ ‫بیٹھے ‪ ،‬ایس محبو جو بہت سوؤں ک عش اپنے سینے میں‬ ‫مخ ی رکھنے والاوغیرہ م نوں میں است م ل کی ہے‬

‫‪212‬‬ ‫برہمن جس کے دلی میں آرزو ہے مرکے درسن کی‬ ‫)مجھے ہے آرزو ہر وقت درسن اس برہمن کی (‬ ‫عظی اس حسن عش آمیز نے مجھ دلی کوں گھیراہے‬ ‫)برہمن ہر ک عش ہے ‪،‬میں ع ش ہوں برہمن ک (‬ ‫غ ل نے ست روں ک حس کرکے مستقبل کی پیش گوئی کرنے‬ ‫ولا اور دھر سے وف دار ی کرنے والا کے م نوں میں نظ‬ ‫‪:‬کی ہے‬ ‫دیکھئیے پ تے ہیں عش بتوں سے کی فیض اک برہمن نے‬ ‫کہ ی س ل اچھ ہے‬ ‫وف داری بشرط استواری اصل ایم ں ہے مرے بت خ نے میں‬ ‫توک بے میں گ ڑو برہمن کو‬ ‫‪:‬بسمل‬ ‫بسمل ج ن قرب ن کرنے کے حوال سے اپن جوا نہیں رکھت ۔‬ ‫وف داری او ر استواری اس کردار ک خصوصی وصف سمجھ‬ ‫ج ت ہے۔ میدان میں اترنے والے کے ہ ں زندہ رہنے کی امید‬ ‫ہوتی ہے لیکن بسمل کو تڑپ تڑپ کر کشت ہونے ک یقین‬ ‫ہوت ہے۔ وہ اس کو ہی اپنی ک می او رمنزل سمجھت ہے۔ اسی‬ ‫حوال سے وہ ’’بسمل‘‘ کے لق سے م قو ہوت ہے۔ ج تے‬ ‫ہوئے تڑپن م شو کو تسکین دیت ہے ۔ اسے اس کے ع ش‬

‫‪213‬‬ ‫ص د ہونے ک یقین ہوج ت ہے ت ہ دوسری طرف اذیت پسندی‬ ‫کے الزا سے بھی بری نہیں ہو پ ت ۔ اذیت پسندی پیم نے‬ ‫متوازن نہیں رہنے دیتی ۔ بسمل کے حوال سے تین طرح کے‬ ‫‪:‬رویے ابھرتے ہیں‬ ‫الف ۔ حیرت انگیز وف داری اور استواری‬‫۔ وف داری کے یقین کے لئے اتنی کھٹن آزم ئش ک ع ش ج ن‬ ‫سے ج ئے‬ ‫ج۔ عش کی یقین دہ نی کے لئے ج ن پر کھیل ج ن سراسر‬ ‫حم قت اور ن دانی ہے‬‫جوبھی سہی ’’بسمل ‘‘ کو ج ن دینے اورم شو کو آزم نے میں‬ ‫آسودگی ح صل ہوتی ہے‬ ‫اردو ش عری میں ی کردار پوری آ وت سے زندہ نظر آت ہے‬ ‫۔کر دادخ ں درد ک کہن ہے ۔ محبو کے آست نے ک احترا‬‫م حوظ خ طر رکھتے ہوئے بسمل کے لئے لاز ہے ک وہ تڑپے‬ ‫لیکن محبو کے آست نے کی خ ک پر ب ل وپر ن لگنے‬ ‫پ ئیں۔محبو ‪ ،‬ع ش ص د کی تڑپت ک نظ رہ کرے۔ س تھ میں‬ ‫اس کے آست نے کی خ ک کسی کے خون سے آلودہ ن ہو ی نی‬ ‫اس خ ک پر خون ہونے ک الزا بھی ن آنے پ ئے ۔‬ ‫اد ضرورہے اس خ ک آست نے ک تڑپھ تو اس طرح بسمل ک‬

‫‪214‬‬ ‫ب ل وپر ن لگے( )درد‬ ‫خواج درد ک موقف ہے کشتے ک کچ رہ ج ن اور کشت ک ر‬ ‫ک اس سے غ فل ہوج ن درست نہیں کشت ۔ میں خ می ن رہن ہی‬ ‫کشت ک رک کم ل ہے۔‬ ‫نی بسمل کوئی کسوکو چھوڑ اس طرح بیٹھت ہے غ فل‬ ‫ہو( )درد‬ ‫م لق ب ئی چندا نے نکت نک لا ہے۔‬‫قدموں پ سر تھ کوئی روبروئے تیغ ابھی تڑپ سے رہ بسم وں‬ ‫ک جی ( ) چندا‬ ‫غ ل کے نزدیک بسمل کو اذیت لطف دیتی ہے لہذا جس قدر‬ ‫ممکن ہے اذیت (مش ن ز) دو ۔ متقولین ک خون میں اپنی گردن‬ ‫‪:‬پر لیت ہوں‬ ‫اسد بسمل ہے کس انداز ک ق تل سے کہت ہے ک مش ن ز کر‬ ‫خون دوع ل میری گردن پر‬ ‫ی کردار وف ش ری ‪ ،‬استق مت ‪ ،‬استواری اور م م ے سے‬ ‫کمٹ منٹ ک لاجوا نمون پیش کرت ہے۔‬ ‫‪:‬بشر‬ ‫بندہ بشر‘‘ ع بولا ج نے والامح ورہ ہے۔ اس مح ورے میں ’’‬

‫‪215‬‬ ‫لغزش آد ک واضح طور پر اش رہ موجود ہے۔ گوی بشر سے‬ ‫غ طی کوت ہی ن ممکن ت میں نہیں۔ وہ انس نیت کے کسی بھی‬‫درجے پر ف ئز ہوج ئے اس سے چوک ہوہی ج تی ہے ۔ ل ظ بشر‬ ‫ایسے کردار کو س منے لات ہے جو ضدین ک مجموع ہے۔ اس‬ ‫کی کسی لغزش ی کسی ک رن مے پرحیرت نہیں ہونی چ ہیے ۔‬ ‫اچھ ئی ‪ ،‬برائی دونوں عن صر اس کی فطرت ک حص ہیں۔‬ ‫محت ط اور بڑے لوگوں کی ’’بشری کوت ہیوں ‘‘ ک ریک رڈ ت ریخ‬ ‫اور آسم نی کت بوں میں موجودہے ۔ اردو غزل میں ل ظ‬ ‫’’بشر‘‘مخت ف حوالوں سے پینٹ ہواہے۔‬ ‫ح فظ عبدالوہ سچل ک کہن ہے بشر کے ظ ہر کو دیکھ کر کوئی‬ ‫اندازہ لگ لین من س نہیں ۔ بشر کے ب طن میں جھ نک کر‬ ‫دیکھن چ ہیے ک وہ اپنے ب طن میں کی کم ل کے خزینے‬ ‫چھپ ئے بیٹھ ہے‬ ‫صور ت بشر کی ہے مری‪ ،‬ظ ہر گد اگر ہوں بن‬ ‫ب طن کی پہچ نے مرے ‪،‬‬ ‫)س ط ن ہوں‪ ،‬س ط ن ہوں (‬ ‫علام ح لی کے نزدیک بشر اگر کوئی ک رن م سر انج نہیں‬ ‫دیت تو اس کی حیثیت ص ر زی دہ نہیں ۔‬ ‫بشر سے کچھ ہوسکے ن ایسے جینے سے کی ف ئدہ ہمیش‬

‫‪216‬‬ ‫بیک ر تجھ کو پ ی ‪ ،‬کبھی ن سرگر ک ردیکھ (‪) ۷‬ح لی‬ ‫غ ل بشر سے ’’بندہ بشر‘‘ ہی مراد لے رہے ہیں ۔‬ ‫دی ہے دلی اگر اس کو‪ ،‬بشر ہے‪،‬کی کہیے‬ ‫ہو ا رقی توہو‪ ،‬ن م برہے‪ ،‬کی کہیے‬‫بشر کوئی فو ال طر ت مخ و نہیں جواس سے صرف خیر کی‬ ‫توقع رکھی ج ئے ۔ اس سے خی نت اور بددی نتی ‪ ،‬کوئی حیرت‬ ‫کی ب ت نہیں۔‬ ‫ب بل ایران ک خوش گ و پرندہ ہے ۔ف رسی اور اردو ش را نے‬ ‫‪:‬ب بل‬ ‫اس ل ظ کو مخت ف م ہی میں است م ل کی ہے ۔ علامتی اور‬ ‫است راتی است م ل بھی پڑھنے کو م ت ہے ۔ اس ل ظ کے‬ ‫است م لات کی نوعیت کے مط ب ‪ ،‬مخت ف قس کے سم جی ‪،‬‬ ‫م شرتی اور سی سی حوالے ذہن میں ابھرآتے ہیں۔ت ہ خوش‬ ‫الح نی اس کردار ک بنی دی وصف رہ ہے ۔ درد سوز وگداز اور‬ ‫نوح گری کی مخت ف صورتیں بھی س منے آتی ہیں ۔ ارد وغزل‬ ‫مینی کردار مخت ف حوالوں سے بڑا متحرک رہ ہے۔مثلاا‬ ‫مظہر ج ن ج ن ں کے ہ ں عش میں محبو کے ہ تھوں س‬ ‫کچھ لٹ دینے والا کے طور پر نمودار ہواہے‬

