Important Announcement
PubHTML5 Scheduled Server Maintenance on (GMT) Sunday, June 26th, 2:00 am - 8:00 am.
PubHTML5 site will be inoperative during the times indicated!

Home Explore زبان غالب کا فکری‘ لسانیاتی و انضباتی مطالعہ

زبان غالب کا فکری‘ لسانیاتی و انضباتی مطالعہ

Published by maqsood5, 2017-06-28 06:26:02

Description: زبان غالب کا فکری‘ لسانیاتی و انضباتی مطالعہ
مقصود حسنی
ابوزر برقی کتب خانہ
جون ٢٠١٧

Search

Read the Text Version

‫‪651‬‬ ‫)جمع ہے‬ ‫اوسی وقت بھیج خدا پ ک نے بہشت ں تے ریح ل منے (عبداللہ‬ ‫)واعظ‬ ‫دلی‪ :‬شوخی سے شوخی ں‪ ،‬محبوبی سے محبوبی ں‪ ،‬ت جدار سے‬ ‫ت جداں‬ ‫صورتوں میں خو ہوں گی شیخ گو حور بہشت پر کہ ں ی‬ ‫) شوخی ں ‘ ی طور‘ ی محبوبی ں (خواج درد‬ ‫نہیں تجھ کو چش عبرت ی نمود میں م ے ورن ک گئے ہیں‬ ‫) خ ک میں م ی کئی تجھ سے ت جدواں (میر تقی میر‬ ‫مرزا غ ل نے بھی بدیسی ال ظ کی جمع بن نے کے لئے یہی‬ ‫‪:‬اصول اختی ر کی ہے۔ بطور نمون چند مث لیں ملاحظ ہوں‬ ‫)آغوش سے آغوش ں(آغوش ہ‬ ‫ی ہنگ تصور س غیر زانو سے پیت ں ہوں مئے کی یت خمی زہ‬ ‫ہ ئے صبح آغوش ں‬ ‫ق تل سے ق تلاں‬‫نس ن تیغ ن زک ق تلاں سنگ جراحت م ے دل گر تپش ق صد ہے‬ ‫پیغ تس ی ک‬

‫‪652‬‬ ‫بدیسی ال ظ کے س تھ جمع بن نے کے لئے دیسی لاحق ’’یں‘‘‬ ‫جوڑنے ک برصغیر کے تم علاقوں میں‘خصوص ا اردو کے‬ ‫حوال سے ع رواج ہے ۔اس ضمن میں چند مث لیں بطور نمون‬ ‫‪:‬ملاخط ہوں‬ ‫دلی تدبیر سے تدبیریں‬ ‫الٹی ہوگئیں س تدبیریں ‪ ،‬کچھ ن دوانے ک کی دیکھ ا س‬ ‫) بیم ری دل نے آخر ک تم کی (میر تقی میر‬ ‫ذات سے ذلتیں‬ ‫کر کے ق ئ اس بت ک فرسے تونے اختلاط آپ ہی ی ذلتیں‬ ‫)کھینچیں ‪،‬ہم را کی کی (ق ئ چ ندپوری‬ ‫ک کت حور سے حوریں‬ ‫جنت میں بھلا کہ ں ہیں ایسی حوریں فردوس کہ ں اور ک کت‬ ‫)کہ ں (عبدالغ ور نس خ‬ ‫لکھنؤ صف سے ص یں‬ ‫موڑ دیں ص یں اک آن میں اے مصح ی اس صف مژگ ں نے اپن‬ ‫) جس طرف کو روکی (مصح ی‬‫غ ل نے بھی اس دیسی لاحقے کے پیوند سے بہت سے بدیسی‬ ‫‪:‬ال ظ کی جمع بن ئی ہے‬

‫‪653‬‬ ‫نگ ہ سے نگ ہیں‪ ،‬آہ سے آہیں ‪،‬سپ ہ سے سپ ہیں‬ ‫جو مرد مک چش میں ہوں جمع نگ ہیں خوابیدۂ حسرت کدۂ دا‬ ‫ہیں آہیں‬ ‫کس دل پ ہے عز صف مژگ ں خود آرا آئینے کے پ ی سے‬ ‫اتری ہیں سپ ہیں‬ ‫ب بل سے ب ب یں‬ ‫میں چمن میں کی گی گوی دبست ں کھل گی ب ب یں سن کر مرے‬ ‫ن لے غزل خواں ہوگئیں‬ ‫حور سے حوریں‬‫ان پری زادوں سے لیں گے خ دمیں ہ انتق قدرت ح سے یہی‬ ‫حوریں اگر واں ہوگئیں‬‫دیسی ال ظ کے س تھ ’’وں‘‘ کے پیوند سے جمع بن نے ک اصول‬ ‫بر صغیر کی تم ولائتوں میں مست مل چلا آت ہے۔‬ ‫بدیسی ال ظ کے س تھ اس س بقے کی جڑت سے اردو میں *‬ ‫جمع بن ئی ج تی رہی ہے۔ مثلاا‬ ‫بخت سے بختوں‬ ‫خوا میں دیکھ جو تیرے سبزۂ خط کوں صن س بختوں میں‬ ‫) ہوا اس خوا کی ت بیر سوں (ولی دکنی‬