‫‪217‬‬ ‫گئی آخر جلا کر گل کے ہ تھوں آشی ں اپن‬ ‫ن چھوڑا ہ ئے ب بل نے چمن میں کچھ نش ں اپن ( )مظہر‬‫بہ در مرزاخرد کے مط ب محبو ج آزادی چھین لینے کی تمن‬ ‫کرت ہے توی اس کی تمن کی تکمیل کے لئے از خود پ ب زنجیر‬ ‫ہوج ت ہے‬ ‫دلی اڑا کے پہنچ ‪ ،‬ج ہو ااس گل کوشو صید ب بل کو پر‬ ‫لگ دئیے شو شک رنے ( )خرد‬ ‫خواج برہ ن الدین آثمی نے ب بل کے ذری ے اپنے عہدے کے‬ ‫پرگھٹن ح لات اور شخص کی بے اختی ری کو واضح کی ہے۔ بے‬ ‫اختی ر اور آزادی سے محرو چہرے پر مسکراہٹ حرا ہوج تی‬ ‫ہے لیکن وہ روبھی نہیں سکت ۔ اس کی حیثیت کسی کل پرزے‬ ‫سے زی دہ نہیں ہوتی‬ ‫میں وہ ب بل ہوں ک صی د کے گھر بیچ پیدا ہوا جہ ں میں آنکھ‬ ‫جو کھولی ق س میں آشی ں دیکھ ( )آثمی‬ ‫میر ب قر حزیں کے مط ب خوبصور ت ح لات میسر ہوں تو نقل‬ ‫مک نی کی کو ن سوچت ہے ت ہ غ ص کے جبر کے زیر اثر‬ ‫س کچھ چھوڑن پڑت ہے ۔ حزیں نے ’’ب بل ‘‘ کے حوال سے‬ ‫ح لات کی ن خوشگواری واضح کی ہے۔‬ ‫ی کہ کے ب سے رخصت ہوئی ب بل ک ی قسمت‬

‫‪218‬‬ ‫لکھ تھ یوں ک فصل گل میں چھوڑیں آشی ں اپن ( )حردیں‬ ‫غ ل کے ہ ں ی کردار بطور نوح گر است م ل ہواہے ۔ انس نی‬ ‫فطرت ‪ ،‬مخت ف ح لات میں مخت ف رویے اختی ر کرتی ہے۔ دکھ‬ ‫ی ڈپریشن کی صور ت میں ح لات اور م حول کی تبدی ی اسے‬ ‫ری یف مہی کرتی ہے۔ج نوح گر س تھ میں ہوگ تووہ‬ ‫ن خوشگواری کوکیونکر بھولنے دے گ ۔ہم وقت ک رون دھون‬ ‫ن صر ف زندگی ک لطف چھین لیت ہے ب ک کچھ کر گزرنے کی‬ ‫حس کو بھی ن ق بل تلافی نقص ن پہنچت ہے۔ دیکھئیے غ ل اس‬ ‫ب میں کی کہتے ہیں‬‫مجھ کو ارزانی رہے تجھ کو مب رک ہوجیو ن ل ء ب بل ک درد اور‬ ‫خندہ گل ک نمک‬ ‫ب بل گوی ایس کردار ہے جو مس سل م یوسی اور پریش نی پھیلات‬ ‫ہے ۔ اس کے ن لے شخص کے درد کو ت زہ رکھتے ہیں۔‬‫ب بل ک متراد ف عندلی اردو غزل میں است م ل ہوت آی ہے ۔ یکر‬ ‫نگ اس کردار کے حوال سے نکت نک لتے ہیں ک عندلی کی‬ ‫ش یست اور کومل آواز اور اس کی آہ وفغ ں چ ر سو پھیل کر‬ ‫توج ح صل کر لیتی ہے۔ توج پھر ج نے کے سب افسردگی ک‬ ‫ع ل ط ری ہوج ت ہے‬ ‫ک نہیں کچھ بوئے گل سیتی فغ ن عندلی‬

‫‪219‬‬ ‫برگ گل سے ھیگی ن زک ترزب ن عندلی ( )یکرنگ‬ ‫غ ل کے ہ ں اس کردار کی ک ر فرم ئی اور ہی رنگ کی ح مل‬‫ہے ۔ ش دی میں نوح گری کی موجودگی بھلا کس کو خوش آتی‬ ‫ہے‬ ‫اے عندلی یک کف خس بہر آشی ں طوف ن آمدآمد فصل بہ رہے‬ ‫آمد فصل بہ ر میں نوح گر کو ’’آشی ں ‘‘ چھوڑنے ک مشورہ‬ ‫دین ہی ص ئ لگت ہے ک خواہ مخواہ رنگ میں بھنگ ڈالے گ ۔‬ ‫‪:‬بیم ر‬ ‫ی تے (طے) سی ب ت ہے ک بیم ر کے ش و روز ن گواری ‪،‬‬ ‫پریش نی اور وسوسوں ک شک ررہتے ہیں ۔یہی نہیں بیم ری اس‬ ‫کے اعص چٹ کر ج تی ہے اور اس کے سوچ کو من ی‬ ‫حوالوں کے س تھ جوڑے رکھتی ہے۔ بیم ر‪ ،‬تک یف ‪ ،‬کمزوری‬‫اور سوچ کے من ی زوایوں کے سب زندگی کے کسی میدان میں‬ ‫کوئی کردار اداکرنے سے ق صر رہت ہے۔ ’’ل ظ بیم ر‘‘ سنتے ہی‬ ‫ایک ایسے شخص ک تصور س منے آج ت ہے۔ جوہمدردی ک‬ ‫مستح ہوت ہے لیکن اس کی ہر وقت کی م یوسی اور ہ ئے‬ ‫وائے دم پر بوجھ س بن ج تی ہے۔ اردو غزل میں ی کردار‬ ‫نظر انداز نہیں ہوا۔ بیم ر عش کے علاوہ بیم روں ک ذکر بھی‬ ‫م ت ہے۔‬

‫‪220‬‬‫مرزاسودا ک کہن ہے ع رضے میں مبتلا شخص ک عج ح ل ہو‬ ‫ج ت ہے ۔ ہجر ک ع رض سوچ کو ج مد کرکے رکھ دیت ہے۔ ہجر‬ ‫کی بیم ری انس ن کو اندر سے کھ ئے چ ی ج تی ہے‬ ‫تیری دوری سے عج ح ل ہے ا سودا ک میں تو دیکھ نہیں‬ ‫ایس کوئی بیم ر ہنور ( )سودا‬ ‫می ں محمدی م ئل ک خی ل ہے ک بیم ری کی ’’ہوس‘‘ بڑھ ج تی‬ ‫ہے۔ اگرچ ہوس بھی ذہنی ع رض ہے ۔‬ ‫کی کہوں میں تجھ سے دلی زار کی ہوس مشہور ہے جہ ں میں‬ ‫بیم رکی ہوس ( ) م ئل‬ ‫لال نول رائے وف کے نزدیک بیم ر کی بیم ری سے اندازہ‬ ‫ہوج ت ہے ک وہ زی دہ دیر ک نہیں‬ ‫کہنے لگ وہ من کے مرا ن ل وفغ ں ی ر جی کرئے گ ی‬ ‫بیم ر ک ت ک ( ) وف‬ ‫میر محمدی قرب ن کے نزدیک ’’نگ ک بیم ر‘‘ مسیح کی‬ ‫دسترس سے ب ہر ہوت ہے۔ کوئی م لج (سمجھ ن بجھ ن ) اس پر‬ ‫ک رگر ث بت نہیں ہوت ب ک نیتج الٹ ہی نک ت ہے ۔ نگ ہ ال ت ک‬ ‫نگ ہ قہر ک ڈس لاعلاج ہوت ہے‬‫کسی کی برگشت ک ہوں میں بیم ر ی ں مسیح کی ہوئی ج تی ہے‬ ‫تدیبر الٹی ( )قرب ن‬