‫‪654‬‬ ‫ای سے ای غوں‬ ‫ابھی تو بز میں آئے تیرے اے س قی کوئی دنوں تو مزہ لینے‬ ‫) دے ای غوں ک (مرزا سودا‬ ‫بہشت سے بہشتوں‬ ‫کر خیرات آخر کوں آوے گی ک بہشتوں منے ج ‪ ،‬کرے گ مق‬ ‫)(اسم عیل امروہوی‬ ‫ع ش سے ع شقوں‬ ‫سر کی ن کر تمن گر رہ عش پوچھی ی قتل ع شقوں ک ال ت‬ ‫)میں ہی روا ہے (سچل سرمست‬ ‫غ ل بھی بدیسی ال ظ کی جمع بن نے کے لئے ’’وں‘‘ کے‬ ‫لاحقے کو ک میں لاتے ہیں۔ مثلاا‬ ‫احم سے احمقوں‬ ‫خواہش کو احمقوں نے پرستش دی قرار کی پوجت ہوں اس بت‬ ‫بیداد گر کو میں‬ ‫اسیر سے اسیروں‬ ‫آج کیوں پرواہ نہیں اپنے اسیروں کی تجھے‬

‫‪655‬‬ ‫کل ت ک تیر اہی دل مہر و وف ک ب تھ‬ ‫طب یت سے طب یتوں‬ ‫رسوائے دہر گو ہوئے آوارگی سے ہ ب رے طب توں کے تو‬ ‫چ لاک ہوگئے‬ ‫طبع سے طب وں‬ ‫سخن ت ریک طب وں ک ‪ ،‬اظہ ر کث فت ہ‬ ‫ک زنگ خ م فولاد‪ ،‬م ن سے سی ہی ہے‬‫بدیسی ل ظ ک آخری حرف’’ہ‘‘ کی بڑھوتی سے جمع بن نے ک *‬ ‫اصول اردو میں عرص قدی سے مست مل چلا آت ہے۔ مثلاا‬ ‫فرشت سے فرشتوں‬ ‫بولے وے خدیج ن ڈر یوتمن قبیلا فرشتوں کی موھیں ھمن‬ ‫)(اسم عیل امروہوی‬ ‫گن ہ سے گن ہوں‬‫حس ک ہے ک روز شم ر میں مجھ سے شم ر ہی نہیں ہے کچھ‬ ‫) گن ہوں ک (میر تقی میر‬ ‫غ ل نے بھی اس اصول کی پیروی کی ہے۔ مثلاا‬ ‫فتن سے فتنوں‬

‫‪656‬‬ ‫وہ آئیں گے مرے گھر وعدہ کیس دیکھن غ ل نئے فتنوں میں‬ ‫ا چرخ کہن کی آزم ئش ہے‬ ‫آب سے آب وں‬ ‫ٍ نہیں گردا جز سر گشتگی ہ ئے ط جوشی‬ ‫حب بحر کے ہے‬ ‫آب وں میں ہے خ رم ہی ک‬‫کسی بدیسی اس کو اردو انے کے لئے اس کے آخری حرف ا *‬‫ی ہ کو حرف رابط آج نے کی صورت میں گراکر’’ے‘‘بڑھ دیتے‬ ‫ہیں اور ی اصول برصغیر کے تم علاقوں میں یکس ں طور پر‬ ‫‪ :‬مست مل چلا آت ہے۔ چند مث لیں دیکھئے‬ ‫مص سے مص ے‬ ‫بخ راں کی غ ت میں فرصت ہوئی نم زوں کو ں بی بی مص ے‬ ‫)گئی (اسم عیل امروہوی‬ ‫نش سے نشے‬ ‫کوچ ترا‘نشے کی ی شدت‪ ،‬جہ ں سے لاگ اللہ ہی نب ہے می ں‬ ‫)آج گھر ت ک (ق ئ چ ند پوری‬ ‫واسط سے واسطے‬

‫‪657‬‬ ‫ہوئے جن میں ا تک ن تیرے ہ گست خ خط کے واسطے ہ‬ ‫) سے ن ہو صن گست خ (م لق ب ئی چندا‬ ‫ویران سے ویرانے‬‫غزالاں ت تو واقف ہو‪،‬کہو مجنوں کے مرنے کی دوان مرگی آخر‬ ‫) کو ویرانے پ کی گزری (راج را نرائن موزوں‬‫غ ل کے ہ ں بھی یہی اصول بدیسی ال ظ کو اردو انے کے لئے‬ ‫است م ل ہوا ہے۔ مثلاا‬ ‫اش رہ سے اش رے‬ ‫پر سش طرز دلبری کیجئے کی ک بن کہے اس کے ہراک‬ ‫اش رے سے نک ے ہے ی ادا ک یوں‬ ‫پردہ سے پردے‬ ‫تھیں بن ت ان ش گردوں دن کو پردے میں نہ ں ش کو ان کے‬ ‫جی میں کی آئی ک عری ں ہوگئیں‬ ‫تیش سے تیشے‬ ‫تیشے بغیر مر ن سک کو ہکن اسد سرگشت خم ر رسو وقیود‬ ‫تھ‬ ‫غ ل نے بدیسی ال ظ کو اردوانے کے لئے اور بہت سے *‬

‫‪658‬‬ ‫حربے است م ل کئے ہیں ۔ چند مث لیں بطور نمون درج کررہ‬ ‫‪:‬ہوں‬ ‫بدیسی ال ظ کے س تھ کوئی دیسی س بق بڑھ دیتے ہیں۔ مثلاا*‬ ‫بن صدا‬ ‫دل ہی تو ہے سی ست درب ں سے ڈر گی میں اور ج ؤں در سے‬ ‫ترے بن صداکئے‬ ‫بدیسی س بقے لاحقے اردوانے کے لئے ان کے س تھ دیسی *‬ ‫ال ظ جوڑ دیتے ہیں‬ ‫مسی آلودہ۔ مسی ‪ :‬ہندی اس مونث۔ ایک قس ک منجن جسے‬ ‫عورتیں بطور سنگ ر است م ل کرتی ہیں ۔طوائ وں کی اصطلاح‬ ‫میں ایک تقری ش دی ۔‬ ‫ف رسی ص ت‪ ،‬ت نبے ک بن ہوا۔ اس ش ر میں ل ظ ہندی م ہو‬ ‫کے س تھ وارد ہوا ہے۔‬ ‫مسی آلودہ سر انگشت حسین ں لکھیے دا طرف جگر ع ش‬ ‫شیدا کہیے‬ ‫بدیسی ال ظ کے س تھ اردو ای گی لاحق پیوند کر کے ۔مثلاا*‬ ‫صن پرستوں جرع خواروں‬

‫‪659‬‬‫تمیں کہو ک گزارہ صن پرستوں ک بتوں کی ہو اگر ایسی ہی خو‬ ‫تو کیونکر ہو‬ ‫ج ن نث روں میں تیرے قیصر رو جرع خواروں میں تیرے‬ ‫مرشد ج‬ ‫بدیسی ال ظ کے س تھ دیسی ضم ئر جوڑ کر بدیسی ال ظ کو *‬ ‫اردو الی گی ہے ۔ مثلاا‬ ‫اپن س‬ ‫آئین دیکھ اپن س من لے کے رہ گئے ص ح کو دل ن دینے پ‬ ‫کتن غرور تھ‬ ‫تیرا آشن‬ ‫شکوہ سنج رشک ہمد گرن رہن چ ہئے میرا زانو مونس اورآئین‬ ‫تیرا آشن‬ ‫تجھ س‬ ‫آئین کیوں ن دوں ک تم ش کہیں جسے ایس کہ ں سے لاؤں ک‬ ‫تجھ س کہیں جسے‬ ‫اردو میں بہت سے ایسے مرکب ت تشکیل پ ئے ہیں جن کے *‬‫حوال سے بدیسی ال ظ اپنے م ہی اور نحوی ترتی کے اعتب ر‬

‫‪660‬‬‫سے بدیسی نہیں رہے۔ مرزا غ ل نے بھی اس سہولت سے بھر‬ ‫پور ف ئدہ اٹھ ی ہے۔ اس ضمن میں بطور نمون چند مث لیں درج‬ ‫کر رہ ہوں ۔ ان مث لوں میں اس اش رہ دیسی جبک مش ار الی‬ ‫‪:‬بدیسی ہیں‬ ‫ی شیرازہ‬ ‫نظر میں ہے ہم ری ج دۂ راہ فن غ ل ک ی شیرازہ ہے ع ل‬ ‫کے اجرائے پریش ں ک‬ ‫ی خو‬ ‫صحبت میں غیر کی ن پڑی ہو کہیں ی خو دینے لگ ہے بوس‬ ‫بغیر التج کئے‬ ‫ی رشک‬ ‫ی رشک ہے ک وہ ہوت ہے ہ سخن ت سے وگرن خوف بد‬ ‫آموزی عدو کی ہے‬ ‫وہ نشنیدن‬ ‫میں اور صد ہزار نوائے جگر خراش تو اور ایک وہ نشنیدن ک‬ ‫کی کہوں‬ ‫وہ فرا ‪ ،‬وہ وص ل‬ ‫وہ فرا ‪ ،‬وہ وص ل کہ ں وہ ش وروزو م ہ و س ل کہ ں‬