‫‪221‬‬ ‫جہ ں دار ک بھی یہی نظری ہے‬ ‫تیرے بیم ر ا کے تےءں جو دیکھ مسیح کی نہیں کرتی دوا‬ ‫خو (‪ ) ۷‬جہ ں دار‬ ‫محبت خ ں محبت کے خی ل میں بیم ر عش ک جین مرن برابر‬ ‫ہوت ہے ۔وہ عمرانی حوال سے بیک ر محض ہوت ہے۔‬ ‫جس کو تیری آنکھوں سے سر وک ر رہے گ ب ل رض جی بھی‬ ‫تو وہ بیم ر رہے گ ( )محبت‬ ‫غ ل نے ع ش کے س تھ ’’بیم ر‘‘ک پیوند کرکے عش کو‬ ‫بیم ری قرار دی ہے۔ان کے نزدیک ی بیم ری ج ن لے کر د‬ ‫لیتی ہے‬ ‫مندگئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں ہے ہے خو وقت آئے ت‬ ‫اس ع ش بیم ر کے پ س‬ ‫بیم ر ک مترادف ل ظ’’ مریض‘‘ بھی اردو غزل میں اپنی الگ‬ ‫سے پہچ ن رکھت ہے۔ یہ ں بھی ع ش ہی مریض سے م قو‬ ‫نظر آت ہے میر ص ح کے نزدیک مرض عش ج ن لے کر‬ ‫چھوڑت ہے۔ عش گوی ایک ن سی تی ع رض ہے جس کی شدت‬ ‫سے ج ن بھی ج سکتی ہے۔‬ ‫مت کر عج جو میر ترے غ میں مرگی جینے ک اس مریض‬ ‫کے کوئی بھی ڈھنگ تھ ؟ ( ) میر‬

‫‪222‬‬ ‫ق ئ کے خی ل میں مریض عش ک مرج ن ہی اچھ ہے ۔ اس ک‬‫ہرد وب ل ہوت ہے۔ وب ل(اذیت) ک جین بھی کی جین ہے۔ اس سے‬ ‫مرج ن ہی بہتر ہوت ہے‬‫چھوٹ ترا مریض اگر مرگی ک شوخ جو د تھ زندگی ک سو اس‬ ‫پر وب ل تھ ( ) ق ئ‬ ‫می ں جگنو کے نزدیک ‪ ،‬مریض عش ‪ ،‬ع رض عش میں رہے‬ ‫تو اچھ ہے ۔ اس ک بہتر ہون دوسروں کو بیم ر کر دیت ہے۔ وہ‬ ‫قص ء عش سن سن کر اوروں کو ہ ک ن کردے گ ۔‬ ‫ایسے مریض عش کو آزار ہی بھلا اچھ کبھی ن ہووے ی‬ ‫)بیم ر ہی بھلا (‬ ‫غ ل کہتے ہیں مریض عش کی ح لت دیکھنے والا ‪ ،‬مریض‬‫کی مرض سے زی دہ واقف ہوت ہے۔ اگر کوئی م لج‪ ،‬تیم دار کے‬ ‫کو نظر انداز کرکے دعو ٰی ب ندھے ک ی اچھ ‪Coments‬‬ ‫ہوج ئے گ اور اگر وہ اچھ ن ہوتو مسیح کو سزا(جرم ن ) دی‬ ‫ج ئے ۔ ایک دوسرا پہ و ی بھی ہے ک ج تک مرض عش کو‬ ‫ہوا دینے والے ب قی رہیں گے کسی کی مسیح ئی ک ن آسکے‬ ‫گی‬ ‫لوہ مریض عش کے تیم دار ہیں اچھ اگرن ہوتو مسیح ک کی‬ ‫علاج‬

‫‪223‬‬ ‫پروان ‪ :‬اس ل ظ ک علامتی اور است رتی است م ل ہوت آی ہے ۔‬ ‫پروان ‪ ،‬ایث ر‪ ،‬قرب نی اور مت کی علامت ہے۔ اسے ہر ح ل میں‬ ‫قرب ن ہون ہوت ہے۔ اردو غزل میں ی کردار بڑا م تبر ‪ ،‬متحرک‬ ‫اور ج ندار چلا آت ہے۔ ی ع ش ‪ ،‬دھرتی اور مذہ پر قرب ن‬‫ہونے والا کے طور پر پڑھنے کو م ت ہے۔ است د ذو کے نزدیک‬ ‫وہ جو منزل مقصود سے دور اور منزل تک رس ئی کے وس ئل‬ ‫ن رکھت ہو‬ ‫ب بل ہوں صحن ب سے دور اور شکست پر پروان ہوں چرا‬ ‫سے دور اور شکست پر ( ) ذو‬ ‫پروان کے لئے ل ظ پتنگ بھی است م ل ہواہے ۔ خسرو نے اس‬ ‫سے مراد عش کی آگ میں جل مرنے والا لی ہے۔‬ ‫میرا جو بن ت نے لی ت نے اٹھ غ کو دی ت نے مجھے ایس‬ ‫)کی جیس پنتگ آگ پر (‬ ‫غ ل کے ہ ں بطور حسن شن س ‪ ،‬محبو کے مت کسی قس‬ ‫کی شک یت پر وک لت کرنے والا کے م نوں میں لی گی ہے۔‬ ‫ج ں در ہوائے یک نگ گر ہے اسد پروان ہے وکیل ترے‬ ‫داد خواہ ک‬ ‫‪:‬جلاد‬ ‫ل ظ ’’جلاد‘‘ خوف اور ن رت پیداکرت ہے۔ ظ ل ‪ ،‬ج برا ور اذیت‬

‫‪224‬‬ ‫پسند کے لئے بولاج ت ہے۔ ی سرک ری ملاز ہوت ہے۔ اپنی‬ ‫مرضی سے کسی کو کوڑے نہیں لگ ت اور ن ہی کسی کی ج ن‬ ‫لیت ہے۔ ح ک کے حک سے جی ر ی کسی دوسرے عہدیدار کی‬ ‫موجودگی میں‪ ،‬ح ک کے حک کی ت میل کرت ہے اوراس ضمن‬ ‫میں کسی رورع یت سے ک نہیں لیت ۔ ترس ی رح کی صورت‬ ‫میں ح ک کے حک کی ت میل نہیں ہو پ تی ۔سنگدلی اور بے‬ ‫حسی کے حوال سے کن یت جلاد ک ل ظ است م ل میں آت ہے۔‬ ‫ان اللہ یقین نے زندگی کی کھٹورت کو س منے رکھتے ہوئے‬ ‫جلاد کے کردار کوواضح کی ہے ک وہ زندگی کے مص ئ وآلا‬ ‫سے نج ت دلات ہے۔ اس لئے خون بہ اسی کو پہنچن چ ہیے‬‫چھٹے ہ زندگی کی قید سے اور داد کو پہنچے وصیت ہے ہم را‬ ‫خوں بہ جلاد کو پہنچے ( )یقین‬ ‫ولی دکنی ف ک کو جلاد ک ن دے رہے ہیں ۔ ت ہ انس ن ک‬ ‫’’غمزہ ء خون ریز‘‘ کی ت وہ بھی نہیں لا سکت‬‫زخمی ہے جلاد ف ک تجھ غمزہء خوں ریز ک ہے شور دری میں‬ ‫سدا تجھ زلف عنبربیزر ک ( )ولی‬‫سید عبدالولی عزلت ک کہن ہے ج زندگی سے نج ت کی خواہش‬ ‫ہوتی ہے جلاد زندگی سے نج ت نہیں دلات ب ک اذیت میں مبتلا‬ ‫کودیکھت رہت ے۔‬

‫‪225‬‬ ‫نی بسمل ہوا میں تیغ نگ ت رکھ لی کس بھ ے وقت بر ا ہوگی‬ ‫جلاد ک بس ( ) عزلت‬ ‫شہید کے نزدیک جلا دبے اعتب ر ا ہے۔ آرزو ک قتل کرت ہے۔‬ ‫م رنے سے زی دہ دیکھ میں دکھ کر آسودگی محسوس کرت ہے‬ ‫شہید آخر مقدر تھ ہمیں حسرت میں جی دیت ہم رے سر پر آکر‬ ‫پھر گی جلاد ی قسمت (‪) ۷‬شہید‬ ‫غ ل جلاد کے حوال سے محبو کی اذیت پسندی اج گر کرتے‬ ‫ہیں۔ جلاد بڑی بے دردی سے م ررہ ہے۔ وہ توسنگدل ہے ہی‪،‬‬ ‫محبو کہے ج رہ ہے ’’اور م رو‪ ،‬اور م رو‘‘۔ محبو کو اذیت‬ ‫نواز سے واسط ہے ۔ کہتے ہیں جلاد کی بے رحمی کے سب‬ ‫ج ن ہی کیوں ن چ ی ج ئے لیکن محبو کی آواز ’’اور م رو‘‘‬ ‫ک ن میں پڑتی رہنی چ ہیے۔محبو رح سے کوسوں دور ہے‬ ‫جبک مضرو کو محبو کی عد تسکین لطف دے رہی ہے‬ ‫مرت ہوں اس آواز پ ہر چند سراڑ ج ئے جلاد کو لیکن وہ کہے‬ ‫ج ئیں ک ہ ں اور‬ ‫‪ :‬حسن‬‫اللہ ت ل ٰی نے انس ن کی سرشت میں ذو جم ل رکھ دی ہے ۔ اس‬ ‫لئے حسن شن سی کی ت ریخ انس ن کے س تھ چ تی ہے ۔ جس ک‬