‫‪661‬‬ ‫وہ مج س‬ ‫ش کو وہ مج س فروز خ وت ن موس تھ رشت ہر شمع خ ر‬ ‫کسوت ف نوس تھ‬ ‫اس چراغ ں‬ ‫دل نہیں تجھ کو دکھ ت ورن داغوں کی بہ ر اس چراغ ں ک‬ ‫کروں کی ک ر فرم جل گی‬ ‫اس رہ گزر‬ ‫دل ت جگر ک سیل دری ئے خوں ہے ا اس رہگزر میں ج و ۂ‬ ‫گل آگے گرد تھ‬ ‫اس شوخ‬ ‫ہ تھے مرنے کو کھڑے پ س ن آی ن سہی آخر اس شوخ کے‬ ‫ترکش میں کوئی تیر بھی تھ‬ ‫اس دشت‬ ‫شو اس دشت میں دوڑا ئے ہے مجھ کو ک جہ ں ج دو غیر‬ ‫ازنگ دیدۂ تصویر نہیں‬‫اردو کے حروف ملا کر بدیسی ال ظ کی اجنبیت خت کرنے ک *‬ ‫ک لی ج ت رہ ہے۔ اس طرح بدیسی ال ظ اپنی نحوی ترتی اور‬‫م ہی کے حوال سے غیر اردو ال ظ نہیں رہتے ب ک اردو زب ن‬

‫‪662‬‬ ‫کے ذخیرہ ال ظ میں داخل ہوج تے ہیں۔مثلاا‬ ‫حروف شرط *‬ ‫اگر استوار‬ ‫تری ن زکی سے ج ن ک ب ندھ تھ عہد بودا کبھی تو ن توڑ‬ ‫سکت اگر استوار ہوت‬ ‫اگر شرار‬ ‫رگ سنگ سے ٹپکت وہ لہو ک پھر ن تھمت جسے غ سمجھ‬ ‫رہے ہو ی اگر شرار ہوت‬ ‫اگر در ک ب‬ ‫بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں ہیں ک ہ الٹے پھر آئے اگر‬ ‫در ک ب وان ہوا‬ ‫جو ک فر‬ ‫دل دی ج ن کے کیوں اس کو وف دار اسد غ طی کی ک جو ک فر‬ ‫کو مس م ں سمجھ‬ ‫جو رخت خوا‬ ‫فرو حسن سے روشن ہے خوابگ ہ تم جو رخت خوا ہے‬

‫‪663‬‬ ‫پروین تو پرن تکی‬ ‫حروف ت کید *‬ ‫خ ک بھی‬ ‫میخ ن جگر میں یہ ں خ ک بھی نہیں خمی زہ کھینچے ہے بت‬ ‫بیداد فن ہنوز‬ ‫نخچیر بھی‬ ‫تو مجھے بھول گی ہو تو پت بتلا دوں کبھی فتراک میں تیرے‬ ‫کوئی نخچیر بھی تھ‬ ‫ج دہ بھی‬ ‫ذرہ زمیں نہیں بے ک ر ب ک یہ ں ج دہ بھی فتی ہے لالے کے‬ ‫دا ک‬ ‫مرکب ت عط ی میں م طوف اورم طوف الی بدیسی جبک *‬ ‫حرف عطف دیسی ک است م ل کر کے بد یسی ال ظ کو اردوالی‬ ‫گی ہے۔ مثلاا‬ ‫م نی ک ط س‬ ‫گنجی م نی ک ط س اس کو سمجھئے جو ل ظ ک غ ل مرے‬ ‫اش ر میں آوے‬ ‫مے اور صبحد‬

‫‪664‬‬ ‫رات پی زمز پ مے اور صبحد دھوئے دھبے ج م احرا کے‬ ‫پندار ک صن کدہ‬ ‫دل پھر طواف کوئے ملامت کو ج ئے ہے پندار ک صن کدہ‬ ‫ویراں کئے ہوئے‬ ‫عش کے تیم ردار‬ ‫لوہ مریض عش کے تیم ر دار ہیں اچھ اگر ن ہوت مسیح ک‬ ‫کی علاج‬ ‫وکٹوری ک دہر‬ ‫وکٹوری ک دہر میں جو مدح خواں ہو ش ہ ن عرص چ ہئے لیں‬ ‫عزت اس وا‬ ‫م طوف بدیسی م طوف الی اردو ای ہوا ت مثلاا *‬ ‫عزون زی ں‬ ‫واں وہ غرور عزون زی ں ی حج پ س وضع راہ میں ہ م یں‬ ‫کہ ں بز میں وہ بلائے کیوں‬ ‫طبی توں کے تو چ لاک‬ ‫رسوائے دہرگو ہوئے آوارگی سے ہ ب رے طبی توں کے تو‬