‫‪226‬‬ ‫ثبوت ہ بیل ک قتل ہے۔ ’’حسن‘‘ اپن الگ سے وجود ن رکھتے‬ ‫ہوئے انس نی زندگی میں بڑے م تبر اور متحرک کردار ک ح مل‬‫ہے۔ حسن نے بلا امتح ن کسی کو اپن نہیں بن ی ۔ اردو غزل میں‬‫حسن کے کردار کو مخت ف حوالوں اور زوایوں سے اج گر کی گی‬ ‫ہے۔‬ ‫ش ہ ولی ا للہ ولی ک کہن ہے حسن ایک م جزہ ہے ۔ شکتی دیت‬ ‫ہے ‪ ،‬روشنی پھیلات‬ ‫خوبی اعج ز حسن ی ر گر انش کروں بے تک ف ص ح ء ک غذید‬ ‫بیض کروں ( ) ولی‬ ‫محمد عظی الدین عظی کے مط ب حسن آگ ہے جواس کے‬ ‫قری ہوت ہے جل کر کب ہوج ت ہے۔‬ ‫گ شن میں ج وہ گل رومست شرا ہوئے اس حسن آتشیں پر‬ ‫ب بل کب ہوئے ( ) عظی‬ ‫انس ن نیکی ‪ ،‬خوبصورتی اورہ آہنگی کی ج ن فطری میلان‬ ‫رکھت ہے( ‪)۷‬اس لئے ل ظ ’’حسن ‘‘ اس کے تم حواس بیدا ر‬ ‫کردیت ہے اور اپنے ارد گرد اس کو تلاشنے لگت ہے۔ اشی ء کے‬ ‫مثبت پہ وؤں پر غور کرت ہے۔ اشی ء میں خوبی ں تلاش کر ت ہے‬ ‫پھر اسے بدبو دار کوڑا بھی برا نہیں لگت اور کراہت کی حیثیت‬ ‫لای نی ہوکر رہ ج تی ہے ۔ حسن درحقیقت تحریک ک دوسران‬ ‫ہے۔ ’’حسن‘‘ ظ ہر میں کچھ ہے اور ب ض اوق ت اپنی کریہ‬

‫‪227‬‬ ‫ہےئت کے سب وج ء امتح ن ٹھہرت ہے ۔جونہی ظ ہری لب دہ‬ ‫چ ک ہوت ہے اف دے ک دروازہ کھل ج ت ہے ۔ی بھی ممکن ہے‬ ‫ظ ہر ج ذ نظر ہو جبک ب طن کریہ اور ق بل ن رت بھی ن ہو۔‬ ‫حسن اپنی سرشت میں مقن طیست رکھت ہے اس لئے وہ مت ثرہ‬‫کرت ہے ت ہ ہرکسی پر اس کے فیوض کے خزانے نہیں کھ تے ۔‬ ‫‪:‬بقول غلا رسول مہر‬‫خود کوس دہ اور بے خبر ظ ہرکرت ہے لیکن اپنی اصل میں بڑا ’’‬ ‫ہوشی ر اور پر ک ر ہوت ہے۔ لوگوں کے حوص ے ہمت اور صبر‬ ‫)واستقلا ل ک امتح ن لیت ہے‘‘۔( ‪۷‬‬ ‫غ ل کی زب نی سنےئے ۔‬‫س دگی و پرک ری وبے خودی وہشی ری حسن کو تغ فل میں جرات‬ ‫آزم پ ی‬ ‫‪ :‬دشمن‬‫ن رت اور محبت انس نی زندگی ک حص رہے ہیں ۔ جہ ں انس ن ‪،‬‬‫انس ن کے دکھوں ک مداوا کرت چلاآرہ ہے وہ ں انس ن دشمنی بھی‬‫عروج پر رہی ہے۔ چونک تض د انس ن کی فطرت ک جزو ہے اس‬ ‫لئے دوستی کے س تھ دشمنی ایسی کوئی نئی اور انوکھی‬ ‫چیزنہیں ہے۔ ی ل ظ برصغیر کی مخت ف زب نوں میں ا سی طرح‬ ‫ی تھوڑی بہت تبدی ی کے س تھ رائج چلا آت ہے۔ ی ل ظ ڈر خوف‬ ‫اور ن رت کے س تھ س تھ تح ظ ذات ک احس س بھی پیداکرت ہے۔‬

‫‪228‬‬‫ش ہ نصیر کے نزدیک کسی سب کے ب عث دشمنی جن لیتی ہے‬ ‫مجنوں سے ہے جو ن ق ء لی ٰی کو دوستی دشمن ہے اس لئے‬ ‫وہ بی ب ں میں خ ر ک ( ‪ )۷‬ش ہ نصیر‬ ‫مرزا مظہر ج ن ج ن ں ایسے دوست جس ک کردار بدترین دشمن‬ ‫ک س ہو ‪ ،‬کے لئے دشمن ک ل ظ است م ل کرتے ہیں۔‬ ‫جو تونے کی سو دشمن بھی نہیں دشمن سے کرت ہے غ ط تھ‬ ‫تجھ کو جوہ ج نتے تھے مہر ب ں اپن ( ‪)۷‬ج ن ں‬ ‫رقی کے لئے بھی ’’دشمن ‘‘ ہی ل ظ است م ل میں لاتے ہیں۔‬‫وہی کیوں نہیں اٹھتی قی مت م جراکی ہے ہم رے س منے پہ و میں‬ ‫)وہ دشمن کے بیٹھے ہیں( ‪۷‬‬ ‫غ ل ’’دشمن ‘‘ کے ایک دوسرے کردار پر روشنی ڈالتے ہیں‬ ‫عش میں بیدادرشک غیر نے م را مجھے کشت ء دشمن ہوں‬ ‫آخر گرچ تھ بیم ر دوست‬‫بلاشب رقی سے بڑ ادشمن کون ہوگ ۔ رق بت قطرہ قطرہ نچوڑتی‬ ‫ہے۔‬ ‫‪ :‬دوست‬

‫‪229‬‬ ‫ل ظ دوست تہذیبی اور ثق فتی ت ریخ میں بڑا مضبوط اور توان‬‫حوال رکھت ہے ۔ انس نوں نے انس نوں کو اور قوموں نے قوموں‬ ‫کو م ملات حی ت کے ضمن میں ‪ ،‬وقت پڑنے پر ی پھر من ک‬ ‫بوجھ ہ ک کرنے کے لئے دوست بن ی ہے۔ ان پر اعتم د کی ہے‬ ‫ان سے م شی لین دین رکھ ہے۔ ان سے خونی رشتے استوار‬ ‫کئے ہیں۔ان کے لئے خون بہ ی ہے۔ ت ہ اعتم د جیت کر برب د‬ ‫کرنے والے بھی دوست ہی رہے ہیں ۔ اس من ی حقیقت کے‬ ‫ب وجود ل ظ ’’دوست ‘‘ اپنے دامن میں وس ت‪ ،‬توان ئی ‪ ،‬خ وص‬ ‫و محبت اور پ کیزگی رکھت ہے ۔ انس ن ک اعتم دبح ل کرت ہے۔‬ ‫حوص ے اور تس ی ک سب بنت ہے۔ ی ل ظ یقین ابڑاخوبصور ت‬ ‫اور اعص پر مثبت اثرات مرت کرنے اور ن سی تی تسکین‬ ‫فراہ کرنے والا ہے۔دوست ک کردار ہمیش سے متحرک رہ ہے۔‬ ‫خدااور م شو کے لئے بھی ی است م ل میں آت رہ ہے۔ اردو‬ ‫‪:‬غزل سے چند مث لیں ملاحظ ہوں‬ ‫میر حیدر الدین ک مل ک کہن ہے ک دوست ‪ ،‬دوست کی خط ؤں‬ ‫سے درگذرکرت ہے اور اسے م ف کردیت ہے۔ دوست ک ی کردار‬ ‫سچی اور سچی دوستی کی نش ندہی کرت ہے۔‬ ‫دوست بخشے گ دوست س کے س گرچ ع صی ہوں اس ک‬ ‫آسی ہوں ( ‪)۷‬ک مل‬ ‫دوستی ک ی پیم ن اللہ ت ل ٰی کی ذات گرامی پر فٹ آت ہے ۔ت ہ‬

‫‪230‬‬ ‫دوستی ایسے حوالوں کی متق ضی ہے ۔‬ ‫دا دہ وی کہتے ہیں دوست ‪،‬دوست کے لئے مخبری ک فریض‬ ‫بھی سرانج دیت ہے‬ ‫قس دے کر انہی پوچھ لو ت رنگ ڈھنگ ان کے‬ ‫تمہ ری بز میں کچھ دوست بھی دشمن کے بیٹھے ہیں( ‪)۷‬دا‬ ‫مرزامظہر ج ن ج ن ں کے مط ب دوست اپن بن کر لو ٹ لیتے ہیں‬ ‫ہم رے س تھ سے ی دلی بھی بھ گ لے کے ج ں اپن‬ ‫ہ اس کو ج نتے تھے دوست مہرب ں اپن (‪ )۷۷‬ج ن ں‬ ‫خواج درد کے نزدیک دوستوں کی دوستی بھی مقدرسے میسر‬ ‫آتی ہے۔ نصی ی وری ن کرے تو دوست دشمن بن ج تے ہیں۔‬ ‫ی وری دیکھیے نصیبوں کی دوست بھی ہوگئے مرے دشمن‬ ‫( ‪ )۷‬درد‬ ‫‪:‬غ ل ک انداز بی ں اور بقول ش داں ب گرامی‬ ‫دوست ہمیش ہمدردی اور غمخواری کرتے ہیں ت ہ دوست ’’‬ ‫ک نوں کے کچے اور چغ ی سن کر بدگم ن بھی ہوج تے‬ ‫)ہیں۔( ‪۷‬‬

‫‪231‬‬ ‫دوست غمخواری میں میری س ی فرم ئیں گے کی‬ ‫زخ کے بھرآنے ت ک ن خن ن بڑھ ج ئیں گے کی‬ ‫‪:‬ایک دوسری جگ کہتے ہیں‬ ‫ت کرے ن غم زی کر لی ہے دشمن کو دوست کی شک یت میں‬ ‫ہ نے ہ زب ں اپن‬ ‫‪:‬رقی‬ ‫کسی م م ے کی پوشیدگی کے س تھ س تھ من ک بوجھ ہ ک‬ ‫کرنے ‪ ،‬صلاح ومشورہ ‪ ،‬واسطوں اور رابطوں کے لئے کسی‬ ‫’’اپنے ‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اکثر و بیشتر ’’ی اپنے ‘‘‬‫نقص ن ک سب بنتے ہیں۔ جوپہ ے سے رق بت رکھت ہو اس سے‬ ‫نبر دآزم ہون ‪ ،‬مشکل ک نہیں ہوت ت ہ خ ی رق بت نقص ن ک‬ ‫موج بنتی ہے۔ ج بھی اس قس کے کردار ک حوال س منے‬ ‫آت ہے ۔ ن رت اور کراہت کے جذب ت ابھرتے ہیں اس لئے ایسے‬ ‫کردار سے خوف کھ ن فطری سی ب ت ہے ۔ ایک ہی محبو کے‬ ‫دوع ش آپس میں رقی ہوتے ہیں ۔اردو غزل میں سے چند‬ ‫‪ :‬مث لیں ملاحظ فرم ئیں‬ ‫ش ہ ولی اللہ اشتی نے دعو ٰی ب ندھنے اورر ائے دہندہ کے‬ ‫م نوں میں ی ل ظ است م ل کی ہے‬ ‫ن چھوڑا م ربھی کھ کر گزر گ ی ک تری رقی کو مرے دعو ٰی‬

‫‪232‬‬ ‫ہے بے حی ئی ک ( ) اشتی‬ ‫محمد عظی الدین عظی نے گھ ت میں رہنے ولا ‪ ،‬نش ن ہدف‬ ‫بن نے والا ‪ ،‬جس سے خوف آت ہو کے م نوں میں است م ل‬ ‫کی ہے‬ ‫چھپ دیکھت ہوں تجھ کو رقیب ں کے خوف سے‬ ‫مکھ میں نین ‪،‬نین میں نظر‪ ،‬میں نظر میں ہوں ( ) عظی‬ ‫خواج درد نے رقی کو ح سد کے م نی پہن ئے ہیں۔‬‫آنسومرے جوانہوں نے پونچھے کل دیکھ رقی جل گی ( )در د‬ ‫چندا نے رک وٹ ڈالنے والا ‪ ،‬ح ئل ہونے والا کے م نوں میں‬ ‫نظ کی ہے‬ ‫دیکھ چمن میں واسطے ب بل کے ج بج ہر گز نہیں رقی‬ ‫سواکوئی خ ر گل( ) چندا‬ ‫میر س دت ع ی س دت کے نزدیک رقی وہ ن دان کردار ہے‬ ‫جس کی ن دانی کے سب کسی دوسرے ک ک سنور‬ ‫ج ت ہے۔( ) غ ل انتہ ئی قرابت دار اورہ راز کو رقی ک ن‬ ‫دیتے ہیں ۔ قرابت کے سب رق بت میں مبتلا ہوکر دشمنی پر‬ ‫اترآت ہے ۔ خی نت ک مرتک ہوت ہے ۔ بھروس اور یقین سے‬ ‫ف ئدہ اٹھ کر نقص ن پہنچ ت ہے‬

‫‪233‬‬ ‫ذکر اس پری وش ک پھر بی ں اپن غ ل بن گی رقی آخر تھ‬ ‫جوراز داں اپن‬ ‫‪:‬س قی‬ ‫ل ظ ’’س قی ‘‘ شرا پلانے والے کے لئے بولا ج ت ہے ۔ اس‬ ‫سے ہ دی‪ ،‬پیرو مرشد ‪ ،‬حضور‪ ،‬محبو ‪ ،‬م شو وغیرہ م نی‬ ‫بھی مراد لئے ج تے ہیں ۔ی ل ظ عوامی نہیں لیکن اردو اور‬ ‫برصغیر کی کئی دوسر ی زب نوں کی ش عری میں نظ ہوت آرہ‬ ‫ہے ۔ ی ل ظ اہل ذو پ رنش کی کی یت ط ری کر دیت ہے۔ کسی‬‫س بقے ی لاحقے کے جڑنے سے کسی مخصوص کردار کی طرف‬ ‫توج مبذول کرواد یت ہے۔ مرک کی صور ت میں دم پر‬‫مخت ف نوعیت کے اثرات مرت ہوتے ہیں۔ اردو ش عری میں ل ظ‬ ‫‪:‬س قی کے است م ل کی چند مث لیں ملاحظ ہوں‬‫بھگونت رائے راحت اس سے مہر ومحبت سے فیض ی کرنے‬ ‫والا مراد لیتے ہیں‬ ‫پلا مجھ کو س قی محبت ک ج رہوں ی د میں اوس کی سرخوش‬ ‫خرا ( ) راحت‬ ‫پیرمرادش ہ ک کہتے ہیں وہ جس کی شرا حلال اور اس کے‬ ‫عن یت کئے گئے ج میں نبی ک جم ل نظر آت ہو۔ س قی بم نی‬ ‫تقیس کنندہ ‪ ،‬اس کی مے شرعی جواز رکھتی ہو‬

‫‪234‬‬ ‫پلامجھ کو س قی شرا حلال نبی ک نظر آوے جس میں جم ل (‬ ‫)پیر مراد ش ہ‬ ‫محمد ص بر محمود س قی سے عن یت کرنے والا‪ ،‬فیض ی‬ ‫کرنے والا ‪،‬پر جوش عن یت والا مراد لیتے ہیں‬ ‫دیت ہے ب دہ س قی مین ئے آتشی سوں رکھت ہے مست دلی کوں‬ ‫گ رنگ بے غشی سوں(‪ ) ۷‬ص بر‬ ‫ذو کے نزدیک وہ جوکسی اور کے اش رے سے ب نٹ کر ت ہو‬ ‫کرت ہے ہلال ابروئے پرخ ہے اش رہ س قی کو ک بھردے ب دے‬ ‫سے کشتی طلائی ( )ذو‬ ‫عبدالحی ت ب ں اس کو س قی م نتے ہیں جو تق ضوں سے ب لا تر‬ ‫ہوکر پلائے‬ ‫ایم ن ودیں سے ت ب ں مط نہیں ہے ہ کو‬ ‫س قی ہو اور مے ہومین ہو اور ہ ہوں ( ) ت ب ں‬ ‫غ ل ک اپن ہی رنگ ہے ۔ ایس کردار جواپنی فی ضی پر‬ ‫اترات ہولیکن میخوار کی بلانوشی اس ک غرور خ ک میں ملاکر‬ ‫رکھ دے‬ ‫لے گئی س قی کی نخوت‪ ،‬ق ز آش می مری موج مے کی آج رگ‬

‫‪235‬‬ ‫مین کی گرد ن میں نہیں‬ ‫ایک دوسری جگ لکھتے ہیں ک س قی وہ ہے جوہر آنے والے‬ ‫کو پلائے۔ خواہ اس کی مرضی ہو ی ن ہو۔گوی ہر ح لت میں‬ ‫پلائے‬ ‫میں اور بز مے سے یوں تشن ک آؤں گرمیں نے کی تھی‬ ‫توب ‪،‬س قی کوکی ہوا‬ ‫ایک تیسری جگ ’’کوثر‘‘ ک لاحق بڑھ کر جن امیر(ع) کی‬ ‫ذات ع لی مراد لیتے ہیں ک ان کی ذات ایسی نہیں جوبخل سے‬ ‫ک لے‬ ‫کل کے لئے کر آج ن خست شرا میں ی سوء ظن ہے س قی‬ ‫کوثر کے ب میں‬ ‫ستمگر ‪ :‬اردو غزل میں ی ل ظ زی دہ تر محبو کے لئے‬ ‫مست مل رہ ہے ۔ی ل ظ سنتے ہی بڑا ظ ل ‪ ،‬ب ت ن سننے والا‪،‬‬ ‫ضدی ‪ ،‬خود پسندمحض ن زنخرے والا محبو ‪ ،‬آنکھوں کے‬ ‫س منے گھو ج ت ہے۔ امیر شہر کے لئے بھی ی ل ظ ن من س‬ ‫نہیں سمجھ گی ۔ رائے ٹیک چند بہ ر نے اس کردار سے کچھ‬ ‫‪:‬ایسی ہی خوبی ں منسو کی ہیں‬ ‫۔ مکمل گرفت میں لینے والا‬ ‫۔ مت ثر کرنے کی ط قت رکھنے والا‬