‫‪665‬‬ ‫چ لاک ہو گئے‬ ‫اس ش ر میں م طوف اردو ی جبک م طوف الی بدیسی ہے۔‬ ‫غ ل کے ہ ں انگریزی اور عربی ال ظ کی جڑت سے بھی *‬ ‫‪:‬مرک تو ضی ی ترکی پ ی ہے۔ ملاحظ ہو‬ ‫ج رتب منگوڈ بہ در‬ ‫ج رتب منگوڈ بہ در ک وقت رز ترک ف ک کے ہ تھ سے وہ‬ ‫چھین لیں حس‬ ‫دیسی اور بدیسی ال ظ کے حوال سے کچھ مزید مرکب ت تو *‬ ‫‪:‬صیغی ملاحظ ہوں‬ ‫)ٍٍلپٹ ہوابستر (ص ت دیسی‬ ‫درپ رہنے کو کہ اور کہ کے کیس پھر گی جتنے عرصے میں‬ ‫مرا لپٹ ہوا بستر کھلا‬ ‫)روغنی روٹی (ص ت بدیسی‬ ‫ن پوچھ اس کی حقیقت حضور والا نے مجھے جو بھیجی ہے‬ ‫بیسن کی روغنی روٹی‬ ‫‪:‬مرکب ت ج ری ۔مجر ور بدیسی جبک حرف ج ر دیسی *‬ ‫در پر‬

‫‪666‬‬‫ج گھر بن لی تر ے در پر کہے بغیر ج ئے گ ا بھی تو ن مرا‬ ‫گھر کہے بغیر‬ ‫خ د میں‬ ‫تسکین کو ہ ن روئیں جو ذو نظر م ے حوران خ دمیں تری‬ ‫صورت مگر م ے‬ ‫عجز سے‬ ‫عجز سے اپنے ی ج ن ک وہ بد خو ہوگ نبض خس سے تپش‬ ‫ش سوزاں سمجھ‬ ‫شو کو‬ ‫گلا ہے شو کو دل میں بھی تنگی ج ک گہر میں محو ہوا‬ ‫اضطرا دری ک‬ ‫عد تک‬ ‫دہ ن ہر بت پیغ رہ جو ز نجیر رسوائی عد تک بے وف چر چ‬ ‫ہے تیری بے وف ئی ک‬ ‫مرکب ت عددی *‬ ‫)ہزاروں خواہشیں (دونوں اردوانے ہوئے‬

‫‪667‬‬ ‫ہزاروں خواہشیں ایسی ک ہر خواہش پ د نک ے بہت نک ے‬ ‫مرے ارم ں لیکن پھر بھی ک نک ے‬ ‫کس قدر‬‫دشمنی نے میری کھوی غیر کو کس قدر دشمن ہے دیکھ چ ہیے‬ ‫بدیسی ال ظ کو اردو انے کے لئے اردو والوں نے بہت سے *‬ ‫حربے اختی ر کئے ہیں ان کے ان تجرب ت نے ہی تو‬ ‫اردوزب ن کو وس ت اظہ ر بخشی ہے ۔یہ ں صرف چند مث لیں درج کی‬ ‫گئی ہیں ورن ت صیلات کے لئے تو دفترکے دفتر درک ر ہوں گے۔‬







































‫‪687‬‬ ‫‪:‬ب‬ ‫ب اندازہ توفی ب اندازہ ہمت ہے ازل سے‬ ‫‪:‬بر‬ ‫برطرف تک ف بر طرف تھ ایک انداز جنوں وہ بھی‬ ‫‪:‬ب‬ ‫بہر ح ل گزری ن بہر ح ل ی مدت خوش و ن خوش‬ ‫‪:‬‬ ‫جو دراصل ب ہے خ لی مجھے دکھلاکے بوقت س ر انگشت‬ ‫بے‪ :‬بے اختی ر جذب ء بے اختی ر شو دیکھ چ ہیے‬ ‫‪:‬پر‬ ‫پر خوں دیدہ ء پر خوں ہم را س غر سرش ر دوست‬ ‫‪:‬سر‬ ‫سرگر سرگر ن ل ہ ئے شرر ب ر دیکھ کر‬ ‫‪:‬نو‬ ‫نو خیز موج سبزہ نو خیز سے ت موج شرا‬

‫‪688‬‬ ‫ن ‪ :‬ن ح پکڑے ج تے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ن ح‬ ‫‪:‬نی‬ ‫نی ب ز ن خن پ قرض اس گرہ نی ب ز ک‬ ‫ہر ‪ :‬ہر چند ہر چند ہو مش ہدۂ ح کی گ تگو‬ ‫‪:‬ہ‬ ‫ہمس ی و ہ آرہ مرے ہمس ی میں تو س ئے سے‬ ‫لاحقے‬ ‫‪:‬آرا‬ ‫خود آرا غ فل بو ہ ن ز خود آرا ہے ورن ی ں‬ ‫‪:‬آرائی‬ ‫کثر ت آرائی کثرت آرائی وحدت سے پرست ری وہ‬ ‫‪:‬آرائی ں‬ ‫بز آرائی ں اس کی بز آرائی ں سن کر دل رنجوری ں‬ ‫‪:‬آزار‬ ‫دل آزار ن کھڑے ہو جئے خوب ن دل آزار کے پ س‬ ‫‪:‬آزم‬

‫‪689‬‬ ‫جر ت آزم حسن کو تغ فل میں جر ت آزم پ ی‬ ‫‪:‬آگیں‬ ‫پنب آگیں ک گوش گل ن شبن سے پنب آگیں ہے‬ ‫آلودہ‪ :‬ش آلودہ مجھے ا دیکھ کر ابر ش آلودہ ی د آی‬ ‫ار‪ :‬رفت ر‬ ‫لرزے ہے موج مے تری رفت ر دیکھ کر‬ ‫خریدار لیکن عی ر طبع خریدار دیکھ کر‬ ‫غب ر مگر غب ر ہوئے پر ہوا اڑا لے ج ئے‬ ‫دیدار ج ت ہوں اپنی ط قت دیدار دیکھ کر‬ ‫دیوار ک مجنوں لا الف لکھت تھ دیوار دبست ں پر‬ ‫‪:‬ان‬ ‫مردان ہیں وب ل تکی گ ہ ہمت مردان ہ‬ ‫‪:‬افزا‬ ‫زندگی افزا اے ترا لطف زندگی افزا‬ ‫‪:‬افش ں‬ ‫پر افش ں دل و جگر میں پر افش ں جو ایک موج خوں ہے‬

‫‪690‬‬ ‫‪:‬انداز‬ ‫خ ک انداز جہ ں ی ک س گردوں ہے ایک خ ک انداز‬ ‫‪ :‬انگیز‬ ‫ق انگیز اے ترا غمزہ یک ق انگیز‬ ‫‪:‬ب ر‬ ‫آتش ب ز ہ نہیں ج تے ن س ہر چند آتش ب ر ہے‬ ‫‪:‬ب ری‬ ‫گرانب ری ہ ں کچھ اک رنج گرانب ری زنجیر بھی تھ‬ ‫‪:‬ب ز‬ ‫آئین ب ز ہر گوش بس ط ہے سر شیش ب ز ک‬ ‫‪:‬بردار‬ ‫غ ط بردار ظ ہرا ک غذ ترے خط ک غ ط بردار ہے‬ ‫بو‪ :‬مشکبو سوائے ب گ مشکبو کی ہے‬ ‫‪:‬بوس‬ ‫قد بوس کرتے ہو مجھ کو منع قد بوس کس لئے‬

‫‪691‬‬ ‫‪ :‬بں‬ ‫ب دب ں پر پروان ش ید ب دب ن کشتی مے تھ‬ ‫‪:‬پ‬ ‫گریز پ کبھی حک یت صبر گریز پ کہیے‬ ‫‪:‬پرست‬ ‫خدا پرست ہ ں وہ نہیں خدا پرست ج ؤ وہ بیوف سہی‬ ‫‪:‬پرداز‬ ‫نوا پرداز چش خوب ں خ مشی میں بھی نوا پرداز ہے‬ ‫‪:‬پرور‬ ‫ن س پرور قطرۂ مے بسک حیرت سے ن س پرور ہوا‬ ‫‪:‬پوش‬ ‫سی پوش ش عش سی پوش ہوا میرے ب د‬ ‫‪:‬پیکر‬ ‫پری پیکر پر ی کی ک ہے ک مجھ سے وہ پری پیکر کھلا‬ ‫‪ :‬پذیر‬ ‫دل پذیر سمجھ ہوں دل پذیر مت ع ہنر کو میں‬

‫‪692‬‬ ‫‪:‬ت‬ ‫جہ ں ت لوگوں کو ہے خورشید جہ ں ت ک دھوک‬ ‫‪:‬جو‬ ‫جستجو کریدتے ہو جوا راکھ جستجو کی ہے‬ ‫‪:‬چیں‬ ‫گ چیں خط پی ل سراسر نگ ہ گ چیں ہے‬ ‫‪:‬خ ن‬ ‫میخ ن بھرے ہیں جس قدر ج و سبو میخ ن خ لی ہے‬ ‫‪:‬خوار‬ ‫غمخوار دشن اک تیز س ہوت مرے غمخوار کے پ س‬ ‫‪:‬خواں‬ ‫نوح خواں اور اگر مر ج ئیے تو نوح خواں کوئی ن ہو‬ ‫‪:‬خوش‬ ‫خوشح ل خوش ح ل اس حریف سی مست ک ک جو‬ ‫‪:‬دار‬ ‫پردہ دار گرچ ہے طرز تغ فل پردہ دار راز عش‬

‫‪693‬‬ ‫‪:‬داری‬ ‫جگر داری کی کس نے جگر داری ک دعو ٰے‬ ‫‪:‬دان‬ ‫نمک داں س م ن صد ہزار نمکداں کئے ہوئے‬ ‫‪:‬رب‬ ‫ط قت رب ی ک فر فتن ط قت رب کی‬ ‫‪ :‬رو‬ ‫سست رو سست رو جیسے کوئی آب پ ہوت ہے‬ ‫‪:‬ریز‬ ‫خونریز خ ش غمز ۂ خونریز ن پوچھ‬ ‫‪:‬ریزی‬ ‫ج وہ ریزی بج وہ ریزی ب دو ب پرفش نی شمع‬ ‫‪:‬زاد‬ ‫خ ن زاد خ ن زاد زلف ہیں زنجیر سے بھ گیں گے کیوں‬ ‫‪:‬زار‬ ‫لال زار لوگوں میں کیوں نمود ن ہولال زار کی‬