‫‪236‬‬ ‫۔ جوبلاوج قتل (گرویدہ ) کر ت ہے‬ ‫کرئے ہے ی ستمگر قتل بے تقصیر کی کہیجے‬ ‫جوان کے ہ ں یوں مرن ہے تقدیر کی کہیجے ( ) بہ ر‬ ‫عبدالحی ت ب ں نے اس سے ایس کردار مراد لی ہے جوظ ل تو‬ ‫ہے لیکن آہ وزاری سے مت ثر بھی ہوت ہے‬ ‫ا مہرب ں ہو اہے ت ب ں تراستمگر آہیں تیری کسی نے ش ید‬ ‫ج کر سن ئی ں ہیں ( ) ت ب ں‬‫غ ل کے نزدیک ی ایس کردار ہے جس کے ظ وست کی کوئی‬ ‫حدنہیں ہوتی ۔ یہ ں تک ک وہ اپنے ست کے شک ر کی موت پر‬ ‫بھی اکت نہیں کرت ۔ وہ اس سے بڑھ کر ست ک خواہش مند‬ ‫ہوت ہے۔ ن مرنے دیت ہے اور ن جینے‬ ‫میں نے چ ہ تھ ک اندوہ وف سے چھوٹوں وہ ستمگر مرے‬ ‫مرنے پ بھی راضی ن ہوا‬ ‫غ ل اس امر ک اعلان کرتے ہیں ک ستمگر سے اچھ ئی اور‬ ‫بہتری کی امید نہیں کی ج سکتی‬ ‫وہ دن بھی ہوک اس ستمگر سے ن ز کھینچوں بج ئے حسرت‬ ‫نز‬ ‫ان کے نزدیک ی کردار ط ن زنی کرت رہت ہے ک کچھ کھ کر‬

‫‪237‬‬ ‫مرکیوں نہیں ج تے‬ ‫زہر م ت ہی نہیں مجھ کو ستمگر ورن کی قس ہے ترے م نے‬ ‫کی ک کھ بھی ن سکوں‬ ‫‪:‬شمع‬ ‫روشنی کی ضرورت واہمیت سے کبھی بھی انک ر نہیں کی گی ۔‬ ‫شمع ہمیش سے بہتر ک رگزار ی ک وسی رہی ہے۔ روشنی کے‬ ‫کئی م نی لئے ج تے ہیں ۔ مثلاا‬ ‫)الف۔ چرا ۔ ہدایت ‪ ،‬ہدایت دینے والا ج۔ رہنم ئی (رہنم‬‫د۔ جومح ل ‪،‬م شرہ ی تہذی کو اپنی دانش اور حکمت سے چ ر‬ ‫چ ند لگ دے‬ ‫ہ ۔ خوبصورت محبو ‪ ،‬جس پر ایک زم ن مرت ہو‬ ‫و۔ ع دل ح ک وقت‬ ‫شمع ‘‘ روشنی ک ذری ہے روشنی براہ راست بص رت سے ’’‬ ‫ت رکھتی ہے۔روشنی جتنی بہتر‪ ،‬س زگ ر‪،‬ش ف اور ضرورت‬ ‫کے مط ب ہوگی بص رت کی ک رگزاری اتنی ہی بہتر اور واضح‬ ‫ہوگی۔ مش ہدے ک واضح اور ش ف ہون ادراک کے ابہ‬ ‫دورکرنے ک سب بنت ہے۔ل ظ شمع اردو غزل میں بطور کردار ‪،‬‬ ‫علامت ‪ ،‬است رہ ‪ ،‬مشب ب بکثرت است م ل ہواہے ۔ میر‬ ‫عبدالحی ت ب ں نے نر دلی کو موضوع گ تگو بن ی ہے‬

‫‪238‬‬‫مح ل کے بیچ سن کر مرے سوز دلی ک ح ل بے اختی ر شمع کے‬ ‫آنسو ڈھ ک پڑے ( ) ت ب ں‬‫گوی شمع وہ کردار ہے جوکسی دوسرے ک درد اپنے سینے میں‬ ‫محسوس کرکے دکھی ہوت ہے۔ بطور است رہ ہمدرد اور نر دلی‬ ‫شخص م نی لئے ج سکتے ہیں۔‬ ‫ح فظ عبدالوہ سچل کے مط ب شمع وہ کردار ہے جس پر بلا‬ ‫کہے ی نی آپ ہی سے اس کے چ ہنے والے ج ن تک وار دیتے‬‫ہیں۔ شمع کے ہ تھوں قتل ہوکر فخر اور خوشی محسوس کر تے‬ ‫ہیں۔ انہیں اپنی موت پر افسوس نہیں ہوت ۔ حسین پر قرب ن‬ ‫ہونے والے خوش تھے اور اسے اپنی س دت سمجھتے تھے‬ ‫اس شمع پر پتنگے‪ ،‬آئے ہیں کی اچھل کر ترسیں گے وہ ن‬ ‫ہرگز جن کو م ی مم تی( ) سچل‬ ‫غلا مصط ٰے خ ں یکرنگ شمع ک ت کر بلا سے جوڑتے‬ ‫ہیں۔‬ ‫اندھیر ے جہ ں میں ک ا ش میوں کے ہ تھ ہے سربریدہ شمع‬ ‫شبست ن کربلا ( )یکرنگ‬ ‫سودا نے بطور مشب ب است م ل کرکے شمع کے ہررنگ میں‬ ‫ج نے کو واضح کی ہے‬

‫‪239‬‬ ‫نہیں م و اس سینے میں کی جوں شمع ج ت ہے‬ ‫دھواں نو ک زب ن سے ب ت کرنے میں نک ت ہے( ) سودا‬ ‫غ ل کے ہ ں شمع بطور است رہ است م ل ہوئی ہے‬ ‫کی شمع کے نہیں ہیں ہو اخواہ اہل بز ہو غ ہی ج ن گداز تو‬ ‫غمخوار کی کریں‬ ‫‪:‬شو‬ ‫شو ایک احس س اور جذبے ک ن ہے ۔ اس ک کوئی م دی‬‫وجود نہیں چونک اس ک ت انس ن او راس کی ک رگزاری سے‬ ‫ہے اس لئے اس ک وجود انس نی م شرت میں بڑا مستحک ہے‬ ‫۔ یہی نہیں اس کے حوال سے انس ن میں تحریک پیدا ہوتی ہے‬ ‫اوروہ ‪ ،‬وہ کچھ کر ج ت جس کے مت سوچ بھی نہیں‬ ‫ج سکت ۔’’شو ‘‘ قوموں کو آسم ن کی ب ندیوں سے ہمکن ر‬ ‫کرت ۔ من ی شو پت ل میں بھی ٹکنے نہیں دیت ۔ اس لئے شو‬‫کے کرداری حوالوں کوکسی بھی صور ت میں نظر انداز نہیں کی‬‫ج سکت ۔ اردو غزل میں ’’شو ‘‘بڑا توان کردار ہے ۔ چند مث لیں‬ ‫‪ :‬ملاحظ ہوں‬ ‫میر حیدر الدین ابو ترا ک مل شو کو بے ک ی ‪ ،‬بے چینی اور‬ ‫ن گزیر یت ک سب قرار دیتے ہیں۔‬ ‫خط ترے ک شو اکھی ں ک لکھ ہرن کو ں سبزے بن چ را نہیں‬

‫‪240‬‬ ‫( ) ک مل‬ ‫میر محمود ص بر ک کہن ہے ک ی آنکھ کو تجس اور جستجو‬ ‫فراہ کرنے ک ذری وسی ہے‬ ‫زحیرت دیدہء حیراں ن کھولوں غیر کے مکھ پر چو آئین بچش‬ ‫شو دیکھوں گر نگ ر اپن (‪) ۷‬ص بر‬ ‫ل ل بہ گوہر کے نزدیک ’’شو ‘‘ شخص کوہم وقت مصروف‬ ‫رکھت ہے۔‬ ‫مژدہ اے شو ہ آغوش ک ج گے ہیں نصی لے کے انگڑا وہ‬ ‫کہتے ہیں ک نیند آئی ہے( ) گوہر‬ ‫علام ح لی کے خی ل میں ’’شو ‘‘ کبھی س تھ نہیں چھوڑت ب ک‬ ‫اس میں اض ف ہی ہوت ہے‬ ‫شو بڑھت گی جوں جوں کے اس شوخ سے ہ‬ ‫ی سب وہ ہے ک بھولے سے سوا ی د رہے( )ح لی‬ ‫تلاش اور جستجو ک م دہ روز اول سے انس نی فطر ت میں رکھ‬ ‫دی گی ہے ۔ پ لینے اور کھوج نک لنے کی دھن اسے بڑے سے‬ ‫بڑے خطرے کی آگ میں جھونک دیتی ہے۔ شو من زور ع ت‬ ‫وقوع اور حرکت ک سب ہے۔حواس مش ہدے میں اض ف کرتے‬ ‫ہیں جبک مش ہد ہ ‪ ،‬حواس کی خوبیداہ توان ئی ں بیدار کرت ہے۔ی‬ ‫دونوں ترقی پذیر ہیں۔ ن ک می کی صور ت میں ک می بی کے لئے‬