‫‪694‬‬ ‫زدہ‪ :‬ست زدہ مگر ست زدہ ہوں ذو خ ن فرس ک‬ ‫‪:‬زن‬ ‫موج زن ہے موج زن اک ق ز خوں ک ش یہی ہو‬ ‫‪:‬زنی‬ ‫رہزنی رہزنی ہے ک دبست نی ہے‬ ‫‪:‬ز‬ ‫ق ز ہے موجزن اک ق ز خوں ک ش یہی ہو‬ ‫‪:‬س ر‬ ‫کوہس ر طوطی سبزۂ کہس ر نے پیدا منق ر‬ ‫‪:‬سپ ری‬ ‫ج نسپ ری روز ب زار ج ں سپ ری ہے‬ ‫‪:‬ست ں‬ ‫گ ست ں چہرہ فرو مے سے گ ست ں کئے ہوئے‬ ‫‪:‬سوز‬ ‫نظ رہ سوز آپ ہی ہو نظ رہ سوز پردے میں من چھپ ئے کیوں‬

‫‪695‬‬ ‫‪:‬سی‬ ‫سی مست خوشح ل اس حریف سی مست ک ک جو‬ ‫‪ :‬ش ری‬ ‫غ ت ش ری کی ہوئی ظ ل تیری غ ت ش ری ہ ئے ہ ئے‬ ‫‪:‬شن س‬ ‫ح شن س ہر چند اس کے پ س دل ح شن س ہے‬ ‫‪:‬ف‬ ‫گ آسم ں سے ب دۂ گ برس کرے‬ ‫‪:‬فروش‬ ‫گ روش ہوں گ روش شوخی دا کہن ہنوز‬ ‫‪:‬فزا‬ ‫ذو فزا ی بھی تیرا ہی کر ذو فزا ہوت ہے‬ ‫‪:‬فروز‬ ‫دل روز ج وہ جم ل دل روز صورت مہر نی روز‬ ‫‪:‬فش نی‬ ‫گ ش نی گ ش نی ہ ئے ن ز ج وہ کو کی ہو گی‬

‫‪696‬‬ ‫‪:‬ق ں‬ ‫دہق ں اگر بودے بج ئے دان دہق ں نوک نشترکی‬ ‫‪ :‬کر‬ ‫پرک ر س دہ وپرک ر ہیں خوب ں غ ل‬ ‫‪:‬ک ری‬ ‫لال ک ری خ ک پر ہوتی ہے تیری لال ک ری ہ ئے ہ ئے‬ ‫‪ :‬ک ہی‬ ‫ج نک ہی کہیں حقیقت ج نک ہی مرض لکھئے‬ ‫کدہ‪ :‬بت کدہ اس تک ف سے گوی بت کدے ک در کھلا‬ ‫‪:‬کش‬ ‫دلکش وہ زخ تیغ ہے جس کو ک دلکش کہیے‬ ‫‪:‬کش‬ ‫دلکش تو اس قدر دلکش سے جو گ زار میں آوے‬ ‫کن؛‬ ‫کوہکن دی س دگی سے ج ن پڑوں کوہکن کے پ نوء‬ ‫‪:‬گ ر‬

‫‪697‬‬ ‫گن ہگ ر آخر کنگ ہگ ر ہوں ک فر نہیں ہوں میں‬ ‫‪ :‬گر‬ ‫ستمگر وہ ستمگر مرے مرنے پ بھی راضی ن ہوا‬ ‫‪:‬گری‬ ‫ج وہ گری ک نہیں ج وہ گری میں ترے کوچے سے بہشت‬ ‫گداز‬ ‫ج ں گداز طم ہوں ایک ہی ن س ج ں گداز ک‬ ‫‪ :‬گس ر‬ ‫غمگس ر کوئی چ رہ س ز ہوت کوئی غمگس ر ہوت‬ ‫‪:‬گشت‬ ‫گ گشت دل گ گشت مگر ی د آی‬ ‫‪ :‬گیر‬ ‫عن ں گیر آپ آتے تھے مگر کوئی عن ں گیر بھی تھ‬ ‫‪ :‬گیری‬ ‫دستگیری جنوں کی دستگیری کس سے ہو گر ن ہو ن عری نی‬ ‫‪:‬گ ہ‬

‫‪698‬‬ ‫خوابگ ہ فرو حسن سے روشن ہے خوابگ ہ تم‬ ‫‪:‬گ‬ ‫قتل گ عشرت قتل گ اہل تمن مت پوچھ‬ ‫‪ :‬گل‬ ‫گ بدن اٹھ ن سک نزاکت سے گ بدن تکی‬ ‫‪:‬گین‬ ‫آبگین آبگین کوہ پر عرض گراں ج نی کرئے‬ ‫‪:‬نواز‬ ‫غری نواز میں غری اور تو غری نوا ز‬ ‫‪:‬نشینی‬ ‫خ کستر نشینی ن زش ای خ کستر نشینی کی کہوں‬ ‫‪:‬واز‬ ‫پرواز بحز پرواز شو ن ز کی ب قی رہ ہوگ‬ ‫‪:‬وار‬ ‫ت وار مرت ہوں اس کے ہ تھ میں ت وار دیکھ کر‬

‫‪699‬‬ ‫غ ل کے مرکب ت اور ان کی ادبی حیثیت‬ ‫اردو ش عری میں عربی ف رسی ال ظ سے مخت ف نوع کے‬ ‫مرکب ت تشکیل دینے ک رواج‪ ،‬کوئی ایس نی نہیں۔ غ ل سے‬ ‫پہ ے اور عہد غ ل میں بھی عربی ف رسی ال ظ سے مرکب ت‬ ‫ترکی پ تے رہے ہیں۔ ان مرکب ت کے حوال سے ش ر میں‪ ،‬ن‬ ‫صرف صوتی شگ تگی‪ ،‬ش یستگی‪ ،‬شی تگی‪ ،‬لوچ‪ ،‬ترن ‪،‬‬ ‫موسیقیت اور ش ر سے مخصوص آہنگ پیدا ہوت ہے ب ک ی‬ ‫مرکب ت لس نی اعتب ر سے نئی حیثیت اور ضرورت ک درج‬‫ح صل کر لیتے ہیں۔ ال ط کو نئی م نویت میسر آتی ہے۔ اس نئی‬ ‫م نویت کے حوال سے ان کے نئے است م لات کی ضرورت‬ ‫محسوس ہوتی ہے۔ زب ن کے ابلا و اظہ ر ک دائرہ وس ت‬ ‫اختی ر کرت چلا ج ت ہے۔ ال ظ کے لئے نئے قواعد کی ضرورت‬ ‫جن لیتی ہے۔ اس ‪ ،‬ص ت جبک ص ت کو اس ک درج مل‬ ‫ج ت ہے ۔ ی پھر دونوں عن صر ان میں جمع ہو ج تے ہیں۔‬ ‫تخصیص جنس کے الگ سے پیم نے وضع ہوتے ہیں۔ انھیں نی‬ ‫اعتب ر اور نی وق ر دستی ہوت ہے۔ایک اعتب ر سے ی مرکب ت‬ ‫ش ری ضرورت کے درجے پر بھی ف ئز ہوج تے ہیں اورش ریت‬ ‫کے لئے ن سی تی لازم قرار پ تے ہیں۔‬ ‫است دغ ل سے پہ ے ی پھر عہد غ ل میں ‪،‬ش ید ہی کوئی ایس‬

‫‪700‬‬‫ش عر ہو جس نے اس قدر اور اتنے ج ندار مرکب ت اردو ش عری‬ ‫‪:‬کو دئیے ہوں۔ اس کثرت کی دو وجوہ سمجھ میں آتی ہیں‬ ‫الف۔ غ ل زندگی کے ش عر تھے۔ زندگی اپنے تم تر حوالوں‪،‬‬ ‫واسطوں اور ضرورتوں کے سب ہمیش مزید اور‬ ‫زی دہ سے زی دہ وس توں کی ط ل رہی ہے۔‬ ‫۔ ف رسی ‪،‬عہد غ ل میں د توڑ رہی تھی۔ غ ل کو ف رسی‬ ‫سے عش تھ ۔وہ اردو خواں طبقے میں ب لواسط سہی‪،‬‬ ‫ف رسی سے ت برقرار رکھنے کی دانست کوشش کر رہے‬ ‫تھے۔‬ ‫ش عری میں مرک س زی کی روایت‪ ،‬آتے وقتوں میں نئے اور‬ ‫پرانے حوالوں کے س تھ پروان چڑھی۔ اس ضمن میں ح لی ‪،‬‬ ‫اقب ل ‪ ،‬ن راشد ‪ ،‬فیض ‪ ،‬ن صر ک ظمی ‪ ،‬بیدل حیدری‪ ،‬حیدر‬‫گردیزی‪،‬ص بر آف قی‪ ،‬اقب ل سحر انب لوی‪ ،‬ڈاکٹر محمد امین وغیرہ‬ ‫کو بطور مث ل پیش کی ج سکت ہے۔ اس ب میں غزل ہی کی‬ ‫دیگر اض ف ش ر ک بھی دامن بھرا پڑا ہے اور ی ب ت بڑی‬ ‫خوشگوار اور صحت مند صورتح ل کے زمرے میں آتی ہے۔‬ ‫غ ل زندگی کے مخت ف حوالوں‪ ،‬واسطوں اور ضرورتوں ک‬ ‫ف س ‪ ،‬ان کی مروج غیر مروج ن یس ت کے س تھ نظ کر‬ ‫رہے تھے۔ وہ زندگی سے ادھر ادھر نہیں ہوتے۔ انھوں نے‬


Like this book? You can publish your book online for free in a few minutes!
Create your own flipbook