‫‪241‬‬ ‫جبک ک می بی کی صور ت میں مزید ک می بیوں کے لئے شو‬ ‫شخص کو دوڑائے رکھت ہے۔ انس ن کی جتنی عمر ہے‬ ‫’’شو ‘‘کی ت ریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے۔ حرف ش کے س تھ‬ ‫’’ارت ش‘‘ وابست ہے اس لئے انس نی سم ج خو سے خو‬‫تراور ہر خو کی نئی اشک ل اور نئے روپ ک متمنی رہت ہے۔اس‬ ‫طرح اس فی ڈ میں نکھ ر‪،‬جدت اور بہتری پیداہوتی چ ی ج تی‬ ‫ہے۔ دری فت کی رہیں وا ہوتی رہتی ہیں۔‬ ‫غ ل کے ہ ں ی ل ظ نظر انداز نہیں ہوا۔ ان کے نزدیک شو‬ ‫رک وٹیں دور کر دیت ہے۔ بقول ش داں ب گرامی غ ل کے نزدیک‬ ‫‪:‬‬ ‫شو نے بند نق ( ) حسن کھول دئیے ہیں او ردید کی ’’‬ ‫)راہ میں کوئی رک وٹ رہنے نہیں دی ‘‘ (‬ ‫گوی شو بلاواسط کھوجنے ک موج بنت ہے ۔ انکش ت کے‬ ‫دروازے کھولت ہے‬‫واکر دےئے ہیں شو نے بند نق حسن غیر از نگ ہ ا کوئی‬ ‫ح ئل نہیں رہ‬ ‫ص ح ‪ :‬عمومی بول چ ل ک ل ظ ہے جوکسی شخص کے احترا‬ ‫ی پھر اپنے سے ب لا افسر کے لئے بولا ج ت ہے۔ اردو ش عری‬‫میں ی ل ظ مخت ف حوالوں سے مست مل چلا آت ہے۔ پیر مراد ش ہ‬ ‫لاہور ی نے ’’جن ‘‘ کے م نوں میں است م ل ہے‬

‫‪242‬‬ ‫جو پونچھ تو بولا وہ خواج سرا ک ص ح ی کل ہے‬ ‫)بڑامسخرہ (‬ ‫روحل فقیر’’ص ح ‘‘ سے ذات ب ری ت ل ٰی مراد لیتے ہیں‬ ‫تیر اص ح تجھ ہی م نہیں ‪ ،‬ت تجو اور آس سر دئے ص ح‬ ‫)م ے ‪،‬اچرج اچنب ہ س(‬ ‫دیوان صورت سنگھ صورت نے متحرک کے ’’ح می گیر ‘‘ کے‬ ‫‪:‬لئے ل ظ ص ح است م ل کی ہے‬ ‫آپ ص ح ک کے لئے ک کی کیسی خبر ک سیں تھ ک ا‬ ‫)ی ر کدھر ج ؤں ہمیں (‬ ‫غ ل نے ی ل ظ محبو کے لئے بولاہے‬ ‫آئین دیکھ اپن س من لے کے رہ گئے ص ح کو دلی ن دینے‬ ‫پ کتن غرور تھ‬ ‫‪:‬صی د‬ ‫صی دعمومی بول چ ل ک ل ظ نہیں ت ہ اردو غزل میں اس ک‬‫است م ل بکثرت پڑھنے کوم ت ہے۔ ش عری ک ذو رکھنے والوں‬ ‫کے ذہنوں میں صی د کے حوال سے ظ ل اور بے رح کردار‬ ‫ابھرت ہے۔ ی کردار محبو کے علاوہ علامتی بھی است م ل ہوت‬ ‫چلاآت ہے۔ رائے ٹیک چند بہ ر کے نزدیک ی ایس بے رح‬ ‫کردار ہے جو اپنے شک ر کی دلی کی یت سے لاپرواہ رہت ہے‬

‫‪243‬‬ ‫تڑپت ہے پڑا نی بسمل خ ک وخوں میں دلی عقوبت ہے جو کچھ‬ ‫)اس صید پر ‪ ،‬صی د کی ج نے (‬ ‫نوا امیر خ ں عمدۃ الم ک انج ک کہن ہے ایس شک ری جو بھ‬ ‫گ ج نے ک موقع ہی ن دے ی نی چ ک وجوبند شک ری‬ ‫ٹک تو فرصت دے ک ہولیں رخصت اے صی د ہ‬ ‫)مدتوں اس ب کے س ئے میں تھے آب د ہ (‬ ‫بھگونت رائے راحت کے نزدیک جو شک ر صی د کی گرفت سے‬ ‫نکل ج ت ہے وہ دوب رہ ق بو میں نہیں آت گوی ایس لا پرواہ‬ ‫شک ری جس کی گرفت سے شک ر نکل بھی ج ت ہے۔‬ ‫)ک جودا سے مر آزاد ہو کہ ں پھر وہ تسخیر صی دہو(‪۷‬‬ ‫غ ل کے ہ ں اس کردار کی ک رفرم ئی ملاحظ ہو۔‬ ‫ہوں گرفت ر ال ت صی د اور ن ب قی ہے ط قت پرواز‬ ‫صی د بم نی وہ جو اپنی محبت میں گرفت ر کرلے۔آغ ز ب قر‪ ،‬نظ‬ ‫‪:‬طب طب ئی او ربے خودموہ نی کے حوال کہتے ہیں‬ ‫)ت ق ت دنی ‪ ،‬جو اسیر کر لیتے ہیں‘‘ ۔( ’’‬ ‫‪:‬ظ ل‬ ‫اردو غزل میں بڑا ع است م ل ہونے والا ل ظ ہے۔ی ل ظ دل و‬ ‫دم پر ن خوشگوار اثرات مرت کرت ہے ۔ اس ل ظ کے ہر‬

‫‪244‬‬‫نوعیت کے م ہی اعص بی تن ؤ اور ن رت ک ب عث بنتے ہیں۔ مثلاا‬ ‫۔ م ش ک ق تل‬ ‫۔ جھوٹ اورجھوٹ ک س تھ دینے والا‬ ‫۔ دھوک اور دغ سے ک نک لنے والا‬ ‫۔ ضرورت پڑنے پر س تھ چھوڑ دینے والا‬ ‫۔ م دات کو اپنی ذات تک محدود کرنے والا‬ ‫۔ انس نی احس س کو مجروح کرنے والا‬ ‫‪۷‬۔ وہ جو قتل وغ رت ک ب زار گر کرت رہت ہو‬ ‫۔ لوگوں کی رگوں میں نش ات رنے والا‬ ‫۔ غنڈہ گردی اور چھین جھپٹی کرنے والا‬ ‫۔ پرواہ ن کرنے والا محبو‬ ‫۔ م شو‬ ‫۔ بے انص ف‬ ‫غرض ایسے بہت سے اف ل سے وابست افراد کے لئے ل ظ‬ ‫’’ظ ل ‘‘ بولاج ت ہے۔‬ ‫ج ر زٹ ی نے خ خدا پر آفت توڑنے والے کے لئے ل ظ ظ ل‬ ‫نظ کی ہے‬

‫‪245‬‬ ‫گی اخلا ص ع ل سے عج ی دور آی ہے‬ ‫ڈرے س خ ظ ل سے عج ی دور آی ( ) ج ر زٹ ی‬ ‫مرادش ہ مراد لاہوری کے ہ ں وف داری ک ڈھونگ رچ کر‬ ‫ب لآخربے وف ئی کرنے والے کے لئے ی ل ظ است م ل ہواہے‬ ‫وہ ظ ل ی طوف ن کی کر گئی وف کرتے کرتے ج کر گئی ( )‬ ‫مراد ش ہ لاہوری‬ ‫ش ہ مب رک آبرو نے جس کی محبت فراموش ن ہوسکے ‪ ،‬کے‬ ‫لئے ی ل ظ ب ندھ ہے‬ ‫جدائی کے زم نے کی می ں کی زی دتی کہیے‬ ‫ک اس ظ ل کی جوہ پر گھڑی گزری سو جگ بیت ( ) آبرو‬ ‫محمد احسن اللہ احسن نے ہمیش رلات رہنے والے کے لئے ی‬ ‫ل ظ نظ کی ہے‬ ‫تیرے تل سے مجھے نت مین ک سودا ہے اے ظ ل‬ ‫عج نہیں ہے اگر تو تیل نکس وے مرے سرسوں ( )‬ ‫احسن‬ ‫سودا نے جذب ت مجروح کرنے والے‪ ،‬دلی چرانے اورزی دتی‬ ‫کرنے والے کے لئے ی ل ظ است م ل کی ہے‬ ‫تونے سودا کے تئیں قتل کی ‪ ،‬کہتے ہیں ی اگر سچ ہے تو ظ ل‬

‫‪246‬‬ ‫اسے کی کہتے ہیں ( ) سودا‬ ‫ح فظ عبدالوہ سچل نے گرفت کرنے والے کے لئے اس ل ظ ک‬ ‫انتخ کی ہے‬ ‫آی نظر میں اژدر مجھ کو وہ زلف پیچ ں رخ پ لٹک رہی ہے ظ ل‬ ‫‪ ،‬ی زلف ک لی ( ) سچل‬ ‫غ ل کے ہ ں اس ل ظ ک است م ل ظ ہر کررہ ہے ک اس کر دار‬ ‫سے خیر اور بھلائی کی توقع وابست نہیں کی ج سکتی ۔ ایک‬ ‫جگ ایس محبو جس کی وف ک م م تذبذ ک شک ر ہو‪،‬کے‬ ‫لئے است م ل کرتے ہیں‬ ‫ظ ل مرے گم ں سے مجھے من ل ن چ ہ ہے ہے خدان کردہ‬ ‫تجھے بے وف کہوں‬‫غ ل اس ل ظ کو اس شخص پر بھی فٹ کرتے ہیں جس کی مہر‬ ‫ب نی پر بھی اعتم د کر ن حم قت سے ک ن ہو‬ ‫ہم ری س دگی تھی الت ت ن ز پر مرن تراآن ن تھ ظ ل مگر‬ ‫تمہید ج نے کی‬ ‫‪:‬عش‬ ‫عش درحقیقت سچی لگن اور مقصد سے اٹوٹ کمنٹ منٹ ک ن‬

‫‪247‬‬ ‫ہے۔ ب ض لوگ اس ل ظ کو ن سی تی حوالوں تک محدود رکھتے‬ ‫ہیں جبک اس کے حدود ک ت ین ایس آس ن ک نہیں۔ سقراط ہوک‬ ‫حسین ‪ ،‬فرہ د ہوک ٹیپو ‪ ،‬ہر کسی نے اپنے مخصوص ک ز سے‬ ‫وف کی ۔اگر ان ک استقلا ل لغزش ک شک ر ہوت تو ک ز سے کمٹ‬ ‫منٹ خ ٹھہرتی ۔ عش انس نی سم ج ک حص رہ ہے۔ اسے‬ ‫مخت ف زاویوں اور حوالوں سے دیکھ اور پرکھ ج ت رہ ہے۔‬‫اشخ ص اور اقوا کو اس کر دار نے زندہ رکھ ہے۔ عش انس ن‬ ‫کون سی تی طور پر ی س کی دلد ل سے نک ل کر ایث ر اور قرب نی‬ ‫کی دہ یز پر لاکھڑ ا کرت ہے۔عش کوئی دیکھی ج نے والی شے‬ ‫نہیں لیکن بطور جذب انس نی لہو میں ش مل ہوکر اپنے حص ک‬‫کردار ادا کرت ہے۔ی انس ن کو تنہ نہیں چھوڑت اس کی تنہ ئی آب د‬ ‫رکھت ہے۔ اردو غزل میں عش ک کردار مخت ف حوالوں سے‬ ‫واضح ہواہے۔ مثلاا‬ ‫لطف ع ی لط ی کے نزدیک عش زخمی کرت ہے‬ ‫میں عش کی گ ی میں گھ یل پڑا تھ ‪ ،‬تس پر حوبن ک م ت آکر‬ ‫مجھ کو کھنڈل کرگی ہے ( ) لط ی‬‫ش ہ ولی اللہ ولی کے مط ب عش جوش وخروش پیداکرکے دلی‬ ‫کی دھرکنوں کو تیز کر دیت ہے‬ ‫ن پوچھو عش میں جو ش وخروش دل کی م ہیت برنگ ابر‬ ‫دری ب ر ہے روم ل ع ش ک ( ) ولی‬

‫‪248‬‬ ‫بھگونت رائے راحت ک کہن ہے عش سرم بن دیت ہے۔ فن کر‬ ‫دیت ہے‬ ‫کی عش نے توتی طور کو م ی عش سے دار منصور کو‬ ‫(‪) ۷‬راحت‬ ‫غ ل کے نزدیک عش ‪ ،‬افراط ح ک ن جسے لاح ہوت ہے‬ ‫اسے نخیف ونزار کر دیت ہے جبک زندگی عش کے بغیر ایک‬ ‫درد ہے ۔ عش زندگی میں لطف اور مز اپیدا کرت ہے۔ بقول‬ ‫‪:‬ش داں ب گرامی‬ ‫اس کے بغیر زندگی بے کیف ہوتی ہے لیکن ی خود مرض ’’‬ ‫)لاعلا ج ہے‘‘۔ (‬ ‫ا عش کی حقیقت غ ل کی زب نی سنئے‬ ‫عش سے طب یت نے زیست ک مزا پ ی درد کی دوا پ ئی دردبے‬ ‫دوا پ ی‬ ‫‪:‬غ فل‬ ‫ی کردار انس نی م شرت میں ہمیش سے رہ ہے ۔ اس کر دار‬ ‫سے ن صرف دوسروں کو نقص ن پہنچت ہے ب ک ی خود اپنے‬ ‫‪:‬لئے بھی ب عث نقص ن رہ ہے۔ اس کی دو صورتیں رہی ہیں‬ ‫الف ۔ اس سے دانست م م پوشیدہ رکھ گی ہو‬

‫‪249‬‬ ‫۔ اپنی عد دلچسپی کے ب عث م م ج ننے کی کوشش ہی ن‬ ‫کرت ہو‬ ‫پہ ی صورت میں اس کی غ ت ش ری گوارہ کی ج سکتی ہے‬ ‫جبک دوسری صورت کسی بھی حوال سے نظر انداز نہیں کی‬‫ج سکتی ۔ اس کردار سے مل کر خوشی نہیں ہوتی ب ک اعص بی‬ ‫تن ؤ بڑھ ج ت ہے۔‬ ‫اردو غزل میں ی کردار مخت ف حوالوں سے وارد ہواہے۔خواج‬ ‫‪:‬درد نے اس کردار کے دو پہ و واضح کئے ہیں‬ ‫الف ۔ غ فل اپن م م خو ی د رکھت ہے۔‬ ‫۔ دوسروں کو‪ ،‬یہ ں تک ک خدا کو بھی بھو ل ج ت ہے۔‬ ‫گوی غ فل اپنے م م ے ک پک ہوت ہے۔ اپنے م دات کسی بھی‬ ‫صورت میں فراموش نہیں کرت جبک دوسروں کے م ملات‬ ‫بھول ج ت ہے ی ان کی انج دہی میں کوت ہی اور تس ہل سے ک‬ ‫لیت ہے‬ ‫غ فل خداکی ی د پ مت بھول زینہ ر اپنے تئیں بھلاد ے اگر تو‬ ‫بھلا سکے( ) درد‬ ‫ش کرن جی ک کہن ہے ک ’’غ فل‘‘ ایک ہی ڈگر پر چلاج نے والا‬ ‫ہوت ہے۔ وہ وقت اور ح لات کی ضرورت نہیں دیکھت ۔ لمحے‬ ‫اسے اس کی غ ت ش ری ک احس س دلا کر گزر ج تے ہیں‬

‫‪250‬‬ ‫لیکن وہ اپنی روش نہیں بدلت ۔ تبدی ی کی ضرورت ہی محسوس‬ ‫نہیں کرت‬‫ب ند آواز سے گھڑی ل کہت ہے ک اے غ فل گئی ہے ی بھی گھڑی‬ ‫تجھ عمرسے اور تو نہیں چیت ( ) ن جی‬‫ق ئ چ ند پوری کے نزدیک غ فل سوچ سمجھ کر قد نہیں اٹھ ت ۔‬ ‫اس ک ہر ف ل بے خبری کی چ در میں م وف ہوت ہے‬‫غ فل قد کو اپنے رکھیو سنبھ ل کری ں ہر سنگ رہ گزرک دوک ن‬ ‫شیش گرہے( )ق ئ‬ ‫غ ل نے غ فل سے وہ کردار مراد لی ہے جوغ ط فہمی ک شک‬ ‫ر ہوی جو م وم ت کی کمی کے ب عث م م ے کی اصل تک ن‬ ‫پہنچ پ ئے۔ ی بھی ک جوم م ے کو سمجھنے کے لئے غ ط ی‬ ‫غیر مت پیم نے اختی ر کرت ہو۔ غ فل کچھ کو کچھ سمجھنے‬‫والا کر دار ہے ۔ اس طرح ی نتیج نک لن پڑے گ ک ایس شخص‬ ‫جس کی کہی ہوئی ب ت پر یقین نہیں کی ج سکت‬‫ح لانک ہے ی سی ی خ را سے لال رنگ غ فل کو میرے شیشے‬ ‫پر مے ک گم ن ہے‬ ‫‪:‬غمحوار‬ ‫دکھ دینے والوں کے س تھ دکھ ک مداوا کرنے ی تش ی دینے‬ ‫والوں کی بھی کمی نہیں رہی ۔ ایسے افراد کو ہمیش عزت‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook